اوراق حکمت (Auraq-e-Hikmat)

By
Maulana Wahiduddin Khan

اوراقِ حکمت

 

مولانا وحیدالدین خاں

 

پیش لفظ

ڈائری کا مقصد عام طور پر ذہن میں آنے والے مختلف خیالات کو درج کر لینا ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف تجربات ہمیں مختلف احساسات سے گزارتے ہیں۔اس سلسلے میں ڈائری ایک قابلِ‌بھرو‌سہ ساتھی ثابت ہو سکتی ہے۔ تجرباتِ زندگی کو ڈائری میں درج کر لینے سے وہ آپ کے پاس رہتے ہیں۔ ڈائری لکھنے کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو کتنا ڈیولپ کیا ہے۔ یہ چیز ایک انسان اپنی ڈائری کے ذریعے بخوبی معلوم کرسکتا ہے۔

عام طور پر یہ کام لوگ نوٹ پیڈ والی ڈائری میں کرتے ہیں۔ حالانکہ اب ڈیجیٹل دور میں بہت سے لوگ لیپ ٹاپ، فون یا آئی پیڈ میں بھی لکھنا پسند کرتے ہیں۔ مولانا کا معمول ڈائری لکھنے کا رہاہے۔ وہ دوسروں کو بھی ڈائری لکھنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ بلکہ کئی لوگوں کو اپنی طرف سے ڈائری دی تھی تاکہ وہ ڈائری لکھنا شروع کریں۔ پہلے مولانا متفرق طور پر یاد داشتیں لکھ لیا کرتے تھے۔ لیکن یکم جنوری 1983سے انھوں نے مستقل طور پر ڈائری maintain کی ہے۔وہ بلاناغہ ہر روز ڈائری کا ایک صفحہ لکھتے تھے، یا بعد کے زمانے میں لکھوایا کرتے تھے۔ اس طرح مولانا کی ڈائریوں کا ایک بڑا ذخیرہ اکٹھا  ہو گیا ہے۔اسی کے ایک جزء(ڈائری 1985) کو پہلے الرسالہ کے مختلف شماروں میں متفرق طور پر شائع کیا گیا تھا،اب اوراقِ حکمت کے نام سےاس کو کتاب کی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔

یہ ’’ڈائری‘‘ معروف معنوں میں مولاناکی ذاتی زندگی کا کوئی روزنامچہ نہیں ہے۔ اس کومولانا کے فکری سفرکا روزنامچہ کہا جاسکتا ہے۔ اکثر لوگ ملاقات کے لیے آتے تھے، ان سے بات چیت کے دوران کوئی سبق آموز واقعہ معلوم ہوتا تو مولانا اس کو اسی وقت ڈائری میں ریکارڈ کرلیتے تھے۔ کئی بار مجھے ڈکٹیشن (dictation)دیتے تھے۔ اس طرح مختلف قسم کے تجربات ڈائری کے صفحوں پر محفوظ ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ڈائری ان سبق آموز واقعات کا ایک مجموعہ ہے، جو مولانا نے مختلف طریقوں سے اخذ کیا ہے۔

ڈاکٹر فریدہ خانم

1 اکتوبر 2021، نئی دہلی

1 جنوری 1985

مولانا عبد الرشید ندوی نے ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک بڑے دینی ادارے کا ایک وفد برماگیا۔ اس وفد میںکئی بڑے علما اور دوسرے بڑے مسلم رہنما شامل تھے۔ اُس زمانے میں ہندستان کے دینی ادارے چندہ (donation)کے لیے برما اور ملایا (Malaya) جایا کرتے تھے۔

 اس وقت ہندستان کے لوگ کثیر تعداد میں وہاں رہتے تھے،لیکن ان میں اکثریت بدعتی خیال لوگوں کی تھی۔ یہ وفد جب رنگون پہنچا توان لوگوں نے پوسٹروں وغیرہ کے ذریعے خوب مشہور کیا کہ یہ وہابی ہیں، یہ کافر ہیں، وغیرہ۔ ان کو ہر گزچندہ نہ دیا جائے۔ جو چندہ دے گا وہ گنہ گار ہوگا۔ بدعتی طبقہ کے پروپیگنڈوں سے فضا بہت خراب ہوگئی۔

تاہم جلسہ کیاگیا۔ سب سے پہلے ایک مقرر آئے۔ ان کے نام میں سلیمان لگا ہوا تھا۔ وہ بہت خوش بیان مقرر تھے۔ انھوں نے کہاکہ بھائیو، اور لوگوں کو تو تم جانو اور وہ جانیں۔ مگر جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پہلے ہی براءت اتاردی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ آیت موجود ہے:وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا(2:102)۔ یعنی سلیمان نے کفر نہیں کیا، بلکہ یہ شیاطین تھے جنھوں نے کفر کیا۔

وہ بہت خوش گلو تھے۔ انھوںنے قرآن کی آیتیں پڑھیں ۔ مولانا روم (1207-1273ء) کے اشعار سنائے۔ اب فضا بالکل بدل گئی۔ آخر میں انھوں نے لوگوں کو کھڑا کرکے سلام پڑھوایا۔ اس کے بعد بالکل تصدیق ہوگئی کہ یہ لوگ ’’وہابی‘‘ نہیں ہیں۔اس کے بعد رنگون میں خوب چندہ ہوا۔ تیرہ لاکھ روپیے جمع ہوئے۔لوگوں کی مایوسی دوبارہ خوشی میں تبدیل ہوگئی۔

عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس قسم کے الفاظ بولنا جانتے ہوں۔ تاہم یہ مقبولیت وقتی ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعہ کوئی گہرا تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔

2 جنوری 1985

علم حساب کے ایک ماہر نے کہا ہے:

I can prove anything by statistics— except the truth.

یعنی میں حساب اور شماریات کے ذریعے ہر چیز کو ثابت کرسکتا ہوں سوائے سچائی کے۔ شماریات کا علم موجودہ زمانے میں بہت ترقی کرگیا ہے۔ شماریات کی زبان میں کوئی بات کہہ دی جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کو واقعہ کی زبان میں کہہ دیا گیا۔ حالاں کہ یہ محض گنتیوں کا ایک شعبدہ ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شماریات سے ثابت شدہ چیز کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

کوئی چیز گنتی کی زبان میں ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حقیقت کے طورپر بھی ثابت ہوگئی۔

3 جنوری 1985

ایک صاحب دفتر میں تشریف لائے۔ انھوں نے کہا کہ میں الرسالہ میں مضمون شائع کروانا چاہتا ہوں۔اس کی کیا شرائط ہیں۔ میںنے کہاآپ دس سال عربی پڑھیے۔ دس سال انگریزی پڑھیے۔ دس سال لکھنے کی مشق کیجیے۔ اس کے بعد آپ کا مضمون الرسالہ میں شائع ہوجائے گا۔ اس کو سن کر وہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔

آج کل مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کیے بغیر نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور محنت کے بغیر کسی نتیجہ کا اس دنیا میں ملنا ممکن نہیں ہے۔لکھنا مشکل ترین آرٹ ہے۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جو شخص بھی قلم پکڑنا جانتا ہو، وہ سمجھتا ہے کہ میں لکھنا بھی جانتا ہوں۔چنانچہ غیر معیاری مضامین اور غیر معیاری کتابوں کی بھرمار ہورہی ہے۔ اس کے برعکس، معیاری کتابیں بہ مشکل ہی دیکھنے میںآتی ہیں۔

5 جنوری 1985

انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جو شخص حکومت کو چیلنج کرے وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ یہ عوامی مقبولیت ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔یہی معاملہ مسلم ورلڈ میں بھی پیش آیا۔ چنانچہ واقعہ بتاتا ہے کہ بہت سے مسلم دینی رہنما اس قسم کی تحریکوں کے ذریعے عوام کے اندر مقبول ہوگئے۔ مگرعوامی مقبولیت حاصل کرتے ہی وہ بدل گئے۔

اب غور کیجیے کہ جو رہنما عوامی مقبولیت کے مقابلے میں بااصول بن کر قائم نہ رہ سکا، وہ اقتدار کے مقابلہ میں کیسے قائم رہے گا۔

7 جنوری 1985

ایک صاحب نے بتایا کہ ان سے کسی نے میرے بارے میںکہا کہ ان کا کیا کہنا ہے۔ وہ تو اب فلاں صاحب کے ٹکر کے ہوگئے ہیں، یعنی مادی اعتبار سے۔

کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو آدمی کو اس سے ناپتے ہیں کہ اس کے پاس بلڈنگ اور کار وغیرہ ہے یا بلڈنگ اور کار وغیرہنہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ سادہ سی بات نہیںہے۔ یہ دراصل دوزخ کی اصطلاحوں میں سوچنا ہے۔ ایسے لوگ دوزخ کے مومنین ہیں۔ اگر چہ خوش فہمی کے تحت وہ اپنے آپ کو جنت کے مومنین میں شمار کرتے ہیں۔

8 جنوری 1985

ایک عیسائی پادری تشریف لائے۔ان کا نام اور پتہ درج ذیل ہے:

REV John, Preacher in Church of God, Sector 33, Chandigarh

دوران گفتگو میںنے کہا کہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کفارہ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ کفارہ کو بنیادی عقیدہ کہتے ہیں حالاں کہ وہ موجودہ انجیل میں کہیں واضح طورپر موجود ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہے۔ میں نے انھیں انجیل کا انگریزی ترجمہ دیا کہ نکال کر بتائیے کہ کہاں ہے۔ وہ تقریباً آدھ گھنٹہ انجیل کے اوراق الٹتے رہے۔ بالآخر اس کا ایک صفحہ نکالا۔ میں نے کہا کہ یہ محض آپ کی تاویل ہے۔ ورنہ اس عبارت سے براہِ راست طور پر کفارہ کا عقیدہ نہیں نکلتا۔ کیسی عجیب ہے موجودہ مسیحیت کہ اس کا بنیادی عقیدہ ہی انجیل کے عبارت النص میں موجود نہیں۔

اس کے برعکس، اگر آپ کسی مسلمان سے پوچھیں کہ قرآن کا بنیادی عقیدہ کیا ہے، تو وہ فوراً کہے گا کہ توحید ۔ اس کے بعد اگر آپ پوچھیں کہ توحید کا عقیدہ کس آیت سے نکلتا ہے تووہ فوراً پڑھ دے گا:قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (112:1)۔ کتنا فرق ہے، محرّف دین میں اور غیر محرف دین میں۔

9 جنوری 1985

سنگا پور جنوب مشرقی ایشیا میں ایک چھوٹا سا ترقی یافتہ ملک ہے۔ایک صاحب سنگا پور سے تشریف لائے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں مسجد وں میں لاؤڈاسپیکر سے اذانیں ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہاں کے غیر مسلم حضرات میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔ خاص طورپر عشا اور فجر کی اذان کے متعلق ان کا مطالبہ ہے کہ اس کو لاؤڈاسپیکر پر دینا بند کیا جائے۔ اس سلسلے میں سنگاپور کے بدھسٹ وزیر اعظم  لی کوان یئو (Lee Kuan Yew) نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آزادی یہ ہے کہ آپ رات کے آخری حصے میں اذان دیں۔ میری آزادی یہ ہے کہ میں اس وقت اچھی نیند حاصل کروں:

Your freedom is to call Azan in the late hours of the night. My freedom is to have a good sleep at that time.

اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور جدید انسان میں ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے، اور چونکہ جدید انسان طاقتور ہے ۔اس لیے اب اسلام کو باقی رکھنے کی شکل صرف یہ ہے کہ اسلام کو میدان سے ہٹا دیا جائے۔ حالاں کہ یہ قیاس سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوٹکراؤ پیدا ہوا ہے، وہ جدید انسان اور ’’لاؤڈ اسپیکر‘‘ کے درمیان ہے، نہ کہ ’’جدید انسان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کے درمیان۔

10 جنوری 1985

غیر دانش مندانہ اقدام کا نتیجہ اکثر الٹا نکلتا ہے۔ دانش مندانہ اقدام کیا ہے۔دانش مندانہ اقدام یہ ہے کہبے لاگ انداز میں غور کرکے یہ سمجھنا کہ کون سا کام باعتبار انجام اچھا ہے یا برا۔ صرف جذبات کے تحت کوئی کام شروع نہ کرنا، بلکہ اپنے اقدام کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد آگے بڑھنا۔اقدام کا ہر پہلو گہری سوچ کا نتیجہ ہو، نہ کہ محض جذبات کا نتیجہ۔

کام کرنے کے اس طریقے کو منصوبہ بند کام کہا جاتا ہے۔ منصوبہ بند کام کا اصول یہ ہے کہ پہلے سوچنا، اور پھر کرنا۔ جو آدمی کرنے کے بعد سوچے، وہ ایک غیر دانش مند آدمی ہے۔ اور جو آدمی کرنے سے پہلے سوچے، وہ ایک دانش مند آدمی۔

11 جنوری 1985

كارل ٹرول (1899-1975)ایک جرمن سائنٹسٹ اور جغرافيه داںہیں۔وہ 1960 سے 1964 تک انٹرنیشنل جغرافیائی یونین (IGU)کے صدر رہے۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا— میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گذار ہوگیا ہوں:

“The fruit of my life as scientist and geographer is to have become more and more deeply grateful to our Creator.”

سائنس داںجب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اُس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے، جس نے اتنی با معنی کائنات بنائی ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ دراصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طورپر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طورپر اقرار ِخدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔اس کی ایک واضح مثال برٹش سائنسداں سر جیمز جینز (وفات1946)کی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious  Universe) ہے۔

12 جنوری 1985

سوامی پورن جی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو گرو ہیں۔ وہ یورپ میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران روم سے دہلی تک ہوائی جہاز میں ان کا ساتھ رہا۔ اس کے بعد ان کے کئی ٹیلیفون آئے یہاں تک کہ مندرجہ ذیل مقام پر ان سے ملاقات ہوئی:

Suite 2025, Hotel Sentaur, New Delhi

میںنے سوامی پورن جی سے کہا کہ آپ کے نزدیک سچائی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سچائی کوئی ایک معلوم چیز نہیں۔ میںنے کہا کہ جب سچائی کوئی ایک معلوم چیز نہیں تو آپ اپنے سفروں میں کس چیز کا پرچار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں لوگوں کو یہ نہیں بتاتا کہ سچائی کیا ہے۔ میں یہ بتاتاہوں کہ وہ کون سا پراسس ہے جس کو فالو(follow) کرکے تم سچائی تک پہنچ سکتے ہو۔

میںنے دوبارہ ان سے سوال کیا کہ سچائی اگر چہ آپ کے نزدیک معلوم چیز نہیں مگر آپ کے بیان کے مطابق سچائی کا پراسس ضرور ایک معلوم چیز ہے۔ جبھی تو آپ اس کا پرچار کرتے ہیں۔ پھر آپ کے نزدیک وہ کرائٹیرین (criterion) کیا ہے، جس پر جانچ کر ہم یہ معلوم کرسکیں کہ آپ کا تجویز کردہ پراسس درست ہے۔ سوامی جی اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں ان کو الرسالہ انگریزی پیش کیاگیا۔

14 جنوری 1985

 انڈیا کے ایک عالم دین لندن کی ایک مسجد میں امام ہیں۔وہ لندن جاتے ہوئے مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے فلاں عالم صاحب بہت بڑے عالم تھے۔ جزئیاتِ فقہ پر ان کی نظر جتنی وسیع تھی شاید ہی ہندو پاک میں کسی دوسرے عالم کی ہو‘‘۔ گویا جزئیاتِ دین کے عالم ہونے کا نام عالم ہے، اساسات دین کا عالم ہونے کا نام عالم نہیں۔

 فقہ جب ابتداء ً بنی تو اساساتِ دین کے مطالعہ کے لیے نہیں بنی بلکہ مسائل دین کے مطالعہ کے لیے بنی۔ اسی طرح فقہ پر جزئیاتی ذہن غالب آگیا۔ اسی فقہ پر ہمارے موجودہ مدارس کی بنیاد قائم ہے۔ ہمارے مدارس میں جزئیاتی مسائل پر زبردست بحثیں ہوتی ہیں۔ حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ جزئیاتی مسائل کے عالم ہونے کا نام عالم ہے۔ اس طریقۂ تعلیم نے ملت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ زمانے کے دینی اختلافات کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مدارس کا تعلیمی نظام فقہ پر قائم ہے۔ اگر مدارس کا نظام قرآن و حدیث پر قائم کیا جائے تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔

15 جنوری 1985

اخوان المسلمون کی تحریک کو مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اخوانی تحریک کے مختلف شعبے تھے۔ ان میں سے ایک فوجی شعبہ تھا جس کو جناح عسکری کہا جاتا تھا۔ اخوان کے جناح عسکری کے سربراہ حسن دوح (Hasan Dauh, 1921-2001) تھے۔موجودہ زمانے میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں ان سب کا یہی حال رہا ہے۔ کسی میں جناح عسکری عملاً قائم تھا، اور کسی میں صرف ذہنی طور پر وہ پایا جاتا تھا۔

تحریکوں کی اس عسکری جدو جہد(armed struggle)کا سبب یہ ہے کہ مفروضہ ’’دشمنانِ اسلام‘‘ کے رد عمل میں اٹھیں۔ کوئی یہودیوں کے خلاف، کوئی انگریزوں کے خلاف، کوئی فرانسیسیوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں مشترک طورپر نفرت او رتشدد کا ذہن پایا جاتا ہے۔

موجودہ زمانے کی ان تحریکوں میں سے کسی تحریک میں ’’جناح دعوتی‘‘ نہ تھا۔ اگر یہ تحریکیں حقیقی معنوں میں دعوتی محرک کے طورپر اٹھتیں تو نہ صرف ان کے یہاں جناح دعوتی موجود ہوتا بلکہ ان کے یہاں دعوت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔ اور پھر ان کا مزاج نفرت اور تشدد کے بجائے محبت اور امن کا بنتا۔

دعوت کا کام دلوں کو جیتنا اور ذہنوں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، اس لیے داعی کے اندر دوسروں کے لیے محبت اور خیر خواہی کی نفسیات پیدا ہوتی ہیں۔

16 جنوری 1985

پانی پت کی جنگ (1526ء) میں بابر کو ہندستانی راجاؤں کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح کا راز بابر کا توپ خانہ تھا جس کو رومی ترک چلاتے تھے۔ بابر نے یہ توپ رومی ترکوں سے حاصل کی تھی۔ مگر عجیب بات ہے کہ بابر کی اولاد اس واقعہ کو بالکل بھول گئی۔ ان کی سمجھ میں کبھی یہ نہ آیا کہ توپ سازی کے فن کو ترقی دینے کے لیے باقاعدہ تجربہ گاہیں بنائی جائیں۔مغلوں اور ہندستانی نوابوں کی یہی پس ماندگی تھی، جس نے انگریزوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنی برتر ٹیکنک کے ذریعے ہندستان پر قابض ہوجائیں۔

انگریزوں نے فنِ جہاز رانی کو زبردست ترقی دی مگر ہندستان کے مغل حکمراں جہاز رانی کے فن سے بالکل بے خبر رہے۔ رابرٹ کلائیو اور نواب سراج الدولہ کی فوجوں میں مقابلہ ہوا تو رابرٹ کلائیو کی فوج کو زبردست کامیابی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کلائیو کی اسپرنگ دار (flint locks) بندوقوں، رائفلوں اور توپوں کی بناوٹ اتنی اعلیٰ تھی کہ سراج الدولہ کی فتیلہ سوز (match locks) بندوقیں ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دور جدید میں سائنس کے علوم میں پیچھے ہو گئے اور یہی موجودہ زمانے میں ان کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔

17 جنوری 1985

مسٹر توقیر احمد ایم اے (اوکھلا) نے اپنے گاؤں کا ایک دلچسپ قصہ بتایا۔ ان کے یہاں کے ایک زمین دار نے اپنا آم کا باغ پھل کے موسم میں پھل والے کے ہاتھ فروخت کیا ۔اس کے بعد تیز آندھی آئی، اور اکثر آم جھڑ گئے۔ باغبان زمین دار سے ملا۔ اس نے فریاد کی کہ آندھی سے پھلوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ آپ دام کم کردیجيے ورنہ میں بالکل دیوالیہ ہوجاؤں گا۔ زمین دار نے دام کم کرنے سے انکار کردیا، اور کسی قسم کی رعایت دینے پر راضی نہ ہوا۔

توقیر صاحب کو باغبان پر رحم آیا۔ انھوں نے زمین دار کے سامنے باغبان کی سفارش کی۔ زمین دار بگڑ گیا۔ اس نے کہا كه تم کمیونسٹ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کا رزق انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے، وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا چاہے گا تو اس کو پہلے سے بھی زیادہ دے گا۔

انسان کیسا عجیب ہے۔ دوسرے کے خلاف اس کو قرآن سے بے شمار دلیلیں مل جاتی ہیں۔ مگر اپنے خلاف اس کو قرآن سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔زمین دار صاحب کو خود اپنے ليے تو پھل كے تاجر سے لینا تھا، مگر اس تاجرکے بارے میں انھیں یقین تھا کہ اس کو خدا سے مل جائے گا۔

18 جنوری 1985

ہندستان میں مسلمانوں کی بہت سی جماعتیں ہیں مگر تقریباً سب کی سب ردِّ عمل کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کی ایک جماعت او ر دوسری جماعت میں کوئی حقیقی فرق نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو لیڈر اینٹی ہندو ٹون (anti-Hindu tone) میں بولتا ہے اس سے مسلمان خوش ہوجاتے ہیںاور جو پرو ہندو ٹون (pro-Hindu tone) میں بولتا ہے اس سے ناخوش۔

قوموں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ (anti-establishment) آوازوں کو پسند کرتی ہیں اور پرو اسٹیبلشمنٹ (pro-establishment) آوازوںکو عوام کے اندر پسندیدگی حاصل نہیں ہوتی۔

ہندستان میں اس نفسیات پر مزید اضافہ یہ ہوا کہ مختلف اسباب سے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف منفی سوچ پیدا ہوگئی۔ اس کی وجہ سے کوئی ایسی تحریک ان کے درمیان مقبول نہیں ہوتی جو ہندوؤں سے ایڈجسٹمنٹ (adjustment) کی باتیں کرتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی تقریباً نصف صدی کی پرشور مسلم سیاست کے باوجود مسلمانوں کے حصہ میں احتجاج کے سوا اور کچھ نہ آیا۔

19 جنوری 1985

شیخ محمد سلیمان القائد (لیبیا) 23اگست 1984کو روانڈا کی راجدھانی کیگالی (Kigali)  سے دہلی آئے تھے، اور یکم ستمبر 1984کو واپس گئے۔وہ اردو زبان بالکل نہیں جانتے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انھوں نے میرے مشن کو جتنی گہرائی کے ساتھ سمجھا ہے، شاید کسی اور نے نہیں سمجھا۔ انھوں نے میری عربی کتابیں بار بار پڑھی ہیں۔ میرے ساتھ طرابلس میں تقریباً دو مہینہ رہے ہیں۔ اردو کے عربی ترجمے خود کرواکر پڑھے ہیں۔

دہلی میںانھوں نے مولانا حمید اللہ ندوی اندوری سے کہا  — اگر آپ نے شیخ وحید الدین خاں کے مشن کو واقعۃً پوری طرح سمجھا ہے تو آپ میرے بعد دوسرے شخص ہوں گے۔

شیخ محمد سلیمان القائد افریقہ میں زبردست تبلیغی کام کررہے ہیں۔ مگر وہ اپنے کام کو ہمارے کام ہی کی شاخ سمجھتے ہیں۔ انھوںنے کہا — دہلی مرکز تفجیر الثورۃ الفکریۃ ہوگا، اور یہاں سے سارے عالم میں اسلامی دعوت پھیلے گی۔کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک تمنا کو واقعہ بنا دے۔

21 جنوری 1985

پروفیسر اقبال عظیم بینائی سے محروم ادیب ، شاعرتھے۔ان كي پيدائش 1913ميں هوئي(اور وفات 2000ميں هوئي)۔ ان کی نعتیہ نظم كا ایک شعر یہ ہے

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے             مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھو دی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں، اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔

اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے، جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔

22جنوری 1985

پاکستان کے ایک معروف عالم دین دہلی آئے اور ہمارے یہاں ٹھہرے۔ ایک ملاقات میں مَیں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ کی دریافت کیا ہے‘‘۔ انھوںنے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہاقرآن حکیم میں امت مسلمہ سے خطاب کا کلائمکس سورہ حدید ہے۔ سورہ حدید کی پہلی چھ آیات میں ذات باری تعالیٰ کی صفات کا اعلیٰ ترین سطح پر بیان نقطۂ عروج پر ہے۔

عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں کوئی بھی شخص قرآن میں دعوت کو نہیں پاتا۔ دوسری ہر چیز آدمی پالیتا ہے مگر کسی کو قرآن میں دعوت نہیں ملتی۔ حالاں کہ امت کی سرفرازی کا تعلق دعوت سے ہے نہ کہ کسی اور چیز سے۔

23 جنوری 1985

لوہار لوہے کو آگ میں ڈال کر تپاتا ہے۔ یہاںتک کہ لوہا گرم ہو کر لال ہوجاتا ہے۔ اس وقت لوہار ہتھوڑا مار کر لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے، چپٹا یا گول یا لمبا۔ لوہار اگر لوہے کو گرم کیے بغیر اس پر اپنا ہتھوڑا مارنے لگے تو وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب نہ ہو۔ اسی سے انگریزی کی یہ مثل بنی ہے کہ لوہے کو اس وقت مارو جب کہ وہ خوب گرم ہو:

To strike the iron when it is hot.

یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ آدمی کو زندگی میں اکثر کوئی اقدام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ حالات کا بھر پور اندازہ کرلیا جائے۔ اگر حالات پوری طرح تیار ہوں، تو اقدام مفید ہوگا، ورنہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔لوہا گرم ہونے پر ہتھوڑا مارنے والا اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ جو شخص ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑا مارنے لگے ،وہ صرف اپنے ہاتھ کو دکھ پہنچائے گا، وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔

24 جنوری 1985

علامہ اقبال(1877-1938) کا ایک شعر ہے:

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو            خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو

اس قسم کے اشعار لوگ بہت جوش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس قسم کے اشعار جو ذہن بناتے ہیں وہ سراسر غیر قرآنی ذہن ہے۔ قرآن کے مطابق، خاشاک غیر اللہ کو جلانا اور باطل کو غارت کرنا خدا کا کام ہے، نہ کہ انسان کا کام۔ اس قسم کے اشعار سے صرف جھوٹا فخر پیدا ہوسکتا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی کار آمد ذہن۔

مومن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ دنیا والوں کا خیر خواہ (well-wisher)ہو۔ لوگوں کے لیے اس کے دل میں محبت کے چشمے جاری ہوجائیں۔ وہ لوگوں کو آخرت کی دعوت دینے کا حریص بنے ، نہ کہ انھیں شعلوں کی نذر کرنے کا حریص۔اہلِ ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حق کا اعلان کرنے والے بنیں۔ اس اعلان کا اصل جذبہ خیر خواہی ہونا چاہیے ،جس کو قرآن میں نصح کہاگیا ہے (الاعراف، 7:62)۔ یہ داعیانہ جذبہ ہی صحیح ایمانی جذبہ ہے۔ اس ناصحانہ دعوت کے نتیجے میں یا تو ایسا ہوتا ہے کہ لوگ حق کے راستے کو قبول کرلیتے ہیں یا وہ اس کا انکار کرکے سزا کے مستحق بنتے ہیں۔تاہم اس سزا کا فیصلہ کرنے والا اور اس کو نافذ کرنے والا خدا ہے، نہ کہ کوئی انسان۔

25 جنوری 1985

انگریزی کا ایک مثل ہےكه کیل کے عین سر پر مارنا:

Hitting the nail on the head.

یہ مثل بہت بامعنیٰ ہے۔ اس میں ایک مادی مثال کے ذریعہ انسانی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔یہ ایک معلوم بات ہے کہ کیل جب کسی چیز پر ٹھونکی جاتی ہے، تو اس کے ٹھیک سر پرہتھوڑی ماری جاتی ہے۔ اگر ہتھوڑی کی مار ادھر ادھر پڑے، تو وہ صحیح طور پر اندر نہیں داخل ہوگی، بلکہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر رہ جائے گی۔اسی طرح زندگی کے معاملات میں یہ جاننا پڑتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک وہ کون سا مقام ہے جہاں ضرب لگانی چاهيے۔ صحیح ضرب کے نتیجہ ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے۔

مثلاً آپ کسی موضوع پر اظہارِ خیال کررہے ہیں یا کسی شخص سے ایک اختلافی موضوع پر بحث کر رہے ہیں ۔ ایسی حالت میں اگر آپ وہ بات کہیں جو ٹھیک ٹھیک موضوع کے اوپر چسپاں ہوتی ہو تو سننے والا آپ کے نقطۂ نظر کو ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ ایسی باتیں کریں جو زیرِ بحث موضوع پر ٹھیک فٹ نہ بیٹھتی ہو، تو آپ کی بات لوگوں کو بے وزن محسوس ہوگی۔ وہ اپنے آپ کو اندرونی طورپر مجبور نہ پائیں گے کہ آپ کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرلیں۔

26 جنوری 1985

لارڈ میو نے اپنا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بار ایک جزیرے میں تھے۔ وہاںانھیں غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ منظر اتنا حسین تھا کہ میں نے چاہا کہ اس کو ہمیشہ دیکھتا رہوں:

I wish I could see this sunset forever.

نیچر بے حد حسین ہے۔ اس کو دیکھنے سے کبھی آدمی کا جی نہیں بھرتا۔ آدمی چاہتا ہے کہ نیچر کو مستقل طور پر دیکھتا رہے۔ مگر زندگی کے تقاضے اس کو مجبور کرتے ہیں، اور اس سے سیر ہوئے بغیر وہ اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

نیچر (nature)موجودہ دنیا میں جنت کی نمائندہ ہے۔ وہ آخرت کی جنت کی ایک جھلک ہے۔ جنت میں جو لطافت، جو حسن، جو بے پناہ کشش ہوگی، اس کا ایک دور کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں نیچر کی صورت میں ہوتا ہے۔ نیچر ہم کو جنت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ ہم کو بتاتی ہے کہ دنیا میں جنت والے عمل کرو تاکہ آخرت میں خدا کی جنت کو پاسکو۔ دنیا میں آدمی جنت کی جھلک سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ مگر آخرت کی کامل دنیا میںآدمی کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ جنت سے آخری حد تک لطف اندوز ہوسکے۔

28 جنوری 1985

عرب ممالک کے سفر کے دوران اگست 1982میں میری ملاقات ایک مصری نوجوان سے ہوئی تھی۔ ان کا نام ڈاکٹر محمد سعید مراد ہے۔ انھوںنے مصر کے انور سادات (1918-1981) کے بارے میں بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اِن اخوانیوں پر رحم نہیں کروں گا۔

انور سادات نے اسکندریہ کے شیخ المحلاوی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے، محمد سعید مراد کے الفاظ میں، کہا قال السادات عنہ فی خطبۃ عندما کان یتحدث عن الجماعات الاسلامیۃ اعتقلها۔

’’وهناك رجل من الاسکندریۃ کان یهاجم النظام ولکنہ الآن مرمیّ فی السجن مثل الکلب ‘‘ یقصد الشیخ المحلاّوی ۔ وکان السادات یقول فی خطابہ تکراراً انا لم ارحم ہذہ الجماعات"۔(اسکندریہ میں ایک آدمی ہے، وہ حکومت سے ٹکراؤ کرتا ہے، لیکن اب وہ جیل میں کلب کی مانند بند ہے۔ ان کی مراد شیخ المحلاوی تھے۔ اور سادات اپنی تقریروں میں بار بار کہا کرتے تھے کہ میں ان جماعتوں پر رحم نہیں کروں گا)

انورسادات کے یہ الفاظ بہت سخت معلوم ہوتے ہیں۔ مگر اس میں پچاس فی صد غلطی اگر انورسادات کی ہے تو پچا س فی صد غلطی ان حضرات کی جو حکومت ٹکراؤ کی سیاست کررہے تھے۔

مسلمانوں کا کوئی بھی ادارہ ہو۔ اگر وہاں کوئی شخص ادارے کے صدر کامخالف بن جائے تو اس کے ساتھ بقدرِ استطاعت ادارے کے لوگ وہی سلوک کریں گے ،جو اپنی استطاعت کے دائرے میں انورسادات نے اپنے مخالفوں سے کیا۔ انورسادات اور ان کے جیسے حکمرانوں کے ظلم کی داستان سنانے والے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ یہ وہی سلوک ہے جو خود اپنے اداروں میں ہورہا ہے:

این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند

29 جنوری 1985

سارے قرآن میںایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں فطرت کے مظاہر کی ایسی توجیہہ کی گئی ہو، جس سے سائنسی تحقیقات کی نفی لازم آئے۔یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس قسم کا کوئی واقعہ نہیںملتا جو چرچ کی تاریخ میں ’’گلیلیو‘‘ کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اسلام میں اس کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی کہ علمی نظریات کے لیے کسی کی پکڑ دھکڑ کی جائے یا اس کو سزا دی جائے۔

نظریاتی احتساب کی مثالیں اسلامی تاریخ میں خالص مذہبی لوگوں کے یہاں نہیں پائی جاتیں۔ صرف معتزلہ کے یہاںاس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ معتزلہ کٹر مذہبی لوگ نہیںتھے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنے آپ کو روشن خیال کہتے تھے، اور آزادیٔ فکر کے علَم بردار تھے۔

معتزلہ نے عباسی حکمرانوں کی مدد سے اپنے نظریاتی مخالفین کا زبردست احتساب کیا۔ اسی احتساب کی ایک مثال امام احمد بن جنبل ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو زبردست سزائیں دی گئیں۔ صرف اس لیے کہ وہ ’’خلقِ قرآن‘‘ کے مسئلے میں معتزلہ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔

امام احمد بن حنبل کو مسلسل مارا گیا۔مارنے والے ایک جلاد نے بعد میں اس ضرب کی شدت کے بارے میں کہا تھا ضربت أحمد بن حنبل ثمانين سوطا، لو ضربته فيلا لهدمته (المنهج الأحمد لأبي اليمن العليمي، ج 1 ص 107)۔ یعنی، میں نے احمد بن حنبل کو 80 کوڑے مارے۔ اگر میں اس طرح کسی ہاتھی کو مارتا تو اس کو گرادیتا۔

30 جنوری 1985

ایک انجینئر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ماسکو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کیا ہے۔ وہ روسی زبان بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انھوںنے روس کے بارے میں کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔ مثلاً انھوں نے لینن کا ایک مقولہ روسی زبان میں بتایا، جس کا ترجمہ یہ تھا

’’اگر ایک ہاتھ پیچھے کھسکو تو دو ہاتھ آگے بڑھنے کے ارادے سے‘‘

یہ مثل بہت با معنی ہے۔ زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں، جب کہ آدمی کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مگر وہ پسپائی نہیں ہے، جو منصوبہ بند ہو۔ یعنی آدمی پیچھے ہٹنے کے لیے قدم پیچھے نہ کرے، بلکہ اس کا پیچھے ہٹنا آگے بڑھنے کی ایک تدبیر ہو۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹے ،تو اس ليے پیچھے ہٹے کہ اس کے ذریعہ اس کو دو قدم آگے بڑھنے کا راستہ ملے گا۔

31جنوری 1985

ایک مجذوب تھے۔ وہ گندی حالت میں سڑکوں پر پڑے رہتے تھے۔ لوگ ان سے کچھ کہتے تو ان کا جواب ہمیشہ صرف ایک ہوتا تھاحرام کھاؤ، چوری کرو، ماں پر سوؤ۔

لوگ حیران رہتے کہ مجذوب صاحب اس قسم کی الٹی بات کیوں کہتے ہیں۔ تاہم مجذوب صاحب نے کبھی اس کی تشریح نہیں کی۔ کوئی شخص ان الفاظ کا مطلب پوچھتا تو وہ بگڑ جاتے۔ مجذوب اسی طرح کہتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔

مجذوب صاحب کے ایک معتقد سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں تک مجذوب صاحب کے الفاظ پر سوچتا رہا۔ آخر کار میری سمجھ میں آگیا کہ وہ کیا کہتے تھے۔ ان کا مطلب تھاغصہ کھاؤ، چھپ کر عبادت کرو، زمین پر سوؤ۔

اسلام توہم پرستی کو مٹانے آیا تھا مگر بعد کے زمانے میں خود مسلمان طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوگئے۔ انھیں میں سے ایک ’’مجذوب‘‘ کا عقیدہ بھی ہے۔شریعت میںمجذوب کوئی چیز نہیں۔ مگر لوگ جب کسی کو غیر معمولی حالت میں دیکھتے ہیںتو سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی مجذوب (پہنچے ہوئے شخص ) ہیں، اور اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔

1فروری 1985

مہاتما گاندھی نے آزاد ہندستان کے کانگریسی حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خلیفہ ابو بکر اور خلیفہ عمر کے نمونہ کی پیر دی کریں:

We have to follow the example of Abu Bakr and Umar

اسلام کے ابتدائی دور میں زندگی کا جو نمونہ ظہور میں آیا وہ ساری انسانی تاریخ کا ایک انوکھا نمونہ تھا— خلیفہ ابوبکر اور خلیفہ عمر اپنے وقت کی انتہائی وسیع اور عظیم سلطنت کے حکمراں تھے ۔مگر ان کی زندگی اتنی سادہ تھی کہ دیکھنے والے ان کو عام شہری سمجھتے تھے۔ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے میں کوئی جذبہ ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔

ان لوگوں کی زندگیاں ساری انسانیت کے لیے معیاری نمونے ہیں۔ جو لوگ اسلام کوبطور عقیدہ کے نہیں مانتے وہ بھی اگر سنجیدہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو مجبور پائیں گے کہ اپنے حکمرانوں کو ابوبکر وعمر کی مثال دے کر کہیں کہ تم ان کی تقلید کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے پاس دوسرا کوئی نمونہ نہیں جس کو وہ کامل معیار کے طور پر پیش کرسکیں۔

2فروری 1985

لاش نس (Loch Ness) اسکا ٹ لینڈ کی ایک بڑی جھیل ہے۔ 1975میں ایک امریکی قانون داں نے زمیں دوز کیمرے کے ذریعے اس جھیل کے اندرونی فوٹو لیے۔ ان فوٹوؤں میں جھیل کے اندر کے کچھ مناظر دکھائی دیتے تھے۔یہ مناظر بادل کے دھبوں کی شکل میں تھے۔ ان تصویری دھبوں کا مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان دھبوں پر قیاس کا اضافہ کرکے سمجھ لیاگیا کہ یہ زندہ جانوروں کی تصویریں ہیں۔ کہاگیا کہ اسکاٹ لینڈ کی اس جھیل کے اندر انتہائی قدیم زمانے کے بعض بہت بڑے بڑے جانور موجود ہیں، جو نظریۂ ارتقاء کے مطابق قدیم زمانے میں افراط کے ساتھ زمین پر پائے جاتے تھے۔اس قیاس پر ماہرین کو اتنا یقین تھا کہ اس کا ایک مفروضہ نام پلی ساسور (Pleisosaurs) رکھ دیا گیا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط تھا۔ یہ دھبے چٹانوں کے تھے، نہ کہ زندہ جانوروں کے۔

انسانی علم میں ہمیشہ اس قسم کی غلطیوں کا انکشاف ہوتا رہا ہے، پہلے بھی اور آج بھی۔ مگر قرآن میںآج تک اس قسم کی کسی غلطی کا انکشاف نہ ہوسکا۔ حالاں کہ قرآن ہر قسم کے موضوعات کو ٹَچ (touch) کرتا ہے۔ یہی ایک واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، وہ کوئی انسانی کلام نہیں۔ اگر وہ انسانی کلام ہوتا تو یقینا اس کے اندر بھی وہی کمیاں پائی جاتیں جو تمام انسانوں کے کلام میں بلا استثنا پائی جاتی رہی ہیں۔

4فروری 1985

ایس ایم عارف ندوی نے ایک واقعہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ قرول باغ (دہلی) میںحکیم اجمل خاں نے طبیہ کالج قائم کیا۔ اس کا بہت بڑا کیمپس تھا۔ مگر انھوں نے اس کے اندر مسجد نہیں بنائی۔ تقسیم ملک کے بعد اس کا بڑا حصہ شرنارتھیوں کی قیام گاہ بن گیا۔

1970 کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو خیال ہوا کہ کالج کے کیمپس میں ایک مسجد بنائیں۔ انھوںنے بنانا شروع کیا۔ مگر جب دیواریں کھڑی ہوگئیں تو مقامی غیر مسلموں نے اعتراض کیا، اور کہا کہ یہاں جب پہلے مسجد نہیں بنائی گئی تو اب آپ کو یہاں مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ایک مسلمان نے اس کے بعد ایک تدبیر کی۔ اس نے خاموشی سے ایک پتھر تیار کرایا۔ اس پرکندہ کرکے لکھا ہوا تھا:

هذا المسجد وقف لعامّۃ المسلمین

اس نے اس پتھر کو مسجد کے پاس زمین میں گاڑدیا۔ اس کے بعد ایک روز زور شور کے ساتھ اعلان کیا کہ یہاںایک پتھر گڑا ہوا ملا ہے۔ ہندو جمع ہوئے۔ انھوںنے دیکھا کہ واقعی زمین سے ایک پتھر برآمد ہوا ہے، اور اس پر مذکورہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہندو خاموش ہوگئے اور مسلمانوں نے وہاں باقاعدہ مسجد تعمیر کرلی۔

ہندو جب کہیں مندر بنانے والے ہوتے ہیں تو وہاں ان کا ایک بھگوان پرکٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنی مسجد کے حق میں ایک پتھر کو پرکٹ کرلیا۔ مذکورہ حالات میں مَیں اس تدبیر کو درست سمجھتا ہوں۔ مگر مسلمان جس تدبیر کو خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں، وہی تدبیر اگر دوسرے لوگ کریں تو انھیں اس پر شور وغل نہیں کرنا چا ہیے۔

5فروری 1985

1981 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہنگامے ہوئے تھے۔اس کے نتیجے میں یونی ورسٹی کے اندر پولس بلائی گئی۔ اس وقت ہندستان کی مسلم قیادت نے زبردست جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ 29اگست 1981 کو ایک معروف مسلم ادارے کی جانب سے مسلم یونی ورسٹی کنونشن ہوا۔ یہ کنونشن بچوں کا گھر دہلی میںمنعقد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ادارے کی میگزین نے لکھا:

’’یونی ورسٹی کے ذمہ داران یونی ورسٹی کے مسائل کو جیل اور گولی اور رسوا کن بیانات سے کیوں طے کرنا چاہتے ہیں۔ معقولیت اور گفتگو کا طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا۔ہمارے ادارے نے مسلم یونیورسٹی کنونشن اس لیے بلایا ہے تاکہ یونی ورسٹی کے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کیا جائے اور یونیورسٹی کی فضا خو ش گوار ہوسکے‘‘ (28اگست، 1981)۔

جب دوسروں کا احتساب کرنا ہو تو تمام مسلم لیڈر یہی زبان بولتے ہیں، مگر خود اپنا احتساب کرنا ہو تو وہ اس کے بالکل خلاف عمل کرتے ہیں۔ آج ہر مسلم ادارے کا یہ حال کہ اس کو جس سے اختلاف ہو جائے اس کے بارے میں بقدر استطاعت وہ ’’گولی‘‘ اور’’ رسوا کن بیانات‘‘ کاطریقہ اختیار کرتا ہے۔ مگر دوسروں سے اپنے لیے وہ اس سے مختلف رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس قسم کے مطالبات بلاشبہ جھوٹے مطالبات ہیں، اور جھوٹے مطالبات کی موجودہ دنیا میں کوئی قیمت نہیں۔

6فروری 1985

ٹھیک سات سال پہلے 6 فروری1979 کو میں نے حسب ذیل سطریں لکھی تھیںمکہ میں جب خدا کے دشمنوں نے خدا کے رسول کو گھر سے بے گھر کرنے کا منصوبہ بنایا تو خدا نے اپنے رسول کے لیے دوسرا زیادہ بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس نے مدینہ کو اسلامی دعوت کا مرکز بنادیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص سنت ہے۔ وہ ایک کو حق کا راستہ روکنے کا مجرم ثابت کرکے دوسرے کو حق کا استقبال کرنے کا اعزاز دیتا ہے۔ وہ ایک کو ڈسکریڈٹ (discredit) کرکے دوسرے کو کریڈٹ (credit) عطا فرماتا ہے (6 فروری، 1979)۔

یہ سطریں میں نے ایک مسلم ادارے میں رہتے ہوئے لکھی تھیں، جب کہ ادارے والے مجھ کو بے گھر کرنے اور میرے مشن کو برباد کرنے کے لیے اپنی آخری کوشش کررہے تھے ،اور میں بظاہر بے بس بنا ہوا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے راستہ کھولا ۔ آج میں دوبارہ یہ سطریں نظام الدین کے اسلامی مرکز میں لکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا معجزہ دکھایا۔ الرسالہ بھی خدا کے فضل سے زندہ رہا اور میں بھی۔

7فروری 1985

شیخ الحدیث مولانا محمد زكريا کاندھلوی (1898-1983) علمائے ديوبند ميں سے تھے۔ انھوں نے ایک مرتبہ وعظ میں کہا تھا، جس کا خلاصہ یہ ہے

’’میرے نزدیک آج کل جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سوا سیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں ‘‘۔ (صحبتِ با اہلِ دل)

یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اس کے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر تو نہ کوئی سیر ہوگا اور نہ کوئی سوا سیر۔

آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیںحالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ نه هي سیر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ بلکہ وہ کچھ نہ ہوگا۔ کیوںکہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تو وہ خود ہی’’ سیر‘‘ بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔

8 فروری 1985

محمد المجذوب (1907-1999) ایک شامی ادیب اور شاعر ہیں۔ ان کی تین جلدوں میں ایک کتاب ہے، جس کا نام ہے: علماء ومفکرون عرفتھم ۔

اس کتاب میں انھوں نے لکھا ہے أقیمودولتکم علی قلوبکم یقیم اللہ دولتکم علی الناس۔ یعنی تم اپنے دلوں کے اوپر اپنی حکومت قائم کرو، اللہ تمھاری حکومت لوگوں کے اوپر قائم کردے گا۔

یہ نہایت صحیح بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور خدا سیاسی اقتدار انھیں لوگوں کو دیتا ہے، جو اپنے آپ کو خدا کی نظر میں اس کا اہل ثابت کریں۔ اس حقیقت کو علامہ ابن تیمیہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: الله ينصر الدولة العادلة وإن كانت كافرة، ولا ينصر الدولة الظالمة وإن كانت مؤمنة (الحسبۃ فی الاسلام، صفحہ 7)۔یعنی اللہ عادل حکومت کی مدد کرتا ہے خواہ وہ کافر ہو اوروہ ظالم حکومت کی مدد نہیں کرتا خواہ وہ مومن ہو۔

9 فروری 1985

قدیم عربوں کے نزدیک سب سے بڑی انسانی صفت حماسۃ تھی، یعنی بہادری۔ اس بہادری کا اظہار قديم عرب ميں سب سے زیادہ لڑنے بھڑنے میں ہوتا تھا۔ایک حماسی شاعر کہتاہے:

إذا المهرة الشقراء أركب ظهرها                           فشب الإله الحرب بين القبائل

یعنی جب میرا گھوڑا سواری کے قابل ہوجائے، تو خدا قبائل میں جنگ بھڑکا دے (تاکہ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھا سکوں)

عربوں کا یہ لڑنے بھڑنے کا ذہن اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اگر دشمن لڑنے کے ليے نہ ملتا تو وہ آپس ہی میں لڑنے لگتے۔ ایک شاعر کہتا ہے:

وأحياناً على بكرٍ أخينا                          إذا ما لم نجد إلا أخانا

یعنی اور کبھی ہم اپنے بھائی قبیلہ بکر پر (حملہ کردیتے ہیں)، جب کہ ہم کو (لڑنے کے ليے) اپنے بھائی کے سوا کوئی اور نہیں ملتا۔

عربوں کی یہ بہادری (حماسۃ) ان کا بہت بڑا جوہر تھی۔ اسلام سے پہلے ان کی اس بہادری کا کوئی بلند نشانہ انھیں معلوم نہ تھا۔ اسلام نے انھیں ایک بلند نشانہ دے دیا۔ چنانچہ انھوں نے عالم میں انقلاب برپا کردیا۔

11فروری 1985

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی شخصیت اپنے ماحول سے سراسر غیر متاثر نظر آتی ہے۔ مثال کے طورپر آپ کے زمانے میں عرب میں شاعری کا بہت زور تھا۔ شعر گوئی کو اس وقت سب سے بڑا کمال سمجھا جاتا تھا۔ وہی شخص قوم میں نمایاں ہوتا تھا جو شعر کی زبان میں اپنی بات کہہ سکے۔

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں شعر وشاعری کا مطلق کوئی اثر نہیں ملتا۔ اپنے زمانے کے ادبی رواج سے اس قدر غیر متاثر رہنے کی کوئی دوسری مثال غالباً تاریخ میں نہیں ملے گی۔ آپ کی زندگی کا یہ غیر معمولی پہلو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ ایک غیر معمولی انسان تھے۔ آپ خدا کے پیغمبر تھے۔

12فروری 1985

ایک مسلمان بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت دنوں سے صابن بنانے کا تجربہ کررہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ صابن کا اصل جزء تیل ہے۔ صابن میں پوسٹک سوڈا بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اس کا خاص کام یہ ہے کہ وہ تیل کو جمادے ۔ کسی بھی نباتاتی تیل سے صابن تیار ہوسکتا ہے۔ انھوںنے کہا— مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں صابن نہیں بناتے۔ حالاں کہ صابن بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ شب برات کا حلوا بنانا۔

اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے گھر میں صابن بناتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ انھوںنے کچھ عذر بیان کیے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں صابن بنانے کا کام نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ نہیں کہ مسلمان اپنے گھر میں ’’صابن‘‘ نہیں بناتے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ’’صابن‘‘ بنانے کا مشورہ وہ لوگ دے رہے ہیں، جو خود اپنے گھروں میں ’’صابن‘‘ بنانے کا کام نہیں کرتے۔

13فروری 1985

مولانا محمد شاکر صاحب (دہلی) نے بتایا کہ ایک شخص پر کسی جرم میں مقدمہ چلا اور اس کو قید کی سزا ہوگئی۔اس نے جیل خانے سے ایک بزرگ کے یہاں پیغام بھیجا کہ میں جیل میں بند ہوگیا ہوں۔ کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اس سے رہائی ہوجائے۔ بزرگ نے اس کو بتایا کہ تم یہ پڑھا کرو:

آج کل پرسوں ہزار بار بگوید قفل در زنداں بکشاید

اس نے اس جملہ کا ورد شروع کیا اور اسی کے بعد اس کو جیل خانے سے رہائی مل گئی۔

مسلمان بہت بڑی تعداد میں اسی قسم کے طلسماتی اعمال کے فریب میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ دین جو توہمات کو ختم کرنے کے لیے آیا تھا، اس کے ماننے والے خود توہمات میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ مزید یہ کہ انھوں نے توہمات کواسلامائز (Islamize)کر لیا۔ انھوںنے کچھ اسلامی الفاظ بول کر اس کو اسلامی بنا لیا۔

14فروری 1985

قدیم عرب شعرا کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں،جن میں بڑی حکمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً:

سبـكـنـاه ونحسـبـه لـجيـنـاً

فأبدى الكير عن خبث الحديد

یعنی ہم نے اس کو پگھلایا، اور اس کو چاندی سمجھتے تھے، مگر بھٹی نے ظاہر کیا کہ وہ زنگ آلود لوہا ہے۔

اس شعر میں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ انسان بظاہر اچھا دکھائی دیتا ہے، مگر جب تجربہ ہوتا ہے، اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا ہے، اور کون کیا نہیںہے۔اسی طرح ایک شعر یہ ہے:

وكم على الأرض من خضر ويابسة

وليس يـرجـم إلا مـالــه ثـمـر

یعنی زمین پر کتنی ہی تر اور خشک چیزیں ہیں، مگر پتھر اسی پر مارے جاتے ہیں جس میں پھل ہوں۔

اس شعر میںشاعر زندگی كي اس حقیقت کو بتاتا ہے کہ جس انسان کے پاس کچھ ہو، اسی کے اوپر لوگ یورش کرتے ہیں، جس کے پاس کچھ نہ ہو اس کے اوپر کوئی یورش نہیں کرے گا۔

15فروری 1985

شہد کے بارے میں مَیں نے ایک انگریزی مضمون پڑھا۔ اس میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھاکہ تقریباً 550  شہد کی مکھیاں مسلسل مشغول رہ کر تقریباً پچیس لاکھ پھولوں کا رس چوستی ہیں، تب ایک پاؤنڈ شہد تیار ہوتا ہے:

Some 550 busy bees have to dip their snouts into as many as 2.5 million flowers to make just one pound of honey.

شہد کی مکھی کے اندر بے شمار نشانیاں ہیں۔ مذکورہ واقعہ ان میں سے صرف ایک ہے۔ آدمی اگر اس پر غور کرے، تو وہ خالق کے کمالات کے احساس سے سرشار ہو جائے۔

16فروری 1985

عربی زبان کا ایک مثل ہےکہ تجربہ کرنے والے سے معلوم کرو، عقل مند  سے نہ پوچھو:

سَلِ المجرِّب ولا تسئل الحکیم

یہاں حکیم (عقل مند) سے مراد وہ انسان ہے، جس کو صرف نظریاتی جانکاری حاصل ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ باتوں کو وہی شخص جانتا ہے جس پر تجربہ گزرا ہو۔ جو شخص صرف نظریاتی واقفیت رکھتا ہو، وہ اصل حقیقتوں سے اسی طرح بے خبر رہتا ہے، جس طرح کاغذكي كوئي کتاب زندگی کے عملی معاملات سے بے خبر ہو۔

مگر اس سے بھی زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تجربہ کار کے بتانے کے باوجود آدمی باتوں کو سمجھ نہیں پاتا۔ آدمی کسی بات کی حقیقت صرف اس وقت سمجھتا ہے، جب کہ اس پر خود ذاتی تجربہ گزرے۔ جب کہ وہ تجربہ کر کے نقصان اٹھا چکا ہو۔ ذاتی طورپر تجربہ کی چکّی میں پسنے سے پہلے بمشکل ہی کوئی شخص باتوں کی حقیقت کو سمجھ پاتا ہے۔ چاہے لفظی طورپر اس کو کتنا ہی زیادہ سمجھا جائے۔

17فروری 1985

بشیر احمد راشد الامینی (پیدائش 1942) 1970میں حج کرنے گئے۔انھوںنے بتایا کہ مدینہ میںانھوںنے ایک نقشہ نما خریدا،جس میں مسجد وغیرہ کی تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کو پھیری والے سے لیا تھا۔ پھیری والے نے بتایا تھا کہ اس میں دس تصویریں ہیں۔ مگر انھوںنے گھر پر جاکر دیکھا تو صرف آٹھ تصویریں تھی۔ وہ دوبارہ پھیری والے کے پاس شکایت کرنے کے لیے گئے۔ پھیری والے نے کہا ہم کیا کریں ہم تو ہول سیلر سے خریدتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ مجھ کو ہول سیلر کے پاس لے چلو۔ کافی جھگڑا کے بعد وہ راضی ہوا۔ ہول سیلر کے پاس پہنچے تو وہ بھی جھگڑا کرنے لگا۔ بشیر صاحب نے اس کے سامنے ایک آیت پڑھی: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ (4:59)۔ یعنی پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔آیت سن کر عرب دکان دار فوراً چپ ہوگیا۔

اسلام ایک ایسے برتر خدا کا تصور دیتا ہے جو سب سے بلند ہے۔ کسی سماج میں خدا کاتصور زندہ ہو تو یہ اس سماج کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد ایک شخص کے لیے ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر کسی کو چپ کرسکے۔ وہ خدا کا واسطہ دے کر کسی ظالم کو ظلم سے باز رکھے۔

18فروری 1985

عرب ویڈیو ٹیپ کو فیدیو تیب (الشريط التلفزيونى) کہتے ہیں۔ عرب سے آئے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ بعض عرب ملکوں میں سینما ہاؤس پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں لوگوں نے وی سی آر لگا لیا ہے، اور اس کے اوپر ہر قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انھوںنے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ  آپ باہر سینما ہاؤس بند کریں گے تو گھر میں سینما ہاؤس کھل جائے گا  — معاشرہ کا ذہن جب تیار نہ کیا گیاہو تو اوپر سے اصلاحی احکام نافذ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔

19 فروری 1985

عام طوپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ کسی شخص کے اندر کوئی خرابی کی بات دیکھتے ہیں، تو وہ غیرجانب دار (indifferent) ہوجاتے ہیں۔ لوگ صرف اپنے بچوں کی خرابیوں کی اصلاح کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتے ہیں، دوسروں کی خرابیوں کی اصلاح سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ میری مراد یہاںانفرادی اصلاح سے هے۔ کیوں کہ میں اجتماعی اصلاح کے نام پر اٹھنے کو لیڈری سمجھتاہوں، نہ کہ حقیقۃً اصلاحی کام۔

مگر میرا حال یہ ہے کہ میںکسی فرد کے اندر کوئی خرابی دیکھتا ہوں، توفوراً دل بے چین ہوجاتا ہے۔مثلاً 23 ستمبر 1978 کا واقعہ ہے۔ میرے یہاںمسلم اسکالر آئے۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پی رہے تھے۔میں نے انھیں سمجھا بجھا کر آمادہ کیا کہ وہ سگریٹ چھوڑ دیں۔ چنانچہ انھوںنے سگریٹ پھینک دی، اور میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:

آج بتاریخ 23  ستمبر 1978 سے میں نے سگریٹ چھوڑ دی۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اس عہد پر قائم رکھے۔‘‘

اسی طرح حفظ الرحمن عظیم قاسمی 19 نومبر 1978کو میرے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھی نے بتایا کہ وہ ہر شخص کی تقریر کو دہرا سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے قاری طیب صاحب، مولانا انظر شاہ صاحب کی تقریروں کو بالکل انھیں کی آواز میں دہرادیا۔ تاہم مجھے اس سے خوشی نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ جب آپ کا حافظہ اتنا غیر معمولی ہے، تو آپ اس کو نقل کے بجائے کسی زیادہ بہتر کام میںاستعمال کریں۔ مثلاً آپ انگریزی پڑھیں۔ اچھا حافظہ ہونے کی وجہ سے آپ بہت آسانی سے نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ انھوںنے اتفاق کیا اور میری ڈائری پر یہ الفاظ لکھے:

’’میں اللہ کو گواہ بنا کر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد کسی کی تقریر نہیںدہراؤں گا، ان شاء اللہ۔‘‘

20فروری 1985

مولانا اسعد اسرائیلی سنبھل کے رہنے والے ہیں۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی، اور دورانِ گفتگو  ہندستان کے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر ہوا۔ وہ الرسالہ کے اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں کہ یہ فسادات صحت مند سماجی رشتہ کو مجروح کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا:

’’فرقہ وارانہ فسادات میںمسلمان نہیں مرتے، جو چیز مرتی ہے، وہ دعوتِ حق کا امکان ہوتا ہے ‘‘۔

ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑا ہے، اس میں مسلمان صرف اپنے مادی نقصانات کا رونا روتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ان جھگڑوں کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان معتدل فضا ختم ہوگئی ہے، اور معتدل فضا کے بغیر دعوتی عمل ممکن نہیں۔ دعوت یعنی خدا کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کا عمل۔

اگر مسلمانوں کے اندر دعوت کا درد ہو، تو وہ ہندوؤں سے اپنے تمام مادی جھگڑے یک طرفہ طورپر ختم کردیں گے۔ وہ اپنے اور ہندوؤں کے درمیان انسانی خیرخواہی کا رشتہ بحال کرنے کے ليے ہرقربانی کو آسان سمجھیں گے۔

21 فروری 1985

رومن امپائر 117ءمیں شمالی برطانیہ سے لے کر بحر احمر اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ مثل مشہور ہوگئی تھی  :

All roads lead to Rome

رومن امپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرقِ اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میںدو ہزار برس بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔

مگر رومن امپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے ليے رکھی جاتی ہیں۔

اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میںمبتلا نہ ہو۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے، جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے۔ جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طورپر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔

22فروری 1985

مذہب کیا ہے، اس کی تعریف میںعلم الانسان کے علما (anthropologist) کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی اکثریت نے عملی ضرورت (working purpose) کے ليے اس پر اتفاق کرلیا ہے كه  —مذہب ما فوق الفطری قوتوں میں عقیدہ رکھنے کا نام ہے:

The belief in power or powers superior to man

دنیا کی تاریخ کے بالکل ابتدائی دنوں سے انسان کسی نہ کسی شکل میںایک مذہبی مخلوق رہا ہے۔ تقریباً بلا اختلاف وہ ایک خدا رکھتا تھا یا کئی خدا۔ جس کی طرف وہ حفاظت اور پناہ کے ليے دیکھ سکے۔ کبھی یہ خدا لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے، کبھی پتھر کے ، کبھی جانوروں اور سانپوں کوخدا سمجھ لیاگیا۔ مگر بہر حال وہ انسان كي نظر ميں خدا تھے۔ اس ليے انسان ضروری سمجھتا تھا کہ وه ان کی پوجا کرے۔کیوں کہ مذہب ایک فوق الفطری طاقت کی پرستش کی صورت میں انسانی فطرت کے ڈھانچے میں مکمل طورپر پیوست ہے:

Man has worshipped them, because religion, as represented in the worship of a supernatural power, is interwoven with entire fabric of human nature. (Encyclopaedia Americana 1961, V. XXIII, p. 354)

23فروری 1985

 موجودہ زمانہ میں مفکرینِ قانون کی بڑی تعداد تشکیک کي شکار ہے۔ مثال کے طورپر گسٹاؤ ریڈ برش (Gustav Radbruch, 1878-1949) اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مطلق قانون قابلِ دریافت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قابلِ مظاہرہ نہیں:

Absolute judgments about law are not discoverable, that is to say, not demonstrable.

