دور دعوت (Daur-e-Dawat)
دورِ دعوت
عصر حاضر میں مسلمانوں کی دعوتی ذمہ داری
مولانا وحيد الدين خاں
فہرست
دیباچہ
اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ
تاریخ کا مطالعہ
خلیفہ کا مطلب
انبیاء کا نمونہ
خلافت ، ملوکیت
تھیسس، انٹی تھیسس
اسلام اور سلطان
اسلام کا تاریخی رول
ربانی انسائکلوپیڈیا
توحید ایمپائر
دین کا ضروری ڈھانچہ
نئے دور کا آغاز
اسلام کی تاریخ
عہد شباب
امن ایک اقدام
حضرت نوح کا پیغمبرانہ رول
قرآن کا بیان
بائبل کا بیان
تبصرہ
کشتیٔ نوح کا معاملہ
کشتی اور طوفان کا طریقہ
حضرت نوح کی کہانی
بائبل اور قرآن کا فرق
کشتیٔ نوح
حضرت نوح کی تاریخی کشتی
خدائی منصوبے کی تاریخی شہادت
ارضیاتی شواہد
تاریخی سبق
سبق کا پہلو
کشتیٔ نوح یا دابہ
دابہ کی تحقیق
کشتی کا انتخاب کیوں
پیغمبرانہ یادگاریں
دابہ کا نکلنا
قرآن اور بائبل کے بیان کا فرق
کشتیٔ نوح اور ترکی
عالمی دعوت کی پیشین گوئی
امتِ محمدی کا مشن
حضرت نوح کی اہمیت
آخرت کا اعلان
محاسبۂ آخرت کا اعلان
خلاصۂ کلام
ختم نبوت
حفاظتِ قرآن
رسول کی بعثت کا مقصد
پیغمبرانہ ہدایت کی ابدیت
دلیلِ نبوت
رسول اور خاتم الانبیا
دعوائے نبوت
ہندو گروؤں کی مثال
پیغمبر ایک تاریخی استثنا
نبوت محمدی کا ثبوت
مستقبل کی تصدیق
توحید کی صداقت
علم قلیل
دنیائے فانی کا نظریہ
غیر معمولی کامیابی
نظریۂ امن
امن کا فارمولا
ایک غلط فہمی
تحریکوں کی تاریخ
ہیروؤں کی جماعت
مستقبل کی دنیا
پیغمبر انقلاب
خاتم النبیین
دعوت اور حجت
فطرت کی تسخیر
دعوت کا نیا دور
اسلام دورِ جدید میں
دورِ اول کی مثال
چند تاریخی حوالے
ہمیں کیا کرنا ہے
گلیلیو اور سائنس
روحانی تسکین
اقدار کامسئلہ
اعلیٰ ذریعۂ علم
داخلی شہادت
دورِ تائید
تخلیق کی منزل
تخلیق کے ادوار
صراطِ مستقیم
مادي تهذيب
مخلوقِ کامل
روحانی سماج
دعوت اکیسویں صدی میں
فائنل رول
اصحاب رسول کا رول
اصحاب رسول، اخوانِ رسول
ماکان وما یکون
دورِ تائید
دورِ تائیدکا آغاز
قتال ،جہاد
معاونِ اسلام تہذیب
تائید کا معاملہ
قرآن اور عصر جدید
سیاسی اقتدار کی نوعیت
عہد اسلام
انسانیت انتظار میں
مسلمان اور دورِ حاضر
اجتہاد کا فقدان
حکمت کی آفاقیت
دعوتِ عام کی ذمہ داری
اسلامی طرزِ فکر
ایک انٹرویو کا خلاصہ
ری پلاننگ
ایمرجنس آف اسلام
پلاننگ، ری پلاننگ
قرآن کی رہنمائی
انسانِ اول کی مثال
ڈیزرٹ تھِرَپی
ہجرتِ مدینہ
حدیبیہ کا منصوبہ
متعلق اور غیر متعلق میں فرق کرنا
عملی تقاضا
تاتاری حملے کا واقعہ
بابری مسجد کا سبق
دعوت کی ری پلاننگ
دانش مندی کی ضرورت
دورِ جدید
صلیبی جنگیں
ویٹیکن ماڈل
اسپین کا تجربہ
نو آبادیاتی نظام
برطانیہ کی مثال
جرمنی کی مثال
جاپان کی مثال
خالصہ تحریک کا تجربہ
غلط تقابل
خلاصۂ کلام
ترکی کی دریافت
ترکی سے میرا تعلق
ایک علامتی مثال
ترکی کا نیا رول
دورِ شمشیر کا خاتمہ
ترکی کا پلس پوائنٹ
ایک حدیثِ رسول
سیاسی ماڈل کا نقصان
فقہی ماڈل کا نقصان
ترکی کا رول
کمال ازم کی حقیقت
ترکی کی جدید تصویر
ریڈیکل تبدیلی
دعوہ ایمپائر
نیا دور، نئے امکانات
ترکی کی اسلامی تاریخ
ترکی کا نیا رول
پیغمبر کا مشن
اخوانِ رسول
اجتہادی رول
کشتیٔ نوح
کشتیٔ نوح اور ترکی
ترکی کا انتخاب
مدعو داعی کے دروازے پر
گلوبل دعوت
دعوت امت مسلمہ کا مشن
شہادت کا تصور
امت وسط
دعوت قولِ بلیغ کی زبان میں
دعوت دورِ تعقل میں
شہادتِ اعظم
شہادت کے تصور میں تبدیلی
سنت یہود کی پیروی
خود کش حملہ
بے فائدہ جنگ
مسئلہ کا حل
پیغمبر اسلام کی آخری وصیت
امت کے لیے کرنے کا کام
امت مسلمہ کا فائنل رول
مواقع كو پهچاننے ميں ناكامي
ویسٹوفوبیا
امتِ مسلمہ کی ذمے داری
مادی تہذیب
سائنس کی شہادت
اہل اسلام کا کنٹری بیوشن
حق کیا ہے
اکیسویں صدی
اہل علم کی شہادت
سائنس اور عقیدۂ خدا
الہامی علم کی ضرورت
جنت انسان کا اصلی ہیبیٹاٹ
سائنس کا نظریاتی کنٹری بیوشن
اہل ایمان، اہل تائید
مغربی اقوام، دوست اقوام
ملتِ مسلمہ کی غفلت
ايك واقعه
امت کا انقلابی رول
شہادتِ اعظم
اعلاءِ كلمة الاسلام
دعوت ایک سنگین ذمہ داری
مستقبل کی پلاننگ
دیباچہ
خدائی پیغام رسانی کا کام، انسانیت کے آغاز سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک، پیغمبروں کے ذریعے ہوا ہے۔ نبوت کی سطح پر اس کام کی انجام دہی کا یہ فائدہ تھا کہ اس کو معجزاتی تائید کی قوت حاصل رہتی تھی۔ نبی اپنی مدعوقوم کے سامنے دعوت پیش کرتا، تو اس کے ساتھ خدا اس كو معجزاتي تائيد بھي ديتا هے، جو اس کی دعوت کی صداقت کے لیے غیر معمولی برہان کی حیثیت رکھتے ہوں۔
ختمِ نبوت کے بعد یہ صورتِ حال ہوگئی کہ دعوت کی ذمے داری تو بدستور پوری شدت کے ساتھ باقی ہے، مگر دعوت کے حق میں پيغمبروں كي سطح پر ملنے والي معجزاتی تائید باقی نہیں رہی۔ ایک حکومت جب کسی کو فارسٹ افسر مقرر کرتی ہے، تو اسی کے ساتھ اس کو ضروری ساز و سامان بھی دیتی ہے، تاکہ جنگل میں وہ اپنی ذمے داری کو ادا کر سکے۔ ایسی حالت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہستی جو ساری رحمتوں کا خزانہ ہے، وہ اس پہلو کو بھول جائے، وہ ہم کوذمے داری دے، مگر ہماری ضرورتوں کا انتظام نہ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بعد کو آنے والے داعیوں کے لیے اللہ نے ایسا انتظام کیا، جو پچھلے تمام انتظامات سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اللہ نے اس مقصد کے لیے خود انسانی تاریخ کے رخ کو موڑ دیا، تاکہ دعوتی مشن کے حق میں وہ تائید ہم کو معمول کے حالات میں مل جائے، جس کو پچھلے لوگ صرف غیر معمولی حالات میں پانے کی امید کرسکتے تھے۔ اگرچہ موجودہ دور میں ہم اس راز کو سمجھ نہ سکے، اور اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔
زیر نظر کتاب کا مقصد یہ ہے کہ ملّت مسلمہ کو یہ بتایا جائے کہ دور جدید میں دعوتی کام کے لیے ہر اعتبار سے بھر پور مواقع حاصل ہیں، جو کہ پچھلے ادوار میں صرف مخصوص افراد كو حاصل ہوتے تھے۔ لهذا آپ كے ليے بھي يه موقع هے كه آپ آگے بڑھ كر اس دعوتي مشن كا حصه بنيں۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں میں جذبۂ دعوت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے، اور اس دعوت کے نتیجے میں اقوام عالم پر خدا کی رحمت کے دروازے کھل جائیں، جو موجودہ زمانے میں بند پڑے ہوئے ہیں۔
وحید الدین خاں
7 اکتوبر 2019، نئی دہلی
اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ
Interpretation of Islamic History
دعوتِ اسلام كي يه امتيازي صفت هے كه اس كے پاس خدا كا كلام بے آميز حالت ميں موجود هے۔ اسلام كا پيغام عين انساني فطرت كے مطابق هے۔ وه آدمي كو مجبور كرتاهے كه وه اس كي صداقت كا اعتراف كرے۔ مگر اس كو بروئے كار لانے كے ليے ضروري هے كه اسلام اور اس كے مخاطب سے تمام نفسياتي ركاوٹيں دور كردي گئي هوں۔
اسلامی تاریخ کا فکری مطالعہ
Interpretation of Islamic History
اسلام کانظام صرف تیس سال قائم رہا، اس کے بعد عملاًمسلمانوں کے درمیان ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا— اسلام کے بارے میں تعلیم یافتہ لوگوں کا یہ عام تصور ہے۔ لیکن یہ تصور پوری طرح غلط فہمی پر مبنی ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام اپنی پوری چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلسل طور پر اپنی اصل حالت پر قائم رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔تاریخ میں بظاہر جو تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں، وہ اسلام کے اضافی حصہ (relative part)میںہیں، نہ کہ اسلام کے اصل حصہ (real part) میں۔
اس بات کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ(58:21) ۔یعنی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بے شک اللہ قوت والا، زبردست ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہےکہ جس طرح انسانی تاریخ پراللہ کا غلبہ مسلسل طور پر قائم ہے، اسی طرح پیغمبروں کا مشن دعوت الي الله بھی انسانی تاریخ پر ہمیشہ اور ہر حال میں غالب رہے گا۔ یہ با ت ایک حدیث رسول میں حسب روایت ابن عباس اس طرح بیان ہوئی ہے: الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ (شرح معانی الآثار، حدیث نمبر5267) یعنی اسلام ہمیشہ غالب رہے گا، وہ کبھی مغلوب نہ ہوگا۔
قرآن اور حدیث کے ان بیانات کے مطابق ، اسلامی تاریخ کی وہی تعبیر صحیح ہے، جس میں مساوی طور پر تسلسل پایا جائے۔ جو تعبیر اسلامی تاریخ کو خلافت اور ملوکیت کے دو غیر مساوی ادوار میں تقسیم کریں، وہ بداہۃً قابل رد ہیں۔
Prima facie it stands rejected.
انسانی تاریخ کا سفر اجرامِ سماوی (astronomical body) کے سفر کی مانند نہیں ہے۔ اجرامِ سماوی کا سفر ہمیشہ یکساں رفتار (uniform speed) کے ساتھ چلتا ہے۔ لیکن انسانی تاریخ کا سفر ہمیشہ غیر ہموار رفتار سے جاری ہوتا ہے۔ ایسا فطرت کے قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ کے بارے میں یہی درست ہے کہ وہ غیر ہموار انداز میں سفر کرے۔ اگر انسانی تاریخ اجرامِ سماوی کی مانند ہموار انداز میں سفر کرنے لگے تو انسانوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking)کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، یہ کوئی مطلوب حالت نہیں۔
تاریخ خواہ بظاہر غیرہموار انداز میں سفر کرے، لیکن خدا تاریخ کو مسلسل طور پر مینج (manage) کر رہاہے۔ اس خدائی انتظام کی بنا پر تاریخ میں ہمیشہ یہ صورتِ حال قائم رہتی ہے کہ متغیر حالات کے درمیان ہمیشہ ایک غیر متغیر حکمت مسلسل طور پر موجود رہتی ہے۔ متغیرحالات کے درمیان اس غیر متغیر حکمت کو دریافت کرنے کا ہی دوسرا نام اسلامی تاریخ کی توجیہہ (interpretation)ہے۔
زیر نظر کتاب کا مقصد یہی ہے۔ یعنی اسلامي تاریخ کی حکیمانہ توجیہہ دریافت کرنا ۔ اس دریافت میں اہل ایمان کے لیے یقین کا سرمایہ ہے، اور اس ميں عام اہل علم کے ليے اسلامی تاریخ کے مطالعے کی صحیح بنیاد ہے۔
وحیدالدین
نئی دہلی، 16 دسمبر 2015
تاریخ کا مطالعہ
قرآن کے بیان (الانبیاء،21:30) نیز سائنسی دریافت کے مطابق، کائنات کی تخلیق کا آغاز غالباً تیرہ بلین سال پہلے بگ بینگ سے ہوا۔اس کے بعد مختلف ادوار پیش آئے۔معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے مادی دنیا بنی، یعنی وہ دنیا جہاں ایک وسیع خلا کے اندر بے شمار عظیم کہکشائیں موجود ہیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ شمسی نظام (solar system) بنا، اور پھر ایک تدریجی عمل کے بعد زمین وجود میں آئی، جہاں انسان کے لئے وہ تمام موافق انسانی اسباب موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد وہ وقت آیا جب کہ انسان کی تخلیق ہوئی، اور اس کو زمین پرآباد کیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ بننےلگی۔پھر خدائی منصوبے کے مطابق پیغمبر آنا شروع ہوئے۔انھوں نے کوشش کی کہ انسانی تاریخ توحید کے رخ پر سفر کرے۔مگر عملاً یہ ہوا کہ صرف کچھ مستثنیٰ افراد نے پیغمبروں کی دعوت کو مانا۔ انسانی نسلوں کا قافلہ بڑی تعداد میں آزادی کے غلط استعمال کے نتیجے میں، غیر موحّدانہ راستے پر چل پڑا۔اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ انسانی زندگی میںعملاً ملوکیت کا نظام قائم ہوگیا۔ملوکیت اور شرک، دونوں نے مل کرساری دنیا میں جبریت (religious persecution)کا نظام قائم کردیا۔اس طرح یہ ناممکن ہو گیا کہ توحید کے مشن کو پر امن طور پر چلایا جاسکے۔
اس کے بعد تقریباًچار ہزار سال پہلےپیغمبر ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ زیرِ عمل لایا گیا۔ اس منصوبے کو ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کہا جاسکتا ہے۔اس عمل کے ذریعے عرب کے صحرائی ماحول میںدوہزار سال سے زیادہ مدت کے دوران ایک نئی نسل تیار کی گئی، جو آج کل کی زبان میںکنڈیشننگ سے محفوظ قوم تھی۔یہ وہی نسل ہے جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں پیغمبرِ اسلام کا ظہور ہوا۔ انھوں نے اس نسل کے منتخب افراد کے ذریعے ایک جاندار ٹیم تیار کی۔ اس ٹیم نے ایک انقلابی کام انجام دیا۔اس نے ایک عظیم جد و جہد کے ذریعے ایک ایسا انقلاب پیدا کیا، جس سے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔اس دور میں ایک نیا تاریخی پراسس (process)جاری ہوا، جس کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ دور تھا،جو بیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔اس دور کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔
یہ سائنسی تہذیب عملاً ایک مادی تہذیب بن گئی۔ مغربی قومیں اس تہذیب کی چمپئن تھیں۔اس تہذیب کے دوران مادی کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔ مغربی قومیں، غالب قومیں بن گئیں۔ سیکولر طرزِ فکر، علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے سائنسی تہذیب تھی، لیکن اپنی عمومی تصویر کے اعتبار سے وہ مغربی تہذیب کہی جانے لگی۔
اس طرح بیسویں صدی میں عالمی سطح پر ایک ایسا دور وجود میں آیا، جو گویا مادی افکار کا ایک جنگل تھا۔یہ جنگل بظاہر پوری طرح ایک مادی جنگل تھا۔اس جنگل میں، اوّل تا آخر، سب کچھ مادیت کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔بظاہر اس کاکوئی تعلق نہ توحید سے تھا، اور نہ ربّانیت سے۔
تاہم تہذیب کے اس مادی جنگل میں ایک عظیم ربّانی عنصر موجود تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح درختوں کے جنگل میں شہدجیسی قیمتی چیز مخفی نکٹر (nectar) کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔یعنی مادی تہذیب کے جنگل میں معرفت کا نکٹر۔ اب ضرورت اس بات كي ہے کہ مادی تہذیب کے جنگل سے معرفت کے اس نکٹر کو اکسٹریکٹ (extract) کیا جائے، اور پھر اس کی تدوین اور تنظیم کر کےخدا کے دین کا وہ فکری اظہار کیا جائے، جس کو قرآن میں اتمامِ نور (التوبہ، 9:32؛ الصف، 61:8) کہا گیا ہے۔
دینِ خداوندی کے اعتبار سےاکیسویں صدی میں کرنے کا سب سےزیادہ مطلوب کام یہی ہے۔ یہ کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنا اہم ہے کہ اس کو حدیث میں تاریخ کی عظیم ترین شہادت (گواہی) کہا گیا ہے— هذا أعظم الناس شهادةً عند رب العالمين (صحیح مسلم، حديث نمبر 2938)۔
شہد کی مکھی جنگل کے اندر موجود نکٹر کنٹنٹ (nectar content) سے بے خبر ہو تو جنگل اس کو صرف جنگل کی صورت میں دکھائی دے گا۔ لیکن شہد کی مکھی جب جنگل میں موجود نکٹر کنٹنٹ کو جان لے تو جنگل اس کے لئے ایک نعمت کی دنیا بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ جدید مادی تہذیب کا ہے۔ آپ اگر تہذیب کے اس مادی جنگل میں موجود معرفت کے اس نکٹرکنٹنٹ سے بے خبر ہوں، تو جدید تہذیب آپ کو صرف مادیت کاایک جنگل دکھائی دے گی۔ لیکن اگر آپ اس تہذیب کے اندر موجود معرفت کنٹنٹ (content)سے باخبر ہوجائیں، تو جدید تہذیب آپ کےلئے ربانی معرفت کاایک عظیم باغ بن جائے گی۔
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ جدید سائنس کی ترقی ، چرچ اور سائنسی تحقیق کی علاحدگی سے شروع ہوئی۔ اس بنا پر مغربی دنیا میں یہ تصور قائم ہوگیا کہ فریڈم، خیر مطلق (summum bonum) ہے۔یہ تسلیم کرلیا گیا کہ اختلافِ رائے (dissent) انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق (right) ہے۔یہ ایک بے حد اہم فیصلہ تھا۔ اس کی بنا پر پہلی بار تاریخ میں ایسا ہوا کہ آزادیٔ رائے (freedom of expression) ایک مسلمہ انسانی حق قرار پایا۔
مذہب کے اعتبار سے یہ ایک بے حد اہم تبدیلی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی (religious freedom) انسان کا ایک مسلّمه حق قرار پائی۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے معاملے میں ہر قسم کی رکاوٹ یا مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ ہوجائے۔ اس انقلاب نے پہلی بار انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ آزادانہ طور پر جس مذہب کو چاہے اختیار کرے، اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرے، پرامن (peaceful) انداز میں کرے۔
مگر دورِ جدید کی یہ نعمت ایک مخفی نِکٹر کی صورت میں پائی جاتی تھی، کیوں کہ آزادی جب انسانی حقوق (human rights) میں سے ایک حق قرار پایا تو یہ حق ہر ایک کے لئے تھا، وہ صرف اہلِ مذہب کے لئے نہیں تھا۔چنانچہ اس کے بعد یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی مرضی کے مطابق اپنی آزادی کا کھلااستعمال کرنے لگا۔ اس طرح عملاً یہ ہوا کہ آزادی کا ایک عظیم جنگل اُگ آیا، جس میں برہنگی (nudity) سے لے کرمذہب کی بے حرمتی (blasphemy) تک ہر منفی چیز موجود تھی۔ مگر اس جنگل کے اندر مذہبی آزادی کا نِکٹر بھی موجود ہے۔ اب ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر شہد کی مکھی والی حکمت موجود ہو،یعنی ناموافق جنگل کو نظر انداز کرتے ہوئےموافق نِکٹر دریافت کرکے اس کو استعمال کرنا۔
خلیفہ کا مطلب
قرآن کی سورہ البقرۃ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب آدم کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو کہا: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (2:30)۔ یعنی میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ کا مطلب ہے بعد کو آنے والا(successor)۔ قرآن میں کئی جگہ یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے،مثلا: ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ (10:14) ۔یعنی پھر ہم نے ان کے بعد تم کو ملک میں جانشین بنایا۔
قرآن کی مذکورہ آیت (البقرۃ،2:30)کو قرآن کی ایک اور آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے پہلے جنوں کو پیدا کیا (الحجر،15:27)۔ لیکن جنوں نے زمین میں فساد برپا کیا۔ اس کے بعد اللہ نے ایک اور مخلوق انسان کی صورت میں پیدا کی۔ اس وقت فرشتوں نے یہ شبہ ظاہر کیا: أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (2:30)يعني کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے یہ بات جنوں کے تجربہ کی بنیاد پر کہی تھی۔ یعنی جنوں کو آزادی دی گئی ، اس کے بعد انھوں نے فساد برپاکیا۔ اب اگر انسان کو آزاد مخلوق کی حیثیت دی جائے تو وہ بھی آزادی کا غلط استعمال کریں گے، اور فساد برپا کریں گے۔
قرآن میں یہ حوالہ گویا بطور انتباہ (warning)ہے۔ یعنی اس طرح انسان کو متنبہ کیا گیا کہ وہ جنوں کی مثال سے سبق لیں، اور آزادی کا غلط استعمال کرکے دوبارہ فساد اور سفکِ دماء (خون خرابہ)کی غلطی نہ کریں۔ ورنہ ان کو بھی جنوں جیسا انجام بھگتنا پڑے گا۔
قرآن کی اس آیت میںخلیفہ کا لفظ کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے۔ وہ صرف اس معنی میں ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، انسانوں کے اندر توالد و تناسل کا نظام قائم ہوگا، ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا ہوگی، ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ اس کی جگہ لےگا۔ اس آیت میں خلیفہ کا لفظ انسان کے مشن کو بتانے کے لیے نہیں آیا ہے، بلکہ اس کی تخلیقی نوعیت کو بتانے کے لیے آیا ہے۔ جہاں تک انسان کے مشن کا معاملہ ہے، اس کو جاننے کے لیے ہر انسان کو خدا کی کتاب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ خدا کی کتاب سے معلوم ہوگاکہ انسان کو اس زمین پر کس طرح زندگی گزارنا ہے۔
انبیاء کا نمونہ
قرآن میں انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ (38:46)۔ یعنی ہم نے ان پیغمبروں کو ایک خاص مشن، آخرت کی یاد دہانی کے لیے چن لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مشن کیا ہے۔ پیغمبر کی امت کو بھی ہر زمانے میں اسی مشن کی پیروی کرنا چاہیے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن آخرت کا مشن تھا۔ مگر یہ مشن اتفاقاً نہیں بنتا۔ اس کے لیے پیغمبروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسان کے خالق نے ان کو کس منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ غور و فکرکی اس زندگی کے بعد انھیں اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے، اور پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت رخی (akhirat-oriented life)ہو، انسان کی سوچ کا مرکز و محور آخرت ہو، وہ اپنی زندگی اس سوچ کے تحت گزارے کہ دنیا میں اس کی جو شخصیت بنے ،وہ آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہو۔
پیغمبر اس لیے نہیں آتا کہ وہ ملی ورک یا سوشل ورک جیسے کام کرےیا کوئی سیاسی پروگرام چلائے۔ پیغمبر کا مشن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کرے، وہ لوگوں کو بتائے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، ان کے لیے کامیابی کیا ہے، اور ناکامی کیا ۔ وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ موت کے بعد جب وہ آخرت کی دنیا میں پہنچیں تو وہ اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی طرف سے پیغمبروں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی جھکاؤ (tilt)کا ثبوت نہ دیں۔ وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خدا کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو استعمال نہ کریں۔
خلافت، ملوکیت
ارسطو (Aristotle) اپنے زمانے کے یونانی بادشاہ (Alexander the Great) کا استاد (tutor) تھا۔ ارسطو کا نظریہ تھا یونان میں آئڈیل حکومت قائم کرنا۔ اس کے لیے اس نے نوجوان الیگزنڈر کی تربیت کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب الیگزینڈر یونان کا بادشاہ بنا تو وہ بھی دوسرے حکمرانوں کی طرح صرف ایک اقتدار پسند بادشاہ بن گیا۔ ارسطو کا معیاری حکومت کا خواب واقعہ کی صورت اختیار نہ کر سکا۔
یہی تمام دنیا کے مفکرین اور مصلحین کا انجام ہوا ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام سوچنے والے ذہن اسی آئڈیلزم (idealism)کےمسحور کن تخیل (obsession) میں پڑے رہے۔ ہر ایک کا نشانہ صرف ایک تھا۔ وہ ہے دنیا میں آئڈیل نظام قائم کرنا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری تاریخ میں کوئی بھی شخص اپنے آئڈیل نشانے کو پورا نہ کر سکا۔ ہر ایک کا وہی حال ہوا جو چوتھی صدی قبل مسیح میں ارسطو کا ہوا تھا۔
اس کا سبب کیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پولیٹکل آئڈیلزم (political idealism) فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا کے لیے صحیح سیاسی نظریہ پولیٹکل آئڈیلزم نہیں ہے، بلکہ پولیٹکل پریگمٹزم (pragmatism) ہے۔ آئڈیل سیاست کا حصول اس دنیا میںسرے سے ممکن ہی نہیں۔
آئڈیل نظام کے لیے خالق نے جنت کی دنیا بنائی ہے۔ جنت کی دنیا ہر اعتبار سے آئڈیل اور پرفکٹ ہوگی۔ مگر خالق نے موجودہ دنیا کو آزمائش گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ یہاں ہر عورت اور هر مرد کو اس لیے پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے آزمائشی حالات میں رہ کر مثبت رسپانس (positive response) دے۔ تاکہ وہ جنت کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔ اور پھر جنت کی ابدی دنیا میں داخلہ کے لیے اس کا انتخاب کیا جائے۔ اس تخلیقی نقشہ (creation plan) کی بنا پر ہمیشہ یہی ہوگا کہ اس دنیا میں قائم ہونے والا سیاسی نظام انسان کی آزادی کے تابع ہو، اور اس بنا پر یہاں کبھی معیاری نظام نہ بن سکے۔
یہی اصول خود مسلم معاشرہ پر بھی منطبق (apply) ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے میں افراد تو معیاری ہوسکتے ہیں۔ مگر عملی نظام مجموعی معنی میں کبھی معیاری نہیں ہوگا۔ایک فرد خود اپنی ذاتی سوچ کے تابع ہوتاہے۔اس لیے وہ اپنی ذات کی حد تک اپنے آپ کو جیسا چاہے ،ویسا بنا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی نظام ہمیشہ اجتماعی حالات کے تابع ہوتاہے۔ انسان اپنی آزادی کا کبھی درست استعمال کرتا ہے، اور کبھی غلط استعمال۔ اس بنا پر اس دنیامیں مجموعی اعتبار سےجو نظام بنے گا ، وہ بیک وقت دونوں قسم کے اجزاء پر مشتمل ہوگا، کچھ درست اور کچھ نادرست۔یہ فرق کسی نقص کی بنا پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ عین مطلوب ہوگا۔ کیوں کہ وہ خالق کے نقشۂ تخلیق کے مطابق ہوگا۔
کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلام میں خلافت کا مطلب معیاری سیاسی نظام ہے۔ اس بنا پر وہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان معیاری سیاسی نظام بنانے کی تحریکیں چلاتے ہیں ۔ مگر اس قسم کی کوشش سے مطلوب نظام تو قائم نہیں ہوا، البتہ مسلمانوں کے اندر باہمی ٹکراؤ کی غیر مطلوب حالت قائم ہوگئی۔ ایسے مسلم قائدین نے صرف پولیٹکل اپوزیشن کی مثالیں قائم کی ہیں، ان کی کوششوں کا کبھی کوئی مثبت انجام بر آمد نہیں ہوا ۔ خلافت کی اصطلاح اسلام میں افرادِ انسانی کی آزادی کو بتاتی ہے، نہ کہ معیاری سیاسی نظام کو ۔ قرآن کے مطابق انسان کو خلیفہ بمعنی آزاد مخلوق بنایا گیا ہے ، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان اپنی آزادی کا عملی استعمال کس طرح کرتا ہے: لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (10:14)۔ یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسا عمل کرتے ہو۔
قرآن میں اولوالعزم انبیاء (الاحقاف،46:35)کا حوالہ دیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی نبی کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس نے اپنے زمانے میں معیاری خلافت کا نظام قائم کیا۔ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے بارے میں بھی قرآن کی کسی آیت میں یہ الفاظ نہیں آئے ہیں کہ تمھارا مشن یہ ہے کہ تم دنیا میں معیاری خلافت قائم کرو۔ پیغمبر اسلام کا مشن بھی دوسرے انبیاء (النساء،4:165)کی طرح انذار و تبشیر (الفرقان،25:56) تھا، نہ کہ معیاری معنوں میں کسی سیاسی نظام کا قیام۔پیغمبر اسلام کے بعد صحابہ کے زمانے میں جو سیاسی نظام قائم ہوا، اس میں بھی مسلم حاکم کو خلیفہ نہیں کہا گیا، بلکہ امیر المومنین کہا گیا۔
اس صورتِ حال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خلافت کا نظام ملوکیت کے نظام میں تبدیل ہوگیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے حالات کے مطابق، جو سیاسی نظام قابلِ عمل (workable) تھا، وہ قائم ہوا اور وقت کے مسلمانوں نے اس کو قبول کیا۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر نظام میں اسلام کا مطلوب تعمیری سفر بدستور جاری رہا۔ حالات میں تغیر کے باوجود ، اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔
تھیسس، اینٹی تھیسس
فریڈرش ہیگل(وفات 1831)اٹھارویں صدی کا مشہور جرمن فلسفی ہے۔ اس نے ایک فلسفہ پیش کیا۔ جس کو تھیسس اور انٹی تھیسس (thesis and anti-thesis) کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کو انسانی تاریخ پر منطبق کرتےہوئے، کارل مارکس نے اپنا مشہور نظریہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) وضع کیا۔ ہیگل اور مارکس، دونوں نے ایک مشترک غلطی کی۔ تاہم ان کے نظریے میں ایک جزئی صداقت پائی جاتی ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریے کی اصل فطرت کے ایک قانون پر قائم ہے۔ یہ قانون وہی ہے جس کو قرآن میں قانون دفع (البقرۃ، 2:251؛ الحج، 22:40) کہا گیا ہے۔
قرآن میں دفع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دفع کا لفظی مطلب ہے، ہٹانا (to repel)۔ اس سے مراد تاریخ کے وہ انقلابات ہیں،جو ایک قوم کو غلبہ کے مقام سے ہٹاتے ہیں، او ر اس کے بعد دوسری قوم کو موقع ملتا ہے کہ وہ دنیا کا انتظام سنبھالے۔ اس قسم کے انقلابات تاریخ میں بار بار ہوئے ہیں۔ یہ انقلابات بظاہر انسان کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ خالق کا منیجمنٹ (management) ہوتا ہے۔ خالق انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینیج (manage) کر رہا ہے۔ یہی وہ واقعہ ہےجس کو قرآن میں دفع کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی تاریخی حقیقت کو ہیگل اور مارکس نے اس طرح بیان کیا کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک صورت حال یا مقدمہ (thesis) سامنے آتا ہے۔ اس کے بعد خود تاریخی اسباب سے اس کا جوابی مقدمہ (anti-thesis) وجود میں آتا ہے۔اس کے بعد ایک امتزاج (synthesis) وجود میں آتا ہے، جو سابق حالت کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس طرح تاریخ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔ یہ معاملہ سیکولر تاریخ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور مذہبی تاریخ کے ساتھ بھی۔
قانونِ فطرت کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ حالات کے تحت ایک ایکشن (action) سامنے آتا ہے۔ پھر اس کے جواب میں ایک ری ایکشن (reaction) پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تیسری شکل سامنے آتی ہے، وه اس صورتِ حال کا رسپانس (response)ہے۔ نیگیٹیو رسپانس (negative response) حالات کو مزید بگاڑتا ہے، اور پازیٹیو رسپانس (positive response) سماج کو ایک بہتر دور کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی پوری انسانی تاریخ میں ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جاننا، اور ری ایکشن سے بچ کر صورتِ حال کا پازیٹیو رسپانس دينا، یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔
اسلام اور سلطان
اسلام کی تاریخ 610عیسوی میں شروع ہوئی۔ 632 عیسوی میںپیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد اس دور کا آغاز ہوا جس کو عام طور پر خلافت کا دور کہا جاتا ہے۔ اس خلافت کی مدت تقریباًتیس ( 30)سال ہے۔ اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے۔ لیکن چاروں خلفاء کا تقرر چار مختلف طریقوں (methods)سے ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ یا سیاسی قائد (political leader)کے تقرر کا معاملہ اسلام میں مبنی بر نص (based on text)معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ مبنی بر اجتہاد معاملہ ہے۔اس بنا پر اس کے لیے کوئی واحد معیاری ماڈل نہیں ۔ اس کا فیصلہ حالات کی بنیاد پر بذریعہ اجتہاد کیا جاتا ہے۔
خلافت کے بعد امیر معاویہ (وفات41ھ)کا دور شروع ہوا۔ وہ ایک صحابی تھے۔ ان کے زمانے میں حکومت کے لیے خاندانی ماڈل (dynasty) کو اختیار کرلیا گیا۔ اس وقت صحابہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ صحابہ نے اس خاندانی ماڈل کو عملاً قبول کرلیا۔ اس کے بعد اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اسی ماڈل پر چلتی رہی۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء سب کے سب اس ماڈل پر راضی ہوگئے۔ اس کے بعد اسلام کی تاریخ میں مختلف مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ مثلا بنو امیہ کا دور، بنو عباس کا دور، عثمانی ایمپائر، مغل ایمپائر ، وغیرہ۔ یہ تمام اسی خاندانی ماڈل پر قائم ہوئے۔ اور دورِ اول کے وہ تمام لوگ جن کو اسلاف کہا جاتا ہے، ان سب نے اس ماڈل کو عملاًقبول کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ماڈل تاریخی عمل کے نتیجے میں ایک مقبول ماڈل (historically accepted model) بن چکا تھا۔ یہی خاندانی ماڈل موجودہ زمانے کی عرب ریاستوں میں قائم ہے۔
مسلم علماء کے درمیان منہج سلف کو معیاری منہج مانا جاتا ہے۔ متقدمین یا اسلاف کا یہ منہج جس دور میں بنا، وہ پورا دور خاندانی ریاست (dynasty) کا دور تھا۔ اس دور کو تمام علمائے امت نے درست منہج کے طور پر قبول کرلیا ۔ کسی قابلِ ذکر عالم نے اس کے خلاف خروج (revolt) نہیں کیا۔ حتی کہ عباسی دور میں تمام علماء کے اجماع سے یہ مسئلہ بنا کہ مسلم حکمراں کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ بطور حوالہ مشہور محدث امام نووی (وفات676: ھ) کا ایک قول یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں منہج سلف کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھاہے: وأما الخروج عليهم وقتالهم فحرام بإجماع المسلمين وإن كانوا فسقة ظالمين (شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الامارۃ،12/229)۔ یعنی مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا اور ان سے قتال کرنا مسلمانوں کے اجماع کے تحت حرام ہے۔ خواہ وہ (کسی کے نزدیک) ظالم اور فاسق ہوں۔
اس زمانے میںیہ مسلم حکمراں کون تھے۔ یہ وہی تھے جو خاندانی حکومت (dynasty) کے اصول کے تحت حکمراں بنے تھے۔ موجودہ زمانے کی عرب ریاستیں اسی خاندانی نظام کا امتداد (continuation) ہیں۔ اس لیے علماءکا یہ متفقہ فتویٰ موجودہ عرب ریاستوں پر بھی عین اسی طرح اپلائی (apply) ہوگا ،جس طرح وہ اس سے پہلے کی مسلم ریاستوں پر اپلائی ہوتا ہے۔
علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کو کیوں درست ماڈل کے طو رپر مان لیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کا اصل مقصد تمکین فی الارض (الحج،22:41) ہے ، نہ کہ کسی مخصوص ڈھانچہ کو قائم کرنا۔ تمکین سے مراد سیاسی استحکام (political stability)ہے۔سیاسی استحکام سے معتدل ماحول قائم ہوتا ہے، اور معتدل ماحول سے علمائے اسلام اور مصلحین امت کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر دین کے تمام غیر سیاسی شعبوں کو چلائیں۔
اس معاملے کی ایک حکمت یہ ہے کہ زندگی کا نظام، قانون اور حکومت پر کم اور روایات (traditions) پر زیادہ چلتا ہے۔ اور روایات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لمبے تاريخي پراسس کے بعد کسی سماج میں قائم ہوتی ہیں۔ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ روایت ہمیشہ لمبی تاریخ کے بعد بنتی ہے:
It requires a lot of history to make a little tradition.
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حکومت کی حیثیت اگر سیاسی سلطنت (political empire)کی ہے تو روایات کی حیثیت غیر سیاسی سلطنت (non-political empire)کی ہے۔ روایات پر مبنی سلطنت اگر چہ ایک ناقابلِ مشاہدہ سلطنت (unseen empire) ہوتی ہے۔ لیکن کسی سماج کا نظام سب سے زیادہ بلکہ تقریباً 99 پرسنٹ عملاً اسی غیر سیاسی سلطنت کے تحت چلتا ہے۔ یہ غیر سیاسی سلطنت ہمیشہ وہ لوگ بناتے ہیں ،جوحکومت کے دائرے سے باہر مسلسل طور پر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
اسلام پر نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ دین کا تسلسل قائم کرنے کے لیے مسلم سماج میں اسلام کا ایک روایاتی ڈھانچہ بنے۔ اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ رسالت کے زمانے میں مخالفت، بائیکاٹ، لڑائی اور ہجرت جیسے واقعات کی بنا پر حالات کا وہ تسلسل نہیں بنا جس میں روایات قائم ہوں۔ خلافت کے زمانے میں باہمی اختلافات بہت زیادہ ابھر آئے۔ یہاں تک کہ چار میں سے تین خلیفہ کو قتل کردیا گیا۔ اس لیے خلافت کے زمانے میں بھی دینی تسلسل کا مطلوب ماحول نہ بن سکا۔
اللہ اپنے منصوبہ کے مطابق،پورے عالم تخلیق کو مینج (manage) کر رہاہے۔مادی کائنات (physical world) اللہ کے مکمل کنٹرول کے تحت چل رہی ہے۔ انسان کو چوں کہ مقصد تخلیق کے تحت آزادی دی گئی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اللہ کا طریقہ مختلف هے، اور وہ هےانسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسانی تاریخ کو مطلوب انداز میں مینج کرنا۔ اس لیے اللہ کی مرضی ہوئی کہ ایسا سیاسی نظام بنے، جو مسلسل طور پربلا انقطاع چلنے والا ہو۔ اس کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں پایا جاتا ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(15:9)۔یعنی یہ یاد دہانی (قرآن) ہم ہی نے اتاری ہے ، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ حفاظت کے وسیع تر معنی میں یہاں پورے دینِ اسلام کی حفاظت شامل ہے۔دورِ رسالت کےتقریباً 30 سال کے بعد امت کے اندر خاندانی حکومت (dynasty) کا جو نظام قائم ہوا، وہ اسی خدائی انتظام کے تحت وقوع میں آیا۔
اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خاندانی حکومت کے قیام کے بعد امت کے اندر مطلوب ماحول عملاًقائم ہوگیا۔ اس نظام کو امت نے قبول کرلیا۔ ایسا پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے تحت ہوا۔ اس نظام کے تحت جوتسلسل قائم ہوا، اس کے زیر اثر دینی روایات بننا شروع ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر پورے عالم اسلام میںدین کا ایک روایتی ڈھانچہ عملاً قائم ہے۔ اس کی وجہ سے امت کے ہر فرد کے لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی دین اسلام کو پہچان لے اور اس پر عمل کرنے لگے۔
اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں امیر معاویہ کے بعد جب خاندانی ریاست کا نظام قائم ہوا تو حالات میں استحکام پیدا ہوگیا۔ اور تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پانے لگے۔ مثلاً قرآن کی حفاظت ، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تدوین، علومِ اسلامی کی تدوین ، مسجد و مدرسے کانظام قائم ہونا، حج و عمرہ کا نظام، دین کی تبلیغ و اشاعت ، وغیرہ۔ یہ تمام کام امن اور اعتدال کے ماحول میں انجام پانے لگے۔ علوم اسلامی کا کتب خانہ پورا کا پورا اسی دور میں تیار ہوا۔ یہ کام اس سے پہلے عدم استحكام كي بنا پرکم ہو رہاتھا، اور استحكام كے بعد سے یہ نظام عملاًآج تک تقريباً اسی طرح جاری هے۔
امام مالک بن انس(وفات179ھ)اپنے استاد وهب ابن کیسان کے حوالے سے کہتے ہیں: إنه لا يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها(مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر 783)۔ یعنی بلاشبہ اس امت کے دورِ آخر کی اصلاح بھی اسی طریقے کی پیروی سے ہوگی، جس طریقہ کی پیروی سے امت کے دورِ اول کی اصلاح ہوئی۔ اولِ امت (earlier ummah) سے مراد وہی دور ہے جس کو متقدمین کا دور یا اسلاف کا دورکہا جاتا ہے۔ اور دورِ اسلاف پورا کا پورا وہی ہے جو خاندانی ریاست کے دور میں وجود میں آیا۔ اس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ دورِ اول میں جس سیاسی ماڈل کو تمام علماء کے اتفاقِ رائے سے قبول کیا گیا تھا، اور جس کے نتیجے میں امت کے تمام کام درست طور پر انجام پائے ، وہی ماڈل امت کے بعد کے دور کے لیے بھی درست ہے۔ اسی طریقہ کے مطابق بعد کے زمانے میں بھی امت کی اصلاح ممکن ہے۔
صحابیٔ رسول عبد اللہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:الإسلام والسلطان أخوان توأمان (کنز العمال، حدیث نمبر14613)۔ یعنی اسلام اور سلطان دو جڑواں بھائی ہیں۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: المُلك و الدین توأمان (کشف الخفاء، حدیث نمبر2329)۔یعنی مُلک اور دین دونوں جڑواں بھائی ہیں۔ ان روایتوں میں سلطان اور مُلک، دونوں کے معنی ایک ہیں،یعنی سیاسی اقتدار (political power)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا رول اصلاً تائیدی رول (supporting role) ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کےلیے طاقت ور مددگار بنے، وہ اسلام کو شیلٹر (shelter)عطا کرے،تاکہ اس کے زیرِ سایہ تمام دینی کام اسموتھ (smooth) طور پر انجام پائیں۔
قرآن میں عدل یا قسط کے معاملے کو متعدی کے صیغے میں بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ لازم کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عدل کی پیروی کرو(المائدہ،5:8)،قسط پر قائم رہو (النساء، 4:135) ۔ گویا سیاسی اقتدار کا کام عدل و قسط کی تنفیذ (enforcement) نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ ہے کہ وہ سماج میں معتدل حالات قائم کرے تاکہ لوگوں کو یہ موقع ملے کہ وہ کسی رکاوٹ کےبغیر اپنی زندگی میں عدل و قسط کے پیرو بن سکیں۔
سیاسی اقتدار کے اسی رول کی بنا پر اسلام میں سیاسی اقتدار کا کوئی ایک خارجی ماڈل نہیں ہے۔ سیاسی اقتدار کا کام یہ ہے کہ وہ اہل اسلام کو امن اور حفاظت عطا کرے۔ تاکہ دین کے تمام کام معتدل انداز میں انجام پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء نے متفقہ طور پر خاندانی حکومت (dynasty) کے ماڈل کو درست ماڈل کی حیثیت سے قبول کرلیا جو کہ واضح طور پرابتدائی خلافت کے ماڈل سے مختلف تھا۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ اس ماڈل کے تحت اہل اسلام کو امن اور حفاظت کا مقصد بخوبی طور پر حاصل ہورہا ہے۔ اور تمام دینی کام بلا رکاوٹ انجام پارہے ہیں،جو کہ اس سے پہلے عملاً پورے طور پرحاصل نہ تھے۔
اسلام کا تاریخی رول
انسان کو اللہ نے آزاد مخلوق کی حیثیت سے بنایا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو دریافت کرے،اور آزادانہ ارادے کے تحت اپنی زندگی کو اس کے مطابق بنائے۔ اس حقیقت کو بتانے کے لیے اللہ نے بار بار اپنے پیغمبر بھیجے۔ ہزاروں سال کے دوران بڑی تعداد میں ہر علاقے میں پیغمبر آئے۔ لیکن انسان پیغمبروں کے ساتھ استہزاء (یٰس،36:30)کا معاملہ کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دینِ خداوندی کی کوئی تاریخ نہیں بنی۔
آخر میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ انسانی تاریخ میں مداخلت كرے،اور پیغمبروں کا مشن جو دعوت کے مرحلے پر ختم ہوتا رہا، اس کو خصوصی تائید کے ذریعے انقلاب (revolution) کے مرحلے تک پہنچائے۔ چنانچه پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی بعثت اسی مقصد کے ساتھ ہوئی۔ آپ کے ذریعے دینِ خداوندی کودعوت سے شروع کیا گیا ، اور پھراس کو انقلاب کے مرحلے تک پہنچادیا گیا۔ اس کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہ تھی، اس لیے اعلان کردیا گیا کہ پیغمبر اسلام سلسلۂ نبوت کے آخری شخص (الاحزاب، 33:40) ہیں۔
پیغمبراسلام کے حوالے سے قرآن میں تین بار، لِیُظْهِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ (9:33؛ 48:28؛ 61:9) کے الفاظ آئے ہیں۔ ان آیتوں میں اظہارِ دین کا لفظ سیاسی حکومت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی انقلاب کے معنی میں ہے: اظهار الدين إنما هو بالحجج الواضحة (زاد المسير، جلد 2، صفحه 245 )؛بالحجة والبراهين (تفسير القرطبي، جلد 8، صفحه 121)یہ ایک پرامن انقلاب ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کو ایک نظریاتی غلبہ کا درجہ حاصل ہے۔ حالاں کہ سائنس یا سائنسدانوں کی کوئی سیاسی حکومت نہیں۔
اظہارِ دین سے مرادکوئی عملي نظام قائم کرنا نہیں۔ بلکہ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ دینِ خداوندی کے راستے کی تمام رکاوٹوں کوعملاً ختم کردیا جائے۔ تاکہ جو انسان دینِ خداوندی کے راستے پر چلنا چاہے، وہ آزادانہ طور پر اس پر چل سکے اور خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اپنی شخصیت ڈیولپ کرنے میں اس کو کوئی خارجی رکاوٹ پیش نہ آئے۔
دینِ حق کی یہ رکاوٹیں بنیادی طور پر دو تھیں، ایک شرک (polytheism) اور دوسري بادشاہت (kingship)۔ قدیم زمانےمیں شرک اور بادشاہت کے نظام کو رفتہ رفتہ کامل غلبہ حاصل ہوگیا تھا۔ اس بنا پرعملاً یہ ناممکن ہوگیا تھا کہ کوئی شخص دینِ خداوندی کے راستے پر کامل آزادی کے ساتھ چل سکے، اور اپنے آپ کو اللہ کا مطلوب انسان بنائے۔
اعتقادی اعتبار سے شرک اور عملی اعتبار سے بادشاہت، اس راستے میں مستقل رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اللہ نے پیغمبرِ اسلام اور آپ کے اصحاب کو خصوصی تائید عطا کی۔ تاکہ ان دونوں نظاموں کو وہ غلبہ کے مقام سے ہٹادیں، اور ایسے حالات پیدا کردیں جن میں انسانی تاریخ اپنے مطلوب رخ پر سفر کرسکے۔
پہلے نشانے کو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لا يجتمع دينان في جزيرة العرب (موطا امام مالک، حدیث نمبر1862)۔ یعنی جزیرۂ عرب میں دو دین اکٹھا نہیں ہوں گے۔ ساتویں صدی میں جب آپ نے یہ فرمایا اس وقت یہ حال تھا کہ مکہ کےمقدس کعبہ کو شرک کا مرکز بنا دیا گیا تھا۔ کعبہ کی عمارت میں تقریبا تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گئےتھے۔ یہ دراصل مختلف قبائل کےبت تھے۔ اس لیے مشرک قبائل کے لیے کعبہ نے مذہبِ شرک کے مرکز کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔
پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے اللہ کی خصوصی تائید کے تحت ایک دور رس منصوبہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں بیس سال کے اندر کعبہ کی حیثیت بدل گئی۔ وہ شرک کے مرکز کے بجائے توحید کا مرکز بن گیا۔ ایسا اس طرح ہوا کہ عرب قبائل کے سردار بڑی تعدا میں اسلام میں داخل ہوئے۔ اس طرح پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کو یہ موقع ملا کہ وہ کعبہ کو بتوں سے پاک کردیں، اور ابراہیمی نقشہ کے مطابق اس کو توحید کے مرکز کی حیثیت دے دیں۔
پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے مشن کا دوسرا نشانہ یہ تھا کہ جبري بادشاہت کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ اس مشن کا ذکر ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں آیاہے: إذا هلك كسرى فلا كسرى بعده، وإذا هلك قيصر فلا قيصر بعده(صحیح البخاری، حدیث نمبر3120)، یعنی جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہوگا۔ کسریٰ سلطنت ایران (Sassanid Empire)کا حکمراں تھا۔ اور قیصر سلطنتِ روم (Byzantine Empire) کا حکمراں تھا۔ یہ دونوں قدیم بادشاہی نظام کی علامت بنے ہوئے تھے۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ یہ دونوں بادشاہتیں ختم ہوجائیں۔ اور پھر اس کے بعد کوئی بادشاہت کا نظام دوبارہ دنیا میں قائم نہ ہو۔
یہ ایک بے حد مشکل منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ کو اس طرح آسان بنا دیا گیا کہ پہلے پیغمبرِا سلام کے زمانے میں ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر میں زبردست ٹکراؤ ہوا۔ اس کے نتیجے میں دونوں سلطنتیں کمزور ہوگئیں۔ اس کا اشارہ قرآن کی سورہ الروم کے ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل عمر فاروق کے زمانے میں ہوئی، جبکہ اہل ایمان سے دونوں بادشاہتوں کا فوجی ٹکراؤ ہوا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں سلطنتیں ٹوٹ کر عملاً ختم ہوگئیں۔
اس طرح انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ایک تاریخی عمل (historical process)کی صورت میں تھا۔ اس تاریخی عمل میں اہل اسلام اور سیکولر گروہوں نے مشترک طور پر کام کیا۔ یہ ایک عظیم تاریخی عمل تھا، جس کی تکمیل یوروپ کی نشا ۃ ثانیہ (Renaissance) کے زمانے میں انجام پائی۔
شرک کے دور کا خاتمہ، توہماتی دور (age of superstition) کا خاتمہ تھا۔ اسلام سے پہلے پوری تاریخ میں توہماتی فکر چھایا ہوا تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ توہماتی دور ختم ہوا، اور انسانوں کے درمیان عقلی تفکیر (rational thinking) کا دور شروع ہوا۔ اس کا نتیجےیہ ہوا کہ جدید علوم پیدا ہوئے، فطرت کے رموز دریافت ہوئے، سائنس کا دور آیا جس نے انسانی تاریخ کو ایک نئے تاریخی دور میں پہنچادیا۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہارِ دین کے منصوبے میں دو طرح کے اجزاء شامل تھے، ایک وہ جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں واقعہ بن گیا۔ شرک کے دور کا خاتمہ اسی پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ شرک کے دور کا خاتمہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے شروع ہوا، اور انھیں کے زمانے میں عملاً تکمیل تک پہنچ گیا۔ شرک کا کلچر اگرچہ اب بھی بعض گوشوں میں بظاہر موجود ہے، لیکن اب وہ کہیں بھی غالب حیثیت میں نہیں۔
اظہارِ دین کا دوسرا پہلو وہ ہے، جس کو قرآن و حدیث میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً آیات کے ظہور کے بعدحق کی کامل تبیین (فصلت،41:53)، یا حدیث کا یہ ارشاد: ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين، بعز عزيز أو بذل ذليل (مسند احمد، حدیث نمبر16957)يعني يه معامله پهنچے گا وهاں تك جهاں تك دن ورات پهنچتے هيں، اور كوئي گھر يا خيمه نهيں چھوڑے گا، مگر الله وهاں اس دين كو داخل كردے گا، عزت والے كو عزت كے ساتھ اور ذلت والے كو ذلت كے ساتھ۔
اظہارِ دین کا یہ دوسرا پہلو، ایک ایسا پہلو تھا جو نسل در نسل گہری کوشش کے بعد مکمل ہونے والا تھا۔ اس لیے اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس کام میں سیکولر لوگوں کی تائید بھی بھرپور طور پر حاصل ہو۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔يعني الله ضرو ر اس دين كي تائيد فاجر آدمي كے ذريعه كرے گا۔
اظہارِ دین کا یہ انقلاب اکیسویں صدی میں اپنےآخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب اہلِ ایمان کا یہ کام ہے کہ وہ اس پیدا شدہ مواقع کو بھر پور طور پر دینِ خداوندی کی عالمی دعوت کے لیے استعمال کریں۔ تاکہ کوئی پیدا ہونے والا انسان اس سے بےخبر نہ رہے کہ اس کے خالق نے اس کو کیوں پیدا کیا ہے، اور خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan)اس کے بارے میں کیا ہے۔
ربّانی انسائکلوپیڈیا
قرآن میںبعض باتیں خبر کی زبان میں ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک انشاء کا معاملہ ہے۔ قرآن میں اسی نوعیت کی دو آیتیں ہیں۔ ان دونوں کا ترجمہ یہ ہے:
کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا ئیں (الکہف،18:109)۔ اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے (لقمان، 31:27)۔
قرآن کی ان آیتوں میں ایک عظیم حقیقت کا بیان ہے۔ یہ بیان ایک عظیم الٰہی منصوبے کا اعلان ہے۔ یہ ایک مطلوب چیز ہے کہ عالم تخلیق میں کلماتِ اللہ یا آلاء اللہ کا مطالعہ کیا جائے، اور اس کو لکھ کر تیار کیا جائے۔ یہ کام موجودہ دنیا کے محدود حالات میں نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے زیادہ بڑی، ایک لامحدود دنیا درکار ہے۔ آخرت کی دنیا ، اسی قسم کی ایک لامحدود دنیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آخرت کی دنیا میں کرنے کا ایک کام یہ ہوگا کہ کلمات اللہ اور آلاء اللہ کو دریافت کیا جائے اور ان کی بنیاد پر ایک انسائکلوپیڈیائی لائبریری تیار کی جائے۔ یہ عظیم انسائکلوپیڈیا وہی ہوگی جس کو ہم نے ربانی انسائکلوپیڈیا کا نام دیا ہے۔
موجودہ محدود دنیا میں یہ ربانی انسائکلوپیڈیا لکھی نہیں جاسکتی۔ خالق نے اس دنیا کو اس لیے بنایا ہے کہ اس دنیا میں اس عظیم ربانی انسائکلوپیڈیا کے لکھنے والے (writers) تیار کیے جائیں۔ پھر آخرت کی دنیامیں ان افراد کو وہ تمام ضروری مواقع اعلی ترین سطح پر مہیا کیے جائیں، جن کو استعمال کرکے وہ اس ربانی انسائکلوپیڈیا کو تیار کریں۔ یہ کام کوئی مشقت کا کام نہ ہوگا، بلکہ وہ آخری حد تک ایک محظوظ کام (enjoyable task) ہوگا۔ اس واقعے کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے:إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ(36:55)۔ يعني بے شک جنت کے لوگ آج اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے۔
ربانی انسائکلوپیڈیا کی تحریر میں اپنے آپ کو شامل کرنا، بلاشبہ ایک ایسا انقلابی تصور ہے جو آدمی کو آخری حد تک پر شوق بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کی تعمیر اس طرح کرنے لگتا ہے کہ وہ اس عظیم اور مقدس ٹیم کا ایک ممبر بن جائے۔ ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کا نشانہ کسی صاحبِ ایمان کے لیے سب سے بڑا نشانہ ہے۔ جو صاحبِ ایمان اس نشانے کو دریافت کرلے، اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح خالی ہوجائے گا۔ نفرت، تشدد اور جنگ جیسی چیزوں میں اپنے کو مشغول کرنے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا۔
قرآن کی مذکورہ آیتوں میں روشنائی اور قلم کا ذکر ہے۔ یہ دوسرے الفاظ میں تصنیفی منصوبہ کا حوالہ ہے۔ ان آیتوں میں روشنائی اور قلم کا لفظ تمثیل کی زبان میں ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کے عظیم کام کو بتاتا ہے۔ یہ علامتی طور پر اس پورے انفراسٹرکچر کو بتا رها هے، جو ربانی انسائکلوپیڈیا کی تیاری کے لیے کائناتی سطح پر مطلوب ہوں گے۔
اسلام نے انسان کے لیے زندگی کا جو تصور(concept) دیا ہے، اس میں نفرت اور تشدد کے لیے کو ئی جگہ نہیں۔ یہ تصور انسان کے اندر اعلیٰ سوچ (high thinking) پیدا کرتا ہے۔ اس میں ہر قسم کی منفی سوچ اس طرح ختم ہوجاتی ہے جیسے کہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ تصور انسان کو مکمل معنوں میں ایک مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیتا ہے۔
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے ۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں اہل جنت کے لیے ہر قسم کی سہولتیں اعلی سطح پر حاصل ہوں گی۔ یہ نعمتیںاپنے آپ میں جنت کی واحد چیز نہیں۔ بلکہ قرآن کے بیان کے مطابق، وہ بطور نُزُل (فصلت،41:32) ہوگی، یعنی رب العالمین کی طرف سے مہمانی (hospitality) کے طور پر۔
زندگی کے اسلامي تصور کے مطابق، جنت کا مطلب یہ نہیںہے کہ جنت میووں اور حوروں کی ایک دنیا ہے ، اور آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خودکش بمباری (suicide bombing) کی چھلانگ لگا کر اس دنیائے عیش میں پہنچ جائے۔ جنت کا یہ تصور ، جنت کا کمتر اندازہ (underestimation) ہے۔ جنت ایک اعلیٰ نوعیت کی بامعنی سرگرمیوں (meaningful activities) کا مقام ہے، نہ کہ محدود معنوںمیں صرف ایک عیش خانہ۔جنت میں داخلے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جنتی دنیا کے لیے مستحق امیدوار (deserving candidate) بنائے۔ جنت میں داخلے کے لیے موجودہ دنیا میں تیاری کے عظیم جدو جہد کے کورس سے گزرنا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی شخص جنت کی دنیا میں داخلے کا استحقاق رکھتا ہے یا نہیں۔
زندگی کا یہ تصور ایک شخص کی زندگی سے دنیا رخی (worldly-oriented)زندگی کا مکمل خاتمہ کردیتا ہے، وہ اس کو پورے معنوں میں آخرت رخی (akhirat-oriented) بنا دیتا ہے۔
توحید ایمپائر
پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا پیغمبرانہ مشن شروع کیا ۔ یہ مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی توحید کو نظریاتی اعتبار سے سب سے زیادہ برترنظریہ بنا دینا ۔ مکہ کے سرداروں نے ایک بار آپ کو بلایا، آپ سے پوچھا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے جواب دیا: كلمة واحدة تعطونيها تملكون بها العرب، وتدين لكم بها العجم (سیرت ابن هشام، جلد 1،صفحہ 417)۔ یعنی میں صرف ایک کلمہ چاہتاہوں ، تم وہ کلمہ مجھ کو دے دو، تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے۔ یہاں کلمہ کا مطلب ہے آئڈیالوجی۔
پیغمبر اسلام نے یہ بات سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں کہی تھی۔ بلکہ وہ نظریاتی غلبہ کے معنی میں تھی۔ اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ دنیا میں ایک ایسا انقلاب آئے، جب کہ تمام دلائل توحید کے حق میں ہوجائیں، اور تمام مواقع توحید کے موافق ہوجائیں۔ یہی وہ بات ہے جو آپ سے پہلے حضرت مسیح نے ان الفاظ میں کہی تھی— تم اس طرح عبادت کروآسمان میں رہنے والے اے ہمارے باپ، تیرا نام مقدس ہے۔ تیری بادشاہی آئے، جس طرح کہ تیرا منشا آسمان میں پورا ہوتا ہے، اسی طرح اس دنیا میں بھی پورا ہو
So, pray this way: Our Father in heaven, may Your name be honoured, may Your kingdom come, may Your will be done on earth as it is in heaven. (Matthew, 6:9-10)
اللہ کے دین میں جبر نہیں (البقرۃ،2:256)۔ البتہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دین کو آخری حد تک مدلّل بنا دیا جائے۔ اس کےبعد انسان کا اپنا اختيار ہے کہ وہ اس کو مانتا ہے یا اس كا انكار كرتا هے (الکہف،18:29)۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ ضرورت تھی کہ دین کے موافق ایک انقلاب آئے۔ اس انقلاب کے لیے موحد انسانوں کی ایک ٹیم درکار تھی۔ مگر کسی نبی کے زمانے میں ایسی ٹیم نہ بن سکی۔ اس لیے پچھلے انبیاء کے زمانے میں ان کا مشن انقلاب (revolution) تک نہیں پہنچا۔
پیغمبر ابراہیم کے ذریعے اللہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ خصوصی اہتمام کے ذریعے ایسی مطلوب ٹیم تیار کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ساڑھے چار ہزار سال پہلے ابراہیم علیہ السلام نے یہ قربانی کی کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرامیں بسادیا۔ اس کے بعد دوہزار سال سے زیادہ مدت میں توالد و تناسل کے ذریعے صحرائی ماحول میں ایک نئی نسل تیار ہوئی۔ تاریخ میں اس نسل کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔ محمد صلى الله عليه وسلم اور آپ کے اصحاب اسی نسل کے منتخب افراد تھے۔
مطلوب انقلاب اچانک نہیں ظہور میں آسکتا تھا۔اس کے لیے ضرورت تھی کہ تاریخ میں ایک نیا عمل (process) شروع کیا جائے، جو انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، مختلف مراحل سے گزر كراپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچے۔ یہ عمل عرب میں شروع ہوا، اور مغرب میں جدید تہذیب (modern civilization)کی صورت میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔
اس انقلاب کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ تھا کہ علوم کی ترقی اس طرح ہو کہ تمام علمی اور سائنسی دلائل دینِ خداوندی کی تصدیق بن جائیں۔ یہ مستقبل میں پیش آنے والا واقعہ تھا ، جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔
اس انقلاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ عملی اعتبار سے یہ اسباب دینِ خداوندی کے مويّد (supporter) بن جائیں۔ یہ انقلاب صرف اہل ایمان کے ذریعے نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے اللہ نے اس کے لیے دوسری قوموں کو بھی اس عمل کا موید بنا دیا۔ یہ پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول میں اس طرح ملتی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی بیشک اللہ ضرور اس دین کی مدد کرے گا، فاجر لوگوں کے ذریعے۔
اکیسویں صدی میں یہ تائیدات اپنی آخری صورت میں حاصل ہوچکی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں قول و عمل کی آزادی کا انسان کے لیے ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار پانا، ٹکنالوجی کی ترقی کے ذریعے ہر قسم کے امکانات کا اعلی سطح پر کھل جانا، پرامن طریقۂ کا ر کے ذریعہ ہر مقصد کے حصول كاممکن ہوجانا، ساری دنیا میں کھلا پن (openness) کا ماحول قائم ہوجانا، وغیرہ۔
ابتدائی دور میں، اس عمل کو مسلسل طور پر جاری رکھنے کے لیے ایک تائیدی شلٹر (supporting shelter)درکار تھا۔ اہل اسلام کو سیاسی طاقت دے کر اس شلٹر کا انتظام کیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک اہل اسلام کی یہ سیاسی طاقت اس عمل کو تائیدی شلٹر فراہم کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری منزل پر پہنچ گیا۔
بیسویں صدی میں وہ دور آگیا، جب کہ یہ عمل اتنا طاقت ور ہوچکا تھا کہ وہ خود اپنی طاقت سے جاری رہ سکے۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کمزور ہوگئی۔ لیکن مطلوب عمل خود اپنی طاقت سے مسلسل طور پر جاری رہا۔ جدید دور میں ماڈرن تہذیب کا فروغ، اور 1945 میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام وغیرہ ، وہ واقعات ہیں، جب کہ یہ عمل امکانی طور پر اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب تمام دلائل اور تمام مواقع توحید کی آیڈیالوجی کے لیے پوری طرح موافق ہوچکے ہیں۔ اب اہل اسلام کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس انقلاب کو شعوری طور پر سمجھیں، اور دانش مندانہ منصوبہ بندی کے تحت توحید کی آیڈیالوجی کو اسی طرح ایک معلوم حقیقت بنادیں، جس طرح موجودہ زمانےمیں سائنس کا علم لوگوں کے لیے ایک معلوم حقیقت بن چکا ہے۔
قرآن میں پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ تمام دین پر اس کوغالب کردے(التوبۃ ، 9:33)۔ اس غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ نظریاتی غلبہ ہے۔مزید یہ کہ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ غلبہ کا یہ واقعہ پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں مکمل طور پر ظاہر ہوجائے گا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میںایک انقلابی عمل (revolutionary process)جاری ہوگا، جو آخرکار دینِ حق کے کامل نظریاتی غلبہ کے ہم معنی بن جائے گا۔
قرآن و حدیث میں کچھ بیانات حال (present) کی زبان میں ہیں، اور کچھ بیانات مستقبل (future) کی زبان میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کچھ تعلیمات وہ ہیں، جو پیغمبر اسلام کے اپنے زمانے میں پوری ہونے والی تھیں، اور کچھ تعلیمات وہ ہیں ،جو رسول اور اصحابِ رسول کے بعد کے زمانےمیں اپنی تکمیل تک پہنچنے والی تھیں۔
پہلی قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (5:3)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو پورا کردیا۔ قرآن کی اس آیت میں تکمیل سے مراد قرآن کے نزول کی تکمیل ہے۔ قرآن (کتاب اللہ) کا نزول اپنی آخری صورت میں ہوچکا۔ اب قیامت تک کوئی نیا قرآن جزئی یا کلی طور پر اترنے والا نہیں۔
قرآن کی اس آیت میں اکمالِ دین کا لفظ ہے۔ اکمالِ دین میںباعتبارِ تفصیل یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام کے دورِ اول میں قرآن مدون ہوا، پیغمبر کا اسوہ (example) ہر پہلو سے مستند طور پر قائم ہوگیا، کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے توحید کا مرکز بنادیا گیا،امت مسلمہ عملاً وجود میں آگئی، وغیرہ۔دوسری قسم کی تعلیم کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (9:32)۔یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں حالانکہ اللہ کو اس کے علاوہ کوئی بات منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے، خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے منھ سے بجھا دیں— اس آیت کا تعلق پوری انسانی تاریخ سے ہے۔ تاریخ میں مسلسل طور پر اہلِ انکار یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہدایت کے بارےمیں اللہ کا منصوبہ مکمل نہ ہونے پائے۔ مگر قرآن کے نزول کے بعد اللہ نے یہ مقدر کردیا کہ اس معاملے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بنے، اور ہدایت کے بارے میں اللہ کا منصوبہ لازمی طور پر مکمل ہوکر رہے۔ اس طرح کی آیتوں یا حدیثوں میں مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ مقصد خود زمانۂ رسول میں پورا نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ اس طرح پورا ہوگا کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعہ تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process)جاری ہوگا۔ اس عمل کے نقطۂ انتہا (culmination) پر ایسا ہوگا کہ اتمامِ نور کے بارے میں اللہ کا منصوبہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
اللہ کےمنصوبے کے مطابق ، یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس عمل میں مسلم لوگوں کے علاوہ سیکولر لوگوں نے بھی حصہ لیا۔یہ عمل انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جاری رہا۔ گویا بظاہر انسان کی آزادی قائم تھی، اور زیریں لہر (undercurrent) کے طور پر خدا کا منصوبہ بھی مسلسل طور پر جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اسلام کی مدون تاریخ میں یہ واقعہ ایک گمشدہ کڑی (missing link) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان تاریخ کے ایک حصے کو جانتے ہیں، اور وہ تاریخ کے دوسرے حصے سے بے خبر ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ عالمی تاریخ میں مسلمانوں نے کس طرح اپنا رول اداکیا۔ لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں کہ عین اسی وقت سیکولر عناصر بھی مسلسل طور پر اپنا تائیدی رول اداکرتے رہے۔
اسلام کا ایک جزء اس کی آئڈیا لوجی ہے۔ یہ آئڈیا لوجی تمام تر قرآن و سنت پر مبنی ہے۔ اسلام کا دوسرا جزء اس کے تائیدی اسباب ہیں۔ اس دوسرے جزء میں دنیا کی تمام قوموں نے حصہ لیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانہ مذہبی جبر (religious persecution) کا زمانہ تھا، آج انسان کو پورے معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں کھلاپن (openness) نہیں ہوتا تھا، آج پوری دنیا کھلے پن کے دور میں پہنچ گئی ہے۔ قدیم زمانے میں کمیونی کیشن (communication) صرف محدود طور پرہوسکتا تھا، آج ماڈرن ٹکنالوجی نے کمیونی کیشن کو لامحدود حد تک بڑھا دیا ہے۔قدیم زمانے میں بین الاقوامی مسلّمات (international norms) قائم نہیں ہوئے تھے، موجودہ زمانے میں بین الاقوامی مسلّمات بڑے پیمانے پر قائم ہوگئے ہیں۔ قدیم زمانے میں امن اور جنگ کا کوئی مسلّمه اصول نہیں تھا، آج اقوامِ متحدہ (UNO) کے ذریعے امن اور جنگ کا مسلمہ اصول وضع ہوگیا ہے، وغیرہ۔ یہ تمام مسلمات کیسے قائم ہوئے۔ اس کو وجود میں لانے میں بڑا رول سیکولر افراد نے انجام دیا ہے۔
مسلمان اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ان کو پوری انسانی تاریخ عملاً اسلام کی تاریخ نظر آئے گی۔ جب کہ اس وقت وہ صرف مسلم تاریخ کو اسلام کی تاریخ سمجھتے ہیں۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی نفسیات ہم اور وہ (we and they) کے تصور پر بنی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے بعد مسلمانوں کی نفسیات ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہوجائے گی۔ یہ طرزِ فکر پورے معنوں میں مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پیدا کردے گی، جو بلاشبہ ان کے لیے سب سے بڑی طاقت بن جائے گا۔
دین کا ضروری ڈھانچہ
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن الدين ليأرِزُ إلى الحجاز كما تأرِز الحية إلى جحرها (سنن الترمذی، حدیث نمبر2630)۔ یعنی دین حجاز میں سمٹ آئے گا، جس طرح سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ کے دور میں بھی دین حجاز میں زندہ رہےگا۔
حجاز وہ جغرافی علاقہ ہے جہاں پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کی بعثت ہوئی، جہاں حر م مکہ اور حرمِ مدینہ واقع ہیں، جہاں اسلام کی تاریخ بنی، جہاں ابراہیم اور اسماعیل اور اس کے بعد رسول اور اصحابِ رسول کی روایات قائم ہوئیں، جو اسلام کی عالمی عبادت ، حج کا مرکز ہے۔حرم وہ مقام ہے جہاں جاندار کو مارنا کلی طور پر حرام ہے۔
چنانچہ ارضِ حجاز (عرب) کو مسلمانوں کے درمیان خصوصی احترام کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کو پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں فرمایا کہ جب دنیا میں فتنہ پھیل جائے گا، تب بھی ارضِ حجاز (عرب) نسبتاً محفوظ رہے گا۔ تشدد کے دور میں بھی مسلمان یہاں احتراماً تشدد سے پرہیز کریں گے۔ اس لیے دین کا وہ ڈھانچہ جس کو قائم رکھنا ہر حال میں ضروری ہے، کسی نہ کسی صورت میں یہاں قائم رہے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈھانچہ کیا ہے۔ وہ ڈھانچہ یہ ہے کہ امت سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طور پر پر ہیز کرے، اور غیر سیاسی دائرے میں پر امن تعمیر کو ہمیشہ جاری رکھے۔ اس مطلوب کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے :
Political status quoism and dawah activism
پر تشدد نزاعات ہمیشہ سیاسی ایشو پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس بنا پر اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ سیاست کے معاملے میں حالتِ موجوده (status quo) پر عملاً راضی رہو تاکہ پر امن تعمیر کا ماحول ہمیشہ موجود رہے۔ اس طرح اسلام کا ربانی مشن مسلسل طور پر بلا انقطاع جاری رہے گا۔اس اعتبار سے گویا ارضِ حجاز کو عملاً ایک ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔
سیاست اور تعمیر کے درمیان مذکورہ بندوبست (settlement) ہر مسلم علاقے کے لیے مطلوب ہے۔ حدیث میں ارضِ حجاز کا ذکر استثنائی طور پر اس لیے کیا گیا کہ اس علاقے کی مخصوص حیثیت کی بنا پر یہاں ایک نفسیاتی قسم کا جبر (compulsion) قائم ہوگیا ہے۔ فتنہ کے دور میں بھی عملاً ایسا ہوگا کہ مسلمان اس علاقے میں متشددانہ سرگرمیوں سے احتراز کریں گے۔ اس بنا پر یہ علاقہ دورِ فتنہ میں بھی لوگوں کے لیے بلااعلان ایک ماڈل بنا رہے گا۔
مذکورہ حدیث میں حجاز کا لفظ جغرافی مقام کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ اپنے ماڈل کے اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حجاز کے لیے مسلمانوں کے اندر خصوصی احترام کی جو نفسیات پیدا ہوگی، اس کی وجہ سے یہ علاقہ عملاً سیاسی تشدد سے بچا رہے گا، اور اس بنا پر وہ لوگوں کے لیے ایک ماڈل کا کام کرے گا۔ یہ علاقہ اپنی صورتِ حال کے اعتبار سے مسلمانوں کو یہ بتاتا رہے گاکہ ہر جگہ تم اسی سیاسی ماڈل کو اختیار کرو تاکہ اسلام کا اصل مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔
نئے دور کا آغاز
پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے مدنی دور میں وہ واقعہ پیش آیا جو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ يه واقعه چھ ہجری میں پيش آيا۔صلح حدیبیہ اصلاً ایک پر امن معاہدے کا نام تھا۔ اس صلح سے پہلے اہل توحید اور اہل شرک کےدرمیان ٹکراؤ کا سلسلہ جاری تھا۔ جس نے کئی بار جنگ کی صورت اختیار کرلی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد یہ صورتِ حال ختم ہوگئی۔ اس کے بعد عرب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب کہ اہل ایمان کو یہ آزادی مل گئی کہ وہ ملک میں پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ان کے لیے متشددانہ مزاحمت پیش نہیں آئے گی۔
یہ معاہدہ جب فریقین کے درمیان طے پاگیا تو اس کے بعد قرآن کی سورہ الفتح نازل ہوئی۔ اس سورہ میں اللہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا:إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا. لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (48:1-2)۔ بے شک ہم نے تم کو کھلی ہوئی فتح دے دی۔ تاکہ اﷲ تمھاری اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کردے۔ اور تمھارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کردے۔ اور تم کوسیدھا راستہ دکھائے۔
قرآن کی اس آیت میں صراطِ مستقیم (straight path) سے کیا مراد ہے۔ معاہدہ حدیبیہ کے وقت اور اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، وہ اس معاملےمیں شانِ نزول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پس منظر کو لے کر اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیدھا راستہ سے مراد مقصد کے حصول کا پر امن طریقہ (peaceful method) ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیس فل میتھڈ کے ذریعے اپنے مشن کو زیادہ موثر طور پر جاری رکھا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں پورا عرب اسلام کا علاقہ بن گیا۔ اس سے پہلے عرب میں شرک کا غلبہ تھا۔ اب پورے عرب میں توحید کا غلبہ قائم ہوگیا۔
یہ پر امن طریقِ کار (peaceful method)کا کرشمہ تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے اپنے مشن کی پرامن منصوبہ بندی کی اور اس کا نتیجہ فتح مبین (clear victory) كي شكل ميں ظاهر هوا۔ یہاں فتح مبین سے مراد سیاسی فتح نہیں ہے، بلکہ نظریاتی فتح (ideological victory) ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کا نشانہ نظریاتی فتح ہے، نہ کہ سیاسی فتح۔ یہاں صلح حدیبیہ کا مقصد صرف عرب میں’’فتح مبین‘‘ نہیں تھا۔ بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک انقلاب کا آغاز تھا۔صلح حدیبیہ کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ جب کہ اقوامِ متحدہ (UNO) کے عالمی پلیٹ فارم پر دنیا کی تمام قوموں نے متحدہ طور پر یہ طے کیا کہ اب دنیا میں بطور اصول ایک ہی طریقِ کار تسلیم شدہ طریقِ کار ہوگا، اور وہ پرامن طریقِ کار ہے۔ اب اصولی طور پر کسی بھی قوم کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ طریقِ کار (violent method) کو اختیار کرے۔
تاریخ کو اس مقام تک پہنچانے میں مختلف واقعات کا حصہ ہے۔ ان میں سے دو اہم واقعات وہ ہیں، جن کو پہلی عالمی جنگ(1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ ان دونوں جنگوں میں دنیا کی تمام بڑی طاقتیں براہ راست طور پر یا بالواسطہ طور پر شریک تھیں۔اس کے باوجود اس جنگ کا کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ جنگ کے ہر فریق کو غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ دونوں جنگیں تاریخ کی عظیم جنگیں (great wars) کہی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان جنگوں میں ایسے خطرناک ہتھیار استعمال ہوئے، جو اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کوئی فریق اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ جان و مال کی بے پناہ قربانی کے باوجود ہر فریق کے حصے میں تباہی کے سوا کچھ اور نہیں آیا۔ان عظیم جنگوں کے بعد تاریخ میں پہلی بار اس سلسلے میں ایک جبر (compulsion) کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔ تمام قوموں نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمارا آپشن (option)صرف پر امن طریقِ کار ہوگا، جنگ اور تشدد کا طریقہ نہیں۔ چنانچہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر اقوامِ متحدہ وجود میں آئی جو گویا عالمی صلح حدیبیہ کے ہم معنی تھی۔
اس سے پہلے انسانی تاریخ میں اعلان کے ساتھ یا بلااعلان یہ سمجھا جاتا تھا کہ مقصد کے حصول کا واحد ذریعہ جنگ ہے۔ یہ تصور عملاً پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس تصور کا باقاعدہ خاتمہ صرف بیسویں صدی کے وسط میں ہوا جب کہ اقوامِ متحدہ کا عالمی ادارہ تمام قوموں کے اتفاقِ رائے سے قائم ہوگیا۔
امن (peace)اس دنیا کا کائناتی کلچر ہے۔ انسان کے سوا پوری کائنات ہمیشہ سے اسی امن کلچر پر قائم ہے۔ انسان کو خالق نے آزادی عطا کی ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں یہ کلچرعملاً قائم نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انسان اپنی آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر بار بار تشدد کا طریقہ اختیار کرتا رہا۔ یہاں تک کہ خالق نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ تاریخ میں عملاً ایک جبر (compulsion) کی صورت پیدا ہوگئی۔ انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ انسان جبر اور تشدد کو اصولی طور پرقابلِ ترک قرار دے دے۔ اب اگر دنیا میں کہیں جنگ کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی حیثیت ایک استثنا (exception)کی ہوتی ہے۔ جب کہ ماضی کی تاریخ میں جنگ کو عموم کی حیثیت حاصل تھی۔
اب دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک سیکولر دنیا اور دوسري مسلم دنیا۔ سیکولر دنیا کا مسلمہ معیار (accepted criterion) صرف ایک ہے، اور وہ نتیجہ (result) ہے۔ سیکولر دنیا کا اصول یہ ہے کہ جو عمل بےنتیجہ ہو، اس کو اختیار نہیں کیا جائے گا، صرف وہ عمل اختیار کیا جائے گا جو مطلوب نتیجہ پیدا کرنے والا ہو۔ سیکولر دنیا عقل کے اصول پر چلتی ہے، اور عقل کا اصول یہ ہے کہ نتیجہ خیز کام کرو، اور بےنتیجہ کام کو چھوڑ دو۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد دنیا میں نوآبادیات کا دور آیا۔ نو آبادیاتي نظام اصلاً صنعتی نظام تھا۔ ابتدائی دور میں قدیم تصور کے تحت نوآبادی طاقتوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں اپنی صنعت کو فروغ دینے کے لیے پولیٹکل پاور کی بھی ضرورت ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے ساتھ ہر جگہ پولیٹکل اقتدار قائم کرنے کی کوشش کی، تاکہ وہ اپنی صنعتی سرگرمیوں کو سیاسی شیلٹر (political shelter) عطا کرسکیں۔
لیکن نوآبادی طاقتوں کو تجربے کے بعد محسوس ہوا کہ جدید دور قوم پرستی (nationalism) کا دور ہے۔ اس دور میں سیاسی شیلٹر کا تصور ایک ناقابلِ عمل تصور بن چکا ہے۔ چنانچہ انھوں نے سیاسی شیلٹر کا ایک بدل دریافت کرلیا۔ اور وہ تنظیم (organization) تھا ۔ انھوں نے کامیاب طور پر یہ منصوبہ بنایا کہ سیاسی شیلٹر کے مقصد کو بہتر تنظیم کے ذریعے حاصل کریں۔
اب انھوں نے اپنی صنعتی سرگرمیوں کے لیے صرف دو چیزوں پر ساری توجہ صرف کردی۔ اور وہ تھا— کواليٹي اور آرگنائزیشن۔ انھوں نے بہتر کوالیٹی اور بہتر تنظیم کے ذریعہ زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے اس مقصد کو حاصل کرلیا ، جس کو ناکام طور پر نو آبادیات کے تصور کے تحت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جدیددور میں نو آبادی طاقتوں نے جو طریقے استعمال کیے ہیں، ان میں سے دو طریقے وہ ہیں جن کوانوسٹمنٹ (investment) اور آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ یہ نئے طریقے مکمل طور پر پرامن اور غیر سیاسی طریقے ہیں ، لیکن ان طریقوں کے ذریعے موجودہ زمانے کی ترقی یافتہ قوموں نے اکیسویں صدی میں بہت بڑے پیمانے پر اپنا صنعتی ایمپائر (industrial empire) قائم کرلیا۔ بغیر اس کے کہ اس کو کسی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا پیش آئے۔ یہ حقیقت موجودہ زمانے کی تمام قوموںنے دریافت کرلی۔ اس میں صرف ایک قوم کا استثنا ہے، اور وہ مسلمان ہے۔ آج کی دنیا میں جو تشدد (militancy) جاری ہے، وہ عملاً مسلم تشدد (militancy) ہے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو آج کی دنیا میں متشددانہ طریقِ کار (violent method) کا طریقہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مسلم تشدد کی مثالیں تقریباً ہر روز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ نائن الیون 2011اور پیرس اٹیک 2015 اس کی چند مثالیں ہیں۔
اس عموم میں مسلمانوں کے استثنا کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان بعد کی تاریخ میں جو علمی لٹریچر بنا ، وہ امن کے اصول کے بجائے جہاد (بمعنی قتال ) کے اصول پر بنا۔ یہ رسول اور اصحابِ رسول کے دین سے ایک انحراف کے ہم معنی تھا۔ لیکن وہ مسلم اہلِ علم کے درمیان اتنا زیادہ رائج ہوا کہ آخرکار اس نے عقیدہ کی صورت اختیار کرلیا۔ مسلمانوں کا تشدد مبنی برعقیدہ تشدد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر لڑ کر مرجاؤ ، اور اس کے بعد سیدھے جنت میں پہنچ جاؤ۔ یہ عقیدہ اتنا زیادہ بڑھا کہ موجودہ زمانے میں ایسے علما پیدا ہوئے جنھوں نے خود کش بمباری (suicide bombing) کو یہ کہہ کر مقدس درجہ دے دیا کہ وہ خود کشی نہیں ہے، بلکہ استشہاد (طلب شہادت) ہے۔ یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے اصل نظریہ ہے۔ اس کی تائید میں کوئی بھی آیت یا حدیث موجود نہیں۔ لیکن اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ کوئی قابلِ ذکر عالم اس کے خلاف بولنے والا نہیں۔ پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے پیشین گوئی کی زبان میں یہ کہا تھا إذا وضع السيف في أمتي، فلن يرفع عنهم إلى يوم القيامة (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3952) ۔ یعنی جب میری امت میں تلوار اٹھ جائے گی، تو وہ اس سے قیامت تک ہر گز نہیں دور ہوگی۔
اسلام کی تاریخ
پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔آپ کا مشن دعوتِ توحید کا مشن تھا۔ لوگوں کے لئے اِس پیغمبرانہ مشن کے مآخذ ابتدائی دور میں صرف دو تھے، قرآن اور حدیث۔ قدیم زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا،اس لئے لوگ حافظہ اور مخطوطات کے ذریعےاسلام کو سمجھتے رہے۔ ابتدائی دور میںاسلام کو سمجھنے کے لئے قرآن و حدیث کوواحد ماخذ (source)کی حیثیت حاصل تھی۔لوگ قرآن اور حدیث کو پڑھتے اور اس سے اسلام کی تعلیمات اخذ کرتے۔بعد کے زمانہ میں جو تبدیلی پیدا ہوئی،اس نےاس معاملےمیں امتِ مسلمہ کے لئےاسلام کا ماخذ بدل دیا۔ اب قرآن و حدیث کے بجائے عملاًتاریخ ان کی ذہن سازی کا ذریعہ بن گئی۔
اس عمل کا آغاز دوسری صدی ہجری میں سیرت نگاری سے ہوا۔اِس ابتدائی دور میں سیرت پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب غزواتی پیٹرن (pattern) پر لکھی گئیں۔ مثلاً مغازی الواقدی، مغازی موسیٰ بن عقبہ، مغازی ابن اسحاق، وغیرہ۔ پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کا مشن اصلاً پرامن دعوت کا مشن تھا۔ لیکن ابتدائی دور کی ان کتابوں نے قارئین کو یہ تاثر دیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا مشن، ایک ایسا مشن تھا جو جنگ وقتال پر مبنی تھا، نہ کہ اللہ کی طرف پُرامن دعوت پر۔
عباسی خلافت 123ھ میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد اسلامی موضوعات پر تحریری کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ اب وسیع تر معنوں میں اسلام کی تاریخ لکھی جانے لگی۔ لیکن اب بھی بنیادی پیٹرن وہی باقی رہا۔ چناںچہ اس دور میںبھی اسلامی تاریخ کے موضوع پرجوکتابیں لکھی گئیں، وہ عملاً فتوحاتی پیٹرن پر لکھی گئیں۔ مثلا فتوح الشام للواقدی، فتوح البلدان للبلاذری، وغیرہ۔
ایساکیوں ہوا کہ پیغمبر ِ اسلام کی سیرت لکھنے کے لئے غزواتی پیٹرن اختیار کیا گیا۔ اسی طرح اسلام کی تاریخ لکھنے کے لئے کیوںفتوحاتی پیٹرن ایک مقبول پیٹرن بن گیا۔جواب یہ ہے کہ ایسا زمانی عنصر (age factor) کی بنا پر ہوا۔ پہلے زمانے میں تاریخ نگاری کا یہی پیٹرن تمام دنیا میں رائج تھا۔بادشاہوں کے قصے، سلطنت کے واقعات، اور حکمرانوں کی لڑائیاں، قدیم زمانے میںاسی قسم کی چیزیں تاریخ کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ اس لئے جب مسلمانوںمیں تاریخ نگاری کا کام شروع ہوا تو انھوں نے زمانی تاثر کے تحت اسلام میں بھی تاریخ نگاری کے اسی رواجی پیٹرن کو اختیار کر لیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہات (التوبۃ،9:30) کہا گیا ہے۔
عبد الرحمٰن ابن خلدون (وفات808 ھ) پہلا شخص ہے، جس نے تاریخ نگاری کے اس پیٹرن پر تنقید کی۔ اس نے کہا کہ تاریخ کو پوری انسانی سرگرمی کا بیان ہونا چاہئے، نہ کہ صرف بادشاہت اور سلطنت کا بیان۔ابن خلدون نے اپنے اِس نقطۂ نظر کو اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ، جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ابن خلدون نےخودبھی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کاٹائٹل یہ تھا ديوان المبتدا والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر۔ مگر ابن خلدون کی اپنی لکھی کتاب بھی تاریخ نویسی کے بارے میںاس کے بتائے ہوئے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ابن خلدون کی تاریخ کی یہ کتاب بھی عملاً اس دورکی دوسری تاریخ کی کتابوں جیسی ایک کتاب بن گئی۔
ظہورِ اسلام کے بعد ہزار سال تک اسلام کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، جس کو سیاسی پیٹرن کہنا صحیح ہوگا۔تاریخ کی یہ کتابیں اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر پیش کرتی رہیں، جو عملاً سیاسی نوعیت کے واقعات کا ایک مجموعہ تھا۔
تاریخ نگاری کے اس سیاسی پیٹرن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی تاریخ سے وہی چیز حذف ہوگئی، جو اس کا اہم ترین جز تھی، اور وہ دعوت الی اللہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کے دور میں اسلام کی تاریخ کے نام سے جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں دعوت کا پہلو سرے سے موجود ہی نہیں۔ مثلاً مورخ ابن اثیر کی کتاب کا نام الکامل فی التاریخ ہے۔لیکن وہ اسلامی تاریخ کا کامل بیان نہیں۔ کیوں کہ اس کتاب میں سیاسی نوعیت کے واقعات کا ذکر تو کیا گیا ہے، لیکن اس میں اسلام کے دعوتی پہلو کی تاریخ موجود نہیں۔ اسی طرح ابن کثیرنے تاریخ کے موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی ، جس کا نام البدایۃ والنهایۃ ہے، یعنی از اول تا آخر۔ مگر اس کتاب کا حا ل بھی یہ ہے کہ اس میں اسلامی تاریخ کے دوسرے واقعات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن اسلام کی دعوتی تاریخ اس کے اندر موجود نہیں۔
سیاسی پیٹرن کا تعلق صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود نہ رہا۔ یہ پیٹرن ہر شعبۂ علم میں چھاگیا۔ مثلا جب حدیث کی تدوین ہوئی تو حدیث کی کتابوں میں کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے ابواب تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، لیکن کتاب الدعوۃ والتبلیغ ان میںموجود نہیں۔ اسی طرح عباسی دور میں فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں بھی کتاب المغازی اور کتاب الجہاد کے تفصیلی ابواب موجود ہیں، لیکن فقہ کی کسی کتاب میں کتاب الدعوۃ والتبلیغ موجود نہیں، وغیرہ۔ یہی وہ کتابیں تھیں جن کو پڑھ کر بعد کی مسلم نسلوں کا ذہن بنایا۔ اس کے نتیجے میں بعد کے مسلمانوں میں سوچنے کا دعوتی پیٹرن رائج نہ ہوسکا، بلکہ سوچنے کا سیاسی پیٹرن رائج ہوگیا۔ مثلاًشاہ ولی اللہ دہلوی کی ایک کتاب حجۃ اللہ البالغہ ہے،جس کا موضوع اپنے نام کے لحاظ سے الله كي حجت ہے، لیکن اس میں دعوت کا باب سرے سے موجود نہیں۔ حالاں کہ قرآن کے مطابق اللہ کی حجت لوگوں کے اوپر دعوت کے ذریعے قائم ہوتی ہے(النساء ، 4:165)۔عجیب بات ہے کہ اسلامی تاریخ کے دعوتی پہلو پر باقاعدہ کتاب لکھنے کا کام سب سے پہلے ایک مسیحی مستشرق نے کیا۔اس كتاب كا ٹائٹل ہے:
T. W. Arnold, The Preaching of Islam, first published in 1896
سیاسی پیٹرن پر لکھی ہوئی تاریخ کی کتابوں کے پڑھنے سے جو ذہن بنا، وہ وہی تھا جس کو سیاسی اور قومی ذہن کہا جاسکتا ہے۔تاریخ نگاری کا یہ پیٹرن جاری تھا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ آیا۔بیسویں صدی میں مسلمان نئے حالات سے دو چار ہوئے۔ان کا ایمپائر ،مثلا ًمغل ایمپائر اور عثمانی ایمپائر ٹوٹ گیا۔مسلمانوں کے اوپر ہر اعتبار سے مغربی قوموں کا غلبہ قائم ہوگیا۔ مغربی قومیں نئی طاقت کے ساتھ ابھریں، اور عملاً سارے عالم پر چھاگئیں، جن میں مسلم قومیں بھی شامل تھیں۔
یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لئےایک سیاسی چیلنج بنی ہوئی تھی۔اس کے نتیجے میںمسلمانوں کے اندر سیاسی ردّ عمل کا ذہن پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں کارل مارکس کا نظریۂ تاریخ بڑے پیمانے پر پھیلا۔ کارل مارکس نے جو نظریۂ تاریخ پیش کیا، اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس نے تاریخ کی ایک مادی تعبیر پیش کی، جس کو مادی تعبیرِ تاریخ (material interpretation of history) کہا جا تا ہے۔ 1917 میں جب کارل مارکس کے پیروؤں (کمیونسٹ پارٹی)کو روس میںحکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو اس کے بعد مارکسی فلسفہ ساری دنیا میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
ان حالات کے زیرِ اثر مسلم دنیا میںایک ظاہرہ پیدا ہوا۔ یہ ظاہرہ زیادہ تر زمانی حالات سے تاثر پذیری کا نتیجہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کچھ مسلم مفکرین نے اسلام کو وقت کے معیار کے مطابق ثابت کرنے کے لئے، اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation of Islam) پیش کرنا شروع کیا۔ ان مسلم مفکرین میں دونام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں،عرب دنیا میں سید قطب مصری (وفات1966)، اور برصغیر ہند میں سید ابولاعلی مودودی (وفات1979)۔
اسلام کی یہ سیاسی تعبیروقت کی مسلم نسلوں کے مزاج کے مطابق تھی۔ چنانچہ وہ عرب اور غیرعرب دنیا میں تیزی سے پھیل گئی۔ اس سیاسی نظریے کے تحت ہر زبان میں لٹریچر تیارکیا گیا۔ جماعتیں اور ادارے بنائے گئے۔ اس سیاسی نظریے کے تحت مسلمانوں میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے اس نظریے کے تحت مسلمانوں کے درمیان جو سرگرمیاں شروع ہوئیں، ان کا نشانہ حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔ تاکہ ان کے مفروضہ ذہن کے تحت ہر جگہ اسلام کا نظام قائم کیا جاسکے۔مگر ہر قسم کی قربانیوں کے باوجود ان عناصر کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جو ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ مسلمان ہر جگہ عملاً دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک اقتدار پر قابض گروہ اوردوسرا اقتدار سے محروم گروہ۔ ان دونوں طبقوں کے درمیان لامتناہی طور پر حریفانہ تعلق قائم ہوگیا۔
یہ طبقہ جو اپنے آپ کو اسلام پسند (Islamist) کہتا ہے، اس نے جب دیکھا کہ ان کو مسلم ملکوں میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے تو انھوں نے خود اپنے آپ پر نظر ثانی نہیں کی بلکہ انھوں نے اس کا الزام مغربی قوموں پر ڈال دیا۔ انھوں نے کہا کہ مغربی قوموں نے سازش کر کے مسلم حکمرانوں کو اپنے موافق بنا لیا ہے۔اب ان کی سیاسی مہم کا نشانہ بیک وقت دو ہوگیا۔ ایک طرف مسلم حکمراں، اور دوسری طرف مغرب کی قومیں۔انھوں نے دونوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی سرگرمیاں جاری کردیں۔
مگرآخرکار ان اسلام پسندوں کو نظر آٰیا کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ اپنے سیاسی مقصد میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ اب ان کے اندر ایک خطرناک رجحان ابھرا، اور وہ خودکش بمباری (suicide bombing)کا رجحان تھا۔ انھوں نے غلط پروپیگنڈے کے ذریعےوقت کے مسلمانوں کو آخری حد تک انتہاپسندی میں مبتلا کردیا۔چنانچہ ان کو مسلمانوں میں ایسے افراد کثرت سے ملنے لگے، جو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کے لئے تیار تھے۔اکیسویں صدی میںیہ رجحان پوری شدت کے ساتھ کام کررہا ہے۔یہ رجحان یقینی طور پر کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ اس کا مطلب عملاً یہ ہے— اگر تم دشمن کو ہلاک نہیں کرسکتے تو ایساکرو کہ خوداپنے آپ کو ہلاک کرکے کم ازکم دشمن کو غیر مستحکم (destabilize)کرو۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں کوئی نیا آغاز لانا صرف اس طرح ممکن ہے کہ ان کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں اس معاملے کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ کسی جذباتی اقدام یا ردعمل کے تحت کوئی کارروائی اس معاملے کا حل نہیں بن سکتی۔ یہ احیائے امت کا معاملہ ہے، اور احیائے امت کا معاملہ ہمیشہ اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے۔
