راز حیات (Raz-e-Hayat)

By
Maulana Wahiduddin Khan

مولانا وحیدالدین خاں (2021-1925ء) ایک اسلامی اسکالر اور حامی امن مفکر تھے ۔ انھوں نے اسلام کے حکیمانہ پہلو، مذہبی عدم تشدد، سماجی رواداری ، ماڈرن ایج کے ساتھ اسلام کی مطابقت، اور دوسرے عصری مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ مولانا نے عصری اسلوب میں 200 سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔ ان کا انگریزی ترجمہ قرآن اپنی آسان اور قابل فہم زبان کی وجہ سے ساری دنیا میں مقبول ہے ۔ انھوں نے 2001 میں سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے نئی دہلی میں ایک ادارہ قائم کیا ، تا کہ اس کے ذریعہ امن کلچر اور اسلام کی روحانی تعلیم کو ساری دنیا میں فروغ دیا جائے۔

راز ِحیات

 

مولانا وحید الدین خاں

 

     

دیباچہ

الفریڈایڈلر(1937۔1870)موجودہ زمانہ کا مشہور نفسیاتی عالم ہے۔اس کا مخصوص موضوع شخصی نفسیات (Individual psychology)تھا۔اس کے بارے میں ایک مبصر نے لکھا ہے:

After spending a lifetime studying people and their hidden reserves of power, the great psychologist, Alfred Adler, declared that one of the wonder-filled characteristics of human beings is "their power to turn a minus into a plus"

پوری عمر انسان کا اور انسان کی چھپی ہوئی محفوظ قوتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد، عظیم نفسیات دان الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا کہ انسانی شخصیت کی خصوصیات میں سے ایک حیرت ناک خصوصیت اس کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک’’ نہیں ‘‘کوایک ’’ہے‘‘ میں تبدیل کر سکے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی غیرمعمولی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مذکورہ اقتباس ایک عالم نفسیات کی زبان سے اسی کا اعتراف ہے۔ اس صلاحیت کی آخری حد یہ ہے کہ انسان تاریکی میں بھی روشنی کا پہلو دیکھ لیتا ہے۔ وہ ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کر سکتا ہے۔جب اس کی بازی کھوئی گئی ہو اس وقت وہ دوبارہ اپنے لیے نیا میدان تلاش کر لیتا ہے جس میںجدوجہد کر کے وہ ازسرِنو اپنی منزل پر پہنچ جائے۔

زیر نظر کتاب انسانی شخصیت کے اسی پہلو کا مطالعہ ہے۔ یہ ناممکن میں ممکن کو دیکھنے کی کوشش ہے۔ یہ مایوسی کو امید میں بدلنے کا ایک پیغام ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس کی آج کے انسان کو شاید ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔

وحید الدین

دہلی، 30مئی 1986

مقصدیت

 

با مقصد زندگی

ایکسپریس ٹرین پوری رفتار سے اپنی منزل کی طرف بھاگی چلی جارہی تھی۔راستہ میں دونوں طرف سرسبز کھیتوں اور ڈبڈبائے ہوئے نالوں اور ندیوں کا مسلسل منظر اپنی طرف کھینچتاہے۔مگر تیزدوڑتی ہوئی ٹرین کو ان خوش نما مناظر سے کوئی دلچسپی نہیں ۔پستی اور بلندی،خشکی اور پانی اس کی رفتار میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتے۔راستہ میں چھوٹے چھوٹے اسٹیشن آتے ہیں مگر وہ ان کو چھوڑتی ہوئی اس طرح بھاگی چلی جاتی ہے کہ گویا اسے کہیں ٹھہرنا نہیں ہے۔

بامقصد زندگی کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے ۔جس آدمی نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا رکھا ہو۔اس کی ساری توجہ اپنے مقصد پر لگ جاتی ہے ،ادھر ادھر کے مسائل میں وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔

بامقصد زندگی گزارنے والا آدمی ایسے مسافر کی طرح ہوتا ہے جو اپنا ایک ایک لمحہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے میں لگا دینا چاہتا ہے۔دنیا کے خوش نما مناظرایسے مسافر کولبھانے کےلیے سامنے آتے ہیں مگر وہ ان سے آنکھیں بند کر لیتا ہے سائے اور اقامت گاہیں اس کو ٹھہرنے اور آرام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں مگر وہ ان کو چھوڑتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔دوسری دوسری چیزوں کے تقاضے اس کا راستہ روکتے ہیں مگر وہ ہر ایک سے دامن بچاتا ہوا بڑھتا چلا جاتا ہے ۔زندگی کے نشیب و فراز اس سے ٹکراتے ہیں مگر اس کے باوجود اس کے عزم اور اس کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آتا۔

بامقصد آدمی کی زندگی ایک بھٹکے ہوئے آدمی کی مانند نہیں ہوتی جو سمت سفر متعین نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ایک طرف چلنے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف۔بلکہ اس کے ذہن میں راستہ اور منزل کا واضح شعور ہوتا ہے اس کے سامنے ایک متعین نشانہ ہوتا ہے۔ایسا آدمی کیسے کہیں رک سکتا ہے۔کیسے وہ دوسری چیزوں میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کو پسند کرسکتا ہے۔اس کو تو ہر طرف سے اپنی توجہ ہٹا کر ایک متعین رخ بڑھنا ہے او ربڑھتے رہنا ہے۔یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پالے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔

زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک سوچا ہوا نشانہ ہو۔جس کی صداقت پراس کا ذہن مطمئن ہو جس کے سلسلے میں اس کا ضمیر پوری طرح اس کا ساتھ دے رہا ہو ، جو اس کی رگ و پے میں خون کی طرح اترا ہوا ہو۔یہی مقصد ی نشانہ کسی انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے۔اگریہ نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔اور جس آدمی کے اندر مقصدیت آجائے اس کی زندگی لازماً ایک اور زندگی بن جائے گی۔وہ چھوٹی چھوٹی غیرمتعلق باتوں میں الجھنے کی بجائے اپنی منزل پر نظر رکھے گا۔وہ یک سوئی کے ساتھ اپنے مقررہ نشانہ پر چلتا رہے گا یہاں تک کہ منزل پر پہنچ جائے گا۔

 

رواجی ذہن

الیس ہووے (Elias Howe) امریکہ کے مشہور شہر مساچوچسٹ کا ایک معمولی کا ریگر تھا۔وہ 1819 میں پیدا ہو ااور صرف 48 سال کی عمر میں 1867 میں اس کا انتقال ہوگیا۔مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845 میں ایجاد کی۔

الیس ہووے نے جومشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لیے ابتداء ً سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیسا کہ عا م طو ر پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھیدکرتا آرہا تھا۔اس لیے الیس ہووے نے جب سلائی مشین تیارکی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی۔شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا۔کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی۔

الیس ہووے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ پن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہ آتا تھا۔آخرکار اس نے ایک خواب دیکھااس خواب نے اس کا مسئلہ حل کردیا۔

اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑلیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹہ کے اندر سلائی کی مشین بنا کرتیار کرے۔ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیار نہ کرسکا۔جب وقت پورا ہوگیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ان کے ہاتھ میں برچھا تھا۔ ۔ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا یہی دیکھتے ہوئےاس کی نیند کھل گئی۔

ہووے کو آغاز مل گیا۔اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔دھاگے کا چھیدا وپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کررہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے وہ صحیح ہے۔جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا اور فوراً حل کرلیا۔جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے۔تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پالیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پالیا۔

 

مقصدیت

جاپان نے 1931 میں چین کے شمال مشرقی حصہ (منچوریا) پر قبضہ کرلیا۔او روہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کردی ۔اس کے بعد چین اور جاپان کے تعلقات خرا ب ہوگئے۔7 جولائی 1937 کو بیجنگ (پیکنگ)کے پاس مارکوپولو برج کاواقعہ پیش آیا۔اس واقعہ نے دبے ہوئے جذبات کو بھڑکا دیا۔اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی ٹکرائو شروع ہوگی جو بالآخر دوسری جنگ عظیم تک جا پہنچا۔

اس وقت سے چین اور جاپان کے درمیان نفر ت اور کشیدگی پائی جاتی تھی۔چند سال پہلے جاپان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس کے مطابق جاپان کو چین میں ایک اسٹیل مل قائم کرنا تھا مگر معاہدہ کی تکمیل کے بعد چینی حکومت نے اچانک اس کو منسوخ کردیا۔

چین کے نئے وزیر اعظم ڈینگ زاپنگDeng Xiaoping)نے حال میں اشتراکی انتہاپسندی کو ختم کیا اور کھلے دروازے(Open Door)کی پالیسی اختیار کی تو جاپان کے لیے دوبارہ موقع مل گیا۔چنانچہ آج کل جاپان نے چین میں زبردست یورش کررکھی ہے۔آپ اگر جاپان سے چین جانا چاہیں تو آپ کو ہوائی جہاز میں اپنی سیٹ تین ماہ پیشگی بک کرانی ہوگی۔جاپان سے چین جانے والے ہر جہاز کی ایک ایک سیٹ بھری ہوئی ہوتی ہے۔

چین میںتجارت کے زبردست امکانات ہیں۔جاپان چاہتا ہے کہ ان تجارتی امکانات کو بھرپور استعمال کرے۔اس مقصد کے لیے جاپان نےیک لخت طو رپرماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دیا۔ایک سیاح کے الفاظ میں جاپان نے طے کرلیا کہ وہ چین کی طرف سے پیش آنے والی ہر ایذارسانی (Pinpricks) کو یک طرفہ طور پر برداشت کرے گا۔

مذکورہ سیاح نے لکھا ہے کہ میرے قیام ٹوکیو (جون 1985) کے زمانہ میں ریڈیو بیجنگ نے اعلان کیا کہ چین ایک میوزیم بنائے گا جس میں تصویروں کے ذریعہ دکھایا جائے گا کہ جاپانیوں نے چینیوں کے اوپر ماضی میں کیا کیا مظالم کیے ہیں۔اس میوزیم کا افتتاح 1987 میں ہوگا جب کہ مارکوپولو کے حادثہ کو 50 سال پورے ہوجائیں گے۔جاپانیوں سے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے خاموشی اختیار کی۔جب زیادہ زور دیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:

You know, our Chinese friends have a way of twisting our tails, and appealing to our conscience.

