اسماءِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم (Asma-e-Husna aur Ism-e-Azam)

By
Maulana Wahiduddin Khan

اسماءِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم

ذکر و دعا کے ربّانی اصول

 

مولانا وحید الدین خاں

 

فہرست

اسماءِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم

خدا کے ننانوے نام

خداکے نام میں الحاد

سائنسی مطالعه

خدا کا فزیکل ماڈل

ایک مثال

اسماءِ حسنیٰ:خدا کا تصوراتی ماڈل

اسماءِ حسنیٰ اور دیگر مذاهب

عقیدهٔ خدا اور اسماءِ حسنیٰ

اسماءِ حسنیٰ:تلاشِ فطرت کا جواب

پوائنٹ آف ریفرنس

چند مثالیں

پُر اسرار نهیں

اسماءِ حسنیٰ اور انسان

اسمِ اعظم

ایك وضاحت

دعا کیا هے

ایك واقعه

مقبول دعا

دعا کی طاقت

پیغمبر کی دعا کی مثال

دعا کے ذریعے شرکت

اسمِ اعظم کا علم خدا کو

خدا اور بندے کے درمیان

دعا اور سپر دعا

ایك واقعه

دومثالیں

اسم اعظم ایك زنده تجربه

ایك صالح خاتون کا واقعه

ایك تاریخی مثال

بارش شروع هوگئی

ذاتی تجربات

لقد أُوتیتَ سُؤلك یا موسیٰ

تو میرے لیے پلے بیك اسپیکر بن جا

عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر

ایك واقعه

99  اسماءِ حسنیٰ

اسماءِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم

قرآن میں   بتایا گیا هے که:وللّٰه الأسماء الحُسنیٰ(7:180) یعنی الله هی کے لیے هیں   اچھے نام(best names) ۔ یه بات قرآن میں   چار مقامات پر کهی گئی هے (7: 180; 17: 110; 20: 8; 59: 24) ۔یهاں   نام سے مراد نام نهیں   هیں  ، بلکه صفات (attributes) هیں  ، یعنی تمام اچھی صفتیں   خدا هی کے لیے هیں  ۔

اسماءِ حسنیٰ کی تعداد کیا هے، ایک حدیث میں   بتایاگیا هے که اسماءِ حسنیٰ کی تعداد ننّانوے هے۔ بعض علما نے اسماءِ حسنیٰ کی تعداد میں   اضافه کیا هے، چناں   چه وه کهتے هیں   که اسماءِ حسنیٰ کی تعداد ایک هزار تک هے (تفسیر ابن کثیر، جلد 2، صفحه 269 )۔ مگر اِس معاملے میں   تعداد کی حیثیت اضافی هے۔ یه تعداد دراصل، انسانی فرهنگ یا مجموعهٔ الفاظ (vocabulary)کے اعتبار سے هے۔ انسانی زبان کے الفاظ محدود هوتے هیں  ، لیکن خدا ایک لامحدود هستی هے، اِس لیے خدا کی صفات بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے لامحدود هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ کی ننانوے تعداد گویا که خدا کی نمائنده صفات هیں  ۔ اس اعتبار سے خدا کی بقیه صفات بھی براهِ راست یا بالواسطه طورپر اِنھیں   بنیادی صفات میں   شامل هیں  ۔

خدا کے ننانوے نام

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں   میں   آئی هے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یه هیں  :عن أبی هریرۃ أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال:إنّ لِلّٰهِ تسعۃ وتسعین اسماً، مأۃ إلاّ واحداً۔ مَن أحصاها دخل الجنۃ (صحیح البخاري، حديث نمبر2736) یعنی حضرت ابوهریره سے روایت هے که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا— الله کے ننانوے نام هیں  ، سَو میں   ایک کم۔ جس شخص نے اُن کا اِحصا کیا، وه جنت میں   داخل هوگا۔

اِس حدیثِ رسول میں   ’اِحصاء‘ کا لفظ استعمال هوا هے۔ اِحصا کا مطلب مجرد شمار کرنانهیں   هے، بلکه اس سے مراد اسماء ِحسنیٰ کا عارفانه ادراک هے۔ عربی کے مشهور لغت ’المعجم الوسیط‘ میں   اِس کو اِن الفاظ میں   بیان کیاگیا هے:أحصی الشییٔ: أي عرف قَدرَه۔ ایسی حالت میں   یه کهنا صحیح هوگا که یهاں   ’احصاء‘ سے مراد اِحصاءِ شعوری هے، نه که احصاءِ لسانی، یعنی اسماءِ حسنیٰ کی معرفت۔

الله کے یه نام در اصل الله کی صفات کے مختلف پهلو هیں  ۔ آدمی خدا پر اور اس کی تخلیقات پر غور کرتا هے تو خدا کی خدائی کے مختلف پهلو اس کے سامنے آتے هیں  ۔ اِنھیں   پهلوؤں   کا شعوری ادراک هونا، اُن کا احصا کرنا هے۔ اور جو لوگ اِس اعتبار سے خدا کی معرفت حاصل کریں  ، وه بلا شبه جنت میں   جائیں   گے، کیوں   که جنت دراصل معرفتِ خداوندی کی قیمت هے۔

حدیث میں   ننانوے کا لفظ محض اعتباری هے۔ اِس کا مطلب یه هے که الله کے بے شمار نام هیں  ۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں   بعض علماء سے نقل کیا هے کهإنّ لِلّٰه خمسۃ اٰلاف اسم۔ یعنی الله کے پانچ هزار نام هیں  ۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد 1، صفحه 19 ) ، مگر حقیقت یه هے که الله کے بے شمار نام هیں  ۔

حدیث میں   اسماءِ حسنیٰ کی تعداد ننانوے بتائی گئی هے۔ قرآن کا مطالعه کرکے علما نے یه تمام اسماءِ حسنیٰ نام به نام دریافت کیے هیں  ، لیکن یه نام خدا کے لامتناهی کمالات کی مطلق گنتی کو نهیں   بتاتے۔ یه تمام نام دراصل انسان کی نسبت سے هیں  ۔اصل یه هے که انسان کے اندر جب عبدیت جاگتی هے اور شعورِخداوندی اُس کے اندر بیدار هوتا هے تو فطری طورپر اُس کے اندر مختلف قسم کی ربّانی کیفیات پیدا هونے لگتی هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ دراصل، انھیں   ربّانی کیفیات کے لیے موزوں   الفاظ (appropriate words) کی حیثیت رکھتے هیں  ۔

مثلاً انسان اپنے وجود پر غور کرتا هے، جو که احسنِ تقویم کا نمونه هے(95:4)۔ وه نیچر پر غور کرتا هے، جس میں   هر چیز حیرت انگیز طورپر اپنے آخری ماڈل پر هے۔ وه زمین اور آسمان پر غور کرتا هے، جس میں   کهیں   کوئی خلل یا نقص موجود نهیں   (67:3)۔ یه سوچ اور یه مشاهده آدمی کے اندر ایک پُرتموّج تجربه (thrilling experience)  پیدا کرتا هے۔ اُس وقت آدمی بے اختیارانه طورپر یه چاهنے لگتا هے که اُس کے پاس ایسے موزوں  الفاظ هوں  ، جن کے ذریعے وه اِن لطیف احساسات کا اظهار (express)  کرسکے۔ اُس وقت، قرآن اُس کی عین طلب کے مطابق، اُس کو یه الفاظ فراهم کردیتا هےفتبارک الله أحسن الخالقین (23:14)۔

خداکے نام میں   الحاد

خدائی صفات کی یه تعداد دراصل ’الحاد‘ کے مقابلے میں   بتائی گئی هے، جیسا که خود قرآن میں   آیا هے(7:180)۔ الحاد کے معنیٰ انحراف (deviation) کے هیں  ۔ یه الحاد یا انحراف سب سے زیاده فلسفے میں   کیا گیا هے۔ فلسفے میں   خدا کا تصور ایک بے صفاتی شخصیت (attribute less being)کے طور پر کیاگیا هے۔ اِسی فلسفیانه تصور کے زیر اثر، هندو ازم میں   ’نراکار خدا‘ (formless god)  کا عقیده پایا جاتا هے۔ مشهور جرمن فلسفی فریڈرِک هیگل (Friedrich Hegel) نے اِس کورُوحِ عالَم (world spirit) کے الفاظ میں   بیان کیا هے۔ ایک اور فلسفی نے اس کو ’مجرد تصور‘ (abstract idea) قرار دیا هے۔

یه فلسفیانه تصور، بعض بڑے مذاهب کی اعتقادیات میں   بھی داخل هوگیا۔ اِس تصور کے مطابق، خدا کی کوئی مستقل اور علاحده شخصیت نهیں  ۔ وه ایک بے شخصیت اور بے صفات هستی هے، یعنی زمین کی قوتِ کشش (gravity) یا کاسمک ریز (cosmic rays)کی طرح۔ قرآن میں   اسماءِ حسنیٰ کا بیان دراصل اِسی فلسفیانه گُم راهی کی تردید کے طورپر آیا هے، نه که اسماءِ الٰهی کی متعین تعداد کو بتانے کے لیے۔

فلسفے میں   یا اُس سے متاثر مذاهب میں   خدا کا تصور خالق کے طورپر نهیں   کیاگیا هے، بلکه اِس تصور کے مطابق، تخلیق کے تمام مظاهر خود خدا کا اپنا ظهور هیں  ۔ یه بلا شبه ایک مجرد فلسفیانه قیاس هے۔ یه ایک کھُلی هوئی بات هے که کائنات میں   متنوَّع مظاهر پائے جاتے هیں  ۔ ایسی حالت میں   یه صرف ایک بے بنیاد قیاس هے که ایک ایسا مفروضه خدا، جو هر قسم کی صفات سے کُلّی طورپر خالی هو، وه متنوّع تخلیقات کی صورت میں   ظاهر هوجائے۔ اِس قسم کے تضادات سے یه ثابت هوتاهے که خدا کا مذکوره تصور محض ایک فلسفیانه قیاس هے، اُس کے حق میں   کوئی علمی بنیاد موجود نهیں  ۔

سائنسی مطالعه

موجوده زمانے میں   فطرت کے سائنسی مطالعے کے بعد خدا کے متعلق یه فلسفیانه تصور عملاً بے اصل ثابت هوچکا هے۔ موجوده زمانے میں   سائنسی مطالعے سے یه بات ثابت هوئی هے که کائنات کے اندر کمال درجے میں   معنویت (meaning)پائی جاتی هے۔ اِس قسم کی معنویت اِس کے بغیرممکن نهیں   که اُس کا خالق ایک ذهن (mind) هو۔ چناں   چه سائنس میں   خدا کا نام نه لیتے هوئے یه مان لیا گیا هے که کائنات کو وجود میں   لانے والا ایک ذهین نقّاش (intelligent designer) هے۔(تفصیل کے لیے ملاحظه هوماه نامه الرساله، ستمبر 2007 ، سائنس اور الٰهیات)۔

حقیقت یه هے که انسان کی فطرت میں   ایک ایسے خدا کا تصور پیدائشی طورپر موجود هے، جو متنوع صفات کا حامل هو۔ اِس طرح سائنسی مطالعے میں   کائنات اگر چه آخری طورپر ایک هی یونٹ (atom) کا مختلف ظهور هے، لیکن یه ایٹم حیرت انگیز طورپر مختلف اور متضاد قسم کی با معنیٰ چیزوں   کی شکل اختیار کرلیتا هے۔ انسانی فطرت اور خارجی کائنات، دونوں   اِس بات کی گواهی دیتے هیں   که کائنات میں   ایک طرف بهت زیاده اختلاف اور تنوع هے اور دوسری طرف کائنات کے مختلف اجزا میں   غیرمعمولی هم آهنگی (harmony) پائی جاتی هے۔ ایسی حالت میں   انسان کا ذهن یه چاهتا هے که وه خدا کی متنوع حیثیتوں   کا تصور کرسکے۔ قرآن میں   مذکور اسماءِ حسنیٰ اِسی سوال کا جواب هیں  ۔

خدا کا فزیکل ماڈل

خدا کا عقیده انسان کے اندر همیشه سے پایا گیا هے۔ اینتھراپالوجی (anthropology) کے تحت جو مطالعه کیا گیا هے، اس سے معلوم هوتا هے که هر انسانی سماج کسی نه کسی اعتبار سے خدا کو مانتا رها هے۔ خدا کا عقیده فلسفیوں   کے یهاں   بھی پایا گیا هے اور اهلِ مذاهب کے یهاں   بھی۔ لیکن فلسفه اور مذهب دونوں   میں   خدا کا عقیده ایک بے صفات خدا  (attributeless God) کی حیثیت سے پایا جاتا رها هے، یعنی کاسمک ریز (cosmic rays) یا زمین کی قوتِ کشش (gravity) کی مانند۔

لیکن مجرد خدا (abstract God) انسان کی ذهنی گرفت میں   نهیں   آتا۔ انسان خدا کا ایک ایسا ماڈل بنانا چاهتا هے، جس میں   وه خدا کو صفات کی اصطلاحوں   (in term of attributes) میں   قابلِ فهم بنا سکے۔ انسان کی یهی ضرورت هے جس کے غیر فطری اظهار کے نتیجے میں   بت وجود میں   آئے۔ انسان کی یه کمزوری هے که وه الفاظ یا ناموں   کے ذریعے کسی حقیقت کو اپنے ذهن کی گرفت میں   لاتا هے۔ اس طرح مختلف بُت، انسان کو مختلف الفاظ یا نام دے دیتے هیں   جن کے ذریعے وه بزعم ِ خود ایک ماڈل کے روپ میں   خدا کا ادراک کرتا هے۔ انسان نے اپنی اِسی فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے غلط طورپر بت بنائے اور ان کی پرستش شروع کردی۔

لیکن بتوں   کی شکل میں  خدا کا ماڈل بنانا، ایک بے بنیاد قیاس هے، کیوں   که خداکو بتوں   کا روپ دینا ایک لامحدود هستی کو محدود کا روپ دینا هے،یه خدا کا ایک بگڑا هوا فارم هے۔ یه خدا کے نام پر خدا کی نفی کے هم معنی هے۔

بت چوں   که مٹی یا پتھر کے هوتے هیں   اور انسان خود ان بتوں   کو بناتا هے۔ خداکو بتوں   کی شکل دینے کے باوجود هر انسان یه سمجھتا هے که یه صرف مٹی اور پتھر هیں  ، اُن کے اندر کوئی ذاتی طاقت نهیں  ۔ اس لیے بتوں   کی سطح پر خدا پرستی عملاً صرف ایک بے روح رسم بن جاتی هے۔ انسان کے لیے ممکن نهیں   هوتا که وه بتوں   سے قلبی ربط قائم کرسکے۔اس لیے فطری طور پر ایسا هوتا هے که کچھ رسمی اعمال، خدا پرستی کی جگه لے لیتے هیں  ۔ آدمی خدا پرستی کے نام پر کچھ بے روح رسموں  ، مثلاً پھول چڑھانے یا نذر ونیاز دینے کو خدا پرستی کے لیے کافی سمجھ لیتا هے۔

مزید یه که آدمی خدا کے نام پر بتوں   سے قریب هوتا هے، لیکن بتوں   کی طرف سے جوابی طورپر اس کو کوئی انسپریشن (inspiration) نهیں   ملتا، انسان داخلی طورپر اپنے لیے کوئی روحانی غذا نهیں   پاتا، اِس لیے بتوں   کا کلچر محض ایک بے روح تعلق بن کر ره جاتا هے۔ بتوں   سے قربت کے باوجود انسان کو اتنی بھی روحانی کیفیت نهیں   ملتی جتنا که ایک باپ یا ماں   کو اپنے بچے سے مل کرحاصل هوتی هے۔

انسان ایک باروح شخصیت هے۔ اپنی اِس فطرت کے اعتبار سے اس کو ایک با روح خدا درکار هے۔ پتھر کی مورتی سے اس قسم کا روحانی تعلق قائم هونا ممکن نهیں  ۔ روحانی تعلق دو طرفه تعلق کا نام هے۔ همارے اندر کیفیات هوں  ، لیکن دوسری طرف سے اس کا جواب نه ملے تو اِس قسم کا یک طرفه تعلق صرف اوپری یاغیرفطری تعلق هوگا، وه انسان کی زندگی میں   کوئی حقیقی درجه حاصل نهیں   کرسکتا۔

یه واقعه ایک اور شدید تر خرابی پیدا کرتاهے، وه یه که بت کلچر آخر میں   جھوٹ کلچر یا ظاهرداری کلچر بن کر ره جاتا هے۔ بتوں   کے اندر خدائی اوصاف ثابت کرنے کے لیے فرضی کهانیاں   بنائی جاتی هیں   اور ان کو خوب شهرت دی جاتی هے، تاکه بتوں   کا جو فائده حقیقی طورپر نهیں   ملا، اُن کے بارے میں   لوگوں   کو یه فرضی تاثر دیا جائے که وه حاصل هوئے، یا وه حاصل هوسکتے هیں  ۔

