معرفت الٰہی (Marifat-e-Ilahi)

By
Maulana Wahiduddin Khan

معرفتِ الٰہی

خدا کی شعوری دریافت کے رہنما اصول

 

مولانا وحید الدین خاں

 

 

فہرست

معرفت کیا ہے

معرفت کی اہمیت

معرفت ایک دریافت

انسانی زندگی کا مقصد

معرفت ایک ذاتی دریافت

معرفت کے دو پہلو

معرفت ایک تخلیقی موضوع

 معرفت کا سفر

معرفت کا خزانہ

معرفت ایک خدائی عطیہ

توسم ذریعۂ معرفت

مبنی برعقل معرفت

معرفت کا ذریعہ

بے یقینی نہیں

اعلي معرفت سے محرومي كيوں

الله كي محبت

الق کی بے پناہ عظمت

جنتِ قریب، جنت بعید

محبت الٰہی

اعلیٰ معرفت

معرفت الٰہی

معرفت کا استحقاق

 عارفانہ شخصیت

منفی سوچ نہیں

خالق کے وجود کی دریافت

سب سے بڑا امتحان

خاموشی اور معرفت

ایک صحابی کی مثال

معرفت کا سادہ فارمولا

عظمتِ انسانی

خدا اور جنت

 معرفت کی قیمت

معرفت کا دروازہ

اعلیٰ معرفت

معرفت کی راہ میں رکاوٹ

معرفت کا تجربہ

معرفت کی تمثیلات

معرفت کا آغاز

معرفت کی زمین

معرفت کی روشنی

ارتقا پذیر معرفت

وجد اور معرفت کا فرق

معرفت اور دعا

سفر ِ معرفت

معرفت کی قیمت

مسائلِ دین، معرفتِ دین

معرفت کیا ہے

معرفت کے لفظی معنی پہچاننے کے ہیں۔ دینی اصطلاح میں، معرفت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کو پہچانے۔ وہ اپنے شعور کو اِس طرح بیدار کرے کہ اس کو خالق اور مخلوق اور عبد اور  معبود کے درمیان تعلق کی گہری پہچان ہوجائے۔ معرفت شعوری دریافت کا نام ہے، وہ کسی پراسرار چیز کا نام نہیں۔

معروف لغوی اور مفسر راغب الاصفہانی (وفات1108 ء) نے لکھا ہے: المعرفۃ والعرفان إدراك الشیٔ بتفکر وتدبر لأثرہ، ومعرفۃ البشر للہ هی بتدبر اٰثارہ دون إدراك ذاتہ (المفر دات فی غریب القرآن، صفحہ 331 )۔ یعنی معرفت یا عرفان کا لغوی مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز کی علامت میں غور وفکر کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ اور اللہ کی معرفت یہ ہے کہ انسان اللہ کو اس کی نشانیوں میں غور وفکر کے ذریعے دریافت کرے، نہ کہ اس کی ذات میں۔

اِس سے معلوم ہوا کہ معرفت کا تعلق مجرد علم سے نہیں ہے، بلکہ معرفت کا تعلق غور وفکر سے ہے۔ علم کسی آدمی کے اندرمعرفت کی ابتدائی صلاحیت پیدا کرتا ہے، یعنی چیزوں پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر کرنا۔ جب کوئی شخص معرفت کو اپنا مرکزِ توجہ بناتا ہے، وہ مسلسل طور پر اس کے بارے میں سوچتا ہے، وہ تخلیقات میں خالق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس  غور وفکر کے نتیجے میں اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے۔اسی شخصیت کا نام عارف انسان ہے۔

جس شخص کو اِس قسم کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ انتہائی سنجیدہ شخص بن جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو عارفانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنے لگتا ہے۔اس کی عبادت اور اس کے اخلاق ومعاملات میں معرفت کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس کو فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا لگاؤ سب سے زیادہ اُن چیزوں میں ہوجاتا ہے جو معرفت کی غذا دینے والی ہوں۔ وہ معرفت کے ماحول میں جیتا ہے اور معرفت کی ہواؤں میں سانس لیتا ہے۔

معرفت کی اہمیت

حضرت انس بن مالک الانصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اُس نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کون سا عمل افضل ہے (أيّ الأعمال أفضل)۔ آپ نے فرمایااللہ کی معرفت (العلم باللہ عزوجل) اُس آدمی نے دوبارہ پوچھا کہ اے خدا کے رسول، کون سا عمل افضل ہے۔ آپ نے فرمایااللہ کی معرفت۔ اُس آدمی نے کہا اے خدا کے رسول، میں آپ سے عمل کے بارے میں پوچھتا ہوں اور آپ مجھ کو علم کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: إن قلیل العمل ینفع مع العلم، وإن کثیر العمل لا ینفع مع الجهل (جامع بیان العلم وفضلہ، حدیث نمبر214)یعنی علم کے ساتھ تھوڑا عمل زیادہ نفع دیتا ہے، اور جہل کے ساتھ زیادہ عمل بھی نفع نہیں دیتا۔

اِس حدیث رسول میں علم سے مراد معرفت ہے۔ اِسی طرح قلیل اور کثیر سے مراد صرف مقداری معنیٰ میں کمی یا زیادتی نہیں ہے۔ اِس سے مراد دراصل یہ ہے کہ جو عمل معرفت یا داخلی اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے، وہی دراصل عمل ہے۔ جو عمل معرفت یا داخلی اسپرٹ سے خالی ہو، اُس عمل کا کوئی اعتبار نہیں۔

اصل یہ ہے کہ اسلام کا آغاز معرفت سے ہوتا ہے، یعنی اللہ کے وجود کی دریافت اور اللہ سے اپنے تعلق کی دریافت۔ اِسی دریافت کا نام ایمان باللہ ہے۔ جب کسی شخص کو اس قسم کا ایمان باللہ حاصل ہو جائے تو اس کا ظہور اس کی زندگی میں لازمی طورپر ہونے لگتا ہے۔ اُس کی سوچ، اس کا کلام، اُس کا سلوک، اس کے معاملات اور اس کی عبادت،ہر چیز میںاس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس درجے کی معرفت، اُسی درجے کا اسلام، جس درجے کی شعوری معرفت، اُسی درجے کا خارجی عمل۔

معرفت اسلام کی روح (spirit)  ہے، معرفت اسلام کی زندگی ہے۔ معرفت کسی آدمی کے اسلام کو زندہ اسلام بنا دیتی ہے— معرفت کے ساتھ عمل شاداب درخت کے مانند ہے، اورمعرفت کے بغیر عمل سوکھے درخت کے مانند۔

معرفت ایک دریافت

معرفت (realization) کیا ہے۔ معرفت دراصل یہ ہے کہ ایک بندہ، خدا کی نسبت سے اپنے عجز (helplessness)کو دریافت کرلے۔ وہ جان لے کہ خدا قادرِ مطلق ہے اور انسان عاجزِ مطلق۔ یہ دریافت جب دل کی گہرائیوں کے ساتھ انسان کی نفسیات میں شامل ہوجائے تو اِسی کا نام معرفت ہے۔ ایک شخص نے اپنے ایک محبوب بیٹے کے نام اپنے خط میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ — میرے دل کی گہرائیوں کو روشن کرنے والے چاند۔ یہی احساس جب خداوند عالم کی نسبت سے پیدا ہوجائے تو اِسی کا نام معرفت ہے۔

مثلاً آپ قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اِس آیت تک پہنچتے ہیں:وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ (31:27)۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرتے ہوئے آپ کے سینے میں جذبات کا ایک طوفان امڈ پڑتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ خدا اگر قدرت کے اعتبار سے ایک انتہا پر ہے، تو انسان عجز کے اعتبار سے دوسری انتہا پر ہے۔ اُس وقت آپ اشک بار آنکھوں کے ساتھ کہہ اٹھتے ہیں کہ — خدایا، جس طرح تیری صفت ما نفدتْ کلمات اللّٰہ ہے، اُسی طرح انسان کی صفت ’ما نفدتْ عجز الانسان‘ ہے۔

یہ گویا کہ دریافت کی آخری حد ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان، قادرِ مطلق کے مقابلے میں عاجز مطلق کی آخری حد (extent)  بناتا ہے۔ یہ شعورِ انسانی کا وہ مقام ہے، جس کا تجربہ انسان کے سوا کوئی دوسری مخلوق نہیں کرسکتی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ستارے اور سیارے، پہاڑ اور سمندر انسان پر رشک (envy) کرنے لگیں۔ یہ تجربہ کسی بندے کے لیے اعلیٰ دریافت کی حیثیت رکھتا ہے، اور اعلیٰ دریافت ہی کا دوسرا نام اعلیٰ معرفت ہے۔ یہ اعلیٰ معرفت اِس وسیع کائنات میں انسان کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔

انسانی زندگی کا مقصد

قرآن کی سورہ الذاریات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ  (51:56) یعنی میں نے جن اورانسان کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اِس میں ’’ لِيَعْبُدُونِ ‘‘ کی تشریح صحابیٔ رسول، ابن عباس نے ’’لیعرفون‘‘ سے کی ہے، یعنی خالق کی معرفت کے لیے۔ یہی بات ایک روایت میں اِن الفاظ میں آئی ہے: كنت كنزًا مخفيًا فأحببت أن أعرف فخلقت خلقًا (کشف الخفاء، حدیث نمبر 2016 )

حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی شروع سے آخر تک معرفت کا ایک سفر ہے۔ اِس سفرِ معرفت کا ابتدائی حصہ موجودہ دنیا میں گزرتا ہے، اور اس کا انتہائی اور ابدی حصہ آخرت کی دنیا میں گزرے گا۔ معرفت ایک لامتناہی سمندر ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اِس لا متناہی سفر کا مسافر بنے، موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں بھی اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں بھی۔

موجودہ دنیا کے بارے میں قرآن میں آیا ہے: وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (14:34) یعنی خدا نے تم کو ہر اُس چیز میں سے دیا جس کو تم نے اس سے مانگا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ وہ معرفت کا سفر طے کرے، لیکن جینے کے سامان کے طورپر اس کو وہ تمام چیزیں دے دی گئی ہیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ آخرت کی زندگی بھی حقیقۃً معرفت کی زندگی ہے۔ دنیا کی زندگی میں معرفت کا جو سفر ابتدائی طور پر شروع ہوا تھا، وہ آخرت کی زندگی میں بھی اپنے اعلیٰ ترین صورت میں جاری رہے گا۔ آخرت میں انسان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ خالق کا براہِ راست مشاہدہ کرے، وہ خالق کا شریکِ مجلس بنے، وہ خالق سے کلام کرسکے۔ تاہم آخرت میں انسان خدا کا مہمان بن کر رہے گا۔ دنیا میں زندگی کی جو چیزیں اس کو درجۂ ضرورت میں ملی تھیں، وہ آخرت میں انسان کو درجۂ اشتہاء (41:31) میں حاصل ہوجائیں گی۔

معرفت ایک ذاتی دریافت

قرآن میں، ہزار سے زیادہ آیتیں ہیں۔ اِن میں ایک آیت وہ ہے جو قرآن کی سب سے زیادہ لمبی آیت ہے۔ یہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 282 ہے۔ یہ آیت، قرض (debt) کی کتابت (writing)کے بارے میں ہے۔ اِس آیت میں نہ صرف قرض کے معاملے کی کتابت کا حکم ہے، بلکہ اس کی جزئی تفصیلات تک اس میں بتائی گئی ہیں۔

اس کے برعکس معاملہ معرفت کا ہے۔ قرآن میں معرفت کا ذکر ہے، لیکن اس میں کہیں بھی معرفت کی تفصیلات (details)  بیان نہیں کی گئی ہیں۔ معرفت کا مادّہ (root)  ع، ر، ف ہے۔ اِس کے مشتقات (derivatives)  قرآن میں تقریباً 70  بار آئے ہیں، مگر کہیں بھی معرفت کی تفصیل مذکور نہیں۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ المائدہ میں یہ آیت آئی ہے :وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ (5:83) ۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک گروہ کو کلام اللہ سن کر معرفت ملی، لیکن قرآن کے اِس بیان سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ متعین طورپر وہ معرفت کیا تھی جو اُس گروہ کوحاصل ہوئی۔

قرآن کی اِن دونوں آیتوں کے تقابل سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ معرفت، فقہی مسئلہ جیسی کوئی چیز نہیں ہے جس کو تعین کی زبان (specific language)  میں بیان کیا جاسکے۔ معرفت ایک ایسی چیز ہے جو ذاتی دریافت (self-discovery) کے طورپر کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ معرفت یا توخود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality)  کے طورپر حاصل ہوگی، یاپھر وہ سرے سے حاصل ہی نہ ہوگی۔ معرفت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے طالب معرفت کے لیے  وہی طریقہ رکھا ہے جس کو فنِ تعلیم میں ڈسکوری متھڈ (discovery method) کہاجاتاہے۔

حقیقت یہ ہے کہ معرفت ایک ایسی چیز ہے جس کو آدمی خود اپنے غور وفکر سے دریافت کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ کہ معرفت ایک اجتہادی موضوع ہے، وہ تقلیدی موضوع نہیں۔ معرفت کے حصول کے لیے تخلیقی ذہن (creative mind)  درکار ہے۔ معرفت کسی شخص کو لمبی فکری جدوجہد کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ معرفت ایک ذاتی دریافت ہے، معرفت کسی ایسے مقرر کورس کے ذریعے حاصل نہیں ہوتی جو آپ نے کسی شخص کے بتانے سے جانا ہو، جو آپ نے کسی شخص سے بطور تقلید حاصل کیا ہو۔

معرفت کے دو پہلو

خداکی معرفت کے دو پہلو ہیں —محبت، اور خشیت۔ خدا ایک طرف رحیم ہے، اور دوسری طرف وہ عادل ہے۔ انسان جب خدا کی بے پایاں رحمت کوسوچتا ہے تو اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں: أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (2:165)کہا گیا ہے، یعنی اللہ سے بہت زیادہ محبت کرنے والے۔اِسی طرح جب ایک انسان خدا کے عادل ہونے کو سوچتا ہے تو اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں: وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ(9:18) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