آپ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے چینی دوستوں کا مہمیز لگانے کاطریقہ ہے۔وہ ہمارے ضمیر کو متوجہ کررہے ہیں۔(ٹائمس آف انڈیا 13 جون 1985)

جاپان کے سامنے ایک مقصد تھا۔یعنی اپنی تجارت کو فروغ دینا۔اس مقصد نے جاپان کے اندر کردار پیدا کیا۔اس کے مقصد نے اس کو حکمت، برداشت، اعراض کرنا اور صرف بقدر ضرورت بولنا سکھایا۔اس کے مقصد نے اس کو بتایا کہ کس طرح وہ ماضی کو بھلا دے اور تمام جھگڑوں اور شکایتوں کو یک طرفہ طور پر دفن کردے تاکہ اس کے لیے مقصد تک پہنچنے کی راہ ہموارہو سکے۔

بامقصد گروہ کی نفسیات ہمیشہ یہی ہوتی ہے۔خواہ اس کے سامنے تجارتی مقصد ہویاکوئی دوسرا مقصد۔اور جب کوئی گروہ یہ صفات کھودے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس گروہ نے مقصدیت کھودی ہے۔اس کے سامنے چوں کہ کوئی مقصدنہیں اس لیے اس کے افراد کا کوئی کردار بھی نہیں۔

موجودہ زمانہ میں ہماری قوم کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بے کرداری ہے۔جس میدان میں بھی تجربہ کیجئے۔آپ فوراً دیکھیں گے کہ لوگوں نے اپنا کردار کھودیاہے۔ان کے اوپر کسی ٹھوس منصوبہ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ۔جہاں بھی انہیں استعمال کیا جائے وہ دیوار کی کچی اینٹ ثابت ہوتے ہیں۔وہ دیوار کی پختہ اینٹ ہونے کا ثبوت نہیں دیتے۔

اس کمزوری کی اصل وجہ یہی ہے کہ آج ہماری ساری قوم نے مقصد کا شعور کھودیا ہے۔وہ ایک بے مقصد گروہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ان کے سامنے نہ دنیا کی تعمیر کا نشانہ ہے اور نہ آخرت کی تعمیر کا نشانہ۔یہی ان کی اصل کمزوری ہے۔اگر لوگوں میں دوبارہ مقصد کا شعور زندہ کردیا جائے تو دوبارہ وہ ایک جاندار قوم نظر آئیں گے۔وہ دوبارہ ایک باکردار گروہ بن جائیں گے جس طرح وہ اس سے پہلے ایک باکردار گروہ بنے ہوئے تھے۔

قوم کے افراد کے اندر مقصد کا شعور پید ا کرنا ان کے اندر سب کچھ پیدا کرتا ہے۔مقصد آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگادیتا ہے، وہ اس کو نیا انسان بنا دیتا ہے۔

 

سارا خون

پروفسیر پال ڈیراک (Paul Dirac) 1902 میں پیدا ہوئے۔اکتوبر 1984 میں انہوں نے 82 سال کی عمر میں فلوریڈا میں وفات پائی۔وہ جدید دور میں نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد سب سے زیادہ ممتاز سائنسدان سمجھے جاتے ہیں۔ان کو نوبل انعام اور دوسرے بہت سے اعزازات حاصل ہوئے۔

پال ڈیراک کے نام کے ساتھ کوانٹم میکانیکل تھیوری منسوب ہے۔یہ سائنسی نظریہ ایٹم کے انتہائی چھوٹے ذرات سے بحث کرتا ہے۔انہوں نے سب سے پہلے اینٹی میٹر کی پیشین گوئی کی جو بعد کو مزید تحقیقات سے ثابت ہوگیا ۔چنانچہ گارڈین (4 نومبر 1984) نے پال ڈیراک پر مضمون شائع کرتے ہوئے اس کی سرخی حسب ذیل الفاظ میں قائم کی:

Prophet of the Anti-Universe

 پال ڈیراک نے ایٹم میں پہلا اینٹی پارٹیکل دریافت کیا جس کو پازیٹران (Positron) کہا جاتا ہے۔ اس دریافت نے نیوکلیر فزکس میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔لوگ جب پال ڈیراک سے پوچھتے کہ آپ نےتحت ایٹم مادہ کی نوعیت کے بارہ میں اپنا چونکا دینے والا نظریہ کیسے دریافت کیاتو وہ بتاتے کہ وہ اپنے مطالعہ کے کمرہ میں اس طرح فرش پر لیٹ جاتے تھے کہ ان کا پائوں اوپر رہتا تاکہ خون ان کے دماغ کی طرف دوڑے:

When people asked him how he got his startling ideas about the nature of sub-atomic matter, he would patiently explain that he did so lying on his study floor with his feet up so that the blood ran to his head.

بظاہر یہ ایک لطیفہ ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بڑافکری کام وہی شخص کرپاتا ہے جو اپنے سارے جسم کا خون اپنے دماغ میں سمیٹ دے۔

بیشتر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوت کو تقسیم کئے ہوئے ہوتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو ایک مرکز پر یکسو نہیں کرتے اس لیے وہ ادھوری زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ہر کام آدمی سے اس کی پوری قوت مانگتا ہے۔وہ شخص بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے جو اپنی پوری قوت کو ایک کام میں لگا دے۔

 

خواب میں

مسٹر رام رتن کپلاریفریجریٹر اور ائیر کنڈیشنر کا بزنس کرتے ہیں۔ان کی فرم کا نام کیپسنس ہے نئی دہلی میں آصف علی روڈ پر اسکا صدردفتر ہے۔

 مسٹر رام رتن کپلا کو اپنے فرم کے لیے ایک سلوگن کی ضرورت تھی۔انہوں نے اخبارمیں اعلان کیا کہ جو شخص کم لفظوں میں ایک اچھا سلوگن بنا کر دے گا اس کو معقول انعام دیا جائے گا۔بار بار کے اعلان کے باوجود کوئی ایسا شخص نہ ملا جو اچھا سلوگن دے سکے۔بعض لوگوں نے کچھ فقرے لکھ کر بھیجے مگر مسٹرکپلا کو وہ پسند نہ آئے۔’’سلوگن کو Penetrating ہونا چاہیے۔مگر یہ سلوگن Penetrating نہ تھے‘‘ انہوں نے 4 دسمبر 1983 کی ایک ملاقات میں کہا۔

مسٹرکپلا اسی ادھیڑبن میں رات دن لگے رہے وہ مسلسل اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ان کا دماغ برابر سلوگن کی تلاش میں لگا ہوا تھا مگر کامیابی نہیں ہورہی تھی۔

اسی فکر میں تقریباً چھ سال گزرگئے۔اس کے بعد ایسا ہو اکہ مسٹرکپلا نے ایک روز رات کو ایک خواب دیکھا۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک باغ میں ہیں۔نہایت سہانا موسم ہے۔طرح طرح کی چڑیاں درختوں پر چہچہارہی ہیں۔یہ منظر دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوگئے۔ان کی زبان سے نکلا

’’وید ر(Weather) ہو تو ایسا‘‘

یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھ کھل گئی۔اچانک انہیں معلوم ہوا کہ انہوںنے وہ سلوگن دریافت کرلیا ہے جس کی تلاش میں وہ برسوں سے سرگرداں تھے۔فوراً ان کے ذہن میں یہ انگریزی جملہ مرتب ہوگیا:

KAPSONS: The weather masters

خواب انسانی دماغ کی وہ سرگرمی ہے جس کو وہ نیند کی حالت میں جاری رکھتا ہے۔اگر آپ اپنے ذہن کو سارے دن کسی چیز میں مشغول رکھیں تو رات کے وقت وہی چیز خواب میں آپ کے سامنے آئے گی۔تاریخ کی بہت سی ایجادات خواب کے ذریعہ ظہورمیں آئی ہیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ موجد اپنی ایجاد میں اتنا مشغول ہوا کہ وہ سوتے میں بھی اسی کا خواب دیکھنے لگا۔خواب دراصل کسی چیز میں کامل ذہنی وابستگی کا نتیجہ ہے۔ایسے آدمی کے عمل کی مدت 12گھنٹے کے بجائے 24 گھنٹے ہوجاتی ہے۔یہی کسی مقصد میں کامیاب ہونے کا راز ہے۔اس قسم کی گہری وابستگی کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔نہ دنیا کا اور نہ آخرت کا۔

 