بت پرستی کا یهی ظاهره (phenomenon) قبر پرستی کی دنیا میں   بھی نظر آتا هے۔ قبر پرست لوگ صاحبِ قبر کے نام پر انتهائی بے بنیاد قسم کی فرضی کهانیاں   وضع کرتے هیں  ۔ وه جھوٹے خوابوں   کا طلسم بناتے هیں   اور پھر ان فرضی کهانیوں   اور فرضی خوابوں   کو اس طرح پھیلاتے هیں   جیسے که وه سچ مچ واقعه هوں  ۔ اس طرح اَصنام کلچر اور درگاه کلچر انسان کو دیوالیه پن کی حد تک اعلیٰ اخلاق سے دور کردیتا هے۔

انسان عین اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے ایک جذباتی وجود هے۔ جذبات کا تفرق (diversification)ممکن نهیں  ۔ انسان فطری طورپر اپنے جذبات کا کوئی ایک مرکز چاهتا هے۔ جذبات کا کئی مرکز هوناایک غیر فطری بات هے جو عملاً ممکن نهیں  ۔ بت پرستی اِس معاملے میں   بھی انسانی نفسیات سے ٹکرا جاتی هے۔ فطری طورپرانسان کسی ایک هی چیز سے جذباتی تعلق قائم کرسکتا هے۔ بت پرستی کے مذهب میں   چوں   که یه مراکز متعدد هوجاتے هیں  ، اِس لیے اس کا عملی نتیجه یه هوتا هے که حقیقی خدا پرستی سرے سے ختم هوجاتی هے۔ خدا پرستی کے نام پر کچھ بے روح مظاهر باقی رهتے هیں  ، اِس سے زیاده اور کچھ نهیں  ۔

ایک مثال

کسی ماں   کا بچه اپنی ماں   سے دور هو تو اُس کی ماں   ایسا نهیں  کرے گی که وه مٹی یا پتھر کے ذریعے اپنے بچے کی مورتی بنائے اور اُس پر صبح وشام پھول چڑھائے، یا وه اپنے بچے کے مختلف پهلوؤں   کے اعتبار سے اُس کی کئی مورتیاں   بنائے اور اِن مورتیوں   کے آگے وه مختلف رسمیں   ادا کرے۔ اگر کوئی ماں   ایسا کرے تو اِس طرح اُس کو اُس کے جذبات کی تسکین نهیں   ملے گی۔ اپنے بچے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق قائم نهیں   هوگا۔ اگر کوئی ماں  ایسا کرے تو اُس کے لیے اپنے بچے سے تعلق محض ایک ظاهرداری کی رسم بن جائے گی۔ اِس طرح کی ظاهردارانه رسوم کسی بھی درجے میں   ماں   اور بچے کے درمیان لطیف تعلق کا بدل نهیں   بن سکتیں  ۔ یهی وجه هے که کبھی کسی ماں   نے ایسا نهیں   کیا۔ماں   اپنے دور کے بیٹے سے همیشه تصوراتی تعلق قائم کرتی هے ، وه اس کی مورتی بنا کر اس کے ذریعے اپنے بچے سے تعلق قائم کرنے کی کوشش نهیں   کرتی۔

اِس مثال سے سمجھا جاسکتا هے که خدا کے نام پر خدا کے بُت بنانا کتنا زیاده بے اصل بات هے ۔ یهی وجه هے که هم یه دیکھتے هیں   که جو لوگ خدا کے نام پر بتوں   کی پوجا کرتے هیں  ، یا جولوگ خدا کے نام پر قبروں   اور درگاهوں   کے آگے جھکتے هیں   اور پھول اور چادر چڑھاتے هیں  ، وه خدا کے ساتھ حقیقی تعلق سے بالکل محروم هوتے هیں  ، وه همیشه کچھ ظاهری رسوم میں   جیتے رهتے هیں  ، خدا کے ساتھ تعلق کی لطیف حقیقت سے وه کبھی آشنا نهیں   هوتے۔ خدا اُن کے لیے محض ایک بے روح لفظ هوتا هے، اِس سے زیاده اور کچھ نهیں  ۔

اسماءِ حسنیٰ:خدا کا تصوراتی ماڈل

اسماءِ حسنیٰ کا معامله اِس سے بالکل مختلف هے۔ اسماءِ حسنی کے ذریعے آدمی اِس قابل هوجاتا هے که وه حقیقی معنوں   میں   خدا کا تصور اپنے ذهن میں   لائے، وه حقیقی طورپر خدا سے مربوط هوسکے۔

بت پرستی کے مذهب میں   انسان، خدا کے فزیکل ماڈل(physical model) بناتا هے۔ اِس قسم کے ماڈل بنانا ایک سنگین انحراف هے، وه خدا پرستانه کلچر کو ایک بے روح رسم بنا کر رکھ دیتا هے۔ حقیقت یه هے که اَصنام کلچر یا درگاه کلچر خدا کی خدائی کا کم تر اندازه(underestimation)  هے۔ بت پرستی کے کلچر میں   یا قبر پرستی کے کلچر میں   اعلیٰ خدائی اخلاقیات کبھی پرورش نهیں   پاسکتے۔

اسماءِ حسنیٰ گویا که اِسی غلطی کی تصحیح هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰکے ذریعے انسان کو خداکا تصوراتی ماڈل (conceptual model) مل جاتا هے۔ اور بلاشبه خدا کا تصوراتی ماڈل هی صحیح ماڈل هے۔ اسماءِ حسنیٰ کی شکل میں  آدمی اُن صحیح الفاظ کو پالیتا هے جن کے ذریعے وه خدا سے تصوراتی ربط قائم کرسکے۔ اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے خدا سے جو تعلق قائم هوتا هے، وه ایک زنده اور معلوم تعلق هوتا هے۔

مثلاً انسان فطری طورپر یه چاهتا هے که خدا ایک هو اور وه زنده اور قائم خدا هو۔ اب جب وه کهتا هے کهالله لا إلٰه إلاّ هو الحیُّ القیّوم (3:2) تو وه عین اپنی فطری مانگ کے مطابق، فوراً خدا کا ایک حقیقی ماڈل پالیتاهے۔ اِس کے بعد فطری طورپر ایسا هوتا هے که انسان اور خدا کے درمیان ایک زنده تعلق قائم هوجاتا هے۔ اِس اعتبار سے اسماءِ حسنیٰ، خدا اور انسان کے درمیان تصوراتی ربط (contact at conceptual level) کا زنده اور حقیقی ذریعه هیں  ۔ وه انسان کی فطری تلاش کا ایک بھر پورجواب (complete response) هیں  ۔

اسماءِ حسنیٰ، انسان کے لیے خدا کا مستند تعارف هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے انسان، خدا کی صفاتی شخصیت کا یقینی تصور اپنے ذهن میں   لاسکتا هے۔ اسماءِ حسنیٰ خدا کا وه تصوراتی ماڈل هیں   جو کسی انسانی قیاس پر قائم نهیں   هیں  ، بلکه وه خود خدا کے الهامی علم پر قائم هیں  ۔ وه اعتقادی بے یقینی میں   بھٹکے هوئے انسان کو یقین کا سرچشمه عطا کرتا هے۔ اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے انسان اُس صحیح فریم ورک کو پالیتا هے جس کی روشنی میں   وه خدا کو اپنے لیے پوری طرح قابلِ فهم (understandable) بناسکے۔

اسماءِ حسنیٰ اور دیگر مذاهب

اسماءِ حسنیٰ کا مطالعه تاریخی نقطهٔ نظر سے کیا جائے تو ایک انوکھی چیز دریافت هوگی، وه یه که اسماءِ حسنیٰ کا تصور(concept) اسلام کے سوا کسی اور موجوده مذهب یا کسی اور موجوده اعتقادی نظام میں   نهیں  پایا جاتا۔یه اسلام کی استثنائی صفت هے که اُس کے اندر خدا کے بارے میں   اسماءِ حسنیٰ کا تصور پایا جاتا هے۔یه کوئی ساده بات نهیں  ۔ اگر آپ اسلام اور دوسرے مذاهب کا تقابلی مطالعه کریں   تو معلوم هوگا که اپنی نوعیت کے لحاظ سے یه بے حدسنگین بات هے۔ چناں  چه اِسی کا یه نتیجه هے که اسلام کے سوا، دوسرے مذاهب میں   انسان اور خدا کے درمیان گهرا تعلق سرے سے نهیں   پایا جاتا۔ هر دوسرے مذهب میں  خدا کی حیثیت صرف ایک علامتی هستی(symbolic god)  کی هے، نه که ایک حقیقی اور زنده خدا کی۔

مثال کے طورپر یهودی مذهب کو لیجیے۔ یهودی اعتقادیات کا ماخذ بائبل (عهد نامه قدیم) هے۔ آپ اِس کتاب کا مطالعه کریں   تو اُس میں   اسماءِ حسنیٰ کی نوعیت کا خداوندی تعارف موجود نهیں  ۔ ایک جگه خدا کو بتاتے هوئے، اُس کے بارے میں   ’’میں   جو هوں  ، سو میں   هوں  ‘‘کے الفاظ آئے هیں  ۔ اِس سلسلے میں   بائبل کے اصل الفاظ اس طرح هیں  :

تب موسیٰ نے خدا سے کها:جب میں   بنی اسرائیل کے پاس جاکر اُن کو کهوں  که تمھارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمھارے پاس بھیجا هے اور وه مجھے کهیں   که اُس کا نام کیا هے، تو میں   اُن کو کیا بتاؤں  ۔ خدا نے موسیٰ سے کها:میں   جو هوں   ، سو میں   هوں  ۔ سو تو، بنی اسرائیل سے یوں   کهنا که میں   جو هوں   نے مجھے تمھارے پاس بھیجا هے(خروج 3: 13, 14   )۔

اِسی طرح مسیحیت کا مذهبی ماخذ وه کتاب هے جس کو نیا عهد نامه (بائبل) کهاجاتاهے۔ اِس نیے عهد نامے میں   بتایا گیا هے که حضرت مسیح جب صلیب پر چڑھائے گیے تو اُن کی زبان سے یه الفاظ نکلے:اِلوهی، اِلوهی، لما شبقتنی، یعنی اے میرے خدا، اے میرے خدا، تو نے مجھے کیوں   چھوڑ دیا:

My God, my God, why have You forsaken me.  (Mark, 15:34)

مسیحی چرچ کے عقیدے کے مطابق، حضرت مسیح کا سُولی پر چڑھ کر مصلوب هونا کوئی اتفاقی حادثه نه تھا، وه مسیحی چرچ کے عقیدے کے مطابق، ایک خدائی منصوبے کے تحت پیش آیا۔ کَفّارهٔ مسیح کے عقیده(atonement) کے مطابق، خدا نے حضرت مسیح کو اِسی خاص مقصد کے لیے دنیا میں   بھیجا تھا که وه انسانی گناه کا کفاره ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھ جائیں  ، اور انھوں   نے بخوشی ایسا کیا۔

مسیحی چرچ کے مبیّنه عقیدے کے مطابق، خدا، تثلیث کا ایک حصه هے۔ مسیحی عقیدے کو ٹری نِٹی (trinity) کے لفظ میں   بیان کیا جاتا هے، یعنی تین میں  ایک اور ایک میں   تین۔ اِس عقیدے کے مطابق، حضرت مسیح عام انسان نهیں   تھے، بلکه وه خدا کا ایک حصه تھے۔

ایسی حالت میں   حضرت مسیح کا مذکوره واقعه، انسان کے لیے خدا کے معاملے میں   یقین کا سرچشمه نهیں   بن سکتا۔اِس واقعے میں   خدا خود بے بس هو کر فریاد کررها هے۔ وه خود اپنے آپ کو ایک متروک وجود سمجھتا هے۔ اُس کے اندر یه طاقت نهیں   که وه اپنے آپ کو وقت کے حکم رانوں   سے محفوظ رکھ سکے۔ ایسا خدا، دوسرے انسانوں   کے لیے کس طرح اعتماد کا سرچشمه بن سکتا هے۔ انسان کو ایک ایسا خدا چاهیے جو اُس کے لیے اعتماد کا ذریعه بن سکے، مگر مسیحیت، انسان کو ایک ایسے خدا کا تصور دیتی هے جس میں   خدا خود هی بے بس دکھائی دے رها هے۔

اِس کے بعد اُن مذاهب کو لیجیے جن کو آرِین مذاهب کهاجاتا هے، یعنی هندوازم، وغیره۔ اِن مذاهب میں   پرسنل گاڈ(personal God) کا تصور موجود نهیں  ۔ اِن مذاهب میں   اگر چه خدا کا لفظ استعمال هوتا هے، مگر وه صرف ایک علامتی لفظ هوتا هے، کیوں   که اِن مذاهب میں   عقیدهٔ خدا کے تشخّص کے لیے کسی مستقل وجود کا کوئی تصور نهیں  ۔

جیسا که معلوم هے، آرین مذاهب میں   خدا کو نِراکار (formless God) مانا جاتا هے۔ اُن کے عقیدے کے مطابق، خدا ’نِرگُن‘ هے، یعنی اُس کی کوئی صفت نهیں  ۔ ایسی حالت میں   انسان کے لیے ممکن نهیں   که وه خدا کو ایک متعین هستی کے طورپر اپنے ذهن میں   لائے۔ یهی وجه هے که هندو مذهب میں   خدا کی کوئی عبادت گاه نهیں   هوتی۔ اُن کے یهاں   یا بُتوں   کی پرستش هوتی هے یا گُروؤں   کی۔ کیوں   که بت یا گُرو کا تشخص اُن کو ممکن دکھائی دیتا هے، لیکن خدا کا تشخص اُن کے لیے قابلِ تصور نهیں   هوتا۔

عقیدهٔ خدا اور اسماءِ حسنیٰ

خدا کا عقیده انسان کے لاشعور میں   پیوست هے۔ انسان اپنے فطری تقاضے کے تحت، اِس لاشعور کو شعور میں   لانا چاهتا هے۔ اسماءِ حسنیٰ کا تصور انسان کی اِسی فطری ضر ورت کو پورا کرتا هے۔ اسماءِ حسنیٰ کی حیثیت ایک فکری ماڈل کی هے۔ یه انسان کے اپنے فریم ورک کے مطابق، خدا کی هستی کو اُس کے لیے قابل فهم بناتا هے۔

مختلف مذاهب میں   خدا کی هستی کے مختلف ماڈل بتائے گیے هیں  ۔ اِن میں   سے دو ماڈل زیاده معروف هیں  — آکار ماڈل اور نِراکار ماڈل ، مگر یه دونوں  انسانی فریم ورک کے اعتبار سے انسان کے لیے قابلِ فهم ماڈل نهیں   هیں  ۔ یهی وجه هے که دونوں   ماڈل صرف کاغذ میں   یا لفظوں   میں   پائے جاتے هیں  ، وه حقیقی معنوں   میں   انسانی شعور کا حصه نه بن سکے۔

اِس کا سبب یه هے که دونوں   ماڈل انسان کی نسبت سے ناقص ماڈل هیں  ۔ آکار ماڈل، دوسرے لفظوں   میں   بُت کا ماڈل، ایک ایسے خدا کا تصور دیتا هے جس کا بظاهر ایک فارم تو هے، مگر وه مکمل طورپر بے صفاتی (powerless)  هے۔ دوسری طرف، نراکار ماڈل بظاهر ایک طاقت هے، مگر یه طاقت، کششِ ارض (gravity) کی طرح بے صفاتی (attributeless) هے۔ اِس طرح یه دونوں   هی ماڈل، انسان کے معلوم فریم ورک کی نسبت سے مبهم ماڈل هیں  ، وه انسانی فطرت کا جواب فراهم کرنے سے قاصر هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ دراصل اِسی خلا کو پُر کرتے هیں  ۔

اسماءِ حسنیٰ:تلاشِ فطرت کا جواب

اسماءِ حسنیٰ کا مطالعه کرنے سے معلوم هوتاهے که خدا کے یه تمام نام انسان کی نسبت سے خدا کا تعارف هیں  ۔ انسان فطری طورپر اپنے سے ایک برتر هستی کو چاهتا هے۔ نفسیاتی مطالعے سے یه ثابت هوا هے که انسان پیدائشی طورپر ایک متلاشی حیوان (seeking animal) هے۔ انسان اپنے پورے وجود کے اعتبار سے ایک ذاتِ اعلیٰ کا متلاشی هے، ایک ایسی اعلیٰ اور برتر ذات جو اُس کی کمیوں   کی تلافی کرے، جو اُس کے جذبات اور احساسات کا مرکز و محور بن سکے۔

اسماءِ حسنیٰ دراصل اِسی سوال کا جواب هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ کا مطلب هے، صفاتِ حسنیٰ۔ خدا کی یه صفات جو اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے بتائی گئی هیں  ، وه علی الاطلاق حیثیت سے خدائے برتر کا تعارف نهیں   هیں  ، بلکه وه انسان کی نسبت سے اُس کے مطلوب خدا کا تعارف هیں  ۔ چناں   چه جب کوئی انسان اِن اسماءِ حسنیٰ کو اُن کی پوری معنویت کے ساتھ جان لیتا هے تو اچانک اُس کو دریافت هوتا هے که وه جس خدائے برتر کی تلاش میں   تھا، اُس کا تعارف اُس کو اسماءِ حسنیٰ کی صورت میں   مل گیا۔