یہ نظریۂ قانون کانٹ کے فلسفہ سے نکلا ہے۔ کانٹ نے دکھایا ہے کہ ہم صرف جان سکتے ہیں کہ ’’کیا ہے‘‘، ہم ’’کیا ہونا چاہیے‘‘ کو دریافت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ گسٹاؤ ریڈبرش کا کہنا ہے کہ مطلوبہ قانون بذریعہ اعتراف(confession)اختیار کیا جاسکتا ہے، نہ اس ليے کہ وہ علمي طورپر معلوم (scientifically known) ہے۔ موجودہ زمانہ میں قانون ، زبردست کوشش کے باوجود قانون كے معیار (legal norms) کی تلاش میںناکام ہوچکا ہے۔

25  فروری 1985

بزرگوں کی بزرگی ثابت کرنے کے لیے کس طرح جھوٹے قصے گھڑے جاتے ہیں، اس کی ایک دلچسپ مثال ذیل کا قصہ ہے

مولانا قاسم نانوتوی کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہے کہ مولانا نانوتوی دار العلوم دیو بند میں استاد تھے۔ دارالعلوم کی طرف سے ان کو دس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ نواب صدیق حسن خاں (بھوپال) نے ان کو لکھا کہ آپ دیوبند سے بھوپال آجائیں۔ یہاں آپ کو 300روپئے ماہوار پیش کیے جائیں گے۔ مولانا نانوتوی نے ان کو جواب میں لکھا ’’میںیہاں مدرسہ میں دس روپیے ماہوار تنخواہ پاتا ہوں۔ 5روپیے میں بچوں کا خرچ چل جاتا ہے، اور بقیہ پانچ روپیہ کا مصرف ہر ماہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں بھوپال آجاؤں تو مجھ کو ہر ماہ 295روپیہ کا مصرف تلاش کرناہوگا۔ اور یہ زحمت اٹھانا میرے لیے مشکل ہے‘‘۔

اس سلسلے میں مولانا محمد عبد الحق (انچارج دفتر دار العلوم دیوبند) کا ایک مضمون الجمعیۃ 4 جنوری 1975میںچھپا ہے۔ انھوںنے اس قصہ کو سراسر بے بنیاد بتایا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنی ساری عمر کبھی دار العلوم دیوبند سے کوئی تنخواہ ہی نہیں لی (ملاحظہ ہو، سوانح قاسمی جلد اول، صفحہ 536 )۔

جب مولانا نانوتوی دار العلوم دیوبند سے سرے سے کچھ تنخواہ ہی نہیں لیتے تھے تو ان کے بارے میں مذکورہ قصہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔

26 فروری 1985

نظامِ شمسی (solar system)وہ ہے، جس کے درمیان میںایک روشن ستارہ (سورج) ہو،  اور اس روشن ستارے کے گرد غیر روشن سیارے مخصوص مدار میں گھوم رہے ہوں۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق، معلوم نظام شمسی ابھی تک صرف ایک ہے، جس میں ہماری زمین واقع ہے۔ تاہم علمائےفلکیات کا قیاس ہے کہ اس قسم کے مزید ایک ملین نظامِ شمسی کائنات میں ہوسکتے ہیں۔

کہکشاں(galaxy) اس مجموعہ کو کہتے ہیںجس میں روشن ستارے ایک خاص نظام کے اندر گردش کررہے ہیں۔ ہماری قریبی کہکشاں، جس کا نام ملکی وے (Milky Way) ہے، اورجورات کے وقت لمبی سفید دھاری کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، اس کے اندر تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں، اور ہمارا نظام شمسی اسی میں واقع ہے۔

سورج ہماری کہکشاں کی پلیٹ پر اپنے تمام سیاروں کو ليے ہوئے 175 میل فی سکنڈ کی رفتار سے گردش کررہا ہے۔ یہ کہکشاں اتنی وسیع ہے کہ سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کے رفتار سے ایک چکر 24 کرور سال میں پورا کرتا ہے۔یعنی سورج کے اس تیز رفتار سفر کے باوجود کہکشاں کے مرکز کے گرد ایک چکر کو پورا کرنے میں ہمارے نظام شمسی کو 24 کرور سال لگ جاتے ہیں۔ اس قسم کی ایک بلین سے زیادہ کہکشائیں وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں، اور ہر کہکشاں کے اندر کئی بلین انتہائی بڑے بڑے ستارے موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری کہکشاںملکی وے میں 200 سے 400 ارب ستارے ہیں۔

کہکشاں کے اندر ستارے انتہائی بعید فاصلوں پر واقع ہیں۔ ہمارے سورج سے قریب ترین ستارے کی روشنی، جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کررہی ہو، زمین تک اس کو پہنچنے میں 4 سال سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

اجرام سماوی کے اتنے بڑے نظام کو کیا چیز تھامے ہوئے ہے، فلکیات دانوں کے نزدیک وہ اجرام سماوی کی باہمی کشش ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ’’اجرام سماوی کی باہمی کشش‘‘ کے لفظ کی معنویت آدمی سمجھ لیتا ہے۔ مگر ’’خدا‘‘ کے لفظ کی معنویت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔

27 فروری 1985

مسلمان ساری دنیا میںوَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ (2:61)کا مصداق ہورہے ہیں۔ یعنی اورڈال دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی۔کوئی کوشش اور کوئی تدبیر ان کو اس حالت سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ شاید یہ امت اس سنت الٰہی کی زد میں آگئی ہے، جس میں اس سے پہلے یہود آئے تھے۔ یہود اس ليے مغضوب ہوئے کہ کتاب الٰہی کے حامل ہونے کے باوجود، انھوںنے حق کی گواہی نہیں دی۔ انھوں نے اس کا کتمان کیا۔ مسلمانوں کا حال بھی اب یہی ہورہا ہے۔ ان کو خدا کی آخری وحی دی گئی تھی، اور حکم ہوا تھا کہ جس طرح رسول نے اس امانت کو تمھارے پاس پہنچایا ہے، اسی طرح تم قیامت تک اس کو تمام قوموں تک پہنچاتے رہو۔ مگر امت نے صدیوں سے اپنی اس ذمہ داری کو چھوڑ رکھا ہے۔

موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی ذلت اور مسکنت كا سبب یہی ہے۔ ان کو ذلت اور مسکنت سے نکالنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ ان کو دوبارہ داعی گروہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے، اور حق کا پیغام تمام بندگان خدا تک ان کی اپنی قابلِ فہم زبان میں پہنچایا جائے۔ یہی واحد عمل ہے، جو مسلمانوں کو دوبارہ نصرتِ الٰہی کا مستحق بنا سکتا ہے، اور ان کو دنیا اور آخرت میں سرفراز کرسکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے آج ہمارے ليے ایسے حالات پیدا کرديے ہیں کہ پچھلے تمام زمانوں سے زیادہ موثر شکل میں اس مہم کوانجام دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف پٹرو ڈالر کے خزائن نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں کردیا ہے کہ وہ اس کام کو اعلیٰ ترین سطح پر کرنے کی بڑی سے بڑی قیمت دے سکیں۔ دوسری طرف جدید دریافتوں نے حیرت انگیز طورپر اسلام کے ان تمام معتقدات کے ليے خالص سائنسی دلائل فراہم کرديے ہیں، جن پر پچھلے زمانوں میں صرف قیاسی بحثیں کی جاسکتی تھیں۔ اگر ان دونوں امکانات کو دعوتِ حق کی مہم میں استعمال کیا جائے، تو اظہار دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے خواب کو عالمی سطح پر ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

28 فروری 1985

میںنے ایک خانقاہ میں چند دن گزارے۔ یہاں میںنے دیکھا کہ لوگ زور وشور سے ذکربالجہر کررہے ہیں۔ میںنے وہاں کے ایک عالم دین سے کہا یہ ذکر بالجہر جس کی گونج ہر خانقاہ میں سنائی دیتی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قرآن کے نص صریح کے خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میںآیا ہے:وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ (7:205)۔ یعنی  اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو اپنے دل میں، عاجزی اور خوف کے ساتھ اور پست آواز سے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے یہاں اس قسم کے ذکر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس زمانے میں مطلق اس کا رواج نہیں تھا کہ لوگ بیٹھ کر بلند آواز سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار کررہے ہوں۔

انھوں نے جواب دیا۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ کی روحانیت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جو آپ کو دیکھتا تھا وہ ایمان کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا تھا۔ مگر بعد کے دور میں جب یہ چیز باقی نہ رہی تو بزرگوں نے ذکر بالجہر کا طریقہ اختیار کیا۔ اس سے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے اور دل کو پاک صاف کیا جاتا ہے۔

’’بزرگوں ‘‘ کی طرف سے اس قسم کا جواب دیا جانا اور مریدوں کا نہایت وفاداری کے ساتھ اس کو محفوظ کرلینا ظاہر کرتا ہے کہ مسلم قوم میں دینی فکر کی سطح آج کتنی پست ہوچکی ہے۔ ذکر عبادت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ عبادت کے لیے یہ امر مسلم ہے کہ یہ اجتہاد کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ یعنی اس کا تعین صرف خدا کرسکتا ہے۔ اِنسان اس کی صورت متعین نہیں کرسکتا۔ اب مذکورہ بالا سوال پر غور کیجیے تو منطقی طورپر یہ جواب جہاں پہنچاتا ہے وہ یہ کہ ’’ہم پیغمبر نہیں بن سکتے تھے، اس لیے ہم نے خدا کی نشست پر قبضہ کرلیا ہے۔‘‘

1 مارچ 1985

حضرت مسیح علیہ السلام بلاشبہ خدا کے پیغمبر تھے مگر آپ کا تذکرہ عیسائیوں کی مقدس کتاب کے باہر کہیں موجود نہیں۔ اس بنا پر بہت سے اہلِ علم حضرات، مسیح کو غیر تاریخی شخصیت قرار دیتے ہیں۔کسی شخص کے تاریخی شخص ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ اس کا ذکر معاصر تاریخ  (contemporary history) میں موجود ہو۔چنانچہ عیسائی علما نے بے شمار کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کی معاصر تاریخ میں آپ کا تذکرہ حاصل کرسکیں مگر اس میں انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح کے بارے میں غیر مذہبی ریکارڈ (secular records) نہیں ملتا۔ پیغمبرعیسی کے زمانے کی غیر مسیحی تحریروں میں براہِ راست ان کا کوئی ذکر نہیں۔ تاہم بےپناہ تلاش کے بعد موجودہ زمانے میں بعض بالواسطہ حوالے معلوم کیے گئے ہیں۔ مثلاً بعد کےکچھ یہودی ربّی کی تحریروں میںاس قسم کے جملے دریافت کیے گئے ہیں — فلسطین میںایک جادو گر کا ظہور ہوا تھا تاہم یہ تحریر بھی پہلی صدی عیسوی کی ہے یعنی حضرت مسیح کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کی۔

2 مارچ 1985

حُمید بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں یزید کی ولی عہدی کے وقت حضرت بُشیر کے پاس گیا ،جو صحابہ میںسے تھے۔ میں نے ان سے یزید کے بارے میں اظہارِ خیال کے ليےكها۔ انھوں نے کہا: يقولَوْن:إِنَّمَا يزيد ليس بخير أمة محمد -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وأنا أقول ذلك، ولكن لأن يجمع الله أمة محمد أحب إلي من أن تفترق ( تاریخ الاسلام للذہبی،جلد 4، صفحہ 87)۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ یزید امت محمد کےبہتر لوگوں میں سےنہیں ہے، اور میں بھی یہی کہتا ہوں۔ لیکن امتِ محمدي کا اتفاق سے رهنا،مجھے افتراق کی بنسبت زیادہ پسند ہے۔

جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزيد کو ولی عہد بنایا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کرام زندہ موجود تھے ۔ مثلاً حسین بن علی، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، اور عبدالرحمن بن ابی بکر اور دوسرے بہت سے جلیل القدر افراد ملت کے اندر موجود تھے۔ ایسی حالت میں یزید کو خلیفہ بنانا سخت قابل اعتراض ہوسکتا تھا۔ مگر تمام صحابہ نے اس پر سکوت اختیار کیا۔ حضرت حسین کے سوا کسی نے بھی یزید كے خلاف کوئی مہم نہیںچلائی۔اصحابِ رسول کی یہ خاموشی یقینی طورپر بزدلی کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اسلامی حکمت کی بنا پر تھی۔

4مارچ 1985

حضرت عمر فاروق نے فرمایا: تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا (صحیح البخاری، جلد1، صفحہ25)۔ یعنی سردار بننے سے پہلے تفقہ حاصل کرو۔ حضرت عمر کے اس قول سے موجودہ زمانہ کے بہت سے لوگ اُس فن کی اہمیت پر استدلال کرتے ہیں، جس کو فقہ کہا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سردار یا قائد کو فقہ کا علم ہونا ضروری ہے۔

مگر یہ استدلال صحیح نہیں۔ حضرت عمر کے اس قول سے اس فن کی اہمیت ثابت نہیں ہوتی، جو امام ابو حنیفہ اور دوسرے فقہاء کے ذریعہ وجود میں آیا۔ حضرت عمر کے اس قول سے فقہ کی اہمیت ثابت کرنے والے لوگ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ فقہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھی۔ اگر مذکورہ قول کے یہ معنی ليے جائیںتو تمام صحابہ (بشمول عمر فاروق) سرداری اور قیادت کے لیے نا اہل قرار پائیں گے۔ کیوں کہ ان کا زمانہ موجودہ فقه سے پہلے كا تھا۔ چنانچہ  ان کے لیے یہ ممکن  نہ تھا کہ موجودہ فقہ میں تبحر حاصل کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر کے قول میں تفقہ سے مراد حکمت وبصیرت حاصل کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرداری اور قیادت کے ليے دین کا سادہ علم کافی نہیں ہے، بلکہ دین میں گہری بصیرت ضروری ہے۔ گہری بصیرت کے بغیر جو شخص دینی قائد بنے گا، وہ قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں لے جائے گا۔

5 مارچ 1985

طب نبوی پر تقریباً ایک درجن کتابیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں صحت اور امراض كے علاج کے بارے میں جو کچھ فرمایا، ان کو محدثین نے اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے۔ صحیح بخاری میں بھی کتاب الطب موجود ہے جس میںپچاسی ابواب ہیں۔ آخری باب کا عنوان ہے: بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الإِنَاء )باب جب مکھی برتن میں گرجائے(۔

ایک روایت اس سلسلہ میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت عائشہ کے پاس عیادت کے لیےآئے۔ اس وقت آپ نےکہاعائشہ، سب سے اچھی دوا پرہیز ہے، اور معدہ بیماری کا گھر ہے (الأَزْمُ دَوَاءٌ، وَالمَعِدَةُ بَيْتُ الدَاءِ)الطب النبوی للذہبی، صفحہ 102۔

یہ دو لفظ میں صحت اور تندرستی کا خلاصہ ہے۔ اگر آدمی کھانے پینے میں احتیاط کا طریقہ اختیار کرے۔ اور معدہ میں ضرورت سے زیادہ غذا نہ بھرے، تو وہ، ان شاء اللہ، مستقل طورپر صحت مند رہے گا۔ اس کو نہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوگی، اور نہ خرابی صحت کی شکایت کی نوبت آئے گی۔

6 مارچ 1985

حدیث میں آیا ہے: إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3666)۔ یعنی اولاد بخل اور بزدلی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ یہ بات ہمیشہ صحیح تھی۔ مگر موجودہ زمانہ میں یہ اور زیادہ صحیح ہوگئی ہے۔ قدیم زمانہ میں اسباب حیات بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ اس ليے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی کم تھے۔ اب اسباب حیات بہت زیادہ ہوگئے ہیں، اس ليے بخل اور بزدلی کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

مکان، فرنیچر، لباس اور د وسرے ساز وسامان جتنے آج ہیں، اتنے کبھی نہیں تھے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کی تعمیر کے جو امکانات آج کھلے ہیں، وہ پہلے کبھی نہیں کھلے تھے۔ چنانچہ ہر آدمی انھیں امکانات میں کھویا رہتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ ترین معیار زندگی کا حامل بنانا چاہتا ہے۔

یہ جذبہ آدمی کو دین کے معاملے میں بخیل اور بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے مال کو بچاتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ بچوں کے مستقبل کو سنوارے۔ وہ اپنے وجود کو ہر خطرہ کے مقام سے دور رکھتا ہے ،تاکہ بچوں کے بارے میں اس کا منصوبہ نامکمل نہ رہ جائے۔

7مارچ 1985

ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون مصافحہ کے شرعی طریقہ کے بارے میں ہے۔ اس میں ’’احادیث نبوی‘‘ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دو نوںہاتھوں سے مصافحہ کرنا افضل ہے۔ تاہم ایک ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ یہ ایک حنفی عالم کا مضمون ہے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث علما یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا افضل ہے، اور ان کے پاس بھی حدیث موجود ہے۔

اس طرح کے امور میں افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑنا سراسر خلاف سنت ہے۔ جس معاملے میں بھی ایک سے زیادہ طریقہ حدیثوں میں موجود ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں توسع ہے۔ یعنی یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست ہے۔ ایسے تمام امور میں دونوں ثابت شدہ طریقوں کو درست قر ار دینا چاہیے، نہ کہ ایک کو افضل اور دوسرے کو غیر افضل ثابت کیا جائے۔

اسی لیے حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ میں یہ پسندنہیںکرتا ہوں کہ اصحابِ رسول اختلاف نہ کرتے۔ کیوں کہ اگر صرف ایک قول ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے۔ وہ لوگ نمونہ تھے۔ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اگر کوئی آدمی ان میں سے کسی کے بھی قول کو اختیار کرلے تو وہ آسانی میں ہے(مَا أُحِبُّ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْتَلِفُوا؛ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ قَوْلًا وَاحِدًا كَانَ النَّاسُ فِي ضِيقٍ وَإِنَّهُمْ أَئِمَّةٌ يُقْتَدَى بِهِمْ وَلَوْ أَخَذَ رَجُلٌ بِقَوْلِ أَحَدِهِمْ كَانَ فِي سَعَةٍ) جامع بیان العلم و فضلہ، اثر نمبر1689۔

بعدکے لوگوں میں جو فقہی اختلافات ہوئے ان سب کا ابتدائی سبب صحابہ کے یہاں موجود تھا۔ مگر فرق یہ ہے کہ صحابہ کا ذہن ان اختلافات میںیہ تھا کہ یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست۔ مگر بعد کے لوگوں نے یہ بدعت کی کہ ان اختلافات میںافضل اور غیر افضل تلاش کرنے لگے۔ بس یہیں سے شدت پیدا ہوئی، اور اختلاف آخر کار نااتفاقی بن گیا۔ اختلافی امور میں توسع کا ذہن ہو تو کوئی نقصان نہیںہوتا۔ مگر جب افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جائے تو وہیں سے تباہ کن اختلاف کا آغاز ہوجاتا ہے۔

8 مارچ 1985

ایک صاحب تشریف لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ الرسالہ میں خدا اور گاڈ (God)کا لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کو بند ہونا چاہیے اور اردو اور انگریزی دونوں الرسالہ میں صرف اللہ استعمال ہونا چاہيے۔ اس کی وجہ انھو ںنے یہ بتائی کہ خدا اور گاڈ دونوں لفظوں کی جمع آتی ہے۔ جب کہ اللہ ایک ایسا لفظ هےجس کی جمع نہیں۔

آج کل مسلمانوں میں یہ رجحان بہت بڑھ گیاہے۔ حتی کہ انگریزی میں لوگ ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘ لکھتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ قومی جنون ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

جب کہ معلوم ہے کہ اللہ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایجاد نہیں کیا۔ یہ پہلے عربوں میں موجود تھا۔ قدیم عرب نے اگرچہ اللہ کی لفظی جمع نہیں بنائی ،مگر اس کی معنوی جمع انھوں نے بنا رکھی تھی۔ یعنی اللہ کو مانتے ہوئے وہ ا س کے شرکاء کو بھی مانتے تھے۔ اس طرح اللہ کا لفظ قديم عرب كے پس منظر میں شرک کا مفہوم ليے ہوئے تھا۔ مگر قرآن نے جب اس کو خالص توحید کے معنی میںاستعمال کیا، تو وہ توحید کے مفہوم کا حامل بن گیا۔ الفاظ کی معنویت ان کے استعمال سے متعین ہوتی ہے اور اسلامی کتابوں میں خدا اور گاڈ کا لفظ اسلامی استعمال کے اعتبار سے ہے نہ کہ جاہلی استعمال کے اعتبار سے۔

انگریزی میں ’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ‘‘ لکھنا ایک قسم کا جنون (fanaticism) ہے۔ میرا ذوق یہ ہے کہ اس معاملہ میں ادبی تقاضوں کو اہمیت دینی چاہيے۔ ادبی تقاضوں کو اہمیت نہ دینے کا نقصان یہ ہے کہ عبارت کا زور گھٹ جاتا ہے۔

9مارچ 1985

افغانستان ایک لینڈ لاکڈ کنٹری ہے۔ اس میں مختلف قومیں اور قبائل آباد ہیں۔افغانستان کے سابق حکمراں ظاہر شاہ (1914-2007)کے زمانہ میں سردار داؤد شاہ خان (1909-1978) وزیر فوج تھے۔ انھوں نے جولائی 1973 میں فوجی انقلاب کیا، اور ظاہر شاہ کو ملک بدر کرکے خود حکومت سنبھال لی۔ سردار داؤد کو اپنے اس مقصد کے ليے کمیونسٹ پارٹی (خلق) کی مدد لینی پڑی، جو 1965 میں قائم ہوئی تھی، اور جس کا لیڈر نور محمد تَرَه‌كی(1917-1979) تھا۔

افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی نے عوامی سطح پر سردار داؤد کے انقلاب کی حمایت کی۔ اس کے بعد سردار داؤد اور نورمحمد تَرَه‌كی(Nur Muhammad Taraki)میں اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی۔ آخر کار تقریباً ساڑھے چار برس بعد دوبارہ انقلاب ہوا۔ اپریل 1978 میں خلق پارٹی نے روسیوں کی مدد سے بغاوت کردی۔ سردار داؤد مع اپنے اہل خاندان قصر صدارت میں مار ڈالے گئے ، اور نور محمد ترہ کي برسر اقتدار آئے۔ اس طرح افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آیا، جس کو مقامی زبان میں انقلاب نور کہاجاتا ہے۔ یہیں سے افغانستان میںباقاعدہ روسی تسلط کا آغاز ہوا۔

یہ ایک ہی کہانی ہے، جو تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی شکل میں دہرائی جارہی ہے۔ مصر میں الاخوان المسلمون نے شاہ فاروق (1920-1965) کا خاتمہ کرنے کے ليے فوجی افسروں کا ساتھ دیا۔ بعد کو ان فوجی افسروں نے حکومت پر قابض ہو کر اس سے زیادہ ظلم کیا، جو شاہ فاروق کرسکتا تھا۔ پاکستان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903-1979)صدر ایوب (1907-1971)کو ہٹانے کے ليے بھٹو (1928-1979)کے ساتھ متحد ہوگئے۔ مگر جب صدر ایوب کا خاتمہ ہوا، تو اس کے بعد پاکستان میں بھٹو کے تحت پہلے سے بھی زیادہ ظالمانہ حکومت قائم تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میںمسلمانوں کی عقل چھن گئی ہے۔ وہ بار بار ایسے اقدام کرتے ہیں جس کا نتیجہ صرف الٹی صورت میں ان کے ليے برآمد ہو۔

10 مارچ 1985

انسانوں میں بدترین وہ لوگ ہیں، جو دوسرے انسانوں کے سامنے اپنے آپ کو خدا پرست ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خدا والے نہ ہو کر بھی اپنے کو خدا والا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ایسے لوگ گویا خدا کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ دونوں کے درمیان معلق رہتے ہیں، نہ پوری طرح اپنے عقیدہ کے لیے یکسو ہوتے اور نہ پوری طرح اپنے مفادات کے لیے۔ آخرت میں اگر کوئی جہنم کا سب سے بُرا درجہ ہے تو وہ یقیناً اس قسم کے انسانوں کے لیے ہوگا۔اسی لیے قرآن میں آیا ہے: إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (4:145)۔ یعنی بیشک منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں ہوں گے۔

11 مارچ 1985

قرآن کی سورہ الفتح (آیت 10) میں ہے: وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ(48:10)۔ یعنی اور جو شخص اس عہد کو پورا کرے گا، جو اس نے اللہ سے کیا ہے۔

یہاں عربی نحو کے عام قاعدہ کے مطابق عَلَیہُ کی ’’ه‘‘ زیر ہونا چاهيے، یعنی عَلَيْهِ پڑھا جانا چاهيے، نہ کہ عَلَيْهُ۔اس غیر معمولی اعراب پر تفسیر کی کتابوں میں لمبی بحثیں کی گئی ہیں، اور مختلف طریقوں سے اس کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مگر ایک اہم پہلو اور ہے، جو تفسیر کی کتابوں میں نہیںآیا ہے۔ وہ ہے قرآن کا کامل طورپر محفوظ ہونا۔

قرآن کو صحابہ کرام نے اور بعد کے لوگوں نے کامل طورپر محفوظ رکھنے کا انتہائی حد تک اہتمام کیا ہے۔حتی کہ اس کی آواز کو بھی پوری طرح محفوظ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کا کوئی حصہ اترتا، تو اسی وقت فوراً اس کو لکھ لیا جاتاتھا۔

اسی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت نماز کے اندر یا نماز کے باہر جس طرح ہوتی تھی، اس کی کامل نقل کی جاتی تھی۔چنانچہ اس آیت میں صحابہ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عَلَیہُ پڑھتے ہوئے سنا، تو عین اسی طرح اس کو محفوظ کرلیااور بعد کی نسلوں کو اسی طرح منتقل کرتے رہے۔

قرآن کے بعد جو نحو مرتب ہوئی اس میں ایسے موقع پر زیر کا اصول درج کیاگیا، یعنی عَلَيْهِ۔ مگر چودہ سو سال تک کسی نے ایسا نہیں کیا کہ معروف نحوی قاعدہ کے مطابق بنانے کے ليے قرآن میں اس آیت کو عَلَيْهِ لکھے یا اس کو عَلَيْهِ پڑھے۔ سیکڑوں سال سے یہ آیت اسی طرح لکھی اور پڑھی جارہی ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑھ كر سنایا تھا۔کیسا عجیب یہ اہتمام ہے، جو قرآن کی حفاظت کے ليے کیا گیا ہے۔

12مارچ 1985

میں نے بطور خود ایک اصطلاح وضع کی ہے، جس کو ميں ڈیگال ازم (Degaulism) کہتا ہوں، اس کا مطلب ہے— کسی لیڈر کا اپنی لیڈری کی قیمت پر قوم کا مستقبل بنانا۔ موجودہ زمانہ میں فرانس کے جنرل ڈیگال کی زندگی اس قربانی کی ایک مثال ہے۔ اس ليے میںنے انھیں کے نام سے ڈیگال ازم کی اصطلاح وضع کی ہے۔

جنرل ڈیگال (1890-1970)موجودہ صدی کے وسط میںفرانس کے حکمراں بنے۔ اس وقت فرانس یورپ کا ’’مر د بیمار‘‘ بنا ہوا تھا۔ فرانس کے افریقی مقبوضات میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان تحریکوں کو کچلنے میں خود فرانس کچل اٹھا تھا۔ فرانس کے بے شمار جوان مارے گئے تھے، اور اس کی اقتصادیات دیوالیہ کی حد کو پہنچ گئی تھی۔

فرانس کے افریقی مقبوضات اس کے ليے سرمایہ (asset) نہ تھے، بلکہ اس کے ليے بوجھ (liability)بن چکے تھے۔ مگر اس طرح کی چیزیں قوموں کے ليے پرسٹیج (prestige) کا مسئلہ بن جاتی ہیں، اور جو چیز پرسٹیج بن جائے، اس سے دست برداری کے ليے لوگ کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے۔

جنرل ڈیگال نے اس معاملہ کی نزاکت کو محسوس کیا۔ انھوںنے 1950-60 میں افریقہ کی تمام فرانسیسی نوآبادیات کو آزاد کردیا۔ اس کے بعد 1962 میں الجیریا کو بھی آزاد کردیا ،جہاں زبردست تحریک آزادی چل رہی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ جنرل ڈیگال سے سخت برہم ہوگئے ،حتی کہ 1969 میں ڈیگال کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ اگلے سال جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں صرف چند آدمی شریک تھے۔ مگر جنرل ڈیگال نے خود مر کر فرانس کو زندگی دے دی۔ اس کے بعد فرانس تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہوا، یہاں تک کہ آج فرانس یورپ کا طاقتور ترین ملک شمار ہوتا ہے۔

13 مارچ 1985

جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔جولوگ منفی ردعمل کی بنیاد پر جمع ہوتے ہیں، ان کی مثال بالکل جوار بھاٹا (tide)کی ہے۔جوار بھاٹا جتنی تیزی سے اوپر اٹھتا ہے، اسی تیزی سےوہ نیچے بھی اتر جاتا ہے۔

یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو کسی مخالفانہ نعرے کی بنیاد پر اکٹھا ہوں ۔ کیوں کہ اس طرح اکٹھا ہونے والے لوگ منفی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ اگر اقتدار پر قبضہ پالیں تب بھی کوئی مثبت کام نہیں کرسکتے۔ وہ جتنی تیزی سے جمع ہوتے ہیں اتنی ہی تیزی سے دوبارہ منتشر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کا منفی اتحاد مسلمانوں میں بھی کثرت سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (allergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا:

Abnormal reaction to normal things.

مثلا مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی ردِعمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

اس کے برعکس، دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے(المزمل، 73:10)۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں تعمیری اقدام کرنا۔

14 مارچ 1985

ڈاکٹر الکسس کیرل(1873-1944) نے لکھا ہے کہ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ کمیّت کو کیفیت سے جدا کردیا گیا:

Galileo, as is well known, distinguished the primary qualities of things, dimensions and weight, which are easily measurable, from their secondary qualities, form, colour, odour, which cannot be measured. The quantitative was separated from the qualitative. The quantitative, expressed in mathematical language, brought science to humanity. The qualitative was neglected.  (Man, the Unknown, New York, 1939, p.  278)

15مارچ 1985

ضمام بن ثعلبہ ایک صحابی ہیں۔وہ اپنے قبیلہ سعد بن بکر کی طرف سے نمائندہ بن کر مدینہ آئے، اور اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد وہ اسلام کے داعی بن کر اپنے قبیلہ کی طرف لوٹے۔ قبیلہ میں پہنچ کر انھوں نے پہلی بات جو کہی وہ یہ تھیکتنے برے ہیں، یہ لات اور عزی، جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ قبیلہ کے اندر لات اور عزی کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی، انھوں نے کہا:ضمام چپ رہو، لات اور عزی کو اس طرح برا مت کہو۔ اس سے ڈرو کہ تم کو برص ہوجائے، تم کو جذام ہوجائے، تم كو جنون ہوجائے۔ ضمام نے کہا خدا کی قسم یہ لات اور عزی نہ ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، اور نہ ہم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 574)۔

لات اور عزی بظاہر پتھر کے بت تھے۔ پھر قوم کے لوگوں نے ایسی بات کیوں کہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پتھر کے مجسمے حقیقۃً ان کے قدیم بزرگوں کے مجسمے تھے۔ ان پـتھروں کے ذریعہ وہ اپنے بزرگوں کو پوج رہے تھے۔ حضرت ضمام سے جو کچھ انھوں نے کہا وہ بدلے ہوئے الفاظ میں یہ تھا’’ہمارے بزرگوں کو برا مت کہو، ورنہ تم پر آفت آجائے گی‘‘۔

یہی قوموں کی خاص گمراہی ہے۔ وہ پہلے بھی تھی، اور آج بھی پوری طرح باقی ہے۔ قوموں کا یقین جب خدا سے ہٹتا ہے ،تو وہ اکابر اور بزرگوں پر آکر رک جاتا ہے۔ لوگ اپنے اکابر سے وہ عقیدت وابستہ کر لیتے ہیں، جو عقیدت صرف ایک خدا سے ہونی چاهيے۔ یہی وجہ هے کہ ہر دور میں لوگ سب سے زیادہ جس چیز سے برہم ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کے بزرگوں اور اکابر پر تنقید کی جائے۔

16 مارچ 1985

اسلام پر روایتی عقیدہ کافی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کو جب آپ روایتی الفاظ میں بیان کرتے ہیں، تو وہ صرف روایتی عقیدہ کے طورپر ذہن میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب اس کو وقت کی زبان میں بیان کیا جائے تو وہ سننے والے کی نفسیات کا جزء بن جاتا ہے۔ ایک ناقابلِ فہم منتر آپ کسی کو یاد کراسکتے ہیں، مگر ایسا منتر آدمی کی نفسیات میں شامل نہیں ہوگا۔ وہ بس اوپر اوپر رہے گا، اور کوئی عقیدہ جب تک نفسیات میں شامل نہ ہو ،وہ آدمی کے اندرون کو نہیں جگاتا، وہ اس کی قوت محرکہ نہیں بنتي۔

اسلامی تعلیمات کو وقت کے اسلوب میں بیان کرنے کی چند مثالیں یہ ہیں۔مثلاً سورہ عنکبوت (آیت 2)میں ہے کہ خدا صرف آمنّا (ہم ایمان لے آئے) کہنے پر آدمی کو نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ وہ اس کی آزمائش کرتا ہے۔ اگر آپ آیت کا صرف ترجمہ کردیں، تو وہ جدید ذہن کے ليے کافی نہیں ہوگا۔ مگر جب آپ اس کو ان الفاظ میں بیان کریں    آدمی نارمل (normal)حالات میں جو کچھ کرتاہے، اس پر اللہ کے یہاں فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ اس عمل پر ہوگاجو وہ ابنارمل (abnormal) حالات میں کرتا ہے، تو وہ فوراً جدید انسان کی سمجھ میں آجاتا ہے۔

اسی طرح قرآن میں ہے: فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (25:70)۔ یعنی اللہ اُنکی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۔ اس کی تشریح آپ ان لفظوں میں کریں کہ خدا آدمی کے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میں تبدیل کردیتا ہے۔  یہ تشریح بآسانی جدید ذہن کے ليے قابلِ فہم ہوجائے گی۔اسی طرح عورت اور مرد کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ(3:195) ۔یعنی تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ اگر اس کی وضاحت آپ ان الفاظ میں کریں تو آج کا انسان فوراً اس کی حقیقت کو پالے گا کہ اسلام کے نزدیک عورت اور مرد ایک دوسرے کا تکملہ (supplement)ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart)۔

18 مارچ 1985

صہیون (Zion)  کا لفظ بائبل میں 152 بار آیا ہے۔ یہ قدیم یروشلم میں ایک پہاڑ کا نام تھا۔ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت داؤد نے اسی پہاڑ پر اپنا شاہی قلعہ بنایا تھا۔ اس کے بعد حضرت سلیمان نے اسی پہاڑ پر عبادت گاہ تعمیر کی۔ بعد کو صہیون کا لفظ عمومی طورپر پورے شہر یروشلم کے ليے استعمال ہونے لگا، جو کہ یہودیوں کے نزدیک ان کا مقدس وطن ہے۔ اس علاقہ کو آج کل اوفیل (Ophel) کہاجاتا ہے۔

اس طرح یہودی روایات کے مطابق ’’صہیون‘‘ سے مراد یہودیوں کا مذہبی اور سیاسی مرکز ہے، اور تحریکِ صہیونیت سے مراد داؤد اور سلیمان کے دور کو زندہ کرنا ہے، تا کہ یہودی عظمت دوبارہ مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہوجائے۔یہ ایک مثال ہے کہ مذہبی الفاظ کس طرح قومی تحریکوں کے ليے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہودی اپنی موجودہ فلسطینی تحریک کو صہیونیت (Zionism) کہتے ہیں۔ یہودی روایت کے اعتبار سے ان کے ليے غالباً یہ سب سے زیادہ مفیدِ مطلب نام ہے۔

یہی چیز آج مسلمانوں میں بھی مختلف اعتبار سے پیدا ہوگئی ہے۔ وہ خالص قومی تحریکیں چلاتے ہیں، اور مقدس ظاہر کرنے کے ليے اس کو کوئی اسلامی نام دے دیتے ہیں۔ مگر جو چیز یہودیوں کے ليے بری ہے، وہ مسلمانوں کے ليے کس طرح اچھی ہوجائے گی۔

19 مارچ 1985

صحابي رسول بشیر بن خصاصیہ كا واقعه ہے کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ سرکاری عمال صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں كرتے هيں(إِنَّ أَهْلَ الصَّدَقَةِ يَعْتَدُونَ عَلَيْنَا)، کیا هم اپنے مال میں سے زیادتی کے بقدر چھپالیں، بشير بن خصاصيه نے كهانہیں (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 1586) ۔ اسي طرح سعد بن ابی وقاص کی ایک روایت میں ہےادْفَعُوهَا إِلَيْهِمْ مَا صَلَّوُا الْخَمْسَ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر343)۔ یعنی جب تک وہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، زکوٰۃ انھیں دیتے رہو۔

بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظامِ خلافت بدل گیا اور حکام ظلم وتشدد پر اترآئے، تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں۔ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انھیں کو دینی چاهيے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھاکہ اب زکوٰۃ کس كو دیں۔ کہا:وقت کے حاکموں کو۔ انھوں نے کہا:وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کرڈالتے ہیں (إِذًا يَتَّخِذُونَ بِهَا ثِيَابًا وَطِيبًا)۔ابن عمر نے کہاوَإِنِ اتَّخَذُوا ثِيَابًا وَطِيبًا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 10191) ۔ یعنی اگر چہ وہ کپڑے اور عطر لے لیں (پھر بھی تم انھیں کو زکوٰۃ دو)۔

صحابہ نے یہ جو کہا، يه کسی بزدلی کی وجہ سے نہیں کہا۔ درحقیقت یہی اسلام کا حکم ہے۔ مسلمان کی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں میں خرابی نظر آئے تو صرف یہ حکم ہے کہ ان کو درد مندی اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھاؤ۔ موجودہ زمانہ کی طرح ایجی ٹیشن چلانا، ان کے خلاف عوامی ہنگامے کرنا سراسر ناجائز فعل ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر اس قسم کی سیاست چلا رہے ہیں، وہ بلا شبہ مجرم ہیں۔

20 مارچ 1985

راجہ رام موہن رائے (1772-1833) مشہور ہندو مصلح ہیں۔ انھوں نے سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ وہ سائنسی تعلیم (science-oriented education) کے حامی تھے۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823 میں انگریز گورنر جنرل لارڈ ام ہرسٹ (Lord Amherst) کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہم کو سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹمی اور دوسری جدید سائنسي تعلیم کا انتظام ہو۔

راجہ رام موهن رائے کے زمانہ میں اور ان کے بعد بھی عرصہ تک مسلمانوں میںکوئی بھی قابلِ ذکر آدمی نظر نہیں آتا، جس نے جدید دور میں سائنس کی اہمیت کو سمجھا ہو، اور اس کی تعلیم پر اس طرح زور دیا ہو۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے دور میں مسلمانوں میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو اتنا تعلیم یافتہ ہوجیسا کہ راجہ رام موہن رائے تھے۔ راجہ رام موہن رائے کے سکریٹری (Sandford Arnot) نے لکھا ہے کہ وہ کم ازکم 11 زبانوں سے واقف تھے— سنسکرت ، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، انگریزی، عبرانی، لاطینی، فرانسیسی، اردو، یونانی۔

ان کی پہلی کتاب کانام تحفۃ الموحدین ہے۔ اس کا دیباچہ عربی میں ہے، اور اصل کتاب فارسی میں ہے۔ انھوں نے پہلی بار ویدوں اور اپنشدوں کا انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔ 1816 میںانھوںنے بنگال گزٹ نکالا، جو کسی ہندستانی کی ملکیت میں نکلنے والا پہلا انگریزی اخبار تھا۔ اس کے علاوہ انھوںنے فارسی میں بھی ایک اخبار جاری کیا۔ لال قلعہ کے مغل بادشاہ کو اپنے وظیفہ کی رقم کے سلسلہ میںایک سفارت انگلستان بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت مغل تاجدار نے جس ہندستانی کا انتخاب کیا، وہ راجہ رام موہن رائے تھے۔چنانچہ وہ 1830 میں اس مشن کے تحت انگلستان گئے۔

ہندو قوم کو اٹھارھویں صدی میںراجہ رام موہن رائے جیسا آدمی مل گیا۔ اس ليے وہ فوراً سائنس کی تعلیم میں داخل ہوگئی۔ مگرمسلمانوں کو پچھلے دو سو برس میں بھی غالباً کوئی ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ نہیں ملا۔ ایسی حالت میں مسلمان اگر جدید تعلیم میں پیچھے ہیں تو یہ عین وہی بات ہے، جو واقعہ کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔

21مارچ 1985

اجمیر کے قریب ایک پہاڑی علاقہ ہے،جس كو ميرات كهاجاتاهے۔ یہاں مسلمان معقول تعدادمیں آباد ہیں۔ مگر سب ان پڑھ اور پس ماندہ ہیں۔ وہ دین اور تہذیب دونوں سے دور ہیں۔

تقریباً 15 سال پہلے کی بات ہے مجھے اس علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے ساتھ دو مولوی صاحبان اور تھے۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے میزبان کے گھر کی چھت پر پڑھی۔

میرے ساتھ جو مولوی صاحبان تھے، وہ اس انتظار میں تھے کہ میزبان نماز کے بعد چائے لے کر آئے گا۔ مگر میزبان نماز کے بعد ہم سے رخصت ہوکر گیا تووہ دوبارہ واپس نہیں آیا۔ انتظار کرتے کرتے عشاکا وقت ہوگیا۔ ہم لوگ عشا کی نماز پڑھ کر بیٹھ گئے ،مگر بدستور میزبان کا پتہ نہ تھا۔

میرے ساتھی جو اس سے پہلے چائے کے منتظر تھے، اب بھوک سے بے تاب ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ غرض کافی انتظار کے بعد میزبان بڑے سے برتن میں کھانا لے کر آیا۔ میرے ساتھی خوش ہوئے کہ آخر کار انتظار ختم ہوا۔ مگر ان کی خوشی دیر تک باقی نہیں رہی۔ میزبان نے برتن سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ جو کھانا وہ لے كر آیا ہے، عجیب وغریب کھانا ہے، یعنی ارہر کی دال اور گلگلہ۔

اب میرے ساتھیوں کا صبر ٹوٹ گیا۔ وہ بول پڑے کہ اتنی دیر کے بعد تم کھانا لائے ہو، اور وہ بھی ایسا عجیب وغریب کھانا جو ہم نے کبھی نہ کھایا تھا، اور سنا تھا۔ مگر میرا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ میں نے بہت خوشی کے ساتھ کھانا شروع کردیا، اور کہا کہ یہ تو بہترین کھانا ہے۔ میں کھاتا جاتا تھا ،اور تعریف کرتا جاتا تھا۔ اب میرے ساتھی بھی مجبور تھے۔ وہ بھی میرا ساتھ دیتے ہوئے کھانے میں شریک ہوگئے۔

اس تجربہ کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کی جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔

22 مارچ 1985

21مارچ 1985 میں میںنے ميرات كے بارے ميں اپنے ایک سفر كا تجربہ لکھا ہے۔ اس تجربہ سے سیرت کا ایک پہلو سمجھنے میں مجھے مدد ملی۔

ميرات كے مذكوره سفر میں جب ہمارا میزبان ارہر کی دال اور گلگلہ لے آیا تو میرا اندرونی جذبہ خود بخود رہنمائی کرنے لگا کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاهيے۔ عین اپنے اندرونی جذبے کے تحت میری زبان سے حوصلہ افزائی کے کلمات نکلنے لگے۔ میں یہ کہہ کر ذوق وشوق کے ساتھ اس کو کھانے لگا:یہ تو بہترین کھانا ہے، یہ تو بہترین کھانا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانوں کے سلسلہ میں جو روایتیں آتی ہیں، ان کی حقیقت یہی ہے۔ ان روایتوں کے سلسلہ میں سب سے اہم قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر اس کھانے کا ذکر ہے، جو اس وقت مدینہ میں رائج تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہر چیز رسول اللہ کا پسندیدہ کھانا تھا، تو آخر وہ چیز کیا ہے جو آپ کو پسند نہ ہو۔

اصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ میں غذا کی فراوانی نہ تھی۔ بڑی مشکل سے آدمی کوئی ایک دو چیز حاصل کر پاتا تھا، جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکے۔

اکثر یہ صورت پیش آتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میںکھانے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔ کسی انصاری کو پتہ چلا تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوا، اور آپ کو بلا کر اپنے گھر لے گیا۔ وہ گھر کے اندر کھانا لانے کے ليے گیا، تو معلوم ہوا کہ گھر کے اندرصرف کوئی ایک یا دو چیز ہے، وہ اس کو اٹھا لایا، اور شرمندگی کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیا، اور کہا یار سول اللہ اس وقت یہی ہے، آپ اس کو تناول کیجیے۔ آپ نے کھانے کو دیکھا ،تو آپ کی ایمانی شرافت حوصلہ افزائی کے کلمات میں ڈھل گئی۔ آپ نے یہ کہہ کر اس کو ذوق و شوق کے ساتھ کھانا شروع کردیا ،اور کہایہ تو بہترین چیز ہے، اس سے اچھی کوئی چیز نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذاؤں کے سلسلے میں جو حدیثیں آتی ہیں، ان کی حقیقت بس یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے اقوال دراصل وہ کلمات ہیں، جو ایک شریف آدمی اپنے میزبان کے دستر خوان پر کہتا ہے۔ یہ میزبان کی نسبت سے ہے، نہ کہ کھانے کی نسبت سے۔

23مارچ 1985

اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کیا چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ تنقید (criticism)۔ اس کے بعد اگر دوبارہ یہ پوچھا جائے کہ دنیا میں سب سے زیادہ کم کیا چیز ہے، تو دوبارہ میں کہوں گا کہ تنقید۔

کیوں میں ایسا کہتا ہوں کہ دنیا میں تنقید سب سے زیادہ ہے، اور تنقید ہی سب سے کم ہے۔ اس کی وجہ ایک تنقید اور دوسری تنقید کا فرق ہے۔ تنقید کی ایک صورت بے دلیل اظہار رائے ہے، اور دوسری صورت ہے مدلّل تجزیہ۔ بے دلیل اظہار رائے بلا شبہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، مگر مدلل تجزیہ اس کی نسبت سے انتہائی حد تک کم ہے۔ بلکہ شاید اس کا وجود ہی نہیں۔

ایک صاحب ایک بار میری کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ لے گئے۔ پڑھنے کے بعد میںنے ان سے ان کی رائے پوچھی، تو انھوں نے کہا کہ ’’آپ نے لٹھ ماری ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ میں نے کسی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، دلیل سے لکھا ہے، آپ اس کو لٹھ مارنا کیسے کہتے ہیں۔ مگرانھوں نے نہیں مانا۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کتاب سے کوئی ایک مثال دیجئے، جس میں دلیل سے بات نہ کہی گئی ہو، بلکہ لٹھ ماری گئی ہو۔ مگر انھوں نے کوئی مثال نہیں دی۔ جب میں نے اصرار کیاتو وہ بگڑ گئے۔ اس قسم کی تنقید میرے نزدیک جھوٹی تنقید ہے۔ جو شخص متعین مثال نہ دے سکے، اس کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ مجرد اظہار رائے کرے۔

بعض تنقیدیں ایسی ہیں جن میں بظاہر مثال اور تجزیہ ہوتا ہے۔ مگر وہ نہ مثال ہوتی، اور نہ تجزیہ۔ کیوںکہ اس کی بنیاد تمام تر غلط مثال اور ناقص تجزیہ پر ہوتی ہے۔ مثلاً ’’عظمت قرآن‘‘ پہلی بار چھپی تو اس کاٹائٹل سبز رنگ کا تھا۔ اس کو دیکھ کر ایک صاحب نے کہا ’’سبز رنگ قذافی کا رنگ ہے‘‘ اس ليے یہ کتاب قذافی کے پیسہ سے چھپی ہے۔ حالاں کہ یہ سراسر بے بنیاد بات تھی۔ اس کتاب کا کچھ بھی تعلق قذافی سے نہ تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ سچی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، اور جھوٹی تنقید دنیا کا سب سے زیادہ آسان کام۔

25مارچ 1985

مسز اینی بسنٹ (1847-1933) ایک انگریز خاتون تھیں۔ انھوں نے لندن کے ایک اچھے تعلیمی ادارے میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن وغیرہ زبانیں سیکھیں۔ ان کے اندر اظہارِ خیال کی بہت عمدہ صلاحیت تھی۔ وہ 1893 میں ہندستان آئیں، اور یہاں کے بہت سے سیاسی اور سماجی کاموں سے وابستہ رہیں۔ 21 ستمبر 1933 کو ان کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر پر یہ کتبہ لکھا گیا:

She tried to follow truth.