ناموافق حالات

سروالٹر اسکاٹ (1832۔1771) کا شمار انگریزی ادب کے نامور افرادمیں ہوتا ہے ۔مگر اس کو یہ مقام معمولی حیثیت کی قیمت میں ملا۔اس کی معمولی حیثیت اس کے لیے وہ زینہ بن گئی جس پر چڑھ کر وہ اعلیٰ درجہ کو پہنچے۔

والٹر اسکاٹ اپنی ادھیڑ عمر تک ایک معمولی صلاحیت کاانسان سمجھا جاتا تھا۔اس کی حیثیت بس ایک تیسرے درجہ کے شاعرکی تھی۔اس کے بعد ایسا ہو ا کہ اس کے اوپر قرضوں کا بوجھ لدگیا۔اس کی شاعری اس کو اتنی آمدنی نہ دے سکی جس سے وہ اپنے قرضوں کی ادائیگی کرسکے۔

بالآخر اس کے حالات نہایت شدید ہوگئے۔شدید حالات نے اس کی شخصیت کو آخر حد تک جھنجھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ والٹر اسکاٹ کے اندر سے ایک نیا انسان ابھر آیا۔اس کی ذہنی پرواز نے کام کا نیا میدان تلاش کرلیا۔

اب اس نے نئی نئی کتابیں پڑھیں۔یہاں تک کہ اس پر کھلا کہ وہ محبت کی تاریخی داستانیں لکھے۔چنانچہ اس نے محبت کی تاریخی داستانوں کو ناول کے انداز میں قلم بند کرنا شروع کردیا۔

قرض کی ادائیگی کے جذبہ نے اس کو ابھار اکہ وہ اس میدان میں زبردست محنت کرے۔اس نے کئی سال تک اس راہ میں اپنی ساری طاقت صرف کردی۔اس کو اپنی کہانی بازار میں اچھی قیمت میں فروخت کرنی تھی اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب کہ اس کی کہانیاں اتنی جاندار ہوں کہ قارئین کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا والٹر اسکاٹ کی غیر معمولی محنت اس کی کہانیوں کی مقبولیت کی ضامن بن گئی۔اس کی لکھی ہوئی کہانیاں اتنی زیادہ فروخت ہوئیں کہ اس کا سارا قرض ادا ہوگیا۔والٹر اسکاٹ پر اگر یہ آفت نہ آتی تو اس کے اندر وہ زبردست محرک پیدا نہیں ہوسکتا جس نے اس سے وہ کہانیاں لکھوائیں جس نے اس کو انگریزی ادب میں غیر معمولی مقام دے دیا۔

اس کے بعد والٹر اسکاٹ کو سر کے خطاب سے نواز اگیا۔والٹر اسکاٹ کے لیے قرض کا مسئلہ نہایت جاں گداز مسئلہ تھا۔لیکن اگر یہ جاں گداز مسئلہ نہ ہوتا تو والٹراسکاٹ سروالٹر اسکاٹ بھی نہ بنتا۔

 

میں پڑھ کر پڑھاؤں گا

فادر ہنری ہراس (1956۔1889) ایک اسپینی مسیحی تھے۔وہ 34 سال کی عمرمیں 18 نومبر 1922 کو بمبئی کے ساحل پر اترے۔ہندوستان کی زمین نے ان کو متاثرکیا۔ان کومحسوس ہوا کہ ان کے تبلیغی حوصلہ کے لیے اس ملک میں کام کا اچھا میدان ہے۔انہوں نے طے کرلیا کہ وہ یہاں رہ کر اپنا تبلیغی کام انجام دیں گے۔

مگر ہندوستان ان کا وطن نہیں تھا۔کام سے پہلے ضروری تھا کہ یہاں ان کے لیے قیام کی کوئی بنیاد ہو۔یہاں اپنی جگہ بنا کرہی وہ یہاں کی آبادی میں اپنے تبلیغی کام کو جاری رکھ سکتےتھے۔انھوں نے طے کیا کہ ہندوستان میں بحیثیت معلم کے قیام کریں گے اور اس کے بعد کالج میں اور کالج کے باہر اپنے لیے کام کی تدبیر کریں گے۔بمبئی کا ہراس انسٹیٹیوٹ انھیں کی یادگار ہے۔

فادر ہراس (Fr. Henry Heras) چند دن بعد سینٹ زیویرس کالج بمبئی کے پرنسپل سے ملے وہ ایک تاریخ دان تھے۔انھوں نے اپنے ملک سے تاریخ میں ڈگری لی تھی۔پرنسپل نے ان کے کاغذات دیکھ کر پوچھا ’’آپ یہاں کون سی تاریخ پڑھاناپسند کریں گے‘‘ فادر ہراس نے فوراً جواب دیا ’’ہندوستانی تاریخ‘‘ پرنسپل کااگلا سوال تھاہندوستانی تاریخ میں آپ کا مطالعہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’کچھ نہیں‘‘۔پھر آپ کیسے ہندوستانی تاریخ پڑھائیں گے‘‘ پرنسپل نے پوچھا۔فادر ہراس کا جواب تھا۔ I shall study it.

میں ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ کرکے اپنے آپ کو تیار کروں گا۔پھر اس کو پڑھائوں گا۔

فادرہراس جانتے تھے کہ معلمی کا کام وہ بطور پیشہ نہیں اختیار کررہے ہیں کہ یورپ کی تاریخ یا جو مضمون بھی وہ چاہیں پڑھائیں اور مہینہ کے آخر میں تنخواہ لے کر مطمئن ہوجائیں۔ان کے لیے معلمی کا کام ایک خاص مقصد کی خاطر تھا۔اور وہ یہ کہ وہ اپنے تبلیغی کام کے لیے مناسب بنیاد فراہم کریں اوراس مقصد کے اعتبار سے ان کے لیے ’’ہندوستانی‘‘ تاریخ سب سے زیادہ موزوں مضمون تھا۔وہ ہندوستان میں تھے اس لیے ہندوستانی تاریخ کے معلم بن کر وہ زیادہ بہتر طور پر یہاں کے نوجوانوں میں اپنے دین کی تبلیغ کرسکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کی تاریخ سے ناآشنا ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے مضمون کے لیے ہندوستانی تاریخ کو پسند کیا۔

انہوں نے ہندوستانی تاریخ کے مطالعہ میں اتنی زیادہ محنت کی کہ وہ نہ صرف اس مضمون کے اچھے معلم بن گئے بلکہ ہندوستانی تاریخ میں سرجدو ناتھ سرکار اور ڈاکٹر سریندر ناتھ سین کے درجہ کے مورخ کی حیثیت حاصل کرلی۔

 

آغاز میں

جدید صنعتی دنیا کی ایک اصطلاح ہے جس کو کنجی گھمائو منصوبہ (Turn-key Project) کہا جاتا ہے ۔اس سے مراد ایک ایسا مکمل طور پر بنا بنایا گھر یا کارخانہ ہے جس میں آدمی کا کام صرف کنجی گھما دینا ہو۔مسلما ن موجودہ زمانہ میں جس طرح عمل کررہے ہیں اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا دنیا کو وہ اپنے لیے اسی قسم کی جگہ سمجھتے ہیں۔ان کا خیال شاید یہ ہے کہ ان کے خدا نے ایک تیار شدہ دنیا ان کے حوالے کردی ہے اور اب ان کا کام صرف یہ ہے ایک کنجی گھما کر وہ اس کو اپنی مرضی کے موافق چلادیں۔

مگر یہ سراسر نادانی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عمل اور مسابقت کی دنیا ہے۔یہاں ہمیں اول سے آخر تک سار ا کام خود کرنا ہے۔ہمیں دوسروں کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کا ثبوت دینا ہے۔اس کے بعد ہی ممکن ہے اسباب کی اس دنیا میں ہم کو اپنی مطلوبہ جگہ مل سکے۔

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو سب سے پہلے جو چیز جاننا چاہیے وہ یہ حقیقت ہے کہ وہ تاریخ کے آغاز میں ہیں، تاریخ کے اختتام میں نہیں ہیں۔ہر آدمی جانتا ہے کہ اگر وہ جنوری 1985 میں ہو تو دسمبر 1985 کے زمانہ میں پہنچنے کے لیے اس کو بارہ مہینے تک انتظار کرنا پڑے گا۔زمین اپنے محور پر 360 بار گھومے گی اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہمارا ایک سال پورا ہو اور ہم تکمیل سال کے مرحلہ میں پہنچ سکیں۔

یہ اس دنیا کی انتہائی معلوم حقیقت ہے ۔مگر اسی معلوم حقیقت کو مسلمان ملت کی تعمیر کے معاملہ میں بالکل بھول جاتے ہیں۔وہ عملاً پہلے مہینہ میں ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ چھلانگ لگاکر آخری مہینہ میں جاپہنچیں۔وہ بنیاد کی تعمیر نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خیالی مکان کی بالائی چھت پر کھڑے ہوئے نظر آئیں۔واقعہ کے اعتبار سے وہ اپنے سفر کے آغاز میں ہوتے ہیں۔اور ایسے انتہائی الفاظ بولتے ہیں کہ گویا کہ وہ درمیانی راستہ طے کیے بغیر اپنی آخری منزل پر پہنچ گئے ہیں۔