مثال کے طورپر اسماءِ حسنیٰ میں   سے ایک نام ’الغنیّ‘ هے۔ غنی کے لفظی معنیٰ بے نیاز کے هیں  ، یعنی وه هستی جس کو دوسروں   سے کچھ لینے کی ضرورت نه هو، لیکن اس کو یه طاقت هو که وه دوسروں   کی تمام حاجتوں   کو پورا کرسکے۔ یه احساس هر انسان کے اندر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، چھپا هوا هے۔ اِس کے بعد جب انسان اسماءِ حسنیٰ کے ذریعے یه جانتا هے که خدا کی ایک صفت اُس کا غنی هونا هے، تو فوراً هی وه جان لیتا هے که وه جس خدا کی تلاش میں   تھا، اُس کو اُس نے یهاں   دریافت کرلیا۔ یهی وه حقیقت هے جو قرآن کی اِس آیت میں   بتائی گئی هے:يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ(35:15)۔ یعنی اے لوگو، تم الله کے محتاج هو، اور الله تو بے نیاز هے، تعریف والا هے ۔

اِسی طرح ایک اور جذبه، جو سارے انسانوں   کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر پایا جاتا هے، وه یه که هر انسان یه محسوس کرتا هے که وه ایک ایسی مخلوق هے جو رزق کی محتاج هے۔ رزق سے مراد وه تمام چیزیں   هیں  ، جن پر انسانی زندگی کا انحصار هے۔ انسان هر لمحه یه محسوس کرتا هے که وه بهت سی چیزوں   کا ضرورت مند هے—پانی غذا، هوا ، آکسیجن اور روشنی، وغیره۔ یه تمام چیزیں   نهایت متناسب انداز میں   اور نهایت وافر طورپر دنیا میں   موجود هیں  ۔

انسان فطری طورپر یه جاننا چاهتا هے که وه کون هے جو اِن تمام ضروری چیزوں   کو اُس کے لیے مهیّا کررها هے، بغیر اِس کے که وه انسان سے اُس کی کوئی قیمت طلب کررها هو۔ انسان چاهتا هے که وه اپنے اِس محسنِ اعلیٰ کے احسانات کا اعتراف کرے، وه کامل اعتراف اور شکر کے جذبے سے اپنے آپ کو اُس کے آگے بچھا دے۔ یهاں   اسماءِ حسنیٰ میں   اُس کو ره نمائی ملتی هے۔

خدا کے اِن ناموں   میں   سے ایک نام ’الرّزّاق‘ هے۔ انسان جب خدا کو رزّاق کی حیثیت سے دریافت کرتا هے تو اچانک اُس کو محسوس هوتا هے که اُس نے اپنی طلب کا جواب پالیا ۔ یهی وه حقیقت هے، جس کو قرآن کی اِس آیت میں   بیان کیاگیا هےإنّ اللهَ هوالرّزّاق ذوالقوّۃِ المتین۔ یعنی بے شک، الله هی رزق دینے والا، زور آور، زبردست هے (51:58)۔

اِسی طرح هر انسان کی ایک اور ضرورت هے۔ موجوده دنیا جس میں   انسان کو زندگی گزارنا هے، وه اِس انداز سے بنی هے که کوئی انسان اُس کے اندر معیاری انداز میں   نهیں   ره سکتا۔ اِسی طرح انسان کے اندر بهت سی خواهشیں   اور تمنائیں  هیں  ۔ اِن خواهشوں   اور تمناؤں   کے زیرِ اثر هر آدمی بار بار غلطیاں   کر بیٹھتا هے۔ اِن حالات میں   هر انسان یه سوچتا هے که کیسے وه اپنی غلطیوں   کے احساس سے اپنے آپ کو بچائے۔ کس طرح ایسا هو که وه اپنے آپ کو ایک پاکیزه روح کا درجه دے سکے۔ یهاں   اسماءِ حسنیٰ میں   وه اپنے لیے تسکین کا سامان پالیتا هے۔

جیسا که معلوم هے، خدا کا ایک نام ’الغفور‘هے۔ غفور کے تصور میں  انسان پوری طرح اپنے لیے ذهنی تسکین کا سامان پا لیتا هے۔ قرآن کی یه آیت اِس معاملے میں   انسان کی ره نما هے:قُل یا عِبادِيَ الّذین أسرفوا علیٰ أنفسهم لا تقنطوا من رّحمۃ الله، إن الله یغفرالذّنوب جمیعاً، إنّه هو الغفور الرّحیم (39:53)۔ یعنی کهو که اے میرے بندو، جنھوں   نے اپنی جانوں   پر زیادتی کی هے، تم الله کی رحمت سے مایوس نه هو۔ بے شک، الله تمام گناهوں   کو معاف کردیتاهے۔ وه بڑا بخشنے والا، مهربان هے ۔

پوائنٹ آف ریفرنس

قرآن میں   خدا کے جو اسماءِ حسنیٰ بتائے گیے هیں  ، اُن میں   سے هر نام هم کو غور وفکر کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)دیتا هے۔ اِن ناموں   کے ذریعے هم کو ایک متعین ره نمائی مل جاتی هے، جس کو لے کر هم خدا کی هستی کا تصور کرسکیں   اور اُس کی مختلف صفات(attributes) کا تصور کرتے هوئے خدا کی هستی سے متعین نوعیت کا ذهنی رشته قائم کرسکیں  ۔ خدا سے اِسی تعلق کا نام معرفت هے۔

یهی وجه هے که قرآن میں   جهاں   یه بتایاگیا هے که خدا کے لیے تمام اچھے نام هیں  ، اُس کے بعد فوراً یه ارشاد هوا هے—  پس تم اِنھیں   اچھے ناموں   سے خدا کو پکارو ، اور اُن لوگوں   کو چھوڑ دو، جو خدا کے ناموں   میں   کج روی کرتے هیں   (7:180)، یعنی اُنھیں   ناموں   کے ذریعے خدائے کامل الصفات کا تصورقائم کرو، نه که اُن ناموں   کے ذریعے جو دوسروں   نے خود ساخته طورپر بنا لیے هیں  ۔

خدا کیا هے۔ خدا ایک اعتبار سے همارے عجز (helplessness) کی تلافی هے۔ انسان اپنی تخلیق کے لحاظ سے عاجز ِ مطلق هے، اور خدا خالق ومالک هونے کی بناپر قادرِ مطلق۔ اِس لیے یه فطری هے که انسان هر موقعے پر خدا کو پکارے۔ خدا کے اسماءِ حسنیٰ اِس کام میں   انسان کے لیے مددگار کی حیثیت رکھتے هیں  ۔

خدا کے یه تمام نام در اصل انسان کی نسبت سے هیں  ۔ انسان اپنی نفسیات کے اعتبار سے جن خدائی حوالوں   کا محتاج هے، وه تمام خدائی حوالے اِن ناموں   کے اندر موجود هیں  ۔ آدمی کے اندر جب بھی اپنے عجز، اپنی عبدیت، اور اپنی حیثیتِ انسانی کے اعتبار سے کوئی جذبه جاگتا هے تو یه خدائی نام اُس کو فوراً ایک ره نما لفظ دے دیتے هیں  ۔اِن ره نما الفاظ کے ذریعے سے وه اُسی طرح خدائے رب العالمین سے مربوط هوجاتا هے، جس طرح ٹیلی فون پر ایک نمبر ڈائل کرکے وه اپنی مطلوب شخصیت سے فی الفور ربط قائم کرلیتا هے۔

چند مثالیں 

یه ایک حقیقت هے که انسان پیدائشی طورپر ایک متلاشی حیوان (truth-seeking animal) هے۔ اِس چھپی هوئی فطرت کے زیر اثر آدمی کے اندر یه جذبه جاگتا هے که کوئی برتر هستی هو جو اُس کو هدایت کی روشنی عطا فرمائے۔ اُس وقت وه پکار اٹھتا هے که اے خدائے هادی، تو مجھ کو اپنی رحمتِ خاص سے هدایت عطا فرما۔

موجود دنیا میں   انسان بار بار ایسی صورتِ حال سے دوچار هوتا هے، جهاں   وه اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا هے۔ اُس وقت اُس کی فطرت میں   چھپا هوا جذبه چاهتاهے که وه ایک بالا تر هستی کو پکارے۔ یهاں   وه اسماءِ حسنیٰ میں   اِس بالا تر هستی کا ایک متعلق خدائی نام پالیتا هے اور اُس کے حوالے سے وه یه کهه اٹھتا هے که اے خدا، تو هی میرا ناصر هے، تو هر اعتبار سے میری مدد فرما۔

انسان مجرد طورپر نهیں   سوچ سکتا۔ اپنی ذهنی ساخت کے اعتبار سے انسان کو همیشه الفاظ درکار هوتے هیں  ، جن کے ذریعے وه کسی تصور کو اپنے ذهن میں   لاسکے۔ خدا کے اسماءِ حسنی کی نوعیت یهی هے۔ یه اسماءِ حسنیٰ یه بتانے کے لیے نهیں   هیں   که مطلق طورپر خداکے نام کیا کیا هیں  ، وه صرف اُن اسماء کو بتاتے هیں   جو انسان کی نسبت سے هم کو درکار هیں  ۔ گویا که یه اسماءِ حسنیٰ ضرورتِ انسانی کے اعتبار سے بتائے گیے هیں  ، نه که خود ذاتِ خداوندی کی حقیقتِ اعلیٰ کے اعتبار سے۔

اسماءِ حسنیٰ سے مراد صفاتِ حسنیٰ هیں  ، مگر اسماءِ حسنیٰ خود خدا کی مطلق نسبت سے خدا کا تعارف نهیں   هیں  ، وه انسان کی نسبت سے خدا کا تعارف هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ در اصل، ذکر اور دعا کے لیے انسان کو پوائنٹ آف ریفرنس دیتے هیں  ۔ مثلاً ایک شخص کو رزق درکار هے تو وه خدا سے کهه سکے که— اے رزّاق، تو مجھے رزق دے دے۔ ایک شخص اپنے کو عاجز محسوس کرتا هے تو وه کهه سکے که— اے قادرِحقیقی، تو میرے عجز کی تلافی فرما۔

پُر اسرار نهیں 

اسماءِ حسنیٰ کے بارے میں   عام تصور یه هے که وه حروفِ مقطّعات کی مانند کچھ پراسرار الفاظ هیں  ۔ اِن الفاظ کے اندر کوئی معجزاتی تاثیر چھپی هوئی هے، جیسے که جادوگروں   کے منتر میں   هوتی هے۔ همارا کام صرف یه هے که هم اُن کو یاد کرکے اُن کا وِرد کرتے رهیں  ۔ اور پھر پُراسرار طورپر همیں   ان کے انوکھے فوائد ملتے رهیں   گے۔ اکثر لوگوں   کے دماغ میں   اِسی قسم کا تصور بساهوا هے۔

مگر اسماء حسنیٰ کے بارے میں   اِس قسم کا تصور سرتا سر بے بنیاد هے۔ اسماءِ حسنیٰ کسی بھی درجے میں   پُر اسرار الفاظ نهیں  ، وه پورے معنوں   میں  ایک معلوم اور بامعنیٰ حقیقت کی نمائندگی کرتے هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ کا معامله بلاشبه انسان کے لیے ایک عظیم رحمت کا معامله هے۔ مگر یه رحمت کوئی پُراسرار رحمت نهیں  ، بلکه وه ایک ایسی رحمت هے جو پوری طرح همارے معلوم دائرے کی چیز هے اور علمی طورپر اس کی تشریح کی جاسکتی هے۔

اسماءِ حسنیٰ دراصل، خدا کی رحمتوں   کے معلوم دروازے هیں  ۔ قرآن میں   ان دروازوں   کو اس لیے کھولا گیا هے که آدمی ان کی دریافت کرے اور ان کے راستے سے گزرکر وه خدا کی رحمتوں   کی دنیامیں   پهنچ جائے۔ اسماءِ حسنی گویا که رحمتِ خدا وندی کے ابوابِ حسنیٰ هیں  ۔ اسماءِ حسنیٰ هم کو خدا سے مربوط کرنے کا ذریعه هیں  ۔اسماءِ حسنیٰ خود الله تعالیٰ کی طرف سے دی هوئی وه کلید ِمعرفت هے جو همارے د ل و دماغ کو بیدار کرتی هے اور هم کو تاریکی سے روشنی کی طرف لے جانے کا ذریعه هے۔

اسماءِ حسنیٰ اور انسان

اگر ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں   کمیونکیشن کی تاریخ بتائی گئی هو۔ اِس کتاب میں   نامه بر کبوتر، ٹیلی گراف، ٹیلی فون اور موبائل جیسے نام هوں  ۔ اس کتاب کو ایک شخص پڑھے، خواه وه کتاب کی زبان سے بخوبی واقف هو، لیکن اگر نامه بر کبوتر، ٹیلی گراف، ٹیلی فون اور موبائل جیسی چیزوں   کو اُس نے دیکھا نه هوتو وه اِن چیزوں   کی حقیقت کے بارے میں   کچھ نه جان سکے گا۔ اِس قسم کی کوئی کتاب ایک واقف کار انسان کے لیے ایک معلوماتی کتاب هے، لیکن ایک ناواقف انسان کے لیے وه صرف ایک معمّا بن کر ره جائے گی۔

ایسا هی کچھ معامله اسماءِ حسنیٰ کا هے۔ خدا کے اسماءِ حسنیٰ، قرآن اور حدیث میں   نام به نام بتادیے گیے هیں  ، لیکن اِن ناموں  کو قرآن اور حدیث میں   پڑھ لینا کافی نهیں  ۔ قرآن اور حدیث میں   بیان هونے کے باوجود یه تمام نام کسی انسان کے لیے ایک نامعلوم چیز کی دریافت(discovery) کی حیثیت رکھتے هیں  ۔ کوئی آدمی اِن ناموں   کی حقیقت کو صرف اُس وقت جان سکتاهے، جب که اِس سے پهلے وه ذاتی دریافت کی سطح پر اُن کا علم حاصل کرچکا هو۔ ذاتی دریافت کے بغیر یه نام کسی آدمی کے لیے صرف رسمی نام هوں   گے، نه که معرفتِ خداوندی کا خزانه۔

اسمِ اعظم

اسماءِ حسنیٰ کے ذیل میں  ایک بحث یه هے که کیا خدا کا کوئی اسمِ اعظم هے، اور اگر هے تو وه کیا هے۔ اسم اعظم کے متعلق مختلف روایتیں   حدیث کی کتابوں   میں   آئی هیں  ۔ اس سلسلے میں   مسند امام احمد ابن حنبل کی دو روایتیں   یهاں   نقل کی جاتی هیں   :

1۔  عن أنس بن مالك أنّ النبی صلی اللّٰه  علیه وسلم سمع رجلاً یقول:اللهم إنی أسئلك أنّ لك الحمد، لاإلٰه إلا أنتَ وحدك، لا شریك لك، المنّان، بدیع السّموات والأرض، ذاالجلال والإکرام۔ فقال النبی صلی اللّٰه  علیه وسلم:لقد سألتَ اللّٰه  بإسم اللّٰه الأعظم، الذی إذا دُعی به أجاب، وإذا سُئل به أعطیٰ (مسند احمد، حديث نمبر 12205)۔

ترجمهانس بن مالك کهتے هیں   که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے ایك شخص کو یه کهتے هوئے سنا که:اے الله، میں   تجھ سے سوال کرتا هوں  ۔ تیرے هی لیے حمد هے۔ تو هی الٰه هے، تیرا کوئی شریك نهیں  ۔ تو بڑا احسان کرنے والا هے۔ زمین اور آسمان کو کسی نمونے کے بغیر پیدا کرنے والا هے۔ تو عزت اور کبریائی والا هے۔ یه سُن کر رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا:تونے الله کو اُس کے اُس اسمِ اعظم کے ساتھ پکارا، جس کے ساتھ اُس کو پکارا جائے تو وه ضرور پکار کا جواب دیتا هے، اور جب اُس کے ساتھ سوال کیا جائے تو وه عطا کرتا هے۔

2۔   عن عبد اللّٰه  بن بُریدۃ عن أبیه قال:سمع النبی صلی اللّٰه  علیه وسلم رجلاً یقول اللهم إنّی أسئلك بأنّی أشهد أنك أنت اللّٰه ، الذی لا إلٰه إلا أنت، الأحد الصمد، الذی لم یلد و لم یُولد، ولم یکن له کفواً أحد، فقال:قد سألتَ اللّٰه  بإسم اللّٰه  الأعظم، الذی إذا سُئل به أعطیٰ، وإذا دُعی به أجابَ (مسند احمد، حديث نمبر 22965)۔