مومن کی شخصیت اِنھیں دوکیفیات کے ذریعے بنتی ہے۔ ایک طرف، وہ اپنے رب سے بہت زیادہ محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف، وہ اپنے رب سے بہت زیادہ ڈرنے والا ہوتاہے۔ خدا کی محبت ایک ایسی محبت ہے جو سراپا درد سے بھری ہوتی ہے۔ اِسی طرح خدا سے خوف ایک ایسا خوف ہے جو محبت کے جذبات سے معمور ہوتاہے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے جس میںآدمی جس ہستی سے پانے کی امید رکھتا ہے، اُسی ہستی کے بارے میں اس کو یہ اندیشہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کہیں اپنی رحمتوں سے اس کو محروم نہ کردے۔ یہ محبت اور خوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کو محسوس کیاجاسکتا ہے، لیکن اس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

یہی اعلیٰ معرفت کی پہچان ہے۔ اعلیٰ معرفت سکون بھی ہے اور تڑپ بھی۔اعلیٰ معرفت امید بھی ہے اور خوف بھی۔ اعلیٰ معرفت یقین بھی ہے اور بے یقینی بھی۔ اعلیٰ معرفت قربت بھی ہے اور دوری بھی۔ اعلیٰ معرفت ایک ایسا مقام ہے جہاں بندے کو کبھی یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ منزل پر پہنچ گیا اور کبھی اس کو یہ شبہہ ہوتا ہے کہ وہ ابھی راستے میں سرگرداں ہے۔ کبھی وہ اِس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ وہ فل اسٹاپ (full stop)  تک پہنچ گیا، اور کبھی وہ اِس شک میں مبتلا رہتاہے کہ ابھی وہ کاما (comma)کے مرحلے سے گزر رہا ہے — محبت اور خشیت کی اِنھیں کیفیات کا نام معرفت ہے۔

معرفت ایک تخلیقی موضوع

معرفت کا کوئی سٹ کورس (set course) نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اوراد ووظائف یا ذکر واشغال کاکوئی بنا بنایا طریقہ ہے، جو شخص بھی اس کو دہرائے ، اُس کو اپنے آپ معرفت حاصل ہو جائے گی۔ اِس قسم کا کوئی نظریہ معرفتِ خداوندی کی تصغیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت ایک تخلیقی موضوع (creative subject)  ہے۔ معرفت کے لیے اجتہادی ذہن درکار ہے۔ معرفت ایک طوفانی تجربہ ہے۔ معرفت کسی شخص کو ذاتی دریافت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ جو معرفت کسی تقلیدی فارم کے دہرانے سے حاصل ہو، وہ کچھ اور چیز ہوسکتی ہے، وہ معرفت نہیں ہوسکتی۔ جس خدا کی صفت ہو: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (55:29)۔ یعنی وہ ہر دن نئی شان میں ہے۔ اس کی معرفت کسی جامد یا تقلیدی کورس کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی۔

جس چیز کو سیکولر اصطلاح میں تخلیقی فکر (creative thinking) کہاجاتاہے، مذہب کی زبان میں اُسی کا نام اجتہادی فکر ہے۔ اجتہادی فکر کا مطلب آزادانہ سوچ نہیں ہے، اجتہادی فکر کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے بیانات میں چھپے ہوئے معانی کو د ریافت کیاجائے۔ معانی کی یہ دریافت اجتہادی فکر کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِسی اجتہادی فکر سے اعلیٰ معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہ خدائی کتاب (قرآن) اِس لیے اتاری گئی ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں، وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اُس سے نصیحت حاصل کریں (ص،38:29) ۔ اِسی غور وفکر پر مبنی نصیحت کا دوسرا نام معرفت ہے۔ اجتہادی معرفت کے حصول میں قرآن کی حیثیت ایک رہنما کتاب کی ہے۔ معرفت کے بنیادی اصول قرآن میں بتا دئے گئے ہیں۔ اِن بنیادی اصولوں کی رہنمائی میں غور کرکے اُن کے اندر چھپے ہوئے معانی کو دریافت کرنا یہی اجتہاد ہے۔ اور اِسی اجتہادی عمل کے ذریعے اعلیٰ معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔

معرفت کا سفر

قرآن میں خدا کی قدرت کو بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ  (36:82)  یعنی خدا جب کسی چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ہو جا اور پھر وہ چیز ہوجاتی ہے۔

قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت اتنی زیادہ ہے کہ وہ چیزوں کو ایک لمحے کے اندر وجود میں لا سکتا ہے، مگر تخلیق کی تاریخ بتاتی ہے کہ خدا نے ایسا نہیں کیا۔ جدید سائنس کی دریافت کے مطابق، موجودہ کائنات کی عمر تقریباً 15  بلین سال ہے۔ خدا نے سب سے پہلے تمام کائناتی ذرات کا مجموعہ بنایا۔ اِس مجموعے کو سپر ایٹم (super atom) کہاجاتا ہے۔ پھر اِس سپر ایٹم میں دھماکہ (explosion) ہوا۔ اور جمے ہوئے ذرات منتشر ہو کر وسیع خلا میں پھیل گئے۔ پھر اِن ذرات نے ستاروں اور سیاروں کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد نظامِ شمسی (solar system)  بنا۔ پھر اِسی نظامِ شمسی کے اندر موجودہ زمین کی تشکیل ہوئی۔ پھر دو گیسوں کے ملنے سے سیال (liquid water) وجود میں آیا۔ اِس کے بعد نباتات اور حیوانات کا ظہور ہوا۔ آخر میں انسان کو پیدا کرکے اُس کو زمین پر بسایا گیا۔

یہ پورا واقعہ اگر ایک تخلیقی کرشمہ کے طورپر اچانک ایک لمحے کے اندر ظہور میں آتاتو وہ انسان کے لیے صرف تحیّر (bewilderment)  کا سبب ہوتا، وہ انسان کے لیے غور وفکر کا ذریعہ نہ بنتا۔ خالق نے ایسا کیا کہ کائنات کو ایک لمحے میں پیدا کرنے کے بجائے، ایک لمبے عمل (process) کے ذریعے پیدا کیا۔ کائنات کی تخلیق میں بے شمار عوامل (factors) شامل ہوگئے۔ اِس طرح یہ ممکن ہوا کہ انسان کائنات پر غور کرے اور لامتناہی طورپر وہ اس کے قوانین کو دریافت کرتا رہے۔ اِس طرح کائنات، انسان کے لیے ابدی معرفت کا ذریعہ بن گئی۔ انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ہر صبح وشام کائنات میں چھپے ہوئے تخلیقی عمل پر غور کرے۔ اِسی طرح وہ مسلسل طور پر خدا کے تخلیقی کرشموں کو دریافت کرتا رہے، اس کا سفرِ معرفت کبھی ختم نہ ہو۔

معرفت کا خزانہ

قرآن میں کلمات اللہ (31:27) کا ذکر ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے اِن کلمات کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کی گنتی کی جائے تو اُن کی گنتی کبھی ختم نہ ہو۔ یہ کلمات اللہ کیا ہیں، یہ کوئی مبہم چیز نہیں۔ اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو اسرارِ کائنات (mysteries of the universe) کہاجاتا ہے۔ جدید سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انھیں کلماتِ الہی کو دریافت کرنے کا نام ہے۔

جدید سائنس کی تاریخ تقریباً پانچ سوسال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اِس دوران سائنس دانوں نے قوانین فطرت کے اعتبار سے بے شمار چیزیں دریافت کی ہیں۔ دور بین (telescope)  اور خورد بین (microscope) کی ایجاد نے اِن دریافتوں کا دائرہ بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اپنی نوعیت کے اعتبار سے، معرفت کا علم ہے۔ اُس نے اہلِ ایمان کے لیے معرفت کا ایک عظیم خزانہ کھول دیا ہے۔

یہاں سائنس سے مراد ٹکنکل سائنس (technical science)نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد پاپلر سائنس (popular science) ہے۔ پاپلر سائنس کے موضوع پر ہر زبان میں کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتابیں آسان زبان میں ہوتی ہیں اور ہر آدمی اُن کو پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تخلیقِ خداوندی میں غوروفکر کرنا ہے۔ غوروفکر کے لیے ہمیشہ معاون ڈاٹا (supporting data)  درکار ہوتا ہے۔ سائنس کے ظہور سے پہلے اِس معاملے میں صرف محدود ڈاٹا دستیاب تھا۔ اب سائنس نے طالبِ معرفت کے لیے لامحدود ڈاٹا کی عظیم لائبریری فراہم کردی ہے۔ اب طالب معرفت کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ اپنے سفرِ معرفت کو لامتناہی طورپر (endlessly)  جاری رکھے۔ وہ ہر لمحہ معرفتِ رب کی غذا حاصل کرتا رہے۔ اس کے اندر روحانی ارتقا کا عمل (process) مسلسل طورپر جاری رہے۔ روحانی ارتقا کا یہ عمل  موت سے پہلے ایک لمحے کے لیے بھی ختم نہ ہو۔

معرفت ایک خدائی عطیہ

انسان بے شمار چیزوں کا ضرورت مند ہے۔ مگر ان ضرورت کی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز وہ خود سے پیدا نہیں کرسکتا۔ یہ تمام چیزیں خدا کی طرف سے انسان کو یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملتی ہیں۔ خدا اگر یہ عطیہ نہ دے تو انسان آخری حد تک تباہ ہو کر رہ جائے۔

انسانی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جہاں سے معرفتِ رب کا آغاز ہوتا ہے۔ کوئی انسان جب اپنی اِس حیثیت کو شعوری طورپر دریافت کرتاہے تو وہ خدائی فیضان کا وِعایہ (container) بن جاتا ہے۔ کسی انسان کے اندر اِس قسم کے شعور کا پیدا ہونا، خدا کے ساتھ اس کی صحیح نسبت کا قائم ہوجانا ہے۔ جب کسی انسان کو یہ نسبت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد وہ مسلسل طورپر خدائی فیضان (divine inspiration) پانے لگتا ہے۔ایسے انسان کے اندر معرفتِ رب کا عمل (process)  جاری ہوجاتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے کوئی منفی سبب پیدا نہ کرے تو معرفت کا یہ عمل اس کے اندر برابر جاری رہے گا۔ اس کی معرفت مسلسل ترقی کرتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ اپنے حدِ کمال کو پہنچ جائے۔

معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک خدائی عطیہ (divine gift)  ہے۔ دنیا میں جس انسان کو معرفت کا عطیہ ملا، وہی وہ انسان ہے جو آخرت میں جنت کے عطیہ کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت گویا کہ کسی انسان کے لیے خدا کا دنیوی انعام ہے، اور جنت کسی انسان کے لیے خداکا اُخروی انعام۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت سچائی کی سیٹ (القمر، 54:55) پر ہوں گے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ جو چیز کسی انسان کو جنت کے لیے غیر مستحق بناتی ہے، وہ کذب (جھوٹ) ہے، کذبِ جلی بھی اور کذبِ خفی بھی۔ جو آدمی اپنے آپ کو ہر قسم کے کذب سے بچائے، وہی وہ انسان ہے جو جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے گا۔ معرفت آدمی کو سچا انسان بناتی ہے اور سچائی انسان کو جنت تک پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔

توسم ذریعۂ معرفت

قرآن میں ربانی انسان کی ایک صفت توسم (الحجر، 15:75) بتائی گئی ہے۔ توسُّم کا مطلب تفرُّس ہے، یعنی ظاہری علامت کے ذریعے کسی داخلی صفت کو پہچاننا۔ صاحب توسم آدمی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ چیزوں سے سبق لے سکے، وہ مادی تجربات کے دوران روحانی غذا حاصل کرسکے۔ توسم کی یہ صلاحیت معرفت کے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جس آدمی کے اندر توسم کی صلاحیت نہ ہو، وہ یقینا معرفت سے بھی محروم رہے گا۔

آسٹریلیا کے عالمی تعلیمی ادارہ (Australian Education International) کی طرف سے 2010 میں 60 صفحے کا ایک میگزین شائع ہوا۔اس کے ایک صفحے پر پوری دنیا کا نقشہ (world map) بڑے سائز میں چھپا ہوا ہے۔ اِس نقشے میں ایک طرف سفید رنگ میں انڈیا ہے، اور دوسری طرف دس ہزار میل کے فاصلے پر ہرے رنگ میں آسٹریلیا۔ ہندستانی نقشے کے اوپر ہندستانی نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں— تم یہاں ہو (You are here)۔ اس کے بعد آسٹریلیا کے نقشے پر لکھا ہوا ہے کہ — تمھارا مستقبل یہاں ہے (Your future is here) ۔

آپ نے اس نقشے کو دیکھا۔ اس کے بعد اچانک آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ انسان آج موت سے پہلے کی دنیا میں ہے، لیکن اس کا ابدی مستقبل موت کے بعد کی دنیا میں ہے۔ اپنا مستقبل تلاش کرنے کی جگہ موجودہ دنیا نہیں ہے، بلکہ وہ بعد کو آنے والی آخرت کی ابدی دنیا ہے۔

اِسی انتقالِ فکر (intellectual shift) کا نام توسم ہے، یعنی مادی واقعات سے روحانی سبق لینا، مادی واقعات کو عارفانہ تجربے میں تبدیل کرنا :

To convert material events into spiritual experience.