یاد رکھئے، ہمار اسب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم ایک بامقصد قوم تیار کریں۔ہمیں قوم کے افراد کو وہ تعلیم دینا ہے جس سے وہ ماضی اور حال کو پہچانیں۔ان کے اندر وہ شعور بیدا رکرنا ہے کہ وہ اختلاف کے باوجود متحدہونا جانیں۔ان کے اندر وہ حوصلہ ابھارنا ہے کہ وہ شخصی مفاد اور وقتی جذبات سے اوپر اٹھ کر قربانی دے سکیں۔یہ سارے کام جب قابل لحاظ حد تک ہوچکے ہوں گے اس کے بعدہی کوئی ایسا اقدام کیا جاسکتا ہے جو فی الواقع ہمارے لیے کوئی نئی تاریخ پیدا کرنے والا ہو۔اس سے پہلے اقدام کرنا صرف موت کی خندق میں چھلانگ لگانا ہے نہ کہ زندگی کے چمنستان میں داخل ہونا۔

 

نئی طاقت جاگ اٹھی

گیرارڈ(اٹلی) نے مغربی لاطینیوں کے لیے وہی کام کیا جو حنین ابن اسحٰق نے مشرقی عربوں کے لیے کیا تھا۔اس نے عربی زبان سے فلسفہ ،ریاضی،طب اور علوم طبیعی کی بے شمار کتابوں کا ترجمہ لاطینی زبان میں کرڈالا۔

گیرارڈ 1114ء میں کریمونا (اٹلی) میں پیداہوا۔وہ عربی زبان بخوبی جانتا تھا ۔بطلیموس کی المجسطی (عربی)کی تلاش میں وہ طلیطلہ آیا۔اس نے 1175ء میں اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا۔وہ عربی کی کتابوں کا ترجمہ کرنے والوں میں نمایاں ترین شخص بن گیا۔ایک مسیحی اور ایک یہودی عالم اس کام میں اس کے مددگار تھے۔اس نے یونانی اور عربی علوم کے دروازے پہلی بار مغرب کے لیے کھول دئیے۔اس کے بعد دوسرے بہت سے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے اس معاملہ میں اس کی تقلید کی۔ڈاکٹر میکس میرہاف کے الفاظ میں وہ یورپی دنیا میں عربیت کا بانی تھا۔

علم طب میں گیراڈ نے بقراط و جالینوس کی کتابوں،حنین کے تقریباً تمام ترجموں،الکندی کی تمام تصانیف، بوعلی سینا کی ضخیم ’’قانون‘‘ اور ابوالقاسم زہراوی کی کتاب ’’جراحت‘‘ کا ترجمہ کردیا۔طبیعیات میں اس نے ارسطو کی بہت سی کتابوں کا عربی سے ترجمہ کیا۔جن میں حجریات کا وہ رسالہ بھی شامل ہے جو ارسطو سے منسوب کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس شعبہ علم میں الکندی ، الفارابی، اسحاق اور ثابت وغیرہ کی کتابوں کو بھی لاطینی میں منتقل کیا۔

گیراڈ 1187 میں بیمار پڑا۔اس نے گمان کیا کہ اب اس کی موت قریب ہے۔’’اگر میں مرگیا تو قیمتی عربی کتابوں کا ترجمہ مغربی زبان میں کون کرے گا‘‘ اس احساس نے اس کو تڑپادیا۔اس کے اندر نئی قوت عمل جاگ اٹھی۔بیماری کے باوجود اس نے ان بقیہ عربی کتابوں کا ترجمہ شروع کردیا جن کو اس نے اپنے پاس جمع کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اپنی موت سے پہلے صرف ایک مہینے کے اندر اس نے تقریباً اسّی کتابوں کے ترجمے پورے کرلیے۔

عمل کا تعلق حقیقتاً جذبے سے ہے نہ کہ صحت اور طاقت سے۔اگر آدمی کے اندر کسی کام کی آگ بھڑک اٹھے تو اس کام کو وہ ہر حال میں کرڈالتا ہے ، خواہ وہ بستر مرض پر ہو۔خواہ اس کے ظاہری حالات کسی طرح اس کی اجازت نہ دیتے ہوں۔

 

بے فائدہ مصروفیات

سالزنیٹسین (Alexander Solzhenitsyn) ایک روسی ناول نگار ہے۔اس کو روسی عوام کے دکھوں کا احساس ہو ااوراس کو اس نے اپنی کہانیوں میں تمثیلی روپ میں ظاہر کرنا شروع کیا۔اس کے نتیجہ میں وہ روس کی اشتراکی حکومت کی نظرمیں ناپسندیدہ شخص بن گیا۔چنانچہ اس نے اپنا وطن چھوڑ کر امریکہ میں پناہ لے لی۔وہ امریکہ کی ایک بستی (Vermont) میں خاموشی سے زندگی گزار رہا ہے۔اور اپنے خیالات کتابوں کی صورت میں مرتب کرنے میں مصروف ہوگیا۔

مئی 1982ء میں سالزنیٹسین کو امریکی حکومت کا ایک دعوت نامہ ملا۔اس کے اعزاز میں واشنگٹن کے وائٹ ہائوس میں ایک سرکاری تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں دوسرے معزز لوگوں کے علاوہ خود صدر امریکہ بھی شریک ہوتے۔نیز اس دوران میں امریکی صدر ریگن اور سالز نیٹسین کے درمیان 15 منٹ کی ایک خصوصی ملاقات بھی شامل تھی۔

سالز نیٹسین نے صدر امریکہ کے نام 3 مئی 1982ء کو ایک جوابی خط لکھا جس کے ذریعہ تقریب میں شرکت سے قطعی معذوری ظاہر کی۔اس نے لکھا کہ زندگی کے جومختصر لمحات میرے پاس رہ گئے ہیں وہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں رسمی ملاقاتوں میں اپنا وقت صرف کردوں:

The life span at my disposal does not leave any time for symbolic encounters.

سالز نیٹسین کے سامنے ایک محدود مقصد تھا۔یعنی روسی عوام کی دکھ بھری زندگی کو ناول کے انداز میں پیش کرنا۔ اس مقصد نے اس کے اوقات پر اتنا قبضہ کرلیا کہ اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ وہ صدر امریکہ کے دعوت نامہ کو رد کردے۔

آدمی کے سامنے اگر کوئی واضح مقصد ہو تو اس کا یہی حال ہوتا ہے۔مگر جب آدمی کی زندگی مقصد سے خالی ہوجائے تو اس کی نظر میں اپنے وقت کی کوئی قیمت نہیں رہتی۔وہ اپنا اندازہ خود اپنی رائے سے کرنے کے بجائے دوسروں کی رائے سے کرنے لگتا ہے۔وہ رسمی جلسوں اور تقریبات میں رونق کا سامان بنتا رہتا ہے۔وہ اپنے لیے جینے کے بجائے دوسروں کے لیے جینے لگتا ہے۔یہاں تک کہ اس کی عمر پوری ہوجاتی ہے۔بظاہر مصروفیتوں سے بھری ہوئی ایک زندگی اس طرح اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے کہ اس کے پاس ایک خالی زندگی کے سوا اور کوئی سرمایہ نہیں ہوتا۔

 

کچھ اور کرنا ہے

اٹھاوریں صدی میںجن انگریزوں کی سرفروشی نے ہندوستان کو برطانیہ کی نو آبادی بنایا ان میں لارڈ رابرٹ کلائیو (1774۔1725) کا نام سرفہرست ہے۔1743 میں جبکہ اس کی عمر صرف 18 سال تھی وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک کی حیثیت سے مدراس آیا۔اس وقت اس کی تنخواہ صرف پانچ پونڈ سالانہ تھی ۔یہ رقم اس کے خرچ کے لیے بہت ناکافی تھی۔چنانچہ وہ قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبا رہتا اور مایوسانہ جھنجھلاہٹ کے تحت اپنے ساتھیوں اور افسروں سے لڑتا جھگڑتا رہتا۔

اس کے بعد ایک حادثہ ہوا جس نے اس کی زندگی کے رخ کو بدل دیا۔اس نے اپنی ناکام زندگی کو ختم کرنے کے لیے ایک روز بھرا ہوا پستول لیا او راپنے سر کے اوپر رکھ کر اس کی لبلبی دبادی۔مگر اس کو سخت حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ اس کا پستول نہیں چلا ہے۔اس نے پستول کھول کر دیکھا تو وہ گولیوں سے بھراہوا تھا۔اپنے ارادہ کی حدتک اپنے کو ہلاک کرلینے کے باوجود وہ بدستور زندہ حالت میں موجود تھا۔

یہ بڑا عجیب واقعہ تھا۔رابرٹ کلائیو اس کو دیکھ کر چلا اٹھا ’’ خدا نے یقینا تم کو کسی اہم کام کے لیے محفوظ رکھا ہے‘‘۔ اب اس نے کلرکی چھوڑدی اور انگریزی فوج میں بھرتی ہوگیا۔اس زمانہ میں انگریز اور فرانسیسی دونوں بیک وقت ہندوستان میں اپنا قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔اس سلسلے میں دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔اس جنگ میں رابرٹ کلائیو نے غیر معمولی صلاحیت اور بہادری کا ثبوت دیا۔اس کے بعد اس نے ترقی کی اور اس کو انگریزی فوج میں کمانڈر انچیف کی حیثیت حاصل ہوگئی۔جس کلائیو نے مایوس ہو کرخود اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر پستول چلالیا تھا ، اس کو اس کے بعد یہ مقام ملا کہ برطانیہ کی تاریخ میں اس کو ہندوستان کے اولین فاتح کی حیثیت سے لکھا جائے۔