اس نے سچائی کے راستے پر چلنے کی کوشش کی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسز اینی بسنٹ عملی طورپر دوسروں کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ انھوںنے 1867 میں انگلینڈ کے ایک مذہبی آدمی فرینک بسنٹ سے شادی کی۔ کچھ دنوں کے بعد ان کو احساس ستانے لگا کہ ان کا شوہر آمریت پسند ہے۔ وہ اس سے نباہ نہ کرسکیں اور انھوں نے 1873 میں اس سے علیحدگی حاصل کرلی۔

وہ ہندستان کی سیاست میں داخل ہوئیں اور1917 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔ مگر عدمِ تعاون تحریک (non-cooperation movement)پر ان کا مہاتما گاندھی سے اختلاف ہوا، اور انھوں نے کانگریس چھوڑ دی۔

مسز اینی بسنٹ کی واقعات سے بھری ہوئی زندگی (eventful life) میںاس طرح کے بہت سے قصے پائے جاتے ہیں— وہ سچائی کی ہم سفر تھیں، مگر وہ سچوں کی ہم سفر نہ بن سکیں۔

ذہنی سفر کا معاملہ عملی سفر کے معاملہ سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ ذہنی سفر میں آدمی اکیلا ہوتا ہے۔ ذہنی سفر میں یہ نزاکت پیش نہیں آتی کہ آدمی کو دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر طے کرنا ہے۔ مگر عملی سفر میں دوسرے لوگ بھی شریکِ سفر ہوتے ہیں۔ یہاں ضروری ہوتاہے کہ آدمی دوسروں سے نباہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو ذہنی سفر میں بہت تیز رفتار نظر آتے ہیں، وہ عملی سفر میں بالکل ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

26 مارچ 1985

ہندستان کے دینی مدارس کے معلّم یقیناًایک اہم خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ ايسي نسل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں،جس سے دینی روایت کا تسلسل قائم ہے۔ اسی طرح یہ مدارس آزاد ہندستان میں اردو کو زندہ رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، وغیرہ۔

مگر ہندستان کے دینی مدرسوں میں جو ماحول ہے وہ معلمین کے فکری مستویٰ کو بلند نہیں ہونے دیتا۔ مثال کے طورپر ان مدارس میں استاد اور شاگرد کا رشتہ صرف معلِّم اور معلَّم (متعلم) کا رشتہ ہے۔ یعنی ایک بتانے والا ہے اور دوسرا سننے والا۔ اس کی وجہ سے معلمین کا مزاج ایسا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ طلبہ کے سامنے ان کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں سیکھنا نہیں ہے، بلکہ سکھانا ہے۔ اس سے ان کا ذہن جمود (stagnation)کا شکار ہوجاتاہے۔ مزید یہ کہ جاننا یا دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ سب باتیں ان کے مزاج سے خارج ہوجاتی ہیں۔

اس کے برعکس مغرب میں تعلیم کا تصور بالکل دوسرا ہے۔ مغرب میں استاد اور شاگرد کے درمیان معلِّم اور معلَّم کا تعلق نہیں، بلکہ رفیق کا تعلق ہے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک مشترک سفر ہے، جس کو استاد اور شاگرد دونوں مل کر انجام دیتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں انسان کا ذہن یہ بنتا ہے کہ ا س کو اگر كچھ دینا ہے، تو اسی کو دوسرے سے كچھ لینا بھی ہے۔ وہ اگر کچھ باتیں جانتا ہے تو دوسرے بھی کچھ باتوں کو جانتے ہیں جن کو اسے دوسرے سے لینا چاهيے۔

مغرب کے تعلیمی نظام میں معلِّم کے اندر ذہنی جمود پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے اندر یہ صلاحیت زندہ رہتی ہے کہ وہ اپنے سے باہر کی حقیقتوں کو سمجھے، اور ان سے فائدہ اٹھائے۔اس کے برعکس ہمارے دینی مدارس کا ماحول، مذکورہ سبب سے، جامد ذہنیت پیدا کرنے کا کارخانہ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس کے ذریعہ تحفظ دین کا کام تو کسی درجہ میں ہوا، مگر احیائے دین کا کام ان مدارس کے ذریعہ مطلق نہ ہوسکا۔

27 مارچ 1985

قدیم مفسرین کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قرآنی آیتوں کے ذیل میں شان نزول کی روایات بیان کرتے ہیں۔ فراہی اسکول اس طریقِ تفسیر کا مخالف ہے۔ وہ شان نزول کی روایتوں کی روشنی میں قرآن کی تشریح کرنا صحیح نہیں سمجھتا۔

مثال کے طورپر سورۃ حجرات کی ابتدائی آیات کے ذیل میں قدیم تفسیروں میں ولید بن عقبہ کا قصہ نقل ہوا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں اس پر سخت گرفت کی ہے اور اس کو بے بنیاد قرار دیا ہے(ملاحظہ ہو تدبر قرآن جلد 6، صفحہ 495-97)۔

یہ لوگ اس طریق تفسیر کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ شانِ نزول کی روایتوں کو ماننے کی صورت میں گویا قرآن محض خاص انفرادی واقعات سے متعلق ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس سے قرآن کی وسعت اور ابدیت مجروح ہوتی ہے۔

مگریہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ اگر ہم یہ مانیں کہ قرآن کی فلاں آیت فلاں خاص واقعہ پیش آنے پر اتری تو اس سے قرآن کی وسعت اور ابدیت میںکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن حالات کے ذیل میںاترا ہے(الفرقان، 25:33)، نہ کہ عام تصنیف کی طرح یکبارگی لکھ کر ایک مکمل کتاب کی صورت میں اتار دیاگیا ہو ۔

شانِ نزول کی روایتوں کا مطلب صرف یہ ہے کہ مکہ یا مدینہ کے سماج میں ایک واقعہ گزرا۔ اس سے زندگی کے ایک معاملے کے بارے میں سننے اور جاننے کی فضا پیدا ہوئی۔ اس وقت اللہ نے  اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں اپنا حکم نازل فرمایا۔ یہ حکم ایک اعتبار سے مخصوص واقعہ کے بارے میں شریعت الٰہی کا اظہار تھا اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک اصولی ہدایت تھی جو قیامت تک تمام انسانوں کے لیے رہنما بنے۔

28 مارچ 1985

مسلمان واحد قوم ہیں جنھوں نے بحیثیتِ قوم آج کی دنیامیں سب سے بڑی اقتصادی قربانی دی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مسلمان آج اقتصادیات میں سب سے پیچھے ہیں۔ جب کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ سے پہلے وہ ساری دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سب سے آگے تھے۔ اس کی وجہ ان کی بے خبري نہیں، جیسا کہ عام طورپر سمجھا جاتا ہے، بلکہ بربنائے عقیدہ ان کی قربانی ہے۔ مسلمان آخر چاند سے تو نہیں آئے، وہ بھی انھیں قوموں سے نکل كر اسلام میں داخل ہوئے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دوسری قومیں جس جدید اقتصادی تبدیلی کو سمجھ کر اس پر چل پڑیں، مسلمان اس پر نہیں چلے۔ اس کی وجہ سود ہے۔ جدید اقتصادیات تمام کی تمام سود پر مبنی ہیں۔ مسلمان سود کی حرمت کی وجہ سے اس سے الگ رہے۔ اور اس کے نتیجے میں اقتصادی اعتبار سے وہ ساری قوموں میں سب سے پیچھے ہوگئے۔

سودی اقتصادیات نے آج ساری دنیا کو تباہ کررکھا ہے۔ مسلمانوں کے ليے بہترین موقع تھا کہ وہ دنیا کے سامنے غیر سودی نظام کی تبلیغ کرتے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں ایسا کرتے تو وہ جدید دنیا کے امام بن سکتے تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس معاملہ کا نقصان تو ان کے حصے میںآیا، مگر اس کا فائدہ ان کے حصے میںنہ آسکا۔

موجودہ زمانہ کی دو بنیادی خرابیاں ہیں جنھوں نے ساری انسانیت کو تباہ کر رکھا ہے۔ ایک سودی معاشیات، دوسرے آزادانہ جنسی اختلاط۔ ان دونوں چیزوں کے بار ے میں دوسرے مذاہب کے پاس واضح اصول نہیں۔ تحریف (distortion)نے ان کی تعلیمات میں صحیح اور غلط کی آمیزش کررکھی ہے۔ آج صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جس میںان امور کے بارے میں واضح احکام موجود هيں۔ ان کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کے ليے دعوتی ذہن اور علم درکار ہے، اور یہی دونوں چیزیں ہیں جو مسلمانوں کے پاس موجود نہیں۔

29مارچ 1985

عرب امارات کے ایک سفر میں میری ملاقات استاذ احمد العبّادی (شارجہ) سے ہوئی۔ یہ 21 رجب 1404 ھ کا واقعہ ہے۔ انھوںنے بتایا کہ فرانس کے ایک اسپتال کے ڈائرکٹر نے اعلان شائع کیا کہ اس کو طبی تحقیق کے سلسلہ میں کچھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، ان میں ایک نوجوان عرب بھی تھا۔ یہ مسلمان تھا مگر اسلام سے اس کو زیادہ دلچسپی نہ تھی۔انٹرویو کے دوران ڈائرکٹر نے پوچھا کہ تم مسلمان ہو، تمھاری رائے محمد کے بارے میں کیا ہے۔ نوجوان عرب نے جواب دیاوہ قدیم عرب کے ایک بدو تھے، انھوںنے کچھ بدوؤں کو بے وقوف بنا کر اپنے گرد جمع کرلیا۔

نوجوان کا یہ جواب سن کر مذکورہ فرانسیسی ڈائرکٹر اس کو ایک مخصوص کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک بورڈ پر یہ حدیث لکھی ہوئی تھی

عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُمَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2380، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3349، مسند احمد، حدیث نمبر 17186) ۔ یعنی مقدام بن معددی کرب سے روایت ہے ، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا، آپ کہتے ہیں کہ کسی انسان نے پیٹ سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی برتن نہیں بھرا، انسان کے ليے اتنے لقمے کافی ہیں کہ وہ اپنی پیٹھ کو سیدھا کرسکے، اگر اور ضرورت ہے، تو ایک تہائی اس کےکھانے کے ليے ہو ، اورایک تہائی اس کےپانی کے ليے ہو،اور ایک تہائی اس کی سانس کے ليے ۔

فرانسیسی ڈائرکٹر نے مذکورہ عرب نوجوان کو یہ حدیث دکھائی، اور کہا کہ میں نے اس حدیث رسول سے دس سے زیادہ طبی اصول اخذ کیے ہیں، اور میری ریسرچ ابھی جاری ہے۔ لہذا جاہل اور گنوار تم ہو ،نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اور پھر اس طالب علم کو اپنے ادارہ میں لینے سے انکار کردیا۔

30مارچ 1985

قرآن میں سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے:وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاهَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (51:47)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہےاور ہم نے آسمان کو بنایا ہاتھ سے اور ہم یقینا ًپھیلانے والے ہیں۔

قدیم مترجمین کی سمجھ میں پھیلانے والے کی معنویت نہ آسکی، اس لیے انھوں نے لَمُوسِعُونَ کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:

وہر آئینہ ما توانائیم۔

اور ہم کو سب مقدور ہے۔

اور ہم وسیع القدرت ہیں۔

اور بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔

اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔ وغیرہ۔

خالص لفظی اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ لفظی ترجمہ یہ ہے’’ ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘ یا ’’ہم پھیلانے والے ہیں‘‘۔

ترجمہ کے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات(expanding universe) ہے۔ انسانی علم کی محدودیت اس کو نہ پاسکی۔ مگر قرآن کے مصنف کو یہ حقیقت اس وقت بھی معلوم تھی کہ جب کہ ساری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے مُوسِعُونَ(ہم پھیلانے والے ہیں) کے لفظ کا انتخاب فرمایا۔

قرآن میںاس طرح کے کثیر شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن عالِم الغیب کا کلام ہے، محدود ذہن رکھنے والا انسان ایسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔

1 اپریل1985

 سورۃ الذاریات کی آیت 47کے سلسلے میں میںنے قرآن کے بہت سے تراجم کو دیکھا۔ اکثر لوگوں نے وہی ترجمہ کیا ہے، جو میں اس سے پہلے نقل کر چکا ہوں۔ میرے علم کے مطابق، اس میں صرف کچھ مترجمین کا  استثنا ہے۔

شاہ رفیع الدین صاحب (1750-1818)کے متعلق معلوم ہے کہ وہ خالص لفظی ترجمہ کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ اس کا بھی لحاظ نہیں کرتے کہ ان کے الفاظ پڑھنے والا سمجھ سکے گا یا نہیں ۔ان کے لفظی ترجمہ پر کچھ لوگ ہنستے ہیں، مگرحقیقت ہے کہ اس لفظی ترجمہ کی وجہ سے اکثر وہ ایسی غلطی سے بچ جاتے ہیں، جو دوسرے مترجمین سے ہوئیں۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے مذکورہ آیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:

’’اور آسمان کو بنایا ہم نے اس کو ساتھ قوت کے اور تحقیق ہم البتہ کشادہ کرنے والے ہیں‘‘

)مطبوعہمجمع البحوث العلمیہ الاسلامیہ، نئی دہلی، صفحات623-24(

یہ چھوٹی سی مثال ایک بہت بڑی حقیقت کو بتاتی ہے۔ یہ حقیقت کہ خدا کے کلام کی اطاعت خالص تقلیدی انداز سے ہونی چاہیے۔ خدا کے کلام سے اگر ایک حکم واضح طورپر نکل رہا ہو تو ہم کو چاہیے کہ ہم بالکل مقلدانہ انداز میں اس پر چل پڑیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل یہ بتائے کہ خدا کے اس حکم میں بہت بڑا خیر تھا جو بظاہر ہماری عقل میں نہیں آتا تھا۔

شاہ رفیع الدین صاحب نے یقیناً یہ ترجمہ جدیدفلکیاتی فہم کے ساتھ نہیں کیا کیوں کہ توسیع کائنات کا نظریہ (expanding universe theory) ان کے زمانے میں دریافت ہی نہ ہوا تھا۔ یقینی طورپر انھوں نے یہ ترجمہ خالص تقلیدی ذہن کے تحت کیا، مگر ان کی تقلید عظیم الشان اجتہاد بن گئی۔ جو چیز ماضی میں بظاہر ناقابلِ فہم تھی، جب مستقبل کے پردے ہٹے تو معلوم ہوا کہ وہی سب سے زیادہ قابلِ فہم بات ہے۔ آج جدید معلومات سامنے آنے کے بعد شاہ رفیع الدین صاحب ہی کا ترجمہ صحیح نظر آتا ہے جب کہ قدیم زمانے میں وہ غیر صحیح دکھائی دیتا تھا۔

2 اپریل 1985

پاکستان کے سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ یہ ایک مشہور شخصیت ہیں، اور پاکستان میں ’’غلبۂ اسلام‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ میںنے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں غیر مسلم (ہندو اور عیسائی) قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں۔ کیا ان کے درمیان کوئی تبلیغِ اسلام کی تحریک چل رہی ہے۔ میرا یہ سوال سن کر وہ مسکرائے اور پھر کہایہاں غیر مسلموں کی فکر کون کرتا ہے۔

مجھے ان کے اس جواب سے بہت دھکا لگا۔ میرے ليے یہ تجربہ بڑا اندوہ ناک تھا کہ جو لوگ غلبۂ اسلام کی باتیں کرتے ہیں، ان کو صرف اسلام کے سیاسی غلبہ سے دلچسپی ہے۔ خدا کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی انھیں کوئی فکر نہیں۔میرا قطعی یقین ہے کہ غلبہ اسلام کی بات کو اگر دعوت اسلام سے الگ کردیا جائے تو وہ صرف ایک قومی نعرہ بن جاتا ہے۔ دعوت اسلام سے الگ کرنے کے بعد غلبۂ اسلام کے نعرے کی کوئی حقیقت نہیں۔

اس قسم کی تحریک عین وہی ہے، جو یہودیوں کے اندر چل رہی ہے۔ یہودیوں کی تحریک صہیونیت (Zionism) گویا حضرت موسی کے دین سے ہدایت کو الگ کرکے صرف سیاست کو لے لینا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں جو لوگ حقیقی معنوں میں دعوتی جذبہ نہیں رکھتے، البتہ غلبہ اسلام کے موضوع پر پرجوش تقریریں کرتے ہیں، وہ درحقیقت قومی دین پر ہیں ،نہ کہ خدائي دین پر۔ انھوں نے دین کے دعوتی حصہ کو الگ کرکے اس کے سیاسی حصہ کو لے رکھا ہے، اور یہ عین وہی چیز ہے جو یہودیوں کے یہاں پائی جاتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ یہودی اپنی روایات میں بولتے ہیں، اور مسلمان اپنی روایات میں۔

جو مسلمان سیاسی طور پر غلبۂ اسلام کے علم بردار ہیں، وہ بظاہر دعوت کا لفظ بھی بولتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک کے تین مرحلے ہیں— دعوت، ہجرت، جہاد۔ مگر دعوت سے ان کی مراد اس دنیا کے اندراپنے سیاسی اسلام کے ليے فضا تیار کرنا ہے، نہ کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے منصوبۂ تخلیق سے باخبر کرنا۔

3 اپریل 1985

انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ خالق کا تصور اس کی فطرت کےساتھ پوری طرح وابستہ (interwoven)ہے۔ یہ وابستگی اتنی گہرائی کے ساتھ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر جب انسان مطالعہ کرتا ہے، اور غور وفکر سے کام لیتا ہے تو خالق کے ساتھ اس کی فطرت کی یہ وابستگی اور بھی زیادہ گہری ہوجاتی ہے۔ اس وقت اگر کسی غیر خدا کواس کے سامنے خدا کے روپ میں پیش کیا جائے تووہ غیر خدا کو خدا ماننے سے انکار کردے گا۔

4 اپریل 1985

شریمتی سبھدرا جوشی (پیدائش 1919) نے فورمن کرشچین کالج لاہور سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ بچپن سے ملکی سیاست میں دلچسپی لیتی رہی ہیں۔ 1947کے بعد فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے والوں میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ماہنامہ شبستان (جون 1972) کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا

1947 کے ہنگامہ میں ہم دہلی کے مسلم محلوں میں کام کررہے تھے۔ دلی کانگریس پر ہمارا قبضہ تھا۔ گاندھی جی آئے انھوں نے ہم سے پوچھا، کتنے مسلمان مارے گئے۔ ہم نے بتایا کہ دس ہزار سے زیادہ مارے گئے ہیں۔ وہ بہت برہم ہوئے اور کہا کہ تم نے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ہم نے کہا ہم تو برابر کوشش کررہے ہیں، مگر حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ انھوںنے غصے میں پوچھا ان دس ہزار میں تمھارے کانگریس ورکر کتنے مارے گئے۔ ہم نے جواب دیا، ایک بھی نہیں۔ اس پر وہ بولےپھر میں کیسے مان لوں کہ تم نے بچانے کی کوشش کی ہوگی‘‘۔

سبھدرا جوشی کی رپورٹ کے بعد گاندھی جی کا ایک جواب یہ ہوسکتا تھا— ’’کوشش اپنا کام ہے، کامیابی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تم اپنی کوشش جاری رکھو‘‘۔

مگر یہ جواب نہیں۔ جولوگ اپنے ماتحتوں کو اس قسم کے جواب دیں وہ زندگی کی حقیقتوں سے بالکل ناواقف ہیں۔

5 اپریل 1985

مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ میں ایک پیدائشی سائنس داں (born scientist) ہوں، ٹکنکل معنوں میں نہیں بلکہ مزاج کے معنوں میں۔

سائنٹسٹ خارجی حقیقت کا مطالعہ کرتا ہے، اور اس کو انتہائی درست زبان (precise language) میں بیان کرتاہے۔ سائنس داں کی کامیابی یہ ہے کہ وہ خارجی حقیقت کو ویسا ہی بیان کردے جیسا کہ وہ فی الواقع ہے۔اس سے سائنس داں کے اندر حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی مزاج (scientific temper) دراصل حقیقت واقعہ سے مطابقت ہی کا دوسرا نام ہے۔

حقیقتِ واقعہ سے مطابقت کا مزاج میرے اندر بچپن سے پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ميں کسی کی کوئی بات نقل کرتا ہوںتو آخري حد تک کوشش کرتا ہوں کہ وہی بات نقل کروں، جو کہنے والے نے کہی ہے۔ تاکہ اصل اور نقل میں یکسانیت باقی رہے۔ جب میں کسی کے فکر پر تنقید کرتاہوں تو اس کو بار بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری تنقید عین اسی بات پر ہو جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے، نہ کہ کسی دوسری بات پر۔

اپنے اس مزاج کی وجہ سے اکثر میں یہ کرتارہا ہوں کہ جب مجھے اسلام کے موضوع پر کوئی مقالہ یا کتاب لکھنا پڑا تو میں اس سے پہلے پورے قرآن کو ایک بار پڑھتا ہوں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے کے باوجود ہر نئے موقع پر میں پھر سے اس کو ایک بار پڑھتا ہوں، تاکہ میری بات عین قرآن کے مطابق رہے، دونوں کے اندر نامطابقت پیدا نہ ہونے پائے۔

میرا یہ مزاج اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں ظاہر ہوتا ہے۔ حتی کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی خط کا جواب دیتے ہوئے میںاس خط کو کئی بار پڑھتا ہوں۔ مکتوب نگار کا منشا اچھی طرح سمجھنے سے پہلے میںاس خط کا جواب نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے اوپر لوگوں نے بے شمار تنقیدیں کی ہیں مگر آج تک کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ میں نے اس کی بات کو غلط شکل میں پیش کیا ہے۔

6 اپریل 1985

میری کتابوں میں سے ایک کتاب وہ ہے جس کا نام ہے’’حل یہاں ہے‘‘ (مطبوعہ نئی دہلی، 1985، صفحات 88)۔یہ کتاب ہندستان کے ہندومسلم جھگڑوں کے بارے میں ہے۔ اس میں میں نے دکھایا ہے کہ ہندومسلم جھگڑوں میں مسلمان قصور وار ہیں۔ اس کے شروع ہی میں یہ جملہ ہے

’’ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب خواہ کسی کے نزدیک جو بھی ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ فسادات اگر بند ہوں گے، تو صرف اس وقت بند ہوں گے جب کہ مسلمان اپنے حصہ کا فساد بند کریں ‘‘۔

مسلمانوں کے لیے یہ بات بے حد سخت ہے کیوں کہ سارے مسلم لیڈر یک طرفہ طورپر ہندو کو برا کہہ رہے ہیں ۔ایسی حالت میں مسلمانوں کو قصور وارٹھہرانا ،ان کے قومی ذوق کے سراسر خلاف ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو بات ایک کٹر ہندو کہے گا ،وہ میں مسلمان ہو کر کہہ رہا ہوں۔چنانچہ ایک صاحب ہمارے دفتر میں آئے تو میرے ان مضامین پر گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا

’’لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ڈیپوٹ (depute) کیے گئے ہیں ‘‘

ان کا مطلب یہ تھا کہ میں ہندو حکومت یا ہندو جماعتوں کی طرف سے اس لیے ڈیپیوٹ کیا گیا ہوں کہ مسلمانوں کو قصور وار ثابت کروں۔ میں نے کہا کہ ایک معمولی ترمیم کے بعد مجھے آپ کے جملہ سے اتفاق ہے۔ وہ ترمیم یہ ہے

" بلا شبہ میں deputed انسان ہوں تاکہ میں رسولِ خدا کی تعلیم کو انسانوں تک پہنچاؤں، اس میں میرا کوئی مادی انٹرسٹ نہیں ‘‘۔

8اپریل 1985

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا (حَطَمَهُ النَّاسُ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 732۔ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ کی کیا مصلحت ہے،مگر میرے جیسے کمزور آدمی کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ لوگوں نے مجھ کو اتنا زیادہ ستایا ہے کہ اس کے ليے انسانی زبان میں سب سے موزوں لفظ یہی ہے — لوگوں نے مجھ کو روند ڈالا۔

پھر بھی میں زندہ ہوں ۔ اپنے حال پر مجھے ایک قصہ یاد آتاہے۔ ایک رسالہ نے ایک بار ایک انعامی سوال نامہ چھاپا۔ سوال یہ تھا کہ ایک عورت کی شادی ایک مردسے ہوئی۔ عورت اس مرد کو بہت زیادہ چاہتی تھی۔ مگر شادی کے جلد ہی بعد مرد کا انتقال ہوگیا اور اس نے ایک چھوٹا بچہ چھوڑا ۔ سوال نامہ میں پوچھا گیا تھا کہ بتاؤ کہ یہ عورت اپنے محبوب شوہر کے مرنے کے بعد خود بھی مرجانا چاہے گی یا زندہ رہنا پسند کرے گی۔بہت سے لوگوں نے اپنے جوابات بھیجے۔ جس آدمی کو انعام ملا، وہ شخص وہ تھا جس نے لکھا کہ وہ عورت اپنے بچے کی خاطر زندہ رہنا چاہے گی۔

ایسا ہی کچھ میرا حال بھی ہے۔ لوگوں نے مجھے جس قدر ستایا ہے، اور ستارہے ہیں ،اس کے بعد مجھے ایک دن کے لیے بھی زندہ نہیں رہنا چاهيے تھا۔ مگر میرے سامنے جو دینی کام ہے وہی وہ چیز ہے جو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔

میں قرآن کی تفسیر مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سیرت پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ کئی ضروری موضوعات پر دینی کتابیں تیار کرنا ہے۔ یہی پیش نظر کام ہے، جو مجھے زندہ رہنے پر مجبور کرتاہے۔

شاید اللہ تعالیٰ کو بھی منظو رہے کہ میں یہ کام کروں۔ ورنہ لوگوں نے جتنا زیادہ مجھے پریشانی میں مبتلا کیا ہے ،اس کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ جانی چاهيے تھی۔ مگر یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ میرے ہوش پوری طرح باقی ہیں۔ رات کو مجھے وہ نیند آتی ہے جس کو sound sleep  کہاجاتا ہے۔ اگر میری نیند خدا نخواستہ اڑ جاتی، تو اس کے بعد میںکوئی بھی علمی کام نہیں کرسکتاتھا۔یا اللہ، مجھے بخش دیجيے، دنیا کا ستایا ہوا ،آخرت میں نہ ستایا جائے۔

9 اپریل 1985

1973 کا واقعہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کی لڑائی میں فلسطینیوں کا کافی نقصان ہوا تھا،اور مسلمانوں میں غم و غصہ کا ماحول تھا۔ 19 اکتوبر 1973 کو جمعیۃ علماء کے زیر اہتمام دہلی میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ یہ جلوس جامع مسجد سے شروع ہو کر امریکی سفارت خانہ پر ختم ہوا۔ دہلی کے مسلمانوں کے علاوہ اطراف کے شہروں کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آ آکر اس میں شامل ہوئے تھے۔ میں بھی الجمعیۃ ویکلی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اس جلوس میں شریک تھا۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے گیٹ پر جمع ہوگئے۔ لوگ اس قدر جوش میں تھے گویا کہ وہ گیٹ کو توڑ کر سفارت خانہ کے اندر داخل ہوجائیں گے۔ تاہم وہاں پولیس کا کافی انتظام تھا، اس ليے لوگ اندر داخل نہ ہوسکے۔

مولانا سید احمد ہاشمی صاحب (وفات 2001) نے ایک ٹرک پر کھڑے ہوکر تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں جوش وجذبہ کا مظاہرہ کرنے کے بعد آخر میں کہا کہ اس وقت فلسطینی عربوں کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ خون ہے۔ ہزاروں لوگ زخمی ہو کر اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کے ليے انھیں فوری طورپر خون پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں ایک رجسٹر رکھا گیا ہے۔ آپ میں سے جو لوگ خون دینا چاہیں، وہ رجسٹر میں اپنا نام لکھوادیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی فوراً خون نہیں لیا جائے گا، ابھی صرف نام اور پتہ لکھا جائے گا۔ جتنے آدمی نام لکھوائیں گے، ان کی فہرست یہاں ہم عرب سفارت خانہ میں دے دیں گے۔ اس کے بعد ان کے مطالبہ کے مطابق آپ حضرات کو خون دینے کے لیے بلایا جائے گا۔

مقرر نے اپنے اس اعلان کو بار بار دہرایا، اوران کو نام لکھوانے پر ابھارا ۔مگر غالباً ہزاروں کے مجمع میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں تھا، جس نے رجسٹر میں اپنا نام لکھوایا ہو۔ امریکی سفارت خانہ کے خلاف جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے والے اس وقت بالکل ٹھنڈے ہوگئے ،جب انھیں اپنا خون دینے کے ليے پکارا گیا ۔ ایک ایک شخص خاموشی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف واپس چلا گیا۔

10اپریل 1985

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے۔جامع مسجد دہلی میں ایک دن دو جلسے ہوئے۔ دونوں جلسے جامع مسجد کے قریبی پارک میں تھے۔ دونوں کی تاریخ ایک تھی۔ صرف اتنا فرق تھا کہ ایک جلسہ مغرب سے پہلے ہوا، اور دوسرا جلسہ مغرب کے بعد۔

ایک جلسے کو جماعت اسلامی اور مجلس مشاورت وغیرہ کی جانب سے کیا گیا تھا، اور دوسرے جلسے کو جمعیۃ علماء اور قوم پرست مسلمانوں نے۔ ایک حلقے کے لوگ ایک جلسے میں گئے اور دوسرے حلقے کے لوگ دوسرے جلسے میں۔

میں اتفاق سے دونوں جلسوں میں شریک ہوا۔ دونوں جلسوں کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے نئی دہلی کے عرب سفیروں کو دعوت دی۔ کچھ سفیر ایک جلسہ کو مل گئے، اور کچھ سفیر دوسرے جلسہ کو۔ اس کے بعد دونوں طرف کے مقررین نے پرجوش تقریریں کیں۔ آخر میں دونوں جلسوں میں عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا گیا  —   اے عربو! متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کرو۔

دونوں جلسوں میں شرکت کے بعد جب میں گھر کی طرف واپس ہوا تو بے اختیار میری آنکھوںمیں آنسو آگئے۔ میری زبان سے نکلا ’’ہم متحد ہو کر مشورہ بھی نہیں کر سکتے ہیں، مگر دوسروں کو مشورہ دینے کے لیے جلسے کرتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر مقابلہ کریں‘‘۔

11 اپریل 1985

ظہیر فاریابی (ظهیرالدّین ابوالفضل طاهر بن محمد، وفات 1201ء)ایک فارسی شاعر تھا۔ اس نے سلجوقی بادشاہ کی مدح میں قصیدہ لکھا۔ قدیم ایرانی روایت کے مطابق اس میں اس نے زبردست مبالغہ آرائی کی۔ اس قصيدے كا ایک شعر یہ تھا :

نه کرسی فلک نهداندیشه زیر پائے               تا بوسه بر رکاب قزل ارسلان زند

(خیال کو قزل ارسلان بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دینے کے ليے نو آسمانوں کو پاؤں کے ینچے رکھنا پڑا)۔

اس مبالغہ پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے شیخ سعدی (مصلح الدین ابن عبد اللہ شیرازی، وفات 1291ء)نے کہا:

چه حاجت که نه کرسی آسمان                    نهی زیر پائے قزل ارسلان

)اس کی کیا ضرورت ہے کہ تم آسمان کی نو کرسیوں کو قزل ارسلان بادشاہ کے پاؤں کے نیچے رکھو(

مگر شیخ سعدی نے یہ شعر اس وقت کہا تھا جب کہ وہ زیادہ تر سیروسیاحت میں مشغول رہتے تھے، اور آزادانہ زندگی گزارتے تھے۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بے نیاز تھے۔ وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے کہ کسی رئیس یا بادشاہ کی مد ح خوانی کریں۔

مگر بعد کے زمانہ میں انھوں نے شیراز میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اس وقت دوسرے شاعروں کی طرح ان کے تعلقات بھی دربار شاہی سے ہوگئے۔ اس وقت وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔چنانچہ انھوںنے بھی بادشاہوں کی مدح میں مبالغہ آمیز قصیدے لکھے۔ سلطان شیراز، اتابک ابو بکر بن سعد زنگی کی مدح میں وہ اپنے ایک قصیدہ میں کہتے ہیں:

توئی سایۂ لطف حق بر زمیں             پیمبر صفت رحمۃ للعالمیں

)تم ہی زمین پر خدا کی مہربانی کا سایہ ہو، تم پیغمبر کی طرح دنیا والوں کے ليے رحمت ہو(

اکثر انسان اپنے حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر ان کے حالات بدل جائیں تو وہ خود بھی بدل جاتے ہیں۔

12 اپریل 1985

ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان ہے:حسین اور انسانیت۔

مقالہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

’’اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے قدموں سے لپٹنے کے ليے بے چین و بے قرار نظر آیا۔ پہاڑوں نے اپنے سینے کشادہ کرديے۔ دریا کی گہرائیاں پایاب ہوگئیں۔ بے قرار سمندر اس کے ليے خود ساحل بنانے لگے۔ آفتاب نے اس کی عظمت و بزرگی کے اعتراف میں اپنی روشنی پیش کردی کہ یہ انسان عظیم ہے۔‘‘

مقالہ اسی قسم کے الفاظ سے شروع ہوتاہے، اور اسی قسم کے الفاظ پر ختم ہوجاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اردو کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے اوپر شاعری کا غلبہ رہا۔چنانچہ نہ صرف نظم میں شاعری کی گئی، بلکہ نثر میں بھی یہی انداز جاری رہا۔ خطیبوں نے اپنی خطابت میں بھی یہی انداز اختیار کیا۔

اردو زبان میں یہ انداز اتنا زیادہ عام ہوا کہ زبان اور اس کے اسالیب اسی انداز میں ڈھل گئے، شاعرانہ انداز اظہار اردو پر بالکل چھاگیا۔چنانچہ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی خیال کو سادہ طور پر ادا کرنا چاہیں تو اردو میں اس کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔ سائنٹفک اسلوب سادہ اسلوب ہے ۔ وہ حقیقت نگاری کا دوسرا نام ہے۔ مگر اردو اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے اس کے بالکل نا اہل ہوگئی کہ اس میں کسی بات کو سائنٹفک انداز سے بیان کیا جاسکے۔

13 اپریل 1985

زوال یافتہ لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر ہنگامہ کرتے ہیں اور اپنے مفروضہ دشمنوں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد جب حکومتی کارروائی ہوتی ہے تو چپ ہو کر گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زوال یافتہ لوگوں میں صبر کی کمی ہوتی ہے۔

اصل یہ ہے کہ  اجتماعی زندگی میں ہمیشہ مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے ایسا تجربہ پیش آئے گا جو اس کی مرضی کے خلاف ہوگا، ایسے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعراض کیا جائے، نہ کہ ٹکراؤ شروع کردیا جائے۔ صحابی رسول عمیر بن حبیب بن خماشہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:مَنْ لَا يَرْضَى بِالْقَلِيلِ مِمَّا يَأْتِي بِهِ السَّفِيهُ يَرْضَى بِالْكَثِيرِ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2258) ۔ یعنی جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والے چھوٹے شر کو برداشت نہیں کرے گا ، اس کو نادان کے بڑے شر کو برداشت کرنا پڑے گا۔اس قولِ صحابی میں اجتماعی زندگی کی ایک حکمت کو بتایا گیا ہے، یعنی جب فریقِ مخالف کی جانب سے کوئی ناموافق واقعہ پیش آئے تو ابتدا ہی میں صبر کرنا چاہیے۔

15 اپریل 1985

جماعت اسلامی کے لوگوں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی پر ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام ہے ’’ایک شخص ایک کارواں‘‘۔ اس کے مرتب جناب مجیب الرحمن شامی ہیں۔ اس کتاب میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی صدر ایوب سے ملاقات کا ذکر ہے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ صدر ایوب نے اپنی ملاقات میں کہا ’’مولانا صاحب، آپ کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ واقعی آپ نے دین کی بہت خدمت کی ہے۔ مولانا صاحب میری ایک تجویز ہے۔ آپ جیسی بڑی علمی شخصیت کو اپنی عمدہ صلاحیتیں سیاست میں ضائع کرنے کے بجائے ان سے قومی تعمیر کا کوئی ٹھوس کام لینا چاہیے۔ اس غرض کے لیے میں چاہتا ہوں کہ ہم ملک کے اندر ایک شاندار اسلامی یونیورسٹی قائم کریں۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ یہ یونیورسٹی میں نے بھاول پورمیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی سرمایہ کے طورپر رواں بجٹ میں دو کروڑ روپیہ کی رقم مختص کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس یونیورسٹی میں بہترین استادوں اور عمدہ انتظامات کے ذریعے خالص دینی علوم اس طرح پڑھائے جائیں کہ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سنبھالیں۔ اس یونیورسٹی کی سربراہی کے لیے آپ کا نام میرے ذہن میں آیا ہے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ سیاست کے جھنجھٹ سے الگ ہو کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، جو آپ کی اعلیٰ صلاحیتیوں کے مطابق آپ کا اصل کام ہے۔ میں یہ بیان کردوں کہ یونیورسٹی کے لیے ہم نے دوکروڑ روپیہ کا جو ابتدائی فنڈ مختص کیا ہے، وہ رقم اور حکومت کی طرف سے اس کے بعد ملنے والی تمام گرانٹ سب پر آپ کو اپنی صوابدید کے مطابق مکمل تصرف کا اختیار ہوگا۔ اور آپ کو قانوناً آڈٹ وغیرہ کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے گا۔‘‘ (ایک شخص ایک کارواں،نئی دہلی، 1981، صفحہ 100)

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔یہ پاکستان میںان کی اختیار کردہ سیاست کا قدرتی نتیجہ تھا۔جو لوگ سیاسی اپوزیشن میں انوالو (involve)ہوں ، ان کو مذکورہ قسم کے تعمیری کام کام نہیں لگتے ہیں۔حالاں کہ اصل کام یہی ہے کہ انسان اپنی کوششوں کو سیاسی ٹکراؤ کے میدان سے ہٹائے ،اور وہ اپنےآپ کو پوری طرح سماجی تعمیر کے کام میں لگادے۔

16 اپریل 1985

نصف صدی پہلے امیر شکیب ارسلان (1869-1946)نے ایک عربی کتاب لکھی تھی، جو مندرجہ ذیل نام سے چھپی تھی:

لماذا تاخر المسلمون وتقدّم غیرھم

) مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے ،اور ان کے سوا دوسرے لوگ آگے ہوگئے(

مگر نصف صدی بعد بھی یہ سوال حل نہ ہوسکا۔مجلہ رابطہ العالم الاسلامی (ریاض) کی اشاعت اپریل 1985 میں استاذ محمد عبد اللہ السمان کا ایک مضمون چھپا ہے جس کا عنوان دوبارہ یہ ہے:

لماذا تأخر نا وتقدّم غیرنا

مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مسلمان عام طور پر اپنے اسلاف پر فخر کرتے ہیں۔ وہ روم وایران کی فتح اور بدروحنین اور یرموک وقادسیہ کی فتوحات کا ذکر کرکے خوش ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خود ہم نے کیا کیا (ولکن ماذا فعلنا نحن)۔اس کے بعد انھوں نے یہ شعر لکھا ہے:

ليس الفتى من يقول كان أبى                              ولكن الفتى من قال ها أنا ذا

) جوان وہ نہیں ہے جو کہے کہ میرا باپ ایسا تھا، جوان وہ ہے جو کہے کہ یہ ہوں میں(

17 اپریل 1985

عبد اللہ بن المبارک (وفات181ھ)کا ایک قول ہے:لَا يَزَالُ الْمَرْءُ عَالِمًا مَا طَلَبَ الْعِلْمَ، فَإِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ عَلِمَ؛ فَقَدْ جَهِلَ (المجالسۃ و جواہر العلم، اثر نمبر308)۔ یعنی آدمی اس وقت تک عالم رہتا ہے جب تک وہ علم سیکھتا رہے۔ جب وہ گمان کرے کہ وہ عالم ہوگیا تو پھر وہ جاہل ہوگیا۔

عباس محمود العقاد کہا کرتے تھے کہ علم پڑھنے کا نام ہے۔ وہ بہت افسوس کرتے تھے کہ اکثر لکھنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ جتنا پڑھتے ہیں، اس سے زیادہ وہ لکھتے ہیں :العقاد کان یقولالعلم هو القراءۃ۔ وکان یاسف ابلغ الاسف، لأن کثیرا من الکتاب یکتبون اکثر مما یقرأون) رابطۃ العالم الاسلامی، رجب 1405ھ(۔

18 اپریل 1985

دین پر عمل کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ نے گھر میں جو دین کے نام پرجو چیز ہوتے ہوئے پایا، اس کو دین سمجھ کر اپنالیا۔ اس کے مقابلے میں دین پر عمل کرنے کی اعلیٰ صورت یہ ہے کہ آپ نے دین کے معاملے میں صرف اپنے گھر اور مسلم معاشرے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ آپ نے تدبر و تفکر اور گہرے مطالعہ کے ذریعے دین اسلام کو دریافت کے درجے میں حاصل کیا، اپنے ارادہ و اختیار سے خدا کی معرفت حاصل کی۔ ایک متلاشیٔ حق نے مسلم قوم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا :

They are Muslims by chance, but we are Muslims by choice.

یہ فرق کوئی معمولی فرق نہیں۔ یہ فرق آدمی کے کردار میں زبردست فرق پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں کو اسلام محض پیدائشی طورپر مل جائے، ان کے اندر کوئی اسلامی حرارت نہیں ہوتی۔ وہ اسلام کے نام پر دوسروں کے خلاف جھوٹے ہنگامے کرسکتے ہیں، مگر خود ان کے اپنے اندر اسلام ایک انقلاب کے طورپر داخل نہیں ہوتا۔

مگر جو شخص اسلام کو خود اپنے انتخاب سے اختیار کرے، اس کے ليے اسلام ایک ذہنی انقلاب کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ اس کی اندرونی شخصیت میں بھونچال کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے ہی افراد دراصل وہ لوگ ہیں، جو تاریخ بناتے ہیں۔

19اپریل 1985

موجودہ دنیا میں ہر قوم نے اپنی قومی برتری کا ایک نعرہ اختیار کررکھا ہے:

My Country, right or wrong       میرا ملک ،چاہے حق پر ہو یا ناحق پر   

Germany above all                 جرمنی سب سے اوپر 

Italy is religion                      اٹلی مذہب ہے

Rule is for Britannia                حکومت برطانیہ کے ليے ہے

America is God's own country    امریکہ خدا کا اپنا ملک ہے

White Man’s Burden                سفید آدمی کا بوجھ

مختلف قوموں نے اسی طرح مختلف الفاظ بنا لیے ہیں، جن کو بول کر وہ اپنی قومی برتری کے جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ الفاظ اگر چہ الگ الگ ہیں، مگر سب کی نفسیات ایک ہے۔ ہر ایک اپنی قوم کو اونچا سمجھتا ہے۔ ہر ایک قومی بڑائی کے احساس کو اپنی غذا بنائے ہوئے ہے۔

ایسے ماحول میں مسلمان اگر یہ کریں کہ وہ بھی اپنی بڑائی کا نعرہ لے کر کھڑے ہوجائیں — ہمارا دین سب سے کامل، ہمارا نبی سب سے افضل، ہماری تاریخ سب سے شاندار، ہماری قوم خیر الأمم۔ اس طرح کے نعروں کے ساتھ اگر وہ دنیا کے سامنے آئیں تو وہ قومی بڑائیوں کے ٹکراؤ میں ایک اور قومی بڑائی کا اضافہ کریں گے۔ اس قسم کی باتیں صر ف جوابی قومیت کے جذبہ کو ابھاریں گی۔ وہ دعوت اسلامی کے حق میں لوگوں کے دلوں کو نرم نہیں کرسکتی۔

اس قسم کے نعروں کا کوئی بھی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں نے اپنی قومی برتری کے جذبہ کو تسکین دینے کے ليے بنائے ہیں، اور چوں کہ انھیں یہ درد نہیں ہے کہ دنیا کی قومیں خدا کے دین کے سایہ میں آئیں، وہ نہایت فخر کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں احساس نہیں کہ ان کی اس قسم کی باتیں اسلام کو دوسروں کی نظر میں صرف ایک قومی چیز بنا دیتی ہیں، اور پھر وہ اس کو رقیب سمجھ کر اس سے دور ہوجاتے ہیں۔

20 اپریل 1985

ایک شریر آدمی نے موقع پاکر ایک بزرگ کے مکان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے مزید یہ کیا کہ بزرگ کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کرديے تاکہ وہ دباؤ میں آکر اس کے ناجائز قبضہ کو مان لیں۔ عدالت کی پیشیاں ہونے لگیں، اور بزرگ کی توجہ اور پیسہ غیر ضروری طورپر اس میں ضائع ہونے لگے۔ تاہم بزرگ اس سے پریشان نہیں ہوئے۔ مذکورہ شخص سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا

یاد رکھو، آخری پیشی خدا کے یہاں ہونے والی ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کا حال یہ ہے کہ وہ جھوٹی تدبیر یں کرکے دوسرے کے مال پر قبضہ کرتا ہے اور پھر فتح کا قہقہہ لگاتا ہے۔ وہ فرضی کارروائیاں کرکے دوسرے کی جائداد کو اپنے نام لکھوالیتا ہے اور پھر اپنے دوستوں میں اس کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے گویا اس نے کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

مگر اس قسم کی فتوحات اور کامیابی جھوٹی فتوحات اور کامیابیاں ہیں۔ وہ خدا کے یہاں پیشی کے وقت اتنی بے معنی ثابت ہوں گی کہ آدمی کے پاس الفاظ بھی نہ ہوں گے کہ وہ اپنی حمایت میں کچھ بول سکے۔ وہ وہاں خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کرے گا۔ اگر چہ اس وقت اعتراف کرنا، اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔

22اپریل 1985

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے پرانے قاری ہیں۔ میں نے الرسالہ کے بارے میں ان کا تاثر پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے سفر نامہ پڑھتا ہوں۔ آپ کا سفر نامہ بہت دل چسپ ہوتا ہے۔

اس قسم کا تبصرہ ذاتی طورپر مجھے پسند نہیں۔ کیوں کہ الرسالہ ذہنی تفریح کے ليے نہیں نکالا گیا ہے کہ لوگ اس کو دلچسپی کے ليے پڑھ لیا کریں۔چنانچہ موصوف کی زبان سے یہ جملہ سن کر مجھے سخت ناگواری ہوئی۔ مگر میں نے ناگواری کو برداشت کیا، اور اس کا اثر اپنی گفتگو یا ظاہری رویہ میں آنے نہیں دیا۔اس کے بعد انھوںنے مزید اپنے تاثرات بیان کیے۔ الرسالہ کے بارے میں بھی اور مکتبہ الرسالہ کی مطبوعات کے بارے میں بھی۔ ان کی مزید گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں میرا وہ تاثر صحیح نہ تھا، جو ان کے ابتدائی فقرہ کو سن کر ہوا تھا۔ وہ الرسالہ کو محض ’’دلچسپی‘‘ کے ليے نہیں پڑھتے۔ بلکہ وہ ان کے دل میں اترچکا ہے، اور وہ اس کو اپنے حلقہ میں پھیلانے کی بھی برابر کوشش کرتے رہتے ہیں۔

اس سے میں نے یہ سبق لیا کہ آدمی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاهيے۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ بیشتر آدمی یہ نہیں جانتے کہ کسی بات کو کہنے کے ليے موزوں ترین لفظ کیا ہے۔ وہ اکثر ایک موزوں بات کو غیر موزوں الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے غیر ضروری قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ہم کو چاهيے کہ ہم آدمی کو زیادہ سے زیادہ رعایت دیں۔ اجتماعی زندگی کوفساد سے بچانے کا یہی واحد کامیاب طریقہ ہے۔

23 اپریل 1985

ڈاک سے ایک لفافہ موصول ہوا۔ اس میں ایک دینی ادارے کے ہفت روزہ میگزین کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ مضمون ادارے کے بانی کے بارے میں ہے۔اس مضمون کا عنوان ہے:

چراغ عالم اسلام تھے

اس عنوان کے نیچے جو مضمون ہے وہ گویا نثر میں شاعری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے نعت کے تمام شاندار الفاظ بانیٔ ادارہ کی قصیدہ خوانی میں صرف کردیئے ہیں۔

اس مضمون کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میری وفات کے بعد جو لوگ میری تعریف میںاس  قسم کے قصیدے لکھیں گے، وہ میرے جھوٹے ماننے والے ہوں گے۔ میرے حقیقی ماننے والے وہ ہیں، جو میرے مشن کو لے کر آگے بڑھیں، جو میرے اس دنیا سے جانے کے بعد اس دینی جدوجہد کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجائیں۔

میرا کام اللہ کے سچے دین کا اعلان واظہار ہے۔ میری ساری دلچسپی صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت کو آج کے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ لوگوں کو آنے والے ہولناک دن سے ہوشیار کیا جائے۔میرے بعد جولوگ میرے اس مشن کے لیے سرگرم ہوں وہی میرے سچے ساتھی ہیں۔ اور جو لوگ نظم و نثر میں میری تعریف کریں، ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی راہ الگ ہے اور میری راہ الگ۔

24 اپریل 1985

میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ایک مضمون لکھ رہا تھا۔ خیالات مسلسل دماغ میں امنڈ رہے تھے۔ وہ الفاظ کی صورت میں ڈھل کر قلم پر آرہے تھے ،اور کاغذ پر مرتسم (inscription)ہوتے چلے جارہے تھے۔

ایک لمحے کے ليے میرا ذہن اس طرف مڑ گیا کہ یہ سارا عمل کس طرح انجام پارہا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی۔ ایک نفسیاتی دھماکے کے ساتھ میرا قلم رک گیا۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیسی عجیب نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ مگر دنیا میں بہت کم لوگ ہیں، بلکہ شاید تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں، جو واقعی معنوں میں اس کا احساس کریں، اور اس طرح شکر ادا کریں، جس طرح شکر ادا کرنے کا حق ہے۔

25 اپریل 1985

علمی حدود کیا ہے۔ اس کو ذیل کے واقعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔علما کے ایک گروہ کا ماننا ہے کہ فاسق امیر کے ساتھ جہاد کرنا جائز ہے۔ اس کی مختلف دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری(وفات 52 ھ) جو ایک جلیل القدر صحابی تھے، انھوں نے یزید بن معاویہ (وفات 64 ھ)کے ساتھ جہاد کیا۔اس سلسلے میںفقیہ ابوبکر جصاص (وفات 370 ھ)نے لکھا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خلفاء راشدین کے بعد فاسق امراء کے ساتھ جنگ کرتے ـتھے، اور ابو ایوب انصاری نے یزید لعین کے ساتھ جنگ کی ( وَقَدْ كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ يَغْزُونَ بَعْدَ الْخُلَفَاءِ الْأَرْبَعَةِ مَعَ الْأُمَرَاءِ الْفُسَّاقِ وَغَزَا أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ مَعَ يَزِيدَ اللعين) احکام القرآن للجصاص، جلد 4، صفحہ 319۔

یزید کو لعین کہنا بذات خود قابل اعتراض ہے۔ کسی شخص کو ملعون قرار دینے کے لیے شرعی دلیل درکار ہے، اور یقیناً ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، جو صراحۃً یزید کی ملعونیت کا اعلان کرتی ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ یزید کو جو لوگ بطور خود ملعون کہتے ہیں، وہ اس کی ملعونیت کو کربلا (61ھ) کے واقعہ سے اخذ کرتے ہیں۔ مگر حضرت ابو ایوب انصاری نے یزید کی ماتحتی میں جو غزوہ کیا تھا، وہ کربلا سے بہت پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ قسطنطنیہ کا غزوہ تھا، جو امیر معاویہ کے زمانے میں 49ھ میںپیش آیا، جب کہ یزید ابھی خلیفہ بھی نہیں ہوا تھا۔ پھر کیا وہ خلافت اور کربلا سے پہلے ہی ملعون تھا، کیا وہ ماں کے پیٹ سے ملعون پیدا ہوا تھا۔

ہمارے علما میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو علمی حدود کے پابند رہ کر بولتے ہوں۔ ہمارا قدیم وجدید لٹریچر غیر علمی بیانات سے بھرا ہوا ہے۔

26 اپریل 1985

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ وہاں آپ تقریباً 13سال رہے۔ مکہ والوں نے آپ کی سخت مخالفت کی۔ یہاں تک کہ وہ آپ کو ہلاک کرنے کے درپے ہوگئے۔ عین اسی وقت مکی دور کے آخری زمانے میں قرآن میں سورہ یوسف اتری۔ اس میں بتایا گیا کہ یوسف کے بھائی یوسف کے دشمن ہوگئے۔ انھوںنے ان کو ختم کرنے کے لیے ایک سنسان مقام پر لے جاکر ان کو اندھے کنویں میںڈال دیا۔ یہاں تاجروں نے ان کو کنویں سے نکالا، اور ان کو لے جاکر مصر پہنچادیا۔ وہاں ان کے لیے اعلیٰ ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔ ایک اُسوءُ القصص احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔

مکی دور کے آخر میں اس سورہ کا اترنا اس بات کا اشارہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خداکی مدد سے یہی معاملہ پیش آئے گا۔ چنانچہ یہی ہوا کہ مکہ والوں نے آپ کو ہلاکت کے غار میں ڈالنا چاہا مگر عین اسی وقت مدینہ میں آپ کے قدرداں پیدا ہوگئے۔ آپ ان کی دعوت پر مکہ سے مدینہ پہنچ گئے اوروہاں آپ نے اسلام کی نئی تاریخ بنائی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ پیش آنے والا ہے۔میں 1956 سے 1962 تک جماعتِ اسلامی کے مرکزی شعبۂ تصنیف وتالیف سے وابستہ تھا۔ اس کے بعد 1963 سے 1966تک مجلس تحقیقات ونشریات اسلام(ندوۃ العلماء) لکھنؤ سے وابستہ رہا۔ دونوں جگہ یہ صورت پیش آئی کہ وہ لوگ میری تنقیدوں سے برہم ہوگئے۔ میرا غیر مصالحانہ انداز ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا۔ چنانچہ دونوں جگہ سے علیحدگی عمل میںآئی۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء کی دعوت پر میں 1967 میں دلی آیا، اور جمعیۃ علما ہند کے ہفت روزہ اخبار الجمعیۃ سے وابستہ رہا۔ یہاں بھی ابتدائی چند سالوں کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ 1974میں انھوں نے مجھ کو الگ کر دیا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دلی کے مرکزی شہر میں ٹھہرانے کا انتظام کیا اور ایسے اسباب پیدا کیے کہ 1976میں الرسالہ جاری ہوا۔ اور اب خدا کے فضل سے اسلامی مرکز کی صورت میں اس نے ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے اور لوگوں کی مخالفتوں کے باوجود وہ دن بدن ترقی کررہا ہے۔ شاید تاریخ دوبارہ یہ منظر دیکھنے والی ہے — ایک اَسوءُ القصص خدا کی مدد سے احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔

27 اپریل 1985

ٹائمس آف انڈیا(28 اپریل 1985) میں ایک رپورٹ چھپی ہے جس کا عنوان ہے :

A lifetime of Encyclopaedia

اس رپورٹ میں مسٹر بنود کانون گو(عمر 73 سال) کے کام کی تفصیل چھپی ہے۔ وہ کٹک (اڑیسہ) کے رہنے والے ہیں۔ انھوںنے ایک اڑیا انسائیکلوپیڈیا تیار کی ہے، جو 75 جلدوں میں مکمل ہوئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام انھوں نے اپنی تنہا محنت سے 30 سال میں مکمل کیا ہے۔

مسٹر بنود کانون گو جب نوجوان تھے تو ان کے کان میں مہاتما گاندھی کی پکار آئی— کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، اور بنیادی تعلیم ہی حقیقی تعلیم ہے۔

No nation grows without education, and basic education is real education.