راقم الحروف کے نزدیک اس معاملےکا آغاز یہ ہے کہ وہ تمام کتابیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی پیٹرن پر لکھی گئیں، ان سب کو کلاسیکل لٹریچر (classical literature) کا درجہ دے دیا جائے۔ یعنی ان کی اہمیت صرف اس اعتبار سے ہو کہ وہ امتِ مسلمہ کی ماضی کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں، لیکن جہاں تک موجودہ زمانے میں ملت کے احیاء اور اس کے مستقبل کی تعمیر کا سوال ہے، اب بلاشبہ ہم کو نئے لٹریچر کی ضرورت ہے۔ایسا لٹریچر جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں نئے حالات کو سمجھا جائے، اور اجتہادی انداز میں عمل کا نقشہ بنایا جائے۔
بعد کے زمانے میں جو ڈیولپمنٹ (development)ہوا، اس کے نتیجے میں امت کے اندر انسان رخي ذهن كے بجائے مسلم رخی ذہن (Muslim-oriented mind)بن گیا۔ مسلمان عام طور پر ہم اور وہ (we and they) کے انداز میں سوچنے لگے۔ مگر یہ ذہن مکمل طور پرایک غیر دعوتی ذہن ہے۔ صحیح ذہن وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر مبنی ہو۔ اس لحاظ سے موجودہ زمانے میںجو اسلامی لٹریچر تیار كيا جائے، اس کو تمام تر انسان رخی سوچ (man-oriented thinking) پر مبنی ہونا چاہئے۔ دعوت الی اللہ کے لئےضروری ہے کہ مسلمانوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لئے نصح (خیرخواہی) کا ذہن موجود ہو۔ مسلمانوں کا موجودہ لٹریچر اس اسپرٹ سے خالی ہے۔ آج جس نئے لٹریچر کی ضرورت ہے، اس کو اس کمی سے مکمل طور پرپاک ہونا چاہئے، ورنہ وہ عملاً مطلوب مقصد کے لئے مؤثر نہ ہوگا۔
عہد شباب
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ البخاری کے مطابق، اس کا ابتدائی جزء یہ ہے: يأتي في آخر الزمان قوم، حدثاء الأسنان، سفهاء الأحلام، يقولون من خير قول البرية، يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية(صحیح البخاری، حدیث نمبر3611)۔یعنی بعد کے زمانے میں ایک قوم آئے گی، یہ لوگ کم عمر اور کم عقل ہوں گے، بات بہت عمدہ کریں گے، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیرکمان سے نکل جاتاہے۔
اس حدیث میں ایک ظاہرے کی طرف اشارہ ہے، جس کی ایک انتہائی صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مگراس سے قطع نظر اس حدیث سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ کہ کوئی آدمی جب اپنے عہد شباب (youth age) میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عقل و فہم کے اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کی اس رائے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے جس کو اس نے پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ظاہر کی ہو۔
قرآن سے بھی فطرت کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ جب جوانی کی عمر میں تھے۔ اس وقت انھوں نے مصر کے ایک قبطی کو گھونسا ماردیا، اس کے بعد وہ مرگیا (القصص،28:15)۔ لیکن حضرت موسیٰ کو عہد شباب میں نبوت نہیں دی گئی۔ بلکہ اس وقت دی گئی جب کہ وہ پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ چکے تھے۔ کیوں کہ بحیثیت پیغمبر ان کو قولِ لیِّن (طہ،20:44) کی زبان میں کلام کرنا تھا ۔
مذکورہ حدیث میں مسلم تاریخ کے ایک اہم پہلو کی توجیہہ ملتی ہے۔ مسلم تاریخ اپنے بعد کے زمانے میں نظریاتی انتہاپسندی (ideological extremism) کی طرف چلنے لگی۔ اس کو حدیث میں انتباہ کی زبان میں غلو (ابن ماجہ، حدیث نمبر3029)کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطالعے سے مذکورہ تاریخی ظاہرے کی نفسیاتی توجیہ معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ کہ بعد کے زمانے میں جن حضرات کو مسلمانوں کے اندر مفکر (thinker)کا درجہ ملا، ان کا فکر ان کے عہدِ شباب میں بنا تھا، جب کہ وہ ابھی پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ مثلاً ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی، ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ۔
عہد شباب میں انسان کے اندر جوش کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار میں اکثر انتہاپسندی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اعتدال کی زبان بولنے کے بجائے، انتہاپسندی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ بعد کو اس کا یہ فکر مقدس بن کر لوگوں میں اتنا پھیل جاتا ہے کہ لوگ اس کو نظرِثانی کے بغیردرست فکر سمجھ لیتے ہیں۔ یہی واقعہ بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔
مثلاً ابن تیمیہ کے زمانے میں ایک عیسائی نے پیغمبر اسلام کے بارے کوئی بات کہی۔ اس کو اس وقت کے مسلمانوں نے شتم رسول کا کیس قرار دیا۔ یہ واقعہ ملک شام میں اس وقت پیش آیا جب کہ ابن تیمیہ اپنی جوانی کے عمر میں تھے۔اس وقت انھوں نے عربی میںایک ضخیم کتاب لکھی جس کا ٹائٹل تھا الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ (البدایۃ والنہایۃ، جلد 13، صفحہ335-36)اس کتاب میں انھوں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ جو آدمی شتم رسول کا مرتکب ہو، اس کی سزا قتل ہے۔
ابن تیمیہ اس وقت اگر پختگی کے عمر میں ہوتے تو یقیناً ان کا ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ مذکورہ عیسائی سے مل کر اس کو ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے۔ وہ ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں وہ بتاتے کہ شتم رسول جیسا غیر فطری معاملہ ہمیشہ غلط فہمی کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے آدمی کے اوپر تبلیغ کرنا چاہیے، اور پر امن دعوتی عمل کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔
سید ابوالاعلی مودودی کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اردو کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ اس وقت وہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔ چنانچہ انھوں نے جوش و خروش کے انداز میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں جہاد بمعنی قتال کی زبردست وکالت کی گئی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ اس وقت پختگی کی عمر میں ہوتے تو شاید وہ ایک اور کتاب لکھتے جس کا عنوان یہ ہوتا: الدعوۃ الی اللہ۔ اس کتاب میں وہ پر امن دعوت کی اہمیت بتاتے اور مسلمانوں کو راغب کرتے کہ وہ پرامن دعوت کے اصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے براہ راست طور پر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے ،نہ کہ بعد کے زمانے میں لکھی ہوئی کتابوں کا۔
امن ایک اقدام
اسلام میں جنگ، دفاع کا اشو (issue of defence) ہے۔ اور امن، اقدام کا اشو (issue of advancement) ہے۔ اسلام میں اہل ایمان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جنگ چھیڑیں ۔ البتہ جہاں تک امن کا تعلق ہے ، اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن اقدام کا منصوبہ بنائیں۔ اسلام کا یہ اصول فطرت کے قانون پر مبنی ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، جنگ کے ذریعہ کسی مثبت نتیجہ کا حصول ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنگ سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوتا، نہ ہارنے کی صورت میںاور نہ جیتنے کی صورت میں۔ جنگ میں اگر فتح حاصل ہو، تب بھی ہارنے والے فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے جنگ میں فتح بھی ایک نئی جنگ کا آغاز بن جاتی ہے۔
پر امن منصوبہ بندی ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے، پرامن منصوبہ بندی کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں کرتی، وہ صرف مسئلہ کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ پر امن منصوبہ بندی کے تحت اقدام کرنا، ایک ایسے انجام کی طرف لے جاتا ہے جہاں جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کو پر امن سرگرمیوں کے لیے مواقع (opportunities) حاصل ہوجائیں۔
اسلام کے دورِ اول کی تاریخ اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں اہل ایمان اور ان کے مخالفین کے درمیان کچھ لڑائیاں ہوئیں۔ مثلاً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ حنین، وغیرہ۔ مگر ان لڑائیوں سےٹکراؤ ختم نہیں ہوا۔ گویا باعتبارِ نتیجہ عمل کی کوئی حد نہیں آئی۔ قرآن میں فتح کی آیت صرف صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ فتح کا مطلب ہے ٹکراؤ کا خاتمہ اور پرامن سرگرمیوںکے لیے موافق ماحول پیدا ہوجانا۔کسی اور غزوہ کے بعد فتح کی آیت نہیں اتری۔
حدیبیہ کا واقعہ 6 ھجری میں پیش آیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کی کوشش صرف یہ تھی کہ رسول اور اصحابِ رسول مکہ میں داخل نہ ہوں، اور عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں۔ مگر پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے خود اپنی طرف سے امن (peace) کی بات چیت (negotiation) شروع کی۔ اس معاملہ میں آپ اس آخری حد تک گئے کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر منظور کر لیا۔ صرف اس مقصد کے لیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوجائے اور معتدل حالات قائم ہوجائیں۔ تاکہ کھلے طور پر اسلام کے دعوتی مشن کو جاری کیا جاسکے۔
پیغمبر ِ اسلام صلى الله عليه وسلم نے جب اس طرح فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلی تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر 48 نازل ہوئی۔ اس میں پیشگی طور پر یہ اعلان کردیا گیا کہ یہ پرامن مصالحت باعتبارِ نتیجہ ایک فتح مبین (clear victory) ہے۔ قرآن کی یہ پیشگی خبر صرف چند سالوں میں واقعہ بن گئی، پر امن اقدام باعتبارِ نتیجہ فتح ثابت ہوا۔
اسلام میں جنگ مجبوری کے تحت وقتی دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پر امن منصوبہ اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کے اندر مستقل طور پر اعتدال کی حالت قائم ہوجائے۔ ہر فرد کے لیے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع حاصل ہوجائیں۔
حضرت نوح كا پيغمبرانه رول
حضرت نوح كي تاريخ يه سبق ديتي هے كه اس دنيا ميں سب سے زياده جو چيز مطلوب هےوه يه هے كه خدا كے بندوں تك خدا كا پيغام پهنچے۔تمام پيغمبروں نے اپنے زمانے كے لوگوں كو خدا كے پيغام سے آگاه كيا۔ بعد كے دوركے داعيوں كو بھي اپنے زمانےكے لوگوں كو اسي حقيقت سے آگاه كرنا هے۔
حضرت نوح کا پیغمبرانہ رول
حضرت نوح،حضرت آدم کے بعد آنے والے پیغمبر هيں۔ وہ حضرت آدم کی دسویں پشت میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کی زندگی میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا۔ وہ عظیم طوفان (Great Flood) اور کشتی (Ark) کا واقعہ تھا۔ یہ خصوصی واقعہ اللہ کے منصوبے کے تحت ظاہر ہوا۔ یہ واقعہ قبل از تاریخ دور (pre-historical period) میں پیش آیا۔بظاهر اللہ کو یہ منظور تھا کہ حضرت نوح كا واقعه بعد تاریخ دور (post-historic period) میں دریافت ہو،اور وہ بعد کے زمانے کے لوگوں كے لیے نشانی (sign) بنے، جس سے وہ اپنی زندگی میں سبق حاصل کریں۔
حضرت نوح کا واقعہ مدوّن تاریخ (recorded history) میں موجود نہیں۔ حضرت نوح کے واقعے کو جاننے کے صرف دو ماخذ ہیں — قرآن اور بائبل۔ یہاں دونوں متعلق حوالے نقل کئے جاتے ہیں۔
قرآن كا بيان
قرآن کی سورہ نمبر 71 کا نام ’نوح‘ ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے:
شروع اللہ کے نام سے جو بڑامہربان، نہایت رحم والاہے
’’ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردو، اس سے پہلے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آجائے۔ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوںيه کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ تمھارے گناہوں سے درگزر کرے گا اور تم کو ایک متعین وقت تک باقی رکھے گا۔ بے شک جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ٹالا نہیں جاتا۔کاش ، تم اس کو جانتے۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔ مگر میری پکار نے ان کی دوری ہی میں اضافہ کیا۔ اور میں نے جب بھی ان کو بلایا کہ تو انھیں معاف کردے تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے اوپر اپنے کپڑے لپیٹ لیے اور ضد پر اَڑ گئے اور بڑا گھمنڈکیا۔پھر میں نے ان کو برملا پکارا۔ پھر میں نے ان کو کھلی تبلیغ کی اور ان کو چپکے سے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا، اور تمھارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا،اور تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا، اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا۔ تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے لیے عظمت کے متوقع نہیں ہو۔ حالاں کہ اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔ اور ان میں چاند کو نور اورسورج کو چراغ بنایا۔ اور اللہ نے تم کو زمین سے خاص اہتمام سے اگایا۔ پھروہ تم کو زمین میں واپس لے جائے گا۔اور پھر اس سے تم کو باہر لے آئے گا۔ اور اللہ نے تمھارے لیے زمین کو ہموار بنایا۔ تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب،انھوں نے میرا کہا نہ مانا اور ایسے آدمیوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے گھاٹے ہی میں اضافہ کیا، اور انھوں نے بڑی تدبیریں کیں۔ اور انھوں نے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا۔اور تم ہر گز نہ چھوڑنا وَدکو اور سُواع کو اور یَغوث کو اور نَسرکو۔ اور انھوں نے بہت لوگوں کو بہکادیا۔اور اب تو ان گمراہوں کی گمراہی میں ہی اضافہ کر۔اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کيے گئے، پھر وہ آگ میں داخل کرديے گئے۔پس انھوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔ اور نوح نے کہا کہ اے میرے رب، تو ان منکروںمیں سے کوئی زمین پربسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تونے ان کو چھوڑدیاتو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا، وہ بدکار اور سخت منکر ہی ہوگا۔ اے میرے رب، میری مغفرت فرما،اور میرے ماں باپ کی مغفرت فرمااور جو میرے گھر میں مومن ہوکر داخل ہو، تو اس کی مغفرت فرما۔اور سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو معاف فرمادے اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر‘‘(71:1-27)۔
قرآن کی سورہ ہودمیں حضرت نوح اور ان کے مشن کے بارے میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ قرآن کی اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ اب تمھاری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا، سوا اس کے جو ایمان لاچکا ہے۔ پس تم ان کاموں پر غمگین نہ ہو جو وہ کر رہے ہیں۔ اور ہمارے رو برو اور ہمارے حکم سے تم کشتی بنائو اور ظالموں کے حق میں مجھ سے بات نہ کرو، بے شک یہ لوگ غرق ہوں گے۔ اور نوح کشتی بنانے لگا۔ اور جب اس کی قوم کا کوئی سردار اس پر گزرتا تو وہ اس کی ہنسی اڑاتا، انھوں نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں۔ تم جلد جان لوگے کہ وہ کون ہیں جن پر وہ عذاب آتا ہے جو اس کو رسوا کردے اور اس پر وہ عذاب اترتا ہے جو دائمی ہے۔یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور طوفان ابل پڑا، ہم نے نوح سے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی، سوا ان اشخاص کے جن کی بابت پہلے کہا جاچکا ہے، اور سب ایمان والوں کو بھی۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہوجائو، اللہ کے نام سے اس کا چلنا ہے اور اس کا ٹھہرنا بھی۔ بیشک میرا رب بخشنے والا، مہربان ہے۔ اور کشتی پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان ان کو لے کر چلنے لگی۔ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا جو اس سے الگ تھا۔ اے میرے بیٹے، ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور منکروںکے ساتھ مت رہ۔اس نے کہا میں کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھ کو پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا کہ آج کوئی اللہ کے حکم سے بچانے والا نہیں، مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے۔ اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔ اور کہا گیا کہ اے زمین، اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان، تھم جا۔ اور پانی سکھادیا گیا۔ اور معاملہ کا فیصلہ ہوگیا اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ دور ہو ظالموں کی قوم۔اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے میرے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میںسے ہے، اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے۔ اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ خدا نے کہا اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں نہیں۔ اس کے کام خراب ہیں۔ پس مجھ سے اس چیز کے لئے سوال نہ کرو جس کا تمھیں علم نہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ بنو۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں برباد ہوجائوں گا۔کہا گیا کہ اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر اور ان گروہوں پر جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان سے ظہور میں آنے والے) گروہ کہ ہم ان کو فائدہ دیں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک درد ناک عذاب پکڑلے گا‘‘۔(11: 36-48)
بائبل كا بيان
حضرت نوح کا ذکر بائبل کی کتاب پیدائش (Genesis) میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں اس کا متعلق حصہ نقل کیا جاتاہے:
’’ نوح راست باز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خداکے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔نوح کے تین بیٹے تھے سام، حام اور یافث۔اب زمین خدا کی نگاہ میں بگڑ چکی تھی اور ظلم وتشدد سے بھری ہوئی تھی۔خدا نے دیکھا کہ زمین بہت بگڑ چکی ہے، کیوں کہ زمین پر سب لوگوں نے اپنے طور طریقے بگاڑ لیے تھے۔چناںچہ خدا نے نوح سے کہا میں سب لوگوں کا خاتمہ کرنے کوہوں، کیوںکہ زمین ان کی وجہ سے ظلم سے بھر گئی ہے۔ اس لیے میں یقیناً نوع انسان اور زمین دونوں کو تباہ کرڈالوں گا۔ لہذا توگوپھر کی لکڑی کی ایک کشتی بنا۔ اُس میں کمرے بنانا اور اُسے اندر اور باہر سے رال سے پوت دینا۔تو ایسا کرنا کہ کشتی تین سو ہاتھ لمبی، پچاس ہاتھ چوڑی اور تیس ہاتھ اونچی ہو۔تو اس کی چھت سے لے کر ہاتھ بھر نیچے تک روشن دان بنانا۔ کشتی کے اندر تین درجے بنانا، نچلا، درمیانی اور بالائی، اور کشتی کا دروازہ کشتی کے پہلو میں رکھنا۔ دیکھ میں زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں، تاکہ آسمان کے نیچے کا ہر جان دار یعنی ہر وہ مخلوق جس میں زندگی کا دم ہے، ہلاک ہوجائے۔ سب جو روئے زمین پر ہیں، مرجائیں گے۔لیکن تیرے ساتھ میں اپنا عہد باندھوں گا اور تو کشتی میں داخل ہوگا۔ تو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔ اور تو تمام حیوانات میں سے دو دو کو جو نر اور مادہ ہوں، کشتی میں لے آنا، تاکہ وہ تیرے ساتھ زندہ بچیں۔ ہر قسم کے پرندوں، جانوروں اور زمین پر رینگنے والے جانداروں میں سے دو دو تیرے پاس آئیں تاکہ وہ بھی زندہ بچیںاور تو ہر طرح کی کھانے والی چیز لے کر اپنے پاس جمع کرلینا، تاکہ وہ تیرے اور اُن کے لیے خوراك کا کام دے۔نوح نے ہركام ٹھیک اُسی طرح کیا جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا‘‘۔ (Genesis 6: 9-22)
’’تب خداوند نے نوح سے کہا تو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں چلا جا، کیوںکہ میں نے اس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے۔ تو تمام پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور مادہ اور ناپاک جانوروں میں سے دو دو نر اور مادہ ساتھ لے لینا اور ہر قسم کے پرندوں میں سے سات سات نر اور مادہ بھی لینا تاکہ ان کی نسلیں زمین پر باقی رہیں۔میں سات دن کے بعد زمین پر چالیس دن اور چالیس رات پانی برساؤں گا اور ہر اُس جان دار شے کو جسے میں نے بنایا ہے، مٹادوں گا۔ اور نوح نے وہ سب کیا جس کا خداوند نے اُسے حکم دیا تھا۔ نوح چھ سو برس کا تھا جب زمین پر پانی كا طوفان آیا۔ اور نوح اور اس کے بیٹے اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی بیویاں طوفان کے پانی سے بچنے کے لیے کشتی میں داخل ہوگئے۔ پاک اور ناپاک دونوں قسم کے جانوروں اور پرندوں اور زمین پر رینگنے والے جانوروں کے دو دو نر اور مادہ، خدا کے حکم کے مطابق، نوح کے پاس آئے اور کشتی میں داخل ہوئے۔ اور سات دن کے بعد طوفان کا پانی زمین پر آگیا۔جب نوح کی عمر کے چھ سوویں برس کے دوسرے مہینے کی سترھویں تاریخ تھی، اُس دن زمین کے نیچے سے سارے چشمے پھوٹ نکلے اور آسمان سے سیلاب کے دروازے کھل گئے۔ اور زمین پر چالیس دن اور چالیس رات لگاتار مینہ برستا رہا۔اُسی دن نوح اور اُس کی بیوی اپنے تین بیٹوں، سام، حام اور یافث اور اُن کی بیویوں سمیت کشتی میں داخل ہوئے۔ اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے جنگلی جانور ، مویشی، زمین پر رینگنے والے جانور، پرندے اور پروں والے جاندار اُن کے ساتھ تھے۔ یہ تمام جوڑے جن میں زندگی کا دم تھا، نوح کے پاس آئے اور کشتی میں داخل ہوگئے۔ خداکے نوح کو دیئے ہوئے حکم کے مطابق جو جان دار اندر آئے، وہ نر اور مادہ تھے۔ تب خداوند نے کشتی کا دروازہ بند کردیا۔چالیس دن تک زمین پر طوفان جاری رہا اور جوں جوں پانی چڑھتا گیا، کشتی زمین سے اوپر اٹھتی چلی گئی۔پانی زمین پر چڑھتا گیا اور بہت ہی بڑھ گیا اور کشتی پانی کی سطح پر تیرتی رہی۔ پانی زمین پر اس قدر چڑھ گیا کہ سارے آسمان کے نیچے کے تمام اونچے پہاڑ ڈوب گئے۔ پانی بڑھتے بڑھتے پہاڑوں سے بھی پندرہ ہاتھ اوپر چڑھ گیا۔ زمین پر ہر پرندہ، ہر جانور اور ہر انسان گویا ہر جاندار فنا ہوگیا۔ خشکی پر کی ہر شے جس کے نتھنوں میں زندگی کا دم تھا، مرگئی۔ روئے زمین پر کی ہر جاندار شے نابود ہوگئی، کیا انسان، کیا حیوان، کیا زمین پر رینگنے والے جاندار اور کیا ہوا میں اُڑنے والے پرندے، سب کے سب نابود ہوگئے۔ صرف نوح باقی بچا اور وہ جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھا۔اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک چڑھتا رہا‘‘۔ (Genesis 7: 1-24)
’’لیکن خدا نے نوح اور تمام جنگلی جانوروں اور مویشیوں کو جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، یاد رکھا اور اُس نے زمین پر ہوا چلائی اور پانی رک گیا۔ اب سمندر کے چشمے اور آسمان کے سیلاب کے دروازے بند کردئے گئے اور آسمان سے مینہ برسنا تھم گیا اور پانی رفتہ رفتہ زمین پر سے ہٹتا گیا اور ایک سو پچاس دن کے بعد بہت کم ہوگیا اور ساتویں مہینہ کے سترھویں دن کشتی اراراط کے پہاڑوں میں ایک چوٹی پر ٹک گئی۔ دسویں مہینہ تک پانی گھٹتا رہا اور دسویں مہینہ کے پہلے دن پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔چالیس دن کے بعد نوح نے کشتی کی کھڑکی کھول کر ایک کوّے کو باہر اُڑا دیا جو زمین پر کے پانی کے سوکھ جانے تک ادھر اُدھر اُڑتا رہا۔ تب اُس نے ایک فاختہ کو اڑا دیا، تاکہ یہ دیکھے کہ زمین پر سے پانی ہٹا ہے یا نہیں۔ لیکن اُس فاختہ کو اپنے پنجے ٹیکنے کو جگہ نہ مل سکی، کیوں کہ ابھی تمام روئے زمین پر پانی موجود تھا۔ چنانچہ وہ نوح کے پاس کشتی میں لوٹ آئی۔ تب اُس نے اپناہاتھ بڑھا کر اُسے تھام لیا اور کشتی کے اندر لے لیا۔ مزید سات دن انتظار کرنے کے بعد اُس نے پھر سے اُس فاخته کو کشتی سے باہر بھیجا۔ شام کو جب وہ اُس کے پاس لوٹی تو اُس کی چونچ میں زیتون کی ایک تازہ پتی تھی۔ تب نوح جان گیا کہ پانی زمین پر کم ہوگیاہے۔ وہ سات دن اور رُکا اور فاختہ کو ایک بار پھر اُڑایا، لیکن اب کی بار وہ اُس کے پاس لوٹ کر نہ آئی۔ نوح کی عمر کے چھ سو برس کے پہلے مہینہ کے پہلے دن تک زمین پر موجود پانی سوکھ گیا۔ تب نوح نے کشتی کی چھت کھولی اور دیکھا کہ زمین کی سطح خشک ہوچکی ہے اور دوسرے مہینہ کے ستائیسویں دن تک زمین بالکل سوکھ گئی۔تب خدا نے نوح سے کہا اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں اور اُن کی بیویوں سمیت کشتی سے باہر نکل آ۔ اور تمام جانور اور زمین پر رینگنے والے سبھی جاندار، سب پرندے اور ہر وہ شے جو زمین پر چلتی پھرتی ہے، اپنی اپنی جنس کے مطابق کشتی سے باہر نکل آئے۔تب نوح نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا اور سب چرندوں اور پرندوں میں سے جن کا کھانا جائز تھا، چند کو لے کر اُس مذبح پر سو ختنی قربانیاں چڑھائیں۔ جب اُن کی فرحت بخش خوشبو خداوند تک پہنچی تو خداوند نے دل ہی دل میں کہا میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالاںکہ اُس کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئندہ کبھی تمام جانداروں کو ہلاک نہ کروں گا، جیسا میں نے کیا۔جب تک زمین قائم ہے تب تک بیج بونے اور فصل کاٹنے کے اوقات، خشکی اور حرارت، گرمی اور سردی،اور دن اور رات کبھی موقوف نہ ہوں گے‘‘۔ (Genesis, 8: 1-22)
تبصرہ
حضرت نوح کا جو مشن تھا، وہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔حضرت آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے پیغمبر دنیا میں آئے، اُن سب کا واحد مشن یہ تھا کہ وہ انسان کو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کریں۔ وه ان کو یہ بتائیں کہ موجودہ دنيا ايك دار الامتحان (testing ground) هے۔ يهاں انسان كو آزادي دے كر يه امتحان ليا جارها هے كه كون شخص اپني آزادي كا صحيح استعمال كرتا هے اور وه كون شخص هے جو اپني آزادي كا غلط استعمال كرتا هے۔ يه معامله ايك متعين وقت (appointed time) تك كے ليے هے۔ اس كے بعدقيامت آئے گي اور قرآن كے الفاظ ميں، موجوده دنيا كو بدل كر ايك اور دنيا (ابراهيم، 14:48)بنائي جائے گي، جهاں امتحان ميں كامياب هونے والے ابدي جنت ميں جگه پائيں گے، اور امتحان ميں ناكام هونے والوں كا ٹھكانا جهنم هوگا۔
حضرت نوح نے اپني قوم كو لمبي مدت تك هر طرح سمجھايا۔ اس كے بعد يه هوا كه كچھ لوگوں نےآپ كي بات ماني، اور زياده لوگوں نے آپ كي بات كو ماننے سے انكار كرديا۔ اس كے بعد وه وقت آيا جب كه يه ظاهر هوگيا كه اب مزيد كوئي ماننے والا نهيں هے، بلكه معاشره اتنا زياده بگڑ چكا هے كه اس ميں جو شخص پيداهوگا، وه صرف غير صالح بن كر اٹھے گا۔
اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم کے مطابق، دعا کی اور پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کو طوفانِ نوح کہا جاتا ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح اور ان کے ماننے والے لوگ اِس کشتی میں سوار ہوئے اور بقیہ تمام لوگ طوفان میں غرق کر دئے گئے۔ صالح لوگوں کو بچا کر ابدی جنت کا مستحق قرار دیاگیا اور غیر صالح لوگ ہلاک ہو کر ابدی جہنم کے مستحق بن گئے۔
طوفانِ نوح کے اِس معاملے کی حیثیت ایک تاریخی مثال کی تھی۔ اللہ نے حضرت نوح کے واقعے کی صورت میں یہ مثال قائم کردی کہ آخری زمانے میں جب انسانی تاریخ کے خاتمے کا وقت ہوگا، اُس وقت دوبارہ اسي طرح کاايك اور زیادہ بڑا زلزله خيز طوفان آئے گا جس کو قرآن میں قیامت کا نام دیاگیا ہے۔ قیامت کے بعد خدائی منصوبے کے مطابق، حیاتِ انسانی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ یہ آخرت کا دور ہوگا جو کہ کامل بھی ہوگا اور ابدی بھی۔
حضرت آدم پہلے انسان بھي تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ نے حضرت آدم کو جو شریعت دی تھی، اُن کی بعد کی نسلیں اُس شریعت پر باقی رہیں، مگر دھیرے دھیرے ان کے اندر زوال آیا۔ یہ زوال شخصیت پرستی (personality cult) کی صورت میں پیدا ہوا۔
ابتداء ً یہ ہوا کہ وہ اپنے بزرگوں، ودّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر (71:23) کے مرنے کے بعد ان کی تعظیم کرنے لگے۔ تعظیم کے بعد ان کے اندر اپنے بزرگوں کی تقدیس کا عقیدہ پیداہوا۔ دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ انھوں نے اپنے اِن بزرگوں کے مجسمے بنائے اور پھر ان کی عبادت شروع کردی۔
جب بگاڑ کی یہ حد آئی تو اللہ نے ان کے درمیان اُنھیں کی قوم سے پیغمبر نوح کو پیدا کیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق، پیغمبر نوح، حضرت آدم کی دسویں نسل میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طورپر لمبی عمر دی ، یعنی 950 سال۔ قرآن کی سورہ نوح (71)میں حضرت نوح کی دعوت کا خلاصہ بتایا گیا ہے۔ دوسرے انبيا كي طرح حضرت نوح کی دعوت بنیادی طورپر دوچیزوں کی طرف تھی — توحید، اور آخرت۔
مگر قوم کا بگاڑ اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر بقیہ افراد آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ قرآن میں اُن کی طرف سے جو قول نقل کیاگیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے’’انھوںنے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا۔ تم ہرگز نہ چھوڑنا ودّ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور نسر کو‘‘۔ (71: 23)
یہ صورتِ حال ہمیشہ غلط تقابل (wrong comparison) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ قومِ نوح کے سامنے ایک طرف، ان کا حال کا پیغمبر تھا جواُن کو بظاہر ایک عام آدمی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ دوسری طرف، ان کے ماضی کے قومی اکابر تھے، جن کے گرد اُن کےقُصّاص (story tellers) نے مفروضہ کہانیوں کا خوش نما ہالہ بنا رکھا تھا۔ اِس خود ساختہ تقابل میں اُن کو حضرت نوح ایک معمولی انسان نظر آتے تھے(هود، 11:27)۔ اس کے بر عکس، ماضی کی شخصیتیں ان کو بہت بڑی دکھائی دیتی تھیں۔ یہی غلط تقابل تھا جس نے اُن کے اندر وہ بے اصل یقین (false conviction) پیدا کردیا جس کی بنا پر وہ اپنے معاصر پیغمبر کا انکار کردیں۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قوم کے اندر اب مزید کوئی فرد ایمان لانے والا نہیں ہے تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اُس علاقے میں ایک عظیم سیلاب لایا جائے جس میں صالح افراد بچاليے جائیں اور غیرصالح افراد سب کے سب ہلاک کردئے جائیں۔ اثرياتي شواهد كے مطابق، قومِ نوح کا مسکن دجلہ اور فرات کے درمیان کا وہ علاقہ تھا جس کو تاریخ میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا هے۔
کشتیٔ نوح کا معاملہ
پیغمبر کا انکار کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ جو لوگ پیغمبر کا انکار کریں، وہ اِس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ اِس دنیامیں اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ اِس مہلت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ خدا کی اِس دنیا میں رہنے کا مزید موقع پاسکیں۔ چنانچہ مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے اُن کو ہلاک کردیا جاتا ہے (العنكبوت، 29:40)۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے مخاطبین کے ساتھ اِس معاملے میں الگ طریقہ اختیار کیا گیا، یعنی ایک عظیم سیلاب (Great Flood) کے ذریعے غیر صالحین کو ہلاک کردینا اور جو صالح افراد ہیں، اُن کو ایک کشتی کے ذریعے بچالینا۔ اِس خصوصی مصلحت کو قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ(29:15)۔یعنی ہم نے اس(كشتي) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے: وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:15)۔یعنی ہم نے اُس (كشتي) کو ایک نشانی کے طور پر باقی رکھا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح کے معاملے میں کشتی کا طریقہ اِس لیے اختیار کیاگیا، تاکہ وہ محفوظ رہے اور بعد کے لوگوں کے لیے علامتی طورپر وه خدا کے تخلیقی منصوبے کو جاننے کا ذریعہ بنے۔
کشتی اور طوفان کا طریقہ
حضرت نوح کی قوم میسو پوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں آباد تھی۔ اللہ کے حکم کے تحت، وہاں بہت بڑا سیلاب آیا۔ معلوم تاریخ کے مطابق، یہ اپنی نوعیت کا واحد سیلاب تھا۔ جب سیلاب کا پانی اونچا ہوا اور حضرت نوح کی کشتی اس میں تیرنے لگی تو وہ مختلف سمتوں میں جاسکتی تھی، مگر کشتی نے خدائی حکم کے تحت، ترکی کا رخ اختیا رکیا۔ بظاہر اس کا سبب یہ تھا کہ میسوپوٹامیا سے قریب ترین پہاڑی سلسلہ جہاں گلیشیر بنتے ہوں، وہ جودی یا ارارات کا سلسلۂ کوہ تھا۔ تقریباً 16 سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے کشتیٔ نوح ترکی کے مشرق میں واقع جودی پہاڑ پر پہنچی اور وہاں ٹھہر گئی۔
سیلاب کا پانی اترنے کے بعد یہاں کشتی کے لوگ كشتي سےباہر آگئے۔ ان میں تین خاص افراد حضرت نوح کے تین بیٹے تھے — حام، سام، یافث۔ بعد کی انسانی نسل اصلاً حضرت نوح کے انھیں تین بیٹوں کے ذریعے چلی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے ایک بیٹے یافث (Japheth) یورپ کے علاقے میں آباد ہوئے، اور آپ کے دوسرے بیٹے حام (Ham) افریقہ میں آباد ہوئے، اور آپ کے تيسرے بیٹے سام (Shem) ایشیا كے علاقے میں آباد ہوئے۔حضرت نوح کے زمانے تک جو انسانی نسل تھی، وہ براہِ راست طورپر حضرت آدم کی نسل تھی۔ حضرت نوح کے بعد جو انسانی نسل دنیا میں پھیلی، وہ زياده تر حضرت نوح کے انھیں تین بیٹوں کے ذریعے پھیلی۔
حضرت نوح کی کہانی
حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں جو لوگ بچ گئے تھے، وہ بعد کو دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔ دھیرے دھیرے ان کی نسلیں بڑھیں اور پورے کرۂ ارض پر پھیل گئیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ عظیم سیلاب (Great Flood) کی کہانی لے کر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر قوم کے اندر ایک عظیم طوفان کی کہانی کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک حضرت نوح اور ان کے واقعات صرف ایک افسانہ (myth) سمجھے جاتے رہے۔ تاہم چوں کہ بائبل اور قرآن میں اُن کا ذکر موجود تھا، اِس لئے لوگوں کے ذہن میں، خاص طورپر یہودی علما او ر عیسائی علما کے ذہن میں، یہ سوال برابر باقی رہا کہ اگر حضرت نوح کا قصہ ایک حقیقی قصہ ہے تو اس کا تاریخی ثبوت کیا ہے۔اِس کی تلاش اور تحقیق مسلسل جاری رہی۔ چوں کہ حضرت نوح کا واقعہ بائبل میں تفصیل کے ساتھ آیا تھا، اس لیے وہ یہودی علما اور مسیحی علما کی دلچسپی کا موضوع بن گیا۔ بڑے پیمانے پر اِس موضوع کی تحقیق ہونے لگی، خاص طورپر اُس علاقے کی تحقیق جس کو بائبل میں حضرت نوح کا اور ان کی قوم کا علاقہ بتایا گیا تھا۔
بائبل اور قرآن کا فرق
حضرت نوح اور ان کی کشتی کا ذکر بائبل میں بھی آیا ہے اور قرآن میں بھی، مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ بائبل میں كشتئ نوح کا ذکر صرف ماضی کے ایک قصہ کے طورپر آیا۔ قرآن میں واقعہ بیان کرنے کے علاوہ، ایک اور بات بتائی گئی ہے، وہ یہ کہ حضرت نوح کی کشتی اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت محفوظ رکھی گئی اور بعد کے زمانے میں ظاہر ہو کر وه لوگوں کے لئے سبق بنے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیتیں يهاں درج كي جاتي ہیں
فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (29:15)۔ یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (54:15)۔ یعنی ہم نے اس (کشتی) کو نشانی کے طورپر باقی رکھا، تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔
إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ- لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ (69:11-12)۔یعنی جب پاني حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں سوا ر کیا، تاکہ ہم اس (کشتی) کو تمھارے لیے یاددہانی کا ذریعہ بنادیں اور یاد رکھنے والے کان اس کو یاد رکھیں۔
قرآن کی یہ آیتیں ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں اتریں۔ اُس وقت ساری دنيامیں کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت نوح کی کشتی کس مقام پر محفوظ ہے، عرب سے عجم تک ہر ایک کے لیے یہ واقعہ پوری طرح ايك غير معلوم واقعه تھا۔
ایسی حالت میں قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ نوح کی کشتی محفوظ ہے اور وہ مستقبل میں بطور نشاني ظاہر ہونے والی ہے۔ اِس اعلان کی حیثیت ایک غیر معمولی پیشین گوئی کی تھی۔ ہزار سال سے زیادہ مدت تک کشتی نوح کے بارے میں بدستور لاعلمی کی حالت باقی رہی۔ بیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار ہوائی تصویر کشی (arial photography) کے ذریعے معلوم ہوا کہ ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑ کے اوپر کشتی جیسی ایک چیز موجود ہے۔
کشتی نوح كایہ ظہور خداکے ایک عظیم منصوبے کا حصہ ہے، بظاهر وہ انسانی تاریخ کے خاتمے کا ایک ابتدائی اعلان ہے۔ کشتي نوح علامتی طورپر بتارہی ہے کہ دوبارہ ایک آخری اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے۔ اِس طوفان کے بعد انسان کا ایک دورِ حیات ختم ہوجائے گا اور انسانی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ پہلا دور عارضی تھا اور دوسرا دور ابدی ہوگا۔ پهلے دورِ حیات کا مقام موجودہ دنیا تھی، دوسرے دورِ حیات کا مقام آخرت کی دنیا ہوگی۔
قرآن ميں بتاياگيا تھا كه حضرت نوح كي كشتي محفوظ هے۔اِس كا محفوظ هونا بے مقصد نهيں هوسكتا، اِس ليے يه كهنا درست هوگا كه كشتي اِس ليے محفوظ كي گئي هے، تا كه وه بعد كو قيامت سے پهلے ايك تاريخي نشاني كے طور پر ظاهر هو۔ اب سوال يه هے كه كشتي نوح كے اس ظهور كي كيا صورت هوگي۔ غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه غالباً كشتي نوح كے اِسي ظهورِ ثاني كا واقعه هے جس كو قرآن (النمل،27:82) اور حديث(صحيح مسلم، حديث نمبر 2941) ميں ’’دابّة‘‘ كے لفظ سے تعبير كياگيا هے۔
دابّہ دراصل کشتی نوح کا تمثیلی نام ہے۔ دابّہ کے لفظی معنی هيں — رینگنے والا۔ کوئی بھی چیز جو رينگنے كي رفتارسے چلے، اس کو دابّہ کہاجائے گا۔ کشتی نوح پانی کے اوپر رینگ کر چلی تھی، اس لیے يه قياس كرنا درست هوگاكه تمثیلی طورپر اس کو دابّہ کہہ دیا گیا۔
کشتی نوح
ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اوّل کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جيسا كه عرض كياگيا، تقریباً 5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق( میسوپوٹامیا) سے چلی اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں اور قرآن میں نيز مختلف تاریخی کتابوں میں بشكلِ كهاني موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاں ہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ گلیشير پگھلنے لگے۔ چنانچہ ارارات پہاڑ کے گلیشير بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔
بیسویں صدی کے آخر میں کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوں نے کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔
اِس سائنٹفک جانچ سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ معلوم طورپر طوفانِ نوح آیا تھا:
A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (29:15)،یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا، اور ہم نے اس(كشتي) کو سارے عالم کے لیے ایک نشانی بنادیا:
Then we saved him and those who were with him in the Ark and made it a sign for mankind.
حضرت نوح کی کشتی تاریخِ انبیاء کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں آئے، اور اُن کے لیے دینِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا(هود، 11:44)ایک ایسے ملک میں ہو، جو اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عالمی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو، کشتی نوح کے ظہور کا واقعہ ایک طے شدہ وقت پر پیش آئے، جب کشتی نوح ظاہر ہو تو عالمی کمیونکیشن کا دور آچکا ہو، یہ واقعہ جب ظہور میں آئے تو اُس وقت گلوبل سیاحت (global tourism) کا دور بھی آچکا ہو، پرنٹنگ پریس کا زمانہ آچکا ہو، تاکہ خدا کی کتاب (قرآن) کے مطبوعہ نسخے لوگوں كو دينے كے ليے تیار کئے جاسکیں، دنیا کھلے پن (openness) کے دور ميں پہنچ چکی ہو، اِسي کے ساتھ دنیا سے کچھ چیزوں کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ مثلاً مذہبی جبر، کٹر پن (rigidity)، علاحدگی پسندی (separatism)،تنگ نظری (narrow-mindness) ، وغیرہ۔
ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشير کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے ، جب کہ پوری کشتی ظاهر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبہہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشۂ سیاحت (tourist map) میں نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں ٹوٹ پڑیں گے۔
اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام كو پہنچادیں۔ یہ وہ وقت ہوگا جب کہ ترکی میں آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا جس میں پیشگی طور پر کشتیٔ نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔
حضرت نوح کی تاریخی کشتی
حضرت نوح کی کشتی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ بعد کو وہ اگر کسی کھلی جگہ پر رہتی تو بہت جلد وہ بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی۔ مگر جودی کا علاقہ سخت سردی کا علاقہ تھا۔ کشتی کے ٹھہرنے کے بعد یہاں مسلسل طورپر برف باری(snow fall) کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشتی كے اوپرگلیشير کی موٹی تہہ جم گئی۔ اس طرح کشتی برف کے موٹے تودے کے نیچے دب کر فرسودگی کے عمل سے محفوظ رہی۔
فطرت کا ایک قانون ہے جس کو ارضیات کی اصطلاح میں فاسلائزیشن (fossilization) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ فاسل (fossil) سے بنا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب کوئی چیز زمین کے نیچے لمبی مدت تک دبی رہے تو وہ مخصوص کیمیائی عمل (chemical process) کے ذریعے تدریجی طورپر اپنی ماہیت تبدیل کرليتي هے، وہ لکڑی یا ہڈی کے بجائے پتھر جیسی چیز بن جاتي هے۔ فاسلائزیشن کا یہ عمل کم وبیش ایک ہزار سال میں پورا ہوتا ہے اور جب یہ عمل پورا ہوجائے تو وہ چیز اپنی اصل صورت کو باقی رکھتے ہوئے پتھر جیسی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ اِس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو ہمیشہ باقی رکھے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے منصوبے کے مطابق، حضرت نوح کی کشتی کو محفوظ رکھنا تھا۔ اُس وقت جو سیلاب آیا، وہ ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا تھا، غالباً دجلہ وفرات (عراق) کے علاقے سے لے کر ترکی کی مشرقی سرحد تک۔ اس سیلاب کے اوپر کشتی بہہ رہی تھی۔ خدا کے فیصلے کے تحت کشتی سیلاب میں بہتے ہوئے جودی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئی۔ یہاں لمبی مدت تک وہ عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں پوری کشتی فاسل (fossil) میں تبدیل ہوگئی۔
خدائی منصوبے کی تاریخی شہادت
حضرت نوح کی کشتی ہزاروں سال تک گلیشير کے نیچے محفوظ رہی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کشتی پوری کی پوری ایک فاسل (fossil) بن گئی۔ اِس کے بعد ابتدائی طورپر انیسویں صدی عیسوی كاآخری زمانہ آیا، جب کہ گلوبل وارمنگ (global warming) کا دور شروع ہوا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہاڑوں کے اوپر جمے ہوئے برف کے بڑے بڑے تودے (گلیشير) دھیرے دھیرے پگھلنے لگے۔ آخرکار یہ ہوا کہ جمي هوئي برف کا بڑا حصہ پگھل گیا اور وه پانی کی صورت میں بہہ کر سمندروں میں چلا گیا۔ اس کے بعد برف کے نیچے ڈھکی ہوئی کشتی کھل کر سامنے آگئی۔
دابّہ سے مراد یہی کشتی نوح ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت کے الفاظ بہت با معنی ہیں، جس میں کہاگیا ہے أوّل ما یبدوا منها رأسها (التفسیر المظهری 7/133)۔يعني دابّہ جب نكلے گا توسب سے پہلے اس کا سر ظاہر ہوگا۔
یہ تمثیل کی صورت میں اُس واقعےکا نہایت درست بیان ہے جو کشتیٔ نوح کے ساتھ پیش آیا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جب برف پگھلنے لگی تو فطری طورپر کشتی کے اوپر کا حصہ کھلا اور پھر دھیرے دھیرے پوری کشتی سامنے آگئی۔
کشتی نوح پر غور کیجئے تو اس کا پورا معاملہ ایک خدائی منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ — حضرت نوح کی قوم کی ہلاکت کے لیے ایک بڑے سیلاب کا طریقہ اختیار کرنا، پھر کشتی نوح کا ایک متعین رخ پر سفر کرتے ہوئے جودی پہاڑ پر پہنچنا، پھر اس کا گلیشير کے نیچے دب جانا، پھر فاسلائزیشن کے عمل کے ذریعے اس کا مستقل طورپر محفوظ ہوجانا، پھر گلوبل وارمنگ کے ذریعے اس کا کھل کر سامنے آجانا، پھر بیسویں صدی کا دور آنا، جب کہ پرنٹنگ پریس اور جدید کمیونکیشن اور عالمی سیاحت اور اِس طرح کے دوسرے اسباب کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا کہ کشتی نوح کو پیغمبروں کی تاریخ کے ایک پوائنٹ آف ریفرنس کے طورپر لیا جائے اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے پیغمبروں کی دعوت کو سارے عالم تک پہنچا دیا جائے۔ — کشتی نوح کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے جس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا (11:41)۔
ارضیاتی شواہد
موجودہ زمانے میں ارضیات (Geology) کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقات کی گئی ہیں۔ اِن تحقیقات کے نتیجے میں ایک حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ عراق اور ترکی کے درمیان کا جو علاقہ ہے، اُس میں كئي ہزار سال پہلے بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ سیلاب اتنا بڑا تھا کہ اس نے اُس وقت کی آباد دنیا کو پوری طرح تباہ کردیا ۔ اس موضوع پر بہت سی تحقیقات چھپ چکی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم تحقیق درج ذیل کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے جس کو دو مصنفین نے تیار کیاہے
Noah's Flood: The New Scientific Discoveries About the Event that Changed History, by William Ryan and Walter Pitman, Published: 1999 by Simon & & Schuster, USA, 320 pages
اِن تحقیقات سے یہ بات علمی طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ ہزاروں سال پہلے ایک عظیم سیلاب آیا، لیکن محققین اپنے سیکولر (secular) ذہن کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ مختلف قوموں میں اور اِسی طرح بائبل میں نوح کا جو قصہ بیان ہوا ہے، وہ بعد کو اِسی تاریخی واقعے کو لے کر وضع کیا گیا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ تاریخی واقعہ کو کہانی کاروپ دینا (mythicization) ہے، حالاں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ ارضیاتی تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے، وہ عظیم سیلاب کے بارے میں اُس واقعے کی تاریخی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے بائبل اور قرآن میں موجود تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بائبل اور قرآن کے نزول کے زمانے میں حضرت نوح اور ان کے عہد میں آنے والے طوفان کے بارے میں تاریخی طورپر کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ قرآن کے بیان میں مزيد یہ بھي بتا دیا گیا تھا کہ مستقبل میں حضرت نوح کی کشتی ظاہر ہوگی اور وہ حضرت نوح کے معاملے کی تاریخی تصدیق کرے گی (القمر، 54:15) ۔
ایسی حالت میں یہ ہونا چاہيے کہ ارضیاتی تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے، اس کو بائبل اور قرآن کی تاریخی تصدیق (historical verification)سمجھا جائے، نہ کہ برعکس طورپر یہ کہا جائے کہ قدیم زمانے میں جو عظیم سیلاب آیا تھا، اُس كي بنياد پر لوگوں نے فرضی کہانی بنا لی۔
Discovery of Human Artifacts Below Surface of Black Sea Backs Theory by Columbia University Faculty of Ancient Flood, By Suzanne Trimel Columbia University, NYC. Columbia University marine geologists William B.F. Ryan and Walter C. Pitman 3rd inspired a wave of archaeological and other scientific interest in the Black Sea region with geologic and climate evidence that a catastrophic flood 7,600 years ago destroyed an ancient civilization that played a pivotal role in the spread of early farming into Europe and much of Asia. The National Geographic Society offered astonishing evidence on Wednesday (9-13-00) to support Ryan's and Pitman’s theory: the discovery of well-preserved artifacts of human habitation more than 300 feet below the Black Sea surface, 12 miles off the Turkish coast. “This is stunning confirmation of our thesis,” Dr. Ryan said from his office at Columbia's Lamont-Doherty Earth Observatory on Tuesday. “This is amazing. It's going to rewrite the history of ancient civilizations because it shows unequivocally that the Black Sea flood took place and that the ancient shores of the Black Sea were occupied by humans.” Inspiring a re-examination of the role of climate in human history, Drs. Ryan and Pitman's findings in 1996 suggested that the terrifying and swift flood may have cast such a long shadow on succeeding cultures that it inspired the biblical story of Noah's ark. Drs. Ryan and Pitman argued their provocative theory in a 1999 book, “Noah's Flood: The New Scientific Discoveries About the Event That Changed History” (Simon & Schuster). Ryan and Pitman theorized that the sealed Bosporus strait, which acted as a dam between the Mediterranean and Black seas, broke open when climatic warming at the close of the last glacial period caused icecaps to melt, raising the global sea level. With more than 200 times the force of Niagara Falls, the thundering water flooded the Black Sea, then no more than a large lake, raising its surface up to six inches per day and swallowing 60,0000 square miles in less than a year. (www.earth.columbia.edu)
تاریخی سبق
سیکولر علما کے لیے عظیم انقلاب (Great Flood) یا ارارات کے پہاڑ کے اوپر کشتی کی دریافت محض تاریخ کا ایک سبجکٹ ہے، مگر قرآن کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ تمام انسانوں کے لیے بہت بڑے سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ حضرت نوح کے زمانے میں جو طوفان آیا تھا، وہ بعد کو آنے والے زیادہ بڑے طوفان کے لیے ایک پیشگی خبر هے۔ یہ دریافت گویا ایک وارننگ ہے کہ لوگ متنبہ ہوجائیں اور اُس وقت کے آنے سے پہلے وہ اس کے لیے ضروری تیاری کرلیں۔
حضرت نوح دورِ تاریخ سے پہلے کے پیغمبر ہیں، اِس لیے مدوّن تاریخ میںاُن کا حوالہ موجود نہیں۔ مگرقرآن کا بیان ہے کہ نوح کی کشتی کو خدا باقی رکھے گا، تاکہ وہ بعد والوں کے لیے نشانی ثابت ہو(القمر،54:15)۔ عظیم طوفان اور ارارات پہاڑ کے اوپر کشتی کی دریافت قرآن کے اِس بیان کی ایک تاریخی تصدیق (historical verification) کی حیثیت رکھتی ہے۔
سبق کا پہلو
ایک 'طويل روایت میں فرشتے کی زبان سے یہ الفاظ آئے ہیںوَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ (صحيح البخاري، رقم الحديث7281)ف ر ق کا لفظی مطلب ہےالفصل بین الشیئین۔ )دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا( ۔یعنی محمد، انسانوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔
اِس حديثِ رسول كا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایسا مشن جاری ہوگا، جو صالح اور غیر صالح افراد کو ایک دوسرے سے جدا کردے، تاکہ اللہ ایک گروہ کے لیے انعام کا فیصلہ فرمائے اور دوسرے گروہ کے لیے سزا کا فیصلہ۔
یہ بات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہیں ہے، یہی معاملہ تمام پیغمبروں کا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے، وہ سب اِسی مقصد کے لیے آئے، تاکہ ان کے ذریعے ایک ایسی تحریک چلائی جائے، جو انسانوں کو ایک دوسرے سے چھانٹ دے، صالح افراد الگ ہوجائیں اور غیر صالح افراد الگ، تاکہ اِس کے بعد ایک معلوم حقیقت کے طورپر لوگوں کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کردیا جائے۔
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، اُن میں سے کم از کم دو ایسے پیغمبر ہیں جنھوں نے اِس معاملے میں ایک تاریخی شہادت (historical evidence) چھوڑ ی، جو لوگوں کے لیے مستقل طورپر منصوبہ الٰہی کے بارے میں تاریخی یاد دہانی (historical reminder) کا کام کرتی رہے۔
اِس معاملے میں ایک تاریخی مثال وہ ہے جس کا تعلق حضرت موسیٰ سے ہے۔ حضرت موسیٰ نے قدیم مصر میں اپنا دعوتی کام انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں آخر کار وہ وقت آیا، جب کہ دو گروہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ — ایک، بنی اسرائیل کا گروہ، جس نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو قبول کیا اور دوسرے، فرعون اور اس کے ساتھی، جنھوں نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو رد کردیا۔ اِس کے بعد قانونِ الٰہی کے مطابق، ایسا ہوا کہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی الگ کرکے بچا ليے گئے، اور فرعون اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق کرديے گئے۔
اِس معاملے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب آخری وقت آگیا، اور فرعون غرق ہونے لگا، اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً (10: 92) یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ قول پورا ہوا، اور حضرت موسیٰ كے ہم عصر فرعون کی لاش کو حنوط کاری (mummification) کے ذریعے اہرامِ مصر میں محفوظ کردیا گیا۔ فرعون کا یہ جسم اہرامِ مصر میں موجود تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں کچھ مغربی ماہرین نے اس کو نکالا اور کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے اس کی تاریخ معلوم کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسم اُسی فرعون کا ہے، جو حضرت موسیٰ کا معاصر (contemporary) تھا۔
فرعون کے جسم کا اِس طرح محفوظ رہنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک تاریخی واقعے کی علامتی مثال ہے۔ فرعون کا یہ جسم جو قاہرہ (مصر) کے میوزیم میں محفوظ ہے، وہ اپنی خاموش زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ آخر کار انسان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، وہ یہ کہ خدائی منصوبے کے تحت، صالح بندوں کو غیرصالح بندوں سے الگ کردیا جائے اور پھر صالح بندوں کو ابدی جنت میں عزت کی جگہ دی جائے اور غیرصالح لوگوں کو ابدی جهنم میں ذلت کی زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
اس قسم کی دوسری مثال حضرت نوح کی ہے۔ حضرت نوح قدیم عراق (Mesopotamia) کے علاقہ میںآئے۔ وہ بہت لمبی مدت تک وہاں کے لوگوں کو بتاتے رہے کہ اللہ نے تم کو پیدا کرکے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ وہ تمھارا امتحان لے رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہا ہے، اور کون غلط استعمال کررہاہے۔
جب امتحان کی مدت پوری ہوگی تو خدا کا فیصلہ ظاہر ہوگا، اور اچھے انسان اور برے انسان دونوں چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کردئے جائیں گے۔ اس کے بعد اچھے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے گا اور برے لوگوں کو جہنم ميں۔
طوفان سے پهلے حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے پیشگی طورپر ایک بڑی کشتی بنالی تھی۔ حضرت نوح اور آپ کے ماننے والے لوگ کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ لوگ اس کشتی کے ذریعے سیلاب کے اوپر تیرتے ہوئے محفوظ رہے۔
اُس وقت اللہ نے جو کہا تھا، اس كو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (11:48) يعني کہا گیا کہ اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر اور ان گروہوں پر جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان سے ظہور میں آنے والے) گروہ کہ ہم ان کو فائدہ دیں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک درد ناک عذاب پکڑلے گا۔
یہ بات پانچ ہزار سال پہلے کی ہے، جب که دنیا میں نہ کوئی تہذیب تھی اور نہ کوئی ٹکنالوجی۔ یہ بات اگرچہ بائبل اور قرآن میں بتائی گئی تھی، لیکن لوگ اس کو مذہبی افسانہ (religious myth) سمجھتے تھے،مگر عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یہ دونوں باتیں ایک معلوم واقعہ بن گئیں۔ ایک طرف، عراق اور شام کے علاقے میں ایسے آثار ملے جو بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک بهت بڑا سیلاب آیاتھا، اور دوسری طرف كشتي نوح جو بھاری برف کے نیچے دبی ہوئی تھی، وہ برف کے پگھلنے سے سامنے آگئی۔ یہ واقعہ ترکی کی مشرقی سرحد پرواقع پہاڑ کے اوپر پیش آیا۔
بیسویں صدی کے وسط تک اِس پورے معاملے کو فرضی کہانی سمجھا جاتا تھا، مگر اب خالص تاریخی شواہد کی بنا پر یہ مان لیا گیا ہے کہ اس علاقے میں ایک ایسا بڑا سیلاب آیا تھا جو نہ اس سے پہلے کبھی آیا اور نہ اس کے بعد۔ یہاں اِس سلسلے ميں تفسیر ماجدی سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے
The story of Noachion deluge, so long dismissed as legendary, has at last come to be recognized as 'hisotorical disaster' for which material evidence has been found in the soil of Ur. (Woolly, ‘Abraham’, p. 170)
Archaeological evidence has established the reality of the Flood. (Marston, ‘The Bible Comes Aline’, p. 33)
Both Sumerian and Hebrew legends speak of a flood which destroyed the habitable world as they knew it. (Lt. Col. Wagstaff, a distinguished explorer)
يهي معاملہ کشتی نوح کا ہے۔ قدیم زمانے میں کشتی نوح کا معاملہ ایک مذہبی افسانہ سمجھا جاتا تھا، مگر اب وہ ایک تاریخی واقعہ بن چکا ہے۔
کوئی بھی شخص ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑی سلسلے کے اوپر ہوائی پرواز کرکے کشتی کو دیکھ سکتا ہے۔ غالباً بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ مقام ٹورسٹ میپ (tourist map) میں خصوصي جگہ حاصل کرلے۔خبروں سے معلوم هوا هے كه ترك گورنمنٹ اِس علاقے كو سياحتي مقام كے طور پر ڈيولپ كرنے كا منصوبه بنارهي هے۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جب انسانی تاریخ کے خاتمہ کا وقت آئے گا اورآخرت کا دور شروع ہوگا تو فرشتہ اسرافیل صور پھونکے گا۔ یہ صور آواز کی صورت ميںنئے دور کی آمد کا اعلان ہوگا۔ کشتی نوح کا ظہور اسی قسم کا ايك واقعہ ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ صور اسرافیل كے ذريعے جس حقيقت کا اعلان زبانِ قال کی صورت میں كيا جائے گا، کشتی نوح زبانِ حال كي صورت ميں اُسي حقيقت كو بيان كرے گي۔
Two members of the search team that claims to have found Noah’s Ark on Mount Ararat in Turkey responded to scepticism by saying that there is no plausible explanation for what they found other than it is the fabled biblical boat that weathered a storm that raged 40 days and 40 nights and flooded the entire Earth. Noah's Ark Ministries International (NAMI) held a press conference April 25, 2010 in Hong Kong to present their findings and say they were “99.9 percent sure” that a wooden structure found at a 12,000-ft. elevation and dated as 4,800 years old was Noah’s Ark. Noah's Ark Ministries International is a subsidiary of Hong Kong-based Media Evangelism Limited, founded in 1989 to publish multimedia for evangelizing. " We don't have anything to hide." says Clara Wei, who is a team member. She says that massive wooden planks, some 20 meters long, were found in wooden rooms and hallways buried in the ice atop Mount Ararat in Eastern Turkey. People could not carry such heavy wood to such a height, nor can vehicles access such a remote location on the mountain. Turkish officials from Agri Province, the location of Mount Ararat, also attended this week’s press conference in Hong Kong. Lieutenant governor Murat Güven and Cultural Ministries Director Muhsin Bulut, both provincial officials, believe the discovery is likely Noah’s Ark, according to the announcement posted on the team's website. Culture and Tourism Minister of Turkey, Ertugrul Gunay, welcomed the finding and said it could boost tourism, according to local newspaper today's Zaman. (www.csmonitor.com)
کشتی نوح یا دابہ
قرآن کی سورہ النمل میں یہ آیت آئی ہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82)۔ یعنی جب اُن پر بات آپڑے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابہ نکالیں گے ،جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
قرآن اور حدیث دونوں میں بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا۔ دابہ کا ظہور گویا انسانی تاریخ کے ایک دور کا خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کی علامت ہوگا۔ دابه كا ظهور عملاً سارے انسانوں کے لیے آخری اتمامِ حجت کے ہم معنی ہوگا۔ اس کے بعد وہی واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگا جو حضرت نوح کے زمانے میں پيش آيا تھا، یعنی دوبارہ ایک بڑے طوفان کے ذریعے انسانوں میں سے صالح افراد کو بچالینا اور غیر صالح افراد کو ہلاک کردینا۔مگر يه طوفان قيامت كا طوفان هوگا۔
حدیث کی کتابوں میں دابہ کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، اُن میں زیادہ مستند اور معتبر روایت وہ ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ اِس میں صرف یہ بتایاگیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا (صحیح مسلم، حديث نمبر158 )۔
اِس روایت میں اُن باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہے، جو دوسری روایتوں میں آئی ہے۔مثلاً دابه كے ساتھ موسي كا عصا هونا اور سليمان كي انگشتري هونا، وغيره۔ ان دوسري روايات ميں كافي تعارض پايا جاتاهے، اس ليے محقق علما نے صحيح مسلم كي مذكوره روايت كے علاوه، دوسري روايتوں كو عام طورپر ضعيف يا موضوع بتايا هے۔ مثلاً امام رازي، علامه آلوسي، علامه الباني، وغيره۔ اس معاملے ميں صحيح مسلك يه هے كه دابه كو صرف دابه كے معني ميں ليا جائے، اور اس سے منسوب بقيه تفصيلات كو غيرمعتبر سمجھ كر اُن كو نظر انداز كرديا جائے۔
دابه كي تحقيق
دابه كے لفظي معني هيں رينگنے والا (creeper) ۔اپنے استعمال كے اعتبار سے، دابه كا لفظ حيوان كے ليے خاص نهيں هے، وه كسي بھي ايسي چيز كے ليے بولاجاتا هے جو رينگنے كي رفتار سے چلے۔ يه استعمال عربي زبان اور غير عربي زبان دونوں ميں پايا جاتا هے۔
مثلاً كها جاتا هے: دبّ الشراب في عروقه (مشروب كا اثر رگوں ميں سرايت كرگيا )۔ اسي طرح كها جاتا هے كه: دبّ الجدول (نهر ميں پاني كا جاري هونا)۔ اسي طرح كهاجاتا هے: دبّ السُّقم في الجسم (جسم ميں بيماري كا سرايت كرنا)۔اسي ليے ايك مخصوص آله ٔحرب كو ’دبّابة‘ كها جاتا هے۔
اِس مقصد كے ليے دبابه كا لفظ قديم زمانے سے رائج هے۔ قديم زمانے ميں دشمن كے قلعے تك پهنچنے كے ليے يه كرتے تھے كه معكوس يو (inverted U) كي شكل ميں ايك گاڑي بناتے تھے جس كے نيچے پهيه لگا هوتا تھا۔ فوجي اس كے اندر داخل هوجاتا اور پهيه كے ذريعے اس كو چلاتا هوا قلعے كي ديوار تك پهنچ جاتا اور پھر قلعے كي ديوار ميں نقب لگا كر اس كے اندر داخل هوجاتا ۔ اس آله ٔ حرب كو دبابه كها جاتا تھا۔
دبابه كي يه قديم ٹيكنك آج كے مشيني دور ميں بھي رائج هے۔ اِسي اصول كے مطابق، موجوده زمانے ميں ٹينك (tank) بنائے گئے هيں۔ موجوده مشيني ٹينك كو بھي دبابه كهاجاتا هے، يعني وه حربي گاڑي جو پهيے پر چلتي هوئي دشمن كے قلعه تك پهنچ جائے۔
دبابه كي تشريح كے تحت يهي بات عربي لغات ميں آئي هے۔ مثلاً لسان العرب كے الفاظ يه هيں: الدّبابةُ:آلة تُتَّخذ من جلود وخشبة، يدخل فيها الرجال، ويقرّبونها من الحصن المحاصر لينقبوه، وتقيم ما يرمون به من فوقهم۔ وفي حديث عمر رضى الله عنه قال:كيف تصنعون بالحصون؟ قال:نتخذ دبّاباتٍ يدخل فيها الرجال(1/371)
رينگنے كا لفظ اپنے اِسي توسيعي مفهوم ميں هر زبان ميں استعمال هوتاهے۔ مثلاً گھنےكهر ميں ٹرين آهسته رفتار سے چلتي هے تو كها جاتا هے كه ٹرين رينگ رهي هے۔ امريكا كے ناولسٹ جيمس بالڈون (James Baldwin) نے اپني ايك كهاني ميں كشتي كے بارے ميں يه الفاظ لكھے هيں— پراني كشتي پاني كے اوپر گھونگھے كي رفتار سے رينگ رهي هے
The old boat creeps over the water no faster than a snail.
1۔ قرآن كي سوره النمل كي آيتِ دابه ميں ’تكلم‘ بمعني ينطق نهيں هے، بلكه وه يدلّ كے معني ميں هے، يعني دلالت كرنا،شهادت دينا۔ لفظ ’كلام‘ كے مادّه كا يه استعمال خود قرآن ميں دوسرے مقام پر موجود هے۔ مثلاً سوره الروم ميں ارشاد هوا هے: أَمْ أَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ(30:35) ۔ يعني كيا هم نے اُن پر كوئي سند اتاري هےكه وه اُن كو خدا كے ساتھ شرك كرنے كو كهه رهي هے۔
جس طرح سوره الروم كي اِس آيت ميں كلام بزبانِ حال كے معني ميں آيا هے، اِسي طرح سوره النمل كي مذكوره آيت ميں كلام كا ماده كلامِ حال كے معني ميں آيا هے، يعني دونوں هي آيتوں ميں كلام كا ماده زبانِ حال كے مفهوم ميں استعمال هوا هے، نه كه زبانِ قال كے مفهو م ميں۔
آيت كا آخري ٹكڑا يه هے
2۔ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ— يهاں آيات (signs) سے كيا مراد هے۔ اِس كي وضاحت قرآن كي اِس آيت سے هوتي هے: قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ(11:48)۔
اِس آيت ميں ’’مسِّ عذاب‘‘كا ذكر هے۔ اسي كے ساتھ يهاں ايك اور چيز محذوف هے، وه يه كه كچھ افراد بچاليے جائيں گے جس طرح كشتي نوح كے افراد بچا ليےگئے اور دوسرے لوگ جو عذاب كے مستحق تھے، وه هلاك كرديے گئے— سفينه كا لفظ حضرت نوح كي كشتي كو بتاتا هے ،اور دابه كا لفظ اُس كشتي كے رول كو۔
قرآن کی آیتِ دابّہ کے حسب ذيل تین حصے ہیں
1۔ وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ ۔
2۔ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ ۔
3۔ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ ) 27: 82)۔
آیت کے پہلے حصے کا تعلق اللہ کے فیصلے سے ہے، یعنی دابہ کا خروج اُس وقت ہوگا، جب کہ اللہ تعالي موجودہ دنیا میں انسانی تاریخ کے خاتمے کا فیصلہ فرما دے۔ آیت کے دوسرے حصے کا تعلق قدرتی حالات سے ہے، یعنی فطری اسباب کے تحت ایسے حالات کا پیداہونا جب کہ دابہ (کشتی نوح) کا برفاني کور (cover)ہٹ جائے، اور وہ پورے طورپر لوگوں کے سامنے آجائے۔
آیت کے تیسرے حصے کا تعلق انسان سے ہے، یعنی جب ایسا ہوگا تو یہ انسان کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اِس واقعے کو لے کر اس کی تاریخ لوگوں کے سامنے بیان کرے، اِس واقعے میں سبق کا جو پہلو ہے، اس سے لوگوں کو باخبر کرے۔آیت کا تیسرا حصہ جو انسان سے متعلق ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کو ماننے والے اس وقت اٹھیں اور قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچائیں، کیوں کہ دابہ (کشتی نوح) کا ظہور قرآن کی پیشین گوئی کی تصدیق ہوگی۔
یہ واقعہ لوگوں کے لئے اِس بات کی دعوت ہوگا کہ وہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھ کر پڑھیں، اور اس کے ذریعے اُس پیغام کو جو اللہ کی طرف سے پیغمبر وں کے ذریعہ بھیجا گیا تھا،اُس كو ايك ثابت شده صداقت كي حيثيت سے قبول كرليں۔
كشتي كا انتخاب كيوں
صورِ اسرافيل قيامت كا ناطق اعلان هے اور كشتي نوح (دابّه) قيامت كا غير ناطق اعلان۔ صورِاسرافيل جس حقيقت كو بول كر بتائے گا، اسي حقيقت كا اعلان خاموش زبان ميں كشتي نوح (دابه) كے ذريعے كياجائے گا۔
اِس مقصد كے لئے كشتي كا انتخاب كيوں كيا گيا۔ حسب ذيل پهلوؤں پر غور كرنے سے اندازه هوتا هے كه قديم زمانے ميں كشتي هي اس مقصد كا سب سے زياده بهتر ذريعه بن سكتي تھي
1۔ سنت الله كے مطابق، كشتي كے لئے لفظِ دابّه كي صورت ميں ايك ملتَبَس نام (disguised name) دركار تھا، اور كشتي كے لئے لفظِ دابّه كي صورت ميں ايك ملتبس نام نهايت آساني سے حاصل هوتا هے۔
2۔ مطلوب مقصد كے لئے ايك ايسي چيز دركار تھي، جو طوفان ميں تير كر ايك جگه سے دوسري جگه جائے۔ يه كام صرف كشتي كے ذريعےهوسكتا تھا۔
3۔ اِس كام كے لئے ايك ايسا ذريعه دركار تھا، جو كچھ لوگوں كو بچائے اور كچھ لوگوں كو تباه كردے۔ يه كام بھي صرف كشتي كے ذريعے ممكن تھا۔
4۔ اِس كام كے لئے ايك ايسي چيز كي ضرورت تھي جو هزاروں سال تك برف كے نيچے دب كر باقي رهے،اور بعد كو ظاهر هوكر وه لوگوں كے سامنے آئے۔
5۔ كشتي كا ايك فائده يه بھي تھا كه وه كيميائي عمل كے تحت فاسل (fossil)بن كر محفوظ رهے، تاكه وه بعد والوں كے لئے ايك نشاني بنے۔
يه تمام صفات كشتي ميں موجود تھيں۔ مزيد يه كه الله كي سنت التباس (الانعام، 6:9) كے مطابق، كشتي وه واحد چيز تھي جس كے ليے دابّه كي صورت ميں ايك ملتبس نام (disguised name) مل سكتا تھا۔ الله كي سنت كے مطابق، كشتي كا حواله كشتي كے نام سے دينا مطلوب نهيں تھا، بلكه اس كا حواله ايك ايسے بالواسطه نام كے ذريعه دينا مطلوب تھا جس كو صرف غور كركے سمجھا جاسكتا هو۔ اِس كے ليے دابه نهايت موزوں نام تھا، كيوں كه كشتي بھي پاني پر رينگتي هے اور دابّه كے لفظي معنى هيں رينگنے والا۔
قرآن ميں هے كه جب وقت آئے گا تو هم، لوگوں كے لئے زمين سے ايك دابه (رينگنے والا) نكاليں گے (النمل، 27:82)۔ يه الفاظ بهت خوبي كے ساتھ اصل واقعه كو بتاتے هيں۔ كيوں كه كشتي كے ساتھ جو واقعه پيش آيا، وه يه تھا كه اس كے اوپربرف كي بهت موٹي ته جم گئي۔ پھر گلوبل وارمنگ كے زمانے ميں برف پگھلنا شروع هوئي تو دھيرے دھيرے كشتي كھل كر سامنے آگئي۔ ’’رينگنے والي چيز‘‘كا زمين سے نكلنا بالكل لفظي طورپر اِس واقعه كي تصوير كشي كررها هے۔
قرآن ميں دابه كا ذكر جهاں آيا هے، وهاں صرف يه بتايا گيا هے كه دابه لوگوں سے ’’كلام‘‘ كرے گا، اور يه خبردے گا كه لوگوں نے الله كي آيتوں (signs) پر يقين نهيں كيا۔ قرآن ميں دابه كے بارے ميں اتنا هي بتايا گيا هے۔ قرآن ميں يه نهيں بتايا گيا هے كه لوگ دابه كي بات سنيں گے تو اس كے بعد تمام لوگ اس كو ماننے والے بن جائيں گے۔ قرآن سے يه تو ثابت هے كه دابه لوگوں سے ’’كلام‘‘ كرے گا، ليكن يه بات قرآن ميں نهيں هے كه لوگ دابه كے كلام كو سن كر اُس كے مومن بن جائيں گے۔
اِس سے مستنبط هوتا هے كه دابه (كشتي نوح) كا ظهور دوباره اُسي نوعيت كا هوگا جيسے كه نوح كے زمانے ميں هوا تھا۔ حضرت نوح كي دعوت وتبليغ سے ان كے زمانے كے بهت كم لوگ اُن پر ايمان لائے۔ اِسي طرح يهي معامله بعد كے زمانے ميں بھي پيش آئے گا، يعني دوسري بار بھي صرف كچھ لوگ اس سے اثر قبول كريں گے اور زياده لوگ اس كو نظر انداز كرديں گے۔
حقيقت يه هے كه بعد كے زمانے ميں دابه (كشتي نوح) كا ظهور صرف اعلان كے لئے هوگا۔ اس كے نتيجے ميں ايسا نهيں هوگا كه تمام لوگ اس كے مومن بن جائيں اور دنيا ميں كوئي خدا كا انكار كرنے والا باقي نه رهے۔
پيغمبرانه يادگاريں
حضرت نوح سے حضرت محمد تك خداكے بهت سے پيغمبر دنيا ميں آئے۔ اُن ميں سے تين پيغمبر ايسے هيں جن كي مادي يادگاريں آج بھي دنيا ميں موجود هيں۔ يه تين پيغمبر هيں— حضرت نوح، حضرت ابراهيم اور حضرت محمد۔ تين پيغمبروں كي يه مادي يادگاريں علامتي طورپر دعوت كے تين دور كو بتاتي هيں۔ پهلي مادي يادگار حضرت نوح عليه السلام كي هے، جو ايك كشتي كي صورت ميں آج بھي موجود هے۔ يه كشتي علامتي طورپر بتاتي هے كه ايسا هونے والا نهيں كه انسانوں كو ان كے حال پر چھوڑ ديا جائے، بلكه تمام پيدا هونے والے انسانوں كو آخر كار دو گروه ميں تقسيم كيا جائے گا۔
يه تقسيم لوگوں كے ريكارڈ (record) كے مطابق هوگي، اور پھر اچھے ريكارڈ والوں كے ليے جنت كا فيصله كيا جائے گا، اور برے ريكارڈ والوں كے ليے جهنم كا فيصله۔ دوسري مادي يادگار حضرت ابراهيم عليه السلام كي هے جو كعبه كي صورت ميں آج بھي مكه ميں موجود هے۔
كعبه علامتي طورپر اُس غيرمعمولي منصوبه بندي (extraordinary planning) كي يادگار هے جب كه يهاں كے صحرائي علاقه ميں حضرت ابراهيم نے اپني بيوي هاجره اور اپنے بيٹے اسماعيل كو بسايا، اور پھر توالد اور تناسل كے لمبے دور كے بعد وه نسل تيار هوئي جس كو بنو اسماعيل كهاجاتاهے۔ رسول اوراصحابِ رسول اسي نسل كے منتخب افراد تھے۔ يه ايك استثنائي گروه تھا جس كو ايك مستشرق نے هيروؤں كي قوم (a nation of heroes) كها هے۔
تيسري مادي يادگار حضرت محمد صلي الله عليه وسلم كي هے جو مدينه كي مسجد نبوي كي صورت ميں موجود هے۔ مسجد نبوي كے اندر حضرت محمد صلي الله عليه وسلم كي قبر واقع هے۔
حضرت محمد اور آپ كے اصحاب كي غير معمولي كوشش سے انساني تاريخ ميں ايك نيا دور شروع هوا۔ اس نئے دور كو دورِ شرك كا خاتمه اور دورِ توحيد كا آغاز كها جاسكتا هے۔ حضرت محمد اور آپ كے اصحاب نے انساني تاريخ ميں ايك نئے عمل (process)كا آغاز كيا۔ اِس كے نتيجه ميں وه انقلابي واقعه پيش آيا جس كو قرآن ميں اظهارِ دين (الفتح، 48:28) كهاگيا هے۔
اظهارِ دين سے مراد كوئي سياسي اظهار نهيں هے، اِس سے مراد زياده وسيع نوعيت كا ايك همه جهتي اظهار هے۔ اس كے نتيجه ميں وه عالمي واقعه پيش آيا جس كو انفجارِ مواقع (opportunity explosion) كهاجاسكتا هے۔
حضرت محمد اور آپ كے اصحاب كے ذريعے تاريخ ميں جو عمل (process) شروع هوا، وه اكيسويں صدي عيسوي ميں اپني آخري تكميل تك پهنچ چكا هے۔ اِس انقلاب كے مختلف پهلو هيں۔ مثلاً مذهبي آزادي، توحيد كے حق ميں سائنسي شواهد، عالمي كميونكيشن، گلوبل موبلٹي (global mobility) ، پرنٹنگ پريس،سياست كا ڈي سينٹرلائزيشن (decentralization of political power) ، اداروں كا دور (age of institutions)، وغيره۔
اِنھيں جديد مواقع ميں سے ايك يه هے كه نئے حالات كے نتيجه ميں حضرت نوح كي كشتي ظاهر هوكر لوگوں كے سامنے آگئي جو كه كئي هزار سال تك برف كي بھاري تهه كے نيچے چھپي هوئي تھي۔
دابہ کا نکلنا
قرآن کی سورہ النمل میں قیامت سے پہلے کی ایک نشانی کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیاہے: وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82) اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک دابّہ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماري نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
قرآن کی یہ آیت 1400سال سے غیر واضح بنی ہوئی تھی، لیکن حضرت نوح کی کشتی کے بارے میں حال میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، اس كي روشني ميں محفوظ طور پر يه استنباط كيا جاسكتا ہے کہ دابہ سے مرادغالباً حضرت نوح کی کشتی ہے، یعنی پانی كے اوپر رینگنے والا دابه۔ قرآن میں حضرت نوح کی کشتی کو ایک نشانی (آیت) کہاگیا ہے۔ اِسي طرح قرآن میں دابہ کو بھی ایک آیت کہاگیا ہے۔ کشتی نوح اور دابه کے درمیان یہ مشابہت بہت بامعنی ہے۔ آغازِ انسانی سے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ ہر دور میں خدا کے پیغمبر آئیں اور انسان کو بتائیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے، مگر انسان نے اپنی سرکشی کی بنا پر یہ کیا کہ اس نے پیغمبروں کو نظرانداز کیا، حتی کہ انسانیت کی مدون تاریخ (recorded history) میں پیغمبروں کا اندراج نہ ہوسکا، پیغمبر عقیدہ کا معاملہ بن گئے، نہ کہ تاریخی طورپر ثابت شدہ حقيقت كامعاملہ۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے بظاہر تخلیق (creation)کو جانا، مگر وہ مقصدِ تخلیق (purpose of creation) سے بالکل بے خبر رہا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا کہ اِس مِتھ (myth) کو توڑ دیا جائے گا۔ اور اِس مِتھ کو توڑنے کا ذریعہ ایک پیغمبر کی ایک تاریخی نشانی کا ظہور ہوگا، جس کا ذکر بائبل اور قرآن دونوں میں موجود هے۔اِس طرح مذهبي عقيده ايك علمي مسلّمه بن جائے گا۔
جيسا كه عرض كيا گيا، دابه کا لفظی مطلب ہے رینگنے والا۔حضرت نوح کی کشتی پانی پر رينگنے والی سواری تھی۔ وہ طوفان کے اوپر چلتی ہوئی ترکی کے سرحدی پہاڑ ارارات (Ararat) پر پہنچ گئی۔
اب اكيسویں صدی ميں کشتی نوح کا یہ معاملہ ایک واقعہ بن کر سامنے آگیا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ وہ پوری طرح منظر عام پر آجائے ،اور پھر زبانِ حال سے کلام کرکے لوگوں کو بتائے کہ پیغمبر کی جس نشانی کا تم انکار کرتے رہے، وہ اب تمھارے سامنے عیاناً موجود ہے۔
حضرت نوح نے براہِ راست طورپر اپنی قوم سے اور بالواسطہ طورپر تمام انسانیت كو بتايا تھا کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق، مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ سياره ارض پر انسان کا قیام ایک مقرر مدت تک ہے (نوح، 71:4)۔ یعنی ایک مقرر وقت (appointed time)تک دنیا میں حالتِ امتحان میں رہنا اور اس کے بعد آخرت میں اللہ کے سامنے حساب کے لئے پیش کردیا جانا۔ یہی زندگی کی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت نوح نے اور دوسرے پیغمبر وں نے انسان کو بتایا، لیکن انسان نے اس پيغمبرانه انتباہ (warning)کو اپنے ریکارڈ سے خارج کردیا۔
دابہ کے ظہور کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ لیکن دونوں جگہ اس کا ذکر مستقبل کی پیشین گوئی کے طورپر ہے، اِس لیے دابہ کے بارے میں شارحین اور مفسرین کی مختلف رائیں ہیں۔ دابه كے بارے ميں مزید مطالعے کے بعد اب میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، اس کو میں نے اِس مضمون میں درج کردیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق، یہی رائے مجھ کو زیادہ درست معلوم ہوتی ہے هذا ما عندي، والعلم عند الله۔
اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، کئی بار ایسا ہوا کہ کسی پیغمبر کی قوم پر انکار کے نتیجے میں عذاب آیا۔ مگر دوسرے تمام پیغمبروں کے معاملے میں جو صورت اختیار کی گئی، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہوا تو پیغمبر کے ماننے والوں سے کہاگیا کہ تم بستی کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ جب وہ بستی کو چھوڑ کر دور کے علاقہ میں گئے تو مقامی طورپر شدید طوفان یا زلزلہ کے ذریعے منکر قوم کو تباہ کردیا گیا، مگر حضرت نوح کی قوم کے معاملے میں ایک بالکل مختلف طریقہ اختیا رکیا گیا۔
حضرت نوح نے لمبی مدت تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام پہنچایا۔ کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور زیادہ تر لوگ منکر بن گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو حکم دیا کہ تم ایک بڑی کشتی بناؤ۔ اس میں اهلِ ایمان کو اور اسی کے ساتھ مویشیوں کے جوڑوں کو سوار کرو۔ جب یہ سب ہوگیا اور لوگ کشتی میں سوار ہوچکے تو بہت بڑا سیلاب آیا۔ پانی زمین سے بھی نکلا اور آسمان سے بھی برسا۔ پانی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اس کی سطح پہاڑی کی چوٹی تک پہنچ گئی۔
اِسی مختلف انداز کی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت نوح کی کشتی بعد کی انسانی نسلوں کے لیے محفوظ رہے۔ اِس کی وجہ سے یہ ہوا کہ کشتی زمین سے اوپر اٹھ کر پہاڑ کی بلندی تک پہنچ گئی۔
کشتی نوح کے بارے میں جو بات قرآن میں کہی گئی ہے، اس کی مزید تفصیل دابہ والی آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ اِس آیت میں یہ الفاظ ہیں: أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ(27:82)۔يعني ہم ان کے لئے زمین سے ایک دابّہ (غیر انسانی مخلوق) نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا، کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس كا مطلب يه هے كه دابہ بتائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔
اِس آیت میں آیات) نشانیوں) سے مراد پچھلے ادوار میں اللہ کے پیغمبروں کا ظہور ہے۔ اللہ کا ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہوتا تھا، مگر قدیم زمانے میں پیغمبروں کے معاصرین نے پیغمبروں کا انکار کیا۔ اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِس طرح کیاگیا ہے: مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوابِهِ يَسْتَهْزِءُونَ(36:30)يعني جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔
پیغمبروں کا آیتِ الٰہی ہونا اُن کے مخاطبین کے لیے مجرد ايك نظری شہادت (theoretical evidence) کے ہم معنی ہوتا تھا، اِسی لیے وہ ان کی تکذیب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ پیغمبر اور پیغمبری کے حق میں ایک مادی شہادت (material evidence) قائم ہو، اور—کشتی نوح بمعنی دابہ غالباًاِسي قسم کی ایک مادی شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔
موجودہ زمانے میں کشتی نوح ظاہر ہو کر بزبانِ حال یہ کہہ رہی ہے کہ اے انسانو، تم نے پیغمبر نوح اور ان کے خدائی مشن کا انکار کیا۔ تم نے اپنی تاریخ سے اُن کو اِس طرح حذف کیا جیسے کہ کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ اب عیاناً وہ تمھارے سامنے اِس طرح ظاہر ہوچکی ہے کہ اس کا انکار تمھارے لیے ممکن نہیں۔ نظری شہادت کا معاملہ اختیاری اعتراف کي حیثیت رکھتاتھا، مگر مادی شہادت کا معاملہ جبری اعتراف کا درجہ رکھتا ہے۔ اب انسان کے لیے اِس بات کا کوئی منطقی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ پیغمبر اور پیغمبرانہ مشن کے معاملے میں انکار کا طریقہ اختیار کرے۔
موجودہ زمانے میں کشتی نوح کا ظہور دین ِ خداوندی کے لیے ایک عظیم تاریخی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ واقعہ تمام تر مسیحی علما اور یہودی علما كي تحقيقات كے ذريعے انسانی علم میںآیا۔ کیوں کہ قرآن کے علاوہ، کشتی نوح کا ذکر بائبل (Old Testament) میں موجود تھا، اِس لیے وہ مسیحی علما اور یہودی علما کا موضوعِ تحقيق بن گیا۔ انھوںنے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تحقیق کی، اور پھر اپنے نتائج ِتحقیق کو شائع کرکے اس کو عام کردیا۔
قرآن اور بائبل كے بيان كا فرق
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِس معاملے میں بائبل کے بیان اور قرآن کے بیان میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ بائبل میں کشتی نوح (Noah's Ark) کا ذکر تفصیل سے آیا ہے، مگر ایک بات بائبل میں سرے سے موجود نہیں، اور وہ یہ پیشین گوئی ہے کہ کشتی نوح بعد کے زمانے میں ظاہر ہوگی اور وہ اللہ کی آیت (نشانی) بنے گی۔ کشتی نوح کے اِس پہلو کا ذکر قرآن میں ایک سے زیادہ بار آیا ہے، لیکن بائبل میں وہ سرے سے موجود نہیں۔
یہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ قرآن کے مومنین بعد کے زمانے میں کشتی نوح کو تلاش کریں، اور اس کو دریافت کرکے بعد کے لوگوں کے لیے اس کو حجت بنادیں۔ یہ کام وہ لوگ کرسکتے تھے جن کے اندر سائنسی تحقیق کا ذوق ہو، مگر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ سائنسی تحقیق کے ذوق سے مکمل طورپر خالی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسیحی اور یہودی علما اِس معاملے کی تحقیق نہ کرتے تو شايد تاریخِ نبوت کے اِس معاملے سے انسان ابھی تک بے خبر رہتا۔
کشتی نوح کا ظاہر ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ قیامت سے پہلے قیامت کی آمد کا اعلان ہے۔ یہ اُس تاریخی واقعے کا اعلان ہے کہ خالق نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے اپنی مرضی سے باخبر کیا، مگر انسان نے اِس کو نظر انداز کیا۔ یہ تخلیقِ خداوندی اور تاریخِ انساني کے درمیان فرق کو ختم کرنے کا اعلان ہے جس کو انسان نے قائم کررکھا تھا، یعنی خالق کے مقرر کردہ منصوبه تخلیق کو نظر انداز کرکے زمین پر زندگی گزارنا۔
قیامت كا دن حقيقت كے کلّی ظہور کا دن ہے۔ اِس سے پہلے کشتی نوح (Noa’s Ark) کا ظہور حقیقت کے جزئی ظہور کا دن هوگا۔ کشتی نوح کا ظہور علامتی طورپر بتائے گا کہ دنیا کے خالق نے انسان کے لیے جو نقشۂ حیات مقرر کیا تھا، اور پیغمبروں کے ذریعے جس کا علم بھیجا تھا، انسان نے اس کو کامل طورپر نظر انداز کیا، حتیٰ کہ اس کو اپنی تاریخ سے حذف کردیا۔ کشتی نوح کا ظہور اِس حذف شدہ تاریخ کو دوبارہ سامنے لانے کے ہم معنی ہوگا۔
یہی وہ وقت ہوگا جب کہ خدا کی محفوظ کتاب قرآن کو تمام انسانوں کے سامنے لایا جائے، کیوں کہ قرآن واحد کتاب ہے جس میں پیغمبروں کی تاریخ اور خدا کے منصوبۂ تخلیق کو واضح طورپر بتایا گیاہے۔ کشتی نوح کا ظہور تاریخِ انسانی کے ایک گم شدہ باب کی دریافت ہوگا، اور قرآن تاریخ کے اِس گم شدہ باب کا مستند بیان (authentic statement)۔
كشتي نوح اور تركي
جيسا كه عرض كيا گيا، حضرت نوح كي كشتي عراق (ميسوپوٹاميا) كے علاقه سے روانه هوئي۔ وه اپنے چاروں طرف مختلف مقامات كي طرف جاسكتي تھي، ليكن اس نے ايك خاص رخ پر اپنا سفر كيا۔ پھر وه چلتي هوئي تركي كے مشرقي سرحد پر واقع ايك پهاڑ كے اوپر ٹھهر گئي۔
ايسا كيوں هوا۔ حضرت نوح كي كشتي كے لئے مختلف آپشن (option) موجود تھے، ليكن اس نے صرف ايك هي آپشن ليا، اور وه تركي كے پهاڑ كا آپشن تھا۔ ايسا بلا شبه خدا كي هدايت پر هوا۔ اِس معاملے كو اتفاقي واقعه كے طورپر نهيں لے سكتے۔ همارے لئے لازم هے كه هم اس كو خالق كے منصوبے كے تحت پيش آنے والا واقعه سمجھيں۔
—اس معاملے پر غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه حضرت نوح كي كشتي كے ذريعه الله تعاليٰ كو جو رول مطلوب هے، اس رول كے لئے زياده موزوںمقام اپني بعض خصوصيات كي بنا پر، تركي (Turkey) تھا۔الله تعاليٰ كو يه معلوم تھا كه بعد كے زمانے ميں تركي ايك مسلم ملك بنے گا۔ الله تعاليٰ كو معلوم تھا كه تركي ايسا ملك هے، جو مشرقي دنيا اور مغربي دنيا كے درميان جنكشن (junction) كي حيثيت ركھتا هے۔
الله تعاليٰ كو معلوم تھا كه مختلف اسباب سے تركي ميں ساري دنيا كے سياح كثرت سے آئيں گے۔ اسي كے ساتھ الله تعاليٰ كو يه بھي معلوم تھا كه مسلم ملكوں كي لمبي فهرست ميں تركي وه واحد ملك هوگا جو مذهبي كٹرپن (religious fanaticism) سے خالي هوگا اور اس بنا پر وه سب سے زياده موزوں ملك هوگا جهاں سے كشتي نوح كا مطلوب رول ادا كيا جاسكے۔
يه مطلوب رول كيا هے۔ وه بلا شبه دعوت هے، يعني الله كے تخليقي منصوبه سے تمام مرد اور عورت باخبر هوجائيں۔ اِس مقصد كے لئے كشتي نوح ايك تاريخي شهادت (historical evidence) كي حيثيت ركھتي هے۔ وه اُس خدائي منصوبه كي ايك تاريخي يادگار هے جس كا ظهور حضرت نوح كے ذريعه هوا۔ كشتي نوح براهِ راست طورپر حضرت نوح كي تاريخ كي مادي شهادت هے، اور بالواسطه طورپر تمام نبيوں كي تاريخ كي مادي شهادت۔
الله تعاليٰ كو مطلوب تھاكه قيامت سے پهلے تمام انسانوں كے سامنے اس بات كا محسوس اعلان هوجائے كه انسان كے بارے ميں الله كا منصوبۂ تخليق كيا تھا۔ كشتي نوح اس خدائي منصوبهٔ تخليق (creation plan of God) كي ايك ناقابلِ انكار شهادت هے، اور مختلف اسباب سے اِس شهادت كي ادائيگي كے لئے سب سے زياده موزوں مقام تركي تھا۔
ضرورت هےكه تمام دنيا كے مسلمان عموماً اور تركي كے مسلمان خصوصاً اس خدائي منصوبے كو سمجھيں، اور اس منصوبے كي تكميل كے لئے وه سارا اهتمام كريں، جو اس كے لئے ضروري هو۔ مثال كے طورپر وه كشتي نوح كے مقام كو ايك اعليٰ درجه كے ٹورسٹ اسپاٹ (tourist spot) كے طورپر ڈيولپ (develop) كريں۔ وه وهاں آمد ورفت كي تمام سهولتيں مهيا كريں۔ پھر وهاںاعليٰ معيار پر وه يه انتظام كريں كه وهاں تربيت يافته افراد موجود هوں، لائبريري موجود هو۔ وهاں قرآن كا ترجمه مختلف زبانوں ميں برائے ڈسٹري بيوشن يا برائے فروخت موجود هو۔ وهاں اِس بات كا اعليٰ انتظام كيا جائے كه كشتي نوح كے حوالے سے پيغمبرانه مشن لوگوں كے سامنے اطمينان بخش صورت ميں آسكے۔ گويا كه كشتي نوح كے ظهور كا يه مقام صرف ايك كشتي كے ظهور كا مقام نه رهے، بلكه وه پورے معنوں ميں جديد ترين معيار كا ايك دعوتي سنٹر بن جائے۔
خدا كے تخليقي منصوبے كے مطابق، هماري زمين كے لئے دو سيلاب مقدر تھے —— ايك، حضرت نوح كے زمانے كا سيلاب اور دوسرا، وه جو تاريخ بشري كے خاتمے پر پيش آئے گا۔ كشتي نوح پهلے سيلاب كے لئے تاريخي يادگار كي حيثيت ركھتي هے، اور دوسرے سيلاب كے لئے اس كي حيثيت تاريخي ريمائنڈر (historical reminder) كي هے۔
اكيسويں صدي عيسوي كے ربعِ اول ميں كشتي نوح (دابه) كا ظهور گويا اِس بات كي وارننگ هے كه لوگو، تياري كرو، كيوں كه آخري طوفان كا وقت قريب آگيا هے۔
خوش قسمت هيں وه لوگ جو اِس خدائي منصوبے كو سمجھيں، اوراس كي تكميل كركے الله كے يهاں اجرِ عظيم كے مستحق بنيں۔ حقيقت يه هے كه هزاروں سال تك برف كے تودے ميں دبے رهنے كے بعد كشتي نوح كا ظاهر هونا صورِ اسرافيل سے پهلے كے دور كا سب سے بڑا واقعه هے۔ اِس كے بعد اگلا واقعه صرف صورِ اسرافيل هوگا جو گويا، اِس بات كا آخري اعلان هوگا كه عمل كرنے كا وقت ختم هوچكا، اور عمل كا انجام پانے كا دور آگيا۔
عالمي دعوت كي پيشين گوئي
ايك روايت كےمطابق، پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم نے كها لايبقى على ظهر الأرض بيت مدر ولا وبرإلا أدخله الله كلمةَ الإسلام، بعزّ عزيز أو ذلّ ذليل (مسند احمد، حدیث نمبر24215) يعني زمين كے اوپر كوئي گھر يا خيمه نهيں بچے گا، مگر الله وهاں اسلام كا كلمه داخل كردے گا، عزت والے كو عزت كے ساتھ اور ذلت والے كو ذلت كے ساتھ
The day will come when the word of God will enter in every home, big or small of the globe, willingly or unwillingly.