ہم میں سے ہر شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ کسی شدید خطرہ میں پڑنے کے باوجود معجزاتی طور پر اس سے بچ جاتا ہے۔تاہم بہت کم لوگ ہیں جو رابرٹ کلائیو کی طرح اس سے سبق لیتے ہوں۔جو اس طرح کے واقعات میں قدرت کا یہ اشارہ پڑھ لیتے ہوں کہ ۔۔۔ابھی تمہارا وقت نہیں آیا، ابھی دنیا میں تم کو اپنے حصہ کا کام کرنا باقی ہے۔

ہر آدمی کو دنیا میں کام کرنے کی ایک مدت اور کچھ مواقع دیئے گئے ہیں۔یہ مدت اور مواقع اس سے اس وقت تک نہیں چھنتے جب تک خدا کا لکھا پورا نہ ہوجائے۔اگر رات کے بعد خدا آپ کے اوپر صبح طلوع کرے تو سمجھ لیجئے کہ خدا کے نزدیک ابھی آپ کے عمل کے کچھ دن باقی ہیں۔اگر آپ حادثات کی اس دنیا میں اپنی زندگی کو بچانے میں کامیاب ہیںتو اس کا مطلب یہ ہے کہ خداکے منصوبہ کے مطابق آپ کو کچھ اور کرنا ہے جو ابھی آپ نے نہیں کیا۔

قدرت کا سبق

 

شہد کا سبق

شہد کی مکھیاں پھولوں کا جورس جمع کرتی ہیں وہ سب کا سب شہد نہیں ہوتا۔اس کا صرف ایک تہائی حصہ شہد بنتا ہے۔شہد کی مکھیوں کو ایک پونڈ شہد کے لیے20 لاکھ پھولوں کارس حاصل کرنا پڑتا ہے۔اس کے لیے مکھیاں تقریباً 30 لاکھ اڑانیں کرتی ہیں۔اور اس دوران میں وہ مجموعی طور پر 50 ہزار میل تک کی مسافت طے کرتی ہیں۔رس جب مطلوبہ مقدار میں جمع ہوجاتا ہے تو اس کے بعد شہد سازی کا عمل شروع ہوتاہے۔

شہد اپنے ابتدائی مرحلہ میں پانی کی طرح رقیق ہوتا ہے ۔شہد تیار کرنے والی مکھیاں اپنے پروں کو پنکھے کی طرح استعمال کرکے فاضل پانی کو بھاپ کی مانند اڑا دیتی ہیں۔جب یہ پانی اڑ جاتا ہے تو اس کے بعد ایک میٹھا سیال باقی رہ جاتا ہے۔جس کو مکھیاں چوس لیتی ہیں۔مکھیوں کے منہ میں ایسے غدود ہوتے ہیں جو اپنے عمل سے اس میٹھے سیال مادہ کو شہد میں تبدیل کردیتے ہیں۔اب مکھیاں اس تیار شہد کو چھتے کے مخصوص طور پر بنے ہوئے سوراخوں میں بھرد یتی ہیں۔یہ سوراخ دوسری مکھیاں موم کے ذریعہ حددرجہ کاریگری کے ساتھ بناتی ہیں۔مکھیاں شہد کو ان سوراخوں میں بھر کر اس کو ’’ڈبہ بند‘‘ غذا کی طرح اہتمام کے ساتھ محفوظ کردیتی ہیں تاکہ آئندہ وہ انسان کے کام آسکے۔

اس طرح کے بے شمار اہتمام ہیں جو شہد کی تیاری میں کیے جاتے ہیں۔خدا ایسا کرسکتا تھا کہ طلسماتی طو رپر اچانک شہد پیدا کردے یا پانی کی طرح شہد کا چشمہ زمین پر بہاد ے مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔خدا ہر قسم کی قدرت کے باوجود شہد کو اسباب کے ایک حددرجہ کا مل نظام کے تحت تیار کرتا ہے۔تاکہ انسان کو سبق ہو۔وہ جانے کہ خدا نے دنیا کا نظام کس ڈھنگ پربنایا ہے اور کن قوانین و آداب کی پیروی کرکے خدا کی اس دنیا میں کوئی شخص کامیاب ہوسکتا ہے۔

شہد کی مکھی جس طرح عمل کرتی ہے اس کو ایک لفظ میں، منصوبہ بند عمل کہہ سکتے ہیں۔یہی اصول انسان کے لیے بھی ہے۔انسان بھی صرف اس وقت کوئی بامعنی کامیابی حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ منصوبہ بندعمل کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچنے کی کوشش کرے۔منظم اور منصوبہ بند عمل ہی اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا واحد یقینی طریقہ ہے، شہد کی مکھی کے لیے بھی اورانسان کے لیے بھی۔

 

امکان کبھی ختم نہیں ہوتا

مغر ب کی طرف پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے اوپر سورج ڈوب رہا تھا۔آفتابی گولے کا آدھا حصہ پہاڑ کی چوٹی کے نیچے جا چکا تھا اور آدھا حصہ اوپر دکھائی دیتا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد پورا سورج ابھری ہوئی پہاڑیوں کے پیچھے ڈوب گیا۔

اب چاروں طر ف اندھیرا چھانے لگا۔سورج دھیرے دھیرے اپنا اجالا سمیٹتا جارہا تھا۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا ماحول گہری تاریکی میں ڈوب جائے گا۔مگر عین اس وقت جب کہ یہ عمل ہورہا تھا، آسمان پر دوسری طرف ایک اور روشنی ظاہر ہونا شروع ہوئی۔یہ بارھویں کا چاند تھاجو سورج کے چھپنے کے بعد اس کی مخالف سمت سے چمکنے لگا۔اور کچھ دیر کے بعد پوری طرح روشن ہوگیا ۔سورج کی روشنی کے جانے پر زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک نئی روشنی نے ماحول پر قبضہ کرلیا۔

’’یہ قدرت کا اشارہ ہے‘‘ میں نے اپنے دل میں سوچا ’’کہ ایک امکان جب ختم ہوجاتا ہے تو اسی وقت دوسرے امکان کا آغاز ہوجاتا ہے ۔سورج غروب ہوا تو دنیا نے چاند سے اپنی بزم روشن کرلی۔

اسی طرح افراد اور قوموں کے لیے بھی ابھرنے کے امکانات کبھی ختم نہیںہوتے۔زمانہ اگر ایک بار کسی کو گرادے تو خدا کی اس دنیا میں اس کے لیے مایوس ہونے کا کوئی سوال نہیں۔وہ نئے مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ اپنے ابھرنے کا سامان کرسکتا ہے ضرورت یہ ہے کہ آدمی دانش مندی کا ثبوت دے اور مسلسل جدوجہد سے کبھی نہ اکتائے۔

یہ دنیا خدانے عجیب امکانات کے ساتھ بنائی ہے یہاں مادہ فنا ہوتا ہے تو وہ توانائی بن جاتا ہے۔تاریکی آتی ہے تو اس کے بطن سے ایک نئی روشنی برآمد ہوجاتی ہے۔ایک مکان گرتا ہے تو وہ دوسرے مکان کی تعمیر کے لیے زمین خالی کردیتا ہے۔یہی معاملہ انسانی زندگی کے واقعات کا ہے۔یہاں ہر ناکامی کے اندر سے ایک نئی کامیابی کا امکان ابھر آتا ہے۔دو قوموں کے مقابلہ میں ایک قوم آگے بڑھ جائے اور دوسری قوم پیچھے رہ جائے تو بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔اس کے بعد ایک اور عمل شروع ہوتا ہے ۔بڑھی ہوئی قوم کے اندر عیش پرستی اور سہولت پسندی آجاتی ہے۔دوسری طرف پچھڑی ہوئی قوم میں محنت اور جدوجہد کا نیا جذبہ جا گ اٹھتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں کسی کے لیے پست ہمت یا مایوس ہونے کا سوال نہیں۔حالات خواہ بظاہر کتنے ہی ناموافق دکھائی دیتے ہوں ، اس کے آس پاس آدمی کے لیے ایک نئی کامیابی کا امکان موجود ہوگا۔آدمی کو چاہیے کہ اس نئے امکان کو جانے اوراس کو استعمال کرکے اپنی کھوئی بازی کو دوبارہ جیت لے۔

 

قدرت کا سبق

ایک شخص نے اپنا ایک تجربہ لکھا ہے کہ ایک ماہی گیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ کیکڑے کی ٹوکری پر کسی کو ڈھکن لگانے کی ضرورت نہیں۔اگر ان میں سے کوئی کیکڑا ٹوکری کے کنارےسے نکلنا چاہتا ہے تو دوسرے وہاں پہنچتے ہیں اور اس کو پیچھے کی طرف کھینچ لیتے ہیں:

A fisherman once told me that one doesn't need to cover for a crab basket. If one of the crabs starts climbing up the side of the basket, the others will reach up and pull it back down.

Charles Allen, in The Miracle of Love.