 اِس توسم کا سامان ہر چیز میں موجود ہوتا ہے، کوئی بھی چیز اس سے خالی نہیں۔ اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو تو وہ ہر چیز میں توسم کے ذریعے معرفت کی غذا حاصل کرتا رہے گا۔

مبنی برعقل معرفت

معرفت کا ذریعہ، قرآن کے الفاظ میں، تفکر اور تدبر (آل عمران، 3:191) ہے۔ معرفت کا حصول غوروفکر (contemplation) کے ذریعے ہوتا ہے، اور غور وفکر کا تعلق تمام تر عقل یا دماغ (mind) سے ہے۔ انسان کے جسم میں صرف دماغ یا برین (brain) وہ حصہ ہے جس کے اندر سوچنے کا عمل جاری ہوتا ہے۔ اِسی سوچنے کے عمل کے ذریعے وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس کو معرفت (realization) کہاجاتا ہے۔

قدیم زمانے سے ایک روحانیت پسند طبقہ رہا ہے جو معرفت کا ذریعہ قلب کو بتاتا ہے۔ اِسی نظریے کے تحت، قلبی مراقبہ (meditation) کا طریقہ رائج ہوا۔ مگر یہ نظریہ دینِ خداوندی کی پیداوار نہیں، یہ نظریہ تمام تر وحدتِ وجود (monism) کے تصور کے تحت پیدا ہوا ہے۔ وحدتِ وجود یا ادوئت واد کا عقیدہ رکھنے والوں نے اپنے اِس عقیدے کے تحت ایک نظریہ وضع کیا ہے۔ اِس نظریے کو وہ اِن ڈویلنگ گاڈ (in-dwelling god) کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، یعنی دل کے اندر بسنے والا خدا۔ مگر یہ نظریہ تمام تر صرف قیاس (supposition) پر مبنی ہے، اُس کے حق میں کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔

قرآن میں قلب (heart) کے حوالے سے فقہ (فہم) کا حوالہ آیاہے (الاعراف، 7:179) ، مگر یہ صرف ادبی استعمال (literary usage) کے طور پر ہے، وہ حقیقی معنی کے اعتبار سے نہیں۔ موجودہ زمانے میں قلب کی تحقیق کرنے والوں نے بتایا ہے کہ قلب گردشِ خون (blood circulation)کا جو عمل کرتا ہے، اس کے دوران قلب اور دماغ کے مابین کمیونی کیشن (communication) ہوتا ہے۔ مگر اِس سے سوچنے والے دل (thinking heart) کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا، کیوں کہ دماغ کے ساتھ اِس قسم کا کمیونی کیشن جسم کے ہر عضو (organ) کے ساتھ ہوتا ہے۔ جدید علم ِ تشریح الاعضا (anatomy) کے ذریعے جو چیز ثابت ہوئی ہے، وہ اعضا (organs) کے درمیان صرف کمیونکیشن ہے، نہ یہ کہ قلب یا کوئی اور عضو سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضا(organs)اس اعتبار سے، دماغ کے ماتحت (subservient to the brain) ہیں، اس میں قلب کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔

معرفت کا ذریعہ

معرفت کا ذریعہ کسی قسم کے اوراد واشغال نہیں ہیں۔ معرفت ایک زندہ دریافت کا نام ہے۔ معرفت کے حصول کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے، غور وفکر کے ذریعے اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کرنا، جب کہ آدمی مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے دوران معرفت کا رزق پاتا رہے۔ وہ روز مرہ کے واقعات کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر معرفت کی دریافت کرتا رہے۔ مثال کے طور پر آپ قرآن کی سورہ النساء پڑھ رہے ہیں۔ آپ اِس آیت تک پہنچتے ہیں: وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (4:20)۔ یعنی اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اس کو بہت سامال دے چکے ہو، تو تم اُس میں سے کچھ واپس نہ لو۔

قرآن کی اِس آیت پر غور کرتے ہوئے آپ کی سمجھ میں آتا ہے کہ دئے ہوئے مال کو واپس نہ لینا، یہ ایک شرافت کا معاملہ ہے۔ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی شرافت کا حکم دیا ہے اور غیر شریفانہ طرزِ عمل سے منع کیا ہے — پھر آپ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس شرافت کا حکم دیا ہے، وہ شرافت خود اللہ تعالیٰ میں بے حساب گنا زیادہ ہوگی۔ یہ سوچتے ہوئے آپ تڑپ اٹھتے ہیں اور آنسوؤں کی زبان میں یہ کہتے ہیں کہ — خدایا، تونے دنیا میں مجھ کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمائیں۔ اب کیا آخرت میں تو اِن نعمتوں کو مجھ سے چھین لے گا۔ موت سے پہلے کی زندگی میں تو نے مجھ کو جنت میں رکھا۔ یہ تیری اعلیٰ شرافت کے خلاف ہے کہ تو موت کے بعد کی زندگی میں مجھ کو جہنم میں ڈال دے۔

اِسی کا نام پوائنٹ آف ریفرنس ہے، یعنی واقعات اور تجربات کے حوالے سے اللہ کو یاد کرنا، واقعات اور تجربات کو تخلیقی معرفت کا ذریعہ بنا لینا۔ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جو اِس انداز میں اپنے ذہن کی تربیت کرے، دوسرا کوئی طریقہ معرفت کے حصول کا نہیں۔

بے یقینی نہیں

ہدایت کے معاملے میں خدا کا ایک قانون وہ ہے، جس کو قرآن میں قانونِ التباس کہاگیا ہے (الانعام، 6:9) ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں شبہ کا ایک عنصر (element of doubt) موجود ہوتا ہے۔ یہ قانون مصلحتِ امتحان کی بنا پر ہے۔ جو شخص شبہ کے اِس پردے کو پھاڑ سکے، وہ سچائی کو پائے گا۔ اور جو شخص شبہ کے اِس پردے کو پھاڑنے میں ناکام رہے، وہ سچائی کو پانے میں بھی ناکام رہے گا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس معاملے میں آدمی کو بچانے والی نہیں۔

معرفت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ جو آدمی معرفت کے سفر کا مسافر بنے، اس کو بار بار ایسی صورتِ حال کا سامنا پیش آئے گا، جب کہ وہ محسوس کرے گا کہ وہ شبہ اور یقین (doubt and conviction)  کے درمیان ہے۔ وہ ایک چیز پر یقین کرنا چاہتا ہے، لیکن اِسی کے ساتھ کچھ ایسے اسباب بھی ہیں جو اُس کو شبہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ ایک چیز کو ماننا چاہتا ہے، لیکن وہ اس کو مان نہیں پاتا۔ تذبذب (hesitation) کی یہ حالت اکثر لوگوں پر گزرتی ہے۔ یہ تذبذب معرفت کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

جب بھی کوئی شخص تذبذب کی کیفیت کا شکار ہوتا ہے تو ہمیشہ اس کے سامنے د وحالتیں ہوتی ہیں— ایک طرف، عقل (reason) کی سطح پر وہ محسوس کرتا ہے کہ فلاں چیز علمی معیار پر بالکل درست ہے، لیکن اِسی کے ساتھ اپنے روایتی خیالات کی بنا پر وہ اِس شک میں رہتا ہے کہ کہیں اس کے اندر کوئی غلطی نہ ہو۔ علمی طورپر مدلل ہونے کے باوجود وہ موہوم شبہ کی بنا پر بے یقینی کی حالت میں پڑا رہتا ہے۔

بے یقینی کی یہ حالت کسی کے لیے عذر نہیں بن سکتی۔ معرفت کے طالب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تذبذب کی اِس حالت سے نکلے۔ وہ شبہ کے مقابلے میں علم کو ترجیح (priority)  دے۔ وہ بے ثبوت شک کی فضا سے باہر آئے۔ وہ ثابت شدہ چیز پر یقین کرتے ہوئے اس کو اختیار کرلے۔ یہ معرفت کے حصول کی لازمی شرط ہے۔

اعلیٰ معرفت سے محرومی کیوں

قرآن کے مطابق، خدا کی اعلیٰ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جس کو اللہ سے اعلیٰ تعلق قائم ہوجائے۔ اللہ سے اعلیٰ تعلق کی پہچان یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے حبّ شدید (البقرۃ،2:165) اور اللہ سے خوفِ شدید (التوبۃ، 9:18) پیدا ہوجائے۔ جب کسی انسان کو اللہ کے ساتھ اِس قسم کا گہرا تعلق حاصل ہوجائے تو اس کے اندر ذکرِ کثیر (الاحزاب، 33:41)کی صفت پیدا ہوجاتی ہے، یعنی اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا، اللہ کے لیے بہت زیادہ سوچنا۔ اللہ کے ساتھ تعلق میں اگر ایک فی صد بھی کمی آجائے تو ایسے انسان کو اللہ کی اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوگی۔

یہود کا حال بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ ان کا گہرا تعلق اللہ سے نہ رہا، بلکہ اپنے اَحبار اور رُہبان سے ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے محروم ہوگئے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہے۔ مسلمانوں کے ہر گروہ کے کچھ بڑے (big)  ہیں اور ان کا گہرا تعلق اپنے اِنھیں بڑوں سے ہے، نہ کہ خداوند ذوالجلال سے۔ اپنے اِن بڑوں کو انھوں نے مقدس نام دے رکھے ہیں۔ مثلاً اکابر، اسلاف، مشائخ، بزرگانِ دین، وغیرہ۔مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اِنھیں مفروضہ بڑوں سے گہرا قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اِس گہرے قلبی تعلق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے اِن بڑوں کے خلاف تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتے۔

یہ غیر خدا کے ساتھ حب شدید کا تعلق قائم کرنا ہے او ر جو لوگ کسی غیر خدا کے ساتھ حب شدید کی نفسیات میں مبتلا ہوں، وہ کبھی اللہ کی اعلیٰ معرفت کی توفیق نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں کے حصے میں صرف رسمی عقیدہ آتاہے، نہ کہ اعلیٰ ایمان باللہ جو آدمی کو اعلیٰ معرفت تک پہنچانے والا ہو۔ اعلیٰ معرفت کی ایک قیمت ہے، اور یہ قیمت ادا کئے بغیر کسی کو اعلیٰ معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔

اللہ کی محبت

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (2:165) ۔ اِس آیت کے مطابق، اللہ کا مومن بننے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کے لیے حبّ شدیدپیدا ہوجائے۔ مذکورہ قرآنی آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے حب شدید کرتے ہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ اہلِ ایمان کے اندر اللہ سے حب شدید ہوتی ہے۔

اصل یہ ہے کہ محبت جواب (response)  کے طور پر کسی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب ایک انسان اللہ کو اپنے سب سے بڑے محسن اور منعم کی حیثیت سے دریافت کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سینے میں اللہ کے لیے محبت کا سمندر موج زن ہوجاتا ہے۔ اِسی کا نام حبّ شدید ہے۔ محبت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دریافت کا نتیجہ ہے، وہ محض ایک حکم کی تعمیل نہیں۔

انسان جب اپنے آپ کو احسنِ تقویم (التین، 95:4) کی حیثیت سے دریافت کرتاہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے ساتھ تکریم (الاسراء،17:70) کا معاملہ کیا ہے، جب وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے زمین اور آسمان کو مسخر کردیا ہے، جب وہ ان بے شمار نعمتوں کو دریافت کرتا ہے جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتا ہے، جب وہ اللہ کے اِس احسان کو دریافت کرتا ہے کہ اُس نے پیغمبر کے ذریعے اس کی ہدایت کا انتظام فرمایا، جب کہ وہ اس سے پوری طرح بے خبر تھا، جب وہ کائناتی پیمانے پر اللہ کی تخلیق اور اس کی ربوبیت کو دریافت کرتا ہے تو اس کے دل میں شکر کا بے پناہ جذبہ امنڈ پڑتا ہے۔ یہی شکرِ الٰہی محبتِ الٰہی کا منبع ہے۔ اِسی سے انسان کے اندر وہ گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کو قرآن میں حب شدید کہا گیا ہے۔

اصل بات یہ نہیں ہے کہ محبت کرو، اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو اتنے بڑے منعم کی حیثیت سے دریافت کرو کہ تمھارے اندر اللہ کے لیے حب شدید پیدا ہوجائے۔

خالق کی بے پناہ عظمت

قرآن کی سورہ الرعد میں یہ آیت آئی ہے:اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا (13:2)۔یعنی اللہ ہے جس نے آسمان کو بلند کیا بغیر ایسے ستون کے جو تمھیں نظر آئیں۔

اِس آیت میں ایک عظیم کائناتی حقیقت کو بیان کیاگیا ہے۔ یہ حقیقت اتنی زیادہ عظیم ہے کہ اس کو سوچ کر آدمی کا دل دہل اٹھے اور اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

قدیم روایتی زمانے میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ چیزیں کسی مادّی سہارے پرقائم ہیں۔ مثلاً ستارے کسی آسمانی چھت سے لٹکائے گئے ہیں، ا ور زمین کسی مادی سہارے پر قائم ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں جب دو ر بین ایجاد ہوئی اور خلا (space) کا دور بینی مشاہدہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ ساری کائنات ایک خلا میں ہے۔ کہکشائیں، شمسی نظام، ستارے اور سیارے، سب ایک اتھاہ خلا میں کسی سہارے کے بغیر گھوم رہے ہیں۔ یہ سارا معاملہ اتنے وسیع خلامیں ہورہا ہے کہ انتہائی طاقت ور دوربینوں کے ذریعے بھی اُن کی حدوں کو دیکھا نہیں جاسکتا۔

کسی سہارے کے بغیر قائم یہ کائناتی نظام اتنا زیادہ بڑا ہے کہ اس کا صرف قیاس کیاجاسکتا ہے۔ وسیع کائنات کے بارے میں جو اندازے کئے گئے ہیں اور اس کے جو فوٹو حاصل کئے گئے ہیں، وہ اتنے زیادہ بڑے ہیں کہ اُن کے فاصلوں کو عام اَعداد کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا، چناں چہ اُن کو صرف سالِ نور (light years)  کی اصطلاح میں بیان کیا جاتاہے

Light year:  A unit of astronomical distance, equal to the distance that light travels in one year, approximately 6,000,000,000,000 miles.