ترجمه:عبد الله بن بُریده سے روایت هے که رسو ل الله صلی الله علیه وسلم نے ایك شخص کو یه کهتے هوئے سُنا کهاے الله، میں   تجھ سے سوال کرتاهوں  ۔ میں   گواهی دیتا هوں   که تو هی الله هے، تیرے سوا کوئی الٰه نهیں  ۔ تو اکیلا هے، تو بے نیاز هے۔ تونے نه کسی کو جَنا اور نه تجھے کسی نے جنا۔ اور تیرے برابر کوئی نهیں  ۔ یه سُن کر رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایاتو نے الله سے اُس کے اُس اسمِ اعظم کے ساتھ سوال کیا هے، جس کے ساتھ اُس سے مانگا جائے تو وه ضرور عطا کرتا هے۔ اور جب اُس کے ساتھ دعا کی جائے تو وه ضرور اُس کو قبول کرتا هے۔

دونوں   روایتوں   میں   الله کے ساتھ اُس کے اورکئی صفاتی نام آئے هیں  ۔ اِس سے یه ثابت هوتا هے که اسمِ اعظم سے مراد کوئی ایك نام نهیں   هوسکتا۔ اگر اسمِ اعظم کوئی ایك نام هوتا تو صحابی کی مذکوره دعا میں   بھی صرف وهی ایك نام هوتا، جب که اِس دعا میں   واضح طورپرخدا کے کئی نام هیں  ۔ اِس واضح اشارے کے باوجو اسمِ اعظم کو خدا کا کوئی ایك نام سمجھنا اور اُسی ایك نام کی تلاش میں   لگے رهنا، بلا شبه ایك غلطی هوگی۔ اسمِ اعظم کسی لفظِ اعظم کا نام نهیں   هے،بلکه وه معنی ٔاعظم کا نام هے۔

 حقیقت یه هے که اسمِ اعظم سے مراد خدا کا کوئی ایك نام نهیں   هے، بلکه وه خصوصی کیفیت کے ساتھ خدا کو پکارنے کا نام هے۔ اسمِ اعظم سے مراد، اسمِ اعظم نهیں   هے بلکه کیفیتِ اعظم هے۔ مذکوره دعا میں   صحابی نے کسی رٹے هوئے دعائیه لفظ کو استعمال نهیں   کیا، بلکه جذبات کے وفور میں  ان کی زبان سے کچھ خاص الفاظ نکل گیے، اِسی کا نام اسمِ اعظم کے ساتھ خدا کو پکارنا هے۔ اسمِ اعظم کا تعلق دراصل ربانی کیفیت سے هے۔ کیفیت سے بھرے هوئے الفاظ میں   خدا کو پکارنے کا نام اسمِ اعظم هے۔

ایك وضاحت

مذکوره حدیث میں   ایك صحابی کی دعا کا ذکر هے۔ رسو ل الله صلی الله علیه وسلم نے مذکوره دعا کے متعلق فرمایا که یه دعا اسمِ اعظم کی دعا تھی۔ چوں   که یه دعا صحابی نے عربی زبان میں   کی تھی، اِس لیے لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر یه سمجھ لیـتے هیں   که اسمِ اعظم والی دعا وهی هے جو عربی زبان میں   کی گئی هو، غیرعربی زبان کی دعا اسم ِ اعظم کی دعا نهیں  ۔

مگر یه سوچ درست نهیں  ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، صحابی نے جو دعا کی، وه ان کی اپنی مادری زبان میں   تھی، نه که ساده طورپر عربی زبان میں  ۔ دعا کو عربی زبان کے ساتھ مخصوص کرنا، ایك غیرفطری نظریه هے۔ دعا دل کے جذبات کا نام هے، نه که کسی زبان کے الفاظ کا نام۔ قرآن میں   بتایاگیا هے که هرپیغمبر اپنی قوم کی زبان میں   بھیجا گیا  (ابراهيم، 14:4)، یهی معامله دعا کا بھی هے۔ جس طرح دعوت مخاطب قوم کی زبان میں  هوتی هے، اِسی طرح دعا، دعا کرنے والے کی اپنی مادری زبان میں   هوتی هے۔

ایسا ماننا بهت ضروری هے۔ اس لیے که اگر دعا کو عربی زبان کے ساتھ مخصوص کردیا جائے، یا عربی زبان کی دعا کو افضل دعا بتایا جائے تو یه دعا کی اصل روح کو ختم کرنے کے هم معنیٰ هوگا۔ دعا کسی قسم کی تکرارِ الفاظ کا نام نهیں  ، دعا تڑپتے هوئے دل کی پکار کا نام هے، اور ایسی دعا همیشه آدمی کی اپنی مادری زبان هی میں   ظهور میں   آتی هے۔

دعا کیا هے

دعاکسی ٹکنکل واقعے کا نام نهیں  ،دعا ایك داخلی طوفان کا خارجی اظهار هے۔ جب ایك انسان خدا کو اُس کی عظمت و کبریائی کے ساتھ دریافت کرتا هے، جب ایسا هوتا هے که خدا کے بارے میں   سوچتے هوئے اُس کو خدا کی موجودگی کا اتنا شدید احساس هوتا هے که گویا وه خدا کے پڑوس میں   پهنچ گیا هے۔ جب اُس پر وه طوفانی تجربه گزرتا هے، جس کو حدیث میں  :ذَکَر الله خالیاً، ففاضت عیناه (صحيح البخاري، حديث نمبر 1423) کے الفاظ میں   بیان کیاگیا هے، یعنی آدمی نے اپنی تنهائی میں   خدا کو یاد کیا اور شدتِ تاثر سے اُس کی آنکھوں   سے آنسو بهه پڑے۔ اُس نے دنیائے امتحان کے بارے میں   سوچا، اُس نے موت اور روزِ حساب کا گهرا ادراك کیا، وه اُن ربّانی کیفیات سے گزرا، جب که انسان کو جهنم کے شعلے بھڑکتے هوئے نظر آتے هیں   اور دوسری طرف اُس کو جنت کے ابدی مناظر دکھائی دینے لگتے هیں  ۔ جب اُس پر یادِ خداوندی کا وه گهرا تجربه گزرتا هے، جب که سب کچھ اس کی نظروں   سے محو هوجاتا هے، خدا کے سوا هر چیز اُس کی نظر میں   بے حقیقت بن جاتی هے۔

ایسے طوفان خیز لمحات میں   یه هوتا هے که اُس کے دل و دماغ میں   ایك بھونچال آجاتا هے۔ اُس کی آنکھوں   سے خوفِ خدا کا سمندر امڈ پڑتا هے۔ جب سوچنے کی صلاحیت بظاهر ختم هوجاتی هے اور صرف محسوس کرنے کی صلاحیت باقی رهتی۔ اُس وقت ایسا هوتا هے که انسان بے تابانه طورپر اپنے رب کو پکارنے لگتا هے۔ اُس کے اندر چھپی هوئی ربّانی فطرت الفاظ کی صورت میں   بهه پڑتی هے۔ ایسے طوفانی لمحات میں  آدمی کی زبان سے جو کچھ نکلتا هے، اُسی کا نام دعا هے۔ یهی وه دعا هوتی هے جو اسمِ اعظم کی زبان میں   نکلتی هے اور ایسی دعا همیشه اپنی پهلی زبان میں   هوتی هے، نه که اپنی دوسری زبان میں  ۔

ایك واقعه

میری ملاقات ایك صاحب سے هوئی۔ انھوں  نے کها که میں   دس سال سے ایك سوال کا جواب تلاش کر رها هوں  ، لیکن اب تك مجھے اُس کا جواب نهیں   ملا۔ میں  نے پوچھا که آپ کا وه کیا سوال هے۔ انھوں   نے کها که میں   یه جاننا چاهتا هوں   که اسمِ اعظم کیا هے۔ اِس سلسلے میں  ، میں   نے بهت سی کتابیں   پڑھیں  ، بهت سے علما اور بزرگوں   سے ملاقاتیں   کیں  ، مگر اب تك کسی نے اِس کا تشفی بخش جواب نهیں   دیا۔ اب میں   آپ کے پاس آیا هوں  ۔ اگر ممکن هو تو آپ مجھے اس کا جواب دے کر میری پریشانی کو دور فرمائیں  ۔

میں   نے کها آپ کی پریشانی ایك خود ساخته پریشانی هے۔ آپ نے یه فرض کرلیا هے که اسمِ اعظم جادو کے منتر کی طرح کوئی منتر هے۔ اب آپ چاهتے هیں   که منتر کا وه لفظ آپ کو معلوم هوجائے، مگر ایسا هوناکبھی ممکن نهیں  ۔میں  نے کها که اسمِ اعظم کسی لفظ کا نام نهیں   هے، بلکه کیفیت کا نام هے۔ کیفیتِ اعظم کے ساتھ جو دعا کی جائے، وهی اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا هے۔ یه دراصل آپ کی اپنی قلبی کیفیت هے جو کسی دعا کو اسمِ اعظم کی دعا بناتی هے۔ کسی انسانی لفظ میں   یه طاقت نهیں   که وه خدا کا اسمِ اعظم بن جائے، وه خدا کی لا محدود هستی کا احاطه کرلے۔

میں  نے کها که آپ هی کی طرح کا ایك شخص تھا۔ اُس کو ایك خزانے کی تلاش تھی۔ اُس کو معلوم هوا که یه خزانه فلاں   پهاڑ کی چوٹی پر ایك محل کے اندر رکھا هوا هے۔ اِس محل کے گیٹ پر ایك تالا لگاهوا هے۔ یه تالا کسی کنجی سے نهیں   کھلتا ، بلکه وه ایك منتر سے کھلتاهے۔ اب اُس کو اُس منتر کی تلاش هوئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وه ایك جگه پهنچا۔ یهاں   اُس کی ملاقات ایك سادھو سے هوئی۔ جو اُس منتر کو جانتا تھا۔

اس نے سادھو سے درخواست کی که وه اُس کو یه منتر بتادے۔ سادھو نے اُس کو وه منتر بتا دیا۔ سادھو نے کها که وه منتر ’’سِم سِم‘‘ هے۔ تم فلاں   پهاڑ کی چوٹی پر جاؤ۔ وهاں   تم کو ایك محل ملے گا۔ اِس محل کے گیٹ پر ایك تالا لٹکا هوگا۔ تم اُس کے سامنے کھڑے هو کر کهناکُھل اے سِم سِم، کھل اے سِم سِم، پھر وه تالا کھل جائے گا۔ وه آدمی روانه هوا۔ لمبے سفر کے بعد وه محل کے گیٹ پر پهنچا، مگر اُس وقت وه منتر کو بھول چکا تھا۔ وه گیٹ کے سامنے کھڑا هو کر دوسرے دوسرے الفاظ بولتا رها۔ مثلاً کُھل اے ٹَم ٹَم، کھل اے دَم دَم، کھل اے بم بم، مگر دروازه نهیں   کھلا۔ اب وه وهاں   سے واپس هو کر دوباره سادھو کے پاس گیا۔ سادھو نے کها که تم غلط منتر بول رهے تھے، اس لیے تالا نهیں   کھلا۔ دوباره جاؤ اور سم سم کهو۔ آدمی نے منتر کو خوب اچھی طرح یادکر لیا اور سفر کرکے دوباره وهاں   پهنچا۔ اُس نے محل کے گیٹ کے سامنے کھڑے هوکر کهاکھل اے سِم سِم اور پھر فوراً دروازه کھل گیا۔

اکثر لوگ اسم اعظم کو اِسی قسم کا ایك طلسماتی لفظ سمجھتے هیں  ، مگر اِس قسم کی سوچ بالکل غلط هے۔ یه ایك حقیقت هے که اسمِ اعظم ڈکشنری کے کسی لفظ کا نام نهیں  ، وه انسان کی اپنی داخلی کیفیت کا نام هے۔ جب بھی کوئی سچا بنده، اعلیٰ قلبی کیفیات کے ساتھ دعا کرتا هے تو اُس کو فرشتوں   کی مدد حاصل هوجاتی هے۔ اُس وقت اُس کے اندر سے مخصوص قسم کے ربّانی الفاظ نکلنے لگتے هیں  ، اِسی کا نام اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا هے۔ اِس قسم کی دعا، خدائی الهام کے تحت هوتی هے اور جو دعا خدائی الهام کے تحت انسان کے دل سے نکلے، اُس کا معامله وهی هوتا هے جس کو ایك فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں  نظم کیا هے:

اجابت از درِ حق بهرِ استقبال می آید

مقبول دعا

حقیقی دعا آدمی کی پوری هستی سے نکلتی هے، نه که محض زبانی الفاظ سے۔ یه ایك حقیقت هے که خدا سے مانگنے والا کبھی محروم نهیں   هوتا۔ مگر مانگناصرف کچھ لفظوں   کو دهرانے کا نام نهیں   ۔ مانگنا وهی مانگنا هے جس میں   آدمی کی پوری هستی شامل هوگئی هو۔ ایك شخص زبان سے کهه رها هو خدایا! مجھے اپنا بنالے، مگر عملاً وه اپنی ذات کا بنا رهے، تو یه اِس بات کا ثبوت هے که اس نے مانگا هی نهیں  ، اس کو جو چیز ملی هوئی هے، وهی دراصل اس نے خدا سے مانگی تھی، خواه زبان سے اس نے جو لفظ بھی ادا کئے هوں  ۔

ایك بچه اپنی ماں   سے روٹی مانگے تو یه ممکن نهیں   که ماں   اس کے هاتھ میں   انگاره رکھ دے۔ خدا اپنے بندوں   پر تمام مهربانوں   سے زیاده مهربان هے۔ یه ممکن نهیں   که آپ خدا سے خشیت مانگیں   اور وه آپ کو قساوت دے دے، آپ خدا کی یاد مانگیں   اوروه آپ کو خدا فراموشی میں   مبتلا کردے، آپ آخرت کی تڑپ مانگیں   اور خداآپ کو دنیا کی محبت میں   ڈال دے، آپ کیفیت سے بھری هوئی دین داری مانگیں   اور خداآپ کو بے روح دین داری میں   پڑا رهنے دے۔ آپ حق پرستی مانگیں   اور خدا آپ کو گم راهی کے اندھیروں   میں   بھٹکتا چھوڑ دے۔

آپ کی زندگی میں   آپ کی مطلوب چیز کا نه هونا، اِس بات کا ثبوت هے که آپ نے ابھی تك اس کو مانگا هی نهیں  ۔ اگر آپ کو دودھ خریدنا هو اور آپ چھلنی لے کر بازار جائیں   تو پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی آپ خالی هاتھ واپس آئیں   گے۔ اسی طرح اگر آپ زبان سے دعا کے کلمات دهرارهے هوں  ، مگر آپ کی اصل هستی کسی دوسری چیز کی طرف متوجه هو تو یه کهنا صحیح هوگا که نه آپ نے مانگا تھا اور نه آپ کو ملا، جو مانگے وه کبھی پائے بغیر نهیں   رهتا۔ یه مالك کائنات کی غیرت کے خلاف هے که وه کسی بندے کو اِس حال میں   رهنے دے که قیامت میں   جب خدا سے اس کا سامنا هو تو وه اپنے رب کو حسرت کی نظر سے دیکھے۔ وه کهے که خدایا، میں   نے تجھ سے ایك چیز مانگی تھی مگر تونے مجھے وه چیز نه دی۔ بخدا ،یه ناممکن هے، یه ناممکن هے، یه ناممکن هے۔ کائنات کا مالك تو هر صبح وشام اپنے تمام خزانوں   کے ساتھ آپ کے قریب آکر آواز دیتا هے— ’’کون هے جو مجھ سے مانگے، تاکه میں   اسے دوں  ‘‘ مگر جنھیں   لینا هے وه اس سے غافل بنے هوئے هوں   تو اس میں   دینے والے کا کیا قصور۔

دعا کی طاقت

حدیث میں   آیا هے که:لا یردّ القضاء إلا الدعاء (التّرمذي، حديث نمبر2139) یعنی قضا اور قدر کے فیصلے کو صرف دعا بدل سکتی هے۔ خدا نے اِس دنیا کا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر قائم کیا هے، اور پھر انسان کو مکمل آزادی دے دی هے۔ اب انسان اپنی آزادی کے مطابق عمل کرتا هے اور خدا کے قائم کرده نظام اسباب و علل سے مطابقت یا مخالفت کی بنیاد پر اس کا اچھا یا برُا نتیجه اس کے سامنے آتا هے۔ میں   سمجھتا هوں   که یه نظام بالکل حتمی هے۔ کوئی آدمی خواه مخلص هو یا غیر مخلص، اُس کو بهر حال اِس نظام کو بھُگتنا هے۔ کسی بھی شخص کے لیے اِس نظام کو منسوخ نهیں   کیا جاسکتا۔

اِس معاملے میں   صرف ایك استثنا هے اور وه دعا کا هے۔ کوئی آدمی جب سچی دعا کرتا هے اور اُس وقت اگر خدا اس کی دعا قبول کرلیتا هے تو وه اسباب کے نظام میں   مداخلت کرکے اس کا راسته هموار کردیتا هے۔ یهی مطلب هے اِس بات کا که دعا، قضا اورقدر کو بدل دیتی هے۔