اِس حديث ميںيه پيشين گوئي كي گئي هے كه مستقبل ميں ايك ايسا وقت آئے گا جب كه يه ممكن هوجائے كه خدا كا كلمه (word of God) زمين پر بسنے والے تمام انسانوں تك پهنچ جائے۔ عالمي دعوت كا يه واقعه كوئي پُراسرار واقعه نهيں هے۔ فطرت كے قانون كے مطابق، يه واقعه انسانوں كے ذريعه معروف وسائل كے تحت انجام پائے گا، نه كه فرشتوں كے ذريعے يا كسي طلسماتي طريقے كے ذريعے۔
الله كو جب كوئي كام مطلوب هوتا هے، تو اُس كي طرف سے موافق حالات فراهم كئے جاتے هيں، مگر كوئي اعلان نهيں كيا جاتا ۔ يه انسان كي ذمے داري هوتي هے كه وه اپني عقل كو استعمال كركے فطرت كے اشارے كو سمجھے، اور اس كو مطلوب مقصد كے ليے استعمال كرے۔ اس كي ايك مثال بارش كا معامله هے۔ بارش الله كي طرف سے هوتي هے، ليكن يه كسان كا كام هے كه وه بارش كے خاموش پيغام كو سنے،اور اس كو زراعت كے ليے استعمال كرے۔
يهي معامله دعوت كا هے۔ موجوده زمانه بالكل نيا زمانه هے۔ اِس زمانے ميں بهت سي ايسي چيزيں وجود ميں آئي هيں جو انتهائي حد تك دعوت الي الله كے ليے موافق هيں۔ مثلاً مذهبي آزادي، پرنٹنگ پريس، سياحت اور دوسرے مقاصد كے تحت انسانوں كي عالمي نقل وحمل، جديد كميونكيشن، پرنٹ ميڈيا اور الكٹرانك ميڈيا كے ذرائع، اسفار كي سهولتيں، وغيره۔
اِس قسم كے واقعات خاموش زبان ميں اعلان كررهے هيں كه الله كے ماننے والو، اٹھو، حديث ميں جس عالمي دعوت كي پيشين گوئي كي گئي تھي، اس كے مواقع آخري حد تك كھل چكے هيں۔ اِن مواقع كو استعمال كرو۔ اِن مواقع كو استعمال كرتے هوئے الله كے پيغام كو تمام انسانوں تك پهنچادو، تاكه زمين پر بسنے والا كوئي بھي مرد يا عورت الله كے تخليقي منصوبه (creation plan) سے بے خبر نه رهے۔
قديم زمانے ميں كوئي بڑا كام حكومت كي حمايت كے بغير نهيں هوسكتا تھا، كيوں كه تمام مواقع حكومت كے قبضے ميں هوتے تھے۔ موجوده زمانے ميں يه هوا هے كه مواقع (opportunities) كو سياسي اقتدار سے الگ كردياگيا هے۔
قديم زمانه اگر حكومت كا زمانه تھا تو موجوده زمانه اداروں (institutions) اور آرگنائزيشن (organizations) كا زمانه هے۔ اب اداروں اور تنظيموں كے ذريعے زياده بڑے پيمانے پر وه سب كيا جاسكتا هے جو حكومت كے ذريعےصرف جزئي طورپر متوقّع هوتا تھا۔ اِسي طرح آج يه ممكن هوگيا هے كه قديم پاليٹكل ايمپائر سے بھي زياده بڑے پيمانے پر دعوه ايمپائر قائم كياجائے۔قديم حالات ميں پالٹكل ايمپائر صرف محدود جغرافي علاقه ميں قائم هوسكتا تھا۔ جديد حالات ميں اي ايمپائر (e-empire) كسي ركاوٹ كے بغير پورے كره ارض كي سطح پر قائم كيا جاسكتا هے۔ يه عالمي امكانات بلاشبه صرف دعوت الي الله كے ليے پيدا كيےگئے هيں۔
امتِ محمدی کا مشن
امتِ محمدی کا مشن کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے — پیغام محمدی کو ہر زمانہ میں اور ہرقوم میں پہنچاتے رہنا۔ نسل درنسل اس کو جاری رکھنا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔یہی امتِ محمدی کا واحد مشن ہے۔ یہی امت محمدی کا اصل فریضہ ہے۔ امتِ محمدی کی دنیا وآخرت کی سعادت اسی دعوتي مشن کی انجام دہی پر منحصر ہے۔اِس کے سوا کوئی اور کام ان کو فلاح و سعادت سے ہم کنار کرنے والا نہیں، نہ موجودہ دنیا میں اور نہ آخرت کی دنیا میں۔
حضرت نوح كي اهميت
قرآن ميں بتايا گيا هے كه الله تعاليٰ نے حضرت نوح كي كشتي كو آيت (sign) كا درجه دے ديا: وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ(54:15) يعني هم نے كشتي كو ايك نشاني كے طورپر باقي ركھا، تو كيا هے كوئي نصيحت لينے والا۔
اِس تذكيري مقصد كے اعتبار سے حضرت نوح كا انتخاب سب سے زياده موزوں انتخاب هے۔ حضرت نوح قبل ازتاريخ دور ميں پيدا هوئے، اِس لئے هزاروں سال تك يه سمجھا جاتا رها كه خالص تاريخي اعتبار سے حضرت نوح كاكوئي وجود نهيں۔
ايسي حالت ميں بائبل اور قرآن ميں حضرت نوح اور ان كي كشتي كا ذكر كوئي ساده بات نه تھي۔ اِس كي حيثيت نامعلوم تاريخ كے بارے ميں ايك پيشين گوئي (prediction) كي تھي۔
اِس اعتبار سے ديكھئے تو كشتي اور طوفانِ نوح كا بطور ايك تاريخي واقعه دريافت هونا بے حد اهم هے۔ وه ثابت كرتا هے كه انساني زندگي كي نوعيت كے بارے ميں قرآن كا بيان بالكل درست هے۔ پيغمبروں نے جس آخرت اور اس كے محاسبه كي خبر دي تھي، وه بالكل صحيح خبر تھي۔ دابه كا ظهور گويا اِسي حقيقت كا ايك خاموش اعلان هے۔
اب آخري وقت آگيا هے كه انسان بيدار هو۔ وه دابه كي خاموش آواز كو سنے، وه قرآن كا دوباره مطالعه كرے۔ وه خدا كے تخليقي نقشه(creation plan of God) كو سامنے ركھ كر اپنے عمل كي منصوبه بندي كرے۔ شواهد بتاتے هيں كه انساني تاريخ بظاهر اپنے خاتمه كے دور ميں پهنچ چكي هے۔
اب اپني اصلاح كے ليے انسان كے پاس بهت كم وقت باقي ره گيا هے۔ لوگوں كے ليے فرض كے درجے ميں ضروري هوگيا هے كه وه اُس وقت كي تياري كريں جس كے ليے قرآن ميں يه الفاظ آئے هيں: فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ(7:34)يعني جب اُن كا وقت آجائے گا تو وه نه ايك گھڑي پيچھے هٹ سكيں گے اور نه آگے بڑھ سكيں گے۔
آخرت كا اعلان
خدا نے موجوده زمين (planet earth) كو انسان كے عارضي قيام كے لئے بنايا هے۔ اس كي ايك مدت مقرر هے۔زمين كا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) بھي اِسي محدود مدت كے اعتبار سے بنايا گياهے۔
خدا كے علم كے مطابق، جب يه محدود مدت پوري هوگي، تو اس كے فوراً بعد صور پھونك ديا جائے گاجو اِس بات كا اعلان هوگا كه انساني تاريخ كا پهلا دور ختم هوچكا، اب وه وقت آگيا هے، جب كه انسان كے لئے دوسرے دورِ تاريخ كا آغاز كرديا جائے۔
منصوبه خداوندي كے مطابق، اس كے بعد اِس دنيا كو توڑ كر ايك اور زياده بهتر دنيا بنائي جائے گي۔ اِس دوسري دنيا ميں صرف وه لوگ جگه پائيں گے جو موجوده دنيا ميں اپنے آپ كو اس كا مستحق اميدوار (deserving candidate) ثابت كرچكے ـتھے۔
خدا كو يه مطلوب هے كه صور پھونكے جانے سے پهلے كچھ ايسي نشانياں ظاهر هوں، جو پيشگي طور پر انسان كو يه خبر ديں كه موجوده دنيا ختم هونے والي هے، اور دوسري دنيا شروع هونے والي هے۔ تم اپني غلطيوں كي اصلاح كرلو، اور اگلي دنيا ميں داخل هونے كے لئے تيار هوجاؤ۔
اس مقصد كے لئے خدا نے پيشگي طورپر الارم (alarm) دينے كا جو انتظام كيا هے، اس كو ويك اَپ كال (wake-up call) كهه سكتے هيں۔اِس الارم يا ويك اَپ كال كي دو خاص نشانياں هيں — ايك، فطرت ميں ، اور دوسري تاريخ ميں۔ حالات بتاتے هيں كه دونوں قسم كے الارم بج چكے۔ اگرچه اس كو سننا صرف اُن لوگوں كے لئے ممكن هے جو خاموش آواز كو سننے كي صلاحيت ركھتے هوں۔
فطرت كے الارم كي ايك نماياں مثال يه هے كه هماري زمين ميں زندگي كے جو وسائل (resources) ركھے گئے تھے، وه نهايت تيزي سے ختم هورهے هيں۔ يه كهنا صحيح هوگا كه يه وسائل اب بظاهر خاتمه كي آخري حد پر پهنچ چكے هيں۔ يه بات قرآن ميں پيشگي طور پربتادي گئي تھي كه دنيا ميں جو وسائلِ حيات هيں، وه محدود هيں، نه كه لامحدود (الحجر،15:21)۔
موجوده زمانے ميں جس طرح هر چيز تحقيق (research) كاموضوع بني هوئي هے، اسي طرح فطرت كے وسائل (natural resources) پر بھي بڑے پيمانے پر ريسرچ هورهي هے۔ اس سلسلے ميں كافي ميٹريل چھپ كر سامنے آچكا هے۔ يهاں هم اِس نوعيت كي چند كتابوں كا حواله درج كرتے هيں:
1. The Limits to Growth by Donella H. Meadows, Dennis L. Meadows, Jorgen Randers Universe Books, 1972, pp. 205, Printed in the USA
2. The End of Nature by Bill Mc Kibben, Anchor, 1989, pp. 195, printed in the USA
3. Beyond the Limits Donella Meadows, Dennis Meadows, Jorrgen Randers, Chelsea Green, 1992, Pages 320, Printed in the USA
مذكوره بالا كتابيں اوراس طرح كي دوسري كتابيں بتاتي هيںكه فطرت (nature) كے وسائل ابتدا هي سے محدود هيں۔ انسان نے، خاص طورپر موجوده ترقي كے زمانے ميں، ان وسائل كا لامحدود استعمال كيا، جس كا تحمل هماري محدود دنيا نهيں كرسكتي تھي۔ اب يه وسائل اتنا زياده كم هوچكے هيں كه هر طرف سسٹينيبل ڈيولپمينٹ (sustainable development) كي باتيں هو رهي هيں۔ مگر حقيقت يه هے كه يه سسٹينيبل ڈولپمنٹ كا معامله نهيں هے، بلكه يه وسائل كے خاتمه كا معامله هے۔
وسائل كا يه خاتمه اتنا زياده حتمي بن چكا هے كه بعض سائنس دانوں مثلاً اسٹيفن هاكنگ (Stephen Hawking) نے يه تجويز كياهے كه انساني نسل كو اگر باقي ركھنا هے تو هم كو خلائي بستياں (space colonies) بنانا چاهيے۔ مگر ظاهر هے كه يه صرف ايك سائنٹفك جوك (scientific joke) هے، نه كه حقيقي معنوں ميں كوئي قابلِ عمل تجويز۔
قيامت كے الارم كا دوسرا پهلو وه هے جس كو تاريخي پهلو كها جاسكتا هے۔ اس تاريخي پهلو كي غالباً سب سے زياده نماياں مثال نوح كي كشتي (Ark of Noah) كا ظهور هے۔ كشتئ نوح كے ظهور كا معامله كوئي ساده معامله نهيں هے۔ وه تاريخي شهادت (historical evidence) كي زبان ميں پيغمبرانه مشن كا ايك علامتي بيان هے۔
كشتي نوح يا دابّه گويا زبانِ حال سے يه كهه رهے هيں كه حضرت نوح اور اسي طرح خداكے دوسرے بهت سے پيغمبر دنيا ميں آئے، ليكن انسان نے ان كو اتنا زياده نظر انداز كيا كه اپني مدوّن تاريخ (recoded history) ميں ان كا اندراج تك نهيں كيا۔
يه كشتي نوح يا دابّه اُس تاريخ كو بيان كررهے هيں، جب كه پيغمبر نے اپنے زمانے كے انسانوں كو آگاه كيا كه اگر انھوں نے پيغمبر كي بات نهيں ماني تو وه خدا كي پكڑ ميں آجائيں گے، اور اب يه واقعه عملاً پيش آگيا۔حقيقت يه هےكه كشتي نوح يا دابّه خدا كے تخليقي منصوبه (creation plan) كا علامتي اظهار هيں۔ وه خداكے تخليقي منصوبے كے بارے ميں ايك زنده شهادت (living evidence) كي حيثيت ركھتے هيں۔
محاسبهٴ آخرت كا اعلان
قرآن ساتويں صدي عيسوي كے رُبع اول ميں اترا۔ اُس وقت كشتي نوح كا ماضي بھي لامعلوم تھا، اور اس كا مستقبل بھي لامعلوم۔ نزولِ قرآن كي هزار سال سے بھي زياده مدت گزرنے كے بعد كشتي نوح كے ماضي كے بارے ميں قرآن كا بيان كامل طورپر درست ثابت هوا۔
اِسي طرح يقيني هے كه كشتي نوح كے مستقبل كے بارے ميں قرآن كا بيان كامل طورپر درست ثابت هوگا۔ ماضي كے بارے ميں قرآن كے بيان كا درست ثابت هونا اپنے آپ ميں اِس بات كا ثبوت هے كه مستقبل كے بارےميں بھي اُس كا بيان درست ثابت هو۔ ايك پهلو سے قرآن كي اعتباريت (credibility) ثابت هونے كے بعد دوسرے پهلو سے قرآن كي اعتباريت اپنے آپ درست ثابت هوجاتي هے۔
حقيقت يه هے كه كشتي نوح كا ظهور علامتي طورپر ايك پوري تاريخ كا ظهور هے، يه خدا كے تخليقي منصوبه اور اس كے مطابق پيغمبرانه مشن كي صداقت كا مستند اعلان هے۔ كشتئ نوح كا ظهور انسان كو يه پيغام ديتا هے — اے لوگو، محاسبه كا وقت بهت قريب آچكا۔ خدا كے سامنے پيش هونے كي تياري كرو، اِس سے پهلے كه تم كو خدا كے سامنے جواب دهي كے ليے كھڑا كرديا جائے۔
كشتي نوح كا ظهور ساده طورپر صرف آركيالوجي (archaeology) كا ايك آئٹم نهيں هے، وه خدا كے تخليقي پلان كا ايك ناگزير حصه هے۔ كشتي نوح علامتي طورپر بتاتي هے كه پيدا كرنے والے نے انسان كو كس مقصد كے تحت پيدا كيا هے، اور اِس مقصد كے تحت آخر كار اس كے مستقبل كے بارے ميں كيا فيصله هونے والا هے۔
خلاصهٴ كلام
انسان كي تاريخ حضرت آدم سے شروع هوتي هے۔ اِس كے بعد ايك لمبا دور هے، جب كه خدا كے منتخب بندے اٹھے۔ انھوں نے پيغمبر كي حيثيت سے لوگوں كو بتايا كه تخليق كے بارے ميں خالق كا نقشه كيا هے۔ انسان كا خالق انسان سے كيا چاهتا هے، اورآخر كار انسان كا انجام كيا هونے والا هے۔ دعوت يا اعلان كا يه كام لمبي مدت تك جاري رها۔
اِس كے بعد دوسرا دور وه هے جس كو انتباه (alarm) كا دوركها جاسكتا هے، يعني آنے والے وقت سے پيشگي طورپر لوگوں كو باخبر كرنا۔ انتباه كا يه كام كشتي نوح كے ظهور ِ ثاني يا دابه كے حوالے سے انجام پانا تھا۔ بظاهر انتباه كا يه كام هوچكا، اور اب وه وقت زياده دور نهيں جب كه قبل از قيامت دور ختم هو اور انساني تاريخ اپنے خاتمه (end) تك پهنچ جائے۔
اِس كے بعد تيسرا دور شروع هوگا ،جس كا آغاز صورِ اسرافيل سے هوگا۔ اسلامي عقيدے كي رُو سے جب وه وقت آجائے گا كه الله كے علم كے مطابق، عمل كي مهلت ختم هو گئي، اور انجام كا دور آگيا، اُس وقت فرشته اسرافيل صور پھونكے گا، اور پھر اچانك انساني زندگي كا آخري اور ابدي دور شروع هوجائے گا، جس كي خبر تمام پيغمبروں نے دي تھي۔
ختم ِ نبوت
ختم ِ نبوت كے بعد امتِ محمدي مقام ِ نبوت پر هے۔ يعني اس كو وهي كام انجام دينا هے جو پيغمبر نے اپنے زمانه ميں انجام ديا تھا۔ اس سے معلوم هوا كه خود پيغمبر كي طرح، امتِ محمدي كا امتِ محمدي هونا تمام تر اس پر موقوف هے كه وه پيغمبر كي نيابت ميں تبليغ ما انزل الله كا كام كرے۔ وه هر زمانه كے انسانوں تك خدا كے دين كو اس كي بے آميز صورت ميں پهنچاتي رهے۔
ختم ِ نبوت
اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ اُسی وقت سے شروع ہوگیا، جب کہ انسان کو پیدا کرکے اس کو موجودہ زمین پر آباد کیا گیا ہے۔ آدم، پہلے انسان تھے اور پہلے پیغمبر بھی (سوره آل عمران، 3:33)۔ اِس کے بعد ہر دور اور ہر نسل میں مسلسل طورپر پیغمبر آتے رہے، اور لوگوں کو خدا کا پیغام دیتے رہے(المومنون،23:44)۔ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں قدیم مکہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ آپ پر خدا نے اپنی کتاب قرآن اتاری۔ اِس کتاب میں یہ اعلان کردیاگیا کہ محمد، اللہ کے رسول ہیں ، اور اِسی کے ساتھ وہ نبیوں کے خاتَم (الاحزاب، 33:40) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔خاتم، یاسیل (seal) کے معنیٰ کسی چیز کو آخری طورپر مہر بند کرنے کے ہیں ، یعنی اس کا ایسا خاتمہ جس کے بعد اس میں کسی اور چیز کا اضافہ ممکن نہ ہو :
Seal: To close completely
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ختمِ نبوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایالا نبيّ بعدي (صحیح البخاري، حدیث نمبر 3455 )۔ یعنی میرے بعد کوئی اور نبی نہیں ۔
ختم نبوت کا مطلب ختم ضرورتِ نبوت ہے۔ محمد ِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ اِس لیے ختم کردیا گیا کہ اس کے بعد نئے نبی کی آمد کی ضرورت باقی نہ رہی۔ جیسا کہ معلوم ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے ساتھ استثنائی طورپر ایسا ہوا کہ وہ کامل طورپر محفوظ ہوگیا، اور جب دینِ خداوندی محفوظ ہوجائے، تو اس کے بعد یہی محفوظ دین، ہدایت حاصل کرنے کا مستند ذریعہ بن جاتا ہے۔ خدا کی ہدایت کو جاننے کے لیے اصل ضرورت محفوظ دین کی ہے، نہ کہ پیغمبر کی۔قرآن کی ایک آیت میں اِس حقیقت کو واضح طور پر بیان کردیاگیا ہے۔
قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت ہے، جس کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی، جب كه آپ میدان عرفات میں اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس آیت کا ایک جزء یہ ہے: ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا (5:3)۔ یعنی آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔
امت محمدی پر جو قرآن نازل ہونا شروع ہوا تھا یہ اس کے پورے ہونے کا اعلان ہے۔ ایک قول کے مطابق، یہ آیت قرآن کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے۔قرآن کی اِس آیت کے تین جُز ہیں
1۔ آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا۔یعنی تم کو جو احکام دیے جانے تھے، وہ سب دے دیے گئے۔ تمہارے لیے جو کچھ بھیجنا مقدر کیا گیا، وہ سب بھیجا جا چکا۔
2۔ میں نے تمھارے اوپر اپنی نعمت کو پورا کردیا، یعنی قرآن کے گرد، اصحابِ رسول کی ایک مضبوط ٹیم جمع ہوگئی، جو قرآن کی حفاظت کی ضامن ہے۔
3۔ اور میں نے اسلام کو بحیثیت دین تمھارے لیے پسند کرلیا، یعنی اب اسلام کو ہمیشہ کے لیے مستند دین ِ خداوندی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذکر ہے۔ حدیث کے مطابق، قدیم زمانے میں جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7871)۔مگر ان پیغمبروں پر بہت کم لوگ ایمان لائے۔ اِس بنا پر اِن پیغمبروں کے ساتھ کوئی مضبوط ٹیم نہ بن سکی، جو اُن کے بعداُن کی لائی ہوئی کتاب کی ضامن بنے۔ چنانچہ پچھلے پیغمبروں کی لائی ہوئی کتابیں اور ان کے صحیفے محفوظ نہ رہ سکے۔
پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ آپ 570 عیسوی میں عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت یہاں جو لوگ (بنواسماعیل) آباد تھے، ان کی پرورش تمدن سے دور صحرائی ماحول میں ہوئی۔ اِس بنا پر وہ اپنی اصل فطرت پر قائم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو استثنائی طورپر ساتھ دینے والوں کی بڑی تعداد حاصل ہوگئی۔ بائبل میں اِس استثنائی واقعے کو بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— وہ دس ہزار قُدسیوں کے ساتھ آیا
He came with ten thousand of saints (Deuteronomy 33:2)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی صدی ہجری میں مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا۔ ہجرت (622ء) کے آٹھویں سال آپ فاتحانہ طور پر دوبارہ مکہ میں داخل ہوئے، تو اُس وقت آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔ اِس کے بعد اپنی وفات سے تقریباً ڈھائی مہینے پہلے جب آپ نے آخری حج ادا کیا اور عرفات کے میدان میں اپنے اصحاب کو خطاب فرمایا، اُس وقت آپ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اِس کے بعد 632 عیسوی میں جب مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی، اُس وقت عرب کے تقریباً تمام لوگ اسلام میں داخل ہوچکے تھے، اور آپ کے اصحاب کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استثنائی طورپر یہ معاملہ ہوا کہ آپ کواتنی بڑی تعداد میں قابلِ اعتماد رفقا حاصل ہوگئے۔ یہ ایک انتہائی طاقت ور ٹیم تھی۔ مورخین کی شہادت کے مطابق، اِس ٹیم کا ہر فرد ایک ہیرو (hero) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس وقت عرب کے باہر دو بڑے ایمپائر موجود تھے— بازنطینی ایمپائر، اور ساسانی ایمپائر (Byzantine Empire & Sassanid Empire)۔ یہ دونوں ایمپائر اسلامی مملکت کے خلاف ہوگئے۔ اِس طرح دونوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ اسلام کو جیت ہوئی، اور دونوں ایمپائر ٹوٹ کر ختم ہوگئے۔ یہی وہ عظیم واقعہ ہے جس کو بائبل میں بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے— ازلی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے:
And the everlasting mountains were scattered (Habakkuk 3:6)
اِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت جلد بعد ایک عظیم مسلم سلطنت بن گئی ،جو اسلام کی پشت پر ایک مضبوط سیاسی طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اصحابِ رسول اور اہلِ اسلام کا یہ سیاسی غلبہ تاریخ کا ایک استثنائی واقعہ تھا۔ مؤرخین نے عام طورپر اِس کا اعتراف کیا ہے۔ انڈیا کے ایک مورخ ایم این رائے (وفات1954 ) کی ایک کتاب (The Historical Role of Islam) پہلی بار1937 میں دہلی سے شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں انھوں نے اسلامی انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے اُس کو تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرار دیاہے
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (The Historical Role of Islam, Bombay, 1938, p. 5)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب، قرآن کی حفاظت کے کام میں مسلسل طورپر مشغول ہوگئے۔ قرآن کو یاد کرنا، قرآن کو لکھنا، قرآن کا چرچا کرنا، یہی اُن کا سب سے بڑا مشغلہ بن گیا۔ اِس طرح، اصحابِ رسول کی جماعت گویا کہ ایک زندہ کتب خانہ بن گئی۔ پھر جب مسلم سلطنت قائم ہوئی، تو حفاظتِ قرآن کی مہم کو ایک سیاسی طاقت کی تائید بھی حاصل ہوگئی۔ حفاظتِ قرآن کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک غیر منقطع طورپر چلتا رہا۔ یہ کسی کتاب کی حفاظت کا ایک استثنائی معاملہ تھا، جو قدیم زمانے میں کسی بھی کتاب کے ساتھ پیش نہیں آیا، نہ کوئی دنیوی کتاب اور نہ کوئی دینی کتاب۔
حفاظتِ قرآن
پچھلے زمانے میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو پیغمبر آئے، وہ سب اپنے ساتھ خدا کی کتاب اور صحیفے لائے۔ مگر یہ کتابیں اور صحیفے بعد کو محفوظ نہ رہ سکے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی پیغمبر کے گرد اُس کے ساتھیوں کی کوئی مضبوط ٹیم اکٹھانہ ہوسکی۔ پیغمبرِ اسلام کے ساتھ استثنائی طورپر ایسا ہوا کہ آپ کو اپنے پیروؤں (followers)کی ایک مضبوط ٹیم حاصل ہوگئی۔یہ ٹیم قرآن کی حفاظت کی ضامن بن گئی۔
ایک مستشرق (orientalist) نے اِس معاملے کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی وفات کے فوراً بعد آپ کے اصحاب، حفاظتِ قرآن کے لیے سرگرم ہوگئے۔ انھوں نے اِس مقصد کے لیے تاریخ میں پہلی بار ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system) کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ ایک ایسا طریقہ تھا جس کے بعد قرآن کی حفاظت میں کسی قسم کا احتمال سرے سے باقی نہیں رہتا۔
632 عیسوی میں مدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اُس وقت ہزاروں کی تعداد میں ایسے اصحابِ رسول موجود تھے، جن کو پورا قرآن بخوبی طورپر یاد تھا۔ نیز یہ کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی قرآن کا کوئی حصہ اترتا توآپ اُسی وقت اُس کو قدیم طرز کے کاغذ (قرطاس) پر لکھوا دیتے۔ مگر یہ سب ایک جگہ اکٹھا کتابی صورت میں نہ تھے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر کے زمانے میں یہ کیا گیا کہ زید بن ثابت الانصاری (وفات 665 ء) کی قیادت میں ایک ٹیم بنائی گئی۔ اِس ٹیم نے قرآن کی تمام تحریروں کو اکھٹا کیا۔ اِس کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ قرآن کے تحریری ذخیرے کا تقابل حافظے سے کیا، اور حافظے کا تقابل تحریری ذخیروں سے کیا۔ اِس ڈبل چیکنگ کے بعد انھوں نے قرآن کا ایک مستند نسخہ (authentic copy)لکھ کر تیار کیا۔ یہ نسخہ چوکور صورت میں تھا، اِس لیے اُس کو رَبعہ (square) کہاجاتاتھا۔ یہ رَبعہ، قرآن کا مستند نسخہ قرار پایا۔لوگوں نے اِس نسخے کی مزید نقلیں تیار کیں ۔ اِس طرح وہ مسلم دنیا میں ہر طرف پھیل گیا۔)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب:عظمتِ قرآن(
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام مسلسل طورپر ایک زندہ موضوع بن گیا۔ اہلِ اسلام، ایشیا اور افریقہ کے درمیان ایک بڑے رقبے میں ہر جگہ پھیل گئے ۔
اِن لوگوں کی تقریر اور تحریر کا موضوع اسلام تھا۔ قرآن کی کتابت، قرآن کی تفسیر، حدیث کی تدوین، حدیث کی شرح، پیغمبر اسلام کی سیرت، اصحابِ رسول کے حالات، اسلام کی تاریخ، فقہ کی ترتیب وتدوین، وغیرہ۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد سیکڑوں سال تک یہ موضوعات لاکھوں اہلِ اسلام کے درمیان تقریر اور تحریر کاموضوع بنے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام قرآن ہی کے ذریعے کیا جاتا تھا، اِس لیے دعوت و تبلیغ کے دوران بھی مسلسل طورپر قرآن کو پڑھنے اور سنانے کا عمل جاری رہا۔ یہ ایک ڈبل حفاظت کا معاملہ تھا۔ اِس عمل کے دوران ایک طرف، قرآن اور حدیث کی حفاظت ہوئی اور اسی کے ساتھ عربی زبان ایک زندہ اور محفوظ زبان بنتی چلی گئی۔
یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ فرانس کا حکمراں نپولین (وفات 1821ء) 1798ء میں مصر میں داخل ہوا۔ وہ اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس بھی لے آیا۔ اِس سے پہلے کاغذ سازی کی صنعت 751 عیسوی میں سمرقند میں آچکی تھی۔ اِس طرح، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً ایک ہزار سال بعد قرآن اور علوم قرآن کی حفاظت پرنٹنگ پریس کے دور میں داخل ہوگئی۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے دستیاب ہونے لگے۔ دورِ طباعت میں داخل ہونے کے بعد قرآن آخری طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا۔ اِس کے بعد قرآن میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
ختمِ نبوت کے حق میں یہی سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد استثنائی طورپر ایسے اسباب پیدا ہوئے، جو خدا کی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یقینی تدبیر کی حیثیت رکھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تدبیر اپنے آخری انجام تک پہنچ گئی، یعنی قرآن کامل طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا، اور جب خدا کی ہدایت کتاب کی صورت میں محفوظ ہوجائے تو ایسی کتاب پیغمبر کا بدل بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی آمد کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
رسول کی بعثت کا مقصد
ایک روایت کے مطابق، دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ167)۔ اِن تمام پیغمبروں کا مقصد صرف ایک تھا— انسان کو خدا کے تخلیقی پلان(creation plan of God) سے آگاہ کرنا۔ تمام پیغمبروں نے مشترک طورپر یہی ایک کام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ خدا نے کیوں انسان کو پیدا کیا ہے۔ اِس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات (pre-death period) میں انسان سے کیا مطلوب ہے، اور موت کے بعد کے دورِ حیات(post-death period) میں اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اِسی کو قرآن میں اِنذار اور تبشیر کہاگیا ہے۔ یہی انذار اور تبشیر تمام پیغمبروں کا مشترک مشن تھا (الانعام،6:48)۔ اِس کے سوا کوئی چیز اگر کسی پیغمبر کی زندگی میں نظر آتی ہے، تو وہ اس کی زندگی کا ایک اضافی پہلو (relative part) ہے، نہ کہ حقیقی پہلو(real part)۔
موجودہ دنیا میں انسان کی دو ضرورتیں ہیں ۔ ایک ہے اس کی مادّی ضرورت، جس کی تکمیل فزیکل سائنس (physical science) کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسان کی دوسری ضرورت یہ ہے کہ اُس کے پاس وہ خدائی ہدایت(divine guidance) موجود ہو، جس کی اتباع کرکے وہ آخرت میں کامیاب زندگی حاصل کرے۔ اِس دوسری ضرورت کی تکمیل پیغمبرانہ الہام سے ہوتی ہے۔ تقریبِ فہم کے لیے اس کو ہم ریلجس سائنس (religious science) کہہ سکتے ہیں ۔
فزیکل سائنس میں آخری سائنٹسٹ (final scientist) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے۔ فزیکل سائنس میں مسلسل طورپر ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اِس لیے اِس میدان میں کوئی سائنٹسٹ آخری سائنٹسٹ نہیں ہوسکتا۔ اِس کے برعکس، ریلجس سائنس ایک ہی خدائی ہدایت (divine guidance) پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ خدائی ہدایت غیر متغیر طورپر ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ اِس لیے ریلجس سائنس میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ کوئی آخری پیغمبر (final prophet) ہو،جو انسان کو خداکا آخری کلام(final word) دے دے، اور انسانیت کا قافلہ اس کی رہ نمائی میں بھٹکے بغیر مسلسل طورپر اپنے سفرِ حیات کو جاری رکھے۔
خدا کی طرف سے آنے والا ہر پیغمبر ایک ہی ابدی ہدایت لے کر لوگوں کے پاس آیا۔ لیکن بشری تقاضے کے تحت جب پیغمبر کی وفات ہوئی، تو اس کے بعد اس کی لائی ہوئی خدائی ہدایت محفوظ نہ رہ سکی۔ اِس لیے بار بار یہ ضرورت پیش آئی کہ نیا پیغمبر آئے، او روہ انسان کو دوبارہ مستند ہدایت عطا کرے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی لائی ہوئی خدائی ہدایت، قرآن اور سنت کی شکل میں کامل طورپر محفوظ ہوگئی، اِس لیے آپ کے بعد کسی اور نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔
پیغمبر کا آنا ایک بے حد سنگین معاملہ ہوتا ہے۔ جب ایک زندہ پیغمبر موجود ہو تو اُس وقت انسان کے لیے ایک ہی انتخاب (option) باقی رہتاہے، یہ کہ وہ پیغمبر کا اقرار کرے۔ اقرار نہ کرنے کی صورت میں پیغمبر کے معاصرین کو ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اِس لیے خدا کی یہ اسکیم نہیں کہ دنیا میں ہمیشہ ایک زندہ پیغمبر موجود رہے۔ خدا کی اسکیم کے مطابق، اصل مطلوب یہ ہے کہ خدا کی ہدایت ہمیشہ محفوظ اور غیر محرَّف حالت میں موجود رہے۔ جب خدائی ہدایت کا متن (text) محفوظ ہوجائے، اوراُس میں تحریف کا امکان باقی نہ رہے، تو زندہ پیغمبر کا موجود ہونا، غیر ضروری ہوجاتا ہے۔ یہی واقعہ پیغمبر آخر الزماں کے ظہور کے بعد پیش آیا۔ خدا کی کتاب انسان کے لیے ایک بک آف ریفرنس (book of reference) کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب ایک محفوظ بک آف ریفرنس دستیاب ہوجائے، تو اس کے بعد نئے پیغمبر کی بعثت اپنے آپ غیر ضروری ہوجاتی ہے۔
پیغمبرانہ ہدایت کی ابدیت
پیغمبر کے ذریعے خدا کی جو ہدایت آتی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہوتی ہے۔ قرآن میں پیغمبرانہ ہدایت کو روشن آفتاب(سِرَاجًا مُنِيرًا) سے تشبیہ دی گئی ہے (الاحزاب،33:46)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی ہدایت اُسی طرح ابدی ہوتی ہے، جس طرح آفتاب کی روشنی انسان کے لیے ابدی ہوتی ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ تبدیلی ٔ زمانہ کے حوالے سے نئے پیغمبر کی ضرورت کو بتانا، ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔ زمانے کی تبدیلی، یا مادّی تہذیب کی نئی ترقی کا کوئی تعلق نئی نبوت سے نہیں ہے۔ زمانے کی تبدیلی سے اگر کوئی عملی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو وہ صرف نئے اجتہاد کی ضرورت کو ثابت کرتاہے، نہ کہ نئے نبی کی ضرورت کو۔مثلاً مسح علی الخفّین کے مسئلے کو لیجیے۔ قدیم زمانے میں چمڑے کے موزے ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت چمڑے کے موزے کے حوالے سے مسح علی الخفین کا مسئلہ بتایا گیا۔ اب اون اورکاٹن، وغیرہ سے تیار کئے ہوئے موزوں کا زمانہ ہے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کی ضرورت کو بتاتی ہے، نہ کہ نئے نبی کی ضرورت کو۔ اِس طرح کے بدلے ہوئے حالات میں صرف یہ کافی ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں صورتِ موجودہ پر شرعی حکم کا از سرِ نو انطباق (re-application) کیا جائے۔ اِسی کا نام اجتہاد ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے، تو اس وقت وہاں آب پاشی (irrigation) کا مسئلہ تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں ۔ آپ خدا کی مدد سے ہمارے اِس مسئلے کو حل کیجیے۔ آپ نے جواب دیا- مابهذا بُعثتُ إلیکم (السیرۃ النبویۃ لابن هشام، جلد 1 ، صفحہ 316)۔ یعنی میں تمھارے پاس اِس کام کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں :
I have not been sent to you for this purpose.
اِسی طرح جب آپ مدینہ میں تھے تو وہاں کے حالات کے اعتبار سے بعض مسائل پیدا ہوئے، جو باغ بانی (horticulture) سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں کے لوگوں نے اِس معاملے میں آپ سے مشورہ حاصل کرنا چاہا۔ آپ نے دوبارہ ان کو وہی جواب دیا جو آپ مکہ کے لوگوں کو دے چکے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ أنتم أعلم بأمر دنیاکم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2363)۔ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں زیادہ جانتے ہو :
You know better about your worldly matters.
آب پاشی، باغ بانی، فنِ تعمیراور صنعت جیسی چیزوں کا تعلق انسانی تہذیب سے ہے۔ تہذیب کا عمل ہمیشہ انسانی تحقیق وجستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اِس معاملے کو خدا نے انسان کے اپنے اوپر چھوڑ دیا ہے۔ تاہم جہاں تک ہدایت کا معاملہ ہے، اُس کا تعلق خدائی وحی سے ہے۔ انسان کی یہی ضرورت ہے جس کے لیے خدا نے وحی ونبوت کا سلسلہ جاری کیا۔
مشہور فرانسیسی مصنف ڈاکٹر الکسس کیرل (وفات1944 ) نے 1935 میں ایک کتاب شا ئع کی۔ اِس کتاب کا نام— انسانِ نامعلوم (Man the Unknown) تھا۔ مگر زیادہ صحیح طور پر اِس کتاب کانام— ہدایت نامعلوم (Guidance the Unknown) ہونا چاہیے۔ انسان کی صحیح ہدایت کا تعلق امورِ غیب سے ہے۔ یہ صرف خدا ہے جو امورِ غیب کا علم رکھتا ہے۔ اِس لیے صرف خدا ہی انسان کو صحیح رہنمائی دے سکتا ہے۔ ماضی میں پیغمبروں کے ذریعے یہی رہ نمائی انسان کو دی جاتی رہی۔
اب اِس خدائی رہ نمائی کا مستند متن قرآن کی صورت میں محفوظ ہے۔ اب قیامت تک کے لیے قرآن، نبوت کا بدل ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ انسان اِس مستند کلامِ الٰہی (word of God) کو پڑھے، وہ اُس پر تدبر کرے، اور قیامت تک اُس سے اپنے لیے رہ نمائی لیتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جئت فختمتُ الأنبیاء (صحیح مسلم،حدیث نمبر 2287)۔ یعنی میں آیا اور میں نے نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم کردیا۔
دلیلِ نبوت
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ میں 570 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی عمر چالیس سال ہوئی تو 610 ء میں خدا نے آپ کو اپنا پیغمبر بنایا، اور آپ پر قرآن اتارا۔ آپ کا مشن توحید کا مشن تھا۔ اِس مشن کے لیے آپ نے تقریباً 23 سال تک کام کیا ۔ اِس کے بعد 632 ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ نے استثنائی طورپر اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت بنائی، جس کواصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ اصحابِ رسول کی اِس جماعت نے آپ کے مشن کوتکمیل کے درجے تک پہنچایا۔
رسول اور خاتم الانبیاء
قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف نبی تھے، بلکہ وہ خاتم الانبیاء بھی تھے، یعنی آپ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ۔ آپ کے بارے میں خاتم الانبیاء ہونے کا یہ اعلان صرف ایک اعلان نہیں ، وہ آپ کے پیغمبرِ خدا ہونے پر ایک تاریخی دلیل بھی ہے۔ آپ نے ساتویں صدی کے رُبعِ اول میں یہ اعلان کیا کہ میں خاتم الانبیاء ہوں ۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کوئی شخص نبی کا دعوے دار بن کر نہیں اٹھا۔ گویا کہ آپ کے الفاظ تاریخ کا ایک فیصلہ بن گئے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یا آپ کے بعد کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو اپنے بعد آنے والی تاریخ کے بارے میں ایک بیان دے اور اس کا یہ بیان اس کے بعد تاریخ کا ایک واقعہ بن جائے۔ مثلاً کارل مارکس (وفات1883 ء) نے اپنے تجزیے کی بنیاد پر یہ اعلان کیا تھا کہ کمیونسٹ انقلاب سب سے پہلے فرانس میں آئے گا، مگر اُس کا یہ اعلان واقعہ نہ بن سکا۔ اِسی طرح تاریخ میں کئی لوگ ایسے گزرے ہیں ، جنھوں نے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرنے کی جرأت کی، مگر اِس قسم کی ہر پیشین گوئی غلط ثابت ہوئی، وہ تاریخی واقعہ نہ بن سکی۔
اِس عموم میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں مدینہ میں یہ اعلان کیا کہ میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ۔ یہ بات حیرت انگیز طورپر تاریخ کا ایک واقعہ بن گئی۔ یہ استثناء بلا شبہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ آپ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول تھے اور اِسی کے ساتھ نبیوں کے خاتِم بھی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعلان قرآن میں بار بار کیاگیا ہے۔ مثلاً فرمایا: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّيْنَ (33:40)۔ یعنی محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں ۔ اِس آیت کے مطابق، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بھی تھے ،اور خدا کے آخری پیغمبر بھی۔ اِسی طرح خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا کہ—أنا النّبیّ لاکذب (صحیح البخاری، حديث نمبر 4315 ؛ صحیح مسلم، حديث نمبر 1776)یعنی میں نبی ہوں ، اِس میں کوئی شک نہیں ۔ اِسی طرح آپ نے فرمایا: وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4252)۔ یعنی میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ۔
دعوائے نبوت نہیں
یہ بات نہایت اہم ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پورے تاریخی دور میں ساری دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو اپنی زبان سے اِن الفاظ میں نبوت کا دعویٰ کرے —میں خدا کا پیغمبرہوں ، بالکل اُسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ، حضرت مسیح اور حضرت محمد، خدا کے پیغمبر تھے:
I am the prophet of God in the same sense in which Moses and Jesus and Muhammad claimed they were prophets of God.
جب کوئی شخص اِن الفاظ میں ، نبوت کا دعویٰ کرنے والا نہیں اٹھا تو پیغمبر اسلام کا یہ دعویٰ اپنے آپ ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا۔ آپ کے اِس اعلان کے بعد تقریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں ، لیکن ابھی تک کوئی بھی شخص ایسا نہیں اٹھا جو اپنی زبان سے یہ اعلان کرے — میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔ اِس طرح آپ کا دعویٰ گویا کہ بلا مقابلہ اپنے آپ ثابت ہوگیا۔
اِس سلسلے میں کچھ نام بتائے جاتے ہیں ، جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ مگر یہ خیال درست نہیں ۔ مثلاً کہاجاتا ہے کہ آپ کے زمانے میں یمن کے مُسیلمہ (وفات633 ء) نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے کسی مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اُس نے صرف یہ کہا تھا کہ میں محمد کے ساتھ نبوت میں شریک کیاگیا ہوں ۔ اِس طرح اُس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حیثیت دے دی، اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرکتِ نبوت سے انکار کیا تو اُس کا دعویٰ اپنے آپ ختم ہوگیا۔
اِسی طرح آپ کے زمانے میں یمن میں ایک اور شخص پیدا ہوا، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اُس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ شخص اسود العَنسی (وفات 632 ء) تھا۔ تاہم تاریخ کی کتابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُس نے خود اپنی زبان سے یہ کہا تھا— میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔ میرے مطالعے کے مطابق، اُس کا کیس ارتداد اور بغاوت کا کیس تھا، نہ کہ دعوائے نبوت کا کیس۔
اِسی طرح آپ کے بعد ابو الطیب المتنبّي (وفات965 ء) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا، مگر یہ درست نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ المتنبّی ایک شاعر تھا اور نہایت ذہین آدمی تھا۔ اُس نے مزاحیہ طورپر ایک بار اپنے کو نبی جیسا بتایا، بعد کو اس نے اپنے اِس قول کو خود ہی واپس لے لیا۔
اِسی طرح کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے دو افراد پیدا ہوئے، جنھوں نے مذکورہ الفاظ میں ،اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا— بہاء اللہ خاں (وفات1892ء) اور مرزاغلام احمد قادیانی (وفات1908 ء)، مگر تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یہ بات درست نہیں ۔
بہاء اللہ خاں نے صرف یہ کہا تھا— میں مظہرِ حق ہوں ۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔ اِسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں ، جس طرح حضرت موسیٰ، حضرت مسیح اور حضرت محمد، خدا کے پیغمبر تھے۔ انھوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ظلِّ نبی ہوں ، یعنی میں نبی کا سایہ ہوں ۔ اِس طرح کے قول کو ایک قسم کی دیوانگی تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کو حقیقی معنوں میں دعوائے نبوت نہیں کہا جاسکتا۔
ہندوگروؤں کی مثال
موجودہ زمانے میں ہندوؤں میں کچھ ایسے افراد پیدا ہوئے، جن کے متعلق کہا گیا کہ وہ وقت کے پیغمبر ہیں ، مگر یہ بات بھی خلاف واقعہ ہے۔ مثلاً دہلی کے نرنکاری بابا گُربچن سنگھ (وفات1980 ء) کے بارے میں ایک پمفلٹ مجھے ملا، جس میں نرنکاری بابا کو وقت کا پیغمبر (prophet of the time) لکھاگیا تھا۔ میں اُن سے ان کے دہلی کے آشرم میں ملا، میں نے ان کی تقریر سنی اور ان سے گفتگو کی۔ لیکن معلوم ہوا کہ نرنکاری بابا کے کچھ معتقدین ان کے بارے میں ایسا کہتے ہیں ۔ لیکن خود نرنکاری بابا نے اپنی زبان سے یہ دعویٰ نہیں کیا — میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔
اِسی طرح کیرلا (تری وندرم) میں ایک مشہور ہندو گرو تھے۔ اُن کا نام برہما شری کروناکرا (وفات1999ء) تھا۔ تری وندرم میں ان کا ایک بڑا آشرم تھا، جس کا نام ’شانتی گری آشرم‘ ہے۔ اُن کے مشن کے کچھ لوگ مجھ سے دہلی میں ملے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے بابا جی وقت کے پیغمبر ہیں ۔ اِس کے بعد میں نے خود کیرلا کا سفر کیا،اور تری وندرم میں ان کے آشرم میں ان سے ملا۔ میں نے ان کے معتقدین سے پیشگی طور پر بتادیا تھا کہ میں کس مقصد سے وہاں جارہا ہوں ۔
میں نے یہ سفر فروری 1999ء میں کیا تھا۔ شانتی گری آشرم میں پہنچ کر میں اُن سے ملا۔ مجھے ایک خصوصی کمرے میں لے جایا گیا، جہاں بابا جی کے ساتھ اُن کے تقریباً پچاس معتقدین موجود تھے۔ گفتگو کے دوران میں نے بابا جی برہما شری کرونا کرا سے ایک سوال کیا۔ اس کا جواب انھوں نے واضح لفظوں میں دیا۔ وہ سوال وجواب یہ تھا:
Q: Do you claim that you are a prophet of God in the same sense in which Moses, and Jesus, and Muhammad claimed they were prophets of God.
A: No, I don’t make any such claim.
اِس گفتگو میں میں نے ڈائریکٹ طورپر ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں ۔ انھوں نے صاف طورپر کہا کہ نہیں ، میں ایسا دعویٰ نہیں کرتا۔ جب انھوں نے اِس طرح کہہ دیا تو اُس کے بعد میرا سوال و جواب ختم ہوگیا۔ اُس کے بعد میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ کر اُن کی باتیں سنتا رہا اور پھر چلا آیا۔ اِس سفر میں شانتی گری آشرم میں میں نے دو دن قیام کیا۔
کیا وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پوری تاریخ میں کوئی ایسا شخص نہیں اٹھا جو اپنی زبان سے یہ دعویٰ کرے کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں ۔ اِس پرغور کرتے ہوئے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایسا کلام اتنا زیادہ غیر معمولی ہے کہ کوئی غیر پیغمبر اس کو اپنی زبان سے ادا نہیں کرسکتا۔ جس طرح خدا کے سوا کوئی اور شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خدائے ربّ العالمین ہوں ، اِسی طرح کوئی شخص یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر (Prophet of God)ہوں ۔ پیغمبری کا دعویٰ صرف کوئی سچا پیغمبر ہی کرسکتا ہے۔ کوئی غیر پیغمبر شخص دوسرے دوسرے الفاظ بول سکتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا— میں خدا وند ِ عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں ۔
پیغمبر ایک تاریخی استثنا
پیغمبر کے پیغمبر ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ پوری انسانیت کے مقابلے میں ایک استثنا (exception) ہوتاہے۔ خدا کی طرف سے جتنے بھی پیغمبر آئے ، سب کے سب درجے کے اعتبار سے یکساں تھے(البقرۃ،2:285)، لیکن رول کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق تھا۔ پچھلے پیغمبروں کا رول زمانی رول تھا، اور پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا رول ابدی رول تھا۔
قرآن اور حدیث کی تصریح کے مطابق، کسی پیغمبر کو دوسرے پیغمبر کے اوپر شخصی فضیلت حاصل نہ تھی۔ پیغمبر ہونے کے اعتبار سے ایک کا جو درجہ تھا، وہی دوسرے کا درجہ بھی تھا۔ لیکن کارِمفوّضہ کی نسبت سے ہر ایک کی ضرورتیں الگ الگ تھیں ۔ اِس بنا پر ہر ایک کو مختلف نوعیت کے ذرائع دیے گئے۔ مثلاً حضرت موسیٰ کی نصرت قوتِ عصا کے ذریعے کی گئی، تو حضرت مسیح کی نصرت قوتِ شفا کے ذریعے۔
پیغمبر اسلام اور دوسرے نبیوں کے درمیان ایک واضح فرق یہ ہے کہ دوسرے تمام پیغمبر روایتی دورِ تاریخ میں آئے، اور روایتی دورِ تاریخ ہی میں ان کا پیغمبرانہ رول ختم ہوگیا۔ اِس کے مقابلے میں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ آپ تاریخ کے روایتی دور میں آئے ، لیکن توسیعی معنوں میں آپ کی نبوت تاریخ کے سائنسی دور تک جاری رہی۔ اِس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عطیات برائے نصرت دیے گئے، وہ پچھلے اَدوار کی نسبت سے مختلف تھے۔رول کے اِسی فرق کی بنا پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیا کے درمیان دلائل کی نسبت سے فرق پایا جاتا ہے، یعنی پچھلے انبیا کے یہاں اگر روایتی نوعیت کے دلائل ہیں تو پیغمبراسلام کے یہاں سائنسی نوعیت کے دلائل۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے پیغمبر آئے، وہ سب تاریخ کے روایتی دور میں آئے۔ اِس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام، تاریخ کے اُس دور میں آئے جب کہ سائنسی دور شروع ہونے والا تھا۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ دوسرے پیغمبروں کو حِسّی معجزے دیے گئے۔ یہ معجزے صرف پیغمبر کے معاصر (contemporary)لوگوں کے لیے دلیل تھے۔ اِن معجزوں کی استدلالی حیثیت مشاہدے پر مبنی تھی۔ پیغمبر کے بعد وہ معجزہ ختم ہوگیا، اِس لیے وہ بعد کی نسلوں کے لیے دلیل بھی نہ رہا۔معجزے کا دلیل ہونا، اُن معاصر لوگوں کے لیے ہے، جو اس کو دیکھیں ، وہ اُن غیر معاصر لوگوں کے لیے دلیل نہیں ہے، جو اس کو صرف سنیں یا پڑھیں ، مگر انھوں نے اِس کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے پیغمبروں کے درمیان اگر چہ درجے کے اعتبار سے فرق نہ تھا، لیکن پیغمبر اسلام ایک ایسے دورِ تاریخ میں آئے، جب کہ آپ کی دعوت اور آپ کی زندگی سے متعلق ہر چیز محفوظ (preserve)رہ سکتی تھی— اِس بنا پر ایسا ہوا کہ آپ کی نبوت ایک مسلسل نبوت بن گئی۔ ہر پیغمبر کو خدا کی طرف سے پیغمبری کے ساتھ دلیل بھی دی جاتی تھی، جس کو قرآن میں ’’بُرہان‘‘ کہاگیا ہے۔ یہ دلیل پچھلے پیغمبروں کے لیے حسی معجزہ (physical miracle) کی صورت میں ہوتی تھی، لیکن پیغمبر اسلام کے لیے یہ دلیل تاریخ کی صورت میں ہے، ایک ایسی استثنائی تاریخ جو کسی اور انسان کے ساتھ کبھی جمع نہیں ہوئی۔
نبوتِ محمدی کا ثبوت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت، دوسرے پیغمبروں کی طرح، یہ ہے کہ آپ کی زندگی ایک تاریخی استثنا (historical exception)کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی یہی استثنائی حیثیت ہے، جس کو قرآن کی سورة الاسراء(17:79) میں ’مقامِ محمود‘ (praised state) بتایا گیا ہے۔ مقامِ محمود سے مراد مقامِ اعتراف ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو انسانوں کے درمیان اعترافِ کامل کا درجہ حاصل ہوگا۔ آپ کے گرد ایسی استثنائی تاریخ اکھٹا ہوگی کہ خود انسان کے اپنے مانے ہوئے معیار کے مطابق، آپ کی نبوت ایک مسلّمہ نبوت بن جائے گی۔
قرآن میں ’مقامِ محمود‘ کی آیت سے مراد، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آپ کے بارے میں مشہور امریکی مصنف ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے — آپ تاریخ کے واحد شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں لوویسٹ پوائنٹ (lowest point) 610 ء کے بعد آیا، جب کہ مکہ کی ایک غیر مسلم خاتون اُمِّ جمیل نے آپ کے پاس آکر آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مُذمَّماً أبینا، یعنی تم ایک قابلِ مذمت شخص (condemned person) ہو، ہم تم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 3376)۔ اِس کے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال بعد 1978 میں آپ کی زندگی کا ہائیسٹ پوائنٹ (highest point)آیا، جب کہ امریکا کے ایک غیر مسلم اسکالر ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے 570 صفحے کی ایک کتاب (The 100) میں اعلان کیا کہ— محمد پوری انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔
ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے زیادہ کامیاب انسان (supremely successful)کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پوری انسانی تاریخ میں ایک استثنا (exception) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ہر لحاظ سے آپ تمام انسانوں کے درمیان کامل طورپر ایک منفرد حیثیت کے مالک ہیں ۔
مستقبل کی تصدیق
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں اترا۔ اُس وقت قرآن میں یہ اعلان کیاگیا:سَنُرِيهِمْ ءَايَٰتِنَا فِى الْآفَاقِ وَفِىٓ أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُۥ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدٌ(فصلت،41:53)۔عن قریب، ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی، یہاں تک کہ اُن پر کھُل جائے گا کہ یہ حق ہے ۔
اِس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خدا نے جس صداقت کا اعلان کیا ہے، وہ ایک ابدی صداقت ہے۔ بعد کو آنے والی تاریخی تبدیلیاں اُس کو رد نہیں کریں گی، بلکہ وہ اس کی تصدیق کرتی چلی جائیں گی۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ اعلان پوری طرح سچا ثابت ہوا۔ ظہورِ اسلام کے بعد کے زمانے میں مختلف قسم کی تبدیلیاں ہوئیں اور پھر علومِ سائنس کا دور آیا، جوگویا کہ تاریخ کا سب سے بڑا فکری انقلاب تھا۔ مگر بعد کو پیش آنے والے اِن انقلابات نے دینِ محمدی کی جُزئی یا کُلّی طورپر تردید نہیں کی، بعد کے زمانے میں پیش آنے والے تمام واقعات دینِ محمدی کی صداقت کا ثبوت بنتے چلے گئے— اِس قسم کا استثنا (exception) لمبی تاریخ میں صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔ یہاں ہم اِس تاریخی واقعے کے بعض پہلوؤں کا ذکر کریں گے۔
توحید کی صداقت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کے طور پر یہ اعلان کیا کہ خدا صرف ایک ہے۔ خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے، اور نہ کوئی اس کا شریک۔ اُس وقت ساری دنیا میں انسان کے ذہن پر شرک کا تصور غالب تھا۔ لوگ مخلوقات میں تعدّد دیکھتے تھے، اِس لیے انھوں نے مان لیا کہ خدائی میں بھی تعدّد ہے، یعنی مختلف چیزوں کو مختلف خداؤوں نے بنایا ہے۔ مثلاً پانی کو کسی اور خدا نے بنایا، اور پہاڑ کو کسی اور خدا نے بنایا، اور سورج کو کسی اور خدا نے بنایا،اور چاند کو کسی اور خدا نے بنایا، وغیرہ۔
انسانی علم مظاہرِ فطرت کا مطالعہ کرتا رہا۔ اِس مطالعے میں سیکڑوں سال بیت گئے۔ یہاں تک کہ سر آئزاک نیوٹن (وفات1727) کے زمانے میں یہ تعدّد گھٹ کر چار تک پہنچ گیا۔ نیوٹن کے زمانے میں سائنس دانوں نے یہ مان لیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں بہت سی نہیں ہیں ، بلکہ صرف چار طاقتیں ہیں ، جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہیں ۔ وہ چار طاقتیں یہ ہیں
1۔ قوتِ کشش (gravitational force)
2۔ برقی مقناطیسی قوت (electromagnetic force)
3۔ طاقت ور نیوکلیر قوت(strong nuclear force)
4۔ کم زور نیوکلیر قوت(weak nuclear force)
مگر مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ نیوٹن کے زمانے سے کائنات کا جو سائنسی مطالعہ شروع ہوا تھا، اُس سے دن بدن یہ واضح ہوتا چلا گیا کہ وسیع کائنات میں اگرچہ ان گنت چیزیں ہیں ، اور سب کی سب متحرک ہیں ، لیکن اِن تمام متحرک اور متنوع چیزوں کے درمیان حیرت ناک حد تک ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی ہے۔ تمام چیزیں کامل توافُق کے ساتھ کام کرتی ہیں ۔ یہ ہم آہنگی اور توافق اُس وقت ممکن نہیں ہوسکتی جب کہ کائنات کو متعدد طاقتیں کنٹرول کررہی ہوں ۔ چنانچہ سائنس داں مسلسل اِس کوشش میں تھے کہ وہ اِس معاملے میں تعدّد کو توحّد تک پہنچائیں ۔ آخر کار برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے یہ کام اطمینان بخش طورپر انجام دیا۔
اسٹفن ہاکنگ، نظریاتی فزکس کا سب سے بڑا سائنس داں مانا جاتا ہے۔ اس نے خالص سائنسی متھڈ کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی صرف ایک طاقت ہے۔ اِس نظریہ کو سنگل اسٹرنگ تھیوری (single string theory) کہاجاتا ہے۔ اِس طرح اِس معاملے میں سائنسی نقطۂ نظراور توحید کا اسلامی نقطۂ نظر دونوں ایک ہوگئے۔ توحید کا نقطۂ نظر جس کائنات کا تقاضا کررہا تھا، کائنات کی وہی نوعیت سائنسی مطالعے سے ثابت ہوگئی۔
علم قلیل
قرآن کی سورة الاسراء(17:85) میں اعلان کیاگیا تھا کہ انسان کو صرف علم قلیل حاصل ہے۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ انسان تخلیقی طورپر محدودیت (limitations) کا حامل ہے۔ اپنی اِس فطری محدودیت کی وجہ سے وہ صرف علم قلیل تک پہنچ سکتا ہے، علم کثیر کا حصول اس کے لیے ممکن نہیں ۔ ایسی حالت میں انسان کو خدا کے پیغمبر کے اوپر ایمان لانا چاہیے۔ پیغمبر وحیِ الٰہی کے ذریعے اُس بات کو جان لیتا ہے جس کو انسان اپنی محدودیت کی بناپر نہیں جان سکتا۔ اِس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی ہدایت پیغمبر کے ذریعے حاصل کرے۔ اِس معاملے میں انسان کے لیے اِس کے سواکوئی اور انتخاب (option) موجود نہیں ۔
قرآن میں یہ بات ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں کہی گئی تھی۔ اُس وقت انسان اِس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ قرآن کی اِس تنبیہ کے باوجود بڑے بڑے فلسفیانہ دماغ علم کُلّی کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ آخر کار کئی ہزار سال کی ناکام کوشش کے بعد جدید سائنس ظہور میں آئی۔ جدید سائنس نے دور بین اورخورد بین جیسے بہت سے طریقے دریافت کیے۔ اب یہ یقین کیا جانے لگاکہ سائنسی مطالعے کے ذریعے انسان اُس مطلوب علم تک پہنچ جائے گا، جہاں تک پچھلے زمانے کا انسان نہیں پہنچ سکا تھا۔
یہ تلاش نیوٹن کے بعد سے عالم کبیر (macro world) کی سطح پر چلتی رہی۔ آخر کار آئن اسٹائن (وفات1955) کا زمانہ آیا، جب کہ انسانی علم عالم صغیر(micro world) تک پہنچ گیا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ جس مادّے کو پہلے قابلِ مشاہدہ (visible)سمجھا جاتا تھا، وہ بھی اپنے آخری تجزیے میں قابلِ مشاہدہ نہیں ۔ یہاں پہنچ کر یہ مان لیا گیا کہ سائنسی طریقہ انسان کو علم کُلی تک پہنچانے میں حتمی طورپر ناکام ہے۔
سائنس کی یہ علمی ناکامی پہلے صرف عالم صغیر کی حد تک دریافت ہوئی تھی، مگر بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ خود عالم کبیر بھی انسان کے لیے حتمی طورپر ناقابلِ مشاہدہ ہے۔ سائنس کے آلات مادی دنیا کے بارے میں انسان کو کلی علم تک پہنچانے سے عاجز ہیں ۔ انسان جس طرح عالم صغیر کے بارے میں علم قلیل رکھتاہے، اُسی طرح وہ عالم کبیر کے بارے میں بھی صرف علم قلیل کا حامل ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔ یہ نظریہ بلیک ہول (Black Hole) کی دریافت کے بعد سامنے آیا۔
ایمسٹرڈم (ہالینڈ) میں ماہرینِ طبیعیات(physicists)کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس 2007 میں ہوئی۔ اِس موقع پر فزکس کا نوبل پرائز پانے والے ایک امریکی سائنس داں جیمس واٹسن (James Watson Cronin) نے اپنے مقالے میں بتایا— ہماری کائنات کا 96 فی صد حصہ ڈارک میٹر (dark matter) پر مشتمل ہے۔ اُس کی روشنی یا ریڈی ایشن ہم تک نہیں پہنچتی، اِس لیے ہم اُس کو ڈائرکٹ طورپر نہیں دیکھ سکتے۔ موجودہ آلات کے ذریعے ہم اُن کا احاطہ نہیں کرسکتے
Dark matter cannot be detected directly, because it does not emit or reflect light or radiation — or not enough to be picked up by available tools. (The Times of India, New Delhi, September 23, 2007, p. 20)
جیمس واٹسن نے اپنے مذکورہ بیان میں مزید کہا — ہم سمجھتے تھے کہ ہم کائنات کو جانتے ہیں ، مگر معلوم ہواکہ ہم کائنات کے صرف چار فی صد حصے ہی کو براہِ راست طورپر جان سکتے ہیں
We think we understand the universe, but we only understand four percent of everything.
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ علم کے بارے میں مستقبل نے اُسی بات کی تصدیق کی جو بہت پہلے اُس کتاب میں کہہ دی گئی تھی جو پیغمبر اسلام، خدا کی طرف سے لائے تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ اِس یقین کے ساتھ اپنی تلاش میں لگے ہوئے تھے کہ وہ علم کُلی تک پہنچ سکتے ہیں ، مگر قرآن میں پیشگی طورپر یہ اعلان کیاگیا کہ اپنی محدودیت کی بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خود اپنی کوشش سے علم کلی تک پہنچ سکے۔ آخر کار خود انسانی علم نے قرآن کے بیان کی تصدیق کردی۔ مستقبل نے انسانی مفروضے کو رد کردیا اور قرآن کے بیان کی کامل تصدیق کردی۔
دنیائے فانی کا نظریہ
قرآن میں واضح الفاظ میں موجودہ دنیا کے بارے میں یہ تصور دیاگیا تھا کہ یہ زمینی سیّارہ جس پر انسان آباد ہے، اس کی ایک محدود عمر ہے۔ یہاں انسان اپنے لیے جنت (paradise)کی تعمیر نہیں کرسکتا۔ یہ دنیا عارضی طورپر امتحان کے لیے بنی ہے اور اس کے بعد یہاں سے اُن تمام چیزوں کا خاتمہ کردیا جائے گاجس کی مدد سے انسان یہاں زندہ رہتا ہے اور اپنے لیے اپنی مطلوب دنیا بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہاں اِس سلسلے میں دو آیتیں نقل کی جارہی ہیں :
1۔ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(14:48) ۔ یعنی جس دن یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب ایک زبردست اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔
2۔ إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى ٱلْأَرْضِ زِينَةًۭ لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًۭا.وَإِنَّا لَجَٰعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًۭا جُرُزًا(18:7-8)۔یعنی جو کچھ زمین پر ہے، اس کو ہم نے زمین کی رونق بنایا ہے، تاکہ ہم لوگوں کو جانچیں کہ اُن میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے، اور ہم زمین کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان بنادیں گے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق، موجودہ سیّارۂ زمین پر جو زندگی بخش حالات ہیں ، وہ حتمی طورپر ختم ہونے والے ہیں ، اور مسلسل ان کا کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے۔ لیکن بڑے بڑے انسانی دماغوں نے اِس کے برعکس نظریہ قائم کیا۔ سُقراط اور افلاطون اور ارسطو سے لے کر موجودہ زمانے کے رہنماؤں تک ہر ایک نے یہ نظریہ قائم کیا کہ وہ انسانیت کے مستقبل کو آئڈیل دَور کی طرف لے جارہے ہیں— آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج اور آئڈیل نظام، وغیرہ۔ اِس معاملے میں لوگوں کا واہمہ (obsession) اتنا بڑھا ہوا تھا کہ بار بار برعکس نتیجہ نکلنے کے باوجود انھوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔
چارلس ڈار ون (وفات1882) کا عضویاتی ارتقا (organic evolution)کا نظریہ سامنے آیا تو اس کے وسیع تر انطباق کے تحت یہ یقین کرلیا گیا کہ انسان کی تمدنی تاریخ مسلسل بہتر سے زیادہ بہتر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ صنعتی سائنس کے ظہور کے بعد اِس نظریے کو مزید تقویت ملی اور یہ یقین کرلیاگیا کہ موجودہ دنیا کو جنّتی دنیا میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اَلوِن ٹافلر کی کتاب فیوچر شاک(Future Shock) پہلی بار 1970 میں چھپی ۔ اِس کتاب میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ دنیا ترقی کرکے انڈسٹریل ایج (industrial age) میں پہنچی تھی۔ وہ مزید ترقی کرکے سپرانڈسٹریل ایج (super industrial age) کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ امریکا کو اسپیس ٹکنالوجی میں کچھ ترقی ہوئی تو اُس نے اعلان کردیا کہ اب ہم زمینی تہذیب سے آگے بڑھ کرخلائی تہذیب (space civilization) کے دور تک پہنچ رہے ہیں ۔ اب ہم زمین سے چاند تک سفر کریں اور وہاں سے مرّیخ (Mars) تک پہنچ جائیں گے:
We want to build a space civilization for tomorrow from where humans can travel to the Moon and from there to Mars (The Times of India, September 26, 2007, p. 21).
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ہماری زمین پر وہ اختتامی دور شروع ہوگیا، جس کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ (UNO) موجودہ دنیا کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحت، ایک انٹرنیشنل پینل بنایا گیا ۔ اِس پینل میں ڈھائی ہزار سائنس داں شامل کیے گئے۔ اِن سائنس دانوں کا تعلق دنیا کے ایک سو تیس (130)ملکوں سے تھا۔ یہ پینل موسمیاتی تبدیلی پررسرچ کے لیے تھا۔ اِس پینل نے اپنی رسرچ مکمل کرکے اس کی تفصیلی رپورٹ اقوامِ متحدہ کے حوالے کردی ہے۔
یہ کسی ایک کانفرنس کی بات نہیں ۔ آج کل تقریباً ہر روز میڈیا میں اِس قسم کی خبریں آرہی ہیں ۔ تمام دنیا کے سائنس داں مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ زمین پر زندگی کے اسباب کا مسلسل خاتمہ ہورہا ہے۔ کئی انواعِ حیات (species)اب تک ناموافق موسم کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں ۔ اِس سلسلے کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (3 جنوری 2007) میں شائع ہوئی۔ اُس کا عنوان یہ تھا— انتباہی نشانیاں (Warning Signs) ۔
اِس سلسلے کا ایک اور حوالہ یہ ہے۔ مشہور سائنس داں جیمس لولاک (James Lovelock) نے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں کہا ہے کہ 2050 ء تک سطحِ ارض کا بڑا حصہ خشک ہوچکا ہوگا۔ بیش تر زندگیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہم ایک ایسے انجام کے کنارے پہنچ چکے ہیں ، جب کہ ایک ایک کرکے لوگ مرنے لگیں گے، یہاں تک کہ سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جس کو اِس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اُس میں اگر بیس فی صد آدمی بھی زندہ بچ جائیں تو وہ بہت خوش قسمت انسان ہوں گے:
We are on the edge of the greatest die-off humanity has ever seen. We will be lucky if 20% of us survive what is coming. (The Times of India, May 18, 2007, p. 22)
گلوبل وارمنگ (global warming)کا موضوع موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ برننگ ٹاپک (burning topic)بن چکاہے۔ اِس موضوع پر کثرت سے رپورٹیں اور مضامین اور کتابیں شائع ہو رہی ہیں ۔ کسی کو مزید تفصیل جاننا ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے بہ آسانی یہ تفصیلات جان سکتا ہے۔
غیر معمولی کامیابی
ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب (The 100) میں لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام نے نہ صرف مذہبی سطح پر، بلکہ سیکولر سطح پر بھی استثنائی کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اعلیٰ کامیابی کے معاملے میں پوری انسانی تاریخ میں محمد کا کوئی ہم سر نہیں ۔ اِس سلسلے میں اُن کے چند جملے یہ ہیں :
The most astonishing series of conquests in human history (p. 35). The largest empire that the world had yet seen (p. 35). The most influential political leader of all time (p. 39). It is this unparalleled combination of secular and religious influence which I feel entitles Muhammad to be considered the most influential single figure in human history (p. 40).
یعنی محمد کی کامیابی پوری تاریخ میں عجیب ترین سلسلۂ فتوحات کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے تاریخ کا سب سے بڑا ایمپائر قائم کیا۔ وہ پوری تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر سیاسی رہ نما تھے۔ مذہبی اور سیکولر دونوں اعتبار سے ان کی اِس بے نظیر کامیابی کا تقاضا ہے کہ ان کو پوری تاریخ کا واحد سب سے زیادہ کامیاب انسان قر ار دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر کامیابی کا اعتراف مؤرخین نے عام طورپر کیا ہے۔ یہاں ہم ایک اور اقتباس نقل کرتے ہیں۔ انڈیا کے ایک ہندواسکالر ایم این رائے (وفات1954) نے لکھا ہے— اسلام کی سیاسی توسیع بلا شبہ تمام معجزات میں سب سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (The Historical Role of Islam, p. 5)
لالہ رگھوناتھ سہائے (صدر انجمن اتحاد مذاہب، لاہور) نے مختلف مذاہب کےدس رہنماؤں کی زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کا نا م ہےـ روشن ستارے۔اس کتاب میں انھوں نے پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں ’’چند ہی سال میں اسلام کا تمام عرب میں پھیل جانا، اور مختلف مخالف فرقوں اور قبیلوں کا آں حضرت کا پیرو بن جانا دراصل ایک معجزہ تھا۔‘‘ (مزید مطالعے کے لیےملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب پیغمبر اسلام)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ حقیقت اتنی زیادہ بدیہی ہے کہ عام طورپر مورخین نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ تاریخ میں بڑے بڑے ایمپائر قائم ہوئے۔ مثلاً یونانی ایمپائر، رومن ایمپائر، ساسانی ایمپائر، برٹش ایمپائر، مگر کوئی بھی ایمپائر اسلامی فتوحات کے برابر نہیں ۔ پیغمبر اسلام کا یہ تاریخی استثنا ابھی تک قائم ہے۔ یہ اُن دلائل میں سے ایک دلیل ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ خدا کے پیغمبر تھے، اور آپ کو خدا کی خصوصی مدد حاصل تھی۔ خدا کی مدد کے بغیر کوئی بھی شخص اِس قسم کی استثنائی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
نظریۂ امن
امن کے بارے میں انسان ہمیشہ سوچتا رہا ہے۔ قدیم زمانے میں امن ایک قسم کا انتظامی معاملہ سمجھا جاتا تھا، یعنی امن ایک ایسی چیز تھی جس کو حاکمانہ اختیار کے تحت قائم کیا جاتا ہے۔ اِس نظریے کے تحت ارباب اختیار نے امن قائم کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً پیکس رومانا(Pax Romana)، پیکس برٹانکا (Pax Britanica)، پیکس امریکانا(Pax Americana)، وغیرہ۔ مگر اِس قسم کا سیاسی امن صرف جُزئی طورپر کسی سماج کے لیے مفید ہوسکتا ہے۔ اِس لیے وہ اہلِ علم کے درمیان مطلوب امن کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے امن پر مبنی ایک باقاعدہ نظریہ(ideology) وجود میں آیا۔ اِس کو عام طورپر پیسی فزم (pacifism) کہا جاتا ہے۔ پیسی فزم کے نظریے کے تحت موجودہ زمانے میں متعدّد مفکرین پیدا ہوئے۔ مثلاً سموئل کانٹ (Samuel Cant)، مارکس اریلیس (Marcus Aurelius) اور مہاتما گاندھی وغیرہ۔ اِس نظریے کی حمایت میں بہت سے مقالات اور کتابیں شائع ہوئیں ۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا میں اِس موضوع پر تقریباً دس صفحے کا ایک مقالہ شامل ہے۔ اِس موضوع پر شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ یہاں ہم صرف تین کتابوں کا نام درج کرتے ہیں
1—Raymon Raymond Aron, Peace, and War, 1966
2—E.L. Alen, Francis E. Pollard, The Case for Pacifism and Conscientious Objection, 1946
3—Aldous Huxley, An Encyclopaedia of Pacifism, 1937
لیکن امن کے رہنما اور مفکرین کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ تمام افراد جس امن تک پہنچے، وہ صرف ایک منفی امن (negative peace) تھا۔ جہاں تک مثبت امن (positive peace) کا تعلق ہے، وہاں تک کوئی بھی شخص نہ پہنچ سکا۔ امن کے تمام مفکرین جس امن کی بات کرتے ہیں ، وہ جنگ اور تشدد کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ چنانچہ امن کی تعریف جنگ اور تشدد کی غیرموجود گی (absence of war and violence) سے کی جاتی ہے۔ اِسی تصور کی بنا پر یہ تمام افراد مفروضہ دشمنانِ امن کے خلاف اقدام کرتے رہے۔ کیوں کہ اُن کے نزدیک اِن دشمن طاقتوں کے خاتمے سے دنیا میں امن قائم ہوتا تھا۔
اِس نظریۂ امن میں امن کو مثبت قدر (positive value)کا مقام حاصل نہ ہو سکا۔اِس نظریۂ امن میں امن کو صرف ایک طریقۂ کار (method) کا درجہ حاصل ہوا، نہ کہ وسیع تر معنوں میں ایک نظریۂ حیات (ideology)کا درجہ۔
پیسی فزم (pacifism)کے معاملے میں مہاتما گاندھی کا نام نمایاں طورپر شامل ہے۔ لیکن ان کا نظریۂ امن بھی ایک منفی نظریۂ امن کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی دہلی میں ایک خصوصی سیمینار ہوا۔ اِس سیمینار کی مکمل روداد نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’دی پائنیر‘ (26 جنوری1997 ) میں شائع ہوئی۔ اِس سیمینار میں راقم الحروف کے علاوہ حسب ذیل افراد شریک ہوئے — رام چندر گاندھی، رویندر کمار، سبراتا مُکھرجی، کے آر ملکانی۔ اِس سیمینار کا موضوع یہ تھا — کیا گاندھی آج کامیاب ہوتے:
Could Gandhi have succeeded today?
میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ گاندھی ماضی میں بھی کامیاب نہیں ہوئے، پھر وہ آج کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ گاندھی کا مقصد ایک پُرامن انقلاب لانا تھا، مگر اپنے پیشِ نظر مقصد کے مطابق، وہ کوئی پُرامن انقلاب نہ لاسکے۔ انھوں نے جو کچھ کیا، وہ انقلاب نہ تھا، بلکہ محدود معنوں میں صرف حکم رانوں کی تبدیلی (coup) تھا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک ناگہانی انقلاب (coup)تھا، نہ کہ کوئی حقیقی انقلاب۔ میری یہ تقریر لفظ بہ لفظ مذکورہ اخبار میں چھپی۔ میری تقریر کے ایک جملے کو لے کر اخبار نے اُس کا عنوان اِن الفاظ میں قائم کیا تھا:
Gandhi presided over a non-violent coup, he didn’t usher in a revolution.
یہی معاملہ ہر اُس رہنما اور مفکر کا ہوا جو امن (peace)کے نام پر کام کرنے کے لیے اٹھا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسانی زندگی میں پر امن واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے ایک پُرامن آئڈیالوجی (peaceful ideology) درکار ہے۔ چوں کہ کوئی شخص پُرامن آئڈیالوجی کو دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ پُرامن زندگی کی تشکیل بھی نہ کرسکا۔
رہنماؤں کی اِس ناکامی کا مشترک سبب یہ ہے کہ ہر ایک امن کو سیاسی اقتدار کے ساتھ جوڑے ہوئے تھا، ہر ایک نے وقت کے سیاسی اقتدار کو امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھا، ہر ایک اِس طرح سوچتا رہا کہ اگر امن کو حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے سیاسی اقتدار کی رکاوٹ کو ختم کرنا ہوگا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امن کی ہر تحریک وقت کے سیاسی اقتدار سے ٹکرا گئی۔ فطری طور پر اربابِ اقتدار نے بھی اپنی طاقت کو ان تحریکوں کے خلاف استعمال کیا۔ اِس طرح دونوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ امن کے نام پر آخر میں جو چیز قائم ہوئی، وہ صرف بد امنی اور انارکی (anarchy)تھی۔ اِس کی ایک مثال 1947 کے بعد بننے والے ’’گاندھیائی انڈیا‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تاریخ کی ان تمام مثالوں کے برعکس، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیا فارمولا دریافت کیا۔ اِس فارمولے کا علم آپ کو خدا کی طرف سے دیاگیا تھا۔ اِسی لیے قرآن میں اُس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(48:27)۔یعنی خدا نے وہ بات جانی، جس سے انسان بے خبر تھا۔
امن کا فارمولا
امن کا یہ فارمولا جو خدا نے اپنے علم کے تحت بتایا، وہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ ہرمسئلہ کے ساتھ مواقع موجود رہتے ہیں (الشرح، 94:5-6)۔ اِس لیے تم مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problem and avail the opportunities.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی رہنمائی سے اِس فارمولے کو سمجھا اور اس کو حدیبیہ ایگری مینٹ (628 ء) کی شکل میں استعمال کیا۔ حدیبیہ ایگری مینٹ گویا کہ امن فارمولے کا ایک کامیاب مظاہرہ (demonstration) تھا۔ (حدیبیہ ایگری مینٹ کی تفصیلات میری کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ مثلاً امن عالم اور مطالعہ سیرت ،وغیرہ)۔
امن کا یہ فارمولا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کبھی کوئی شخص دریافت نہ کرسکا۔آپ نے اگرچہ اپنی زندگی میں اِس فارمولے کو نہایت کامیاب طور پر استعمال کیا تھا، لیکن میرے علم کے مطابق، کوئی بھی شخص اِس کو حقیقی طورپر سمجھ نہ سکا، حتی کہ خود مسلمان بھی اِس فارمولے کو سمجھنے سے مکمل طورپر عاجز رہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمان ہر جگہ مسائل (problems) سے لڑ رہے ہیں ۔ وہ اِس حقیقت کو جان نہ سکے کہ مسائل کے باوجود اُن کے لیے نہایت اعلیٰ مواقع موجود ہیں ۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ مسائل کو نظر انداز کرتے اور مواقع (opportunities)کو استعمال کرتے، لیکن اپنی بے شعوری کی بنا پر وہ اِس حکمت کو دریافت کرنے میں ناکام رہے۔
پیغمبر اسلام کے اِس امن فارمولے نے تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اِس نئے دور کو ایک لفظ میں ڈی سنٹرلائزیشن آف پولٹکل پاور (decentralization of political power) کہاجاسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس پراسس کا آغاز ہورہا ہے، جس میں سیاسی اقتدار صرف ایک ثانوی چیز ہے۔ اولین چیزیں وہ ہیں جو سیاسی اقتدار کے باہر پائی جاتی ہیں ۔ موجودہ زمانے میں انسٹی ٹیوشن (institution)کا تصور اِسی تاریخی پراسس (historical process)کا اگلا مرحلہ ہے۔
موجودہ زمانے میں ایسا ہوا ہے کہ سیاسی اقتدار کے باہر مختلف مقاصد کے لیے انسٹی ٹیوشن بنائے جاتے ہیں ۔ مثلاً تعلیم کے لیے، صنعت وتجارت کے لیے، سماجی فلاح کے لیے اور مشنری ورک کے لیے، وغیرہ۔ اِن اداروں کے ذریعے اتنے بڑے بڑے کام لیے جارہے ہیں کہ لوگوں نے حکومتی اقتدار (political power)کے بغیر مختلف عنوانات سے اپنے ایمپائر بنا رکھے ہیں ۔ اِس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ماضی کے برعکس، حکومت کا دائرہ سمٹ کر اب صرف انتظامیہ (administration) تک محدود ہوگیا ہے۔ یہ تاریخ کی ایک عظیم تبدیلی ہے، مگر اِس تبدیلی کا آغاز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کیا تھا۔غالباً اسی تبدیلی کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ ہے: وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (61:13)۔ یعنی ایک اور چیز بھی جس کی تم تمنا رکھتے ہو، اللہ کی مدد اورقریب کی فتح، اور مومنوں کو خوش خبری دے دو ۔
اِس تبدیلی نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ کیے بغیر خالص پُرامن طریقِ کار کے ذریعے بہت بڑے بڑے کام کیے جاسکیں ۔ باشعور قوموں نے اِس امکان سے فائدہ اٹھا کر عملاً ایسا کررکھا ہے۔ چنانچہ اِن لوگوں نے حکومت سے باہر رہتے ہوئے اور حکومت سے ٹکراؤ کیے بغیر انتہائی اعلیٰ پیمانے پر اپنا میڈیا ایمپائر اور ایجوکیشنل ایمپائر اور انڈسٹریل ایمپائر اور مشنری ایمپائر بنالیا ہے ۔ مگر جہاں تک اِس امکان کی دریافت کا تعلق ہے، وہ پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی رہنمائی کے تحت حاصل ہوئی۔ اِس استثنائی معرفت کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ نہیں کی جاسکتی کہ یہ مانا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے۔
ایک غلط فہمی
کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آج کی دنیا میں بہت سے دوسرے لوگ خدا کے پیغمبر کی حیثیت سے مانے جانتے ہیں ۔ مثلاً ہندو لوگ رام اور کرشن کو پیغمبر کا درجہ دیتے ہیں ۔ اِسی طرح مسیحی لوگ حضرت مسیح کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا خصوصی رہنما سمجھتے ہیں ۔ مگر یہ صرف ایک غلط فہمی ہے، اِس کے سوا اور کچھ نہیں ۔
جہاں تک رام اور کرشن کا تعلق ہے، اِس بحث کے ذیل میں اُن کو زیر غور لانا ممکن نہیں ۔اِس کا سبب یہ ہے کہ رام اور کرشن ایک افسانوی شخصیت (mythological figure) کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان کو تاریخی شخصیت (historical figure) کا درجہ حاصل نہیں ۔ انڈیا کے کسی بھی مستند تاریخی ریکارڈ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رام اور کرشن کوئی حقیقی شخصیت تھے۔ رام اور کرشن کا کوئی ریفرنس نہ انڈیا کی تاریخ میں پایا جاتا ہے، اور نہ عالمی تاریخ میں ۔
مثال کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہم خالص تاریخی ریکارڈ کی بنیاد پر یہ جانتے ہیں کہ وہ 570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 610 ء میں مکہ میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیا اور اپنے مشن کا آغاز کیا۔ 622 ء میں آپ مکہ کوچھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور وہاں انھوں نے اسلام کی پہلی اسٹیٹ (city state)قائم کی۔ 632ء میں آپ کی وفات مدینہ میں ہوئی، اور وہیں پر آپ دفن کیے گئے۔ آپ کی قبر اب بھی مدینہ میں موجود ہے۔ اِس قسم کی تاریخی معلومات (historical data)نہ رام کے بارے میں دست یاب ہیں ،اور نہ کرشن کے بارے میں ۔
یہ حقیقت اتنی زیادہ واضح ہے کہ خود ہندو اسکالر اس کو مانتے ہیں ۔ ہندو مصنفین نے اِس موضوع پر مقالات اور کتابوں کی صورت میں بہت زیادہ لکھا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو
The JNU historians reject the Ramayana as a source of historiography: “The events of the story of Rama, originally told in the Rama-Katha, which is no longer available to us, were rewritten in the form of a long epic poem, the Ramayana, by Valmiki. Since this is a poem and much of it could have been fictional, including characters and places, historians cannot accept the personalities, the events, or the locations as historically authentic unless there is other supporting evidence from sources regarded as more reliable by historians. Very often historical evidence contradicts popular beliefs.” (Koenraad Elst: Ram Janmabhoomi Vs Babri Masjid, Voice of India, New Delhi, 1990 p. 14)
تحریکوں کی تاریخ
لارڈ ایکٹن (John Emerich Edward Dalberg Acton) مشہور مغربی مفکر ہے۔ وہ 1834ء میں پیدا ہوا اور 1902 ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے سیاست اور حکومت کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اپنے مطالعے کی بنیاد پر اس نے سیاسی اقتدار (political power)کے بارے میں کہا — اقتدار بگاڑتا ہے، اور کامل اقتدار بالکل بگاڑ دیتا ہے:
Power corrupts, and absolute power corrupts absolutely.
یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو جب بھی اقتدار ملتا ہے، تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ دوسروں کی سیاسی بُرائی بتانے والے، اقتدار پاتے ہی خود بھی اُسی قسم کی برائی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنی بڑائی کا احساس نہایت گہرے طورپر موجود ہے۔ اقتدار اِس احساس کو غذا دیتا ہے، وہ اس کو ختم نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار تک پہنچتے ہی تمام لوگ بگڑ جاتے ہیں ۔ اِس سلسلے میں تاریخ کی چند مثالیں یہاں درج کی جاتی ہیں :
—1تحریکوں کی تاریخ میں بہت سے مشہور لوگوں کے نام آتے ہیں ۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ اِن لوگوں کو سیاسی ہنگامہ کرنے والے تو بہت سے لوگ ملے، لیکن اِن میں سے کسی کو بھی قابلِ اعتماد ساتھی نہ مل سکے۔ مشہور فلسفی ارسطو (Aristotle) اِس معاملے کی ایک تاریخی مثال ہے۔ وہ یونان میں 384قبل مسیح میں پیداہوا اور 322 قبل مسیح میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ شاہِ یونان الیگزنڈر دی گریٹ (Alexander the Great) کا استاد تھا۔ وہ آئڈیل اسٹیٹ اور فلاسفر کنگ میں یقین رکھتا تھا۔
اس نے اِس مقصد کے لیے الیگزنڈر کی تعلیم و تربیت اُس وقت کی، جب کہ وہ ابھی شہزادہ تھا۔ ارسطو کو یقین تھا کہ الیگزنڈر ایک فلاسفر کنگ بنے گا، اور اس کے خوابوں کی آئڈیل اسٹیٹ قائم کرے گا۔ لیکن بڑا ہونے کے بعد جب الیگزنڈر 336 قبل مسیح میں باقاعدہ بادشاہ بنا تو اس نے ارسطو کے راستے کو چھوڑ دیا، اور عالمی فتوحات کے لیے نکل پڑا۔ اس کا سیاسی خواب ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ وہ صرف 33 سال کی عمر میں بیمار ہو کر بابل (عراق) میں مرگیا۔
—2 یہی معاملہ کارل مارکس (Karl Marx) کا ہے۔ وہ 1818 ء میں جرمنی میں پیدا ہوا اور 1883 ء میں لندن میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کے افکار کی بنیاد پر بہت بڑی کمیونسٹ تحریک اٹھی۔ 1917 ء میں کمیونسٹ پارٹی روس میں حکومت کرنے میں کامیاب ہوگئی، لیکن مارکس کے تمام ساتھی اصل مارکسی راستے سے ہٹ گئے۔ ایک کمیونسٹ مسٹر میلوون جیلاس (Milovan Djilas)کے الفاظ میں ، طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے نام پر کمیونسٹ گروہ خود ایک نیا طبقہ (new class) بن گیا۔
ٹراٹسکی (Leon Trotsky) روس میں 1879 ء میں پیدا ہوا اور 1940ء میں میکسکوسٹی میں اس کو قتل کردیا گیا۔ ٹراٹسکی کمیونسٹ پارٹی میں لینن کے بعد نمبر دو کا لیڈر تھا، مگر 1917 ء کے بعد اُس نے دیکھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ سیاسی بگاڑ کا شکار ہوگئے۔ اس نے انقلاب سے غدّاری (Revolution Betrayed) کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو 1937ء میں چھپی۔ اِس کے بعد خود روس کے کمیونسٹ لیڈروں نے اس کو ہلاک کردیا۔
—3یہی منظر خود انڈیا میں نظر آتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے زبردست سیاسی تحریک چلائی۔ ان کے ساتھ ایک بھیڑ اکھٹا ہوگئی، لیکن 1947 ء میں آزادی کے بعد ان کی پارٹی کے تمام لوگ مہاتما گاندھی کے راستے سے ہٹ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر خود مہاتما گاندھی نے 1947 ء کے بعد اپنی پارٹی کے لوگوں کے بارے میں کہا تھا— اب میری کون سنے گا۔ مہاتما گاندھی کے اِس جملے کو لے کر ایک کتاب ہندی میں لکھی گئی۔ اس کتاب کا ٹائٹل یہی ہے — ’’اب میری کون سنے گا‘‘۔ 15 اگست 1947 کو انڈیا میں سیاسی آزادی آئی۔ اس کے بعد 30 جنوری 1948 ء کو دہلی میں مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔
ہیرؤوں کی جماعت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو استثنائی واقعات جمع ہوئے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں کی ایک ایسی ٹیم بنانے میں کامیاب ہوئے، جیسی ٹیم پوری تاریخ میں کوئی نہ بنا سکا۔ اِس واقعے کا اعتراف مورخین نے واضح الفاظ میں کیا ہے۔ مثلاً مشہور برطانی مستشرق ڈیوڈ سموئل مارگو لیتھ(David Samuel Margoliouth) 1885 میں لندن میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں عربک ڈپارٹمنٹ کا پروفیسر تھا۔ اُس نے عرب تاریخ اور اسلامی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا نے اُس کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں — اُس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کو اسلامی موضوعات پر بہت سے عرب علماء سے بھی زیادہ واقفیت حاصل تھی:
He came to be regarded as more knowledgeable on Islamic matters than most Arab scholars.
اسلام اور عرب تاریخ کے موضوع پر اس کی کئی کتابیں ہیں ۔ اس کی ایک کتاب وہ ہے جو 1905 میں چھپی۔ یہ کتاب اسلام کے ظہور کے موضوع پر ہے، اور اس کا نام یہ ہے:
Muhammad and the Rise of Islam
اِس کتاب میں پروفیسر مارگولیتھ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اصحابِ رسول کا گروہ ایک ایسا گروہ تھا، جیسا گروہ تاریخ میں کسی اور شخص کے گرد اکھٹا نہیں ہوا۔
اِسی طرح فلِپ ہِٹّی (Philip K. Hitti) مشہور اسکالر ہیں ۔ وہ 1886 میں لبنان میں پیدا ہوئے اور امریکا میں 1978 میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ عربی زبان اور اسلامی علوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ امریکا کی کئی یونیورسٹیوں میں عربی زبان اور مشرقی علوم کے پروفیسر رہے ہیں ۔ ان کی ایک مشہور کتاب عرب تاریخ پر ہے۔ اُس کا نام یہ ہے :
History of the Arabs
ان کی یہ کتاب پہلی بار 1937 میں چھپی۔ اِس کتاب میں انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب (companions)کے تذکرے کے تحت لکھا ہے — پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد ایسا معلوم ہوا، جیسے عرب کی بنجر زمین جادو کے ذریعے ’’ہیروؤں کی نرسری‘‘ میں تبدیل کردی گئی ہو، ایسے ہیرو جن کے مِثل، تعداد یا نوعیت میں ، کہیں اور پانا سخت مشکل ہے:
After the death of the prophet sterile Arabia seems to have been converted as if by magic into a nursery of heroes the like of whom, both in number and quality, is hard to find anywhere. (p. 142)
مستقبل کی دنیا
موجودہ زمانے میں دو مختلف آئڈیالوجی اُبھری— سیکولر آئڈیالوجی اور مذہبی آئڈیا لوجی۔ سیکولر آئڈیا لوجی سے مراد وہ آئڈیا لوجی ہے جو خالص انسانی عقل (reason) کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اِس کے مقابلے میں ، مذہبی آئڈیالوجی وہ ہے، جو پیغمبر کی رہنمائی کے تحت بنی۔ موجودہ زمانے کا یہ ایک عجیب ظاہرہ ہے کہ سیکولر آئڈیالوجی اب اپنی ناکامی کے آخری دور میں پہنچ چکی ہے۔ اِس کے برعکس، تمام قرائن (clues) بتارہے ہیں کہ مذہبی آئڈیالوجی نئی صبح کی مانند انسان کے اوپر طلوع ہونے والی ہے، بلکہ وہ طلوع ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
جدید مادّی ترقیوں کے بعد سیکولر مفکرین نے یہ یقین کرلیا کہ بہت جلد ہمارے سیّارۂ زمین (planet earth) پر وہ بہتر دنیا بننے والی ہے، جس کا خواب ہزاروں سال سے انسان دیکھتا رہا ہے۔ اِس آئڈیالوجی کی ایک نمائندہ کتاب فیوچر شاک (Future Shock) ہے، جس کو اُس کے مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) نے پہلی بار 1970 میں شائع کیا۔یہ کتاب شائع ہوتے ہی بیسٹ سیلر بن گئی۔ اِس کتاب میں مصنف نے تیقن کے ساتھ یہ پیشین گوئی کی تھی کہ دنیا تیزی کے ساتھ انڈسٹریل ایج سے ترقی کرکے سُپر انڈسٹریل ایج میں داخل ہونے والی ہے۔ یہ سویلائزیشن کا اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ ہوگا، جب کہ انسان کی تمام مادّی خواہشیں اپنا مکمل فلفل مینٹ (fulfilment)پالیں ۔
مگر اکیسویں صدی کاآغاز اِس قسم کے تمام اندازوں کے خاتمے کے ہم معنی بن گیا۔ اب شدت کے ساتھ وہ ظاہرہ پیدا ہوا، جس کو گلوبل وارمنگ (global warming)کہاجاتا ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی کثافت نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کئے، جب کہ یہ دنیا سرے سے انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable) ہی نہیں رہے گی۔آج کل میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں نے گہری رسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ غیرمنقلب (irreversible) ہوچکی ہے۔
یہ سائنس کی زبان میں قیامت کی پیشین گوئي ہے، یعنی زمین پر موجودہ حالات کا خاتمہ اور ایک نئی تاریخ کا آغاز۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 نومبر 2007) نے گلوبل وارمنگ کے موضوع پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اِس رپورٹ کے عنوان کے لئے اُس نے بامعنی طور پر اِن الفاظ کا انتخاب کیا تھا— قیامت اب زیادہ دور نہیں :
Doomsday not so Far
یہ صورتِ حال ایک طرف سیکولر آئڈیالوجی کی تنسیخ کررہی ہے، اور دوسری طرف وہ ہم کو یہ قرینہ (clue) دے رہی ہے کہ اِس معاملے میں مذہبی آئڈیالوجی زیادہ درست اور مبنی بَرحقیقت ہے۔ مذہبی آئڈیالوجی جو پیغمبروں کے ذریعے معلوم ہوئی، وہ یہ ہے کہ موجودہ سیارۂ زمین اِس لیے بنایا ہی نہیں گیا کہ یہاں انسان اپنے لیے مادی جنت کی تعمیر کرسکے۔ یہاں کے ناقص اسباب قطعیّت کے ساتھ کسی مفروضہ مادی جنت کی تعمیر میں مانع ہیں ۔
اِس معاملے میں درست اورمطابقِ واقعہ بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے تمام اسباب، امتحانی پرچے (test papers) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ موجودہ دنیا میں جو چیزیں انسان کو ملی ہیں ، وہ بطور انعام نہیں ہیں ۔ اگریہ چیزیں بطور انعام ہوتیں ، تو وہ اپنی ذات میں کامل ہوتیں ۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، یہاں کی ہر چیز ناقص ہے اور اِن چیزوں کا ناقص ہونا یہ بتاتا ہے کہ یہی نظریہ درست ہے کہ یہ چیزیں امتحانی پرچے کی حیثیت رکھتی ہیں ، وہ انسان کو انعام کے طورپر نہیں دی گئیں ۔
یہ قرینہ (clue) یہ ثابت کرتا ہے کہ اِس معاملے میں پیغمبرانہ نظریہ ہی صحیح نظریہ ہے، یعنی یہ کہ موجودہ دنیا غیر معیاری دنیا (imperfect world) ہے۔ اِس کے بعد ایک اور دنیا بنے گی، جو اِس دنیا کا معیاری ورژن (perfect version) ہوگا۔ موت کے بعد بننے والی اِس معیاری دنیا میں وہ لوگ جگہ پائیں گے، جو موجودہ امتحانی دنیا میں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرچکے ہوں ۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تمام سیکولر فلسفی اور مفکر اور رہنما ہزاروں سال سے یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ موجودہ دنیا میں منصفانہ سماج (just society) بنائیں ، مگر ساری کوششوں کے باوجود اُنھیں کامیابی نہ ہوسکی۔ اِس کے برعکس، جو ہوا وہ یہ کہ ساری دنیا میں انارکی اور کرپشن اور استحصال اور بددیانتی پھیل گئی۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں اِس معاملے میں مزید اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ اب تمام قرائن کے مطابق، یہ ناممکن ہوچکا ہے کہ منصفانہ سوسائٹی کی تعمیر کے مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ جدید ترقیوں نے لوگوں کے بگاڑ میں صرف اضافہ کیا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں ۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان کا ضمیر ایک منصفانہ سماج چاہتا ہے۔یہ ضمیر جس طرح پہلے لوگوں کے اندر موجود تھا، اُسی طرح وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ اب موجودہ حالات میں منصفانہ سماج کا قیام عملاً ناممکن ہوچکا ہے۔ مثلاً موجودہ عدالتی نظام اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ اُس سے اب انصاف کی امید ہی نہیں کی جاسکتی۔ قوانین کی بھر مار کے باوجود صرف عدالت کی بے انصافیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ معاملہ دوبارہ ایک قرینہ (clue) ہے، جو پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتا ہے، یعنی یہ کہ مجرموں کو سزا دینا، اور سچے انسانوں کو اُن کے عمل کا انعام دینا، موجودہ محدود دنیا میں ممکن ہی نہیں ۔ انسانی ضمیر کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک اور دنیا درکار ہے، ایک ایسی دنیا جہاں خود خدا ظاہر ہو کر سب کا حساب لے اورانصاف کو قائم کرے۔یہ صورتِ حال اِس پیغمبرانہ تصور کی تائید کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک یومُ الحساب (day of judgment) آنے والا ہے۔ اُس وقت خدائی طاقت کے ذریعے منصفانہ سماج کا وہ قیام ممکن ہوجائے گا، جو انسانی طاقت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ممکن نہیں ہوا تھا۔
پیغمبرانہ آئڈیالوجی کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دَور ہیں — قبل از موت دورِ حیات، اور بعد از موت دورِ حیات۔ اب یہ آخری طورپر ثابت ہوچکا ہے کہ قبل از موت دورِ حیات اپنی محدودیتوں کی وجہ سے اُس کامل دنیا کی تعمیر کے لیے ناکافی ہے، جو انسان کا ضمیر چاہتا ہے۔ یہ مطلوب دنیا بلا شبہ بنے گی، لیکن وہ موت کے بعد کے وسیع تر دورِ حیات ہی میں بن سکتی ہے— یہ مطلوب دنیا ایک زیرِتعمیر دنیا ہے۔ اب وہ دن زیادہ دور نہیں ، جب کہ یہ بننے والی مطلوب دنیا مکمل ہو کر ہمارے سامنے آجائے۔
پیغمبر ِ انقلاب
قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں کے خاتم بھی۔
پیغمبروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا، اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔
پیغمبرآخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے ليے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلّمہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں میں ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں طورپر دکھائی دیں گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تاریخ کے ایک عظیم انسان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل (القلم، 68:4)بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں کی شکل میں تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہنما کی تلاش میں نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم(الاحزاب،33:40) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی۔
راقم الحروف کی کتاب ’پیغمبر انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ اس وقت میں نے اِس کتاب میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مذکورہ الفاظ لکھے تھے، جونہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیرمسلموں کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(الاسراء، 17:79)۔ چنانچہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ عام مصنفین اور مورخین نے پیغمبر اسلام کی عظمت کو کھلے طورپر تسلیم کیا ہے۔بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان لڑائیاں پیش آئیں ، جن کو صلیبی جنگ (crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں میں مسیحی قوموں کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں لکھی گئیں ، جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔
اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات1881) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب هيروز اور ہیروورشپ(On Heroes, Hero Worship) پہلی بار1841 میں چھپی۔ اِس انگریزی کتاب میں اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو دوسرے تمام پیغمبروں کے مقابلے میں ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔
اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں ۔ اِن کتابوں میں تاریخ میں آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات1954 ) کی کتاب 1939 (Historical Role of Islam) میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں انھوں نے لکھا کہ پیغمبر اسلام، تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوں نے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:
Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 5)
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الاسراء،17:79)۔ مقامِ محمودیت کا ایک پہلو وہ ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا کی نسبت سے مقامِ محمود یہ ہے کہ آپ کو تاریخی اعتبار سے ایک مسلّم نبوت (established prophethood) کا درجہ حاصل ہوگا۔
آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے، نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے۔ اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
خاتم النبیین
قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ اعلان کیاگیا ہے: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّيْنَ( 33:40)۔ یعنی محمد تمھارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں ۔
قرآن کی اِس آیت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں — رسول اللہ، اور خاتم النبیین۔ رسول اللہ ہونے کے اعتبار سے آپ دوسرے تمام رسولوں کی مانند تھے، جیسا کہ قرآن میں اہل ایمان کی زبان سے آیا ہےلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (2:285)۔یعنی ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول ہونے کے اعتبار سے، ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ لیکن مذکورہ آیت (الاحزاب، 33:40) کے مطابق، اِس کے سوا آپ کی ایک اور حیثیت ہے،اور وہ یہ کہ آپ رسول ہونے کے علاوہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی سلسلۂ نبوت کے آخری پیغمبر۔ آپ کا خاتم النبیین ہونا دراصل آپ کی ایک مزید (additional) صفت کو بتاتا ہے، یعنی آپ کی آمد کے بعد نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔
اِس قرآنی آیت میں ’خاتم‘ کا لفظ آیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے ’خاتَم‘ اور ’خاتِم‘ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا مطلب ایک ہے، یعنی آپ سلسلہ نبوت کے آخری نبی ہیں ۔ آپ کے بعد اب کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اِس فیصلے کو غیر مشتبہ بنانے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے مزید اہتمام یہ کیا کہ آپ کی کوئی اولادِ نرینہ (male offspring)نہیں ۔ ورنہ یہ امکان تھا کہ لوگ آپ کے بیٹے کو پیغمبر کا درجہ دے دیں ۔
نبیوں کا خاتم ہونا صرف فہرست کی تکمیل کا معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ اُس ضرورت کے ختم ہوجانے کا معاملہ تھا، جس کی بناپر پچھلی تاریخ میں بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے ہیں ۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ نئے پیغمبر کو بھیجنے کی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب کہ خدا کا دین محفوظ حالت میں باقی نہ رہے ۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ(2:213)۔یعنی تاکہ وہ فیصلہ کردے ان باتوں کا جن میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین مکمل طورپر محفوظ ہوگیا، اِس لیے بطور حقیقت اِس کی ضرورت باقی نہ رہی کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی آئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی چیزیں ایسی ملتی ہیں جو دوسرے پیغمبروں کے یہاں موجود نہیں ۔ مثلاً سیاسی غلبہ۔ اِس قسم کی چیزیں تکمیلِ نبوت کے لیے نہیں ہیں ، بلکہ وہ ختمِ نبوت کے لازمی تقاضے کے طورپر ہیں ۔ اگر یہ مزید چیزیں آپ کی زندگی میں شامل نہ ہوتیں ، تو ایسا نہ ہوتا کہ نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوجائے۔ حالاں کہ منصوبۂ الٰہی کے مطابق، ایسا ہونا ضروری تھا۔
اصل یہ ہے کہ پیغمبر کے آنے کا مقصد صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ شخصی طورپر اپنے زمانے کے لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچا دے، بلکہ اِسی کے ساتھ پیغمبر کے آنے کا یہ مقصد بھی ہوتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کرے۔ وہ ہدایتِ ربّانی کے معاملے کو خود تاریخی عمل (historical process) میں شامل کردے۔ پیغمبر اسلام کے ظہور کے بعد یہ سب کچھ بہ تمام وکمال پیش آگیا۔ اِس لیے اب نبیوں کی آمد کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔ پیغمبر اسلام کی زندگی کے یہ تمام اضافی پہلو قرآن میں بتا دیے گئے ہیں ۔
مثلاً قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌۭ (2:193;8:39)۔یعنی تم اُن سے قتال (جنگ) کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔چنانچہ مفسرین نے اس آیت میں فتنہ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: حَتَّى لَا يُفْتَنُ مُؤْمِنٌ عَنْ دِينِهِ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ468 ؛ تفسیر ابن ابی حاتم،اثر نمبر 9074)۔ یعنی یہاں تک کہ کسی ایمان والے کو اس کے دین کی وجہ سے ستایا نہ جائے۔
قدیم بادشاہی زمانے میں لمبی مدت سے دنیا میں مذہبی جبر کا نظام قائم تھا۔ اِس قسم کا نظام نہ اچانک قائم ہوتا،اور نہ وہ اچانک ختم ہوتا۔ اِس قرآنی حکم کا مدّعا یہ تھا کہ تاریخِ بشری میں ایک ایسا عمل (process) جاری ہوجائے، جس کے نتیجے میں ایساہو کہ مذہبی جبر مکمل طورپر ختم ہوجائے، اور اس کے بجائے مذہبی آزادی کی حالت مکمل طورپر قائم ہوجائے۔
مذہبی آزادی (religious freedom)کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔ وہ براہِ راست خدا کے تخلیقی پلان(creation plan) سے جُڑا ہوا معاملہ ہے۔ خدا نے انسان کو امتحان (test) کے مقصد کے تحت اِس دنیا میں رکھا ہے۔ اِس مقصد کے تحت، دنیا میں آزادی کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ اِسی حکمت کی بنا پر پیغمبر اسلام کو فتنہ کے خاتمے کا حکم دیاگیا، اوراس کے مطابق، آپ کے لیے اسباب فراہم کیے گئے۔ چنانچہ آپ نے اِس کام کو انجام دیا، یہاں تک کہ انسانی تاریخ میں مذہبی آزادی (religious freedom)کا دور کامل طورپر آگیا۔
دعوت اور حجت
خدا کی ہدایت کے دو پہلو ہیں — دعوت اور حجت۔ دعوت سے مراد یہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو کسی کمی یا بیشی کے بغیر بتانا۔ خدا کا صحیح تعارف، خدا کے تخلیقی نقشے کا اعلان، جنت اور جہنم کے معاملے سے انسان کو با خبر کرنا، وغیرہ۔ انھیں حقیقتوں کی وضاحت کا نام دعوت ہے۔
دعوت کا یہ عمل تمام پیغمبروں نے اپنے اپنے زمانے میں کیا۔ نُکاتِ دعوت کے اعتبار سے، ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ البتہ ایسا ہوا کہ پچھلے پیغمبروں کا دعوتی کلام اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہ سکا۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا دعوتی ذخیرہ (قرآن اور حدیث) مکمل طورپر اپنی اصل زبان میں محفوظ ہوگیا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیاکہ بعد کی نسلیں بھی آپ کے دعوتی پیغام سے اُسی طرح باخبر ہوسکیں ،جس طرح آپ کے ہم زمانہ لوگ باخبر ہوئے تھے۔
جہاں تک حجت کا سوال ہے، اُس کے دو درجے ہیں —روایتی استدلال اور علمی استدلال۔ استدلال ہمیشہ معلوم اشیا کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں انسانی معلومات کا دائرہ روایتی اشیا تک محدود تھا، اِس لیے قدیم زمانے میں ہمیشہ روایتی استدلال پر اکتفا کیاگیا۔ مثلاً حضرت یوسف خدا کے ایک پیغمبر تھے۔ اُن کا زمانہ 1910 تا1800 قبل مسیح تبایاگیا ہے۔ انھوں نے قدیم مصر میں توحید کی دعوت دی۔ اُس وقت انھوں نے فرمایا اے میرے جیل کے ساتھیو، کیا جُدا جُدا کئی معبود بہتر ہیں ، یا اللہ اکیلا زبردست (12:39)۔
یہ روایتی استدلال کی ایک مثال ہے۔ مگر یہاں ایک اور استدلال موجود تھا، اور وہ تھا علمی استدلال (scientific reasoning)۔ یہ استدلال وہ تھا، جو خدا کی پیدا کردہ نیچر (فطرت) میں موجود تھا، مگر یہ استدلال قدیم زمانے میں صرف امکان کے درجے میں تھا، وہ ابھی تک واقعہ نہیں بنا تھا۔ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ذریعے جو انقلاب پیش آیا، اس نے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کیا۔ اِس کے نتیجے میں ایساہوا کہ یہ امکانی استدلال واقعہ بن کر سامنے آگیا۔
فطرت کی تسخیر
نیچر کا لفظ جب بولا جاتا ہے تو اُس سے مراد پوری دنیا ئے مخلوقات ہوتی ہے
Nature: The Sum total of all things in time and space; the entire physical universe.
یہ نیچر ہمیشہ سے موجود تھا، لیکن قدیم زمانے میں انسان شرک میں مبتلا ہوگیا۔ شرک دراصل مظاہرِ فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ چوں کہ انسان نیچر کو معبود کی نظر سے دیکھتا تھا، اِس لیے وہ اس کو تحقیق وتفتیش (exploration) کی نظر سے نہ دیکھ سکا۔ اِس طرح، شرک ایک مستقل ذہنی رکاوٹ (mental block) بن گیا۔ علمی دلائل جن کو قرآن میں آیات (نشانیاں ) کہاگیا ہے، وہ عالم فطرت میں موجود تھیں ، مگر وہ ظاہر ہو کر سامنے نہ آسکیں ۔
قرآن میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا:وَقَٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُۥ لِلَّهِ(8:39)۔يعني اور ان سے لڑو يهاں تك كه فتنه باقي نه رهے اور دين سب الله كے ليے هو جائے۔کچھ مفسرین کے مطابق، اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد شرک ہے۔ یعنی پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو حکم دیاگیا کہ شرک کے سیاسی اور اجتماعی غلبےکو ختم کرو، خواہ اربابِ شرک کی جارحیت کی بنا پر اُن کے مقابلے میں جنگ کرنا پڑے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پیغمبر اوراصحابِ پیغمبر کی کوششوں کے نتیجے میں شرک کا سیاسی اور اجتماعی غلبہ دنیا سے ختم ہوگیا، اور توحید کو غلبہ حاصل ہوگیا۔(اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیےراقم الحروف کی کتاب ’’اسلام دورِ جدید کا خالق‘‘ ملاحظہ فرمائیں )۔
اِس کے بعد دنیا میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ ایک لفظ میں اس کو فطرت کی پرستش (nature worship) کے بجائے، فطرت کی تسخیر کا عمل کہاجاسکتا ہے، یعنی فطرت کو پرستش کے بجائے تحقیق اور مطالعہ کا موضوع بنانا۔ اِس کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ فطرت (نیچر) میں چھپے ہوئے دلائل سامنے آگئے۔ یہ تاریخی عمل اسلام کے ابتدائی زمانے میں شروع ہوا اور یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد وہ اپنی تکمیل تک پہنچا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ خدائی حقیقتوں کو روایتی دلائل کے بجائے سائنسی دلائل کے ذریعے ثابت شدہ بنایا جاسکے۔ چند مثالوں سے اِس کی وضاحت ہوتی ہے
—1خدا کے وجود پر قرآن میں ایک دلیل یہ دی گئی تھی کہ:أَفِى اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَٰوَٰتِ وَالْأَرْضِ (14:10)۔یعنی کیا خدا کے بارے میں شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پھاڑنے والا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں لفظ فاطر (پھاڑنے والا) خدا کے وجود کا ایک ثبوت ہے۔ کیوں کہ پھاڑنا ایک بالقصد مداخلت (intervention) کا عمل ہے، اور بالقصد مداخلت کاعمل ایک مداخلت کار(intervener)کاثبوت ہے۔اورجب مداخلت کار کا وجود ثابت ہوجائے تو اپنے آپ خدا کا وجود (existence of God)ثابت ہوجاتا ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں خدا کے وجود (existence of God)کا ایک علمی ثبوت موجود ہے، لیکن اِس علمی ثبوت کی وضاحت صرف دورِ سائنس کے بعد ہوئی۔بیسویں صدی کے رُبع اوّل میں سائنس دانوں نے اُس کائناتی واقعے کو دریافت کیا، جس کو بگ بینگ (Big Bang) کہاجاتاہے۔ بگ بینگ کی دریافت کے بعد یہ ممکن ہوگیاکہ مذکورہ قرآنی آیت میں چھپے ہوئے سائنسی دلائل کو سمجھا جائے، اور اس کو استعمال کیاجائے۔
—2قرآن کی سورہ الجاثیہ میں خدا کی ایک نعمت کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیا ہے:اَللَّهُ الَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِىَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِه (45:12)۔یعنی اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں کشتیاں چلیں ۔
قرآن کی اِس آیت میں ایک عظیم حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ قدیم روایتی زمانے کا انسان اس معاملے کو صرف ایک پُراسرار عقیدے کے طورپر لیتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں اس کی توجیہہ، ایک معلوم فطری قانون کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایک جدید سائنس ظہور میں آئی ہے، جس کو علم سکونِ سیّالات (science of hydrostatics) کہاجاتا ہے۔ اِس کے مطابق، پانی یا سیّال چیزیں ایک خاص قانون کے تابع ہیں ، اور وہ تخفیفِ وزن (buoyancy) یا ٹھوس اَجسام کو پانی میں ڈالنے سے اس کو بحال رکھنے یا ابھارنے کی صلاحیت ہے:
(Buoyancy) The upward pressure by any fluid on a body, partly or wholly, immersed therein, it is equal to the weight of the fluid displaced.
اِس جدید سائنس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کی مذکورہ آیت کو خالص علم انسانی کی بنیاد پر سمجھا جاسکے، اور خدا کے اِس عظیم احسان پر یقین کیا جائے کہ اُس نے سمندر کو ایک محکم قانون کا پابند بنادیا۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوگیا کہ وسیع سمندروں کی سطح پر انسان کشتی اور جہاز کے ذریعے سفر کرسکے، اور وہ دور دراز منزل تک بہ آسانی پہنچ جائے۔
—3خدا کی ایک نعمت کا ذکر قرآن کی سورہ ق میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا (50:9) ۔یعنی ہم نے آسمان سے مبارک پانی اتارا۔ قرآن کی اِس آیت میں خدا کی ایک عظیم نعمت کا ذکر ہے۔ قدیم زمانے میں یہ بات صرف ایک روایتی عقیدے کی حیثیت رکھتی تھی، مگر سائنسی دریافتوں کے بعد وہ ایک عظیم علمی دلیل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں بارش کا حوالہ دیاگیا ہے۔ بارش کیا ہے۔ بارش دراصل سمندر کا پانی ہے، جو بھاپ بن کر اوپر جاتا ہے اور پھر مخصوص قانون کے تحت دوبارہ وہ نیچے کی طرف لوٹتا ہے، جس کو بارش کہتے ہیں ۔ جیسا کہ معلوم ہے، سمندر کا پانی کھاری ہوتاہے۔ ایسا اِس لیے ہے کیوں کہ سمندر کے پانی میں 1/10 حصہ نمک شامل رہتا ہے۔ یہ نمک سمندر کے پانی میں تحفظی مادّہ (preservative) کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ چوں کہ پانی کے مقابلے میں نمک وزنی ہوتا ہے، اِس لیے جب سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بھاپ بن کر اوپر کی طرف اٹھتا ہے تو اس کا نمک کا حصہ نیچے رہ جاتا ہے۔ یہ اِزالۂ نمک (desalination) کا ایک عمل ہے، جو خدا کے قانون کے تحت ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ سمندر کا کھاری پانی ہم کوشیریں پانی کی صورت میں دست یاب ہوتا ہے۔ اِس عمل کے بغیر سمندر کا پانی ہمارے لیے قابلِ استعمال ہی نہ ہوتا۔
کولریج (Coleridge) ایک برٹش شاعرہے۔ اس کی وفات 1834 میں ہوئی۔ اس نے ایک نظم لکھی ہے۔ اِس نظم میں اس نے بتایا ہے کہ لکڑی کا بنا ہوا ایک جہاز سمندر میں سفر کے لیے روانہ ہوا۔ درمیان میں سخت طوفان آیا۔ اُس کے نتیجے میں جہاز ٹوٹ گیا۔ بہت سے لوگ پانی میں ڈوب گئے۔ ایک مسافر کو جہاز کا ایک تختہ مل گیا۔ وہ اِس تختے کے اوپر لیٹ گیا اور پانی میں تیرنے لگا۔ وہ پیاسا تھا، لیکن وہ اپنی پیاس بجھا نہیں سکتا تھا، کیوں کہ اُس کے آس پاس جو پانی تھا، وہ سب کا سب کھاری پانی تھا۔ شاعر اِس کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ— ہر طرف پانی ہے، لیکن ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں :
Water everywhere, nor a drop to drink.
قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے پانی کو مبارک (purified) بنا کر آسمان سے اُتارا۔ یہ بلاشبہ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قدیم زمانے میں یہ معاملہ ایک روایتی عقیدے کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس کی دریافتوں نے اس کو ایک عظیم قابلِ شکر حقیقت بنا دیا۔
—4پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بار سورج گرہن پڑا۔ اتفاق سے اُسی دن پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کا کم عمری میں انتقال ہوگیا تھا۔ مدینہ کے لوگوں نے اُس کو دیکھا تو انھوں نے کہا — پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا تھا، اِس لیے آج یہ سورج گرہن واقع ہوا ہے (کسفت الشمس لموت إبراهیم)۔ لوگوں کا ایسا کہنا قدیم زمانے کے رواج کی بنا پر تھا۔ کیوں کہ اُس زمانے میں لوگ اِسی قسم کے واقعات کو گرہن کا سبب سمجھتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو وہاں کی مسجدمیں اکھٹا کیا اور انھیں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایاإِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَصَلُّوا، وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ(صحیح البخاري، حديث نمبر 1040)۔ یعنی کسی کے مرنے اور کسی کے جینے سے چاند اور سورج میں گرہن واقع نہیں ہوتا، بلکہ وہ خدائی نشانیوں میں سے دو نشانی ہیں ۔ پس جب تم اُن کو دیکھو تو تم نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو، یہاں تک کہ گرہن کھل جائے۔
اِس حدیثِ رسول میں سورج گرہن اور چاند گرہن (solar eclipse & lunar eclipse) کو نشانی (signs) کہاگیا ہے۔ قدیم زمانے کے مخاطبین اپنے روایتی فریم ورک کے اعتبار سے اتنا ہی سمجھ سکتے تھے۔ لیکن موجودہ زمانے میں لوگوں کا فریم ورک سائنٹفک فریم ورک بن چکا ہے۔ اب آج کا انسان اِس قابل ہوگیا ہے کہ وہ خالص علمی معنوں میں اِس حقیقت کو سمجھ سکے۔ اور اِس طرح زیادہ گہرائی کے ساتھ وہ معرفت کا رزق حاصل کرے۔
موجودہ زمانے میں جدید فلکیات کے تحت مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ زمین اور سورج اور چاند تین انتہائی مختلف سائز کے متحرک اَجرام ہیں ۔ مگر وسیع خلا میں اُن کو ایک ناقابلِ قیاس حساب کے ذریعے ایک خاص پوزیشن کے تحت ایک سیدھ میں لایا جاتا ہے، اِسی خاص پوزیشننگ کے نتیجے میں سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے:
Eclipse is a result of unimaginably well-calculated aligning of three different moving bodies in the vast sapce.