ان الفاظ سے مسٹر بنود کانون گو کے اندر شدید جذبہ ابھرا۔ انھوںنے اڑیا زبان میں انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کی مہم شروع کردی۔ یہاں تک کہ 30 سال کی مسلسل محنت کے ذریعه اس کو کامیابی تک پہنچا دیا۔مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسٹر بنود کانون گو نے اس مہم میں اڑیسہ کی ریاستی حکومت اور نئی دہلی کی مرکزی حکومت سے مدد کی درخواست کی۔ مگر ان کو نہ ریاستی حکومت سے کوئی مدد ملي، اور نہ مرکزی حکومت سے۔اس کے باوجودمسٹر بنود کانون گو نے اپنے محدود ذرائع سے کام لیتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ اس کو اختتام تک پہنچا دیا۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں،جو کسی قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔ قومی تعمیر کا کام ہمیشہ انفرادی قربانی کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اس کے سوا قومی تعمیر کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

29 اپریل 1985

سورہ انعام (آیت 141) میںاسراف سے منع کیاگیا ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مفسر قرآن لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید کا ایک اعجاز یہاں یہ ہے کہ احکام کے جزئیات بلکہ بعض اوقات تو جزئیات درجزئیات کے ضمن میں وہ ایسے حکیمانہ کلیات و اصول بیان کرجاتا ہے، جو زندگی کے سارے ہی شعبوں پر یکساں منطبق ہوجاتے ہیں۔چنانچہ یہاں بھی چلتے چلتے ایک ایسا چٹکلا بیان کردیا کہ انسان اگر اسی ایک پر عمل کرلے، تو اخلاق، معاملات، سیاسیات، معاشرت، غرض کیا انفرادی اور کیا اجتماعی ہر زندگی کے سارے شعبوں کی مشکلات دور ہوسکتی ہیں، اور بڑے سے بڑے پتھر پانی ہو کر رہ سکتے ہیں۔(تفسیر ماجدی، جلد دوم صفحہ 466)۔

قرآن بلاشبہ ایک اعجازی کلام ہے۔ مگر یہ اعجاز قرآن کی تصغیر ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن چٹکلے بیان کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جس چیز کو چٹکلا کہا گیا ہے، وہ لاتسرفوا (اسراف نہ کرو) ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہ ایک عجيب بات ہے۔ کیوں کہ ’’اسراف نہ کرو‘‘ایک اہم شرعی اصول ہے، نہ کہ معروف معنوں میں کوئی چٹکلا۔

30 اپریل 1985

موجودہ زمانے کے مسلم قائدین کا معاملہ نہایت عجیب ہے۔ وہ بیک وقت نہایت کامیاب تھے، اور اسی کے ساتھ نہایت ناکام بھی۔مثلاً1952میں مصر کی اخوان المسلمون جنرل محمد نجیب (1901-1984) اور جمال عبد الناصرحسین(1918-1970) کے ساتھ مل کرمصر سے شاہ فاروق (1920-1965) کو معزول کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے مصر کے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ بالکل ناکام ہوگئے۔جماعت اسلامی پاکستان جنرل ایوب خان (1907-1974)اورذوالفقار علی بھٹو (1928-1979)کی حکومت ختم کرنے میں نہایت کامیاب رہی۔ مگر جب وہ لوگ الیکشن کے میدان میں آئے تو وہ کامیاب نہ ہوسکے، وغیرہ وغیرہ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب شاہ فاروق یا ایوب اور بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اٹھتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہوتا۔ پوری اپوزیشن اور تمام مخالف حکومت عناصر اس کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔ حکومت کے خلاف مہم میں آدمی کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قائدین اینٹی حکومت مہم میں کامیاب رہے۔اس کے بعد جب یہ لوگ ملک میں خود اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے اٹھے تو اس وقت وہ تنہا تھے۔ اس دوسری مہم میںانھیں اپنی تنہا قوت سے کامیاب ہونا تھا۔ چوں کہ ان کی تنہا قوت بہت کم تھی اس لیے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔

اینٹی حکومت مہم میں جو مقبولیت حاصل ہوتی ہے، وہ بلا شبہ جھوٹی مقبولیت ہے۔ اس قسم کی مہم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض شخصی لیڈری ہے، نہ کہ کوئی واقعی کام۔ اینٹی حکومت مہم میں فوراً مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے لوگ تیزی سے اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مثبت مہم میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا میدان سونا پڑا ہوا ہے۔ اس میدان میں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

1مئی1985

ٹائم میگزین (نیو یارک) کے دفتر میں یہ قاعدہ ہے کہ مضامین پریس میں جانے سے پہلے مخصوص اسٹاف کي ايك ٹيم كےپاس بھیجے جاتے ہیں۔ وہ ان میں مندرج تمام حقائق کو باریک بینی کے ساتھ جانچتا ہے۔ اس مقصد کے ليے ماہرین کی ایک ٹیم مقرر ہے، جس کے پاس ایک مکمل قسم کی ریفرنس لائبریری مہیا کی گئی ہے۔میگزین کی ایک اشاعت (8 اپریل 1974) میں صفحہ اول کا مضمون (cover story)  افراط زر پر تھا ،جس کا عنوان تھا:

World Inflation

ٹائم میگزین پریس جانے سے پہلے حسب قاعدہ مذکورہ اسٹاف کے پاس پہنچا۔ اس مضمون میں ایک بات یہ تھی کہ قدیم لیڈیا کے باشندوں(Lydians) نے پہلی بار دھات کے سکے بنائے۔ متعلقہ کارکن نے اس کو لائبریری کے محققین کے پاس بھیجا کہ وہ اس کی تحقیق کریں۔ انھوں نے تین انسائیکلو پیڈیا کو دیکھا تو تینوں میں مختلف بیانات تھے۔ پھر انھوںنے تاریخ زر(History of Money)  پر دو اہم ٹکسٹ بک سے رجوع کیا، اور بالآخر اپنے فیصلہ سے متعلقہ کارکن کو مطلع کیا۔ اس پورے عمل میں صرف پندرہ منٹ لگے۔

2 مئی 1985

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے یہ شکایت کی کہ الرسالہ میں سلف پریز (self-praise) ہوتا ہے۔ میںنے کہا کہ اس کی مثال دیجیے۔ انھو ںنے الرسالہ میں شائع شدہ ایک خط کا ذکر کیا جس میں الرسالہ کے زبان و بیان پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ میںنے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ سلف پریز کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ اپنی تعریف آپ کرنا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جس خط کا حوالہ دیا ہے ،وہ دوسرے شخص کا خط ہے پھر یہ اپنی تعریف آپ کرنا کیسے ہوا۔

اسی مجلس میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے اخراجات پہلے میں خود کرتا تھا مگر میںنے دیکھا کہ میرے ہاتھ سے زیادہ خرچ ہوجاتاہے اس لیے میں نے یہ کام اپنی بیوی کے حوالے کردیا۔ وہ، ماشاء اللہ، نہایت احتیاط سے خرچ کرتی ہیں۔ اب ہمارے گھر کا ماہانہ خرچ پہلے سے کم ہوگیا ہے، اور پس انداز کی جانے والی رقم کی مقدار بڑھ گئی ہے۔

میں نے سوچا کہ آدمی بھی کیسا عجیب ہے۔ ایک معاملے میں اس کا رویہ کچھ ہے، اور دوسرے معاملے میں اس کا رویہ کچھ دوسرا۔ وہ اپنے پیسے کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت کفایت شعار ہے مگر اپنے الفاظ کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت فیاض۔ مذکورہ بزرگ الرسالہ پر تبصرہ کرنے کے لیے اپنے الفاظ کے ذخیرے کو بے حساب خرچ کررہے ہیں، مگر وہی بزرگ اپنے جیب کے پیسہ کو خرچ کرنے کے معاملے میں حد درجہ محتاط اورکفایت شعاربنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی رقم کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں،اور اپنے الفاظ کو سوچے بغیر۔

3مئی 1985

ڈاکٹر انوار احمد (کوہنڈہ، اعظم گڑھ) کے ایک خط کے جواب میں لکھا:

آپ کا خط مورخہ 27 مارچ ملا۔ حالات سے آگاہی ہوئی۔ مومن اس چیز میں جیتا ہے، جو اس کے اپنے پاس ہے، نہ کہ اس چیز میں جو دوسروں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کبھی خالی یا محروم نہیں ہوتا۔ اگر دعوت کے مواقع نہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو دعامیں مشغول کرلیتا ہے۔ اگر انسان اس کو نظر انداز کریں تو وہ خدا کو اپنا ولی بنا لیتا ہے۔

مومن خود ایک کامل وجود ہے۔ اس لیے اس کے واسطے نہ کبھی محرومی کا سوال پیداہوتا ہے، اور نہ کبھی بے کاری کا۔آپ کے مخالفین آپ کو لاؤڈ اسپیکر پر بولنے نہیں دے رہے ہیں تو آپ دل کے خاموش تاروں پر حق کا نغمہ چھیڑیے۔ آپ کو انسانوں میں اگر ایسے لوگ نہیں مل رہے ہیں، جو آپ کی بات پر دھیان دیں تو آپ خدا کے فرشتوں سے سرگوشی شروع کردیجیے۔ انسانی آبادیوں میں اگر آپ کو اپنے ہم نوا نہیں مل رہے ہیں تو آپ قبرستان کے سناٹے میں اپنا ہم نشین تلاش کرلیجیے۔

4 مئی 1985

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی (1903-1979)کی ایک کتاب ہے جس کا نام تنقیحات ہے۔ یہ موصوف کے مضامین کا مجموعہ ہے، جو پہلی بار 1939میں شائع کیاگیاتھا۔ اس کتاب کے ایک مضمون کا عنوان ہے ’’لارڈ لوتھین کا خطبہ‘‘۔ لارڈ لوتھین(1882-1940) ایک انگریز تھے۔ جنوری 1938 میںانھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کانوکیشن ایڈریس دیا۔ مذکورہ مضمون میںاس ایڈریس کے کچھ حصے اردو میں ترجمہ کرکے نقل کیے گئے ہیں۔ جب میں نے پہلی بار اس مضمون کو پڑھا تو مجھے لارڈ لوتھین کے اس خطبے سے بڑی دلچسپی ہوئی۔ کیوںکہ اس میں بتایا گیا تھا کہ جدید یورپ میں اسلام کی تبلیغ کے زبردست امکانات ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے یورپ جائیں، اوراس امکان کو استعمال کریں۔

 دلچسپی کی بنا پر میں نے چاہا کہ اس خطبے کو اصل انگریزی زبان میں حاصل کرکے پڑھوں۔ چنانچہ میں علی گڑھ گیا اور وہاں کی یونی ورسٹی لائبریری میں اس کو تلاش کیا۔ مگر یونی ورسٹی کے کتابی ذخیرہ میں یہ خطبہ موجود نہ تھا۔ بالآخر میں سرسید روم میں گیا کہ شاید وہاں مل جائے مگر وہاں بھی نہیں ملا۔ سرسید روم کے ذمہ دار نے بتایا کہ اس خطبے کی اصل کی ہمیں بھی تلاش تھی۔ ہم نے یونیورسٹی کے ہر شعبے میں اس کو ڈھونڈا مگر معلوم ہوا کہ وہ یونی ورسٹی کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔

مجھے یونی ورسٹی کی اس بے انتظامی پر بے حد افسوس ہوا۔ تاہم اس سے میں نے ایک سبق لیا۔ وہ یہ کہ جب میں اپنے اردو مضامین میں انگریزی یا کسی دوسری زبان کا کوئی اقتباس نقل کروں تو اس کے ترجمے کے ساتھ اس کا ضروری حصہ بھی اصل زبان میں نقل کردوں۔ چنانچہ الرسالہ کے اکثر مضامین میں میں نے یہی انداز اختیار کیا ہے۔

6  مئی 1985

آخرت میںخدا کی جنت کے دروازے ان لوگوں کے لیے کھولے جائیں گے، جو دنیا میں اپنے دل کے دروازے خدا کی نصیحت کے لیے کھولیں۔

جنت اور جہنم کا فیصلہ دراصل دل کی دنیا میں ہوتا ہے۔ خدا اپنے کسی بندے کے ذریعہ آدمی کے دل کے دروازہ پر دستک دیتا ہے۔ وہ کسی بندۂ خاص کے ذریعے اس کے پاس اپنا پیغام بھیجتا ہے۔ یہ لمحہ کسی انسان کی زندگی میں نازک ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے کھول دے تو گویا کہ اس نے اپنی جنت کا دروازہ کھول لیا۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے بند رکھے تو گویا اس نے اپنے اوپر جنت کے دروازے کو بند کرلیا— اس دنیا میں حق کو قبول کرنا یا حق کا انکار کرنا ہی وہ خاص لمحہ ہے جب کہ آدمی کے لیے ابدی جنت یا ابدی جہنم کا فیصلہ ہوتا ہے۔

7مئی1985

قرآن کی سورہ المؤمن میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کے ليے آخرت میں سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ان کے اس برے انجام کی وجہ بتاتے ہوئے آیا ہے:ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا (40:12)۔ یعنی یہ تم پر اس ليے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور جب اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔

یہی موجودہ دنیا میںانسان کی اصل گمراہی ہے۔ انسان کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وه مكمل طور پر ناحق کا علم بردار بن جائے۔ وه ہمیشہ ایسا کرتا ہے کہ حق کے ساتھ ناحق کو ملا تا ہے،اور ملاوٹی حق کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلےمیں پیغمبروں کی دعوت بے آمیز حق کی دعوت ہوتی ہے۔ پيغمبراور غیرپیغمبر کی دعوت میں خالص منطقي اعتبار سے، حق اور ناحق کا فرق نہیں ہے۔ بلکہ بے آمیز حق اور آمیزش والے حق کا فرق ہے۔ یہی فرق ایک گروہ کو قابل انعام بناتا ہے، اور دوسرے گروہ کو قابل سزا۔

ملاوٹی حق سے انسان کو اتنی زیادہ دلچسپی کیوں هے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ کہ اس طریقہ کو استعمال کرنے میں آدمی کے اپنے جھوٹے دین کی نفی نہیں ہوتی۔ وہ خدا کو مانتے ہوئے بتوںکی پرستش کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملاوٹی حق کو پیش کریں، وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ہر ایک اپنا  recognitionپالیتا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف اصول پرستی کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری طرف مفاد پرستی کی۔ ایک طرف وہ آفاقیت کا قصیدہ پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف قوم پرستی کا ترانہ گاتے ہیں۔ وہ ایک طرف آخرت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی جھگڑوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔

پیغمبر کی دعوت کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک اپنی نفی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’مشرک‘‘ لیڈر کو ماننے میں کسی کو اپنی نفی نظر نہیں آتی۔ اس میں کسی کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر آدمی جہاں ہے، وہیں وہ اپنے مفروضه حق کو بھی پالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک کے ساتھ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اور موحد اس دنیا میں اکیلا رہ جاتاہے۔

8 مئی 1985

ایک عرب پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ کی جو عربی کتابیں یا مضامین میں نے پڑھے ہیں، ان میں الاسلام یتحدی (اردو ورزن مذہب اور جدید چیلنج) فائق ہے، باقی سب اس کے تحت ہیں۔میں نے کہا کہ ہمارے مشن کا اصل اظہار الاسلام یتحدی میں نہیں ہوا ہے، بلکہ دوسری کتابوں میں ہوا ہے۔ الاسلام یتحدی صرف اس مشن کی اعتباریت(credibility) ثابت کرنے کے لیے ہے، وہ خود مشن کا تعارف نہیں۔

میں نے کہا کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے لاٹھی کو سانپ بنادیا۔ اب کوئی شخص کہے کہ حضرت موسی نے نبوت ملنے کے بعد جو کچھ پیش کیا، ان میں عصا کا معجزہ سب پر فائق ہے، تورات اس کے تحت ہے، تو یہ صحیح نہیں ۔ کیوں کہ آپ کی دعوت میں تورات اصل ہے اور عصا کا معجزہ ایک ضمنی (relative)حیثیت رکھتا ہے۔

الاسلام یتحدی (مذہب اور جدید چیلنج) ہمارے مشن کو قابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے ہے، نہ کہ خود وہی ہمارا مشن ہے۔ مولانا عبد الباری ندوی (1886-1976)اس طرح کی چیزوں کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ ’’رکانہ کی کشتی‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکانہ ( بن عبديزيد)پہلوان نے چیلنج کیا اور آپ نے کشتی لڑکر اس کو ہرادیا(الاصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلانی، جلد2، صفحہ413)۔ مگر رکانہ کی کشتی بظاہر ایک نمایاںواقعہ ہونے کے باوجود آپ کے مشن کا اصل یا اس کا فوق (central aspect)نہیں۔ وہ آپ کے مشن کی ایک ضمنی ضرورت ہے، نہ کہ خود وہی آپ کا مشن ہے۔

9 مئی 1985

حقیقت ِ واقعہ کو نہ ماننا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ واقعہ اپنی جگہ پر بدستور باقی رہے، اور آدمی خود واقعات کی دنیا سے بہت دو رہوجائے۔ روس میں 1917 میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو امریکا نے سولہ سال تک اس کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر اس کا کوئی فائدہ امریکہ کو نہ مل سکا۔ کلائڈ سینگر (Clyde Sanger) نے لکھا ہے کہ امریکا کو سوویت یونین کے تسلیم کرنے میں سولہ سال لگ گئے۔ اس سے اسٹالن کو یہ موقع ملا کہ وہ روسی عوام کے درمیان مغربی دنیا کے خلاف نفرت پیدا کرے اور ان کے گردآہنی پردہ کھڑا کرسکے:

It took the United States 16 years to recognize the Soviet Union. This helped Stalin stimulate xenophobia among his people and build an iron curtain around them.

کلائڈسینگر نے مزید لکھا ہے کہ اگر اس زمین پر شیطان کی ایک سلطنت ہوتی تووہ اپنے نوجوان لوگوں میں سے ایک بہترین شخص کو اس کا سفیر نامزد کرتا تاکہ وہ اس کے اوپر پوری نظر رکھ سکے۔

کلائڈ سنگر کا یہ تبصرہ نہایت سخت ہے۔میں پسند نہیں کروں گا کہ میں ایسا سخت تبصرہ کروں۔ تاہم میری پوری زندگی کا مطالعہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی کی سب سے اہم شرط حقیقتِ واقعہ کا اعتراف ہے۔ جو شخص اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتا ہو کہ وہ حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف، وہی موجودہ دنیا میں کامیاب ہوگا۔ اور جو شخص حقیقتِ واقعہ کے اعتراف پر راضی نہ ہو اس کو اس سے زیادہ بُری چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ کبھی اپنی منزل مقصود کو نہ پہنچ سکے۔

10 مئی 1985

ڈاکٹر جان ڈَن(Dr. John Donne) سترھویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1572  میں پیدا ہوا اور 1631  میںاس کی وفات ہوئی۔اس کی قبر لندن میں ہے۔

انگریزی شاعری کا ایک دبستان فکر ہے، جس کو مابعد الطبیعاتی اسکول (Metaphysical school of poetry)کہا جاتا ہے۔ جان ڈَن اسی دبستان فکر کا ممتاز شاعر شمار کیا جاتا ہے۔ وہ صوفیانہ مزاج کا آدمی تھا۔ اس کا ایک شعر ہے:

Done is Undone

یعنی ڈن برباد ہوگیا۔ تاہم صوتی اعتبار سے Done is Undone  کا دوسرا لفظی مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جو ہوا وہ نہیں ہوا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہوگیا، وہ بھی اب تک ناکردہ (undone)پڑا ہے۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر یہ بات پوری طرح صادق آتی ہے۔ان کے سب کام ابھی تک ناکردہ  پڑے ہوئے ہیں۔ مثلاً بین اقوامی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا ترجمہ— موجودہ زمانے میں عملاً یہ ہوا کہ بڑے بڑے قابل لوگ سیاسی اور ہنگامی کاموں میں پڑے رہے۔ اور نسبتاً چھوٹے اور کم تر درجہ کے لوگوں نے ترجمہ کا کام کیا۔ مثلاً حدیث کی کتاب مشکاۃ المصابیح کا ترجمہ الحدیث (Al-Hadis) کے نام سے چار جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ اس ترجمہ میں غیر ضروری قسم کا دیباچہ اور تشریح شامل کرکے اس کو خواہ مخواہ ضخیم بنا دیاگیا ہے۔ نیز اس کی زبان نہایت poor  ہے۔  

کوئی اچھا انگریزی داں اس کو پڑھ کر مشکل ہی سے گہرا تاثر قبول کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اچھے انگریزی داں لوگ اس کام کو کرتے تو یہی کام کتنا زیادہ جاندار ہوتا۔محمد اقبال اور محمد علی کی انگریزی زبان اچھی تھی۔ مگر محمد اقبال شاعری کرتے رہے، اور محمد علی نے اپنی ساری زندگی سیاسی ہنگاموں میں ضائع کردی۔

11 مئی 1985

حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئی کا کام کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے زرہ بناتے تھے (الانبیاء، 21:80)۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے کپڑا سینے کا کام کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بکریاں چرانے کا کام کیا (القصص، 28:27-28)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مدت تک چرواہی کاکام کیا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2149)۔

حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا عین اسلامی طریقہ ہے۔ تمام پیغمبروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہاتھ سے کام کرکے اپنی روزی کمانا عزت کی چیز ہے، نہ کہ ذلت کی چیز جس کو کرتے ہوئے آدمی شرمائے۔حدیث میںآیا ہے: مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2072)۔ یعنی کسی نے کھانا نہیں کھایا، جو بہتر ہو اس انسان سےجو اپنے ہاتھ کے عمل سے کھاتا ہے۔اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے عمل سے کھایا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے:إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِف (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1072)۔ یعنی اللہ حرفت کے ذریعے روزی کمانے والے کو پسند کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کو حقیر سمجھنا دورِ ملوکیت اور مسلمانوں کے دورِ زوال کی پیداوار ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کو بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا۔

13 مئی 1985

قرآن میں زمین کے بارے میں ایک مقام پرخَلَقَ الْأَرْضَ (41:9)کے الفاظ ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو خلق (create)کیا۔ دوسری جگہ اس سلسلے میں یہ الفاظ ہیں:وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ (55:10)۔ یعنی اور زمین کو اس نے مخلوق کے لیے رکھ دیا ۔پہلی آیت سے مراد زمین کو وجود میں لانا ہے۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے زمین کو اس کے صحیح ترین مقام پر رکھا ۔ اس کو انام (ذی حیات اشیا) کے عین مطابق بنایا۔

یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ ساری کائنات میں صرف زمین ہے، جو ذی حیات اشیا کے انتہائی مناسب حال بنائی گئی ہے۔زمین کی جسامت (diameter) اگر موجودہ جسامت کا نصف ہو تو اسکی قوتِ کشش اتنی کم ہوجائے گی کہ انسان اور اس کے مکانات زمین پر ٹھہر نہ سکیں ۔ زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت کی دگنی ہوجائے تو اس کی قوتِ کشش اتنا بڑھ جائے گی کہ زمین پر چلنا پھرنا مشکل ہوجائے۔ اسی طرح سورج اور زمین کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلہ کا دگنا ہوجائے تو زمین برف کی طرح ٹھنڈی ہوجائے۔ اور اگر سورج اور زمین کا فاصلہ آدھے کے بقدر کم ہوجائے تو زمین سورج کی گرمی سے جھلس اٹھے۔

یہی معاملہ دوسری چیزوں کا ہے۔ زمین پر پانی ہے جو کسی دوسرے کرہ پر موجود نہیں۔ زمین پر آکسیجن ہے جو اس طرح موزوں حالت میں اور کہیں نہیںپائی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔

ذی حیات اشیا کے لیے زمین کی اس استثنائی موزونیت کا علم صرف زمانۂ جدید میں ہوسکا ہے۔ اس سے پہلے انسان اس بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ایسی حالت میں قرآن میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس آیت کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ خدائی کلام ہے۔

14مئی 1985

قدیم زمانہ میں شرک اس طرح پیدا ہوا کہ لوگوں نے جس چیز کو بظاہر نمایاں دیکھا، اسی کو خدا سمجھ کر وہ اسے پوجنے لگے چاند سورج کی پرستش  اسی طرح شروع ہوئی۔

اس اعتبار سے شرک، مظاہرِ کائنات کو سبب ِکائنات قرار دینے کا دوسرا نام ہے۔ مثلاً قدیم عرب میں شعریٰ کی پرستش ہوتی تھی، جس کا ذکر قرآن کی سورہ النجم (آیت 49) میں آیا ہے۔ شعریٰ (Sirius) دکھائی دینے والے ستاروں میں سب سے زیادہ روشن ستارہ ہے۔ وہ سورج سے 23 گنا زیادہ روشن ہے، اور شمسی نظام سے اس کا فاصلہ آٹھ نوری سال سے زیادہ ہے۔ Sirius کا لفظ اصلاً یونانی زبان سے آیا ۔ جس کے معنی چمک دار کے ہوتے ہیں۔

قدیم زمانہ میں مصر اور دوسرے مقامات پر شعریٰ کی پرستش کی جاتی تھی، اور زمین کی شادابی اور تجارتی سرگرمیاں اس سے منسوب کی جاتی تھیں۔ قدیم عرب کا ایک شاعر اپنے ممدوح کے بارے میں کہتا ہے— وہ گرمی پہنچانے والا ہےٹھنڈی میں، یہاںتک کہ جب شعریٰ (موسم بہار میں) طلوع ہوتا ہے، تو وہ (لوگوں کے ليے) ٹھنڈک اور سایہ بن جاتا ہے:

شامس في القر حتى إذا ما

ذكت الشعرى فبرد وظل

میرا خیال ہے کہ قدیم شرک اور جدید الحاد دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہیں۔ شرک کیا ہے۔ شرک مظاہرِ فطرت کو سببِ فطرت سمجھ کر اس کو پوجنا ہے۔ اسی طرح الحاد بھی مظاہر فطرت کو سبب فطرت سمجھ کر اس کو برتر قرار دینا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شرک نے جن مظاہر کو برتر سمجھا، وہ چاند، سورج، شعریٰ وغیرہ تھے۔ الحاد جس مظہرِ فطرت کو برتر قرار دے رہا ہے، وہ قانون فطرت  (Law of Nature)  ہے۔

15مئی1985

آخری زمانے میں حضرت مسیح کے نزول کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يُتَوَفَّى(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4324)۔حضرت مسیح دنیا میں 40سال رہیں گے۔ پھر ان کی وفات ہوگی۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً، ثُمَّ يَمُوتُ (المنتظم فی التاریخ،جلد2، صفحہ 39)۔ یعنی اور وہ دنیا میں 45سال رہیں گے۔ پھر ان کی وفات ہوگی۔

بظاہر دونوں روایتوں میں فرق ہے۔ مگر یہ محض لفظی فرق ہے، نہ کہ حقیقی فرق۔ یہ ایک انداز کلام ہے جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ شارحینِ حدیث نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ 40 سال والی روایت میں اوپر کا عدد حذف کردیا گیاہے۔ عربی زبان میں اور دوسری زبانوں میں یہ عام لسانی قاعدہ ہے کہ کبھی کسر کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی اس کو حذف کردیتے ہیں۔

اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں روایات میں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ ان کو روایت میں اختلاف سمجھتے ہیں، اور حدیث میں شبہ کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف اندازِ کلام کی بات ہے، اور انداز کلام کا یہ طریقہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔

16مئی1985

انڈیا کےمشہورانگریزی صحافی مسٹر خشونت سنگھ (پیدائش 1915)نے لکھا ہے کہ میں ہندستان سے پاکستان گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز لاہور کی فضا میں پہنچا تو جہاز میں اناؤنسر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں شراب ممنوع ہے۔ کوئی مسافر شراب کی بوتل کے ساتھ پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ میں سے جس شخص کے پاس شراب ہو وہ اس کو جہاز کے عملے کے پاس جمع کردے۔ مسٹر خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ میرے پاس شراب کی ایک بوتل تھی۔ یہ بوتل میں نے حسبِ اعلان ہوائی جہاز کے عملے کے حوالے کردیا۔ مگر اس کے بعد جب میں لاہور کے اندر داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ بلیک مارکیٹ میں شراب نہایت فراوانی کے ساتھ بک رہی ہے، اور میں بلیک سے جتنی چاہے شراب خرید سکتا ہوں۔(20 مارچ 2014 کومسٹر خشونت سنگھ کا انتقال ہوچکا ہے)۔

مولانا غیاث الدین رحمانی سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم ملکوںمیں شراب بند کی گئی ہے، وہاں اس کا یہی انجام ہوا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں کا ذہن بنایا اس کے بعد شراب کی حرمت کا اعلان کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 8620)۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں پہلے اس کے موافق ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔ محض قانون کے زور پر لوگوں کو شراب نوشی سے روکا نہیں جاسکتا۔

انھوں نے کہا کہ مگر یہ طریقہ ہم کو اسلاف کے یہاں نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال تک قانون ہی کے زور پر شراب کو روکا جاتا رہا۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ پہلے ذہنی فضا بنائی جائے اس کے بعد شراب پر پابندی لگائی جائے۔

میںنے کہا پچھلے زمانے پر موجودہ زمانہ کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ پچھلا زمانہ وہ ہے، جب کہ اسلامی روایات کا تسلسل برابر جاری تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلامی روایات کا تسلسل یکسر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دوبارہ وہی ضرورت پیش آگئی ہے، جو رسول اللہ کے زمانےمیں تھی۔ اب ہمیں دوبارہ اسلامی روایات قائم کرنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی قانون کا نفاذ مفید ہوسکتا ہے۔ کیوںکہ قانون ہمیشہ روایات کے اورپر نافذ ہوتاہے، اورموجودہ زمانے میں شراب بندی کے قانون کے لیے روایات کا زور موجود نہیں ہے۔

17مئی1985

رشوت بالاتفاق حرام ہے۔ قتادہ (وفات 118ھ)نے کہا کہ صحابی رسول ابی بن کعب (وفات 30 ھ) نے فرمایا کہ رشوت عقل مند کو بیوقوف بناتی ہے، اور حکیم کی آنکھ کو اندھا کردیتی ہے:قَالَ قَتَادَةُقَالَ كَعْبٌالرِّشْوَةُ تُسَفِّهُ الْحَلِيمَ، وَتُعْمِي عَيْنَ الْحَكِيمِ(  المغنی لابن قدامہ، جلد 10، صفحہ69(۔

رشوت ایک ایسا مال ہے، جو آدمی حق کے بغیر لیتا ہے، اور جب آدمی واقعی حق کے بغیر کوئی چیز لے تو عین اسی وقت وہ اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کی سطح پر رہ کر کام نہیں کرسکتا۔ اونچا کام کرنے والے کے اندر اونچا ذہن پرورش پاتا ہے، اور پست کام کرنے والے کے اندر پست ذہن پیدا ہوتا ہے۔ رشوت بظاہر ایک مالی معاملہ ہے، مگر آدمی جب اس میں پڑجاتا ہے تو اس کی عقل و بصیرت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی ہے۔ اخلاقی گراوٹ کا فعل کرتے ہی وہ اپنے آپ کو ذہنی اور فکری حیثیت سے بھی گرالیتا ہے۔

آدمی اپنے کپڑے صاف رکھنے کے لیے اس کو گندگی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عقل و بصیرت کو صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے۔ برے اخلاق میں ملوث ہونے کے بعد وہ اپنی عقل کو صحیح حالت میں باقی نہیں رکھ سکتا۔

18 مئی 1985

شاعرانہ اسلوب کی ایک مثال ذیل کا یہ پیراگراف ہے:

دل کی اس آنچ کو کچھ کرنے اور روح کی پیاس بجھانے کے لیے ایک مسلمان کو اس کی ضرورت تھی کہ اس کے دل کا ساغر اور نگاہوں کا پیمانہ چھلک چھلک جائے۔ اس جام کی کیا قیمت جو بھرے لیکن چھلک نہ پائے۔ یہی نہیں اس کی بھی ضرورت تھی کہ یہ جام چھلک کر بہنے لگے اور دوری ومہجوری کی آگ میںجلے ہوئے دل کو سیراب کردے۔ وہ جام کیا جام ہے جو بھر کر چھلک تو جائے لیکن چھلک کر بہہ نہ پائے (صفحہ 295-96 )

یہ اسلوب شاعرانہ اسلوب دور ِتنزل کی پیداوار ہے۔ یہ اسلوب نہ دورِ نبوت میں تھا اور نہ وہ موجودہ زمانہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایرانیوں کے اثر سے بعد کے زمانہ میں پیداہوا۔ مگر مسلمان اہل قلم ابھی تک اسی میں گرفتار پڑے ہوئے ہیں۔

دور نبوت میں سادہ فطری اسلوب رائج تھا۔ اور بلاشبہ اپنی تاثیر کے اعتبار سے وہ بہترین اسلوب تھا۔ موجودہ زمانہ میں اسی فطری اسلوب نے علمی انداز اختیار کیا ہے اور اس کو سائنٹفک اسلوب کہاجاتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسلمان مصنفین موجودہ زمانہ میں اس کو اختیار نہ کرسکے۔

گل وبلبل، فراق ووصال اور جام ومینا کی اصطلاحوں میں کلام کرنا علمی ذوق کے خلاف بھی ہے، اور جدید اسلوب کلام سے دوری بھی۔

20مئی 1985

 ایک سیکولر آدمی نے اسلام کی سادگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میںمسلم محلہ میں رہتا ہوں۔ وہاں ایک مسجد ہے۔ میں دیکھتا تھا کہ جو مسلمان بھگوان کی عبادت کے لیے آتا ہے وہ وضو کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتاہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کو خدا تک پہنچنے کے لیے کسی درمیانی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس، دوسرے مذاہب میں کسی پریسٹ یا پادری کا ذریعہ اختیار کیے بغیر کوئی شخص خدا کی عبادت نہیں کرسکتا۔

یہ بات بہ ظاہر سادہ سی ہے مگر نہایت اہم ہے۔ انسان فطری طور پر خدا کو پانا چاہتاہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دینا چاہتاہے۔ مگر دوسرے مذاہب میں بگاڑ کی وجہ سے یہ حال ہوگیا ہے کہ آدمی جب دوسرے عبادت خانوں میں جاتا ہے تو وہاں وہ پاتا ہے کہ کلرجی (clergy) کے بغیر وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا، اور نہ اس کے بغیر وہ خدا کی عبادت کرسکتا۔ اس طرح اس کو اپنے جذبۂ پرستش کی پوری تسکین حاصل نہیںہوتی۔ اسلام میں یہ صورت حال نہیں ۔ اسلام میں ہر آدمی براہِ راست خدا کو پکارسکتا ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔

اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے، جس کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے۔ موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی اپنے آپ کو دوسرے کے برابر سمجھتا ہے۔ اس زمانی مزاج کی وجہ سے لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آتی ہےکہ کوئی طبقہ ان سے اوپر ہو۔ لوگ جس مقام پر خود ہیں ،وہیں وہ کلرجی کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات آج صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔اس طرح اسلام انسانی فطرت کے مطابق بھی ہوجاتا ہے، اور وقت کے تقاضے کے مطابق بھی۔

21مئی1985

اسلامک انسٹی ٹیوٹ، تغلق آباد، میں ایک میٹنگ تھی۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ میٹنگ میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے ادارے کا تعارف کرایا۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کے یہاں جو افراد ریسرچ کا کام کررہے ہیں ،ان کو آپ کیا سہولیات دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے جواب دیا کہ ہم اپنے آدمیوں کو وہی سہولتیں دیتے ہیں، جو یوجی سی کی طرف سے مقرر ہیں۔ مزید یہ کہ ہم ان کو اپنے کیمپس میں رہائش گاہ بھی فراہم کرتے ہیں۔

سوال کرنے والے نے کہا کہ یہ گویا یہاں کے افراد کے لیے مزید ایک  attraction ہے۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں، مگر وہ ہمارے لیے distraction بن رہا ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ ایک مرتبہ رہائش گاہ پر قبضہ کرلیتے ہیں،وہ پھر اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان سے رہائش گاہ کو خالی کرانے کے لیے ہمیں کورٹ جانا پڑتا ہے۔

تغلق آباد کا یہ ادارہ خالص مسلم ادارہ ہے۔ اس میں کام کرنے والے بھی سب کے سب مسلم ہیں۔ اس کے باوجود ذمے دارا ن اور کارکنوں کے درمیان اس طرح کے جھگڑے پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے جھگڑے اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوں تو فوراً اس کو تعصب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ مذکورہ مسئلے کے بارے میں کیا کہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں تمام جھگڑے انٹرسٹ (interest) کے جھگڑے ہیں۔ بظاہر کوئی شخص ایک قسم کی زبان استعمال کررہا ہے اور کوئی شخص دوسری قسم کی زبان ۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے سب کا کیس ایک ہی کیس ہے ،اور وہ وہی ہے، جس کو ’’انٹرسٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔

اس دنیا میں کامیابی کے لیے سب سے ضروری چیز حقیقت پسندی ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں حقیقت پسندانہ انداز سے رائے نہیں قائم کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا ہر اقدام ناکامی کا شکار ہوتاہے۔

22 مئی 1985

ستمبر 1982میں میں نےشیخ سلیمان القائد (لیبیا)کے ساتھ حج کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔اس دوران مدینہ کا سفر ہوا تو مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، جس میں زیادہ تر ہندستانی طلبہ اور کچھ عرب طلبہ شریک تھے۔ 

گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں جو لوگ حکومت اسلامی قائم کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، ان کی تحریک بالفرض کامیاب ہوجائے تب بھی وہ ناکام رہے گی۔ کیوں کہ حکومت کو چلانے کے لیے وہ تقویٰ کافی نہیں ہے، جو مسجد کی امامت یا مدرسہ کی معلمی کے لیے کافی ہوجاتاہے۔ حکومت کا ادارہ چلانے کے لیےجس صفت کی ضرورت ہے، وہ ہے تقویٰ پلس دانش مندی کی صفت ، اوریہ صفت آج کسی مسلم رہنما کے اندر موجود نہیں۔

اس پر ایک عرب نوجوان نے اعتراض کیا۔انھوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے اکابر کا نام لیا، اور کہا کیا آپ کا خیال ہے کہ ان کے اندر تقویٰ موجود نہیں۔ میں نے کہا کہ تقویٰ ہے ،مگر وہ عملی حکمت (practical wisdom) سے خالی تھے۔ وہ نوجوان اس کو سمجھ نہیں پائے، اورناراض ہوگئے۔

مجھے فوری طورپر ندامت ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے حکمت کے خلاف ایک بات کہہ دی۔ مگر بار بار کے تجربے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میری زبان سے جو بات نکلی تھی وہ بالکل صحیح بات تھی۔ موجودہ زمانے میں ہمارے تقریباً تمام قائدین کا یہی حال ہورہا ہے کہ ان کے پاس تقویٰ کا سرمایا تھا، مگر پریکٹکل وزڈم کا سرمایہ ان کے پاس نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ بڑے بڑے میدانوں میں کود پڑے اور بالآخر سراسر ناکام رہے ۔

23مئی 1985

غالباً 1970 میں مجھے تاج محل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تاج محل کو دیکھنے سے پہلے تاج محل کے بارے میں بہت سے مضامین پڑھے تھے۔ ان مضامین میں تاج محل مجھے بہت عظیم محسوس ہوتا تھا۔ مگر جب میںنے تاج محل کو دیکھا تو وہ اس سے بہت کم تھا جو میںنے اپنے ذہن میں سمجھ رکھا تھا۔

یہی حال تمام انسانی مصنوعات کا ہے۔ انسانی ساخت کی کسی چیز کے بارے میں اسے دیکھنے سے پہلے جو میری رائے تھی وہ اس کو دیکھنے کے بعد باقی نہ رہی۔ ہر انسانی چیز دیکھتے ہی اس سے کم نظر آئی، جو دیکھنے سے پہلے محسوس ہوتی تھی۔

مگر فطرت کے مناظر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کوئی فطری واقعہ اس سے بہت زیادہ عظیم ہے، جو دیکھنے سے پہلے میں سن کر یا پڑھ کر سمجھ رہا تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت کا ہر واقعہ انتہائی حد تک عظیم اور حسین ہے، انسانی الفاظ اس کو پوری طرح بیان نہیں کرپاتے۔ یہاں ہر بولا ہوا لفظ اصل حقیقت سے بہت کم ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت دیکھنے میں اس سے زیادہ نظر آتی ہے جتنا کہ وہ پڑھنے یا سننے میں محسوس ہو رہی تھی۔

24مئی1985

بہت سی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب کہ آدمی کا دل زندہ ہو اور اس کا شعور بیدار ہو۔ مسلمان موجودہ زمانے میں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں، جو دل ودماغ کی زندگی سے محروم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے جن باتوں کو وہ نہیں سمجھتے وہی وہ باتیں ہیں جو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔مثلاً کبھی نہ کرنے کا نام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بولنا اس کا نام ہوتا ہے کہ آدمی چپ رہے، وغیرہ۔ یہ بلاشبہ زندگی کی سب سے زیادہ گہری حقیقت ہے۔ مگر وہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے لیے بہت زیادہ گہری شخصیت درکار ہے۔

آدمی ایک ایسی مخلوق ہے جو لازماً مشغول رہنا چاہتا ہے۔وہ عین اپنی فطرت کے تحت ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے نہ کرنے پر وہی شخص راضی ہوسکتا ہے جس کے پاس نہ کرنے کے وقت بھی کچھ کرنے کے لیے ہو۔ وہی انسان چپ رہ سکتا ہے جو خاموشی کے وقت بھی اپنے پاس بولنے کا سامان رکھتا ہو۔

الرسالہ میں اس قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں تو موجودہ مسلمانوں کو وہ اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ مسلمان اندر سے خالی (preoccupied)نہ ہوتے بلکہ ان کے اندر کا وجود خدا کی معرفت سے ایک زندہ وجود بن چکا ہوتا تو انھیں یہ باتیں اجنبی نہ معلوم ہوتی۔

اس وقت وہ جان لیتے کہ آدمی جب چپ ہوتا ہے تو وہ اپنے خدا سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جب بظاہر اس کے قدم رک جاتے ہیں تو وہ اپنے اندر ہی اندر مارچ کرنے لگتا ہے۔ خارجی تدبیروں سے جب وہ منقطع ہوجاتا ہے تو اس کا رشتہ قوت کے اس لازوال سرچشمے سے جڑ جاتا ہے جو کسی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے خارجی تدبیروں کا محتاج نہیں۔

25مئی1985

قاسم رضوی (1902-1970) ’’آزاد حیدر آباد‘‘ کے علم بردار تھے۔ وہ بہت زور وشور کے ساتھ آزاد حیدر آباد کی تحریک چلا رہے تھے۔کسی ہندوسیاست داں نے ان سے کہا کہ آپ حیدرآباد کو آزاد حیدر آباد کیسے بنائیں گے جب کہ آپ چاروں طرف انڈین یونین سے گھرے ہوئے ہیں۔ قاسم رضوی نے جواب دیا

’’ہم نہیں گھرے ہوئے ہیں، تم گھرے ہوئے ہو ‘‘

پچھلے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلمان اسی قسم کی لفظ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ان کے درمیان ایسا لیڈر اٹھتا ہے جو خوب صورت الفاظ بول کر ان کے ذہن کو خراب کرتا رہتا ہے۔ میرے علم میں کوئی بھی لیڈر نہیں جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو حقیقت پسندی کا سبق دیا ہو۔

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کے جھوٹے الفاظ بولنے والے لیڈروں کو مسلمانوں میں ساتھ دینے والے بھی جوق در جوق مل جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ مسلمانوں کی جھوٹے فخر کی نفسیات ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج، ایک لفظ میں، جھوٹے فخر کا مزاج ہے۔ مذکورہ قسم کی باتوں سے جھوٹے فخر کے مزاج کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمان جس کو ایسا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔

موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ مقبولیت اقبال کو حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اقبال کی شاعری فخر ومباہات کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میںمسلمانوں کے جھوٹے فخر کو زبردست غذا ملتی ہے۔ اس لیے ہر چھوٹا بڑا آدمی اس کو گنگناتا ہے۔ اقبال کی یہ شاعرانہ بلند پروازی بھی کیسی عجیب ہے کہ جو قوم اپنے زوال یافتہ ذہنیت کے نتیجے میں مقتدی بننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکی تھی اس کو انھوں نے الفاظ کی خود ساختہ دنیا میں امامت کے مقام پر بٹھا دیا:

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

27مئی1985

سموئل جانسن(Samuel Johnson, 1709-1784) کا قول ہے کہ بہت کم ایسا ہوتاہے کہ مشورہ کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا جائے۔ جو لوگ سب سے زیادہ مشورہ کے حاجت مند ہوں وہ سب سے کم اسے پسند کرتے ہیں:

Advice is seldom welcome. Those who need it most, like it least.

آدمی جب خود سوچتا ہے تو وہ اپنے جذبات کے زیر اثر سوچتا ہے۔ جب کہ مشورہ دینے والا ان جذبات سے خالی ہونے کی وجہ سے کم ازکم دوسرے شخص کے بارے میں غیر جذباتی اندازمیں سوچتا ہے۔ اس لیے مشورہ دینے والے کی رائے اکثر صحیح ہونے کے باوجود طالب مشورہ کے ذوق کے خلاف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

آدمی کے اندر یا تو یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ یا یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ مشورہ دینے والے کے مشورہ کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھ سکے۔ جس آدمی کے اندر دونوں میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے لیے اس دنیا میں بربادی کے سوا او رکوئی چیز مقدر نہیں۔

28مئی1985

میرے مزاج میں بعض عجیب باتیں ہیں۔ یہ باتیں بچپن سے پائی جاتی ہیں۔ میں ہر چیز کو خود جاننا چاہتا ہوں۔میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ میں ’’گلاس‘‘ کو صرف اس لیے گلاس کہتا ہوں کہ میں نے خود دریافت کیا ہے کہ یہ گلاس ہے۔ میںکسی چیز کو صرف اس لیے نہیں مانتا کہ لوگ اس کو ایسا اور ایسا مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری زندگی کے عجیب عجیب واقعات ہیں۔

غالباً 1960 کی بات ہے۔ میںاپنے وطن (بڈھریا) میں تھا۔ اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے وہاں آیا تھا، اور پھر مجھے ریلوے اسٹیشن (پھریہا) سے ٹرین پکڑ کر اعظم گڑھ جانا تھا۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے مجھے آزادی تھی کہ جو چاہوں کروں۔میں نے دیکھا کہ ایک طرف ارنڈ کے کچھ بیج پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ ارنڈ دست آورہوتا ہے۔ مگر میں اپنے ذوق کے تحت اس پر راضی نہ تھا کہ صرف سن کر اسے مان لوں۔ چنانچہ میں نے ارنڈ کا چھلکا اتار کر اسے کھانا شروع کردیا، اور اس طرح بہت سی ارنڈ کھا گیا۔ اس کے بعد میں بڈھریا سے روانہ ہوا کہ پھریہا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر ٹرین پکڑوں۔ 

پھریہا ریلوے اسٹیشن ہمارے گھرسے تقریباً تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ میں نے ایک کیلومیٹر کا راستہ طے کیا تھا کہ پیٹ میں مروڑ شروع ہوئی۔اس کے بعد مسلسل دست آنے شروع ہوگئے۔ یہاںتک کہ میں کمزور ہو کر گر پڑا، اور اس قابل نہ رہا کہ ریلوے اسٹیشن پہنچ سکوں۔ مگر حسن اتفاق سے اس وقت ہمارا ملازم سردھن اہیر میرے ساتھ موجود تھا۔ وہ مجھے کسی طرح پھریہا ریلوے اسٹیشن تک لے گیا، اور ٹرین پر سوار ہو کر ہم اعظم گڑھ پہنچے۔اپنے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں بے شمار مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ مگر انھیں مصیبتوں کا یہ نتیجہ ہے کہ میں خدا کے فضل سے اپنے آپ کو ایک ایسا انسان سمجھتا ہوں، جو خود اپنی دریافت کردہ دنیا پر کھڑا ہوا ہو۔

29مئی1985

انسان دو قسم کے ہوتے ہیں— شخصیت پرست ، اور حقیقت پرست۔

شخصیت پرست وہ ہے، جو باتوں کو شخصیت کے اعتبار سے دیکھے۔ جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تائید نکلے، اس کو وہ ٹھیک سمجھ لے، اور جس بات سے اس کی محبوب شخصیت کی تردید ہو رہی ہو، اس کا وہ مخالف بن جائے۔

حقیقت پرست وہ ہے، جو باتوں کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو، اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو، اس کو رد کردے۔

یہی دوسری قسم کے لوگ ہیں، جو خدا کو پاتے ہیں، جوکہ آخری اعلیٰ حقیقت ہے۔ پہلی قسم کے لوگ ساری عمر شخصیت کے خول میں بند رہتے ہیں، اور اسی میں مر جاتے ہیں۔ وہ اس لذتِ معرفت سے محروم رہتے ہیں، جو حقیقت اعلیٰ کو پاکر کسی بندہ ٔ خدا کو حاصل ہوتی ہے۔

30 مئی 1985

قدیم یونانی سوانح نگار اور فلاسفر پلوٹارک (Plutarch)کا ایک قول ہے، جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

Courage consists not in hazarding without fear, but in being resolutely minded in a just cause.

یعنی ہمت اس کا نام نہیں کہ آدمی کسی مشکل میں بے خطر کود پڑے۔ بلکہ ہمت یہ ہے کہ آدمی ایک صحیح مقصد میں مستقل ارادہ کے ساتھ لگا ہو ۔

اکثر لوگ ہمت اور بے جا جوش میں فرق نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ بے جا جوش کے تحت ظاہر ہونے والے واقعہ کو ہمت کا واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہمت کے تحت اقدام سوچا سمجھا اقدام ہوتاہے اور بے جا جوش کے تحت اقدام محض وقتی جذبہ سے بھڑک کر کیا جانے والا اقدام۔ اول الذکر اپنی منزل کی طرف کامیاب سفر ہے، اور ثانی الذکر صرف بربادی کی خندق میںاحمقانہ چھلانگ ۔

31 مئی 1985

سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو دوڑاتی ہیں۔ جنگل میں ہر وقت چھوٹے جانوروں کو بڑے جانوروں کا ڈر لگا رہتا ہے۔ یہی خدا کا نظام ہے۔ اگر مچھلیاںاور جانور خدا سے اس کی شکایت کریں تو خدا کا جواب یہ ہوگا

میں نے جو سمندر اور جو جنگل بنائے ہیں وہ تو ایسے ہی ہیں۔ اگر تمھیں وہ منظور نہ ہوںتو تم اپنی مرضی کے مطابق دوسرے سمندر اور دوسرے جنگل بنالو۔

یہی معاملہ انسانوں کا ہے۔ انسانوں کی دنیا میں بھی ہمیشہ یہ مقابلہ (competition) جاری رہا ہے، او رجاری رہے گا۔ اس مقابلہ کی وجہ سے کوئی گِرتا ہے ،اور کوئی اٹھتا ہے۔ کسی کو جیت ملتی ہے، اورکسی کو ہار۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اس سے مطابقت کرکے رہے۔ جو لوگ اس کو پسند نہ کریں، ان کے لیے دنیا کا نظام بدلا نہیں جاسکتا۔ ان کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق نئی دنیا تخلیق کریں۔ خدا کی دنیا میں تو ایسا ہونا ممکن نہیں۔

1 جون 1985

انسان کی اعلیٰ ترین تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ دلیل کے آگے جھک جائے، وہ طاقت کے بغیر محض دلیل کی بنیاد پر حقیقت کا اعتراف کرلے۔

مگر میری زندگی کا سب سے زیادہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ صرف طاقت کے زور کو جانتا ہے، وہ دلیل کے زور کو نہیں جانتا۔موجودہ دنیا میں آدمی دلیل کا انکار کرکے خوش ہوجاتا ہے، اور طاقت کا اعتراف کرکے اپنے کو عقل مند سمجھتا ہے۔ مگر یہ اتنا بڑا جرم ہے جو سب سے زیادہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والا ہے۔

جو لوگ موجودہ دنیا میں دلیل کے آگے نہ جھکیں، وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں مبتلا کرتے ہیں کہ آخرت کی دنیا میں انھیں فرشتوں کی طاقت کے آگے جھکایا جائے۔ مگر اُس دن کا جھکنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ دلیل کے آگے جھکنا آدمی کے لیے جنت (Paradise)کا دروازہ کھولتا ہے۔ جب کہ طاقت کے آگے جھکنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی کو مجبور کرکے جہنم کے گڑھے میںدھکیل دیا جائے۔

دلیل کے آگے جھکنا خدا کے آگے جھکنا ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں، وہ گویا خدا کے آگے سرکشی کررہے ہیں۔ جو لوگ خدا کے آگے سرکشی کریں ، اور پھر اسی حال میں مر جائیں ،ان کو خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔

3 جون 1985

موجودہ دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ آزاد خیالی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مفکرین آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کہتے ہیں۔مگر یہی سب سے بڑا خیر سب سے بڑا شر بن گیا ہے۔ آزادی کے اس تصور نے انسان کو بالکل بے قید بنا دیا ہے۔ وہ کسی قسم کی اخلاقی پابندی کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو اضافی پابندیوں سے آزاد سمجھ لیں وہ جنگل کے جانوروں سے بھی زیادہ برے بن جاتے ہیں۔

آزادی کے نام پر پیدا شدہ اس بگاڑ کا سب سے زیادہ برا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے۔مسلمان اپنی قدیم تاریخ کے نتیجہ میں جھوٹے فخر کی نفسیا ت میں مبتلا تھے۔ جدید دور کی بے قید آزادی نے ان کے فکری زوال میں دُگنا اضافہ کردیا— آزاد خیالی اور پُر فخر نفسیات۔ یہ دونوں چیزیںجب یکجا ہوجائیں  تو برائی اس آخری حد پر پہنچ جاتی ہے جس کے آگے اس کی کوئی اور حد نہیں۔

4  جون 1985

تقریباً1950 کی بات ہے۔ اس وقت میںاپنے بڑےبھائی کے کارخانہ لائٹ اینڈ کمپنی (قائم شدہ 1944)سے وابستہ تھا، اور کارخانہ کی ضرورت کے تحت اعظم گڑھ سے بنگلور جارہا تھا۔ اس لمبے سفر کے دوران میرے اندر ایک تجربے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ میں کتنی زیادہ دیر تک بھوکا رہ سکتا ہوں۔ میںنے اس پر عمل شروع کردیا۔ ٹرین اسٹیشنوں پر رکتی۔ لوگ اتر کر کھاتے پیتے۔ مگر میں مسلسل فاقہ کررہا تھا۔ یہ فاقہ سراسر اختیاری تھا۔ کیوں کہ میری جیب میں اس وقت کافی رقم موجود تھی۔

کئی وقت کے فاقے کے بعد مجھے کافی کمزوری محسوس ہونے لگی۔ میں ایک بڑے اسٹیشن پر اترا۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ میں بھی اسٹیشن کے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔ وہاں بہت سے لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے کھاپی رہے تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھنے لگا۔ معاً مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھے پکڑ کر ہٹا رہا ہے۔ بات یہ تھی کہ مجھے ریسٹورنٹ میںداخل ہوتے ہی چکر آگیا، اور میں ایسی کرسی پر بیٹھنے لگا جس پر پہلے سے آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ کسی آدمی نے مجھے ایک خالی کرسی پر بٹھایا، اور خود ہی میرے لیے کھانے کا آرڈر دیا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں میں نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد غالباً دس روپیہ کا نوٹ دے کر روانہ ہونے لگا۔ دوبارہ ریستوران کے آدمی نے مجھے روکا اور بقیہ پیسے مجھے واپس کیے۔

اگلے دن میں بنگلور کی کسی سڑک پر چل رہا تھا کہ ایک آدمی نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ میںنے گھوم کر دیکھا تو وہ میرے لیے ایک اجنبی شخص تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مذکورہ اسٹیشن کے ریسٹورنٹ میں جب میں کھانے کے لیے داخل ہوا تو وہ بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا: اس وقت آپ کا حال دیکھ کر ہم نے یہی سمجھا تھا کہ آپ پیے ہوئے ہیں، اور مد ہوشی کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔ میںنے اس آدمی کو بتایا کہ یہ وجہ نہ تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ میں نے کئی وقت سے کچھ نہیں کھایا تھا، اس لیے مجھے چکر آگیا۔ اسی آدمی نے مجھے بتایا کہ ریسٹورنٹ میں آپ بھری ہوئی کرسیوں پر بیٹھ رہے ـتھے۔

میری زندگی میںاس طرح کے بہت سے عجیب عجیب واقعات ہیں۔ سلف میڈ مین (self-made man) کا لفظ عام طورپر صرف معاشی تعمیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ لیکن اس لفظ کا کامل مصداق اگر کوئی شخص ہوسکتا ہے تو یقیناً وہ میں ہوں۔ میں پورے معنوں میں ایک سلف میڈ مین ہوں۔ مجھ کو نہ خاندانی روایات نے بنایا ہے، اور نہ سماجی حالات نے۔ میںنے ہر اعتبار سے اپنے آپ کو خود بنایا ہے۔ تاریخ میں اس قسم کا کوئی دوسرا انسان اگر پایا جاتا ہو تو وہ میرے لیے ایک دریافت ہوگی۔

5 جون 1985

بظاہر سائنس خدا کے بارے میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے:

In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopaedia Britannica, 1984,  15/531)

 سر جیمز جینز (وفات 1946)نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔

6 جون 1985

ایک مرتبہ میںعلی گڑھ گیا۔ وہاںمیری ملاقات ایک ’’ریٹائرڈ پروفیسر‘‘ سے ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میںنے انگریزی زبان میں ایک تفسیر لکھی ہے۔ آپ اس کی اشاعت کا انتظام کیجیے۔گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کیا آپ عربی زبان جانتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا جب آپ عربی زبان نہیں جانتے تو آپ نے قرآن کی تفسیر لکھنے کی ذمہ داری کیوں لے لی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ انھوںنے کہا کیا قرآن کی تفسیر لکھنا صرف مولویوں کی اجارہ داری ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے مولویوں کو قرآن کی تفسیر لکھنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے، وغیرہ۔

مسلمانوں کا عجیب مزاج ہے۔ ان کا ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں ہر کام کرنے کا اہل ہوں۔ وہ نہایت آسانی سے ایک ایسا کام شروع کردیتا ہے، جس کے لیے ضروری علمی لیاقت اس کے اندر موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان بے شمار کتابیں لکھ لکھ کر چھاپ رہے ہیں، مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میںواقعۃً قابل مطالعہ مواد پایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کو بے کار نہیںبنایا۔ ہر آدمی کسی خاص کام کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرسکے، بڑا کام شہرت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہے۔ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو جانے۔ وہ بے لاگ غور وفکر کے ذریعہ اس بات کو دریافت کرے کہ اس کو خدا نے کسی خاص کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ محنت کا ہے۔

اپنے لیے صحیح ترین میدان کا تعین اور اس میدان میںمکمل جدوجہد، ان دو شرطوں کو پورا کیے بغیر ایک شخص کوئی قابل لحاظ کام نہیں کرسکتا۔ جو شخص اپنی زندگی کو کارآمد بنانا چاہتاہو اس پر لازم ہے کہ وہ ان دو شرطوں کو پورا کرے۔

7  جون 1985

خشکی کے اکثر جانور (اونٹ جیسے بعض جانوروں کو چھوڑ کر)پانی میں تیرنا جانتے ہیں۔ وہ بآسانی ندی کے اِس طرف سے اُس طرف تیر کر جاسکتے ہیں۔ ان جانوروں کو یہ تیرنا کس نے سکھایا۔ جواب ہے کہ قدرت نے، یعنی وہ اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت تیرتے ہیں۔

جانور جس طرح تیرنے کا ملکہ پیدائشی طورپر لے کر آتا ہے اسی طرح اپنی ضرورت کی دوسری چیزوں کو بھی وہ پیدا ہوتے ہی جان لیتا ہے۔ مثلاً گھر کیسے بنایا جائے۔ دشمنی سے کیسے بچا جائے۔ کون سی خوراک کھائی جائے اور کون سی خوراک نہ کھائی جائے۔ توالد و تناسل کے لیے کیا کیا جائے، وغیرہ۔ یہ سب باتیں ہر جانور پیدائشی طورپر جانتا ہے۔

انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انسان کو ہر بات سیکھنی پڑتی ہے۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر کی دنیا اس کے لیے تعلیم گاہ ہوتی ہے، جہاں وہ اپنی ضرورت کی تمام باتوں کو سیکھتا ہے۔جانور اورانسان کے درمیان یہ فرق بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جانور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ نہیں۔ مگر انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ انسان کا جواب دہ (accountable) ہونا خود انسان کی اپنی بناوٹ سے ثابت ہورہاہے۔

8 جون 1985

برطانی قوم کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے، جس میںدوسروں کے لیے زبردست سبق پایا جاتا ہے۔ سیکنڈ ورلڈ وار (1939-45) میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965) تھے۔ انھیں کی قیادت میں برطانیہ نے اس جنگ میںفتح حاصل کی تھی۔ مگر جنگ کے فوراً بعد جب برطانیہ میں الکشن ہوا تو اہل برطانیہ نے مسٹر چرچل کو الکشن میں شکست دے کر مسٹر کلیمنٹ اٹلی (1883-1967)کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا۔ فاتح کو عین ا س کی فتح کے بعد معزول کردیا گیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ عظمی کے نوآبادیاتی علاقوں میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جنگ کے بعد برطانیہ اس قابل نہ تھا کہ وہ ہندستان اور دوسرے نو آبادیاتی ممالک میں بزور اپنا اقتدار قائم رکھ سکے۔ برطانیہ کے باشعور طبقہ نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیاتی ممالک کو آزاد کردیا جائے۔ اس عمل کے لیے متشدد چرچل موزوں نہ تھے۔ بلکہ صلح پسند اٹلی موزوں تھے۔ چنانچہ اہل برطانیہ نے فاتح ہونے کے باوجود چرچل کو اقتدار سے ہٹا دیا اور مسٹر اٹلی کو ان کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔

مہاتما گاندھی (1869-1948) اور ہندستان کے دوسرے لیڈروں کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا، اور اسی کے نتیجہ میں ملک بسہولت آزاد ہوگیا۔ مگر مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے خود اپنے لیے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ہندستان میں جنگ آزادی کی قیادت شمالی ہند نے کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں شمالی ہند کے لوگوں میں غیر معتدل قسم کا سیاسی مزاج بلکہ تخریبی مزاج پیدا ہوگیا۔ اس کے مقابلہ میں جنوبی ہند کا مزاج بالکل مختلف تھا۔ شمالی ہند میں اگر انتہا پسندانہ سیاست کا مزاج تھا تو جنوبی ہند میں مخصوص اسباب کے تحت حقیقت پسندانہ تعمیر کا مزاج۔

ان حالات میں مہاتما گاندھی کے لیے صحیح ترین بات یہ تھی کہ وہ آزاد ہندستان کا وزیر اعظم جنوبی ہند کے کسی شخص کو بنائیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت کے جنوبی ہند میں سی راج گوپال اچاریہ  (Chakravarti Rajagopalachari, 1878-1972) جیسا عظیم لیڈر موجود تھا۔ مگر مہاتماگاندھی نے جواہر لال نہرو کو آزاد ہندستان کا وزیر اعظم بنادیا۔ جن لوگوں نے جنگ کی قیادت کی تھی انھیں کو مہاتما گاندھی نے تعمیر کی قیادت بھی سونپ دی۔

مہاتما گاندھی نے آزادی ہند کی تحریک نہایت کامیابی کے ساتھ چلائی تھی مگر اسی کامیابی کے ساتھ وہ تعمیر ہند کی تحریک کی رہنمائی نہ کرسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مہاتما گاندھی نے شمالی ہند کے جواہر لال نہرو کے بجائے جنوبی ہند کے راجہ گوپال آچاریہ کو ملک کا وزیر اعظم بنایا ہوتا تو آج ہندستان کی تاریخ یقینی طور پر بالکل دوسری ہوتی۔