لامحدود خلا میں انتہائی وسیع کائنات کا معلق ہونا، خالق کی عظمت کا ناقابلِ بیان ثبوت ہے۔

جنتِ قریب، جنت بعید

قرآن کی سورہ القمر میں اہلِ جنت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (54:54-55) یعنی بے شک اللہ سے ڈرنے والے لوگ باغوں میں اور نہروں میںہوں گے، بیٹھے ہوئے سچائی کی سیٹ پر، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔

قرآن کی اِس آیت اور دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے دو درجے ہیں— ایک، جنت قریب، اور دوسری، جنت بعید۔ جنت قریب، خدا کے پڑوس میں ہوگی۔ یہاں وہ لوگ بسائے جائیں گے جو اعلیٰ معرفت والے لوگ ہوں گے۔ جنت بعید سے مراد خدا کے پڑوس سے دور کی جنت ہے۔ اِس جنت میں عام اہلِ ایمان کو جگہ ملے گی۔ عام اہلِ ایمان بھی جنت میں جگہ پائیں گے، لیکن ان کو جنت ِ بعیدمیں جگہ ملے گی، نہ کہ جنت قریب میں۔

اعلیٰ معرفت والے لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ  (2:165)۔ یعنی جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ محبت اللہ سے رکھنے والے ہیں۔ یہ وہ اصحابِ معرفت ہیں جنھوں نے اللہ کو ایسی برتر ہستی کے طورپر دریافت کیا جو کامل طور پر ان کے دل ودماغ پر چھاگیا۔ ان کی ساری محبتیں ایک اللہ کے لیے وقف ہوگئیں۔ اللہ وحدہ لاشریک ہی اُن کا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern)  بن گیا۔ اُن کی سوچ تمام تر اللہ والی سوچ (God-oriented thinking) بن گئی۔

جن لوگوں کو اللہ سے محبت کے درجے کا تعلق ہوجائے، وہ اللہ کے حضور (presence)  میں جینے لگتے ہیں۔ اُن کو دنیا ہی میں اللہ کی قربت حاصل ہوجاتی ہے۔

ایسے لوگوں کو دنیا میں یہ قربت (closeness) نفسیات کی سطح پر ملتی ہے، آخرت میں اُن کو قربت کا یہ تجربہ عملی سطح پر ہونے لگے گا۔ وہ دنیا ہی کی زندگی میں خدا کی قربت کا تجربہ کررہے تھے، آخرت میں اُنھیں قربتِ الٰہی کے مزید اعلیٰ درجات حاصل ہوجائیں گے۔

محبت الٰہی

قرآن کی سورہ البقرہ میں اہلِ ایمان کی ایک بنیادی صفت اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ  (2:165) یعنی جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھنے والے ہیں۔ قرآن کی اِس آیت میں اہلِ ایمان سے مراد اہلِ معرفت ہیں۔ جو شخص دریافت کے درجے میں خدا کو پائے، وہ ایک صاحبِ معرفت انسان بن جاتا ہے، اور جو انسان صاحب معرفت ہو، اس کے جذبات تمام تر خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائیں گے۔ خدا اس کے قلب و دماغ کا واحد مرکز بن جائے گا۔

انسان اپنی محدودیت (limitations)کی بنا پر موجودہ دنیا میں خدا کو نہیں دیکھتا، لیکن وہ خدا کی رحمتوں (blessings)  کا ہر آن تجربہ کرتا ہے، اور یہی تجربہ محبتِ الٰہی کا اصل سرچشمہ ہے۔ آدمی کو اِس دنیا میں جو کچھ ملا ہوا، وہ سب کا سب خدا کی رحمت ہے۔ آدمی جتنا زیادہ اِن ملی ہوئی چیزوں پر غور کرے گا، اتنا ہی زیادہ خدا کے ساتھ اس کی محبت بڑھتی چلی جائے گی۔ خدا سے محبت کا سرچشمہ انعام کی دریافت ہے، نہ کہ منعم کا مشاہدہ۔

انسان کو کس نے پیداکیا، خدا نے۔ انسان کو مختلف قسم کی اعلیٰ صلاحیتیں کس نے دیں، خدا نے۔ انسان کے لیے زمین جیسا ایک استثنائی سیارہ کس نے بنایا، خدا نے۔ انسان کے لیے یہاں لائف سپورٹ سسٹم کس نے قائم کیا، خدا نے۔ انسان کی تمام حاجتوں کی تکمیل کا انتظام کس نے کیا ، خدا نے۔ انسان کو وہ دماغ کس نے دیا جو زمین پر رہتے ہوئے ساری کائنات کا احاطہ کرسکتا ہے، خدا نے۔

اِنھیں تمام انعام (blessings)  کے منعم (giver)  کی دریافت کا نام معرفت ہے۔ کسی انسان کو جب یہ معرفت حقیقی معنوں میں حاصل ہوجائے تو اس کے اندر خدا سے محبت کا سرچشمہ ابل پڑتا ہے۔ اس کے دل کی گہرائیاں خدا کی محبت سے روشن ہوجاتی ہیں۔

خدا کی اطاعت بلا شبہ ایمان کا تقاضا ہے، لیکن یہ خدا سے محبت کی تصغیر (underestimation)  ہے کہ اُس کو صرف اطاعت کے معنی میں لیا جائے۔ اطاعت، خدا سے تعلق کا صرف ایک قانونی اظہار ہے، جب کہ محبت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا پورا وجود خدا کی یاد میں ڈھل گیا، انسان اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کا اعترافِ کامل کرنے والا بن گیا۔

اعلیٰ معرفت

ایک حدیث میں آیا ہے کہ: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور غیر مومن کے لیے جنت۔

اِس حدیث کو عام طورپر مادی معنی میں لیاجاتا ہے، یعنی دنیا کی مادی چیزوں میں مومن کو سکون نہیں ملتا، جب کہ غیر مومن اِن مادی چیزوں کو پاکر خوش ہوجاتا ہے۔ یا یہ کہ مومن کو شریعت کے نواہی (ممنوعات) میں جینا پڑتا ہے، جب کہ غیر مومن اپنے آپ کو اِس قسم کی شرعی پابندیوں سے آزاد سمجھتا ہے۔

لیکن اِس حدیث کا ایک اور مطلب ہے جو اعلیٰ معرفت سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک مومن جب حقیقت کی دریافت کے اُس ارتقائی مرحلے پر پہنچتا ہے جہاں اُس کو اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے، اُس وقت دنیا اُس کے لیے ایسی ہوجاتی ہے جیسے کہ وہ ایک نفسیاتی قید خانے میں ہے، جیسے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اُس کے لیے بنائی نہیں گئی، جہاں اُس کی روحانی تسکین کا سامان موجود نہیں۔

ایسے مومن کو جب اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کا وجود اِس کا متحمل نہیں، اُس کے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعے وہ اپنی عارفانہ دریافت کو بیان کرسکے، اس کے پاس ایسے سامعین نہیں جو اس کی باتوں کو سمجھ سکتے ہوں، اُس کے آس پاس وہ ماحول نہیں جہاں وہ اپنی معرفت کے ساتھ جی سکے۔

ایسا باشعور مومن ہر لمحہ یہ محسوس کرتا ہے جیسے کہ وہ ایک قفس میں ہے، تمام چیزیں اس کو اپنی عارفانہ سطح کے اعتبار سے غیر موافق نظر آتی ہیں۔ یہی اعلیٰ کیفیت کسی انسان کے لیے جنت میں داخلے کا سرٹفکٹ ہے۔ خدا جس انسان کو ایسی حالت میں پاتا ہے تو وہ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے اِس بندے کو جنت میں داخل کردو، کیوں کہ جنت کو میں نے ایسے ہی بندوں کے لیے بنایا ہے۔ جنت ایسے ہی بندوں کے لیے ہے اور ایسے بندے صرف جنت کے لیے۔

معرفت الٰہی

خدا کی معرفت (realization of God)  ایک شعوری دریافت ہے۔ خداکی معرفت کسی کو اِس طرح نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ، اللہ، کی لفظی تکرار کرے، یا مراقبہ کرکے وہ اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ دل کی ہر دھڑکن میں اس کو اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگے۔ اِس قسم کی چیزیں ایک غیر متعلق ورزش کی حیثیت رکھتی ہے، ان کا خداکی  معرفت سے کوئی تعلق نہیں۔

حدیث میں آیا ہے: خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227) یعنی اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ اِسی کو لے کر ایک عربی مقولہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ(حلیۃ الاولیاء، 10/208)، یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

یہ بات بلا شبہ بہت بامعنی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح ایک انا (I)  ہے، اُسی طرح خدا زیادہ بڑے پیمانے پر ایک انا ہے۔ یہ شعوری انا، ساری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ واقعہ انسان کی اپنی حیثیت کو بتاتا ہے، اور اِسی کے ساتھ وہ خدا کے وجود کو بھی ثابت کرتا ہے۔ اِس لیے کہ اگر اِس کائنات میں انسان کی صورت میں ایک چھوٹا استثنا (small exception) موجود ہے تو یہ واقعہ اپنے آپ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ایک بڑا استثنا (big exception) بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کا وجود لازمی طور پر خدا کے وجود کا ثبوت بن جاتا ہے۔

اِسی بات کو حدیث میں اِن الفاظ میں کہاگیا ہے کہ — اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا، یعنی جس طرح خدا ایک استثنائی وجود ہے، اُسی طرح انسان بھی کائنات میں ایک استثنائی وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان اگر اِس استثنا کے ظاہرہ پر غور کرے تووہ یقینی طورپر خدا کو دریافت کرلے گا، وہ پکار اٹھے گا —میں ہوں، اِس لیے یقینی طورپر خدا بھی ہے:

I am, therefore, God is.

معرفت کا استحقاق

ایک حدیث قدسی اِن الفاظ میں آئی ہے: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا، قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4090) یعنی اللہ نے فرمایا کہ — کبریائی میری چادر ہے، اور عظمت میرا اِزار ہے، اِن دونوں میں سے کسی کے معاملے میں جو شخص مجھ سے نزاع کرے گا، میں اُس کو آگ میں پھینک دوں گا۔

اِس حدیثِ قدسی سے تواضع (modesty) کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے ساتھ انسان کی نسبت صرف حقیقی تواضع کی سطح پر قائم ہوتی ہے۔ انسان کے اندر اگر ایک ذرہ کے برابر بھی اپنی بڑائی کا احساس پایا جائے تو خدا سے اُس کی نسبت ہی نہیں قائم ہوگی، اور جس آدمی کی نسبت خدا سے قائم نہ ہو، اُس کا حال یہ ہوگا کہ وہ معرفت کا لفظ بولے گا، لیکن وہ معرفت سے کلی طورپر بے خبر رہے گا۔ حقیقی تواضع کی پہچان یہ ہے کہ— آدمی کا حال یہ ہوجائے کہ تعریف اُس کو خوش نہ کرے اور تنقید سے اس کو ناگواری نہ ہو۔

جس آدمی کے اندر حقیقی تواضع نہ ہو، وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس احساس میں مبتلا رہتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں۔ اِس قسم کا احساس اس کے لیے خدا سے تعلق قائم کرنے میں حتمی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ سوکھی ہوئی زمین میں پانی ڈالا جائے تو وہ اس کو پوری طرح جذب (absorb) کرلے گی۔ اِس کے برعکس، گیلی زمین پانی کا ایک قطرہ بھی جذب نہیں کرے گی۔ متواضع انسان (modest man)  اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آنے والے معرفت کے فیضان (inspiration) کو پوری طرح قبول کرے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر کامل تواضع نہ ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ وہ معرفت کے فیضان کو قبول کرنے کے لیے اس کا آخِذ (recipient)نہ رہے گا، وہ معرفت کی بارش کے ماحول میں بھی معرفت سے محروم رہے گا۔

عارفانہ شخصیت

حدیث میں آیا ہے: اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ (سنن الترمذی،حدیث نمبر 3127 ) یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

اِس حدیث میں فراستِ مومن سے مراد فراستِ عارف (wisdom of a realized person) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس شخص کو معرفت حاصل ہوجائے، وہ ایک بے پناہ شخص بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی روشنی میں چلنے لگتا ہے، اور خدا کی روشنی کو بجھانے کی طاقت کسی کے اندر بھی نہیں۔

جس آدمی کو معرفت کے درجے میں ایمان حاصل ہو جائے، وہ انتہائی حدتک ایک باشعور انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جس کو ذہنی بیداری (intellectual awakening) کہاجاتا ہے۔ وہ ایک نفس مطمئنہ (complex-free soul) بن جاتا ہے۔ اس کے اندر فرقان (الانفال، 8:29) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے، یعنی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرکے دیکھنا۔ اس کے اندر مستقبل بینی کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی فکر کے اندر وہ گہرائی پیداہوجاتی ہے، جب کہ آدمی چیزوں کے اضافی پہلو کو دیکھ سکے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے بارے میں کہاگیا ہے:

A wise man is one who knows the relative value of things.

معرفت کسی آدمی کے اندر زہد کی صفت پیدا کردیتی ہے، یعنی دنیا سے بے ر غبتی۔ یہی وہ انسان ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: مَا زَهِدَ عَبْدٌ فِي الدُّنْيَا إِلَّا أَثْبَتَ اللهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ، وَأَنْطَقَ لَهَا لِسَانَهُ وَبَصَّرَهُ عَيْبَ الدُّنْيَا وَدَاءَهَا وَدَوَاءَهَا، وَأَخْرَجَهُ مِنْهَا سَالِمًا إِلَى دَارِ السَّلَامِ  ( شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 10050 )، یعنی جو بندہ دنیا سے بے رغبت ہوجاتا ہے تو اللہ اس کے دل میں حکمت کی پہچان ڈال دیتا ہے اور اس کی زبان پر حکمت کو جاری کردیتا ہے، اس کو وہ دنیا کے عیب دکھا دیتا ہے، اس کو وہ دنیا کی بیماری اور اس کے علاج سے باخبر کردیتا ہے، اور اس کو وہ دار السلام (جنت) تک سلامتی کے ساتھ پہنچا دیتا ہے۔

منفی سوچ نہیں

حدیث میں آیا ہے کہ تم إمّعۃ نہ بنو، یعنی تم یہ نہ کہو کہ دوسرا شخص تمھارے ساتھ جو سلوک کرے گا، وہی سلوک تم اس کے ساتھ کروگے۔ اِس کے بجائے تمھارا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص تمھارے ساتھ برا سلوک کرے گا، تب بھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کروگے (لاَ تَكُونُوا إِمَّعَةً، تَقُولُونَإِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا، وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا، وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ، إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلاَ تَظْلِمُوا)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 2007 ۔

معرفت صرف اُن عورتوںاور مردوں کو ملتی ہے جو ہمیشہ مثبت سوچ (positive thinking)  کے ساتھ رہنے والے ہوں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کے لیے بھی موافق حالات کا ملنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں مثبت سوچ پر قائم رہنے کا فارمولا (formula) صرف ایک ہے، اور وہ ہے — یک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) یعنی یک طرفہ طور پر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، خواہ وہ اچھا سلوک کرتا ہو یا برا سلوک۔