لیکن دعا الفاظ کی تکرار کا نام نهیں   هے، حتی که قرآنی دعائیں   یا ماثور دعائیں   بھی اگر صرف رَٹے هوئے الفاظ کی تکرار هوں   تو وه بھی مؤثر نهیں   هوسکتیں  ۔ نظامِ قضا کو بدلنے کے لیے وه دعا درکار هے جو دل کو پھاڑ کر کی جاتی هے، جو دل کی پھٹن کی آواز هوتی هے، جس میں  آدمی کا پورا وجود شامل هوجاتاهے، جو انسانی شخصیت میں   ایك بھونچال کے بعد ظهور میں   آتی هے۔

اِس قسم کی دعا کی قبولیت کی ایك اور شرط یه هے که دعا کرنے والے کا ذهنی تزکیه اتنا زیاده هوچکا هو که اس کی سوچ خدا کی سوچ بن جائے۔ ایسا آدمی وهی دعا کرے گا جو خدا کے نزدیك قابلِ قبول هوتی هے۔ اس کی زبان سے ایسی دعا نهیں   نکلے گی جو خدا کی سنّت کے مطابق، قابلِ قبول هی نهیں  ۔

پیغمبر کی دعا کی مثال

خدا کے تمام پیغمبروں   نے اسمِ اعظم کے ساتھ دعائیں   کی هیں  ۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی الله علیه وسلم نے غزوهٔ بدر کے موقع پر میدان جنگ کی طرف نگاه ڈالی تو آپ کو نظر آیاکه طاقت ور مشرك فوج کے مقابلے میں  ، مؤحدین کی ایك کم زور فوج کھڑی هوئی هے، جو تعداد میں   بھی کم هے اور سامانِ حرب میں   بھی کم۔ اِس نابرابری کو دیکھ کر آپ کے جذبات میں   ایك هیجان پیدا هوا۔ آپ کمالِ عجز کے ساتھ خدا کے سامنے زمین پر سجدے میں   گر پڑے۔ اُس وقت آپ کی زبان سے دعا کرتے هوئے یه الفاظ نکلے:اللهم، إن تهلك هٰذه العصابۃ من أهل الإسلام، لا تعبد فی الأرض أبدا (صحيح مسلم، حديث نمبر 1763)۔ یعنی اے الله، اگر تو اهلِ اسلام کے اِس گروه کو آج هلاك کردے تو اس کے بعد زمین پر کبھی تیری عبادت نه هو گی۔ یه دعا بھی اپنے ربّانی جذبات کے اعتبار سے اسمِ اعظم کے ساتھ کی جانے والی دعا تھی، جو کامل طورپر قبول هوئی۔ کم زور گروه نے خدا کی مدد سے طاقت ور گروه کو مکمل شکست دے دی۔

اسمِ اعظم کے ساتھ دعا، صرف پیغمبروں   کے ساتھ خاص نهیں  ، اِس دعا کی توفیق هر بندهٔ خدا کو ملتی هے۔ جو شخص بھی ایمان اور اخلاص کے اعلیٰ ربّانی جذبات کے ساتھ خدا کی طرف رجوع هو، وه خدا کی مدد سے اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنے کی توفیق پاتا هے۔ اِس کی پهچان یه هے که ایسی دعا کے موقع پر آدمی کو ایسا محسوس هوتا هے که اُس کا پورا وجود خدا کی تجلّی میں   نها اٹھا هے۔ اُس وقت وه ایسے الفاظ بولنے لگتا هے جو اُس نے اِس سے پهلے کبھی سوچے نهیں   تھے۔ تاریخ میں   بهت سے خدا کے بندے هیں  ، جن کو اِس قسم کی دعاءِ اعظم کی توفیق ملی هے۔

دعا کے ذریعے شرکت

قرآن کی سوره التوبه میں   کچھ اهلِ ایمان کا ذکر هے۔ غزوهٔ تبوك (8 هجری) کے موقع پر چوں   که نفیرِ عام تھی، اس لیے وه اُس میں   جانا چاهتے تھے۔ مگر اُن کے پاس اتنی رقم نهیں   تھی که وه اِس طویل سفر کے لیے ضروری سامان کی تیاری کرسکیں  ۔ وه رسول الله صلی الله علیه وسلم کے پاس مدد کے لیے آئے، مگر آپ نے معذرت فرمائی۔ اِس واقعے کا اشاره قرآن کی ایك آیت میں   اِس طرح کیاگیا هےاور نه اُن لوگوں   پر کوئی الزام هے که جب وه تمھارے پاس آئے که تم اُن کو سواری دو، تم نے کها که میرے پاس کوئی چیز نهیں   که میں   تم کو اُس پر سوار کروں  ، تو وه اِس حال میں   واپس هوئے که اُن کی آنکھوں   سے آنسو جاری تھے، اِس غم میں   که اُنھیں   کچھ میسر نهیں   جو وه خرچ کریں  (9:92)۔

یه افراد غزوهٔ تبوك میں   شریك نه هوسکے، مگر ایك حدیثِ رسول کے مطابق، خدا کے نزدیك وه اُس میں   شریك مانے گیے۔ غزوهٔ تبوك سے واپس هوتے هوئے رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اُن کے متعلق اپنے اصحاب سے فرمایا:إنّ بالمدینۃ أقواماً، ماسِرتُم مسیراً، ولا أنفقتُم من نفقۃٍ، ولا قطعتم من وادٍ، إلاّ وهُم معکم فیه(سنن ابو داؤد، حديث نمبر 2508)۔ یعنی مدینه میں   کچھ ایسے افراد هیں  که تم جب کسی راستے پر چلے، یا جب بھی تم نے کچھ مال خرچ کیا، یا تم کسی وادی سے گزرے تو وه اُس میں   تمھارے ساتھ تھے ۔

یه بڑا عجیب انعام تھا جو مدینه کے اُن افراد کو ملا، یعنی عمل کے بغیر عمل کے انعام میں   شرکت۔ میں   غور کرتا هوں   تو مجھے محسوس هوتاهے که یه انوکھا انعام اُن کو اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی بنا پر ملا۔

مجھے ایسا محسوس هوتاهے، جیسے که وه اپنی تنهائیوں   میں   رو رو کر یه دعا کررهے هوں   که—خدایا، تو نے دوسروں   کو جو انعام عادل هونے کی حیثیت سے دیا، وه انعام مجھ کو رحیم هونے کی حیثیت سے دے دے۔ تونے دوسروں   کے لیے جو چیز اُن کے عمل کی بنا پر مقدر کی، وه چیز میرے لیے میری دعا کے نتیجے میں   مقدر کردے۔ تو نے جو کچھ دوسروں   کو استحقاق کی بنا پر عطا فرمایا، وه چیز مجھ کو سوال کرنے والے کی حیثیت سے دے دے۔ دوسروں   کو جو چیز تو نے استطاعت کی بنا پر دی، وه مجھ کو عجز کی بنا پر دے دے۔ تونے دوسروں   کوجو چیز مومنِ قوی هونے کی حیثیت سے دی ، وه مجھ کو مومنِ ضعیف هونے کی حیثیت سے دے دے، کیوں   که تیرے رسول نے هم کو یه خبر دی هے که— ضعیف مومن کے لیے بھی خیر هے:وفي کلٍّ خیر (صحیح مسلم، حديث نمبر4823 )۔

اسمِ اعظم کا علم خدا کو

اسمِ اعظم، اسماءِ حسنیٰ سے الگ کوئی نام نهیں  ، وه اُنھیں   ناموں   میں   شامل هے۔ اسماءِ حسنیٰ میں   سے کوئی اسم، اُس وقت اسم اعظم بن جاتا هے، جب که دعا کرنے والا اُس کو ایك غیر معمولی جذبے کے تحت استعمال کرے۔ پکارنے والے کا جذبهٔ اعظم، اسماءِ حسنیٰ میں   سے کسی اسم کو اسمِ اعظم بنادیتا هے۔

اسمِ اعظم کوئی پُر اسرار منتر نهیں  ، وه مکمل طورپر ایك معلوم حقیقت هے۔ یه ضروری نهیں  هے که پکارنے والایه جانے که اُس نے اسمِ اعظم کے ذریعے خدا کو پکارا هے۔ یه دراصل خدا کی قبولیت هے جو کسی اسم کو اسمِ اعظم کا درجه دے دیتی هے۔اسم بظاهر ایك معلوم لفظ کا نام هے، لیکن کسی چیز کا اسمِ اعظم هونا، تمام تر داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے هوتا هے۔ چوں   که داخلی اسپرٹ کا علم صرف الله تعالیٰ کو هے، اِس لیے یه صرف الله هے جو جانتا هے که کب اُس کے کسی بندے نے اُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ پکارا۔ یه حقیقت صرف آخرت میں  کھلے گی که وه کون خوش قسمت انسان تھا جس کو اسمِ اعظم کے ساتھ خدا کو پکارنے کی توفیق حاصل هوئی۔ اس معاملے میں   اگر هم کچھ کهتے هیں  تو وه صرف بَر بناءِ قیاس هوتا هے۔ کوئی بھی شخص ایسا نهیں   جو حقیقی علم کی بنیاد پر اِس بارے میں   کوئی رائے دے سکے۔

خدا اور بندے کے درمیان

خدا نے انسان کے لیے اپنے جن اسماءِ حسنیٰ کا تعارف کرایا هے، وه انسان کے اوپر ایك دروازهٔ رحمت کھولنے کے هم معنیٰ هے۔ اسماءِ حسنیٰ یه بتاتے هیں   که بندے اور خدا کے درمیان مواقعِ اتصال (meeting points) کیا کیا هیں  ۔ اِن مواقعِ اتصال کے ذریعے بنده، خدا سے قربت حاصل کرسکتا هے۔ پھر اگر بندے کی اسپرٹ بهت زیاده بڑھی هوئی هو تو وه اِس قابل هوجاتاهے که وه اپنے ذکر اور اپنی دعا میں   اسمِ اعظم کا استعمال کرسکے، یعنی اُس اسم یا نام کا استعمال جس کے استعمال کے بعد ربّانی اتصال اچانك اسی طرح ممکن هوجاتاهے، جس طرح بجلی کا سوئچ دبانے کے بعد اچانك بجلی کے بلب کا فوراً روشن هوجانا۔

یه معامله کوئی پُراسرار معامله نهیں  ۔ حقیقت یه هے که یه فطرت کا ایك قانون هے، جس کو خود انسانوں   کے درمیان محسوس تعلقات کا مطالعه کرکے سمجھا جاسکتا هے۔

دعا اور سپر دعا

دعا، یا خدا کو پکارنے کی دو قسمیں   هیں  ۔ ایك هے ساده طورپر کچھ متعین الفاظ بول کر خدا سے مانگنا۔ دوسری دعا وه هے جس کو سپر دعا کهاجاسکتا هے۔ یه دعا کی وه قسم هے جس کو پکارنے والا ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں   پکارتا هے که وه خود خدا کے لیے ، بلا تشبیهه، اُسی طرح ایك ذاتی مسئله بن جاتا هے، جس طرح وه دعا کرنے والے کے لیے ایك ذاتی مسئله تھا۔ پهلی دعا اگر روایتی دعا (traditional dua) هے تو دوسری دعا تخلیقی دعا (creative dua) هے۔ انگریزی میں   پهلی قسم کی دعا کو رِکویسٹ(request)کرنا کهاجاتا هے اور دوسری قسم کی دعا کو اِنووك (invoke) کرنا، جیسے که کها جائے :

The Almighty God was invoked by his call.

دعا اور اسم اعظم کی دعا میں   یهی فرق هے۔ دعا عام قسم کی ایك دعا هے، اور اسمِ اعظم کی دعا گویا که ایك سپر دعا ۔ اس معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے هم ایك واقعه پیش کرتے هیں  ۔

ایك واقعه

رام پور (یوپی) کا واقعه هے۔ ایك بچے نے اپنے باپ سے کها که— میرے لیے ایك بائیسکل خرید دیجئے۔ با پ کی آمدنی کم تھی، وه بائیسکل خریدنے کی پوزیشن میں   نه تھا، اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کهتا رها اور باپ بار بار منع کرتا رها۔ بالآخر ایك روز باپ نے ڈانٹ کر کهامیں   نے کهه دیا که میں   بائیسکل نهیں   خریدسکتا۔ اب آئنده مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا، ورنه میں   تم کو ماروں   گا۔

یه سن کر لڑکے کی آنکھوں   میں  آنسو آگئے۔ وه کچھ دیر چپ رها۔ اس کے بعد وه روتے هوئے بولا—آپ هی تو همارے باپ هیں  ، آپ سے نه کهیں   تو اور کس سے کهیں  ۔ اس جملے نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانك اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کها:اچھا بیٹے اطمینان رکھو، میں   تمھارے لیے بائیسکل خریدوں   گا، اور کل هی خریدوں   گا۔ یه کهتے هوئے باپ کی آنکھوں   میں   بھی آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسے کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے ایك نئی بائیسکل خرید دی۔

لڑکے نے بظاهر ایك لفظ کها تھا، مگر یه ایك ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں   اس کی پوری هستی شامل هوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یه تھا که اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا هے۔ یه لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایك ایسے نقطے پر کھڑا کر دیا جهاں   اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا هی بڑا مسئله بن گئی جتنا که وه خو د اس کے لیے تھی۔بیٹے کے الفاظ نے باپ کو اِس سنگین سوال سے دوچار کردیا که اگر وه اپنے بیٹے کو بائیسکل نه دے تو اُس کی پِدریت (fatherhood) هی مشتبه هوجائے گی۔

اس واقعے سے سمجھا جاسکتا هے که دعا کی وه کون سی قسم هے جس کے بعد خدا کی رحمتیں   بندے کے اوپر امڈ آتی هیں  ۔ یه رٹے هوئے الفاظ کی تکرار نهیں   هے، نه اس کا کوئی ’’رسمی نصاب‘‘ هے۔ یه دعا کی وه قسم هے جس میں   بنده اپنی پوری هستی کو انڈیل دیتا هے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وه قطره ٹپك پڑتا هے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نه کرسکیں  ۔ جب بنده اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیاده شامل کردیتا هے که ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں   ایك ترازو پر آجاتے هیں  ۔ یه وه لمحه هے جب که دعا ،محض لغت کا ایك لفظ نهیں   هوتا، بلکه وه ایك شخصیت کے پھٹنے کی آواز هوتی هے۔ اُس وقت خدا کی رحمتیں   اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی هے۔ بندگی اور خدائی دونوں   ایك دوسرے سے راضی هوجاتے هیں  ۔ قادرِ مطلق ،عاجز ِ مطلق کو اپنی آغوش میں   لے لیتا هے۔

اِس واقعے پر غور کیجیے تو اس میں   دونوں   قسم کی دعا کی مثال نظر آئے گی۔ مذکوره بچے نے جب پهلی بار اپنے باپ سے یه کها که مجھے ایك بائیسکل خرید دیجیے تو اُس نے گویا که صرف دعا کی، لیکن دوسری بار جب اُس نے روکر یه کها که آپ هی تو همارے باپ هیں  ، آپ سے بائیسکل کے لیے نه کهیں   تو اور کس سے کهیں  ۔ جب بچے کی زبان سے یه دوسرے الفاظ نکلے تو وه گویا که ایك سپر دعا تھی۔ پهلے قسم کے الفاظ سے باپ پر کوئی اثر نهیں   پڑا تھا، لیکن دوسرے قسم کے الفاظ نے باپ کو پگھلا دیا۔ اب وه اتنا متاثر هوا که وه فوراً بائیسکل خریدنے کے لیے تیار هوگیا۔

اِس مثال سے عام قسم کی دعا اور اسمِ اعظم کی دعا کا فرق سمجھا جاسکتا هے۔عام قسم کی دعا، محض دعائیه الفاظ کو زبان سے دهرادینے کا نام هے، لیکن اسمِ اعظم کے ساتھ کی گئی دعا گویا که سپر دعا هے۔ ایسی دعا خود خدا کو هلا دیتی هے، جیسا که مظلوم کی دعا کے بارے میں   حدیث میں   آیا هے که:دعوۃ المظلوم  تحمل علی الغمام، وتفتح لها أبواب السماء، یقول الرّب عزّوجلّ:وعزّتی، لأنصرنّك ولوبعد حین (مسند احمد، جلد 2، صفحه 305 )۔

دعا اور سپر دعا کا فرق، الفاظ میں   فرق کا نام نهیں  ، بلکه دعا کرنے والے کی داخلی اسپرٹ میں   فرق کا نام هے۔ یه دراصل دعا کرنے والے کی اپنی حالتِ داخلی پر منحصر هے که اُس کی زبان سے نکلنے والی دعا، سپر دعا بنے گی یا وه صرف عام دعا بن کر ره جائے گی۔