دعوت کا نیا دور
سیرت کے موضوع پر راقم الحروف کی کتاب ’پیغمبر انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ میں نے اُس ميں ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقع پر اپنے اصحاب کو ’العصابۃ‘ سے تعبیر کیا تھا۔ یہ العصابۃ کوئی سادہ گروہ نہ تھا، بلکہ یہ وہ گروہ تھا، جس پر ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ اِس طرح اُس کے افراد اِس قابل ہوئے کہ تاریخ میں وہ ایک عظیم انقلابی دورکا آغاز کریں ۔
اصحابِ رسول نے نبوت محمدی کے اظہارِ اوّل کے لیے کام کیا تھا۔ اب نبوتِ محمدی کے اظہارِ ثانی کا زمانہ ہے۔ اِس دوسرے رول کے لیے آج پھر ایک العصابہ درکار ہے۔ اِسی دوسرے العصابہ کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے۔ یہ دوسرا العصابہ وہ ہوگا، جس پر پچھلی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔
جیسا کہ میں نے اپنے دوسرے مضامین میں واضح کیا ہے، پہلے دورِ تاریخ کا آغاز ہاجرہ اُمِّ اسماعیل نے چار ہزار سال پہلے کیا تھا۔ اِس تاریخی عمل کی تکمیل میں ڈھائی ہزار سال لگے۔ اِس کے بعد اِس تاریخی نسل میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب پیدا ہوئے۔اِسی تاریخی نسل سے اصحابِ رسول نکلے، جنھوں نے پیغمبر کا ساتھ دے کر پہلے دور کا کارنامہ انجام دیا۔
اصحابِ رسول نے جس دورِ تاریخ کا آغاز کیا تھا، تقریباً ڈیڑھ ہزار سال میں وہ اپنے نقطۂ کمال پر پہنچ چکا ہے۔ اصحابِ رسول کےبعداب دوبارہ بہت سے اللہ کے بندے اٹھیں گے، غالباً اِنھیں افراد کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 249)۔ یہ گروہ نئے حالات میں اپنی غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے نبوت محمدی کا دوبارہ اظہار کرے گا۔
نبوتِ محمدی کا یہ اظہارِ ثانی، تاریخ انسانی کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔ اِس کے بعد موجودہ عارضی دنیا کو بدل کر نئی ابدی دنیا بنائی جائے گی، تاکہ اہلِ حق کو خدا کا ابدی انعام دیا جائے، اور اہلِ باطل کو ابدی طور پر رُسوائی کے عذاب میں ڈال دیا جائے۔
اسلام دورِ جديد ميں
ساتويں صدي ميں الله تعالي نے اپنے دعوتي منصوبے كے ليے ضروري مواقع مهيا كرديے تھے ۔ رسول اوراصحابِ رسول نے ان مواقع كو استعمال كركے خدا كے منصوبه كو عملي واقعه بنايا۔ اسي طرح موجوده زمانے ميں اسلام كي عمومي دعوت كے ليے الله كا جو منصوبه هے اس كے ليے تمام ضروري اسباب مهيا كرديے گئے هيں ۔ اب خدا كے بندوں كو اٹھنا هے اور دوباره خدا كے منصوبے كو عملي طورپر مكمل كرديناهے۔
اسلام دورِ جديد ميں
اميرشكيب ارسلان (1946-1869) كي ايك كتاب هے جس كا نام هے: لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غيرهم (مسلمان كيوں پيچھے هوگئے اور ان كے سوا دوسرے كيوں آگے هوگئے) يه كتاب 50 سال پهلے چھپي تھي ۔ اس کے بعد ميں نے ايك عربي مجله رابطة العالم الاسلامی (اپريل 1985) ميں ايك مضمون پڑھا۔ اس مضمون كا عنوان دوباره حسب ذيل الفاظ ميں قائم كياگيا تھا:
لما ذا تأخرنا وتقدم غيرنا
اس كا مطلب يه هے كه موجوده زمانه كے مسلمان پچھلي نصف صدي سے ايك هي سوال سے دوچار هيں ، اور وه سوال يه هے كه هم جديد دور ميں دوسري قوموں سے كيوں پيچھے هوگئے، اور دوسري قوميں هم سے آگے كيوں نكل گئيں ۔ مزيد عجيب بات يه هے كه اسي نصف صدي كے اندر جاپان ايٹمي بربادي كے كھنڈر سے ابھرا، اور ترقي كي انتها پر پهونچ گيا۔ چنانچه امريكه ميں ايك كتاب چھپي هے جس كا نام هے جاپان نمبر ايك:
Japan as Number One: Lessons for America by Ezra Vogel
موجوده زمانه ميں مسلمانوں كا يه انجام كسي موهوم سبب كي بنا پر نهيں هے، بلكه معلوم خدائي قانون كي بنا پر هے۔ اس دنيا كے ليے خدا كا قانون يه هے كه جو گروه اپنے آپ كو نفع بخش ثابت كرے اس كو دنيا ميں ترقي اور استحكام نصيب هو، اور جو گروه نفع بخشي كي صلاحيت كھو دے، اس كو هميشه كے ليے پيچھے دھكيل ديا جائے۔ قديم زمانه كے مسلمان اهلِ عالَم كے ليےنفع بخش بنے هوئے تھے، اس ليے قديم زمانه ميں انھيں عظمت حاصل هوئي۔ موجوده زمانه كے مسلمان بے نفع هوگئے۔ اس ليے موجوده زمانه ميں انھيں كوئي عظمت حاصل نه هوسكي۔عروج وزوال كا يه اصول قرآن كي حسبِ ذيل آيت ميں واضح طورپر موجود هے:
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ (13:17)۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے ليے آگ میں پگھلاتے ہیں ۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے، اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آيت سے معلوم هوتا هے كه اس دنيا كے ليے الله تعالي كا قانون كياهے۔ وه قانون يه هے كه جو گروه اپنے آپ كو نفع بخش ثابت كرے اس كو دنيا ميں بقا اور استحكام ملے، اور جو گروه اپني نفع بخشي كھو دے وه يهاں بے قيمت هو كر ره جائے۔
اس عالمي قانون كو ايك طرف كتابِ الٰہی ميں لفظي طور پر بيان كياگيا هے۔ دوسري طرف مادي دنيا ميں اس كا عملي مظاهره كيا جارها هے۔ سورهٔ رعد كي مذكوره آيت ميں اس نوعيت كي دو مثاليں دي گئي هيں ۔ ايك مثال بارش كي هے۔ بارش هوتي هے اور اس سے نالے بھرتے هيں تو جھاگ اوپر دكھائي دينے لگتا هے۔ مگر جلد هي ايسا هوتا هے كه جھاگ تو هوا ميں اڑ جاتا هے اور جو چيز اس ميں نفع بخش هے وه باقي رهتي هے، يعني پاني۔
دوسري مثال دھات كي هے۔ دھات کو جب آگ پر پگھلایا جاتا ہے، تو ابتداء ً اس كا ميل كچيل اوپر دكھائي دينے لگتا هے۔ مگر بهت جلد يه وقتي منظر ختم هوجاتا هے اور جو اصل قيمتي دھات هے وه اپني جگه باقي ره جاتي هے۔
دورِ اول كي مثال
دورِ قديم ميں اسلام كو غير معمولي عظمت ملي۔ يه ايك تاريخي حقيقت هے، جس سے انكار نهيں كياجاسكتا۔ تقريباً ايك هزار سال تك اسلام كو آباد دنيا كے قائد كي حيثيت حاصل رهي هے۔ اسلام كو يه عظيم حيثيت اتفاقاً نهيں ملي، اور نه مطالبات كے ذريعه اس كو يه حيثيت حاصل هوئي۔ اس كي وجه قدرت كا وهي ابدي قانون تھا، جس كا اوپر ذكر هوا، يعني نفع بخشي اور فيض رساني۔
دنيا كو اسلام سے جو كچھ ملا، اس كے بهت سے پهلو هيں ۔اس كا ايك پهلو يه هے كه اسلام نے دنيا كو توهمات (superstitions) كے دور سے نكالا، اور اس كو پهلي بار سائنس كے دور ميں داخل كيا۔
آج كي دنيا جس چيز كو اپنے ليے سب سے بڑي نعمت سمجھتي هے وه سائنس هے۔ اور تمام محققين اور منصف مورخين نےتسليم كيا هے كه يه دراصل اسلام هے جس نے سائنس كے دور كو پيدا كيا۔ يهاں هم صرف ايك مغربي مصنف مسٹر بريفالٹ كا قول نقل كريں گے۔ وه اس موضوع پر تفصيلي بحث كرتےهوئے لكھتے هيں كه اگر چه يورپي ترقي كا كوئي بھي پهلو ايسا نهيں جس ميں اسلامي تهذيب كي فعال اثر انگيزي ديكھي نه جاسكتي هو۔ مگر وه سب سے زياده واضح اس قوت كي پيدائش ميں هے جو جديد دنيا كي سب سے بڑي طاقت هے۔ يعني طبيعي سائنس اور سائنسي اسپرٹ۔ هماري سائنس پر عربوں كا قرض انقلابي نظريات كي دريافت كي حد تك نهيں هے۔ سائنس اس سے كهيں زياده عرب تهذيب كي احسان مند هے، وه خود اپنےوجود كے ليے اس كي مرهون منت هے:
For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the permanent distinctive force of the modern world, and the supreme source of its victory -natural science and the scientific spirit... The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture; it owes its existence. (Briffault: Making of Humanity, London, 1919, pp. 190-91)
يه ايك معلوم تاريخي حقيقت هے كه قديم زمانه ميں تمام دنيا ميں شرك كا غلبه تھا۔ تمام قوميں بے شمار ديوتاؤں كو پوجتي هيں ۔ هندستاني روايات كے مطابق ان كي تعداد 33 كروڑ تك پهنچ گئي تھي۔ انسائيكلو پيڈيا برٹانيكا (1984) ميں تعدد آلهه كےعنوان كے تحت بتايا گيا هے كه مذاهب ميں عمومي طورپر يه بات پائي گئي هے كه فطرت كي طاقتوں اور فطرت كے مظاهر كو خدا مان ليا جاتا هے۔ نهايت آساني كے ساتھ ان كو تين قسموں ميں بانٹا جاسكتا هے— آسماني، فضائي اور زميني۔ يهي تقسيم بجائے خود هند آريائي مذهب ميں تسليم كي گئي هے، چنانچه سورج ان كے يهاں آسماني خدا هے۔ اِندر فضائي خداهے جو طوفان، بارش اور جنگ لانے والا هے۔ اگني (آگ كا ديوتا) زميني واقعات كا سبب هے:
A widespread phenomenon in religions is the identification of natural forces and objects as divinities. It is convenient to classify them as celestial, atmospheric, and earthly. This classification itself is explicitly recognized in Indo-Aryan religions: Surya, the sun god, is celestial; Indra, associated with storms, rain, and battles, is atmospheric; and Agni, the fire god, operates primarily at the earthly level (14/785)
اسلام سے پهلے انسان كا حال يه تھا كه وه هر چيز كو پوجتا تھا۔ وه سورج اور چاند سے لے كر دريا اور پهاڑ تك هر چيز كے آگے جھكتا تھا۔ درختوں ميں اس نے درخت خدا (plant deities)اور جانوروں ميں اس نے جانور خدا (animal deities) بنا ركھے تھے۔ دنيا كي تمام چيزيں معبود بني هوئي تھيں ، اور انسان ان كا عبادت گزار۔ اس طرح انسان نے اپني عظمت كھو دي تھي۔ اسلام كے ذريعه تاريخ ميں جو انقلاب آيا اس نے پهلي بار انسان كو اس كي عظمت عطا كي۔
شرك (بالفاظ ديگر مظاهر فطرت كي پرستش) كا رواج قديم زمانه ميں سائنسي ترقيوں ميں ركاوٹ بناهوا تھا۔ انسان فطرت كے مظاهر كو معبود سمجھ كر انھيں تقدس كي نظر سے ديكھتا تھا۔ اس ليے اس كے اندر يه جذبه هي پيدا نهيں هوتا تھاكه وه ان مظاهر كي تحقيق كرے، اور ان كو اپنے فائدے كے ليے استعما ل كرے۔ فطرت كے مظاهر جب پرستش كاموضوع بنے هوئے هوں تو اسي وقت وه تحقيق كا موضوع نهيں بن سكتے۔ يه بنيادي سبب تھا جو طبيعي سائنس كا دور شروع هونے ميں ركاوٹ بنا هوا تھا۔ اسلام نے تاريخ ميں پهلي بار اس سبب كو ختم كيا، اس ليے اسلام كے بعد تاريخ ميں پهلي بار يه ممكن هوا كه طبيعي سائنس كا دور شروع هوا، ور بالآخر اس حد كو پهنچا جهاں هم آج اس كو ديكھ رهے هيں ۔
آرنلڈ ٹوائن بي نے بجاطورپر لكھا هے كه يه در اصل توحيد(Monotheism) كا عقيده هے جس نے جديد سائنس اور صنعتي دور كو پيدا كيا۔ كيوں كه توحيد كے انقلاب سے پهلے دنيا ميں عملي طورپر شرك كا غلبه تھا۔ شرك كے عقيده كے تحت آدمي فطرت (Nature) كو پوجنے كي چيز سمجھے هوئے تھا۔ پھر وه اس كو تحقيق و تسخير كي چيز كيسے سمجھتا۔ جب كه فطرت كو تحقيق اور تسخير كي چيز سمجھنے كے بعد هي اس علم كا آغاز هوتا هے جس كو طبيعي سائنس كهتے هيں ۔
قرآن ميں مختلف انداز سے يه بات كهي گئي هے كه زمين وآسمان كي نشانيوں (مظاهر فطرت) پر غور كرو۔ قرآن ميں اس قسم كي سات سو آيتيں شمار كي گئي هيں جن ميں مظاهر فطرت پر غور كرنے كي تلقين كي گئي هے۔اگر بالواسطه آيتوں كو بھي شامل كيا جائے تو ان كي تعداد ايك هزار تك پهنچ جائے گي۔ يه معلوم انساني تاريخ ميں بالكل نئي آواز تھي۔ كيوں كه اس سے پهلے انسان صرف يه جانتا تھا كه وه مظا\هر فطرت كو پوجے۔ ايك ايسي دنيا جس ميں هزاروں برس سے انسان صرف يه جانتا تھا كه مظاهر فطرت پوجنے كي چيزهيں ، وهاں قرآن نے يه آواز بلند كي كه مظاهر فطرت اس ليے هيں كه ان پر غور كيا جائے، اور ان ميں چھپي هوئي حكمتوں كو دريافت كيا جائے۔
اسلام كا يه پيغام صرف پيغام نه رها بلكه سو سال كےاندر هي وه ايك عالمي انقلاب بن گيا۔ اس نے اولاً عرب كے دل ودماغ كو فتح كيا۔ پھر وه ايشيا اور افريقه اور يورپ تك پهنچ گيا۔ اس نے عرب كے بُت خانے ختم كرديئے۔ ايراني اوررومي شهنشاهتيں اس زمانه ميں شرك كي سب سے بڑي سرپرست تھيں ، دونوں كو اسلام نے مغلوب كرليا اور توحيد كا غلبه تقريباً پوري آباد دنيا ميں قائم كرديا۔
اسلام كي اس نفع بخشي كو تمام منصف مزاج مورخين نے تسليم كيا هے۔ يهاں هم انسائيكلوپيڈيا برٹانيكا (1984) كا ايك پيراگراف نقل كرتے هيں :
Islamic culture is the most relevant to European science. There was active cultural contact between Arabic-speaking lands and Latin Europe. Conquests by the Prophet's followers began in the 7th century, and, by the 10th, Arabic was the literate language of nations stretching from Persia to Spain. Arabic conquerors generally brought peace and prosperity to the countries they settled (16/368)
اسلامي تهذيب كا تعلق يورپي سائنس سے بهت زياده هے۔ عربي زبان بولنے والے علاقوں اور لاتيني يورپ كےدرميان نهايت گهرا ربط قائم تھا۔ پيغمبر كے پيروؤں كي فتوحات ساتويں صدي عيسوي ميں شروع هوئيں ، اور دسويں صدي تك يه حال هوگيا كه عربي زبان ايران سے لے كر اسپين تك كي تمام قوموں كي علمي زبان بن گئي۔ عرب فاتحين جهاں گئے وهاں عام طورپر وه امن اور خوش حالي لے گئے۔ قرآن كے ذريعه عالمي سطح پر جو فكري انقلاب آيا اس نے تاريخ ميں پهلي بار نئي قسم كي سرگرمياں شروع كرديں ۔ انسان نے اپنے آپ كو ايك ايسي دنيا ميں پايا جو پوجنے كي چيز نهيں بلكه برتنے كي چيز تھي، جس كا وه تابع نه تھا بلكه وه اس كے ليے مسخر كي گئي تھي كه وه اس كو اپنا تابع بنائے۔ چنانچه اسلام كے عظيم الشان اعتقادي انقلاب كے ساتھ ايك عظيم الشان علمي اور ذهني انقلاب بھي شروع هوگيا۔ اسلام كے ماننےوالوں نے جب ايك قادرِ مطلق خدا كو پايا تو اسي كے ساتھ انھوں نے دوسري تمام چيزوں كو بھي پاليا۔ انھوں نے هر ميدان ميں ترقياں شروع كرديں ۔ ان سے دنيا كو وه چيزيں ملنے لگيں جو ابھي تك اس كو نهيں ملي تھيں ۔ چنانچه اس دور ميں پيداهونے والي جتني بھي قابلِ ذكر ترقياں هيں ان كامطالعه كيجيے تو هر ترقي كے پيچھے كسي نه كسي مسلمان كا هاتھ كام كرتا نظر آئے گا۔
چند تاريخي حوالے
توحيد اس دنيا كي سب سے بڑي سچائي هے۔توحيد كو اختيار كرنے كي وجه سے دورِ اول كے مسلمانوں كے ليے يه ممكن هوا كه وه دنيا والوں كے درميان ايك ايسي برادري بن كر ابھريں جن كا هر طرف استقبال كيا جائے اور جن سے دنيا والوں كو هر قسم كا نفع حاصل هو۔ يهاں هم اس سلسله ميں چند مثاليں درج كريں گے۔
1۔ اسلامي انقلاب كے بعد كئي سو سال ايسے گزرے هيں جب مسلمان ساري دنيا ميں علم طب كے امام تھے۔ دنيا كے بڑے بڑے لوگ مسلم اطباء سے رجوع كرتے تھے، اور طب ميں مسلمانوں كي تصنيفات هر جگه فن طب كا ماخذ بني هوئي تھيں ۔ يورپ كا سب سے پهلا ميڈيكل كالج سارنو (اٹلي) ميں قائم هوا۔ يه ميڈيكل كالج گيارھويں صدي عيسوي ميں قائم هوا تھا۔ اس كا نصاب بڑي حد تك ان طبي كتابوں پر مشتمل تھا جو عربي زبان سے لاتيني زبان ميں ترجمه كي گئي تھيں ۔ انسائيكلوپيڈيابرٹانيكا (1984) نے اس كے تذكره كے ذيل ميں لكھا هے كه يورپ ميں بارهويں صدي نے عربي سے لاتيني ميں كتابوں كے ترجمه كا ايك هيرووانه پروگرام ديكھا۔يه بات بهت اهم هے كه يورپ كا ابتدائي طبي اسكول جو سلرنو ميں قائم هوا اور دوسرا جو مانٹ پيلير ميں قائم هوا، دونوں عربي اور يهودي ماخذوں سے بهت قريب تھے:
The 12th Century saw a heroic program of translation of works from Arabic to Latin. It is significant that the earliest medical school in Europe was at Salerno and that it was later rivalled by Montpellier, also close to Arabic and Jewish sources (16/368)
پروفيسر هٹي نےاس سلسله ميں مزيد تفصيل بيان كرتےهوئے لكھا هے كه الزهراوي كي كتاب (التصريف لمن اعجز عن التاليف) كا سرجري سے متعلق حصه گيرارڈ آف كريمونا نے عربي سے لاتيني ميں ترجمه كيا۔ يورپ ميں اس كے مختلف ايڈيشن چھپے۔ وينس ميں 1497 ميں ، بيسل ميں 1541 ميں ، آكسفورڈ ميں 1778 ميں ۔ يه ترجمه صديوں تك سلرنو اور مانٹ پيلير اور دوسرے يورپي طبي اداروں ميں نصابِ تعليم كا جز بنا رها:
This surgical part was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497, at Basel in 1541 and at Oxford in 1778. It held its place for centuries as the manual of surgery in Salerno, Montpellier, and other early schools of medicine
(P. K. Hitti, History of the Arabs. 1979, p. 577)
آج آپ جديد طرز كے كسي اسپتال ياكسي ميڈيكل كالج ميں داخل هوں تو وهاں كي هر چيز آپ كو مغربي تهذيب كا عطيه نظر آئے گي۔ مگر چند سو سال پهلے يه حال تھا كه آپ وقت كے كسي معياري اسپتال يا كسي ميڈيكل كالج ميں داخل هوں تو وهاں كي هرچيز اسلامي تهذيب كا عطيه نظر آتي تھي۔ يه هے وه بنيادي فرق جو مسلمانوں كے ماضي اوران كے حال ميں پيدا هوگيا هے۔
2۔ جغرافيه ايك بے حد اهم سائنس هے۔ اس كا تعلق زندگي كے بے شمار شعبوں سےهے۔ دور اول كے مسلمانوں نے اس فن ميں بھي كمال پيدا كيا۔ مثال كے طورپر الادريسي اپنے زمانه ميں دنيا كا سب سے بڑا جغرافي عالم تھا۔ پروفيسر فلپ هٹي نے اس كي بابت حسب ذيل الفاظ لكھے هيں :
The most distinguished geographer of the Middle Ages.
يعني قرونِ وسطي كا سب سے زياده ممتاز جغرافيه داں ۔ الادريسي كے زمانه ميں راجر دوم سسلي كا بادشاه تھا۔ اس كو ايك جغرافي نقشه كي ضرورت هوئي تو اس كو يه نقشه جس نے بنا كرديا وه يهي الادريسي تھا۔ فلپ هٹي نے مزيد لكھاهے:
The most brilliant geographical author and cartographer of the twelfth century, indeed of all medieval time, was al-Idrisi, a descendant of a Spanish Arab family who got his education in Spain. (P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 568)
بارھويں صدي عيسوي كا سب سے زياده باكمال جغرافي مصنف اور نقشه نويس، بلكه پورے قرونِ وسطي كا سب سے بڑا جغرافي عالم بلاشبه الادريسي تھا۔ وه اسپين كے ايك اعلي عرب خاندان ميں پيدا هوا، اور اس كي تعليم اسپين ميں هوئي۔
انسائيكلوپيڈيا برٹانيكا (1984) كے مقاله نگار نے لكھا هے كه الادريسي نے 1154ء ميں سسلي كے مسيحي حكمراں (راجر دوم) كے ليے ايك عالمي نقشه بنايا۔ اس ميں ايشيائي علاقوں كي زياده بهتر معلومات دي گئي تھيں جو اس وقت تك ابھي انسان كو حاصل نه هوئي تھيں :
Al-Idrisi constructed a world map in AD 1154 for the Christian king Roger of Sicily, showing better information on Asian areas than had been available theretofore. (11/472)
موجوده زمانه ميں مسلم ملكوں ميں مغرب كے ماهرين (experts) بھرے هوئے هيں ۔ مگر ايك وقت تھا جب كه مسلمان هر شعبه كے ماهرين دنيا كو فراهم كررهے تھے۔ آج مسلمان دنيا والوں سے لے رهے هيں ، مگر چند سال پهلے يه حال تھا كه مسلمان دنيا كو دينے والے بنےهوئے تھے۔ كيسا عجيب فرق هے ماضي ميں اور حال ميں ۔
3۔ آج مسلم ملكوں كے نوٹ اور سكے مغربي ممالك تيار كرتے هيں ، اور اگر كوئي مسلم ملك خود اپنا سكه يا نوٹ تيار كرتاهے تو اس كے ليے بھي وه مغربي ٹكنالوجي كا مرهونِ منّت هے۔ مگر ايك وقت تھا كه يه مقام خود مسلمانوں كو عالمي سطح پر حاصل تھا۔
پروفيسر ايچ. ڈبليو . سي . ڈيوس(H.W.C. Davis) نے اپني كتاب قرونِ وسطي كا انگلستان (Medieval England) ميں انگلستان كےايك قديم سنهرے سكه كي تصوير اس كے دونوں رخ سے چھاپي هے۔ يه سكه برٹش ميوزيم ميں ركھاهوا هے۔ تصوير ميں واضح طورپر نظر آرهاهے كه سكه كے ايك طرف عربي رسم الخط ميں كلمه شهادت لكھا هوا هے اور دوسري طرف اس وقت كے انگلستان كے بادشاه اوفاريكس (Offa Rex) كا نام كنده هے۔ اسي كے ساتھ سكه پر بغداد كے مسلمان سكه گر كانام بھي درج هے۔ سكه كي تصوير كے نيچے پروفيسر ڈيوس نے حسب ذيل الفاظ لكھےهيں :
Anglo-Saxon gold coin imitating an Arab Dinar of the year 774.
يعني قديم انگلستان كا سونے كا سكه جو 774ء ميں ڈھالا گيا اور جس ميں ايك عرب دينار كي نقل كي گئي هے۔ يه ايك تاريخي شهادت هے جو بتاتي هے كه آٹھويں صدي عيسوي ميں مسلمان صنعتي ترقي كے اس مقام پر تھے كه انگلستان كے نامور بادشاه اوفاركس (وفات796:ء)كو ضرورت محسوس هوتي تھي كه وه اپنے ملك كا سكه ڈھالنے كے ليے بغداد سے مسلم ماهرين كو بلائے۔ اس وقت انگلستان ميں جو سكه ڈھالا گيا وه مسلم ممالك كے سكه (دينار) كي نقل تھا۔حتيٰ كه مسلم سكوں كي طرح اس پر كلمه شهادت بھي عربي رسم الخط ميں لكھا هوا تھا۔ اس سے اندازه كيا جاسكتا هے كه هزار برس پهلے كے دور ميں اسلامي تهذيب ساري دنيا ميں كس قدر غالب حيثيت ركھتي تھي۔
2۔ واسكوڈي گاما (1524-1469) ايك پرتگالي ملاح تھا۔ اس كو يه خصوصيت حاصل هے كه اس نے 1497 ميں هندستان اور يورپ كے درميان سمندري راسته دريافت كيا جو كيپ آف گڈهوپ هو كر جاتا تھا۔ مگر يه عظيم كاميابي اس كو ايك عرب ملاح احمد بن ماجد كے ذريعه حاصل هوئي۔ اس كي بابت انسائيكلوپيڈيا برٹانيكا (1984) نے حسب ذيل الفاظ لكھے هيں :
Vasco da Gama's Arab pilot, Ahmad ibn Majid (7/862)
يعني واسكوڈي گاما كا عرب جهاز راں احمد بن ماجد۔ برٹانيكا كے مقاله نگار نے لكھا هے كه واسكوڈي گاما جب پرتگال سے چل كر افريقه پهنچا تو وهاں موزنبيق كے سلطان نے واسكوڈي گاما كو دو مسلم ملّاح ديئے۔ ان ميں سے ايك اس وقت بھاگ گيا جب اس كو معلوم هوا كه يه پرتگالي مسيحي مذهب كے هيں :
The Sultan of Mozambique supplied da Gama two (Muslim) pilots, one of whom deserted when he discovered that the Portuguese were Christians (7/861)
جس جهاز راں نے واسكوڈي گاما كا ساتھ ديا اس كا نام احمد بن ماجد تھا۔ وه نهايت ماهر تھا اور سمندري جهاز سے اتني واقفيت ركھتا تھا كه اس پر اس نے ايك اهم كتاب لكھي تھي جو مذكوره سفر كے وقت اس كے ساتھ تھي۔
پروفيسر فلپ هٹي نے لكھا هے كه بحري جهاز راني كےموضوع پر ايك خصوصي كتاب احمد بن ماجد كي هے جس ميں بحري جهاز راني كے نظرياتي اور عملي پهلوؤں كي وضاحت كي گئي هے۔ كهاجاتا هے كه 1498 ميں يهي احمد بن ماجد تھا جس نے افريقه سے هندستان تك واسكوڈي گاما كي رهنمائي كي:
And exceptional work of major importance is a compendium of theoretical and practical navigation by Ahmad ibn Majid of Najdi ancestry, who, it is claimed, in 1498 piloted Vasco da Gama from Africa to India.
P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 689.
5۔ پندرھويں صدي عيسوي كے آخر ميں جو دريافتيں هوئيں ان ميں سے ايك وه دريافت هے جس كو نئي دنيا (امريكا) كي دريافت كهاجاتا هے۔ يه عظيم دريافت عام طورپر كرسٹوفر (كولمبس 1506-1451) كے نام سے موسوم هے۔ يه صحيح هے كه اٹلي كا كولمبس هي وه شخص هے جس نے اس مهم كي رهنمائي كي۔ مگر اس كو يه تصور دينے والے مسلمان تھے كه وه اٹلانٹك سمندر ميں اپني كشتي اس اميد ميں داخل كرے كه اس ناپيداكنار سمندر كے دوسري طرف اس كو خشكي ملے گي جهاں وه اتر سكے۔
پروفيسر هٹي نے لكھاهے كه عربوں نے زمين كے گول هونے كے قديم نظريه كو زنده ركھا ،جس كے بغير نئي دنيا كي دريافت ممكن نه هوتي۔ اس نظريه كا ايك مبلغ ابو عبيده مسلم البلنسي تھا جس نے اس موضوع پر ايك كتاب بھي لكھي تھي۔ اس كا زمانه دسويں صدي عيسوي كا نصف اول هے۔ زمين كے گول هونے كا نظريه عربي سے لاتيني ميں ترجمه هو كر 1410ء ميں يورپ ميں شائع هوا۔ اس كو پڑھ كر كولمبس نے اس نظريه سے واقفيت حاصل كي۔ اِس سے اُس نے سمجھا كه زمين ايك ناشپاتي كي مانند هے اور يه كه زمين كے مغربي نصف كره ميں بھي ايسا هي ابھار موجود هے جيسا كه اس كے مشرقي نصف كره ميں نظر آتا هے۔ پروفيسر هٹي كے الفاظ يه هيں :
They kept alive the ancient doctrine that the earth was round. We have already referred to the Hindu idea that the known hemisphere of the world had a centre or “world cupola” situated at an equal distance from the four cardinal points. This Arin theory found its way into a Latin work published in 1410. From this Columbus acquired the doctrine which made him believe that the earth was shaped in the form of a pear and that on the western hemisphere opposite the Arin was a corresponding elevated centre.
P. K. Hitti, History of the Arabs, The Macmillan Press Ltd., London, Tenth Edition 1979, p. 570.
هميں كيا كرنا هے
اب سوال يه هے كه هميں كيا كرناهے۔ ماضي ميں بلاشبه مسلمانوں نے بهت بڑي بڑي سائنسي خدمات انجام دي تھيں ۔ مگر موجوده زمانه ميں مسلمان سائنس اور صنعت كے ميدان ميں تمام قوموں سے پيچھے هوگئے هيں ۔ آج وه اس حيثيت ميں نهيں هيں كه خالص سائنسي اور صنعتي اعتبار سے اهلِ دنيا كے ليے نفع بخش بن سكيں ۔ موجوده زمانه كے مسلمانوں كا حال يه هے كه وه ابھي تك صنعتي دور (industrial Age) ميں بھي داخل نهيں هوئے۔ جب كه بقيه دنيا الوين ٹافلر كے الفاظ ميں ، مافوق صنعتي دور (super-industrial Age) ميں داخل هوگئي هے۔
Alvin Toffler, Future Shock, New York, 1971
مگر امت مسلمه محفوظ آسماني كتاب كي حامل هے۔ اس نسبت سے وه خود بھي ايك محفوظ امت هے۔ اس محفوظيت كا ايك پهلو يه بھي هے كه جهاں مواقع بظاهر ختم هوجائيں ، وهاں بھي اس كے ليے ايك نيا موقع موجود رهتا هے۔ خدا نےانسانيت كے ليے عام طور پر اور امت مسلمه كے ليے خاص طورپر يه فيصله كرديا هے كه هر ڈس ايڈوانٹج كے ساتھ اس كے ليے ايك ايڈوانٹج هميشه موجود رهے۔ يهي وه ابدي حقيقت هے جو قرآن ميں ان الفاظ ميں بيان كي گئي هےفَإِن معَ الْعُسْرِ يُسْراً إنَّ معَ الْعُسْرِ يُسْراً( 94:5-6)۔ یعنی پس مشكل كے ساتھ آساني هے۔ بے شك مشكل كے ساتھ آساني هے۔
الله تعالي كي يه سنت موجوده زمانه ميں پوري طرح ظاهر هوچكي هے۔سائنس اپني ترقيوں كي انتها پر پهنچ كر ايك ايسے سنگين مسئله سے دوچار هے جس كا خود اس كے پاس كوئي حل نهيں ۔ نه سائنسي طبقه سے باهر كوئي گروه ايسا موجود هے، جو اس مسئلے كا حل اسے دے سكے۔ يه صرف مسلمان هيں جو محفوظ آسماني كتاب كے حامل هونے كي وجه سے اس پوزيشن ميں هيں كه سائنسي طبقه كو نيز پوري انسانيت كو اس مسئله كےحل كا تحفه پيش كرسكيں ۔
اس معامله كي نوعيت سمجھنے كے ليےيهاں ميں انسائيكلو پيڈيا برٹانيكا (1984) كا ايك پيراگراف نقل كروں گا۔تاريخ سائنس (History of Science) كے مقاله نگار نے اس سلسله ميں لكھا هے:
Until recently, the history of science was a story of success. The triumphs of science represented a cumulative process of increasing knowledge and a sequence of victories over ignorance and superstition; and from science flowed a stream of inventions for the improvement of human life. The recent realization of deep moral problems within science of external forces and constraints on its development, and of dangers in uncontrolled technological change has challenged historians to a critical reassessment of this earlier simple faith. (16/366)
ابھي حال تك سائنس كي تاريخ كاميابيوں كي كهاني تھي۔ سائنس كي فتوحات ميں يه شمار هوتا تھا كه اس نےانساني معلومات ميں اضافه كيا هے اور جهالت اور توهم پرستي پر فتح حاصل كي هے۔ سائنس سے ايجادات كا ايك سيلاب نكلا هے جس نے انساني زندگي كو بهتر بنايا هے۔ مگر حال ميں يه حقيقت سامنے آئي هے كه سائنس گهرے اخلاقي سوالات سے دوچار هے۔ بے قيد ٹكنالوجي كے خطرات كي وجه سے اس كي ترقي پر روك لگانے كي باتيں كي جارهي هيں ۔ يه صورتِ حال مؤرخين كو چيلنج كررهي هے كه وه ان خيالات كا دوباره تنقيدي جائزه ليں جو ابتدا ميں ساده طورپر قائم كرليے گئے تھے۔
جديد دنيا كا يهي وه خلا هے جهاں مسلمان اپنے نفع بخش هونے كا ثبوت دے سكتے هيں ، اور اس طرح دوباره اپنے ليے سرفرازي كا وه مقام حاصل كرسكتے هيں جو انھوں نے دنيا ميں كھوديا هے۔
سائنس كي ابتدائي فتوحات نے بهت سے لوگوں كو اتنا زياده متاثر كيا كه انھوں نے سمجھ ليا كه اب هميں سائنس كے سوا كسي اور چيز كي ضرورت نهيں ۔ سائنس هماري تمام ضرورتوں كے ليے كافي هے۔ اس سلسله ميں بے شمار كتابيں لكھي گئيں ۔ جولين هكسلے (1975-1887) نے اس نقطهٔ نظر كي نمائندگي كرتے هوئے ايك كتاب شائع كي تھي جس كا نام تھا — انسان تنها كھڑا هوتا هے:
Man Stands Alone
اس كے جواب ميں كريسي ماريسن (1946-1884) نے ايك كتاب شائع كي جس كا نام بامعني طورپر يه تھا — انسان تنها كھڑا نهيں هوسكتا:
Man Does Not Stand Alone
بيسويں صدي كے نصف اول تك انسان كا يه دعوي تھا كه اس كي سائنس اس كے ليے كافي هے۔ مگر اسي صدي كے نصف ثاني ميں انسان كو اپني رائے سے رجوع كرنا پڑا۔ اس سے پهلے جو بات كريسي ماريسن جيسے چند مستثنيٰ افراد كهتے تھے، اب وه عام طورپر لوگوں كي زبانوں سے كهي جارهي هے۔ يهي وه حقيقت هے جس كا اعتراف انسائيكلوپيڈيا برٹانيكا كے مذكوره اقتباس ميں كيا گيا هے۔
جديد انسان كي ذهني حالت كيا هے، اس كا ايك نمونه لارڈ بر ٹرينڈرسل (1970-1872) هے۔ وه انگلينڈ كے ايك دولت مند خاندان ميں پيدا هوا۔ اس نےاعلي ترين تعليم حاصل كي۔ اس كو نوبل انعام ملا، جو آج كي دنيا ميں سب سے بڑا علمي اعزاز سمجھا جاتا هے۔ اس نے مذهب كو چھوڑ ديا اور مادي سائنس ميں سكون تلاش كرنے كي كوشش كي۔ مگر بھر پور عمر گزارنے كے باوجود اس كو وه چيز نهيں ملي جس كو سكون كهاجاتا هے۔ برٹرينڈرسل كي طويل خودنوشت سوانح عمري كے آخر ميں هم اس كے هاتھ سے يه الفاظ لكھے هوئے پاتے هيں :
The inner failure has made my mental life a perpetual battle (p. 727)
اندروني ناكامي نے ميري ذهني زندگي كو ايك مستقل جنگ ميں مبتلا ركھا۔
گليليو اور سائنس
آپ سائنس كي تاريخ كي كسي كتاب ميں گليليو (1562-1642) كا باب كھول كر ديكھيں تو وهاں آپ كو اس قسم كے الفاظ لكھے هوئے مليں گے کہ گليليو نے مشاهده اور تجربه اور رياضي كو جس طرح استعمال كيا اس نے جديد سائنس كي بنياد ركھنے ميں مدد دي
His use of observation, experiment and mathematics helped lay foundation of modern science.
گليليو كا خاص كارنامه كيا هے۔ گليليو كا خاص كارنامه يه هے كه اس نے چيزوں كي ابتدائي صفات كو، جو ابعاد (Dimension) اور وزن (Weight) پر مشتمل هيں اور جن كي آساني سے پيمائش كي جاسكتي هے، ان كو ثانوي صفات سے الگ كرديا جو شكل، رنگ اور بو وغيره سے تعلق ركھتي هيں اور جن كي پيمائش نهيں كي جاسكتي۔ ايك لفظ ميں يه كه اس نے كميت كو كيفيت سے جدا كرديا۔
گليليو كے اس فعل نے اس بات كو ممكن بنا ديا كه آدمي ميٹر كو استعمال كرسكے، بغير اس كے كه اس نے ميٹر كے بارے ميں ضروري معلومات حاصل كي هوں ۔ اس طرح فطرت كو كام ميں لانے كا دروازه كھل گيا۔ ٹكنالوجي كو ترقي هوئي اور بے شمار نئي نئي چيزيں بننے لگيں جو انسان كے ليے مفيد ثابت هوئيں ۔ مگر زياده مدّت نهيں گزري كه انسان كا عدم اطمينان ظاهر هوگيا۔ معلوم هوا كه اس معامله ميں سائنس داں يا انجينئر كا معامله اس جاهل بڑھئي سے كچھ بھي مختلف نهيں جو لكڑي كو كاٹ كر فرنيچر بناتا هے، اگرچه وه لكڑي كي كيمسٹري كے بارے ميں كچھ نهيں جانتا۔
بعد كي تحقيقات نے بتايا كه گليليو نے چيزوں كے جس ظاهري پهلو كو الگ كركے اس كو سائنس كے مطالعه كا موضوع بنايا تھا، اس كے باره ميں بھي انسان كي معلومات حد درجه ناقص هيں ۔ انسان نه صرف پھول كي ’’خوشبو‘‘سے بے خبر هے بلكه پھول كي ’’كيمسٹري‘‘ بھي بهت كم اس كے علم ميں آتي هے۔ ايك چيز جس كو متمدن دنيا كا انسان تين سو سال تك علم سمجھتا رها وه بھي آخر كار بے علمي ثابت هوا۔ برٹرينڈ رسل نے اپني خود نوشت سوانح عمري ميں لكھا هے:
As is natural when one is trying to ignore a profound cause of unhappiness, I found impersonal reasons for gloom. I had been very full of personal misery in the early years of the century, but at that time I had a more or less Platonic philosophy which enabled me to see beauty in the extra-human universe. Mathematics and the stars consoled me when the human world seemed empty of comfort. But changes in my philosophy have robbed me of such consolations. Solipsism oppressed me, particularly after studying such interpretations of physics as that of Eddington. It seemed that what we had thought of as laws of nature were only linguistic conventions, and that physics was not really concerned with an external world. I do not mean that I quite believed this, but that it became a haunting nightmare, increasingly invading my imagination.(Bertrand Russell, Autobiography, Unwin Paperbacks, London, 1978, pp. 392-93 )
ميں نے اپني اداسي كے كچھ غير شخصي اسباب پاليے جيسا كه عام طورپر اس وقت هوتا هے جب كه آدمي ناخوشي كے ايك گهرے سبب كو نظر انداز كرنے كي كوشش كررها هو۔ ميں موجوده صدي كے ابتدائي سالوں ميں ذاتي پريشانيوں ميں بهت زياده مبتلا رهاهوں ۔ مگر اس وقت ميں كم وبيش افلاطوني فلسفه كا قائل تھا جس نے مجھے اس قابل بنائے ركھا كه ميں خارجي دنيا ميں حسن كو ديكھ سكوں ۔ رياضيات اور ستاروں نے مجھے اس وقت تسكين دي جب كه انساني دنيا آسائش سے خالي نظر آتي تھي۔ مگر ميرے فلسفه ميں تبديلي نے اس قسم كي تسكين كو مجھ سے چھين ليا۔ خودي نے مجھ كو بالكل مضمحل كرديا۔ خاص طورپر اس وقت جب كه ميں نے طبيعيات كي ان تشريحوں كو پڑھا جو اڈنگٹن جيسے لوگوں نے كي هيں ۔ مجھ كو نظر آيا كه جس چيز كو هم نے فطرت كے قوانين سمجھا تھا وه محض الفاظ كا معامله تھا۔ اور طبيعيات حقيقةً كسي خارجي دنيا سے كوئي تعلق نهيں ركھتي۔ ميرا مطلب يه نهيں كه ميں اس كو پوري طرح مانتا هوں ۔ مگر يه ميرے ليے ايك ڈراؤنے خواب (كابوس) بن گيا جو ميرا پيچھا كررها تھا۔ وه ميرے تخيلات پر برابر حمله كررها تھا۔
روحاني تسكين
جو سائنس خارجي دنيا كا علم دينے سے عاجز تھي وه اس باطني دنيا كا علم كيا ديتي جس كے بارے ميں اس نے گليليو هي كے زمانه ميں عملي طورپر اپني نارسائي كا اعلان كرديا تھا۔ سائنس آدمي كو وه جھوٹا اطمينان بھي نه دے سكي جو مادي سطح پر بظاهر ايك انسان كو حاصل هوتا هے۔ اور ذهني اور روحاني سطح كا اطمينان نه تو اس كے بس ميں تھا اور نه كبھي اس نے اس كو دينے كا دعوي كيا۔
قرآن ميں ارشادهوا هےأَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔ یعنی سن لو كه الله كي ياد هي سے دلوں كو اطمينان هوتا هے۔ يهي بات بائبل ميں ان الفاظ میں آئی ہے— انسان صرف روٹي هي سے جيتا نهيں رهتا، بلكه هر بات سے جو خداوند كے منه سے نكلتي هے، وہ جیتا رہتا ہے:
Man does not live by bread alone but by every word that comes from the mouth of the Lord. (Deuteronomy 8:3)
حضرت مسيح نے اسي بات كو ان لفظوں ميں بیان کیا ہے— آدمي صرف روٹي هي سے جيتا نه رهے گا بلكه هر بات سے جو خدا كے منه سے نكلتي هے:
Man shall not live by bread alone, but by every word that comes from the mouth of God. (Matthew 4:4)
انسان اپنے ساتھ ايك مخصوص نفسيات ركھتا هے۔ اس نفسيات سے وه اپنے آپ كو جدا نهيں كرسكتا۔ يه نفسيات ايك برتر تسكين كي طالب هے۔ انسان كو مادي سازوسامان كے ساتھ ايك عقيده اور ايك اصولِ حيات بھي دركار هے۔ سائنس نے انسان كو جو كچھ ديا، وه اپني آخري صورت ميں بھي صرف مادي سازوسامان تھا۔ سائنس انسان كو ايك قابلِ اعتماد عقيده نه دے سكي۔ يهي وه كمي هے، جس نے جديد دنيا كے بے شمار لوگوں كو غير مطمئن كر ركھا هے۔ باهر سے ديكھنے والوں كو ان كي زندگياں پُررونق نظرآتي هيں ۔ مگر اندر سے ان كي روح بالكل ويران هوچكي هے۔
اقدار كا مسئله
يه مسئله جس سے آج كا انسان دوچار هے، فلسفيانه لفظ ميں اس كو اقدار كا مسئله (problem of values) كهاجاسكتا هے۔ جديد تعليم يافته انسان ايك دهري مشكل سے دوچار هے۔ وه جانتا هےمگر نهيں جانتا۔ معلومات كے ڈھير كے درميان وه محسوس كرتاهے كه وه كم سے كم اس پوزيشن ميں هوتا جارها هے كه يه فيصله كرسكے كه كيا اچھا هے اور كيا برا۔ وه اپني فطرت سے مجبور هے كه وه كسي چيز كو اچھا اور كسي چيز كو بُرا سمجھے۔ وه اس تميز كو كسي بھي طرح اپنے آپ سے جدا نهيں كرسكتا۔ مگر جب اپني عقل يا اپنے علم كے ذريعه وه اس كو متعين كرنا چاهتا هے تو وه اس كو متعين نهيں كرپاتا۔
جوزف وڈكرچ نےاپني كتاب ’’دورِ جديد كا مزاج‘‘ ميں اس مسئله پر عقلي بحث كي هے۔ اس كا كهنا هے كه انسان اگرچه باعتبار فطرت يه يقين كرنے كي طرف مائل هے كه زندگي كا ايك مقصد هے اور اچھائي اور برائي كا ايك معيار هے۔ مگر سائنس اس كا كوئي حتمي جواب نهيں ديتي۔ سائنس كي ترقي اس كو زياده سےزياده ظاهر كرتي جاري هے كه هم ايك ايسي دنيا ميں هيں جهاں اقدار اپنا كوئي موضوعي مقام (objective status) نهيں ركھتيں ۔ انسان اخلاقي معياروں كي ضرورت محسوس كرتاهے جس كے مطابق وه زندگي گزارے۔ وه وجداني طورپر اس كي مستقل تلاش ميں هے۔ مگر سائنس كي دريافت كرده دنيا ميں خير وشر كے تصورات كي كوئي جگه نهيں ۔ بظاهر ايسا معلوم هوتا هے كه انسان ايك اخلاقي جانور هے جو ايك ايسي كائنات ميں هے جهاں اخلاقي عنصر كا كوئي وجود نهيں
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. (Joseph Wood Krutch, The Modern Temper, New York, 1929, p. 16)
انسان چيزوں كي حقيقت كو جاننا چاهتا هے مگر سائنس اس كو صرف چيزوں كے ڈھانچه كا علم ديتي هے۔ انسان دنيا كے آغاز وانجام كو جاننا چاهتا هے، مگر سائنس اس كو صرف درمياني مرحله كے باره ميں كچھ باتيں بتاتي هے۔ انسان چيزوں كي معنويت كو دريافت كرنا چاهتا هے، مگر سائنس اس كو صرف اس كي ظاهري هيئت كا پته ديتي هے۔ انسان پھول كي مهك كو سمجھنا چاهتا هے، مگر سائنس اس كو صرف پھول كي كيمسٹري سے آگاه كرتي هے۔ انسان ذهن اور روح كي گهرائي ميں اترنا چاهتاهے، مگر سائنس صرف جسم كے مادي اجزا كا تجزيه اس كے سامنے پيش كرتي هے۔ ايك لفظ ميں يه كه انسان ’’خالق‘‘ كے باره ميں جاننا چاهتا هے، اور سائنس اس كو صرف ’’مخلوق‘‘ كے باره ميں بتا كر خاموش هوجاتي هے۔
يهي بات هے جس كو ايك مغربي مفكر نے حسرت كے ساتھ اس فقره ميں بيان كيا هے— جو اهم هے وه ناقابل دريافت هے، اور جو قابل دريافت هے وه اهم نهيں :
The important is unknowable, and the knowable is unimportant.
اعليٰ ذريعهٔ علم
يهي بے اطميناني جديددور كے تمام باشعور انسانوں كا پيچھا كيے هوئے هے۔ ان كي اكثريت اگر چه مذهب كو ماننے كے ليے تيار نهيں هے، مگر انھوں نے يه بات مان لي هے كه جس سائنسي ترقي كو انھوں نے انسانيت كے مسئله كا حل سمجھ ليا تھا، وه انسانيت كے مسئله كا حل نه تھا۔ برٹرينڈ رسل نے مغربي فكر وفلسفه پر ايك ضخيم كتاب لكھي هے۔ اس كتاب كے آخر ميں هم اس كے اعتراف كے حسب ذيل كلمات پاتے هيں :
(Western philosophers) confess frankly that the human intellect is unable to find conclusive answers to many questions of profound importance to mankind, but they refuse to believe that there is some 'higher' way of knowledge, by which we can discover truths hidden from science and the intellect. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, 1979, p. 789)
مغربي فلسفي كھلے طور پر اقرار كرتے هيں كه انساني عقل كے بس سے باهر هے كه وه ان بهت سے سوالات كا قطعي جواب پاسكے جو انسانيت كے ليے بے حد اهميت ركھتےهيں ۔ مگر وه اِس كو ماننے سے انكار كرتے هيں كه سائنس كے علاوه علم كا كوئي اور بلند طريقه هے جس كے ذريعه سے هم ان سچائيوں كو دريافت كرسكيں جو سائنس اور عقل كي دسترس ميں نهيں آتيں ۔
آج كے انسان كو يهي بتانا اس كو سب سے بڑي چيز دينا هے كه هاں ، يهاں ايك بلند تر طريقه موجود هے جس كے ذريعه نامعلوم كو معلوم كيا جاسكے۔ اور وه الهام خداوندي هے۔ اور يه الهام خداوندي جهاں اپني محفوظ شكل ميں موجود هے وه قرآن هے۔
قرآن پوري طرح اپني اصل حالت ميں محفوظ هے اور تقريباً ڈيڑھ هزار برس سے مسلسل اپني صداقت كو ثابت كررها هے، اس موضوع پر راقم الحروف نے اپني كتاب ’’عظمت قرآن‘‘ اور دوسري كتابوں ميں گفتگو كي هے۔ اس كي تفصيل ان كتابوں ميں ديكھي جاسكتي هے۔
داخلي شهادت
اخلاقي يا مذهبي احساس انسان كے اندر بے حد طاقت ور هے۔ ماضي سے لے كر حال تك كا تجربه بتاتا هے كه يه احساس كسي طرح انسان كے اندر سے ختم نهيں هوتا۔ مزيد يه كه يه خالص انساني خصوصيت هے۔ كسي بھي نوع كے جانور ميں اب تك اخلاقي يا مذهبي شعور كا هونا ثابت نه كيا جاسكا۔
الفرڈ رسل ويلس (1823-1913)مشهور ارتقا پسند عالم هے۔ تاهم وه ڈارون كي طرح اس كا قائل نه تھا كه ذهنِ انساني كي اعلي اور نادر خصوصيات محض انتخابِ طبيعي (natural selection) كا نتيجه هوسكتي هيں ۔
اسي طرح اس نے لكھا هے كه افاديت كا مفروضه جو كه دراصل ذهن پر انتخاب طبيعي كے نظريه كا انطباق هے، وه انسان كے اندر اخلاقي شعور كي پيدائش كي تشريح كے ليے ناكافي معلوم هوتا هے۔ اخلاقي شعور كو اس دنيا ميں بےحد مشكلات كے ساتھ كام كرنا پڑتا هے۔ طرح طرح كے استثنائي حالات پيش آتے هيں ۔ اكثر ايسا هوتا هے كه اخلاقي شعور كے تحت عمل كرنے والا موت سے دوچار هوتا هے يا برباد هو كر ره جاتاهے۔ هم كيوں كر يقين كرسكتے هيں كه افاديت كا لحاظ ايك شخص كے اندر ايك اعلي نيكي كے ليے اتنا پر اسرار تقدس پيدا كرسكتا هے۔ كيا افاديت آدمي كے اندر يه مزاج پيدا كرسكتي هے كه وه سچائي كو بذاتِ خود مقصود ومطلوب سمجھے اور نتائج كا لحاظ كيے بغير اس پر عمل كرے
The utilitarian hypothesis (which is the theory of natural selection applied to the mind) seems inadequate to account for the development of the moral sense. This subject has been recently much discussed, and I will here only give one example to illustrate my argument. The utilitarian sanction for truthfulness is by no means very powerful or universal. Few laws enforce it. No very severe reprobation follows untruthfulness. In all ages and countries, falsehood has been thought allowable in love, and laudable in war; while, at the present day, it is held to be venial by the majority of mankind, in trade, commerce, and speculation. A certain amount of untruthfulness is a necessary part of politeness in the east and west alike, while even severe moralists have held a lie justifiable, to elude an enemy or prevent a crime. Such being the difficulties with which this virtue has had to struggle, with so many exceptions to its practice, with so many instances in which it brought ruin or death to its too ardent devotee, how can we believe that considerations of utility could ever invest it with the mysterious sanctity of the highest virtue,—could ever induce men to value truth for its own sake, and practice it regardless of consequences?.
’’ذهين كائنات ‘‘ نامي كتاب كا مصنف فريڈ هائل اپنے قيمتي مطالعه كا خاتمه ان الفاظ پر كرتاهے كه اگر زمين كو كسي مزيد اهميت كا حامل بننا هے، اور انسان كو كائناتي اسكيم ميں كوئي جگه پاني هے تو ضرورت هوگي كه هم افاديت كے نظريه كو مكمل طورپر ترك كرديں ۔ اگر چه ميرا خيال هے كه قديم طرز كے مذهبي نظريات كي طرف واپسي كچھ مفيد نه هوگي، مگر هميں سمجھنا هوگا كه ايساكيوں هے كه ويلس كي تشريح كے مطابق ، پراسرار تقدس همارے اندر موجود رهتا هے اور فردوسي دنيا كي طرف اشاره كرتا هے كه كيا هم اس كي پيروي كريں گے:
If the Earth is to emerge as a place of added consequence, with man of some relevance in the cosmic scheme, we shall need to dispense entirely with the philosophy of opportunism. While it would be no advantage I believe to return to older religious concepts, we shall need to understand why it is that the mysterious sanctity described by Wallace persists within us, beckoning us to the Elysian fields, if only we will follow. (Fred Hoyle, The Intelligent Universe, Michael Joseph, London, 1983, p. 251)
حقيقت يه هے كه مذهب انسان كي سرشت ميں داخل هے۔ وه مذهب كے بغير نهيں ره سكتا۔ آج كا انسان بھي اتنا هي زياده مذهب كا ضرورت مند هے، جتنا قديم زمانه كا انسان تھا۔ مزيد يه كه سائنس كي طرف سے مايوسي نے اس كو مزيد شدت كے ساتھ مذهب كا مشتاق بناديا هے۔ مگر جديد انسان كي مشكل يه هے كه وه مذهب كے نام سے جس چيز كو جانتا هے ،وه صرف بگڑے هوئے مذاهب هيں ، اور بگڑے هوئے مذاهب كے ساتھ انساني فطرت كو مطابقت نهيں ۔ جديد انسان جب اندروني تقاضے سے مجبور هو كر مذهب كے بارے ميں سوچتا هے تو اسي بگڑے هوئے مذهب كي تصوير اس كے سامنے آجاتي هے۔ وه مذهب سے قريب هو كر دوباره مذهب سے دور هوجاتا هے۔
اسلام ايك محفوظ مذهب هے۔وه ان خرابيوں سے يكسر پاك هے جو انساني ملاوٹ كے نتيجه ميں دوسرے مذهبوں ميں پيدا هوگئي هيں ۔ انسان كي فطرت جس مذهب كو تلاش كررهي هےوه حقيقةً اسلام هي هے۔ مگر مسلمانوں كا حال يه هے كه وه اسلام كو اپنے خود ساخته جھگڑوں كا عنوان بنائے هوئے هيں ۔ انھوں نے اسلام كو دنيا كے سامنے پيش هي نهيں كيا، اور اگر پيش كيا تو بگڑي هوئي خود ساخته صورت ميں ۔ يهي وجه هے كه لوگوں كو اسلام اور دوسرے مذهبوں ميں بظاهر كوئي فرق نظر نهيں آتا۔ اسلام كو اگر اس كي اصل صورت ميں آج كے انسان كے سامنے پيش كرديا جائے تو وه يقيناً اس كو اپني طلب كا جواب پائے گا اور اس كي طرف دوڑ پڑے گا۔
مسلمان سائنس كے ميدان ميں دوسروں سے پچھڑ گئے هيں مگر عقيده (نظريهٔ حيات) كے معامله ميں وه آج بھي دوسروں سے آگے هيں ۔ وه جديد دنيا كو وه چيز دے سكتے هيں جس كي آج اسے سب سے زياده ضرورت هے۔ يعني خدا كي طرف سے آيا هوا سچا دين، وه دين جس كے اوپر آدمي اپنے ليے ايك پر اعتماد زندگي كي تعمير كرسكے۔ يه مقام آج مسلمانوں كے ليے خالي هے۔ يه وه مقام هے جهاں وه اهلِ عالَم كے ليےنفع بخش بن سكتے هيں ، اور دوباره اپنے آپ كو اِس كا اهل ثابت كرسكتےهيں كه قدرت كا يه قانون ان كے حق ميں پورا هو — فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (13:17)۔ یعنی پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اورجو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔
دورِ تائيد
موجوده زمانے ميں اسلامي دعوت كے ليے نئے امكانات كھل گئے هيں ۔ اسلامي دعوت كے حق ميں ايك نيا طاقتور عنصر وجود ميں آيا هےجو اس سے پهلے موجود نه تھا۔ وه هے — علم انساني كا دين كي تصديق بننا۔ اس كے ذريعے دين كي دعوت كو نهايت موثر طور پر زياده وسيع دائرےميں انجام ديا جاسكتا هے۔
تخلیق کی منزل
تخلیق کی منزل (goal of creation) کیا ہے۔ یعنی پیدا کرنے والے نے کیوں موجودہ دنیا کو پیدا کیا۔ اس تخلیقی عمل کا مقصد کیا ہے، اور یہ تخلیقی سفر آخر کار کہاں تک پہنچنے والا ہے۔ قرآن اور انسانی تاریخ کے مطالعے سے اس کا جو جواب معلوم ہوتا ہے، اس کو یہاں درج کیا جارہا ہے۔
اس سوال کا جواب مختصر طور پر یہ ہے کہ تخلیق کا مرکزی کردار انسان ہے، اور تخلیق کی منزل جنت (Paradise) ہے۔جو کہ انسان کے لیے معیاری دنیا (ideal world) ہے۔آغاز سے اختتام تک یہ ایک لمبا سفر ہے، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور آخر کار وہ ابدی جنت تک پہنچتا ہے۔ آخری دور کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے: يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (14:48)۔ یعنی جس دن یہ زمین ایک اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔ اس تبدل (change) کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کو بدل کر وہ دنیا بنائی جائے گی، جس کو قرآن میں آخرت کی دنیا کہا گیا ہے۔
یہ دوسری دنیا ایک معیاری دنیا ہوگی۔ موجودہ دنیا میں صالح اور غیر صالح، دونوں ملی جلی حالت میں آباد ہیں ۔ اسی کے نتیجے میں یہاں ہمیشہ وہ غیر مطلوب صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، جس کو منفی طور پر پرابلم آف ایول (problem of evil) کہا جاتا ہے۔اگلی دنیا میں دونوں قسم کے انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا۔اس کے بعد زمین ایک اور زمین کی صورت میں ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گی۔
اس واقعہ کو زبور اور قرآن، دونوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (21:105) ۔ يعني اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ موجودہ زبور میں یہ حوالہ ان الفاظ میں موجود ہے بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے— شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے :
For evildoers shall be cut off: but those that wait upon the Lord, they shall inherit the earth.... the seed of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell therein forever. (Psalms, 37:9 & 28-29)
یہ وارثین ساری نسل انسانی کے صالح افراد ہوں گے، جن میں امت محمدی کے صالح افراد بھی شامل ہیں ۔
تخلیق کے ادوار
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے کائنات کو چھ ادوار (periods)کی صورت میں بنایا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں سات بار آیا ہے۔ ان آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ(32:4)۔ یعنی اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے، چھ دنوں میں ۔
ان آیات میں چھ ایام سے مراد چھ ادوار (six periods) ہیں ۔ دور کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کو بیک وقت دفعۃً پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو اسباب و علل (cause and effect) کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ تخلیق کی یہ صورت اس لیے اختیار کی گئی تاکہ انسان اپنی عقل کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرسکے، اور تخلیق کی حکمت کو معلوم كركے اپنے لیے ذہنی تشکیل کا سامان بنا سکے۔
انسانی علوم کے ذریعہ کائنات کا جو مطالعہ کیا گیا ہے،ان کو لے کر اگر ان چھ ادوار کو متعین کیا جائے تو وہ یہ ہونگے:
(1) بگ بینگ (big bang)
(2) لٹل بینگ (little bang) یا سولر بینگ (solar bang)
(3) واٹر بینگ (water bang)
(4) پلانٹ بینگ (plant bang)
(5) انیمل بینگ (animal bang)
(6) ہیومن بینگ (human bang)
یہ تاریخ کے چھ معلوم ادوار ہیں ۔ سائنسی اندازے کے مطابق چھ ادوار کی یہ مدت تقریبا تیرہ بلین سال ہے۔اس مدت میں موجودہ کائنات عدم سے وجودمیں آئی، اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئےاپنی موجودہ صورت میں بن کر تیار ہوئی۔ اس کے بعد انسان کی جو تاریخ بنی، اور جس طرح وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنا سفر طے کررہی ہے، اس کا مختصر بیان یہاں درج کیا جاتا ہے۔
صراط مستقیم
خالق کی مقرر کردہ ایک صراط مستقیم (right path) ہے، جو اس بات کی ضامن ہے کہ اس پر چلنے والا انسان اپنی مطلوب منزل پر ضرور پہنچے ۔ پیغمبروں کے ذریعہ اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ خالق نے مسلسل طور پر ایسا کیا کہ انسان کے پاس اپنے پیغمبر بھیجے، اور ان کے ذریعہ اپنی کتاب ہدایت بھیجی۔ اس کامقصد یہ تھا کہ انسان درست راستے (right track) پر چلتا رہے، وہ اس سے بے راہ (derail) نہ ہونے پائے۔
ساتویں صدی عيسوي میں اللہ رب العالمین نے خاتم النبیین کو بھیجا۔ آپ نے اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جد و جہد کے ذریعہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا، جس کے ذریعہ بعد کے زمانے میں ایک تاریخی عمل (historical process) جاری ہوگیا۔ اس تاریخی عمل نے وہ مواقع کھولے، جن کے ذریعہ دنیا میں تہذیبی انقلاب (civilizational revolution) آیا۔
مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں ، اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔ اس مادی تہذیب کا پیشگی حوالہ قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ُ (41:53) یعنی مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے، اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔
یہاں آیات سے مراد وہ قوانینِ فطرت ہیں ، جو تخلیقی طور پر اس دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ ’’ہم نشانیاں دکھائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کچھ انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ فطرت کے مخفی قوانین (hidden laws of nature) کو دریافت کریں ، اور اس طرح دینِ خداوندی کی تائید (support) کے لیے ایک عقلی بنیاد (rational base)فراہم ہو۔ اس تہذیب نے انسانی دنیا اور مادی دنیا میں چھپی ہوئی جن حقیقتوں کو دریافت کیا ہے، وہ دین خداوندی کی حقانیت کی تصدیق کرنے والی ہیں ۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realisation) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلیٰ ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) دیا۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکے، اور اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔
مخلوق کامل
انسان کو ایک مکمل مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو بے شمار صلاحیتیں دی گئی ہیں ۔ مگر یہ صلاحیتیں اس کو بالقوۃ (potential) کی صورت میں دی گئی ہیں ۔ ان بالقوۃ صلاحیتوں کو بالفعل (actual) میں بروئے کار لانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) کی صورت میں ڈیولپ (develop)کرے۔ سیلف ڈیولپمنٹ (self-development)کے اس عمل (process) میں انسان کومعلوماتی تائید کی ضرورت تھی۔ مادی تہذیب نے فطرت (nature)کی حقیقتوں کو دریافت کرکے انسان کو یہی تائید (support) فراہم کی ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہیں ، وہ غیر متعلق سرگرمیاں ہیں ۔ یہ گویادرمیانی جدو جہد کے دور کو تکمیل کے دور میں دوبارہ غیر ضروری طور پر زندہ کرنا ہے۔ موجودہ دور سے پہلےدو فریق ہوا کرتے تھے، دوست اور دشمن۔ لیکن اب یہ ثنائیت (dichotomy) بدل چکی ہے۔ اب دنیا میں صرف دوست اور مؤید (friend and supporter)موجود ہیں ۔اب اہل اسلام کا کام تکمیل کے مثبت مواقع کو اویل (avail) کرنا ہے، نہ کہ دور جدو جہد کے واقعات کا غیر ضروری طور پر اعادہ(repeat) کرنا، جس سے مسائل میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں ۔
روحانی سماج
تخلیق کا اصل مقصود انسان ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران جو چیزیں وجود میں آئیں ، وہ سب صرف اس لیے تھیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو کامیابی کے ساتھ طے کرسکے۔ اس پورے عمل (process) کے ذریعہ جو آخری چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ ایک اعلیٰ درجے کا روحانی سماج (spiritual society) بنے، جو اُس معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہو جس کو جنت (Paradise) کہا گیا ہے۔جنت ایک پر فکٹ دنیا (perfect world) ہے، جو ان انسانوں کی آباد کاری کے لیے بنائی گئی ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل (competent) ثابت کریں ۔
دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جیسا چاہے، ویسا بنائے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں اعلیٰ معیار کا روحانی سماج نہیں بن سکتا۔ یہاں صرف اعلیٰ معیار کے روحانی افراد بن سکتے ہیں ۔ تخلیقی منصوبے کے مطابق جو بات ہونے والی ہے، وہ یہ کہ پوری انسانی تاریخ کے خاتمے پر اعلی درجے کے روحانی افراد کو منتخب کرکے انھیں ابدی جنت میں بسنے کا موقع دیا جائے،اور باقی لوگوں کو چھانٹ کر ان سے الگ کردیا جائے۔
اس اعلیٰ درجے کے روحانی سماج میں کون لوگ شامل ہوں گے، ان کا ذکر قرآن میں چار گروہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔ یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔
اس اعلیٰ سماج کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حسن رفاقت کا سماج ہوگا۔ وہاں کوئی انسان دوسرے انسان کے لیے کوئی مسئلہ (nuisance) پیدا نہیں کرے گا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا بہترین ساتھی ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہوگا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا سچارفیق ہوگا، کوئی انسان دوسرے انسان کا حریف نہ ہوگا۔ ہر انسان اعلیٰ اخلاقی اقدار (high moral values) کا حامل ہوگا۔ ہرانسان کامل درجے میں سچائی اور دیانتداری (honesty) کی صفات سے متصف ہوگا، وغیرہ۔
اس تخلیق کے مطابق جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے چاہا کہ وہ اعلیٰ درجے کی ایک دنیا بنائے۔ اسی اعلیٰ درجے کی دنیا کا نام جنت (Paradise) ہے۔ اس تخلیق کا نقشہ اس اعتبار سے بنایا گیا، جو اعلیٰ درجے کے مطلوب انسان کو وجود میں لانے میں مددگار ہوسکے۔ چوں کہ یہ انسان وہ تھے جو سیلف میڈ مین (self-made man) کے معیار پر پورے اترے۔ اس لیے اس تخلیقی منصوبہ کے مکمل ہونے میں تقریبا تیرہ بلین سال لگے۔ اس تخلیقی مدت کو اس طرح بنایا گیا کہ انسان اپنی عقل (reason) کو استعمال کرکےان کو اپنی تعمیر شخصیت کے لیے استعمال کرسکے۔
دعوت، اکیسویں صدی میں
خالق کی تخلیقی اسکیم (creation plan) ہمیشہ سے ثابت شدہ حقیقت تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا ہے۔ جب کہ نظری حقیقتیں ، مادی حقائق کی روشنی میں قابل فہم (understandable) بن گئیں ۔ مثلا غیب پر ایمان قدیم زمانے میں ایک عقیدہ کی بات تھی۔ موجودہ زمانے میں کوانٹم فزکس (quantum physics) کی دریافت کے بعد یہ صرف نظری بات نہ رہی، بلکہ پرابیبيلٹی (probability) کے درجے میں تقریباً قابل یقین حقیقت بن گئی۔ پرابیبلٹی جدید سائنس کا ایک اہم اصول ہے۔ کہا جاتا ہے:
probability is less than certainty, but it is more than perhaps
موجودہ زمانے میں جن چیزوں کو سائنسی حقیقت (scientific fact) کہا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک پرابیبيلٹی کے درجے میں مسلمہ حقیقت بنی ہیں ، نہ کہ مشاہدہ کے درجے میں ۔ یہی معاملہ مذہبی عقائد یاتصورات کا ہے۔ اِس زمانے میں مذہبی تصورات اسی تسلیم شدہ درجے میں ثابت شدہ بن چکے ہیں ، جس درجے میں مسلّمه سائنسی حقائق ۔
فائنل رول
تخلیقی نقشہ کے مطابق، تاریخِ انسانی میں ایک فائنل رول مقدر ہے۔ یعنی آخرت کے ظہور سے پہلے حقیقت کا ایک آخری اعلان۔ یہ آخری اعلان خدا کی توفیق سے ایک ایسا گروہ انجام دے گا، جو پورے تاریخی پراسس کی آخری پیداوار ہو، جو تخلیقی ارتقا کے آخر میں وجود میں آیاہو، جس پر پوری تاریخ منتہی ہوئی ہو،جو ماضی اور حال کے تمام تاریخی ڈیولپمنٹ (historical development) کا مثبت شعور رکھتا ہو۔
یہ وه گروہ ہوگا جو انساني تاریخ کے آخری پیراگراف کو لکھے گا۔ جو اپنے آفاقی شعور کي بنا پر اِس قابل ہوگا کہ انسانیت کے لیے حجت بن جائے۔ جو تمام مواقع (opportunities) کو مثبت طور پراستعمال کرے،اور پھر خدائی سچائی کا وہ عالمی اعلان کرے، جس کے بعد کوئی انسان بےخبری کا عذر پیش نہ کرسکے۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث میں عالمی ادخال کلمہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں لا يبقى على ظهر الأرض بيت مدر، ولا وبر إلا أدخله الله كلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ يعني روئے زمين پر كوئي بھي چھوٹا يابڑا گھر باقي نهيں رهے گا، جس ميں الله اسلام كا كلمه نه داخل كردے۔
اصحابِ رسول کا رول
پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی هے: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (48:29)۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں ۔ تم ان کو رکوع میں اور سجدہ میں دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں ۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے سجدہ کے اثر سے، ان کی یہ مثال تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ اور موٹا ہوا، پھر اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا، وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے تاکہ ان سے منکروں کو جلائے۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔
اس آیت میں اصحاب رسول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ منکروں پر شدید ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ منکروں پر سخت گیر ہوتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ منکروں کا اثر قبول نہیں کرتے۔ یعنی وہ مضبوط سیرت (strong character) کے لوگ ہیں ۔ ان کی یہ صفت ان کو اس کمزوری سے بچاتی ہے، جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ، 9:30) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے دین کے معاملے میں خارجی کلچر کا اثر قبول کرلینا۔
پھر اصحاب رسول کی یہ صفت بیان کی گئي هے کہ وہ آپس میں مہربان ہیں ۔ یہ اخلاقی برتاؤکی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد ان کا طاقت ور باہمی اتحاد ہے۔ وہ کسی اختلاف کو شکایت (complaint) کامعاملہ نہیں بناتے، بلکہ اس کو نظر انداز کرکے ، اپنے متحدہ جد و جہد کو پوری طرح باقی رکھتے ہیں ۔ کوئی ناموافق بات کبھی ان کے باہمی اتحاد کو توڑنے والی نہیں بنتی۔
اس کے بعد تراھم الخ کا جملہ ہے۔ یہ جملہ ان کی داخلی ربانی حالت کو بتاتا ہے۔ ان کا یہ ربانی مزاج اس بات کا ضامن ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا والے راستے پر قائم رہیں ۔ ان کی داخلی اسپرٹ کبھی کمزور نہ ہونے پائے۔ اصحاب رسول کی صفت پیشگی طورپر تورات میں بتادی گئی تھی۔موجودہ تورات میں اس کے لیے دس ہزار قدوسیوں (ten thousand saints) کا لفظ موجود ہے (استثناء33:2:) ۔
انجیل کی تمثیل میں اصحاب رسول کا ایک مزید رول یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ میں ایک زرع یا بیج (seed)ڈالنےكا کام کریں گے، جو آخر کار بڑھ کر ایک مکمل درخت بن جائے گا۔ یہاں تمثیل کی زبان میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اصحاب رسول اپنی غیر معمولی جدو جہد کے ذریعے انسانی زندگی میں ایک تاریخی عمل (historical process) جاری کریں گے، جو آخر کار ایک عظیم انقلاب تک پہنچے گا۔ اس انقلاب کے دو خاص پہلو تھے۔ان دونوں پہلووں کو قرآن میں اختصار کی زبان میں بتایا گیا ہے۔
صحابہ اور تابعین کے اس رول کو قرآن کی درج ذیل آیت کامطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے: الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22:41)۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں قدرت دیں تو نماز پڑھیں ، زکوٰۃ دیں ، نیک کام کرنے کا حکم دیں ،برے کاموں سے منع کریں ، اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
قرآن کی اس آیت میں تمکین فی الارض سے مراد سیاسی استحکام (political stability) ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صحابہ اور تابعین کی جماعت کو جب پولیٹکل استحکام ملا تو اس کو انھوں نے انھیں مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ مقاصد تین تھے— عبادت، زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ یہاں ان تینوں سے مراد انفرادی عمل نہیں ہے، بلکہ اجتماعی زندگی میں ان کا نظام قائم کرنا ہے۔
عبادت سے مراد مسجد کا نظام اور حج کا نظام قائم کرنا ہے۔ نیز اس میں دینی تعلیم کا نظام بھی توسیعاً شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی استحکام کو انھوں نے کسی سیاسی نشانہ (political goal) کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اہل ایمان کی دینی زندگی کو منظم صورت میں قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم میں زکوۃ کا نظام بھی شامل ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مراد کوئی سیاسی نظام نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کے تقاضوں کو منظم انداز (organised way) میں انجام دینا۔ مثلا قرآن کو محفوظ کرنا، حدیث کی جمع و تدوین، اسلامی فقہ کو مرتب کرنا، اور دوسرے ان غیر سیاسی کاموں کو انجام دینا، جس کے نتیجےميں بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کا ایک منظم دینی ڈھانچہ قائم ہوا۔ اور جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں عملا ًموجود ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اجرِ عظیم ( great reward) سے مرادثوابِ عظیم نہیں ہے، بلکہ نتیجہ عظیم ہے، جو بعد کی تاریخ میں پیش آیا۔اس عظیم نتیجہ کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔
صحابہ اور تابعین کی کوششوں سے اسلام کا مکمل اظہار ہوا۔ لیکن یہ اظہار روایتی دور (traditional age) کے اعتبار سے تھا۔ اسلام کا ایک اور اظہار ابھی باقی تھا۔ اور وہ تھا عقلی فریم ورک (rational framework) کے مطابق، اسلام کا اظہار۔ اس مقصد کے لیے تاریخ میں ایک نیا انقلاب لانا ضروری تھا۔ یہ انقلاب وہی ہے جو بعد کے دور میں سائنٹفک انقلاب (scientific revolution) کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یعنی فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرنا۔اور اس کے مطابق، تاریخ میں ایک نیا دور لانا۔ یہ دور عملاً وہی ہے جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔
اس دوسرے دور کا آغاز مسلمانوں نے اپنے سياسي استحكام كے دور میں کیا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں مغربی قوموں کے ذریعے انجام پائی۔ اس انقلاب کا پراسس مسلم عہد میں شروع ہوا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں جدید تہذیب (modern civilization) کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی۔
دوسری قوموں کے ذریعے اس کام کا انجام پانا، احادیثِ رسول میں پیشگی طور پر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں ، ان میں سے ایک روایت یہ ہے إن الله عز وجل ليؤيد الإسلام برجال ما هم من أهله (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر56)۔ یعنی اللہ اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔ جدید تہذیب جس کو مغربی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ حقائقِ فطرت کے انکشاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی زبان میں اس کو آفاقی تہذیب (فصلت، 41:53) کہا جاسکتا ہے۔ اس تہذیب میں اگر بعض غیر مطلوب اجزاء شامل ہیں ، تو وہ براہ راست طور پر تہذیب کا حصہ نہیں ہیں ، بلکہ وہ مغربی کلچر کا حصہ ہيں ۔ مثلاً برہنگی (nudity) وغیرہ۔
اصحابِ رسول، اخوان رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: وددت أنا قد رأينا إخواننا قالوا:أولسنا إخوانك يا رسول الله قال:أنتم أصحابي وإخواننا الذين لم يأتوا بعد (حدیث نمبر249)۔ یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں ، لوگوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ۔ آپ نے کہا تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
اصحاب رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہل ایمان ہیں ۔ اور اخوان رسول سے مراد آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں ، جو بعد کے زمانے میں ظاہر ہوں گے۔اس حدیث رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک تاریخی واقعہ کو بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اظہار دین کا مشن تھا۔ اس مشن کے دو دور تھے۔ پہلا دور یہ تھا کہ اسلامی مشن کے راستے میں رکاوٹوں کو ختم کرکے مواقع (opportunities) کے دروازوں کو کھولنا، اور دوسرا دور یہ تھا کہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال (avail) کرکے اسلام کا عالمی اظہار کرنا۔
پہلے دور کو حدیث میں تمثیل کی زبان میں اول المطر(first period of rain) کہا گیا ہے، اور دوسرے دور کو آخر المطر (second period of rain) کہا گیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن عبد الله بن عمرو؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قالمثل أمتي كمثل المطر؛ لا يدرى أوله خير أم آخره (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14649)۔عبد اللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے، یا اس کا آخر۔
صحابہ اور تابعین کے زمانے میں قدیم زمانے کی رکاوٹوں کا خاتمہ کیا گیا۔ مثلا شرک کے غلبہ کو ختم کرنا، بادشاہی نظام کو ختم کرنا، تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرنا جس کے نتیجے میں وہ واقعہ پیش آئے جس کو قرآن میں تبیینِ حق (فصلت، 41:53) کہا گیا ہے۔اسلامی مشن کے اس عالمی اظہار کو حدیث میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا یہ روایت : ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار، ولا يترك الله بيت مدر ولا وبر إلا أدخله الله هذا الدين (مسند احمد، حدیث نمبر 16957 )۔ یعنی یہ امر (دین) ضرور پہنچے گا وہاں تک جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں ۔ اللہ نہیں چھوڑے گا، مگر یہ کہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں اس دین کو داخل کردے۔
اظہار دین کا یہ عالمی مشن تاریخ کا سب سے بڑا عالمی مشن تھا۔ اس لیے اللہ نے اس مشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے تاریخ میں ایسے حالات پیدا کیے جب کہ غیر اہل دین بھی اس کے مؤيد بن جائیں ۔ اللہ رب العالمین کے اس فیصلہ کو حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے:بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ضرور ان لوگوں کے ذریعہ کرے گاجو اہل اسلام نہ ہوں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔
اکیسویں صدی عیسوی میں یہ تاریخی عمل (historical process) اپنے نکتهٔ انتہا (culmination) تک پہنچ چکا ہے۔ اب تمام مواقع آخری حد تک کھل چکے ہیں ۔ اب اہل اسلام کا ایک ہی مشن ہے، اور وہ ہے اللہ کے پیغام (قرآن ) کو پورے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کی قابل فہم زبان میں پہنچانا۔ اگر اہل اسلام کسی اور غیر متعلق کام میں اپنے آپ کو مشغول کرتے ہیں تو یہ مشغولیت ان کے لیے اس رُجز (المدثر،74:5) میں ملوث ہونے کے ہم معنی ہوگی، جس کو ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ماکان و ما یکون
ایک حدیثِ رسول سنن الترمذی اور دوسری کتب حدیث میں آئی ہے۔ احکام القرآن لابن العربی میں اس کو ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: أول ما خلق الله القلم، فقال لهاكتب، فكتب ما كان وما يكون إلى يوم الساعة، فهو عنده في الذكر فوق عرشه(احکام القرآن، بیروت، 2003،جلد4، صفحہ420 )۔یعنی اللہ نے پہلی چیز جو پیدا کی ، وہ قلم تھی۔ پھر اللہ نے اس سے کہا کہ لکھ۔ تو اس نے لکھا وہ سب کچھ جو ہوا، یا جو ہوگا قیامت تک۔ پس وہ اللہ کے پاس ذکر میں ہے، اللہ کے عرش کے اوپر۔
اس حدیث میں ’’ماکان وما یکون‘‘ سے مراد کون سے واقعات ہیں ۔ تاریخ کے تمام واقعات یا منتخب واقعات۔ تاہم اہل ایمان کے لیے اصل اہمیت ان واقعات کی ہے، جو توحید کے مشن سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس نوعیت کے واقعات کو جاننا اہل توحید کے لیے ضروری ہے۔ تاکہ ان کی رعایت کرتے ہوئےوہ اپنے دعوتی مشن کی صحیح منصوبہ بندی کرسکیں ۔ جیسا کہ ایک حدیث رسول میں آیا ہے:وعلی العاقل ان یکون بصیرا بزمانہ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔دانش مند آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دَور ہیں ۔ایک وہ جب کہ دنیا دو قسم کے لوگوں میں بٹی ہوئی تھی— مومن اور کافر یا بلیور (believer)اور نان بلیور (non-believer)۔ مگر بعد کے زمانے میں تاریخ میں جو انقلاب آئے گا۔ اس کے بعد یہ تقسیم ختم ہوجائے گی۔ اب دنیا جن دو قسم کے لوگوںمیں تقسیم ہوگی، وہ ہوں گے مومن (believer) اور موید (supporter)۔ بعد کے زمانے میں اس تبدیلی کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: إن الله عز وجل ليؤيد الإسلام برجال ما هم من أهله (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ اللہ عزوجل اسلام کی تائیدضرور ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اسلام کا حصہ نہ ہوں گے۔
بعد کے زمانے میں ہونے والی اس تبدیلی کا مطلب یہ ہوگا کہ عملاً اب جنگ کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ بعد کے اس دور میں بھی اگر اہل ایمان جہاد کے نام پر جنگ کا سلسلہ جاری رکھیں ، تو یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین کے مؤیدین سے جنگ کے ہم معنی ہوگا۔
یہی مطلب ہے اس آیت کا جس میں کہا گیا ہے کہ دین سب اللہ کے لیے ہوجائے گا(الانفال، 8:39)۔ یعنی ایک ایسی دنیا جس میں مومن اور کافر کی تقسیم ختم ہوجائےگی۔ اس کے برعکس، دنیا میں مومن (believer) اورمؤید (supporter) کی تقسیم قائم ہوجائے گی۔
ایک جلد میں موجود انسائیکلوپیڈیا میں سے ایک وہ ہے جس کا نام ہے:
Pears'’ Cyclopaedia , London
اس انسائیکلوپیڈیا میں مونوتھیزم کے آگے لکھا ہوا ہے کہ توحید اس اصول کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ خاص توحیدی مذہب عیسائیت ہے
MONOTHEISM, the doctrine that there exists but one God. The Chief monotheistic religion is Christianity.
یہ انسائیکلوپیڈیا کا وہ اڈیشن ہے جو 1948 میں چھپا تھا۔ پہلے مغربی دنیا میں جو لٹریچر تیار ہوا، اس میں اسی طرح اسلام کو حذف کردیا گیا تھا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے بلاشبہ تمام مذاہب توحید کے مذاہب تھے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خالص توحیدی مذہب اسلام ہے۔ کیوں کہ دوسرے مذہب اپنی ابتدائی حالت میں باقی نہیں رہے ہیں ۔
مغربی علماء نے اب اپنی اس روش پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔ چنانچہ 1977 میں شائع ہونے والی ایک انسائیکلوپیڈیاCollins Concise Encyclopaedia:میں اس سلسلہ میں لکھا گیا ہےکہ توحید اس عقیدہ کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے، جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت اور اسلام میں مانا جاتا ہے
MONOTHEISM, belief that there is only one God, as in Judaism, Christianity, and Islam.