معرفت صرف اُس سینے میں جگہ پاتی ہے جو مکمل طورپر منفی احساس سے خالی ہو۔ جس دل کے اندر نفرت اور غصہ اور انتقام موجود ہو، اُس دل میں کبھی معرفت جگہ نہیں پائے گی۔ انسان ایک ایسی دنیا میں رہتا ہے جہاں خود قانونِ فطرت کے تحت روزانہ ناخوش گوار تجربات پیش آتے ہیں۔

ایسی حالت میں کسی آدمی کے لیے معرفت کے حصول کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرے کہ وہ منفی تجربہ (negative experience) کو مثبت سبق میں تبدیل کرسکے۔ وہ ناخوش گوار حالات میں بھی اپنی مثبت سوچ پر قائم رہے۔ وہ اپنے اندر وہ برتر سوچ (high thinking) پیدا کرے جس کے بعد آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ماحول سے اثر قبول کئے بغیر اپنی بلند فکری کو برقرار رکھے۔ یہی وہ صفت ہے جو آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اس کے معرفت کا سفرِ رُکے بغیر ہر حال میں جاری رہے۔

خالق کے وجود کی دریافت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227) یعنی اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اِس وسیع کائنات میں ایک فطری استثنا (natural exception) کے طورپر بنایاگیا ہے۔ اپنے اِس ذاتی تجربے سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جب یہاں ایک فطری استثنا ممکن ہے تو فوق الفطری استثنا (supernatural exception) بھی یقینی طور پر ممکن ہے۔ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابلِ فہم (understandable) بناتا ہے۔

وسیع خلا میں بے شمار ستارے اور سیارے (stars and planets) ہیں۔ ہماری زمین میں بے شمار حیوانات ہیں۔ مگر انسان جیسی حیوانی مخلوق ساری کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ انسان ساری کائنات میں ایک نادر استثنا (rare exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس نادر استثنا پر غور کیاجائے تو یہ یقین کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اِس قسم کا ایک اور برتر استثنا یہاں موجود ہے۔ یہ معلوم واقعہ کے ذریعے نامعلوم واقعہ کو دریافت کرنا ہے۔ یہ استدلال پورے معنوں میں ایک علمی اور منطقی استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔

رینے ڈیکارٹ (René Descartes)   فرانس کا مشہور فلسفی ہے۔ وہ 1596  میں پیدا ہوا، اور 1650 ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے کہا تھا کہ — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں:

I think, therefore, I am.

مذکورہ فرانسیسی فلسفی صرف نصف صداقت (half-truth) تک پہنچا۔ اس نے اپنے آپ کو دریافت کیا، لیکن وہ اپنے خالق کو دریافت نہ کرسکا۔ اگر وہ مزید غور وفکر کرتا تو اپنے وجود (existence) کی صورت میں، وہ خدا کے وجود کو دریافت کرلیتا۔ اس کا اپنا وجود اُس کے لیے خدا کے وجود کا ثبوت بن جاتا۔ وہ مخلوق کے ذریعے خالق کو دریافت کرلیتا۔ وہ پکار اٹھتا کہ — میں ہوں، اِس لیے خدا ہے:

I am; therefore, God is.

سب سے بڑا امتحان

جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill)  انیسویں صدی عیسوی کا ایک برطانی فلسفی ہے۔ وہ 1806 میں پیدا ہوا، اور 1873 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کی کتاب آٹو بائیوگریفی (Autobiography) 1873 میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ پہلے میں روایتی طورپر خدا کو مانتا تھا۔ لیکن میرے باپ (James Mill) نے اِس سلسلے میں مجھ سے ایک بات کہی، اُس کے بعد میں نے خدا کے بارے میں سوچنا چھوڑدیا۔ میرے باپ نے کہا کہ — اگر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا:

If God created man, who created God.

خدا کی معرفت کے بارے میں بلا شبہ یہ سب سے بڑا امتحان ہے۔ انسان کا ذہن ایک محدودذہن ہے۔ اِس کے باوجود انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ لامحدود خدا کی معرفت حاصل کرے۔ معرفت کا معاملہ اصلاً یہی ہے کہ ایک محدود ہستی، ایک لامحدود ہستی کو دریافت کرے اور کامل یقین کے ساتھ اس کو مان لے۔ یہی معرفت ہے۔ اِس مرحلے کو پار کئے بغیر کسی کو معرفت کا کریڈٹ ملنے والا نہیں۔

خدا کی دریافت کا معاملہ دوسری چیزوں کی دریافت سے مختلف ہے۔ مثلاً قوتِ کشش (gravity) بھی ایک دریافت کا موضوع ہے، لیکن یہ دریافت صرف ایک علمی دریافت ہے، اس کی بنیاد پر کسی کو ابدی انعام ملنے والا نہیں۔ لیکن خدا کی دریافت کے ساتھ ایک عظیم انعام جُڑا ہوا ہے۔ خدا کی دریافت کرنے والے کے لیے یہ مقدر ہے کہ اس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے۔ اِس لیے خدا کی دریافت کی ایک قیمت رکھ دی گئی۔ اِس قیمت کو ادا کئے بغیر کسی کو خدا کی دریافت کا کریڈٹ نہیں مل سکتا۔ وہ قیمت یہ ہے کہ آدمی محدود ذہن کے ساتھ لامحدودکا احاطہ کرے، وہ عالم ِ مشاہدہ (seen world)  میں غیر مشہود خدا (unseen God) کو دریافت کرلے۔ اِسی دریافت کا نام معرفت ہے، اور جنت کی قیمت یہی معرفت ہے۔

خاموشی اور معرفت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طَوِيلَ الصَّمْتِ (مسند احمد، حدیث نمبر 20810) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموش رہتے تھے۔ حدیث کی کتابوں میں خاموشی (silence) کی اہمیت کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ مثلاًعَلَيْكُمْ بِالصَّمْتِ (سنن الدّارمی، حدیث نمبر 2484) یعنی تم لوگ خاموشی کو لازم پکڑو۔

فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018 ) ۔یعنی مومن کو چاہیے کہ وہ بہتر بات بولے یاوہ خاموش رہے۔

مَنْ صَمَتَ نَجَا (مسند احمد، حدیث نمبر 6481) یعنی جو خاموش رہا، اس نے نجات پائی۔

إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ يَكُونَ …صَمْتِي فِكْرة (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1159)  یعنی میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو۔

خاموش رہنا صرف خاموش رہنا نہیں ہے، خاموش رہنے کا مطلب ہے— سوچنا اور غور وفکر کرنا۔ ایک مومن جب خاموش رہے گا تو وہ اپنے رب کے بارے میں سوچے گا، اسی کا نام معرفت ہے۔ خاموشی معرفت کا دروازہ ہے۔ سچی خاموشی آدمی کو سچی معرفت تک پہنچاتی ہے۔

خاموشی آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے۔ وہ اپنے مشاہدات اور تجربات میں توجیہہ (explanation) کا اضافہ کرے۔ وہ سادہ معلومات کو بامعنی معلومات بنائے۔ وہ عالم ِ ظاہر سے نکل کر عالم باطن کا سفر کرے۔ وہ نفسیات کی سطح پر خدا اور فرشتوں سے رابطہ (contact) قائم کرے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی معرفت میں اضافہ کرتی ہیں۔ معرفت کا ذریعہ غور وفکر ہے، او رخاموشی کے بغیر غور وفکر کا عمل ممکن نہیں۔ خاموشی کسی انسان کو غیرخدا سے دور، اور خدا سے قریب کردیتی ہے۔ خاموشی کسی انسان کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ پورے عالم ِ وجود سے معرفت کی غذا حاصل کرے، اُس کا عارفانہ سفر غیر منقطع طورپر (non-stop) جاری رہے۔

ایک صحابی کی مثال

مسلم بن بشیر کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ اپنی بیماری میں روئے۔ اُن سے پوچھا گیا کہ اے ابوہریرہ، کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے۔ انھوں نے کہامیں تمھاری اِس دنیا کے لیے نہیں روتا، بلکہ میں تو اِس لیے روتا ہوں کہ میرا سفر لمبا ہے اورزادِ راہ کم ہے۔ میں نے ایک ایسے ٹیلے پر صبح کی ہے جو جنت اور جہنم کی طرف اتر رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ کو اِن دونوں میں سے کس طرف چلایا جائے گا:بَكَى أَبُو هُرَيْرَةَ فِي مَرَضِهِ فَقِيلَ لَهُ:مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ:أَمَا إِنِّي لا أَبْكِي عَلَى دُنْيَاكُمْ هَذِهِ وَلَكِنِّي أَبْكِي لِبُعْدِ سَفَرِي وَقِلَّةِ زَادِي. أَصْبَحْتُ فِي صُعُودٍ مُهْبِطَةٌ عَلَى جُنَّةٍ وَنَارٍ فَلَا أَدْرِي إِلَى أَيِّهِمَا يُسْلَكُ بِي) الطبقات الکبری لابن سعد، 4/253(۔

صحابیٔ رسول کا یہ کلمہ اعلیٰ معرفت کا کلمہ ہے۔ جب انسان کی معرفت بڑھتی ہے تو اُس وقت اُس کا حال وہی ہوجاتا ہے جس کی ایک مثال صحابی ٔ رسول کے مذکورہ قول میں ملتی ہے۔

اعلیٰ معرفت کیا ہے۔ اعلیٰ معرفت یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اس کی عظمت وجلال کے ساتھ دریافت کرلے۔ جب کوئی انسان اللہ کو اس کی عظمت وجلال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کی نظر میں اس کا اپنا وجود بالکل حقیر بن جاتا ہے۔ وہ جنت کے مقابلے میں اپنے اعمال کو بے حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کے پاس خدا کے دربار میں پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ یہی احساس اس کو اُس آخری حد تک پہنچا دیتا ہے جس کی تصویر حضرت ابو ہریرہ کے مذکورہ قول میں نظر آتی ہے۔ ایک طرف، اللہ کا ارحم الراحمین ہونا، اُس کے اندر امید کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

دوسری طرف، اپنے عمل کی بے بضاعتی کو دیکھ کر وہ اس احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میں کسی بھی انعام کا مستحق نہیں۔ بے حس انسان صرف اپنے پلس پوائنٹ کو دیکھتا ہے اور حساس انسان کو صرف اپنا مائنس پوائنٹ دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو عارف انسان کو غیر عارف انسان سے الگ کرتاہے۔

معرفت کا سادہ فارمولا

خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب کی طرف ایک قول منسوب کیا جاتا ہے: عرفتُ ربي بفسخ العزائم (میں نے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا)۔ یہ معرفت کا ایک ایسا فارمولا ہے جو ہر آدمی کو ہر وقت حاصل رہتا ہے۔ ہر عورت اور ہر مرد کو روزانہ ایسے تجربات ہوتے ہیں، جب کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جو چاہا تھا، وہ نہیں ہوا، کبھی چھوٹا تجربہ اور کبھی بڑا تجربہ۔ایسا ہر تجربہ آدمی کو اس کی محدودیت (limitation) یاد دلاتا ہے۔ ایسا ہر تجربہ آدمی کو بتاتا ہے کہ چاہنا اس کے اختیار میں ہے، لیکن اپنے چاہنے کو تکمیل تک پہنچانا اُس کے اختیار میں نہیں۔ جب بھی آدمی کا ارادہ پورا نہیں ہوتا تو یہ اِس حقیقت کی یاددہانی ہوتی ہے کہ انسان کی ایک حد (limit) ہے۔

جہاں آدمی کی حد آجائے اُس کو فوراً محسوس کرنا چاہیے کہ اس کے بعد خدا کی حد شروع ہوگئی، خواہ وہ ایک چھوٹا واقعہ ہو، مثلاً کسی چیز کا ہاتھ سے چھوٹ کر گرنا یا کوئی بڑا واقعہ، مثلاً کسی منصوبے کا اپنی خواہش کے مطابق پورا نہ ہونا۔ اگر آدمی کے اندر شعوری بیداری (intellectual awakening)آچکی ہو تو ایسے ہر موقع پر وہ خدا کو دریافت کرے گا، ایسا ہر موقع اس کے لیے خدا کی معرفت کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا۔

یہ ایک سادہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ آدمی ہر وقت معرفت کی غذا لے سکتا ہے۔ خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ سند یافتہ ہو یا غیر سند یافتہ، اِس قسم کا تجربہ ہر عورت اور مرد کو روزانہ بار بار پیش آتا ہے۔

اگر آدمی اپنے ذہن کو کھلا رکھے، اگر اُس کے اندرتفکیر (thinking) کی صلاحیت زندہ ہو تو وہ اپنی روز مرہ کی زندگی (daily life) میں ہر لمحہ، معرفت کی خوراک حاصل کرتا رہے گا۔ اس کے دل ودماغ میں معرفت کا سرچشمہ مسلسل طورپر جاری رہے گا۔

عظمتِ انسانی

وسیع خلا (space) میں بے شمار ستارے (stars)اور سیارے (planets) اور کہکشائیں (galaxies)ہیں۔ اس میں شمسی نظام (solar system)  ہے جس میں بہت سے سیارے ہیں۔ اُن کے درمیان ایک استثنائی سیارہ ہے جس کو زمین کہاجاتا ہے۔ اِس زمین پر لاتعداد مخلوقات ہیں۔ اِن لاتعداد مخلوقات کے ہجوم میں انسان ہے جو انوکھی صفات کا حامل ہے۔

ایسی وسیع کائنات (vast universe)میں ایک انسان زمین پر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بول کر انسانی الفاظ میں کہتا ہے کہ — خدایا، تو رب العالمین ہے۔ میں نے تیری تمام صفتوں کے ساتھ تیری کبریائی کا اعتراف کیا۔ میں تیرے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ سرینڈر کرتاہوں۔

انسان کے یہ الفاظ خلا میں گونجتے ہیں۔ ان کوکان والے بھی سنتے ہیں اور بغیر کان والے بھی۔ پھرساری کائنات زبانِ حال سے پکار اٹھتی ہے — دیکھو، یہ انسان بھی کتنا قابلِ رشک ہے۔ ہماری تخلیق میں پہلے سے خدا کی معرفت موجود تھی، انسان نے خود اپنی کوشش سے خدا کو دریافت کیا۔ ہم بولے بغیر خدا کی حمد کررہے تھے، یہ انسان بول کر خدا کی حمدکررہا ہے۔ ہم مجبورانہ اطاعت پر قائم تھے، انسان نے اختیارانہ اطاعت پر اپنے کو قائم کیا۔ ہم غیر شعوری سطح پر خدا سے تعلق قا ئم کر پائے تھے، انسان شعور کی سطح پر دریافت کئے ہوئے الفاظ میں خالق کا نغمہ گارہا ہے۔ ہم حالتِ مشہود میں خالق کا اقرار کررہے تھے، انسان حالتِ غیب میں ہوتے ہوئے خالق کا اعتراف کررہا ہے۔ ہم گویا مقلدانہ انداز میں خدا کی عبادت کررہے تھے، انسان تخلیقی (creative)  انداز میں خدا کا عبادت گزار بنا ہوا ہے۔ ہم زبانِ حال سے خدا کی بڑائی بیان کررہے تھے، انسان زبانِ قال سے خدا کی بڑائی بیان کررہا ہے۔ ہم محدود سطح پر خدا کی تسبیح کررہے تھے۔ انسان لامحدود سطح پر خدا کی تسبیح کرنے والا بنا ہوا ہے۔

یہی اعلیٰ معرفت ہے۔ اِس قسم کی شعوری معرفت ساری کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ یہی وہ اعلیٰ معرفت والے لوگ ہیں جو جنت الفردوس میں داخل کئے جائیں گے۔

خدا اور جنت

انسان کے اندر استثنائی طورپر دو فیکلٹی (faculty) پائی جاتی ہے — ایک، سوچنے کی فیکلٹی (faculty of thinking) اور دوسرے، محظوظ ہونے کی فیکلٹی (faculty of enjoyment)۔ یہ دونوں صلاحیتیں انسان کو استثنائی طورپر دی گئی ہیں۔ اگر آدمی ان دونوں صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال کرے تو وہ ایک طرف خدا کے وجود کو دریافت کرلے گا اور دوسری طرف جنت کے وجود کو ۔

سوچنا (thinking) انسان کی استثنائی صفت ہے۔ سوچنے کا ظاہرہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کائنات میں ایک ایسی مخلوق موجود ہے جو استثنائی طورپر تفکیر (thinking) کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ نے کہا تھا —میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں موجود ہوں:

I think, therefore, I exist.