دومثالیں 

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے دونوں   قسم کی دعاؤں   کی مثال یهاں   نقل کی جاتی هے۔ ایك شخص نے قرآنی دعاؤں   کی ایك کتاب بازار سے خریدی۔ اُس میں   کچھ دعائیں   چھپی هوئی تھیں  ۔ اُس نے اِن دعاؤں   کو یاد کرلیا اور نمازوں   میں   اُن کو دهرانے لگا۔ مثلاً ربّنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ، و فی الآخرۃ حسنۃ، وقنا عذاب النار۔ یعنی اے همارے رب، تو هم کو دنیا میں   ’حسنه ‘ دے اور تو هم کو آخرت میں   ’حسنه‘ دے، اور تو هم کو آگ کے عذاب سے بچا(2:201)۔ دعا کا یه طریقه روایتی دعا کی ایك مثال هے۔

اب سپر دعا کی ایك مثال لیجیے۔ اب سے ساڑھے تین هزار سال پهلے مصر میں   ایك مشرك بادشاه کی حکومت تھی، جس کا لقب فرعون تھا۔ اِس زمانے میں   حضرت موسیٰ کا ظهور هوا، جنھوں   نے مصر میں   دعوتِ توحید دی۔ فرعون خود تو حضرت موسیٰ کا مخالف بن گیا، لیکن اس کی بیوی آسیه بنتِ مُزاحم، حضرت موسیٰ کی دعوتِ توحید سے متاثر هوئی اور وه حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئی۔

قدیم زمانے کے اعتبار سے یه کوئی ساده بات نه تھی۔ قدیم زمانه ’النّاسُ علیٰ دینِ مُلوکهم‘ کا زمانه تھا۔ اُس زمانے میں   اسٹیٹ ریلیجن کو ماننا، سیاسی وفاداری کی علامت تھا۔ اسٹیٹ ریلیجن کے خلاف کسی اورریلیجن کو ماننے والا، اسٹیٹ کا باغی سمجھا جاتا تھا اور اُس کو وه سزا دی جاتی تھی جو ریاست سے بغاوت کے لیے مقرر هے۔آج هم مذهبی آزادی کے ماحول میں   جیتے هیں  ، لیکن قدیم زمانے میں   هزاروں   سال تك دنیا میں   مذهبی جبر (religious persecution) کا نظام رائج تھا۔

یهی وه پس منظر تھا جس میں   فرعون نے آسیه کے لیے قتل کا حکم دے دیا۔ قرآن میں   بتایا گیا هے که اُس وقت آسیه کی زبان سے یه دعا نکلیربِّ ابْنِ لي عندك بیتاً فی الجنۃ(66:11)یعنی اے میرے رب، اپنے پاس میرے لیے جنت میں   ایك گھر بنا دے ۔

آسیه کی اِس دعا کو اُس کے پس منظر کی روشنی میں   دیکھئے تو گویا که آسیه نے یه کها— اے میرے رب، میں   نے تیرے لیے دنیا میں   بادشاه کے محل کو چھوڑ دیا، اب تو آخرت کی ابدی دنیا میں   میرے لیے اپنے پڑوس میں   ایك محل بنادے:

I sacrifice my seat in the palace of worldly king, O Lord, give me a better seat in your neighbourhood in the world hereafter.

آسیه بنت مزاحم کی اِس دعا کے لیے بعض علما نے درست طورپر کها :ما أحسن هٰذا الکلام۔یعنی کتنی اچھی هے یه دعا (صفوۃُ التّفاسیر، جلد 3، صفحه 412)۔

یه دعا بلا شبه، ایك تخلیقی دعا تھی۔ آسیه بنت مزاحم کے سامنے دو چیزوں   کے درمیان انتخاب تھا— محل کی زندگی کی خاطر فرعون کے مشرکانه مذهب پر قائم رهنا، یا خدا کے مُوحِّدانه مذهب کی خاطر سفّاکانه قتل کا سامنا کرنا۔ آسیه کی معرفت اُس وقت اتنی زیاده گهری هوچکی تھی که اُس کو یه فیصله کرتے هوئے ایك لمحے کی دیر نهیں   لگی که مجھے حق کی خاطر، دنیا کے وقتی محل کو چھوڑ دینا چاهیے اور خدا کی ابدی جنت کو اپنے لیے منتخب کرلینا چاهیے، خواه اِس انتخاب کی قیمت میں   مجھے قتل کردیا جائے یا سُولی پر چڑھا دیا جائے۔

اِس پورے پس منظر کی روشنی میں   دیکھیے تو آسیه بنت مزاحم کی دعا بلاشبه ایك سپر دعا تھی اور وه فوراً هی قبول هوگئی۔ روایات میں   آیا هے که موت سے پهلے فرشتوں   نے آسیه کو جنت میں   اُس کے محل کا مشاهده کرایا۔ چناں   چه آسیه نے اِس حال میں   جان دی که اُس کے چهرے پر اطمینان کی خوشی صاف دکھائی دے رهی تھی۔

آسیه بنت مزاحم کی یه دعاجو قرآن میں   نقل کی گئی، وه محض ایك فرد کی دعا نهیں   هے بلکه وه ایك نمائنده دعا هے۔ حقیقت یه هے که هر عورت اور مرد کو یهی دعا کرنا هے۔ هر عورت اور مردکو اِسی مرحلے سے گزرنا هے۔ هر عورت اور مرد کو قربانی کی سطح پر جاکر یه کهنا هے که — خدایا، میں   نے تیرے دین کی خاطر دنیا کی چیزوں   کو چھوڑا، تاکه تو اگلے مرحلهٔ حیات میں   اپنا زیاده بهتر انعام مجھے عطا فرمائے۔ یهی وه عورت اور مرد هیں   جن کی بابت یومُ الحساب (Day of Judgement) کے موقع پر یه اعلان کیا جائے گا که انھوں  نے خدا کی خاطر دنیا کی عارضی جنت کو چھوڑ دیا تھا، اب اُن کو آخرت کی زیاده اعلیٰ جنت میں   داخل کردو، تاکه یهاں   وه ابدی طور پر خوشیوں   اور راحتوں   کی زندگی گزاریں   اور کبھی اُکتاهٹ کے احساس کا شکار نه هوں  ۔

اسم اعظم ایك زنده تجربه

اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا، خدا کی توفیق سے هوتا هے۔ یه توفیق صرف اُس انسان کو ملتی هے جو اسمِ اعظم کی دعا سے پهلے اسمِ اعظم کی کیفیات میں   جی رهاهو۔ اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کا معامله کوئی پُراسرار معامله نهیں  ۔ وه دراصل ’الإناء یترشّح بما فیه‘ کا معامله هے، یعنی ایك انسان جو حق کا متلاشی تھا، پھر اُس کو خدا کی صورت میں   حق مل گیا اور اُس کا وه حال هوا جس کی تصویر قرآن میں   اِس طرح بیان کی گئی هے:أوَ مَن کان میتًا فأحییناه، وجعلنا له نوراً یمشی به فی النّاس(6:123)۔ یعنی وه شخص جو مُرده تھا، پھر هم نے اُس کو زندگی دی اور هم نے اُس کو ایك روشنی دی که اُس کے ساتھ وه لوگوں   میں   چلتا هے ۔

ایسے انسان کا حال یه هوتا هے که وه ذکرِ کثیر (الاحزاب،33:41) میں   جینے لگتاهے، یعنی هر وقت خدا کو یاد کرنا، هر وقت خدا کے بارے میں   سوچنا، هر لمحه خدا کی تجلّیات کا تجربه کرنا۔ ایسا انسان گویا که اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنے کے لیے ایك تیار ذهن (prepared mind) هوتا هے۔ جب بھی کوئی خاص موقع اُس کی زندگی میں   پیش آتا هے تو اُس کے اندر چھپے هوئے ربّانی جذبات ایك طوفان بن کر اُبل پڑتے هیں  ۔ اُس وقت وه مخصوص قسم کے الهامی الفاظ میں   خدا کو پکارنے لگتا هے۔ ایك تیار ذهن سے نکلنے والی اِسی قسم کی الهامی دعا کا نام اسمِ اعظم کے ساتھ خدا کو پکارنا هے۔

ایك صالح خاتون کا واقعه

جیسا که اوپر ذکر هوا، فرعون کی بیوی آسیه بنتِ مُزاحم خفیه طور پر حضرت موسیٰ کے دین پر ایمان لائی تھی۔ جب فرعون کو اِس کا علم هوا تووه بهت غصه هوا اور اُس کے قتل کا فیصله صادر کردیا۔ اُس  وقت آسیه کی زبان سے ایك دعا نکلی جو قرآن میں   اِن الفاظ میں   آئی هے: رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ(66:11)۔ یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں   ایك گھر بنادے اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عمل سے بچالے اور مجھ کو ظالم قوم سے نجات دے ۔

یه دعا ایك ایسی دعا هے جس کے اندر اسمِ اعظم کی روح پوری طرح موجود هے۔ بعض روایات میں   آیا هے که آسیه نے جب یه دعا کی تو اُس وقت موت سے پهلے اُس کو یه تجربه هوا که فرشتوں   نے اُس کو آخرت کی دنیا میں   ملنے والا جنّتی مکان اُس کو دکھا دیا (القرطبی، جلد 18 ، صفحه 203)۔

یه بات یقینی هے که آسیه کی زبان سے یه دعا اچانك یا اتفاقاً نهیں   نکلی، بلکه وه اُس کی پچھلی زندگی کے دوران پیش آنے والے تجربات کانتیجه تھی۔ اِس دعا سے پهلے وه ایك تیار شخصیت بن چکی تھی۔ وه پهلے هی سے ذکر اور دعا کے مخصوص لمحات میں   جی رهی تھی۔ اِسی کا یه نتیجه تھا که جب فرعون کی سفّاکی کا معامله پیش آیا تو اُس کی زبان سے فطری طورپر مذکوره قسم کے ربّانی الفاظ نکل پڑے۔

ایك تاریخی مثال

 سلطان عبد الرحمن الناصر (وفات961 ء) اسپین (اندلس) کا ایك مسلم حکمراں   تھا۔ اُس نے پچیس سال کی محنت سے قرطبه کے پاس ایك شان دار محل بنایا۔ یه محل چار میل لمبی اور تین میل چوڑی زمین میں   واقع تھا۔ اس محل کا نام اس نے الزّهرا رکھا۔ مگر غیر معمولی طورپر بڑا هونے کی وجه سے اس کو قصر الزهرا کے بجائے مدینۃ الزهرا کهاجانے لگا۔

سلطان عبد الرحمن الناصر کو عمارتوں   کا بهت شوق تھا۔ اس نے الزّهرا کے نام سے یه شاهی بستی بسائی اور اس میں   شان دار محل تعمیر کیے۔ اِن تعمیرات کے آخری دنوں   میں   سلطان اتنا مشغول رها که مسلسل تین جمعه میں   وه مسجد نه پهنچ سکا۔ چوتھے جمعه کو جب سلطان جامع مسجد پهنچا تو اس کی موجودگی میں   قاضی منذر (وفات966 ء) نے جو خطبه دیا، اُس میں   نام لیے بغیر سلطان پر سخت تنقید کی گئی تھی۔

قاضی منذر نے ایسی آیتیں   پڑھیں   جن میں   دنیا میں   عمارتیں   کھڑی کرنے اور آخرت سے غافل هوجانے پر وعیدیں   تھیں  ۔ مثلاً— کیا تم هر بلندی پر عبَث یادگاریں   تعمیر کرتے هو اور شان دار محل بناتے هو گویا که تم کو همیشه اِسی دنیا میں   رهنا هے۔ اور جب تم کسی پر حمله کرتے هو تو جبّارانه حمله کرتے هو۔ پس الله سے ڈرو اور میری بات مانو (26:128-131)، تمھارا کیا خیا ل هے که بهتر انسان وه هے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی هو، یا وه جس نے اپنی عمارت ایك وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر پر اٹھائی اور وه عمارت اُس کو لے کر جهنم کی آگ میں   جاگری۔ ایسے ظالم لوگوں   کو الله کبھی سیدھی راه نهیں   دکھاتا۔ یه عمارت جو انھوں   نے بنائی هے، همیشه اُن کے دلوں  میں   بے یقینی کی جڑ بنی رهے گی، یهاں   تك که اُن کے دل ٹکڑے ٹکڑے هوجائیں  ۔ اور الله علیم اور حکیم هے(9: 109-110)۔

اِسی طرح قاضی منذر نے اِس مضمون کی بهت سی حدیثیں   سنائیں   اور ان کی تشریح کی۔ اپنے خطبے میں   اگرچه انھوں   نے سلطان کا نام نهیں   لیا، مگر مسجد کا هر نمازی سمجھ رها تھا که اِن سخت تنقیدوں   کا مخاطب کون هے اور وه کس کے اوپر پڑ رهی هیں  ۔

تنقید، یوں   بھی آدمی کے اوپر بهت سخت هوتی هے اور جب مجمعِ عام میں   کسی پر تنقید کی جائے تو وه اور بھی زیاده ناگواری کا باعث هوتی هے۔ مزید یه که یه تنقید ایك ماتحت کی زبان سے اپنے حاکم کے اوپر تھی۔ اور جب کوئی حاکم اپنے ماتحت کو تنقید کرتے هوئے سنتا هے تو اس پر کبر کا سخت دَوره پڑتا هے۔ بڑے بڑے شریف اور دین دار لوگ بھی اُس وقت قابو سے باهر هوجاتے هیں  ، مگر سلطان نے حد درجه ضبط سے کام لیا۔ اگرچه سلطان پر اس تنقید کا بهت زیاده اثر تھا، مگر وه مسجد میں   کچھ نه بولا اور نماز کے بعد خاموشی سے اٹھ کر باهر آگیا۔

گھر پهنچ کر سلطان نے اپنے لڑکے الحکم سے کها که آج قاضی منذر نے مجھ کو بهت سخت تکلیف دی۔ اب میں   نے طے کرلیا هے که میں   اُن کے پیچھے کبھی جمعه کی نماز نهیں   پڑھوں   گا۔ الحکم نے کها:قاضی منذر کا امام هونا یا نه هونا آپ کے اختیار میں   هے، آپ اُن کو معزول کردیجیے اور اُن کی جگه دوسراکوئی امام مقرر کردیجیے، جو ایسی گستاخی نه کرے۔ یه سن کر سلطان غصے میں   آگیا۔ اُس نے اپنے لڑکے کو ڈانٹ کر کها:تمھارا بُرا هو، ایك شخص جو هدایت سے دور هے اور راستے سے بھٹکا هوا هے، کیا اُس کی خوشی کی خاطر قاضی منذر جیسے خوبیوں   والے آدمی کو معزول کردیا جائے گا۔ یه بات کبھی نهیں   هوسکتی (هذا ما لا یکون

 مجھے اُن کی باتوں   سے چوٹ لگی، اِس لیے میں   نے اُن کے پیچھے جمعه نه پڑھنے کی قسم کھالی۔ میری خواهش هے که اِس قسم کے کفّارے کی کوئی صورت نکل آئے۔ تاهم قاضی منذر هماری زندگی میں   اور اپنی زندگی میں   لوگوں   کو نماز پڑھاتے رهیں   گے:بل یصلّی بالناس حیاتنا وحیاته إن شاء اللّٰه  تعالیٰ(تاریخ قُضاۃ الأندلس،صفحه 70)، چنانچه قاضی منذر بدستور جمعه کی نماز پڑھاتے رهے۔ عبد الرحمن الناصر کے انتقال کے بعد اُس کے لڑکے نے بھی اُن کے مقام کو اُسی طرح باقی رکھا۔

اوپر جس واقعے کا ذکر هوا، اُس میں   بهت بڑا سبق هے۔ اِس سے معلوم هوتاهے که کسی انسان کی وه مطلوب صفات کیا هیں  ، جو اگر کسی کے اندر هوں   تو اُس کو یه خوش قسمتی حاصل هوتی هے که وه خدا سے ایسی دعا کر سکے جس کو اسمِ اعظم کے ساتھ کی جانے والی دعا کهاجاتا هے۔

اسمِ اعظم کے ساتھ دعا میں   اگر پچاس فی صد اسمِ اعظم کا حصه هے تو پچاس فی صد خود دعا کرنے والے کی ربّانی استعداد کا حصه هے۔ یه ربّانی استعداد قاضی منذر اور سلطان عبد الرحمن دونوں   کے اندر کم وبیش موجود تھی، اِس لیے اُن کے ساتھ ایك عظیم دعا کی تاریخ شامل هوگئی۔ حسب ذیل واقعه اِس معاملے میں   ایك چشم کُشا مثال کی حیثیت رکھتا هے۔

بارش شروع هوگئی

سلطان عبد الرحمن الناصر کے زمانے میں   ایك بار اسپین میں   قحط پڑا۔ بهت سخت حالات پیدا هوگئے۔ سلطان نے اپنا ایك خاص آدمی قاضی منذر کے پاس بھیجا اور درخواست کی که آپ استسقاء کی نماز پڑھائیں   اور دعا کریں   که الله تعالیٰ اپنی رحمت سے بارش برسائے۔ قاضی منذر نے سلطان کے قاصد سے پوچھا که سلطان نے میرے پاس دعا کاپیغام بھیجا هے مگر وه خود کیا کررهے هیں  ۔