کیکڑے کی یہ فطرت یقینا خدا نے بنائی ہے۔دوسرے لفظوں میں کیکڑے کا یہ طریقہ ایک خدائی طریقہ ہے۔کیکڑے کی مثال سے خدا انسانوںکو بتارہا ہے کہ انہیں اپنی اجتماعی زندگی کو کس طرح چلانا چاہیے۔

اجتماعی زندگی میں اتحاد کی بے حد اہمیت ہے۔اور اتحاد قائم کرنے کی بہترین تدبیروہی ہے جو کیکڑے کی دنیا میںخدا نے قائم کررکھی ہے۔کسی انسانی مجموعے کے افراد کو اتنا باشعور ہونا چاہیے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص ذہنی انحراف کا شکا ر ہو اور اپنے مجموعے سے جدا ہونا چاہے تو دوسرے لوگ اس کو پکڑ کر دوبارہ اندر کی طرف کھینچ لیں۔’’ٹوکری‘‘ کے افراد اپنے کسی شخص کو ٹوکری کے باہر نہ جانے دیں۔

اسلامی تاریخ میں اس کی ایک شاندار مثال حضرت سعد بن عبادہ انصاری کی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کے مسئلہ پر ان کے اندر انحراف پیداہوا۔بیشتر صحابہ اس پر متفق تھے کہ قبیلہ قریش کے کسی شخص کو خلیفہ بنایا جائے۔مگر سعد بن عبادہ کے ذہن میں یہ آیا کہ خلیفہ انصار کا کوئی شخص ہو یا پھر دو خلیفہ بنائے جائیں، ایک مہاجرین میں سے اوردوسرا انصار میں سے۔مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سعد بن عبادہ کے قبیلہ کے تمام لوگ اپنے سردار کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔انہوں نے سعد بن عبادہ کو کھینچ کر دوبارہ ’ٹوکری‘ میں ڈال لیا۔اور ان کو اس سے باہر جانے نہیں دیا۔

 

سنبھل کر چلئے

چھوٹے جانوروں کو ندی پار کرنا ہو تو وہ پانی میں تیزی سے چل کر نکل جاتے ہیں۔مگر ہاتھی جب کسی ندی کو پار کرتا ہے تو وہ تیزی سے چلنے کے بجائے ہر قد م پر رک رک کرچلتا ہے ، وہ ہر قدم نہایت احتیاط سے رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے ۔اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے جانوروں کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔پانی کے نیچے کی مٹی نرم ہو یا سخت ، ان کا ہلکا پھلکا جسم بآسانی اس سے گزر جاتا ہے۔مگر ہاتھی غیر معمولی طور پر بڑا جانور ہے۔بھاری جسم کی وجہ سے اس کے لیے یہ خطرہ ہے کہ نیچے کی مٹی اگر نرم ہو اور ا س کا پائوں اس میں دھنس جائے تو اس کے لیے اس سے نکلنا سخت مشکل ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ہاتھی جب تک یہ نہ دیکھ لے کہ نیچے کی سطح مضبوط ہے وہ قدم آگے نہیں بڑھاتا۔ہر بار جب وہ قدم رکھتا ہے تو اس پر اپنا پورا بوجھ نہیں ڈالتا ۔وہ ہلکا قدم رکھ کر پہلے اس کی نرمی اور سختی کو آزماتا ہے ۔اور جب اندازہ کرلیتا ہے کہ زمین سخت ہے اسی وقت اس پر اپنا پورا بوجھ رکھ کر آگے بڑھتا ہے۔

یہ طریقہ ہاتھی کو کس نے سکھایا۔جواب یہ ہے کہ خدا نے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھی کے اس طریق عمل کو خدائی تصدیق حاصل ہے ۔گویا زندگی کے لیے خدا کا بتایا ہوا سبق یہ ہے کہ جب راستہ میں کسی خطرہ کا اندیشہ ہوتو اس طرح نہ چلا جائے جس طرح بے خطرراستہ پر چلا جاتا ہے بلکہ ہر قدم سنبھل سنبھل کر رکھا جائے ، ’’زمین‘‘ کی قوت کا اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔

انسان کو خدا نے ہاتھی سے زیادہ عقل دی ہے۔جہاں بارود کے ذخیرے ہوں وہاں آدمی دیاسلائی نہیں جلاتا۔جس ٹرین میں پٹرول کے ڈبے لگے ہوں،اس کا ڈرائیور بےاحتیاطی کے ساتھ اس کی شنٹنگ نہیں کرتا۔مگر اسی اصول کو اکثر لوگ سماجی زندگی میں بھول جاتے ہیں۔ہر سماج میں طرح طرح کے انسان ہوتے ہیں اور وہ طرح طرح کے حالات پیدا کیے رہتے ہیں۔سماج میں کہیں ’’دلدل‘‘ ہوتا ہے اور کہیں ’پٹرول‘‘۔کہیں ’’کانٹا‘‘ ہوتا ہے اور کہیں ’’گڑھا‘‘۔عقل مند وہ ہے جو اس قسم کے سماجی مواقع سے بچ کر نکل جائے نہ کہ اس سے الجھ کر اپنے راستہ کو کھوٹا کرے۔

جس آدمی کے سامنے کوئی مقصد ہو وہ راستہ کی ناخوش گواریوں سے کبھی نہیں الجھے گا۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان سے الجھنا اپنے آپ کو اپنے مقصد سے دور کرلینا ہے۔بامقصد آدمی کی توجہ آگے کی طرف ہوتی ہے نہ کہ دائیں بائیں کی طرف۔وہ مستقل نتائج پر نظر رکھتا ہے نہ کہ وقتی کارروائیوں پر۔وہ حقیقت کی نسبت سے چیزوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ذاتی خواہشات کی نسبت سے۔

 

قدرت کی مثال

شکاریات کے ایک ماہر نے لکھا ہے (ٹائمس آف انڈیا 21 مئی 1984)کہ شیراکثر اس وقت مردم خوربن جاتے ہیں جب کہ وہ اتنے بوڑھے ہوجائیں کہ وحشی جانوروں کو نہ پکڑ سکیں۔مگر دس میں سے 9 مردم خورشیروہ ہیںجن کو غلط شکاری زخمی کردیتے ہیں:

The big cats turn into man-eaters often when they are too old to hunt and trap wild animals. But nine times out of ten, they do so because a poacher has wounded them.

شیر اپنی فطرت کے اعتبار سے مردم خور نہیں۔مگر وہ تمام جانوروں میں سب سے زیادہ ’’دشمن خور‘‘ ہے۔شیر جس کو اپنا دشمن سمجھ لے اس کو وہ کسی حال میں نہیں بخشتا۔عام حالات میں شیرکسی انسان کو دیکھتا ہے تو وہ کتراکر نکل جاتا ہے۔لیکن ایسے شکاری جن کے پاس اچھے ہتھیار نہ ہوں اور اناڑی پن کے ساتھ شیرپر فائر کریں۔وہ اکثر اس کو مار نہیں پاتے بلکہ زخمی کرکے چھوڑ دیتے ہیں۔یہی وہ شیر ہیں جو مردم خوربن جاتے ہیں وہ ’’انسان‘‘ کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں اورجب بھی انسانی صورت میں کسی شخص کو دیکھ لیتے ہیں تو اس کو ختم کیے بغیر نہیں رہتے۔

یہ زندگی کا ایک قانون ہے۔وہ جس طرح شیر اور انسان کے لیے درست ہے اسی طرح وہ انسان اور انسان کے لیے بھی درست ہے۔ایک انسان کا معاملہ ہو یا ایک قوم کا معاملہ،دونوں حالتوں میں دنیا کا اصول یہی ہے۔جس دشمن کو آپ ہلاک نہیں کرسکتے اس کو زخمی بھی نہ کیجئے کیوں کہ زخمی دشمن آپ کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بڑادشمن ہوتا ہے۔

ایک شخص آپ کا دشمن ہو اور آپ کافی تیاری کے بغیر اس پر وار کریں تو یہ اپنی قبر خود اپنے ہاتھ سے کھودنا ہے۔اس قسم کے اقدام کے پیچھے بے صبری کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔جن لوگوںکے اندر یہ صلاحیت نہیں کہ وہ سوچ سمجھ کر منصوبہ بنائیں اور خاموش جدوجہد کے ذریعہ اپنے آپ کو مضبوط اقدام کے قابل بنائیں وہی وہ لوگ ہیںجو دشمن پر سطحی وار کرکے دشمن کو اور زیادہ اپنادشمن بنالیتے ہیں اور بعد کو شکایت اور احتجاج کا دفتر کھول دیتے ہیں۔حالانکہ اس دنیا میں نہ جھوٹے اقدام کی کوئی قیمت ہے اور نہ جھوٹی شکایتوں کی۔

 

زندگی کی قوت

گھر کے آنگن میں ایک بیل اگی ہوئی تھی۔مکان کی مرمت ہوئی تو وہ ملبہ کے نیچے دب گئی۔آنگن کی صفائی کراتے ہوئے مالک مکان نے بیل کو کٹوادیا۔دو ر تک کھو دکر اس کی جڑیں بھی نکلوادی گئیں اس کے بعد پورے صحن میں اینٹ بچھا کر اس کو سیمنٹ سے پختہ کردیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد بیل کی سابق جگہ کے پاس ایک نیا واقعہ ہوا۔پختہ اینٹیں ایک مقام پر ابھر آئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے دھکا دے کر انہیں اٹھادیا ہے۔کسی نے کہا کہ یہ چوہوں کی کارروائی ہے کسی نے کوئی اور قیاس قائم کرنے کی کوشش کی۔آخر کار اینٹیں ہٹائی گیں تو معلوم ہوا کہ بیل کا پودا اس کے نیچے مڑی ہوئی شکل میں موجود ہے ۔بیل کی کچھ جڑیں نیچے رہ گئی تھیں۔وہ بڑھ کر اینٹ تک پہنچیں اور اب اوپر آنے کے لیے زور کررہی تھیں۔