(ڈائری، 1985)
دورِ تائید
قرآن میں ایک حکم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّه (8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ معروف جنگ کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ انتہائی جد و جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہے۔ چوں کہ آپ کی زندگی میں عملا ًجو کچھ پیش آیا وہ یہی تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی کامل جنگ (full-fledged war) نہیں کی۔ آپ کے مخالف گروپ نے کئی بار آپ پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں الجھانے کی کوشش کی۔ مگر آپ نے ہمیشہ یہ کیا کہ خصوصی تدبیر کے ذریعہ یا تو جنگ کو عملا ًہونے نہیں دیا، یا اس کو جنگ کے بجائے جھڑپ (skirmish) بنا دیا۔ اس معاملے میں آپ کی زندگی مذکورہ قرآنی آیت کی عملی تفسیر ہے۔
پيغمبر اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ مکہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن آپ نے مکہ سے ہجرت کرکےقتل و قتال کو عملا ًناممکن بنا دیا۔ غزوۂ احزاب کے موقع پرآپ کے مخالفین نے بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا۔ مگر آپ نے اپنے اور فریق مخالف کے درمیان خندق کی صورت میں ایک حاجز (buffer) قائم کردیا۔ حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی نے جنگ کی صورت پیدا کردی، لیکن آپ نے یک طرفہ صلح کرکے جنگ کو ہونے سے روک دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر جنگ یقینی تھی، لیکن آپ نے خصوصی تدبیر کے ذریعہ اس کو پُر امن مارچ (peaceful march) میں بدل دیا، وغیرہ۔
دورِ تائید کا آغاز
قدیم زمانے میں جنگ بہت عام تھی۔ قبائل کے درمیان جنگ، بادشاہوں کے درمیان جنگ، وغیرہ۔ لوگ مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے— جنگ کا طریقہ ۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو اس معاملے میں ایک صراطِ مستقیم (الفتح، 48:2) کی طرف رہنمائی کی ۔ یعنی جنگی ٹکراؤ کے بجائے پر امن تدبیر (peaceful management)کے ذریعے مسائل کو حل کرنا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے اس تدبیر کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا کہ تاریخ میں نیا دور آگیا، یعنی ٹکراؤ کے بجائے تائید کا دور ۔ اس مقصد کے لیے ساتویں صدی عیسوی میں ایک منصوبہ بند عمل کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل (process) انیسویں صدی میں اپنی تکمیل (culmination) تک پہنچ گیا۔ اس تکمیلی مرحلہ کو ایک لفظ میں جدید تہذیب (modern civilization) کہا جا سکتا ہے۔ جدید تہذیب اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔
اس دورِ تائید کو قرآن میں لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (9:33) کے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔ یعنی دین سے تعلق رکھنے والے تمام اسباب دینِ خداوندی کے موافق ہو جائیں ۔ دینِ خداوندی اور دینِ انسانی میں ٹکراؤ کی صورت عملاً ختم ہوجائے۔یہ انسانی تاریخ کا ایک عظیم منصوبہ تھا۔ اللہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ اہلِ ایمان کی جماعت کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس میں موید (supporter) بن گئے۔ یہ پیشین گوئی زیادہ واضح الفاظ میں حدیث کی مختلف کتابوں میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے
1۔ إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (۔ صحیح البخاری ،حدیث نمبر3062)۔
2 ۔ إن الله عز وجل ليؤيد الإسلام برجال ما هم من أهله (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر56)۔
3۔ إن الله سيؤيد هذا الدين بأقوام لا خلاق لهم (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔
4۔ ليؤيدنّ الله هذا الدين بقوم لا خلاق لهم (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4517)۔
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل دین میں سے نہ ہوں گے۔وہ اس کام کو ڈیو لپمنٹ (development) کے نام سے انجام دیں گے۔ لیکن عملاً ان کی پیدا کردہ دنیا تائیدی معنوں میں پرو اسلام (pro-Islam) بن جائے گی۔
موجودہ زمانےمیں یہ واقعہ کامل طور پر انجام پاچکا ہے۔ وہ چیز جس کو مسلمان عام طور پر اسلامو فوبیا (Islamophobia) کہتے ہیں ۔ وہ دراصل پرو اسلام ظاہرہ (pro-Islam phenomenon) ہے۔ لیکن مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر ایک مثبت واقعے کو منفی واقعے کے طور پر لیے ہوئے ہیں ۔ اس منفی طرز فکر نے مسلمانوں کو بیک وقت دو نقصان پہنچائے هيں ۔ ایک یہ کہ وہ دورِ حاضر میں بے جگہ کمیونٹی (displaced)بن گئے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ جدید مواقع (modern opportunities) کو اسلام کے حق میں استعمال کرنے میں عملاً ناکام رہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغربی قومیں براہ راست معنوں میں اسلام کے حق میں تائیدی رول انجام دے رہی ہيں ۔ ایسا ہونا غیر فطری ہے۔ اس قسم کا تائیدی رول کبھی کوئی کمیونٹی کسی دوسری کمیونٹی کے لیے انجام نہیں دیتی۔اصل یہ ہے کہ ’’غیر اہلِ دین‘‘کا یہ تائیدی رول براہِ راست طور پر نہیں ، بلکہ بالواسطہ طور پر انجام پایا ہے۔
موجودہ زمانے میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) ہوا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا جس کو کثیر پیداوار (mass production)کا ظاہرہ کہا جاتا ہے۔ نئے صنعتی نظام کے تحت چیزیں اتنی بڑی مقدار میں تیار ہونے لگیں ، جن کی کھپت مقامی طور پر ناممکن تھی۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹ کا نیا تصور پیدا ہوا۔ چیزوں کو کمرشیل نظریے کے تحت تیار کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا، جو قدیم زمانے میں موجود نہ تھا۔ قدیم زمانے میں ایک مراعات یافتہ طبقہ (privileged class) موجود ہوتا تھا۔ مثلا ًبادشاہ اور لینڈلارڈ، وغیرہ۔ صرف یہی لوگ بڑی چیزوں کو حاصل کرسکتے تھے۔ موجودہ زمانے میں جو کمرشیل انقلاب آیا، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ہر چیز ہر ایک کے لیے (everything for everyone)کا کلچر رائج ہوگیا۔اب ہر چیز ہر ایک کے دسترس میں ہوگئی۔ یہ چیز پہلے کبھی دنیامیں موجود نہ تھی۔
مثلاً پہلے زمانے میں کوئی بڑی سواری صرف بادشاہ کے لیے ممکن تھی۔ اب ہر آدمی کار اور ہوائی جہاز استعمال کررہا ہے۔ پہلے زمانےمیں پیغام رساں کبوتر (homing pigeon)کسی بہت بڑے آدمی کے لیے قابل استعمال ہوا کرتا تھا۔ مگر آج ہم ایج آف کمیونی کیشن کے زمانے میں ہیں ۔ اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ٹکنالوجی کا استعمال کرکےپیغام رسانی کا بڑے سے بڑا مقصد حاصل کرسکے، وغیرہ، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں یہ واقعہ بہت بڑے پیمانے پر انجام پایا۔ یہ گویا مواقع کے انفجار (opportunities explosion) کا زمانہ ہے۔اب ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے بڑے سے بڑا کام انجام دے سکے۔ یہی امکان پوری طرح اہلِ ایمان کے لیے کھلا ہوا ہے۔ عمومی طور پر پیدا ہونے والا یہ امکان تاریخ کا بالکل نیا ظاہرہ ہے۔یہ نیا ظاہرہ گویاتائیدي کلچر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں اس کو چار سو ہاتھی کا تحفہ دیا تھا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیےگئے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ ميں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں ، اور نہ ہاتھی۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتا ہے۔ ایک جگہ جہاں آج’’جنگل‘‘ نظر آتا ہے، وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، وہاں جب کل کا سورج نکلتا ہے ہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں ۔
زمانے کے اس بدلتے ہوئے روپ میں بے شمار نشانیاں ہیں ۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ، جو ان کی گہرائیوں میں جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں (ڈائری، 1985)
قتال، جہاد
قتال اور جہاد کا حکم اسلام میں کیا ہے۔ اس معاملے میں فقہاءاسلام كے مسلک كوسعودی عالم محمد بن ابراہیم التویجری نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں ، جہاد اور قتال۔ جہادسے مراد جہاد دعوت ہے اور وہ حسن لذاتہ ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال حسن لغیرہ ہے۔ اس کا مقصدلڑ کر فتنہ کو ختم کرنا ہے۔کیوں کہ اس سے دعوت کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔)دیکھیے: موسوعة الفقه الإسلامي، محمد بن إبراهيم التويجري، بیت الافکار الدولیہ، 2009، جلد 5 صفحہ450(
اس کا مطلب یہ ہےکہ اسلام میں قتال کا حکم ایک موقت (temporary) حکم ہے، اور جہاد کا حکم ایک مستقل حکم۔ قتال فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ہے (البقر،2:193، الانفال،8:39)۔ جب فتنہ ختم ہوجائےتو قتال کا حکم بھی موقوف ہوجائے گا۔ اس کے مقابلے میں جہاد برائے دعوتِ قرآن (الفرقان،25:52)هے۔جہاد برائے قرآن یا برائے دعوت الی اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔یہی پر امن دعوت تمام انبیاء کا مشن تھا۔ یہ کبھی موقوف ہونے والا نہیں ۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر کا کام انذار و تبشیر (النساء،4:165) تھا۔ یعنی پرا من انداز میں دعوتِ توحید کا کام انجام دینا۔ یہی کام پیغمبر کے بعد پیغمبر کی امت کا ہے۔ یہ ایک پرامن دعوتی جدو جہد ہے جو قیامت تک کسی توقف کے بغیر جاری رہے گی۔ قیامت کے سوا کوئی بھی دوسری چیز اس کو ختم کرنے والی نہیں ۔
اصل یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا، اور اس کے بعد داعیانِ توحید کو کھڑا کیا جو ہمیشہ پرامن انداز میں انسان کو اس کا مقصد حیات (purpose of creation) بتاتے رہے۔ مگر بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ دنیا میں جبر (despotism)کا نظام قائم ہوگیا۔ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، یہ مطلوب ہے کہ انسان کے لیے مذہب کے معاملہ میں ہمیشہ آپشن (options) کھلے رہیں ۔ لیکن جبر کے تحت یہ آزادی دنیا میں باقی نہ رہی۔ انسان کو پابند کردیا گیا کہ وہ حکمراں کے عقیدہ (belief) کو مانے، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس صورتِ حال کی بنا پر دنیا سے مذہبی آزادی کا خاتمہ ہوگیا،اور ساری دنیا میں مذہبی جبر (religious persecution) کا دور قائم ہوگیا۔ یہ صورتِ حال خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف تھی۔ اس لیے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّه(8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔
قرآن کی اس آیت ميں فتنہ سے مراد قدیم مذہبی جبر کا نظام ہے، جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق نہ تھا۔ قرآن نے اپنے پیرؤوں کو یہ حکم دیا کہ ہزاروں سال سے قائم شدہ اس مذہبی جبر کے نظام کو ہر حال میں ختم کردو، خواہ اس کے لیے تم کو جنگ کرنا پڑے۔ اس جنگ کا نشانہ صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عقیدہ (belief) کے معاملے میں انسان کے لیے تمام آپشن (options) کھل جائیں ۔ اس معاملے میں انسان کے لیے کوئی جبر باقی نہ رہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ یہ آپریشن (operation) شروع ہوا، اور انہیں کے زمانہ میں اس آپریشن کا بڑا حصہ انجام پا گیا۔ پہلے قبائلی نظام (tribal system) ختم ہوا۔ اس کے بعد وقت کے دو بڑے ایمپائر ، ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کا خاتمہ ہوگیا، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی جبر کے نظام کے دو بڑے مرکز بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے مسلسل طور پر تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1789 ءمیں وہ واقعہ پیش آیا جس کو انقلاب فرانس (French Revolution) کہا جاتا ہے۔ انقلابِ فرانس گویا ختم فتنہ کے عمل (process)کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اب قتال کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اب اہل توحید کو صرف پرامن دعوت کا کام کرنا ہے۔
مسلمانوں کی بعد کی تاریخ میں اس معاملے میں ایک فکری تبدیلی پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ عمومی طور پر قتال و جہاد کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ بلاشبہ ایک فکری انحراف تھا۔ اس فکری انحراف کی بنا پر یہ نقصان واقع ہوا کہ قتال ایک مستقل عمل کے طورپر مسلمانوں کے درمیان جاری ہوگیا، اور دعوت الی اللہ جو اصل مقصود تھا، وہ عملاً پس پشت پڑگیا۔ مسلمانوں کے درمیان انحراف کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بظاہر اگر کچھ لوگ تم کو اپنے دشمن نظر آئیں تو اپنے حسن اخلاق سے ان کو اپنا دوست بناؤ (فصلت،41:34)۔مگر بعد کے زمانے میں جب قتال کو جہاد کے معنی میں استعمال کیا جانےلگا تو صورت حال بدل گئی۔ اب مسلمانوں میں ہم اور وہ (we and they) کا تفریقی کلچر فروغ پانے لگا۔ اب مسلمانوں میں ایک نئی تفریق وجود میں آئی۔ اس تفریق کے تحت، کچھ لوگ اپنے تھے اور کچھ غیر تھے، کچھ مومن تھے اور کچھ کافر، کچھ دوست تھے اور کچھ دشمن۔ اس تفریق کی بنا پر مسلمانوں میں عدم برداشت (intolerance) کا کلچر پیدا ہوا۔ یہ کلچر بڑھتے بڑھتے جنگ اور خودکش بمباری (suicide bombing) تک پہنچ گیا۔
مسلمانوں کے درمیان یہ صورت حال، بلاشبہ ایک مہلک صورت حال ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان اجتماعی توبہ (النور،24:31)کریں ۔ وہ پرتشددقتال کے کلچر کو مکمل طور پر چھوڑ دیں ، اور پرامن دعوت کے کلچر كو پوری طرح اختیار کرلیں ۔ اس اجتماعی توبہ میں مسلمانوں کے لیے دنیا کی فلاح بھی ہے، اور آخرت کی فلاح بھی۔
معاونِ اسلام تہذیب
قدیم یونانی تہذیب سے لے کر جدید مغربی تہذیب (western civilization) تک تقریباً 100 سو تہذیبیں دنیا میں پائی گئی ہیں ۔ مگر جدید مغربی تہذیب ایک منفرد تہذیب ہے۔ بقیہ تمام تہذیبیں سیاسی انقلاب کے تحت وجود میں آئیں ۔ جب کہ جدید مغربی تہذیب استثنائی طور پر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کے تحت وجود میں آئی۔ قدیم تہذیبوں کے بانی سیاسی حکمراں ہوا کرتےتھے۔ مگر جدید مغربی تہذیب کو وجود میں لانے والے وہ لوگ ہیں ، جن کو سائنسداں (scientists) کہا جاتا ہے۔
تہذیب کی تاریخ میں اسلامی تہذیب یا مسلم تہذیب کا نام بھی آتا ہے۔ مگر باعتبارِ حقیقت یہ درست نہیں ۔جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی تہذیب نہ تھی، بلکہ وہ قدیم یونانی یا رومی تہذیب کی توسیع (expansion) تھی:
What is called Islamic civilization was in fact a modified version of Greco-Roman civilization
تہذیب (civilization) کےلیے موجودہ عرب دنیا میں حضارۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے دونوں مصادر (sources)، قرآن اور حدیث اس لفظ سے خالی ہیں ۔ قرآن و سنت میں اسلامی حضارۃ (civilization) کا تصور موجود نہیں ۔ علمائے متقدمین کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اسلامی حضارۃ کے موضوع پر پائی نہیں جاتی۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلامی حضارۃ ایک مبتدعانہ تصور ہے ۔اس اصطلاح کا ماخذ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ، 9:30) کہا گیا ہے۔
اس موضوع پر مزید غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اسلامی تہذیب کا تصور موجود نہیں ہے۔ البتہ اسلام میں اسلام کی موید تہذیب (supporting civilization) کا تصور موجود ہے۔ یہ تصور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول سے اخذ ہوتا ہے۔ یہ روایت حدیث کی کتابوں میں مختلف الفاظ میں موجود ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں إن الله سيؤيد هذا الدين بأقوام لا خلاق لهم (حدیث نمبر 20454)۔یعنی مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جن کا (دین میں ) حصہ نہ ہو گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ایک پیشین گوئی (prediction) تھی۔ یہ پیشین گوئی آپ نے ساتویں صدی عیسوی میں کی۔ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں ، جب کہ اس پیشین گوئی کو چودہ سوسال سے زیادہ گزرچکے ہیں ۔ اتني لمبی مدت یہ یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ اب یہ پیغمبرانہ پیشین گوئی یقینی طور پر پوری ہوچکی۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اس کو دریافت کریں ، اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں ۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کی مذکورہ پیشین گوئی اب پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس سے بے خبر ہیں تو اس کا سبب صرف تسمیہ (nomenclature) کا فرق ہے۔ یعنی پیشین گوئی ساتویں صدی عیسوی کی زبان میں کی گئی، اب وہ آج کی زبان میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔ زبان کے اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو چیز مستقبل (future)کا واقعہ معلوم ہوتی تھی، وہ اب حال (present) کا واقعہ بن چکی ہے۔ یہاں اس سلسلے میں چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں ، جس سے یہ بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ کے زمانے میں جب قرآن اترا ، اس کی ایک آیت یہ تھی: وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (10:61)۔ یعنی اور تیرے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز غائب نہیں ، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔
ساتویں صدی میں جب یہ آیت اتری اس وقت انسان جانتا تھا کہ اس دنیا میں سب سے چھوٹی چیز ذرہ ہے۔ مگر 1911میں برٹش سائنٹسٹ ارنسٹ ردر فورڈ (Ernest Rutherford) کی دریافت سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں ذرہ سے بھی چھوٹی ایک چیز موجود ہے، جو اب سب ایٹمک پارٹکل (sub-atomic particle) کے نام سے عالمی طور پر معلوم ہوچکی ہے۔
تائید کا معاملہ
اسلامی تہذیب اور مؤید اسلام تہذیب کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر آدمی کے مزاج سے ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصور قدیم زمانہ میں موجود نہ تھا۔ یہ صرف موجودہ زمانہ میں ابھرا ہے۔ بظاہر یہ مسلم فخر کا ایک معاملہ تھا۔ مگر عملاً وہ غلط فکر کا معاملہ بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوا جو مسلمان کے لیے نہایت مفید معاملہ تھا۔ یہ واقعہ مغربی تہذیب کا معاملہ تھا۔ مغربی تہذیب مسلمانوں کے لیے حدیث کی زبان میں مؤید دین تہذیب تھی۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع (great opportunity) تھا جس کو استعمال کرکے مسلمان جدید معیار کے مطابق زیادہ مؤثر انداز میں اسلام کی اشاعت کا کام کرسکتے تھے۔ مگر اسلامی تہذیب کے نام پر فخر پسندی کا مزاج مسلمانوں پر اس طرح چھا گیاکہ وہ اس حقیقت کو دریافت ہی نہ کرسکےکہ مغربی تہذیب ان کے دین کے لیے تائید کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ کی وجہ سے مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھ لیا گیا۔ جب کہ باعتبارِ حقیقت وہ ایک مؤيدِ اسلام تہذیب تھی۔ اس غلط فکر کا نقصان اتنا بڑا ہے کہ شاید پوری مسلم تاریخ میں اتنے بڑے نقصان کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں ۔
مغربی تہذیب نے تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے لیے نئے مواقع کھولے تھے۔ ان میں سب سے بڑا موقع یہ تھا کہ وہ اسلام کی عالمی دعوت کے ناتمام (unfinished) منصوبہ کو تکمیل تک پہنچاسکیں ، اور حدیث کے الفاظ میں اللہ کے کلام کو زمین پر آباد چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل کردیں ۔ مگر مسلمان اپنی غلط فکری کی وجہ سے جدید مواقع کو اپنے دین کے حق میں استعمال نہ کرسکے۔
قرآن اور عصر جدید
قرآن ساتویں صدی کے ربع اول میں اترا۔ قرآن کا مقصد انسانیت کی اصلاح تھا۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے قرآن میں جن مختلف گروہوں کوایڈریس کیا گیا ہے، وہ عملاً 4 قسم کے گروہ ہیں — یہود، عیسائی، مشرک اور کافر۔ اگر کوئی شخص قرآن کو پڑھے تو وہ پائے گا کہ یہ چاروں گروہ قرآن کی دعوت کے بارے میں منفی (negative) ذہن رکھتےہیں ۔ چنانچہ قرآن میں ان کے اوپر سخت تنقید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ان کے سخت رد عمل کی بنا پر جنگ کی نوبت آگئی۔
بعد کے زمانے کے مسلمان جب قرآن کو پڑھتے ہیں تو وہ قرآن میں ان چاروں گروہوں کا ذکر پاتے ہیں ۔ کیوں کہ چاروں گروہوں کے بارے میں ان کے عصری رویہ کی بنا پر سخت تبصرے کیےگئے ہیں ۔ قرآن کے یہ سخت تبصرے زمانی سبب (age factor) کی بنا پر ہیں ۔ لیکن مسلمان غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ طبقات آج بھی باقی ہیں ، اور ان کے بارے میں آج بھی ان کا وہی سخت رویہ ہونا چاہیے، جو رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں تھا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ وہ تمام قوموں کے خلاف لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں ۔ کبھی passive sense میں اور کبھی active senseميں ۔ وہ یہود کو مغضوب قوم سمجھتے ہیں ، نصاریٰ کو ضالَ قوم سمجھتے ہیں ، وہ مفروضہ کافروں کو جہنمی سمجھتے ہیں ، اور اس طرح مشرکوں کو اعتقادی معنوں میں سراسر باطل سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کا یہی مزاج (mindset) ہے جس نے ان کو ساری دنیا کا مخالف بنادیا ہے۔ ان کا نشانہ یہ بن گیا ہے کہ تمام قوموں سے لڑ کر ان کو مغلوب کرنا ہےاور ساری دنیا میں اسلام کا سیاسی اقتدار قائم کرنا ہے۔
مسلمانوں کی یہ سوچ تمام تر ان کی غلط فکری کا نتیجہ ہے۔ ساتویں صدی میں عرب یا اطراف عرب میں جو قومیں موجود تھیں ، وہ سب بہت پہلے ختم ہوچکیں ۔ اب ان کے نام سے جو قومیں دنیا میں موجود ہیں ، وہ خواہ نام کے اعتبار سے قدیم ہوں ، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ جدید ہیں ۔
جدید دور ایک اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا دور (age of deconditioning) ہے۔ جدید دور میں نئے افکار خاص طور پر سیکولر ایجوکیشن نے مکمل طور پر لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے۔ آج کا یہودی مختلف یہودی ہے، آج کا عیسائی مختلف عیسائی ہے۔ اس طرح آج کے مشرک مختلف قسم کے مشرک ہیں ۔ یہ قومیں اب اتنا زیادہ بدل چکی ہیں کہ ان کو وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے انھیں دوبارہ دریافت (rediscover) کیا ہو۔
قدیم زمانہ کے اعتبار سے یہ لوگ 4 مختلف قوم تھے۔ لیکن جدید زمانہ کے اعتبار سے یہ سب ایک ہی قوم ہیں ۔ سب پر ایک ہی لفظ منطبق ہوتا ہے، اور وہ ہے جدید انسانـ۔ قدیم زمانہ کے انسان کے برعکس جدید دور کے انسان کے اندر اصولی طور پر کٹرپن اور تعصب ختم ہوچکا ہے۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں ہم اور وہ (we and they) کا تصور (concept) رائج تھا۔ اب آج کی دنیا میں عمومی طور پرہم اور ہم (we and we) کا conceptرائج ہوچکا ہے۔
اس صورت حال نے قدیم مساوات (equation)کا خاتمہ کردیا ہے۔ قدیم زمانہ میں دوست اور دشمن (friend and enemy) کا تصور پھیلا ہوا تھا۔ اب یہ ثنویت (dichotomy) ختم ہوچکی ہے۔ آج دنیا میں جس مساوات کا غلبہ ہے، وہ دوست اور مؤید (supporter)کا ہے۔آج کی دنیا میں کوئی کسی کا دشمن نہیں ۔ آج کی دنیا میں کوئی شخص یا تو آپ کا دوست ہوگا، اور اگر دوست نہ ہو تو وہ آپ کا مؤید ہوگا۔ گویا جس دور کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب واقعہ بن چکی ہے۔
ان روایتوں میں مستقبل کے جس واقعہ کو دین کی نسبت سے بیان کیا گیا ہے، وہ حقیقۃً ساری انسانیت کی نسبت سے ہے۔یعنی مستقبل میں ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ دشمنی کا دور اصولی طور پر ختم ہوجائے گا۔ دور کے تقاضے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوں گے، اور اگر دوست نہ ہوں گے تو وہ امکانی طور پر ایک دوسرے کے مؤید بن جائیں گے۔
اسلام سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو کلچر رائج تھا، وہ یہ تھا ——جو میرا دوست نہیں ، وہ میرا دشمن ہے۔قدیم زمانہ زراعت (agriculture)اور کنگ شپ (kingship) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں ہر ایک کا انٹرسٹ الگ ہوتا تھا۔ گویا کہ وہ زمانہage of differing interest کا زمانہ تھا۔ اُس زمانہ میں باہمی تعلقات کا کلچر وجود میں نہیں آیا تھا۔ لوگ یا تو اپنے اپنے ذاتی دائرے میں رہتے تھے، یا میدان جنگ ( battlefield)میں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ گویا کہ اُس زمانہ میں جو رائج ثنائیت (dichotomy)تھی، وہ دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی تھی۔ یہ ثنائی کلچر مستقل طور پر دشمنی اور جنگ کا سبب بنا ہوا تھا۔ اِس ثنائی کلچر کی بنا پر دینِ حق کی اشاعت عملاً ناممکن بن گئی تھی۔ قدیم زمانہ میں جو مذہبی جبر (religious persecution)رائج ہوا،اس کا سبب یہی تھا۔
اللہ تعالیٰ کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ثنائیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ (8:39)۔ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ اس آیت میں خدا کی جس اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں حکومتِ الٰہیہ (kingdom of God) قائم کی جائے۔اس آیت میں سیاسی نظریہ کو نہیں بتایا گیا تھا، بلکہ اس میں ایک انسانی نظریہ کو بتایا گیا تھا۔ وہ یہ کہ دنیا میں ایک عالمی اصول (universal norm) کے طور پر دوست اور دشمن کی ثنائیت (dichotomy)ختم ہوجائے، اور ایک اور ثنائیت رائج ہوجائے، یعنی دوست اور مؤید کی ثنائیت۔یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اللہ بے شک اس دین کی مدد ایسے اقوام کے ذریعہ کرے گا، جو اہل ایمان میں سے نہ ہوں گے۔(المعجم الكبير للطبراني، حديث نمبر 14640)
یہ نظام تائید (order of mutual support) دنیا میں کس طرح آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظام عملاً جمہوریت (democracy) اور صنعتی تہذیب (industrial civilization) کے ذریعہ دنیا میں آچکا ہے۔ اس سیاسی اور صنعتی نظام کے بعد دنیا میں جو دور آیا ہے، وہ تمام تر باہمی مفاد (mutual interest) پر قائم ہے۔ پچھلے زمانہ میں باہمی مفاد کی حیثیت عمومی کلچرکی نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں باہمی مفاد زیادہ ضروری ہوچکا ہے ۔ اس کے بغیر نہ جمہوری سیاست دنیا میں چلائی جاسکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب قائم کی جاسکتی ہے۔
باہمی مفاد کے اس کلچر نے اب اُس چیز کو لوگوں کے لیے ایک مجبوری (compulsion) کا معاملہ بنا دیا ہے، جس کو پہلے صرف اخلاقی چیز سمجھا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دوسروں کو اپنا دشمن قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں نہ جمہوری سیاست چل سکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب وجود میں آسکتی ہے۔
زمانہ کی اس تبدیلی کی وجہ سے یہ ہوا کہ قدیم طرز کی یہ ثنائیت ایک ناممکن چیز بن گئی۔ اس اضطرار (compulsion) کی بنا پر دور جدید میں ایک نئی ثنائیت قائم ہوگئی۔ یہ نئی ثنائیت دوست اور مؤید (supporter) کے اصول پر قائم ہے، نہ کہ قدیم زمانہ کی دوست اور دشمنی کی ثنائیت پر۔
موجودہ زمانہ کے جو مسلمان دوسری قوموں کو اپنا حریف یا دشمن سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ہیں یا ان سے متشددانہ لڑائی کررہے ہیں ، وہ مؤید کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ وہ اپنے قدیم ذہن کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ آج بھی دنیا میں وہی یہود ،وہی نصاریٰ، وہی کافراور وہی مشرک ہیں ، جو پہلے تھے۔ حالاں کہ اب اصولی طور پر ان تمام گروہوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آج یہ تمام گروہ ایک عمومی کلچر کا حصہ بن کر ایک نئے قسم کے گروہ بن گئے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کا مؤید گروہ (supporter) بن گئےہیں ۔ آج ایک انسان کی شناخت (identity)مذہب پرمبنی نہیں ہے، بلکہ تائیدی کلچر پر مبنی ہے۔
وہ تائیدی دور جس کی پیشین گوئی قرآن و حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب پچھلے ہزار سالہ تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مکمل طور پر نفرت اور تشدد کا خاتمہ کردیں ۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے سیاسی مفاد یااقتصادی مفاد کو باہمی تعلقات (mutual interest) کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے ملی منصوبہ کو باہمی تعلقات (mutual interest) پر قائم کرنا چاہیے، نہ کہ باہمی ٹکراؤ کی بنیاد پر۔
قدیم تاریخ میں انسانوں کے درمیان جو ناپسندیده صورتِ حال قائم تھی، ا س کے حل کے لیے تین انتخاب (option) ممکن تھے۔ ایک یہ کہ صورت حال کو بدستور اپنی حالت پر باقی رکھا جائے۔ اس انتخاب میں اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا تھا، اور انسان کو وہ آزادی ملنے والی نہیں تھی، جو خدائی اسکیم (scheme of things) کے مطابق مطلوب تھی۔ یعنی آزادی کے ساتھ اپنے پسندیدہ مذہب یا فکر کو اختیار کرنا۔
دوسرا انتخاب یہ تھا کہ لڑکر اس صورتِ حال کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، مگر یہ انتخاب بھی غیر مفید تھا۔ کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے، وہ سرے سے قابل عمل ہی نہ تھا۔
تیسرا انتخاب وہ ہے جس کو اختیار کیا گیا، یعنی انسانی تعلقات میں ایسا کلچر رائج کیا گیا، جس میں امن ہر ایک کی ضرورت بن گئی۔ ہر ایک کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ دوسرے کی رعایت (concession) کرتے ہوئے، اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کرے، نہ کہ دوسروں سے ٹکراؤ کے ذریعہ۔ یہی وہ حکمت ہے، جو خالق نے اس معاملہ میں اختیار کی۔
ان تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں اس سلسلہ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ معاصر زمانہ کی رعایت سے تھی، وہ ابدی نہ تھی۔ قرآن کی تعلیمات کے دو حصے ہیں ۔ ایک آئڈیالوجی (ideology)، اور دوسرا ہے طریقِ کار (method)۔آئڈیا لوجی کا جو حصہ ہے، ناقابل تبدیلی ہے۔ وہ جیسا پہلے تھا، ویسے ہی اب بھی رہے گا۔ لیکن جہاں تک طريق كار کی بات ہے، اس کا تعلق زمانی اسباب (age factor) سے ہے۔ خالق نے زمانی اسباب کے معاملہ میں تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ انسان کی آزادی بھی باقی رہے، اور مسئلہ بھی انسانی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیے بغیر حل ہوجائے۔
قدیم زمانہ میں زندگی کا جو نظام رائج تھا، اس میں صرف دو چیزوں کی اہمیت ہوتی تھی زراعت (agriculture) اور بادشاہت (kingship)۔زرعی زمین کا مالک لینڈ لارڈ ہوتا تھا۔ زمین کے معاملہ میں وہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اس طرح حکومت کے معاملہ میں ساری حیثیت بادشاہ کی ہوتی تھی۔ اس نظام کے تحت قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں یک طرفہ مفاد (unilateral interest) کا طریقہ رائج تھا۔ اس لیے ہزاروں سال کے درمیان ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔
مسلم عہد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت(Byzantine Empire) کو توڑدیا گیا۔ اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔یہاں تک کہ 17ویں صدی میں مغربی یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا دور آگیا۔ یہ نیا دور باہمی مفاد کے اصول پر قائم تھا۔ اب دنیا کا نظام مشترک مفاد(common interest) کے اصول پر چلنے لگا۔ جب کہ اس سے پہلے وہ غیر مشترک مفاد (unilateral interest) کے اصول پر چل رہا تھا۔ اس نئے دور میں دوبڑے انقلابات آئے۔ ایک، جمہوریت (democracy) اوردوسرا، صنعتی تہذیب (industrial civilization)۔
اس صورت حال نے پچھلی مساواتوں (equations) کو یکسر بدل دیا۔ اب دنیا میں نئی ثنائیت (dichotomy) وجود میں آئی، تمام انسانی مفادات دو طرفہ بنیاد پر قائم ہوگئے۔ ٹیچر کا مفاد اسٹوڈنٹ سے، اور اسٹوڈنٹ کا مفاد ٹیچر سے۔ بزنس مین کا مفاد کسٹمرسے، اور کسٹمرس کا مفاد بزنس مین سے، پولیٹکل لیڈروں کا مفاد ووٹرس سے اور ووٹرس کا مفاد پولیٹکل لیڈرس سے، وغیرہ۔ اس طرح دنیا میں پہلی بار وہ دور عمومی طور پر رائج ہوا جس کو حدیث میں تائید کا دور (age of mutual support) کہا گیا ہے۔
اس نئے دور کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (41:34)۔یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
یہ تاریخ میں خدائی مینجمنٹ (divine management) کا معاملہ تھا۔ قدیم زمانے میں انسانی زندگی دوست اور دشمنی کی ثنائیت (dichotomy) پر قائم تھی۔ تاریخ میں اس نئے انقلاب کے بعد انسانی زندگی میں ایک اور ڈائیکاٹومی قائم ہوئی، جس میں دشمنی کا تصور حذف ہوچکا تھا۔ صرف دو فریق باقی تھے۔ اور وہ تھے، دوست اور مؤید (supporter)۔
قرآن میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا تھا:وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ (8:39)۔ یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں حکومتِ الٰہیہ قائم ہوجائے، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسانی زندگی میں مخاصمانہ تعلقات (relationship based on rivalry) کے بجائے مویدانہ تعلقات (relationship based on support) پر قائم ہوجائے۔ دنیا سے مذہبی استبداد ختم ہوجائے۔
آج دنیا ایک گلوبل ولیج (global village) بن چکی ہے۔ تیز رفتار کمیونی کیشن نے تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں ۔ ایک ملک کے دوسرے ملک سے مفادات وابستہ ہوگئے ہیں ۔ کسی ملک میں کوئی چیز دستیاب ہے، کسی ملک میں کوئی دوسری چیز دستیاب ہے۔ اس طرح آپسی لین دین بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ بہت بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے۔ ایسا پہلے کبھی تاریخ میں نہیں تھا۔ اس نئے سیناریو (scenario) میں تمام rivalries ختم ہوچکی ہیں ۔ اب صرف دوست اور دوست کا equation ہے۔ دوست اور دشمن کا equation ختم ہوچکا ہے۔
اس گلوبل ولیج کی ایک علامت موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر (air travel) ہے۔ قدیم بحری اور بری سفر کے برعکس ہوائی جہاز تمام ملکوں کے اوپر پرواز کرتا ہے، خواہ وہ اپنا ملک ہو یا غیر کا ملک ہو۔ اس کے نتیجہ میں انسانوں کی بنائی ہوئی تمام سرحدیں اپنے آپ ٹوٹ گئیں ۔ اب عملاً ہر انسان تمام دنیا کا شہری ہے۔ جب کہ قدیم زمانہ میں کوئی انسان صرف اپنے ملک کا شہری ہوتا تھا۔
ایجوکیشن، جاب، سیاحت، تجارت، وغیرہ کے لیے لوگ بڑی تعداد میں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں ۔ ان ممالک میں ان کو ہر طرح کی آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مذہب سے لوگوں كو آگاه کریں ، اس کی بھی آزادی ہے۔ اس نظر سے ہم دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ آج ساری دنیا ہماری دنیا ہے۔ وہ ساری حد بندیاں ٹوٹ چکی ہیں ، جو قدیم دور کا خاصہ تھیں ۔ آپ باہر جاکر تعلیم حاصل کریں ، بزنس کریں ، اپنے مذہب کی پریکٹس کریں ، اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ۔ صرف لاء اينڈ آرڈر كے ليے پرابلم بننے کی اجازت نہیں ۔ آپ پرامن (peaceful) رہ کر ہر ملک میں وہ کام کرسکتے ہیں ، جو آپ اپنے ملک میں کرسکتے ہیں ۔
یہ نیا دور جو تاریخ میں خدائی انتظام (divine management) کے تحت دنیا میں آیا ہے، وہ عین دینِ خداوندی کے حق میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس حقیقت کو سمجھے۔ وہ ہر قسم کی منفی کارروائیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دے۔ کیوں کہ امت مسلمہ کی منفی کارروائیاں محرومی (deprivation) کے اصول پر قائم تھیں ۔ اب امت مسلمہ کو اپنی منصوبہ بندی کو مکمل طو رپر یافت (gain) کے اصول پر قائم کرنا ہے۔ اب امت مسلمہ کے لیے مایوسی کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اب امت مسلمہ کو کامل امید کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ یہ منصوبہ بندی تمام تر دعوت کے اصول پر قائم ہونی چاہیے، جس کا بنیادی نشانہ ہو قرآن کی عالمی اشاعت۔
شهادت يادعوت كا مقصد يه هے كه زندگي كي حقيقت (reality of life) سے انسان كو اُس كي قابلِ فهم زبان ميں باخبر كرنا۔يعني جس شخص كے اندر طلب هو وه الله كے نقشهٔ تخليق كو جان لے، اورجس كے اندر طلب نه هو، اس پر الله كي حجت قائم هوجائے، اس كو يه موقع نه رهے كه وه آخرت كے دن يه كهه سكے كه هم كو يه خبر هي نه تھي كه خالق كا مطلوب همارے بارے ميں كيا تھا۔
سیاسی اقتدار کی نوعیت
اسلام میں سیاسی اقتدار کی اہمیت صرف ایک اعتبار سے ہے، اور وہ ہے پولیٹکل استحکام (political stability)۔ اسی کو قرآن میں تمکین فی الارض (الحج، 22:41) کہا گیا ہے۔ اسلام میں سیاسی اقتدار کا اصل مقصد عادلانہ نظام یا قوانین کا نفاذ نہیں ہے،بلکہ سماج میں استحکام قائم کرنا ہے۔ جب استحکام ہوگا تو لوگوں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں دینی کام کریں ۔ مثلاً مسجد کی صورت میں اقامتِ صلاۃ کا نظام، مدرسے کی صورت میں دینی تعلیم کا نظام، حج کی صورت میں مسلمانوں میں اجتماعیت کا نظام ، دعوت کی صورت میں اسلام کی اشاعت کا نظام، وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ دورِ اول میں جب خلافت کی جگہ خاندانی نظام (dynasty) قائم ہوگيا تو صحابہ ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر بعد کے علماء تک عملاًامت کے تمام افراد نے خاندانی نظام حکومت کو قبول کرلیا۔ کیوں کہ اس کے ذریعے سے سماج میں استحکام کا ماحول قائم ہوگیا تھا۔ اس استحکام کی بنا پر اہل ایمان کو موقع ملا کہ وہ دین کے تمام تقاضےپر امن انداز میں پورے کرسکیں ۔ مثلاًقرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کا ارتقاء، مساجد و مدارس کا نظام، عمرہ اور حج کا نظام،اسلامی علوم کی تدوین،وغیرہ۔ یہ سارے کا م پر امن ماحول میں ہزار سال تک جاری رہے۔
بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں ۔ ان تمام تحریکوں کااصل نشانہ پولیٹکل اقتدار تھا۔ سب کا کیس ظاہری فرق کے باوجود ایک ہی تھا، اور وہ ہے سیاسی رخ (political orientation) ۔ ان سب کا انجام مشترک طور پر ایک ہی ہوا، اپنے نشانہ کو حاصل کرنے میں ناکامی۔اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ جو لوگ اسلام کے نشانے کو لے کر اٹھیں ، وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہیں ۔ نشانہ پورا نہ ہونے کا معاملہ کسی غیر کی سازش کا نتیجہ نہ تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان بانیانِ تحریک نے منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا، اور خود ساختہ نشانہ لے کر اٹھ گئے۔ ایسی تحریک کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ یہ تحریکیں بظاہر اب بھی موجود ہیں تو ان سب پر یہ مثال صادق آتی ہے تاڑ سے گرا اور کھجور میں اٹکا۔ ان تمام تحریکوں نے یہی کیا کہ انھوں نے اپنے نشانے کی غلطی کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ سابق نام کے ساتھ اپنے نئے کام کو جاری رکھا۔ یہ طریقہ دو عملی کا طریقہ ہے، اور دو عملی اسلام میں بلاشبہ غیر مطلوب ہے۔
اس دور کے مسلم بانیانِ تحریک کے ساتھ بظاہر ایک ہی معاملہ پیش آیا۔ ان لوگوں کا فکر پچھلے ہزار سال کے سیاسی حالات میں بنا تھا۔ پچھلے ہزار سال کے دورا ن دنیا میں ہر جگہ پولیٹکل ماڈل کا رواج تھا۔ اس سے ان بانیانِ تحریک کے اندر پولیٹکل مائنڈ سیٹ بنا۔ انھوں نے اپنے اس پولیٹکل مائنڈ سیٹ کو درست سمجھ کر اس کے مطابق تحریک شروع کردی۔ مگر یہ خلافِ زمانہ حرکت (anachronism) کا معاملہ تھا۔ اب قدیم دور کا پولیٹکل ماڈل ختم ہوچکا تھا، نئے دور میں صرف ایک ہی ماڈل قابلِ عمل ہے، اور وہ ہے غیرسیاسی (non-political) ماڈل۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ جمہوریت (democracy) اور سیکولرزم کا زمانہ ہے۔ سیکولرزم کا مطلب ہے مذہبی ناطرف داری، اور ڈیموکریسی کا مطلب ہے ہر ایک کے لیے مکمل آزادی، ہر ایک کو مواقع کے استعمال کا یکساں حق۔ اس انقلاب سے پہلے مواقع پر صرف بادشاہ کی اجارہ داری (monopoly) ہوا کرتی تھی۔ اب یہ اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ اب نئے حالات میں تمام مواقع تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابلِ استعمال ہوچکے ہیں ۔ اب صرف ایک ہی چیز کی پابندی ہے، اور وہ ہے تشدد (violence)۔ دورِ جدید کے مسلم بانیان تحریک نے بظاہر اس راز کو نہیں سمجھا، وہ غیر ضروری طور پر اُس چیز کے لیے لڑتے رہے، جو عملاً ان کوحاصل ہو چکی تھی۔
حدیث کے مطابق، بعد کے زمانے میں اسلام کا داعی بادشاہ کی طرح (كالملوك على الأسِرّة) سفر کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2799) ۔یہاں مثل بادشاہ سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو مواقع قدیم زمانے میں بادشاہوں کے لیے خاص سمجھے جاتے تھے، وہ مواقع عام داعیان اسلام کو حاصل ہو جائیں گے۔ رکاوٹ کے بغیروہ ساری دنیا میں اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیےآزاد ہوں گے۔
عہدِ اسلام
قرآن و حدیث میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں (predictions) موجود ہیں ، جو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو زمانه آنے والا ہے، وہ اسلام کا زمانہ ہوگا۔ مثلاً ایک روایت يه ہے صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو سر لے نیچے رکھ کر لیٹےتھے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا، تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کا یہ حال تھا کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڈھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا تھا اور اس کے سر پر چلایا جاتا تھا، اور اس کو دو ٹکڑے کردیا جاتا تھا، اور(کبھی ایسا ہوتا کہ کسی آدمی کے جسم پر)لوہے کی کنگھی کی جاتی ، یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت سے بڑ ھ کر اس کی ہڈی تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر یہ چیز اس کو اس کےدین سے روکنے والی نہیں بنتی تھی۔
پھر آپ نے فرمایا: والله ليتمن هذا الأمر، حتى يسير الراكب من صنعاء إلى حضرموت، لا يخاف إلا الله، والذئب على غنمه، ولكنكم تستعجلون۔یعنی خدا کی قسم یہ امر تکمیل تک پہنچے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا، اوراپنی بکریوں پر بھیڑیے کا،مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6943)۔
یہ قولِ رسول ایک پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں جو اہلِ دین پر ظلم کیا جاتا تھا ، وہ اسلام کے بعد کی تاریخ میں اللہ کی مدد سے ختم ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قبل از اسلام کا دور، اگر مخالف اسلام دور تھا تو بعد از اسلام کا دور، موافق اسلام کا دور ہوگا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں یہ دور آیا۔ اب اس پیشین گوئی پر تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں ۔ یقینی ہے کہ یہ دور تاریخ میں آچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام اس دور کی آمد سے بے خبر ہیں ۔
اس عظیم بے خبری کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب،حدیث کے مطابق یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے اکثر لوگوں سے ان کی عقلیں چھن جائیں گی (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔اس بنا پر وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کریں ۔ عقل کیا ہے۔ عقل اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو جان سکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مصرکے سید قطب مزید تعلیم کے لیے امریکا گئے۔ وہاں وہ تین سال رہے۔ انھوں نے امریکا کے بارے ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا عربی نام یہ ہے، امریکا التی رأیت:
The America I have seen
یہ کتاب امریکا کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آدمی وہی رائے قائم کرے گاجو عام طور پر امریکا کے بارے میں عربوں کی رائے ہے۔ عرب عام طور پر امریکاکے بارے میں اپنی رائے، اس الفاظ میں بیان کرتے ہیں امریکا عدو الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ اس منفی رائے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ امریکا کو ایک غیرمتعلق پہلو سے دیکھتے ہیں ۔ جو لوگ امریکا کو اسرائیل کے زاویے سے دیکھتے ہیں ، وہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں ۔ اور جو لوگ امریکا کو اس کے کلچر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں ، وہ لوگ امریکاکو اباحیت (permissiveness )کا ملک سمجھتے ہیں ۔ مگر یہ دونوں پہلو امریکا کے غیر متعلق پہلو ہیں ۔ اس کا متعلق پہلو یہ ہے کہ امریکا میں سائنسی تحقیق (scientific research) کاسب سے زیادہ کام ہوا ہے، غیر متعلق پہلو سے دیکھنے میں امریکا ایک برا ملک نظر آتا ہے، لیکن اگر متعلق پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا انسانیت کا محسن ملک نظر آئے گا۔
انسانیت انتظار میں
20 نومبر 2016کو ہمارے ایک ساتھی دہلی ایرپورٹ پر اترے۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک جگہ کچھ ماڈرن قسم کےنوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑے ہوئے ہیں ۔ ہمارے ساتھی کے بیگ میں انگریزی ترجمۂ قرآن موجود تھا۔ وہ ان کے قریب گئے، اور ایک نوجوان کو انگریزی ترجمہ ٔ قرآن یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ آپ کے لیے گفٹ ہے۔ نوجوان نے اس کو دیکھا کہ تو وہ خوشی کے ساتھ کہہ اٹھا واؤ (wow!)۔ دوسرے نوجوانوں کو جب معلوم ہوا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم کو بھی واؤ (Wow!) کہنے کا موقع دیجیے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم قرآن کو پڑھیں اور یہ جانیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
یہ واقعہ علامتی طور پر ایک نمائندہ واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے انسان ، مرد اور عورت دونوں اپنی فطرت کے زور پر اس تلاش میں ہیں کہ وہ جانیں کہ اس دنیا کا خالق کون ہے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہمارے لیے اس دنیا میں زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں ہمیں کیا پیغام دیا ہے۔ یہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ہر مرد اور ہر عورت کے دل کی آواز ہے۔یہ صورت حال کی ایک پکار ہے۔ یہ پکار ان تمام لوگوں کو مخاطب کررہی ہے، جو قرآن کے حامل ہیں ۔ ان کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو دنیا کی تمام قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کریں ، اور اس کو لوگوں تک پہنچائیں ، تاکہ لوگ اپنی قابل فہم زبان (understandable language) میں پڑھ کر جان سکیں کہ قرآن میں ان کے لیے کیا پیغام ہے۔
ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنے ساتھ ترجمۂ قرآن کے چھپےہوئے نسخے رکھے، اور جب بھی کسی مرد یا عورت سے ملاقات ہو تو اس کو وہ ایک اسپریچول گفٹ کے طور پر پیش کرے۔ یہ حاملین قرآن کے لیے اپنی ذمہ داری کو اداکرنے کی ایک ایسی صورت ہے جو ہر ایک کے لیے پوری طرح قابل عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچانا، ہر مسلمان کے لیے ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے بغیر وہ اللہ کے سامنے بری الذمہ قرار نہیں پاسکتے۔
مسلمان اور دور حاضر
آج کل کے علماء جب مسلمانوں کے ’’جدید مسائل‘‘ پر لکھتے اور بولتے ہیں تو وہ عام طور پر قدیم فقہاء کے فتاویٰ کا حوالہ دیتے ہیں ۔ وہ قدیم فقہی جزئیات کو ڈھونڈ کر نکالتے ہیں ۔ وہ ابن تیمیہ اور دوسرے ائمہ کے حوالے دیتے ہیں ۔اس قسم کے حوالے بلاشبہ درست نہیں ۔ قدیم فقہا کا ذہن مسلم حکمرانی کے دور میں بنا تھا، ان حضرات کے فتاویٰ آج کے حالات میں قابل انطباق (applicable) نہیں ۔
قدیم فقہا ء کا ذہن اپنے زمانی حالات کی بنا پر اس طرح بنا تھا کہ وہ ایک طبقہ کو حاکم اور دوسرے طبقہ کو محکوم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک علاقے کی حیثیت بلاد الکفار کی تھی ، اور دوسرے علاقے کی حیثیت بلاد المسلمین کی۔ وہ اپنے اس ذہن کی بنا پر دنیا کو دارالاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحوں میں تقسیم کیے ہوئےتھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے، تو ہمارے علماء انھیں اصطلاحات یا اسی فریم ورک (framework)میں اپنا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ اس معاملہ میں قدیم علماء کے حوالے پیش کرتے ہیں ۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ان جوابات کے باوجود اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے۔ وہ نہ مسلمانوں کے ذہن کو مطمئن کرپاتا، اور نہ اصل مسئلے کو حل کرتا۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اب زمانہ یک سر بدل چکا ہے۔ اب سیکولرزم اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ قدیم طرز کی تقسیم اب قابل عمل نہیں رہی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوری انداز میں سوچیں ، وہ سیکولر انداز میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔ اب اگر بدستور انھوں نے مسلم اور غیر مسلم کے لیے قدیم انداز کی تقسیم کو جاری رکھا تو آج کی دنیا میں ان کی فکر غیرمتعلق (irrelevant) ہوجائے گی۔ آج کے زمانے کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کے ذہن کے مطابق ساری دنیا دار الانسان ہے۔ ذاتی عقیدہ اور عبادت کے سوامسلمانوں کو ہر معاملہ میں آفاقی ذہن کے ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ وہ لوگوں کی نظر میں آج کے زمانے کے لیے مس فٹ (misfit) قرار پائیں گے۔
اجتہاد کا فقدان
امت کےدورِ زوال کے بارے میں ایک حدیث یہ ہےتنزع عقول أكثر ذلك الزمان، ويخلف له هباء من الناس لا عقول لهم(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔ یعنی اُس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور گردوغبار کی طرح كے لوگ باقی رہ جائیں گے، جن کے پاس عقلیں نہ ہوں گی۔
عقل (reason)تو فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ عقل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی نسلوں میں عقل رہے، اور بعد کی نسلوں میں وہ چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا چھننا، عضویاتی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ سمجھ (understanding) کے معنی میں ہے۔ یعنی عقل تو موجود ہوگی، لیکن سمجھداری موجود نہ ہو گی۔ مزید غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوں میں اجتہادی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ حالات کے مطابق شریعت کی تطبیق نو (reapplication) کرکے اپنے حالات کے اعتبار سے اس کی پیروی کریں ۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت اجتہاد کا خاتمہ کلی طور پر نہ ہوگا۔ وہ اس معنی میں ہوگا کہ جہاں مجبوری (compulsion) کی صورت حال ہو، وہاں تو وہ اجتہاد پر عمل کریں گے۔ لیکن جہاں مجبوری کی صورتِ حال نہ ہوگی ، وہاں وہ اپنے روایتی ذہن پر قائم رہیں گے، اور اجتہاد نہ کرسکیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں حج کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (22:27)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز راستوں سے آئیں گے۔
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامات سے اونٹ پر سفر کرکے مکہ پہنچیں ۔ قدیم زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مشینی سواری کا دور آیا تو اب کوئی حاجی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اب بھی سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کرے، اور اس طرح مقامات حج تک پہنچے۔ بلکہ اب تمام حاجی یہی کرتے ہیں کہ دور کے مقامات سے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں ، اور قریب کے مقامات سے کاروں اور بسوں پر۔ حالاں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ علما نے جمع ہو کر یہ فتوی دیا ہو کہ اب زمانہ بدل گیا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حیوانی سواری کے بجائے، مشینی سواری پر سفر کرکے مقام حج تک پہنچیں ۔
واقعات بتاتے ہیں کہ زمانے کی حالات میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوئیں ۔ تاہم امت کے عوام یا علما اس معاملے میں ایسا نہ کرسکے کہ وہ اجتہاد کریں اور قدیم طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقے پر عمل کریں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جدو جہد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ جدو جہد (violent struggle) کا طریقہ رائج تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب متشددانہ جدو جہد کا طریقہ غیر موثر بن گیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ پر امن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعہ ہر قسم کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں ۔ ایسی حالت میں اجتہاد کا تقاضا تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان تشدد کے طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں ، اور امن کے طریقے کو پوری طرح اختیار کر لیں ۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حالاں کہ اس معاملے میں حدیث رسول میں پیشگی طور پر رہنمائی موجود تھی۔ حضرت عائشہ، رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے بارے میں بتاتی ہیں: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين، أحدهما أيسر من الآخر، إلا اختار أيسرهما (صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ متشددانہ طریقہ کار کے مقابلے میں پر امن طریقہ کار آسان ہے۔ ایسی حالت میں حدیث رسول کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ متشددانہ طریقہ کار کو مکمل طور پر چھوڑ دیں ، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف پر امن طریقہ کار پر عمل کریں ۔ مگر اجتہاد کے فقدان کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حکمت کی آفاقیت
ایک حدیث رسول سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ ،وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ مسند الشہاب القضاعی کے الفاظ یہ ہیں: الحكمة ضالة المؤمن، حيثما وجد المؤمن ضالته فليجمعها إليه (حدیث نمبر146)۔یعنی حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں بھی مومن اپنے گمشدہ مال کو پائے، وہ اس کو اپنے پاس اکٹھا کرلے۔
حکمت (wisdom) کی بات کیوں مومن کا حق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر حکمت ایک ربانی عطیہ ہے، اور جو چیز ربانی عطیہ (divine gift) ہو، وہ کسی کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی۔ ہر ربانی عطیہ ایک آفاقی نعمت ہے، اور آفاقی نعمت میں ہر انسان کا مشترک حصہ ہوتا ہے۔ حکمت سے مراد مادی تخلیقات بھی ہیں ، اور حکمت و بصیرت کی باتیں بھی۔ جس طرح سورج اور پانی خالق کا آفاقی عطیہ ہے، اسی طرح قانون فطرت (law of nature) میں تحقیق سے حاصل ہونے والی حقیقتیں بھی آفاقی نعمتیں ہیں ۔ وہ ہر انسان کا حصہ ہیں ، مومن کابھی اور غیرمومن کا بھی۔ عطیات الٰہی میں تفریق یقینا جائز نہیں ۔
عطیات الٰہی کے بارے میں یہ آفاقی نظریہ ایک انقلابی نظریہ ہے۔ وہ انسان کی سوچ کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔مثال کے طور پر وہ محققین جنھوں نے اپنی زندگیاں وقف کرکے فطرت کے قوانین کو دریافت کیا، وہ شخصیتیں بھی پوری انسانیت کا حصہ ہیں ۔ اس طرح یہ نظریہ آدمی کے اندر ایک یونیورسل آؤٹ لک (universal outlook) پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد متعصبانہ طرز فکر کی جڑ کٹ جاتی ہے، دوست اور دشمن کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، ہر انسان کو دوسرا انسان اپنا دوست نظر آنےلگتا ہے۔ یہ نظریہ نفرت کاقاتل ہے۔ وہ عالمی محبت کو فروغ دینے والا ہے۔
اس حدیث میں حکمت سے مراد صرف حکمت دین نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہر وہ حکمت ہے، جو درست اور مفید ہو، جو حقیقت واقعہ کے مطابق ہو۔
دعوتِ عام کی ذمہ داری
بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا، اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گئے(الفرقان، 25:1)۔ اسی لیے پیغمبراسلام کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (21:107)۔ یعنی ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی، تو امّتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّتِ محمدی کا اُمّتِ محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے، جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمّتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (الانعام، 7:19؛ یوسف، 12:108)۔ مزید یہ کہ اس دعوتی ذمہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت کے لوگ تمام دنیا میں مسلم رخی تحریکیں چلائیں ، بلکہ اُنہیں لازمی طورپر غیر مسلم رخی تحریکیں چلانا ہے۔ مسلم رخی تحریک یا ملت رخی تحریک امت کا داخلی مسئلہ ہے، جب کہ غیر مسلم رخی تحریک، خارجی معنوں میں اُمّت کی لازمی ذمه داری ہے۔
علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں ۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فَأَمَّا شَرْطُ الْحَرْبِ فَهُوَ بُلُوغُ الدَّعْوَةِ بِاتِّفَاقٍ، أَعْنِي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ حِرَابَتُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا قَدْ بَلَغَتْهُمُ الدَّعْوَةُ، وَذَلِكَ شَيْءٌ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؛ لِقَوْلِهِ تَعَالَىوَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا[الاسراء،17:15](بدایۃ المجتہد۱؍۳۸۶)۔ یعنی جنگ کی شرط متفقہ طورپر یہ ہے کہ ان لوگوں تک دعوت پہنچ چکی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس وقت تک جنگ جائز نہیں جب تک کہ انہیں دعوت نہ پہنچ جائے۔
اس معیارکی روشنی میں دیکھيے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہاد نہیں ۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں ۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدَین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوستانيوں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔یہ اور موجودہ زمانے کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں ۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے، نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں مسلمانوں کی اول و آخر ذمے داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں موجود نہیں ۔
کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنا نہایت سنگین معاملہ ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا تو الله نے ان كي پكڑ كي۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو، اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں ، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
اسلامی طرزِ فکر
زندگی ہر ایک کے لیے مسائل کا مجموعہ ہے۔ زندگی کبھی مسائل سے خالی نہیں ہوسکتی۔ کسی انسان کے لیے یہاں تک کہ پیغمبر کے لیے بھی یہ آپشن (option) نہیں ہےکہ پہلے زندگی کو بے مسئلہ زندگی بناؤ، اس کے بعد اپنا کام کرو۔ اس دنیا میں ہر ایک کے لیے ایک ہی آپشن ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسائل ميں سلیکٹیو (selective) انداز اختیار کرے، یعنی کچھ مسائل کو انتظار کے خانے میں ڈالے، اور کچھ مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے۔
اسلام کی تعلیم کے مطابق، اس معاملےمیں ایک سچے مسلم کےلیے صرف ایک آپشن ہے۔ وہ یہ کہ ایک مسلم دعوت الی اللہ کو اپنا کنسرن (concern) بنائے، اور دوسری تمام چیزوں کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردے۔ یہ معاملہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس معاملے میں کوئی عذر (excuse) حقيقي عذر (genuine excuse) نہیں ۔
عام طور پر لوگوں كا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں دعوت الی اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کو اپنا کنسرن بناتے ہیں ، اور عذر(excuse) کے طو رپر کسی دنیوی اصول کا حوالہ دیتے ہیں ۔مثلاً حق خود ارادیت (self-determination) ، انسانی حقوق (human rights)، وغیرہ۔ مگر یہ تمام حوالے درست نہیں ۔ ان معاملات میں اسلام کا اصول ایک لفظ میں یہ ہے: أَدُّوا إِلَيْهِمْ حَقَّهُمْ، وَسَلُوا اللَّهَ حَقَّكُم (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ ادا کروان کو ان کا حق ، اورمانگو اپنا حق اللہ سے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں مومن کی منصوبہ بندی یک طرفہ طور پر ذاتی ذمے داری کے اصول پر ہے، دوسروں سے حقوق طلبی کے اصول پر نہیں ۔ اس دنیا میں مومن کو صرف اپنی ذمے داری کی ادائیگی پر دھیان دینا ہے، مومن کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی غیر اسلامی اصول کا حوالہ دے کر دوسروں سے اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کردے۔ اس معاملے میں مومن کا طریقہ تمام تر آخرت رخی (Akhirah oriented)ہے، نہ کہ دنیا رخی۔
ایک انٹرویو کا خلاصہ
— دعوت اسلامی کا مطلب میرے نزدیک دعوت الی اللہ ہے۔موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ میرے نزدیک الحادی فکر کا غلبہ ہے۔ اس لیے دعوت اسلامی کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب سے پہلے ضرورت یہ ہے کہ دنیا سے الحادی فکر کا غلبہ ختم کیا جائے۔
قدیم زمانے میں مادی مظاہر کو خدا قرار دے کر انسان نے خدا کو چھوڑ دیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں مادی مظاہر کے پیچھے کام کرنے والے سلسلہ اسباب کو خدا قرار دے دیا گیا ہے، اور اسی کا نام الحاد ہے۔ جب تک اس فکری ڈھانچہ کو توڑا نہ جائے کوئی دوسرا کام نہیں کیا جاسکتا۔
— موجودہ زمانے کے داعیوں کا اصل مسئلہ وہ ہے جو داخلی ہے۔ وہ ابھی تک دعوت اور قومیت کو، اور اسی طرح دعوت اور سیاست کو الگ الگ نہیں کرسکے ہیں ۔ جس دن وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب ہوں گے، اسی دن ان کے مسائل کے خاتمہ کا آغاز ہوجائے گا۔
—صحافت یقیناً اسلامی دعوت کےلیے نہایت اہم ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ مسلمان ابھی تک صرف قومی صحافت کو جانتے ہیں ، وہ عالمی صحافت کے میدان میں داخل نہیں ہوئے۔ عالمی صحافت کے لیے موضوعیت (objectivity)لازمی طور پر ضروری ہے۔
—جدید علمی انکشافات کو تفسیر قرآن میں استعمال کرنا میرے نزدیک عین درست ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ معیارِ اصلی قرآن ہو، نہ کہ جدید انکشافات۔ یعنی جدید انکشافات کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے، نہ کہ قرآن کو جدید انکشافات کی روشنی میں
— علمی نظریات کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دورِ اول میں جب قرآن نے کہا کہ زمین و آسمان کی نشانیوں پر غور کرو تو انسان نے اپنی اس وقت کی معلومات کی روشنی میں زمین و آسمان پر غور کیا۔ آج بھی یہی ہوگا کہ انسان اپنی موجودہ معلومات کی روشنی میں آیاتِ کون پر غور کرے گا۔ اس کی وجہ سے نہ پہلے کوئی اعتقادی خرابی پیدا ہوئی، اور نہ آج ہوسکتی ہے۔
ري پلاننگ
منصوبه بند عمل
زندگي ناموافق حالات سے بھري هوئي هے۔ كامياب وه هے جو ناموافق حالات كے اندر اپنے ليے موافق راسته دريافت كرلے۔
ایمرجنس آف اسلام
جدید دور ایک مؤید اسلام دور ہے۔ یہ دور اگرچہ عام طور پر مغرب کی طرف منسوب ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی مجموعی کوشش سے یہ دور ظہور میں آیا ہے۔ تاہم مغربی قوموں کا حصہ اس دَور کو لانے میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسری قومیں اگر اس عمل (process) کا حصہ ہیں ، تو مغربی دنیا اس کے نقطۂ انتہا کا مقام ۔
یہ دور جس کا نمایاں پہلو جدید تہذیب (modern civilization) ہے، اس نے قدیم روایتی دور کو یکسر بدل دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک نیا دور ہے۔ یہ وہی دور ہے جس کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں واضح طور پر کردی تھی۔ اس سلسلے میں ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں إن الله عز وجل ليؤيد الإسلام برجال ما هم من أهله (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ان لوگوں کے ذریعہ کرے گا، جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کی تحریک پچھلے زمانے میں روایتی بنیاد پر چلتی تھی۔ لیکن فطرت (nature) کےاندر خالق نے اپنے عظیم کلمات چھپا دیے تھے۔ خالق کو مطلوب تھا کہ یہ کلمات دریافت کیے جائیں ، اور ان کو کتابوں کی صورت میں مدوّن کیا جائے۔ تاکہ اسلام کی صداقت کو مبرہن کرنے کے لیے سائنٹفک فریم ورک (scientific framework) حاصل ہو، اور اعلیٰ سطح پر دین خداوندی کی معرفت ممکن ہوجائے۔ جدید تہذیب کے بعد اکیسویں صدی میں یہ امکان پوری طرح واقعہ بن چکا ہے۔یہی وہ واقعہ ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ فطرت کے رازوں کی دریافت کے بعد یہ سب کچھ اب واقعہ بن چکا ہے۔
یہ دور امکانی طور پر ظہور اسلام کا دور ہے۔ یہ دور گلیلیو گلیلی (1564-1642)کی تحقیقات سے شروع ہوا، اور اب اسٹیفن ہاکنگ ( 1942-2018) کی تحقیقات کے ساتھ غالباً وہ اپنی تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دریافت کردہ حقائق کو لے کر خدا کے دین کو تبیینِ کامل کے درجے تک پہنچادیا جائے۔ اسی کے ساتھ کمیونی کیشن کے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئےخالق کے پیغام کو زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں پہنچادیا جائے ۔جیسا کہ پیغمبر نے پیشین گوئی کی ہے: لا يبقى على ظهر الأرض بيت مدر، ولا وبر إلا أدخله الله كلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر23814)۔
اسلام ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ کوئی دور اس واقعہ سے خالی نہیں ۔ لیکن اسلام کے ظہور کا ایک اور درجہ تھا، جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت، 41:53)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔حدیث میں ظہو ر اسلام کے اس واقعے کو شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2938) کے الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے۔ اسلام کے اس اعلیٰ ظہور کے لیے اعلیٰ مواقع درکار تھے۔ ایک طرف معرفت رب کے دلائل اور دوسری طرف دعوت کے اعلیٰ مواقع ۔ یہ دونوں چیزیں جدید سائنسی دور میں اپنی کامل صورت میں ظہور میں آچکی ہیں ۔ اب ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو ان مواقع کو پہچانے ، اور ان کو استعمال کرتے ہوئےاسلام کے اُس آخری ظہور کو واقعہ بنائے جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938)کہاگیا ہے۔
اس نشانے کی تکمیل کے لیے تمام اسباب مہیا ہوچکےہیں ۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ منفی سوچ سے باہر آئے، جس کو قرآن میں الرجز (المدثر،74:5) کہا گیا ہے۔جدید مواقع کو اسلام کے ظہور ِثانی کے لیے استعمال کرنا، انھیں لوگوں کے لیے ممکن ہے، جو پوری طرح منفی سوچ (negative thinking) سے پاک ہوں ، اور اعلیٰ درجے کی مثبت سوچ (positive thinking) کے حامل بن چکے ہوں ۔ یہ کام ایک انتہائی مثبت کام ہے، اور کامل درجے کی مثبت سوچ کی صفت رکھنے والے ہی اس کو انجام دے سکتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو دورِ جدید کو ایک مؤید اسلام دور کی حیثیت سے دریافت کریں ، اور اپنے عمل کی ری پلاننگ کے تحت اس امکان کو واقعہ بنائیں ۔
پلاننگ ، ری پلاننگ
پلاننگ(planning) کا مطلب ہے منصوبہ بند انداز میں کام کرنا۔ محنت کے ساتھ جب تنظیم (organization) کو شامل کیا جائے تو اسی کا نام منصوبہ بندی ہے۔ قدیم تصور یہ تھا کہ کامیابی کے لیے محنت (hard work) سب سے اہم ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کی ترقی نے اس میں ایک مزید پہلو کا اضافہ کیا ہے، اور وہ تنظیم ہے۔ اس تصور کے مطابق پلاننگ کا مطلب ہے منظم انداز میں کسی کام کے لیے اپنی محنت صرف کرنا۔
ری پلاننگ (re-planning) گویا پلاننگ پلس (planning plus) کا دوسرا نام ہے۔ ری پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے منصوبہ میں تجربات کا اضافہ کرنا، اور نئی معلومات کی روشنی میں از سر نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔ اس طریق کار کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ پہلے منصوبے میں جو مقصد حاصل نہ ہوا ہو، اس مقصد کو دوبارہ بہتر انداز میں منظّم کرکے از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ری پلاننگ کا طریقہ ہر معاملے میں قابل انطباق (applicable)ہے۔ اسی طرح اسلامی عمل کے معاملے میں بھی یہ طریقہ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہارون الرشید عباسی سلطنت کا پانچواں خلیفہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار وہ بغداد میں اپنے محل کے اوپر اپنی ملکہ زبیدہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ فضا میں بادل کا ایک ٹکڑا ا ڑتا ہوا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر اس نے کہاامطری حیث شئت، فسیأتینی خراجك(وحی القلم، مصطفی صادق رافعی، جلد 2، صفحہ 22)۔ جہاں چاہے جاکر برس، تیرا خراج میرے پاس ہی آئے گا۔
ہارون الرشید کی یہ بات قدیم زمانے میں ایک بامعنیٰ بات ہوسکتی تھی، مگر آج اس کی معنویت ختم ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس سلسلے میں کئی نئی باتیں وجود میں آچکی ہیں ۔ مثلاً قدیم زمانہ مبنی بر زمین زراعت (land-based agriculture) کا زمانہ تھا، اب مبنی بر ٹکنالوجی صنعت کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانے کی سیاست شخصی اقتدارپر مبنی ہوا کرتی تھی، اب سیاست جمہوریت پر مبنی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میں صرف اقتدار کے محدود دائرے سے خراج لینا ممکن ہوتا تھا۔ اب مکمل آزادی کا زمانہ ہے، اب آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا سے ’’خراج‘‘ لینا ممکن ہوگیا ہے۔
اس فرق کی بنا پر اب ممکن ہوگیا ہے کہ کسی مقصد کا منصوبہ عالمی سطح پر بنایا جائے بغیر اس کے کہ عالمی سطح پر سیاسی اقتدار حاصل ہو۔اس فرق نے مشن کے تصور میں بھی بنیادی فرق پیدا کردیا ہے۔اگر آپ ایک عالمی مشن چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے ماڈرن ٹکنالوجی پر مبنی پر امن تنظیم۔مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعوتی مکتوب ایران کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھیجا۔ اس مکتوب کو لے کر کسریٰ کے پاس جانے والے ایک صحابی تھے، جن کا نام عبد الله بن حذافہ تھا۔ اس مکتوب (letter)کا ترجمه يه هےشروع اللہ کے نام سے جو بڑامہربان، نہایت رحم والا ہے۔يه خط هے محمد الله كے رسول كي طرف سے كسريٰ عظيم فارس كي جانب۔ سلام هو اس پر جو هدايت كي اتباع كرے، اور ايمان لائے الله پر اور اس كے رسول پر اور گواهي دے كه كوئي معبود نهيں سوا الله كے ، وه اكيلا هے اس كا كوئي شريك نهيں ، اور محمد اس كے بندے اور اس كے رسول هيں ۔ ميں تم كو دعوت ديتا هوں الله كي دعوت۔بيشك ميں الله كا رسول هوں تمام لوگوں كي طرف تاکہ ميں اس شخص کو آگاه كردوں جو زندہ ہے اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہوجائے۔اسلام قبول كرو سلامتي پاؤگے اور اگر انكار كروگے تو مجوس كا گناه تمھارے اوپر هوگا۔(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، 4/306)
تاریخ بتاتی ہے کہ ایران کے قدیم بادشاہ کو جب یہ مکتوب دیا گیا تو وہ غصہ میں آگیا، اور اس کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ واقعہ قدیم زمانے کے مروجہ کلچر کی بنا پر ہوا۔ آج اگر کسی تحریک کا سربراہ اس قسم کا خط کسی حکمراں کو بھیجے تو وہ سربراہ جواب میں اس کا اکنولجمنٹ (acknowledgement) بھیجے گا، اور متعلقہ مکتوب اس کے دفتر میں محفوظ کردیا جائے گا۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کی ری پلاننگ کی جائے۔ جدید حقائق کی روشنی میں اس کا منصوبہ بنایا جائے۔ اب کسی صاحبِ مشن کو نہ کسی شکایت کی ضرورت ہے، نہ کسی پروٹسٹ کی۔ اب صرف یہ ضرورت ہے کہ آدمی زمانے کی تبدیلی کو سمجھے ، اور اس کی رعایت کرتے ہوئے ، اسلامی مشن کی پر امن ری پلاننگ کرے۔ اسی تبدیل شدہ لائحہ عمل کا نام ری پلاننگ ہے۔
قرآن کی رہنمائی
قرآن میں انسانی تاریخ کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ۔ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ (57:22-23)۔ یعنی کوئی مصیبت نہ زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں ، بیشک یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔ تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو تم سے کھویا گیا۔ اور نہ اس چیز پر فخر کرو جو اس نے تم کو دیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو تاریخی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ، وہ فطرت کے قوانین کے بنا پر ہوتی ہیں ۔ اس کا سبب کسی کی دشمنی یا کسی کی سازش نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کسی قوم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا صحیح رسپانس یہ نہیں ہے کہ کھوئی ہوئی چیز پر غم کیا جائے۔ بلکہ اس کا صحیح رسپانس ہے ہونے والے واقعے کو فطرت کے خانے میں ڈالنا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان کے اندر صحیح سوچ جاگے گی۔ وہ حقیقت واقعہ کا بے لاگ جائزہ لے گا۔ اس طرح وہ اس قابل بن جائے گا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کرے، اور کھوئی ہوئی چیز کو نئے عنوان سے از سر نو حاصل کرلے۔
پیغمبر اسلام کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ احد کی جنگ میں آپ کے ساتھیوں کو شکست ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی غم میں نہیں پڑے، بلکہ انھوں نےسارے معاملے پر از سر نو سوچنا شروع کیا ۔ اس طرح ان کے اندر یہ سوچ ابھری کہ وہ جنگ کے میدان کو چھوڑ دیں ۔ وہ یہ کریں کہ ہر قیمت پر فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے، اور پھر امن کے اصولوں پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں ۔ حدیبیہ کا معاہدہ جو سن 6 ہجری میں پیش آیا، وہ گویا اسی قسم کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔ یہ اسٹراٹیجی کامیاب ہوئی، اور بہت کم مدت میں اہل اسلام کو مزید جنگ کیے بغیر غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہی وقت دوبارہ اہل اسلام پر آگیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس احساس میں مبتلا ہیں کہ وہ فریق ثانی کے مقابلے میں شکست کھا چکے ہیں ۔ اس احساس نے ان کو غم میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں خود کش بمباری جیسے واقعات اسی قسم کی مایوسی کے تحت پیدا شدہ فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں ۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوں کو یہ موقع ہے کہ وہ حدیبیہ کی تاریخ کو دوبارہ نئے عنوان کے ساتھ دہرائیں ، اور دوبارہ فتح مبین (الفتح، 48:1) کی تاریخ کو دہرائیں ۔ یہ دوسری فتح مبین بلاشبہ ممکن ہے، لیکن سیاسی معنی میں نہیں ، بلکہ غیر سیاسی معنی میں ۔موجودہ زمانے میں صلح حدیبیہ جیسے حالات زیادہ بڑے پیمانے پر وقوع میں آگیے ہیں ۔ قدیم زمانے میں جو مواقع محدود طور پر دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے، اب وہ یونیورسل نارم (universal norm)بن چکے ہیں ۔ اب وہ مواقع خود عالمی حالات کے ذریعہ پیداہوچکے ہیں ۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے کہ گفت و شنید کے ذریعے کوئی حدیبیہ جیسا متعین معاہدہ کیا جائے۔ اب وہ تمام چیزیں مستقل طور پر عملاً حاصل ہوچکی ہیں ، جو قدیم زمانے میں دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ محدود طور پر حاصل ہوئے تھے۔
معاہدۂ حدیبیہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اہل اسلام کو آزادانہ طور پر اپنا پرامن دعوتی مشن جاری کرنے کا موقع مل جائے۔ اب اقوام متحدہ (UNO) میں تمام قوموں کے مشترک معاہدہ کے تحت ہر قسم کی آزادی کا حق حاصل ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد کو چھوڑ دیں ، اور پر امن طریقہ کار کے ذریعہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں ۔
اب کسی قوم کو اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پچھلے زمانے میں جو کام سیاسی اقتدار کے ذریعہ ہوتا تھا، اب وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے فوج کشی کرنی پڑتی تھی ، اب وہ کام کمیونی کیشن کے ذریعہ انجام دنیا ممکن ہوگیاہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے کسی بادشاہ کا تخت چھیننا پڑتا تھا، اب وہ سب کچھ یونیورسل نارم کے تحت پر امن طریقہ کار کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہو گیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے اپنا سیاسی رقبہ (political area) بڑھانا پڑتا تھا، اب ا س کو ایک کمپیو ٹرائزڈ آفس میں بیٹھ کر آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے، وغیرہ۔
انسانِ اوّل کی مثال
خالق نے جب آدم (پہلے انسان) کو پیدا کیا تو ان کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں بسایا۔ مگر آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے۔ انھوں نے منع کرنے کے باوجود شجر ممنوعہ (forbidden tree) کا پھل کھا لیا۔ اس کے بعد ان کو اور ان کی بیوی ، دونوں کو جنت سے نکلنا پڑا۔ پھر دونوں کے اندر توبہ (repentance) کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ خالق سے معافی کے طالب ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے لیے یہ مقدر کیا گیا کہ اگر وہ ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں تو ان کو جنت میں دوبارہ داخلہ (re-entry) ملے گا۔
اس کا مطلب بظاہر یہ تھا کہ ابتدائی منصوبہ کے مطابق جنت تمام انسانوں کے لیےعمومی طور پر مقدر کی گئی تھی۔ لیکن جب آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے ، اور انھوں نے وہ کام کیا جس سے انھیں منع کیا گیا تھا، تو خالق نے انسان کے بارے میں دوسرا اصول مقرر کیا۔ یہ اصول انتخاب (selection) کی بنیاد پر تھا۔ یعنی پہلے اگر ہر مرد اور ہر عورت کے لیے جنت کا حصول ممکن تھا ، تو اب یہ اصول قرار پایا کہ جو عورت اور مرد امتحان (test) میں پورے اتریں ، ان کا انتخاب کرکے ان کو جنت میں داخلہ دیا جائے۔ اس كے برعكس، جو لوگ امتحان میں پورے نہ اتریں ، وہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم قرار پائیں گے۔ یہ واقعہ انسان کے لیے ایک ابدی سبق تھا۔ اب انسان کے لیے کامیابی کا راستہ صرف یہ تھا کہ اگر اس کا پہلا منصوبہ کام (work) نہ کرے، تو وہ کسی غیر متعلق مشغولیت میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ وہ صرف ایک کام کرے— حالات کا ازسر نو جائزہ لینا، اور اپنے عمل کو نئے منصوبہ کے تحت دوبارہ مرتب کرنا۔
یہ واقعہ انسانی تاریخ کے آغاز میں پیش آیا۔ اس طرح خالق نے انسان کو یہ سبق دیا کہ دنیا کے حالات میں باربار ایسا ہوگا کہ تم کسی نہ کسی سبب سے پہلے موقع (1st chance) کو کھودو گے۔ اس وقت تمھیں منفی سوچ میں مبتلا نہیں ہونا ہے، بلکہ حاصل شدہ تجربے کی روشنی میں تم کو اپنے کام کی ری پلاننگ (re-planning) کرنا ہے۔ یہی تمھارے لیے اس دنیا میں کامیابی کاراستہ ہے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر یہاں انسان کے لیے حالات ہمیشہ موافق نہیں رہتے۔ اس دنیا میں انسان کو ناموافق حالات میں راستہ بناتے ہوئے اپنا سفر کرنا ہے۔ یہ اصول سب کےلیے ہے۔ خوا ہ وہ مذہبی ہو یا سیکولر، وہ طاقت ور ہو یا کمزور ۔ یہ حالات ہمیشہ ہر شخص، اور ہر گروہ کے لیے پیش آتے ہیں ۔ ایسی حالت میں کسی کو ایسا نہیں کرنا ہے کہ وہ کسی اور کو ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان پربا کرے۔ شکایت اور احتجاج کا طریقہ اس دنیا میں صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی جب یہ دیکھے کہ اس کا پہلا منصوبہ کامیاب نہیں ہوا تو وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار دینے میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ خود اپنے حالات کا بے لاگ اندازہ کرتے ہوئے اپنے عمل کے لیے نیا منصوبہ بنائے۔
کامیاب ری پلاننگ کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کوتاہی کا اعتراف کرے۔ وہ ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اس حقیقت کو مانے کہ اس کی ناکامی کا سبب خود اس کے اپنے اندر تھا۔ حالات کا وہ صحیح اندازہ نہ کرسکا۔ اس لیے اب صرف یہ کرنا ہے کہ وہ حالات کا دوبارہ صحیح اندازہ (re-assessment) کرے، اور اس کی روشنی میں حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنائے۔
زندگی کے لیے ری پلاننگ کا اصول ایک ابدی اصول ہے۔ وہ اول دن کے لیے بھی تھا، اور بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ جب تک انسان کو اس دنیا میں آزادی حاصل ہے، اور جب تک اسباب اپنی جگہ قائم ہیں ، ہر ايک کو اسی اصول پر اپنا کام کرنا ہوگا۔ جو لوگ اس اصول پر کام کریں ، وہ اس دنیا میں کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ اس اصول کی پیروی نہ کریں ، وہ یقینی طور پر اس دنیا میں کامیابی سے محروم رہیں گے۔
ڈیزرٹ تھرَپی
اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے کرۂ ارض (planet earth) پر آباد کیا۔ اس کو ہر قسم کے مواقع فراہم کیے۔ اور پھر اس کو پوری آزادی دے دی۔ اب یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ خوا ہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو ابدی کامیابی کا مستحق بنائے ، اور اگر وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرتا ہے تو اس کے لیے تخلیقی منصوبہ کے مطابق ابدی ناکامی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں ۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو عقل دی۔ اس کے اندر حق اور باطل کی تمیز رکھی۔ اس کے بعد خالق نے یہ انتظام کیا کہ ہر قوم میں اور ہر علاقے میں اپنے رسول بھیجے۔ جو انسان کو اس کی اپنی قابل فہم زبان میں حق اور ناحق کا علم دیتے تھے۔ پیغمبروں نے یہ کام اعلیٰ اتمامِ حجت کی سطح پر انجام دیا۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ پیغمبروں کی دعوت کا غیر مطلوب جواب دیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: يَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ َیَسْتَهْزِؤوْنَ (36:30)۔ یعنی افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔
اللہ رب العالمین کو اپنے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق یہ منظور نہیں تھا کہ وہ انسان کی آزادی کا خاتمہ کردے۔ اس لیے اس نے یہ کیا کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، ہدایت کا ایک نیا نقشہ بنایا۔ اس نئے نقشے کی تکمیل کے لیے اللہ رب العالمین نے ابراہیم اور ان کی ذرّیت کو چنا۔ جن کا زمانہ 1850-2324 ق م کے درمیان ہے۔ یہ گویا رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔
پیغمبر ابراہیم قدیم عراق میں پیداہوئے۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا۔ لیکن قدیم عراق کے باشندے جو اس وقت شرک پر قائم تھے، پیغمبر ابراہیم کی پیروی پر راضی نہ ہوسکے۔ آخرکار پیغمبر ابراہیم نے ایک خدائی منصوبہ کے مطابق عراق کو چھوڑ دیا۔ وہ اُس صحرائی علاقے میں آکر آباد ہوئے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ انھوں نے اس صحرائی علاقہ میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کردیا۔ جب کہ اس وقت وہاں صحرا کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس نئی منصوبہ بندی کو ایک لفظ میں صحرائی منصوبہ بندی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ یہ صحرائی ماحول اگرچہ انسانی آبادی کے لیے انتہائی حد تک غیر موافق تھا۔ مگر نئی پلاننگ کے لیے یہ سب سے زیادہ موزوں علاقہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں فطری طور پر ایسا ہوا کہ ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی، جو تمدن کے اثرات سے دور تھی، اور فطرت کے ماحول کے سوا کوئی اور چیز اس پر اثر انداز ہونے کے لیے موجود نہ تھی۔ فطرت کے اس ماحول میں اسماعیل ابن ابراہیم نے ایک قبیلہ میں شادی کی، اور پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہاں ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی۔ اس صحرائی منصوبہ بندی کا ذکر صحیح البخاری کی ایک طویل روایت(حدیث نمبر3364) میں آیا ہے۔ یہ ابراہیمی سنت ایک منصوبے کے بعد دوسرا منصوبہ بنانے کا معاملہ تھا۔ اس کے ذریعہ یہ مطلوب تھا کہ ایک نئی جاندار نسل تیار ہو، جو اپنی فطرت پر قائم ہو، اور اس بنا پر وہ سچائی کے پیغام کو آسانی کے ساتھ سمجھ جائے، اور اس کو اختیار کرلے۔یہی وہ نسل ہے جس کے اندر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ وہ لوگ جن کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے، وہ سب اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
توقع کے مطابق یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ رسول اور اصحاب رسول نے دعوتی جدو جہد کے ذریعہ ایک گروہ تیار کیا۔ اس گروہ نے توحید کی بنیاد پر کام کرکے ایک انقلاب برپا کیا۔ اس گروہ نے تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلی بار انسانی تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری ہوا، جس نے تاریخ کو بدل دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک طرف دورِ شرک کا خاتمہ ہوا۔ اسی کے ساتھ دوسری طرف اس کے نتیجے میں نیچر میں آزادانہ تحقیق کا مزاج پیدا ہوا، اس کے بعدتاریخ میں وہ دور آیا جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں یہ انقلاب ری پلاننگ کے ذریعہ ظہور میں آیا۔
ہجرت مدینہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی شرک کی آئڈیالوجی کے بجائے دنیا میں توحید کی آئڈیالوجی کو ظہور میں لانا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں شرک کا کلچر تھا۔ مشرک سرداروں کو ہر اعتبار سے غلبہ کا مقام ملا ہوا تھا۔ تیرہ سال کی مخالفت کے بعد آخر کار انھوں نے رسول اللہ کوعملاً الٹی میٹم دے دیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ سے چلے جائیں ، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔
پیغمبر اسلام کےلیے یہ ایک بحران (crisis)کا لمحہ تھا۔ مگر آپ نے رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حالات کا بے لاگ جائزہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ آپ خاموشی سے مکہ چھوڑ دیں ، اور یثرب چلے جائیں ۔ جو کہ قدیم عرب کے تین بڑے شہروں میں سے ایک تھا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔پیغمبر اسلام نے جب مکہ کو چھوڑنےکا فیصلہ کیا۔ اس وقت آپ نےاپنے اصحاب سے ایک بات کہی تھی۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری (حدیث نمبر1871)اور صحیح مسلم (حدیث نمبر1382)کے مشترک الفاظ یہ ہیں أمرت بقرية تأكل القرى، يقولون يثرب، وهي المدينة ۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھاجائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں ، اور وہ مدینہ ہے۔
اس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں باعتبار معنی ہجرت مدینہ سے مراد مشن کی ری پلاننگ ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نےمدینہ پہنچ کر مکہ والوں کے خلاف کسی قسم کی منفی روش اختیار نہیں کی۔ بلکہ مکہ والوں کے سلوک کو بھلا کر انتہائی مثبت انداز میں اپنے مشن کی نئی منصوبہ بندی کی۔ تفصیل کے لیےملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں ،پیغمبر انقلاب ، مطالعه سيرت اور سیرت رسول۔
مثلا ً عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کی طرف کثرت سے دعوتی وفود بھیجنا ، عرب کے باہر ملوک و سلاطین کے نام دعوتی خطوط بھیجنا۔ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے ان سے امن کا معاہدہ کرنا، قریش نے یک طرفہ طور پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں الجھانا چاہا، لیکن آپ نے دانش مندی کے ساتھ ان کو مینج کیا، اوران کے حملوں کو جھڑپ (skirmish) بنادیا، وغیرہ۔ یہ سب آپ نے اس لیے کیا تاکہ مشن کی ری پلاننگ کے لیے آپ نےجو عمل (process)جاری کیا تھا، وہ بلارکاوٹ جاری رہے۔
پیغمبر اسلام کی اپنے مشن کی یہ ری پلاننگ پوری طرح کامیاب رہی۔ ہجرت کے آٹھویں سال یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ مکہ میں کسی جنگ کے بغیر آپ کو دوبارہ فاتحانہ داخلہ مل گیا۔ یہ واقعہ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے کہ جب آپ کو مکہ پر غلبہ حاصل ہوگیا، اور مکہ کے سردار آپ کے پاس لائےگئے۔ یہ لوگ بین اقوامی اصطلاح کے مطابق جنگی مجرمین (prisoners of war) تھے۔ مگر آپ نے ان کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی، بلکہ یہ کہہ کر سب کو چھوڑ دیاکہ میں وہی کہتا ہوں جو یوسف نے کہا تم پر کوئی الزام نہیں ، اللہ تم کو معاف فرمائے، اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ حرم سے نکلے گویا کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں ، پس وہ اسلام میں داخل ہوگئے)أقول كما قال يوسف:لا تثريب عليكم اليوم يغفر الله لكم وهو أرحم الراحمين [12:92]. قالفخرجوا كأنما نشروا من القبور فدخلوا في الإسلام(سنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر 18275
قدیم مکہ کے سردار یہ جانتے تھے کہ ان کا کیس ظلم کا کیس ہے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام نے ان سب کو یک طرفہ طور پر معاف کردیا ۔ اس سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان سرداروں میں ندامت کا جذبہ فطری طور پر پیدا ہوگیا، اور وہ پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گئے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ان سے انتقام کا معاملہ کرتے تو یقیناً ان کے اندر جوابی انتقام کا ذہن پیدا ہوتا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان انتقام در انتقام (chain reaction) کا ماحول قائم ہوجاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ قانون اسباب کے مطابق پیغمبر اسلام کا پرامن مشن اپنے پہلے ہی تجربے میں غیر ضروری مشکلات کا شکار ہوجاتا۔ مگر اس اعلیٰ سلوک کی بنا پر پیغمبر کا مشن بلاتوقف (non-stop) جاری رہا۔
حدیبیہ کا منصوبہ
رسول اور اصحاب رسول نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ کو چھوڑ دیا، اور مدینہ کو اپنا مرکز عمل بنا لیا۔ لیکن مکہ کےسرداروں کو یہ بات منظور نہ تھی۔ اب انھوں نے یہ کوشش شروع کی کہ مدینہ پر حملہ کرکے نبوت کے مشن کا خاتمہ کردے۔ اس کے نتیجے میں چند غزوات پیش آئے۔ مثلا ً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، وغیرہ۔ ان حملوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع نہیں مل رہا تھا کہ وہ پر امن حالات میں اپنے مشن کو جاری رکھیں ۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ ہجرت کے چھٹے سال آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ عمر ہ کے لیے مکہ جائیں گے۔ ایک ہزار چار سو صحابی اس سفر میں آپ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ قافلہ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچا جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔مکہ کے سرداروں کو خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ وہ محمد اور آپ کے اصحاب کو روکیں ، اور یہ بتائیں کہ ہم مکہ میں آپ کا داخلہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بعد حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان گفت و شنید (negotiation)شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دو ہفتہ جاری رہی۔ اس گفت و شنید کے نتیجہ میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ (Hudaibiyah Agreement)کہاجاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں فریق اس پر راضی ہوئے کہ ان کے درمیان دس سال تک کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔ اس طرح یہ معاہدہ گویا دس سال کے لیے ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اس معاہدہ کے تحت پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پر امن حالات میں اپنے مشن کی منصوبہ بندی کریں ، جو آخر کار قرآن کے الفاظ میں فتح مبین (الفتح، 48:1) تک پہنچا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حدیبیہ کا معاہدہ یقیناً فتح مبین (clear victory) کا معاہدہ تھا۔ لیکن یہ معاہدۂ امن کس طرح واقعہ بنا۔ وہ اس وقت واقعہ بنا جب کہ پیغمبر اسلام نےفریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرلیا۔
فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لینے کی آخری حد یہ تھی کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس پر یہ الفاظ لکھےگئےهذا ما صالح عليه محمد رسول الله ۔ فریق ثانی کے نمائندہ نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے ، آپ لکھیے محمد بن عبد اللہ ۔ پیغمبر اسلام نے اس مطالبہ کو بلابحث مان لیا، اور حکم دیا کہ معاہدہ کے کاغذ پر لکھا جائےامح يا علي واكتبهذا ما صالح عليه محمد بن عبد اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر3187) ۔
معاہدہ حدیبیہ کے بعد حالات میں انقلابی تبدیلی ہوئی۔ یہاں تک کہ دوسال کے اندر مکہ جنگ کے بغیر فتح ہوگیا— معاہدۂ حدیبیہ اس حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر تم فتح چاہتے ہو تو پہلے اپنی شکست کو تسلیم کرو، اگر تم آگے بڑھنا چاہتے ہو تو پہلے پیچھے ہٹنے پر راضی ہوجاؤ، اگر تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ کا ٹائٹل صفحۂ عالم پر لکھا جائے تو بوقت ضرورت تم اس کو کاغذ پر مٹانے کے لیے راضی ہوجاؤ۔
پریکٹکل وزڈم کا ایک حکیمانہ اصول ہے، جس کو وقت حاصل کرنے کی تدبیر (buying-time strategy) کہا جاسکتا ہے۔ حدیبیہ میں قیام امن کے لیے فریقِ ثانی کی شرطوں کویک طرفہ طور پر مان لینا گویا یہی تدبیر تھی۔ یہ تدبیر موثر ثابت ہوئی، اور اس کے بعد بہت کم مدت میں عرب میں ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) آگیا۔ یہ واقعہ بھی باعتبارِ حقیقت ری پلاننگ کا ایک واقعہ تھا۔
قدیم زمانے میں ناجنگ معاہدہ عظیم قربانی کے بعد وقتی طور پر حاصل ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ صورت حال ایک یونیورسل نارم (universal norm) کے طور پر دنیا میں قائم ہوچکی ہے۔ 1945میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں نے اتفاقِ رائے سے یہ مان لیا ہے کہ ہر ایک کو پر امن عمل کی کلی آزادی حاصل ہوگی۔ کوئی قوم دوسری قوم پر حملہ نہیں کرے گی۔ کسی کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے کےلیے اس پر جبر کرے۔ اب تشدد (violence) اصولی طور پر ایک مجرمانہ فعل بن چکا ہے۔بشرطیکہ انسان پوری طرح امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔
متعلق اور غیر متعلق میں فرق کرنا
ری پلاننگ ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں ۔ ایک شرط یہ ہے کہ پلاننگ کے دوران کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو پلاننگ کے عمل (process) میں رکاوٹ ڈالنے والا ہو۔ تاکہ پلاننگ کا عمل بلاتوقف (non-stop) چلتا رہے۔
اس کی ایک مثال کعبہ کی تعمیر کامسئلہ ہے۔ کعبہ کی تعمیرِ اول پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل نے تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں مکہ میں کی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ مکہ میں تیز بارش ہوئی ، اس کی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ اس وقت مکہ پر مشرکین کا غلبہ تھا۔ انھوں نے5 ویں صدی عیسوی میں کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ اہل مکہ نے کسی سبب کے تحت کعبہ کی تعمیر ثانی کے وقت اس کو چھوٹا کردیا۔ انھوں نےاس کے ایک حصے کو غیر مسقف حالت میں کھلا چھوڑدیا، جو کہ ابھی تک اسی طرح موجود ہے۔ کعبہ کےابراہیمی نقشے کے مطابق، کعبہ ایک مستطیل (rectangle) صورت کا تھا۔ تعمیر نو کے وقت قریش کے لوگوں نے کعبہ کو چوکور بنادیا۔جب کہ اس سے پہلے وہ مستطیل تھا۔اس کے کچھ حصے کو انھوں کھلا چھوڑ دیا، جس کو اب حطیم کہا جاتا ہے۔کعبہ کے مقابلے میں حطیم کا ایریا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔
کعبہ کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لعائشةالم تري أن قومك لما بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم؟ فقلتيا رسول الله، ألا تردها على قواعد إبراهيم؟ قاللولا حدثان قومك بالكفر لفعلت (صحیح البخاری، حدیث نمبر1583)۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ سے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ کی عمارت بنائی، تو ابراہیم کی بنیاد سے اسے چھوٹا کردیا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ پھر آپ اس کو ابراہیمی بنيادکے مطابق کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ نے فرمایا اگر تمہاری قوم کے کفر کا زمانہ ابھی حال ہی میں نہ گزرا ہوتا تو میں ایسا کردیتا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کی توجیہ ابن حجر العسقلانی نے ان الفاظ میں کی ہے رعايةً لقلوب قريش (فتح الباری، 3/457)۔یعنی قریش کے قلوب کی رعایت میں ایسا کیا۔
اصل یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں لوگ بہت حساس ہوتے ہیں ۔ جب کسی مذہبی یادگار پر لمبی مدت گزرجائے تو لوگوں کی نظر میں وہ مقدس بن جاتی ہے۔ اس میں ادنیٰ تغیر کو وہ برداشت نہیں کرتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اگر کعبہ کی عمارت میں تغیر کرتے تو اندیشہ تھا کہ لوگ اس کا تحمل نہ کرسکیں گے، اور اس کا منفی نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں توحید کا دین قائم کرنے کا جو عمل جاری ہے، وہ درمیان میں جپرڈائز (jeopardize) ہوجائے گا، اور اصل مشن کو سخت نقصان پہنچے گا۔
اسلام میں رعایتِ عوام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ،9:60 ) کہا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیف قلب اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی مشن کے دوران ہمیشہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے درمیان فرق کیا۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ ایک غیر اہم چیز کی خاطر آپ اہم کو نظر انداز کردیں ۔ آپ کے سامنے ہمیشہ اصل نشانہ ہوتا تھا، اور جو چیز اصل نشانے کی نسبت سے غیر اہم ہو، اس کو آپ ہمیشہ نظر انداز کرکے اصل نشانے پر قائم رہتے تھے۔ یہ اصول ایک دائمی اصول ہے، اور اسی اصول کا نام وزڈم ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف نے وزڈم کی یہ تعریف دریافت کی ہے:
Wisdom is the ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
ڈاکٹر مائکل ہارٹ (Dr. Michael H Hart) نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100) میں بتایا ہے کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔ آپ کی اس عظیم کامیابی کا راز یہی تھا۔ آپ نے اپنے مشن میں ہمیشہ اس وزڈم کو اختیار کیا۔
عملی تقاضا
اسلام میں شورائی سیاست کا نظام اختیار کیا گیاہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ پیغمبراسلام کی وفات کے بعد اسی اصول کی بنیاد پر خلافت کا نظام قائم ہوا۔ مگر تقریباً تیس سال کے بعد لوگوں کو محسوس ہوا کہ خلافت کا نظام عملاً ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ سیاست میں اصل چیز استحکام (stability) ہے۔ مگر خلافت کے نظام کے تحت استحکام کا یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ چناں چہ چوتھے خلیفہ علی ابن ابي طالب کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا، اور بعد کی تمام صدیوں میں عملاً مسلمانوں کے درمیان یہی نظام رائج رہا۔
خاندانی بادشاہت کا نظام جب شروع ہوا، اس وقت صحابہ اور تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس کے بعد محدثین ، فقہا ء، اور علماء متقدمین کا دور آیا۔ ان تمام لوگوں نے عملاً اس سیاسی تبدیلی کو قبول کرلیا۔ اس کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اسلام میں سیاست کا اصل مقصود سماجی استحکام (social stability) ہے۔ یہ استحکام خلافت کے نظام کے تحت حاصل نہیں ہورہا تھا۔ لیکن خاندانی حکومت کے تحت وہ حاصل ہوگیا۔ اس لیے پریکٹکل وزڈم کے اصول پر اس کو قبول کرلیا گیا۔
یہ بھی ری پلاننگ کا ایک کیس تھا۔ اسلام کے پہلےدور میں خلافت کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ خلافت کا نظام ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پچھلی تاریخ کے نتیجے میں لوگوں کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ حاکم کے بعد حاکم کی اولاد کو حقِ حکومت (right to rule)حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت تک یہ رواج ختم نہیں ہوا تھا۔ اس لیے پریکٹکل وزڈم کا تقاضا تھا کہ خاندانی حکومت کے نظام کو اختیار کرلیا جائے۔ تاکہ کم از کم سیاسی استحکام (political stability) کا مقصد حاصل ہوجائے۔ اس لیے عملی سبب (practical reason)، نہ کہ نظری سبب (theoretical reason) کے تحت خاندانی سیاست کا نظام اختیار کر لیا گیا۔ یہ ری پلاننگ کی ایک مثال ہے ۔تاریخ کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اس معاملے میں دورِ اول میں لیا ہوا ری پلاننگ کا فیصلہ باعتبارِ حقیقت بالکل درست تھا۔
ری پلاننگ کے معاملے کا تعلق اصول (principle) سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریق کار (method) سے ہے۔ طریقِ کار کبھی مطلق (absolute) نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا تعین ہمیشہ عملی افادیت (pragmatism) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کی مشہور روایت ہے ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين، أحدهما أيسر من الآخر، إلا اختار أيسرهما (صحیح مسلم ،حدیث نمبر 2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہاں ایسر کا لفظی مطلب ہے آسان۔ یہاں آسان طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جو با آسانی قابل عمل ہو۔یعنی وہ طریقہ جو کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ کرے، جس پر غیر نزاعی (non-controversial)انداز میں عمل کرنا ممکن ہو۔
اس حدیث سے کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ منصوبہ پوری طرح قابل عمل ہو۔ وہ کوئی نزاع پیدا کرنے والا نہ ہو۔ وہ ایک نتیجہ خیز طریقہ کار ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے میں تو وہ ایک خوبصورت بات معلوم ہو، لیکن جب اس کو عمل میں لایا جائے تو وہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلےمنصوبے میں اس تجربے کا موقع ہوتا ہے کہ کیا چیز قابل عمل (workable) ہے، اور کیا چیز قابل عمل نہیں ۔اس لحاظ سے دوسرے منصوبے کا فائدہ یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے اپنے کو بچایا جائے،ا ور صرف نتیجہ خیز پہلووں کو سامنے رکھ کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ تاکہ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہوا تھا تو دوسرا منصوبہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ جو مقصد اگر پہلے منصوبے میں نہیں ملا تھا تو اس کو دوسرے منصوبے کے تحت حاصل کر لیا جائے۔
اس کے مطابق یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پہلے منصوبے کے وقت غلطی قابل معافی ہوسکتی ہے۔ لیکن دوسرے منصوبے کے وقت غلطی قابل معافی نہیں ۔ اس اعتبار سے دوسرے منصوبے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو شروع کیا جائے۔ غلطی کا کھلا اعتراف کیے بغیر دوسری منصوبہ بندی سرے سے منصوبہ بندی ہی نہیں ، بلکہ وہ نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔
تاتاری حملے کا واقعہ
تیرھویں صدی میں وسط ایشیا(Central Asia) میں خوارزم کی حکومت تھی۔ منگول سردار چنگیز خاں نے اپنا سفیر سلطان علاءالدین شاہ کے دربار میں بھیجا۔سلطان نے کسی غلط فہمی کی بنا پر تاتاری سفیر کو قتل کردیا۔اس سے چنگیز خان کا غصہ بھڑک اٹھا۔ اس نے قبائل کی فوج کے ساتھ مسلم سلطنت پر حملہ کردیا، اور اس کے پوتے ہلاکو خاں نے تکمیل تک پہنچایا۔ اور سمرقند سے لے کر حلب تک مسلم دنیا کو تاراج کردیا۔
مورخ ابن اثیر نے اس واقعہ کو مسلم تاریخ کا سب سے بھیانک واقعہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مسلم دنیا میں جوابی کارروائی کا ذہن ابھرا۔ سیاسی سرگرمیاں تیزہو گئیں ۔ یہاں تک کہ 1260 میں عین جالوت کی لڑائی پیش آئی۔اس لڑائی سے اس وقت کے مسلمانوں کو جزئی فائدہ ہوا، لیکن وہ تاتاریوں کو مسلم دنیا سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ مسلم دنیا میں یہ کہا جانے لگا من حدثكم أن التتر انهزموا وأسروا فلا تصدقوه (الکامل فی التاریخ، 10/353) ۔ یعنی جو تم سے بیان کرے کہ تاتاری شکست کھاگئے، اور قید کرلیےگئے، تو اس کی تصدیق نہ کرو۔
اس زمانے میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو شعوری اعتبار سے مسلمانوں کو ری پلاننگ کا پیغام دے۔ تاہم حالات کا دباؤ (pressure) بھی ایک معلم ہوتا ہے۔ چنانچہ حالات کا معلم ظاہر ہوا، اور ایسے اسباب پیدا ہوئے ، جن کے نتیجے میں اس زمانے کےمسلمانوں میں ایک نیا خاموش عمل (process) جاری ہوگیا۔ یہ عمل اگرچہ بظاہر حالات کا نتیجہ تھا، لیکن عملا ًوہ وہی چیز بن گیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی بے فائدہ جنگ کو چھوڑ کر پر امن دعوت کا طریقہ اختیار کرنا۔
اس موضوع پر برٹش مصنف ٹی ڈبلیو آرنلڈ (1864-1930) نے گہری تحقیق کی ہے۔ طویل تحقیق کے بعد انھوں نے ایک کتاب (The Preaching of Islam) لکھی، جو 388 صفحات پر مشتمل ہے اور پہلی بار 1896 میں چھپی۔
پروفیسر آرنلڈ نے اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ کس طرح حالات کے دباؤ کے تحت اس وقت کے مسلمانوں میں عملا ًایک نیا ذہن ابھرا۔ یہ مسلح جنگ کے بجائے پر امن دعوت کا ذہن تھا۔ پر امن دعوت کا کام بڑے پیمانے پر تاتاریوں کے درمیان ہونے لگا۔جو آخر کار اس درجے تک پہنچا کہ منگولوں (تاتاریوں ) کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فلپ کے هٹی(Philip K Hitti) نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:
The religion of the Moslems had conquered where their arms had failed. (1970, p. 488)
پروفیسر هٹی کی بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے — مسلمانوں کی پہلی پلاننگ جہاں ناکام ہوگئی تھی، اس کی دوسری پلاننگ نے وہاں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ دوسرا پراسس اس واقعہ سے شروع ہوا جس کو پروفیسر آرنلڈ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
This prince, Tūqluq Timūr Khān (1347-1363), is said to have owed his conversion to a holy man from Bukhārā, by name Shaykh Jamāl al-Dīn. This Shaykh, in company with a number of travellers, had unwittingly trespassed on the game-preserves of the prince, who ordered them to be bound hand and foot and brought before him. In reply to his angry question, how they had dared interfere with his hunting, the Shaykh pleaded that they were strangers and were quite unaware that they were trespassing on forbidden ground. Learning that they were Persians, the prince said that a dog was worth more than a Persian. “Yes,” replied the Shaykh, “if we had not the true faith, we should indeed be worse than the dogs.” Struck with his reply, the Khan ordered this bold Persian to be brought before him on his return from hunting, and taking him aside asked him to explain what he meant by these words and what was “faith.” The Shaykh then set before him the doctrines of Islam with such fervour and zeal that the heart of the Khān that before had been hard as a stone was melted like wax, and so terrible a picture did the holy man draw of the state of unbelief, that the prince was convinced of the blindness of his own errors, but said, “Were I now to make profession of the faith of Islam, I should not be able to lead my subjects into the true path. But bear with me a little; and when I have entered into the possession of the kingdom of my forefathers, come to me again.” Later he accepted Islam. (The Preaching of Islam, London, 1913, pp. 180-81)
بابری مسجد کا سبق
ایودھیا (انڈیا) میں 1528-29ءمیں ایک مسجد کی تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد مغل بادشاہ بابر کے گورنر میر باقی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بنا پر اس کا نام بابری مسجد رکھا گیا تھا۔اس مسجد کے بارے میں اول دن سے ہندووں کو یہ شکایت تھی کہ وہ رام چبوترہ کی زمین پر بنائی گئی ہے۔ اس بنا پر یہ مسجد اول دن سے متنازعہ مسجد تھی۔ اس مسجد کے معاملے میں ہندؤوں کے درمیان ناراضگی پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آزادیٔ ہند (1947) کے بعد بی جے پی کی ایک تحریک کے دوران ا س کو ڈھا دیا گیا۔ یہ واقعہ 6 دسمبر 1992 کو پیش آیا۔ اس کے بعد مسجد کی جگہ ایک عارضی مندر (makeshift temple) بنا دیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں پر شور تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام مسلم رہنماؤں کا یہ متفقہ مطالبہ تھا کہ بابری مسجد کو دوبارہ اس کے سابقہ جگہ پر بنایا جائے۔ راقم الحروف نے محسوس کیا کہ یہ مطالبہ عملا ًایک ناممکن چیز کا مطالبہ ہے۔ اب مسلمانوں کو ایک ایسی چیز کا مطالبہ کرنا چاہیے جو نئے حالات میں قابل عمل مطالبہ ہو۔ چنانچہ میں نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان بابری مسجد کے ری لوکیشن (relocate) پر راضی ہوجائیں ۔ ہندو سائڈ نے اس تجویز کو فوراً مان لیا۔ مگر انڈیا کی مسلم قیادت ، باریش قیادت اور بےریش قیادت، دونوں نے متفقہ طور پر اس کو نامنظور کردیا، اوروہ اس مطالبے پر مصر رہے کہ بابری مسجد کو دوبارہ وہیں بنا یا جائے، جہاں وہ پہلے تھی۔ یہ مطالبہ جدید حالات کے اعتبار سے قطعی طور پر ناقابل عمل تھا۔ چنانچہ تقریباً 25 سال گزرگئے، اور مسلم جانب سے مسلسل کوشش کے باوجود ابھی تک یہ معاملہ غیر حل شدہ حال میں پڑا ہوا ہے۔
اگرمسلم رہنماؤں کو ری پلاننگ کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ فوراَری لوکیشن کی تجویز کو مان لیتے ، اور اب تک وہاں کسی قریبی علاقے میں دوبارہ بابری مسجد کے نام پر ایک اسلامک سینٹر بن چکا ہوتا۔ مسجد کو ری لوکیٹ کرنے کا طریقہ عالم عرب میں عام طور پر اختیار کیا جا چکا ہے۔ پھر انڈیا کے مسلم رہنماؤں کےلیے یہ کیوں قابل قبول نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب دنیا میں کمپلشن (compulsion) کی بنا پر کوئی دوسرا آپشن (option) موجود نہ تھا، جب کہ انڈیا میں آزادی کی بنا پر کوئی جبر موجود نہ تھا، اور مسلم رہنماؤں کو شعوری طور پر یہ معلوم ہی نہ تھا کہ ری پلاننگ بھی اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے۔
اس معاملے میں خود پیغمبر اسلام کے زمانے کی ایک رہنما مثال موجود تھی۔ وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کی نبوت سے پہلے قدیم مکہ میں شدید بارش ہوئی ، اور اس بنا پر کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت قدیم مکہ کے مشرک سرداروں نے کعبہ کی عمارت از سر نو بنائی۔ مگر کسی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا کہ کعبہ کے رقبہ کے ایک تہائی حصہ کو غیر مسقف حالت میں چھوڑ دیا، اور بقیہ حصہ میں کعبہ کی موجودہ عمارت بنا دی۔ یہ غیر مسقف رقبہ بدستور سابق حالت میں موجود ہے۔اس اعتبار سے دیکھیے تو خود کعبہ کی موجودہ عمارت گویا کہ ری لوکیشن کی ایک مثال ہے۔ کعبہ کی قدیم عمارت جو حضرت ابراہیم نے بنائی تھی، وہ لمبی عمارت تھی۔ جب کہ کعبہ کی موجودہ عمارت ایک چوکور عمارت ہے۔ یہ گویا کعبہ کی عمارت کو ری لوکیٹ کرنے کی ایک مثال ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس ری لوکیشن کو عملاً تسلیم کرلیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کعبہ کو دوبارہ اس کی قدیم بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔
ری لوکیشن کا مطلب یہ ہے کہ ایک بلڈنگ کو اس کی جگہ بدل کر نئی جگہ پر اسی ساخت کے مطابق بنادیا جائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں نے جگہ جگہ مسجدیں بنا لی تھیں ۔ بیسویں صدی میں جب عربوں کے پاس تیل کی دولت آئی تو انھوں نے اپنے شہروں کو پلاننگ سٹی کے انداز میں ڈیولپ کرنا شروع کیا۔ اس تعمیری منصوبہ میں جگہ جگہ مسجدیں حائل ہورہی تھیں ۔ تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجدوں کو ری لوکیٹ کرکے شہری منصوبہ کی تکمیل کی جائے۔ یہ منصوبہ علماء کے فتویٰ کے مطابق تھا۔ چنانچہ عرب ملکوں میں بڑی تعداد میں مسجدیں ری لوکیٹ کی گئیں ، اور ہر جگہ کے علماء نے اس کو ایک درست عمل کے طور پر تسلیم کرلیا۔ عرب دنیا کی یہ نظیر کافی تھی کہ ہندوستان میں بھی اس کو اختیار کرلیا جائے۔ مگر ہندوستانی علماء کےعدم اتفاق کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
دعوت کی ری پلاننگ
دعوت الی اللہ اسلام کا اہم ترین مشن ہے۔ دعوت کے دو دور ہیں ۔ آغاز سے ظہور سائنس تک، ظہور سائنس کے بعد اکیسویں صدی تک۔ جدید سائنس سے پہلے دعوت اسلام کا کام استدلال کے اعتبار سے معجزہ (miracle) کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اس کو قرآن میں بینات (الحدید، 57:25) کہا گیا ہے۔ دوسرے دور میں دعوت کا کام استدلال کے اعتبار سےسائنسی شہادت (scientific evidence) کی بنیاد پر انجام پانا ہے۔ یہ سائنسی شہادت وہی چیز ہے جس کو قرآن میں آیات آفاق و انفس (فصلت،41:53) کے الفاظ میں پیشگی طور پر بیان کردیاگیا ہے۔
ماڈرن سائنس کوئی اجنبی چیز نہیں ۔ یہ دراصل فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے حقائق کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ فطرت میں یہ مخفی دلائل اسی لیے رکھ دیےگئے تھے کہ وقت آنے پر ان کو دریافت کرکے دعوت کےحق میں استدلالی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اب آخری طور پر وہ زمانہ آگیا ہے، جب کہ اس استدلالی بنیاد کو دعوت حق کے لیے استعمال کرکے دعوت حق کا وہ اعلیٰ استدلالی کام انجام دیا جائے جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938) کہا گیاہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کی بنیاد پر دعوت کےاس کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ راقم الحروف نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ، اور درجنوں چھوٹی بڑی کتابیں اس موضوع پر لکھی هيں ۔ ان میں سے ایک مذہب اور جدید چیلنج ہے جو پہلی بار 1966 میں چھپی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ اکثر بڑی بڑی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ مثلا عربی میں الاسلام یتحدی (1970)، اور انگریزی میں گاڈارائزز (1988) ،وغیرہ۔اس موضوع پر مسیحی علماء نے کافی کام کیا ہے۔ مثلاً چالیس امریکی سائنسدانوں کے مقالات پر مشتمل ایک کتاب چھپی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe
یہ کتاب پہلی بار 1958 میں امریکا سے چھپی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کا عربی ترجمہ اللہ یتجلی فی عصر العلم (1987، مصر ) کے نام سے چھپا۔ اردو میں اس کا ترجمہ خدا موجود ہے ۔اس موضوع پر ایک اور قابل ذکر کتاب بائبل قرآن اورسائنس (The Bible, the Quran, and Science)ہے۔ یہ کتاب اولاًڈاکٹر ماریس بوکائی نے فرانسیسی زبان میں تیار کی ۔اس کے بعد اس کتاب کا ترجمہ انگریزی و دیگر زبانوں میں ہوا۔عربی زبان میں اس کتاب کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔ اس کا ٹائٹل ہے التوراة والإنجيل والقرآن والعلم(بیروت، 1407ھ) —تاہم اس کام کی تکمیل کےلیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں ، وہ ہم کو ایک نیا فریم ورک (framework) دے رہی ہیں ۔ اس فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وقت کےمسلمہ علمی معیار پر ثابت شدہ بنایا جا سکے۔
جدید سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کا علم کلام ہے۔ جدید سائنس نے وہ ڈیٹا (data) فراہم کردیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات کو وقت کے مسلمہ معیار کی بنیاد پر پیش کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جدید سائنسی دور قرآن کی ایک آیت کی پیشین گوئی کا واقعہ بننا ہے۔ وہ آیت یہ ہےسَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53) ۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
قرآن کی اس آیت میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں سائنسی مطالعہ کے ذریعہ فطرت کے قوانین (laws of nature) دریافت ہوں گے، اور ان دریافتوں کے ذریعے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی حقیقتوں کو اعلیٰ عقلی معیار پر ثابت شدہ بنایا جاسکے۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی حقیقتوں کی دریافت ہو گی، جن کی بنیاد پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی علم کلام کو وقت کے مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر مدوّن کیا جاسکے۔
دانش مندی کی ضرورت
ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں الكلمة الحكمة ضالة المؤمن، فحيث وجدها فهو أحق بها (سنن الترمذی، حدیث نمبر2687)۔ یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے، وہ جہاں اس کو پائے اس کو لے لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت کی بات کوئی مذہبی عقیدے کی بات نہیں ۔ ہر انسان اس کو کہیں سے بھی لے سکتا ہے، اور اس کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ تعلیم بہت زیادہ اہم ہے۔ اس سے ری پلاننگ کا دائرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی گروہ کے لیے ری پلاننگ کا وقت آئے تو وہ اپنے اور غیر میں کوئی فرق نہ کرے۔ وہ ہر حکمت کو خود اپنی چیز سمجھے۔ وہ ہر حکمت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے۔
ری پلاننگ کے اصول کو پیشگی طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا۔ ری پلاننگ ہمیشہ بدلے ہوئے حالات میں کی جاتی ہے، اور بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ فہم و بصیرت سے ہے۔ ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے حالات کا بے لاگ جائزہ لے۔ وہ فطرت کے اٹل اصولوں کی معنویت کو دوبارہ دریافت کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگا کہ وہ فطرت کے نظام میں کوئی خلل ڈالے بغیر اپنے مقصد کی تکمیل کرسکے۔
اس اصول کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہے۔ہجرت کے پانچویں سال جب کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں تھے، آپ کو معلوم ہوا کہ قریش کے لیڈر تمام عرب سےبارہ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں ۔ آپ نے اپنےاصحاب کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ لڑائی کے بغیر اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ آپ کے ساتھیوں میں ایک سلمان فارسی تھے، جو ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جب بادشاہ لوگ جنگ کو اوائڈ (avoid) کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں ۔اس طرح فریقَین کے درمیان ایک بفر (buffer) قائم ہوجاتا ہے، اور دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آتی۔ پیغمبر اسلام نے اس کو پسند کیا، اور رات دن کی کوشش سے مدینہ کے ایک طرف جو کھلا ہوا تھا، لمبی خندق کھود دی گئي۔اس طرح فریقین کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے فریقین کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کی نوبت آجاتی تھی۔ جنگ کو ٹالنے کا یہ طریقہ جو اس وقت اختیار کیا گیا، وہ اس بات کی مثال تھی کہ دوسرے کے طریقے کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی درست ہے جتنا کہ خود اپنے مقرر کیے ہوئے طریقے پر عمل کرنا۔ کامیابی حاصل کرنےکے لیے دونوں طریقے یکساں طور پراہم ہیں ۔
اس سلسلے کی ایک مثال وہ ہے جس کا اشارہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (61:14)۔ یعنی اے ایمان والو، تم اللہ کے مددگار بنو۔ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا، کون اللہ کے واسطے میرا مددگار ہوتا ہے۔ حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کے مددگار۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں (مسیحیوں ) نے جو طریقہ اختیار کیا، اس طریقے میں اللہ کی مدد آتی ہے، اور اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مسیحی لوگوں کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے پرنٹنگ پریس کے زمانے کو پہچانا، اور بائبل کا ترجمہ مختلف زبانوں میں تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیا۔
صحابہ کے دور میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا۔ صحابہ قرآن کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسیحی پیٹرن (pattern) پر قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائیں ،اور ان کو چھاپ کر ساری دنیا میں پہنچادیا جائے۔ گویا کہ اصحاب رسول مقری آف قرآن بنے تھے، اب ہمیں ڈسٹری بیوٹر آف قرآن بننا ہے— یہ اشاعتِ قرآن کے معاملے میں ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔
دور جدید
دور جدید کے مسلمانوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر اس ذہنیت کا شکار ہیں، جس کو اناکرونزم (anachronism) کہا جاتا ہے، یعنی خلاف زمانہ حرکت۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کو ماضی سے کام کا جو ماڈل وراثتی طور پر ملا ہے ، وہ ابھی تک اس سے باہر نہیں آئے۔ وہ زمانے سے بے خبری کی بنا پر قدیم ماڈل کو جدید دور میں دہرارہے ہیں ۔ مگر یہ طریقہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ۔
مثلاً قدیم زمانے میں اصلاح کے لیے فتویٰ کی زبان رائج تھی۔ آج کے علماء بدستور اسی ماڈل کو اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اسی بنا پر وہ تکفیر کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ وہ جس کو غلط سمجھتے ہیں ، اس کے خلاف کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں ، اور اس کے قابل گردن زدنی ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔ حالاں کہ اب کسی بھی درجے میں ان طریقوں سے کوئی اصلاح ہونے والی نہیں ۔ یہ زمانہ عقلی استدلال (rational argument) کا زمانہ ہے۔ اب آج کے لوگوں کے لیے صرف عقلی استدلال مؤثر ہوسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں فتویٰ کی زبان ورک (work) کرنے والی نہیں ۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمان بڑے پیمانے پر اسلامی مقصد حاصل کرنے لیےجہاد کے نام پر تشدد کی تحریکیں چلارہے ہیں ۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ ختم ہوچکا ہے جب کہ تشدد کا طریقہ مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانے میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیےامن کا طریقہ پوری طرح کافی ہے۔اسی طرح مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام کی اشاعت کے نام پر مناظرہ (debate) کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں مناظرہ کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کام کے لیے ڈسکشن اور ڈائلاگ کی اہمیت ہے، نہ کہ ڈیبیٹ کی۔
اسی طرح بہت سےمسلم رہنما امت کی ترقی کے لیے احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت کے ماڈل پر کام کررہے ہیں ، مگران کو معلوم نہیں کہ صحافت اور قیادت کے لیے یہ ماڈل اب آخری حد تک بے اثر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی کام ہی نہیں ، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم رہنما امت کے کاز (cause)کے لیے کام کرنے اٹھے، وہ صرف اپنے داخلی جذبہ کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے باقاعدہ مطالعے کے ذریعہ یہ جاننے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ موجودہ زمانہ کیا ہے، اور موجودہ زمانے میں کوئی کام موثر طور پر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف ایک کتاب کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔اس کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West (1965, pp 132)
مسلم رہنماؤں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ دورِ جدید کو دشمن اسلام دور سمجھتے ہیں ۔ یہ سرتاسر بے بنیاد بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دور جدید پورے معنوں میں ایک موافق اسلام دور ہے۔ وہ اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ غیر مسلم قومیں اسلام کی مؤید (supporter) بن جائیں گی (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔
یہ خود اللہ رب العالمین کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ پیغمبر اسلام کے ظہور سے تقریبا ًڈھائی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کےذریعہ ایک منصوبہ جاری کیا گیا تھا۔ جس کو مبنی بر صحرا منصوبہ (desert-based planning) کہا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعہ عرب میں ایک ٹیم تیار ہوئی۔ یہ ٹیم موافق اسلام ٹیم تھی۔ اس ٹیم پر عمل کرکے پیغمبر اسلام نے اصحاب رسول کو تیار کیا، جن کو قرآن میں خیر امت (آل عمران،3:110) کہا گیا ہے۔ اسی طرح ساتویں صدی عیسوی میں رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد کے ذریعہ ایک نیا تاریخی عمل (historical process) جاری ہوا۔ اس عمل کے سیکولر نتیجے کے طور پر جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک موافق اسلام تہذیب تھی۔ مگر مسلم رہنما اس راز کو نہ سمجھ سکے، اور غیر ضروری طور پر انھوں نےاس کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ حالاں کہ ضرورت تھی کہ اس تہذیب کی بنیاد پر اسلامی مشن کی نئی پلاننگ کی جائے۔
صلیبی جنگیں
صلیبی جنگیں (Crusades)تاریخ کا ایک طویل جنگی سلسلہ تھا ، جو 1095 ءمیں شروع ہوا، اوروقفہ وقفہ سے 1291 ءتک جاری رہا۔اس زمانے میں بیت المقدس کا علاقہ مسلم حکومت کے ماتحت تھا۔ اس علاقے کو مسیحی لوگ مقدس علاقہ (holy land) کہتے ہیں ۔ یہ علاقہ پہلےرومی سلطنت میں تھا، اس کے بعد عمر بن خطاب کے زمانے میں وہ مسلم سلطنت میں شامل ہوا۔
صلیبی جنگوں کے موقع پر تقریبا ًپورے مسیحی یورپ نے مل کر حملہ کیا، تاکہ وہ اس مقدس علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے سکیں ۔ مگر متحدہ کوشش کے باوجود اس محاذ پر ان کو کامل شکست ہوئی۔ اس واقعے کو مورخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) قرار دیا ہے۔
مگر تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد مغرب کی مسیحی قوموں نےہار نہیں مانی، بلکہ ان کے اندر ایک مثبت اسپرٹ جاگ اٹھی۔ انھوں نے صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد اپنے میدان عمل کو بدل دیا، اور جنگ کے میدان کے بجائے پر امن تحقیق کو اپنا میدان بنا لیا۔ ایک مبصر نے اس کو اسپریچول کروسیڈس(spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔
اس پر امن کروسیڈس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کے مسیحی اہل علم تاریخ میں ایک نیا دور لانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ وہی دور ہے جس کو scientific age کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی ساری توجہ فطرت (nature)کی تحقیق پر لگا دی۔ اس کے نتیجے میں فطرت کے اندر چھپی ہوئی ٹکنالوجی پہلی بار انسان کے علم میں آئی۔ اسلام نے اعلان کیا تھا کہ نیچر پرستش کا موضوع نہیں ہے، بلکہ وہ تحقیق کا موضوع ہے (الجاثیۃ،45:12-13)۔ اس طرح اسلام نے فطرت اور پرستش دونوں کو ایک دوسرے سے نظری طور پر ڈی لنک (delink) کردیا تھا۔ اس سلسلے کا اگلا کام مغرب کی مسیحی قوموں نے کیا ۔ انھوں نے فطرت کی آزادانہ تحقیق شروع کی۔ یہاں تک کہ آخر کار سائنس کا دور پیداہوا، اور پھر وہ چیز ظہور میں آئی جس کو جدید تہذیب کہا جاتا ہے۔
مسیحی یورپ کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ مسیحی یورپ نے پہلے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ جنگ کی طاقت سے ارض مقدس پر قبضہ حاصل کریں ۔ دو سوسال کی جنگ کے بعد جب یہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو ان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ وہ جنگ کے میدان کے بجائے پرامن میدان میں اپنی کوشش صرف کریں ۔ یہ ری پلاننگ کامیاب رہی، اور چند سوسال کی مدت میں صرف یہ نہیں ہوا کہ ایک نیا سیاسی دور وجود میں آگیا، بلکہ یہ ہوا کہ مسیحی یورپ نے نئے وسائل کے استعمال سے دوبارہ اس غلبہ کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کرلیا ، جو سیاسی میدان میں ناکامی سے کھویا گیا تھا۔
اس علاقے کے مسلم رہنما اُس وقت اپنے معاملے کی ری پلاننگ نہ کرسکے، 1947 میں جب فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی، اور اس میں فلسطین کا نصف حصہ عربوں کو دیاگیا ۔ عرب رہنما کے لیے بھی یہ ایک ری پلاننگ کا وقت تھا۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے پچھلے سیاسی مائنڈ سیٹ کو توڑیں ، اور نئے حالات کے لحاظ سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں ۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقیناً آج فلسطین میں ایک طاقت ور سلطنت قائم ہوتی۔ فلسطین کا جو علاقہ عربوں کے قبضے میں دیا گیا تھا، وہ فلسطین کا سب سے زیادہ اہم علاقہ تھا۔ نیز شام اور عراق اوراردن اور مصر پہلے ہی سے ان کے قبضے میں تھے۔
یہ پورا علاقہ ایک تاریخی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ عالمی سیاحت کے لیے بہت زیادہ ٹورسٹ اٹریکشن (tourist attraction) رکھتاہے۔ اگر اس علاقے میں امن قائم رہتا تو سیاحت کی انڈسٹری بہت زیادہ فروغ پاتی۔ اس سے عربوں کو نہ صرف اقتصادیات کے اعتبار سے غیر معمولی فائدے حاصل ہوتے، بلکہ سیاحوں کی آمد و رفت سے اس علاقے میں دعوتی مشن کا کام بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوسکتا تھا۔ مگر ری پلاننگ کی اہمیت کو نہ جاننے کی وجہ سے یہ عظیم موقع استعمال نہ ہوسکا۔حسن البناء اور عرب کےدوسرے مسلم رہنماؤں نے15دسمبر 1947 میں قاہرہ میں بہت بڑا جلسہ کیا تھا۔ اس میں تقریر کرتے ہوئے حسن البناء نے کہاتھالبیك فلسطین ۔ اگر وہ دانش مندی سے کام لیتے تو وہ لبیك ایها الناس کے نعرے کے ساتھ اس علاقے میں داخل ہوتے، اور یہاں اسلام اور مسلمانوں کا نیا مستقبل تعمیر کرسکتے تھے۔ مگر یہ عظیم موقع استعمال ہونے سے رہ گیا۔
ویٹیکن ماڈل
ایک حدیث رسول کے مطابق، اللہ رب العالمین اہل اسلام کے لیےدوسری قوموں کے ذریعہ تائید (support) فراہم کرےگا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔اس حدیث رسول کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی دوسری قوموں یا سیکولر لوگوں کے ذریعے ایسے ماڈل (model) سیٹ کرےگا، جو اہل اسلام کے لیے اپنے دینی مشن میں رہنما بن سکے ۔ غور کیا جائے تو تاریخ میں بار بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک واقعہ وہ ہے جس کو ویٹیکن ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
قدیم یورپ میں مسیحی پوپ کو پورے یورپ کے لیے بے تاج بادشاہ (uncrowned king) کا درجہ حاصل تھا۔ سترھویں صدی میں حالات بدلے، اور دھیرے دھیرے پوپ نے اپنا اقتدار کھودیا۔اب پوپ کے لیے دو آپشن (option)کے درمیان انتخاب کا معاملہ تھا۔ یا تو پولٹکل رول کی حیثیت سےپوپ کا عہدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، یا کسی نان پولٹکل سطح پر پوپ کا ٹائٹل باقی رکھا جائے۔غور وفکر کے بعد مسیحی ذمہ دار ان دوسری حیثیت پر راضی ہوگئے۔یہ واقعہ مسولینی کے زمانے میں ہوا۔ 1929 میں مسیحی پوپ اور اٹلی کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس کو لیٹرن ٹريٹي(Lateran Treaty) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق، اٹلی کی دارالسلطنت روم میں پوپ کو ایک محدود علاقہ دے دیا گیا، جس کا رقبہ تقریبا ایک سو دس ایکڑ تھا۔یہ علاقہ پہلے سے مسیحی لوگوں کے پاس تھا۔ اب اس کو ایک با اقتدار اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ پوپ نے اس علاقے کو ڈیولپ کیا، اور اب وہ مسیحیت کےلیے روحانی کنگڈم (spiritual kingdom) کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے۔
لیٹرن معاہدے کے ذریعہ مسیحی قوم کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پوپ ڈم (Popedom)کے خاتمے کے باوجود پوپ کا ٹائٹل بدستور باقی رکھیں ۔ وہ پوپ کے نام سے بدستور ساری دنیا میں اپنی مذہبی تنظیم (religious organization) قائم کریں ۔ وہ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت ساری دنیا میں منظم طور پر اپنے مذہب کا کام کرسکیں ۔ یہ وہی حکمت تھی جس کو قرآن میں إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (9:52) کہا گیا ہے، یعنی دوبہتر میں سے ایک (one of the two bests) کا انتخاب کرنا ۔
موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی محرومی کی شکایت کرتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محرومی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ زمانی حقائق سے بے خبری کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو بار بار یہ موقع ملا کہ وہ’’ویٹیکن ماڈل‘‘ کے مطابق اپنے لیے دوسرا بہتر (second best) حاصل کرلیں ۔ لیکن مسلمانوں کے رہنما اپنی غیر دانشمندی کی بنا پر اس موقع کو اویل (avail) نہ کرسکے۔ مثلاً بیسویں صدی کے ربع اول میں جب یہ واضح ہو گیا کہ عثمانی خلافت کا سیاسی ادارہ باقی نہیں رہ سکتا۔ تو مسلم رہنماؤں کے لیے یہ موقع تھا کہ گفت و شنید کے ذریعہ وہ دوسرے بہتر (second best) پر راضی ہوجائیں ۔ یعنی خلافت کے نام سے ترکی کے کسی علاقہ ، مثلاً قسطنطنیہ کے ایک محدود رقبہ کو حاصل کرلیں ، اور وہاں ویٹیکن جیسا ایک ادارہ بنا کر خلیفہ کے ٹائٹل کو بدستور باقی رکھیں ۔یہ مسلم رہنماؤں کے لیے اپنے مسئلے کی ری پلاننگ کا ایک موقع تھا۔ مگر اس وقت کے مسلم رہنما اِس معاملے میں حقیقت شناسی کا ثبوت نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کا ٹائٹل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
اسی طرح 1952 میں جب مصر کےشاہ فاروق کی حکومت ختم ہوئی، اور مصر میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ تو اس وقت الاخوان المسلمون کومصر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت میں وزارت تعلیم (Education Ministry) کی پیش کش کی، مگر الاخوان المسلمون کے رہنماؤں نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے 1962 میں جماعت اسلامی پاکستان کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان میں ایک بین اقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے، اور اس کا مکمل چارج جماعت اسلامی پاکستان کو دے دیا جائے۔ مگر جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ داران نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ سب ری پلاننگ میں ناکامی کا معاملہ ہے، اور یہی ناکامی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل ذمہ دار ہے۔
اسپین کا تجربہ
عرب مسلمان آٹھویں صدی عیسوی میں اسپین میں داخل ہوئے۔ یہاں انھوں نے اسپین کے ایک حصے میں اپنی حکومت قائم کی۔ اسپین کے اس حصے کو الاندلس کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت نشیب و فراز کے ساتھ تقریباً آٹھ سوسال تک جاری رہی۔ آخری دور میں عرب مسلمانوں کے خلاف سیاسی ردّعمل ہوا۔ ایک خونی جنگ کے بعد عرب مسلمان اسپین سے مکمل طور پر نکال دیےگئے۔
مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اسپین کی قدیم تاریخ میں پہلے عرب مسلمانوں کو حملہ آور (invader) کی حیثیت سے لکھا گیا تھا۔ مگر اب اسپین میں نئی تاریخ لکھی گئی ہے، جو عرب دور کے اسپین کو خود اسپین کی تاریخ کا ایک حصہ قرار دیتی ہے۔اس نئے دور کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ اسپین کے ساحل پر عرب رولر عبدالرحمن الداخل کا اسٹیچو دوبارہ نصب کیا گیا ہے، جو تلوار لیے ہوئے بظاہر فاتح کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ یہ اسٹیچو 1984 میں تیار کیا گیا تھا
Abd al-Rahman I landed at Almunecar in al-Andalus, to the east of Malaga, in September 755. The statue was created in 1984.