قاصد نے کها: آج سے زیاده هم نے کبھی ان کو الله سے ڈرنے والا نهیں   پایا۔ ان کا حال یه هے که وه حیران و پریشان هیں  ۔ تنهائی میں   پڑے هوئے هیں  ۔ میں   نے دیکھا که وه مٹی کے فرش پر سجدے میں   گرے هوئے تھے۔ اُن کی آنکھوں   سے آنسو رواں   تھے۔ وه اپنے گناهوں   کا اعتراف کررهے تھے اور الله سے کهه رهے تھے:خدایا! میری پیشانی تیرے هاتھ میں   هے۔ کیا تو میرے گناهوں   کی وجه سے لوگوں   کو عذاب دے گا، حالاں   که تو سب سے زیاده رحم کرنے والا هے (هذه ناصیتی بیدك، أتراك تعذِّب بیَ الرّعیّۃ، وأنت أرحم الراحمین

یه سن کر قاضی منذر کے چهرے پر اطمینان ظاهر هوگیا۔ انھوں   نے قاصد سے کها:اپنے ساتھ بارش لے کر واپس جاؤ، اب ضرور بارش هوگی۔ کیوں   که زمین کا حاکم جب تضرع کرتاهے توآسمان کا حاکم ضرور رحم فرماتا هے (إذا خشع جبّار الأرض، رحم جبّار السماء) چنانچہ ایساهی هوا۔ قاصد واپس هو کر گھر پهنچاتھاکه بارش شروع هوگئی (الکامل فی التاریخ، جلد 8، صفحه 675 )۔

زمین پر خشك سالی اِس لیے آتی هے، تاکه آنکھوں   کی خشك سالی ختم هو۔ آسمان پر بادل اِس لیے گرجتے هیں  ، تاکه لوگوں   کے دل خدا کے خوف سے دهلیں  ۔ گرمی کی شدت اِس لیے هوتی هے، تاکه لوگ جهنم کی آگ کو یاد کرکے تڑپ اٹھیں  ۔

اِس طرح کے واقعات کا نهایت گهرا تعلق، اسماءِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم کے معاملے سے هے۔ یهی وه واقعات هیں   جو انسان کے اندر ربّانی کیفیات کی پرورش کرتے هیں  ، اور جس سینے کے اندر ربّانی کیفیات کا یه چشمه جاری هوجائے، وهی وه انسان هے جس کو اسماءِ حسنیٰ کی معرفت هوتی هے اور اُسی کو یه توفیق ملتی هے که وه اسمِ اعظم کے ساتھ خداوندِ عالم کو پکارے اور اُس کی پکار ضرور سنی جائے۔

ذاتی تجربات

خدا کے فضل سے مجھ کو اِس قسم کے تجربے بار بار پیش آئے هیں  ۔ 30   دسمبر 2006 کو میں   اپنی ٹیم (سی پی ایس) کے کچھ افراد کے ساتھ نئی دهلی کے لودھی گارڈن میں   گیا۔ یه گویا که هماری اسپریچول آؤٹنگ(spiritual outing) تھی۔ اِس موقع پر میرے دل سے ایك دعا نکلی، جو میری فهم کے مطابق، اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی ایك مثال هے۔

جب هم لوگ لودھی گارڈن کے اندر پهنچ گیے تو میں   نے اپنی ٹیم کے افراد سے پوچھا که آپ لوگ جب یهاں   پهنچے تو آپ کا پهلا احساس کیاتھا۔ لوگوں   نے مختلف انداز سے اپنے اپنے تجربے بتائے۔ پھر میں   نے کها که جب میں   اِس خوب صورت گارڈن کے اندر داخل هوا تو مجھے ایسا محسوس هوا جیسے که میں   جنت کو دور سے دیکھ رها هوں  ۔ یه خوب صورت گارڈن میرے لیے جنت کا ایك بعید تعارف بن گیا۔

میں   نے اشك بار آنسوؤں   کے ساتھ کهاکه خدایا، تو نے مجھے ناقص جنت میں   پهنچا دیا، اب تو اپنی رحمت سے مجھے کامل جنت میں   بھی داخل کردے۔ میں   نے کها که خدایا، میں   اور میرے ساتھی، پوری انسانی تاریخ میں  ، جنت کے لیے سب سے زیاده غیر مستحق لوگ(least deserving candidates) هیں  ۔ اگر تو همارے کامل عدم استحقاق کے باوجود هم کو اپنی جنت میں   داخل کردے تو یه واقعه تیری شانِ رحمت کے ایك نئے اظهار کے هم معنیٰ هوگا۔ سارے زمین اور آسمان اور تمام فرشتے یه دیکھ کر حیران هوجائیں   گے که خدا کی رحمتوں   کا سمندر اتنا وسیع تھا که همارے جیسے آخری حد تك غیر مستحق افراد بھی تیری رحمتِ بے پایاں   کے فیض سے محروم نه رهے، تیری رحمتِ بے پایاں   کتنی وسیع تھی که وه تاریخ کے اِن نااهل ترین افراد تك کا احاطه کررهی تھی۔

لقد أُوتیتَ سُؤلك یا موسیٰ

غالباً 1962  کی بات هے۔ مجھے اعظم گڑھ کے ایك قصبه (اَن جان شهید) کے ایك اجتماع میں   شرکت کا موقع ملا۔ اِس اجتماع میں   مسلم حضرات شریك تھے۔ مجھے پیشگی طورپر معلوم نه تھا که مجھ کو اِس اجتماع میں   خطاب کرنا هے۔ کچھ لوگوں   نے اچانك مجھے اسٹیج پر لے جاکر کھڑا کردیا۔ میرے لیے یه ایك مجبورانه خطاب کا معامله تھا۔ یه غالباً پهلا موقع تھا جب که مجھے خطاب کے معاملے میں   کامل عجز کا تجربه هوا۔ اس سے پهلے میں   نے بار بار اجتماعات میں   خطاب کیا تھا، مگر یه تمام خطابات تحریری مقالے کی صورت میں   تھے۔ مجھے پیشگی طورپر پروگرام کا علم هوتا تھا اور میں   مقاله لکھ کر اس کو وهاں   پڑھ دیتا تھا۔

مگر اِس بار ایسی صورت پیش آئی که مجھے لازمی طورپر بولنا بھی تھا اور کسی پیشگی تیاری کے بغیر زبانی طورپر خطاب کرناتھا۔ اُس وقت اچانك میرے اندر وه ذهنی بھونچال کی کیفیت پیدا هوئی جس کو نفسیاتی اصطلاح میں   برین اسٹارمنگ(brain storming) کها جاتا هے۔ اُس وقت میرے لیے کسی آزادانه انتخاب کا موقع نه تھا۔

میں   نے خدا کو یا د کیا اور دیوانگی کے عالم میں   اچانك بولنا شروع کردیا۔ حاضرین کے سامنے مائك پر بولتے هوئے میں   نے کها که —قرآن میں   پیغمبروں   کے قصے بتائے گئے هیں  ، لیکن یه تاریخی کهانی کے طورپر نهیں  ، بلکه وه همارے حال کے لیے ایك زنده سبق کی حیثیت رکھتے هیں  ۔ اِسی میں   سے ایك واقعه یه هے که خدا نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا که وه مصر کے جابر بادشاه کے دربار میں   جائیں   اور وهاں   اُس کے سامنے توحید کی دعوت پیش کریں  ۔

حضرت موسیٰ نے کها که:وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي (26:13)۔ یعنی خدایا، میرا سینه تنگ هو رها هے اور میری زبان چلتی نهیں   ۔ پھر انھوں   نے قادرِ مطلق خدا کی توفیق سے یه دعا کی که:رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي،يَفْقَهُوا قَوْلِي (20:25-28)یعنی اے میرے رب، میرے لیے میرا سینه کھول دے اور میرے لیے میرے معاملے کو آسان کردے۔ اور تو میرے زبان کی گره کو کھول دے تاکه لوگ میری بات کو سمجھیں   ۔

میں   نے کها که حضرت موسیٰ نے جب اس طرح خدائے سمیع و بصیر کو پکارا تو ان کی دعا سیدھے عرشِ الٰهی تك پهنچ گئی اور وهاں   سے آواز آئی :قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَى(20:36)۔ یعنی اے موسی، تم نے جو سوال کیا، وه تم کو دے دیاگیا ۔

اس کے بعد میں   نے دیوانگی کے عالم میں   کها که یه واقعه کوئی ماضی کی سرگزشت نهیں  ، یه واقعه آج بھی اسی طرح زنده هے، جس طرح خدائے حی و قیوم زنده موجود هے۔ آج بھی اگر کوئی خدا کا بنده خدا کو پکارے اور کهے که خدایا، میرا سینه تنگ هورها هے اور میری زبان چلتی نهیں   تو آج بھی اُس کی یه آواز خدائے سمیع و بصیر تك پهنچے گی اور وهاں   سے آواز آئے گی که اے میرے بندے، تم نے جو سوال کیا وه تم کو دے دیا گیا۔ میں   یه کهه رها تھا اور میری آنکھ سے آنسو نه تھمنے والے مینھ کی طرح برس رهے تھے۔ اس کے بعد میں   نے بے اختیارانه انداز میں   بولنا شروع کیا اور مسلسل بولتا رها۔

یه واقعه میرے لیے اِس معاملے میں   ایك بریك تھرو(breakthrough) کی مانند تھا۔ اس کے بعد میں   نے تقریری مقاله لکھنا چھوڑ دیا اور برجسته انداز میں   بولنا شروع کردیا۔ اس کے بعد میں   نے انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باهر سیکڑوں   اجتماعات میں   شرکت کی اور لمبی لمبی تقریریں   کیں  ۔ یه بلاشبه اَن جان شهید کے اجتماع والی دعا کا کرشمه تھا۔

میری سمجھ کے مطابق، یه دعا اسم اعظم کے ساتھ کی هوئی دعا تھی۔ اس سے پهلے میں   گویا ایك بے زبان انسان تھا۔ میرے مرحوم عزیز مولانا اقبال احمد سهیل (وفات1955) مجھ کو بچپن میں   ’’مرزاپھویا‘‘ کها کرتے تھے۔ مذکوره واقعے کے بعد میں   جس طرح اجتماعات میں   بولنے لگا، اُس کی کوئی بھی توجیهه دعا کے سوا نهیں   کی جاسکتی۔

تو میرے لیے پلے بیك اسپیکر بن جا

ایك بار میں   ایك مغربی ملك کے سفر پر تھا۔ اِس دوران مجھے ایك اجتماع میں   خطاب کے لیے بلایا گیا۔ بلانے والے نے مجھ سے یه نهیں   بتایا تھا که مجمع کی نوعیت کیا هوگی، اس نے صرف یه بتایا تھا که یه پڑھے لکھے لوگوں   کا مجمع هوگا۔ کسی غلط فهمی کی بنا پر میرے ذهن میں   یه آگیا که وهاں   هندستان اور پاکستان کے لوگ هوں   گے اور مجھے وهاں   اردو میں   خطاب کرناهوگا۔

یه رات کا وقت تھا۔ جب میں   وهاں   پهنچا تو میں   نے دیکھا که ایك صاف ستھرے هال میں   بهت سے لوگ بیٹھے هوئے هیں  ۔دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا که یه سب انگریزی داں   لوگ هیں  ۔ ان کو مجھے انگریزی میں   خطاب کرنا هے، کیوں   که وه لوگ اردو نهیں   سمجھ سکتے۔یه خبر میرے لیے ایسی تھی جیسے کسی کے اوپر اچانك بجلی گر جائے۔ اس سے پهلے میں   نے انگریزی زبان میں   پیشگی طورپر تیار کیے هوئے مقالے پڑھے تھے، لیکن برجسته طورپر انگریزی میں   میں   نے کبھی خطاب نهیں   کیا تھا۔

هال کے ساتھ وهاں   ایك سائڈ روم تھا۔ میں   سراسیمگی کے عالم میں   اس سائڈ روم میں   گیا۔ میں   نے اندر سے دروازے کو بند کرلیا۔ اور وضو کرکے دورکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی۔ اس کے بعد میں   نے دعا کے لیے هاتھ اٹھائے تو میری آنکھوں   سے آنسواِس طرح بهه رهے تھے جیسے که پانی کا نل کھل گیا هو۔

میں   نے روتے هوئے کها که خدایا، یهاں   ایك عاجزِ مطلق کو قادرِ مطلق کی ترجمانی کرنی هے۔ آپ اگر چاهیں   تو پتھروں   کو حکم دیں   اور وه چلا کر آپ کی بات کا اعلان کریں  ۔ آپ اگر حکم دیں   تو درخت اپنی خاموشی کو توڑ کر انسانوں   سے خطاب کریں  ۔ اگر آپ حکم دیں   تو زمین اور آسمان، وه سب کچھ بولیں   جو انسان کو بولنا تھا، مگر وه نه بول سکا۔ لیکن خدایا، آپ خود اپنے قانونِ امتحان کی بنا پر ایسا نهیں   کرسکتے۔ اِس لیے آپ کے سامنے اس کے سوا کوئی اور انتخاب نهیں   که آپ میرے جیسے عاجز انسان کی وه مدد کریں   جو اس سے پهلے آپ نے کسی اورکی نهیں   کی۔

خدایا! میں   آپ کے تمام اسماءِ حسنیٰ کا واسطه دے کر آپ سے دعا کرتا هوں   که آپ میرے لیے پلے بیك اسپیکر (playback speaker)بن جائیں  ۔ آپ بولتے جائیں   اور میں   اس کو دهراتا جاؤں  ۔ آپ خاموشی کی زبان میں   مجھ کو بتائیں   اورمیں   نُطق کی زبان میں   اس کو دوسروں   کے سامنے پیش کروں  ۔ خدایا، اگر میں   اِس موقع پر نه بولوں   تو یه میرے لیے ’فرارمن الزَّحف‘ کے هم معنیٰ هوگا۔ اور اگر آپ میری مدد نه کریں   تو اُس بات کا اعلان نه هوسکے گاجس کا اعلان آپ کی سب سے زیاده مطلوب چیز هے۔ خدایا، یه وه لمحه هے جب که نه میرے لیے کوئی دوسرا انتخاب هے اور نه آپ کے لیے کوئی دوسرا انتخاب۔ خدایا، یه وه لمحه هے جب که بندے کاعجز اور خالق کی قدرت دونوں   ایك سطح پر آگیے هیں  ۔ ایسی صورت میں   نه میرے لیے واپسی کا موقع هے اور نه آپ کے لیے مجھ کو نظر انداز کرنے کاموقع۔

یه دعا کرکے میں   باهر آیا اور هال کے اندر مقرر کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پورا هال سامعین سے بھرا هوا تھا۔ یهاں   صرف مجھ کو تقریر کرنا تھا۔ میں   نے دیوانگی کے عالم میں   بولنا شروع کیا۔ اور تقریباً ایك گھنٹے تك انگریزی میں   بولتا رها۔ میں   نے پوری تقریر برجسته طورپر اور روانی کے ساتھ کی۔ تقریر کے خاتمے پر اعلان کیاگیا که کوئی صاحب سوال کرنا چاهیں   تو سوال کرسکتے هیں  ، لیکن مجمع کی طرف سے کوئی سوال نه آیا۔ ایك صاحب نے بتایا که تمام لوگ آپ کی انگریزی تقریر سے اِس قدر مسحور تھے که وه اپنے اندر سوال کرنے کی جرأت نه پا سکے۔

اِس تجربے کے بعد میری زندگی میں   غیر متوقع طورپر ایك نیا دَور آیا، جب که میں   برجسته طورپر انگریزی زبان میں   بولنے لگا۔ انگریزی میں   گفتگو، انگریزی میں   انٹرویو، انگریزی میں   تقریر۔ یه سب جو اِس سے پهلے میری زندگی میں   موجود نه تھا، اب وه عمومی طورپر میری زندگی میں   شامل هوگیا اور بفضله تعالیٰ تادمِ تحریر (30 اگست 2007 ) جاری هے۔

آزادیٔ هند (1947) کے بعد جب میں   نے خصوصی طورپر انگریزی سیکھنا شروع کیا تو هر ایك میری حوصله شکنی کرتا تھا۔ میرے بڑے بھائی عبد العزیز خاں   (وفات 1988)نے میرے انگریزی شوق کو دیکھ کر کها تھا:بڈھا طوطا کیا پڑھے گا۔ عام تجربے کے لحاظ سے، اُن کا ایسا کهنا بالکل درست تھا۔ لیکن خدا کی نصرت سے وه سب کچھ هوسکتا هے جو انسان سے نهیں   هوسکتا۔ میرے گمان کے مطابق، مذکوره دعا بلاشبه، اسمِ اعظم کے ساتھ کی جانے والی دعا تھی اور اِسی دعا کا یه کرشمه تھا که ایك نه هونے والی بات واقعه بن کر لوگوں   کے سامنے آگئی۔

عصری اسلوب میں   اسلامی لٹریچر

پروفیسر محمد مجیب (وفات 1985 ) جامعه ملّیه اسلامیه (نئی دهلی) کے تین بڑے ستونوں   میں   سے ایك تھے۔ بقیه دو یه تھے:ڈاکٹر ذاکر حسین (وفات1969)، ڈاکٹر عابد حسین (وفات1978)۔ پروفیسرمجیب نهایت اعلیٰ تعلیم یافته تھے۔ اُن کو انگریزی زبان پر غیر معمولی قدرت تھی۔ انھوں   نے مستشرقین (orientalists)کا لٹریچر تفصیل کے ساتھ پڑھا تھا۔