’’یہ پتیاں اور انکھوے جن کو ہاتھ سے مسلا جائے تو وہ آٹے کی طرح پس اٹھیں۔ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ اینٹ کے فرش کو توڑکر اوپر آجائیں۔‘‘مالک مکان نے کہا ’’ میں ان کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتا۔اگر یہ بیل مجھ سے دوبارہ زندگی کا حق مانگ رہی ہے تو میں اس کو زندگی کا حق دوں گا‘‘ چنانچہ انہوں نے چند اینٹیں نکلوا کر اس کے لیے جگہ بنادی۔ایک سال بعد ٹھیک اسی مقام پر تقریباً پندرہ فٹ اونچی بیل کھڑی ہوئی تھی جہاں اس کو ختم کرکے اس کے اوپر پختہ اینٹیں جوڑ دی گئی تھیں۔

پہاڑ اپنی ساری وسعت اور عظمت کے باوجود یہ طاقت نہیں رکھتا کہ کسی پتھر کے ٹکڑے کو ادھر سے ادھر کھسکادے۔مگر درخت کے ننھے پودے میں اتنا زور ہے کہ وہ پتھر کے فرش کو دھکیل کر باہر آجاتا ہے۔یہ طاقت اس کے اندر کہاں سے آئی۔اس کا سرچشمہ عالم فطرت کاوہ پراسرار مظہر ہے جس کو زندگی کہا جاتا ہے۔زندگی اس کائنات کاحیرت انگیز واقعہ ہے۔زندگی ایک ایسی طاقت ہے جس کو کوئی دبا نہیں سکتا۔اس کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔اس کو پھیلنے اور بڑھنے کے حق سے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔

زندگی ایک ایسی قوت ہے جو اس دنیا میں اپنا حق وصول کرکے رہتی ہے جب زندگی کی جڑیں تک کھوددی جاتی ہیں ، اس وقت بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتی ہے اور موقع پاتے ہی دوبارہ ظاہر ہوجاتی ہے ۔جب ظاہری طور پر دیکھنے والے یقین کرلیتے ہیں کہ اس کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔اس وقت بھی وہ عین اس مقام سے اپنا سرنکال لیتی ہے جہاں اسے توڑا اور مسلا گیا تھا۔

 

درخت

درخت کا ایک حصہ تنا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ اس کی جڑیں۔کہا جاتا ہے کہ درخت کا جتنا حصہ اوپر ہوتا ہے تقریباً اتنا ہی حصہ زمین کے نیچے جڑ کی صورت میں پھیلاہوا ہوتا ہے۔درخت اپنے وجود کے نصف حصہ کو سرسبز و شاداب حقیقت کے طورپر اس وقت کھڑا کرپاتا ہے جب کہ وہ اپنے وجود کے بقیہ نصف کو زمین کے نیچے دفن کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔درخت کا یہ نمونہ انسانی زندگی کے لیے خدا کا سبق ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی تعمیر اور استحکام کے لیے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے۔ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے:

Root Downward - fruit upward. That is the divine protocol. The rose comes to perfect combination of colour, line and aroma atop a tall stem. Its perfection is achieved, however, because first a root went down into the homely matrix of the common earth. Those who till the soil or garden understand the analogy. Our interests have so centred on gathering the fruit that it has been easy to forget the cultivation of the root. We cannot really prosper and have plenty without first rooting in a life of sharing. The horn of plenty does not stay full unless first there is rooting in sharing.

جڑنیچے کی طرف، پھل اوپر کی طرف۔یہ خدائی اصول ہے۔گلاب کا پھول رنگ اور خوشبو کا ایک معیاری مجموعہ ہے جو ایک تنا کے اوپر ظاہر ہوتا ہے۔مگر اس کا معیار اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ پہلے ایک جڑ نیچے مٹی کے اندر گئی۔وہ لوگ جو زمین میں کھیتی کرتے ہیں یا باغ لگاتے ہیں وہ اس اصول کو جانتے ہیں۔مگر ہم کو پھل حاصل کرنے سے اتنی زیادہ دل چسپی ہے کہ ہم جڑ جمانے کی بات آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ہم حقیقہً ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہم مشترک زندگی میں اپنی جڑیں داخل نہ کریں۔مکمل خوش حالی مشترک زندگی میں جڑیں قائم کیے بغیر ممکن نہیں۔

درخت زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔مگر وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں جماتا ہے۔وہ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔درخت گویا قدرت کا معلم ہے جو انسان کو یہ سبق دے رہا ہے:اس دنیامیں داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں۔

 

پانے سے پہلے

انگریزی کا مقولہ ہے کہ ہم دیتے ہیں تب ہی ہم پاتے ہیں:

In giving that we receive

دنیا کے بنانے والے نے دنیا کا یہ قانون مقرر کیا ہے کہ یہاں جودیتاہے وہی پاتا ہے جس کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو اس کے لیے پانا بھی اس دنیا میں مقدر نہیں۔

ہمارے چاروں طرف کی دنیا میں خدا نے اس اصول کو انتہائی کامل شکل میں قائم کررکھا ہے یہاں ہر چیز کو اگرچہ اپنے وجود کو قائم کرنے کے لیے دوسروں سے کچھ لینا پڑتا ہے ، مگر ہر چیز کا یہ حال ہے کہ وہ جتنا لیتی ہے اس سے زیادہ وہ دینے کی کوشش کرتی ہے۔

درخت کو لیجئے ۔درخت زمین سے پانی اور معدنیات لیتا ہے ۔وہ ہوا سے نائٹروجن لیتا ہے۔وہ سورج سے حرارت لیتا ہے اور اس طرح پوری کائنات سے اپنی غذا لیتے ہوئے اپنے وجود کو کمال کے درجہ تک پہنچاتا ہے۔مگراس کے بعد وہ کیا کرتا ہے۔اس کے بعد اس کا پورا وجود دوسروں کے لیے وقف ہوجاتا ہے۔وہ دوسروں کو سایہ دیتا ہے۔وہ دوسروں کو لکڑی دیتا ہے۔وہ دوسروں کو پھول اور پھل دیتا ہے۔وہ ساری عمر اسی طرح اپنے آپ کو دوسروں کے لیے وقف رکھتا ہے۔یہاں تک کہ ختم ہوجاتا ہے۔

یہی حال کائنات کی ہر چیز کا ہے۔ہر چیز دوسروں کو دینے اور دوسروں کو نفع پہنچانے میں مصروف ہے۔سورج ، دریا، پہاڑ، ہوا ہر چیز دوسروں کونفع پہنچانے میں لگی ہوئی ہیں۔کائنات کا دین نفع بخشی ہے نہ کہ حقوق طلبی۔

اس دنیا میں صرف ایک ہی مخلوق ہے جو دینے کے بجائے لینا چاہتی ہے۔اور وہ انسان ہے۔ انسان یک طرفہ طور پر دوسروں کو لوٹتا ہے، وہ دوسروں کو دیئے بغیر دوسروں سے لینا چاہتا ہے۔وہ نفع بخش بنے بغیر نفع خور بننا چاہتا ہے۔

انسان کی یہ روش خدا کی اسکیم کے خلاف ہے۔وہ کائنات کے عام مزاج سے ہٹی ہوئی ہے۔یہ تضاد ثابت کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے موجودہ دنیامیں کامیابی مقدر نہیں۔موجودہ دنیا میں کامیابی صرف ان لوگوں کو مل سکتی ہے جو وسیع تر کائنات سے اپنے کو ہم آہنگ کریں۔جو دینے والی دنیا میں خود بھی دینے والے بن کر رہیں، نہ کہ دینے والی دنیا میں صرف لینے والے۔

 

قدرت کا نظام

اگر آپ اپنا کمرہ بند کرکے باہر چلے جائیں اور چند مہینہ کے بعد واپس آکر اسے کھولیں تو ہر طرف اتنی گرد پڑی ہوئی ہوگی کہ جب تک آپ اسے صاف نہ کرلیں آپ اس کمرہ میں بیٹھنا پسند نہ کریں گے۔تیز ہوا کے ساتھ جب گرد اٹھتی ہے تو آدمی سخت پریشان ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ گردکی آفت اس سے دور ہوجائے۔

لیکن گرد کیا ہے۔یہ زمین کی اوپر ی سطح کی وہ زرخیزمٹی ہے جس سے ہر قسم کی سبزیاں ، پھل اور غلّے پیدا ہوتے ہیں۔اگر زمین کی سطح پر یہ مٹی نہ ہوتو زمین پر زندگی گزارنا آدمی کے لیے ناممکن ہوجائے۔

پھر یہی گرد ہے جو فضا میں کثافت پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے پانی کے بخارات بادل کی صورت اختیار کرتے ہیں اور بوند بوند کرکے زمین پر برستے ہیں۔زمین کی اوپری فضا میں گرد نہ ہو تو بارش کا عمل ختم ہوجائے۔

سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت جو رنگین شفق آسمان کے کناروں پر دکھائی دیتی ہے وہ بھی فضامیں اسی گرد کی موجودگی کی وجہ سے ہے۔گرد ہمارے لیے ایک مفید مادہ بھی ہے اور ہماری دنیا کو خوش منظر بنانے کا ذریعہ بھی۔

یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں کس طرح خدا نے ناخوشگوار چیزوں کے ساتھ خوش گوار چیزیں رکھ دی ہیں۔جس طرح پھول کے ساتھ کانٹا ہوتا ہے اسی طرح زندگی میں پسندیدہ چیزوں کے ساتھ ناپسندیدہ چیزوں کا جوڑا بھی لگا ہوا ہے۔