اسپین میں یہ انقلاب کیسے آیا۔ اصل یہ ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں سیاسی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں سیاسی حکمرانی کے ساتھ کوئی مثبت تصور موجود نہیں ہوتا تھا۔ مگر بیسویں صدی میں صورت حال مکمل طور پر بدل گئی۔ اب جدید حالات کے تحت دنیا میں ایک نئی صنعت وجود میں آئی، جس کو ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ ٹورسٹ انڈسٹری ملکوں کے لیے اقتصادیا ت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسپین میں مسلم عہد کی تاریخی یادگاریں بڑی تعداد میں موجود تھیں ۔ ان کو دیکھنے کے لیے ساری دنیا کے سیاح وہاں آنے لگے۔ اس کے بعد اسپین کی حکومت کو معلوم ہوا کہ اس کے ملک میں اقتصادیات کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہے، اور وہ ہے مسلم عہد حکومت کی تاریخی عمارتیں ۔ اسپین کی حکومت نے ان تمام مقامات کی جدید کاری (renovation) کا کام بڑے پیمانے پرکیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسپین دنیا کی سیاحت انڈسٹری کے نقشے میں نمبر دو ملک بن گیا ، اور اس کی اقتصادی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ۔ حتیٰ کہ ایک پس ماندہ ملک ایک خوشحال ملک بن گیا۔
یہ کرشمہ ری پلاننگ کا کرشمہ تھا۔اسپین کے رہنماؤں نے وقت کی تبدیلی کو سمجھا، اور اس کے مطابق ازسر نو اپنا نقشہ بنایا۔ اس معاملے میں اقتصادی مفادات کی بنا پر اسپین کی متعصبانہ پالیسی بالکل ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ اسپین میں دوبارہ مسلمان آباد ہورہے ہیں ، وہاں مسجدیں بنا رہےہیں ۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں اسپین کے باشندوں میں اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ آج اسپین میں مسلمانوں کو ویلکم (welcome) کیا جار ہا۔ جب کہ اس سے پہلے مسلمان وہاں غیر مطلوب (unwanted) بن گئے تھے۔
اسپین کی اس ری پلاننگ میں مسلم دنیا کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اسی طرح کی ری پلاننگ کے مواقع مصر میں ، پاکستان میں ، فلسطین میں ، کشمیر میں ، اور دوسرے مسلم علاقوں میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں ۔ اگر مسلمان دورِ جدید کے اس ظاہرہ کو دریافت کرسکیں تو آج کی دنیا ان کے لیے موافق دنیا بن جائے گی، جس کو اب تک وہ ایک ناموافق دنیا سمجھے ہوئے ہیں ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اسپین کے نام سے صرف الحمراء، اور قرطبہ جیسی یادگار کو جانتے ہیں ۔ مگر اسپین میں مسلمانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ بڑی چیز موجود ہے، اور وہ ہے ایک انقلابی پیغام — وقت کے حقائق کو سمجھو، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی ری پلاننگ کرو۔ اس کے بعد اچانک تم دیکھو گے کہ ساری دنیا میں ایک نیا دور آگیا ہے، امیدوں اور مواقع کا دور۔
اسپین کے لیے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا دروازہ اس وقت کھلا، جب کہ انھوں نے اپنی منفی سوچ کو بدل دیا۔ جن مسلمانوں کو وہ پہلے اپنا دشمن سمجھتے تھے، ان کو انھوں نے اپنے دوست کی حیثیت سے دریافت کیا۔ اسی طرح مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں ۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ آج کی دنیا ان کی اپنی دنیا ہے، وہ کسی اور کی دنیا نہیں ۔ آج کی دنیا میں وہ اسلام کی تاریخ کو نئے عنوان سے رقم کرسکتے ہیں ۔
نوآبادیاتی نظام
مغربی نو آبادیات (colonialism) کا زمانہ سولہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف اول تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نوآبادیاتی نظام پہلے زمانے کی شہنشاہیت سے مختلف تھا۔ اصل یہ ہے کہ جدید صنعت کے ظہور کے بعد یورپ میں ماس پروڈکشن (mass production) کا زمانہ آیا۔ اب ضرورت ہوئی کہ اس فاضل پیداوار کے لیے بیرونی مارکیٹ حاصل کی جائے۔ اس طرح فاضل پیداوار کی کھپت کے لیے نوآبادیاتی نظام کا دور شروع ہوا۔ نوآبادیاتی نظام میں فوج کشی قدیم رواج کے زیر اثر آئی۔ ورنہ نوآبادیات کا فوج کشی سے براہ راست تعلق نہ تھا۔
نو آبادیاتی نظام کو فوج سے وابستہ کرنے کی بنا پر ایشیا اور افریقہ میں نو آبادیات كے زیر حکم ریاستوں میں اس کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ظاہر ہوگیا کہ نوآبادیات اور سیاسی اقتدار دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اب مغرب میں نئی سوچ پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیات کو سیاسی اقتدار سے ڈی لنک (de-link) کردیا جائے۔ چنانچہ فرانس نے ڈیگال کے زمانے میں افریقہ میں اپنی نوآبادیات کا یک طرفہ طور پر خاتمہ کردیا۔ اسی طرح برطانیہ نے ایشیا میں اپنی نوآبادیاتی حکومتوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔
اس کے بعد مغربی قوموں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ری پلاننگ کی۔ اس نئی پلاننگ کا طریقہ آؤٹ سورسنگ پر مبنی تھا۔یعنی آؤٹ سائڈ ریسورسنگ (outside resourcing) کا طریقہ۔ قدیم نوآبادیاتی نظام میں جو مقصد فوج سے لیا گیا تھا۔ اب وہ مقصد ٹکنالوجی اور تنظیم (organization) سے لیا جانے لگا۔ یہ طریقہ بہت کامیاب رہا۔ قدیم زمانے میں فوج کے ذریعہ جو تجارتی مقاصد حاصل کیے جاتے تھے، اب اس کی جگہ آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ اس سے بہت زیادہ تجارتی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں ۔ اب تمام صنعتی ممالک اسی اصول پر اپنی تجارتوں کو ساری دنیا میں پھیلائے ہوئے ہیں ۔ انھوں نے آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنا بزنس ایمپائر (business empire) قائم کر رکھا ہے۔
اس معاملے میں مسلم قومیں آخری حد تک ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔ قدیم زمانے میں دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں ۔ نیا دور آیا تو ان کی حکومتیں فطری طور پرختم ہوگئیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں میں رد عمل (reaction) پیدا ہوا۔ انھوں نے جہاد کے نام پر ساری دنیا میں لڑائی شروع کردی۔ یہاں تک کہ وہ سوسائڈ بمبنگ کی انتہائی حد تک پہنچ گئے۔ لیکن تقریباً دوسو سال کی قربانیوں کے باوجود انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا، وہ قدیم سیاسی نظام کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس معاملے میں اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں ۔
یہ ری پلاننگ پوری طرح نان پولٹکل (non-political) ری پلاننگ ہوگی۔ قدیم زمانے میں اگر مسلمانوں نے اپنی حکومتیں قائم کی تھیں تو اب انھیں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ موقع حاصل ہے کہ وہ پر امن دائرے میں اپنا ایک غیر سیاسی ایمپائر قائم کرسکیں ۔ موجودہ زمانے میں جو نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں ، وہ قدیم زمانے کے مواقع کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ ہیں ۔ ان جدید مواقع کو استعمال کرنا انتہائی حد تک ممکن ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد (violence) کے ہر طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں ۔
قدیم زمانے میں جو اہمیت فوجی طاقت کو حاصل ہوتی تھی، وہ اہمیت اب تنظیم کو حاصل ہوچکی ہے۔اب مسلمانوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی تنظیم کے ذریعے اپنے کام کی ری پلاننگ کریں ۔ وہ ایک امن پسند قوم کی طرح نئے مواقع کے حصول کی منصوبہ بندی کریں ۔ اس نئی منصوبہ بندی میں ان کا ایک بڑا آئٹم قرآن کو عالمی سطح پر پھیلانا ہوگا۔ قرآن کے تراجم اگر دنیا کی تمام زبانوں میں تیار کیے جائیں ، اور ان کو پر امن انداز میں ساری دنیا میں پھیلایا جائے تو یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا کام ہوگا جو تمام بڑے کاموں کے مقابلے میں زیادہ بڑا کام بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتح مبین (الفتح، 48:1) کے واقعہ کو نئی طاقت کے ساتھ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ مسلمان ری پلاننگ کے آرٹ کو جانیں ، اور اس کو دانش مندی کے ساتھ پر امن انداز میں رو بہ عمل لائیں ۔
برطانیہ کی مثال
برٹش ایمپائر (British Empire)کی ایک عظیم تاریخ ہے، اپنے عروج کے زمانے میں وہ اتنا بڑا تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ برطانی ایمپائر میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا:
It had been said that the sun never sets on the British flag.
آخری زمانے میں قانونِ فطرت کے تحت برٹش ایمپائر میں کمزوری آئی ۔ لیکن برٹش ایمپائر کے سیاسی ذمہ داران اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ برٹش ایمپائرکا خاتمہ کریں ۔ برطانیہ کے پرائم منسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965)نے کہا تھا کہ میں اس سیٹ پر اس لیے نہیں آیاہوں کہ میں برطانی سلطنت کے خاتمے کی صدارت کروں
I have not become the King's First Minister in order to preside over the liquidation of the British Empire.
مگر دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے بعد برطانیہ کی فوجی طاقت کمزور ہوگئی۔ بظاہر یہ ممکن نہیں رہا کہ برطانیہ اپنے ایمپائر کو باقی رکھے۔ اس وقت برطانیہ میں ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کا نام فیبین سوسائٹی (Fabian Society)تھا۔ اس تحریک کا ایک مقصد ڈی کالونائز ( decolonize)کرنا۔
فیبین سوسائٹی کے ایک ممبر لارڈ اٹلی(Clement Richard Attlee, 1883-1967) ونسٹن چرچل کے بعد برطانیہ کے پرائم منسٹر بنے۔ لارڈ اٹلی نے بے لاگ طور پر صورت حال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انڈیا اور دیگر ممالک کو یک طرفہ طور پر آزاد کردیا جائے۔ اسی کے مطابق انڈیا 1947 میں برطانیہ کے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوا۔
برٹش ایمپائر برطانیہ کے لیے ایک قومی عظمت کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے لیے لوگ اپنی اس قومی عظمت پر فخر کرتے تھے۔ مگر جب حالات بدل گئے تو برطانیہ کے لوگوں نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں ماضی کی عظمت سے باہر نکلنا ہے، اور حالات کے مطابق اپنے قومی تعمیر کی ری پلاننگ کرنا ہے۔ چنانچہ لارڈ اٹلی کی لیڈر شپ میں انھوں نےایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ کے لوگ اپنی قومی ترقی کو نئی بنیاد پر قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔
اسی قسم کی سیاسی صورت حال موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی ہے۔ مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں دنیا کے بڑے رقبے میں اپنا سیاسی ایمپائر قائم کرلیا۔ پھر مسلم ملت میں زوال کا دور آیا۔ رفتہ رفتہ ان کا یہ حال ہوا کہ ان کی سیاسی عظمت (political glory) کا خاتمہ ہوگیا۔
اس کا سبب تمام تر داخلی تھا، مگر مسلمانوں نے اس کو عملی طور پر قبول (accept) نہیں کیا۔ وہ اس کی ذمہ داری دوسروں کے اوپر ڈالتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر منفی سوچ (negative thinking) آگئی۔ وہ اپنی سابقہ پولیٹکل عظمت کو واپس لانے کی کوششیں کرنے لگے۔ مگر یہ ایک غیر حقیقی منصوبہ تھا، جو آخری حد تک ناکام رہا۔
مسلمانوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ ماضی (past)میں جینا مکمل طور پر چھوڑ دیں ، اور حال (present)کے اوپر دوبارہ اپنے قومی عمل کی ری پلاننگ کریں ۔ قدیم زمانے میں مسلم ایمپائر جن حالات کے تحت قائم ہوئے تھے، وہ حالات اب ختم ہوچکے ہیں ۔ اب نہ مسلمانوں کے لیے اور نہ کسی اور قوم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قدیم طرز کا پولِٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کریں ۔اس معاملے میں مسلمان اگر حقیقت پسندانہ انداز میں سوچیں ،تو وہ نئے حالات کے امکان کو دریافت کرلیں گے۔ اس کے بعد ان کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ نئے عنوان سے حاصل کرلیں ۔
کسی قوم کے لیے عروج و زوال کا واقعہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے زوال کے واقعہ کو سبق کے معنی میں لیا، اس بنا پر ان کو بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ وقت ان کے لیے ری پلاننگ کا ہے۔ مسلمان عملاً اس راز سے بے خبر رہے، اس لیے زوال کے بعد اپنی قومی ترقی کی ری پلاننگ کے لیے وہ حقیقت پسندانہ منصوبہ بنانے میں ناکام رہے۔ یہی سبب ہے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ناکامی کا۔
جرمنی کی مثال
جرمنی، اڈولف ہٹلر کی قیادت میں دوسری عالمی جنگ کا سب سے بڑا پارٹنر تھا۔ یہ جنگ 1939 سے 1945 تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پچاس ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ دوسرے نقصانات اس سے بھی زیادہ ہیں ۔ لیکن جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ (ایسٹ جرمنی ) کھودیا تھا۔ دوسرے عظیم نقصانات اس کے علاوہ ہیں ۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ پہلی پلاننگ کے زمانے میں ہٹلر جرمنی کا رہنما تھا تو دوسری پلاننگ کے زمانے میں جرمنی نے اپنے مشہور اسٹیٹس مین (statesman) بسمارک (Otto von Bismarck [1815-1898] )کی فکرکو اپنا رہنما بنایا۔ بسمارک نے کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
Politics is the art of the possible. (St. Petersburgische Zeitung, Aug 11, 1867 [www.shmoop.com])
جرمنی کے اہل دماغ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ دریافت کیا کہ ان کی پہلی پلاننگ ناممکن (impossible) پر مبنی تھی۔ اب انھیں ممکن (possible) کی بنیاد پر نیا منصوبہ بنانا چاہیے۔ بعد از جنگ کے زمانےمیں جرمنی نے اسی اصول پر کام کیا۔ اس نے اپنی توجہ جنگ سے ہٹا کر پرامن ترقی پر مرتکز کردیا۔ خصوصا سائنس اور صنعت کے میدان میں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی نے پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ خاص طور پر پرنٹنگ مشین کے معاملے میں اس نے ساری دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
جرمنی کی ری پلاننگ کامیاب رہی۔ جرمنی ربع صدی کےعرصے میں یورپ کا نمبر ایک صنعتی ملک بن گیا۔ اب اس کی اقتصادیات پورے یورپ میں سب سے زیادہ مستحکم اقتصادیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ جرمنی کی یہ ترقی ایک لفظ میں ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرنے سے حاصل ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے اپنے ملک کے ایک بڑے رقبے کو کھودیا تھا۔ لیکن جنگ کے بعد مبنی بر امن ری پلاننگ کے نتیجے میں جرمنی نے دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کو حاصل کرلیا۔ یہ معجزاتی واقعہ 1990 میں پیش آیا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے جرمنی کا نشانہ ہٹلر کی قیادت میں یہ تھا کہ جرمنی پورے یورپ کا پاليٹکل ماسٹر (political master) بنے۔ اس نشانہ میں جرمنی کو مکمل ناکامی ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے یہ قابل عمل نشانہ بنایا کہ وہ جرمنی کے صرف باقی ماندہ حصہ (remnant part of Germany) کو پرامن انداز میں ڈیولپ کرے۔ جرمنی کا پہلا نشانہ مکمل طور پر ناکام ہوا تھا، لیکن جرمنی کا دوسرا نشانہ ری پلاننگ کے بعد مکمل طور پر کامیاب رہا۔
جرمنی کے اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں زمینی علاقہ (territory) کی اہمیت اضافی (relative) بن چکی ہے۔آدمی کے پاس اگر چھوٹا علاقہ ہو، تب بھی وہ اعلیٰ منصوبہ بندی کے ذریعہ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اعلیٰ منصوبہ بندی میں دو چیزوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ ایک ہے بہتر کمیونی کیشن (communication)، اور دوسری ہے بہتر تنظیم (organization) ۔
جدید جرمنی نے صرف یہ نہیں کیا ہے کہ اس نے خود کو اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے یہ بھی کیا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کیا ہے۔ اس بات کا ماڈل پیش کیا ہے کہ کس طرح نقصان کے باوجود دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سے مختلف مثال کچھ مسلم ملکوں کی ہے۔ وہ اپنےخیال کے مطابق اپنےکھوئے ہوئے علاقےکی بازیابی کے لیے لمبی مدت سے لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ مگر انھیں کوئی بھی مثبت کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کو چاہیے کہ وہ جرمنی کی مثال سے سبق لیں ، اور اپنے ملے ہوئے علاقے کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کریں ، اور جدید امکانات کو استعمال کرتے ہوئے، دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کریں ۔
جاپان کی مثال
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں جاپان اس کا سرگرم ممبر تھا۔ اس نے بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ لیکن جب 1945 میں امریکا کی طرف سےجاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے، اور اس کے نتیجے میں جاپان کے دو بڑے شہروں ، ہیروشیما اور ناگاساکی میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ یہ جاپان کے لیے مکمل شکست کا واقعہ تھا۔ مگر 25 سال کے بعد جاپان دوبارہ ایک ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ آج جاپان کا شمار اعلیٰ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ کامیابی جاپان کو کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ری پلاننگ کے ذریعہ۔
جنگ کے بعد جاپان کے مدبّروں نے پورے معاملے پر ازسر نو غور کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ میں اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود ، اور جان و مال کی قربانیاں دینے کے باوجود انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے بعد ان کے اندر نئی سوچ پیدا ہوئی،انھوں نے دریافت کیا کہ اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی صرف امن کی طاقت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ تشدد کا طریقہ بربادی تو لاسکتا ہے، لیکن وہ کوئی ترقی لانے والا نہیں ۔
اس کے بعد اس وقت کے جاپانی حکمراں ہیرو ہیٹو (Hirohito) نے ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ جاپان کی دوبارہ ترقی کے لیے ہمیں ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے، تاکہ ہم جاپان کو ایک ترقی یافتہ نیشن بنا سکیں :
The time has come to bear the unbearable
دو ایٹم بموں کی تباہی کی بنا پر جاپانی قوم اس وقت انتقام میں مبتلا تھی۔ لیکن جاپان کے کچھ دانشور اٹھے۔ انھوں نے یہ کہہ کر جاپانی قوم کو ٹھنڈا کیا کہ امریکا نے اگر 1945 میں ہمارے دو شہر ، ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا ہے تو اس سے پہلے 1941میں ہم خودکش بمباری کے ذریعہ امریکا کے بحری مرکز پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس حادثے کو بھلاؤ، اور جاپان کی نئی تعمیر کرو۔
اس کے بعد جاپان نے اپنی قومی تعمیر کی ری پلاننگ کی ۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے فوجی میدان کو چھوڑ دیا، اورپچیس سال تک صرف سائنسی تعلیم اور صنعت پر زور دیا جاتا رہا۔ اس نئی پلاننگ کی تفصیلات کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نئی پلاننگ کا نتیجہ تھا کہ جاپان شکست کے کھنڈر سے نکل کر دوبارہ ایک فاتح ملک بن گیا۔
جاپان کے لیڈروں نے جس طرح اپنے ملک کی ری پلاننگ کی۔ اس میں مسلم رہنماؤں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ مسلم علاقوں میں بھی کسی نہ کسی طور پر اسی قسم کے ناموافق حالات موجود ہیں ۔ مسلم ممالک کے لیے بھی یہی امکان ہے کہ وہ ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرکے دوبارہ اعلیٰ ترقی حاصل کرے۔مثال کے طور پر فلسطین کے معاملے میں جب بَالفور کا فیصلہ (Balfour Declaration) سامنے آیا تو اس وقت مسلم رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین كا آدھا حصه یہود کو دےدیا گیا ہے، تو ہم کو چاہیے کہ ہم اس کو قبول کریں ۔ کیوں کہ اس سے پہلے ہم صدیوں تک پورے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کیے ہوئے تھے۔ اب اگر یہود کو موقع مل رہا ہے تو یہ قانونِ فطرت (آل عمران،3:140)کے تحت ہورہا ہے،اس میں ناانصافی کی کوئی بات نہیں ۔ مسلم رہنماؤں نے اگر اس قسم کا فیصلہ کیا ہوتا تو یقیناً آج فلسطین کی تاریخ مختلف ہوتی۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے اسلام کی قدیم تاریخ میں بھی نمونے موجود ہیں ، اور سیکولر قوموں کی تاریخ میں بھی ۔ انسانی تاریخ ہر قسم کے نمونے سے بھری ہوئی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بے آمیز ذہن کے ساتھ کیا جائے۔ غیر متاثر ذہن کے ساتھ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ دروازے اگر بند ہوئے ہیں تو دوسرے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں ۔ اگر حالات کو سمجھ کر ری پلاننگ کی جائے تو یقیناً مستقبل کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ماضی کی ناکامیوں کو بھلایا جائے، اور مستقبل کے امکانات کو لےکر اپنےعمل کا منصوبہ بنایاجائے۔
خالصہ تحریک کا تجربہ
مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839ء) مشہور سکھ راجا تھے۔ان کی حکومت ایک بڑے رقبےپر پھیلی ہوئی تھی۔
The geographical reach of the Sikh Empire under Ranjit Singh included all lands north of Sutlej river, and south of high valleys in the northwestern Himalayas. The major towns in the Empire included Srinagar, Attock, Peshawar, Bannu, Rawalpindi, Jammu, Gujrat, Sialkot, Kangra, Amritsar, Lahore and Multan.
سکھ کمیونٹی کے درمیان خالصہ تحریک کا آغاز برٹش پیریڈ میں ہوا۔ اس کا مقصد تھا مہاراجا رنجیت سنگھ کی پولِٹکل گلوری کو واپس لانا۔ ملک کی تقسیم کے بعداس کا دائرہ محدود ہوگیا۔ مگر 1979 میں خالصتان نیشنل موومنٹ کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا۔ اس کے بعد سکھ دانشوروں نے محسوس کیا کہ ان کی خالصہ تحریک کاؤنٹر پروڈیکٹو (counter-productive)ثابت ہورہی ہے۔ بظاہر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ۔ اس سے سکھ کمیونٹی کے دانشوروں میں نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے اندر وہی ذہن پیدا کیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور کو گزری ہوئی تاریخ کا حصہ قرار دینا، اور نئے حالات کے تحت اپنے عمل کی ری پلاننگ کرنا۔
کچھ سکھ دانشوروں نے اپنی کمیونٹی کو بتایا کہ انڈیا کی آزادی(1947) کے بعد سکھ کمیونٹی نے انڈیا میں کافی ترقی کی ہے۔ انڈیا میں ان کی تعداد صرف دو فیصد ہے، مگر عملاً وہ انڈیا کی بیس فیصد (20%) اقتصادیات (economy) کو کنٹرول کررہے ہیں ۔ اس کے بعد خالصہ تحریک کے لیڈر سردار جگجیت سنگ چوہان (وفات2007) اپنی کمیونٹی میں غیر مقبول شخصیت بن گئے۔ اب سکھ کمیونٹی کے لوگوں نے ری پلاننگ کے ذہن کے تحت عمل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اب پنجاب انڈیا کے خوشحال ریاستوں میں سے ایک ہے۔
سکھ کمیونٹی کی یہ مثال فلسطین اور کشمیر پر پوری طورح منطبق ہوتی ہے۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمان اس تجربے سے سبق لیں ، اور اپنی قومی جدو جہدکی ری پلاننگ کریں ، تو بلاشبہ وہ ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں ۔ دونوں علاقوں میں ترقی کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں ، جو غیر حقیقت پسندانہ مزاج کی بنا پر ناقابل استعمال پڑے ہوئے ہیں ۔ اگر فلسطین اور کشمیر کے مسلمان ری پلاننگ کے راز کو جانیں ، تو وہ بلاشبہ اپنے لیے ایک عظیم مستقبل پیدا کرسکتے ہیں ۔
موجودہ زمانے میں نہ صرف کشمیر اور فلسطین بلکہ تمام دنیا کے مسلمان منفی سوچ میں جی رہے ہیں ۔وہ دوسروں کو ظالم اور اپنے کو مظلوم سمجھتے ہیں ۔ اس ذہن کی بنا پر ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) کا ڈیولپمنٹ نہیں ہوا۔ وہ اپنے ماضی کی گلوری کو جانتے ہیں ، لیکن وہ حال کے مواقع سے بے خبر ہیں ۔ وہ شکایت کلچر کو جانتے ہیں ، لیکن وہ مبنی بر حقیقت منصوبہ بند ی سے واقف نہیں ۔ ان کی سوچ اپنے مفروضہ ظالموں کی شکایت پر قائم ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو مظلومیت کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں ۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس منفی سوچ سے باہر آئیں تو وہ دریافت کریں گے کہ فیصلے کی جو بنیاد زمانے نے فراہم کی ہے، وہ عین ان کے حق میں ہے۔
آج کا زمانہ پوری طرح ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ لیکن مسلمان گزرے ہوئےماضی کے دور میں جی رہے ہیں ۔ وہ عملاً تاریخ کے قیدی (prisoners of history) بنے ہوئے ہیں ۔ یہی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے، اور اسی کی اصلاح سے ان کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لکھنؤ کے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی (1913-1974)مسلم مجلس مشاورت کے تاسیسی صدر تھے۔ انھوں نے ایک روزنامہ اردو اخبارنکالا تھا، قائد۔ اس میں انھوں نے اپنےایک مضمون میں لکھا تھا کہ مسلم صحافت ایک احتجاجی صحافت (protestant journalism) ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ زمانے کی پوری صحافت پر صادق آتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان کو اس کے بجائے تخلیقی صحافت (creative journalism) کو وجود میں لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ آج کی دنیا میں اپنے لیے کوئی نیا دور پیدا کرسکتے ہیں ۔ شکایت اور احتجاج کے ذریعہ انھیں کچھ ملنے والا نہیں ۔
غلط تقابل
ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ کچھ مسلمانوں کو اگر کہا جائے کہ آج کل مسلمان بہت زیادہ انسانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں ، تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ عالمی جنگوں میں بے شمار آدمی قتل کیے گئے، ہٹلر نے ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، وغیرہ۔ یہ کہہ کر گویا وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل کا جواز دیتے ہیں ۔ مولانا اس میں مغالطہ کیا ہے، واضح کریں ۔ (ایک قاری الرسالہ، دہلی)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک غلط تقابل (wrong comparison)ہے۔ اس معاملے میں دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ فرسٹ ولڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں جو قومیں شریک تھیں ، انھوں نے جنگوں کے تجربے کےبعد كس راستے كو اختيار کیا۔ اس معاملے میں ان کا آخری نمونہ قابل اعتبار ہے، نہ کہ درمیان کا نمونہ۔
واقعات بتاتے ہیں کہ جو قومیں فرسٹ ورلڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں شامل تھیں ، تجربے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان جنگوں میں انھوں نے صرف نقصان اٹھایا، جنگ کا طریقہ ان کے لیے پورے معنوں میں کاؤنٹر پرڈیکٹو ثابت ہوا۔ اس تجربے کے بعد ان قوموں کے قائدین نے دوبارہ غور کیا۔ انھوں نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس کے بعد حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے، انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو ری پلاننگ کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور مکمل معنوں میں امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ برطانیہ نے یہ کیا کہ اپنی عظیم سلطنت (empire) کو خود اپنے اختیار سے ختم کردیا، اور اپنی سلطنت کو صرف برطانیہ تک محدود کرلیا۔ فرانس نے اپنے افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ جرمنی نے یہ کیا کہ ایسٹ جرمنی کو چھوڑ کر ویسٹ جرمنی کی تعمیر و ترقی میں لگ گئے۔ جاپان نے مکمل طور پر جنگ اور تشدد کا طریقہ چھوڑ دیا، اور جاپان کی پر امن ترقی میں مصروف ہوگئے، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایسا ہوا کہ انھوں نے ہر قسم کی قربانی کے باوجود صرف کھویا، ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی یو ٹرن (U-Turn) لیں ۔ وہ جنگ اور تشدد کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیں ، اور پرامن انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی تعمیر و ترقی میں لگ جائیں ۔ یہی تاریخ کا تقاضا ہے، اور یہی اسلام کا تقاضا بھی۔
نصیحت کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے عمل سے تجربہ (experience) حاصل کیا جائے۔ دوسروں کے تجربے سے جو چیز باعتبار نتیجہ ہلاکت ثابت ہوئی ہو، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور ان کے تجربے سے جو مفید سبق حاصل ہوتا ہو، اس کو لے لیا جائے۔ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کا یا تو حوالہ نہ دیا جائے، یا اگر حوالہ دینا ہے تو اس کے مفید پہلو کا حوالہ دیا جائے، اور وہ یہ ہے کے جنگ کے منفی تجربے سے سبق لینا، اور جنگ کا طریقہ چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔
دوسروں کی غلطیوں سے اپنے لیے جواز (justification) نکالنا سخت قسم کی بے دانشی ہے۔ اگر آپ اپنے مفروضہ دشمن کی گردن کاٹیں ، اور کہیں کہ فلاں لوگوں نے بھی لوگوں کی گردنیں کاٹی تھیں ، تو یہ ایک سرکشی کی بات ہوگی۔ دوسروں کا تجربہ سبق لینے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اپنی غلطی کو جائز ٹھہرانے کے لیے۔اس سلسلے میں صحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کا ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں آیا ہےالسعيد من وُعِظَ بغيره (صحیح مسلم، حدیث نمبر2645)۔ یعنی بامراد وہ ہے ،جو دوسروں سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرے۔ دوسروں کی غلطيوں كو دهرانا نادانی ہے، اور دوسروں سے مفید نصیحت لینا، دانش مندی۔
* * ** * * * * * * * * * ** * * * * *
اگر آپ ایک ملین ڈالر خرچ کرکے ایک بید کی چھڑی حاصل کریں تو یہ پانا نہیں ہوگا، وہ کھونے کی بدترین شکل ہوگی۔ کوئی بڑا اقدام صرف اس وقت بڑا ہے جب کہ وہ نتیجہ خیز بھی ہو۔ جو اقدام بظاہر بڑا ہو، مگر نتیجہ کے اعتبار سے چھوٹا ہو، وہ اقدام نہیں بلکہ خودکشی کی چھلانگ ہے۔ ا س سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ (سفرنامہ، غیرملکی اسفار، صفحہ 177)
خلاصۂ کلام
دور جدید میں امت مسلمہ کا مسئلہ، اس کے احیاء کا مسئلہ تھا۔ اس مقصد کے لیے مسلم جدو جہد کی تاریخ غالباً 1799 سے شروع ہوتی ہے جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو برٹش فوج سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ یہ جدو جہد اکیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مگر جان و مال کی بے شمار قربانیوں کے باوجود نتیجہ کاؤنٹر پروڈکٹيو (counter-productive) ثابت ہوا۔ یعنی فائدہ تو کچھ نہیں ہوا، البتہ نقصان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس ناکام تجربے کا تقاضا یہ ہے کہ اب مسلمان توبۂ جمیع (النور،24:31) کا طریقہ اختیار کریں ، یعنی یوٹرن (U-Turn)کا طریقہ۔ وہ اپنی کوششوں کا دوبارہ جائزہ (re-assessment) ليں ، اور پھر اپنے عمل کی ری پلاننگ (re-planning) کریں ۔
مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ثابت شدہ ناکام تجربوں کو دوبارہ نئے نئے نام کے ساتھ دہرا رہے ہیں ۔ مثلا ًمغرب میں رہنےوالے مسلمانوں کا اسلاموفوبیاکا نظریہ، مصر میں الاخوان المسلمون کی اسٹریٹ ایکٹوزم، فلسطین والوں کی خودکش بمباری (suicide bombing)، پاکستان کی پراکسی وار (proxy war) ، کشمیریوں کا پتھر مارنا (stone pelting)، انڈیا کے مسلمانوں کی احتجاجی صحافت (protestant journalism)، ایران کی اسلام دشمنوں کی دریافت، افغانستان کا طالبانائزیشن (talibanization)، وغیرہ۔ یہ سب ناکام تجربات کو بے فائدہ طور پر دہرانے کے سوا اور کچھ نہیں :
It is a futile repetition of a failed strategy.
امت کا نیا مستقبل صرف نئی اور مثبت بنیاد پر کی ہوئی منصوبہ بندی کے ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، اور نئی منصوبہ بندی کا پراسس (process) صرف اس اعتراف کے بعد شروع ہوتا ہے کہ اب تک ہم غلطی پر تھے (we were wrong)۔غلطی کو مانے بغیر نئے مستقبل کی بات کرنا، ایسا ہے جیسے پودا لگائے بغیر ہرے بھرے باغ کا انتظار کرنا ۔
تركي كي دريافت
Turkey Rediscovered
موجوده دور ميں اسلام كي عالمي دعوت كے جو عظيم امكانات پيدا هوئے هيں ، ان كو جاننا اور انھيں اَويل كرنا بلا شبه مسلمانوں كے ليے سب سے بڑا فريضه هے۔ آج مسلمانوں كے كرنے كا سب سے بڑا كام يهي هے۔ مسلمان اگر اس كے ليے اٹھيں تو وه دوسرے انسانوں تك ايك عظيم خدائي تحفه پهنچانے كا سبب بنيں گے۔
ترکی کی دریافت
Turkey Rediscovered
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ تقریباً 13 سال کے بعد 622 عیسوی میں آپ مکہ سے مدینہ چلے گئے۔ اِس واقعے کو اسلامی تاریخ میں ہجرت کہاجاتاہے۔ ہجرت سے پہلے آپ نے پیشین گوئی کے انداز میں ایک بات کہی تھی، جو حدیث کی کتابوں میں اِن الفاظ میں آئی ہے: أمرتُ بقریۃ تأکل القری، یقولونیثرب، وهي المدینۃ (صحیح البخاري، حديث نمبر1748) ۔یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیاگیا ہے، وہ تمام بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اُس کو یثرب کہتے ہیں ، لیکن وہ مدینہ ہے۔
یہ حدیث ساده طورپر مدینہ کی پراسرار فضیلت کے بارے میں نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اِس حدیث میں تاریخ کا ایک قانون بیان کیاگیا ہے۔ یہ قانون تاریخ میں بار بار واقعہ بنا ہے، پھر یہی قانون، مدینہ (یثرب) کے حق میں واقعہ بنا۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب کہ پیغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے، اور یہاں اپنے پیغمبرانہ مشن کی منصوبہ بندی کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک آپ مکہ میں تھے، آپ کا مشن عملاً ایک مقامی مشن کی حیثیت رکھتا تھا، مگر جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو آپ کا مشن بہت جلد پورے ملک (عرب) میں پھیل گیا۔ اگر چہ پیشگی طور پر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی علاقہ بظاہر صرف ایک علاقہ معلوم ہوتا ہے، مگر بالقوہ طورپر وہ اپنے اندر وسيع تر امکانات کو چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔ اُس کی جغرافی حدیں بظاہر محدود ہوتی ہیں ، لیکن اس کی امکانی حدیں اتنی زیادہ وسیع ہوتی ہیں کہ وہ دوسرے تمام علاقوں کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں — راقم الحروف کے نزدیک، ترکی اسی قسم کا ایک ملک ہے۔ ترکی میں اِس کے تمام امکانات موجود ہیں کہ وہ اسلامی دعوت کے لیے دورِ جدید میں ایک عالمی رول ادا کرسکے۔ ترکی اور بقیہ مسلم دنیا کے درمیان لسانی بُعد (language gap) تھا، اِس لیے بقیہ مسلم دنیا كے لوگ تركي کے اِس امکان (potential) سے عملاً ناواقف رهے۔
کسی علاقے کی یہ امکانی حیثیت اتفاقی طورپر نہیں بنتی، بلکہ وہ لمبی مدت کے بعد بنتی ہے۔ اُس مقام کا جغرافیہ، اس کی تاریخ، اس کے سماجی حالات، وہاں کے لوگوں کا مزاج، وہاں کے ادارے (institutions)، وہاں پیش آنے والے واقعات وحوادث، سب اس کی تشکیل میں اپنا رول ادا کرتے ہیں ۔ کوئی لیڈر یا ریفارمر بطور خود واقعات کو وجود میں نہیں لاتا۔ وہ صرف یہ کرتا ہے کہ گہرے مطالعے کے بعد وه اُس علاقے كے امکانات کو دریافت کرے اور پھر دانش مندانہ منصوبہ بندی کے ذریعے اس کے امکان (potential) کو واقعہ (actual)بنائے۔
زیر نظر مقالے میں اِسی اعتبار سے جدید ترکی کا مطالعہ کیاگیا ہے۔ یہ صرف ایک مقاله نہیں ہے، بلکہ وہ ترکی کے بارے میں راقم الحروف کا ایک ویژن (vision) ہے، وہ ایک مشن کا چارٹر (charter) ہے، وہ ترکی کے حال کی روشنی میں ترکی کے مستقبل کا ایک بیان ہے۔
ترکی سے میرا تعلق
میں 1938 میں تعلیم کے لئے انڈیا کے ایک عربی مدرسہ (الاصلاح) میں داخل ہوا۔ اسی سال ترکی میں مصطفي کمال اتاترک کا انتقال ہوا تھا۔ اس طرح تقریباً 75 سال سے میں ترکی اور اتاترک کا نام سنتا رہا ہوں ۔ اس موضوع کے بارے میں جو کچھ اردو، عربی اور انگریزی میں لکھاگیا ہے، اس کا بھی ایک قابل لحاظ حصہ میں نے پڑھا ہے۔ لیکن ترکی حقیقت میں کیا ہے، اس کے بارے میں بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی بے خبری میں جی رہا تھا۔ ترکی اور اتاترک کا نام میرے ذہن میں دوسروں کی دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر ایک منفی نام تھا، جو ابھی حال تک باقی رہا۔
یکم مئی 2012 کو پہلی بار مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کا سفر کروں ۔ یہ سفر ’’سيرتِ رسول‘‘ كے موضوع پر هونے والي ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے لئے تھا۔ اِس میں 60 ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اِس سلسلے میں مجھے تقریباً ایک ہفتہ ترکی میں قیام کا موقع ملا۔ یہ سفر میرے لئے ترکی کی دریافت کے ہم معنی بن گیا۔ 5 مئی 2012 کو جب میں نے ترکی کے ایک شہر (Gaziantep) میں مذکورہ کانفرنس میں افتتاحی خطاب کیا تو شروع ہی میں میں نے کہا
It was my first visit to Turkey, but it proved to be a discovery visit.
اِس سفر سے پہلے میں ترکی کو دوسروں کي فراہم کردہ معلومات کی بناپر جانتا تھا، مگر جب میں نے خود ترکی کا سفر کیا تو مجھے موقع ملا کہ میں ترکی کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھوں اور براہِ راست طورپر اس کو جاننے کی کوشش کروں ۔ اِس کے نتیجے میں جو واقعہ پیش آیا، اس کو ميں ایک لفظ میں اس طرح بیان کرسکتا ہوں — میں نے ترکی کو ازسرِ نو دریافت کیا۔
میں نے کتابوں میں پڑھا تھا کہ کمال اتاترک نے اقتدار پاکر ترکی میں مذهب کا خاتمہ کرنے كي كوشش كي۔ مثلاً انھوں نے حکم دیا کہ عربی کے بجائے ترکی میں اذان دی جائے۔ انھوں نے ايك قانون كے ذريعے تركوں كو پابند كيا كه وه قديم تركي ٹوپي كے بجائے مغربي طرز كے هيٹ (hat)پهنيں ۔ انھوں نے مسجدوں کو میوزیم میں تبدیل کردیا۔ انھوں نے قرآن پر پابندی لگا دی، وغیرہ۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مسجدوں سے لاؤڈسپیکر پر عربی میں اذان کی آوازیں آرہی ہیں ۔ مسجدوں میں لوگ اُسی طرح نمازیں پڑھ رہے ہیں ، جس طرح میں نے انڈیا میں اور دوسرے ملکوں میں دیکھا تھا۔ هم نے اپنے اس سفر كے دوران كسي ترك كو هيٹ پهنے هوئے نهيں ديكھا۔ کانفرنس کا افتتاح ہوا تو وہاں ایک ترک قاری نے خالص عرب لہجے میں قرآن کی لمبی تلاوت کی۔اِن باتوں کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے مجھے یہ خیال آیا کہ شاید میں ترکی کے علاوہ کسی اور ملک میں پہنچ گیا ہوں ، مگر باربار کے تجربات نے آخر کار یہ یقین کرنے پر مجبور کردیا کہ میں اُسی ملک میں ہوں جس کا نام ترکی ہے۔
يه ايك عام مزاج هے كه لوگ ناموافق چيزوں كا مبالغے كے ساتھ ذكر كرتے هيں ، وه ايك استثنائي واقعے كو جنرلائز كركے اس كو عمومي انداز ميں بيان كرتے هيں ۔ بظاهر ايسا هي تركي ميں هوا۔ كمال اتاترك نے پُرجوش اندازميں مذهب كے خلاف كچھ باتيں كهيں ، اور اس كے مطابق كچھ اقدامات بھي كيے، ليكن اِن اقدامات كا نتيجه عملي اعتبار سے نهايت محدود تھا، اور يهي هوسكتا تھا۔
اِس كي ايك مثال روس ميں قائم هونے والا كميونسٹ ايمپائر هے۔ وهاں باقاعده ايك مخالفِ مذهب نظريے كے تحت يه كوشش كي گئي كه كميونسٹ ايمپائر ميں مذهب كا كلي خاتمه كرديا جائے۔ ليكن 1991 ميں جب سوويت يونين ٹوٹا تو اچانك وهاں مذهب دوباره زنده هوگيا۔ اِس كا سبب يه تھا كه حكومت كي مخالفانه كارروائيوں كے باوجود مذهب اگرچه اوپري سطح سے بظاهر غائب هوگيا تھا، ليكن انڈرگراؤنڈ سطح پر وه اب بھي موجود تھا۔ يهي واقعه تركي ميں هوا۔ اتاترك كے زمانے ميں حكومت كي كارروائي سے مذهب ظاهري سطح پر كسي درجے ميں غير موثر هوگيا تھا، ليكن اتاترك كے بعد رفته رفته وه پوري طرح زنده هوگيا۔اب كمال ازم صرف كچھ كتابوں ميں پايا جاتا هے، خود تركي ميں اس كا كوئي وجود نهيں ۔
اصل یہ ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ میں انسان کا مزاج ہمیشہ یک طرفہ رپورٹنگ کا رہاہے۔ لوگوں کی یہ قدیم عادت ہے کہ اگر کوئی اچھی بات ہو تو وہ اس کی رپورٹنگ نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی بظاہر بری بات ہو تو وہ اس کو فوراً رپورٹ کریں گے اور ہر جگہ مزید اضافے کے ساتھ اس کا چرچا ہونے لگے گا۔ یہی ترکی کے ساتھ ہوا۔ ترکی، کمال اتاترک کی روش سے زیادہ ، لوگوں کے اِس غلط مزاج کا شکار ہوا ہے۔ جدید ترکی جس بدنامی کا شکار ہوا ہے، وہ زیادہ تر لوگوں کے اِسی مزاج کا نتیجہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں ، خود اتاترک کے فعل کا نتیجہ۔
مثال کے طور پر خلافت کے زمانے میں ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ اتاترک نے ایک قانون بنا کر ترکی زبان کے لئے رومن رسم الخط کو لازمی قرار دے دیا۔ یہ بات جس طرح بھیانک انداز میں رپورٹ کی گئی، حقیقت میں وہ اتنی بھیانک نہ تھی۔ اصل یہ ہے کہ ترکی زبان قدیم زمانے میں ایک آرمینین رسم الخط (Armenian Script) میں لکھی جاتی تھی، جس کا نام یہ تھا — Orkon۔نویں صدی عیسوی تک یہی آرمینین رسم الخط ترکی میں رائج رہا۔ اس کے بعد اسلام کے فروغ اور عربوں کے اختلاط کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ترکی میں عربی رسم الخط رائج ہوگیا۔
اس کے بعد جب ترکی میں اسلام پھیلا اور عربوں کو غلبہ حاصل ہوا تو دھیرے دھیرے انٹریکشن کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا کہ ترکی زبان عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے ربع اول میں اتاترک نے ترکی زبان کے رومن رسم الخط میں لکھے جانے کا حکم جاری کیا۔ یہ ترکی زبان کے رسم الخط کو بدلنے کا دوسرا واقعہ تھا۔ یہ واقعہ بھی اتفاقاً نہیں ہوا۔ اصل یہ ہے کہ جس طرح اِس سے پہلے عربوں کے اختلاط سے ترکی زبان میں عربی رسم الخط کا رواج ہوا تھا، اِسي طرح بعد کے زمانے میں یورپ کے اختلاط سے وہ ماحول پیداہوا جس کے زیر اثر اتاترک نے ترکی رسم الخط کو رومن رسم الخط میں تبدیل کردیا۔ اِس پس منظر میں رسم الخط كے معاملے كو اگر دیکھا جائے تو وہ زیادہ سنگين نظر نہیں آئے گا۔
اِس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ ترکی کے رسم الخط کو بدلنا وقت کا ایک تقاضا بن چکا تھا۔ ترکی جزئی طورپر یورپ کا ایک حصہ ہے۔ یورپ کی تمام زبانیں رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں ۔ ایسی حالت میں یہ بالکل فطری تھا کہ ترکی زبان بھی اپنے پڑوسی ملکوں کے رسم الخط میں لکھی جائے۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں جب ترکی زبان کا رسم الخط بدلا گیا تو بظاہر وہ ایک ریڈیکل واقعہ نظر آتا تھا، لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ ایک دور اندیشی کا فیصلہ تھا۔ جلد ہی بعد دنیا میں کمپیوٹر کا دور آیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر کی اصل زبان انگریزی ہے جس کا رسم الخط رومن ہوتاہے۔ ترکی زبان اپنے رومن رسم الخط کی بنا پر بہت جلد کمپیوٹر کے دور میں داخل ہوگئی۔ وہاں بہت جلد ہر قسم کے علمی اور تعلیمی شعبوں کا کمپیوٹرائزیشن (computerization) ہوگیا، جب کہ آج بھی مسلم ممالک کی دوسری زبانیں جیسے اردو، عربی اور فارسی ، اِس معاملے میں ، ترکی زبان سے بہت پیچھے ہیں ۔ مثال کے طور پر ترکی زبان میں ایک روزنامہ نکلتا ہے جس کا نام زمن (Zaman) ہے، یہ اخبار روزانہ ایک ملین کی تعداد میں چھپتا ہے۔ اس کا صحافتی درجہ یورپ کے کسی بھی معیاری اخبار کے برابر ہے۔ اس قسم کا معیاری اخبار کسی مسلم ملک میں آج بھی نہیں پایا جاتا۔ اِسی مثال پر دوسری چیزوں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
ایک علامتی مثال
اہلِ عرب اور شام (Syria) کے درمیان تعلقات قدیم زمانے سے قائم تھے۔ شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنا بہت آسان تھا۔ یہ فاصلہ 500 میل سے بھی کم تھا۔ چنانچہ اصحاب رسول کی جماعت ساتویں صدی عیسوی میں شام کے علاقے سے گزر کر ترکی پہنچنے لگی۔ اِس آمدورفت کے دوران ترکی میں اسلام پھیلنے لگا، یہاں تک کہ ترکی کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔
لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، بعد کو زوال شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے آخر میں ترکی کے مسلمانوں کا یہ زوال آخری حد تک پہنچ گیا۔ اِس دور میں ترکی کے علما کا کیا حال تھا، اُس کا اندازہ ایک علامتی مثال سے ہوتا ہے۔ خلیفہ عبد الحمید ثانی کا زمانۂ حکومت 1876 سے 1909 تک ہے۔ اس نے ترکی میں ریفارم لانے کی کوشش کی۔ اس نے تعلیمی اصلاحات کا نفاذ كيا۔ تاہم روایتی ذہن کی بنا پر ملک میں اس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس کو تخت سے معزول کردیاگیا۔
قدیم زمانے میں ترکی اپنے بحری بیڑے کے لیے مشہور تھا، مگر اٹھارھویں صدی میں جب یورپ میں بھاپ (steam) کی طاقت دریافت ہوگئی اور بحری جہازوں کو اسٹیم انجن کے ذریعہ چلانے کا دورآیا تو ترکی اس میدان میں بہت پیچھے ہوگیا۔ اُس وقت وہاں کے مذہبی طبقے کا فکری زوال اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ نئے طرز كي دخاني كشتيوں كو حاصل کرنا اور ان کو استعمال کرنا بھی اُن كو ایک غیرمذہبی فعل نظر آنے لگا۔
سلطان عبد الحمید ثانی (وفات1918 )پہلا شخص تھا جس نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا بحری بیڑہ (اُسطول) تیار کرایا۔ کہاجاتا ہے کہ جب دُخانی کشتیاں تیار ہوگئیں تو اس کے بعد وقت کے تُرک علما نے اصرار کیا کہ اس کو استعمال کرنے سے پہلے اُس پر ختمِ بخاری کی رسم ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کشتیوں کو سمندر میں داخل کرنا ان کے نزدیک خطرناک تھا۔ علما کا اصرار جب بڑھا تو اُس وقت کے ایک دانش ور جمیل صدقی الزھاوی (وفات1936 ) نے اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا — اِس زمانے ميں بحري بيڑا بخار (بھاپ) سے چلتا هے، نه كه بخاري سےإن الأساطيل البحرية في هذا العصر تسير بالبخار لا بالبخاري۔
مگر یہ صرف فکری زوال کا مسئلہ تھا، وہ خدائی مذہب کا مسئلہ نہ تھا۔ اِس معاملے میں اسلام کا موقف اُس حدیث سے معلوم ہوتاہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ مدینہ میں ’تابیر نخل‘ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اُس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات اِن الفاظ میں فرمائی أنتم أعلم بأمر دنیاکم ( صحيح مسلم، حديث نمبر2363) یعنی تم اپنی دنیا کے معاملے میں زیادہ جانتے ہو۔
تابیر نخل یا پالی نیشن (pollination) کا معاملہ ایک سیکولر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔اِسي طرح ٹکنالوجی یا سائنس کی دریافتیں سیکولر شعبے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں ۔ اِس طرح کے معاملات میں سائنٹفک رسرچ کا لحاظ کیا جائے گا، اُن کو عقیدے سے جوڑ کر فتویٰ دینا ہر گز درست نہیں ۔
کمال اتاترک کی اصلاحات اصلاً ايك زوال یافتہ مسلم کلچر کے خلاف تھیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ترکی کو قدیم روایتی دور سے نکال کرنئے سائنسی دور میں پہنچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ اتاترک کی کارروائیوں کو اس کے انتہا پسندانہ طریقِ کار کے اعتبار سے نہیں دیکھنا چاہئے، بلکہ ضرورت هے كه اس کو اُس کے نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کمال ازم (Kemalism) کے نتیجے میں ترکی میں ایک نئی بيداری آئی۔ اِس کے بعد ترکی میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ دنیا کے 58 مسلم ملکوں میں ترکی ایک منفرد ملک ہے۔ بقیہ مسلم ممالک ابھی تک کم وبیش دورِقدیم میں جی رہے ہیں ۔ ترکی وہ واحد مسلم ملک ہے، جس نے پورے معنوں میں دور جدید کے نقشے میں ترقی یافتہ ملکوں کے برابر جگہ حاصل کی ہے۔
اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک تقابلی مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ جون 2011 میں راقم الحروف کا ایک سفر امریکا کے لیے ہوا تھا۔ اِس سفر کے دوران مجھ کو ایک امریکی شہر کے مسلم سنٹر میں خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اِس اجتماع میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے، جو پاکستان سے آکر امریکا میں مقیم ہوئے ہیں ۔ میں نے اپنی تقریر کے دوران حضرت ابو بکر صدیق کا ایک واقعہ بیان کیا۔ اس واقعے کو بيان کرتے ہوئے میں نے اُن کا ایک جملہ اِن الفاظ میں نقل کیا من کان یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان یعبد اللہ فإن اللہ حي لا یموت (صحيح ابن ماجه، حديث نمبر1329)۔یعنی جو شخص محمد كي عبادت كرتا تھا تو محمد کی وفات ہوگئی، اور جو شخص اللہ كي عبادت كرتا ہے تو اللہ زندہ ہے، اس کی وفات ہونے والی نہیں ۔
کچھ مسلمان میرے اِس جملے پر زور زور سے بولنے لگے۔انھوں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ اجتماع کو انتشار کی حالت میں ختم کرنا پڑا۔ ایک نوجوان نے اسٹیج پر آکر غصے میں کہا
You cited our Prophet by name several times, but you never said: صلی اللہ علیہ وسلم
اب ایک مختلف مثال لیجئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ترکی کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں ہوا، جو 5 مئی 2012 کو ترکی کے شہر غازی عین تاب (Gaziantep) میں ہوئی تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں دعوت الی اللہ کی اہمیت كو بتاتے ہوئے کہا کہ اصحاب رسول میں سے کئی افراد دعوت وتبلیغ کے لیے ترکی آئے۔ یہاں ان کی قبریں ابھی تک موجود ہیں ۔ یہ اصحاب، زبانِ حال سے پیغمبر کی امت کو پکاررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں
O Ummat-e-Muhammad, where are you? Rise and complete the prophetic mission by doing dawah work in the present world.
میں نے اپنا یہ جملہ بار بار دہرایا، دورانِ تقرير ميں نے كئي بار رسول الله كا نام ليا، مگر وہاں یہ حال ہوا کہ لوگ میری بات کو سن کر رونے لگے۔ اجتماع کے بعد بہت سے لوگ مجھ سے ملے اور انھوں نے کہا کہ آپ نے اصل بات کی طرف توجه دلائي، آپ نے ہم کو بیدار کردیا، آپ نے ہم کو ہمارا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، وغیرہ۔ وہاں کسی ایک شخص نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ نے رسول الله کا نام لیا، مگر آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا۔
ترکی کا نیا رول
ترکی میں ساتویں صدی عیسوی میں اسلام داخل ہوا۔ یہاں اسلام کو کافی فروغ ملا،یہاں تک کہ یہاں عثمانی خلافت کے نام سے تیرھویں صدی عیسوی میں ایک مسلم ایمپائر قائم ہوگیا۔ ترکی اور اُس وقت کی مسلم دنیا کے لیے اِس عثمانی ایمپائر کا بہت بڑا مثبت رول ہے۔ اُس زمانے میں اسلام کے فروغ کے لیے سیاسی انفراسٹرکچر (political infrastructure)درکار تھا۔ عثمانی خلافت یا عثمانی ایمپائر کو اللہ تعالیٰ نے اِسی اہم کام کا ذریعہ بنایا۔ یہ سلسلہ كئي صدیوں تک جاری رہا۔
اِس سیاسی بنیاد کے بغیر پچھلی صدیوں میں اسلامی دعوت کا استحکام ممکن نہ تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں قانونِ فطرت کے تحت اِس نظام پر زوال اور انحطاط کا دورآیا، یہاں تک کہ اس کے لیے پچھلی حالت پر قائم رہنا مشکل ہوگیا۔ اُس وقت کمال اتاترک نے ایک رول ادا کیا۔
اپنے 18 ساله دورِ اقتدار ميں کمال اتاترک نے جو کام کیا، اس کو ترکی کی تاریخ میں کمال ازم کا نام دیاگیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، کمال اتاترک مخالفِ مذهب نہ تھے، وہ دراصل اُس زوال یافتہ مذهبي ڈھانچے کے خلاف تھے، جس کی نمائندگی اُس وقت کے ترک علما کررہے تھے۔ اتاترک کے بارے میں انسائکلو پیڈیا کے مقالہ نگار (Mete Tuncay) نے درست طور پر لکھا ہے
Atatürk was not an outright atheist but a deist who believed in a rational theology, denying the absolute truth of revealed religions. For tactical reasons, at the beginning of his political career, he recognized Islam as the latest and most perfect of all religion; this declaration, however, equated Islam with the natural religion he fancied. (Kemalism, The Oxford Encyclopedia of the Modern Islamic world, Vol. 2, page. 411)
کمال اتاترک نے جو انقلابی کارروائیاں کیں ، اُس کا مثبت تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کے بعد ترکی میں شخصی سلطنت کے بجائے جمہوریت (democracy) کے دور کا آغاز ہوا، قدیم مذہبی تعلیم کی جگہ سیکولر تعلیم رائج ہوئی، مشرقی کلچر کی جگہ مغربی کلچر اختیار کیا گیا، روایتی نظام کی جگہ ہر شعبے میں ماڈرن طریقے رائج ہوئے، وغیرہ۔
اتاترک آپريشن كے بعد تركي ميں جو نئے مواقع كھلے، اُس كے نتيجے ميں ترکی میں ریفارمرز (reformers) پیدا ہوئے۔ مثلاً سعيد نورسي(وفات1960)، وغيره ۔ان لوگوں نے ترکی میں قابلِ قدر کام انجام دیا ۔ انھوں نے غیر سیاسی انداز میں سماج کی تعمیر کے لیے امتیازی کام انجام دیا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انھوں نے ترکی میں قدیم پولٹکل انفراسٹرکچر (political infrastructure) کی جگہ بڑے پیمانے پر ایک نیا سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure)قائم کردیا جو کہ اگلے مرحلے کے کام کے لیے ایک مضبوط بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
اکیسویں صدی کے ربع اول میں اب وقت آگیا ہے کہ ترکی میں اگلے مرحلے کا کام کیا جائے۔ یہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام دراصل اُس کام کی تکمیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں صحابہ اور تابعین کے ذریعے ترکی میں انجام پایا تھا، اور پھر دھیرے دھیرے وہ تقریباً ختم ہوگیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے دعوتی مشن کو دوبارہ زندہ کیا جائے، اور ترکی میں سماجی اور تمدنی اعتبار سے جو نئی بنیاد قائم ہوئی ہے، اس کو بھر پور طور پر استعمال کرتے ہوئے پيغمبراسلام کے دعوتی مشن کی تکمیل کی جائے۔
دورِ شمشیر کا خاتمہ
ترکی میں عثمانی خلافت (Ottoman Empire) 1299 ءمیں قائم ہوئی، اور 1924 ء میں عملاً وہ ختم ہوگئی۔ کمال اتاترک نے حقیقۃ ً عثمانی خلافت کا خاتمہ نہیں کیا تھا، بلکہ انھوں نے صرف اس کے خاتمہ کا اعلان کیا تھا۔ خلافت کے زمانے میں جو سیاسی کلچر رائج تھا، اُس کی نوعیت کیا تھی، اُس کا اندازہ اِس واقعے سے ہوتاہے کہ سلطان محمد فاتح (وفات1481 (کے وقت سے یہ طریقہ رائج تھا کہ جب بھی کوئی سلطان تخت نشیں ہوتا تو اُس وقت جامع ایوب (مقبرہ حضرت ابو ایوب انصاری) ميں اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی۔ یہاں شیخ الاسلام (مفتی اعظم قسطنطنیہ) عثمانی خاندان کے بانی سلطان عثمان خان (وفات1326 ) کی تاریخی تلوار اس کی کمر میں حمائل کرتے۔ یہ خصوصي رسم سلطان کی تاج پوشی کا لازمی حصہ تھی۔
دورِ خلافت کی اِس شاہانہ رسم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور میں ترکی کے اندر وہی کلچر رائج تھا، جو اُس وقت تمام دنیا میں رائج تھا، یعنی مبنی بر شمشیر کلچر۔ اس کلچر کی نمائندگی ایک قديم فارسی شعر میں اِس طرح کی گئی ہے — جو شمشیر زنی کرتا ہے، اُسی کے نام کا سکہ دنیا میں چلتا ہے:
ہر کہ شمشیر زند، سکّہ بنامش خوانند
انیسویں صدی کے نصف ثانی میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب شمشیر کی روایتی طاقت ختم ہوچکی ہے، اس کی جگہ اب علم (سائنس) نے لے لی ہے۔ اب ایک ترمیم کے ساتھ مذکورہ فارسی شعر کو اِس طرح پڑھنا چاہئے — جو سائنس میں آگے بڑھتا ہے، اس کا دبدبہ دنیا میں قائم ہوتاہے:
ہر کہ سائنس زند، سکّہ بنامش خوانند!
کمال اتاترک نے ترکی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو کچھ کیا، وہ اپنے عملی نشانے کے اعتبار سے یہی تھا، یعنی ترکی کو دورِ شمشیر سے نکال کر دورِ سائنس میں داخل کرنا۔ کمال اتاترک نے اپنی آئڈیالوجی کو خود اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا تھا
Science is the most reliable guide in life. (EB. 2/257)
آج جو شخص ترکی کا سفر کرتاہے ، وہ واضح طورپر دیکھتاہے کہ قدیم ترکی کی تعمیر اگر ’’شمشیر‘‘کے ذریعے کی گئی تھی، تو جدید ترکی کی تعمیر ’’سائنس‘‘ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ جدید ترکی کے ہرشعبے میں سائنسی ترقی کے آثار واضح طورپر دکھائی دے رہے ہیں ۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم دور میں اقتصادیات کی بنیاد زراعت پر ہوتی تھی۔ جدید دور میں اقتصادیات کی بنیاد صنعت پر قائم ہوگئی ہے۔ جدید ترکی نے اِس راز کو سمجھا اور صنعت کے تمام شعبوں میں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ عرب ممالک کی بظاہر خوش حالی تمام تر قدرتی تیل کی بنیاد پر قائم ہے۔ ترکی بھی ایک خوش حال ملک ہے، لیکن اس کی خوش حالی کا انحصار برعکس طور پر صنعتی سرگرمیوں پر قائم ہے، نہ کہ تیل کے قدرتی وسائل پر۔ کیوں کہ تيل جيسي چيز وہاں موجود ہی نہیں ۔ اِس قسم کی ترقی بلا سائنس اور جدید تعلیم کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔
ترکی کا پلس پوائنٹ
ترکی میں مصطفی کمال اتاترک کو 18 سال1920-1938) (تک سیاسی اقتدار حاصل رہا۔ اِس مدت میں انھوں نے جو ریڈیکل کام کیے، اس کو کمال ازم (Kemalism) کہاجاتا ہے۔ کمال ازم کا اگر موضوعی مطالعہ (objective study)کیاجائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ کمال ازم اپني حقيقت كے اعتبار سے، ایک خدائی بلڈوزر (divine bulldozer) كي حيثيت ركھتا تھا جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں كے زوال یافتہ بوسیدہ کلچر کو ڈھادیا، تاکہ اس کی جگہ ایک نئی عمارت کی تعمیر کی جاسکے۔ کمال ازم کا یہ معاملہ ترکی کے مشہور صوفی شاعر جلال الدین رومی کے اِس شعر کا مصداق تھا — جب کسی عمارت کو آباد کرنا ہوتاہے تو پہلے پرانی عمارت کو ڈھادیتے ہیں :
چوں بنائے کہنہ آباداں کنند اولاً تعمیر را ویراں کنند
اسلام کا اصل ماڈل وہ ہے، جو دعوت الی اللہ کے تصور پر قائم ہوتاہے۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں یہی اسلام کا ماڈل تھا، مگر بعد کو رفتہ رفتہ اُس پر زوال آیا اور دعوتی ماڈل کے بجائے دو متوازی (parallel) ماڈل قائم ہوگئے — پولٹکل ماڈل، اور فقہی ماڈل۔ پولٹکل ماڈل کا یہ نتیجہ ہوا کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے لیے دعوت کا موضوع نہ رہیں ، بلکہ وہ سیاست اور حکومت کا موضوع بن گئیں ۔ اِسي طرح فقہی ماڈل کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام، اسپرٹ کے معنی میں ، تعلق باللہ کاموضوع نہ رہا، بلکہ وہ صرف فارم کی بابت فنی بحثوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔ یہ دونوں ماڈل اللہ کی مرضی کے مطابق نہ تھے، چنانچہ اللہ کو مطلوب ہواکہ اُن کو بے رحمی کے ساتھ بلڈوز کرکے ڈھادیا جائے۔ یہی کام تھا جو کمال اتاترک کے ہاتھوں بیسویں صدی کے ربع اول میں انجام پایا۔حقيقت كے اعتبار سے يه فطرت كا بلڈوزر تھا، نه كه كمال اتاترك كا بلڈوزر۔
ایک حدیثِ رسول
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاإن اللہ لیؤید هذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث 3062)۔ یعنی بے شک اللہ اِس دین کی تائید فاجر شخص سے کرے گا۔
اِس حدیث میں ’فاجر‘ سے مراد وہی ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سیکولر کہاجاتا ہے۔ اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک دین کی تعلیم اور دین کی تشریح کا تعلق ہے، اس کو صرف مخلص اور مومن لوگ ہی انجام دیں گے، لیکن وسیع تر معنوں میں دین کی ایک اور ضرورت ہے، اور وہ تائید دین ہے۔ یہ تائیدی رول (supporting role) کوئی بھی شخص انجام دے سکتاہے، حتیٰ کہ سیکولر افراد یا سیکولر نظام بھی۔رسول الله صلي الله عليه وسلم كي هجرت كے موقع پر عبد الله بن اَر\قَط كا سفري رهنما كا رول (سيرت ابن هشام، جلد 1، صفحه 485)اسي قسم كے ايك تائيدي رول كي حيثيت ركھتاهے۔
اگر یہ مانا جائے کہ کمال اتاترک محض ایک سیکولر آدمی تھے، وہ نہ کوئی مذهبي آدمی تھے اور نہ ان کا مشن کوئی مذهبي مشن تھا، تب بھی یہ ماننا ہوگا کہ مذکورہ حدیث کے مطابق، اسلام یا مسلمانوں کے لیے کمال اتاترک کا تائیدی رول ایک ناقابلِ انکار حقيقت ہے۔
سیاسی ماڈل کا نقصان
ترکی کی اسلامی خلافت کیا تھی، وہ اسلام کے نام پر خاندانی بادشاہت تھی۔ مگر اسلام کا ٹائٹل دینے کی بنا پر وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے سیاست کا ماڈل بنی ہوئی تھی۔ ہر جگہ مسلمان اسی نہج کا ماڈل قائم کرنے کے لیے سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ اِس راہ میں جان ومال کی قربانی کو انھوں نے اپنے لیے نجاتِ آخرت کا ذریعہ سمجھ لیا تھا۔
ترکی کی مسلم خلافت 1924 میں ختم ہوئی، لیکن تمام دنیا کے علما اُس کو دشمنوں کی سازش قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہے۔ کسی نے اِس راز کو نہیں سمجھا کہ خلافت کا ’’اِلغاء‘‘ دراصل ایک خدائی آپریشن تھا۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اندر قدیم سیاسی ذہن ختم ہو، اور ان کے اندر نیا دعوتی ذہن پیدا ہو۔ مگر مسلم رہنماؤں کے منفی رد عمل کی بنا پر 1924 کے بعد بھی مسلمانوں میں قدیم سیاسی ذہن ختم نہ ہوا، مسلمانوں کے اندر سیاسی اعتبار سے، تفکیرِ نو (rethinking) كا پراسس جاري نہ ہوسکا، جو کہ مطلوب تھا۔
اس کی ایک مثال بوسنيا ہرزے گووینا (Bosnia Hercegovina) کا کیس ہے۔ بوسنیا یورپ کے قلب میں واقع ہے، جو كه قديم زمانے ميں عثماني خلافت كا ايك حصه تھا۔ هرزے گووينا یوگوسلاویہ (Yugoslavia) کا ایک صوبہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 45 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ بوسنیا میں دسمبر 1991میں صوبائی الیکشن ہوا۔ اِس الیکشن کے بعد وہاں کے ایک مسلم لیڈر الیجا عزت بیگووچ (Alija Izetbegovic) کو وہی عہدہ مل گیا جس کو انڈیا کی اصطلاح میں چیف منسٹر کہا جاتاہے۔
عزت بیگووچ (وفات2003) کو موقع تھا کہ وہ بوسنیا میں دعوتی اور تعلیمی کام کریں ، مگر اپنے سیاسی شاکلہ کی بنا پر انھوں نے ایک غیر دانش مندانہ اقدام کردیا۔ انھوں نے بوسنیا کو ایک آزاد مسلم اسٹیٹ (independent Muslim state) ڈکلیر کردیا۔ یوگوسلاویہ کی مرکزی حکومت کے لیے اُن کا یہ اعلان، بغاوت کا درجہ رکھتا تھا۔ چنانچہ مرکزی حکومت نے بوسنیا کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی۔ بیگووچ کے اِس اعلان سے بوسنیا کے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہیں ملا۔ سیاسی مائنڈ سیٹ (political mindset)نہ ٹوٹنے کی وجہ سے مسلمان جگہ جگہ اِسی قسم کی غيرحقيقت پسندانه سیاست چلاتے ہیں ، اور نتیجۃً وہ اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں ۔
فقہی ماڈل کا نقصان
فقہ کا شعبہ ایک مستقل شعبہ (independent discipline) کے طور پر صحابہ اور تابعین کے دور میں موجود نہ تھا۔ فقہ کی تشکیل بعد کو عباسی دور750-1258) (میں ہوئی۔ فطری طورپر فقہ کے بہت سے مسائل وقتی حالات کے تقاضے کے تحت بنائے گئے، مگر بعد کو وہ مقدس ہو کراسلام کا ابدی حصہ سمجھے جانے لگے۔ اِس حدکو پہنچ کر فقہ کا شعبہ اُسي طرح ایک فرسودہ ڈھانچہ بن گیا، جس طرح مسلم خلافت کے ادارے نے بعد کے زمانے میں ایک فرسودہ ڈھانچے کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ فقہ کی تشکیل کے زمانے میں پرنٹنگ پریس کا طریقہ دریافت نہیں ہوا تھا۔کتابیں یا تو حافظے میں ہوتی تھیں یا ہاتھ سے اُن کو قدیم طرز کے معمولی کاغذ (parchment) پر لکھا جاتا تھا۔ اُس دور کے مسلم علماء قرآن کی حفاظت کے معاملے میں بہت زياده حساس بن گئے۔ اُس زمانے میں بعض لوگوں نے قرآن کا فارسی ترجمہ کیا۔ اِس سے ایک مسئلہ پیدا ہوا۔ علما نے یہ فتویٰ دے دیا کہ ترجمہ جب لکھا جائے تو اُس کے ساتھ قرآن کا عربی متن (Arabic Text) بھی ضرور شامل کیا جائے۔ قبل از طباعت دور کا یہ مسئلہ بعد از طباعت دور میں بھی مقدس بن کر باقی رہا۔ اس معاملے کی ایک مثال حسب ذیل استفتا اور فتوے سے معلوم ہوتی ہے
استفتا کیا قرآن کا ترجمہ بغیر متن کے چھاپنا اور اس کی اشاعت کرنا جائز ہے۔
فتوي قرآن کریم کا ترجمہ بغیر متن کے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ علماءِ کرام نے اس سے منع کیا ہے، اور اس کے ممنوع ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے، اور اس میں علامہ شرنبلالی کے اِس موضوع پر ایک مستقل رسالہ (النفحۃ القدسیۃ في أحکام قراء ۃ القرآن وکتابتہ بالفارسیۃ) کا ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ اس میں ائمہ اربعہ سے بغیر متن، قرآن کے لکھنے کو سختی کے ساتھ حرام کیاگیا ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانی نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کا صرف ترجمہ بغیر عربی الفاظ کے لکھنا اور لکھوانا اور شائع کرنا، باجماعِ امت حرام اور باتفاق ائمہ اربعہ ممنوع ہے‘‘۔ (جواہر الفقہ، جلد 1، صفحہ 97 )
مذکورہ فتوے کی بنیاد یقینی طور پر کسی نص پر مبنی نہیں ہے۔ اگر اُس کو درست قرار دیا جاسکتاہے تو صرف ایک بنیاد پر اس کو درست قرار دیا جاسکتاہے، اور وہ دورِ طباعت سے پہلے کے حالات کی نسبت سے ایک وقتی احتیاط ہے۔ اب دور طباعت میں اِس وقتی احتیاط کو برقرار رکھنا صرف ذہنی جمود کا ايك معاملہ ہوگا، نہ کہ حقیقۃً احتیاط کا معاملہ۔ دورِ طباعت میں قرآن کی حفاظت اتنے مستحکم انداز میں ہوچکی ہے کہ اب قدیم انداز کی کوئی احتیاط سرتاسر بے معنی ہے۔
مزید یہ کہ اِس قسم کے مفتی صاحبان نے اپنے جامد ذہن کی بنا پر ایک اور فتویٰ دے رکھا ہے۔ یہ فتویٰ ’’بے حرمتی‘‘ کے خود ساختہ تصور پر مبنی ہے۔اِس دوسرے فتوے کے مطابق، قرآن کے ترجمے کو اگر متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو غیر مسلموں کے ہاتھ میں اس کو دینا جائز نہ ہوگا، کیوں کہ وہ قرآن کی بے حرمتی کریں گے۔ گویا کہ قرآن کے ترجمے کو اگر متن (text) کے بغیر شائع کیا جائے تو اس کا شائع کرناناجائز ہے۔ اوراگر قرآن کے ترجمے کو متن کے ساتھ شائع کیا جائے تو اس کو غیر مسلموں کے ہاتھ میں دینا ناجائز ہے، یعنی پہلی صورت میں طباعت ناجائز اور دوسری صورت میں استعمال ناجائز۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ ذہنی جمود اپنے نتیجے کے اعتبار سے کتنا زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ اِس قسم کے جامد فتووں کا یہ ہلاکت خیز نتیجہ ہوا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام عملاً معطل ہو کر رہ گیا۔ دعوت الی اللہ کے کام کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں چھاپا جائے، اور اس کو منظم طورپر لوگوں تک پہنچایا جائے۔ لیکن مذکورہ قسم کے بے اصل فتوؤں کی بنا پر ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن ہی نہیں بنا۔ موجوده زمانےمیں پرنٹنگ پريس کا دور اِس لیے آیا تھا کہ خدا کی کتاب کا ترجمہ ہر زبان میں چھاپ کر اس کو تمام انسانوں تک پہنچایا جائے، مگردورِپریس پر تين سو سال سے زیادہ کی مدت گزر گئی اور ذهني جمود كي بنا پراب تک یہ کام انجام نہ پاسکا۔
اِس مثال کے برعکس، ترکی میں ایک دوسری مثال سامنے آئی۔ یہاں ترکی کے شہر استانبول میں ایک تاریخی مسجد (رستم پاشا مسجد) ہے۔ یہ بڑی مسجد ہے اور یہاں کثرت سے سیاح آتے ہیں ۔ یہاں کے ترکی امام کو ہمارے ساتھیوں نے قرآن کے انگریزی ترجمہ (بغیر متن) کی کاپیاں دیں ۔ امام صاحب نے اس کو خوشی کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے بڑی تعداد میں قرآن کا یہ انگریزی ترجمہ ترکی سے چھپوایا، اور اس کو مزید پرکشش بنانے کے لیے قرآن کے سائز کا ایک خوب صورت بیگ تیار کیا۔ اب وہ اس کو باقاعدہ نظم کے تحت مسجد ميں آنے والے سیاحوں کو دے رہے ہیں ۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے مسجد کے صحن میں ایک میز پر قرآن کے ترجمے رکھ دئے ہیں ۔ یہاں انھوں نے لکھ دیاہے — یہ آپ کے لیے مسجد کی طرف سے فری اسپریچول گفٹ (free spiritual gift) ہے۔ چنانچہ مسجد میں آنے والے غير مسلم سیاح یہاں سے بڑی تعداد میں قرآن کا انگریزی ترجمہ بخوشی حاصل کررہے ہیں ۔
اِس فرق سے جدید ترکی کے مثبت پہلو کا اندازہ ہوتاہے۔ اتاترک آپریشن کے بعد ترکی میں یہ ہوا کہ جمود ٹوٹ گیا، اور لوگوں کے اندر کھلا پن (openness) آیا۔ اِس کے مختلف مظاہر میں سے ایک مظہر یہ تھا کہ لوگوں کے اندر مذہبی جمود کا مزاج ختم ہوگیا۔ وہ چیزوں کو اُس کی حقيقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ قدامت پسندی اور کٹر پن کے اعتبار سے۔
ترکی کا ر ول
ترکی، شرقِ اوسط کا ایک ملک ہے۔ وہ جزئی طورپر ایشیا میں واقع ہے، اور جزئی طور پر یورپ میں ۔ دو براعظم کے درمیان اُس کا واقع ہونا اس کی تاریخ بنانے میں ایک مرکزی عامل ہے، اس کے کلچر میں اور اس کی سیاست میں ۔ عام طور پر يه كها جاتا هے کہ ترکی، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتاہے:
Turkey is a country of the Middle East lying partly in Asia and partly in Europe. Its location in two continents has been a central factor in its history, culture and politics. Turkey has often been called a bridge between East and West. (EB. 18/782)
ترکی کے ایشیائی حصے کو اناطولیہ (Anatolia)اور اس کے یورپی حصے کو تھریس (Thrace) کہاجاتاہے۔ ترکی کا یہ مختلف جغرافیہ کیسے بنا۔ ارضیاتی سائنس کے ماہرین نے اِس معاملے کی تحقیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ 200 ملین سال پہلے زمین ایک سالم کرہ کی صورت میں تھی، پھر اس کی سطح پر جگہ جگہ پھٹنے کا عمل ہوا۔ اِس نظریے کو جغرافیہ میں ڈرفٹنگ کانٹی نینٹ تھیوری (drifting continent theory) کہا جاتا ہے۔ یہ عمل دھیرے دھیرے تقریباً 140 ملین سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد سطحِ زمین کا پانی سمندروں کی صورت میں جمع ہوگیا اور خشکی کے علاقے 5 الگ الگ براعظم بن گئے۔ گویا کہ ترکی کا موجودہ جغرافی نقشہ بننے میں ایک سو ملین سال سے زیادہ وقت لگ گیا۔
ترکی کا یہ مختلف جغرافیہ اتفاقاً نہیں بنا۔ اس کے پیچھے يقيناً خالق کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ اِسی مختلف جغرافی ساخت کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ بعد کے زمانے میں ترکی انسانی تاریخ میں ایک مختلف رول ادا کرسکے۔
اسلام کا ظہور عرب میں ہوا۔ مخصوص اسباب کی بنا پر عرب کے لوگ بڑی تعداد میں شام (Syria) جایا کرتے تھے۔ شام کا ملک ترکی سے ملاہوا ہے۔ اسلام کا ظہور جب عرب میں ہوا اور اہلِ ایمان عرب کے باہر اطراف کے ملکوں میں تبلیغ کے لیے جانے لگے، تو اُن کی ایک تعداد شام سے گزر کر ترکی میں بھی داخل ہوگئی۔ یہ عمل صحابہ کے زمانے میں شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ ترکی میں بہت سے اصحابِ رسول کی قبریں پائی جاتی ہیں ۔ اُن میں سے ایک حضرت ابو ایوب انصاری ہیں جن کی قبر استانبول (قسطنطنیہ) میں واقع ہے۔ اِس طرح ترکی ایک طرف قدیم مذہبی روایات کا حامل بن گیااور دوسری طرف آبنائے باسفورس کے اوپر برٹش انجینئروں کا بنایا ہوا جدید طرز کا پُل علامتي طورپر، یورپی ٹکنالوجی کی یاد دلاتا ہے۔ اِس طرح ترکی گویا مشرقی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان ایک سنگم (junction) کا کام کررہا ہے۔
ترکی کا یہ مخصوص جغرافیہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ ترکی کا مشن کیا ہے۔ وہ مشن ہے— مشرق سے ملی ہوئی خدائی ہدایت (divine guidance)کو اہلِ مغرب تک پہنچانا۔
اِس وقت دنیا میں تقریباً 60 مسلم ملک یا مسلم اکثریت کے علاقے ہیں ، مگر اِن میں سے کوئی بھی ایسا ملک نہیں جہاں مذکورہ حالات پائے جاتے ہوں ۔ یہ مطلوب حالات استثنائی طورپر صرف ترکی میں پائے جاتے ہیں ۔ اِس لیے تقریباً یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ دعوت الی اللہ کے معاملے میں آج جو رول مطلوب ہے، اس کا مرکز صرف ترکی بن سکتاہے، ترکی خداوند ِ رب العالمین کا انتخاب ہے۔
اِس معاملے میں ، باعتبار نتیجہ، کمال اتاترک کا بھی ایک معاون رول (supporting role) ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی طبقے میں عام طورپر کمال اتاترک ایک بدنام شخص کی حیثیت رکھتے ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ کمال اتاترک نے جو کچھ کیا، وہ ایک ریڈیکل آپریشن (radical operation) تھا، اور کسی بڑی تعمیر کے لیے ہمیشہ اِس قسم کا ریڈیکل آپریشن ضروری ہوتاہے۔
ميرے مطالعے كے مطابق، کمال اتاترک اسلام دشمن نہ تھے، وہ دراصل اسلام کے نام پر بنائے ہوئے خود ساختہ ڈھانچے کو توڑنا چاہتے تھے۔ اُن کا نشانہ یہ تھا کہ ترکی کے لوگوں میں کٹر پن اور جمود ختم ہو۔ ترکی میں کھلے پن (openness) اور روشن خیالی (enlightenment) کا دورآئے۔ ترکی کے لوگوں کو قدیم توہم پرستانہ دور سے نکال کر جدید سائنسی دور میں داخل کیا جائے۔ ترکی میں سیکولر ایجوکیشن کو فروغ دیاجائے، وغیرہ۔ اِس قسم کی انقلابی تبدیلی ریڈیکل آپریشن کے بغیر نہیں ہوسکتی۔کمال اتاترک ترکی میں جو ریفارم لانا چاہتے تھے، اس کا اندازہ خود اُن کے ایک قول سے ہوتاہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ — سائنس زندگی کی سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنما ہے۔
كمال ازم كي حقيقت
كمال اتاترك كي تحريك كو كمال ازم (Kemalism) كهاجاتا هے۔ كمال ازم كي تحريك اينٹي اسلام تحريك نه تھي۔ اپني حقيقت كے اعتبار سے، كمال ازم كي تحريك مخالفِ جمود (anti-stagnation) تحريك تھي۔ تركي ميں كمال اتاترك كا دور 1920 كے بعد شروع هوتا هے۔ اس سے پهلے تركي مكمل طور پر ذهني جمود كا شكار هوچكا تھا۔ يه وقت تھا جب كه تركي كے پڑوسي علاقه يورپ ميں ماڈرن ايجوكيشن اور ماڈرن انڈسٹري آچكي تھي، مگر تركي قديم روايتي دور ميں پڑا هوا تھا۔ اِس صورتِ حال كے ردِ عمل كے طورپر تركي كے بهت سے لوگوں ميں يه ذهن پيدا هوا كه تركي كو ماڈرنائز كيا جائے۔ كمال اتاترك دراصل اِسي ذهن كے قائد كے طورپر ابھرے۔
تركي ميں كمال اتاترك كو 1923 ميں سياسي اقتدار ملا۔ اِس كے بعد انھوں نے ملك ميں ريڈيكل اصلاحات كيں ۔ خاص طورپر تعليم اور انڈسٹري ميں تركي كو يورپ كي ترقياتي سطح پر لانے كي كوشش كي۔ اتاترك سے پهلے تركي ميں تعليم كي شرح بمشكل 20 في صد تھي، مگر كمال آپريشن كے نتيجے ميں تركي ميں تعليم اتني تيزي سے بڑھي كه جلد هي وه 90 في صد تك پهنچ گئي:
The literacy rate did increase greatly after the alphabet reform from around 20% to over 90%.
تركي كے ايك مورخ نے لكھا هے — كمال انتظاميه نے تركي ميں بڑے پيمانے پر تبديلياں كيں ۔ اس نے تركي ميں سيكولرازم كو فروغ ديا اور حكومتي نظام كو ماڈرنائز كيا۔ تعليم كو ترقي دينے پر خصوصي توجه دي گئي۔ انڈسٹري اور بينكنگ كے نظام كو بهت زياده وسعت دي گئي:
Kemalist administration brought about a thorough secularization and modernization of the administration, with particular focus on the education system. The development of industry was promoted by strategies such as import substitution and the founding of state enterprises and state banks.