11جون 1985

پاکستان کے سابق وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو (1928-1979) کا نعرہ یہ تھا:

اسلام ہمارا دین،

جمہوریت ہماری سیاست،

سوشلزم ہماری معیشت ہے

مسٹر بھٹو کے اس نعرہ پر پاکستان کے مذہبی طبقہ کو سخت اعتراض تھا۔وہ کہتے تھے کہ مسٹر بھٹو نے اسلام کو تین حصہ میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلام، دوسرے جمہوریت، تیسرے سوشلزم۔ جب کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا تعلق ہر شعبہ زندگی سے ہے۔ اس میں کسی قسم کی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔ مسٹر بھٹو ایک بدنام شخص تھے۔ ان کی تقسیم فوراً لوگوں کو نظر آگئی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود مذہبی طبقہ اس طرح تین تقسیم پر اپنے کو راضی کیے ہوئے ہے۔ اگر چہ اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں، جو مسٹر بھٹو نے استعمال کیے تھے۔

مذہبی افراد کی تقسیم کو اگر ہم لفظوں میں ظاہر کرنا چاہیں تو اس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

اسلام ہمارا دین ہے،

خودنمائی ہماری سیاست،

ذاتی مفاد ہماری معیشت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہر شخص کا نظریہ حیات ایک ہی ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا غیرمذہبی۔ ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں جو فرق ہے وہ الفاظ کا ہے، نہ کہ حقیقت کا۔ہر آدمی اپنے حسب حال الفاظ بولتا ہے۔ ہر لیڈر اس نعرہ کو اختیار کرلیتا ہے جو اس کے لیے مفید مطلب (convenient) ہو۔ اگر کئی الفاظ کو ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں ہر شخص کا دین صرف ایک ہے، اور وہ ہے استحصال(exploitation)۔ بولے ہوئے الفاظ میں لوگوں کے دین ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

12 جون 1985

حدیث میں اہلِ جنت کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دوسروں کے بارے میں وہی فیصلہ کیا جو فیصلہ ان کا خود اپنے بارے میں تھا (وَحَكَمُوا لِلنَّاسِ كَحُكْمِهِمْ لِأَنْفُسِهِمْ)مسند احمد، حدیث نمبر 24379۔ یعنی اہل جنت انسانوں کو اپنے اور غیر کے اعتبار سے نہیں دیکھتے ہیں،انسانوں کو میرٹ کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، زوال یافتہ ذہن چیزوں کو اپنے اور غیر کے اعتبار سے دیکھا کرتا ہے۔ 

مثلاً تقسیم ہند (1947) کے وقت جو فساد ہوئے اس میں ہندو مسلم اور سکھ ہر ایک کا نقصان ہوا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر مسلمان شکایتیں کرتے ہیں۔ مگر یہی معاملہ ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ بھی پیش آیا ، اس کو وہ بالکل نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ یہ دہرا طریقہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ پھر مذکورہ طرزِ عمل کے بعد وہ کیسے امید کرتے ہیں کہ آخرت میں وہ اللہ کے محبوب بندے قرار دیے جائیں گے۔

13 جون 1985

صحابۂ کرام نے جو حدیثیں بیان کی ہیں وہ سب کی سب براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی نہیں ہیں۔ ان میںایسی حدیثیں بھی ہیں جن کو ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے سنا اور صحابی کا نام لیے بغیر حدیث کو بیان کردیا۔ براء بن عازب (وفات 72 ھ)کہتے ہیں: مَا كُلُّ مَا نُحَدِّثُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْنَاهُ مِنْهُ:مِنْهُ مَا سَمِعْنَاهُ، وَمِنْهُ مَا حَدَّثَنَا عَنْهُ أَصْحَابُهُ ، وَنَحْنُ لَا نُكَذِّبُ(فوائد الفریابی، اثر نمبر 34)۔ یعنی جو کچھ ہم تمھارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، وہ ہم نے آپ سے نہیں سنا۔ کچھ ہم نے آپ سے سنا ہے، اور کچھ اصحابِ رسول نے (آپ سے سن کر)بیان کیا ہے، اور ہم جھوٹ نہیں بولتے ہیں ۔

اس قسم کی روایت کو اصطلاح حدیث میں مرسل حدیث کہتے ہیں اور علما کا اتفاق ہے کہ صحابی کی مراسیل قابل اعتبار ہیں۔ امام موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامی المقدسی کہتے ہیں: مراسيل اصحاب النبي صلى الله عليه و سلم مقبولة عند الجمهور (روضۃ الناظر وجنۃ المناظر، صفحہ 125)۔ یعنی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمہور کے نزدیک مقبول ہیں۔

15 جون 1985

مسلمانوں نے پچھلے دو سو برس کے اندر کوئی بھی ٹھوس تعمیری کام نہیں کیا۔ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا مسئلہ عقلی نقطۂ نظر کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ میں عقلی نقطۂ نظر نے ایک فکری انقلاب پیدا کیا ہے۔ اس انقلاب نے دینی عقائد کو دور جاہلیت کی چیز قرار دے کر ان کو تاریخ کے خانہ میں ڈال دیا۔ یہاں ضرورت تھی کہ مسلمان اٹھیں اور دینی عقائد اور تعلیمات کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم کریں۔ مگر اس پوری مدت میں منفی ہنگاموں کے سوا مسلمان اور کچھ نہ کرسکے۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمانے میں تبدیلی واقع ہوئی اور دینی عقائد کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے۔ مگر یہ کام تمام تر عیسائی اور یہودی علماء نے انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ایک فی صد حصہ بھی نہیں۔جدیدسائنس نے خدا کو کائنات کے نقشہ سے حذف کردیا تھا۔ اب دوبارہ خدا کائنات کے نقشہ میں نظر آرہا ہے مگر اس عمل کو انجام دینے والے وہ لوگ ہیں، جن کے نام جیمز جینز اور اڈنگٹن جیسے ہیں۔

یہی معاملہ تمام دینی تعلیمات کا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ دنیا میں دوسرے الہامی مذاہب (عیسائیت، یہودیت) بھی موجود تھے۔ اسلام اور ان مذاہب کے درمیان تعلیمات اور تاریخی شخصیتوں کا اشتراک ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی تعلیمات اور اپنی تاریخ کو عقلی اور سائنسی طورپر معتبر ثابت کرنے کے لیے جو تحقیقات کیں اس کا فائدہ بالواسطہ طورپر اسلام کے حصہ میں بھی آگیا۔ مثلاً علم الآثار کی تحقیق جس نے قرآن میں مذکور اقوام اور شخصیتوں کو تاریخ کی روشنی عطا کی۔

نظریۂ ارتقا کی تردید، جس نے خالق کے عقیدہ کو دوبارہ بحال کیا۔ عورت اور مرد کے درمیان حیاتیاتی فرق کو ثابت کرنا جس نے خاندان کے بارے میں اسلامی قوانین کو دوبارہ اعتباریت (credibility) عطا کی۔ حتی کی اسلام کی قدیم عربی کتب کو مخطوطات کے دور سے نکال کر مطبوعات کے دورمیں داخل کرنا بھی انھیں عیسائیوں اور یہودیوں کا کارنامہ ہے۔ غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ جس زبان میں اعلیٰ لٹریچر موجود ہے، وہ انگریزی زبان ہے۔ اس سلسلہ کی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کی مستند کتاب ،سیرت ابن ہشام کا مکمل ترجمہ پہلے انگریزی میں ہوا اور اس کے بہت دیر بعد کسی مسلم زبان میں۔

17  جون 1985

ہندستان ٹائمس میں ایک ہندو کا خط چھپا ہے۔ یہ خط ہندستان کے مسلمانوں کے معاملا ت سے متعلق ہے۔ مسلمان اس خط کو پسند نہیں کریں گے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط صد فی صد (100%) درست ہے، وہ مسلمانوں کی حالت کی صحیح ترین ترجمانی ہے۔ہندو مکتوب نگا رنے لکھا ہے کہ ہندستان کے مسلمان اپنی زبوں حالی کا الزام ہندوؤں کو دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذمہ دارتمام تر خود مسلمان ہیں۔ اس نے مسلمانوں کی لیڈر شپ کو مسلمانوں کی بد حالی کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

مکتوب نگار کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بد حالی کا سبب یہ ہے کہ ان کے لیڈروں میں خود نمائی (self-glorification)کا جذبہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام لیڈر خود نمائی (self-glory) کے مرض میں مبتلارہے۔ وہ انھیں چیزوں میں دوڑتے ہیں جس میں نیوز ویلو ہو، جس میں ان کی ذات کو شہرت اور بڑائی حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی لیڈر (سرسید کے واحداستثنا کے سوا) اس پورے دور میں کوئی حقیقی تعمیری کام (constructive) نہ کرسکا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار اپنے آپ کوقرار دینا چاہیے، دوسروں کی شکایت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔

مجھے مذکورہ ہندو مکتوب نگار کی رائے سے صد فی صد (100%) اتفاق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے اصل دشمن خود ان کے اپنے لیڈر ہیں۔ ان لیڈروں نے اپنی شخصی لیڈری کی خاطر قوم کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمان جب تک اس اصل سبب کا اعتراف نہ کریں، وہ موجودہ زمانے میں اپنی جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔

18 جون 1985

قدیم عرب کے لوگ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے حیرت انگیز تھے۔ ان کی مختلف صلاحیتوں میں سے ایک اعلیٰ صلاحیت یہ تھی کہ وہ کم الفاظ میں نہایت با معنی بات کہنا جانتے تھے۔

جنگ جمل کے زمانہ میں حضرت علی نے دو آدمیوں کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان کو تعاون پر آمادہ کریں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت ان الفا ظ میں آئی ہے:لَمَّا بَعَثَ عَلِيٌّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ إِلَى الْكُوفَةِ لِيَسْتَنْفِرَهُمْ ،خَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ:إِنِّي  لَأَعْلَمُ أَنَّهَا زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ،وَلَكِنَّ اللهَ ابْتَلَاكُمْ بِهَا ، لَيَنْظُرَ إِيَّاهُ تَتَّبِعُونَ أَوْ إِيَّاهَا(السنن الکبریٰ للبیہقی، اثرنمبر  16717)۔ یعنی جب علی ابن ابی طالب نے عمار اور حسن کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ انھیں جنگ میں نکلنے کے لیے ابھاریںتو عمار نے تقریر کرتے ہوئے کہامیں جانتا ہوں کہ عائشہ دنیا اور آخرت میں تمھارے پیغمبر کی بیوی ہیں۔ مگر اللہ نے اس کے ذریعہ سے تم کو آزمایا ہے تاکہ دیکھے کہ تم علی کا ساتھ دیتے ہو یا عائشہ کا— اتنی نازک بات کواس سے زیادہ کم الفاظ میں شاید نہیں کہا جاسکتا۔

19 جون 1985

ہر دو آدمی کے درمیان ان کا خدا کھڑا ہوا ہے۔ خدا ہر وقت ہر آدمی کی بات سن رہا ہے تاکہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔

اگر آدمی کو اس واقعے کا احساس ہو تو اس کا وہی حال ہوگا، جو ایک آدمی کا عدالت میں ہوتا ہے۔ عدالت میںہر آدمی بالکل ناپ تول کر بولتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی بات خلاف قاعدہ منھ سے نکل گئی تو وہ فوراً عدالت کی پکڑ میںآجائے گا۔ اسی طرح اللہ پر عقیدہ رکھنے والا جو کچھ بولتا ہے، اس احساس کے تحت بولتا ہے کہ خدا اس کو سن رہا ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ کوئی غلط بات اپنے منھ سے نہ نکالے۔

انسان سے اگر غلطی ہوجائے اور وہ فوراً اس کا اعتراف کرلے توگویا کہ اس نے خدا کے سامنے اعتراف کیا۔ اور اگر وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے تو گویا کہ اس نے خدا کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ سارا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ لوگ معاملات کو انسان کا معاملہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ سرکشی اور بے انصافی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غلطی کرکے بھی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔

میرا مزاج یہ ہے کہ اگر میں کوئی خلافِ حق بات کہہ دوں اور اس کے بعد مجھے معلوم ہو کہ یہ بات حق کے خلاف تھی تو میں اس کو افورڈ (afford )نہیں کرسکتا کہ میں اس کا اعتراف نہ کروں۔ میں حق کے آگے جھک نہ جاؤں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا خود ظاہر ہو کر میرے سامنے آیا اور کہا کہ میرے سامنے جھک جا اس کے باوجود میں خدا کے سامنے نہیں جھکا— حق کے سامنے نہ جھکنا ایسا ہی ہے گویا کسی کے سامنے خدا آیا، ا ور وہ اس کے سامنے نہیں جھکا۔

20 جون 1985

ایک شخص نے اپنا دل چسپ تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہے:

“A fast way of becoming a millionaire”, read the ad in the newspapers. “For further particulars send a self-addressed stamped envelope along with Rs. 1". Intrigued, I sent off the money and received the following reply: “Start a scheme just like this one.” (Dilip Rendalkar, Secunderabad)

’’جلد کرورپتی بننے کا طریقہ ‘‘ اس عنوان سے میں نے اخبارات میں ایک اشتہار پڑھا۔ اسی کے ساتھ اشتہارمیں یہ درج تھا کہ مزید تفصیلات کے لیے اپنا پتہ لکھے ہوئے لفافہ کے ساتھ ایک روپیہ بھیجیں۔ میرا اشتیاق بڑھا۔ میں نے مطلوبہ رقم بھیج دی۔ اس کے بعد مجھے ایک جواب ملا، جس میں یہ لکھا تھا— اسی طرح کی ایک اسکیم آپ بھی شروع کردیجیے۔

تجارت کے دو طریقے ہیں۔ ایک معروف تجارت، اور دوسری وہ جس کو جھوٹی امیدوں کی تجارت (false hopes business) کہا جاسکتا ہے۔ مذکورہ واقعہ "جھوٹی امیدوں کی تجارت" کی ایک دلچسپ مثال ہے۔

جھوٹی امیدوں کے بزنس کے سب سے بڑے تاجر موجودہ زمانہ میں ہمارے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر ایک بڑی سی امید دلا کر قوم کو اکسائیں گے۔ قوم ان کے الفاظ سے متاثر ہو کر دوڑ پڑے گی۔ وہ انھیں چندہ دے گی۔ ان کے جلسوںمیں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر ان کی امیج (image)بڑھائے گی۔ حتی کہ بے شمار لوگ ان کے الفاظ کے فریب میں آکر گولیاں کھائیں گے، اور اپنے کو برباد کریں گے۔

اس کے نتیجہ میں لیڈر کی لیڈری چمک اٹھے گی۔ اس کی قیادت کا شان دار مینار کھڑا ہوجائے گا۔ مگر قوم کے حصہ میں کچھ بھی نہ آئے گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے مذکورہ مثال میں لاکھوںآدمیوںنے اپنی جیب کی رقم کھو کر ایک شخص کو دولت مند بنا دیا، مگر خود کھونے والوںکے حصہ میں کچھ بھی نہ آسکا۔

21 جون 1985

چھوٹی انسائیکلو پیڈیا (ایک جلد والی) میں سے ایک وہ ہے جس کا نام ہے:

Pears' Cyclopaedia (London)

اس انسائیکلو پیڈیا میں مونو تھیئزم کے آگے حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ہیں— توحید اس اصول کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ خاص توحیدی مذہب عیسائیت ہے:

Monotheism, the doctrine that there exists but one God. The chief monotheistic religion is Christianity.

یہ انسائیکلو پیڈیا کا وہ ایڈیشن ہے جو 1948 میں چھپا تھا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے مغربی دنیا میں جو لٹریچر تیار ہوا، اس میں اسی طرح اسلام کو حذف کردیا گیا تھا۔ اپنی اصل کے اعتبارسے بلاشبہ تمام مذاہب توحید کے مذاہب تھے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خالص توحیدی مذہب اسلام ہے۔ کیوں کہ دوسرے مذاہب اپنی ابتدائی حالت میں باقی نہیں ہیں۔

مغربی علما نے اب اپنی اس روش پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔چنانچہ 1977 میں شائع ہونے والی ایک انسائیکلو پیڈیا— Collins Concise Encyclopaedia (Glasgow) میں اس سلسلہ میں حسب ذیل الفاظ لکھے گئے ہیں کہ توحید اس عقیدہ کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت اور اسلام میں مانا جاتاہے:

Monotheism, belief that there is only one God, as in Judaism, Christianity, and Islam.

24  جون 1985

مسلمانوں کے ایک قائد نے ہندستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا ذمہ دار ہندوؤں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد مسلسل مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر دفاعی ذہن پیداہوگیا ہے۔ ان کے اندر وہ مثبت ذہن پیدا نہیں ہوتا جو تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے ہندو جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا سلسلہ بند کریں تاکہ مسلمان تعمیر و ترقی کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔

میں کہوں گا کہ مسلمانوں کی تعمیر کی راہ میں اصل رکاوٹ ہندو صاحبان نہیں ہیں بلکہ مذکورہ بالا قسم کے مسلم قائدین ہیں، جو مسلمانوں میں صحیح ذہن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ یہ قائدین مستقل طورپر ایک ہی کام کررہے ہیں، اور وہ ہے ذہن کو بگاڑنا۔ ا س دنیا میں رکاوٹوں کے باوجود کام کیا جاتا ہے، نہ کہ رکاوٹوں کے بغیر۔ یہ دنیا کبھی رکاوٹوں سے خالی نہیں ہوسکی۔ اسی لیے رکاوٹوں کی شکایت کرنا ہی بے معنی ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم رکاوٹوں کے اندر سے اپنے لیے امکان تلاش کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے مکہ اور مدینہ میں جو رکاوٹیں تھیں، وہ ہماری رکاوٹوں سے ایک کرور گنا زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے ’’تعمیر وترقی‘‘ کے کام کی صورتیں نکالیں۔ حتی کہ انھوں نے تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔ اگر وہ قریش اور یہود اور منافقین سے مطالبہ کرتے کہ ہمارے راستہ کی رکاوٹیں ختم کرو تاکہ ہم تعمیری کام انجام دے سکیں تو نہ کبھی رکاوٹیں ختم ہوتیں، اور نہ کبھی تعمیری کام کا آغاز ہوتا۔

ہمارے قائدین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو رکاوٹوں کے باوجودکام کرنے کا سبق دیں۔ رکاوٹوں کے بغیر کام کا جو نسخہ وہ پیش کررہے ہیں، وہ کسی خیالی جزیرہ میں ممکن ہوسکتاہے۔ موجودہ مقابلہ کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔

25 جون 1985

زندگی بے حد مشکل امتحان ہے۔ اس مشکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اکثر معاملات میں آدمی کو کٹھن فیصلہ لیناہوتا ہے، کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف۔ یہ طے کرنا کہ کب کس رُخ پر اقدام کیا جائے، یہ بے حد نازک اور مشکل کام ہے، بلکہ شاید اکثر اوقات میں انسانی عقل سے باہر۔ کیوں کہ صحیح فیصلہ لینے کے لیے مستقبل کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، اور مستقبل کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ وہ ہے جو آپ نے صلح حدیبیہ کے وقت لیا اور دوسرا فیصلہ وہ ہے جو آپ نے فتح مکہ کے وقت لیا۔ دونوں دو انتہائی فیصلے تھے۔ صلح حدیبیہ کے وقت مکمل طورپر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور فتح مکہ کے سفر میں مکمل طورپر آگے بڑھنے کا۔ دونوں انتہائی فیصلے تھے۔پیغمبر کا فیصلہ خدا کی وحی کی بنیاد پر تھا، اس لیے پیغمبر اسلام کے لیے ممکن تھا کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن معاملے میں صحیح فیصلہ لے سکے۔ مگر عام انسان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن فیصلے اتنے درست طور پر لے سکے۔ عام آدمی کے لیے ِ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (صحیح البخاری، حدیث نمبر3560)کے مطابق، یہی راستہ ہے کہ وہ ممکن (possible)یا آسان تر کو پہچانے اور اس کو اختیار کرے۔

26 جون 1985

ایک صاحب تھے۔ ان کی کوئی خاص تعلیم نہ تھی۔ اردواخبارات اور اردو ریڈیو سن کر جو معلومات انھیں مل گئی تھیں وہی ان کا کل علمی اثاثہ تھا۔ غریب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو بھی کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم نہ دلا سکے۔

مگر ان صاحب کی ’’انا‘‘ یعنی ایگو (ego)بے حد بڑھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کو سب سے زیادہ قابل سمجھتے تھے۔ ان کا جھوٹا احساسِ برتری کسی کی علمیت تسلیم کرنے میں مسلسل مانع بنا ہوا تھا۔ حتی کہ اپنے جاہل بچوں میں بھی انھوں نے یہی ذہن پیدا کردیا۔ انھوں نے اپنے بچوں کو سکھایا کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات پوچھے تو ایسا کبھی نہ کہو کہ ہم کو نہیں معلوم۔ چنانچہ ان کے بچوں کا ،جہالت کے باوجود ، یہ حال تھا کہ کوئی بات کہی جاتی تو فوراً بول اٹھتے :

ہماں کو سب معلوم ہے

یعنی ہم کو سب معلوم ہے۔ایسا ہی کچھ حال موجودہ زمانہ کے ’’علما‘‘ کا ہوا ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت محدود ہوتا ہے مگر ان کا ذہن مخصوص اسباب سے یہ بن جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ مدرسوں کے ان پیدا شدہ علما سے گفتگو کیجیے ۔ وہ کبھی یہ نہ کہیں گے کہ یہ بات میں نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ یہ ظاہر کریں گے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ان علما کو غیر علما بنانے میں سب سے زیادہ دخل ان کی اسی ذہنیت کا ہے۔

’’ہم کو سب بات معلوم ہے ‘‘ کا مزاج آدمی کو ہر بات سے بے خبر کررہا ہے، اور موجودہ زمانہ کے علما اس کی عبرت ناک مثال ہیں۔

27  جون 1985

اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں جو مسلمانوں کو معمولی سی لگتی ہیں۔ مگر غیر مسلم ان خصوصیات کو بڑے اچنبھے کی نظر سے ديكھتے ہیں۔

مثلاً اسلام میں ایک شخص بلا واسطہ خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔ ہم چوں کہ روزانہ مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں، ہمیں اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک غیر مسلم جب دیکھتا ہے کہ نماز کا وقت آیا، اور مسلمان نے خدا کی طرف رخ کرکے اپنی عبادت شروع کردی۔ وہ کسی واسطہ کے بغیر براہِ راست اپنے خدا سے مربوط ہوگیا، تو اس کو یہ بات بہت زیادہ اسٹرائک(strike) کرتی ہے۔

اسی طرح اسلام میں ہر حکم کے ساتھ رعایتی دفعہ بھی شامل ہے۔ مثلاً وضو نہ کرسکوتو تیمم کرلو۔ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، وغیرہ۔ اسی قسم کی چیز ان لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں جنھوںنے دوسرے مذاہب کے ماحول میں پرور ش پائی ہے۔ کیوںکہ دوسرے مذاہب میں صرف ’’عزیمت‘‘ کے احکام ہیں، ان کے ہاں ’’رخصت‘‘ کے احکام نہیں۔

اسی طرح دوسرے مذاہب میںعبادتی مراسم (rituals) کی بھر مار ہے۔ ان مراسم میں معمولی فرق کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی کی عبادت ہی ادا نہیں ہوئی۔

اس قسم کی سادگی جو اسلام میں ہے ،وہ اس کے ليے ایک زبردست تبلیغی قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ دور اول میں اسلام جو اتنی زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلا، اس کی کم از کم ایک وجہ یہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں لوگ اصراور اغلال کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان کو سیدھا سادھا فطری مذہب پیش کیا۔ وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑے۔

بد قسمتی سے بعد کے دور میں مسلمانوں نے بزعم خود اسلام کی تعلیمات کو مفصل اور جامع بنانے کے ليےاس میںاضافے شروع کیے۔ فقہی اضافے، کلامی اضافے، اعتقادی اضافے اور متصوفانہ اضافے۔ ان اضافوں نے اسلام کے اوپر ایک مصنوعی پردہ ڈال کر اس کو اس کی فطری کشش سے محروم کردیا۔

28  جون 1985

بعض لوگ قرآن میں ’’اختلاف قرأت‘‘ کے مسئلہ کو لے کر قرآن کی حفاظت کو مشتبہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سراسر مغالطہ ہے۔ان کو جاننا چاہیے کہ قرآن میں اختلافِ قرأت ہے، اختلافِ کتابت نہیں ہے۔ یعنی تمام دنیا کے سارے قرآن ایک ہی طرز پر لکھے جاتے ہیں۔ اس میں کسی کے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔ اب جو فرق ہے وہ قرأت کا ہے۔ یعنی قرآن کو پڑھنے میں لوگ کئی آوازوں کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ مثلاً کچھ عرب قبائل رب الناس کو رب النات پڑھتے تھے۔ کچھ لوگ رَبَّک کو رَبّش پڑھتے تھے، وغیرہ(البرھان فی علوم القرآن، جلد 1، صفحہ 220)۔

اختلاف قرأت، بالفاظ دیگر لہجہ کا اختلاف ہر زبان میں ہوتا ہے۔ مثلاً انگریزی کو لیجیے۔ poet کو تمام ملکوں میں اسی طرح لکھا جاتا ہے مگر اس کو پڑھنے میں فرق ہے۔ مثلاً امریکا کے لوگ اس کو پائٹ پڑھتے ہیں اور انگلینڈ کے لوگ پواِٹ کہتے ہیں۔ اسی طرح salt کو ہندستان میں سالٹ کہاجاتا ہے۔ مگر یہی لفظ برطانیہ میں سوٹ کی آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ جب کہ لکھنے کے اعتبار سے ہر جگہ اس کو ایک ہی طریقہ سے لکھا جاتاہے۔

قرآن اپنی کتابت کے اعتبار سے بلا شبہ محفوظ ہے، اور صد فی صد(100%) محفوظ ہے۔ اب جو بعض فرق ہے وہ لہجہ اور تلفظ کا فر ق ہے۔ اور لہجہ اور تلفظ کا فرق فطری ہے، وہ نہ ختم ہوتا اور نہ اس سے کوئی خرابی واقع ہوتی ہے۔

29   جون 1985

مستشرقین نے حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کے لیے جن چیزوں کو بنیاد بنایا ہے، ان میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ کی کثیر روایات ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ نے ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی صحبت غزوہ خیبر کے بعد شروع ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت ابو ہریرہ کی صحبت رسول ان کثیر روایات کے لیے ناکافی ہیں جو ان سے مروی ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ کی روایات کی تعداد 5374 ہے، جیسا کہ ابن حزم نے لکھا ہے۔ مگر یہ کثیر تعداد تکرار اسناد کی بنا پر ہے۔ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ احادیث کو طرق روایت کے اعتبار سے شمار کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ سے ایک حدیث کو چار آدمیوں نے سنا ہو اور وہ چاروں الگ الگ اس کو بیان کریں تو محدثین کے یہاں یہ ایک حدیث چار حدیث بن جائے گی۔

کچھ لوگوں نے اس کا جائزہ لیا ہے اور تکرار کو حذف کرکے روایات کی تعداد متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوںنے مکررات کو حذف کیا تو روایات ابوہریرہ کی اصل تعداد صرف 1336  رہ گئی۔

اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو منکرین حدیث کا اعتراض بالکل بے حقیقت ثابت ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ حضرت ابوہریرہ کی مدت صحبت کے اعتبار سے 1336 کی تعداد زیادہ نہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے قبیلے سے آکر مدینہ میں رہ گئے تھے اور مسجد نبوی میں قیام کی وجہ سے ان کو رسول اللہ کے ارشادات سننے کا موقع دوسروں سے زیادہ ملا تھا۔

تاریخ کی کتابوں میں ان کے بارے میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیںكَانَ مِن أحفظ أَصْحَاب رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وألزمه لَهُ على شبع بَطْنه وَكَانَت يَده مَعَ يَده يَدُور مَعَه حَيْثُ مَا دَار إِلَى أَن مَاتَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم(رجال صحيح مسلم لابن مَنْجُوَيه، جلد2، صفحہ403، اثر نمبر 2161)۔ یعنی وہ اصحاب رسول میں سب سے زیادہ (حدیث کے) حافظ تھے، وہ بھوکے رہ کر بھی سب سے زیادہ آپ کے ساتھ رہے ، انھوں نے آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالا، اور جہاں آپ گئے وہاں وہ گئے، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔

2  جولائی 1985

ایس ٹی کو لرج(Samuel Taylor Coleridge, 1772-1834) ایک مشہور انگریزی شاعر ہے۔ اس کی ایک نظم کا عنوان ہے:

The Rhyme of the Ancient Mariner

اس نظم میں شاعر نے دکھایا ہے کہ ایک ملاح اپنے کسی گناہ کے سبب سمندر میںپھنس گیا ہے۔ اس کے پاس پینے کے لیے میٹھا پانی نہیں ہے۔ کشتی کے چاروں طرف سمندر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ مگر کھاری ہونے کی وجہ سے وہ اس کو پی نہیں سکتا۔ وہ پیاس سے بے تاب ہو کر کہتا ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی مگر ایک قطرہ نہیں جس کو پیا جاسکے:

Water, water, everywhere/ Nor any drop to drink.

جو حال کولرج کے خیالی ملاح کا ہوا وہی حال امکانی طورپر اس دنیا میں تمام انسانوں کا ہے۔ انسان پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر پانی کا تمام ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جن میں 1/10 حصہ نمک ملا ہوا ہے۔ اس بنا پر سمندر کا پانی اتنا زیادہ کھاری ہے کہ کوئی آدمی اس کو پی نہیں سکتا۔

اس کا حل قدرت نے بارش کی صورت میں نکالا ہے۔ سورج کی گرمی کے اثر سے سمندروں میں تبخیر (evaporation) کا عمل ہوتا ہے۔ سمندر کا پانی بھاپ بن کر فضا کی طرف اٹھتا ہے، مگر مخصوص قانونِ قدرت کے تحت اس کا نمک کا جزء سمندر میں رہ جاتا ہے، اور صرف میٹھے پانی کا جزء اوپر جاتا ہے۔ یہی صاف کیا ہوا پانی بارش کی صور ت میں دوبارہ زمین پر برستا ہے اور انسان کو میٹھا پانی عطا کرتا ہے جس کی اسے سخت ترین ضرورت ہے۔ بارش کا عمل ازالۂ نمک (desalination) کا ایک عظیم آفاقی عمل ہے۔ آدمی اگر صرف اس ایک واقعہ پر غور کرے تو اس پر ایسی کیفیت طاری ہو کہ وہ خداکے کرشموں کے احساس سے رقص کرنے لگے۔

3 جولائی 1985

قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے دودریا بنائے۔ ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ آپس میں نہیں ملتے۔

یہ ایک انتہائی حیرت ناک بیان ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت ساری دنیا میں کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ پانی دو قسم کے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ملے بغیر بہتے ہیں۔ ایسے زمانہ میں قرآن میںاس قسم کی آیت کا ہونا واضح طو رپر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خدائی کتاب ہے۔ کیوںکہ کوئی انسان اس راز سے واقف ہی نہ تھا کہ وہ اس کو بیان کرے۔

موجودہ زمانہ میں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بات پانی کے کھار ی پن میں فرق سے پیدا ہوئی ہے۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا میں (Salinity Current) کے تحت درج ہے:

Saline water is denser than fresher water; when two water bodies converge, the more saline of the two flows beneath the less saline. Thus, a river flowing into the sea flows on the surface, sometimes for great distances; the Mississippi, for example, appears as a brown, freshwater stream in the blue waters of the Gulf of Mexico. (EB. VIII, p. 811)

کھاری پانی میٹھے پانی سے زیادہ کثیف (dense) ہوتاہے۔ جب دو پانی ملتے ہیں تو جو دونوں میں سے زیادہ کھاری ہوتا ہے وہ کم کھاری کے نیچے بہتا ہے۔ اس طرح سمندر میں بہنے والا ایک دریا سمندر کی سطح پر بہتا ہے۔ بعض اوقات بہت دور تک مثلاً مسیسپی میکسکو گلف کے نیلے پانی کے اوپر بادامی پانی کی شکل میں بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

4 جولائی 1985

اکثر باتیں بالکل سادہ اور فطری ہوتی ہیں مگران کو غیر ضروری طورپر پراسرار بنا دیا جاتاہے۔ مثلاً روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے جب مکہ میں بیت اللہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کو پکارو ، تاکہ وہ یہاں حج کے لیے آئیں۔حضرت ابراہیم کو اندیشہ ہوا کہ میری آواز ہر جگہ کیسے پہنچے گی۔ خدا نے کہا کہ تم پکارو اور پہنچا نا ہمارا کام ہے: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أُبْلِغُ النَّاسَ وَصَوْتِي لَا يَنْفُذُهُمْ؟ فَقِيلَنَادِ وَعَلَيْنَا الْبَلَاغُ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے پکار کر کہا کہ لوگو! بیت اللہ کا حج کرنے کہ لیے آؤ۔ پھر پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ہر جگہ پہنچ گئی(تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ414)۔ اس واقعے کی اصل قرآن میں موجودہے:وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ(22:27) ۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔

پیغمبر ابراہیم کی یہ بات اگر بالکل لفظی معنوں میں ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر دوبارہ یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی:أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا(مسند احمد، حدیث نمبر 10607)۔ یعنی اے لوگو، بے شک اللہ تعالی نے تم لوگوں پر حج فرض کیا ہے تو حج کرو۔

حضرت ابراہیم کا اعلان دراصل بات کو کہنے کا ایک اسلوب ہے۔ حضرت ابراہیم کا اعلان پراسس کی تکمیل کااعلان نہیں تھا بلکہ وہ پراسس کے آغاز کا اعلان تھا۔ حضرت ابراہیم کے ذریعہ اس اہم اعلان کا آغاز کیاگیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعلان فرمایا۔ اس کے بعد آپ کی امت کے لوگ نسل در نسل اعلان کررہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔

اکثر غلط فہمی اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایک پراسس کے تحت جاری واقعات کوایک  دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھتے۔ مثلاً اس معاملہ میں وہ حضرت ابراہیم کے اعلان کو الگ واقعے کی حیثیت سے دیکھیں گے، اور پھر رسول اللہ کےاعلان کو الگ واقعہ سمجھیں گے۔ پھر ان دونوں کو الگ الگ واقعہ سمجھ کر لکھنا اور بولنا شروع کردیں گے۔ یہ غیر علمی نقطہ نظر ہے، اور اکثر حالات میں یہی غیر علمی نقطہ نظر لوگوں کے لیے اصل بات کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

5 جولائی 1985

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو حدیثیں وضع کی گئیں اس کے بہت سے محرکات تھے۔ ان میں سے ایک محرک دین کا مذاق اڑانا تھا۔مثلاًیہود ونصاری نے بعض چیزوں کو خودساختہ طور پر اپنا مذہبی شعار بنا لیا تھا۔اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ تم ان معاملات میں یہود ونصاری کا انداز اختیار نہ کرو بلکہ اس سے مختلف طریقہ اختیار کرو (خَالِفُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى)۔ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 2186۔

ایک شخص نے اس تعلیم کا مذاق اڑانے کے لیے ایک حدیث گھڑی اور کہا:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْطَعُوا اللَّحْمَ بِالسِّكِّينِ فَإِنَّهُ مِنْ صَنِيعِ الْأَعَاجِمِ( سنن ابوداؤد، حدیث نمبر3778) ۔ یعنی گوشت کو چھری سے نہ کاٹو، کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔ پیغمبرِ  اسلام نے مذہبی شعار میں تشبہ سے منع کیا تھا۔ مگر کہنے والے نے ایک خود ساختہ مثال کے ذریعے اس کو مضحکہ خیز بنا دیا۔ اس قسم کی لاکھوں حدیثیں وضع کرکے لوگوں کے اندر پھیلا دی گئیں۔ تاہم اس سے دین محفوظ کو کوئی خطرہ نہیں۔

عباسی خلیفہ ہارون رشید (148-193ھ)کا واقعہ ہے۔ اس نے ایک حدیث وضع کرنے والے کو موت کی سزا دی تو اس نے کہاتھا:فأين أنت من ألف حديثٍ وضعتُها على نبيِّك؟ فقال له:أين أنت يا عدوَّ الله من أبي إسحاقَ الفَزاريّ وابن المبارك؟ فإنهما يتصفَّحانها فيُخرجانها حرفًا حرفًا (مرآة الزمان في تواريخ الأعيان، جلد 13، صفحہ 117)۔ یعنی تم کیسے ایک ہزار حدیثوں کو نکالوگے، جو میں نے تمھارے نبی پر گڑھی ہے۔ تو ہارون رشید نے کہا اللہ کے دشمن تم ابو اسحاق الفزاری، اور ابن المبارک سے بچ نہیں سکتے، وہ دونوں اس کو غور سے دیکھیں گے، اور اس کو ایک ایک حرف کرکے نکال دیں گے۔یہ معاملہ صرف دو محدثین تک محدود نہیں ہے، ہارون رشید نے اس زمانے میں جاری ایک پراسس کی خبر دی، جس کو کثیر تعداد میں محدثین انجام دے رہے تھے۔ 

6 جولائی 1985

صحابہ کرام کے اقوال جو کتابوں میں آئے ہیں،وہ حد درجہ حکمت کی باتیں ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ کسی صحابی نے بھی کسی یونیورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ پھر یہ علم ان کے اندر کہاں سے آیا۔ یہ علم ان کے اندر تقویٰ نے پیدا کیا۔ تقویٰ خود علم ہے۔جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اس کا سینہ علم کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مسروق تابعی نے کہا:كَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ يَخْشَى اللَّهَ(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد6، صفحہ142)۔یعنی آدمی کے علم کے لیے کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔صحابہ کرام اس علم خاص کی اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ حضرت عمر فاروق کا ایک قول ہے:مَنْ كَثُرَ ضَحِكُهُ قَلَّتْ هَيْبَتُهُ، مَنْ مَزَحَ اسْتُخِفَّ بِهِ(المعجم الکبیر للطبرانی، اثرنمبر 2259)۔ یعنی جو آدمی زیادہ ہنسے اس کا رعب کم ہوجائے گا۔ اور جو شخص ہنسی مذاق کرے گا، وہ لوگوں کی نظر میں ہلکا ہوجائے گا۔

حضرت عمر کے اس قول میں جو حکمت ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔

8  جولائی 1985

1976 میں طرابلس (لیبیا) میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا عنوان تھا :

Muslim Christian Dialogue

میں نے بھی کانفرنس کے دعوت نامہ پر اس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ مجھے قبض (constipation) ہوگیا اور کئی دن تک اجابت نہیں ہوئی تو میں ہوٹل کے اس کمرے میں گیا جہاں شرکاءِ کانفرنس کے لیے دواؤں کا انتظام تھا۔ وہاں جو ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی پر تھے ان سے میں نے قبض کی دوا مانگی۔ایک کافی بڑے ہال میں دواؤں کا انبار لگا ہوا تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب دیر تک تلاش کرنے کے بعد بھی قبض کی کوئی دوا نہ پاسکے۔ میںنے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کے پاس اتنی ساری دوائیں ہیں اور قبض کی کوئی دوا آپ کے پاس نہیں۔ انھو ںنے مسکراتے ہوئے جواب دیا :ہمارے پاس تو سب دست (diarrhea) کے مریض آرہے ہیں۔

میں نے اپنے اور دوسروں کے بارے میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ میں بھوک سے کم کھاتا تھا اور دوسرے حضرات بھوک سے زیادہ۔ یہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ کھانے کی چیزیں نہایت افراط کے ساتھ مہیا کی گئی تھیں۔ کھانے کے مخصوص اوقات کے علاوہ بار بار (refreshment)دیا جارہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ خوب دھوم کے ساتھ کھا پی رہے ہیں۔ جب کہ میں اپنے مزاج کے مطابق زیادہ نہیں کھا پاتا تھا۔ دوسروں کو زیادہ کھانے کی وجہ سے دست ہوگیا اور مجھ کو کم کھانے کی وجہ سے قبض۔

9 جولائی 1985

سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ قوانین فطرت کے باب میں حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ملے

وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں اور دونوں صنفوں کو ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ پھولوں کی خوشبو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شب ماہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ داعیات صنفی کو حرکت میں لانے کاسبب نہ بنتا ہو۔

مصنف نے یہ بات اپنے خیال سے اچھے معنی میں لکھی اور اس سے اچھا معنی نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگرمیں نے اس کو پڑھا تو مجھے اپنے ذوق کے مطابق فطرت کا یہ حوالہ کچھ پسند نہیں آیا۔فطرت کے مناظر بے حد پرکشش ہیں۔ وہ آدمی کے اندر زبردست جذبہ ابھارتے ہیں۔ مگر اس معنی میں نہیں جس معنی میں مصنف نے لکھا ہے۔

مجھے فطرت کے مناظر بے حد پسند ہیں۔ میں گھنٹوں انھیں دیکھتا رہتا ہوں مگر مجھ کو یاد نہیں کہ میرے اندر مذکورہ بالا قسم کا جذبہ ابھرتا ہو۔ مجھ کو فطرت کے مناظر میں خدا کا جلوہ نظرآتا ہے۔ فطرت کو دیکھ کر مجھے خدا کی یاد آتی ہے۔شاعروں اور افسانہ نگاروں نے ضرور فطرت کو مذکورہ انداز میں پیش کیاہے۔ مگر یہ فطرت کا کمتر اندازہ ہے۔ فطرت کا اعلیٰ استعمال یہ ہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر اس کے خالق کو یاد کرے۔ آدمی فطرت کے حسن کو دیکھے تاکہ یہ اس کے لیے ایک آئینہ بن جائے جس میں اس کو خالق کا چہرہ نظر آتا ہو۔

10 جولائی 1985

ولیم ہاورڈ ٹافٹ (William Howard Taft, 1857-1930) امریکا کے 27 ویں صدر تھے۔ ان کا زمانۂ صدارت 1909 سے 1913 تک ہے۔ اس دوران امریکی پروٹوکول کے مطابق، ان کو وائٹ ہاؤس (واشنگٹن)میں قیام کرنا پڑا، جو کہ امریکا کے صدر کی سرکاری رہائش گاہ اور بنیادی آفس ہے۔وائٹ ہاؤس میں سخت حفاظتی انتظامات رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے صدر کو ایک لمحہ کے لیے بھی پرائیوسی (privacy) کی زندگی حاصل نہیں ہوتی۔ وہ ہر وقت نگرانوں کے پہرے میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ صدر ٹافٹ نے اس صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وائٹ ہاؤس دنیا کی وہ جگہ ہے جہاں آدمی سب سے زیادہ تنہا ہوتاہے:

White House is the loneliest place in the world.

یہ آدمی کی ایک ضرورت ہے کہ وہ پرائیوسی (privacy) حاصل کرسکے۔ وہ محسوس کرے کہ وہ اپنی دنیا میں ہے جہاں دوسروں کا دخل شامل نہیں۔ مگر ’’بڑے لوگ‘‘ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ فطرت انسانی کی اِس طلب کا ان کے یہاں کوئی خانہ نہیںہوتا۔

یہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں ان بڑے لوگوں کو مستقل طورپر اضطراب میں رکھتی ہیں۔ وہ اپنے ماحول سے کبھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ مگر اقتدار کا نشہ ایسی چیز ہے جو ہر چیز پر غالب آجاتا ہے۔ آدمی ہر حال میں اقتدار کے منصب پر بیٹھنا چاہتا ہے، خواہ اس کی وجہ سے اسے خود اپنی شخصیت کو قتل کر دینا پڑے۔

11 جولائی 1985

میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تجربہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ خواہ اس کی غلطی کو کتنے ہی زیادہ قوی دلائل کے ساتھ واضح کردیا جائے۔

اس سلسلے میں میرے بہت سے تجربات ہیں۔ایک دل چسپ واقعہ وہ ہے، جو مولانا عامر عثمانی (وفات 1975) سے متعلق ہے۔ 1963 میں میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘چھپی تو لوگوں نے عامر عثمانی صاحب سے کہا کہ وہ اس کا جواب لکھیں۔ عامر عثمانی صاحب اکثر جماعت اسلامی کا دفاع کیا کرتے تھے، اور اپنے تفریحی انداز کی وجہ سے کافی پڑھے جاتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق ابتدامیں انھوںنے گریز کیا۔ مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو انھوں نے ایک لمبا مضمون لکھا جو 1965 کے آغاز میں ان کے رسالہ تجلی (فروری- مارچ 1965، صفحہ 99-124)میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھامولانا وحید الدین خانصاحب کی تعبیر کی غلطی۔

یہ مضمون واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ عامر عثمانی صاحب اپنے آپ کو علم کے میدان میں عاجز پارہے ہیں۔ چنانچہ اس میں اصل نقطہ نظر کی علمی تردید کی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ مختلف انداز سے اس کا مذاق اڑایا گیا۔  اس کے جواب میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’تنقید یا مسخرہ پن‘‘ یہ مضمون اولاً ماہ نامہ نظام (کانپور) میں دسمبر 1965 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دوسرے جرائد میں نقل کیا گیا۔ میرے اس مضمون کی اشاعت کے بعد جناب عامر عثمانی مزید دس سال تک زندہ رہے۔ مگر وہ اس موضوع پر بالکل خاموش ہوگئے۔ پھر انھوں نے کبھی تعبیر کی غلطی کا رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔

البتہ اس کے بعد انھوںنے تجلی ( جولائی- اگست 1966)کا ’’حاصل مطالعہ نمبر‘‘ نکالا۔ اس میں انھوںنے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سمیت متعدد شخصیتوں کی منتخب تحریریں شائع کیں اور ان پر تبصرے لکھے۔ مگر انھوں نے سب سے زیادہ شاندار ذکر راقم الحروف کا کیا۔ اس کتاب کا پہلا مضمون راقم الحروف کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ سے متعلق تھا اس کے اعتراف میں انھوں نے اپنے وہ آخری الفاظ صرف کردئے جو ان کے پاس موجود تھے۔

جناب عامر عثمانی صاحب کا یہ مضمون ’’پچاس فی صد اعتراف‘‘ کا ثبوت ہے۔ مگر افسوس کہ دوسروں میں اتنے اعتراف کی بھی جرأت نہیں۔

12 جولائی 1985

میںجن لوگوں سے اپنی زندگی میںغیر معمولی طورپر متاثر ہوا ان میں سے سے ایک مولانا عبدالباری ندوی (1886-1976) ہیں۔ ان سے نہ صرف میری ملاقاتیں ہوئی ہیں بلکہ ایک مختصر عرصہ تک میںان کی رہائش گاہ پر مقیم بھی رہا ہوں۔

موصوف مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفۂ مجاز تھے۔ مولاناتھانوی نے ان کو رسمی بیعت کے بغیر مرید کیا تھا، یعنی مولانا اشرف علی تھانوی نے ان سے مجازی بیعت لی تھی۔ جن دنوں میں ان کے یہاں مقیم تھا (غالباً یہ 1967 کے اوائل کی بات ہے)،میںنے ایک روز ان سے کہا کہ آپ مجھے بیعت کرلیجیے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ خوش رہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ پیدائشی صوفی ہیں۔ آپ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت ہونے کی ضرورت نہیں۔ میںآپ کو اسی طرح اپنے حلقۂ بیعت میں لیتاہوں جس طرح مولانا تھانوی نے مجھ کو اپنے حلقۂ بیعت میں لیا تھا۔

مولانا عبد الباری ندوی میرے کام کے سلسلہ میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھ کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا

باقی میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں۔

مولانا عبد الباری ندوی کے بارے میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’مسٹر مولوی‘‘۔ یہ الجمعیۃ ویکلی 7 مارچ  اور 14 مارچ 1969 میں دو قسطوں میں چھپا تھا۔

13 جولائی 1985

میں 1948میں جماعت اسلامی سے متاثر ہواا ور جلد ہی اس کارکن بنالیا گیا۔ اس زمانے میں میرا قیام اعظم گڑھ میں تھا۔ میں وہاں کی مقامی جماعت سے وابستہ تھا، جس کے امیر اس وقت ماسٹر عبد الحکیم انصاری تھے۔1950 کے لگ بھگ زمانہ میںمیرا یہ خیال ہوا کہ میں پاکستان چلا جاؤں، اور وہاں پر کوئی کام کروں۔ رکن جماعت کی حیثیت سے میرے لیے ضروری تھا کہ میں امیر جماعت اسلامی ہند سے اس کی اجازت حاصل کروں۔ اس وقت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی جماعت اسلامی ہند کے امیر تھے۔ میںنے ان کو اجازت کے لیے خط لکھا تو انھوںنے اجازت نہ دی۔ ان کو یہ تردد تھا کہ میں پاکستان جاکر کوئی کام نہ کرسکوں گا، اور وہاں مشکلات میںپھنس جاؤں گا۔

اس خط وکتابت کا ذکر میں نے مقامی امیر ماسٹر عبد الحکیم انصاری صاحب سے کیا۔ وہ میری تجویز سے متفق ہوگئے ،اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ پاکستان چلے جائیں۔ وہاں آپ کو کام کے زیادہ مواقع ملیں گے۔

چوں کہ مولانا ابوللیث صاحب (امیر جماعت اسلامی ہند) مجھے منتقل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اس لیے انھوںنے مولانا ابواللیث صاحب کے نام ایک سفارشی خط لکھا۔ اس خط میں میری تجویز کی پرزور تائید کرتے ہوئے انھوںنے جو کچھ لکھا اس میں سے ایک جملہ یہ تھا

’’میں وحید الدین خاں کو عرصہ سے جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایک بار طے کرلیں تو ہمالیہ پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے کھسکا دیں‘‘۔

ماسٹر عبد الحکیم صاحب کا یہ خط مولانا ابواللیث صاحب کو بھیج دیا گیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے اجازت دے دی۔ اگر چہ بعد کو خود میری رائے بدل گئی، اور میں پاکستان نہ جاسکا۔

15 جولائی 1985

دورِ اول کے مسلمانوں کی اٹھان تواضع (modesty) پر ہوئی تھی، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اٹھان فخر (pride)پر ہوئی ہے — ایک لفظ میں یہی وہ فرق ہے جس نے دورِاول کے مسلمانوں اور موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے درمیان وہ فرق پیدا کردیا ہے، جس کو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔دورِ اول کے مسلمانوں کا آغاز خدا کی دریافت سے ہوا تھا۔ انھوں نے خدا کی عظمت وکبریائی کو اپنے دل و دماغ میں اتارا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہ سراپا تواضع بن گئے تھے۔ ان کا سینہ ذاتی بڑائی کے احساس سے آخری حد تک خالی تھا۔

اس کے برعکس، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں دو بیماری اپنے ’’شاندار‘‘ ماضی کی دریافت سے آئی ہے۔ ایک، شبلی نے انھیں ’’ہیروان اسلام‘‘ کا تعارف کرایا۔دوسرا، اقبال نے ان کوماضی کی عظمت کے حصول کے لیے آفاقی بلند پروازی کا درس دیا۔ اسی طرح ہر ایک ماضی کی عظمتوں کو یاد دلا کر ان کے اندر جوش ابھارنے کی کوشش کرتا رہا۔ دورِ اول کے مسلمان ’’خدا کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان ’’اپنی تاریخ کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں۔

یہی وہ بنیادی بات ہے جس نے دونوں گروہوں کی سوچ میں فرق پیدا کردیا ہے۔ دورِ اول کے لوگوں کو خدا کی عظمت کے احساس نے تواضع کا ذہن دیا تھا۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو تاریخ کی عظمت کے احساس نے فخر کا ذہن دیا ہے۔ تواضع کا ذہن تمام خوبیوں کا سر چشمہ ہے، اس کے مقابلہ میں جھوٹا فخر (false pride) تمام خرابیوں کا سر چشمہ۔

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصلاح کا مقام آغاز یہی ہے کہ ان کے اندر سے جھوٹے فخر کا مزاج ختم کیا جائے اور دوبارہ ان کے اندر تواضع کا مزاج پیدا کیا جائے۔

16 جولائی 1985

ہندستان کی وزارت خوراک کے فیصلہ کے تحت یہاں 10 ملین ٹن غلہ بطور بفر خوراک (buffer stock)  رکھاجاتا ہے۔ مگر ہندستان کے اس 10 ملین غلہ کو حفاظت کے ساتھ رکھنے کا انتظام نہیں۔ چنانچہ غلہ چوری ہوتا ہے، چوہے کھاجاتے ہیں، کیڑے لگتے ہیں، برسات میں سڑ کر بے کار ہوجاتا ہے، وغیرہ۔اس کے خلاف ایک انگریزی اخبار نے مضمون لکھا جس کا عنوان تھا:

Cut the system to size

یعنی اتنا ہی غلہ رکھو جتنا انتظام کرسکتے ہو۔ یہ اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔ اگر لفظ بدل کر اس طرح کہا جائے  تو وہ اصول ہے — اپنے آپ کو حد واقعی کے اندر رکھو:

Cut yourself to size

 انسان کی اکثرمصیبتیں صرف اس کا نتیجہ ہوتی ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو حد واقعی کے اندر نہیں رکھتا۔ اگر لوگ اس اصول پر عمل کرنے لگیں تو زندگی کے اکثر مسائل اپنے آپ ختم ہوجائیں۔

17 جولائی 1985

شاہ محمد اسماعیل دہلوی (1779-1831)نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا تھا :

’’اس شہنشاہ (باری تعالی) کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کرورڑوں نبی و جن وفرشتے، جبرئیل او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کرڈالے۔

یہ کتاب چھپی تو علما کی ایک فوج اس کے رَدّ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ علامہ فضل حق خیر آبادی (1797-1861) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا امتناعِ نظر۔اس میں انھوں نے بتایا کہ مثل محمد ممتنع الوجود (ناممکن)ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف نبی تھے بلکہ خاتم الانبیا تھے، اور خاتم الانبیا کا مرتبہ کسی ایک ہی شخص کو مل سکتاہے۔ اس لیے مثلِ محمد مقدرِ حق سبحانہ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہ خاتم الانبیا کا مماثل (مانند)پیدا کرنے پر خدا قادر نہیں۔

اس پر مولانا حیدر علی رام پوری نے لکھا کہ ا بن عباس کا ایک اثر ہے جس کے مطابق اللہ نے سات زمینیں پیدا کی ہیں اور ہر زمین میں الگ الگ انبیاء ہیں(سَبْعَ أَرَضِينَ فِي كُلِّ أَرْضٍ نَبِيٌّ كَنَبِيِّكُمْ) مستدرک الحاکم، اثر نمبر 3822۔ اس اثر سے استناد کرکے انھوںنے کہا کہ اللہ مثل خاتم الانبیا پیدا کرنے پر قادر ہے۔ کیوں کہ جب سات زمینیں ہیں تو سات خاتم الانبیا کی ضرورت ہوئی۔

مرزا غالب (1797-1869)نے ایک اور نکتہ نکالا۔ انھوںنے کہا کہ موجودہ عالم میں تو ایک خاتم الانبیا کے سوا دوسرا خاتم الانبیا پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن خدا اس پر قادر ہے کہ ایسا ہی ایک اور عالم پیدا کرے اور اس میںموجودہ عالم کے خاتم الانبیا کی طرح ایک اور خاتم الانبیا مبعوث فرمائے۔

اس طرح کی بحثیں برسہا برس تک جاری رہیں۔ دونوں طرف سے عجیب عجیب دلائل دیے جاتے رہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ زوال میںمسلمانوں کے ذہنی افلاس(intellectual dwarfism) کا حال کیا ہوگیا تھا۔ بے معنیٰ موشگافیوں کو وہ علم سمجھتے تھے اور بے فائدہ بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کو یہ سمجھتے تھے کہ وہ خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہیں۔

18 جولائی 1985

دانیال لطیفی صاحب (پیدائش 1917) سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ (بیرسٹر)ہیں۔ ان کی تعلیم زیادہ تر انگلینڈ میںہوئی ہے۔ وہ 1928 سے 1939 تک تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان میں رہے ہیں۔ انھوں نے انگلینڈ سے قانون کی ڈگری لی۔

انھوں نےتعلیم کے زمانے کا ایک واقعہ بتایا۔ ان کے ساتھ ایک انگریز نوجوان تھا، جس نے آکسفورڈ یونی و رسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانہ میں نیر وبی کے لیے اعلیٰ تقررات لندن سے ہوا کرتے تھے۔ نیروبی میں ایک جج کی جگہ خالی ہوئی۔ اس کے لیے مذکورہ نوجوان مسٹر برسفورڈ نے درخواست دی۔اس کے بعد لارڈ چانسلر نے اس کو انٹرویو کے لیے بلایا۔ لارڈ چانسلر نے مسٹر برسفورڈ سے صرف ایک سوال کیا اور اس کے بعد ان کا تقرر کردیا۔

لارڈ چانسلر کے کمرے میں ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اس نے نوجوان سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ انھوںنے کہا کہ بتاؤ۔ نوجوان نے کہا کہ لارڈ کُک کی۔ لارڈ چانسلر نے کہا کہ تم نے صحیح بتایا۔ اب مجھے امید ہے کہ تم نیروبی میں جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض کامیابی کے ساتھ انجام دے سکوگے۔

سراڈورڈ کُک (1552-1634) برطانیہ کی مشہور قانونی شخصیت ہیں۔ ان کا نام انگریزی میں (Coke) لکھا جاتاہے۔ بظاہر عام آدمی اس کو کوک پڑھے گا۔ مگر انگریز اس کا تلفظ کُک کرتے ہیں۔ لارڈ چانسلر نے یہی جاننے کے لیے مذکورہ سوال کیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ نوجوان لارڈکُک کا صحیح تلفظ کررہا ہے تو اس نے اس کی بقیہ استعداد کا قیاس کرلیا اور اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کا تقرر کردیا۔

بعض چیزیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہے۔ مگر وہ کسی بڑی چیز کی علامت ہوتی ہیں۔ اس بناپر چھوٹی ہونے کے باوجود ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی اصول تمام معاملات میں ہے۔ خواہ وہ دنیا کا معاملہ ہو یا دین کا معاملہ۔(83 سال کی عمر میں دانیال لطیفی صاحب کا انتقال 2000 میں ہوا۔)

19 جولائی 1985

امریکی نژاد برٹش رائٹراور نقاد لُگان پیرسال اسمتھ (Logan Pearsall Smith, 1865-1946) کا قول ہے کہ دو چیزیں ہیں جن کو زندگی کا مقصد بنانا چاہیے۔ اول، اس چیز کو حاصل کرنا جس کو تم چاہتے ہو، اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھانا۔ انسانوں میں صرف انتہائی عقل مند لوگ ہی دوسری چیز کو حاصل کر پاتے ہیں:

There are two things to aim at in life: first to get what you want; after that to enjoy it. Only the wisest of mankind achieve the second.