اِسی طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ مفکرِ صغیر کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں مفکرِ کبیر بھی موجود ہے:

The existence of small thinker is a proof of the existence of the big thinker.

یہی معاملہ احساسِ تلذّذ (sense of pleasure) کا ہے۔انسان اگر غور کرے تو وہ دریافت کرے گا کہ وسیع کائنات میں وہ ایک انوکھا وجود ہے جو استثنائی طورپر لذت کا شعور (sense of pleasure) رکھتا ہے۔

اِس حقیقت کی دریافت اپنے آپ میں ایک اور بڑی حقیقت کی دریافت ہے، وہ یہ کہ اِس دنیا میں جب شعورِ لذت کا وجود ہے تو یقینی طورپر اِس دنیا میں اس کے فل فل منٹ (fulfilment) کا سامان بھی ہونا چاہیے، کیوں کہ ہماری دنیامیں ہر چیز کی تکمیل کے لیے اس کا جوڑا (pair) موجود ہے۔ اِس عام قانونِ فطرت کے مطابق، یقینی طورپر ایسا ہونا چاہیے کہ شعور لذت (sense of pleasure) کا جوڑا، یعنی فل فل مینٹ بھی اِس دنیا میں موجود ہو۔ یہ ظاہرہ جنت کے وجود کا یقینی ثبوت ہے۔

معرفت کی قیمت

ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ قیمت کی ادائیگی کے بغیر کسی کو اس کی مطلوب چیز نہیں ملتی۔ اِسی طرح معرفتِ الٰہی کی بھی ایک قیمت ہے، اور وہ قیمت طالبِ معرفت کی خود اپنی ذات ہے۔ اِس سے کم کوئی چیز معرفت کی قیمت نہیںبن سکتی— خدا کی معرفت کسی آدمی کو ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ملتی ہے۔ اپنی نفی نہیں تو خدا کی معرفت بھی نہیں۔

اپنی نفی کا مطلب نام نہاد قسم کی پراسرار ورزشیں نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر غور وفکر کے ذریعہ انجام پاتا ہے، نہ کہ روحانیت کے نام پر کچھ جسمانی ورزشوں کے ذریعے۔ نفیِ خویش (self-negation)  کیا ہے۔ نفی خویش یہ ہے کہ آدمی رب العالمین کو اِس طرح دریافت کرے کہ اس کے مقابلے میں اُس کو خود اپنا وجود سر تا سر بے حقیقت نظر آنے لگے۔

 نفی خویش کا مزاج دراصل عجز، تواضع، اعتراف، محاسبہ، بے نفسی، سادگی، خدا ترسی، جہنم کا خوف اور جنت کا اشتیاق، جیسی صفات کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ صفات متصوفانہ ریاضت کے ذریعے بیدار نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ہمیشہ فکری عمل (thinking process)  کے ذریعے کسی شخص کو حاصل ہوتی ہیں۔

نفی خویش کا عمل حقائقِ ربانی کی گہری دریافت کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہ زندگی کے آخری لمحے تک برابر جاری رہتاہے۔ نفی خویش دراصل اپنی حقیقتِ واقعی کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک معمولی حادثہ اُس کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔ کسی بھی چیز کا علم اس کو یقین کے درجے میں حاصل نہیں۔

انسان ہر لمحہ خارجی اسباب کا محتاج ہے۔ انسان کے وجود کا کوئی بھی حصہ کسی بھی وقت اپنا فطری کام کرنا بند کرسکتا ہے۔ انسان نہ اپنی زندگی کی حقیقت کو جانتا  اور نہ اپنی موت کی حقیقت کوجانتا۔ انسان بہت سی چیزیں چاہتا ہے، لیکن کسی بھی چیز پر اُسے کوئی قد رت حاصل نہیں۔ انسان بظاہر آزاد ہے، لیکن ارادہ (will)  کے سوا ہر اعتبار سے، وہ مجبور ہے۔

انسانی وجود کے اِن تمام پہلوؤں کے شعور ہی کا دوسرا نام نفیِ خویش ہے، اور یہی نفی خویش معرفت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نفی خویش ایک اعتبار سے، خدا کو قادرِ مطلق کی حیثیت سے دریافت کرنے کا نام ہے، اور دوسرے اعتبار سے، اپنے آپ کو عاجزِ مطلق کی حیثیت سے دریافت کرنے کا نام۔

معرفت کا دروازہ

معرفت کا تعلق مفروضہ قسم کے رومانوی عشق سے نہیں ہے۔ معرفت کا تعلق اِس بات سے ہے کہ آدمی گہرائی کے ساتھ یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کا مستقبل تمام تر صرف ایک اللہ سے وابستہ ہے۔ اس کی محبوب جنت صرف اللہ کے دینے سے ملے گی۔

اسی طرح مبغوض جہنم سے نجات بھی اسی وقت ممکن ہوگی جب کہ اللہ اس کو اس سے نجات دے۔ کسی آدمی کے اندر جب اِس قسم کا گہرا شعور پیدا ہوجائے تو اس کے بعد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اوپر معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

معرفت کوئی فلسفیانہ تصو رنہیں۔ معرفت لازمی طورپر ہر آدمی کے ذاتی انٹرسٹ سے جڑی ہوئی ہے۔ اعلیٰ معرفت کا حصول صرف اُس وقت ممکن ہوتاہے جب کہ آدمی ایک طرف فکری سطح پر معرفت کو دریافت کرے۔ نظریاتی اعتبار سے آدمی یہ جان لے کہ معرفت کے سوا کوئی اور چیز اس کی حقیقی منزل نہیں بن سکتی۔ آدمی کا ذہن پوری طرح اس کی صداقت پر مطمئن ہوجائے۔

دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کا ذاتی انٹرسٹ مکمل طورپر معرفت کے ساتھ وابستہ ہوجائے۔ اِس معاملے میں اس کی دریافت اتنی زیادہ بڑھے کہ وہ شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگے کہ معرفت کے حصول کے بغیر اس کا وجود بے معنی ہوجائے گا، اس کی زندگی اجڑ جائے گی، اس کے لیے مستقبل کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے، وہ ہر اعتبار سے ناکام و نامراد انسان ہو کر رہ جائے گا۔

جب آدمی کا یہ حال ہو کہ اِس طرح وہ فکری اور عملی دونوں اعتبار سے، آخری حد تک معرفت کا طالب بن جائے تو اس کے فوراً بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اوپر معرفت کے تمام در وازے کھل جاتے ہیں، یہاں تک کہ معرفت کا کوئی بھی دروازہ اُس پر بند نہیں رہتا۔ یہی معرفت کا راستہ ہے۔ اِس کے سوا کسی اور راستے سے معرفت کی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں۔

اعلیٰ معرفت

اگر تمام انسانوں میں کوئی ایک شخص ہے جو اعلیٰ معرفت تک پہنچا ہے تو وہ میں ہوں۔ اور اگر تمام انسانوں میں کوئی ایک شخص ہے جو اعلیٰ معرفت سے محروم رہا تو وہ میں ہوں — یہ احساس اس انسان کاہوتا ہے جو اعلیٰ معرفت کے درجہ تک پہنچے۔ اعلیٰ معرفت تک پہنچنا ممکن ہے مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اعلیٰ معرفت کا درجہ حاصل ہوا ہے۔

اس بے یقینی کا سبب یہ ہے کہ معرفت کسی خارجی کورس کا نام نہیں ہے کہ اس کو پورا کرکے آدمی سمجھ لے کہ میں نے معرفت کاکورس کرلیا اس لیے اب میں معرفت تک پہنچ گیا۔ معرفت تمام تر ایک داخلی حالت کا نام ہے۔ اور داخلی حالت کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا صرف خداوند عالم الغیب کے لیے ممکن ہے۔ کوئی انسان حتی کہ خود طالبِ معرفت بھی اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

خدا کی اعلیٰ معرفت دراصل خدا کی اعلیٰ دریافت کا نام ہے۔ جب کوئی بندہ اس اعلیٰ دریافت تک پہنچتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کے مقابلہ میں اس کی حیثیت تمام تر صفر (zero) کی ہوگئی ہے۔ خدا سب کچھ ہے اور وہ خود کچھ بھی نہیں۔ یہ دریافت اس کو بتاتی ہے کہ اس معاملہ میں فیصلہ کا سارا اختیار صرف خدا کو ہے، فیصلہ میں اس کا اپنا دخل کچھ بھی نہیں۔ یہ دریافت اس کو بتاتی ہے کہ سارا معاملہ تمام تر یک طرفہ (unilateral)  ہے۔

صاحب معرفت کون ہے۔ صاحب معرفت صرف وہ ہے جس کو خدا صاحب معرفت قرار دے۔ اور خدا فیصلہ کے دن (Day of Judgement)  سے ایک سکنڈ پہلے بھی کسی کو کچھ نہیں بتاتا۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب معرفت اپنی طرف سے سب کچھ کرنے کے باوجود اِس معاملے میں آخر وقت تک مکمل طورپر ایک قسم کی بے یقینی (uncertainty)  کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔

معرفت کی راہ میں رکاوٹ

ایک امریکن اسکالر نے اسلام کا مطالعہ کیا۔اس کے بعد اس نے اسلام پر ایک کتاب لکھی۔ اپنی اِس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ — اسلام کا سب سے بڑا کنسرن اللہ ہے:

The greatest concern of Islam is Allah.

یہ نہایت درست بات ہے۔ معرفت کا در وازہ صرف اُس کے لیے کھلتا ہے جو ایک اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنالے۔ اِسی طرح معرفت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنا واحد کنسرن نہ بنا سکے۔ معرفت کے سلسلے میں بلا شبہ یہی سب سے زیادہ اہم بات ہے۔

اصل یہ ہے کہ کوئی آدمی جس چیز کو اپنا واحد کنسرن بنائے، وہی چیز اس کی سوچ کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ اُسی چیز کی یاد کو لے کر سوتا ہے اور اسی چیز کی یاد کو لے کر جاگتا ہے۔

وہ چیز آدمی کے دماغ پر اتنا زیادہ چھا جاتی ہے کہ عملاً دوسری تمام چیزیں اس کی یاد سے حذف ہوجاتی ہیں۔ آدمی اسی موضوع پر سوچتا ہے۔ وہ اسی کا چرچا کرتا ہے۔ وہ اسی کے بارے میں پڑھتا ہے۔ وہ اسی کے بارے میں ڈسکشن (discussion) کرتا ہے۔ آدمی کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اسی چیز کی یاد سے اس کو سکون ملتا ہے۔ وہ اکیلے میں بھی اسی چیز کی بابت سوچتا ہے اور جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تب بھی وہ اسی کاچرچا کرتا ہے۔

یہی کسی چیز کو اپنا واحد کنسرن بنانا ہے۔ اور خدا کی معرفت صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو اِسی معنی میں خدا کو اپنا واحد کنسرن بنالے۔ جو شخص اس معنی میں خدا کو اپنا واحد کنسرن نہ بنا سکے، وہ یقینی طورپر خدا کی معرفت سے محروم رہے گا۔ خواہ زبانی طورپر وہ اللہ کا نام لے، وہ تسبیح کے دانوں پر الحمدللہ اور سبحان اللہ کا لفظی وظیفہ پڑھتا رہے۔

معرفت کے حصول میںاصل رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی خدا کے سوا کسی اور چیز کو اپنا بڑا بنا لے۔ کسی کو بڑا بنانے کا یہ کام کبھی شعوری طور پر ہوتا ہے اور کبھی غیر شعوری طورپر، مگر نتیجہ دونوں کا ایک ہے، اور وہ ہے خدا کی اعلیٰ معرفت سے محرومی۔ جس عورت یا مرد کو خدا کی اعلیٰ معرفت مطلوب ہو، اس کو بہر حال یہ قیمت دینی پڑے گی۔ اس کو بہر حال یہ کرناہوگا کہ وہ اپنی توجہ کو دوسری چیزوں سے ہٹائے اور صرف ایک اللہ کو اپنا واحد مرکزِ توجہ بنالے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک نفسیاتی قربانی ہے۔ جو شخص یہ قربانی دے، اُسی کو وہ ربانی نعمت ملتی ہے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔

معرفت کا تجربہ

ایک مرتبہ میں سورج کی روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوا جیسے میں خدا کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہوں، میں خدا کے دیکھنے کا تجربہ کررہا ہوں۔ اس کے بعد اچانک مجھ کو خیال آیا کہ خدا بھی تو اِسی طرح دیکھتا ہوگا۔ اُس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے کہ میں خدا کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہوں۔ اِسی طرح میں نے ایک بار کسی کے بولنے کو سنا۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ خدا بھی تو اسی طرح بولتااور سنتا ہوگا۔ اِس طرح ایک بار میں نے کسی بات کوسوچا، اُس وقت مجھے محسوس ہوا کہ خدا بھی تو اِسی طرح سوچتا ہوگا، وغیرہ۔

ایک دن صبح کو فجر کی نماز کے بعد میں اپنے کمرے کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ اُس وقت یہ تمام تجربات مجھے یاد آنے لگے۔ اچانک شدتِ احساس کے ساتھ میں چیخ اٹھا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں ایک اور دنیا میں پہنچ گیا۔ اِس تجربے کو قریب تر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے — مجھے ایسا لگا جیسے کہ میں اپنے وجود کی صورت میں بلاتشبیہہ خدا کی موجودگی (presence) کو محسوس کررہا ہوں۔ میں خدا کے دیکھنے کو دیکھ رہا ہوں، میں خدا کے سننے کو سن رہا ہوں، میں خدا کے سوچنے کا تجربہ کررہا ہوں۔ اُس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے میرا وجود بلا تشبیہ خدا کے وجود میں ڈھل گیا۔ اُس وقت خدا میرے لیے اتنا ہی یقینی وجود بن گیا، جتنا کہ مجھے خود اپنا وجود یقینی معلوم ہوتا ہے۔ ابن عربی کے اِس شعر کو اگر وحدتِ وجود کے معنی میں نہ لیاجائے، جو کہ ایک باطل نظریہ ہے، تو غالباً وہ اِسی قسم کے ربانی تجربے کا ایک بیا ن ہوگا:

العبد عبدٌ، ولو ترقّی                  والرب ربٌّ، ولو تنزّل

اِس طرح کے تجربات مختلف احوال کے درمیان مجھے بار بار پیش آتے ہیں۔ یہ تجربات میرے لیے خدا کی معرفت کو اُس سطح پر دریافت کرنے کے ہم معنی ہوتے ہیں جس کو قرآن میں بصیرت (75: 14) کہاگیا ہے۔ انسان کو خدا نے قدرت (omnipotence) کے سوا اپنی تمام صفات بشری سطح پر دے دیں، تاکہ انسان خدائی صفات کو بشری تجربات کی سطح پر سمجھ سکے۔ وہ خدا کے دیکھنے کو دیکھے، وہ خدا کے سننے کو سنے، اور پھر کامل یقین کے درجے میں وہ خدا کا عارف بن جائے۔

معرفت کی تمثیلات

کائنات معرفت کا ایک عظیم دفتر ہے۔ کائنات کی ہر چیز معرفت کی ایک داستان ہے۔ کائنات کی ہر چیز معرفت کو مجسم کئے ہوئے ہے۔ بقیہ کائنات میں جو چیز فطرت کے قانون کے تحت ظاہر ہوئی ہے، وہی انسان کی سطح پر شعوری معرفت کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ انسان اگر غور کرے تو کائنات کی ہر چیز اس کو معرفت کا سبق دیتی ہوئی نظر آئے گی۔

سورج تمثیل کی زبان میں بتارہا ہے کہ معرفت وہی معرفت ہے جو انسان کے وجود کو اندر سے باہر تک روشن کردے۔ بہتا ہوا دریا انسان کو بتا رہا ہے کہ معرفت کو اس طرح حاصل کرو کہ وہ تمھاری روح میں چشمہ بن کر جاری ہو جائے۔ درخت کی ہری بھری شاخیں جب ہوا سے ہلتی ہیں تو وہ انسان کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ معرفت کو اِس طرح حاصل کرو کہ وہ تمھارے لیے ایک پُراہتزاز تجربہ (thrilling experience)  بن جائے۔ چڑیاں جب چہچہاتی ہیں تو وہ انسان سے کہتی ہیں کہ خدا کے کمالات اِس طرح دریافت کرو کہ تمھاری زبان پر حمد خداوندی کا نغمہ جاری ہو جائے۔ پہاڑ کی بلندی خاموش زبان میں یہ پیغام دے رہی ہے کہ خدا کو اس کی اعلیٰ عظمتوں کے ساتھ دریافت کرو، وغیرہ۔

یہی حال پوری کائنات کا ہے۔ کائنات کی ہر چیز فطرت کی زبان میں معرفت کا پیغام دے رہی ہے۔ گویا کہ کائنات معرفت کی ایک عظیم لائبریری ہے۔ جس طرح ایک اسکالر لائبریری میں داخل ہوکر کتابوں کے ذریعے معلومات اخذ کرتاہے، اِسی طرح ایک سچا انسان کائنات کی خدائی لائبریری سے معرفت کی فکری غذا (intellectual food)  حاصل کرتا ہے۔

کائنات کی لائبریری انسان کے لیے معرفت کا ایک لامحدود خزانہ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ معرفت کے انسائکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں درخت کا ہر پتہ اپنے اندر معرفت کا دفتر سموئے ہوئے ہے۔ اِسی بات کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— دانش مند انسان کی نظر میں سرسبز درختوں کا ہر پتہ معرفتِ خداوندی کا ایک دفتر لئے ہوئے ہے :

برگِ درختانِ سبز، در نظرِ ہوشیار        ہر ورقے دفترے است، معرفتِ کردگار

معرفت کا آغاز

ایک عربی مثل ہےلا أدری، نصف العلم (میں نہیں جانتا، آدھا علم ہے) یعنی اپنی بے خبری کو جان لینا، علم کا نقطۂ آغاز (starting point) ہے۔ آدمی جب یہ جان لے کہ میں نہیں جانتا تو اس کے بعد اس کے اندر جاننے کی اسپرٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ اسپرٹ آخر کار اس کو علم تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتی ہے، وہ اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا دیتی ہے۔ یہی معاملہ معرفت کا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے یہ دریافت کرے کہ وہ معرفت سے خالی ہے۔ اِس کے بعد اس کے اندر تلاشِ معرفت کا جذبہ پیدا ہوگا، جو آخر کار اس کو معرفت تک پہنچا دے گا۔

علم کا آغاز روحِ تجسس (spirit of enquiry) ہے۔ یہی اسپرٹ معرفت کے لیے بھی ضروری ہے۔ آدمی کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ معرفت کے بغیر وہ اندھیرے میں ہے۔ معرفت کے ساتھ جینا روشنی میں جینا ہے، اور معرفت کے بغیر جینا اندھیرے میں جینا۔ معرفت کے بغیر انسان کے لیے صرف ناکامی ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ معرفت آدمی کو برتر سطح پر جینے والا بناتی ہے۔ معرفت والا آدمی اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو بے آمیز (as it is)  انداز میں سمجھ سکے۔ معرفت آدمی کو فرشتوں کا ہم نشیں بناتی ہے۔ معرفت آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ اُس کو خدا کا فیضان (inspiration)ملنے لگتا ہے۔ معرفت کسی انسان کو انسانِ کامل بناتی ہے۔ معرفت دنیا میں ہدایت کا ذریعہ ہے اور آخرت میں جنت کا ذریعہ۔

معرفت کسی انسان کے لیے اس کے سفرِ حیات کا صحیح آغاز ہے۔ معرفت کسی انسان کو بے شعور زندگی سے نکال کر باشعور زندگی کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہے۔ معرفت کسی آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ بے خدا طرزِ زندگی سے نکل کر با خدا طرزِ زندگی کو اختیار کرسکے۔ معرفت کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اعلی امکانات (potentials) کو دریافت کرے اور خدا کی مددسے اس کو واقعہ (actual) بنائے— معرفت تکمیلِ علم کا ذریعہ ہے، اور تکمیلِ حیات کا ذریعہ بھی۔

معرفت کی زمین

ایک پودے کے اُگنے کے لیے زرخیز زمین (fertile land) درکار ہوتی ہے۔ صرف زرخیز زمین ہی میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہاں ایک پودا اُگے اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ ایک ہرا بھرا درخت بن جائے۔ اِس قسم کا واقعہ کسی بنجر زمین (barren land) میں نہیں ہوسکتا۔ زرخیز زمین درخت کے اُگنے کے لیے موافق زمین ہے اور بنجر زمین درخت کے اگنے کے لیے غیر موافق زمین۔

یہی معاملہ معرفت کا بھی ہے۔ معرفت کا نشوونما صرف ایک موافق انسان کی شخصیت میں ہوتا ہے۔ غیر موافق انسان کی شخصیت میں کبھی معرفت کا نشوونما نہیں ہوتا۔ اِس موافق شخصیت کو ایک لفظ میں، مثبت شخصیت (positive personality) کہاجاسکتا ہے۔ اِسی طرح غیر موافق شخصیت کو ایک لفظ میں منفی شخصیت (negative personality) کہنا صحیح ہوگا۔ جو آدمی چاہتا ہو کہ اس کے اندر معرفت کا باغ پرورش پائے، اس کو چاہیے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے آپ کو منفی شخصیت بننے سے بچائے۔ وہ اپنے آپ کو مثبت شخصیت بنائے، خواہ اُس کو اِس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔

منفی شخصیت والا انسان وہ ہے جو ردعمل کی نفسیات میں جیتاہو، جو ماحول کااثر قبول کرتا رہے، جو اپنی شعوری ناپختگی (immaturity) کی بنا پر خارجی واقعات سے متاثر ہوتا رہے۔ ایسا انسان منفی شخصیت والا انسان ہے۔ ایسے انسان کو کبھی معرفت کا رزق نہیں مل سکتا۔

مثبت شخصیت والا انسان وہ ہے جو اپنی شعوری پختگی (maturity) کی بنا پر اِس قابل ہو کہ وہ خارجی حالات سے اوپر اٹھ کر زندگی گزارے، جو خارجی اثرات سے غیر متاثر رہ کر اپنے ذہن کی تشکیل کرسکے، جو منفی تجربات کو مثبت سبق (positive lesson) میں تبدیل کرسکے۔

یہی مثبت شخصیت ہے۔ اِسی مثبت شخصیت کو خدا کی توفیق سے یہ موقع ملتا ہے کہ وہ مثبت انداز میں سوچے، اُس کو معرفت کی دریافت ہوتی رہے۔ اس کے اندر عارفانہ شخصیت کی تشکیل کا عمل (process) جاری رہے — معرفت کا حصول صرف مثبت شخصیت کی زمین پر ہوتا ہے، نہ کہ منفی شخصیت کی زمین پر۔

معرفت کی روشنی

آپ کے آفس میں ٹیوب لائٹ ہے، لیکن اس کا کنکشن پاور ہاؤس سے قائم نہیں ہوا ہے تو آپ کی ٹیوب لائٹ میں کوئی روشنی نہیں ہوگی، وہ بے نور پڑی رہے گی۔ لیکن جب اس کا کنکشن پاور ہاؤس سے قائم ہو تو اچانک وہ روشن ہوجاتی ہے۔

یہ مادی واقعہ اُس روحانی حقیقت کی مثال ہے جس کو معرفت (realization) کہا جاتا ہے۔ خدا اور بندے کے درمیان اگر ربط قائم نہ ہوتو اس کا وجود معرفت سے بے بہرہ رہے گا،لیکن جب خدا اور بندے کے درمیان ربط قائم ہوجائے تو اس کے بعد اچانک ایسا ہوتا ہے کہ بندے کا دل ودماغ معرفت کی روشنی سے منور ہوجاتاہے۔

خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God)کے مطابق، انسان کی حیثیت اِس دنیا میں پانے والے (taker)  کی ہے۔ اس کے مقابلے میں، خدا کی حیثیت دینے والے (giver)  کی ہے۔ انسان ہر اعتبار سے، ایک محتاج مخلوق ہے۔ وہ اپنی کسی بھی حاجت کو خود سے پورا نہیں کرسکتا۔ یہ صرف خدا ہے جو اس کی تمام حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ انسانی شخصیت کا یہ احتیاطی پہلو انسان کو مسلسل طور پر فقدان کے احساس میں مبتلا رکھتا ہے۔

یہ احساسِ فقدان انسانی شخصیت کا ایک ایسا لازمی حصہ ہے جو کبھی اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ جو آدمی شعوری طورپر اِس فقدان سے با خبر ہوجائے، وہ متلاشی (seeker)  بن جاتا ہے۔ اور جو آدمی اپنی ذات کے اِس فقدان سے با خبر نہ ہو، وہ ہمیشہ محرومی کے احساس میں مبتلا رہتا ہے۔

خدا کی معرفت انسان کی اِسی تخلیقی کمی کا جواب ہے۔ خداکی معرفت کے سوا کوئی اور چیز انسان کی اِس کمی کو پورا کرنے والی نہیں۔ جس طرح بلب پاور ہاؤس سے کنکشن کے بغیر روشن نہیں ہوتا، اِسی طرح معرفت کے بغیر کسی انسان کی زندگی ایک بے نور زندگی ہوتی ہے، کوئی اور چیز اس کی شخصیت کو منور کرنے والی نہیں۔

ارتقا پذیر معرفت

ایک مغربی مبصر نے لکھا ہے کہ — ہر دن صبح کو جب سورج کی پہلی کرن تمھارے کمرے میں داخل ہو تو تم اچھل کر بستر سے اٹھو اور کہو کہ ایک اور نئی شان دار صبح:

Wonderful, what a new bright sun!