كمال اتاترك كے اِنھيں اقدامات كا يه نتيجه هےكه آج تركي، جديد اصطلاح كےمطابق، ايك ترقي يافته ملك(developed country)بن گياهے۔ وه يورپ كے ترقي يافته ملكوں كي مانند ايك ترقي يافته ملك هے۔ تركي كے ادارے (institutions)، تركي كي انڈسٹري، تركي كے شهر، ترقي كے اعتبار سے يورپ كے ملكوں سے پيچھے نهيں هيں ، حتي كه جو ورك كلچر (work culture) يورپ ميں پايا جاتا هے، وهي ورك كلچر تركي ميں بھي موجود هے۔
يه ايك واقعه هے كه كمال اتاترك نے اپنے 18 ساله دورِ اقتدار ميں كئي غلطياں كيں ، مگر يه بھي ايك واقعه هے كه هر مصلح غلطياں كرتاهے، اِس ميں كسي مصلح كا كوئي استثنا (exception) نهيں ۔ ديكھنے كي اصل چيز بعد كا نتيجه هے، نه كه آپريشن كے زمانے كي بعض غلطياں ۔ آج تركي كو ترقي كے اعتبار سے جو درجه حاصل هے، وه بلاشبه كمال اتاترك كي ريڈيكل اصلاحات كا نتيجه هے۔ يه كهنا صحيح هوگا كه اِس اعتبار سے، تركي دوسرے مسلم ملكوں كے ليے ايك نمونه هے۔ دوسرے مسلم ملكوں كو چاهيے كه وه اتاترك آپريشن كے بعض منفي پهلوؤں كو نظر انداز كريں ، اور اس كے مثبت پهلوؤں كي پيروي كرتے هوئے اپنے ملكوں كو جديد معيار پر ترقي يافته بنائيں
تركي كي جديد تصوير
مشهور مستشرق فلپ كے هٹي (Philip K. Hitti) نے عرب كي تاريخ پر ايك كتاب لكھي هے۔ يه كتاب اپنے موضوع پر ايك مستند كتاب ماني جاتي هے، اور يونيورسٹيوں ميں داخل نصاب هے۔ اِس كتاب كا ترجمه مختلف زبانوں ميں هوچكا هے۔ اصل انگريزي كتاب كا ٹائٹل يه هے:
History of the Arabs: From the Earliest Times to the Present
822صفحات كي اس كتاب ميں عربوں كي علمي اور فكري تاريخ كو مستند ماخذ (authentic sources) كے حوالے سے بيان كياگيا هے۔اِس كتاب كا ايك باب علمي اور ادبي ترقيوں (scientific and literary progress) كے بارے ميں هے۔ مصنف نے بتايا هے كه عرب ايك زمانے ميں ترقي كي اِس حد تك پهنچے كه ابن سينا كي كتاب كو ميڈيكل بائبل كهاجاتا تھا (صفحه 368)۔ اس كا ذكر كرتے هوئے مصنف نے لكھا هے كه بعد كي صديوں ميں عرب اپني ترقي كي رفتار كو برقرار نه ركھ سكے
Reverence for the past with its traditions, both religious and scientific, has bound the Arab intellect with filters which it is only now beginning to shake off. (p. 381)
يعني ماضي كي روايات كو مقدس سمجھنا عرب ذهن كے ليے ترقي كا بندھن بن گيا، علمي اعتبار سے بھي اور مذهبي اعتبار سے بھي۔ اب اِس ميں تبديلي هور هي هے، مگر ابھي وه صرف آغاز كے درجے ميں هے۔
فلپ هٹي نے جوبات عربوں كے بارے ميں لكھي هے، وهي بات پوري مسلم دنيا كے بارے ميں درست هے۔ اِس عموم ميں خود تركي بھي شامل هے۔ تركي ميں وه سارے حالات پيدا هوئے جو بقيه مسلم دنيا ميں پيدا هوئے تھے۔ موجوده دور ميں پوري مسلم دنيا قديم وجديد كي كشمكش سے گزري هے۔ اِس اعتبار سے، تركي ميں بھي وهي حالات پيش آئے جو دوسرے مسلم ملكوں ميں پيش آئے۔
البته ايك اعتبار سے فرق هے، وه يه كه تركي جغرافي اعتبار سے، يورپ كي سرحد پر واقع هے، بلكه جزئي طورپر وه براعظم يورپ هي كا ايك حصه هے۔ اِس ليے فطري طورپر ايسا هوا كه نشاةِ ثانيه (Renaissance) كے بعد يورپ ميں جو نئے حالات پيداهوئے، اُن كا براهِ راست اثر تركي پر پڑا۔ وه واقعه جس كو ’’تركي ميں مشرق ومغرب كي كشمكش‘‘ كهاجاتا هے، وه دراصل اس علاقے ميں پيش آنے والے تهذيبي انقلاب كا نتيجه تھا، نه كه كسي اتفاق يا كسي ’’سازش‘‘ كا نتيجه۔
تركي كي مخصوص جغرافي پوزيشن كے نتيجے ميں فطري طورپر ايسا هوا كه تركي ميں وه پراسس شروع هوا جس كو ويسٹرنائزيشن (westernization) يا سيكولرائزيشن(secularization) كهاجاتا هے۔ اِس تحريك كے علم بردار بهت سے نئے تركي مفكرين تھے۔ مثلاً محمد نامق كمال (1840-1888) اور محمد ضيا گوكلپ (1875-1924)، وغيره۔ مشهور تنظيم ينگ ترك Young Turk)) بھي اِسي كا ايك حصه تھي۔
تركي كا سلطان سليم اول(وفات1520ء) سياسي دائرے ميں اِس تحريك كا حامي تھا۔ وه چاهتا تھا كه تركي كي تجديد كاري (modernization) كي جائے۔ خاص طورپر حكومتي ادارے كو ماڈرنائز كرنا۔ اِس سلسلے ميں سلطان نے تركي كي فوج كو مغربي آلاتِ حرب سے مسلح كرنے كي كوشش كي، مگر اُس وقت تركي كے حالات اِس قسم كي تجديد كاري كے ليے موافق نه تھے۔ چنانچه مصلحين كي كوششيں زياده كامياب نه هوسكيں اور خود سلطان سليم كو تخت چھوڑ دينا پڑا۔
جيسا كه معلوم هے، تركي ميں اسلام عهدِ صحابه ميں پهنچ چكا تھا۔ تركي اِس سے پهلے رومي سلطنت كے قبضے ميں تھا۔ مسلمانوں نے جب رومي سلطنت كو توڑا تو اس كے بعد تركي مسلم مملكت كا ايك حصه بن گيا۔ رومي سلطنت كے زمانے ميں تركي كي آبادي زياده تر مسيحي مذهب كو ماننے والي تھي۔ نئے حالات كے تحت يهاں اسلام تيزي سے پھيلنے لگا۔ عربي زبان وسيع پيمانے پر رائج هوگئي۔ تركي كے شهروں ميں كثير تعداد ميں عربي مدرسے قائم هوئے۔
تركي كے يه عربي مدرسے آخر تك اپنے روايتي انداز پر قائم رهے۔ اِن مدرسوں كا ماحول مكمل طورپر قدامت پرستي كا ماحول تھا۔ اِن مدرسوں سے بڑي تعداد ميں علماء پيدا هوئے۔ دھيرے دھيرے تركي ميں علماء كو نهايت مضبوط حيثيت حاصل هوگئي، يهاں تك كه نئے خليفه كي خلافت اُس وقت مكمل هوتي تھي جب كه وه جامع ايوب (مقبره ابوايوب انصاري) ميں حاضر هو، اور وهاں شيخ الاسلام (مفتي اعظم قسطنطنيه) اس كي كمر ميں روايتي تلوار اپنے هاتھ سے حمائل كريں ، يه رسم نئے خليفه كي تاج پوشي كا ايك لازمي حصه تھي۔
اِن تاريخي اسباب كے نتيجے ميں تركي كے علماء كو تركي ميں نهايت طاقت ور پوزيشن حاصل هوگئي۔تركي كے يه علماء دوسرے ملكوں كي طرح، اپنے محدود ماحول ميں رهتے تھے، ان كو خارجي دنيا ميں آنے والي تبديليوں كي مطلق خبر نه تھي۔ وه اپنے اِس قدامت پرستانه مزاج كي بنا پر تركي ميں تجديد كاري كي تحريك كے شديد مخالف بن گئے۔ اِس كي ايك مثال يه هے كه ’’مغرب ميں پندرھويں صدي عيسوي ميں متحرك ٹائپ كي ايجاد سے پرنٹنگ پريس كي دنيا ميں حيرت انگيز انقلاب آگيا تھا، ليكن علماء نے اِس نئي ٹكنالوجي كو يه كهه كر رد كرديا كه عربي يا تركي كي كتابوں ميں خدا اور رسول كا نام هوتا هے جس كو اِس جديد طريقه طباعت ميں پامال نهيں كيا جاسكتا‘‘۔ اِسي طرح ’’1577 عيسوي ميں استانبول ميں ايك عظيم الشان رصد گاه قائم كي گئي تھي جس كو علماء نے خلافِ اسلام قرار دے ديا۔ اتفاق سے اُنھيں دنوں وهاں طاعون كي وبا پھيل گئي۔ علماء كا موقف تھا كه يه دراصل اسرارِ خدائي ميں مداخلت كي سزا هے۔ بالآخر1580 عيسوي ميں عوامي دباؤ كے سبب اِس رصد گاه كو منهدم كردياگيا‘‘، وغيره۔ (ادراك زوالِ امت، از راشد شاز، جلد 2، صفحه 177)
روايتي علما كي شديد مخالفت كي بنا پر تركي ميں جوحالات پيدا هوئے، اس كے نتيجے ميں يه هوا كه ايك طرف تجديدي مصلحين كي آواز دب گئي، اور دوسري طرف شديد دباؤ كے تحت سلطان سليم اول كو 8 سال حكومت كرنے كے بعد 1520 عيسوي ميں تخت خلافت چھوڑنا پڑا۔
ريڈيكل تبديلي
دورِ جديد كے حالات نے اِس كو لازمي قرار دے ديا تھا كه تركي ميں تجديد كاري (modernization)كا عمل كياجائے۔ يه كوشش ترك مصلحين كے ذريعے شروع هوئي۔ ابتداء ً يه تحريك تدريجي تبديلي (gradual change) كے اصول پر چل رهي تھي، ليكن انيسويں صدي كے آخر ميں يه بات واضح هوگئي كه تبديلي كا يه كام تدريج كے اصول پر عملاً ممكن نهيں هے۔ اِس كے بعد تاريخ كي فطري رفتار كے مطابق، سوچنے والے دماغوں ميں ريڈيكل تبديلي (radical change) كا ذهن پيدا هوا۔ يهي ريڈيكل تبديلي كا ذهن هے جس نے بالآخر كمال اتاترك (1881-1938) كي صورت اختيار كرلي۔
ريڈيكل تبديلي (radical change) كا مزاج تدريجي تبديلي (gradual change) سے بالكل مختلف هوتا هے۔ تدريجي تبديلي هميشه اعتدال كے اصول پر چلتي هے، مگر ريڈيكل تبديلي ميں هميشه انتها پسندي (extremism) كا عنصر شامل هوجاتا هے۔ يهي جديد تركي ميں پيش آيا۔ جس كام كو پچھلے مصلحين اعتدال كے ساتھ كرنے ميں ناكام هوگئے، اُس كو كمال اتاترك نے انتها پسندانه انداز ميں كرڈالا۔ بعض خرابياں جو كمال ازم كے اندر پائي جاتي هيں ، وه اِسي انتها پسندي كا نتيجه هيں ۔
تاهم يه تركي كي خوش قسمتي تھي كه كمالي ريڈيكل ازم بهت دير تك نه چل سكا۔ بهت جلد تركي ميں ايسے مصلحين پيدا هوئے جنھوں نے كمال ازم كي تصحيح كي، جنھوں نے تركي كے انقلاب كو كاميابي كے ساتھ اعتدال كي طرف لوٹايا۔ اِن ترك مصلحين ميں بديع الزماں سعيد نورسي (1876-1960) كو خاص مقام حاصل هے۔
كمال اتاترك نے اپنے انتها پسندانه مزاج كي بنا پر سيكولر شعبه اور مذهبي شعبه كے درميان فرق نهيں كيا۔ انھوں نے يه كيا كه سيكولر شعبوں ميں ضروري اصلاحات لانے كے ساتھ مذهبي شعبوں كے اوپر بھي بلڈوزر چلا ديا، جو بلاشبه غير ضروري تھا۔ جهاں تك مذهبي شعبوں كا تعلق تھا، وهاں دوسرا كام كرنا تھا، وه تھا — مذهب كي اصل روح كو برقرار ركھتے هوئے اس كو جديد تقاضوں كے مطابق بنانا۔
بعد كے معتدل مصلحين نے اِس انتها پسندي كو درست كيا۔ انھوں نے سيكولر شعبوں ميں ماڈرنائزيشن كو برقرار ركھتے هوئے مذهبي شعبوں كو دوباره ان كي اصل كي طرف لوٹايا۔
اِسي مصلحانه عمل كا نتيجه هے كه آج تركي ميں مذهب اپني اصل صورت ميں بدستور قائم هوگيا هے۔ وهاں كي مسجدوں سے پهلے كي طرح عربي ميں اذانيں بلند هورهي هيں ، نماز كا نظام پهلے كي طرح اپني اصل صورت ميں قائم هوگيا هے، تمام مذهبي شعبے آزادانه طورپر اپنا كام كررهے هيں ، وغيره۔ جديد تركي ميں كمال ازم كا دور دوره نهيں هے، بلكه وهاں ايك اور چيز كا دور دوره هے جس كو نيو كمال ازم (Neo-Kemalism) يا اصلاح يافته كمال ازم كهاجاسكتا هے۔
دعوہ ايمپائر (Dawah Empire)
ترکی اپنی انفرادی خصوصیات کی بنا پر مسلم دنیا میں ایک مختلف ملک (country with a difference)كي حیثیت رکھتاہے۔ اس کا اظہار ہر دور میں اس کے امتیازی رول سے ہوتاہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک ترکی پولیٹکل ایمپائر کارول ادا کرتا رہا۔ بیسویں صدی میں ترکی کے رہنماؤں نے کامیاب طور پر عالمی سطح پر ایک ایجوکیشن ایمپائر (Educational Empire) قائم کیا۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ایک عظیم تر رول ادا کرے— وہ ہے دورِ جدید میں اسلام کا ایک دعوہ ایمپائر قائم کرنا۔ دعوه ایمپائر وقت کی سب سے بڑی اسلامی ضرورت ہے۔ تقریباً 60 مسلم ملکوں میں ترکی واحد ملک ہے، جو اپنے حالات کے اعتبار سے دعوہ ایمپائر قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
ترکی کے ایک سفر (مئي 2012)میں میں نے وہاں کا مشہور میوزیم (توپ کاپی پیلس) دیکھا۔ اس ميوزيم ميں قرآن کا ایک قدیم نسخہ رکھا ہوا ہے۔ كها جاتا هے كه یہ قرآن كا وہ نسخہ ہے جو قبل از طباعت دور (pre-printing age) میں ایک صحابیٔ رسول کے قلم سے لکھاگیا تھا۔
جب میں میوزیم کے اُس حصے میں پہنچا، جہاں یہ قرآن رکھا ہوا ہے تو میری عجیب حالت ہوئی۔ اس معاملے پر غور کرتے ہوئے مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئینَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (25:1)۔مجھے ایسا محسوس ہواجیسے قرآن اپنی خاموش زبان میں کہہ رہا ہے — اے امت مسلمہ، مجھ کو خدا نے دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بھیجا تھا اور تم نے مجھ کو میوزیم میں رکھ کر چھوڑ دیا۔
قرآن میں بار بار اس قسم کے الفاظ آتے ہیں یا أیھا الإنسان، یاأیھا الناس، یا بني آدم۔ یعنی اےانسان، اے گروہِ انسان، اے ابنِ آدم۔ گویا کہ قرآن خداوند عالم کا ایک مکتوب یا ایک پیغام (message) ہے۔ اُس کو اِس لئے بھیجا گیاہے، تاکہ وہ تمام پیدا ہونے والے عورتوں اور مردوں تک پہنچ جائے۔ مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کے نزول پر 14 سو سال سے زیادہ وقت گزر گیا، مگر ابھی تک قرآن کا خدائی مکتوب اس کے مکتوب الیہ (addressee) تک نہیں پہنچا۔ انسانی تاریخ کا یہ واحد مکتوب ہے جو ابھی تک اَن ڈلیورڈ (undelivered) پڑا ہوا ہے۔
اکیسویں صدی کی مردم شماری بتاتی ہے کہ پوری دنیا میں 7 بلین سے زیادہ انسان آبادہیں ۔ گویا کہ امتِ محمدی کو خدا کا یہ پیغام 7 بلین انسانوں تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ سب سے بڑا کام ہے، جو امت محمدی کو انجام دینا ہے۔ امتِ محمدی اگر اس کام کو انجام نہیں دیتی تو وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بن جائے گیيَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ (5:67)۔ اِس آیت کے مطابق، ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ کا کام نہ کرنے کی صورت میں پیغمبر کی پیغمبری مشتبہ ہوسکتی تھی۔ اسی طرح ختمِ نبوت کے بعد امت اب مقامِ نبوت پر ہے۔ ایسی حالت میں امت اگر ’تبلیغ ما انزل اللہ‘ کا کام نہ کرے، تو سخت اندیشہ ہے کہ اس کا امتِ محمدی ہونا مشتبہ ہوجائے۔
نیا دور، نئے امکانات
دنیا کی سیاسی تاریخ کو دو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتاہے— قبل نیشن اسٹیٹ دور (pre-nation state age) اور بعد نیشن اسٹیٹ دور (post-nation state age)۔ پچھلے سیاسی دور میں یہ ممکن ہوتا تھا کہ ایک قوم بزور طاقت مختلف ملکوں پر قبضہ کرکے اپنا ایک ایمپائر بنالے۔ بازنطین ایمپائر، ساسانيایمپائر، عثمانيایمپائر (Ottomon Empire)، سوویت ایمپائر اور برٹش ایمپائر اس کی مثالیں ہیں ۔
مگر اب دنیا پوسٹ نیشن اسٹیٹ کے دور میں ہے۔ اب یہ آخری حد تک ناممکن ہوچکا ہے کہ کوئی قوم قدیم طرز کا ایمپائر بناسکے۔ آج اگر کوئی قوم قدیم طرز کا ایمپائر بنانا چاہے، تو وہ ایک قسم کا خلافِ زمانه عمل (anachronism) ہوگا، جو عملاً کبھی وقوع میں آنے والا نہیں ۔
مگر فطرت کا ایک اصول یہ هے کہ ہر شام کے بعد ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے، یعنی ایک امکان کے خاتمے کے بعد ایک اور زیادہ بہتر امکان کا وجود میں آنا۔ زیر بحث معاملے میں بھی ایسا ہی پیش آیا ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاسی اعتبار سے اپنا ایمپائر بنانا بلاشبه ایک ناممکن نشانہ بن چکا ہے۔ مگر قانون فطرت کے مطابق، دوسرا زیادہ بہتر امکان عین اِسی صدی ميں پيدا هوگیا ہے۔ یہ دوسرا امکان جدید کمیونی کیشن (modern communication) کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ جدید کمیونی کیشن نے اِس بات کوممکن بنا دیا ہے کہ دنیا میں پولٹکل ایمپائر کی جگہ الکٹرانک ایمپائر بنایا جاسکے۔ یہ الکٹرانک ایمپائر بلا شبه قدیم ایمپائر سے ہزاروں گنا زیادہ بڑاہے، رقبہ کے اعتبار سے بھی اور حصولِ مقصد کے اعتبار سے بھی۔
دور جدید کا الکٹرانک ایمپائر اُس قوم کے لئے مقدر ہے جس کے پاس انسان کے لیے کوئی نظریہ حیات يا آئڈیالوجی (ideology) ہو۔ اسلام بلاشبه اس قسم کی ایک ابدی آئڈیالوجی ہے۔ وہ قرآن پر مبنی ہے جو کہ واحد محفوظ الہامی کتاب ہے۔ امت مسلمہ کو عموماً اور اہلِ ترکی کو خصوصاً یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اسلام کی مبنی بر قرآن آئڈیالوجی کو لے کر اٹھیں اور اکیسویں صدی میں اپنا ایک الکٹرانک ايمپائر بنا دیں ۔
پچھلے دور میں پولٹکل ايمپائر بالادستی حاصل کرنے کے لئے ہوتا تھا، لیکن نیا الکٹرانک ایمپائر خدائی بلیسنگ (blessing)کو عام کرنے کے لئے ہوگا۔ قدیم پولیٹکل ايمپائر ٹیکنگ اسپرٹ (taking spirit)کا حامل ہوتا تھا، موجودہ الکٹرانک ایمپائر گِونگ اسپرٹ (giving spirit) کا حامل ہوگا۔
قرآن واحد صحیفہ ہے، جو انسان کو وہ چیز دیتاہے، جس کی اُس کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہ ہے انسان کے لیے اس کے خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) ۔ تخلیقی منصوبے کو جانے بغیر کوئی شخص یا قوم اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکتي، اور انسان کے بارے میں اِس تخلیقی منصوبے کو جاننے کے لیے آسمان کے نیچے ایک ہی محفوظ اور مستند کتاب ہے، اور وہ بلا شبه قرآن ہے۔ استانبول كے ميوزيم ميں دورِ عثماني كا قرآن گويا اِس بات كي ياددهاني هے كه قبل ازطباعت دور ميں قرآن دعوت كا سب سے بڑا ذريعه بنا تھا۔ اب بعد از طباعت دور ميں قرآن مزيد اضافے كے ساتھ، دعوت كا سب سے بڑا ذريعه هے۔
ترکی کی اسلامی تاریخ
اسلام سے پہلے ترکی کے باشندوں کی اکثریت مسیحی مذہب (Christianity)کو ماننے والی تھی۔ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں یہاں اسلام داخل ہوا۔ اِس کے بعدیہاں مسلسل اسلام کا فروغ ہوتا رہا۔ اِس وقت تركي كي آبادي میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 99 فی صد ہے۔
ترکی میں اسلام اور مسلمانوں کا استحکام بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ یہاں ایک طاقتور مسلم سلطنت قائم ہوگئی۔ اس کو عثمانی خلافت (Ottoman Empire)کہاجاتا ہے۔ یہ سلطنت 1299 ء میں قائم ہوئی، اور 1924 ء تک باقی رہی۔ عثمانی سلطنت کے عروج کے زمانے میں اس میں ایشیا اور یورپ کے 12 ملک شامل تھے۔ استانبول کو عثمانی حکمراں سلطان محمد الفاتح (وفات1481 ء) نے 1453 ء ميں فتح کیا۔ اُس وقت اس کا نام قسطنطنیہ تھا۔ بعد کو وہ استانبول کے نام سے عثمانی سلطنت کی راجدھانی بن گیا۔
قدیم زمانہ مبنی بر شمشیر سیاست کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں کسی مشن کو مضبوطی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے مستحکم سیاسی بنیاد (political base) درکار ہوتی تھی۔ عثمانی سلطنت نے اسلامی مشن کو یہی مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کی۔ اِس قسم کی مضبوط سیاسی بنیاد کے بغیر قديم زمانے میں اسلام کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ عثمانی ترکوں نے ایک مدت تک، نہ صرف ترکی، بلکہ مسلم دنیا کے بڑے حصے کو سیاسی دبدبه كي يهي بنیاد فراہم کی۔ اِس اعتبار سے عثمانی سلطنت کا کارنامہ ناقابلِ انکار ہے۔لیکن بیسویں صدی میں عالمی حالات مکمل طورپر بدل چکے تھے۔ اب نئے حالات کے مطابق، سیاست کا رول ثانوی (secondary) بن چکا تھا۔ اب ترکی میں اسلام کے فروغ کے لیے ضرورت تھی کہ وہاں غیر سیاسی دائرے میں ایک مضبوط تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
قدیم زمانہ سیاسی اقتدار کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ اس کے بجائے اداروں (institutions) کا زمانہ ہے، یعنی غیر سیاسی شعبوں میں پُرامن تنظیمیں بنانا، مثلاً تعلیم، صحافت، سماجی ترقی کے ادارے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا استعمال، وغیرہ۔ نئے دور کے مواقع کو استعمال کرنے میں زوال یافتہ سیاسی نظام ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اتاترک کا کمال ازم اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اِسي نوعیت کا ایک آپریشن تھا۔ اِس کے نتیجے میں ترکی میں کھلے پن (openness) کا نیا دور آیا، اور یہ ممکن ہوگیا کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے حق میں غیر سیاسی دائرے میں ایک تعمیری بنیاد قائم کی جائے۔
مابعد اتاترک دور (post-Ataturk period) میں ترکی میں کچھ ایسے رہنما اٹھے، جو نئے دور کے مواقع کو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں منظم طورپر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ جيسا كه عرض كيا گيا، اِن نئے تُرک رہنماؤں میں بدیع الزماں سعیدنورسی خاص اهميت ركھتےهيں ۔ نئے ترکی کی تعمیر میں ان کا نمایاں حصہ ہے۔
بدیع الزماں سعید نورسی1876 ءمیں پیدا ہوئے، اور 1960 ءمیں اُن کا انتقال ہوا۔ انھوں نے جزئی طورپر سیاست میں حصہ لیا، لیکن جلد ہی اُن پر سیاست کی برائی واضح ہوگئی اور انھوں نے یہ کہہ کر سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی أعوذ باللہ من الشیطان ومن السیاسۃ۔ یعنی میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ، شیطان سے اور سیاست سے۔
سعید نورسی کی تحریک کو ’نورتحریک‘ کہاجاتا ہے۔ اُن کا طریقہ پرامن دائرے میں غیرسیاسی انداز میں کام کرنا تھا۔ اِس طرح کام کرکے وہ مسلمانوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ وہ دورِجدید میں مسلمانوں کے احیائے نو کے علم بردار تھے۔ سعید نورسی کے ایک سیرت نگار کے الفاظ میں ، ان کا مشن اسلامی تہذیب کی تعمیر نو (rebuilding of Islamic civilization) تھا۔ سعیدنورسی کے پیروؤں کی تعداد کئی ملین تك پہنچتی ہے۔
Said Nursi (1876-1960), the most influential Islamic scholar in modern Turkish history, is the inspiration behind the hugely popular Nur movement. Guided by his masterwork, the Risale-i Nur, Nursi's followers shun political ambition, focusing instead on a revival of personal faith through study, self-reform, and service of others. Nursi lived through the upheavals that led to the establishment of a vigorously secular Turkish republic in place of the dismembered Ottoman caliphate. Nursi was educated through the medrese system in the traditional Islamic disciplines but also mastered modern Western philosophical and scientific ideas in order to address the challenges Muslims face now. In some ways the Risale-i Nur functions as an interpretation of the Qur’an for the contemporary world, millions within and outside Turkey have found solace in the interpretation.
(www.oxcis.ac.uk/publication/said-nursi)
ترکی کا نیا رول
Turkey: Second Phase of Sahaba Mission
جيسا كه عرض كيا گيا، مئی 2012 کے پہلے ہفتے میں ترکی میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس کی دعوت پر میں نے ترکی کا سفر کیا۔ ایک ہفتہ قیام کے دوران میں نے ترکی کے مختلف تاریخی مقامات دیکھے۔ اُن میں سے ایک حضرت ابو ایوب الانصاری کا مقبرہ ہے، جو استانبول میں واقع ہے۔ اِس مقبرے کے ساتھ اب ایک بڑا کامپلکس بنا دیاگیا ہے۔
3 مئی 2012 کو میں نے یہ مقبرہ دیکھا۔ جس وقت میں مقبرے کے سامنے کھڑا ہوا تھا، میرا دماغ اس کی تاریخ کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں نے سوچا کہ ابو ایوب انصاری ایک صحابیٔ رسول تھے۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے مشن میں شریک ہوئے۔ ایک دعوتی سفر کے دوران 52 ہجری میں وہ ترکی آئے۔ اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 80 سال ہوچکی تھی۔ یہاں پہنچ کر شدید بیماری کی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی تدفین قسطنطنیہ میں ہوئی۔ قسطنطنیہ کا موجودہ نام استانبول ہے۔ ترکی میں متعدد صحابہ کی قبریں ہیں ۔ ابو ایوب انصاری کی قبر اُن میں سے ایک ہے۔
میں نے سوچا کہ ابو ایوب انصاری اور دوسرے صحابہ عرب میں پیداہوئے۔ اس کے بعد وہ پرمشقت سفر کرکے ترکی پہنچے، اور پھر وہ یہاں کی سرزمین میں مدفون ہوگئے۔ یہ سوچتے ہوئے مجھے تاریخ کا وہ واقعہ یاد آیا، جوصلح حدیبیہ کے بعد پیش آیا تھا۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے اصحاب کو خطاب کیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا:أَيُّهَا النَّاسُ، إنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَكَافَّة(سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ606)۔ یعنی اے لوگو، اللہ نے مجھے ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے اِس کو تمام انسانوں تک پہنچا دو۔ اس کے بعد آپ نے اپنے چند اصحاب کو وقت کے بادشاہوں کے پاس دعوتی خطوط کے ساتھ روانہ کیا۔پھر حجۃ الوداع کے موقع پر یوم النحرکے دن عمومی طور پر یہ اعلان کیا کہ میں نے تم لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچا دیا،تو جو لوگ یہاں موجود ہیں ، وہ ان کو پہنچائیں ، جن کو یہ پیغام نہیں ملا ہے(فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ ) مسند احمد، حدیث نمبر20037 ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس ہدایت کے مطابق، آپ کے اصحاب، عرب کے باہر نکلے اور اطراف کے ملکوں میں وہ آپ کا پیغام پہنچانے لگے۔ مگر یہ جدید کمیوني کیشن سے پہلے کا زمانہ تھا۔ چنانچہ ایک حد پر پہنچ کر اُن کا دعوتی قافلہ رک گیا، اور تمام انسانوں تک پیغام رسانی کا پیغمبرانہ مشن، اُس وقت فطری طورپر، اپنی تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
اِس معاملے کی ایک علامتی مثال عقبہ بن نافع التابعی (وفات63 هجري) کی ہے۔ عقبہ بن نافع ایک گروپ کے ساتھ چلتے ہوئے افریقہ کے مغربی ساحل تک پہنچ گئے۔ یہاں ان کے سامنے اٹلانٹک سمندر حائل ہوگیا۔ یہاں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر انھوں نے یہ تاریخی جملہ کہا : يَا رَبِّ لَوْلَا هَذَا الْبَحْرُ لَمَضَيْتُ فِي الْبِلَادِ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِكَ(الکامل فی التاریخ، جلد3، صفحہ206)۔ یعنی اے رب، اگر یہ سمندر نہ ہوتا، تو میں ضرور ملکوں میں آگےجاتا ،تیرے راستے میں مجاہد بن کر۔ایک روایت میں یہ اضافہ ہےحتى لا يعبد أحد من دونك (نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار، محمود مقديش، جلد1، صفحہ 216)۔ یعنی یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔
استانبول میں جب میں صحابیٔ رسول کی قبر کے سامنے کھڑا تھا، اُس وقت یہ پوری تاریخ میرے ذہن میں تازہ ہوگئی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے پیغمبر اسلام کے اصحاب جو اپنے دعوتی مشن کے تحت ترکی پہنچے اور یہاں کی زمین میں دفن ہوگئے، وہ خاموش زبان میں آواز دے رہے ہیں ، اور کہہ رہے ہیں — اے امتِ محمد، تم کہاں ہو۔ اٹھو اور پیغمبر اسلام کے مشن کی تکمیل کرو، قبل از کمیوني کیشن دور (pre-communication age) میں ہم نے پیغمبر کے مشن کو یہاں تک پہنچایا تھا۔ اب تم بعد از کمیوني کیشن دور (post-communication age) میں ہو۔ تم اٹھو اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے زمین کے آخری حصے تک پیغمبر کے دعوتی مشن کو پہنچا دو۔
پيغمبر كا مشن
پیغمبر کا مشن کیا ہے، اس کو قرآن میں انذار وتبشیر(البقرۃ، 2:213)کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی خدا کے تخلیقی منصوبے(creation plan of God) سے دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں کو باخبر کرنا، تاکہ آخرت میں جب تمام لوگ حشر کے میدان میں حاضر ہوں تو خدا کے سامنے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم کو اِس تخلیقی منصوبے کی خبر نہ تھی۔ پیغمبرانہ مشن کی اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ) 4:165)یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور آگاه كرنے والابناکر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت باقی نہ رہے:
They were messengers, bearing good news and giving warning, so that mankind would have no excuse before God.
جغرافی اعتبار سے ترکی کا جائے وقوع بہت عجیب ہے۔ اس کا نصف حصہ ایشیا میں ہے اور بقیہ نصف حصہ یورپ میں ۔ اِس طرح ترکی گویا کہ مشرق اور مغرب کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے:
Turkey is like a geographical bridge between East and West.
ترکی کی یہ جغرافی حیثیت بظاہر خدا کے تخلیقی منصوبہ کا ایک خاموش اعلان ہے۔ ترکی کے بارے میں خدا کو یہ منظور هے کہ وہ حکمتِ نبوت (prophetic wisdom) کو مشرق سے لے اور اس کو مغربی اقوام تک پہنچائے۔
قدیم زمانے میں ترکی دو بڑے ایمپائر کی سیٹ رہا ہے — بازنطيني ایمپائر(Byzantine Empire) اور عثمانی ایمپائر (Ottoman Empire)۔اِس خصوصی تاریخ کی بنا پر ترکی میں بہت زیادہ تاریخی یادگاریں ہیں ،جو سیاحوں کے لیے خصوصی کشش کا ذریعہ ہیں ۔ موجودہ زمانے میں سفر اور کمیوني کیشن کی بنا پر ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا ہے جس کو عالمی سیاحت (international tourism) کہاجاتاہے۔ترکی اِس اعتبار سے چند ٹاپ کے سیاحتی ملکوں میں شمار ہوتاہے۔ یہاں مختلف ملکوں کے سیاح بڑی تعداد میں مسلسل آتے ہیں ۔ سال 2011 میں ترکی میں دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے سیاحوں کی تعداد 31 ملین سے زیادہ تھی۔ ترکی میں آنے والے یہ لوگ سیکولر اصطلاح کے مطابق، سیاح (tourist)ہیں ، لیکن اسلامی اصطلاح کے مطابق، وہ مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اُن میں سے ہر عورت اور هر مرد اِس کا ضرورت مند ہے کہ اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں پہنچایا جائے۔
اِن سیاحوں کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر آکر دستک دے رہا ہے۔ وہ ترکی کے مسلمانوں سے کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس پیغمبر کا لایا ہوا خدائی کلام (Word of God) ہے۔ ہم تمھارے دروازے پر موجود ہیں ۔ لاؤ وہ کلام ہم کو عطا کرو
We are here. Give us the Word of God you have received from the Prophet of Islam.
اکیسویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والی یہ صورتِ حال، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، زیادہ بڑے پیمانے پر عین وہی ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں نسبتاً محدود پیمانے پر وجود میں آئی تھی۔ اِس صورت ِ حال کی حیثیت ایک دعوتی امکان (dawah opportunity) کی ہے۔ امتِ مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ اِس امکان کو دعوت الی اللہ کے لیے اُسی طرح استعمال کرے، جس طرح ساتویں صدی میں پیغمبر اور آپ کے اصحاب نے اس کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ اُس وقت مکہ مشرکانہ کلچر کا مرکز بناہوا تھا، حتیٰ کہ خود مقدس کعبہ میں بھی کئی سو بت رکھے ہوئے تھے۔ اِس مشرکانہ کلچر کی بنا پر ایسا تھا کہ عرب کے مختلف حصوں سے لوگ برابر مکہ آتے تھے۔ آج کل کی اصطلاح میں یہ کہنا صحیح ہوگاکہ مکہ کے مشرکانہ مرکز ہونے کی بنا پر عرب میں ایک قسم کی مذہبی سیاحت (religious tourism) وجود میں آگئی تھی۔ مکہ اِن ’’مذہبی سیاحوں ‘‘ کا مقامِ اجتماع بنا ہوا تھا۔
یہ اجتماعات اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے، مشرکانہ اجتماعات تھے، لیکن اِسی کے ساتھ يه لوگ پیغمبر اسلام کے داعیانہ مشن کے لیے سامعین (audience) کی حیثیت رکھتے تھے۔ قديم مكه ميں پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر روزانہ ان کے اجتماعات میں جاتے اور قرآن سنا کر اُن کو دین ِ حق کا پیغام پہنچاتے۔ اِس لیے اصحابِ رسول کو ’’مقری‘‘ کہاجانے لگا، یعنی قرآن پڑھ کر سنانے والا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ مکہ میں رہتے ہوئے تمام عرب قبائل تک پیغمبر اسلام کا لایا ہوا خدائی پیغام پہنچ جائے۔
یہ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے کی بات ہے ۔ اُس وقت صرف یہ ممکن تھاکہ خدا کے کلام (قرآن( کو اپنے حافظے میں محفوظ کرلیا جائے اور اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جائے۔ مگر اب دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آچکا ہے، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن یا اس کا ترجمہ کتابی شکل میں تیار کرلیا جائے، اور اس کو مطبوعه صورت ميں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ گویا ساتویں صدی کے داعی اگر قرآن کے مقری بن کر دعوت کا کام انجام دے رہے تھے تو اکیسویں صدي کے داعی کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر (distributor) بن کر اِسی پیغمبرانہ مشن کو جاری رکھنا ہے۔ کسی گروہ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اس کو دنیا میں نظریاتی قائد کا درجہ حاصل ہو۔ دعوت الی اللہ كا كام ہی وه کام ہے، جو امتِ مسلمہ کو موجودہ زمانے میں نظریاتی قیادت کا درجہ عطا کرسکتاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوت الی اللہ کا مشن ہے۔ اِس مشن کے مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی حدیث میں اِن الفاظ میں آئی ہے لا یبقیٰ علی ظھر الأرض بیتُ مدر ولاوبر إلَّا أدخلہ اللہ کلمۃَ الإسلام (مسنداحمد، حديث نمبر24215) ۔یعنی زمین کے اوپر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر یہ کہ اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
اِس حدیثِ رسول میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کا پیغام ساری دنیا میں بسنے والے ہر عورت اور مرد تک پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادخالِ کلمہ کا یہ واقعہ اسباب کے بغیر کسی پراسرار انداز میں پیش آئے گا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں ہر واقعہ اسباب وعلل کے تحت پیش آتا ہے۔ یہی صورت ادخالِ کلمہ کے مذکورہ معاملے میں پیش آئے گی۔ ادخالِ کلمہ کا یہ معاملہ بلا شبہ ایک معلوم مُدخِل (داخل کرنے والے) کے ذریعے ہوگا، نہ کہ کسی پُراسرار طریقے کے ذریعے۔
اِس حدیثِ رسول میں دراصل پیشین گوئی کے انداز میں اُس دور کا ذکر ہے جس کو کمیوني کیشن کا دور (age of communication) کہاجاتاہے۔اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بعد کی تاریخ میں اہلِ ایمان کو عالمی کمیوني کیشن کے ذرائع حاصل ہوجائیں گے، اور اِس طرح اُن کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اِن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے پیغام کو عالمی سطح پر پہنچا سکیں ، جب کہ اِس سے پہلے صرف مقامی سطح پر پیغام رسانی ممکن ہوتی تھی— يهي وه چيز هے جس كو هم نے دعوه ايمپائر كا نام ديا هے۔
اخوانِ رسول
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو کمیوني کیشن کے دور میں ادخالِ کلمہ کا یہ رول ادا کریں گے۔ اِس کا جواب ایک حدیث رسول میں ملتاہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں وددتُ أنا قد رأینا إخواننا۔ قالواأولسنا إخوانك یا رسول اللہ، قال أنتم أصحابي، وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، حديث نمبر249) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان (بھائیوں ) کو دیکھیں ۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
دونوں حدیثوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں کا مشن زمانے كے فرق كے ساتھ، ایک ہی ہے، یعنی دعوت الی اللہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اصحابِ رسول نے دعوت کے اس کام کو قبل کمیوني کیشن دور (pre-communication age) میں انجام دیا، اور اخوانِ رسول وہ لوگ ہوں گے جو اِسی دعوتی مشن کو بعد کمیوني كیشن دور (post-communication age) میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کو قرآن میں خیرِ امت (آل عمران، 3:110)کہاگیا ہے۔ خیر امت کے بارے میں حضرت عمر فاروق کا ایک قول اِن الفاظ میں نقل ہوا ہے يا أيها الناس، من سره أن يكون من تلك الأمة، فليؤد شرط الله منها (تفسیر الطبري، 7/102)۔ یعنی اے لوگو،جو شخص اس امت میں سے ہونا پسند کرتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اللہ كي شرط کو پورا کرے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں من فعل فعلهم، كان مثلهم (تفسیر القرطبي، 4/170)۔ یعنی جس نے ان لوگوں کی طرح عمل کیا، وہ ان کے مثل ہے۔دونوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خیرِ امت یا اصحابِ رسول کوئی پراسرار ٹائٹل نہیں ۔ یہ دراصل ایک رول (role) کا عنوان ہے، اور وہ رول دعوتی رول ہے۔ پچھلے زمانے میں دعوتی رول ادا کرنے کے نتیجے میں اصحابِ رسول کو اصحابِ رسول ہونے کا درجہ ملا۔ اِسی طرح بعد کے زمانے میں جو لوگ مطلوب دعوتی رول اداکریں گے، اُن کو اخوانِ رسول کا درجہ ملے گا۔ اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں تاریخی رول ہیں ، نہ کہ پراسرار ٹائٹل۔
ترکی کی جو امتیازی خصوصیات ہیں ، اُن کی بنا پر یہ كها جاسکتاہے کہ اہلِ ترکی كے ليے امكاني طورپر وه مواقع حاصل هيں ، جن كو استعمال كركے وه اسلام كي تاريخ ميں اس رول كو ادا كريں جس كو حديث ميں اخوانِ رسول كا رول كهاگيا هے۔ اِس معاملے میں دوسرے مقامات کے مسلمان بھی اُن کا ساتھ دے سکتے ہیں ، مگر قانونِ فطرت کے مطابق، غالباً ایک گروہ کے لیے قائدانہ رول (leading role) مقدر ہے اور دوسرے گروہ کے لیے تائیدی رول (supporting role) ۔
ترکی کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ ترکی کی سرزمین میں بہت سے صحابہ کی قبریں ہیں ۔ یہ اصحابِ رسول گویا خاموش زبان میں اہلِ ترکی کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں اصحابِ رسول کا دعوتی قافلہ یہاں آکر رک گیا تھا۔ اب تم اکیسویں صدی میں ہو۔ اب تم کو نئے حالات اور نئے وسائل کے ذریعے اِس دعوتی سفرکو آگے بڑھانا ہے، یہاں تک کہ حدیثِ رسول کی پیشین گوئی کے مطابق، دین ِ حق کا کلمہ هر چھوٹے اور بڑے گھر ميں داخل ہوجائے۔ یہی اخوانِ رسول کا رول ہے۔ مستقبل انتظار کر رہا ہے کہ بڑھنے والے آگے بڑھیں اور فرشتوں کے ریکارڈ میں اخوانِ رسول کی حیثیت سے اپنا اندراج کرائیں ۔
ترکی میں مدفون صحابہ خاموش زبان میں آواز دے رہے ہیں کہ اے اہلِ ترکی، تم دوبارہ اٹھو اور پیغمبر کے دعوتی مشن کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچا دو۔ پھر وہ وقت آنے والا ہے جب کہ حشر کے میدان میں دوبارہ آواز دینے والا فرشتہ آواز دے کہ وہ لوگ آئیں جن کی بابت پیغمبر نے پیشگی خبر دی تھی، اور پھر سارے پیدا ہونے والے لوگ رشک کی نظروں سے دیکھیں گے کہ کتنے خوش قسمت تھے وہ لوگ جنھوں نے دعوتی کام کیا جس کے نتیجے میں آج اُن کو اخوانِ رسول کا درجہ مل رہا ہے۔
اجتهادي رول
جدیدترکی کے لیے جو عالمی دعوتی رول مقدر ہے، اس کے لیے آسمان سے کوئی آواز نہیں آئے گی۔ اِس قسم کا رول اجتہادی ہوتاہے۔ اِس لیے وہ ہمیشہ دریافت کے ذریعے معلوم ہوتا ہے۔ دورِ اول میں یثرب (مدینہ) کے لیے ایک عظیم دعوتی رول مقدر تھا، مگر اہلِ مدینہ کو اِس کی خبر نہ تھی۔ پیغمبر اسلام کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی گئی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا أمرتُ بقریۃ تأکل القری، یقولون یثرب، وهي المدینۃ (صحیح البخاری، حديث نمبر 1748)۔ يعني مجھے ايك بستي (ميں جانے) كا حكم ديا گيا هے جو بستيوں كو كھا جائے گي، لوگ اس كو يثرب كهتے هيں ، اور وه مدينه هے۔ اِس طرح ترکی کا عالمی دعوتی رول گہرے غور وفکر کے ذریعے دریافت کرنا ہوگا۔ جیساکہ عرض کیاگیا، قرائن (circumstances) واضح طورپر اس کا اشارہ کررہے ہیں ۔
یہ قیاس ترکی کی چند متعین خصوصیات کی بنا پر قائم ہوتاہے۔ یہ خصوصیات بظاهرکسی دوسرے مسلم ملک میں موجود نہیں ۔ اِن خصوصیات میں سے چند یہ ہیں
1۔ ترکی کا جغرافیہ ایک انوکھا جغرافیہ ہے۔ ترکی مسلم دنیا میں وہ واحد ملک ہے، جس کو اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے مشرق اور مغرب کے درمیان سنگم (junction) کی حیثیت حاصل ہے۔
2۔ ترکی مسلم دنیا کا واحد ملک ہے، جو مختلف اسباب کی بنا پر سیاحت کے نقشہ (tourist map) میں ٹاپ کا درجہ رکھتاہے۔ اِس طرح ترکی وہ واحد مسلم ملک بن گیا ہے، جہاں ساری دنیا کے مدعو خود سفر کرکے داعی کے پاس پہنچ رہے ہیں ۔
3۔ قدیم زمانے میں دعوت کا کام سیاسی انفراسٹرکچر(political infrastructure) کی بنیاد پر ہوا تھا موجوده زمانے میں نئی تبدیلیوں کی بناپر دعوتی کام کے لیے سوشل انفراسٹرکچر (social infrastructure) درکار ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم دنیا میں اِس وقت صرف ترکی وہ ملک ہے، جہاں یہ مطلوب سوشل انفراسٹرکچر پایا جاتاہے۔ ميں نے اپنے سفر كے دوران اِس كو سوشيو ايجوكيشنل انفراسٹركچر (socio-educational infrastructure) كا نام ديا تھا۔
4۔ ترکی کے اِس جديد ڈیولپمنٹ میں مصطفی کمال اتاترک کا تائيدي رول ہے۔ کمال اتاترک فطری طورپر ایک جرأت مند اور باعزم آدمی تھے۔ یہ کمال اتاترک ہی تھے، جو ترکی میں ریڈیکل ریفارم (radical reform)لے آئے۔ مثلا رومن رسم الخط کو ترکی زبان کا رسم الخط بنانا، مغربی طرزِ تعلیم کو ترکی میں رائج کرنا، وغیرہ۔
کمال اتاترک جو تبدیلیاں لائے، اُن کو مخالفِ مذهب(anti-religion)کہنا درست نہ ہوگا۔ زیادہ صحیح طورپر اتاترک کا مشن مخالفِ جمود (anti-stagnation)مشن تھا۔ ترکی کے سفر میں وہاں کي مشہور نيوز ايجنسي (Anadolia Ajansi)کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ جدید ترکی کا کیس اسلام کو سیکولر بنانا نہیں تھا، بلکہ اپنے نتيجے كے اعتبار سے، وه سیکولرزم کو اسلامی بنانا تھا
The case of modern Turkey was not one of secularization of Islam, but in terms of result, it was Islamization of secularism.
ترکي میں کمال اتاترک کی ریڈیکل کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سی مثبت چیزیں پیدا ہوئیں ۔ مثلاً طویل جمود کا ٹوٹنا، لوگوں میں اوپن نیس (openness)کا آنا، جدید تعلیم کا فروغ، مغربی کلچر سے ڈائنا مزم (dynamism) كا آنا،مثبت سیکولر قدروں (positive secular values) کو فروغ، جدید وسائل کو کسی تحفظ کے بغیر رواج دینا، ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی بنا پر کمپیوٹر کی تیز رفتار ترقی کا ممکن ہوجانا، عالمی انٹریکشن (global interaction) کا عمومی پھیلاؤ، حقیقت پسندانہ طرزِ فکر (realistic thinking) کا رواج، علیحدگی پسندی (separatism) کا خاتمہ، ہر شعبے میں جدید کاری (modernization)، وغیرہ۔
مصطفیٰ کمال اتاترک بظاهر کوئی مذہبی انسان نہیں تھے، وہ صرف ایک سیکولر انسان تھے۔ مگر ترکی میں جو انقلابی تبدیلیاں ان کے ذریعے وجود میں آئیں ، وہ باعتبار نتیجہ ایسی تھیں جن سے اسلامی دعوت کے نئے مواقع کھل گئے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ۔
کشتیٔ نوح
ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں ، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اول کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جيسا كه معلوم هے، تقریباً 5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق) میسوپوٹامیا) سے چلی، اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں اور قرآن میں نيز مختلف تاریخی کتابوں میں بشكلِ كهاني موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاں ہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ گلیشير پگھلنے لگے۔ چنانچہ ارارات پہاڑ کے گلیشير بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔
بیسویں صدی کے آخر میں کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوں نے کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ طوفانِ نوح آیا تھا:
A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand meters up a mountain in Turkey. The team say they recoverd wooden specimes from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں فَأَنجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِّلْعَالَمِينَ (29:15)۔یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا، اور ہم نے اس کو سارے عالم کے لیے ایک نشانی بنادیا
Then we saved him and those who were with him in the Ark, and made it a sign for mankind.
حضرت نوح کی کشتی تاریخ انبیا کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں آئے اور اُن کے لیے دین ِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں ۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا(ھود،11:44)یعنی ٹھہرنا ایک ایسے ملک میں ہو جو اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عالمی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو، کشتی نوح کے ظہور کا واقعہ ایک طے شدہ وقت پر پیش آئے، جب کشتی نوح ظاہر ہو تو عالمی کمیونکیشن کا دور آچکا ہو، یہ واقعہ جب ظہور میں آئے تو اُس وقت گلوبل سیاحت (global tourism) کا دور بھی آچکا ہو، پرنٹنگ پریس کا زمانہ آچکا ہو، تاکہ خدا کی کتاب (قرآن) کے مطبوعہ نسخے لوگوں كو دينے كے ليے تیار کیے جاسکیں ، دنیا کھلے پن (openness) کے دور ميں پہنچ چکی ہو، اِسي کے ساتھ دنیا سے کچھ چیزوں کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ مثلاً مذہبی جبر، کٹر پن (rigidity)، تنگ نظری (narrow-mindedness) ، وغیرہ۔
ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشير کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے گا، جب کہ پوری کشتی ظاهر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبه یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشہ سیاحت (tourist map) میں نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں ٹوٹ پڑیں گے۔ اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام كو پہنچادیں ۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب کہ ترکی میں آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا، جس میں پیشگی طور پر کشتی نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔
كشتئ نوح اور تركي
جيسا كه عرض كيا گيا، حضرت نوح كي كشتي قديم عراق (ميسوپوٹاميا) كے علاقه سے روانه هوئي۔ وه اپنے چاروں طرف مختلف مقامات كي طرف جاسكتي تھي، ليكن اس نے ايك خاص رخ پر اپنا سفر كيا۔ پھر وه چلتي هوئي تركي كي مشرقي سرحد پر واقع ايك پهاڑ كے اوپر ٹھهر گئي۔ يه سخت سردي كا علاقه تھا۔ چنانچه كشتي بھاري اسنوفال (heavy snow fall) كے نتيجے ميں برف كے بهت بڑے تودے كے نيچے دب گئي۔ اس طرح لمبي مدت تك فاسِلائزيشن (fossilization) كے عمل كے نتيجے ميں وه پتھر جيسي هوگئي۔ اس طرح كشتي محفوظ رهي، اور اكيسويں صدي ميں برف پگھلنے كے نتيجے ميں وه ظاهر هو كر لوگوں كے سامنے آگئي۔
ايسا كيوں هوا۔ حضرت نوح كي كشتي كے لئے مختلف آپشن (option) موجود تھے، ليكن اس نے صرف ايك هي آپشن ليا اور وه تركي كے پهاڑ كا آپشن تھا۔ ايسا بلا شبه خدا كي هدايت پر هوا۔ اِس معاملے كو اتفاقي واقعه كے طورپر نهيں لے سكتے۔ همارے لئے لازم هے كه هم اس كو خالق كے منصوبے كے تحت پيش آنے والا واقعه سمجھيں ۔
اس معاملے پر غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه حضرت نوح كي كشتي كے ذريعه الله تعاليٰ كو جو رول مطلوب هے، اس رول كے لئے زياده موزوں مقام اپني بعض خصوصيات كي بنا پر تركي (Turkey) تھا۔الله تعاليٰ كو يه معلوم تھا كه بعد كے زمانے ميں تركي ايك مسلم ملك بنے گا۔ الله تعاليٰ كو معلوم تھا كه تركي ايسا ملك هے جو مشرقي دنيا اور مغربي دنيا كے درميان جنكشن (junction) كي حيثيت ركھتا هے۔ الله تعاليٰ كو معلوم تھا كه مختلف اسباب سے تركي ميں ساري دنيا كے سياح كثرت سے آئيں گے۔ اسي كے ساتھ الله تعاليٰ كو يه بھي معلوم تھا كه مسلم ملكوں كي لمبي فهرست ميں تركي وه واحد ملك هوگا جو مذهبي كٹرپن (religious fanaticism) سے خالي هوگا، اور اس بنا پر وه سب سے زياده موزوں ملك هوگا، جهاں سے كشتي نوح كا مطلوب رول ادا كيا جاسكے۔
يه مطلوب رول كيا هے۔ وه بلا شبه دعوت هے، يعني الله كے تخليقي منصوبه سے تمام مرد اور عورت باخبر هوجائيں ۔ اِس مقصد كے لئے كشتي نوح ايك تاريخي شهادت (historical evidence) كي حيثيت ركھتي هے۔ وه اُس خدائي منصوبه كي ايك تاريخي يادگار هے جس كا ظهور حضرت نوح كے ذريعه هوا۔ كشتي نوح براهِ راست طورپر حضرت نوح كي تاريخ كي مادي شهادت هے اور بالواسطه طورپر تمام نبيوں كي تاريخ كي مادي شهادت۔
الله تعاليٰ كو مطلوب تھاكه قيامت سے پهلے تمام انسانوں كے سامنے اس بات كا محسوس اعلان هوجائے كه انسان كے بارے ميں الله كا منصوبۂ تخليق كيا تھا۔ كشتي نوح اس خدائي منصوبه تخليق (creation plan of God) كي ايك ناقابلِ انكار شهادت هے، اور مختلف اسباب سے اِس شهادت كي ادائيگي كے لئے سب سے زياده موزوں مقام تركي تھا۔
ضرورت هےكه تمام دنيا كے مسلمان عموماً اور تركي كے مسلمان خصوصاً اس خدائي منصوبے كو سمجھيں اور اس منصوبے كي تكميل كے لئے وه سارا اهتمام كريں ، جو اس كے لئے ضروري هو۔ مثال كے طورپر وه كشتي نوح كے مقام كو ايك اعليٰ درجه كے ٹورسٹ اسپاٹ (Tourist Spot) كے طورپر ڈولپ (develop) كريں ۔ وهاں آمد ورفت كي تمام سهولتيں مهيا كريں ۔ پھر وهاں اعليٰ معيار پر يه انتظام كريں كه وهاں تربيت يافته افراد موجود هوں ، لائبريري موجود هو۔ وهاں قرآن كا ترجمه مختلف زبانوں ميں برائے ڈسٹري بيوشن يا برائے فروخت موجود هو۔ وهاں اِس بات كا اعليٰ انتظام كيا جائے كه كشتي نوح كے حوالے سے پيغمبرانه مشن لوگوں كے سامنے اطمينان بخش صورت ميں آسكے۔ گويا كه كشتي نوح كے ظهور كا يه مقام صرف ايك كشتي كے ظهور كا مقام نه رهے، بلكه وه پورے معنوں ميں جديد ترين معيار كا ايك دعوتي سنٹر بن جائے۔
خدا كے تخليقي منصوبے كے مطابق، هماري زمين كے لئے دو سيلاب مقدر تھے— ايك، حضرت نوح كے زمانے كا سيلاب اور دوسرا، وه جو تاريخ بشري كے خاتمے پر پيش آئے گا۔ كشتي نوح پهلے سيلاب كے لئے تاريخي يادگار كي حيثيت ركھتي هے، اور دوسرے سيلاب كے لئے اس كي حيثيت تاريخي ريمائنڈر (historical reminder) كي هے۔ اكيسويں صدي عيسوي كے ربعِ اول ميں كشتي نوح كا ظهور گويا اِس بات كي وارننگ هے كه لوگو، تياري كرو، كيوں كه آخري طوفان كا وقت قريب آگيا هے۔
خوش قسمت هيں وه لوگ جو اِس خدائي منصوبے كو سمجھيں ، اوراس كي تكميل كركے الله كے يهاں اجرِ عظيم كے مستحق بنيں ، حقيقت يه هے كه هزاروں سال تك برف كے تودے ميں دبے رهنے كے بعد كشتي نوح كا ظاهر هونا صورِ اسرافيل سے پهلے كے دور كا سب سے بڑا واقعه هے۔ اِس كے بعد اگلا واقعه صرف صورِ اسرافيل هوگا، جو گويا اِس بات كا آخري اعلان هوگا كه عمل كرنے كا وقت ختم هوچكا اور عمل كا انجام پانے كا دور آگيا۔)تفصيل كے ليے ديكھئے اسي كتاب كا باب حضرت نوح كا پيغمبرانه رول(
تركي كا انتخاب
پهلي عالمي جنگ (1914-1918) دو گروپ كے درميان هوئي تھي— ايك كو اتحادي طاقت (Allied Powers) كهاجاتا تھا، اور دوسرے كو محوري طاقت (Axis Powers) كهاجاتا تھا۔ اُس وقت تركي كے سامنے يه سوال تھا كه وه دونوں گروپ ميں سے كس گروپ كا ساتھ دے۔ اُس وقت مولانا محمد علي جوهر (وفات1931) نے اپنے انگريزي هفته وار كامريڈ (Comrade) ميں ايك طويل مضمون شائع كيا تھا۔ اِس مضمون ميں انھو ں نے تركوں كو يه مشوره ديا تھا كه تركوں كا انتخاب (choice)’محوري گروپ‘ هونا چاهيے۔ آخر كار تركي نےپهلي عالمي جنگ ميں اپنے داخلي حالات كے تحت محوري گروپ كا ساتھ ديا، ليكن اِس جنگ ميں محوري گروپ كو شكست هوئي، جس كي قيادت اُس وقت جرمني كررها تھا۔ اِس كے نتيجے ميں تركي كو شديد سياسي نقصان سے دوچار هونا پڑا۔
اب اكيسويں صدي ميں وه وقت آگيا هے كه تركي كو ايك اور انتخاب (choice) كا مشوره ديا جائے۔ يه انتخاب دعوت الي الله كا انتخاب هے۔ يه انتخاب كسي ايك گروپ كي حمايت اور كسي دوسرے گروپ كي مخالفت كا انتخاب نهيں هے، وه ساري انسانيت كو اپنا نشانه بنانے كا كام هے۔ دعوت الي الله كا كام ساري انسانيت كو اپنا انتخاب بنانا هے، نه كه كسي ايك محدود گروه كو۔
مزيد يه كه دعوت الي الله كا انتخاب ايك غير سياسي مشن كا انتخاب هے۔ اِس انتخاب ميں نه شكست كا سوال هے، اور نه ناكامي كا سوال۔ يه انتخاب كسي گروه كي عدوات پر مبني نهيں هے، بلكه وه پوري انسانيت كي خير خواهي پر مبني هے۔ اس كے آغاز ميں بھي كاميابي هے، اور اس كے انجام ميں بھي كاميابي۔
مدعو داعی کے دروازے پر
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے عرب ممالک کا سفر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عرب ملکوں میں مجھے ایک انوکھا ظاہرہ دکھائی دیا۔ اور وہ ہے سیاحوں کی کثرت سے آمد۔عرب ملکوں میں کثرت سے تاریخی عمارتیں ہیں ۔ اس کے علاوہ اکثر شہروں میں شاندار مسجدیں بنائی گئی ہیں ۔ ان عمارتوں کو دیکھنے کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں بیرونی سیاح (tourists) وہاں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ عرب ملکوں کے انتظامی اور اقتصادی دفاترمیں زیادہ تربیرونی لوگ کام کرتے ہیں ۔ اس طرح عرب ممالک میں بیرونی ملکوں کے لوگ کثرت سے آباد ہیں ۔ یہ لوگ روزانہ ہوائی جہازوں سے آتے ہیں ۔کوئی بھی شخص ان کو ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ سن کر میں نے کہا کہ دعوت الی اللہ کے ذہن سے دیکھیے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر پہنچ رہا ہے۔ اور خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس اللہ کی جو کتاب ہے، اس کو ہمیں پڑھنے کے لیے دو۔
لیکن مسلمانوں میں دعوت کا ذہن موجود نہیں ۔ اس بنا پر ان کے اندر یہ شوق نہیں کہ وه ان غیر مسلم لوگوں کوان کی قابلِ فہم زبان میں قرآن کےترجمے دیں ، وہ ان کو اسلام کا پرامن پیغام پہنچائیں ۔ وہ ان کے اوپر اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں ، جو امتِ مسلمہ کی حیثیت سے اللہ نے ان کے اوپر عائد کی ہے، اور وه هے شہادت علی الناس (البقرة، 2:143)كا فريضه، یعنی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک مؤثر انداز میں پہنچانا، اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے لوگوں کو آگاہ کرنا، لوگوں کو بتانا کہ آخرت میں وہ اللہ کے سامنے حاضر کیے جائیں گے، اور وہاں ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پيغمبر اسلام کا مشن، دعوت کا مشن تھا۔ قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ امت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں دعوت الی اللہ کا شعور موجود نہیں ۔ آج کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا شعور زندہ کیا جائے۔
گلوبل دعوت
سیاحت (tourism) دورِ جدید کا ظاہرہ ہے۔ اس کی شروعات 17 ویں صدی عیسوی میں یورپ سے ہوئی۔موجودہ دور میں سیاحت ایک مقبول عالمی تفریحی سرگرمی بن چکی ہے۔ ورلڈ ٹورزم آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ ایک سے دوسرے مُلک سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد1997ء میں 631 ملین تھی، جو 2020ء تک 1.6 بلین تک بڑھ جائے گی۔ ان سياحوں میں بڑی تعداد غيرمسلم سياحوں كي ہوتي هے، جو مسلم ممالک کا سفر کرتے ہیں ۔ یہ ایک اعتبار سے مدعو کا داعی کے دروازے پر آنا ہے۔ یعنی سیاحت (tourism) کے ظاہرے نے گویا مدعو کو داعی کے دروازے تک پہنچا دیا ہے۔ یہ بہت بڑا دعوتی موقع ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کی رہنمائی میں دنیا کے مختلف مقامات پر سیاحت کو بطور دعوتی موقع اویل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے دو مقامات، ترکی اور اسرائیل کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔
سلطان احمد مسجد (بلو مسجد) استنبول، ترکی میں واقع ایک مسجد ہے۔ اس کی تعمیر عثمانی سلطان احمد اول (1590-1617) کے دور میں 1609کی کی گئی تھی۔اس تاريخي مسجد ميں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں ۔ ان سیاحوں کے درمیان مسجد كي انتظامیہ مختلف زبانوں ، انگلش، چائنیز، ہندی، رشین، وغیرہ میں تراجم قرآن تقسیم کرتی ہے۔ مثلاً 19 اپریل 2017کو چائنا کی نائب صدر مز لیو یانڈونگ (Liu Yandong) اس تاریخی مسجد کو دیکھنے کے لیے گئیں ۔ اس موقع پر مسجد کے امام صاحب نے ان کو چائنیز ترجمۂ قرآن تحفہ میں پیش کیا۔
بلو مسجد کے علاوہ ترکی کی سلیمانیہ مسجد، اور رستم پاشا مسجد میں بھی سیاحوں کے درمیان تراجم قرآن، اورتعارف اسلام پر مشتمل کتابیں اور لیف لیٹس تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ نیز مختلف ٹورسٹ مقامات اور ٹورسٹ گائڈس کےذریعے ترکی میں دعوت کا کام لوپروفائل میں کیا جارہا ہے۔ مثلا ً Mr Cem Şimşek ترکی کے ایک لائسنس یافتہ ٹورسٹ گائڈ ہیں ۔ وہ استانبول میں گائڈ کا کام کرتے ہیں ، اور پچھلے سات سالوں سے وہ اپنے ٹورسٹوں کے درمیان دعوتی کام بھی کرتے ہیں ۔ وہ اپنے ٹورسٹوں کو اسلام کا تعارف کرواتے ہیں ، اور ان کو ترجمۂ قرآن دیتے ہیں ۔ اندازہ یہ ہے کہ ترکی میں سالانہ دو لاکھ سے زیادہ سیاحوں کے درمیان دعوت کا کام ہوتاہے۔
سیاحوں کی آمد کے اعتبار سے ایک اہم ملک اسرائیل ہے۔ اسرائیل میں معتدل موسم، ساحل، آثارِ قدیمہ اور دیگر تاریخی اور مذہبی اہمیت کے مقامات موجود ہیں ۔ اس وجہ سے 2017 میں 3.6 ملین سے سیاح اسرائیل آئے تھے۔ یہاں مرکزدارالسلام للتعریف بالاسلام (Dar Assalam For Introducing Islam)کے تحت یروشلم کے قدیم شہر، بیت المقدس اور اس کے اطرف میں سیاحوں کے درمیان دعوتی کام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ناصرہ، حیفہ، وغیرہ میں بھی دعوتی کام ہوتا ہے۔
مثلاً عکہ شمالی اسرائیل کا ایک پورٹ شہر (port city)جسے انگریزی میں Acre جبکہ عبرانی میں Akko کہا جاتا ہے۔یہ ایک تاریخی شہر ہے۔ یہاں کئی قابل دید مقامات ہیں ۔ بہائی مذہب کا مركز یہیں واقع ہے۔اس شہر کا قدیم حصہ یونیسکوکے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے علاقوں میں شامل ہے۔ اس لیے پوری دنیا کےسیاح بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں ۔ یہاں ایک بہت مشہور مسجد ہے، جسے مسجد الجزار کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ چنانچہ اسرائیل میں دعوتی کام کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے مسجد الجزار میں تقسیمِ قرآن اسٹینڈ لگایا ہے، جہاں سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کے درمیان مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تقسیم کیے جاتے ہیں ۔ پورے اسرائیل میں سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ تراجم قرآن سیاحوں کو دیے جاتے ہیں ۔
اس قسم کے دعوتی واقعات بتاتے ہیں کہ آج کی دنیا میں پرامن انداز میں دعوتی کام کرنا انتہائی آسان کام ہے۔ چنانچہ سی پی ایس انٹرنیشنل نے اب تک 26 سے زياده زبانوں میں قرآن مجید کے قابل فهم ترجمے شائع کیے ہیں ۔ ان کے ذريعے انفرادی سطح پر بھی دعوتی کام كيا جاسكتاہے، اور اجتماعی سطح پر بھی۔ آپ بھي اس دعوتی مشن کا حصہ بنیں ، اور خدا کے پیغام کو دنیا کے ہر چھوٹے بڑے گھروں میں ، انفرادی یا اجتماعی طور پر ، پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔
دعوت امتِ مسلمه كا مشن
دعوت ايك عظيم عمل هے۔ جو لوگ دعوت كا عمل انجام ديں ، ان كے ليے الله كے يهاں عظيم درجات هيں ۔ ان كو جنت كے اعلي درجات ميں جگه ملے گي۔ دعوت كياهے۔ دعوت عين وهي چيز هے جس كو شهادت على الناس كها جاتاهے۔ يعني الله كے پيغام كو پر امن طور پر الله كے بندوں تك پهنچانا۔
دعوت امتِ مسلمہ کا مشن
شہادت ایک عظیم عمل ہے۔ جو لوگ شہادت کا عمل انجام دیں ، ان کے لیے اللہ کے یہاں عظیم درجات ہیں ۔ ان کو جنت کے اعلیٰ درجات میں جگہ ملے گی۔ شہادت کیاہے۔شہادت عین وہی چیز ہے جس کو دعوت کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو پرامن طور پر اللہ کے بندوں تک پہنچانا۔ زندگی کی حقیقت (reality of life) سے انسان کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں باخبر کرنا ۔ شہادت یا دعوت کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کے اندر طلب ہو وہ اللہ کے نقشۂ تخلیق کو جان لے، اور جس کے اندر طلب نہ ہو اس پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے، اس کو یہ موقع نہ رہے کہ وہ آخرت کے دن یہ کہہ سکے کہ ہم کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ خالق کا مطلوب ہمارے بارے میں کیا تھا۔ شہادت یا دعوتی مشن کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، مثلاً تبلیغ (المائدة، 5:67) یاانذار و تبشیر (النساء، 4:165)، وغیرہ۔
شہادت کا لفظی مطلب گواہی دینا (to witness) ہے۔ شہادت اور دعوت دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ لیکن شہادت کے لفظ میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی دعوت کے کام کو اس طرح کامل صورت میں انجام دینا کہ آدمی کا پورا وجود دعوت کا مکمل اظہار بن جائے۔
یہی شہادت ہے۔ شہادت کا یہ تصور قرآن میں اجنبی (alien)ہے کہ شہادت کے دو درجے ہیں — قولی شہادت اور عملی شہادت۔ یعنی تقریر اور تحریر سے شہادت کی ذمے داری ادا کرنا کافی نہیں ۔ ضرورت ہے کہ مکمل نظام قائم کرکے لوگوں کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ یہ نظامی تصورِ شہادت نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے، اور نہ پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر نے اس کو انجام دیا، حتیٰ کہ پیغمبر آخر الزماں نے بھی نہیں ۔
پیغمبر ِ اسلام صلي الله عليه وسلم شاہد (الاحزاب، 33:45)تھے ۔آپ نے بلاشبہ کامل معنوں میں شہادتِ حق کا کام انجام دیا۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کہ مکمل نظام کا عملی مظاہرہ کرکے شہادت کا فریضہ انجام دیں ، نہ مکی دور میں نہ مدنی دور میں ۔ حقیقت یہ ہے کہ شہادت کا یہ کام ، ایک ایسا کام ہے، جس کو ’’ قول‘‘ کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ داعی کامل معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف، 7:68) ہو، یعنی مدعو کی نسبت سے کامل خیرخواہ (well-wisher)، اور اللہ کی نسبت سے کامل امانت دار (honest)۔
شہادت کا تصور
قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف مشتقات کی صورت میں 160 بار آیا ہے۔ہر جگہ وہ گواہی (witness) کے معنی میں ہے۔ قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف نسبت کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن ہر بار وہ اسی گواہی کے مفہوم میں آیا ہے، کسی اور مفہوم میں نہیں ۔
قرآن کے مطابق ، پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اوپر اللہ کا گواہ بنے۔ وہ پر امن فکری جدوجہد کے ذریعے لوگوں کو بتائے کہ اللہ نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے، اور آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ ہر پیغمبر کا مشترک مقصد یہی تھا، اور ہر پیغمبر نے شہادت کے اس عمل کو مکمل طور پر غیر سیاسی انداز میں انجام دیا۔
پیغمبر ِ اسلام صلي الله عليه وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، لیکن کارِنبوت بدستور باقی ہے۔ خاتم النبیین کے بعد تمام انسانی نسلوں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ ان کو پیغمبر کی نیابت میں اللہ کا پیغام بدستور پہنچایا جائے، اور قیامت تک پہنچایا جاتا رہے۔ یہ کام بعد کے زمانے میں امتِ محمدی کو انجام دینا ہے۔ یہ گویا نبی کے بعد نبی کے کارِ شہادت کا تسلسل ہے۔ اس عمل کی درست ادائیگی کی شرط یہ ہے کہ اس کو امانت اور خیرخواہی (الاعراف، 7:68)کی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے۔
امانت یہ ہے کہ اصل پیغامِ خداوندی میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ کی جائے، اور نصح یہ ہے کہ اس کام کویک طرفہ خیرخواہی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ تاکہ مخاطب کے لیے انکار کا کوئی معقول سبب باقی نہ رہے۔
امتِ وسط
امتِ محمدی کی اس ذمے داری کو قرآن کی سورہ نمبر 2میں اس طرح بیان کیا گیا ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (2:143)۔ یعنی اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا:
Thus We have made you a middle nation, so that you may act as witnesses for mankind, and the Messenger may be a witness for you.
امت ِ وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle ummah) ہے۔ یعنی امتِ محمدی کی حیثیت خاتم النبیین اور بعد کی انسانی نسلوں کے درمیان بیچ کے نمائندہ کی ہے۔ اللہ کے دین کو خاتم النبیین سے لینا، اور اس کو بعد کی نسلوں تک کسی اجرت کی امید کے بغیر قیامت تک پہنچاتے رہنا۔ اس پہنچانے کا مطلب صرف اعلان (announcement) نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کو قول بلیغ (النساء، 4:63)کی زبان میں پہنچایا جائے، یعنی ایسے اسلوب میں جو لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
قرآن کی اس تعلیم کے مطابق موجودہ دنیا ہمیشہ کے لیے دارالدعوۃ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اس کے مطابق، نبوت محمدی اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو نسبت ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ امت کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے انسانوں کی حیثیت مشہود(البروج، 85:3)کی ۔ اس نسبت کو دوسرے الفاظ میں داعی اور مدعو کی نسبت کہا جاسکتا ہے۔
امت محمدی کی اس دعوتی ذمے داری کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے المؤمنون شهداء الله في الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2642)۔ یعنی اہل ایمان زمین پر اللہ کے گواہ ہیں ۔ شہادت کا یہ کام خالص پیغمبرانہ طریقے پر انجام دینا ہے۔ یہ ایک خدائی کام ہے، جس میں کسی سیاسی یا قومی یا مادی مقصد کو شامل کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ اس کام میں کسی اور مقصد کو شامل کیا جائے تو وہ قرآن کے الفاظ میں رکون ہوگا، جو انسان کو اللہ کے یہاں سخت مواخذہ کا مستحق بنا دیتا ہے۔آيت كے الفاظ يه هيں: وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(11:113) يعني ان كي طرف نه جھكو جنھوں نے ظلم كياورنه تم كو آگ پكڑ لے گي اور الله كے سوا تمھارا كوئي مددگار نهيں ، پھر تم كهيں مدد نه پاؤگے۔
دعوت قولِ بلیغ کی زبان میں
شہادت یا دعوت کا یہ کام ایک ابدی قسم کا پیغمبرانہ مشن ہے۔ اس کو ہر زمانے میں مسلسل طور پر انجام دینا ہے۔ اس مشن کا اصل پیغام تو ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ لیکن زمانی تبدیلیوں کے اعتبار سے اس کی ادائیگی میں فرق ہوتا رہے گا۔ شہادت یا دعوت کے اس عمل کی ادائیگی کو موثر بنانے کے لیے اس طرح انجام دینا ہوگا کہ وہ ہرزمانے کے ذہن کو ایڈریس کرسکے۔ اس زمانی رعایت کے بغیر حجت کی شرط پوری نہیں ہوسکتی، جو کہ اس کام کی حسن ادائیگی کی لازمی شرط ہے۔
دعوت دورِ تعقل میں
دعوت یا شہادت کا یہ پیغمبرانہ مشن سفر کرتے ہوئے، اب پندرھویں صدی ہجری (اکیسویں صدی عیسوی ) میں داخل ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانہ کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ جدید ذہن (modern mind) کی نسبت سے اس کو عقلی طور پر مدلل صورت میں پیش کیا جائے۔ اس کے بغیر مطلوب معیار پر اس کام کی انجام دہی نہیں ہوسکتی۔
شہادتِ اعظم
بعد کے دور میں شہادت کا یہ دعوتی عمل عالمی سطح پر مزید اضافے کے ساتھ انجام پائے گا۔ اس دعوتی واقعے کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلي الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ایک دور آئے گا جب کہ شہادت علی الناس یا دعوت الی اللہ کے اس کام کو حجت (reason) کی سطح پر انجام دینا ضروری ہوگا۔ اس وقت امت کے جو افراد وقت کے استدلالی معیار پر اس دعوتی کام کو انجام دیں گے، وہ اللہ کے یہاں بہت بڑے درجے کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس دور میں اللہ کے جو بندے اس کام کو اس کے مطلوب معیار پر انجام دیں گے، ان کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں هذا أعظم الناس شهادةً عند رب العالمين (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر سب سے بڑی شہادت (دعوت) ہوگی۔
شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تھا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے، اس کے لیے معروف لغوی لفظ قتل استعمال ہوتا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ (2:154)۔ يعني اور جو لوگ الله كي راه ميں قتل كيے جائيں ان كو مرده مت كهو۔اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے میں جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر ہوگا، تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ اس جنگ میں صحابہ میں سے ستر آدمی مارے گئے۔ صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے أنس بن مالك أنه قالقُتِل منهم يوم أحُد سبعون (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4078)۔ یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحابِ رسول میں سے ستر آدمی قتل ہوئے۔
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ اسلام میں مستند زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بعد کے زمانے میں دھیرے دھيرے ایسا ہوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بھی تبدیلی آئی۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف ہوگیا۔ اس کے بجائے، شہادت اور شہید کا لفظ جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام ہوگیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا۔مثلا حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، وغیرہ۔ اصحابِ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا، لیکن کسی کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا۔ مثلا َ عمر بن الخطاب شہید، عثمان بن عفان شہید، علی ابن ابی طالب شہید، سعد بن معاذ شہید، وغیرہ۔ صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساتھ لکھا اور بولا گیا، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساتھ۔ جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج ہوا۔ چنانچہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچھ روایات کے اوپریہ باب قائم کیا ہے باب لا يقول فلان شهيد (کتاب الجهاد والسیر)۔ يعني باب يه نه كهاجائے كه فلاں شهيد هے۔
یہ سادہ بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساتھ پکارا جائے: اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ (الاحزاب، 33:5)۔يعني ان كو ان كي آبائي نسبت سے پكارو، يه الله كے نزديك زياده منصفانه بات هے۔ نام کے ساتھ شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا،اشخاص کے بارے میں غیر واقعی ذہن بنانے والا عمل ہے۔ یہ طریقہ اسلامی آداب کے مطابق نہیں ۔
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجودہ زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کا اصل سبب یہی ہے۔ جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک ہوتے ہیں ، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فوراً جنت میں داخل ہو گئے۔
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات (colonialism) کے دور میں رائج ہوا۔ اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعداس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندرعام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری ہوا۔ اس کے بعدبتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کر لی۔
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں ، وہ شہید ہوں گے، اور بلا حساب کتاب فوراً جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تھا، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ۔ دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردِّعمل کی آخری تباہ کن صورت وہ ہے، جو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing) کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچھ علماء کی طرف سے غلط طور پراس کو استشہاد (طلبِ شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں ۔ لیکن شہادت کا اصل کام ، دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں ، نہ مسلم علماء کے اندر، نہ مسلم عوام کے اندر۔ شہادت کے اس خودساختہ تصور کے تحت وہ جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں ، وہ ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں ۔
سنتِ یہود کی پیروی
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امتِ محمدی بعد کے زمانے میں ضرور یہود کي کامل اتباع کرے گی: لتتبعُنَّ سَنَنَ من كان قبلَكم ، شبرًا بشبرٍ وذراعًا بذراعٍ ، حتى لو دخلوا جُحْرَ ضبٍّ تبعتُمُوهم. قلنا : يا رسولَ اللهِ ، اليهودُ والنصارى ؟ قال:فمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یہ سادہ طورپر یہودکي اتباع کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ دراصل ایک قانونِ فطرت کا معاملہ ہے، جس کو قرآن میں طولِ امدکے نتیجے میں قساوت کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ (57:16) یعنی لمبی مدت گزرنے کی بنا پر بعد کی نسلوں میں زوال آنا، اور زوال کی بنا پر ان کے اندر مختلف قسم کے بگاڑ کا پیدا ہوجانا۔
سنتِ یہود کی پیروی کی سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے، جو شہادت (witness) کے معاملے میں واقع ہوئی۔ یہود کو اللہ نے اپنے دین کا گواہ (witness) بنایا تھا۔ اس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: خداوند فرماتا ہے تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے منتخب کیا تاکہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ، اور سمجھو کہ میں وہی ہوں ۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا، اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا (یسعیاہ، 43:10)
You are My witnesses, declares the Lord, and My servant whom I have chosen, so that you may know and believe Me and understand that I am He. Before Me no god was formed, nor will there be one after Me. (Isaiah 43:10)
یہود پربعد کے زمانے میں جب زوال آیا، تو انھوں نے خدا کے دین کی گواہی کی اس ذمے داری کو عملاً چھوڑدیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ان کے اندر قومی ذہن پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوگئی جس کو یہود کی تاریخ میں یہودی احساسِ برتری (Jewish supremacism)کہا جاتا ہے۔
چنانچہ ان کی دلچسپی تمام تر اپنی قوم تک محدود ہوگئی ، وہ دوسرے انسانوں کے خیرخواہ نہ رہے۔ بلکہ دوسروں کو عمومی طور پر انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا۔کیوں کہ وہ قوم یہود كي خود ساختہ برتری کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے دینِ خداوندی کی گواہی کے کام کو چھوڑدیا، او ر اس کے بجائے دوسرے قومی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ مگر اسی کے ساتھ خود پسندی (self-righteousness)کے جذبہ کی بنا پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ اب بھی اپنے پیغمبر موسیٰ کے بتائے ہوئے دین پر قائم ہیں ۔
یہود کے اس معاملے کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ. لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(3:187-188)۔يعني جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم خدا کی کتاب کو پوری طرح لوگوں کے لیے ظاہر کرو گے اور اس کو نہیں چھپاؤ گے۔ مگر انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا، اور اس کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالا۔ کیسی بری چیز ہے، جس کو وہ خرید رہے ہیں ۔ جو لوگ اپنے اس عمل پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں كيے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بَری نہ سمجھو۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
دورِ جدید کے مسلمانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کامل طور پر یہود کے متبع بن چکے ہیں ۔ انھوں نے دعوت الی اللہ کے کام کو عملاً چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ دوسرے قومی کام انجام دے رہے ہیں ، لیکن ان کاموں کو وہ غلط طور پر دعوت کا کام بتاتے ہیں ۔ انھوں نے شہادت کے تصور کو بدل کر جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں لے لیا۔ وہ قومی سیاست (communal politics) میں مشغول ہیں ۔ اس خودساختہ عمل میں جب ان کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دعوت اور شہادت کا مطلوب کام انجام دے رہے ہیں ۔
انسان کوئی کام نفسیاتی محرک کے تحت کرتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لیےدوسروں کے ساتھ خیرخواہی کی اسپرٹ ضروری ہے۔ مگر دورِ زوال میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا ذہن جو مسلمانوں میں آیا، اس کے نتیجے میں وہ دوسری قوموں کو کم تر اور اپنا حریف سمجھنے لگے۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ان کے اندر باقی نہ رہا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اسی قومی نفسیات کے شکار ہیں ۔
یہی سب سے بڑی وجہ ہے، جس نے ان سے دعوت الی اللہ کا جذبہ چھین لیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان بظاہراپنی سرگرمیوں كو’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔لیکن وہ جوکچھ کررہے ہیں ، اس کا نظامِ مصطفیٰ سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہ طریقہ عین اسی طریقے کی اتباع ہے جس کو قرآن میں زوال یافتہ یہود کی طرف منسوب کیا گیا ہے :يُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا(3:188)۔ يعني وه چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو۔قرآن کے یہ الفاظ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آرہے ہیں ۔ وہ اپني قومی سرگرمیوں پر دعوت اور شہادت کا ٹائٹل لینا چاہتے ہیں ۔ مگر اللہ کے قانون کے مطابق ایسا کبھی ہونے والانہیں ۔ اس قسم کی روش بلاشبہ قابلِ مواخذہ ہے نہ کہ قابلِ انعام۔
خود کش حملہ
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندران کی زوال یافتہ قومی نفسیات کے تحت ایک ایسا ظاہرہ پیدا ہوا ہے جو غالباً تحلیلِ حرام (حرام كو حلال كرلينے )کی سنگین ترین صورت ہے، اور يه ظاهره خودکش بمباری (suicide bombing)كا ظاهره هے، یعنی مفروضہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے آپ کو بم سے اڑا دینا۔ايك حديث ميں اس قسم كے ظاهرے كي طرف ان الفاظ ميں پيشين گوئي كي گئي هے:يسمّونها بغير اسمها فيستحلونها(سنن الدارمی،حدیث نمبر2145)۔ يعني اس كو دوسرا نام دے كر اس كو حلال كرليں گے۔
یہ طریقہ بلاشبہ نص شرعی کے مطابق ایک حرام فعل ہے۔ کچھ علماء نےبطورِ خود، خود کش بمباری کے اس فعل کو استشہاد (طلبِ شہادت) کہہ کر جائز قرار دیا ہے۔ مگر اس قسم کا استدلال گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا کوئی بھی خود ساختہ فتویٰ خودکش بمباری جیسے صراحتاً ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔
ایک حدیث اس معاملے میں قطعی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے، مثلاً صحیح البخاری (حدیث نمبر3062)، صحیح مسلم (حدیث نمبر 112)، مسندامام احمد (حدیث نمبر8090) ، وغیرہ۔ ان مختلف روایتوں کے الفاظ تقریباً یکساں ہیں ۔روایت کے مطابق، صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جو ایمان لاچکا تھا۔ اس کا نام قزمان تھا۔ جنگ ہوئی تو یہ شخص شدید طور پر لڑا۔ لوگ اس کی بہادری کی تعریف کرنے لگے۔ مگر رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے(إنّه من أهل النّارِ)۔ لوگوں کو آپ کے اس قول پر يقين نهيں ہوا۔ آپ نے کہا کہ جاکر اس کی تحقیق کرو۔ جب لوگوں نے اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جنگ میں وہ شدید طور پر زخمی ہوگیا تھا۔پھر زخموں کی تاب نہ لاکر اس نے اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے ہلاک کرلیا( فقَتل نفْسه)۔ جب آپ كو اس كي خبر دي گئي تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایاکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بنده اور اس كا رسول هوں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں خودکشی مطلق حرام کی حیثیت رکھتی ہے۔حتیٰ \کہ کوئی شخص بظاہر پیغمبر کا ساتھی ہو، اور وہ غزوہ میں لڑ کر بہادری دکھائے، لیکن آخر میں وہ اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے مارکر اپنا خاتمہ کرلے تب بھی اس خودکشی کی بنا پر اس کی موت، حرام موت قرار پائے گی۔ کسی بھی عذرکی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے، اور وہ لڑتے ہوئے مارے جائیں تو یہ جائز ہے۔ لیکن قصداً اپنے جسم کے ساتھ بم باندھنا، اور مفروضہ دشمنوں کے درمیان جاکر بم كا دھماكا كر دینا، جس میں وہ آدمی خود بھی مرے، اور دوسرے بھی مارے جائیں ۔ یہ طریقہ صراحتاً خود کشی کا طریقہ ہے، اور وہ یقینی طور پراسلام میں ناجائز ہے۔ اہل ایمان کے لیے حملے کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے، اور اگر وہ مقابله کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں ، تو اس کے بعد ان کے لیے کرنے کا جو کام ہے، وہ صبر ہے، نہ کہ خود کش حملہ۔ مگراس معاملے میں موجودہ مسلمانوں کا آبسیشن (obsession) اتنا بڑھا ہوا ہے کہ کوئی اس پر سوچنے کے لیے تیار نہیں ۔
بے فائدہ جنگ
پیغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبي هريرة، قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:والذي نفسي بيده لا تذهب الدنيا، حتى يأتي على الناس يوم لا يدري القاتل فيم قَتَل، ولا المقتول فيم قُتِل۔ فقيل:كيف يكون ذلك؟ قال:الهرج، القاتل والمقتول في النار(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2908) ۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہوگی ، یہاں تک كه لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا، جب کہ قاتل یہ نہیں جانے گا کہ اس نے کیوں قتل کیا، اور مقتول یہ نہیں جانے گا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔کہا گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ ایسا ہرج (بے معنی قتل وقتال)کے زمانے میں ہوگا۔ قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔
ہرج کا مطلب شارحین حدیث نےبتایا ہے:شدۃ القتل و کثرتہ (عمدۃ القاری،جلد نمبر7،صفحہ نمبر58)۔یعنی قتل و قتال کی شدت اور کثرت۔اس قسم کے مجنونانہ قتل وقتال کی صورت کسی گروہ میں کب پیش آتی ہے ۔جب وہ گروہ قوم پرستی میں دوسروں کے خلاف اندھی دشمنی تک پہنچ جائے۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال ہے۔ ان کے اندر آخری حد تک یہ ذہن پیدا ہوگیا ہے کہ انھوں نےقومی حمایت میں دوسروں کو اپنا ابدی دشمن سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ہر وقت سازش میں مصروف رہتی ہیں ۔ اس خود ساختہ سوچ کی بنا پردوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جنون کی حد تک نفرت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر تشدد (violence) کا جو انتہاپسندانہ ظاہرہ دکھائی دیتا ہے، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ وہ نہ صرف دوسری قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،بلکہ خود ان مسلمانوں کے خلاف بھی ، جن کے بارے میں وہ یہ فرض کرلیں کہ وہ ان کے دشمنوں کے حامی ہيں ۔
موجودہ زمانے میں یہ حال ہے کہ مسلمانوں کے مختلف ٹررسٹ (terrorist) گروپ بن گئے ہیں ۔ وہ مختلف مقامات پر قتل و قتال کا ہنگامہ جاری کیے ہوئے ہیں ،حتی کہ اسکول کے بچوں ، مسجد کے نمازیوں ، اور قبرستان کے سوگوار افراد پر بھی۔ قتل و قتال کا یہ اَن جسٹیفائڈ (unjustified)ہنگامہ اتنا زیادہ ہے، جیسے کہ ان لوگوں نے قتال برائے قتال کو خود ایک مطلوب کام سمجھ لیا ہے۔ خواہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی معقول سبب (justified reason)موجود نہ ہو۔
مسئله کا حل
امت مسلمہ کے اندر یہ جو سخت نامحمود صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ ان کو صحیح آئڈیالوجی دی جائے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں غلط آئڈیالوجی کے شکار ہیں ۔ اس کی اصلاح صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ ان کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر درست آئڈیالوجی سے واقف کرایا جائے۔اس سے کم درجے کی کوئی چیز اس صورتِ حال کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
مثلاً ان لوگوں کو اس فطری حقیقت سے باخبر کرنا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ۔ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ۔ وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (41:34-36)۔اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں ، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔ اور اگر شیطان تمھارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بےشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں کے درمیان جو تفریق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ ہمارے دوست ہیں ، اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ۔ بلکہ صحیح تفریق یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے واقعی دوست (actual friends) ہیں ، اور کچھ لوگ ہمارے امکانی دوست (potential friends)۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔
اس کے مطابق اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا دشمن نہ سمجھيں ، بلکہ بلاتفریق ہر ایک کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کريں — یہی دعوہ اسپرٹ ہے، اور اسی کا نام دعوت الی اللہ ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کو قرآن کی وہ آیت یاددلاناہے، جس میں قتل کی برائی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (5:32)۔جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔
اسی طرح ان لوگوں کو یہ بتانا کہ مسلمان کا مسلمان کو مارنا قرآن کے مطابق ایک جہنمی فعل ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيماً (4:93)۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان کر قتل کرے تو اس کی سزاجہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
پیغمبر ِ اسلام کی آخری وصیت
آج شدید ضرورت ہے کہ پیغمبر اسلام کے اس انتباہ کو تمام دنیا کے مسلمانوں کو یاد دلایا جائے جو آپ نے اپنے آخری زمانے میں حجۃ الوداع کے موقع پردیا تھا۔ صحیح البخاری کی روایت کے مطابق اس کے الفاظ یہ ہیں :
عن ابن عباس رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس يوم النحر فقال:يا أيها الناس أي يوم هذا:قالوا:يوم حرام، قال:فأي بلد هذ قالوا:بلد حرام، قال:فأي شهر هذا قالوا:شهر حرام ، قال:فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا، في شهركم هذا، فأعادها مرارا، ثم رفع رأسه فقال:اللهم هل بلغت، اللهم هل بلغت - قال ابن عباس رضي الله عنهما:فوالذي نفسي بيده، إنها لوصيته إلى أمته، فليبلغ الشاهد الغائب، لا ترجعوا بعدي كفارا، يضرب بعضكم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔ يعني عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے یوم النحر کو لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا۔ آپ نے کہا کہ اے لوگو، آج کون سا د ن ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ یومِ حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ شہر حرام ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ حرام کا مہینہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سن لو کہ تمھارا خون، تمھارے مال ، اور تمھاری عزت تمھارے اوپر حرام ہے، جیسا کہ آج کا دن حرام کا دن ہے، اور تمھارے اس شہر میں ، اور تمھارے اس مہینے میں ۔ آپ نے یہ کلمات بار بار فرمائے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا، اور فرمایا کہ اے اللہ، کیا میں نے پہنچادیا، اے اللہ، کیا میں نے پہنچادیا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس ذات کي قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بے شک یہ آپ کی وصیت ہے اپنی امت کے لیے، پس جو حاضر ہے وہ ان کو پہنچادے جو حاضر نہیں ہے، ( پھرابن عباس نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كا يه قول ذكر كيا) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجا نا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔
امت کے لیے کرنے کا کام
موجودہ زمانے میں امت مسلمہ عام طور پر منفی ذہن میں مبتلا ہوگئی ہے۔ یہ صرف ان کی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پرہے۔ اپنی منفی سوچ کے تحت وہ دوسری قوموں کو اپنے دشمن کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے اندر یہ مزاج سوچ کی حدتک ہے، اور کچھ لوگ اپنی اس سوچ کے تحت قتل و قتال میں مشغول ہیں ۔ یہ بلاشبہ وہی خطرناک علامت ہے، جس کی طرف احادیث میں پیشگی طور پر باخبر کیا گیا تھا۔
آج فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے افراد اپنے اندر مثبت ذہن (positive thinking) پیدا کریں ۔ وہ دوسری قوموں کو دشمن سمجھنے کا مزاج کلی طور پر ختم کردیں ۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے کہ ان کی حیثیت ایک قوم کی نہیں ہے، بلکہ ایک اصولی گروہ کی ہے۔ ان کا مشن صرف ایک ہے، اور وہ پرامن دعوت الی اللہ ہے۔ اس کام کو انھیں یک طرفہ خیرخواہی کے تحت انجام دینا ہے۔ اگر دوسرے لوگ ان کے خیال کے مطابق ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کریں تب بھی انھیں اس قسم کی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئےیک طرفہ طور پر لوگوں کا خیرخواہ بننا ہے، اور ان کو اللہ کا وہ پیغام پہنچا نا ہے جو ان کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا عمل ان کو آخرت کی پکڑ سے بچانے والا نہیں ۔
اسلام کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے درمیان جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہوئیں ، ان پر اب ایک صدی سے زیادہ مدت گزرچکی ہے۔ لیکن ان کی یہ سرگرمیاں ہر محاذ پر نتیجے کے اعتبار سے ناکام ہوگئیں ۔ وہ مسلمانوں کے حق میں کاؤنٹر پروڈكٹيو (counter-productive) ثابت ہوئیں ۔ ان متشددانہ سرگرمیوں کا یہ منفی انجام بتاتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد حاصل نہیں ۔ اگر اس معاملے میں ان کو اللہ کی مدد ملتی تو وہ ضرور کامیاب ہوتے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں ۔ وہ تشدد کا طریقہ یک لخت چھوڑ دیں ، اورپر امن دعوتی عمل (peaceful dawah work) میں مصروف ہوجائیں ۔ یہی وه واحد طریقہ ہے، جو مسلمانوں کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنا سکتا ہے۔
امت مسلمہ کا فائنل رول
The Final Role of Muslim Ummah
قديم زمانے ميں امتِ محمدي نے قرآن كے ذريعه شرك كے فتنے كا خاتمه كيا تھا، موجوده زمانے ميں امت محمدي كا رول يه هے كه وه دوباره قرآن كے ذريعے الحاد كے فتنے كا خاتمه كريں ۔
امت مسلمہ کا فائنل رول
The Final Role of Muslim Ummah
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں دو بڑے رول مقدر ہیں ۔ ایک وہ رول جو اصحاب رسول کے ذریعہ انجام پایا۔ دوسرا وہ رول جس کے لیے حدیث میں اخوان رسول (مسند احمد، حدیث نمبر 12579) کے الفاظ آئے ہیں ۔ تاریخ میں کوئی بڑا رول ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوتا ہے۔ اصحاب رسول کا رول اس تاریخ کا نقطۂ انتہا تھا، جو پیغمبر ابراہیم کے ذریعہ قدیم مکہ میں ساڑھے چار ہزار سال پہلے شروع ہوا، اور ساتویں صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) کو پہنچا۔ اصحابِ رسول وہ لوگ ہیں ، جنھوں نے اس لمبے تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ پیدا ہونے والے حالات کو اپنی غیرمعمولی جد و جہد کے ذریعہ اویل (avail) کیا۔
رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ تاریخ کا دوسرا عمل (process) شروع ہوا۔ یہ دوسرا تاریخی عمل مختلف حالات سے گزرتا ہوا، بیسویں صدی میں اپنے نقطۂ انتہا تک پہنچا۔ ماڈرن سیویلائزیشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی تکمیلی مرحلہ کا نام ہے۔ وہ تکمیلی مرحلہ جس میں توحید کے مشن کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آفاق و انفس کی آیات (فصلت،41:53) بالفاظ دیگر سائنس کی دریافت کردہ دلائل ظاہر ہوں ، جس کے ذریعہ توحید کو ناقابل انکار حقائق کی روشنی میں لوگوں کے لیے مبرھن کیا جاسکے۔
مواقع کو پہچاننے میں ناکامی
بیسویں صدی میں وہ وقت پوری طرح آچکا تھا، جب کہ امت مسلمہ سے مطلوب تھا کہ وہ نئے پیدا شدہ حالات کو پهچانیں ، اور نئے مواقع کو اویل کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں ، جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی سطح پر اعلیٰ تبیین حق (فصلت،41:53)کا رول کہا گیا ہے۔ بظاہر یہی وہ رول تھا جس کو حدیث میں اخوان رسول کا رول بتایا گیا تھا۔ لیکن عین اسی وقت ایک برعکس واقعہ ظاہر ہوا۔ یہ واقعہ غالباً وہی تھا جس کو حدیث میں فتنۂ دھیماء کہا گیا ہے۔ یہ فتنۂ دھیماء (سیاہ فتنہ) ایک ایسا عمومی فتنہ ہوگا، جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ثم فتنة الدهيماء، لا تدع أحدا من هذه الأمة إلا لطمته لطمة (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4242)۔ یعنی پھردہیماء کا فتنہ ہوگا، اور وہ اس امت میں سے کسی ایک فرد کو بھی نہیں چھوڑے گا، مگر وہ اس کو ہٹ (hit)کرے گا۔اس حدیث میں لطمۃ (to hit)سے مراد غالباًلطمۂ نفرت ہے۔ یعنی اس فتنہ کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہوگا کہ امت کا ہر فرد اس سے شدید طور پر متاثر ہوجائے گا۔ وہ ہر فرد امت کو نفرت کا کیس بنا دے گا۔
یہ حادثہ اس طرح پیش آئے گا کہ جو مغربی قومیں حدیث کے الفاظ میں مؤید دین بن کر ابھریں گی، ان کے ساتھ ایک اور اتفاقی پہلو شامل ہوگا۔ وہ یہ کہ یہ مغربی قومیں ایک طرف موید دین تہذیب لے کر ظاہر ہوں گی، لیکن اسی کے ساتھ ان کی دوسری حیثیت یہ ہوگی کہ وہ اس سیاسی کلچر کی حامل ہوں گی، جس کو نو آبادیاتی نظام(colonialism) کہا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام ایک اتفاقی سبب (chance factor) کی بنا پر اس تائیدی تہذیب کا حصہ ہوگا۔ مگر مسلم رہنما دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی پالیسی (delinking policy) اختیار نہ کرسکیں گے، اور سیاسی اختلاف کی بنا پر خود تائیدی تہذیب کے دشمن بن جائیں گے۔ مسلمانوں کایہ مزاج اتنا زیادہ بڑھے گا کہ امت کا کوئی فرد اس کی زد میں آنےسے محفوظ نہ رہے گا۔
اس کیفیت کو اگر نئے اصطلاح میں بیان کیا جائے تو اس کو ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ یہی مغربی قومیں تھیں ، جنھوں نے ایک طرف ماڈرن تہذیب کو وجود دیا، اور دوسری طرف یہی وہ قومیں تھیں ، جو بعد کو نو آبادیاتی طاقتوں (colonial powers) کے نام سے ابھریں ۔ انھوں نے ایک کے بعد ایک تمام مسلم سلطنتوں کو ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مسلمان عمومی پیمانے پر سیاسی محرومی کا شکار ہوگئے۔ قدیم زمانے میں اس طرح کا واقعہ مقامی خبر (local event) بن کر رہ جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں جدید میڈیا کی بنا پر یہ سیاسی واقعہ اتنا پھیلا کہ کوئی مسلمان اس ’’حادثے‘‘ سے بے خبر نہ رہا۔ چنانچہ تقريباً تمام مسلم مرد اور عورت مغرب سے متنفر ہوگئے۔
اگر مسلم رہنما بروقت ڈی لنکنگ (delinking)کی حکمت کو اختیار کرتے، جیسا کہ اسلام کے دور اول میں پیغمبر اسلام نے کیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ کے اصنام اور ان کے لیے روزانہ اکٹھا ہونے والے زائرین (audience) کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ اس طرح آپ نے ایسا دانش مندانہ طریقہ اختیار کیا، جو آخر کار فتح مبین (الفتح،48:1) کا باب بن گیا۔ اگر وقت کے مسلم رہنما اس ڈی لنکنگ پالیسی کو اختیار کرتے تو مسلم امت عمومی نفرت کے فتنہ سے بچ جاتی، اور مغربی تہذیب کے ذریعہ پیدا ہونے والے تائیدی مواقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کرکے اس کارنامے کو انجام دیتی، جس کو ایک برٹش مورخ ای ای کلیٹ (Ernest Edward Kellett) نے پیغمبر اسلام کی نسبت سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— انھوں نے ناموافق حالات کا مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا :
He faced adversity with the determination to wring success out of failure. (A Short History of Religions by E.E. Kellet, pp. 331-32, Middlesex)
ویسٹو فوبیا
نفرتِ مغرب کے اس عمومی فتنے کو اگر ایک نیا نام دیا جائے تو وہ شاید ویسٹوفوبیا (westophobia) ہوگا ۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سب سے زیادہ عام مائنڈ سیٹ (mindset) ہے۔ یعنی مغربی قوموں کو اپنا دشمن سمجھنا، اور ان سے نفرت کرنا۔ نفرتِ مغرب کا یہ مزاج ابتداءاً نوآبادیات (colonialism) کے پس منظر میں پیدا ہوا۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام مزاج بن گیا۔ حتی کہ آج مسلم قوم کا مطلب یہ بن گیا کہ اپنے سوا دوسری تمام قوموں سے نفرت کرنا۔ مسلمانوں کے درمیان اس نفرت کلچر (culture of hate)کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب کہ اللہ نےایسے اسباب پیدا کیے کہ مغربی قوموں نے وہ رول ادا کیا، جس کو حدیث میں تائید دین کہا گیا ہے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640) ۔ صلیبی جنگوں کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مغربی قومیں جنگ کے میدان سے ہٹ کر تسخیر فطرت کے میدان میں آگئیں ۔یعنی انھوں نے فطرت کے ان اسرار کو دریافت کرنا شروع کیا ،جن کو قرآن میں آیات (signs) کہا گیا ہے۔ اس معاملے کی پیشین گوئی قرآن میں کردی گئی تھی۔ قرآن میں یہ بتایا گیا تھا کہ مستقبل میں ایسا ہوگا کہ آفاق و انفس کی نشانیاں بڑے پیمانے پر ظاہر ہوں گی، اور وہ حق کی اعلیٰ تبیین کا رول انجام دیں گی(سورة فصلت،41:53)۔ حق کی تبیین کا کام انجام پانا، اپنے آپ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ کوئی گروہ ہوگا ،جو حق کی تبیین کا یہ کام انجام دے۔ تمام قرائن یہ بتاتے ہیں کہ حق کی تبیین کا یہ کام انجام دینے والے وہی گروہ تھے، جن کو اہل مغرب کہا جاتا ہے۔رموز فطرت کی اس تسخیرکو موجودہ دور میں فطرت کے قوانین (laws of nature) کی دریافت کہا جاتا ہے۔ ان دریافتوں نے تاریخ میں پہلی بار اہل ایمان کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی صداقت کو انسان کے مسلمہ عقلی معیار کی سطح پر ثابت کریں ۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق کہا گیا ہے۔مگر مسلمان اس عمل کی انجام دہی میں کامل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تھا— اهلِ مغرب یعنی مؤیدِ دین سے نفرت۔
مسلمان جس مغرب سے متنفر ہوگئے تھے، وہ وہی مؤیدِ دین تھے جن کی پیشین گوئی حدیث میں کردی گئی تھی۔ مگر نفرت کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنے حامیوں سے بے خبر ہوگئے۔مسلمانوں کے اندر مغرب کے خلاف نفرت کلچر (anti-West culture) کا مزاج اتنا زیادہ بڑھا کہ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکے کہ اہل مغرب وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں پیشگی طور پردین کے مؤیدین کہا گیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے، جس کو ایک لفظ میں ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر یہ ویسٹوفوبیا اتنا زیادہ بڑھا ہواہے کہ مسلمان صرف نفرتِ مغرب کو جانتے ہیں ، وہ تائید مغرب سے بالکل بے خبر ہیں ۔شاید آج کی دنیا میں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملے گا، جو اس ویسٹوفوبیا یا مغرب سے نفرت کا شکار نہ ہوا ہو۔
اس کے نتیجہ کے طور پر یہ ہوا کہ مسلمان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی محرومی کے شکار ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں ویسٹوفوبیا کی بنا پر مسلمانوں کو دو بڑے نقصان اٹھانے پڑے۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس سے بڑی کوئی محرومی مسلم امت کے لیے نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا دعوتی مخاطب نہ بنا سکے۔ کیوں کہ نفرت اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جہاں نفرت ہوگی، وہاں دعوت کا ذہن نہیں ہوگا، اور جہاں دعوت کا ذہن ہوگا، وہاں نفرت کی نفسیات ختم ہوجائے گی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مغرب جدید تہذیب کا چیمپین تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان مغرب سے متنفر ہونے کی بناپر جدید تہذیب سے متنفر ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے ذریعہ جو نئے مواقع (opportunities) کھلے تھے، وہ مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس بنا پر مسلمان موجودہ زمانے میں ایک پچھڑاہوا گروہ (backward community) بن کر رہ گئے۔
امت مسلمہ کی ذمے داری
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (25:1)۔یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان (قرآن)اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے خبر دار کرنے والابنے۔قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ اس وقت پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآن سارے عالم میں پھیل جائےگا، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین پر بسنے والےہر مرد اور ہرعورت تک پہنچ جائے گا۔ یہی بات حدیثِ رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے: لا يبقى على ظهر الأرض بيت مدر، ولا وبر إلا أدخله الله كلمة الإسلام(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔یعنی زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا۔
یہ حدیثِ رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کےاعتبار سے ایک عالمی منصوبہ بندی کرے، اور مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے۔ یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔
اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے، جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے ۔ قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا مشن ہے، جو امت مسلمہ صرف اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی مشن میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں ۔ یہی بات مذکورہ حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے، جو بظاہر اپنے مادی محرکات (commercial interest)کے تحت ایک عمل کریں گے۔ مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹر بن جائیں گے۔
اس حدیث میں سیکولر مؤید (supporter) سے مراد وہی واقعہ ہے، جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب امکانی طور پر (potentially) قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔
مغربی تہذیب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ دنیا کا جغرافیہ پوری طرح ایک معلوم واقعہ بن گیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں ، جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچراور کانفرنس کلچرجیسی چیزیں آخری حد تک عام ہوگئیں ۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کي حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہلِ دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں ۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہلِ دین ہر قسم کے منفی خیالات کو چھوڑ کر اٹھیں ، اور خالص مثبت ذہن کے تحت قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں ۔ تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔ اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ کا مطلوب مشن آخری حد تک ممکن ہوچکا ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے ميں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔ آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی دعوتی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی ،جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔
مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں ، اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دینِ خداوندی کے لیےپوری طرح ایک موافق تہذیب ہے۔تاہم ہر دوسری چیز کی طرح اس تہذیب کے بھی مختلف پہلو ہیں ۔ ضرورت ہے کہ اس تہذیب کے غیر متعلق پہلو (irrelevant part) کو نظر انداز کرکے اس کے متعلق پہلو (relevant part) کو دیکھا جائے۔
اس مادی تہذیب کا بالواسطہ حوالہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:سَنُرِیهِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِهِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّہُ الْحَقّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّكَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ُ (41:53)۔یعنی مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ قوانین فطرت ہیں جو تخلیقی طور پر اس دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ ’’ہم نشانیاں دکھائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کچھ انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ فطرت کے مخفی قوانین (hidden laws of nature) کو دریافت کریں ، اور اس طرح دین خداوندی کی تائید (support) کے لیے ایک عقلی بنیاد (rational base)فراہم ہو۔ اس تہذیب نے انسانی دنیا اور مادی دنیا میں چھپی ہوئی جن حقیقتوں کو دریافت کیا ہے، وہ سب بلاشبہ دینِ حق کی فکری تصدیق کرنے والی ہیں ۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realization) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلیٰ ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) فراهم كيں ۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اہل دین کے لیےتائیدی عنصر (supporting factor)کی حیثیت رکھتی ہیں ، وہ اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھے، وہ اپنے آپ کومطلوبِ الٰہی کے مطابقـ ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔
سائنس کی شہادت
انسان کی تخلیق کا مقصد قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (51:56)۔ یعنی میں نے جنّ اور انسان کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ لیعبدون کی تفسیر صحابی عبد اللہ بن عباس (المجالسةوجواهر العلم، اثر نمبر 225)،اور ان کے شاگرد مجاہد تابعی نے لیعرفون سے کی ہے (وقال مجاهدإلا ليعبدونليعرفون)البحر المحيط، لأبی حيان الأندلسي، 9/562۔ یعنی اللہ کی عبادت کرنے کا مطلب ہے اللہ کی معرفت حاصل کریں ۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ابن جریج تابعی کے حوالے سے یہی بات نقل کی ہے۔قال ابن جريجإلا ليعرفون (تفسیر ابن کثیر، 7/425)۔ ابن جريج نے کہا تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں ۔ اس معرفت کا تعلق انسان سے ہے۔
انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ انسان کے اندر تصوراتی سوچ (conceptual thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان کے لیے معرفت کا تعین اسی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے انسان کے لیے معرفت کا معیار خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) ہے۔ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی سوچنے کی طاقت (thinking power) کو ڈیولپ کرے۔ یہاں تک کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ وہ سیلف ڈسکوری کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرلے۔
اس دریافت کے دو درجے ہیں ۔ پہلا درجہ ہے کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا، اور دوسرا درجہ ہے سائنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ پچھلے ہزارو ں سال سے انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے کامن سنس کو بے آمیز انداز میں استعمال کرے۔ وہ اپنی فطرت کو پوری طرح بیدار کرے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ وہ کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کی شعوری معرفت حاصل کرلے۔ اس دریافت کی صرف ایک شرط تھی، اور وہ ہے ایمانداری (honesty)۔ اگر آدمی کامل ایمانداری کی سطح پر جینے والا ہو تو یقینی طور پر کامن سنس اس کے لیے اپنے خالق کی دریافت کے لیے کافی ہوجائے گی۔
معرفت کی دوسری سطح ، سائنٹفک معرفت ہے۔ یعنی فطرت (nature) میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو جاننا، اور ان کی مدد سے اپنے خالق کی عقلی معرفت (rational realization)تک پہنچنا۔ سائنٹفک معرفت کے لیے ضروری تھا کہ آدمی کے پاس غور و فکر کے لیے سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ مجرد عقلی غور و فکر کے ذریعہ سائنٹفک معرفت کا حصول ممکن نہیں ۔ سائنٹفک معرفت تک پہنچناکسی کے لیےصرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ اس سائنٹفک ڈیٹا کے حصول کا واحد ذریعہ قوانین فطرت (laws of nature) کا علم ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کو قوانین فطرت کا علم حاصل نہ تھا۔ اس لیے خالق کی سائنسی معرفت بھی انسان کے لیے ممکن نہ ہوسکی۔
خالق کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو مینج کرتا ہے، یعنی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق مطلوب حالت تک پہنچاتا ہے۔ خالق اپنا یہ کام انسانی آزادی کو منسوخ کیے بغیر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ کام ہے، اور اس کو خالق کائنات ہی اپنی بر تر طاقت کے ذریعہ انجام دے سکتا ہے۔ ہمارا کام اس منصوبۂ خداوندی کو سمجھنا ہے، نہ کہ اس کے کورس کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ کیوں کہ وہ ممکن ہی نہیں ۔
قرآن کے ذریعہ اللہ تعالی نے بار بار اہل ایمان کو یہ بتایا تھا کہ کائنات انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ تم ان تسخیری قوانین کو دریافت کرو، تاکہ تم معرفت کے اس درجے تک پہنچ سکو، جس کو سائنسی معرفت کہا جاتا ہے۔ مگر اہل ایمان اس کام کو کرنےمیں عاجز ثابت ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی سنت کے مطابق اس کام کے لیے ایک اور قوم کو کھڑا کیا (محمد، 47:38) ۔ یہ یورپ کی مسیحی قوم تھی۔ایسا اس طرح ہوا کہ صلیبی جنگوں (Crusades) میں یورپ کی مسیحی قوم کو اتنی سخت شکست ہوئی کہ بظاہران کے لیےجنگ کا آپشن (option)باقی نہ رہا۔ اب عملاًان کےلیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کریں ، اوراپنی کوشش کسی دوسرےمیدان میں جاری رکھیں ۔ چنانچہ انھوں نے میدانِ جنگ کے بجائے قوانین فطرت (laws of nature) کے دریافت کی طرف بتدریج اپنی کوششوں کو ڈائيورٹ(divert) کردیا۔
اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (وفات1642ء) کو جديد سائنس كا باني(the father of modern science) کہاجاتاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہی وہ پہلا سائنس داں تھا، جس سے ماڈرن سائنس کا سفر باقاعدہ صورت میں شروع ہوا۔ یہ عمل تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ بیسویں صدی میں انسان کو وہ تمام سائنٹفک ڈیٹا حاصل ہوگئے، جو خالق کو سائنسی سطح یا ریشنل لیول پر دریافت کے لیے ضروری تھے۔
اللہ نے جس عالم کو تخلیق کیا، اس کے ہر جزء پر خالق کی شہادت ثبت (stamped) ہے۔ پھر اس نے اس علم سے فرشتوں کو واقف کرایا۔ اس کے بعد اس نے اس حقیقت کو چھپے طور پر (hidden form)اس کائنات میں رکھ دی، جس کو انسان خود سے دریافت کرسکتا تھا۔ یہی وہ چھپی حقیقت ہے، جودریافت کے بعد ماڈرن سائنس کےنام سے جانی جاتی ہے۔
اہل اسلام کا کنٹری بیوشن
اب اہل ایمان کے لیے جو کرنے کا کام تھا ، وہ یہ تھا کہ وہ سائنٹفک معلومات کو اسلام کے لیے استعمال کریں ۔وہ سائنٹفک معلومات (scientific knowledge) کو استعمال کرکے اپنی معرفت کو نئی مطلوب سطح تک پہنچا دیں ، اور دوسروں کے لیے بھی اس معاملے میں رہنمائی کا رول ادا کریں ۔ مگر تاریخ دیکھتی ہے کہ اہل اسلام اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ بیسویں صدی کے پورے دور میں پوری مسلم دنیا میں بظاہر ایک شخص بھی نظر نہیں آتا جس کو اس کام کا واضح شعور ہو، اور اس نے اس کام کو مطلوب صورت میں انجام دیا ہو۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان اس عظیم امکان سے مکمل طور پر بے خبر رہے۔ انھوں نے اس حقیقت کو جانا ہی نہیں کہ اللہ نے تاریخ کو مینج کرکے اس درجہ تک پہنچایا ہے کہ فطرت میں چھپی ہوئی آیات اللہ (signs of God) دریافت ہوکر سامنے آگئی ہیں ۔ اس دریافت کا کام اہل مغرب نے نہایت اعلیٰ سطح پر انجام دے دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس سائنسی دریافت کوبھر پور طور پر دین خداوندی کی تائید کے لیے استعمال کریں ۔ اس معاملے میں اب عملاً مسلمانوں کا کام بنیادی طور پر سيكنڈری ہے، نہ کہ پرائمری، يعني دريافت شده آيات الله كے ذريعه دينِ خداوندي كو مدلل كرنا، اور اقوام عالم تك پهنچانا۔
ليكن اس معاملے میں غالباًامت کی سطح پر مسلمانوں کے کسی براہ راست کنٹری بیوشن کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ بظاہر چند افراد نے اس موضوع پر کچھ کام کیا ہے، لیکن وہ اصل مطلوب کی حیثیت سے کوئی قابل ذکر کام نہیں نظر آتا ہے۔ البتہ کچھ مسلم مترجمین نے مسیحی اہل علم کی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں ، جو یقینا اس معاملے میں اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر کتاب وہ ہے جو چالیس مغربی سائنس دانوں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں مندرجہ ذیل ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe (G. P. Putnam's Sons, 1958)
یہ کتاب اس موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہےاللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم الدمرداش عبد المجيد سرحان، مؤسسة الحلبى وشركاه للنشر والتوزيع، 1968)۔راقم الحروف اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسی کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں ۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا، وہ پہلی بار قاہرہ اور كويت سے 1976میں چھپی ۔ یہ 196 صفحات پر مشتمل تھی۔اس کے بعد اس کے بہت سے ایڈیشن بار بار شائع ہوتے رہے ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، گاڈ ارائزز (God Arises)کے نام سےڈاکٹر فریدہ خانم نے کیا۔ یہ کتاب 1987 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔
مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بلاشبہ قابل قدر کام کیا ہے۔ انھوں نے اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں ، جو بلاشبہ ہمارے لیے تائیدی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام یہاں لکھے جاتے ہیں :
The Intelligent Universe by Fred Hoyle, (Holt, Rinehart, and Winston, 1984)
The Cosmic Detective: Exploring the Mysteries of Our Universe by Mani Bhaumik, Mani (Penguin Books India, 2008)
Science And the Unseen World by Arthur Stanley Eddington (Kessinger Publishing, 2004)
New Proofs for the Existence of God: Contributions of Contemporary Physics and Philosophy by Robert J. Spitzer, (2010)
How to Know God Exists: Scientific Proof of God, by Sr Ray Comfort (2008)
اس معاملے کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اس بے خبری کا سبب وہی عمومی فتنہ تھا جس کو حدیث میں فتنۃ الدہیما ء (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4242) کہا گیا ہے۔ فتنۃ الدُہیماء سے مراد غالباً نفرتِ مغرب کا عمومی فتنہ ہے۔ اس فتنہ کو زیادہ صحیح طور پر ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ یہ پوری اسلامی تاریخ کی سب سے زیادہ تعجب خیز حقیقت ہے کہ اللہ رب العالمین نے جب سائنسی ترقی کے ذریعہ اعلیٰ معرفت کا دروازہ کھولا تو مسلمان اس حقیقت سے پوری طرح بے خبر ہو کر رہ گئے۔
حدیث میں آیا ہےحبك الشيء يعمي ويصم (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 5130)۔ يعني تمھارا كسي چيز سے محبت كرنا، تم كو اندھا اور بهرا بنا ديتاهے۔ اس قول کو توسیع دے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغضك الشيء يعمي ويصم (تمھارا کسی چیز سے نفرت کرنا تم کو اندھا اور بہرا بنادیتا ہے)۔ موجود ہ زمانے کے مسلمانوں میں بعض سیاسی اسباب سے اہل مغرب سے نفرت پیدا ہو گئی۔ اس بغض کے نتیجہ میں وہ اہل مغرب کے کنٹری بیوشن کو مثبت طور پر جاننے سے محروم ہوگئے۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت مغربی تہذیب سے مادی فائدہ اٹھایا، لیکن وہ مغربی تہذیب کے اس پہلو سے بے خبر ہوگئے کہ مغربی تہذیب حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔ اس عمومی نفرت کا سب سے بڑا نقصان خود مسلمانوں کو ہوا۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ اپنے اس اہم رول سے بے خبر ہوگئے کہ مغرب کی دریافت کردہ تائیدات کو لے کر وہ اسلام کی تبیین اعلیٰ عقلی سطح پر کرسکیں ، اور اس طرح وہ اہم رول ادا کرسکیں جس کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔
حق کیا ہے
حق کیا ہے۔ حق اصلاً توحید کا دوسرا نام ہے۔ اس کے مقابلے میں جو چیز باطل ہے، وہ اصلاً شرک ہے۔ شرک یہ ہے کہ آدمی خالق کو چھوڑ کر مخلوقات کی پرستش کرنے لگے،یعنی فطرت کی پرستش (nature worship) ۔ خالق بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ اس لیے انسان نے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش شروع کردی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو(41:37)۔
مظاہر فطرت (nature) دکھائی دینے والی چیزیں ہیں ۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستارے انسان کو نمایاں نظر آتے تھے، ان کے بارے میں انسان کے اندر استعجاب (sense of awe) پیدا ہوا۔ اس استعجاب کے تحت انسان نے ان کو برتر سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح قدیم زمانے میں مظاہر فطرت کو معبود مان کر ان کی پرستش کا کلچر دنیا میں رائج ہوا۔ یہ صورت حال پوری تاریخ میں برابر جاری رہی۔ خدا کے پیغمبر مسلسل طور پر خدا کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے کہ مخلوق کو چھوڑو، اور خالق کی عبادت کرو۔ مگر انسان ایسا نہ کرسکا۔ اسلام نے خالق کی پرستش کے اس کلچر کا آغاز کیا، اوراس کے بعد ماڈرن سائنس نےاس عمل کی تکمیل کی۔ماڈرن سائنس نے مشاہداتی سطح پر مظاہر فطرت کو معبودیت کے مقام سے ہٹا کر مخلوق کے مقام پر پہنچادیا ۔
یہ عمل سترھویں صدی عیسوی میں اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) کی ریسرچ کے ذریعہ شروع ہوا، جب کہ گلیلیو گلیلی نےمشاہداتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ زمین شمسی نظام کا سینٹر نہیں ہے، بلکہ وہ سورج کا ایک سیارہ (satellite) ہے۔ اس کے بعد 1969 میں نیل آرم اسٹرانگ ( 1930-2012– ) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا۔ اس نے بتایا کہ چاند کوئی روشن چیز نہیں ، وہ بے نور پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی اپنی نہیں ، وہ سورج کے ریفلیکشن (reflection)سے چمکتا ہے۔ اس کے بعد انسان نے بڑی بڑی رصدگاہیں بنائیں ، اور بڑے پیمانے پر ریسرچ کیا۔ اس کے ذریعہ حتمی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ ستارے جو آسمان میں نظر آتے ہیں ، وہ سب کے سب آگ کے ٹکڑے ہیں ، اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔
اس طرح سائنسی ریسرچ نے مشاہداتی بنیاد پر یہ بتایا کہ خلا (space) میں جتنے بھی اجسام (bodies) ہیں ، وہ سب کے سب یا تو آگ کے انگارے ہیں ، یا پتھر کے ٹکڑے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔ مظاہر فطرت کی معبودیت کا تصور تمام تر توہم پرستی (superstition) کی بنیاد پر قائم تھا۔ سائنس نے توہم پرستی کے دور کو مکمل طور پر ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مظاہر پرستی کا دور علمی طور پر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ یہی وہ بات ہے، جو قرآن میں آفاق کی آیات کے ذریعے بتائی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں انفس کی نشانیوں کے ذریعہ حق کی تبیین ہوگی۔انفس سے مراد انسان ہے ۔ آیاتِ انسان سے کس طرح حق کی تبیین ہوتی ہے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث میں ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایاخلق الله آدم على صورته (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک ایسا وجود ہے جس کا مطالعہ کرکے خالق کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صلاحتیں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں ، جو خالق کے اندر اعلیٰ سطح پر موجود ہیں ۔ کائنات پوری کی پوری ایک مادی کائنات ہے۔ مگر کائنات کے اندر ایک ہستی ایسی پائی جاتی ہے، جس کو انسان کہا جاتاہے۔ انسان کے اندر دماغ (Mind) ہے، انسان دیکھنے اور سننے کی صلاحیت رکھتاہے، وہ اپنے ارادے سے کام کرتا ہے، انسان واحد مخلوق ہے جس کے اندر مَیں (I) کا شعور پایا جاتاہے، وغیرہ۔ غالباً اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےبَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (75:14)۔ یعنی انسان اپنے وجود کو دریافت کرکے خالق کی دریافت تک پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پر فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ (René Descartes) نے انسان کے وجود پر غور کیا۔ اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں ، اس لیے میں ہوں :
I think, therefore, I am
اس اصول کی توسیع کرتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ میں ہوں اس لیے خدا بھی موجود ہے
I am, therefore, God is
اکیسویں صدی
خالق کی تخلیقی اسکیم (creation plan) ہمیشہ سے ثابت شدہ حقیقت تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا ہے۔ جب کہ نظری حقیقتیں ، مادی حقائق کی روشنی میں قابل فہم (understandable) بن گئیں ۔ مثلا غیب پر ایمان قدیم زمانے میں ایک عقیدہ کی بات تھی۔ موجودہ زمانے میں کوانٹم فزکس (quantum physics) کی دریافت کے بعد یہ صرف نظری بات نہ رہی، بلکہ پرابیبیلٹی (probability) کے درجے میں تقریباً قابل یقین حقیقت کے درجہ تک پہنچ گئی۔ پرابیبلٹی جدید سائنس کا ایک اہم اصول ہے۔ کہا جاتا ہے:
Probability is less than certainty, but more than perhaps
موجودہ زمانے میں جن چیزوں کو سائنسی حقیقت (scientific fact) کہا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک پرابیبیلٹی کے درجے میں مسلمہ حقیقت بنی ہیں ، نہ کہ مشاہدہ کے درجے میں ۔ یہی معاملہ مذہبی عقائد یاتصورات کا ہے۔ اِس زمانے میں مذہبی تصورات اسی تسلیم شدہ درجے میں ثابت شدہ بن چکے ہیں ، جس درجے میں مسلّمہ سائنسی حقائق ۔
اہل علم کی شہادت
زیر نظر موضوع سے متعلق قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (3:18)۔ یعنی اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور فرشتے اور اہل علم میں سےجو انصاف پر قائم ہیں (وہ بھی یہی گواہی دیتے ہیں کہ) اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہ غالب ہے حکمت والا ۔
اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی الہٰ نہیں — اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے ہر جزء پر خالق کی اسٹيمپ (stamp) لگی ہوئی ہے۔ تخلیق (creation) کا مطالعہ باعتبار حقیقت خالق کے عمل (act) کا مطالعہ ہے۔ تاہم اس معاملے میں سائنس کے آغاز پر ایک نا موافق حادثہ پیش آیا۔ وہ سائنٹفک کمیونٹی اور کرشچن چرچ کے درمیان ٹکراؤ تھا۔ اس کی تفصیل درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے
History of the Conflict Between Religion and Science by John William Draper (3rd Editon, 1875, New York, pp. 373)
یہ تصادم سائنٹفک کمیونٹی اور کرسچن چرچ کے درمیان تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ سائنٹفک کمیونٹی نے نیچر کے مطالعہ (باعتبار حقیقت تخلیق کےمطالعہ) میں تخلیق اور خالق کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کردیا۔ وہ تخلیق کا مطالعہ خالق کے ریفرنس کے بغیر کرنے لگے۔ اس طرح سائنس بظاہر ایک سیکولر سبجکٹ بن گیا۔ حالاں کہ باعتبار حقیقت وہ مکمل طور پر ایک مذہبی سبجکٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس کے بعد دوسری غلطی مسلم علماء نے کی۔ انھوں نے سائنس کو ایک مادی سبجکٹ کا درجہ دے دیا، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ حالاں کہ مسلم علماء کو کرنا یہ تھا کہ وہ اس ڈی لنکنگ کو ختم کردیں ۔ وہ دنیا کو یہ بتائیں کہ سائنس جس مطالعے کو نیچر کا مطالعہ کہہ رہی ہے، وہ در اصل تخلیق کا مطالعہ ہے، اور تخلیق کا مطالعہ اپنے آپ تخلیق کے خالق کامطالعہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں اولو العلم سے مراددین کے علماء نہیں ہیں ، بلکہ طبيعیاتی سائنس کے علماء ہیں ۔اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا۔ اس کو سائنس کا دور (age of science) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں خالص عقلی اصولوں کی روشنی میں مادی دنیا کا مطالعہ شروع ہوا۔ یہ مطالعہ تیزی سے بڑھا، یہاں تک کہ سائنس سب سے بڑا علمی شعبہ بن گیا۔ اس سائنسی مطالعے نے فطرت کے بہت سے وہ اسرار دریافت کیے، جو اب تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ دریافتیں تخلیقی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اس بنا پر ان کا تعلق براہ راست طور پرخالق کی معرفت سے تھا۔
سائنسی علوم کا مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی معرفت کا مطالعہ تھا۔ مگر سائنسدانوں نے اس مطالعے کو مکمل طور پر ایک سیکولر سبجکٹ کے طور پر کیا۔ تقریباً چار سو سال کے سائنسی مطالعے کے نتیجے میں جو سائنسی معلومات انسان کے علم میں آئی ہیں ، وہ سب کي سب معرفت خداوندی کا دفتر ہیں ۔ لیکن سائنسی دریافتوں کا یہ پہلو ابھی تک چھپا ہوا تھا۔ اس معاملے میں اب اہل اسلام کا رول یہ ہےکہ وہ اس کے ریفرنس(reference) کو بدلیں ۔علوم فطرت کی جو دریافتیں اب تک سیکولر دریافتوں کی حیثیت سے سمجھی جاتی رہی ہیں ، ان کو رب العالمین کی دریافت کا درجہ دے دیں ۔ وہ سائنس کو اسلام کے علم کلام کی حیثیت سے لوگوں کے سامنےلائیں ۔ان دریافتوں کی بنیاد پر وہ اسلام کا نیا علم کلام مدون کریں ۔
سائنس اور عقيدهٔ خدا
1927 ميں بلجيم كے ايك سائنس داں جارجز ليمٹري (Georges Lemaitre) نے بگ بينگ (Big Bang) كا نظريه پيش كيا۔اِس نظريے پر مزيد تحقيق هوتي رهي، يهاں تك كه اِس كي حيثيت ايك مسلّمه واقعه كي هوگئي۔ آخر كار 1965 ميں بيگ گراؤنڈ ريڈي ايشن (background radiation) كي دريافت هوئي۔ اِس سے معلوم هوا كه كائنات كے بالائي خلا ميں لهر دار سطح (ripples) پائي جاتي هيں ۔ يه بگ بينگ كي شكل ميں هونے والے انفجار كي باقيات هيں ۔ اِن لهروں كو ديكھ كر ايك امريكي سائنس داں جويل پرائميك (Joel Primack) نے كها تھا كه — يه لهريں خدا كے هاتھ كي تحرير هيں
The ripples are no less than the handwriting of God.