غالباً 1970  کی بات هے۔ میں   جامعه ملیه کے کیمپس میں   پروفیسر مجیب سے ملا۔ اُس وقت پروفیسر انوار علی خاں   سوز (وفات1987( بھی میرے ساتھ تھے۔ گفتگو کے دوران پروفیسر مجیب نے خاص انداز میں   مجھ سے کها:مولوی صاحب، آپ جانتے هیں   که اِس زمانے میں   اسلام کی نمائندگی یهودی اسکالرکررهے هیں  ۔

اُن کا مطلب یه تھا که موجوده زمانے میں   ایك نیا اسلوبِ تحریر پیدا هوا هے۔ اِس اسلوبِ تحریر میں  ، مسلم علما اسلامی لٹریچر تیار نه کرسکے۔ البته تعلیم یافته یهودیوں   نے یه کام کیا۔ انھوں   نے وقت کے جدید اسلوب میں   اسلام کے مختلف موضوعات پر کتابیں   لکھیں  ۔ اِن کتابوں   میں  اگر چه اسلام کی تعلیمات کو بگڑی هوئی صورت میں   پیش کیاگیا هے، لیکن اسلوبِ تحریر کے اعتبار سے وه وقت کے اسلوب میں  هیں  ۔ اس لیے آج جو تعلیم یافته لوگ انگریزی زبان میں   اسلام کا مطالعه کرنا چاهتے هیں  ، وه اکثر اِنھیں   یهودی علما کی کتابوں   کا مطالعه کرتے هیں  ۔

میں   پروفیسر مجیب کی باتوں   کو سنتا رها۔ میں   نے ان کی باتوں   کا کوئی جواب نهیں   دیا، لیکن اُن کی بات کو سن کر میرے دماغ میں   ایك بھونچال آگیا۔میں   خاموشی کے ساتھ واپس آگیا اور پھر رات دن یه دعا کرنے لگا که خدایا، مجھے توفیق دیجیے که میں  آپ کے دین کو آج کے اسلوب میں  دنیا کے سامنے پیش کرسکوں  ، میں  عصری اسلوب میں   اسلام کا لٹریچر تیار کرسکوں  ۔

میں  اکثر کسی واقعے کا حواله دے کر دعا کرتا هوں  ۔ اِس معاملے میں   بھی میں  نے ایسا هی کیا۔ اصل یه هے که آزادی کے بعدیوپی میں  خاتمهٔ زمین داری کا قانون(zamindari abolition act) نافذ هوا۔ نیشنل گورنمنٹ کے تحت، یه قانون اِس اصول پر مبنی تھا که — جو جوتے، اُس کا کھیت۔

میرا خاندان یوپی کے اعظم گڑھ سے تعلق رکھتا تھا۔ همارا خاندان وهاں   کے بڑے زمین داروں   میں   سے ایك تھا۔ هماری زمینیں   زیاده تر کسانوں   کو دی هوئی تھیں  ، جو اُن کو جوتتے تھے اور لگان ادا کرتے تھے۔ خاتمهٔ زمیں   داری کے قانون کے مطابق، زمین دار کو اُس کی زمین واپس ملنے کی صرف ایك هی صورت تھی، وه یه که زمین کو جوتنے والا کسان تحریری طورپر زمین سے استعفا دے دے۔

هماری بیش تر زمینیں   کسانوں   کے پاس تھیں  ۔ یه کسان سب کے سب هندو لوگ تھے۔ هماری زمیں   داری کے مینیجربھی ایك هندو تھے، جن کا نام بھاؤ رام تھا۔ بھاؤ رام همارے خاندان کے نهایت وفادار ملازم تھے۔ انھوں   نے ایك طوفانی مهم چلادی که تمام کسان جو هماری زمینوں   کو جوتے هوئے تھے، وه تحریری استعفا دے دیں  ۔ بھاؤ رام نے اپنی رات دن کی کوشش سے ایك ایك کسان سے استعفا لکھوا لیا۔ همارے ساتھ استثنائی طورپر ایسا هوا که همارا کوئی بھی کھیت ایسا نه بچاجس کا تحریری استعفا حاصل نه کرلیا گیا هو۔

اُس زمانے میں   بھاؤ رام پر ایك دیوانگی طاری تھی۔ وه هم لوگوں   سے کهتے تھے که:بابو، جِم داری میں   داگ نه لگنے پائے (بابو، زمیں   داری میں   داغ نه لگنے پائے) میں   اِس واقعے کے حوالے سے خدا سے دعا کرنے لگا۔ میں   روتا تھااور یه کهتا تھا که خدایا، تیرے دین میں  ایك داغ لگ رها هے۔ تیرا دین اُس اسلوب میں   پیش نهیں   هورها هے جو آج کے جدید ذهن کو ایڈریس کرسکے۔ تو مجھے توفیق دے که میں   تیرے دین کے اِس داغ کو هٹاؤں  ، میں   وقت کے اسلوب میں   اسلام کو پیش کرسکوں  ۔میں   بے قرار دل اورا شك بار آنکھوں  کے ساتھ یه دعا کرتا تھا اور رات دن اپنی تیاری میں   مشغول رهتا تھا۔

اُس زمانے میں   میری بے قراری کا عالم یه تھا که ایك بار میں   دلّی پبلك لائبریری میں   گیا۔ وهاں   کے ریفرنس سیکشن میں   جاکر ریفرنس کی کتابوں   کو پڑھنے لگا۔ اُس وقت میری محویت کا یه عالم تھا که میں   قریب کی کرسی پر نه بیٹھ سکا۔ میں   الماری کے سامنے کھڑا تھا اور کتابیں   نکال نکال کر پڑھ رها تھا۔ یه سخت سردی کا زمانه تھا۔ چناں   چه مجھے سردی لگ گئی اور میں   بیمار هو کر تقریباً دو مهینے تك بستر پر پڑا رها۔

آج جب که میں   یه سطریں   لکھ رها هوں  ، میں   کهه سکتا هوں   که میں   نے خدا کی توفیق سے تقریباً هر اسلامی موضوع پر اتنی کتابیں   لکھی هیں، جو ایك تعلیم یافته انسان کے لیے وقت کے اسلوب میں   اسلام کا مؤثر تعارف پیش کرتی هیں  ۔مشرق اور مغرب دونوں   جگه کے اهلِ علم نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا هے۔

لوگوں   کا یه تاثر یهاں   تك پهنچا هے که دنیا کے مختلف حصو ں   میں   بهت سے تعلیم یافته لوگوں   نے میرے لٹریچر کو پھیلانے کے لیے اپنی زندگیاں   وقف کردی هیں  ۔ امریکا میں   مقیم کچھ تعلیم یافته مسلمانوں   نے اپنے ذاتی جذبے کے تحت ، میری تمام کتابوں   اور ماه نامه الرساله کو انٹرنیٹ کے ویب سائٹ پر ڈال دیا هے۔ اب دنیا کے کسی بھی حصے میں   کوئی آدمی میری تحریروں   کو اردو اور انگریزی میں   انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھ سکتا هے۔

اِسی طرح مصر کے کچھ عرب حضرات میری کتابوں   کو انٹرنیٹ پر ڈال رهے هیں  ۔ ان شاء الله، اب هر جگه میری عربی کتابیں   بھی انٹر نیٹ کی مدد سے پڑھی جاسکیں   گی۔ اِس کے علاوه، انڈیا میں   ایك پوری ٹیم نے اپنے آپ کو اِس مشن کے لیے وقف کردیا هے۔ اِس طرح یه کام اب هر دن عالمی سطح پر پھیل رها هے۔ اسی طرح کچھ تعلیم یافته لوگوں   نے اِس لٹریچر کو اتنی زیاده اهمیت دی که انھوں  نے محض ذاتی جذبے کے تحت، میری اردو اور انگریزی تقریروں   کو ٹی وی کے پروگرام میں   شامل کردیا۔ فجزاهم اللّٰه  خیرا الجزاء۔

’’عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر‘‘ کا وجود میں   آنا بلا شبه ایك غیر معمولی واقعه تھا۔ میرے جیسے عاجز اور بے حقیقت آدمی کے ذریعے یه واقعه پیش آیا۔ اِس واقعے کی اِس کے سوا کوئی اور توجیهه ممکن نهیں  که اسمِ اعظم کے ساتھ مانگی جانے والی دعا جو میرے بے قرار دل سے نکلی، اُس کو خدا نے قبول فرمایا اور اِس طرح اسلام کے جدید تعارف کا وه واقعه پیش آیاجو میرے جیسے انسان کے لیے ناقابلِ تصور تھا۔

ایك واقعه

24 اکتوبر 2006  کا واقعه هے۔ یه عید کا دن تھا۔ میں   اپنے گھر والوں   کے ساتھ نئی دهلی کی ایك مسجد میں   عید کی نماز ادا کرنے گیا۔وهاں   میں   مسجد کے ایك گوشے میں   تنها بیٹھا هوا تھا۔ میں   مسلسل رورها تھا اور بے قراری کے عالَم میں   دل کی زبان سے دعا کررها تھا۔ میری اِس حالت کو مولانا محمد ذکوان ندوی نے دیکھا۔ بعد کو انھوں   نے مجھ سے پوچھا که آپ کاکیا معامله تھا۔ اُن کے پوچھنے پر میں   نے بتایا که مجھے وه حدیث یاد آئی، جس میں   عید الفطر کے دن نماز کے لیے نکلنے والے اهلِ ایمان کا ذِکر هے۔ وه حدیث اِس طرح هے:

’’… فإذا کان یومُ عیدِهم، یعنی یومَ فِطرهم، باهیٰ بهم ملائکتَه، فقال:ملائکتی، ماجزائُ أجیرٍ وفّیٰ عملَه۔ قالوا:ربّنا، جزائُه أن یُوفّیٰ أجره۔قال:ملائکتی، عبیدی وإمائی قضوا فریضتی علیهم، ثمّ خرجوا یعُجُّون إلی الدّعاء، وعزّتی وجَلالِی وکَرمی وعُلوّی وارتفاعِ مکانی لأجیبنّهُم۔ فیقول:ارجعوا فقد غفرتُ لکم، وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات۔ قال:فیرجعون مغفوراً لهم(رواه البیهقي في شعب الإیمان،حديث نمبر3444)۔

ترجمهجب اُن کی عید کا دن آتا هے، یعنی عید فطر کا دن، تو الله تعالیٰ فرشتوں   کے سامنے اُن پر فخر کرتا هے۔ وه کهتا هےاے میرے فرشتو، اُس عامل کا اجر کیا هے جس نے اپنے عمل کو پورا کردیا۔ فرشتے کهتے هیں  که اے همارے رب، اُس کی جزا یه هے که اُس کو اُس کے عمل کا پورا بدله دے دیا جائے۔خدا کهتاهے که اے میرے فرشتو، میرے بندو ں   اور میری بندیوں   نے میرے اُس فرض کو ادا کردیاجو اُن پر تھا، پھر وه نکلے هیں   دعا کے ساتھ مجھ کو پکارتے هوئے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ، میرے کرم ، میرے عُلوِ شان اور میرے بلند مقام کی قسم، میں   ضرور اُن کی پکار کو سنوں   گا۔ پھر خدا کهتا هے کهتم لوگ واپس جاؤ، میں   نے تم کو بخش دیا اور میں   نے تمھارے سیّاٰت کو حسنات میں   بدل دیا۔ پس وه لوگ اِس طرح لوٹتے هیں   که اُن کی مغفرت هوچکی هوتی هے۔

آج کے دن کی نسبت سے یه حدیث مجھے یاد آئی۔ یه سوچ کر میرا دل بے قرار هوگیا که آج کے دن خدا لوگوں   کو بڑے بڑے انعام دے رهاهے، لیکن یه انعام عمل کرنے والوں   کے لیے هے اور میرے پاس کوئی عمل نهیں  ۔

پھر مجھ کو سرسید احمد خاں   (وفات1898 ) کا ایك واقعه یاد آیا۔ وه اپنے محمڈن کالج (موجوده علی گڑھ یونیورسٹی) کے چندے کے لیے ایك مسلم نواب کے یهاں   گیے۔ نواب صاحب سرسید کے بعض خیالات پر ان سے بهت غصه تھے۔ انھو ں  نے سرسید سے ملنے سے انکار کردیا، مگر سرسید مایوس نهیں   هوئے۔ ان کو معلوم تھا که شام کو نواب صاحب اپنی گھوڑا گاڑی پر سیر کے لیے نکلتے هیں  ۔ اُس وقت ان کی کوٹھی کے سامنے بھکاری لوگ بیٹھ جاتے هیں  ۔نواب صاحب هر ایك کو کچھ نه کچھ دیتے هوئے آگے چلے جاتے هیں  ۔

سرسید شام کے وقت وهاں   پهنچے اور بھکاریوں   کی صف میں   اِس طرح بیٹھ گیے که اپنی ٹوپی کو کاسهٔ گدائی کی طرح اپنے سامنے رکھ لیا۔ نواب صاحب حسب معمول اپنی گھوڑا گاڑی پر نکلے۔ انھوں   نے دیکھا که سرسید بھکاریوں   کی صف میں   بیٹھے هوئے هیں  ۔ یه دیکھ کر نو اب صاحب کو تعجب هوا۔ انھوں  نے کها که سید تم یهاں   کهاں  ۔ سرسید نے جواب دیا که— نواب صاحب، اگر آپ مجھے چنده نهیں   دے سکتے تو بھیك تو دے سکتے هیں  ۔اس بات کا نواب صاحب پر بهت اثر پڑا۔ وه اپنی گاڑی سے اتر پڑے اور سرسید کو لے کر اپنی کوٹھی کے اندر گیے۔ ان کو عزت کے ساتھ بٹھایا اور ان کو کالج کے لیے کافی چنده دیا۔

میں  نے اس واقعے کو لے کر کها که خدایا، اگر میں   عمل کی بنیاد پر کچھ پانے کا مستحق نهیں   تو بھیك کے طورپر تو مجھے اپنا انعام عطا کردے، کیوں   که تو نے قرآن میں   جس طرح عامل کو عطیه کا مستحق قرار دیا هے، اِسی طرح تو نے سائل کو بھی عطیه کا مستحق بتایا هے۔ اگر تو انسان سے یه چاهتا هے که وه عامل کو دینے کے ساتھ سائل کو بھی دے تو یقینا میں  امید کرسکتا هوں   که تو خود بھی میرے ساتھ اِسی طرح کا معامله فرمائے گا۔

میں   سمجھتا هوں   که یه بھی اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی ایك مثال هے، جس کی توفیق مجھے خدا کی خصوصی رحمت کے تحت حاصل هوئی۔ جهاں   تك میرا تجربه هے، اسمِ اعظم کے ساتھ دعا نه تو کسی یاد کیے هوئے الفاظ کو دهرانے کا نام هے اور نه خود انسان پیشگی طورپر سوچ کر اِس قسم کی دعا کرسکتا هے۔ اِس قسم کی دعا براهِ راست خدا کی توفیق سے هوتی هے اور وه اچانك هی انسان کے سینے سے اُبل پڑتی هے، جیسے کوئی جواله مُکھی پهاڑ اچانك پھٹ پڑے، حالاں   که موسمیات کے ماهرین نے اس کی پیشین گوئی نه کی هو۔

 

99 اسماءِ حسنیٰ

اللہ

الرحمٰن

الرحیم

الملک

القدوس

السلام

المؤمن

المُهَیمن

العزیز

الجبّار

المتکبّر

الخالق

البارئ

المصوّر

الغفّار

القهّار

الوهّاب

الرزّاق

الفتّاح

العلیم

القابض

الباسط

الخافض

الرّافع

المُعِزّ

المُذِلّ

السّمیع

البصیر

الحَکَم

العدْل

اللطیف

الخبیر

الحلیم

العظیم

الغفور

الشکور

العلي

الکبیر

الحفیظ

المُقیت

الحسیب

الجلیل

الکریم

الرّقیب

المجیب

الواسع

الحکیم

الودود

المجید

الباعث

الشهید

الحق

الوکیل

القویّ

المتین

الوليّ

الحمید

المُحصي

المُبدیٔ

المعید

المحیی

المُمیت

الحيّ

القیّوم

الواجد

الماجد

الواحد

الصّمد

القادر

المقتدر

المقدّم

المؤخّر

الأوّل

الاٰخِر

الظاهر

الباطن

الوالي

المتعالي

البَرّ

التّواب

المُنتقِم

العفُوّ

الرّؤوف

المُقسِط

مالك المُلك

ذُوالجلال والإکرام

الجامع

الغنيّ

المُغني

المانع

الوارث

الرّشید

الصّبور

الضّارّ

النّافع

النّور

الهادي

البدیع

الباقي

فتح الباري شرح صحیح البخاري، جلد 11، صفحہ 220