خدا جو سورج کا خالق ہے، اس کی معرفت بلا شبہ سورج سے بے شمار گنا زیادہ ہے۔ جس انسان کو خدا کی دریافت ہوجائے، وہ ہر صبح وشام خدا کی نئی تجلی کو دریافت کرے گا، اس کی معرفتِ خدا ربانی تجلیات کا ایک لامتناہی سفر بن جائے گی۔

معرفت پتھر کی طرح کوئی جامد چیز نہیں ہے، معرفت درخت کی مانند ایک نموپذیر چیز ہے۔ ایک چھوٹا سا بیج بڑھتے بڑھتے ایک سر سبز درخت بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ معرفت کا بھی ہے۔ معرفت کا آغاز اقرارِ ایمان سے ہوتا ہے۔ اِس کے بعد مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعہ یہ اقرارِ ایمان ترقی کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ معرفت کا ایک ہرا بھرا درخت، بلکہ معرفت کا ایک پورا باغ بن جاتا ہے۔ معرفت کے ارتقا کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے، آدمی کی موت سے پہلے وہ ختم نہیںہوتا۔

معرفت، خدا کے آلاء (wonders of God) کی دریافت کا نام ہے۔ خدا کے آلاء بے شمار ہیں، اِس لیے خدا کی معرفت بھی ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ ہمیشہ نئی نئی دریافتوں کے ذریعہ یہ سفر مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ موت اِس سفر کا خاتمہ نہیں۔ موت کے بعد اہل ایمان کے لیے معرفت کا سفر مزید اضافے کے ساتھ جاری رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ جنت کے لیے سب سے زیادہ لذیذ تجربہ یہی ہوگا کہ وہ معرفت کے باغوں میں جئیں، وہ معرفت کی ہواؤں میں سانس لیتے رہیں۔ یہی بلاشبہ جنت کا سب سے زیادہ لذیذ عطیہ ہوگا۔

وجد اور معرفت کا فرق

وجد (ecstasy)اور معرفت (realization)دونوں بظاہر مشابہ (similar)الفاظ ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے، دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ معرفت ایک اعلیٰ اسلامی صفت ہے، مگر وجد کا اسلام سے کوئی لازمی تعلق نہیں۔ وجد کا تجربہ کسی بھی شخص کو ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجد کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ رقص وسرود جیسی چیزیں بھی آدمی کے اندر وجد پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔

معرفت کا تعلق شعوری دریافت سے ہے۔ جب ایک شخص غوروفکر کے ذریعہ اپنے خالق کو دریافت کرتا ہے تو اس کو فکر کی سطح پر ایک ربانی دریافت ہوتی ہے۔ اِسی کو معرفت کہاجاتاہے۔ معرفت کو دوسرے الفاظ میں ذہنی ارتقا (intellectual development) کہا جاسکتا ہے۔ ذہنی ارتقا اگر خالص فطری انداز میں ہو تو وہ لازماً آدمی کو اپنے خالق کی دریافت تک پہنچائے گا، اور خالق کی شعوری دریافت ہی کا دوسرا نام معرفت ہے۔

وجد (ecstasy) اِس کے برعکس، کوئی شعوری چیز نہیں، وہ ایک کیفیاتی حالت ہے۔ اِس قسم کی کیفیت مختلف چیزوں سے پیدا ہوسکتی ہے، مذہبی چیز سے بھی اور غیر مذہبی چیز سے بھی۔ معرفت آدمی کے اندر سوچ اور فکر کی صلاحیت کو جگاتی ہے، مگر وجد کے ذریعے صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک سرور کی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔ آدمی کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو بے فکری کی حالت میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ وجد کسی آدمی کو ایک مبہم قسم کا سرور تو ضرور دے سکتا ہے، لیکن وجد کسی آدمی کے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کی صفت پیدا نہیں کرسکتا۔

معرفت کسی آدمی کے اندر فکری بیداری پیدا کرکے اس کو اپنے رب سے ملا دیتی ہے، جب کہ وجد کسی آدمی کو صرف اِس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم رہے، وہ اپنے سے باہر کسی حقیقت کا ادراک نہ کرسکے۔ معرفت کسی آدمی کی بصیرت میں اضافہ کرتی ہے، جب کہ وجد آدمی کو بے خبری کے سوا کہیں اور پہنچانے والا نہیں۔ معرفت ایک شعوری واقعہ ہے، اور وجد صرف ایک وجدانی کیفیت۔

معرفت اور دعا

دعا ایک عارفانہ روح سے نکلتی ہے۔ معرفت کے بغیر دعا صرف تکرارِ الفاظ ہے۔ عارفانہ دعا ہی حقیقی معنی میں دعا ہے۔ جو دعا معرفت سے خالی ہو، اس کی حیثیت صرف ایک قسم کی لپ سروس  (lip service) کی ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ دعا ایک عبادت ہے، اور حقیقی عبادت وہی ہے جس میں اللہ رب العالمین کی معرفت شامل ہو۔

دعا کی دو قسمیں ہیں۔ ایک دعا وہ ہے جو اپنی کسی حاجت کے لیے کی جائے، جس میں دعا کرنے والا اپنے کسی ذاتی مسئلے کا حوالہ دے کر اللہ سے اس کے حل کی درخواست کرے۔ مثال کے طورپر ایک بے روزگار انسان کا روزگار حاصل کرنے کے لیے اللہ سے دعا کرنا۔ یہ عام قسم کی دعا ہے۔ یہ دعا بھی ایک مطلوب دعا ہے اور اخلاص کے بقدر آدمی کو اس کا ثواب ملتا ہے۔ یہ اللہ کے اوپر منحصر ہے کہ وہ ایسی دعا کو سن کر فوراً اس کو پورا کردے یا اس کو مستقبل کے خانے میں ڈال دے۔

دوسری دعا وہ ہے جس میں دعا کرنے والا اِس طرح دعا کرے کہ اس کا مسئلہ خود خدا کا مسئلہ بن جائے۔ مثلاً قدیم اسپین میں قحط کے وقت سلطان عبد الرحمن الناصر (وفات961 ء) کی دعا جس میں اس نے کہا تھاهَذِهِ نَاصِيَتِي بِيَدَيْكَ، أَتُرَاكَ تُعَذِّبُ هَذَا الْخَلْقَ لِأَجْلِي، وَأَنْتَ أَحكمُ الحَاكمِينَ، لَنْ يَفُوتك شَيْءٌ مِنِّي (تاریخ الاسلام للذہبی، 25/444)۔ یعنی یہ میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، کیا تو ایسا کرے گا کہ اس مخلوق کو میری وجہ سے سزا دے، تو حاکموں کا حاکم ہے، میری کوئی چیز تجھ سے ہرگز چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اِس دعا میں قحط کے زمانے میں بارش کو خود خدا کی رحمت کا تقاضا قرار دیاگیا ہے، نہ کہ صرف انسان کی ضرورت کا تقاضا۔

پہلی قسم کی دعا محض انسانی تقاضے کے تحت ظہور میں آتی ہے۔ لیکن دوسری قسم کی دعا ہمیشہ گہری معرفت کے تحت کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسری قسم کی دعا ہمیشہ عارفانہ دریافت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اِس قسم کی دعا ہمیشہ کسی آدمی کے دل سے اُس وقت نکلتی ہے جب کہ اس کو اللہ کی قربت کا خصوصی تجربہ ہوا ہو۔ اس قسم کی دعا کی بہت سی مثالیں حدیث میں آئی ہیں۔

سفر ِ معرفت

خدا کی معرفت کا سفر لا الٰہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہ الاّ اللہ تک پہنچتا ہے۔ آدمی کو پہلے متلاشی (seeker)  بننا پڑتا ہے، اِس کے بعد وہ دریافت کرنے والے (finder) کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ سفرِ معرفت کی یہی ترتیب عام انسان کے لیے بھی ہے اور یہی ترتیب پیغمبر کے لیے بھی۔

عربی زبان کا ایک مقولہ ہےلا أدري، نصف العلم (میں نہیں جانتا،آدھا علم ہے) آدمی کو پہلے اپنی لاعلمی کو دریافت کرنا پڑتاہے، اِس کے بعد اس کے اندر تلاش کا وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کو روحِ تجسس (spirit of enquiry) کہاجاتاہے۔ لاعلمی کا یہ جذبہ جتنا زیادہ شدید ہوگا، اتنی ہی زیادہ بڑی معرفت آدمی کو حاصل ہوگی۔ یہ ایک ایسی فطری حقیقت ہے جس میں کوئی استثنا نہیں۔

معرفت کوئی وراثتی چیز نہیں جو باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو مل جائے، معرفت انتہائی حد تک ایک ذاتی نوعیت کی چیز ہے۔ خدا کی معرفت کسی کو ملے گی تو وہ صرف ذاتی کوشش سے ملے گی، ذاتی کوشش کے بغیر ہر گز کسی کو خدا کی معرفت ملنے والی نہیں۔ ذاتی کوشش کے بغیر جو چیز کسی آدمی کو ملے گی، وہ ایک رسمی عقیدہ ہوگا، نہ کہ زندہ معرفت۔

معرفت کا تعلق آدمی کی پوری شخصیت سے ہے۔ معرفت ابتداء ً کسی شخص کو ذہن کی سطح پر حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے بعد وہ فطری عمل کے تحت اس کی پوری شخصیت کے اندر سرایت کرجاتی ہے۔ معرفت کا حصول کسی آدمی کے لیے اِس بات کو یقینی بنا دیتاہے کہ اس کی پوری شخصیت معرفت کے رنگ میں رنگ جائے، اس کی زندگی کا کوئی پہلو اس کے اثر سے خالی نہ رہے۔

معرفت کا سفر دراصل دریافت(discovery) کا سفر ہے۔ یہ دریافت ساری عمر جاری رہتی ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ اس نے کامل معرفت حاصل کرلی، اس کے بارے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس نے معرفت کو سرے سے دریافت (discover) ہی نہیں کیا۔

معرفت کی قیمت

ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھ کو بتائیے کہ میں خدا کی معرفت کیسے حاصل کروں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی شادی ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، میرے کئی بچے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ اپنے بچوں کے لیے تحفہ لاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، کبھی کبھی لاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ نہیں، آپ باربار تحفہ لاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ روزانہ نہیں لاتا، میں نے کہا کہ یہ آدھا جھوٹ ہے۔کوئی بھی شخص ہر روز اپنے بچوں کے لیے تحفہ نہیں لاتا۔ جوشخص اِس قسم کا تحفہ لاتا ہے، وہ صرف کبھی کبھی لاتا ہے۔

اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ معرفت کی باتیں کرتے ہیں، لیکن وہ معرفت سے خالی ہوتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ معرفت چاہتے ہیں، لیکن وہ معرفت کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اور اِس دنیا میں کوئی بھی چیز قیمت ادا کیے بغیر نہیں ملتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ جس چیز کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہو، اس کی وہ بات بھی نہ کرے۔ کیو ں کہ یہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ معرفت کے الفاظ بولتا ہے، لیکن وہ معرفت کی اہمیت کو نہیں جانتا۔

کہاجاتاہےالْعِلْمُشَيْءٌ لَا يُعْطِيكَ بَعْضَهُ حَتَّى تُعْطِيَهُ كُلَّكَ (الفقيه و المتفقه للخطيب البغدادي، 2/204)علم ایک ایسی چیز ہے کہ تم کو اپنا جزصرف اُس وقت دیتی ہے، جب کہ تم اس کو اپنا کُل دے دو۔ یہی بات معرفت کے لیے درست ہے۔ معرفت کی قیمت یہ ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ اُس کو دے دے، وہ اُس کو اپنا واحد کنسرن بنائے، وہ معرفت کی سوچ لے کر شام کو سوئے اور معرفت کی سوچ کے ساتھ صبح کو جاگے، وہ اپنے آپ کو معرفت میں اتنا زیادہ غرق کرے کہ وہ اُس کا خواب دیکھنے لگے۔ معرفت کی قیمت کامل حوالگی ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو معرفت کے حوالے نہ کرے، معرفت کے دروازے بھی اس کے لیے نہیں کھلتے۔

مسائلِ دین، معرفتِ دین

علم ِ دین کے دو پہلو ہیں — ایک ہے مسائل دین کا علم، اور دوسرا ہے معرفت دین کا علم۔ مسائل کا تعلق دین کے فارم سے ہے، اور معرفت کا تعلق دین کی اسپرٹ سے۔ دین دار بننے کے لیے دونوں ضروری ہیں۔ مسائل کا علم آدمی کو معرفت کا علم عطا نہیں کرتا، لیکن معرفت کا علم حاصل ہوجائے تو آدمی مسائل کے علم تک بھی ضرور پہنچ جائے گا۔ دین کا سفر معرفت سے شروع ہوتاہے اور مسائل تک پہنچتاہے۔ اِس کے برعکس، مسائل کا علم خود بخود کسی کو معرفت تک نہیں پہنچاتا۔

معرفت کیا ہے۔ معرفت دراصل یہ ہے کہ آدمی کو حقیقتِ حیات کی دریافت ہوجائے، آدمی کو اس کی داخلی تلاش کا جواب مل جائے، آدمی اپنی زندگی کی صحیح آئڈیالوجی کو پالے۔ معرفت کو ایک لفظ میں، داخلی انقلاب کہاجاسکتاہے۔ کسی انسان کے اندر جب یہ داخلی انقلاب آتا ہے تو وہ اس کی پوری شخصیت کو بدل دیتاہے — اس کا سوچنا، اس کا بولنا، لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک، زندگی کے بارے میں اس کے حوصلے اور آرزوئیں، معاملات میں اس کا نقطۂ نظر (outlook) ، کسی چیز کو لینے اور کسی چیز کو نہ لینے کے بارے میں اس کا معیار، غرض ہر چیز اللہ کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔

معرفت کے حصول کے بعد آدمی کی جو شخصیت بنتی ہے، اس کے مختلف مظاہر ہیں۔ اِنھیں مظاہر میں سے ایک مظہر وہ ہے جس کو عبادت کہاجاتا ہے۔ مسائل کا تعلق اِنھیں مظاہر سے ہے۔ مظاہر اصلاً داخلی تحریک کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔

مسائل کا رول یہ ہے کہ وہ اِن مظاہر کے صحیح حدود کو بتائیں۔ مصلح کا کام یہ ہے کہ وہ معرفت (داخلی اسپرٹ) کے پیدا کرنے پر سب سے زیادہ زور دے۔ یہی اصلاح کا فطری طریقہ ہے۔ اِس کے برعکس، اگر مسائل پر زور دیا جانے لگے تووہ انتقالِ تاکید (shift of emphasis) کے ہم معنیٰ ہوگا۔ اِس طرح کی تبدیلی سے کبھی مطلوبہ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ ایسا کرنے سے دین، مسائل پر مبنی دین بن جائے گا، حالاں کہ دین کو معرفت پر مبنی دین ہونا چاہیے۔