یہ صورت حال کے عین مطابق ہے۔ بیشتر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ رات دن محنت کرکے کسی نہ کسی طرح وہ چیز حاصل کرلیتے ہیں، جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جب اس سے فائدہ اٹھانے(enjoy) کا وقت آتا ہے  تو ناکام ثابت ہو تے ہیں۔

طاقت ملنے کے بعد اس سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر غرور نہ آئے۔ دولت ملنے کے بعد اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر سرکشی کا مزاج پیدا نہ ہو۔ علم حاصل کرنے کے بعد اس سے واقعی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر برتری کا مزاج نہ آئے۔چوں کہ آدمی طاقت اور دولت اور علم کے بعد ان نفسیاتی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتا، اس لیے وہ ملی ہوئی نعمت کواپنے لیے حقیقی طورپر مفید نہیںبنا پاتا۔

20 جولائی 1985

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا(1984) کی 30 جلدیں میرے پاس ہیں۔ اس میں ایک دلچسپ چیز یہ نظر آئی کہ متعدد جگہوں پر کسی اندراج کو مٹایا گیا ہے۔مثلاً جلد 5 صفحہ 557 پر جبریل (Jibril) کا تذکرہ ہے۔ یہاں ایک کالم کا تقریباً نصف حصہ کالے رنگ سے مٹایا گیا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت جبریل کی تصویر تھی جو چھاپنے کے وقت چھاپ دی گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں (عربوں) کے اعتراض کی بنیاد پر مٹا دی گئی۔ مگر ضروری نہیں کہ تمام نسخوں میں اس کو مٹایا گیا ہو۔ عین ممکن ہے کہ صرف ان نسخوں میں مٹایاگیا ہو جو مشرقی ممالک کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس انسائیکلوپیڈیا میں اس طرح کے بہت سے صفحات ہیں۔

22 جولائی 1985

ایک زندہ اور طاقتور خداپر یقین کرنا اتنا عجیب ہے کہ ماننے والے بھی اس کو نہیں مانتے اور جاننے والے بھی اس کو نہیںجانتے۔خدا مکمل طورپر ظاہر ہونے کے باوجود مکمل طورپر چھپا ہوا ہے۔ وہ اپنی تخلیق میں مکمل طورپر ظاہر ہے مگر اپنی ذات میںوہ مکمل طورپر پوشیدہ ہے۔ براہِ راست طورپر اس کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں آخری حد تک ناممکن ہے۔ مگر بالواسطہ طورپر اس کا مشاہدہ آخری حدتک ممکن ہے۔یہی واحد وجہ ہے ،جس کی بناپر لوگ شخصیتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا ان کو دکھائی نہیں دیتا، اور شخصیتیں ان کو دکھائی دیتی ہیں۔ مگر انسان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ شخصیتوں کے تقدس کا پردہ پھاڑ کر خدا کو دیکھے۔

23 جولائی 1985

مسلم اہل علم نے اسلام اور مغربی تہذیب کے تقابل پر جو کتابیں لکھی ہیں، ان میں مشترک طورپر چند غلطیاں پائی جاتی ہیں

(1)  انھوںنے مغربی سماج کے چند واقعات کو لے کر اسے generalize کردیا ہے۔ اس طرح انھوں نے خاص کو عام بنانے کی غلطی کی ہے۔ اس قسم کی تحریروں کو پڑھ کر مسلمان خوش ہوسکتے ہیں۔ کیوںکہ انھیں یہ تسکین ملتی ہے کہ اُن کے ’’دشمن‘‘ کا سماج بہت بُرا سماج ہے۔ مگر ان تحریروں سے خود مغرب کے لوگ کوئی اچھا اثر نہیں لے سکتے۔

(2)  دوسری چیز یہ کہ ان تحریروںمیں آئڈیالوجی کا تقابل پریکٹس (عمل) سے کیاگیا ہے۔ یعنی اسلام سے تو نظریات واقدار لی گئی ہیں اور جدید سماج سے ان کا عمل۔ یہ تقابل درست نہیں۔ تقابل ہمیشہ دو برابر کی چیزوںمیں ہوتا ہے۔ یعنی تقابل یا تو آئڈیالوجی سے آئڈیالوجی کا ہونا چاہیے یا پریکٹس سے پریکٹس کا۔

اس قسم کا غیر علمی لٹریچر دعوت کے لیے کبھی مفید نہیںہوسکتا۔ وہ مسلمانوں میں جھوٹا فخر پیدا کرسکتا ہے۔ مگر وہ دعوت عام کے لیے کارآمد نہیں۔

24  جولائی 1985

 قرآن میں بہت سے پیغمبروں کا ذکر ہے۔ اس کا مقصد اہل ایمان کو ان کی زندگی سے سبق دینا ہے۔ مثلاًسلیمان علیہ السلام ایک اسرائیلی پیغمبر ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی کہ جنات کو ان کے لیے مسخر کردیا (الانبیاء، 21:81-82)۔ یہ چیز بعد کو یہود کے لیے فتنہ بن گئی۔ انھوںنے یہ سمجھا کہ حضرت سلیمان جو کچھ کرتے تھے، جادو اور عملیات کے زور پر کرتے تھے۔ چنانچہ یہود نے جادو اور عملیات میں مہارت حاصل کرنا شروع کردی۔ انھوںنے خدا کے دین کو جادو اور عملیات کا دین بنا کر رکھ دیا (البقرۃ، 2:102)۔

حضرت مسیح کا اصل کام دعوت تھا۔ دعوت کا تقاضا ہے کہ داعی یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا طریقہ اختیار کرے۔ چنانچہ حضرت مسیح نے اپنے پیروؤں کو رافت اوررحمت اور اعراض کی زبردست تاکید کی۔ بعد کو حضرت مسیح کے پیرو کار رافت ،رحمت اور اعراض کی دعوتی مصلحت کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے اس کو اصل مطلوب سمجھ لیا اور اس میں مزید مبالغہ کرنا شروع کیا۔ یہاںتک کہ اعراض دنیا برائےاخلاق و دعوت کو انھوںنے ترکِ دنیا بمعنی رہبانیت بنادیا (الحدید، 57:27)۔

اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ اپنی زندگی کا ابتدائی نصف سے زیادہ حصہ دعوت پر زور دینے میں صرف کردیا۔ اس زمانہ میں آپ نے بھی صبر اور اعراض اور یک طرفہ حسن اخلاق کی تعلیم دی۔ مگر ہجرت کے بعد قریش کی جارحیت نے آپ کو دفاع پر مجبور کیا۔ اس وقت آپ کے اوپر قتال کی آیتیں اتاری گئیں۔ مدنی زندگی کا بیشتر حصہ جارحانہ کارروائیوں کا دفاع کرنے میں گزرا۔

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید اندیشہ تھا کہ آپ کی امت بھی اس معاملہ میں فتنہ میں مبتلا ہوگی۔ جوچیز مشرکین اورکافروں کی جارحیت کے خلاف بطور دفاع فرض کی گئی تھی، اس کو مسلمان خود اپنی جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں گے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے خطبےمیں فرمایا:لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4403) ۔ یعنی میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض ، بعض کی گردن مارنے لگے۔

اس طرح کی کثیر حدیثیں ہیںجن میں مسلمانوں کو مطلق طورپر جنگ سے منع کیا گیا ہے۔ مگر خلیفہ سوم کے زمانہ ہی میں مسلمان اس فتنہ میں پڑ گئے۔ انھوںنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین انتباہ کے باوجود آپس میں لڑنا شروع کردیا اور کہا کہ یہ جہاد ہے۔ مگر یہ جہاد نہیںبلکہ بدعت تھی اور یہ بدعت آج تک مسلمانوں میں جاری ہے۔

25  جولائی 1985

کہاجاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں اس کو چار سو ہاتھیوں کا تحفہ دیا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات ) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ میں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں، اورنہ ہاتھی۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتاہے۔ ایک جگہ جہاں آج ’’جنگل‘‘ نظر آتا ہے وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہاں جب کل سورج نکلتاہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں۔زمانہ کے اس بدلتے ہوئے روپ میں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان کی گہرائیوں میں جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔

26 جولائی 1985

ایک صاحب قرآن کا درس دے رہے تھے۔درمیان میں یہ آیت آئي:يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ (5:101)۔ یعنی اے ایمان والو، ایسی باتوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو ناگوار گزریں۔

حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا:جناب، اس آیت میں لفظ اَشْیَاءَ حرف جار (عَنْ) کے بعد آیا ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق یہاں اشیاء پر زیر ہونا چاہیے تھا۔ پھر اُس پر زبر کیوں ہے۔ یعنی وہ مکسور کے بجائے مفتوح کیوں ہے۔مفسر صاحب نے فوراً جواب دیامیرے بھائی، یہی تو وہ بات ہے جس سے آیت میں پوچھنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر خود آیت جس سوال سے منع کررہی ہے وہی سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔

یہ بظاہر ایک جواب ہے۔ مگر جو لوگ عربی زبان اور عربی نحو سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی جواب نہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے، اور وہ اس کا ایک جواب دیتا ہے، اور اپنی لاعلمی سے وہ سمجھتا ہے کہ جواب ہوگیا۔ حالاں کہ جاننے والوں کے نزدیک وہ جواب نہیں ہوتا۔

27 جولائی 1985

ہنری پرین (Henri Pirenne) ایک مغربی مورخ ہے۔ وہ  1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ ہنری پرین نے باقاعدہ طورپر یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ قدیم دنیا اور جدید دنیا کے درمیان انفصال (essential break) درحقیقت عرب فتوحات کے ذریعہ پیش آیا۔

Encyclopaedia Britannica (1984) Vol. 13, p. 155

ہنری پرین نے اپنی کتاب ہسٹری آف یورپ میں لکھا ہے کہ اسلام نے کرۂ ارض کے رخ کو بدل دیا۔ قدیم روایتی نظام کا خاتمہ کردیا گیا:

It (Islam) had sufficed to change the face of the globe...the traditional order of history was overthrown.  (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46).

29 جولائی 1985

امریکی صحافی مسٹر بنجمن اسٹولبرگ(1891-1951)کا قول ہے — اکسپرٹ وہ شخص ہے جو بڑی غلطی کی اصلاح کے لیے چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کردے

An expert is a man who avoids the small errors as he sweeps on to the grand fallacy. (Benjamin Stolberg)

  بنجمن اسٹولبرگ نے یہ بات ٹکنکل اکسپرٹ کے لیے کہی ہے۔ مگریہی بات ہرمیدان عمل کے لیے صحیح ہے۔ آپ خواہ جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہوں، اور جس مقصد کی تکمیل میںبھی لگے ہوئے ہوں، آپ کو یہ اصول اختیار کرنا ہو گا—  زیادہ بڑے پہلوؤں پر نظر رکھنے کے لیے چھوٹے پہلوؤں کو نظر انداز کرنا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ وہ بیک وقت چھوٹے پہلوؤں اور بڑے پہلوؤں پر یکساں نظر رکھے۔ آدمی مجبور ہے کہ وہ ایک کی خاطر دوسرے کا نقصان گوارہ کرے۔ وہ بڑا فائدہ حاصل کرنے کی خاطر چھوٹے فائدوں کو نظر انداز کردے۔ جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں کا نقصان برادشت نہ کرے، وہ اپنی زندگی میںکسی بڑی چیز کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔

30 جولائی 1985

ایک عربی میگزین میں یہ عبارت نظر سے گزریدخل اعرابی علی بخیل فوجدہ یأکل خبزاً وعسلاً فأخفی الخبز فی حجرہ ولم یدعہ لتناول الطعام معہ. فما کان من الاعرابی الا ان تقدم الی اناء العسل وأخذ یأکل بلا خبز ۔ فقال لہ البخیلان العسل وحدہ یحرق القلب فأجابہ الأعرابینعم، ولکن قلبک لاقلبی۔یعنی ایک دیہاتی آدمی ایک بخیل کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا کہ بخیل روٹی اور شہد کھارہا ہے۔ بخیل نے روٹی کو اپنی گود میں چھپا لیا اور دیہاتی کے لیے نہیں چھوڑا کہ وہ اس کے ساتھ کھاسکے۔ دیہاتی نے یہ کیا کہ وہ شہد کے برتن کی طرف بڑھا اور اس کو روٹی کے بغیر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر بخیل نے اس سے کہا کہ خالی شہد کھانا دل کو جلاتا ہے۔ دیہاتی نے جواب دیا، ہاں وہ جلاتا ہے، مگر وہ تمھارے دل کو جلاتا ہے، نہ کہ میرے دل کو۔

ممکن ہے کہ یہ واقعہ نہ ہو بلکہ محض لطیفہ ہو، قدیم زمانہ تمثیلات کا زمانہ تھا۔ لوگ اپنی باتوں کو کہانی کے روپ میں بیان کیا کرتے تھے۔ گمان غالب یہ ہے کہ کسی شخص نے ’’بخیل‘‘ کے کردار کو نمایاں کرنے کے لیے یہ قصہ گھڑا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلا دیا۔

اخلاقی درس کی حد تک یہ بناوٹی قصے درست تھے۔ مگر اس کے بعد اپنے بڑوں کی بڑائی اور بزرگی ظاہر کرنے کے لیے طلسماتی قصے کہانیاں گھڑے جانے لگے۔ یہاں آکر یہ طریقہ سراسر غلط ہوگیا۔ کیوں کہ ان جھوٹے قصوں نے یہ تصور دیا کہ ’’بزرگ ایسے ہوتے ہیں‘‘ ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان ایسا ہوتا ہی نہیں، اور نہ کوئی بزرگ کسی قسم کے بزرگی اور کرامات کے ساتھ پیدا ہوتاہے۔ مگر فرضی تصویر لوگوں کے لیے حقیقی تصویر بن گئی۔

31 جولائی 1985

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (21:10)۔ یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہاراذکر ہے، پھر کیا تم سمجھتے نہیں۔ بعض بزرگوں کے متعلق مشہور ہے کہ انھوںنے یہ آیت پڑھی تو ان کے ذہن میں آیا کہ قرآن میں جب اس کا ذکر ہے تو ہمارا بھی ذکر ہونا چاہیے۔ چنانچہ انھوںنے قرآن میں اپنا ذکر تلاش کرنا شروع کیا، اور اپنے حسب حال کوئی آیت ڈھونڈھ نکالی۔

اسی اصول کے تحت مجھے بھی یہ خیال ہوا کہ میں قرآن میںاپنا ’’ذکر‘‘ تلاش کروں۔ تلاش کرنے کے بعد قرآن کی جس آیت پر میرا ذہن رُکا وہ یہ تھی:وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (9:102)۔ یعنی کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کرلیا ہے۔ انھوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ امید ہے کہ اللہ ان پر توجہ کرے۔ بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔

قرآن کے نزدیک ہدایت یافتہ گروہ کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ جنھوںنے واقعۃً پورے معنی میںعمل صالح کا ثبوت دیا ہو اور اپنے عمل صالح کی بنا پر وہ نجات کے مستحق قرار پائیں۔

قرآن کے مطابق دوسرے لوگ وہ ہیں، جو پورے معنوں میں عملِ صالح کا ثبوت نہ دے سکے۔ البتہ انھوں نے اپنی حیثیتِ واقعی کا اعتراف کیا ہو۔ جنھوں نے کامل شعور کے ساتھ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو جانا اور کسی تحفظ کے بغیر کھلے طورپر اللہ کے سامنے اس کا اقرار کیا۔ یہ دوسرے لوگ بھی اپنے اقرار واعتراف کی بنیاد پر اللہ کے یہاں قابل نجات قرار پائیں گے۔

میںاللہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے گروہ میں شامل کرے۔میرے پاس ’’عمل‘‘ کا سرمایہ نہیں، مگر غالباً میرے پاس ’’اعتراف‘‘ کا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا آخری حد تک اعتراف کروں۔ یہی میرا سرمایہ ہے اس کے سوا میرے پاس اور کوئی سرمایہ نہیں۔

1اگست1985

کسی شخص کا قول ہےکہ غم پیچھے کی طرف دیکھتاہے، پریشانی اِدھر اُدھر دیکھتی ہے، اور عقیدہ اوپر کی طرف دیکھتا ہے:

Sorrow looks back, worry looks around, faith looks up.

2  اگست1985

انسان کی گمراہی ہر دور میں ایک ہی رہی ہے— جوچیز خدا کی قدرت سے ہورہی ہے اس کو غیر خدا کی طرف منسوب کرنا۔ جب بھی انسان ایسا کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جس واقعہ کو دیکھ کر انسان پر خدا کی عظمت طاری ہونی چاہیے تھی، اس سے وہ غیر خدا کی عظمت میںگم ہوجاتا ہے۔

قدیم زمانہ میں انسان سورج کو پوجتاتھا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان نے سورج سے روشنی اور حرارت نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ یہ خود سورج ہے جو اپنی طاقت سے روشنی اور حرارت نکال رہا ہے۔ آدمی اگر روشنی اور حرارت کو خدا کی قدرت سے نکلنے والی چیز سمجھتا تو وہ خدا کے آگے جھک جاتا۔ مگر جب اس نے روشنی اور حرارت کو خود سورج سے نکلنے والی چیز سمجھا تو وہ سورج کے آگے جھک گیا۔

اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے معجزے دکھائے۔ یہ معجزے خدا کی قدرت سے تھے مگر بعد کے مسیحیوں نے اس کو خود حضرت مسیح کا اپنا کرشمہ سمجھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے جذبات سب سے زیادہ حضرت مسیح سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے حضرت مسیح کو خدا سمجھ کر ان کی پرستش شروع کردی۔

یہی معاملہ ایک اور شکل میں پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو فتوحات ہوئیں، وہ پوری انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ انوکھا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ بھی یقینی طورپر خدائی قدرت سے پیش آیا، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے(التوبۃ، 9:25-26)۔ مگر بعد کے مسلمانوں نے اس کو خود اپنے پیغمبر کا کرشمہ سمجھ لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد کے زمانہ کے مسلمانوں میںخدا کی بڑائی کا احساس گھٹ گیا اور اپنے پیغمبر کی بڑائی کا احساس ہر چیز سے زیادہ چھاگیا۔ پچھلے ہزار سال کے اندر مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کی عظمت پر بےشمار کتابیں نظم ونثر میں لکھی ہیں، مگر خدا کی عظمت پر ایک ہزار سال کے اندر وہ ایک بھی قابل ذکر کتاب تیار نہ کرسکے۔

3  اگست 1985

فرنچ رائٹر اور فلاسفر ژاں پال سارترے (Jean-Paul Sartre)  1905 میں پیدا ہوا اور 1980 میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا ایک قول ہےکہ تشدد صرف ان لوگوں کے لیے موزوں ہے، جو کھونے کے لیے کچھ نہ رکھتے ہوں:

Violence suits those who have nothing to lose.

یہ ایک نہایت حکیمانہ بات ہے۔ جب بھی ایک شخص تشدد کرتا ہے تو لازماً اس کونقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حتی کہ اس وقت بھی جب کہ اس نے اپنے حریف کے مقابلہ میں لڑائی جیت لی ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص پر تشدد کیاگیا ہے ،وہ کوئی پتھر نہیں ہے، بلکہ انسان ہے، اور انسان ہمیشہ ردِّ عمل(reaction) ظاہر کرتا ہے۔ زیر ِتشدد آدمی تشدد کے جواب میں وہ سب کچھ کرتا ہے، جو اس کے بس میںہو۔ اگر وہ طاقت ور ہے تو وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں براہ راست وار کرتاہے، اور اگر وہ طاقت ور نہیں ہے تب بھی کمینہ پن کا راستہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا ہے۔ طاقت ور آدمی جو کچھ کھلے طورپر کرسکتاہے وہی کمزور آدمی بھی کرسکتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرتا ہے چھپے طور پر کرتا ہے۔

ایسی حالت میںتشدد صرف اس شخص کے لیے مفید ہے، جس کے پاس پھوس کا چھپر بھی نہ ہو، جس میںاس کا حریف رات کے وقت آکر آگ لگاسکے۔ اس کی جیب میں چند روپیے بھی نہ ہوں، جس کو کوئی اس سے چھین سکے۔زندگی کا اصل راز یہ ہے کہ آدمی فریق ثانی سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنی تعمیر کرے۔ حتی کہ فریق ثانی شرارت کرے تب بھی وہ اس کو نظر انداز کرے۔ تشدد کے نقصانات سے وہی شخص بچ سکتا ہے، جو اعراض کی حکمت کو جانتا ہو۔

5  اگست 1985

جی ایم ٹریولیان (George Macaulay Trevelyan, 1876-1962) برٹش ہسٹورین  ہے۔ اس کا ایک قول ہےکہ تعلیم نے ایسے بہت سے لوگ پیدا کر دیے ہیں جو پڑھ سکیں۔ مگر تعلیم ایسے لوگ پیدا نہ کرسکی، جو یہ فرق کرسکیں کہ کیا چیز پڑھنے کے قابل ہے ،اور کیا چیز پڑھنے کے قابل نہیں:

Education has produced a vast population able to read, but unable to distinguish what is worth reading.

تعلیم ایک وسیلہ ہے، جو آدمی کو پڑھنے کے قابل بناتا ہے۔ مگر آدمی کیا چیز پڑھے، اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے۔ اگر اس کے مزاج میں سنجیدگی ہے تو وہ سنجیدہ لٹریچر پڑھے گا اور اگر اس کے مزاج میں سطحیت ہے تو وہ سطحی چیزوں کو پڑھ کر اپنے ذوق کی تسکین حاصل کرے گا۔

انسان کو تعلیم یافتہ بنانا اصل کام نہیں، انسان کو انسان بنانا اصل کام ہے۔ تعلیم یقیناً ایک ذریعہ ہے، مگر تعلیم بجائے خود مقصد نہیں۔

6  اگست 1985

میری زندگی کے تجربات میںسے ایک تجربہ یہ ہے کہ لوگوں کی ڈگریوں اور لوگوں کی معلومات میں تو اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ان کے فکر وشعور میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ میں جب کسی آدمی سے لمبے عرصہ کے بعد ملتا ہوں تو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت میںاس نے کئی مزید ڈگریاں لے لی ہیں۔ مگر جب اس سے گفتگو کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکر وشعور کے اعتبار سے اب بھی وہ اسی مقام پر ہے جہاں وہ پہلے تھا۔

اس موضوع پر میں نے بہت سوچا کہ آخر شعوری ارتقا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ بالآخر میری سمجھ میں آیا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اپنے خلاف نہ سوچنا ہے، جس کو دینی اصطلاح میں احتساب کہاگیا ہے۔ تقریباً ہر ایک کا حال میں یہ پاتا ہوں کہ جیسے ہی کوئی ایسی بات کہی گئی ہو، جو اس کے اپنے خلاف ہو تو وہ فوراً ناراض ہوجاتا ہے۔ جو بات اپنے خلاف ہو،اس پر وہ معتدل انداز سے سوچ نہیں پاتا۔ میرے اندر خدا کے فضل سے بچپن سے یہ صلاحیت ہے کہ میں اپنے خلاف سوچتا ہوں۔ میرے خلاف کوئی بات کہی جائے تو میں کبھی اس پر برہم نہیں ہوتا۔ اور اگر بالفرض کبھی میرے اندر برہمی پیدا ہوجائے تو چند منٹ یا چند گھنٹوں کے اندر میں دوبارہ معتدل ہو کر اس پر غور کرنے لگتاہوں۔

مگر عجیب بات ہے کہ اپنی پوری زندگی میں مجھے کوئی ایسا شخص یاد نہیں جو اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہر آدمی جو مجھے ملا وہ اپنے موافق سوچنے کا ماہر ملا۔ اقبال کا مرد مومن ان کی تشریح کے مطابق سلف تھنکر ہوتا ہے۔ مگر میںاس کو سطحی بات سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک زیادہ گہری بات یہ ہے کہ آدمی اینٹی سلف تھنکر (anti-self-thinker)ہو۔

7  اگست 1985

آدمی اپنے بیٹے کی کامیابی پر حسد نہیں کرتا۔ مگر دوسرا کوئی شخص کامیاب ہو تو اس کو دیکھ کر وہ حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹے کی کامیابی کو وہ اپنی کامیابی سمجھتا ہے، اور دوسرے شخص کی کامیابی کو غیر کی کامیابی۔

8  اگست 1985

اولیور وینڈل ہومز (Oliver Wendell Holmes, 1809-1894)نے کہا ہے کہ نوجوان شخص عموم کو دیکھتا ہے، اور عمر رسیدہ شخص استثنا کو

The young man knows the rules, but the old man knows the exceptions.

زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اتفاقی رکاوٹ سامنے آکر ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو صرف عام حالات پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ غیر متوقع امکانات کو ذہن میں رکھ کر اپنا منصوبہ بنائے۔

9  اگست 1985

آئرش شاعرآسکر وائلڈ (Oscar Wilde, 1854-1900) نے کہا ہے کہ انسان ایک عقل مند جانور ہے جو ہمیشہ اس وقت برہم ہوجاتا ہے جب کہ اس کو عقل کے مطابق عمل کرنے کے لیے کہا جائے

Man is a rational animal who always loses his temper when he is called upon to act in accordance with dictates of reason.

کیسا عجیب ہے یہ تضاد جو انسان کی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا یہ حال ہے کہ دوسروں کے خلاف عقل کو استعمال کرنے میں وہ نہایت ہوشیار ہے، لیکن اگر خود اپنے خلاف عقل کو استعمال کرنا ہو تو وہ ایسا بن جائے گا، جیسے کہ اس کے پاس عقل ہی نہیں، جو کسی بات کو سمجھے، اور کسی معاملہ کی گہرائی تک اتر سکے۔

10  اگست 1985

آدمی دوسروں کے بیٹے کے بارے میں حسد کے ذہن سے سوچتاہے، اور خود اپنے بیٹے کے بارے میں خیر خواہی کے ذہن سے۔ایک شخص کی زندگی برباد ہوگئی ہو تو دوسروں کے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ جس طرح میں برباد ہوا ہوں وہ بھی برباد ہوجائیں۔ مگر خود اپنی اولاد کے بارے میں اس کا ذہن اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کے بارے میں وہ سوچتا ہے  — اگر چہ میری زندگی برباد ہوگئی مگر میری اولاد کی زندگی برباد نہ ہونے پائے ۔

12  اگست 1985

بے آمیز حق اس دنیا میں سب سے زیادہ اجنبی چیز ہے۔ ہر دوسری چیز کے گرد انسانوں کی بھیڑ جمع ہوسکتی ہے۔ مگر بے آمیز حق کے گرد چند انسانوں کو اکھٹا کرنا بھی انتہائی حد تک دشوار ہے۔ پیغمبروں کی تاریخ اس کا زندہ ثبوت ہے۔پیغمبر آخر الزماں کو چھوڑ کر تمام معلوم پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو صرف ایسے ہی کچھ افراد مل سکے جو خونی رشتہ کی بنا پر ان سے نفسیاتی تعلق رکھتے تھے۔ خونی رشتہ سے باہر کوئی شخص انھیں نہیںملا جو حقیقی معنوں میں ان کا ساتھی بن سکے۔

حضرت ابراہیم کا ساتھ دینے والے صرف ان کے بھتیجےحضرت لوط اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل تھے۔ حضرت لوط کا ساتھ آخر وقت میں صرف ان کی بیٹیوں نے دیا۔ حضرت موسی کے سچے ساتھی صرف حضرت ہارون ثابت ہوئے جو ان کے بھائی تھے۔ حضرت مسیح کو ان کی ماں کے سوا کوئی دوسرا نہ مل سکا۔ دوسرے لوگ جو ملے تھے وہ سب آخر وقت میں انھیں چھوڑ کر بھاگ گئے، وغیرہ۔

پیغمبروں کی تاریخ میں اس اعتبار سے صرف پیغمبر آخر الزماں کا استثنا(exception) ہے۔ ان کو غیر رشتہ داروںمیں بھی ایسے ساتھی ملے ،جو واقعی ساتھی تھے۔ جو ساتھ چھوڑنے کے تمام ممکن واقعات پیش آنے کے باوجود آخر وقت تک ان کے ساتھی بنے رہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ براہِ راست خدا کے تصرف کے تحت ہوا۔

ہمارے سیرت نگار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ بیان کرتے ہیں کہ درخت اور پتھر ان کے ساتھ چلنے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ انسان آپ کے ساتھ چلنے لگے تھے، اور یہ معجزہ براہِ راست خدائی نصرت کے تحت پیش آیا جیسا کہ قرآن میںآیا ہے: وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ (49:7)۔  یعنی اورلیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب بنا دیا، اور کفر اور فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرانہ سچائی ہمیشہ مجرد سچائی ہوتی ہے۔ تاریخ سے کٹ کر اور ماحول سے اٹھ کر ہی آدمی پیغمبرانہ سچائی کو پہچان سکتا ہے، اور بدقسمتی سے ایسے لوگ معلوم انسانی تاریخ کے مطابق شاید پیدا ہی نہیں ہوئے۔

13  اگست 1985

حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اور یہ قلب ہے:أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةًإِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ)صحیح البخاری، حدیث نمبر 52)۔

ا س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی اصلاح کا دارومدار ’’قلب ‘‘ کی اصلاح پر ہے۔ یہاںقلب کا لفظ عقل کے معنی میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر قسم کی تبدیلیوں کا رازاندرونی تبدیلی میں ہے، یعنی سوچ و فکر کی تبدیلی، نہ کہ بیرونی تبدیلی۔

اس حدیث کی روشنی میں موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں غیر فطری قرار پاتی ہیں۔ کیوں کہ ان تحریکوں کا نشانہ کچھ خارجی چیزوں کی تبدیلیاں تھی، نہ کہ اندرونی تبدیلی۔ کسی کا نشانہ تبدیلی حکومت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلی جغرافیہ، کسی کا نشانہ تبدیلی قیادت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلیٔ قانون۔ موجودہ زمانہ کی وہ تمام ہنگامہ خیز تحریکیں جن پر مسلمان فخر کرتے ہیں، وہ سب اسی قسم کی خارجی تبدیلیوں کا نعرہ لے کر اٹھیں۔ ان میںسے کوئی تحریک ایسی نہیں جو تبدیلیٔ قلب (یا تبدیلیٔ انسان) کے منصوبہ کے تحت اٹھائی گئی ہو۔

خارجی تبدیلی کو نشانہ بنا کر جو انقلاب لایا جائے اس کا انجام ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— ایک برائی کو ہٹا کر دوسری شدید تر برائی لے آنا۔ کسی شخص نے نہایت صحیح کہا ہے:

A revolution is a successful effort to replace a bad government with a worse one.

انقلاب اس بات کی ایک کامیاب کوشش ہے کہ ایک بری حکومت سے چھٹکارا پاکر اس سے زیادہ بری حکومت قائم کی جائے۔

14  اگست 1985

شاہ ولی اللہ اور ان کے پیروؤں نے کہا کہ سکھ اور مرہٹہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ سکھ اور مرہٹہ راستہ سے ہٹا دئے گئے۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں باقی رہا۔شاہ عبد العزیزاور ان کے پیروؤں نے کہا کہ انگریز سے اسلام کو خطرہ ہے۔ انگریز کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا جو مسئلہ تھا وہ حل نہ ہوا۔

محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیڈروں نے کہا کہ ہندو فرقہ سے اسلام کوخطرہ ہے۔ ہندو سے کٹ کر مسلمانوں کی علیحدہ ریاست قائم ہوگئی۔ مگر اس کے باوجود اسلام مسائل سے گھرا رہا۔

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کے ہم خیال لوگوں نے کہا کہ ایوب اور بھٹو سے اسلام کو خطرہ ہے۔ ایوب اور بھٹو کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔ مولانا علی میاں اوران کے ماننے والوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کےشاہ بانو کیس کے فیصلہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ پارلیمنٹ نے مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے آزاد کردیا۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں گھرا رہا۔

یہ مسلمانان ہند کی تقریباً چار سو سال کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ ہر وہ طاقت جس کو مسلمانوں نے اسلام کا دشمن قرار دیا وہ راستے سے ہٹائی جاتی رہی۔ مگر اسلام اور مسلمان بدستور خطرات میں گھرے رہے۔ ہندستان میں بھی، پاکستان میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی۔ یہ طویل تجربہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ مسلم قائدین کی نشان دہی غلط تھی۔ مگر مسلمانوں کی بے شعوری کا یہ حال ہے کہ ہر اگلا قائد پچھلے قائدین کا صرف مقلد بنا ہوا ہے۔ ماضی کی نادانیوں نے مسلمانوں کو کوئی سبق نہیں دیا۔

15  اگست 1985

کہاجاتا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے ایک بار امام شافعی سے پوچھا  —خدا کی کتاب کے بارے میں آپ کا علم کیا ہے (ما علمك بكتاب الله)۔امام شافعی نے جواب دیا کہ علوم قرآن کی بہت سی قسمیں ہیں۔ آپ کی مراد کس علم سے ہے۔ کیا امثال و اخبار سے، محکمات سے، متشابہات سے، تقدیم و تاخیر سے، ناسخ ومنسوخ سے، باعتبار مکان مکی و مدنی سے یا باعتبار زمان لیلی و نہاری (رات یا دن) سے، صیفی وشتائی (گرمی یا سردی )سے، باعتبار قیام اور سفر و حضر سے، اس کے اعراب اور حروف و الفاظ سے۔ اس طرح امام شافعی نے قرآن کے 73  علوم گنا دیے۔

ہارون رشید نے یہ سن کر کہا کہ آپ نے قرآن کے بہت کافی علوم کو جمع کرلیا ہے (لقد أوعيت من القرآن علماً عظيماً)۔ مرآة الجنان وعبرة اليقظان لليافعي، جلد2، صفحہ17

بظاہر یہ بڑے کمال کی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحابہ کرام قرآن کے ان ’’73 علوم“ سے واقف نہ تھے تو یہ مہارت اسلام کے بجائے محض ایک فن نظر آنے لگتی ہے۔ کیوں کہ اسلام اگر ان علوم کا نام ہوتا تو صحابہ کرام ضروران علوم کے ماہر ہوتے۔

16  اگست 1985

امریکن رائٹر رالف والڈو ایمرسن(Ralph Waldo Emerson, 1803-1882) نے لکھا ہے کہ تم ایک اچھا چوہے دان بناؤ اور دنیا خود ہی چل کر تمھارے دروازے پر آجائے گی:

Build a better mousetrap and the world would beat a path to your door.

لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ اہم چیز معیار (quality) ہے۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ جو چیز وہ بازار سے خریدے وہ اعلیٰ معیار کی ہو۔ استعمال کے وقت ہر اعتبار سے وہ بہترین ثابت ہو۔

لوگوں کا یہ مزاج ہی کسی آدمی کے لیے موجودہ دنیا میں ترقی کا سب سے بڑا زینہ ہے۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو دنیا میں عزت اور ترقی کا مقام حاصل ہو اس کو صرف ایک کام کرنا چاہیے۔ وہ جو کام بھی کرے اعلیٰ معیار پر کرے اس کے بعد دنیا خود اسے اس کا مطلوبہ مقام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔

دہلی میںاس اصول کی ایک زندہ مثال خلیق احمد ٹونکی (پیدائش 1932) ہیں۔ انھوںنے کتابت کے کام میںایک طویل عمر صرف کردی۔ یہاں تک کہ وہ دہلی کے سب سے اچھے کاتب بن گئے۔ اب یہ حال ہے کہ انھیں کام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے کاتبوں کے مقابلہ میں وہ چوگنا اجرت لیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حال ہے کہ ان کے یہاں کام کرانے والوںکی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ انھیں کام کی تلاش میں کہیں جانا نہیں پڑتا۔ کام خود ان کو تلاش کرکے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے۔

میں نے اپنے تجربہ میںیہ پایا ہے کہ خلیق ٹونکی صاحب انتہائی معیار پسند آدمی ہیں۔ وہ جو بھی لکھتے ہیں اس کو آخری حد تک بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا کام۔ کم پیسہ والا ہو یا زیادہ پیسے والا۔ اپنے اس ذوق کی وجہ سے ماضی میں انھوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے مگر انھیں نقصانات کی وجہ سے انھیں یہ موقع ملا کہ وہ ہندستان کے نمبر ایک کاتب بن گئے۔

17 اگست 1985

کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو فخر کی نفسیات کو تسکین دیں۔ دوسری وہ جو نصیحت کے جذبات کو ابھاریں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بے شمار کتابیں لکھی اور چھاپی ہیں۔ مگر یہ کتابیں زیادہ تر پہلے خانہ میں جاتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسلمانوں کے فخر کے جذبات کو تسکین دیتی ہیں۔ ان سے یہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ آدمی کے اندر نصیحت کی فکر ابھرے، اس کے دل میں خوداحتسابی کا جذبہ بیدار ہو۔

موجودہ زمانہ میں لکھی جانے والی کتابوں کوجب ایک مسلمان پڑھتا ہے تو کوئی کتاب اس کے ذہن میں سیاسی قصیدہ بن جاتی ہے اور کوئی کتاب فضائلی قصیدہ۔ اس قسم کی باتیں آدمی کے اندر پر فخر اہتزاز تو ضرور پیدا کرتی ہیں اور بعض اوقات ان کے زیر اثر وہ بعض ظاہری عمل بھی کرنے لگتا ہے مگر اس کی کوئی گہری بنیاد نہیںہوتی۔ ایسے قصائد اس کے دل کو نہیں تڑپاتے، وہ اس کے طرز فکر کو نہیں بدلتے، وہ اس کی زندگی میںانقلاب پیدا نہیں کرتے۔

19 اگست 1985

کچھ عباسی خلفا، معتزلی متکلمین کے اثر سے، قرآن کو مخلوق کہتے تھے۔ چنانچہ جولوگ قرآن کو غیرمخلوق کہتے ان کو انھوں نے سخت سزائیں دیں۔ مثلا ًامام احمد بن حنبل (164-241ھ) وغیرہ۔

اس فتنہ کو ختم کرنے میںجن اسباب کا دخل ہے، ان میں بعض لطائف بھی شمار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ فتنہ خلیفہ واثق کے زمانہ میں ختم ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ خلیفہ واثق عباسی کے زمانہ میں ایک ظریف شخص تھا۔ وہ دربار میں لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا۔ ایک روز مذکورہ ظریف دربار میں آیا اور سلام کے بعد سنجیدگی کے ساتھ کہا — اے امیر المومنین، قرآن کی موت پر اللہ آپ کو بڑا اجر دے ( يا أمير المؤمنين، أعظم الله أجرك في القرآن)۔

خلیفہ نے حیران ہو کر کہا کہ تمھارا برا ہو، قرآن پر بھی کہیں موت آتی ہے (ويلك،القرآن يموت)۔ ظریف نے دوبارہ سادگی کے ساتھ جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین ہر مخلوق مرے گی ( يا أمير المؤمنين، كل مخلوق يموت)۔

اس کے بعد ظریف نے مزید کہا کہ مجھے بڑی فکر اس بات کی ہے کہ قرآن کی موت پر مسلمانوں کی تراویح کا کیا ہوگا۔ خلیفہ واثق اس کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ اس نے کہا کہ ٹھہر، خدا تجھے ہلاک کرے ( قاتلك الله، أمسك) الطبقات السنية في تراجم الحنفية،صفحہ 90۔

تا ہم یہ لطیفہ خلیفہ واثق پر بہت اثر انداز ہوا۔ وہ سابق خلفا کی طرح اس معاملہ میں زیادہ شدید نہ تھا۔ اب اس کا باقی ماندہ جوش بھی ختم ہوگیا اور خلیفہ کے ٹھنڈا پڑنے سے سارے ملک میں یہ مسئلہ ختم ہوگیا۔ کبھی ایک لطیفہ سے وہ کام ہوجاتا ہے، جو دلائل سے نہ ہوسکا تھا۔

20  اگست 1985

دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ ہے دوسرے کے خلاف سوچنا، اور دنیا میں جو چیز سب سے کم ہے، وہ ہے اپنے خلاف سوچنا۔ دوسرے کے خلاف رائے زنی کرنے کے لیے ہر آدمی ذہانت کی چوٹی پر نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس الفاظ کا اتنا بڑا بھنڈار ہے جو کبھی ختم نہ ہو۔

مگر جب معاملہ اپنے خلاف سوچنے کا ہو تو وہی آدمی ایسا بن جاتاہے جیسے کہ اس کے اندر کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جوبات اپنے خلاف ہو، جس میں خود اپنی شخصیت زد میں آرہی ہو، اس کو خواہ کتنا ہی طاقت ور دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا، اور نہ اس کو ماننے کے لیے تیار ہوتاہے۔

21 اگست1985

چند آدمیوں سے اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ دین کی حقیقت کیا ہے۔ میںنے کہا کہ دین کی اصل حقیقت اپنے آپ کو خدا کے آگے سرنڈر کرنا ہے۔ یہی دین کا اول بھی ہے اور یہی دین کا آخر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے جس کا سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ انا (ego) کا جذبہ ہے۔ انسان کی انا اپنی نوعیت کے اعتبار سے خدائی انا کی ہم سطح ہے۔ مگر دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ انسان، بلا تشبیہ، ایک خدا ہے۔ مگر وہ ایک ایسا خدا ہے، جو ذاتی اختیار سے مکمل طورپر محروم ہو۔ اس کے تمام اختیارات خدا کی طرف سے عطیہ ہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا امتحان ہو رہا ہے۔ گویا کہ مجازی خدا کو حقیقی خدا کا اعتراف کرنا ہے۔ یہ بلا شبہ مشکل ترین کام ہے مگر اسی مشکل ترین کام میںانسان کی نجات کا راز چھپا ہوا ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا خود سامنے نہیں آتا۔ اس لیے مذکورہ اعتراف براہِ راست خدا کے سامنے نہیں ہوتا، یہ اعتراف عملاً ایک انسان کے سامنے ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان دلیلِ حق کے ساتھ کھڑا ہو تو انسان (یا اس دلیل حق) کی حیثیت مخاطبین کے لیے خدا کے نمائندہ کی حیثیت ہوجاتی ہے۔ اس وقت جو شخص جھک گیا، وہ خدا کے سامنے جھکا۔ اس وقت جو شخص نہیں جھکا، اس نے خدا کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔

22 اگست 1985

عربی کا ایک مقولہ ہے: إِذَا تَكَلَّمْتُ بِالكَلِمَةِ مَلَكَتْنِي وإذَا لَمْ أتَكَلَّمُ بِهَا مَلَكْتُهَا (الدر الفريد وبيت القصيد للمستعصمي،جلد 6، صفحہ 65)۔ یعنی جب میںنےایک بات کہہ دی تو وہ میرے اوپر اختیار حاصل کرلیتی ہے اور اگر میں بات نہ کہوں تو میں اس کے اوپراختیار رکھتا ہوں۔

شیخ سعدی نے یہی بات کسی قدر مختلف انداز میں اس طرح کہی ہے:

تامرد سخن نہ گفتہ باشد ،عیب و ہنرش نہفتہ باشد

آدمی جب تک بات نہ کہے تو اس کا عیب و ہنر چھپا رہتا ہے

اسی بات کو انگریزی میں کسی نے اس طرح کہا ہےکہ ہم اپنے نہ کہے ہوئے الفاظ کے آقا ہیں، اور ہم ان الفاظ کے غلام ہیں جو ہم اپنی زبان سے کہہ دیں:

We are masters of our unsaid words. And slaves to those we let slip out.

مختلف زبانوں میں اس طرح کے مشابہ اقوال اس بات کا ایک مظاہرہ ہیں کہ تمام انسان حقیقۃً ایک ڈھنگ پر سوچتے ہیں۔ تمام حقیقتیں آفاقی حقیقتیں ہیں۔ فطرت کی سطح پر سب کا انداز فکر ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شخص اس کو ایک زبان میں بیان کرتا ہے اور کوئی شخص دوسری زبان میں۔

23  اگست 1985

حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ایک دعا عربی ماہ نامہ العربی میں پڑھی۔ وہ دعا یہ ہے:اللَّهُمَّ إِنِّي أَطَعْتُكَ فِي أَحَبِّ الأَشْيَاءِ إِلَيْكَ، وَهُوَ التَّوْحِيدُ، وَلَمْ أَعْصِكَ فِي أَبْغَضِ الأَشْيَاءِ إِلَيْكَ وَهُوَ الْكُفْرُ، فَاغْفِرْ لِي مَا بَيْنَهُمَا(الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار، صفحہ 198)۔ یعنی خدایا، میںنے تیری سب سے زیادہ محبوب چیز میں تیری اطاعت کی ہے، اور وہ توحید ہے۔ اور تیری سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز میں تیری نافرمانی نہیں کی اور وہ کفر ہے۔ پس ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس میں تومجھ کو بخش دے۔

24  اگست 1985

’’اقبال کی نظری و عملی شعریت“ ایک مختصر کتاب ہے جس کے مصنف پروفیسر مسعود حسین خاں (پیدائش 1919) ہیں۔ انھوںنے یہ کتاب سری نگر (کشمیر) میں اپنے قیام کے دوران مرتب کی ہے، اور مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے اس کو شائع کیا ہے۔کتاب کے آغاز میں ایک دیباچہ ’’حرفے چند“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں پروفیسر موصوف لکھتے ہیں

’’ڈل جھیل کے کنارے نسیم باغ کے چناروں کے سایہ تلے مجھے خدا نہیں تو کم از کم اقبال کو بے نقاب دیکھنے کا موقع ملا‘‘۔

یہ بات جو ایک ادیب نے بے تکلف لکھ دی، یہی ہمارے علما تک کا حال ہے۔ قدرت کی نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، جو اس لیے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر خدا کے بندے خدا کو پائیں۔ مگر نشانیوں کے ہجوم میں بھی کسی کو خدا دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ ’’اقبال“ کو ہر شخص دیکھ لیتا ہے۔ خدا کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ مگر انسانی شخصیتیں لوگوں کو خوب نظر آتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہر مجلس اور ہر اجتماع میں انسانی شخصیتوں کے چرچے ہیں۔ مگر اُس مجلس اور اس اجتماع سے خدا کی زمین خالی ہے، جہاں واقعی معنوں میں خدا کی یاد کی جائے۔ جہاں لوگ اسی طرح خدا کے کمالات سے سرشار ہو کر خداکا تذکرہ کریں، جس طرح وہ انسانوں کے کمالات سے سرشار ہو کر ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔

26  اگست 1985

بہت سے لوگوں سے میں نے پوچھاکہ آپ کی زندگی کی خاص دریافت کیا ہے۔ یہ سوال میںنے زیادہ تر ان لوگوں سے پوچھے جو صاحب علم تھے اور جنھوں نے زندگی کا لمبا تجربہ اٹھایا تھا۔مگر عجیب بات ہے کہ اکثر لوگوں نے میرے سوال کا جواب اس انداز میں دیا جیسے کہ ان کی کوئی دریافت ہی نہ ہو، جیسے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی نئی چیز پائی ہی نہ ہو۔

اس کا سبب کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر لوگ روایتی طریقے میں جیتے ہیں۔ جو کچھ دوسرے لوگ کررہے ہیں، وہی وہ بھی کرنے لگتے ہیں، اور اگر کوئی شخص دوسرے کے مقابلہ میں اپنا راستہ بدلتا ہے تو محض ظاہری اور جزئی معنوں میں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو کوئی نئی دریافت کیوں کر ہوسکتی ہے۔

27  اگست 1985

اسلامی اصطلاح میں ہجرت کی دوقسمیں ہیں۔ ایک، داخلی ہجرت (الہجرۃ الداخلیۃ) دوسری، خارجی ہجرت (الہجرۃ الخارجیۃ)۔ داخلی ہجرت بڑی ہجرت (الہجرۃ الکبریٰ) ہے، اور خا رجی ہجرت چھوٹی ہجرت (الہجرۃ الصغریٰ) ہے۔

داخلی ہجرت کو مختلف احادیثِ رسول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:المُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6484)۔ یعنی مہاجر وہ ہے، جو اس کو  چھوڑ دے جس سے خدا نے منع کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ایک بار پوچھا گیا:أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَأَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ. (مسند احمد، حدیث نمبر 19435)۔ یعنی سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟ آپ نے جواب دیایہ کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔

یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔داخلی ہجرت اور داخلی جہاد کو ایک حدیثِ رسول میںان الفاظ بیان کیا گیا ہے:وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذَّنُوبَ، وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23967)۔ یعنی مہاجر وہ ہےجو غلطیوں اور گناہوںکو ترک کردے، اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے لڑے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر داخلی جہاد کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ ان میں سےبعض روایات درج ذیل ہیں:

المُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ (جامع الترمذی، حدیث نمبر1621)۔ یعنی مجاہد وہ ہے، جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔

الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ لِلَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23951)۔ یعنی مجاہد وہ ہے، جو اللہ کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس آئے۔ یہ ایک مہم تھی جس میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی۔ واپسی کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔  روایت کے الفاظ یہ ہیں:قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِ . قَالُوا:وَمَا الْجِهَادُ الأَكْبَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ (تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی، جلد 13، صفحہ 498۔ البيهقي، الزهد الكبير، حديث نمبر 373)۔ تم لوگ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہو۔لوگوں نے کہاجہاد اکبر کیا ہے، اے خدا کے رسول، آپ نے کہابندے کا اپنے نفس سے جہاد کرنا— موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ ہر آدمی ’’چھوٹی ہجرت“ اور ’’چھوٹے جہاد“ کو جاننے کاماہر بنا ہوا ہے۔ مگر بڑی ہجرت اور بڑے جہاد کی کسی کو خبر نہیں۔

28  اگست 1985

سائنس کی تاریخ میں اکثر بڑی دریافتیں اتفاق (chance) کے ذریعہ پیش آئی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے اس کے لیے ایک خاص لفظ وضع کیا ہے، جس کو سرینڈیپٹی (serendipity) کہا  جاتا ہے۔ یہ لفظ سرندیپ کی ایک کہانی سے لیاگیا ہے۔ بہت سے لوگ سائنسی دریافتوں کو خوش گوار واقعات (happy accidents) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکسرے (X-rays) کی دریافت اتفاقی طورپر ہوئی۔

تاہم یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اتفاق بذات خود دریافت تک پہنچاتا ہے۔ ہندستانی سائنس داں سی وی رمن (Chandrasekhara Venkata Raman, 1888-1970)نے صحیح کہا  — ایسا اتفاق صرف سائنس داں کو پیش آتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو باتوں کو جانتا ہو اور وہ تحقیق میں لگا ہوا ہو، وہی بوقت اتفاق کسی بات کو پکڑ سکتا ہے۔ اسی بات کو فرنچ سائنس داںپاسچر (Louis Pasteur, 1822-1895) نے ان الفاظ میں کہا تھا  —مشاہدات کے میدان میں اتفاق صرف تیار ذہن کے لیے کار آمد ہوتا ہے:

In the field of observation, chance favours only the prepared mind.

اکسرے کا موجد رانٹجن (Wilhelm Conrad Röntgen, 1845-1923) قرار پایا۔ حالاں کہ اس سے پہلے یہ کروکس (William Crookes, 1823-1919) کے مشاہدہ میں آئی تھی۔ مگر اس نے اس کو بے معنی (nonsense) قرار دے کر نظر انداز کردیا، وغیرہ۔

نئی چیز دریافت کرنے کے لیے سب سے اہم چیزیں دو ہیں۔ ایک، تجسس (curiosity)، دوسرے یہ کہ آدمی وہ ضروری معلومات رکھتا ہو جس کے بعد وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے وابستہ (link) کرسکے۔

29  اگست1985

انگریزشاعر اور ڈراما نگار ٹامس شیڈول (Thomas Shadwell, 1642-1692)کا قول ہے کہ بے وقوف کی جلد بازی دنیا میں سب سے زیادہ سست رفتار چیز ہے:

The haste of a fool is the slowest thing in the world.

31 اگست 1985

آج کل کے لوگوں کے حالات کو دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہیں جو یہ سوچ کر لکھے یا بولے کہ رضائے خداوندی کیا ہے۔ ہر ایک بس یہ سوچ کر لکھتاہے اور بولتا ہے کہ رضائے قوم کیا ہے، رضائے مفاد کیا ہے، رضائے مصلحت کیا ہے، وغیرہ۔

31  اگست 1985

ایک مفکر کا قول نظر سے گزرا کہ ’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں سے ہل غائب ہوجاتے ہیں‘‘۔ یہ نہایت درست بات ہے۔ اور پوری تاریخ اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ جنگ اور تعمیر دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتا۔ سچے قائد کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگ اور ٹکراؤ سے آخری حد تک اعراض کرے۔ تاکہ اس کا ’’لوہا“ تلوار بننے میں ضائع نہ ہو، بلکہ وہ ہل بنانے کے کام میںآ سکے۔

2 ستمبر 1985

ایک صاحب ایک مسلم قائد کی عظمت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ انھوں نے قائد موصوف کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے پر جوش طور پر کہاوہ سوبار غلطی کرسکتے تھے مگر وہ ایک بار بھی کسی کے ہاتھ بک نہیں سکتے تھے‘‘۔میں نے کہا کہ ’’سو بار“ غلطی کرنا خود بھی بکنے ہی کی ایک صورت ہے۔  یہ خود اپنے ہاتھ بکنا ہے، یہ اپنے نفس کے ہاتھ فروخت ہونا ہے۔

جب بھی آدمی کوئی غلط بات کہتا ہے یا کوئی غلط اقدام کرتا ہے تو بہت جلد مختلف طریقوں سے اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اگر آدمی اپنے نفس کے ہاتھ بکا ہوا نہ ہو تو وہ اپنی غلطی کا علی الاعلان اعتراف کرے گا۔ حتی کہ اگروہ قائد ہوتے ہوئے بار بار غلطی کیے چلا جارہا ہے تو وہ اعلان کردے گا کہ میں قیادت کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ میری فہم وبصیرت اس سے کم ہے کہ میں قوم کی قیادت کرسکوں۔ اس لیے میں قیادت کے کام سے مستعفی ہو رہا ہوں۔

کوئی شخص غلطی پر غلطی کرے اور پھر بھی قیادت کے میدان سے واپس نہ ہو تو یہ واضح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے اوپر اس کا نفس چھایا ہوا ہے۔ ساکھ اور عزت نفس کا سوال اس کو علی الاعلان اپنی قیادتی نا اہلی کا اعتراف کرنے سے روکے ہوئے ہےاس سے زیادہ بکا ہوا انسان اور کون ہوسکتا ہے—  پر جوش الفاظ اور حقیقتِ واقعہ میں فرق نہ کرسکے۔

3 ستمبر 1985

غزوۂ طائف (8ھ ) کی روایات میں سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ثُمَّ سَلَكَ فِي طَرِيقٍ يُقَالُ لَهَا الضَّيْقَةُ، فَلَمَّا تَوَجَّهَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ عَنْ اسْمِهَا، فَقَالَ:مَا اسْمُ هَذِهِ الطَّرِيقِ؟ فَقِيلَ لَهُ الضَّيْقَةُ، فَقَالَ:بَلْ هِيَ الْيُسْرَى (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ482)۔یعنی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے پر چلے جس کو ’’تنگ“ کہاجاتا تھا۔ جب آپ اس راستہ پر آئے تو آپ نے اس کے نام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے کہا کہ اس راستہ کا نام کیا ہے۔ کہاگیا کہ ’’تنگ“ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ یہ ’’آسان“ ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ مومن کا مزاج مثبت مزاج ہونا چاہیے۔ مومن تاریکی میں روشنی کو دیکھتا ہے، وہ ڈس ایڈوانٹج میںایڈوانٹج کو دریافت کرتا ہے۔ وہ مشکل کو آسانی کے روپ میں ڈھال دیتا ہے۔ جس چیز کو عام لوگ الضَّيْقَةُ کہتے ہیں وہ مومن کے ذہن میں آکر الْيُسْرَىبن جاتی ہے۔ غالباً یہی وہ چیز ہے، جس کو ٹائن بی نے برتر حل (superior  solution)کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔

4 ستمبر 1985

ابو سعید خدری ؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّه (جامع الترمذی، حدیث نمبر 1955)۔ یعنی جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔

احسان کیے جانے پر احسان مند ہونا اور محسن کا شکر ادا کرنا ایک مزاج اور قلبی کیفیت کی بات ہے۔ ایک شخص کے اندر یہ مزاج حقیقی معنوں میںپیدا ہوجائے تو وہ دونوں معاملات میں شکر ادا کرنے لگے گا۔ جو شخص بندوں کے سلوک پر ان کا شکر گزار ہو وہ خدا کی نعمتوں پر بھی ضرور اس کا شکر گزار ہوگا۔ اسی طرح جب ایک شخص خدا کی نعمتوں کا حقیقی معنوں میں شکر گزار ہوجائے تو بندوں کے سلوک پر بھی وہ ان کا شکر ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

5 ستمبر 1985

ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا:مَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ، فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ(سنن ابو اداؤد، حدیث نمبر 1672)۔ یعنی  کوئی شخص تمہارے اوپر احسان کرے تو اس کا بدلہ دو۔ اور اگر تمھارے پاس بدلہ پورا کرنے والی کوئی چیز نہ ہو تو محسن کے لیے دعا کرو۔ اور اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک تم کو خیال ہو کہ تم نے بدلہ پورا کردیا ۔

بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو دے۔ اگر اس کے پاس کوئی مادی چیز دینے کے لیے نہیں ہے تو وہ اس کے حق میں دعائے خیر کا ہدیہ پیش کرے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ سماج میں لوگ ایک دوسرے کے خیرخواہ ہوں۔ اور اگر لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے دعا کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو ایسے سماج میں یقیناً خیر خواہی کا جذبہ پرورش پائے گا۔ کیوںکہ کسی کے حق میں سچی دعا اس کے بغیر نہیں نکل سکتی کہ اس کے لیے دعا گو کے دل میں سچی خیر خواہی کی کیفیت موجود ہو۔

6  ستمبر 1985

ڈان پیاٹ(Donn Piatt, 1819-1891) کا قول ہے کہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے کام کی انجام دہی کے لیے دوسروں کا دماغ استعمال کرسکے:

That man is great who can use the brain of others to carry out his work.