جارج اسموٹ 1945 ميں پيداهوا۔ وه ايك امريكي سائنس داں هے۔ اس نے 2006 ميں فزكس كا نوبل پرائز حاصل كيا۔ يه انعام اُن كو ’كاسمك بيك گراؤنڈ ايكسپلورر، كے ليے كام كرنے پر دياگيا۔ 1992 ميں جارج اسموٹ نے يه اعلان كيا كه بالائي خلا ميں لهردار سطحيں پائي جاتي هيں ۔ يه بگ بينگ كي باقيات هيں ۔ اُس وقت جارج اسموٹ نے اپنا تاثر اِن الفاظ ميں بيان كيا تھا — — يه خدا كے چهرے كو ديكھنے كے مانند هے:
George Fitzgerald Smoot III (born February 20, 1945) is an American astrophysicist and cosmologist. He won the Nobel Prize in Physics in 2006 for his work on the Cosmic Background Explorer. In 1992 when George Smoot announced the discovery of ripples in the heat radiation still arriving from the Big Bang, he said it was “like seeing the face of God.” (God For The 21st Century, Templeton Press, May 2000)
جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کارفرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طور پر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتا ہے۔ کائنات میں ان گنت چیزیں ہیں ۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind)کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے۔اس موضوع پر اب بہت زیادہ لٹریچر تیار ہوچکا ہے، جس کو انٹرنیٹ پر یا لائبریری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم جس میں ہماری زمین واقع ہے، وہ ایک بڑی کہکشاں (galaxy)کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہمارا شمسی نظام کہکشاں کے بیچ میں نہیں ہے، بلکہ اس کے کنارے واقع ہے۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم محفوظ طور پر زمین پر زندگی گزاریں ، اور یہاں تہذیب (culture) کی تعمیر کریں
The centre of the galaxy is a very dangerous place. Being in the outskirts of the galaxy, we can live safely from the hectic activities at the centre.
اس حکیمانہ واقعہ کا اشارہ قرآن میں موجود تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں ، جو گویا قرآن کے اجمالی بیان کی تفسیر ہے۔جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔
الہامی علم کی ضرورت
اللہ تعالی نے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کی ہدایت کا ا نتظام کیا۔ پیغمبروں پر وحی آتی تھی، اور پھر وہ لوگوں کو اس علم سے واقف کراتے تھے۔ پیغمبرانہ رہنمائی کی ضرورت کیوں ہے۔ اس کا جواب قرآن میں ان الفاظ ميں دیا گیا تھا وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (17:85)۔ یعنی اور وہ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ کہو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اس آیت میں روح سے مراد وحی ہے۔ اس آیت میں وحی کی ضرورت پر یہ دلیل دی گئی ہے کہ انسان کو تھوڑا علم دیا گیا ہے، وہ خود سے اپنی ہدایت کو دریافت نہیں کرسکتا۔ اس لیے وحی کے ذریعہ اس کو ہدایت نامہ بھیجا جاتا ہے، تاکہ وہ کامل رہنمائی کی روشنی میں دنیا میں اپنی زندگی گزار سکے۔ قرآن کا یہ بیان بظاہر صرف ایک بیان (statement) ہے۔ اس بیان کی عقلی تفسیر نزول قرآن کے وقت موجود نہ تھی۔ بعد کو جب سائنس کا علم وجود میں آیا، اور زندگی اور کائنات کے بارے میں سائنسی مطالعہ شروع ہوا تو ابتداء ًانسان نے سمجھا کہ اب ہمیں پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت نہیں ۔ اب انسان خود اپنے علوم کے ذریعہ اپنے لیےکامل رہنمائی کو دریافت کرسکتا ہے۔ یہی وہ ذہن تھا، جس کے تحت برٹش فلسفی جولین ہکسلے (Julian Huxley) نے ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل یہ تھا
Man Stands Alone (1941)
مگر کئی سو سال کی تحقیق کے بعد خود سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا کہ سائنس کے ذریعہ انسان کے لیے کامل ہدایت نامہ دریافت نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کافی ہوگا
The Limitations Of Science by J.W.N. Sullivan ( 1973)
اس کتاب میں مصنف نے تجزیہ کرکے بتایا ہے کہ سائنس کی محدودیت كيا ہے۔ سائنس سچائی کا صرف جزئی علم دے سکتی ہے
Science gives us but a partial knowledge of reality.
اس تجربے کے بعد اب انسان مجبور ہے کہ وہ پیغمبر کی اہمیت کو تسلیم کرے، اور یہ مانے کہ اس معاملے میں پیغمبر کے سوااس کے پاس کوئی اور بدل نہیں ہے۔
جنت انسان کا اصلی ہیبیٹاٹ (habitat)
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک ایسی دنیا کا طالب ہے، جہاں وہ پر امن (peaceful) انداز میں رہ سکے۔ انسان کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایک ایسی دنیا کی تلاش میں رہا ہے۔ لیکن عملاً وہ اس دنیا کو کبھی پا نہ سکا۔ موجودہ زمانے میں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ یہ ممکن ہوا کہ انسان مکمل تہذیب (civilization) کو وجود میں لائے۔ چنانچہ ساری کوششوں کے بعدیہ ممکن ہوگیا کہ انسان ایک کامل تہذیب کو وجود میں لائے۔ مگر جب یہ تہذیب عملاً بن چکی، تو معلوم ہوا کہ وہ انسان کے لیے صرف ایک ناقص تہذیب ہے۔ قرآن کا یہ بیان تجرباتی سطح پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن گیا وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (41:31)۔ يعني اور تمھارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمھارا دل چاہے اور تمھارے لیے اس میں ہروہ چیز ہے جو تم طلب کروگے۔
پہلے زمانے میں انسان صرف ضرورت (necessity) پر زندگی گزارتا تھا۔ پھر سہولت (comfort) کا دور آیا۔ اس کے بعد تہذیب نے لگزری (luxury) کے بے شمار سامان انسان کے لیے فراہم کردیے۔ لیکن کوئی بھی چیز انسان کے لیے ذہنی سکون (peace of mind) کا ذریعہ نہ بن سکا۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک آئڈیل دنیا (perfect world) کی تلاش میں ہے۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ موجودہ دنیا کی محدودیت کی بنا پر یہاں کامل دنیا کی تعمیر ممکن نہیں ۔ عام تصور کے مطابق، تہذیب کا یہ سفر ابھی جاری تھا۔ امریکا کے رائٹر الوین ٹافلر (Alvin Toffler) نے ایک کتاب چھاپی۔ اس کتاب کا ٹائٹل تھا
Future Shock (1970)
اس کتاب میں انھوں نے یہ پیشین گوئی کی کہ انڈسٹریل ایج(industrial age)اب سپر انڈسٹریل ایج (super-industrial age)کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مستقبل میں ایک نئی ترقی یافتہ دنیا وجود میں آئے گی، جب کہ انسان کے لیے اس کی طلب کو حاصل کرنا ممکن ہوجائے۔ لیکن اس کے بعد ہی سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ موجودہ زمین اپنے کاؤنٹ ڈاؤن (countdown) کے آخری مرحلے میں پہنچ رہی ہے۔ا کیسویں صدی کے آخر تک موجودہ زمین انسان کے لیے قابل رہائش (habitable) نہیں رہے گی۔ اس دریافت کے بعد اب یہ ناممکن ہوگیا کہ زمین کی بنیاد پر کوئی جنت جیسی اعلیٰ دنیا تعمیر کی جاسکے۔
مشہور برطانی سائنسداں ، اسٹیفن ہاکنگ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ اب انسان کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اسپیس کالونی (space colony) بنانا چاہیے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تجویز ایک سائنس فکشن سے زیادہ کچھ نہیں ۔
اسی طرح سائنس نے دریافت کیا کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک کامل دنیا کا متلاشی ہے، لیکن موجودہ دنیا میں یہ کامل دنیا بننا ممکن نہیں ۔ یہ دریافت بالواسطہ طور پر جنت جیسی ایک دنیا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ کیوں کہ جس دنیا میں ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر پائی جاتی ہو، وہاں جنت جیسی ایک دنیا کا ہونا، اپنے آپ میں ایک ثابت شدہ بات ہے۔ جنت اگر دکھائی نہیں دیتی تو اس کو نہ دکھائی دینے والی دنیا میں موجود ہونا چاہیے۔ جنت انسان کی طلب کا مطلوب ہے، اور کائنات کا مطالعہ جس بامعنی دنیا (meaningful world) کی نشاندہی کررہا ہے، اس میں علمی طور پر یہ ناممکن ہے کہ طلب تو پائی جائے، لیکن مطلوب موجود نہ ہو۔ یہ دریافت جنت کی موجودگی کا ایک استنباطی ثبوت (inferential proof) ہے۔
سائنس کا نظریاتی کنٹری بیوشن
اسلام کے لیے سائنس کا ایک کنٹری بیوشن وہ ہے، جس کو نظریاتی کنٹری بیو شن کہا جاسکتا ہے۔ پچھلے تمام زمانوں میں قوموں کے اندر توہماتی طرز فکر کا رواج تھا۔ لوگوں کے اندر مبنی بر حقیقت سوچ موجود نہ تھی۔ توہماتی عقائد کے تحت لوگ طرح طرح كي بے بنیاد رائیں بنائے ہوئے تھے۔
اس کی ایک مثال گرہن کا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آسمان میں سورج گرہن یا چاند گرہن کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس معاملے میں لوگ توہماتی عقیدہ بنائے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر اس قسم کا ایک واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا تھا۔ یہ سورج گرہن تھا، جو 10 ہجری میں پیش آیا تھا۔اسی تاریخ کو پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ قدیم زمانے میں یہ مانا جاتا تھا کہ گرہن اس وقت پڑتا ہے، جب زمین پر کوئی سنگین واقعہ پیش آئے۔ چنانچه مدینہ کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چوں کہ آج پیغمبر کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے، اس لیے یہ گرہن پڑا ہے۔
پیغمبر اسلام کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ایک خطبہ دیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں (آيتان من آيات الله)، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1052)۔
پیغمبر اسلام نے اپنے اس خطاب میں گرہن کو خدا کی ایک نشانی (sign of God) بتایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرہن کا واقعہ کسی زمینی حادثہ کی بنا پر پیش نہیں آتا۔ بلکہ وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے ابدی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی مطالعہ کے تحت متعین طو رپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ گرہن کا واقعہ کیوں پیش آتا ہے
An eclipse is a well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes in the vast space at a particular point in time.
یہی معاملہ شرک کا ہے۔ شرک نام ہے خالق کو چھوڑ كر مخلوق کی پرستش کرنا۔ اسی کو انیمزم (animism) کہا جاتاہے۔ انیمزم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہےفوق الفطری طاقت میں یقین رکھنا، جو مادی کائنات کو آرگنائز کرتے ہیں ،اور زندگی دیتے ہیں
The belief in a supernatural power that organizes and animates the material universe.
شرک دراصل تمام تر توہمات پر مبنی ایک عقیدہ ہے۔ اسی فکرکے تحت قدیم دنیا میں فطرت کی پرستش (nature worship) کا عقیدہ پیدا ہوا۔ فطرت کے تمام مظاہر انسان کے لیے پرستش کا موضوع (subject) بن گئے۔ مثلا سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، درخت ،وغیرہ۔قدیم زمانے میں پوری دنیا میں شرک چھایا ہوا تھا۔ اسلام کا مشن یہ تھا کہ اس توہماتی عقیدہ کا غلبہ ختم کردیا جائے۔ اصولی طور پر اسلامی تحریک نے اس کو انجام دیا۔ اسلام نے اعلان کیا کہ اس قسم کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔یہاں تک کہ دنیا میں شرک کا عقیدہ علمی طورپر ایک بے بنیاد عقیدہ بن کر رہ گیا۔
اس معاملے میں سائنس کا کنٹری بیوشن بہت اہم تھا۔ سائنس کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے مشاہداتی سطح (demonstrative level)پر ثابت کیا کہ یہ ایک غیر عقلی اور ایک بے اصل عقیدہ ہے۔ سائنس نے مشاہداتی سطح پر یہ ثابت کیا کہ پوری مادی دنیا ایٹم کا مجموعہ ہے، اور ایٹم کائنات کی مادی اکائی ہے۔ ایٹم نہ کوئی جاندار چیز ہے، اور نہ اس کے اندر کوئی فوق الفطری طاقت موجود ہے۔ مثال کے طور انسان قدیم زمانے سے چاند کی پرستش کرتا تھا، کیوں کہ اس نے اس کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔ سائنس نے پہلے یہ ثابت کیا کہ چاند کوئی روشن کرہ نہیں ، بلکہ وہ غیر روشن پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی سورج کی روشنی کا ریفلیکشن ہے۔ یہ نظریہ 20 جولائی 1969 کو آخری طور پر بے بنیاد ثابت ہوگیا، جب کہ امریکی اسٹرانومر نیل آرم اسٹرانگ (1930-2012) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا، اور اس پر اپنا قدم رکھ دیا۔
20جولائی1969 کی رات کو راقم الحروف کو کسی وجہ سے ایک اخبار کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت خبریں آرہی تھیں کہ کس طرح انسان چاند کی سطح پر پہنچ گیا۔ میری ملاقات ایک نیوز ایڈیٹر سے ہوئی۔ انھوں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے نہایت جوش کے ساتھ کہا کہ تھریلنگ (thrilling)خبریں آرہی ہیں ۔ میرے دماغ میں آیا کہ یہ تھریلنگ خبریں نہیں ہیں ، بلکہ ایک عجیب حقیقت کے اعلان کی خبریں ہیں ، وہ یہ کہ چاند کوئی دیوتا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بے جان مادہ ہے۔ یہ در اصل چاند کا خالق ہے جو چاند کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔ آج شرک کا عقیدہ اصولی اعتبار سے آخری طور پر باطل ہو کر رہ گیا ہے۔
اہل ایمان، اہل تائید
پیغمبر اسلام کو اللہ نے اپنا آخری نبی (الاحزاب، 33:40)بنا کر بھیجا۔ نبی کی حیثیت سے آپ دنیا میں 23 سال رہے۔ آپ آخری نبی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر نبیوں کی فہرست ختم ہوگئی، لیکن آپ کی پیغمبرانہ رہنمائی قیامت تک جاری رہے گی۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ آپ کے بعد ایک ایسا عمل (process) جاری ہو، جو پوری تاریخ انسانی کے لیے رہنمائی کا کام کرتا رہے۔
پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی تبلیغ کے تحت آپ کے اصحاب کی جماعت (ٹیم) بنی۔ پھر یہ مقدر کردیا گیا کہ اصحاب رسول کے بعد متبعین رسول ہر دور میں پیدا ہوں ، اور وہ پیغمبر کی رہنمائی کو ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں جاری رکھیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اہل ایمان کہا جاتا ہے۔
یہ کام بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ اہل ایمان شاید اس کام کو تنہا انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اس لیے اللہ نے ان کے ساتھ اہل تائید کا گروہ کھڑا کردیا۔ یہ گروہ ہر دور میں اپنا تائیدی رول ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن بعد کے زمانہ میں تائید کا یہ کام بہت زیادہ بڑا بننے والا تھا۔ تائید کا یہ کام درحقیقت اہل ایمان کو مادی بنیاد فراہم کرنے کے ہم معنی تھا۔ اہل ایمان شاید اپنی آخرت پسندی کی بنا پر اس مادی بنیاد کو بطور خود بنانے کے قابل نہ تھے۔ اس لیے بعد کے دور میں تائید کے اس کام کے لیے زیادہ بڑے درجے کا اہتمام کیا گیا۔ اہل ایمان کے لیے دوسروں کی طرف سے یہی تائید کا معاملہ تھا، جس کو پیغمبر نے پیشگی طور پر بتا دیا تھا۔ پیشین گوئی کی یہ روایات حدیث کی اکثر کتابوں میں مستند طور پر موجود ہیں ۔
اہل ایمان کے لیے دوسروں کی تائید کا یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے اللہ نے پوری تاریخ کو مینج (manage) کیا۔ 12 ویں اور 13 ویں صدی میں جو صلیبی جنگیں ہوئیں ، ان میں مسلم سلطنتیں اور مسیحی سلطنتیں بہت بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں ۔ اس ٹکراؤ میں مسیحی قوموں کو اتنی بڑی شکست ہوئی کہ ان کے لیے جنگ کا آپشن ہی ختم ہوگیا۔ اس طرح حالات کے دباؤ نے یورپ کی مسیحی قوموں کو جنگ کے میدان سےہٹاکر سائنسی تحقیق کے میدان کی طرف موڑ دیا ۔ اس طرح اہل مغرب کے درمیان فطرت (nature) کی دریافت کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔یہ کئی سو سال تک برابر جاری رہا۔ یہاں تک کہ اہل مغرب نے فطرت کے قوانین (laws of nature) کے ذریعہ اس جنگ کو امن کے میدان میں دوبارہ جیت لیا، جو اس سے پہلے وہ مسلح جنگ کے میدان میں ہار چکے تھے۔
قوانین فطرت کی دریافت کے میدان میں اہل مغرب کامیاب ہوئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار ترقی کا نیا دور پیدا کردیا، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔اپنی ان کامیابیوں کے ذریعہ اہل مغرب فطری طور پرپوری دنیا کے قائد (leader) بن گئے۔ سیاسی معنوں میں نہیں ، بلکہ غیر سیاسی معنوں میں ۔ اہل مغرب کی ترقی مذہبی ترقی نہیں تھی، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے سیکولر ترقی تھی۔ اس ترقی میں فطری طور پر ہر قوم کو حصہ ملا، اور اہل ایمان کو بھی۔ اس طرح ایسا ہوا کہ اہل ایمان کو کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر اہل مغرب کی سیکولر تائید (secular support) مل گئی۔ اس طرح اہل ایمان اس قابل ہوگئے کہ وہ دور جدید میں پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو دوبارہ غیر سیاسی طور پر قائم کرسکیں ، جس کو وہ پچھلی تاریخ میں سیاسی طور پر قائم کیے ہوئے تھے۔
اہل مغرب کی یہ سیکولر تہذیب بھی تاریخ کا وہ انقلابی واقعہ ہے، جس کو حدیث میں غیر اقوام کے ذریعہ اہل اسلام کی تائید (support) قرار دیا گیا ہے(المعجم الکبیر، حدیث نمبر 4640)۔ اہل مغرب نے پیغمبر اسلام کے دین کی تائید میں جو کارنامے انجام دیے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست بنانا مشکل ہے۔ مثلاً اہل مغرب کے ذریعہ لائے ہوئے انقلاب کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ اہل اسلام کو عالمی مواصلات (global communication) کا عظیم تحفہ ملا۔
اہل مغرب نے ہوائی جہاز رانی (aviation) کا عالمی نظام قائم کرکے اسلامی دعوت کو ایک نئے دور میں پہنچادیا۔ اہل مغرب نے عرب دنیا کے نیچے موجود پٹرول کو دریافت کیا، اور پھر اس کو کمرشیلائز کرکے اہل اسلام کو ایک نئی طاقتور معاشی بنیاد فراہم کردی۔ اہل مغرب نے پہلی عالمی جنگ، اور دوسری عالمی جنگ کے تجربات کے بعد اقوام متحدہ (UNO) قائم کیا، جس کے ذریعہ پہلی بار ایسا ہوا کہ عالمی امن کے تصور نے یونیورسل نارم (universal norm) کی حیثیت اختیار کرلی۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بارجمہوریت (democracy) کا نظام قائم کیا، جس نے تاریخ میں پہلی بار پولٹیکل پاور اور مواقع (opportunities) کو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اب پولیٹکل رولر کے پاس صرف ایڈمنسٹریشن کا شعبہ رہ گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام شعبے ہر انسان کے لیے آزادانہ طور پر کھل گئے۔ اس طرح اہل اسلام کو موقع مل گیا کہ وہ بلاروک ٹوک دینِ خداوندی کی اشاعت کی عالمی منصوبہ بندی کرسکیں ۔ وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ اپنا نان پولیٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کرسکیں ۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بار پرنٹنگ پریس کا پورا نظام قائم کیا، جو اسلامی مشن کے لیے عین مطلوب حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ قرآن کے لیے سارے عالم کے لیے نذیر ہے(الفرقان،25:1)۔ مگر اس نشانہ کو قابل حصول نشانہ اہل مغرب نے اپنی تہذیب (civilization) کے ذریعہ بنایا۔ قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے اظہار کو تبیین حق کا سب سے بڑا واقعہ بتایا گیا تھا (فصلت، 41:53)۔ یہ کام بھی اہل مغرب کی دریافت کردہ تہذیب کے ذریعہ قابل عمل بنا، وغیرہ۔
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے الحكمة ضالة المؤمن، حيثما وجد المؤمن ضالته فليجمعها إليه (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 146)۔ یعنی حکمت مومن کا متاع گم شدہ ہے، مومن جہاں اپني گم شدہ متاع کو پائے تو چاہیے کہ وہ اس کو اپنے پاس لے لے۔ پیغمبر کے بیان کردہ اس اصول کا اطلاق (application) اہل یورپ کی پیدا کردہ ماڈرن تہذیب پر بھی یقینی طور پر ہوتا ہے— مؤیدین کے گروہ نے اپنا کام انجام دے دیا ہے۔ اب اہل اسلام كو یہ کرنا ہے کہ وہ اس کام کو بطور مواقع (opportunities) دریافت کریں ، اور ان کو پیغمبر کے دین کی حمایت میں استعمال کریں ۔ یہ واقعہ اتنا بڑا ہے کہ اہل اسلام کو اس میں حقیقی دریافت ہوجائے، تو ان کے تمام منفی خیالات (negative thought)مکمل طور پر ختم ہوجائیں ، اور وہ کامل مثبت ذہن کے ساتھ جدید مواقع کو استعمال کرنے کی طرف دوڑ پڑیں ۔
مغربی اقوام، دوست اقوام
نزول قرآن کے زمانے میں انسانی تاریخ جس مرحلے میں تھی، اس کے لحاظ سے اہل ایمان کو یہ فارمولا بتایا گیا کہ اگر کوئی بظاہرتم کو دشمن نظر آئے تو اس کے ساتھ تم ردعمل کا سلوک نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر حسن سلوک کا طریقہ اختیار کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھارا دشمن تمھارا دوست بن جائے گا(فصلت،41:34)۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حسن سلوک کا یہ طریقہ ایک وقتی تدبیر کا طریقہ تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسا عمل (process) جاری کیا ، جس کے نتیجے میں دنیا ایک نئے دور (age) میں داخل ہوگئی، جب کہ قومیں خود حالات کے تقاضے کے تحت عملاً اسلام کی مؤید (supporter) بن گئیں ۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک انوکھا انقلاب تھا۔ اس انقلاب کی پیشگی خبر پیغمبر اسلام نے اپنی امت کو دے دی تھی۔ یہ روایت حدیث کی اکثر کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ هيں إِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد فاجر انسان کےذریعہ کرے گا۔ یہاں غالباً فاجر کا لفظ اپنےلغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ فاجر انسان کا مطلب ہے سیکولر انسان۔ غیر مسلم اقوام کے ذریعہ اسلام کی تائید کی پیشین گوئی سب سے زیادہ مغربی اقوام پر صادق آتی ہے۔
مغربی اقوام نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ جو مادی تہذیب برپا کی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے پوری طرح مؤید اسلام تہذیب ہے۔ مغربی اقوام کا مؤید اسلام ہونا، عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان اس امکان کو جانیں ، اور اس کو اویل (avail) کریں ۔
اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تمثیل کے ذریعہ حقیقتوں کو واضح کرتا ہے (البقرۃ، 2:26 )۔ چنانچہ اس معاملے میں اللہ نے ایک تاریخی مثال کے ذریعہ اہل ایمان کو بتایا کہ کس طرح مخالف قوم کو موافق قوم بنایا جاسکتا ہے۔ یہ مثال جاپان کی ہے، جو کہ بیسویں صدی میں پیش آئی۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ جاپان کی سیکولر مثال کو اسلامائز کریں ، اور اس کو اپنے حالات پر منطبق کریں ۔
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) سے پہلے جاپان میں امریکوفوبیا (Americophobia) کا غلبہ تھا۔ جاپانی قوم بطور خود امریکا کو اپنا دشمن سمجھتی تھی۔ جاپان کا امریکوفوبیا اتنا بڑھا کہ غالباً تاریخ میں پہلی بار جاپانی نوجوانوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے 1941 میں امریکا کے بحری اڈہ (پرل ہاربر) کو خود کش بمباری کے ذریعہ تباہ کردیا۔ اس کے بعد امریکا میں انتقامی جذبہ بھڑکا۔ انھوں نے 1945 میں جاپان کے دو شہروں (ہیروشیما، ناگاساکی) پر ایٹم بم گرائے۔ یہ اتنا شدید حملہ تھا کہ اس کے بعد جاپان کے لیے لڑائی کا آپشن (option) باقی نہ رہا۔
تاہم مختلف اسباب کے تحت جاپانی قوم نے اپنے آپ کو منفی رد عمل (reaction) سے بچایا۔انھوں نے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچا، تو وہ اس دریافت تک پہنچے کہ امریکا نہ کسی کا دشمن ہے، نہ کسی کا دوست۔ امریکا کا فارمولاصرف ایک ہے، اور وہ اس کا سیلف انٹرسٹ ہے۔ چنانچہ امریکا میں کہا جاتا ہے
The business of America is business
چنانچہ جاپان نے یہ فیصلہ کیا کہ امریکا کو اپنا دوست ملک بنالیں ، تو امریکا بھی ہمیں اپنا دوست ملک بنالے گا۔ اس کے بعد جاپان نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے امریکا سے نزاع کی پالیسی کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا۔ اس پالیسی نے جاپان کو یہ موقع دیا کہ وہ امریکا کے سپورٹ سے اپنی قومی ترقی کا سفر نہایت تیزی کے ساتھ جاری کرسکے۔ یہ پالیسی کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ 25 سال بعد جاپان دنیا کے نقشے پر ایک نئی طاقت بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ وہ اقتصادی سوپر پاور (economic super-power) کے درجے تک پہنچ گیا۔
یہ تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) اہل اسلام کی رہنمائی کے لیے ابھرا ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے ویسٹوفوبیا (westophobia) کے ذہن کو مکمل طور پر ختم کردیں ۔ وہ دل سے مغرب (West)کو اپنا دوست قرار دیں ۔ اگر مسلمان ایسا کرسکیں تو بہت جلد دنیا یہ واقعہ دیکھے گی کہ مسلمان دیگر اقوام کی تائید سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی قوم بن کر ابھری ہے، جنگجو قوم نہیں ، بلکہ پرامن(peaceful) قوم کی حیثیت سے۔ پھر وہ واقعہ عالمی سطح پر پیش آئے گا، جس کا انساني تاریخ کو لمبی مدت سے انتظار ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کی پیشین گوئی ساتویں صدی کے ربع اول میں قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھیتَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (25:1)۔ يعني بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
ملت مسلمہ کی غفلت
سائنس (physical science) اپنی حقیقت کے اعتبار سے گویا اسلام کا علم کلام تھا۔ یہ اسلامی علم کلام کو قیاسی فلسفہ کے بجائے برہانیات پر قائم کرنا تھا، یعنی دلائل عقلیہ کی بنیاد پر۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ سائنس کو سیکولر گروہ نے ہائی جیک کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان اپنی منفی سوچ کی بنا پر سائنس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ وہ انتہائی بے بنیاد طور پر مغرب کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ یہاں تک کہ سائنس کے بھی۔ اگر مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ بر وقت اپنا رول ادا کرتا تو سائنس ربانی حقیقتوں کی دریافت کا علم بن جاتا۔ مگر مسلمانوں کی کوتاہی کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
اس معاملے میں ایک واقعہ یہاں بطور مثال نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ عنایت اللہ خاں مشرقی (1888-1963) نے بیان کیا ہے۔ عنایت اللہ خان مشرقی اعلیٰ تعلیم کے لیےانگلینڈ گئے تھے۔ وہاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ جس زمانے ميں وہ وہاں تھے، اس وقت سر جیمز جینس کیمبرج یونیورسٹی میں اپلائڈ ریاضیات ( applied mathematics) کے پروفیسر تھے۔ عنایت اللہ خاں مشرقی نے سر جیمز جینس کے ساتھ اپنے طالب علمی کے زمانے کے ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے
’’1909ء کاذکرہے، اتوارکادن تھا،اورزورکی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہورماہرفلکیات سرجیمزجینس(James Jeans) پرنظرپڑی جوبغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے، میں نے قریب ہوکر سلام کیا،انھوں نے کوئی جواب نہ دیا،دوبارہ سلام کیاتووہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے، ’’تم کیاچاہتے ہو‘‘میں نے کہا،دوباتیں اول یہ کہ زورسے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتابغل میں داب رکھاہے،سرجیمزاپنی بدحواسی پرمسکرائے اور چھاتا کھول لیا،دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق آدمی گرجاگھرمیں عبادت کے لئے جارہاہے ،یہ کیا؟میرے اس سوال پرپروفیسرجیمزلمحہ بھرکے لئے رک گئے اورپھرمیری طرف متوجہ ہوکرفرمایا ’’آج شام کوچائے میرے ساتھ پیو‘‘چنانچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پہنچا،ٹھیک 4بجے لیڈی جیمزباہرآکرکہنے لگیں ’’سرجیمزتمہارے منتظر ہیں ‘‘ اندر گیا توایک چھو ٹی سی میزپرچائے لگی ہوئی تھی،پروفیسرصاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے ،کہنے لگے’’تمہاراسوال کیاتھا‘‘ اورمیرے جواب کاانتظاركيے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق،ان کے حیرت انگیزنظام،بے انتہا پهنائیوں اور فاصلوں ، ان کی پیچیدہ راہوں اورمداروں نیزباہمی کشش اورطوفان ہائے نورپروہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرادل اﷲکی اس داستانِ کبریاوجبروت پردہلنے لگا، اوران کی اپنی کیفیت یہ تھی سرکے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں ،اﷲ کی حکمت ودانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے ،اورآوازلرزرہی تھی، فرمانے لگے ’’عنایت اﷲ خاں !جب میں خداکے تخلیقی کارناموں پرنظرڈالتاہوں تومیری تمام ہستی کاہرذرہ میراہم نوابن جاتاہے ،مجھے بیحدسکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے،مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزارگنازیادہ کیف ملتاہے، کہوعنایت اﷲ خاں !تمہاری سمجھ میں آیاکہ میں گرجے کیوں جاتاہوں ۔‘‘
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسرجیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کردیا ، مَیں نے کہا’’جناب والا!میں آپ کی روح افروزتفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں ،اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یادآگئی اگراجازت ہوتوپیش کروں ، فرمایا ’’ضرور‘‘۔ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھیوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (35:27-28)۔ يعني پہاڑوں میں بھی سفید اورسرخ، مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیں اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں ۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔
یہ آیت سنتے ہی پروفیسرجیمزبولے’’کیاکہا،اﷲ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ،حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جومجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کے بعدمعلوم ہوئی،محمد کوکس نے بتائی،کیاقرآن میں واقعی یہ آیت موجودہے، اگرہے تومیری شہادت لکھ لوکہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ،محمد اَن پڑھ تھا ،اسے یہ عظیم حقیقت خودبخودمعلوم نہیں ہوسکتی ، اسے یقیناًاﷲ نے بتائی تھی،بہت خوب ،بہت عجیب۔ (نقوش شخصیات نمبر،صفحات9۔1208)
ايك واقعه
اصل یہ ہے کہ سائنسی علوم کو ایکزيکٹ سائنسز (exact sciences ) کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ سائنسی علوم تمام تر ریاضیات (mathematics) پر مبنی ہوتے ہیں ۔ یورپ میں جب سائنسی علوم پھیلے تو اس کے نتیجے میں اہل یورپ کے درمیان مبنی بر واقعیت سوچ (exact thinking) پیدا ہوئی۔ یہ طرز فکر اسلام اور قرآن کے عین موافق تھا۔ اس طرز فکر کی بنا پر اہل یورپ اسلام اور قرآن کی دعوت کے لیے بہترین مدعو بن گئے۔ اس وقت اگر اہل یورپ کو اسلام اور قرآن کی دعوت پہنچائی جاتی تو یقینی طور پر وہ اسلام اور قرآن کے لیے نہایت مثبت جواب (positive response) دیتے۔ مثالیں بتاتی ہیں کہ یورپ کے بہت سے افراد نے اس قسم کا رسپانس دیا۔ مگر عین اسی زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان نفرت مغرب کی نفسیات میں مبتلا ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں وہ اس دعوتی امکان کو اَویل (avail)کرنے کےلیے ناکام ثابت ہوگئے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مغربی سائنس بلاشبہ اسلام کے لیے ایک تائیدی سائنس (supporting science) بن جاتا۔
اسی قسم کا ایک اور واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بیا ن کیا ہے۔ انھوں نے یہ واقعہ مضامین رشید میں نقل کیا ہے
18ءیا 19ء کا واقعہ ہے۔ یونین میں ام الالسنہ عربی پر خواجہ کمال الدین (1870-1932) کی اردو میں تقریر تھی۔ انھوں نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا، مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا مولانا تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریرسنتے چلیں ۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادے میں ملفوف تھے، سر پر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اور اس پر ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محو حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو وائس پریسیڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف سازش کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچادیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، میز کے پاس کھڑے کیے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ مولانا نے بےتکلف تقریر شروع کردی، اس اعتماد سے گویا تمام عمر اسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں ، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھهرتا، اور صدر کا شکریہ بھی اسی بدنظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا نے بھی ام الالسنہ عربی پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹہ تک تقریر کی، نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پر روشنی ڈالی، نئی نئی مثالیں پیش کیں ۔ تقریر اس درجہ دلنشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنادیا کہ خواجہ صاحب نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا، اور فرمایا تمھارے ایسا جامع کمالات ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں ۔ (مضامین رشید،علی گڑھ،1964 صفحہ 42-43)
مولانا اقبال احمد سہیل (1884-1955) اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ لیکن اس زمانے کے دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی انگریز سے اور یورپ سے نفرت کرتے تھے۔ ان کو اسلام دشمن سمجھتے تھے۔ اس بنا پر وہ خواجہ کمال الدین کی پیش کش کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ سے اعظم گڑھ چلے گئے، اور وہاں ضلع کی عدالت میں پریکٹس کرنے لگے۔ اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔
امت کا انقلابی رول
قدیم زمانے میں امت محمدی کا رول یہ تھا کہ وہ دنیا سے شرک کاخاتمہ کرے۔ شرک یعنی بت پرستی کا خاتمہ کس اعتبار سے مطلوب تھا۔ بت پرستی کے کلچرکےاعتبار سے نہیں ،بلکہ اس کی فکری اساس (intellectual base) کے اعتبار سے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال کے نتیجے میں لوگوں نے یہ تصور قائم کرلیا تھا کہ نیچر (مظاہر فطرت) کے اندر خدائی صفات (divinity) موجود ہے۔ یہی شرک کی فکری اساس تھی۔ قرآن ایک توحید کی کتاب ہے، جو شرک کے تصور کا بے بنیاد ہونا ثابت کرتا ہے۔ امت محمدی نے قرآن کی مدد سے یہ کیا کہ نیچر اور خدائی، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ (detach) کردیا۔ اس کے بعد افکار کی دنیا میں رکاوٹ کا خاتمہ ہوگیا، اور پھر فطری طور پر ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھل گیا۔
اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں ۔ تقریباً پانچ سو سال کے عمل کےدوران ایک نئی فکری گمراہی وجود میں آئی ہے، یعنی الحادی فکر کا ظاہرہ۔ موجودہ زمانے میں مغرب کی قیادت میں سائنس کا علم وجود میں آیا، یعنی نیچر (فطرت) کے مطالعے کا علم۔ اس کے نتیجے میں وہ قوانین دریافت ہوئے جو نیچر میں ابتدائے تخلیق سے چھپے ہوئے تھے۔ پھرانسان کو ٹکنالوجی (technology) کا علم ہوا، جس سے پانچ سو سال پہلے کا انسان بالکل بے خبر تھا۔
سائنسی علم کیا ہے۔ یہ تخلیق (creation) میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ سائنس کے آغاز میں ایسے اسباب پیش آئے کہ انسان نے دوبارہ ایک غلطی کی۔ اس نے فکری طور پر خالق کو تخلیق سے الگ کردیا۔ انسان نے تخلیق (creation)کا نہایت وسیع مطالعہ کیا۔ لیکن یہ سارا مطالعہ خالق کے حوالےکے بغیر تھا۔ اس کے نتیجے میں علم کی دنیا میں ایک نئی برائی پیدا ہوئی، اور وہ تھی خالق (Creator) کو تخلیق (creation) سے الگ (detach) کردینا۔ اب امت محمدی کے اہل علم حضرات کا یہ کام ہے کہ وہ اس غلطی کی تصحیح کریں ۔ وہ دنیا کو بتائیں کہ تخلیق کوئی الگ چیز نہیں ہے، وہ خالق کےتخلیقی عمل کا نتیجہ ہے۔
یہ ایک اہم تاریخی رول ہے، جو موجودہ زمانے میں مذہبی طبقے کے لیے مقدر ہے۔ مسیحی اہلِ علم نے اس عمل کا آغاز کردیا ہے۔ مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بڑی تعدادمیں کتابیں اور مقالے تیار کرکے شائع کیے ہیں ۔ ان میں سے ایک اہم کتاب وہ ہے، جو سائنس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے چالیس امریکن سائنس دانوں کے مضامین پر مشتمل ہے۔ وہ کتاب یہ ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe, edited by John Clover Monsma (G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
دوبارہ امت محمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس فتنۂ الحاد کی فکری اساس کو بے بنیاد ثابت کریں ۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن کے ذریعہ اس فتنۂ الحاد کا خاتمہ کریں ، جیسا کہ اس سے پہلے انھوں نے قرآن کی مدد سے فتنۂ شرک کا خاتمہ کیا تھا۔ اس معاملے میں ان کو مسیحی اہل علم کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے اس موضوع پر بقدر ضرورت ابتدائی کام انجام دے دیا ہے۔ اب امت محمدی کا کام یہ ہے کہ وہ اس کام کو تکمیل تک پہنچائے، اور اسی کے ساتھ ہر زبان میں قرآن کے ترجمہ کو تیار کرکے تمام انسانوں کے لیے اس کی رسائی ممکن بنادے۔
شہادت اعظم
حدیث ِ رسول کے مطابق، تاریخ کے آخری دور میں امت مسلمہ کا ایک فائنل رول ہوگا، جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیا ہے،یعنی مبنی بر حجت دعوت حق کی ادائیگی۔ غالباً یہ شہادت اعظم وہی چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت،41:53) کہا گیا ہے۔ شہادت اعظم، اور تبیین حق دونوں میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ رول حجت کی سطح پر انجام پائے گا۔
حجت (evidence) کیا ہے۔ حجت ہونا اس بات سے متعین ہوتا ہے کہ اس کا دلیل ہونا فریق ثانی کے نزدیک ثابت شدہ ہو۔ جو حجت فریق ثانی کے نزدیک مسلّم نہ ہو، وہ فریقین کے درمیان دلیل نہیں بن سکتی۔ دعوت کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانوں میں دعوت کے حق میں جو دلائل دیے گئے، وہ عملاً یک طرفہ تھے۔ یعنی داعی کے نزدیک وہ مسلّم تھے، لیکن مدعو کے نزدیک وہ مسلّم نہ تھے۔
بعد کے زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ دعوت کے حق میں ایک ایسی دلیل استعمال کی جائے جو داعی اور مدعو دونوں کے درمیان یکساں طور پر مسلّم ہو۔ مثلاً سائنٹفک دور سے پہلے جب داعی یہ کہتا تھا کہ رب السموات والارض صرف ایک ہے۔ تو یہ ایک یک طرفہ بیان ہوتا تھا۔ دوسرے فریق کے لیے موقع تھا کہ چاہے وہ اس بیان کو مانے یا نہ مانے۔ مگر آج یہ بیان’’ رب السموات والارض‘‘ یک طرفہ عقیدہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دو طرفہ طور پر ثابت شدہ یونیورسل فیکٹ کی بات ہے۔ آج سائنٹفک مطالعے نے یہ بتایا ہے کہ پوری یونیورس (universe)ایک ہی قانون کے تحت عمل کررہی ہے۔ اس کو ایک سائنسداں نے واحد ڈور کا نظریہ (single-string theory) کہا ہے۔
یہی وہ منصوبۂ الٰہی ہے، جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہےسَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ یہاں آفاق و انفس کی آیات سے مراد ایسے دلائل ہیں ، جو دونوں فریقوں کے درمیان تسلیم شدہ ہوں ۔کیوں کہ وہ عالمی قانون فطرت سے مستنبط ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اللہ نے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کیا ہے۔ وہ پراسس تھا، فطرت (nature) میں انکوائری کا عمل جاری کرنا۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ صلیبی جنگوں کے بعد مغربی قوموں کو سائنسی دریافتوں کی طرف موڑ دیا۔اس طرح تاریخ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ تقریباً پانچ سو سال کے عمل کے بعد انسان نے فطرت میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو دریافت کیا۔ یہ دریافتیں مسلّمه سائنسی دریافتیں تھیں ، جوریاضیاتی اصولوں پر مبنی تھیں ۔ اس بنا پر یہ دریافتیں ہر ایک کےلے ناقابل انکار حقیقتیں بن گئیں ۔
اس طرح تاریخ میں پہلی بار فطرت کی ایسی عالمی حقیقتیں دریافت ہوئیں ، جو ہر انسان کے لیے ناقابل انکار بن گئیں ۔ اس بنا پر پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دوطرفہ مسلّمات کی بنیاد پر لوگوں کو حق کا پیغام دیا جائے۔اس طرح کی سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں اب علمی اعتبار سے انسان کے لیے صرف توحید کا آپشن باقی رہا ہے۔ شرک یا انکار خدا کا آپشن اب انسان کے لیے موجود نہیں ۔ موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے ہیومنزم (humanism) کے آپشن کا دعویٰ کیا ہے، جس کا مطلب ہے:
The transfer of seat from God to man
مگر یہ صرف ایک دعویٰ ہے، جس کے پیچھے کوئی علمی دلیل موجود نہیں ۔ برٹش فلسفی جولین ہکسلے اسی قسم کے مدعیوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا ٹائٹل ہے:
Man Stands Alone by Julian Huxley (Harper, 1941, pp. 297)
اس کتاب کا موضوع اس کے ٹائٹل سے ظاہر ہے۔ اس کتاب کے جواب میں ایک امریکی سائنٹسٹ نے ایک مدلل کتاب تیار کرکے شائع کی۔ وہ کتاب یہ ہے
Man Does Not Stand Alone by Abraham Cressy Morrison (Fleming H. Revell Company, 1944, pp. 107)
حقیقت یہ ہے کہ ماڈرن سائنس نے خالص دلیل کی سطح پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اور وہ اللہ رب العالمین ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں فریق بننے کو تیار نہیں ۔ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں اِن ڈفرنٹ (indifferent) رہنا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ناسا کے ایک سائنسداں کو اس وجہ سے جاب سے نکال دیا گیا کہ وہ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن کو مانتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ زندگی اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کو نظریہ ارتقا سے حل نہیں کیا جاسکتا
Nasa of America sued by scientist ‘sacked for belief in intelligent design’: Life is too complex to have developed through evolution alone. (www.telegraph.co.uk. [accessed: 25.01.2018])
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے بارے میں جو سائنٹفک دریافتیں ہوئی ہیں ، انھوں نے حقیقت خداوندی کو اب ایک ثابت شدہ واقعہ بنا دیا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ کوئی ان حقائق کو لے کر کھڑا ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ رول صرف اور صرف امت مسلمہ کے لیے مقدر ہے، جس کو قرآن میں امت وسط کہا گیا ہے(البقرۃ،2:143)۔ مگر امت مسلمہ اس رول کو اداکرنے میں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ مسلم کمیونٹی اپنے منفی نفسیات کی بنا پر اس مثبت رول کو ادا کرنے کے لیے نا اہل ہوگئی ہے۔ امت مسلمہ کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی نفرت اور تشدد کی تمام سرگرمیوں کو یک طرفہ طور پر اور کلی طور پر ختم کردیں ، تاکہ وہ دنیا میں شہادت اعظم کے اس رول کو ادا کرنے کے اہل ہوجائیں ، اور اس کے بدلے میں اللہ رب العالمین کے یہاں ابدی جنت کے مستحق قرار پائیں ۔
اعلاءِ کلمۃ الاسلام
دهشت گردانه تحريك مثلاًالقاعدہ وغيره کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں ۔ اس کے پیچھے وہ عمومی مسلم سائیکی (psyche)ہے جو موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ شاید کوئی مسلمان بھی اس سے خالی نہیں ۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس قسم كي تحريك کو مسلمانوں کے درميان عالمی سپورٹ حاصل ہوا۔ اسی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ اسلام کے نام پر اتنی زیادہ جرأت کے ساتھ اپنی تخریبی کارروائیاں جاری کر سکے۔ اگر اس قسم كے لوگوں کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو کہ پوری مسلم ملّت ان کے ساتھ ہے، تو وہ اتنے زیادہ بے حوصلہ ہو جائیں گے کہ کسی دشمن کی گولی کے بغیر اپنے آپ ہی ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے ظاہرے کو سمجھنے کے لیے دور جدید کے مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان ایک عمومی احساس شکست میں جی رہے تھے۔ قرآن و حدیث میں وہ پڑھتے تھے کہ اسلام خدا ئے برتر کا دین ہے اور اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا میں غالب ہو کر رہے۔ حدیث میں آیا ہے هَذَا الدِّينِ الَّذِي يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ(المعجم الصغير للطبراني، حدیث نمبر948)۔ يعني يه وه دين هے جو بلند هوتا هے ، اور نهيں كيا جاتا اس پر بلند۔آج کا مسلم مائنڈ یک طرفہ طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام سياسي غلبے کا دین ہے۔ اسی کے ساتھ ہر مسلمان اس احساس میں جی رہا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام سياسي طورپر مغلوب ہو کر رہ گیا ہے۔
اس عمومی نفسیات کے دوران جب مسلمانوں نے دیکھا کہ بن لادن جيسے لوگ ان کے مفروضے کے مطابق، اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو چیلنج کر رہا ہے۔ حتی کہ انہوں نے دیکھا کہ11 ستمبر 2001 کو ’’اسلام دشمن ملک‘‘کے مینار عظمت کو ڈھا دیا گيا،تو انہوں نے سمجھ لیا کہ بن لادن جيسے لوگ ہی ان کے وہ مطلوب لوگ هيں جن کو خدا نے اسلام کے کلمے کو دوبارہ بلند کرنے کے ليے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ وہ خوش ہو کر اس کے ساتھ ہوگئے اور اس کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے لگے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بے بنیاد خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ بن لادن جيسے لوگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایسا ہے کہ دهشت گردانه عمل کے ذریعے اسلام کا کلمہ بلند ہوجائے گا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کی غلطی کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوتا ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک کم وبیش دنیا کے بڑے حصے پر مسلمانوں کی سلطنت قائم رہی۔ اس زمانے میں مسلمان واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر نشاۃ ثانیہ کے بعد مغربی قوموں کا عروج ہوااور مسلمانوں کی تمام سلطنتیں ختم ہو گئیں ۔ مثلاً اسپین میں دولت غرناطہ، ترکی میں عثمانی خلافت، انڈیا میں مغل سلطنت وغیرہ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلم ملکوں کو سیاسی آزادی ملی مگر یہ آزادی دوبارہ اقتصادی غلامی کے ہم معنی بن گئی۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا خاتمہ مسلمانوں کی اس غلط فکری کا آغاز تھا۔اس کا بھیانک نتيجه بن لادن جیسے لوگوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسلم رہنمائوں نے مسلمانوں کے سیاسی زوال کو اسلام کے کلمے کے زوال کے ہم معنی سمجھ لیا۔ حالانکہ دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ تھا۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا زوال دراصل کچھ مسلم حكمراں خاندانوں (dynasties)کا زوال تھا۔ وہ ہر گز اسلام کا زوال نہ تھا۔ دور جدید میں اسلام کا زوال دراصل نظریۂ اسلام کا زوال ہے۔ یہ واقعہ بلا شبہ مغربی تہذیب کے عروج کے بعد پیش آیا۔ تاہم اس کا کوئی تعلق مسلم سیاست کے زوال سے نہ تھا۔ اگر اس کا تعلق مسلم سیاست کے زوال سے ہوتا تو اب تک وہ ختم ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوبارہ مسلمانوں کی آزاد سلطنتیں قائم ہوگئیں ۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی 57آزاد سلطنتیں ہیں ، مگر وہ اسلام کے نظریاتی زوال کے عمل کو روک نہ سکیں ۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کےنظریاتی زوال کا سبب اس سے زیادہ گہرا ہے، جو کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب بنا۔ اس معاملے کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں پچھلی تاریخ کی ایک تصویر سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے بعد ہی اس معاملے کی نوعیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ اسلام توحید کا مذہب تھا۔ جب کہ اُس وقت تقریباً ساری دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ مشرکانہ کلچر ہر ملک میں چھایا ہوا تھا، جس کو وقت کے حکمرانوں کی سیاسی سپورٹ حاصل تھی۔ اُس وقت اسلام کا مقابلہ توحید بمقابله شرک کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور اول کے مسلمانوں نے شرک کے مقابلے میں ہر قسم کی قربانیاں دیں ۔ یہاں تک که شرک کا دَور عملاً ختم ہو گیااور توحید کا دَور شروع ہوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دور تقریباً ایک ہزار سال تک چلتا رہا۔ دوبارہ ایسا نہیں ہوا کہ شرک طاقتور ہوکر مذہبِ توحید کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔ مگر قرونِ وسطیٰ میں مغرب کا وہ انقلاب، جس کو نشاۃ ثانیہ کہا جاتا ہے، ایک نئے طاقت ور حریف کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کا واضح آغاز سولھویں صدی میں ہوا ۔ اور چند صدیوں کے عمل کے بعد اس نے انتہائی طاقت ور حیثیت حاصل کرلی۔
اسلام کا یہ نیا طاقت ور حریف وہ تھا جس کو ایک لفظ میں سائنٹفک الحاد کہا جا سکتا ہے۔ سائنس علم ِفطرت کی حیثیت سے نہ مذہبی تھی اور نہ غیر مذہبی۔ مگر جدید سائنسی دَور میں یورپ میں ایسے مفکرین اٹھے جنہوں نے سائنس کی دریافتوں کو بطور خود الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ تمام مذاہب، بشمول اسلام، صرف توہم پرستی کی پیداوار تھے۔ اس موضوع پر پچھلے دوسو سالوں میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب کا ٹائٹل اس نوعیت کی تمام کتابوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ٹائٹل تھا
God is dead
سائنٹفک الحاد نہایت تیزی سے پھیلا۔ یہاں تک کہ وہ علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ اس سائنٹفک الحاد نے بظاہر جدید دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ، وحی کی کوئی حقیقت نہیں ، کوئی کتاب مقدس کتاب نہیں ، جنت اور جہنم سب محض فرضی کہانیاں ہیں ۔
اس جدید فکر کا آغاز سرآئزک نیوٹن (وفات1727) سے ہوا۔ پھر ایک کے بعد ایک ایسے سائنس داں پیدا ہوئے جن کی تحقیقات جدید الحاد کو تقویت دیتی رہیں ۔ اگر چہ ان سائنس دانوں میں سے کوئی بھی سائنس دان معروف معنوں میں ، منکرِ خدا یا منکرِ مذہب نہیں تھا، مگر ان کی تحقیقات نے بالواسطہ طور پر جو فکر پیدا کیا وہ یہی تھا۔
مثال کے طور پر نیوٹن اور دوسرے سائنس دانوں نے یہ دکھایا کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک پرنسپل آف کازیشن کام کر رہا ہے۔ قدیم تو ہماتی زمانے میں انسان نیچر کو پُراسرار سمجھتا تھا۔ فطرت کے ہر واقعے کے بارے میں وہ یہ گمان کرتا تھا کہ جو ہوا ہے وہ پُراسرار طور پر ہو گیا ہے۔ مگر سائنس نے جب واقعات کے پیچھے اس کا ایک مادّی سبب دریافت کیا تو شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ مان لیا گیا کہ ان کا خالق خدا نہیں ہے بلکہ کچھ اسباب ہیں جو واقعات کی تخلیق کر رہے ہیں ۔ چناں چہ جدید ملحد مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ کردیا گیا
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ الحاد جو علم کے زور پر اٹھا، یہی وہ چیز تھی جس کے بعد وہ صورتِ حال پیدا ہو گئی جس کو کلمۂ اسلام کی مغلوبیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ خدا کے وجود پَر شک کرنے لگے۔ مذہب کی صداقت ان کے نزدیک مشتبہ ہو گئی۔ اسلام ان کو دَور علم سے پہلے کا مذہب دکھائی دینے لگا۔
یہ ایک coincidenceتھاکہ جس زمانے میں مسلم سلطنتوں کو زوال ہوا تقریباً اسی زمانے میں اسلام کی نظریاتی صداقت کو بھی مشتبہ سمجھا جانے لگا۔ تاہم یہ ایک زمانی اتفاق تھا، ورنہ ایسا ہرگز نہ تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کی بنا پر اسلام کا نظریاتی زوال پیش آگیا ہو۔ مگر اس دَور کے تقریباً تمام مسلم مفکرین اس غلط فہمی کا شکار رہے۔ انہوں نے معاملے کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیے بغیر یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آرہا ہے۔ اس غلط اندازے کی بنا پَر انہوں نے ساری دنیا میں سیاسی جہاد شروع کردیا۔ مسلم ملکوں اور غیر مسلم ملکوں دونوں جگہ پر کوشش کی جانے لگی کہ مسلمان کے سیاسی اقتدار کا دَور دوبارہ واپس لایا جائے۔ ان کا مشترک طورپر یہ خیال تھا کہ جب تک ایسا نہ ہو، اسلام کا کلمہ دوبارہ غالب نہ ہو سکے گا۔ حالاں کہ کلمۂ اسلام کے غلبے سے مراد حق کا نظریاتی غلبہ تھا، جب کہ مسلم اقتدار کا مطلب صرف یہ تھا کہ ایک کمیونٹی یا ایک خاندان کی سیاسی حکومت قائم ہو جائے۔
مگر یہ سوچ سر تا سر بے بنیاد ہے، اور اس کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ دو سو سالہ سیاسی جہاد کے باوجود کلمۂ اسلام کا غلبہ ممکن نہ ہو سکا۔ میسور کے سلطان ٹیپو (وفات1799) سے لے کر فلسطین کے یاسر عرفات (وفات 2004) تک دو سو سال کا طویل زمانہ ہے۔ اس مدت میں مسلمانوں نے اپنے خیال کے مطابق غلبۂ اسلام کے لیے اپنے جان و مال کی اتنی زیادہ قربانیاں دی ہیں ، جو پچھلے چودہ سو سال کی مجموعی قربانیوں سے بھی زیادہ ہیں ، مگر یہ ساری قربانیاں سر تا سر بے سود ہو گئیں ۔ یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہ فائدہ ملا کہ ان کی پچاس سے زیادہ آزاد سلطنتیں بن گئیں ، مگر جہاں تک غلبۂ اسلام کا سوال ہے وہ بدستور ایک بے تعبیر خواب بنا ہوا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی مغلوبیت کا معاملہ، اسلام کی نظریاتی مغلوبیت کا معاملہ ہے۔ یہ مغلوبیت اس لیے پیش آئی کہ اسلام کو موجودہ زمانے کی علمی اور نظر یاتی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ اب دوبارہ یہ غلبہ صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے، جب کہ زمانۂ جدید کے معیار کے لحاظ سے وقت کی علمی اور نظریاتی تائید اسلام کے حق میں فراہم کی جائے۔
اسلام کے ابتدائی ظہور کے بعد اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا، وہ بھی حقیقتاً مسلمانوں کے سیاسی غلبے کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ بھی اسلام کے نظریاتی غلبه کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلافتِ عباسیہِ کے دَور میں مسلمانوں نے اس زمانے کے علوم کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے تک علم انسانی نے جو لٹریچر تیار کیا تھا، ان کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا، اور پھر بہت بڑے پیمانے پر اُن کا جائزہ لیا گیا۔ ان علوم کی تعلیم کے لیے تاریخ کے سب سے بڑے ادارے قائم کیےگئے۔ اسی کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ راجر بیکن (وفات1292) جس نے انگلینڈ میں سب سے پہلی یونیورسٹی (کیمبرج یونیورسٹی) قائم کی، وہ قُرطبہ کی مسلم یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔
یہ ایک لمبی تاریخ ہے، اور اس پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ مثال کے طور پر پروفیسر ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دَور کے مسلمانوں نے اپنے زمانے کے علوم پڑھ کر اسلام کی علمی تشریح کی اور اسلام کی علمی بالا دستی کو دلائل کی زبان میں ثابت کیا۔ حتی کہ اہلِ علم کے لیے اسلام کا نظریہ ایک ایسا نظریہ بن گیا جو پوری طرح ایک علمی مسلّمہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسلام کو ماننا علم کو ماننا تھا، اور اسلام کا انکار کرنا، علم کا انکار کرنا تھا۔
قدیم زمانے میں جن علوم کو ترقی حاصل ہوئی وہ زیادہ تر فلسفیانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ان علوم کی بنیاد قدیم یونانی منطق پر قائم تھی۔ جس کو قیاسی منطق (syllogism)کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے اس یونانی منطق کو استعمال کر کے اس کو بھر پور طور پر اسلام کا مؤید بنا دیا۔ یہاں تک کہ خالص علمی طور پر کسی کے لیے یہ گنجایش باقی نہ رہی کہ وہ علمی بنیاد پر اسلام کی صداقت کا انکار کرسکے۔
مگر موجودہ زمانے میں جدید سائنس کے ظہور کے بعد پوری صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ جدید سائنس نے قدیم سیاسی منطق کو ڈھا دیا۔ اب ایک نئی منطق ظہور میں آئی، جس کو سائنسی منطق (scientific logic)کہا جاتا ہے۔ قدیم یونانی منطق قیاسات پر قائم تھی، اس کے مقابلے میں جدید سائنسی منطق حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ اس فرق نے قدیم دَور کو ختم کردیا۔ اسی کے ساتھ وہ دَوربھی ختم ہوگیا جو اسلامی نظریات کے لیے علمی بنیاد بنا ہوا تھا۔ گویا کہ کلمۂ اسلام کی مغلوبیت کا سبب اس کے حق میں نظریاتی بنیاد(base)کا خاتمہ تھا، نہ کہ کسی سیاسی بنیاد کا خاتمہ۔
دَور جدید میں جب یہ علمی انقلاب آیا تو ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں دوبارہ وہی علمی سرگرمیاں جاری ہوں جو عباسی خلافت کے دَور میں جاری ہوئی تھیں ۔ اب ضرورت تھی کہ مسلم علماء جدید افکارکو پڑھ کر ان کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور اسلام کی نظریاتی بنیاد کو ازسرِنو جدید علمی مسلَّمات پر قائم کریں ، جیسا کہ دورِ قدیم کے مسلم علماء نے اپنے زمانے میں کیا تھا۔ مگر بَر وقت ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اِس زمانے کے تقریباً تمام علماء نظریاتی اسلام اور مسلم اقتدار کو الگ کر کے نہ دیکھ سکے
They failed to differentiate between Muslim rule and Islamic ideology.
اسی بے خبري کی بنا پر انہوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آگیا۔ چناں چہ وہ مغربی قوموں کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول ہوگئے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک یہی قومیں مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب تھیں ۔ مگر یہ ایک بھیانک قسم کا غلط اندازہ تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک شخص جو تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے جاہل رہ گیا ہو، اس کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے جسمانی طاقت كا انجکشن دیاجانے لگے۔ حالاں کہ یہ معلوم ہے کہ کوئی شخص صرف جسمانی تندرستی کی بنا پر تعلیم یافتہ نہیں بن سکتا۔
اس معاملے میں مزید غلطی یہ ہوئی کہ مغربی قوموں سے سیاسی نفرت کی وجہ سے مسلم علماء اور رہنما مغرب کی زبان اور مغرب کی سائنس سے بھی نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کی نسلیں مغربی تعلیم سے دور رہیں تاکہ ان کا ایمان اور اسلام محفوظ رہے۔ حالاں کہ یہ معاملہ سادہ طور پر تحفظِ اسلام کا مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ نئی علمی بنیاد فراہم کرنے کا مسئلہ تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ دہرا غلط اندازہ تھا۔ جس نے مسلمانوں کو اس شعور سے محروم کردیا کہ وہ دوبارہ اسلام کے لیے مضـبوط علمی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کر سکیں ۔
اسلام عین اسی عالمی قانون کا ایک مظہر ہے، جس کے تحت ساری کائنات چل رہی ہے۔ اسلام فطرت کا دین ہے۔ اس لیے اسلام اسی طرح ہمیشہ زندہ رہتا ہے جس طرح سورج ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ کوئی بدلی وقتی طورپرروشن سورج کو ڈھانپ سکتی ہے۔ لیکن بدلی کے ہٹتے ہی دوبارہ سورج کا روشن چہرہ اسی طرح سامنے آجاتا ہے جس طرح وہ پہلے تھا۔
سورج کے چہرے سے بدلی کے چھٹنے کا یہ واقعہ خود سائنس میں ، اس کے بعد کے دَور میں ، پیش آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے سائنس کے دو دَور ہیں ۔ایک دَور البرٹ آئن سٹائن (وفات1955) سے پہلے كا هے اور دوسرا، البرٹ آئن سٹائن کے بعدكا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک سائنس کی تحقیق اُس دنیا تک محدود تھی جس کو عالم کبیر (macroworld) کہا جاتا ہے۔اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیے میں ایٹم کا مجموعہ ہیں ۔ اور ایٹم ایک ایسی چیز ہے جس کو تَولا اور ناپا جا سکتا ہے۔
اس بنا پر اُ س دَور میں یہ نظریہ بنا کہ حقیقی وجود صرف اسی چیز کا ہے جو توَلی اور ناپی جا سکے۔ جو چیز تَول اور ناپ میں نہ آئے اس کا کوئی حقیقی وجود بھی نہیں ۔مگر آئن سٹائن کے زمانے میں ایک انقلابی واقعہ پیش آیا۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ انسانی علم میکرو ورلڈ سے گزر کر مائکرو ورلڈ (microworld) تک پہنچ گیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم ہماری دنیا کا آخری ذرہ نہیں ۔ خود ایٹم بھی ایک مجموعہ ہے، جو الکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنا ہے۔ مگر تحقیق نے بتایا کہ الکٹران، ایٹم کی طرح کوئی مادّی ذرّہ نہیں ، بلکہ الکٹران غیر مرئی لہروں (waves)کا نام ہے۔ ان لہروں کو دیکھا نہیں جاسکتا۔ ان کے بارے میں صرف یہ ممکن ہے کہ بالواسطہ اثرات کے ذریعے اُن کے وجود کے بارے میں کچھ اندازسے قائم کیے جاسکیں ۔
ایٹم کا لہروں میں تبدیل ہو جانا، سائنس میں ایک بے حد اہم واقعہ تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ استنباط (inference)کو ایک ٹھوس علمی بنیاد حاصل ہوگئی۔ اب یہ مان لیا گیا
Inferential argument is as valid as direct argument.
منطق میں اس تبدیلی نے سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔ آئن سٹائن سے پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ مذہب میں صرف سکنڈری آرگمنٹ (secondary argument)ممکن ہے۔ مذہب میں پرائمری آرگمنٹ (primary argument)ممکن نہیں ۔ چوں کہ مذہب یا اسلام کے عقائد پر تمام استدلالات استنباطی نوعیت کے ہوتے ہیں ، اور مذکورہ تقسیم میں استنباط ایک سکنڈری استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے مذہب کو ان علوم میں شامل کر لیا گیا تھا ،جن کو قياسي سائنسیز (speculative sciences)کہا جاتا ہے۔
مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد جب منطق میں تبدیلی آئی، اور استنباطی استدلال کو عین سائنسی استدلال کا درجہ مل گیا تو اس کے بعد مذہب یا اسلام کی علمی بنیاد میں بھی تبدیلی آگئی۔ اب مذہبی یا استنباطی استدلال کے طریقے کو پرائمری استدلال کا درجہ حاصل ہو گیا، جب کہ اس سے پہلے اس کو صرف سکنڈری استدلال کا درجہ ملا ہوا تھا۔
اب خود علم ِانسانی میں نئے واقعات پیش آنے لگے۔ مثال کے طور پَر سائنس کے دورِ اوّل کے ذہن کو لے کر برطانیہ کے جولین ہکسلے (وفات1975) نے ایک کتاب لکھی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ اب انسان کو خداکی ضرورت نہیں ، اب انسان خود ہی اپنا سب کچھ بَن سکتا ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل یہ تھا
Man Stands Alone
اس کے بعد امریکا کے ڈاکٹر کریسی ماریسن (وفات 1951) نے ایک اور کتاب چھاپی، جس میں سائنسی حقائق کی روشنی میں دکھایا گیا تھا کہ انسان صرف مخلوق ہے، وہ خدا کا درجہ نہیں لے سکتا۔ اس دوسری کتاب کا ٹائٹل یہ تھا
Man does not Stand Alone
اس طرح برٹرینڈر سل (وفات1975) نے اپنی کتاب Why I am not a Christian میں لکھا کہ آرگمینٹ فرام ڈزائن(argument from design) خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایک سائنٹفک استدلال ہے۔ مگر ڈارونزم نے اس استدلال کو ڈیسٹرائے کردیا ہے۔ اس کے جواب میں پروفیسر لون Arnold Henry Moore Lunn)، وفات1974ء) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھاThe Revolt Against Reason ۔اِس کتاب میں دکھایا گیا تھا کہ ڈارونزم خود ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ پھر وہ آرگمینٹ فرام ڈزائن کے ثابت شدہ نظریے کو کیسے ڈیسٹرائے کر سکتا ہے۔
علم انسانی میں اس تبدیلی کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ اب مذہب اور سائنس کی دوری ختم ہو رہی ہے۔ دونوں ہی علم کے یکساں پہلو ہیں ۔ سائنس کے اس دوسرے دَور میں بہت سے اعلیٰ ذہن اُبھرے ، جنہوں نے جدید حقائق کو لے کر بتایا کہ مذہبی صداقتیں اتنی ہی حقیقی ہیں ، جتنا کہ مادّی صداقتیں ۔
قدیم نیو ٹینین دَور کو پہلا دھکّا اس وقت لگا جب کہ یہ ثابت ہوا کہ روشنی کے بارے میں نیوٹن کی مادی تعبیر (corpuscular theory of light) درست نہ تھی۔ نیوٹن کے نظریے کی غلطی پہلی بار اس وقت ظاہر ہوئی، جب علماء نے روشنی کی مادّی تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انہیں ایتھر (ether)کے عقیدے تک لے گئی، جو بالکل مجہول اور غیر ثابت شدہ عنصر تھا۔ کچھ نسلوں تک یہ عجیب و غریب عقیدہ چلتا رہا۔ روشنی کی مادّی تعبیر ثابت کرنے کے لیے زبردست کوششیں کی گئیں ۔
لیکن میکسویل(Maxwell)کے تجربات کی اشاعت کے بعد یہ مشکل ناقابل عبور نظر آنے لگی۔ کیوں کہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روشنی ایک برقی مقناطیسی مظہر (electromagnetic phenomenon) ہے۔ یہ خلا بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ دن آیا جب علمائے سائنس پر واضح ہوا کہ نیوٹن کے نظریات میں کوئی چیز مقدس نہیں ۔ بہت دنوں تك بجلی کو مادی (mechanical)ثابت کرنے کی آخری کوششوں کے بعد بالآخر بجلی کو ناقابل تحویل عناصر (irreducible elements)کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر در حقیقت یہ بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ نیوٹن کے تصور میں ہم کو سب کچھ اچھی طرح معلوم تھا۔ اس کے مطابق ایک جسم کی کمیت اس کی مقدار مادہ تھی، طاقت کا مسئلہ حرکت سے سمجھ میں آجاتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یقین کرلیا گیا تھا کہ ہم اس فطرت کو جانتے ہیں جس کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں ۔ مگر بجلی کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی فطرت (nature) ایسی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ اس کو معلوم اصطلاحوں میں تعبیر کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں ۔ وہ سب کچھ جو ہم بجلی کے متعلق جانتے ہیں ، وہ صرف وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہمارے پیمائشی آلات کو متاثر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وجود (entity)کو طبیعیات میں تسلیم کر لیا گیا ،جس کے متعلق ہم اس کے ریاضیاتی ڈھانچے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد اس نہج پر اس قسم کے اور بھی وجود تسلیم کيے گئے، اور یہ مان لیا گیا کہ یہ لامعلوم ہستیاں بھی سائنسی نظریات کے بنانے میں وہی حصہ ادا کرتی ہیں ، جو قدیم معلوم مادہ ادا کرتا تھا۔ یہ حقیقت قرار پا گیا کہ جہاں تک علم طبیعات کا تعلق ہے، ہم کسی چیز کے اصلی وجود کو نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف اس کے ریاضیاتی ڈھانچے(mathematical structure)کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ اب اعلیٰ ترین سطح پریہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم اشیاء کو ان کی آخری صورت میں دیکھ سکتے ہیں ، محض فریب تھا۔ نہ صرف یہ کہ ہم نے دیکھا نہیں ہے بلکہ ہم اسے دیکھ بھی نہیں سکتے۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں مذکورہ کام جو ہو رہا تھا، اس کو ایک لفظ میں ، spiritualization of scienceکہا جا سکتا ہے۔ یہ کام اس وقت اعلیٰ ترین سائنسی دماغ کر رہے تھے۔ مثلاً وائٹ ہیڈ، سرآرتھراڈنگٹن اور سر جیمز جینز، وغيره۔ مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعلیٰ دماغ دوبارہ اِس علمی تحریک کو نہ مل سکے، جس کو ہم نے اسپریچولائزیشن آف سائنس کا نام دیا ہے۔
اس کا سبب غالباً عالمی سماج میں وہ نیا ظاہرہ تھا جس کو کنزیومر ازم کہا جاتا ہے۔ کنزیومرازم کی غیر معمولی مقبولیت نے صرف ان چیزوں کو اہمیت دے دی جو مارکٹ ایبل تھیں ۔مذکورہ عمل تھیورٹیکل سائنس سے تعلق رکھتا تھا، اور تھیوریٹکل سائنس میں کمرشیل ویلو زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام اعلیٰ دماغ ٹکنکل سائنس کے شعبوں میں کام کرنے لگے۔ کیوں کے تمام بڑے بڑے اقتصادی فائدے سائنس کے ٹکنکل شعبوں سے متعلق ہو گئے تھے۔ اس طرح تھیوریٹکل سائنس میں ریسرچ کا کام اپنی آخری تکمیل تک پہونچنے سے پہلے رُک گیا۔ اب ضرورت تھی کے بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کام میں لگیں اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہونچائیں ۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مذہبی حلقے میں اعلیٰ دماغ موجود تھے۔ مگر وہ اِس اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گئے۔
جدید تہذیب کے ظہور کے بعد اہلِ مذاہب کے لیے یہ نیا مسئلہ پید ا ہوگیا تھا کہ لوگ جدید تعلیم اور جدید افکار سے متاثر ہو کر مذہب کے روایتی عقیدے پر شک کرنے لگے تھے۔ چناں چہ تمام بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کے دفاع میں لگ گئے۔ ہندوئوں میں اس زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے مثلاً ڈاکٹر رادھا کرشنن (وفات1975) وغیرہ۔ مگر یہ لوگ ہندو مذہب کی میتھالوجی کے حق میں بطور خود ریشنل پروف فراہم کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اسی طرح عیسائیوں میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً ڈاکٹربلی گراہم، وغیرہ۔ ان لوگوں نے بھی یہی کیا کہ عیسائیت کے روایتی عقائد، تثلیث اور کفاّرہ وغیرہ کو بطور خود عقلی بنیاد فراہم کرنے میں مصروف ہو گئے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے یہاں بھی اسی زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیداہوئے مثلاً سید جمال الدین افغانی، وغیرہ۔مگر مسلم اہلِ دماغ ایک اور غلطی میں مبتلا ہو گئے۔ عین اسی زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں کو سیاسی زوال پیش آگیا۔ چنانچہ مسلمانوں کے تمام اعلیٰ دماغ پولٹکل محاذ پر مصروف ہو گئے۔ کچھ افراد نے پولٹکل لڑائی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ کچھ اور افراد نے اسلام کو پولٹکل انٹرپریٹیشن دینے کو سب سے بڑا کام سمجھ لیا۔ اس طرح یہ ہوا کہ مسلم اہلِ دماغ سیاست کے جنگل میں کھو گئے۔ وہ مذکورہ عمل کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے بڑا کام اعلائے کلمۂ اسلام کا ہے۔ مگر اس کام کے لیے نہ تو مسلّح جہاد کی ضرورت ہے اور نہ اسلام کوپولٹکل ثابت کرنے سے اسلام میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے، اور نہ بن لادن جیسے لوگ اسی معاملے میں کوئی پازیٹیو رول ادا کرسکتے ہیں ۔ اس قسم کی تدبیروں کے غلط ہونے کے لیے یہی کافی ثبوت ہے کہ دوسو سال تک مسلمانوں کی کئی جنریشن ان راہوں میں قربانی دیتی رہی مگر اصل مطلوب مقصد ایک فیصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔
اِس پہلو سے موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنے حق میں انسانی علم کی بنیاد کھودی ہے۔ یہ علمی بنیاد دوبارہ اس طرح فراہم ہو سکتی ہے کہ اُس عمل کو آخری تکمیل تک پہنچایا جائے، جس کو ہم نے اسپریچویلائزیشن آف سائنس کہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے اعلیٰ دماغ اس کام میں اپنے آپ کو وقف کریں آج مسلمانوں کو بن لادن جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں ، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ ان کے اندر وائٹ ہیڈ، آرتھراڈ نگٹن اور جیمز جینز جیسے افراد پیدا ہوں ۔ بن لادن جیسے لوگ صرف تخریب کا کام کر سکتے ہیں ، جب کہ آج اصل ضرورت یہ ہے کہ مثبت تعمیر کا کام کیا جائے۔ خاص طور پَر علمی اور سائنسی تعمیر۔
قرآن(2:30) میں یہ خبردی گئی ہے کہ خدا نے انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کا علم دے دیا (وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا)۔ انسانی برین کے بارے میں جدید دریافت گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ جدید دریافت بتاتی ہے کہ ہر انسانی برین میں بے شمارپارٹکلس ہوتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو میلین، بلین بلین سے زیادہ پارٹکل۔ یہ کوئی سَینڈ پارٹکل (sand particle)کے مانند نہیں ، بلکہ وہ انفارمیشن پارٹکل ہیں ۔ ان پارٹکل کے ذریعے گویا خدا نے ہر قسم کی معلومات کو انسانی دماغ میں فیڈ کردیا ہے۔ ان پارٹکل میں فزکل معلومات بھی ہیں اور اسپریچول معلومات بھی۔
موجودہ زمانے میں سائنس دانوں نے کائنات کو دریافت کر کے بے شمار چیزیں بنائی ہیں ۔ یہ دریافتیں در اصل دریافتیں نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی دماغ میں پهلے سے موجود انھیں انفارمیشن پارٹکلس کی اَن فولڈنگ ہیں ۔ اس طرح انسان نے بہت بڑی مقدار میں اپنے دماغ میں فیڈ کی ہوئی فزیکل معلومات کو ان فولڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر جہاں تک دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کا تعلق ہے اس کا بڑا حصہ ابھی تک اَن فولڈ نہ ہوسکا۔دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کو اَن فولڈ کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم اہلِ دماغ کو یہی کام کرنا ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کو انجام دینے پر اعلائے کلمۂ اسلام کا دروازہ ان کے لیے کھُلے گا۔
ختم نبوت کا مطلب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ;كي ايك حديث ان الفاظ ميں آئي هے:إِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي(مسند احمد، حدیث نمبر 23358)۔يعني میرے اوپر نبوت ختم ہوگئی، میرے بعد کوئی اور نبی نہیں ۔ اس کا مطلب سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ گنتی کے اعتبار سے پیغمبروں کی فہرست مکمل ہوگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد اب کسی اور پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ وہ اسباب ختم ہوگئے، جس کی وجہ سے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔
پیغمبر کا مقصد ہدایتِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے پیغمبر کا شخصاً موجود ہونا ضروری نہیں ۔ اگر ایک ایسا گروہ موجود ہو جو پیغمبر کے نمائندے کی حیثیت سے امرِ حق لوگوں تک پہنچاتا رہے تو ایسی حالت میں پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ پیغمبر آخر الزماں سے پہلے اس قسم کی ضمانت موجود نہ تھی اس لیے بار بار پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔پیغمبر اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خدا کا کلام (قرآن) اپنی اصلی حالت میں مکمل طورپر محفوظ ہوگیا۔ یہ حفاظت اِس بات کی ضمانت بن گئی کہ ہر نسل میں اور ہر زمانہ میں ایسے افراد موجود رہیں ، جو ہدایتِ الٰہی کی صحیح معرفت حاصل کرکے اُسے دوسروں تک پہنچائیں ۔
دعوت ایک سنگین ذمہ داری
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پڑوسی کے بارے میں ان الفاظ میں آئی ہے :كَمْ مِنْ جَارٍ مُتَعَلِّقٌ بِجَارِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُيَا رَبِّ، هَذَا أَغْلَقَ بَابَهُ دُونِي، فَمَنَعَ مَعْرُوفَهُ (الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر111)۔ یعنی کتنے ہی پڑوسی ہیں ، جو اپنے پڑوسی کو پکڑے ہوئے ہوں گے قیامت کے دن۔ وہ کہیں گے کہ اے میرے رب ، اس نے اپنا دروازہ میرے لیے بند رکھا، اور اپنی بھلائی کو مجھ سے روک دیا۔
یہاں معروف کا لفظ دینی ہدایت کے معنی میں آیا ہے۔یعنی ایک شخص قیامت کے دن رب العالمین سے اپنے پڑوسی کے بارے میں شکایت کرےگا کہ اس انسان کے پاس میری نجات کا راستہ تھا، مگر اس نے اپنے گھر کے دروازے کو میرے اوپر بند رکھا، اور اسلام کی دعوت مجھ کو نہیں دیا،جو آج میرے کام آتا، اور مجھ کو ابدی تباہی سے بچالیتا۔ اس حدیث میں ایک پڑوسی سے مراد وہ شخص ہے جو دنیا میں ایمان کا دعویٰ کرتا تھا، اور اس کے پاس اللہ کی ہدایت قرآن و سنت کی شکل میں موجود تھی۔ دوسرے پڑوسی سے مراد وہ انسان ہے جو اپنی بے خبری کی بنا پر صاحب ایمان نہ بن سکا۔ کیوں کہ اس کے مومن پڑوسی نے اس کی قابل فہم زبان میں اس کو اللہ کی ہدایت نہیں پہنچائی۔
یہ حدیث قیامت کے بارے میں ہے۔ قیامت میں کسی کو یہ محرومی نہیں ستائے گی کہ وہ دنیا میں مادی چیزوں کے پانے میں ناکام رہا ۔ کیوں کہ اب اس کا دور ختم ہوچکا ہوگا۔ قیامت میں کسی کوصرف یہ چیز تڑپائے گی کہ کاش میرے پڑوسی نے میری قابل فہم زبان میں مجھ کو ہدایت پہنچائی ہوتی تو میں اس پر ایمان لاتا، اور آج میں جنت میں داخلے سے محروم نہ رہتا۔ اس حدیث کو موجودہ زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں عام پڑوسی کے علاوہ الیکٹرانک پڑوسی (e-neighbour) بھی شامل ہوں گے۔کیوں کہ آج دُور کے پڑوسی کو ہدایت پہنچانا اتنا ہی آسان ہوگیا ہے، جتنا کہ قریبی پڑوسی کو پہنچانا۔
مستقبل کی پلاننگ
مستقبل کی پلاننگ کے لیے پیشگی گائڈ لائن
پیغمبر اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوا۔ آپ خاتم النبیین (Final Prophet) ہیں ، آپ کی نبوت کی عمر 23سال تھی۔ لیکن اللہ کی توفیق سےآپ نے امت محمدی کو پیشگی طور پر ایسی گائڈ لائن بتادی جو انسانی تاریخ کے آخری دور تک کو کور (cover) کرنے والی تھیں ۔
پیغمبر اسلام نے امت محمدی کو جو گائڈ لائن دی، اس کا ایک حصہ ایسا تھا جو ہر زمانے کےلیے قابل تطبیق (applicable) تھا۔ یہ حصہ فقہ کی صورت میں مدون ہوگیا۔ مگر اسی کے ساتھ دوسرا حصہ وہ تھا جو مستقبل کے اعتبار سے تھا۔ اس حصہ میں پیغمبر اسلام نے معاصر زبان میں مستقبل کی باتیں کہیں ۔ دوسرے لفظوں میں روایتی دور میں وہ باتیں کہیں جو بعد کو سائنٹفک ایج میں رہنما بننے والی تھیں ۔ اس دوسرے حصہ کو سمجھنے کے لیے صرف قرآن و حدیث کا روایتی علم کافی نہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو دور مابعد، دوسرے الفاظ میں سائنٹفک ایج (scientific age) کا گہرا فہم (deep understanding) حاصل ہو، دین کی صرف روایتی معرفت اس کے لیے کافی نہیں ۔اس حیثیت سے یہاں موضوع کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت میں پہلی نوعیت کی باتیں حکم کی زبان میں ہیں ۔ جب کہ دوسری نوعیت کی باتیں خبر کی زبان میں آئی ہیں ۔ یہ فرق گویا ایک سراغ (clue) ہے جو زیر نظر پہلو کا مطالعہ کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
—1مثلاً قرآن کی آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا(25:1)۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
یہاں خبر کے اسلوب میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن عالمین (تمام اقوام عالم) کے لیے نذیر (warning) ہے۔ یہاں غور طلب ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں وہ اسباب موجود ہی نہ تھے، جن کو استعمال کرکے تمام اقوام عالم تک قرآن پہنچایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت کا متضمن مفہوم(implied meaning) یہ ہے کہ مستقبل میں ایک ایسازمانہ آئے گا، جب کہ مختلف زبانوں میں قرآن کے ترجمے تیارکرکے ان کو تمام قوموں تک ان کی قابل فہم زبانوں میں پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔ اس وقت امت محمدی کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اس کا منصوبہ بنائے، اور اس کو اس کے تمام تقاضوں کے تحت انجام دے۔ اس آيت ميں اس دور کی طرف اشارہ ہے جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس، اور کمیونی کیشن آچکا ہوگا۔ يعني جب یہ دور آجائے تب امت محمدی پر اس دور کا استعمال برائے دعوت اسی طرح فرض ہوجائے گا، جس طرح نماز اور روزہ ابدی طور پر فرض ہے۔
—2قرآن میں اس نوعیت کی ایک اور آیت ان الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53) ۔یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھي۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہاں آفاق سے مراد مادی دنیا(material world) اور انفس سے مراد انسانی دنیا (human world) ہے۔
قرآن کی اس آیت میں آنے والے سائنسی دور کی طرف اشارہ ہے۔ اس میں امت محمدی کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ جب وہ سائنسی دور دنیا میں آجائے تو تم فور اًاس کو پہچان لینا، اور از سر نو سائنس کی دریافت کردہ حقائق کی روشنی میں اپنے دعوتی مشن کی منصوبہ بندی کرنا۔ تاکہ لوگوں کو ان کی اپنی مسلمہ عقلی بنیاد (rational ground) پر حقائق اسلام کا اظہار ہوجائے۔
—3اسی طرح احادیث میں اس نوعیت کی مختلف پیشین گوئیاں آئی ہیں ۔ مثلاً ایک روایت کے مطابق قدیم مکہ کے قریش کے مطالبے پر آپ نے بتایا تھا: كلمة واحدة تعطونيها تملكون بها العرب، وتدين لكم بها العجم (سیرت ابن ہشام،1/417)۔ یعنی صرف ایک کلمہ (ميں چاہتا ہوں )، تم وہ کلمہ مجھ کو دے دو، تم عرب کے مالک ہوجاؤ گے، اور عجم تمھارے آگے جھک جائیں گے۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس آنے والے دور کی طرف اشارہ ہے، جب کہ دنیا میں مکمل طور پر امن (peace) کا زمانہ آجائے گا۔ جب کہ یہ ممکن ہوجائے گا کہ کسی رکاوٹ کے بغیر توحید کی آئڈیا لوجی پر نان پولیٹکل ایمپائر قائم کیا جاسکے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ جب وہ دور آجائے تو امت محمدی کو چاہیے کہ وہ نفرت اور تشدد اور جنگ کی تمام صورتوں کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور پیدا شدہ مواقع کوپرامن طور پر استعمال کرتے ہوئےتو حید کی بنیاد پر ایک نان پولیٹکل ایمپائر (non-political empire)قائم کردے۔
—4اسی طرح پیغمبر اسلام کی ایک روایت آئی ہے۔ اس كا ترجمه يه هےروئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہ بچےگا، مگر اس میں اللہ اسلام کا کلمہ داخل کردےگا۔(مسند احمد، حدیث نمبر 23865)۔ اس حدیث میں مستقبل کی امت محمدی کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جب یہ دور آجائے تو تم اس دور کو پہچانو۔ اس وقت تم ان تمام سرگرمیوں کو بند کردو، جس سے اس دور کے مواقع کو استعمال کرنا تمھارے لیے ناممکن ہوجائے۔ اس وقت تم یک طرفہ منصوبہ بندی کے ذریعہ آنے والے مواقع کو پر امن طور پر استعمال کرو، اور دین اسلام کو ہر گھر میں پہنچادو۔ یہ دور جب آئے گا تو وہ اپنے آپ سب کچھ نہیں کر ڈالے گا، بلکہ امت محمدی کو اس وقت کی ضرورت کے مطابق، دانش مندانہ منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔
—5دور دجال کی روایتوں میں سے ایک روایت وہ ہے جس میں دجا ل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دجال جب بولے گا، اس کی آواز مشرق و مغرب میں سنائی دے گی۔ چوتھے خلیفہ علی بن ابی طالب، پیغمبر اسلام کا نام لیے بغیر دجال کے بارے میں کہتے ہیں ينادي بصوت له يسمع به ما بين الخافقين (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709) ۔ یعنی وہ ایسی آواز میں پکارے گا، جو مشرق و مغرب کے درمیان سنائی دے گی۔
محدثین كے اصول کے مطابق یہ ایک موقوف روایت ہے۔ لیکن تاریخی اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک ثابت شدہ روایت ہے۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں ایسے ذرائع وجود میں آئے، مثلاً انٹرنیٹ ۔ اب ایک انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ایک جگہ سے بولے، اور اس کی آواز زمین کے کسی بھی حصہ میں سنائی دے۔ اس لحاظ سے اس روایت میں مستقبل کے ایک امکان کا ذکر ہے۔ یعنی اس دور کا ذکرہے جب کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ زمین کے کسی بھی حصہ میں ایک دعوتی سینٹر بنائے، اور اس کے ذریعہ وہ دین حق کی باتوں کو اس طرح نشر کرےکہ وہ ساری دنیا کے لوگوں کے لیے اس کا دیکھنا اور سننا پوری طرح ممکن ہوجائے۔
اس معاملے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اکیسویں صدی میں وہ دور پوری طرح آچکا ہے۔ اب کھلے طور پر یہ ممکن ہو گیا ہے کہ امت محمدی کے لوگ اٹھیں ، اور موجودہ زمانے کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اس پیشین گوئی کو عالمی سطح پر واقعہ بنادیں ، جو ان الفاظ میں آئی ہے: ليبلغن هذا الأمر ما بلغ الليل والنهار (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ امر ضرور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک رات اور دن پہنچتے ہیں ۔
ایک حدیث کے مطابق، دور آخر میں سب سے بڑا دعوتی واقعہ ظہور میں آئے گا۔ اس واقعہ کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں هذا أعظم الناس شهادة عند رب العالمين (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی اللہ رب العالمین کے نزدیک یہ سب سے بڑی گواہی ہوگی۔ یہاں شہادت سے مراد دعوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے آخری زمانے میں ایک ایسا عظیم دعوتی واقعہ پیش آئے گا، جو شہادت اعظم (greatest witness) کے ہم معنی ہوگا۔
شہادت اعظم کوئی پر اسرار واقعہ یا معجزاتی واقعہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ قوانین فطرت کے مطابق انجام پائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں مسلسل طور پر تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ تبدیلیوں کے اس عمل کے بعد اس کے نقطۂ انتہا (culmination) کے طور انتہائی عظیم وسائل انسان کی دسترس میں آجائیں گے۔اس وقت فطری طور پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کے کام کو اس کی عظیم ترین صورت میں انجام دیا جاسکے۔ يه خدا كي طرف سے ايك موقع هے كه آپ بھي اس دعوتی مشن کا حصہ بنیں ، اور خدا کے پیغام کو دنیا کے ہر چھوٹے بڑے گھروں میں ، انفرادی یا اجتماعی طور پر ، پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