خود کرناآسانی ہے مگر دوسروں سے کروانابہت مشکل ہے۔ مگر صرف اپنے بل پر آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بہت سے دماغوں کو اس میں مصروف کیا جائے۔ مگر بہت سے دماغوں کو کسی ایک کام میں مصروف کرنے کے لیے زبردست حکمت اور ذہانت درکار ہے۔ جو آدمی اس حکمت اور ذہانت کا ثبوت دے سکے یقینا وہ اس قابل ہے کہ اس کو بڑا آدمی کہا جائے۔

7  ستمبر 1985

مینڈک اگر ہاتھی کو نگلنا چاہے تو ہاتھی کا کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ مینڈک کا پیٹ پھٹ جائے گا۔

9  ستمبر 1985

رچرڈ کشنگ (Richard James Cushing, 1895-1970) کا قول ہے کہ مذہبی شخصیتوں کے ساتھ جنت میں رہنا بہت عظیم هے، مگر ان کے ساتھ زمین پر رہنا ایک مصیبت ہے:

It is great to live with saints in heaven, but it is hell to live with them on earth.

یہ در اصل مذہبی شخصیتوں پر طنز ہے۔ مذہبی لوگ وعظ کہتے ہیں کہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو تم کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ مگر خود ان مذہبی شخصیتوں کا کردار اکثر نہایت برا ہوتا ہے۔ گویا کہ دنیا میں ان کے ساتھ رہنا جہنم میں رہناہے۔ جب کہ ان کے قول کے مطابق ان کے طریقے پر چلنا اگلی زندگی میں جنت میں داخل ہونا ہے— مذہبی شخصیتوں کے قول و عمل کا یہ تضاد اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔

10 ستمبر 1985

انگریزی رائٹربرنارڈ شا (George Bernard Shaw, 1856-1950) نے کہا کہ ایک بےصلاحیت آدمی کے لیے مشہور ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ شہید ہوجائے:

Martyrdom is the only way in which a man can become famous without ability.

یہ قول، خاص طورپر موجودہ پریس کے دور میں نہایت درست ہے۔ آج کوئی شخص قوم یا مذہب کے نام پر ایک احمقانہ اقدام کرتا ہے۔ اس کے بعد فوراً اس کا نام چھپنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ تیزی سے شہرت حاصل کرلیتا ہے۔ احمقانہ اقدام کرکے شہید ہونا قوم کو تو کچھ نہیں دیتا، البتہ وہ شخص فوراً شہرت کا مقام پالیتا ہے۔

موجودہ زمانہ میں اس قسم کی شہرت حاصل کرنے والوں کی تعداد شاید سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ موجودہ زمانہ میں لاکھوں مسلمان ہیں جنھوں نے قوم یا مذہب کے نام پر شہید ہو کر غیر معمولی شہرت پائی۔ حالاں کہ ان کی شہادت سے نہ مذہب کو کچھ ملا اور نہ قوم کو۔

دانش مند کی شہادت قوم کے لیے ترقی کا زینہ ہے۔ نادان کی شہادت صرف شہید کے لیے ذاتی شہرت کا ذریعہ۔

11 ستمبر 1985

انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔

قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو غیب پر ایمان لائے ۔ اس سلسلے میں قرآن کے متعلق الفاظ یہ ہیںالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ(2:3)۔ یعنی وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نا معلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔

دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ انھیں رازوں کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں (developed  countries) کو تمام ترقیاں ان کی انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔

اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔

12 ستمبر 1985

ایک مسنون دعا ان الفاظ میں آئی ہےمَنْ أَكَلَ طَعَامًا فَقَالَالحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 3458)۔یعنی جوشخص کوئی چیز کھائے اور کہے کہ شکر اور تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھےیہ کھلایا اور میری کسی کوشش یا طاقت کے بغیر مجھ کو روزی عطا کی تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔

یہ دعا محض کھانے والے کے الفاظ کو نہیں بتاتی بلکہ دراصل اس احساس کو بتاتی ہے جس کے تحت ایک مومن خدا کے رزق کو کھاتا ہے۔ وہ چیز جس کو ’’کھانا“ کہاجاتا ہے وہ ایک عظیم خدائی تخلیق ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی قدرت سے وجود میں آتا ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو پالے اس کا احساس انھیں الفاظ میں ڈھل جائے گا جومذکورہ حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اور جس کا احساس ان الفاظ میں ڈھل جائے وہ یقینا اتنا بڑا عمل کرتا ہے کہ عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کردے۔

13 ستمبر 1985

میں نے اپنے تجربے میں پایا ہے کہ بیش تر لوگ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ مایوسی کے احساس میں جیتے ہیں اور مایوسی میں مرجاتے ہیں۔ اِس المیہ کا بنیادی سبب کیا ہے۔ وہ سبب یہی ہے کہ بیش تر لوگ اپنی زندگی کے لیے صحیح نقطۂ آغاز نہیں پاتے، اور جب آپ صحیح نقطۂ آغاز کو نہ پائیں تو آپ کی تمام سرگرمیاں آپ کے مطلوب کے اعتبار سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔

اس دنیا میں قانونِ فطرت کے مطابق، کسی انسان کے لیے جو چیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان فرق کرے، اور پھر اپنا منصوبہ بنائے، یعنی آئڈیل کو چھوڑ کر پریکٹکل وزڈم کو اختیار کرنا۔ آدمی کے لیے یہی درست نقطۂ آغاز ہے۔

14 ستمبر 1985

اپنے بس میں صرف برداشت ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے صرف دوسروں کے بس میں ہے۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے ایک ہی ممکن طریق کار ہے۔ وہ اپنے بس والے مقام سے آغاز کرے۔ اگر اس نے وہاں سے آغاز کرنا چاہا جو دوسرے کے بس میں ہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس نے حقیقۃً آغاز ہی نہیں کیا، اور جو شخص آغاز نہ کرے، وہ اختتام کو کس طرح پہنچ سکتا ہے۔

15 ستمبر 1985

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (15 ستمبر 1985) نے ہندستان کے معاشی اور سیاسی حالات پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے:

Ours is a Story of Missed Opportunities

ہماری کہانی کھوئے ہوئے مواقع کی کہانی ہے۔

یہ بات ملک سے زیادہ مسلمانوں پر صادق آتی ہے۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں سب سے بڑی نادانی یہ کی ہے کہ انھوںنے مواقع اور امکانات کو نہیں پہچانا۔ وہ انتہائی قیمتی مواقع کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ضائع کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ ان کی وہ ناکامی ہے جس سے آج وہ دوچار ہیں۔

16 ستمبر 1985

اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں دینے والا پاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو آپ بھی دوسروں سے کچھ نہیں پاسکتے۔

دوسروں کے لیے نفع بخش بنئے، اور اگر آپ نفع بخش نہیں بن سکتے تو دوسروں کو اپنے ضرر سے بچائیے۔ دوسروں کو اپنے ضرر سے بچانا بھی انھیں کچھ دینا ہے۔ اگر آپ دوسروں کو نہیں دے سکتے تو دوسروں سے چھیننے کی بھی کوشش نہ کیجیے۔

17 ستمبر 1985

ہر آدمی کے اندر ایک انسان ہے، اور اسی کے ساتھ اس کے اندر ایک شیطان بھی چھپا ہوا ہے۔ اکثر لوگ اپنی نادانی سے انسان کو کھو دیتے ہیں۔ یہ صرف شیطان ہے جو ان کے حصہ میں آتا ہے۔

18 ستمبر 1985

جولائی 1402 ء میں انگورہ (Angora) کے میدان میں دو مسلم بادشاہوں کی لڑائی ہوئی۔ ایک طرف تیموری سلطنت کا بانی سلطان تیمور (1336-1405ء) تھا، دوسری طرف عثمانی سلطان بایزید اول (1360-1403ء)۔ یہ ایک نہایت خوف ناک جنگ تھی۔اس میں تیمور کی فوج کے ایک لاکھ آدمی قتل ہوئے اور بایزید کی فوج کے صرف پچاس ہزار آدمی مارے گئے۔ اس کے باوجود شکست سلطان با یزید کے حصہ میں آ ئی۔

اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ سلطان تیمور کی فوج میں پانچ لاکھ سپاہی تھے۔ جب کہ سلطان بایزید کی فوج میں کل ایک لاکھ سپاہی تھے۔ اس طرح سلطان تیمور کی فوج کے ایک لاکھ آدمی قتل ہونے کے بعد بھی اس میں چار لاکھ آدمی باقی تھے، اور سلطان با یزید کی فوج میں کل ایک لاکھ آدمی تھے۔ چنانچہ پچاس ہزار آدمیوں کے قتل ہوجانے کے بعد اس میں صرف پچاس ہزار آدمی باقی رہ گئے۔

سلطان با یزید بے حد بہادر آدمی تھا۔ مگر کیفیت (quality)کی زیادتی کمیت (quantity) کی کمی کو ایک حد تک ہی پورا کرسکتی ہے۔ اگر فریقَین کے درمیان کمیت کے تناسب میں غیر معمولی فرق واقع ہوجائے تو کیفیت کی زیادتی کمیت کی کمی کی تلافی کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔

19 ستمبر 1985

موجودہ زمانے کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں، وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے، مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ ا ستعمال نہ کرسکا۔

حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے لیے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے— جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔

20  ستمبر 1985

اناتول فرانس(Anatole France, 1844-1924) کا قول ہے کہ یہ آدمی کی فطرت ہے کہ وہ دانش مندانہ طورپر سوچتا ہے، مگر بیوقوفی کے ساتھ عمل کرتا ہے:

It is human nature to think wisely and act foolishly.

یہ بات بذاتِ خود صحیح ہے۔ مگر اس کی وجہ انسانی فطرت نہیں، بلکہ انسانی عادت ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ معاملات میں دانش مندانہ طورپر سوچ سکے۔ مگر عمل کرتے وقت وہ بے وقوف بن جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ سوچ کے وقت تو غیر جانب دار رہتا ہے۔ مگر عمل کے وقت اپنی غیر جانب داری کو باقی نہیں رکھ پاتا— صحیح عمل اکثر اپنی ذات کی نفی پر ہوتا ہے۔ آدمی اپنی ذات کی نفی پر راضی نہیںہوتا، اس لیے وہ صحیح عمل بھی نہیں کرپاتا۔

21 ستمبر 1985

اجتماعی زندگی میں وہ انسان بہت قیمتی ہوتا ہے جو بلاشرط کسی مشن کا ساتھ دے۔ جو ساتھ دینے کے بعد مسائل کا جنگل نہ کھڑا کرے۔صحابہ کرام نے تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا۔ ان کی تحریکی صفات کو اگر ایک لفظ میں بتانا ہو تو کہا جاسکتا ہے — وہ بے مسئلہ لوگ (no-problem person) تھے۔ وہ اختلاف کو بھول کر مشن سے وابستہ رہتے تھے۔ وہ ذاتی شکایت کو نظرانداز کرکے قیادت کے حکم کی پابندی کرتے تھے۔ وہ انفرادی احساسات کو کچل کر اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بے مسئلہ انسان ہوں، وہی دنیا کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ جولوگ خود مسائل میں مبتلا ہوجائیں، وہ صرف دنیا کے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں، وہ کسی بھی درجے میں دنیا کے مسائل کو کم نہیں کرتے۔

23 ستمبر 1985

شہر کی تعمیرات اور اس کے تمدنی مظاہر کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا’’انسان کے بغیر یہ تمدن نہیں، اسی طرح خدا کے بغیر یہ کائنات نہیں“ ۔

24  ستمبر 1985

نادر شاہ افشار(1688-1747)ایران کا بادشاہ تھا۔ وہ 1736 سے 1747تک ایران کا بادشاہ رہا ۔ ایک مرتبہ اس کو یہ شبہ ہوا کہ اس کا لڑکا یہ سازش کررہا ہے کہ وہ باپ کو ہٹا کر خود تخت پر بیٹھ جائے۔ نادر شاہ نے اپنےجوان لڑکے کو گرفتار کیا اور اس کی آنکھیں نکال کر اس کو اندھا کردیا۔مگر نادرشاہ کی یہ بے رحمی اس کو اقتدار پر باقی رکھنے میں معاون نہ ہوسکی۔ جلد ہی اس کی فوج میں اس کے مخالفین پیداہوگئے، اور نادر شاہ خوداپنے فوجیوں کے ہاتھوں قتل کردیاگیا۔

اِس طرح کے بے شمار واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ مگر کوئی ان سے سبق نہیں لیتا۔ ہر آدمی اپنے دائرے میں دوبارہ وہی کرتا ہے، جو نادر شاہ نے اپنے دائرے میں کیا تھا۔

25 ستمبر 1985

ایک صاحب نے الرسالہ کے مشن سے پورا اتفاق کیا۔ میں نے کہا کہ جب آپ کو الرسالہ سے اتفاق ہے تو اس کی ایجنسی لے کر اس کو پھیلائیے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تو میں صرف خود پڑھتا ہوں۔ آئندہ ایسا بھی کروں گا کہ ایجنسی لے کر اس کو دوسروں تک پہنچاؤں۔

میںنے کہا کہ کرنے کا کام آج کیا جاتا ہے، کل نہیں کیاجاتا۔ جس شخص نے معاملے کو کل (tomorrow) کے خانہ میں ڈالا، اس نے معاملہ کو نہیں کے خانے میں ڈال دیا۔

26 ستمبر 1985

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہادو نعمتیں ہیں جن میں انسانوں میں سے بہت سے لوگ دھوکا کھاتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔

یعنی آدمی ایک کام کو کرنے کا کام سمجھتا ہے۔ مگر وہ سوچتا رہتا ہے کہ جب تندرستی ہوگی تو کرلوں گا یا جب فرصت ہوگی کر لوں گا۔ حالاں کہ یہ زبردست بھول ہے۔ جو آدمی عذر کے فریب میں رہے وہ کبھی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ عذر کو نظر انداز کرکے کام کیاجائے۔

ایک انگریزی مقولہ اس حدیث کی بہترین تشریح ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ اگر تمھارے پاس ایک اچھا عذر ہے تب بھی اس کو استعمال نہ کرو:

If you have a good excuse, don't use it.

28 ستمبر 1985

پیسہ خرچ کرنے کے سلسلے میں قرآن میں اعتدال کا حکم دیاگیا ہے:وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (17:29)۔یعنی اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ لو اور نہ اس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ تم ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔ حدیث میں آیا ہےمَا عَالَ مَنِ اقْتَصَد (مسند احمد، حدیث نمبر 4269)۔ یعنی جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا۔

اکثر پریشانیوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اخراجات میںاعتدال کی حد پر قائم نہیں رہتا۔ شادی کرنا، گھر بنانا، اور اس طرح کے دوسرے اخراجات کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی طاقت سے زیادہ خرچ کر ڈالتاہے۔ اگر ایسے مواقع پر اپنی وسعت کو دیکھا جائے، نہ کہ کسی مفروضہ معیار کو، تو کبھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

30 ستمبر 1985

اینڈریو کارنیگی (1835-1919)نے اسٹیل کی صنعت میں کافی ترقی کی۔ 1889 میں اس نے ایک مقالہ شائع کیا جس کا نام تھا دولت کی بائبل (The Gospel of Wealth) ۔ اس مقالہ میں اس نے بتایا کہ دولت مند آدمی جب دولت حاصل کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو رفاہ عام کے کام میں لگائے:

A rich man should, after acquiring his wealth, distribute the surplus for the general welfare. (Andrew Carnegie)

یہ ایک نہایت اہم اصول ہے۔ اینڈریو کارنیگی نے جو بات سماجی اصطلاح میں کہی وہی  بات پیغمبر اسلام نے مذہبی اصطلاح میں اس طرح کہی ہے کہ خدا تمھیں دولت دے تو تم دائیں بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرو (صحیح مسلم، حدیث نمبر 990)۔

یہ اصول نہ صرف آخرت کی فلاح کا ضامن ہے بلکہ دنیا کی ترقی بھی اسی سے ملتی ہے۔ موجودہ زمانے میں کئی ملکوں میں بیرونی افراد کے خلاف سخت ناراضگی پیداہوئی۔ مثلاً افریقن ملک یوگنڈا میںایشیائی لوگوں کے خلاف، سری لنکا میں تامل والوں کے خلاف، پاکستان میں مہاجرین کے خلاف، وغیرہ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے اپنی کمائی ہوئی دولت کو صرف اپنی ذات پر خرچ کیا، مقامی آبادی پر خرچ نہیں کیا۔

جو تجارتی قومیں اس راز سے واقف ہیں وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ مستقل طور پر مقامی آبادی کی فلاح پرخرچ کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت کامیاب ہیں۔ مثال کے طورپر ہندستان میں جینی فرقہ اور پارسی فرقہ۔ یہ لوگ بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی دولت کا بڑا حصہ ان کے قبضہ میں ہے۔ مگر آج تک ان کے خلاف کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کمائی کاایک حصہ ہر سال دوسروں کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً اسکول، اسپتال، تعلیمی وظائف وغیرہ وغیرہ۔

1 اکتوبر 1985

علمائے تفسیر کا کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا مصدرِ اول خود قرآن ہے۔ اور قرآن کی تفسیر کا مصدرِدوم وہ حدیث کو قرار دیتے ہیں۔

مثلاً سورہ فاتحہ میں ہےغَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (1:7) ۔ یعنی ان کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو راستے سے بھٹک گئے۔ یہاں سوال ہے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں۔ حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ(مسند احمد، حدیث نمبر 19381)۔

اسی طرح قرآن میں ہے:وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة (8:60)۔ یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے تیار رکھو قوت۔ یہاں قوت سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلہ میں حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1917)۔جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔

تاہم ان مصادر (sources)کے ساتھ ایک اور چیز انتہائی ضروری ہے، اوروہ هے تفقہ (حکمت و بصیرت)۔ اگر تفقہ نہ ہو تو آدمی فرسٹ مصدر اور سیکنڈ مصدر کا ماہر ہونے کے باوجود قرآن کی د رست تفسیر نہ کرسکے گا۔ مثلاً پہلی آیت (الفاتحہ، 1:7) کی تفسیر میں مذکور حدیث میں صرف آدھی بات ہے۔ مکمل بات ایک دوسری حدیث کو ملانے سےسمجھ میں آتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا:يَا رَسُولَ اللَّهِ، اليَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ:فَمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یعنی تم ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے، ہم نے کہا:اے خدا کے رسول، یہود ونصاری، آپ نے کہا:اور کون۔

اس كا مطلب یہ هے کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعد جو کچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے۔ ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں مغضوب اور ضالین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے خدا کی ناراضگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہود و نصاری نے ایسا کیا تھا، بعد کے زمانے میں امت محمدی پر ایسا وقت آسکتا ہے۔

اسی طرح دوسری آیت (الانفال،8:60) کی تفسیر میں مذکور حدیث کو بھی بالکل لفظی معنی میں لے لیا جائے تو اسلام ایسی سائیکل کی مانند بن جائے گا، جس کا ہینڈل کَس دیا گیا ہو، اور وہ سائیکل دائیں بائیں گھوم نہیں سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری آیت کی یہ تفسیر ایک زمانی تفسیر ہے، نہ کہ ابدی تفسیر۔ اگر اس تفسیر کو ابدی تفسیر قرار دیا جائے تو بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے فوجی قوت کے لیے جو نئے نئے اضافے كيے، وہ سب غیر اسلامی قرار پائیں گے۔ یا کم ازکم یہ کہ بدلتے ہوئے زمانہ کے لحاظ سے دفاعي قوت كي فراهمي کے ليے قرآن سے انحراف ضروری هوگا۔ ورنہ ہم اپنے دور کے لحاظ سے اپنے کو طاقت ور نہیں بنا سکتے۔

2 اکتوبر 1985

بعض حدیثیں نقد داخلی ہی کے معیار پر غیر معتبر ثابت ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: وَفَضْلُ شَهْرِ شَعْبَانَ عَلَى الشُّهُورِ كَفَضْلِي عَلَى سَائِرِ الأَنْبِيَاءِ (المقاصد الحسنہ، حدیث نمبر 740)۔ یعنی شعبان کے مہینہ کو دوسرے مہینوں پر ویسی ہی فضیلت ہے جیسی فضیلت مجھ کو دوسرے انبیا پر۔

مہینوں میں سے کوئی مہینہ اگرافضل ہو تو یہ افضلیت سب سے پہلے رمضان کے مہینہ کو حاصل ہوگی۔ کیوں کہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں اترا، اور جس مہینہ میں قرآن اترا اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ ایسی حالت میں کیسے یقین کیا جاسکتاہے کہ کوئی مہینہ رمضان سے بھی زیادہ افضل ہوگا۔

3 اکتوبر 1985

مسز انیس جنگ کی ایک انگریزی کتاب 1985میں پنگوئن بکس کے تحت چھپی ہے، جس کا نام ہے ’’ہندستان بے نقاب“ (Unveiling India) ۔ مصنفہ نے ہندستان میں عورتوں کے حالات کی تحقیق کے لیے ملک کے مختلف حصوںکا سفر کیا۔ بیدر میں ان کی ملاقات جلال الدین چنگیزی سے ہوئی۔ مصنفہ کے بیان کے مطابق، جلال الدین چنگیزی نے کہا کہ قرآن میںعورت کو فتنہ بتایا گیا ہے، وہ جو مرد کو بہکائے اور اس کو مصیبت میں مبتلا کرے

In the Koran she is described as a fitna, one who tempts man and brings trouble (p. 30)

یہ حوالہ صحیح نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں عورت کو فتنہ کہا گیا ہو۔ البتہ ایک حدیث ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیںمَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5096)۔ یعنی اپنے بعد میں نے سب سے زیادہ مضر فتنہ جو مردوں کے اوپر چھوڑا ہے وہ عورتیں ہیں۔

حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اور وہ یہ کہ آئندہ آنے والے دور میں انسانی سماج میں سب سے زیادہ ضرر کا سبب عورتیں بنیں گی۔ اس دور میں عورتیں مردوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن جائیں گی۔

جس زمانے میں محترمہ انیس جنگ نے اپنی کتاب لکھی ہے، اس زمانے میں یہ پیشین گوئی اپنی کامل صورت میں سامنے آچکی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جدید دنیا کے معاشرتی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب ’’جدید عورت“ ہے۔ آج آزادیٔ نسواں کے نام پر عورت کا جوحال کیاگیا ہے اس نے جدید معاشرہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ عورت باعتبار تخلیق کوئی بری چیز ہے۔ اس میں صرف عورت کے اس غلط استعمال کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں عورت سماج کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔

4 اکتوبر 1985

مولانا امیراللہ خاں قاسمی ایک عربی مدرسہ چلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ ایک سفر میں ان کی ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔ عرب نے گفتگو کے دوران کہا:

چَنْسُکَ جَیِّدٌ

مولانا امیر اللہ صاحب اس جملہ کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے عرب سے دوبارہ پوچھا کہ ’’چنسک“ کا مطلب کیا ہے۔ اس نے کاغذ پر لکھ کر بتایا تو معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہا ہےتمھارا چانس (chance) بہت اچھا ہے— عربوں میں انگریزی الفاظ کتنے زیادہ عام ہوگئے ہیں، اس کی یہ ایک دلچسپ مثال ہے۔

5اکتوبر 1985

قرآن کے سلسلہ میںایک مسئلہ اختلافِ قرأت کا ہے۔مگر اختلافِ قرأت کا مطلب اختلافِ متن نہیں ہے۔قرآن میں جو اختلافِ قرأت ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک وہ اختلاف جو لہجہ (accent) کے فرق کا نتیجہ ہے۔ چوں کہ عرب کے مختلف قبائل میںالفاظ کی ادائیگی میں بعض فرق پایا جاتاتھا، اسی بناپر قرآن کی قرأت میں بھی بعض مقامات پر فرق ہوگیا۔ مثلاً مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (1:4) کے بجائے  مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (میم کے بعد الف کے بغیر)یا قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (114:1) کی جگہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاتِ  ، وغیرہ۔ اس قسم کا فرق صرف پڑھنے کا فرق ہے، ان میں کتابت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔

اختلافِ قرأت کی دوسری صورت وہ ہے جس میں لفظ کا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہےأَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ(17:93)۔ یعنی یا تمہارے پاس سونے کا کوئی گھر ہوجائے۔ اس آیت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے پڑھاأَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِنْ ذَهَبٍ(تفسیر ابن کثیر، جلد5 ، صفحہ120)۔یا مثلاً سورہ الجمعہ میں ہےفَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ (62:9) ۔یعنی اللہ کی یاد کی طرف چل پڑو۔ اس کو بعض صحابہ نے اس طرح پڑھافَامْضُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ 120)۔ یا مثلاًسور البقرۃ میں ہےلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ (2:198)۔ یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔اس کو ا بن عباس نے اس طرح پڑھا ہےلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ(فضائل القرآن للقاسم بن سلام، صفحہ 325)۔یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو حج کے زمانے میں۔

اختلاف قرأت کی یہ دوسری مثالیں قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ تفسیر کی قبیل سے ہیں۔ یعنی صحابی نے آیت کی تشریح کرتے ہوئے ایک نیا لفظ استعمال کیا تاکہ مخاطب اس کو سمجھ سکے۔ ورنہ دنیامیں ایسا کوئی قرآن موجود نہیں جس میں متن کی کتابت اس دوسرے طریقے سے کی گئی ہو۔

کسی عبارت کے مفہوم کو کھولنے کے لیے اس کے لفظ کو بدلنا پڑتا ہے۔ اختلاف قرأت کی دوسری قسم کا مطلب یہی ہے، صحابہ نے تفہیم کے مقصد سے لفظ بدل کر پڑھا۔

7  اکتوبر 1985

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے حکم سے کئی مؤذنوں کی تقرریاں ہوئی تھیں۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت بلال ان مؤذنوں کے صدر تھے۔ جب کوئی حکم ہوتا تو حضرت بلال کے واسطے سے تمام دوسرے لوگوں کو اس سے آگاہ کردیا جاتا۔  مثلاً ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:أَمَرَ بِلَالًا أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ (سنن النسائی، حدیث نمبر 627) ۔ یعنی آپ نے بلال کو حکم دیا کہ وہ اذا ن میں تشفیع کرے اور اقامت میں ایتا ر کرے۔

اس قسم کی روایتوں کا مطلب احناف اس طرح بتاتے ہیں أن يكون المراد من أن يشفع الأذانبالصوت، فيأتي بصوتين صوتين، ويوتر الإقامة في الصوت (تجرید القدوری، جلد1، صفحہ419)۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اذان میں شفع کرے، اس کو دو دو (اونچی) آواز میں ادا کرے، اور اقامت کو اکہرے (نیچی) آواز میں ادا کرے۔ فمحمول على إيتار صوتها بأن يحدر فيها ...لا إيتار ألفاظها(البحر الرائق، جلد1، صفحہ447)۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ اس کی آواز میں ایتار ہو، یعنی وہ اقامت میں جلدی جلدی پڑھے، نہ کہ الفاظ میں ایتار (ایک ایک مرتبہ)۔اس کے برعکس شوافع وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہاں تشفیع اور ایتار کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات دوبار ادا کیے جائیں اور اقامت کے کلمات ایک بار— حدیث میں تعمق اورتدقیق (hair-splitting) نے کیسے عجیب عجیب اختلافات پیدا کردیے ہیں۔

8 اکتوبر 1985

جناب فرید الوحیدی صاحب جدہ میں رہتے ہیں۔ ان کا قدیم وطن دیوبند تھا۔ اب وہ سعودی شہری ہوچکے ہیں اور وہاں کے ایک کامیاب تاجر ہیں۔ انھوںنے اپنی زندگی کا تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا  جوچیونٹی بن کر رہتاہے وہ شکر کھاتا ہے،جوشیر بن کر رہتا ہے وہ گولی کھاتا ہے

9 اکتوبر 1985

ایک عرب سے ملاقات ہوئی۔ ان کو میںنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنایا:إِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا يُمِيتُونَ الْبَاطِلَ بِهَجْرِه(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ 55)۔ یعنی بے شک اللہ کے کچھ بندے ہیں، جو باطل کو مٹاتے ہیں، اس کو ترک کرکے۔

انھوںنے اس کو پسند کرتے ہوئے کہاکہ اسی مفہوم کا ایک مقولہ عربوں میں رائج ہے جو کہ اس طرح ہےلَوْ أَنَّ الْكَلَامَ مِنْ فِضَّةٍ لَكَانَ السُّكُوتُ مِنْ ذَهَبٍ(الزھد لابن ابی عاصم، اثر نمبر 33)۔ یعنی بولنا اگر چاندی ہو تو چپ رہنا سونا  (gold) ہے۔

10 اکتوبر 1985

سترھویں صدی کے فرنچ رائٹر اور مفکر جین دي لا برويير(Jean de La Bruyère, 1645-1696)کا قول ہے کہ اس دنیامیں صرف دو طریقے ہیں جن کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اوپر اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اپنی ذاتی محنت سے یا دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر:

In the world there are only two ways of raising one self, either by one's own industry or by the weakness of others.

اس کی ایک مثال ہندستان ہے، اور دوسری مثال جاپان کی جدید تاریخ ہے۔ ہندستان نے 1947  میں جو آزادی حاصل کی، وہ دراصل دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے زبردست ترقی حاصل کی۔ اس کا راز جاپانی قوم کی وہ محنت تھی جو اس نے جنگ میں شکست کے بعد مسلسل انجام دی۔

11 اکتوبر 1985

موجودہ زمانے کے قائدین نے مسلمانوں کے جذباتی احساس کو بھر پور طورپر استعمال کیا ہے۔ ہر وہ مسلم قائد جس نے موجودہ زمانے میں بڑی مقبولیت حاصل کی ہے، ا س نے یہ مقبولیت مسلمانوں کے منفی جذبات کو استعمال کرکے حاصل کی ہے۔ مگر میں اس قسم کی قیادت کو سراسر باطل سمجھتا ہوں۔ کسی قوم کو مثبت نفسیات پر اٹھانا قیادت ہے، اور کسی قوم کو منفی نفسیات پر اٹھانا ہلاکت۔

14 اکتوبر 1985

جنت کے بارے میں قرآن میں ’’عِنْدَکَ‘‘ اور ’’عِنْدَ رَبِّہِمْ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ جنت مجلسِ خداوندی میں جگہ پانے کا دوسرا نام ہے۔ خدا کی صفت خاص یہ ہے کہ وہ پرفکٹ (perfect) ہے۔ خدا کے قریب جو دنیا ہوگی وہاں ہر چیز پرفکٹ ہوگی۔ وہاں پرفکٹ باتیں ہوں گی۔ پرفکٹ سلوک ہوگا۔ پرفکٹ سامان ہوںگے۔یہ ایک پرفکٹ ماحول ہوگا، اور پرفکٹ ماحول میں جینے ہی کا نام جنت ہے۔

یہ پرفکٹ دنیا (perfect world) اتنی زیادہ قیمتی ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل، خواہ وہ کتنی ہی مقدار میں ہو، اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنے عمل کی قیمت پر جنت میں جگہ نہیں مل سکتی۔ صرف ایک چیز ہے جو جنت کی قیمت ہے۔ اوروہ ہے پرفکٹ تھنکنگ۔ آدمی عمل کی سطح پر پرفکٹ نہیں بن سکتا۔ مگر سوچ (thinking) کی سطح پر وہ پرفکٹ بن سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو موجودہ دنیا میں آدمی کو حاصل کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلےکا مستحق بنائے گی۔

15 اکتوبر 1985

عربی زبان میں غیر معمولی طورپر یہ صلاحیت ہے کہ وسیع مضامین کو مختصر لفظوں میں ادا کرسکے۔ غالباً کسی اور زبان میں یہ صلاحیت اتنی زیادہ نہیں۔

ماہنامہ العربی (کویت) کی اشاعت اکتوبر 1985میں صفحہ 32 پر ایک تصویرہے۔ اس تصویر میں ایک عرب شیخ اپنے مخصوص حلیہ میں چھڑی لیے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ہرے بھرے فارم کی تصویر ہے جس میں کھیت اور باغ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس تصویر کے اوپر (فارمر کی زبان سے) لکھا ہوا ہے — انھوں نے بویا تو ہم نے کھایا، ہم بوتے ہیں تاکہ وہ کھائیں:

زرعوا فأکلنا، ونزرع لیأکلوا

 یعنی ہماری پچھلی نسلوں نے درخت لگائے جن کا پھل ہم کو ملا۔ اب ہم درخت لگا رہے ہیں تاکہ ہمارے بعد کی نسلیں اس کا پھل پاسکیں۔ جو لوگ عربی زبان اوراس کے ساتھ دوسری زبانیں جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس تصور کو اتنے کم الفاظ میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ اداکرنا کسی اور زبان میں شاید ممکن نہیں۔

17 اکتوبر 1985

حدیث میں آیا ہے :الدُّنْيَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الكَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خدا کے پڑوس میں رہناچاہتا ہے اور دنیامیں اس کو انسانوں کے پڑوس میں رہنا پڑتا ہے۔ اس کی نظروں میں ’’پرفکٹ“ سمایا ہوا ہوتاہے اور دنیا میں اس کو ’’امپرفکٹ“ سے نباہ کرناپڑتا ہے۔وہ کامل سچائی کا طلب گار ہوتا ہے اور دنیا میں وہ دیکھتا ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی اور دھاندلی کی حکمرانی ہے۔ وہ اصول پسند ہوتا ہے جب کہ دنیا میں اس کو ہر طرف بے اصولی کا راج دکھائی دیتا ہے۔

غیر مومن با اصول یا آئیڈیلسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے صرف اپنا ذاتی مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ جس طرح بھی ملے۔ وہ ہر صورتِ حال میں ڈھل کر اپنا مفاد محفوظ کرلیتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا اسی لیے اسے کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوتی۔

18 اکتوبر 1985

دعوت و تبلیغ کا مقصد لوگوں کو ’’مسلم معاشرہ“ کی طرف بلانا نہیں ہے، بلکہ خدا کا پیغام پہنچانا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو خدا کے مقصدِ تخلیق سے باخبر کرنا ہے۔

19 اکتوبر 1985

جنت صبر کے اُس پار ہے، مگر اکثر لوگ جنت کو صبر کے اِس پار تلاش کرنے لگتے ہیں۔

21 اکتوبر 1985

ایک صاحب تھے۔ وہ کسی سابق نواب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نوابی تو ختم ہوچکی تھی، مگر ’’پدرم سلطان بود“ (میرا باپ بادشاہ تھا) کی نفسیات ان کے اندر پوری طرح باقی تھیں۔ ان کی ایک لڑکی تھی۔ اس کا رشتہ کئی جگہ سے آیا مگر انھوںنے انکار کردیا۔ کیوں کہ یہ رشتے ان کے خیال سے ان کے شایان شان نہ تھے، اور جس رشتہ کو وہ اپنے شایان شان سمجھتے تھے، وہ انھیں مل نہ سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لڑکی کی شادی نہ ہوسکی۔

یہی کیس زیادہ بڑی شکل میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کی گزری ہوئی تاریخ نے ان کوایک قسم کے احساس فخر میں مبتلا کردیا ہے۔ اس احساس فخر کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی چھوٹا کام انھیں اپنے شایانِ شان نظر نہیں آتا۔ ہمیشہ بڑے کام کی طرف دوڑتے ہیں، کیوں کہ وہی کام ان کو اپنے شایانِ شان نظر آتاہے جس کو بڑے بڑے لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہو۔

اسی احساسِ فخر کی نفسیات نے موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کی کوششوں کو بے نتیجہ بنادیا۔ موجودہ زمانے میں جو بھی مسلم رہنما اٹھا، اس نے ہمیشہ کسی بڑے کام کا نعرہ لگایا— ہر آدمی نے مینار پر کھڑا ہونا چاہا، کوئی بھی زمین پر کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ بے شمار ہنگامہ خیز تحریکوں کے باوجود موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ملی تعمیر واقعہ نہ بن سکی۔ کیوں کہ حقیقی تعمیر کے لیے ہمیشہ چھوٹی سطح سے آغاز کرنا پڑتا ہے، مسلم رہنماؤں نے اپنی پر فخر نفسیات کی بنا پر چھوٹی سطح کے کام کواپنے شایان شان نہ سمجھا، اس لیے وہ کوئی حقیقی تعمیری کام بھی انجام نہ دے سکے۔

22  اکتوبر 1985

زندگی دو متضاد پہلوؤں کے درمیان نباہ کرنے کا نام ہے۔ زندگی کا سفر ایک اعتبار سے تنی ہوئی رسی پر چلنے (tight-rope walking) کی مانند ہے۔ آدمی کو بیک وقت دو سمتوں کی رعایت کرتے  ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ اس دو طرفہ توازن میں اگر فرق آجائے تو زندگی کا سارا معاملہ بگڑ کر رہ جائے گا۔

23 اکتوبر 1985

قدیم زمانے میں اپنی محبوب شخصیت کو بڑھانے اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گھٹانے کے لیے بہت سے قصے گھڑے گئے۔ ایک مثال یہ ہے

کہاجاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ (80-150ھ) تحصیلِ علم کے لیے مدینہ گئے۔ وہاں ان کی ملاقات امام باقر (57-114ھ) سے ہوئی۔ تعارف کے بعد امام باقر نے کہا۔ کیا تم ہی قیاس کی بنا پر ہمارے دادا کی حدیثوں کی مخالفت کرتے ہو۔ ابو حنیفہ نے کہا عیاذ باللہ، حدیث کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ پھر مختصر گفتگو کے بعد دونوں میں حسب ذیل مکالمہ ہوا

ابو حنیفہ مرد ضعیف ہے یا عورت

امام باقرعورت

ابو حنفیہ وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا۔

امام باقرمرد کا

ابو حنیفہاگر میں قیاس لگاتا تو کہتا کہ عورت کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ کیوں کہ ظاہر قیاس کی بناپر ضعیف کو زیادہ ملنا چاہیے۔

امام باقر اس گفتگو کو سن کر بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر ان کی پیشانی چومی۔

نقدِ داخلی بتا رہا ہے کہ یہ ایک بناوٹی قصہ ہے۔ امام باقر نے امام ابوحنیفہ پر جو الزام لگایا وہ حدیث کو رد کرنے کا تھا، نہ کہ قرآن کو رد کرنے کا۔ جب کہ مذکورہ گفتگو کے مطابق امام ابو حنیفہ نے جو مسئلہ بیان کیا، وہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس کا انحصار حدیث پر نہیں۔ امام ابو حنیفہ جیسا ذہین آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ سوال حدیث کے بارے میں کیا جائے اور وہ جواب قرآن کے بارے میں دینے لگے۔

اس قسم کے جھوٹے قصے کہانیوں نے ہمارے بیشتر لٹریچر کو غیر سائنٹفک بنا دیا ہے۔ ان سے عقیدت مندی کا مزاج رکھنے والا آدمی تو فائدہ اٹھا سکتا ہے مگرعلمی ذوق رکھنے والے آدمی کے لیے اس کی افادیت بہت کم ہے۔

24 اکتوبر 1985

خوارج کا یہ کہنا تھاکہ خلافت کسی قوم یا قبیلے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر وہ شخص خلیفہ بن سکتا ہے جس کے اندر خلافت کی شرطیں پائی جائیں۔بظاہر یہ ایک صحیح بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صحابی رسول علی ابن ابی طالب کے الفاظ میں: كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1066)کی مثال ہے، یعنی ایک حق بات جس سے باطل مطلوب ہے۔

اصل یہ ہے کہ عرب دو بڑے قبائلی گروہوں میں منقسم تھے — مُضَر اور ربیعہ۔ قریش کا تعلق مضر سے تھا ، اورخوارج زیادہ تر قبیلہ ربیعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیعہ میں جاہلیت کے زمانے سے عداوت چلی آرہی تھی۔ صحابہ کرام نے جب عرب کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے قریش میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا تو قبیلہ ربیعہ کے لوگ بگڑ گئے۔ کیوں کہ قریش کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔ ایسی حالت میں خوارج جو اصول پیش کرتے تھے، اس کا مقصد اپنے قبیلے کے حق میں خلافت کا استحقاق ثابت کرنا تھا، نہ کہ اہل تر شخص کے حق میں اس کا استحقاق ثابت کرنا۔

25 اکتوبر 1985

عہدِ وسطیٰ میں شہنشاہ اور پوپ کے درمیان جو جھگڑے ہوئے، ان میں ساری بحث اس پر تھی کہ حضرت عیسیٰ (یا خدا) نے دنیا کی حکومت پوپ کے سپرد کی ہے یا شہنشاہ کے، او راگر ان دونوں میںاختلاف ہو تو قوم کو کس کے حکم پر چلنا چاہیے۔

آج یہ بحث بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ کیوںکہ آج حکومت و سیاست کے معاملات میں نہ ’’مسیح“ کا دخل ہے اور نہ ’’پوپ‘‘کا۔ آج ان معاملات میں ساری حیثیت عوام کی مانی جاتی ہے یا عوام کے منتخب نمائندوں کی۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانی حالات کتنا زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی فکر کی عمومی کامیابی کا انحصار تمام تر اسی پر ہوتا ہے کہ زمانی حالات اس کے موافق ہیں یا اس کے خلاف۔ آدمی اگر حکومت کے نظام میںتبدیلی لانا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اس کو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ حکومت کے نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔

26 اکتوبر 1985

ٹکراؤ کے میدان سے ہٹنا آدمی کو تعمیر کا وقفہ عطا کرتا ہے۔ اور اس دنیا میں وقفۂ تعمیر کو پانا ہی کسی آدمی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ایک پچھڑے ہوئے گروہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے وقفہ تعمیر کو پالے۔ اس وقفہ تعمیرکو حاصل کرنے کی واحد لازمی قیمت یہ ہے کہ پچھڑا ہوا گروہ نزاع کے مقام سے اپنے آپ کو ہٹائے۔

اِس دنیا میں آدمی ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے— مسائل اور مواقع۔ عقلمند وہ ہے جو مسائل کو مستقبل کے خانے میں ڈال دے اور اپنی ساری طاقت مواقع کو استعمال کرنے میں لگائے۔ مسائل میں الجھ کر وہ دونوں کو کھوئے گا ،جب کہ مواقع کواستعمال کرکے وہ بالآخر دونوں کو پالے گا۔ یہی بات ہے جس کو ایک مفکر نے ان الفاظ میں اداکیا ہے— مسائل کو بھوکا رکھو، مواقع کو کھلاؤ:

Starve the Problems, Feed the Opportunities.

28اکتوبر 1985

رمضان کے بارے میںمختلف روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سےایک روایت یہ ہےوَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر1079)۔ یعنی اور اس ماہ میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔

حدیث کے الفاظ کو اس کے ظاہری مفہوم میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان کے مہینے میں تمام دنیا کے شیاطین علی الاطلاق (absolute sense) قید کردیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات بداہۃً (prima facie) خلاف واقعہ ہے۔کیوں کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں وہ تمام گناہ بدستور ہوتے رہتے ہیں جو سال کے دوسرے مہینوں میں ہوتے ہیں۔

اس لیے حدیث کا مفہوم قید کے ساتھ لینا ہوگا۔ یعنی یہ کہ سنسیرٹی (sincerity) کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کےلیے اللہ کی مدد آتی ہے، اور شیاطین کاان پر غلبہ نہیں ہوپاتاہے۔ یعنی جو لوگ سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھتے ہوں ان کے اندر رمضان میں گناہوں کی تحریک نہیں ہوتی یا بہت کم ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی حالت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ (15:42)۔ یعنی بیشک جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا زور نہیں چلے گا۔ سوا ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کریں۔ 

حدیث ایک دعوتی اور تربیتی کلام ہے، اور دعوتی اور تربیتی کلام میں یہی انداز زیادہ مؤثر ہے۔ منطقی اسلوب دعوت و تربیت کے لیے مؤثر نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا کہ’’جو روزہ دار پورے شرائط و آداب کے ساتھ روزہ رکھے اس کے شیاطین قید کردیے جائیں گے“ تو کلام کی تاثیر نسبتاً کم ہوجاتی۔

29اکتوبر 1985

 ایک حدیث ِ رسول ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:وَلاَ يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلاَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 647)۔یعنی ایک شخص اس وقت تک برابر نماز میں رہتا ہے جب تک وہ (مسجد میں) نماز کا منتظر رہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مسجد میں موجود رہنا ہی ثواب کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نفسیات نماز کے ساتھ نماز کے انتظار میں ہو اس کا یہ وقت بھی نماز میں شمار ہوجاتا ہے اور اس کو وہی ثواب ملتا ہے جو نماز پڑھنے والے کو ملتا ہے۔

اس طرح کی حدیثوں کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کسی پتھر کے مجسمہ یا روبوٹ کے بارے میں نہیں ہیں، بلکہ زندہ انسان کے بارے میں ہیں۔ انسان سوچتا ہے۔ وہ صاحبِ نفسیات مخلوق ہے۔ ایسا انسان جب نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو اس کا بیٹھنا سادہ قسم کا بیٹھنا نہیں ہوتا۔ وہ اگر سچا نمازی ہے تونماز کے انتظار کے وقت بھی نماز کے بارے میں سوچے گا۔ اس وقت بھی اس کا دل خدا میں لگا رہے گا۔ یہی وہ کیفیت ہے، جو اس کے انتظار نماز کے لمحات کو بھی ادائیگیٔ نماز کے لمحات میں شامل کردیتی ہے۔

30 اکتوبر 1985

عکرمہ نے روایت کیا کہ عبداللہ بن عباس نےقرآن کی سورہ الحدید آیت 23 کے تحت کہا:لَيْسَ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَهُوَ يَحْزَنُ وَيَفْرَحُ، وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ يَجْعَلُ مُصِيبَتَهُ صَبْرًا، وَغَنِيمَتَهُ شُكْرًا(تفسیر القرطبی، جلد17، صفحہ258)۔ یعنی کوئی ایسا شخص نہیں جو غم گین نہ ہوتا ہو اور خوش نہ ہوتا ہو۔ مگر مومن اپنی مصیبت کو صبر بنا لیتا ہے، اور اپنے فائدہ کو شکر بنا لیتا ہے۔

گائے کے اندر گھاس داخل ہوتی ہے تو اس کا اندرونی نظام اس کو دودھ میں تبدیل کردیتا ہے اور گھاس اس کے اندر سے دودھ بن کر نکلتی ہے۔ اسی طرح مومن کے اندر ایک خصوصی نفسیاتی نظام ہوتاہے۔ یہ نظام مصیبت کو خدا کے لیے صبر میں بدل دیتا ہے اور راحت کو خدا کے لیے شکر میں۔ اس طرح دونوں حالتیں اس کے حق میں نعمت بن جاتی ہیں۔ اس روایت میں  "یَجْعَلُ"کا لفظ بہت بامعنیٰ ہے، یعنی وہ اپنے غم کو منفی راستے پر لگانےکے بجائے صبر میں کنورٹ کرتا ہے۔

31اکتوبر 1985

قرآن میں آیا ہے:فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ ۔ وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (39:32-34)۔ یعنی پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ بولا اور اس نے سچی بات کو جھٹلایا جب کہ وہ اس کے پاس آئی۔ کیامنکروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں۔ اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کو سچ مانا وہی لوگ ڈرنے والے ہیں۔ ان کے لیے وہ ہے جو وہ چاہیں۔ یہ بدلا ہے نیکی کرنے والوںکا۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچائی کا اعتراف کرنا سب سے بڑی نیکی ہے، اور سچائی کاانکارکرنا سب سے بڑاجرم۔ سچائی کا ظہور گویا خود خدا کا ظہور ہے۔ اس لیے سچائی کو نظر انداز کرنا خدا کو نظر انداز کرنا ہے۔ایسے لوگ قیامت کے دن بالکل ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیں گے۔

جن لوگوں کے دلوں میں تقویٰ (کھٹک) ہو، ان کے سامنے جب سچائی آتی ہے تو وہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرتے ہیں۔ ان کا سنجیدہ غور وفکر انھیں یہاں تک پہنچاتا ہے کہ وہ سچائی کو پالیں اور اس کا اعتراف کرکے اس کے ساتھی بن جائیں۔

1  نومبر 1985

انسانوں میں کچھ کم صلاحیت کے لوگ ہوتے ہیں اور کچھ اعلیٰ صلاحیت کے لوگ۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا (43:32)۔ یعنی اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔

 کم تر صلاحیت کے لوگ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے پیچھے چلیں ۔ یہ صرف اعلیٰ صلاحیت کے افراد ہیں جو تاریخ بناتے ہیں۔اونچی صلاحیت کے افراد کوئی بڑا کام صرف اس وقت کر پاتے ہیں جب کہ وہ ’’صبر ‘‘ کی سطح پر کام کرنے کے لیے راضی ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔

بڑا کام کرنے کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی چھوٹا کام کرنے پر اپنے آپ کو راضی کرسکے۔ زندگی کی تعمیر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو گم نامی میں جانا پڑتاہے۔ اس کو کبھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اس کو ایسا کام کرنا پڑتا ہے جس میں اس پر بز دلی اور مصالحت کا الزام لگایا جائے۔

موجودہ زمانے میں بہت سے اعلیٰ صلاحیت کے افراد پیدا ہوئے۔ مگر ان میں سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ اس کا اپنا شخصی گنبد تو کھڑا ہوگیا مگر اس کے ذریعہ سے ملت کا محل تعمیر نہ ہوسکا۔ اس کی واحد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی حوصلہ مندی ان کے لیے ’’چھوٹا کام“ کرنے میں مانع ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص ایسے کاموں کے پیچھے دوڑتا رہا جن کو بڑے بڑے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہو— ایسا عمل صرف شخصیتیں بناتا ہے، وہ قوموں کی تعمیر نہیں کرتا۔

2 نومبر 1985

میںاکثر سوچتا تھا کہ درخت اتنے زیادہ حسین کیوں معلوم ہوتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ درخت دوسروں کی زندگی میں دخل نہیں دیتے۔ ہر درخت اپنے آپ میں جیتا ہے۔ ہر درخت اپنا رزق خود حاصل کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ دنیا سے جتنا لیتا ہے اس سے زیادہ وہ دنیا کو لوٹاتا ہے۔ وہ دنیا سے ’’مٹی اور پانی“ جیسی چیزیں لیتا ہے مگر وہ اس کو ہریالی اور پھول اور پھل کی صورت میں واپس کرتا ہے۔

انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرکے انھیں مشتعل کرتا ہے۔ وہ دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو کچھ نہ دے اور دوسروں سے ان کا سب کچھ لے لے۔یہی فرق ہے جس نے درخت کو ہر ایک کے لیے پرکشش بنا دیا ہے۔ اور انسان کو ایسا بنا دیا ہے جس میں دوسروں کے لیے کوئی کشش نہیں۔

4  نومبر 1985

ہندستانی مسلمانوں کی تقریریں اور تحریریں پڑھیے تو ایسا معلوم ہوگا گویا کہ وہی ہیں جنھوںنے ہندستان کو آزادی دلائی۔ وہی ہیں جنھوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر ہندستان کو بیرونی سیاسی قبضہ سے آزاد کیا۔ مگر آزادی کے بعد لکھنے والوں نے ہندستان کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ تاریخ آزادی ٔ ہند میںمسلمان صرف تاریخ کے فوٹ نوٹ (footnote of history) بن کر رہ گئے ہیں۔

بڑا کام وہ ہے جس کا اعتراف کرنے پر دوسرے لوگ مجبور ہوجائیں۔ جو کام ہمارے اپنے ذہنی سانچہ میں بڑاہو، اور اس سے باہر جاتے ہی وہ چھوٹا ہوجائے وہ دراصل بڑا کام تھا ہی نہیں۔

5 نومبر1985

ہر انسان کے اوپر فطرت کا ایک چوکی دار مقرر ہے، جو اس کو برائی سے روکتا ہے۔ یہ حیا اور شرم کا جذبہ ہے ۔ جس آدمی کے اندر حیا نہ رہے، اس کے اندر گویا برائی کا آخری روک باقی نہ رہا۔ حیا کے سلسلے میں دو روایتیں یہ ہیں:

قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلاَمِ النُّبُوَّةِ، إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3483)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:نبوت کے ذریعہ لوگوں کو جو بات ملی، ان میں سے ایک بات یہ ہےجب تمھارے اندر شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو۔

 علقمہ بن عُلاثہ نے سے کہا :يَا رَسُولَ اللَّهِ عِظْنِي. فَقَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- اسْتَحِ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى اسْتِحْيَاءَك مِنْ ذَوِي الْهَيْبَةِ مِنْ قَوْمِك (ادب الدنیا والدین للماوردی، صفحہ249)۔ یعنی اے خدا کے رسول! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ نے فرمایااللہ سے اس طرح حیا کرو جس طرح تم اپنی قوم کی پر ہیبت شخصیتوں سے حیا کرتے ہو۔

6 نومبر 1985

قرآن میں اہلِ جنت کے بارے میں آیا ہے کہ وہ با اقتدار بادشاہ کے پاس سچی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے ( فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِر)54:55۔

موجودہ دنیا میں آدمی جھوٹی نشستوں پر بیٹھا ہوا ہے۔ آخرت میں آدمی سچی نشستوں پر بٹھایا جائے گا۔ موجودہ دنیا میں ہر آدمی فریب اور استحصال (exploitation)کے ذریعہ اونچی جگہ پائے ہوئے ہے۔ یہاں ہم کو ایسے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا پڑتا ہے، جو اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتے کہ وہ اپنے اختیار کو صرف عدل کے دا ئرے میں استعمال کریں۔

آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کا کامل اختیار حاصل ہے۔ مگر اس نے اپنے آپ کو اس کا پابند بنا رکھا ہے کہ وہ عدل اور رحمت ہی کے دائرہ میں اپنے اعلیٰ اختیارات کو استعمال کرے ۔ اس سلسلے میں قرآن کے متعلق الفاظ یہ ہیں: كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (6:12) ۔ یعنی اس نے اپنے اوپر رحمت لکھ لی ہے۔اسی کے ساتھ وہ ایک ایسی ہستی ہے، جو اعلیٰ ترین معیاری ذوق رکھتا ہے۔ وہ پرفکٹ سے کم پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔ ایسے شہنشاہ کے پڑوس میں جگہ پانا کس قدر پر مسرت اور لذیذ ہوگا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔

اللہم انک ملک مقتدر ما تشاء من امرٍ یکونُ فاستعدنی فی الدارین وکُن بی ولا تکن علیَّ وآتنی فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنی عذاب النار  

7 نومبر 1985

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی تقریریں سنیے یا ان کی تحریریں پڑھیے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سوچ تمام تر قومی سوچ ہے۔ وہ خواہ قومی الفاظ بول رہے ہوں یا نظریاتی الفاظ، لیکن ان کی باتوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیجیے تو اس کے اندر سے صرف ’’قومی اسلام‘‘ برآمد ہوگا۔

مسلمانوں کی قومیت اور دوسروں کی قومیت میں بس یہ فرق ہے کہ دوسرے لوگوں کے پاس اپنے اجتماعی تشخص کو بتانے کے لیے اگر قوم کا لفظ ہے تو مسلمان ’’خیر امت‘‘ کا پر فخر لفظ پائے ہوئے ہیں۔ دوسرے کے پاس اگر صرف کتاب ہے تو مسلمانوں کے پاس کتاب کامل ہے۔دوسروں کے پاس اگر ’’نبی‘‘ ہے تو مسلمانوں کے پاس افضل الانبیاء ۔ دوسروں کے لیے جہنم کا خطرہ ہوسکتا ہے مگر مسلمانوں کو یہ خوش قسمتی حاصل ہے کہ ان کے لیے جنت کے بہترین محلات پیشگی طورپر رزرو (reserve) ہوچکے ہیں— آہ، وہ مسلمان جو اپنے آپ کو دینِ خداوندی میں نہ ڈھال سکے، البتہ دین خداوندی کو اپنے آپ میں ڈھال لیا۔

8 نومبر 1985

حادثہ موجودہ دنیامیںہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے۔ مگر کوئی حادثہ، خواہ وہ کتنا ہی سخت ہو، کسی آدمی کو صرف جزئی طورپر نقصان پہنچاتا ہے، وہ اس کو آخری طور پر تباہ نہیں کرتا۔

حادثہ کے بعد جو لوگ کھوئی ہوئی چیز کا غم کریں، وہ صرف اپنی بربادی میں اضافہ کرتے ہیں۔ جو لوگ حادثہ پیش آنے کے بعد بچی ہوئی چیز پر اپنی ساری توجہ لگا دیں وہ از سرِ نو کامیابی کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کھونے کے باوجود پاسکتے ہیں، بشرطیکہ آپ کھونے کے باوجود پانے کی جدوجہد کرسکیں۔

11 نومبر1985

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ سَخْبَرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أُعْطِيَ فَشَكَرَ، وابْتُلِيَ فَصَبَرَ، وَظَلَمَ فَاسْتَغْفَرَ، وَظُلِمَ فَغَفَرَ ۔ ثُمَّ سَكَتَ۔ فَقَالُوا:يَا رَسُولَ اللهِ، مَالَهُ؟ قَالَ:أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 6613)۔ یعنی صحابی رسول سخبرة الازدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاجس کو دیاگیا پھر اس نے شکر کیا، اور اس کو آزمایا گیا پھر اس نے صبر کیا، اور اس پر ظلم کیا گیا تو اس نے معاف کردیا۔ اتنا کہہ کر آپ چپ ہو گئے۔ لوگوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، ایسے شخص کے لیے کیا ہے؟ آپ نے کہا انھیں لوگوں کے لیے امن ہے، اور وہی لوگ ہدایت یاب ہیں۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أُصِيبَ بِمُصِيبَةٍ بِمَالِهِ، أَوْ فِي نَفْسِهِ، وَكَتَمَهَا، وَلَمْ يَشْكُهَا إِلَى النَّاسِ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 737)۔ یعنی ابن ِعباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاجس کے مال یا اس کے جان میں کوئی مصیبت پڑے، پھر وہ اس کو چھپا لے اور لوگوں سے ا س کی شکایت نہ کرے تو اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اس کو بخش دے۔

12 نومبر 1985

امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن (Thomas Jefferson, 1743-1826) کا قول ہے کہ تمام صفات میں سب سے قیمتی صفت یہ ہے کہ جہاں ایک لفظ بولنے سے کام چل جاتا ہو وہاں آدمی کبھی دو لفظ استعمال نہ کرے:

The most valuable of all talents is that of never using two words when one will do.

        ایک شخص بہت لمبی لمبی تقریریں کرتا تھا۔ اس سے کہا گیا کہ تم مختصر تقریر کیوں نہیں کرتے۔ اس نے جواب دیامختصر تقریر کرنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں۔

لمبی تقریر کرنے والا بس کھڑا ہو کر بولنا شروع کردیتا ہے، اس کو کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ مگر جب مختصر وقت میں پوری بات کہنی ہو تو مقرر کو تقریر سے پہلے کافی سوچنا پڑے گا۔ وہ مختلف خیالات اور معلومات کو پہلے اپنے اندر ہضم کرے گا۔ پھر ایک سوچی سمجھی تیار شدہ تقریر کرے گا۔ ایسی مختصر تقریر کے لیے ہمیشہ لمبی تقریر سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

13 نومبر 1985

شیطان کی شیطانی سے بچنا ممکن ہے، مگر انسان کی شیطانی سے بچنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ شیطان صرف بہکاتا ہے مگر انسان عملی طور پر آپ کے اوپر حملہ آور ہوتا ہے۔ شیطان صوتی کثافت (noise pollution) پیدا نہیں کرتا، جب کہ انسان لاؤڈاسپیکر لگا کر شور کرتا ہے، اور آپ کے سکون کو درہم برہم کردیتا ہے۔ شیطان آپ کے اثاثہ پر قبضہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، جب کہ انسان آپ کے اثاثہ پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، اور آپ کو جھگڑے اور مقدمات میں الجھا کر آپ کے سارے تعمیری منصوبہ کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ ابلیس ’’بے سلطان‘‘شیطان ہے۔ مگر انسان وہ شیطان ہے، جس کو وقتی طورپر سلطان بھی دے دیا گیاہے۔

14 نومبر 1985

دنیا میں آدمی کو بہت سی چیزیں حاصل ہیں— اس کا اپنا وجود، اس کا گھر اور جائداد، اس کے دوست اور رشتہ دار، اور دوسرے اسباب اور سامان، وغیرہ۔

یہ جو کچھ انسان کو موجودہ دنیا میں حاصل ہے، ان کے بارے میں دو نقطۂ نظر ہوسکتے ہیں— ایک یہ کہ یہ سب چیزیں ہماری ہیں، ہم ان کے مالک ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم ان میں سے کسی چیز کے خود مالک نہیں۔ ہر چیز خدا کی ہے۔ جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ سامانِ امتحان کے طورپر ہے، نہ کہ سامانِ ملکیت کے طورپر۔

پہلا ذہن ناشکری کا ذہن ہے، اور دوسرا ذہن شکر گزاری کا ذہن۔ پہلے ذہن کے تحت جو زندگی بنتی ہے، اس کا نام کفر ہے، اور دوسرے ذہن کے تحت جو زندگی بنتی ہے، اس کا نام اسلام ہے۔ پہلے ذہن کے تحت زندگی گزارنے والے کے لیے جہنم ہے، اور دوسرے ذہن کے تحت زندگی گزارنے والے کے لیے جنت۔

15 نومبر 1985

 ظن (گمان)کا مطلب ہوتا ہے کسی کے بارے میں کوئی خاص رائے رکھنا، ذہن میں کسی کے بارے میں  کوئی امیج بنانا، خواہ وہ اچھا ہو یا برا :

To have a particular opinion about something or someone, to have a picture in the mind.

انسان کو اپنے خالق کے بارے میں اچھاگمان رکھنا چاہیے۔ اس تعلق سے مختلف احادیث میں رہنمائی کی گئی ہے۔ مثلاً ایک حدیثِ رسول یہ ہے:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2675، مسند احمد، حدیث نمبر 10782)۔ یعنی  ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میںاپنے بارے میں بندے کے گمان کے پاس ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتاہے۔

دوسری روایتوں میں کچھ مختلف الفاظ آئے ہیں۔ چند الفاظ یہ ہیں:

(1) أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ (مسند احمد، حدیث نمبر 16016) ۔ یعنی میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔ پس وہ جیسا چاہے میرے بارے میں گمان کرے۔

(2) أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2675) ۔ یعنی میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کے مطابق ہوں، اور میں اس کے ساتھ ہوں، جب وہ مجھ کو پکارے۔

(3)  أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنَّ ظَنَّ خَيْرًا فَخَيْرٌ، وَإِنَّ ظَنَّ شَرًّا فَشَرٌّ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 401) ۔ یعنی میں اپنے بارے میں بندے کے گمان کےپاس ہوں۔ اگر اس نے اچھا گمان کیا تو خیر ہے، اور اگر اس نے برا گما ن کیا تو برا ہے۔

16 نومبر 1985

حضرت بریدہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا:اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، قَالَ:فَقَالَ:وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3475) ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کیوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے، بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، اور کوئی اس کے برابر کا نہیں ۔یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آدمی نے اللہ کا ایک بہت بڑا نام (اسم اعظم) لے کر دعا کی ہے۔ یہ نام لے کر جب سوال کیا جائے تو وہ پورا کیا جاتا ہے اور جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔

اس حدیث کے مطابق لوگوں کو تلاش ہوئی کہ خدا کا ’’اسم اعظم‘‘ کیا ہے۔ اس تلاش میں بہت سی دوسری روایتیں بھی ملیں جن میں یہی بات کہی گئی تھی۔ مگر ان روایتوں میں دوسرے ایسے اسماء تھے جو اس حدیث میں نہیں ہیں۔ البتہ لفظ ’اللہ‘ تمام روایتوں میں مشترک تھا، اس سے یہ استدلال  (reasoning)قائم کرلیا گیا کہ اللہ ہی اسم اعظم ہے (أَنَّ لَفْظَ اللَّهِ مَذْكُورٌ فِي الْكُلِّ فَيُسْتَدَلُّ بِذَلِكَ عَلَى أَنَّهُ الِاسْمُ الْأَعْظَمُ)تحفۃ الاحوذی، جلد9، صفحہ 313۔

اس استنباط (inference)کے مطابق لوگ ’’اللہ‘‘ کو اسم اعظم سمجھ کر اس کا وِرد کرنے لگے۔ مگر حدیث کا یہ مطلب نہیں۔ حدیث میں لفظ ’’اسم‘‘ صفت کے معنی میں ہے اس سے مراد کوئی خاص لفظ نہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جب آدمی اللہ کی صفات عالیہ کو دریافت کرتا ہے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے بے تابانہ خدا کو پکارتا ہے تو ایسی پکار ضرور قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔

18 نومبر 1985

ایک انسان جب گاڑی کو چلاتا ہے تو اس کا نام بھی چلنا ہے، اور اگر گاڑی کا انجن چلا کر اسے چھوڑ دیں تب بھی وہ دوڑے گی اور اس کو بھی چلنا کہا جائے گا۔ مگر حقیقت میں چلنا وہی ہے جب کہ انسان گاڑی کو چلا رہا ہو(یا ایسی گاڑی ہو جو آٹو پائلٹ (autopilot) سسٹم سے لیس ہو، جس کو سیلف ڈرائیونگ کار کہا جاتا ہے)۔ کیوں کہ انسان گاڑی کو چلانے کے ساتھ اس کو روکنا بھی جانتا ہے۔ وہ آگے بڑھانے کے ساتھ اس کوموڑنا بھی جانتا ہے۔ جب کہ ڈرائیور کے بغیر جوگاڑی ہو وہ صرف سیدھی دوڑتی رہے گی، یہاں تک کہ کہیں ٹکرا کر ختم ہوجائے گی۔

یہی معاملہ زندگی کے سفر کا ہے۔ زندگی میں کبھی بولنا ضروری ہوتا ہے اور کبھی چپ رہنا۔ کبھی ضرورت ہوتی ہے کہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف ہٹ جائیں۔ کبھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنی شرطوں پر اصرار نہ کیا جائے بلکہ دشمن کی شرطوں کو مان لیا جائے۔

زندہ لوگ باڈرائیور گاڑی کی طرح ہیں اور مردہ لوگ بے ڈرائیور گاڑی کی طرح۔ اس دنیا میں صرف زندہ لوگوں کا سفر کامیابی پر ختم ہوتا ہے۔ مردہ لوگوں کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ یک طرفہ طورپر دوڑتے رہیں، یہاں تک کہ کسی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہوجائیں۔

19 نومبر1985

پیغمبر اسلام کے حوالے سےقرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ۔ وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ (6:52-53)۔ یعنی اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کرو جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں، اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بوجھ تم پر نہیں اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بوجھ ان پر نہیں کہ تم ان کو اپنے سے دور کرکے بےانصافوں میں سے ہوجاؤ، اور اس طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے سے آزمایا ہے تاکہ وہ کہیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل ہواہے۔ کیا اللہ شکر گزاروں سے خوب واقف نہیں۔

حق کے حامل اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہر کے اعتبار سے کوئی امتیازی اہمیت نہیں رکھتے۔نیز بے آمیز حق کو اختیار کرتے ہی آدمی نیشنل مین اسٹریم سے نکل جاتاہے۔ یہ چیز بھی اس کو لوگوں کی نظر میں غیر اہم بنادیتی ہے۔ مگر یہ صورت حال باقی رہے گی یہاںتک کہ قیامت آجائے۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہی اصل امتحان ہے کہ آدمی غیب (چھپی ہوئی حقیقتوں) کو پہچانے ۔ وہ کسی سچائی لانے والے انسان کو جوہر (خوبی) کی سطح پر پہچانے، نہ کہ محض ظاہر کی سطح پر۔

20 نومبر 1985

 عبد الرحمٰن بن عبدالقاری تابعی (وفات 80ھ) کہتے ہیں کہ میں رمضان کی ایک رات خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد گیا۔ اس وقت لوگ مختلف حالتوں میں (نماز اداکررہے) تھے۔ کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی چند آدمیوں کے ساتھ ۔ حضرت عمر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام پر جمع کردوں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ پھرمشورہ کرکے آپ نے ابی بن کعب کو ان کا امام بنا دیا۔ دوسری رات کو دوبارہ جب میں حضرت عمر کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے (یہ دیکھ کر) کہا:کیسی اچھی ہے یہ بدعت (نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِه) ۔ صحیح البخاری،حدیث نمبر 2010۔

بدعت اسلام میں بری چیز ہے، جب کہ حضرت عمر نے یہاں اس کو اچھا بتایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بدعت کے لفظ سے اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے۔ یہاں یہ اپنے لفظی معنی میں ہے، نہ کہ شرعی اصطلاح کے معنی میں۔

یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے تفصیلی اور جامع علم بہت ضروری ہوتا ہے۔ جس شخص نے صرف مساجد کے وعظ میں ’’بدعت“ کا لفظ سنا ہو وہ اس حدیث کو صحیح طور پرسمجھ نہیں سکتا۔ اس حدیث میں ’’بدعت“ کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس کے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اس کے لفظی مفہوم کو بھی جانتا ہو۔ صرف ایک مفہوم کو جاننا حدیث کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں۔ یہی اصول زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی چسپاں ہوتا ہے۔

21  نومبر 1985

قرآن میں مختلف مقام پر بتایا گیا ہے کہ اسرائیل جب مصرمیں آباد تھے تو مصر کا بادشاہ ان کے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ (دیکھیے2:49 ؛ 7:141 ؛  14:6)۔

ان آیات میں الفاظ بالکل عام ہیں۔ بظاہر ان کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے تمام لڑکوں کو قتل کروا دیا کرتاتھا۔ مگر ایسا نہیں۔ کیوں کہ اگر وہ تمام لڑکوں کو قتل کرتا تو بنی اسرائیل کی نسل ہی مٹ جاتی۔ اصل یہ ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے سربرآوردہ خاندان کے لڑکوں کو قتل کرواتا تھا۔ یا ایسے جوانوں کو قتل کروادیتا تھا، جن کے اندر اسے قیادت کی صلاحیت نظر آتی تھی۔

بنی اسرائیل چوں کہ حضرت یوسف کے زمانے میں حکمراں گروہ کی حیثیت رکھتے تھے، اس لیے وہ ان سے سیاسی خطرہ محسوس کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کے اندر ایسے اعلیٰ افراد نہ ابھریں جو دوبارہ اپنی قوم کو منظم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے عمومی انداز میں اس فعل کی غیر معمولی شدت ظاہر کرنے کے لیے اختیار فرمایا۔ یہی دعوت کا اسلوب ہے۔ جو لوگ اس راز کو نہ سمجھیں، وہ بہت سے گہرے معانی کو پانے سے محروم رہ جائیں گے۔

22  نومبر 1985

قرآن میں اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ اس دن کی مصیبت سے ڈرتے ہیں جو ہر طرف پھیل پڑے گی۔ وہ اللہ کی محبت میں محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلاتے ہیں۔ (اور یہ کہتے ہیں) کہ ہم جو تم کو کھلاتے ہیں تو صرف اللہ کی خوشی چاہنے کے لیے کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے نہ بدلا چاہتے ہیں، اور نہ شکر گزاری۔ ہم اپنے رب سے ایک ایسے دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جو بڑی اداسی والا اور سختی والا ہوگا(76:7-10)۔ان آيات کو پڑھ کر ایک صاحب نے کہا کہ ایسے موقع پر یہ الفاظ عربی میں کہنا چاہیے یا اس کو اپنی زبان میں بھی کہا جاسکتا ہے۔

میں نے کہا کہ آپ اس آیت کا مطلب نہیں سمجھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کسی حاجت مند کی مدد کی جائے تو اس وقت زبان سے یہ الفاظ دہرائے جاتے رہیں۔ اس سے مراد الفاظ نہیں بلکہ احساسات ہیں۔ یعنی جب کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے تو آدمی کے دل میں یہ احساس طاری ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان الفاظ کو یاد کرلے اور ہر ایسے موقع پر ان الفاظ کو دہرادیا کرے۔ کبھی زبان سے کچھ الفاظ بھی نکل پڑتے ہیں، مگر اصلاً یہاں جس چیز کا ذکر ہے وہ احساسات ہی ہیں۔

23  نومبر 1985

قرآن میں ایک سے زیادہ مقام پر یہ بات کہی گئی ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے ( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ )26:196۔

اس قسم کی آیات کے تحت یہ بحث چھڑ گئی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیوں کہ قرآن میں بہت سے الفاظ غیر عربی ہیں۔ کسی نے کہا کہ قرآن میں 27 الفاظ غیر عربی ہیں۔ کسی نے اس کی گنتی 60 تک پہنچا دی۔ مثلاً حسب ذیل الفاظ:

سَلْسَبِيل، كَوْثَر، سِجِّيل، كَافُور، قَرَاطِيس، رَقّ، مِشْكَاة، سُرَادِق، سُنْدُس، إِسْتَبْرَق،قَسْوَرَة، فِرْدَوْس، تَّنُّورُ ، زَنْجَبِيل، عَبْقَرِيّ ِ، وغیرہ۔

علما کی بڑی تعداد اس طرف گئی کہ جب قرآن کا یہ دعوی ہے کہ وہ عربی زبان میں ہے تو اس میں غیر عربی الفاظ نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ مذکورہ قسم کے فارسی، رومی، حبشی، نبطی، ہندی وغیرہ الفاظ کی موجودگی کی عجیب عجیب تاویلیں کی گئیں۔ مثلاً کہا گیا کہ یہ الفاظ اصلاً عربی ہی کے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ عربی زبان سے مخفی ہوگئے۔ پھر قرآن نے دوبارہ ان کو عربی میں داخل کیا۔

یہ سب غیر ضروری تاویلات ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ زبان وہی رہتی ہے۔ مثلام ٹامس پائلز (Thomas Pyles) کی ایک کتاب ہے جس میں اس نے انگریزی زبان کے آغاز و ارتقا سے بحث کی ہے۔ اس کا نام ہے:

The Origins and Development of the English Language

اس کتاب میں اس نے ہندی، لاتینی، فرانسیسی، روسی، جرمن وغیرہ زبان کے بہت سے الفاظ کی فہرست دی ہے جو انگریزی میں مستعمل ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ الفاظ اگرچہ ابتدا میں دوسری زبانوں کے تھے۔ مگر جب وہ انگریزی میں شامل ہوگئے تو وہ انگریزی ہوگئے، اور انگریزی پھر بھی انگریزی رہی:

But English remains English.

25  نومبر 1985

ایک شاعر کا شعر ہے:

ابھی بھولے نہیں ہم خالد و طارق کے افسانے              فتوحاتِ صلاح الدین ابھی روشن ہے دنیا میں

اس قسم کے اشعار اور اس قسم کی تقریروں اور تحریروں سے ہماری جدید تاریخ بھری ہوئی ہے۔ ہر آدمی جو اٹھتا ہے وہ یہیں سے اپنے کلام کا آغاز کرتا ہے کہ — ہم نے ایک ہزار برس تک دنیا پر حکومت کی ہے— ہم نے روم و ایران کی سلطنتوں کے پر خچے اڑا دئے۔ ہم نے ہندوستان سے لے کر فرانس تک اسلامی اقتدار کا جھنڈا گاڑ دیا، وغیرہ وغیرہ۔

موجودہ زمانہ میں تمام دنیا کے مسلمانوں کا ذہن یہی ہے۔ آج کا ہر شخص اس اسلامی تاریخ کو بطور اسلام جانتا ہے، جس نے فتح وغلبہ حاصل کیا۔کوئی بھی شخص نہیں جو اس اسلام سے واقف ہو جس نے اقوام عالم کو دعوت و رحمت کا مخاطب بنایا۔ جس نے مکہ میں ہر قسم کے مظالم کے باوجود صبر واعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ جو حدیبیہ کے موقع پر پسپائی کی پالیسی اختیار کرنے پر راضی ہوگیا۔ جس نے خانہ کعبہ میں سیکڑوں بت دیکھے مگر اس کو برداشت کرتا رہا۔ تاکہ وہ انسانوں کو خدا کا پیغام سنا سکے۔

یہ صورت ِ حال نہایت تشویش ناک ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان گزری ہوئی تاریخ میں اٹکے ہوئے ہیں، وہ زندہ خدا کو پانے میں ناکام رہے۔ ان کے پاس ’’حال‘‘ کا کوئی سرمایہ نہیں، وہ صرف ’’ماضی‘‘ کی یادوں کے بل پر جی رہے ہیں۔

26  نومبر 1985

المنجد ایک مشہور عربی لغت ہے۔ اس کو ایک عیسائی عالم لویس معلوف (1867-1946) نے تیار کیا ہے۔ اس کو موجودہ زمانے میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ حتی کہ وہ عربی مدارس اور اسلامی اداروں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لغت بن گیا۔

اس لغت میں متعدد مقامات پر عیسائی ذہن کی ترجمانی ہے۔ مثلاً ایک عربی لفظ ’’الطلقاء‘‘ ہے۔ یہ طلق کی جمع ہے۔ اس کے معنی آزاد کے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ِمکہ کے بعد وہاں کے مشرکین سے فرمایا تھا:اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاء (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 412)۔ یعنی جاؤ، تم سب آزاد ہو۔

یہ وہ لوگ تھے، جنھوں نے پیغمبر اسلام کو اپنے وطن سے نکالا تھا، اور آپ کے خلاف بار بار لڑائیاں چھیڑیں تھیں۔ عام رواج کے مطابق، بلاشبہ وہ لوگ جنگی مجرم (prisoners of war) تھے۔ لیکن جب پیغمبر اسلام نےان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ ان کو پورے طور پر آزاد کردیا۔ یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔یہ سلوک دیکھ کر وہ لوگ بہت متاثر ہوئے۔اس کے بعد مکہ کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔

مگر المنجد میں الطُّلَقَاءکا مفہوم ان الفاظ میں دیاگیا ہے:

الذین اُدخلوا فی الاسلام کُرہاً (وہ لوگ جو اسلام میں زبردستی داخل کیے گئے)۔

ظاہر ہے کہ الطُّلَقَاء کا یہ مفہوم اس کے اصل مفہوم کا بالکل الٹا ہے۔ اس طرح کی اور بھی غلطیاں المنجد میں پائی جاتی ہیں۔ مگر مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں عربی کا کوئی ایسا لغت تیار نہیںکیا جو المنجد کی جگہ لے سکے۔ اس لیے ان غلطیوں کے باوجود عملاً اس کا رواج ہے۔ یہی معاملہ موجودہ زمانے میں لغت کے علاوہ دوسرے علوم کا بھی ہوا ہے۔

27  نومبر1985

حدیث میں ہے مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ پورا ہوگا۔

دوسری حدیث ہے:لَا يجْتَمع مَاء زَمْزَم ونار جَهَنَّم فِي جَوف عبد أبدا(الفردوس بماثور الخطاب، حدیث نمبر 7799)۔ یعنی زمزم کا پانی اور دوزخ کی آگ ایک انسان کے پیٹ میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔

اس بنیاد پر فقہا نے زمزم کے آداب مقرر کیے ہیں۔ فتاوی عالم گیری میں ہے کہ زمزم کا پانی خود اپنے ہاتھ سے نکالا جائے اور قبلہ کی جانب رخ کرکے خوب سیر ہو کر پیا جائے اور ہر سانس پر نظر اٹھا کر بیت اللہ کو دیکھے اور بچا ہوا پانی اپنے منھ اور جسم پر مل لیا جائے اور ہوسکے تو کچھ اپنے جسم پر بھی ڈال لے۔ مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں ہر چیز کو ’’مسئلہ‘‘ بنادیا۔ حتی کہ زمزم پینے کو بھی۔  زمزم کے مسائل اس سے بھی زیادہ ہیں جتنا اوپر نقل ہوئے۔

29 نومبر 1985

ہر شخص یا ہر قوم کی زندگی میں ایسی کوئی چیز ہوتی ہے، جس کو وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہر دوسری چیز اس کے ماتحت ہوتی ہے۔ ہر دوسری چیز کے بارے میں اپنے رویہ کا فیصلہ اس کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔موجودہ زمانے میں تمام قوموں کا حال یہ ہے کہ ان کے لیے ان کا قومی مفاد (نیشنل انٹرسٹ) سپریم بنا ہوا ہے۔ ہر دوسری چیز نیچے ہے، اور قومی مفاد ہر چیز کے اوپر۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی حالت بھی ہے۔ انھوں نے بھی اپنے قومی مفاد کو اپنی زندگی میں سب سے اونچا مقام دے دیا ہے۔

مسلمان اگر چہ اس کے لیے اسلامی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً دوسرے لوگ اگر قومی مفاد کا لفظ بولتے ہیں تو مسلمان ملی مفاد کا لفظ بولتے ہیں۔ دوسروں کے پاس اگر قومی غیرت کا لفظ ہے تو مسلمانوں کواسلامی حمیت اور دینی غیرت کا لفظ ملا ہوا ہے۔ دوسرے لوگ جس کو قومی لڑائی کہتے ہیں اس کو مسلمانوں نے مقدس جہاد کا نام دے رکھا ہے۔

مگر اس سے اصل واقعہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسلامی الفاظ بولنے سے مسلمانوں کی قوم پرستی خدا پرستی نہیں بن جائے گی۔ اہل ایمان کے لیےجو چیز سب سے زیادہ اہم ہونی چاہیے وہ خدا کی معرفت اور دعوت ہے۔

30 نومبر 1985

تقریر یا تحریر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اندر وضوح (clarity) ہو، یعنی اُس کو سننے یا پڑھنے کے بعد مقرر یا محرر کا مدعا بلا اشتباہ سمجھ میں آجائے۔ جب آدمی کو گہری دریافت نہ ہو تو اس کے کلام میں کلیرٹی نہیں پائی جائے گی، وہ کبھی ایک بات کرے گا، اور کبھی اس کے خلاف بات۔مثال کے طور پر انور صابری (1901-1985)کا ایک شعر ہے:

تم شور وہنگامہ نہ بنو بن جاؤ رات کا سناٹا                    جو بڑھتے بڑھتے بڑھتا ہے اور دنیا پر چھا جاتا ہے

بظاہر اس شعر کے اندر ایک گہری بات کہی گئی ہے۔ مگر کوئی گہری بات اسی وقت مفید ہوتی ہے جب کہ وہ گہرے شعور کے تحت نکلی ہو۔ انور صابری کے کلام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کا یہ شعر محض شاعرانہ جذبات کے تحت نکلا ہے، نہ کہ فی الواقع کسی گہری دریافت کے تحت۔ چنانچہ ایک طرف انھوں نے مذکورہ بالا شعر کہاہے اور دوسری طرف شور وغل والے اشعار بھی کثرت سے ان کے یہاں موجود ہیںمثلاً:

تمنا ہے کہ دنیا سے غلامی کو بدل ڈالوں                   شہنشاہوں کا سر پائے بغاوت سے کچل ڈالوں

یہی حال موجودہ زمانہ کے بہت سے مسلم رہنماؤں کا ہے۔ بعض اوقات ان کی تقریر یا تحریر میں کوئی گہری، سنجیدہ بات بھی دکھائی دیتی ہے۔ مگر یہ محض وقتی اور سطحی بات ہوتی ہے۔ وہ ان کی معرفت سے نکلی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جگہ اگر صبر کا لفظ بولتے ہیں تو دوسری جگہ جذبات بھڑکانے کا کام کرنے لگتے ہیں۔ ایک جگہ تعمیر خویش کی بات کہتے ہیں تو دوسری جگہ تخریب غیر پر پرجوش کلام کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں۔ شاعرانہ کلام میں تضاد (contradiction)ہوتا ہے، اور معرفت والے کلام میں ہم آہنگی۔

2دسمبر 1985

ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کا موضوع تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا دین کیا ہے اور صحابہ کرام کا دین کیا تھا۔

میںنے کہا کہ، ایک لفظ میں، ہمارا اور صحابہ کرام کا فرق یہ ہے کہ ہم نفرتِ اقوام پر کھڑے ہوئے ہیں اور صحابہ کرام محبتِ اقوام پر کھڑے ہوئے تھے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے وہ تمام فرق پیداکردیا ہے جو ہمارے اور صحابہ کے درمیان پایا جاتاہے۔

3 دسمبر 1985

ایک نوجوان نے گفتگو کے دوران اپنی شادی کا ذکر کیا۔ انھوںنے کہا کہ میری شادی میرے ماں باپ نے کردی ،مگر میری جو بیوی ہے، وہ مجھ کو پسند نہیں۔

میںنے کہا کہ سب سے زیادہ پسندیدہ شادی وہ ہے، جو ناپسندیدہ شادی ہو۔ میں نے کہا کہ میرے اس قول کو آپ لکھ لیجیے اور اس کو 20 برس بعد دیکھیے گا۔ کیوں کہ ان الفاظ کی معنویت کو آپ آج سمجھ نہیں سکتے۔ اس کی معنویت آپ کی سمجھ میں اس وقت آئے گی جب کہ میری طرح آپ کے بال سفید ہوچکے ہوں گے۔

4 دسمبر 1985

ایک صاحب سے ہندستان کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ ہندو ایک مظاہر پرست قوم ہے۔ وہ ہر نمایاں چیز کے آگے عقیدت سے جھک جاتی ہے، خواہ وہ پیپل کا درخت ہو یا ہمالیہ پہاڑ، یا اور کوئی نمایاں چیز۔ اپنے اس مزاج کی وجہ سے ہندو قوم بہت جلد کسی کی عقیدت مند ہوجاتی ہے۔آپ کوئی اعلیٰ اخلاقی سلوک کریں۔ کسی برتر انسانی معاملہ کا ثبوت دیں تو ہندو فوراً جھک جائے گا۔ وہ کہے گا کہ آپ تو دیوتا ہیں۔ میں نے اس سلسلہ میں کئی واقعاتی مثالیں دیں۔

5  دسمبر 1985

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت ام ہانی کے گھر گئے۔ پوچھا کہ کچھ کھانے کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا کہ سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا اورسرکہ ہے( كِسَرٌ يَابِسَةٌ وَخَلّ)۔ آپ نے فرمایاجس گھر میں سرکہ ہو اس کوسالن کے معاملے میں غریب نہیں کہا جاسکتا (فَمَا أَقْفَرَ بَيْتٌ مِنْ أُدْمٍ فِيهِ خَلٌّ)سنن الترمذی، حدیث نمبر 1841۔ اس کے بعد آپ نے سرکہ اور روٹی نہایت شوق کے ساتھ کھایا۔

اسی طرح مختلف روایتوں میں مختلف کھانوں کے بارے میں آپ کی پسندیدگی کا ذکر ہے— مثلاً سرکہ، شہد، روغن زیتون، حلوہ، کدو، گوشت، ککڑی، لوکی، کھچڑی، دودھ، مکھن، کھجور، وغیرہ۔

اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ آپ کے پسندیدہ کھانوں کی فہرست میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جو اس وقت کے مدینہ میں رائج تھیں۔ اگر اس سلسلہ کی مختلف روایتوں کو جمع کیا جائے تو رائج کھانوں میں سے کوئی بھی چیز نہیں بچے گی، جو آپ کے مرغوب کھانے کی فہرست میں شامل نہ ہو۔

پھر اگر آپ کو ہر کھانا پسند تھا تو وہ کون سا کھانا ہے جو آپ کو پسند نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ کا معاملہ ہی نہیں۔ آپ کے اس قسم کے تمام کلمات میزبانوں کی حوصلہ افزائی کے کلمات ہیں۔ اس وقت مدینہ میں کھانے کے سامان کی کمی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جہاںآپ جاتے اس کے یہاں کوئی ایک سالن ہوتا تھا۔ میزبان شرمندگی کے ساتھ ’’جو کھانا موجود ہو‘‘، وہ لے آتا۔ آپ شرافت کے تقاضے کے تحت فرماتے کہ یہ تو بہترین کھانا ہے، اور پھر شوق سے اس کو کھانے لگتے۔ اس طرح کے تمام کلمات میزبان کی حوصلہ افزائی کے کلمات ہیں، نہ کہ کھانے کے بارے میں اپنی پسندیدگی بتانے کے کلمات۔

6دسمبر1985

عربی زبان کی باریکیوں سے ایک انسان واقف نہ ہو تو کیسی کیسی غلطی کرسکتا ہے، اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہےوَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (3:182)۔ یعنی اور اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ناانصافی کرنے والا نہیں۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ خدا زیادہ بڑا ظالم نہیں، یعنی وہ چھوٹے درجہ کا ظلم کرسکتاہے۔ البتہ وہ بڑے درجہ کا ظلم کرنے والا نہیں۔ کیوں کہ آیت میں  ظلام کا لفظ آیا ہوا ہے، جس کا لفظی مطلب ہے بہت ظلم کرنے والا۔

مگر آیت کا یہ مطلب نہیں۔ نحو (عربی گریمر)کا یہ اصول  ہے کہ نفی (negative)کے بعد جب مبالغہ آتا ہے تو سارا زور نفی (انکارِ عمل)کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں، نہ یہ کہ اللہ بڑا ظلم کرنے والا نہیں۔

7 دسمبر 1985

ایک صاحب کے خط کا جواب دیتے ہوئے یہ چند سطریں لکھیںاللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قیمت کیفیت (quality)کی ہے، نہ کہ کمیت (quantity) کی۔ زندگی کے چند لمحات بھی اگر اللہ كي معرفت میں گزر جائیں تو ،ان شاء اللہ، آخرت میں بھی اللہ کا پڑوس نصیب ہوگا، اور اللہ کے پڑوس ہی کا دوسرا نام جنت ہے(التحریم،66:11)۔

9  دسمبر 1985

الرسالہ میں فرقہ وارانہ فساد کے مسئلہ پر جب تبصرہ کیا جاتا ہے تو یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کی کوتاہی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے کہا کہ یہ انداز انصاف کے خلاف ہے۔ آپ کو دونوں طرف کی غلطیاں اور کوتاہیاں بتانا چاہیے۔

میں نے کہا کہ ظاہری اعتبار سے دیکھنے میںآپ کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر اصلاح اور تربیت کے اعتبار سے یہ غیر مفید بلکہ نقصان دہ ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ پچاس فی صد اور پچاس فی صد کا معاملہ ہے۔ یعنی نصف غلطی ایک فریق کی ہے اور نصف غلطی دوسرے فریق کی ہے ، تو اس طرح فوکس بدل جائے گا۔ مسلمان 50  فی صد یا اس سے کم ہی اپنی کوتاہیوں پر اپنا دھیان جما سکیں گے۔ اس لیے داعی اور مصلح یہ کرتا ہے کہ وہ صرف ایک ہی فریق کی کوتاہیوں کو بیان کرتا ہے تاکہ فوکس نہ بدلے اور اس کی ساری توجہ اپنے احتساب اوراصلاح پر لگ جائے۔

قرآن کا طریقہ یہی ہے۔ چنانچہ وہ فریقِ ثانی کی سازشوں اور مظالم کو غیر مذکور چھوڑ کر صرف مسلمانوں کی کوتاہیوں پر انھیں توجہ دلاتا ہے جس کی ایک مثال احد(3:155) اور حنین (9:25) کے بارے میں قرآن کا تبصرہ ہے۔

10  دسمبر 1985

جب بھی کوئی اقدام کیا جائے تو ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ نتیجہ خیز (productive) ہے یا نہیں۔ اقدام ہمیشہ کسی نتیجہ کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ محض اقدام برائے اقدام۔

بے فائدہ اقدام نہ کرنا بھی ایک مفید عمل ہے۔ کیوںکہ اس سے قوتیں محفوظ رہتی ہیں اور اس کا امکان باقی رہتا ہے کہ وہ کسی نتیجہ خیز منصوبہ میںاستعمال ہوسکیں۔

انسان ہمیشہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب تخریبی کارروائیاں بند ہوتی ہیں اس وقت تعمیری سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ غلط اقدامات کی طرف دوڑانے والے لیڈر اگر خاموش بیٹھے رہیں تب بھی وہ ایک فائدہ پہنچائیں گے۔ وہ قوم کو غلط رخ پر نہ دوڑا کر اسے موقع دیںگے کہ وہ اپنی فطرت کے زور پر مفید اور صالح رخ پر اپنا سفر جاری کرسکے۔

11 دسمبر 1985

خیر الدین پاشا بار بروسہ (Hayreddin Barbarossa, b. 1466)  سمندری جہاز رانی کا بہت بڑا ماہر تھا اور نہایت بہادر آدمی تھا۔ اس کو امیر البحر کہا جاتا تھا۔ سولھویں صدی عیسوی میں ترکی کے عثمانی سلطنت کے بحری بیڑے کو جو عظمت حاصل ہوئی اس کا اصل ہیرو یہی شخص تھا۔ کہاجاتاہے کہ خیر الدین باربروسہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا امیر البحر تھا۔اس کی مہارت اور بہادرانہ کارروائیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق سے مغرب تک ترکی بیڑے کا راج قائم ہوگیا۔

خیر الدین باربروسہ نے تقریباً اسّی سال کی عمر میں جولائی 1546 میں وفات پائی۔اس کو بشک طاشی (Beşiktaş) میں دفن کیاگیا۔ اس کی قبر پر جوکتبہ لگاہواہے اس میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں— مات امیر البحر

یعنی وہ شخص جو امیر بحر تھا اس کا انتقال ہوگیا۔ یہ ایک واقعی بیان ہے۔ یہ چار سو سال پہلے مسلمانوں کا حال تھا۔ آج کوئی مسلمان مرے تو اس کی قبر پر لکھنے کے لیے اس قسم کے واقعی الفاظ کسی کو نہیں ملیں گے۔بلکہ وہ غیر واقعی قصیدہ خوانی کریں گے، اورکہیں گے کہ مثلاً امیر فضا اس دنیا سے چلا گیا۔ اگرچہ وہ حقیقت کے اعتبار سے ویسا نہ ہو۔ کتنا فرق ہے مسلمانوں کے حال میں اور مسلمانوں کے ماضی میں۔

12 دسمبر 1985

اردو زبان ایک لٹریری زبان کی حیثیت سے مغل دور میں دہلی کے آس پاس علاقے میں ظاہر ہوئی۔ 1835 میں جب فارسی بطور آفیشیل لینگویج کے ختم ہوگئی تو اس کے بعد اردو نے تیزی سے ترقی کرنا شروع کیا۔

یہ زمانہ اتفاق سے وہی ہے، جب کہ دوسری قوموں نے مسلمانوں سے ان کا  pride  چھینا تھا، اوروہ ان سے لڑنے بھڑنے میں مصروف تھے۔ قدرتی طور پر اس صورتِ حال کا reflection  اردو زبان پر ہوا۔ اردو زبان ’’ٹکراؤ‘‘ کی زبان بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان میںکنفرنٹیشن (confrontation) کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے بے شمار الفاظ ہیں مگر ایڈجسٹمنٹ (adjustment) کے مفہوم کو بتانے کے لیے کوئی ایک بھی با معنی لفظ نہیں۔

آدمی الفاظ کے ذریعے سوچتا ہے۔ جس زبان میں سوچنے کے لیے adjustment کے ہم معنی لفظ ہی نہ ہو، وہ کیوں کر زیادہ صحت کے ساتھ adjustment کی پالیسی پر غور کرسکتا ہے۔ اردو اسپیکنگ کمیونٹی کی یہی بنیادی کمزوری ہے، جس کی بنا پر وہ ہر جگہ اپنے پڑوسیوں سے لڑ رہے ہیں، خواہ وہ پڑوسی مسلم ہوں یا غیر مسلم۔

13 دسمبر 1985

)مَنْ یُوصَفُ بِالخَلِیفۃ(

اسلام میں خلیفہ کے تقرر کا کوئی ایک متعین اصول نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابوبکر کی صفات (اہلیت) کا پورا علم تھا۔ مگر آپ نے حضرت ابوبکر کو صراحۃً خلافت کے لیے نامزد نہیں کیا۔

حضرت ابوبکر کو عمر کی صفات (اہلیت) کا علم تھا تو آپ نے عمر کو خلافت کے لیے نامزد کردیا اور اس معاملے میں خاموشی اختیار نہیں کی۔ اس کے بعد عمر آئے تو انھوںنے تیسرا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے اپنے آخر وقت میں چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی بنا دی اور اس سے کہا کہ تم لوگ میرے بعد کسی کو خلیفہ بنا کر اس کے نام کا اعلان کردینا۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان امور میں کوئی ایک ہی مقرر اور متعین طریقہ نہیں ہے۔ اصل چیز مصلحت اسلام ہے، نہ کہ کوئی متعین ڈھانچہ۔

14 دسمبر 1985

لوگ اقتدار چھن جانے کے بعد متواضع (modest)بن جاتے ہیں۔ حالاں کہ متواضع وہ ہے، جو اقتدار کی کرسی پر ہو، پھر بھی متواضع بنا رہے۔ اخلاق وہ ہے جو اقتدار پانے کے بعد ظاہر ہو، نہ کہ اقتدار چھننے کے بعد۔

16 دسمبر 1985

رڈیارکپلنگ (Rudyard J. Kipling) مشہور انگریزی شاعر اور ناول نگارہے۔ وہ 1865 میں پیدا ہوا، اور 1936   میں اس کی وفات ہوئی۔

کپلنگ ان لوگوں میں تھا جو جدید مغربی تہذیب کو تاریخ کی آخری ارتقائی تہذیب سمجھتے تھے۔ کپلنگ کے نزدیک یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ سفید فام لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ بقیہ دنیا کو تہذیب کی یہ نعمت پہنچائیں۔ نو آبادیاتی نظام اس کے نزدیک اسی کوشش کی ایک صورت تھی۔ اس کی ایک مشہور نظم ہے، جس میں اس نے اپنے اس نظریے کو سفید انسان کا بوجھ (White Man’s Burden) سے تعبیر کیا تھا:

Take up the White Man's burden

Send forth the best ye breed

Go bind your sons to exile

To serve your captives' need

جب بھی کوئی قوم ترقی کے درجہ پر پہنچتی ہے تو وہ دوسری اقوام پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اسی قسم کے نظریات وضع کرتی ہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں میں اسلامی خلافت کا تصور بھی اسی قسم کےذہن کی پیداوار ہے۔ یہ نظریہ کہ ’’انسان دنیا میں خدا کا خلیفہ ہے‘‘ قرآن و سنت میں کہیں مذکور نہیں، اور نہ صحابہ کے زمانے میں اس نظریےکا ثبوت ملتاہے۔ یہ نظریہ دراصل عباسی دور میں پیدا ہوا، اور اس کا تصور یہ تھا کہ ساری دنیا میں اپنا غلبہ قائم کرنے کے لیے فکری جواز فراہم کیا جائے۔

میرے نزدیک مسلمان خدا کے خلیفہ نہیں، بلکہ وہ خدا کے پیغام بر ہیں۔ انھیں اس تعلیم کو تمام انسانوں تک اس کی قابلِ فہم زبان (understandable  language)میں پہنچانا ہے، جو قرآن وسنت کی صورت میں ان کے پاس محفوظ ہے۔

17 دسمبر 1985

مستشرقین نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں سے ایک نوع کی کتابیں وہ ہیں جو ’’اسلامی قوموں کے مطالعہ‘‘ پر لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں میںاستدلال کا طریقہ بڑا عجیب وغریب ہوتا ہے۔ ان میں بعض غیر متعلق واقعات کو لے کر دکھایا گیاہے کہ بعض قوموں (مثلاً الجزائر کے مسلمان) کا اسلام جانور پرستی، شجر پرستی اور ستارہ پرستی سے قریب ہے۔ حتی کہ اسلام اور بت پرستی میں کوئی قابلِ ذکر فرق نہیں۔ بلکہ اسلام بت پرستی ہی کا تتمہ ہے۔

ان مستشرقین کی اکثریت عربی زبان سے برائے نام واقف تھی۔اس لیے انھوںنے اسلام کو سمجھنے میں نہایت احمقانہ قسم کی غلطیاں کی ہیں۔ تاہم خود مستشرقین کے حلقے میں سےگہرا علم رکھنے والے لوگوں نے ان باتوں کی تردید کی ہے۔

پروفیسر (Alain) نے اس کمی کو محسوس کیا۔ انھوں نے ان مستشرقین کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اگر میں اپنے قلم کو مخاطب کرکے یہ کہوں کہ اے میرے محبوب قلم، اور اس جملہ کو علم الاجتماع کے یہ ماہرین اپنی تحقیق میں شامل کرلیں تو وہ اس جملہ کو روحانیت سے منسوب کردیں گے اور یہ کہیں گے کہ میںنے اپنے قلم میںایک چھوٹا دیوتا دیکھ لیا تھا‘‘۔

18 دسمبر 1985

’’اس ملک میں عربی اور فارسی کو کلاسیکی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ حکومت ان کی ترقی پر کافی رقم خرچ کرتی ہے۔ یہاں کی تقریباً 20 یونی ورسٹیوں میں عربی کا شعبہ موجود ہے۔ ایسے کالجوںکی تعداد درجنوں تک پہنچتی ہے، جہاں عربی تعلیم کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بہت بڑے بڑے دار العلوم (بالفاظ دیگر دینی مدارس) قائم ہیں۔ ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے۔ وہ کامل آزادی کے ساتھ عربی زبان اوردینی علوم کی اشاعت کا کام کررہے ہیں۔ حکومت کے خرچ پر ایک عربی ماہ نامہ شائع ہوتا ہے۔ ریڈیو میں عربی کا پورا یونٹ قائم ہے۔ یہاں کی وزارتِ تعلیم عربی مدارس کو معقول امداد دیتی ہے۔ ان مدارس میں رہ کر کوئی شخص کسی عربی مخطوطہ کو ایڈٹ کرنا چاہے یا کسی عربی موضوع پر ریسرچ کرنا چاہے تو اس کو تین سو روپیہ ماہوار کا وظیفہ دو سال تک دیا جاتاہے۔ عربی اور فارسی کے دو دو ممتاز عالموں کو حکومت ہر سال سند امتیاز دیتی ہے۔‘‘

اوپر کی عبارت ایک اقتباس ہے۔ یہ باتیں اگر یورپ کے کسی ملک کے بارے میں کہی جائیں تو مسلمانوں کو بہت اہم معلوم ہوگی۔ مگر مسلمانوں کو یہ باتیں اس وقت بے وقعت معلوم ہونے لگتی ہیں، جب انھیں بتایا جائے کہ یہ ہندستان کی بات ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب یورپ یا امریکا جاتا ہے تو وہاں وہ بالکل غیر مزاحم (passive)بن کر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وہاں کے مواقع سے فائدہ اٹھا پاتا ہے اور اس کی اہمیت کو سمجھ لیتاہے۔ مگر ہندستان میں مسلمان شکایت اور احتجاج کے ذہن کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں انھیں طرح طرح کی مشکلوں سے سامنا پیش آتا ہے۔ وہ ہندستان کے مواقع کی قدر کرنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

19 دسمبر1985

قرآن (6:12) میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ رکھا ہے ( كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ )۔موجودہ دنیا میں انسان کے پاس اقتدار ہے۔ مگر اس نے اپنے آپ کو رحمت اور عدل کا پابند نہیںکیا ہے، اس لیے موجودہ دنیا فساد اور خرابیوں سے بھر گئی ہے۔مگر آخرت میں سارا اقتدار صرف ایک اللہ کے پاس ہوگا، اور اللہ نے ہر قسم کا مطلق اختیار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو رحمت اور عدل کا پابند کر رکھا ہے۔ اس لیے آخرت کی دنیا سراپا خیر ہوگی۔ وہاں صرف وہی ہوگا جو حق کے اعتبار سے ہونا چاہیے، اور وہ نہ ہوسکے گا جو حق کے اعتبار سے درست نہ ہو— آخرت کی یہ خصوصیت آخرت کو ایک معیاری دنیا بنا دے گی۔ اسی معیاری دنیا کا دوسرا نام جنت ہے۔

21  دسمبر1985

ہر بات کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔ اگر عقل کو استعمال نہ کیا جائے تو کوئی بات بھی سمجھ میں نہیں آسکتی، حتی کہ قرآن وحدیث کی بات بھی نہیں۔ مثلاً حدیث میںآیا ہے قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَهَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ قَالَهَا ثَلَاثًا(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2670)۔ یعنی شدت کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ یہ بات تین بار فرمائی۔

اگر ان الفاظ کو سادہ طورپر بالکل ظاہری معنی میں لے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہر چیز جس میں شدت کا پہلو ہو وہ ہلاکت کا سبب ہے، اس لیے اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ مثلاً گرمی کے موسم میں روزہ رکھنا۔ مہنگائی کے وقت جانور کی قربانی دینا، وغیرہ۔ مگر حدیث کا یہ مطلب نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کو صحیح طورپر سمجھنے کے لیے اس میں ایک لفظ کا اضافہ کرنا ہوگا۔ یعنی اس کو اس طرح کہنا ہوگا’’هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ‘‘ ای المشددون فی غیر موضع التشدید ( وہ لوگ ہلاک ہوگئے جو شدت نہ کرنے کی جگہ پر شدت کا طریقہ اختیار کرتے ہیں)۔

23  دسمبر 1985

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ ان الفاظ میں آیا ہے:جَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَابْنَا عَمِّهِ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:الْكُبْرَ الْكُبْرَ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4520)۔ یعنی کچھ بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ تو ان کے چھوٹے نے بولنا شروع کیا۔ آپ نے فرمایااپنے بڑے کو بولنے دو، اپنے بڑے کو بولنے دو۔

یہ صرف ادب کی بات نہیں بلکہ حکمت کی بات ہے۔ جو شخص عمر میں زیادہ ہو اس کا علم اور تجربہ بھی زیادہ ہوگا۔ وہ دوسروں سے زیادہ سنجیدہ ہوگا۔ ایسی حالت میں چھوٹوں کو جاننا چاہیے کہ ان کے بڑے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ بولیں۔ یہ ایک اہم اصول ہے جس کا تعلق ایک خاندان کے افراد سے بھی ہے اور پوری قوم سے بھی۔

24 دسمبر 1985

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایکحدیث ان الفاظ میں آئی ہے:مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلاَّ قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2022)۔ یعنی جو نوجوان کسی بوڑھے کی اس کے بڑھاپے کے وقت عزت کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے ایسے شخص کو مقدر کردیتا ہے جو اس کے بڑھاپے کی عمر میں اس کی عزت کرے۔

اصل یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل سے سماج کے اندر روایت(tradition) قائم کرتا ہے۔ اگر لوگ اپنے بوڑھوں کی عزت نہ کریں تو ماحول میں بوڑھوں کی بے عزتی کی روایت قائم ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر لوگ اپنے بوڑھوں کی عزت کریں تو اس سے ماحول میں بوڑھوں کی عزت کرنے کی روایت قائم ہوگی۔ جس طرح آدمی اپنی بوئی ہوئی فصل کو کاٹتا ہے۔ اسی طرح لوگ اپنے ماحول میں جس قسم کی روایت قائم کریں اس کا ایک حصہ انھیں خود بھی بہر حال بھگتنا پڑتا ہے۔

25  دسمبر 1985

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَا أكْرَمَ النِّساءَ إِلَّا كَرِيمٌ وَلَا أهانَهُنَّ إلاَّ لَئِيمٌ(تاریخ دمشق لابن عساکر، جلد13، صفحہ313)۔ یعنی علی ابن ابو طالب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاعورت کی عزت وہی کرتا ہے جو شریف ہو اور عورت کی بے عزتی وہی کرتا ہے جو کمینہ ہو۔

انسان کی شرافت کا معیار وہ سلوک نہیں ہے، جو وہ طاقت ور کے ساتھ کرتا ہے، بلکہ شرافت کا معیار وہ سلوک ہے، جو وہ کمزور کے ساتھ کرتا ہے۔ عورت چوں کہ کمزور مخلوق ہے، اس لیے اکثر حالات میں وہ کسی کے شریف یا غیر شریف ہونے کاپیمانہ بن جاتی ہے۔

26  دسمبر1985

تنقید کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ہے دلیل کی بنیاد پر تنقید، اور دوسری بے دلیل الزام۔ دلیل کی بنیاد پر تنقید کا حق ہر شخص کو ہے، مگر بے دلیل الزام کا حق کسی کو نہیں۔

ایک شخص اگر کسی کے خلاف بے دلیل الزام لگائے تو وضاحت کے بعد اس کو کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ بے دلیل الزام لگانا اگر غلطی ہے تو وضاحت کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے، اور سرکشی اللہ تعالی کے یہاں ناقابلِ معافی جرم ہے۔

27 دسمبر1985

سموئل گولڈوِن (Samuel Goldwyn, 1879-1974) امریکا کا مشہور فلم پروڈیوسر ہے۔ اس کی کمپنی پیرا ماؤنٹ پکچرس کا رپوریشن کو 1960 میں 13 کرور 10 لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ کا منافع ہوا۔

1913 میں اس نے اپنے دوشریکوں کے ساتھ اپنی پہلی فلم اسکوا مین (The Squaw Man)  بنائی تو اس کے پاس اپنے کارکنوںکو اجرت ادا کرنے کے لیے کافی رقم نہ تھی۔ سموئیل گولڈون اور اس کے ساتھیوں کو جب مالی کمی نے بہت زیادہ پریشان کیا تو انھوں نے طے کیا کہ ان کی فلم کے لیڈنگ ایکٹرڈسٹن فرنم  (Dustin Farnum, 1874-1929) کو اس پر راضی کیا جائے کہ وہ اپنی ایکٹنگ کی اجرت لینے کے بجائے کمپنی میں حصہ دار بننے پر راضی ہوجائے۔

گولڈوِن یہ سوچ کر ڈسٹن فرنم کے پاس گیا۔ مگر جیسے ہی انھوں نے اپنی تجویزپیش کی ،اس نے فوراً مطالبہ کیا کہ پوری مدتِ عمل کے لیے میری تمام تنخواہ پیشگی ادا کردی جائے ورنہ میںاس کمپنی میں کام نہیں کروں گا۔ ایکٹر کی یہ رقم کل پانچ ہزار ڈالر ہوتی تھی، جو کہ کمپنی کے اُس وقت کے کل سرمایہ کا 25  فی صد تھی۔

اگر ڈسٹن فرنم کو معلوم ہوتا ہے کہ ’’پانچ ہزار ڈالر‘‘ کی قربانی اس کو ایک ایسے کاروباری ادارے میں 25 فی صد کے بقدر حصہ دار بنادے گی، جس کی آمدنی آدھی صدی کے بعد چودہ کرور ڈالر سالانہ ہوجائے گی تو یقیناً وہ اجرت مانگنے کے بجائے مذکورہ پیش کش کو بخوشی قبول کرلیتا — مگر انسان مستقبل کو نہیں جانتا، اس لیے وہ اتنے دور اندیشی کے فیصلے بھی نہیں کر سکتا۔

28 دسمبر 1985

 ہر لفظ کا ایک ابتدائی مفہوم ہوتاہے۔ مگر استعمال سے اس میں وسعت یا فرق پیدا ہوتا رہتا ہے۔ یہ ہر زمانہ میں ہوتاہے۔

مثلاً عربی کا ایک لفظ فتح ہے۔ یہ لفظ جب اشیاء کے لیے بولا جائے تو اس کے معنی سادہ طورپر صرف کھلنے کے ہوں گے۔ مثلاً فتح الباب (دروازہ کھولا)۔ مگر جب یہ لفظ حیوانات کے لیے بولا جائے تو معنی میں فرق پیدا ہوجائے گا۔ اب اس کے معنی صرف کھلنے کے نہ ہوں گے بلکہ کھل کر اچانک نکل پڑنے کے ہوں گے۔ مثلاً ٹڈیوں کا دَل کسی گوشہ سے نکل پڑے تو کہیں گےفتحت الجراد۔

الفاظ میں استعمال کے اعتبار سے جو وسعت پیدا ہوئی ہے، اس کو جو لوگ نہ جانیں، وہ کسی عبارت کو سمجھنے میں عجیب عجیب غلطیاں کرسکتے ہیں۔

30 دسمبر 1985

مسلمانوں کا ایک پندرہ روزہ اخبار نکلتا ہے ۔ اس کے صفحہ اول پر یہ فقرہ لکھاہوا ہوتا ہے:

مسلکِ اکابر کا ترجمان

یہ عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں کہا گیا ہے: اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ (9:31)۔یعنی انھوں نے اللہ کے سوا اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا ڈالا ۔ کوئی شخص ایسا اخبار نہیں نکالتا جس کے اوپر یہ لکھا ہوا ہو کہ ’’مسلک صحابہ کا ترجمان‘‘۔ حتی کہ یہ جملہ اگر کسی سے کہا جائے تو اس کو وہ اجنبی معلوم ہوگا۔ البتہ وہ اس قسم کے الفاظ بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ’’مسلک اکابر کا ترجمان‘‘ یا  ’’مسلک سلف کا ترجمان‘‘  وغیرہ۔

اس زمانہ میں ہر طرف اسلام کی دھوم ہے۔ مگر لوگوں کے درمیان جس اسلام کی دھوم ہے، وہ ان کا خود ساختہ اسلام ہے، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے رسول پر اتارا تھا۔

31 دسمبر 1985

قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال موجود ہے کہ انھوں نے مصر کے غیر مسلم مَلِک (بادشاہ) کے قانون کے تحت غذائی انتظام کا اختیارسنبھالا تھا(یوسف، 12:55)۔ اسی طرح تورات میں دانیال نبی کے متعلق مذکور ہے کہ وہ بابل کے غیر مسلم بادشاہ کی وزرا میں داخل ہوگئے تھے (دانیال، 1:19)۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض مسلم مفکرین کا یہ نظریہ سراسر غلط ہے کہ ’’طاغوتی نظام‘‘ میں مسلمان کی شرکت ناجائز ہے۔ اس قسم کے نظریات دراصل غیر مسلم اقوام سے نفرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، وہ خود اسلام کی تعلیمات سے نہیں لیے گئے ہیں۔ یہ نظریات ابتدا میں غیر مسلم حکمرانوں سے نفرت کے نتیجے میں پیداہوئے اور اس کے بعد ان کی تبریر(justification) کے لیے ان کو اسلامی اصطلاحات میں بیان کیا جانے لگا۔