اب جب کہ خود قدرت نے پھول اور کانٹے کو ایک ساتھ پید اکیا ہے تو ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اس کے ساتھ نباہ کی صورت پیدا کریں۔موجودہ دنیا میں اس کے سوا کچھ اور ہونا ممکن نہیں۔

دوسروں کی شکایت کرنا صرف اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔یہ دنیا اس ڈھنگ پر بنائی گئی ہے کہ یہاں لازماً شکایت کے مواقع آئیں گے۔عقل مند آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ اس کو بھول جائے ۔وہ شکایت کو نظر انداز کرکے اپنے مقصد کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔

 

قدرت کا قانون

ہیری ایمرسن فاسڈک نے زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔۔کوئی بھاپ یا گیس اس وقت تک کسی چیز کو نہیں چلاتی جب تک کہ اس کو مقید نہ کیا جائے۔کوئی نیاگرا اس وقت تک روشنی اور طاقت میں تبدیل نہیں ہوتا جب تک اس کو سرنگ میں داخل نہ کیا جائے۔کوئی زندگی اس وقت تک ترقی نہیں کرتی جب تک اس کو رخ پر نہ لگایا جائے اور اس کو وقف نہ کیا جائے اس کو منظم نہ کیا جائے:

No steam or gas ever drives anything until it is confined. No Niagara is ever turned into light and power until it is tunnelled. No life ever grows until it is focused, dedicated, disciplined.

Harry Emerson Fosdick, Living Under Tension

قدرت کا ایک ہی قانون ہے جو زندہ چیزوں میں بھی رائج ہے اور غیر زندہ چیزوں میں بھی۔وہ یہ کہ ہر مطلوب چیز کو حاصل کرنے کی ایک قیمت ہے ، جب تک وہ قیمت ادا نہ کی جائے مطلو ب چیز حاصل نہیں ہوتی۔

یہاں ابھرنے کے لیے پہلے دبنا پڑتا ہے۔یہاں ترقی کے درجہ تک پہنچنے کے لیے بے ترقی پر راضی ہونا پڑتا ہے۔یہاں دوسروں کے اوپر غلبہ حاصل کرنے کے لیے دوسروں سے مغلوبیت کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔

ایک بات بظاہر سادہ سی ہے مگر انسان اپنی عملی زندگی میں اکثر اسے بھول جاتا ہے۔وہ یہ کہ ہم اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہیں بلکہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں ہیں۔جب صورت حال یہ ہے کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے تو ہمارے لیےاس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو جانیں او ر اس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں۔اس کے سوا کسی اور تدبیر سے یہاں ہم اپنے لیے جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔

جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان پر یہ مراحل نہ گزریں اور اس کے بغیروہ ترقی اور کامیابی کے مقام کو پالیں تو ان کو اپنی پسند کے مطابق دوسری دنیا بنانی پڑے گی ۔کیوں کہ خدا نے جو دنیا بنائی ہے اس میں تو ایسا ہوناممکن نہیں۔

 

استحکام

اللہ تعالیٰ نے اپنی دنیا میں ہر قسم کی عملی مثالیں قائم کردی ہیں۔مثلاً اس نے درختوں میں دو قسم کے درخت بنائے۔ایک بیل، اور دوسرے بڑے بڑے پھل دار درخت۔بیل مہینوں میں پھیلتی ہے او رپھر مہینوں ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔اس کے برعکس درخت سالوں میں تیار ہوتا ہے ۔اور پھر سالوں اور بعض اوقات صدیوں تک زمین پر قائم رہتا ہے۔اس طرح دو مختلف قسم کی مثالیں کھڑی کرکے خدا اپنی خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ ہم کیا طریقہ اختیار کریں اورکون سا طریقہ اختیار نہ کریں۔کون سا کامیابی کا راستہ ہے اور کون سا ناکامی کا راستہ۔

قوم کی تعمیر کے معاملہ میں ہم کو چاہیے کہ ہم بیل کی طرح نہ پھیلیں بلکہ درخت کی طرح بڑھنے کی کوشش کریں۔بیل کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ آناً فاناً بڑھتی ہے مگر چند ہی مہینوں میں سوکھ کر ختم ہوجاتی ہے۔ابتدا میں چاہے وہ ایک فرلانگ تک پھیلی ہوئی نظر آئے مگر آخر کار وہ قدموں کے نیچے بھی دکھائی نہیں دیتی۔

اس کے برعکس درخت کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ سالہا سال کے انتظار کے بعد تیار ہوتا ہے مگر اس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔وہ جتنا اوپر دکھائی دیتا ہے اتنا ہی زمین کے اندر چھپا ہوتا ہے۔وہ سطح زمین سے گزر کر اس کی گہرائیوں سے اپنے لیے غذا حاصل کرتا ہے ۔کوئی درخت جب ایک بار تیار ہوجاتا ہے تو پھر وہ سوسال تک لوگوں کو اپنا پھل اور اپنا سایہ دیتا رہتا ہے۔اس سے لوگوں کو صرف فائدہ ملتا ہے۔کسی اعتبار سے بھی وہ لوگوں کے لیے نقصان کا سبب نہیں بنتا۔وہ لوگوں کے لیے کسی قسم کا مسئلہ کھڑا نہیں کرتا۔

اسی طرح قوم کی تعمیر میں توسیع سے زیادہ استحکام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔استحکام کے بغیر توسیع ایسی ہی ہے جیسے بنیاد کے بغیر مکان کی تعمیر۔

جومعاملہ درخت کا ہے وہی انسانی زندگی کا بھی ہے۔اگر آپ ٹھوس اور دیرپا تعمیر چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو صبر آزما انتظار کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا۔اورلمبے عرصہ تک مسلسل محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر آپ بچوں کا گھروندا بنانا چاہتے ہوں تو پھر صبح و شام میں ایسا گھروندا بن کر تیار ہوسکتا ہے۔البتہ ایسی حالت میں آپ کو اس حادثہ کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے کہ جتنی دیر میں آپ کا گھروندا بن کر کھڑا ہوا ہے، اس سے بھی کم مدت میں وہ دوبارہ زمین بوس ہوجائے ۔

 

ٹوٹنے کے بعد

آپ لکڑی کو توڑیں تو وہ ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوجائے گی۔اس کا ٹوٹنا ہمیشہ کے لیے ٹوٹنا بن جائے گا۔لکڑی اپنے وجود کو دوبارہ پہلے کی طر ح ایک نہیں بنا سکتی۔مگر زندہ چیزوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔زندہ چیز ٹوٹنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ایک زندہ امیبا جب ٹوٹتا ہے تو وہ دو زندہ امیبا بن جاتا ہے۔

ہماری دنیا میں اس طرح کے واقعات خدا کی عظیم نشانی ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ایک زندہ انسان کے لیے خدا نے اس دنیا میں کتنا بڑا امکان چھپا رکھا ہے۔یہ امکان کہ اس کی کوئی بھی شکست آخری شکست نہ بنے۔کوئی بھی حادثہ اس کو آخری طور پر ختم نہ کرنے پائے۔ایک زندہ چیز یا ایک زندہ انسان کو کبھی توڑا نہیں جاسکتا۔زندہ چیز اگر ٹوٹتی ہے تو اس کا ہر حصہ ایک نئے زندہ وجود کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔اور نتیجتاًپہلے سےبھی زیادہ عظیم بن جاتا ہے۔

انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ ناکامی اس کو فکری گہرائی عطا کرتی ہے ۔رکاوٹیں اس کے ذہن کے بند دروازے کو کھولتی ہیں۔حالات اگر اس کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں تو اس کا ہر ٹکڑا دوبارہ نئی زندگی حاصل کرلیتا ہے۔

اس امکان نے اس دنیا میں کسی انسان کو ابدی طور پر ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔شرط یہ ہے کہ وہ زندہ ہو۔وہ ٹوٹنے کے بعد دوبارہ اپنی قوتوں کو متحدکرنا جانتا ہو۔بازی کھونے کے بعد وہ اپنا حوصلہ نہ کھوئے۔ایک کشتی ٹوٹنے کے بعد وہ دوبارہ نئی کشتی کے ذریعہ اپنا سفر شروع کرسکے۔

 

دنیا کا قانون

گائے دودھ دیتی ہے ۔یہ ہر آدمی جانتا ہے ۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہوں کہ گائے کیسے دودھ دیتی ہے۔گائے دودھ جیسی چیز دینے کے قابل صرف اس وقت بنتی ہے جب کہ وہ گھاس کو دودھ میں کنورٹ (تبدیل) کرسکے۔گائے جب اس انوکھی صلاحیت کا ثبوت دیتی ہے کہ وہ کم تر چیز کو اعلیٰ چیز میں تبدیل کرسکتی ہے ، اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ خدا کی دنیا میں دودھ جیسی قیمتی چیز فراہم کرنے والی بنے۔

یہی حال درخت کا ہے۔درخت سے آدمی کو دانہ اور سبزی اور پھل ملتا ہے۔مگر ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ درخت اس صلاحیت کا ثبوت دے کہ اس کے اندر مٹی اور پانی ڈالا جائے اور اس کو وہ تبدیل کرکے دانہ او رسبزی اور پھل کی صورت میں ظاہر کرے درخت کے اندر ایک کمتر چیز داخل ہوتی ہے او ر اس کو وہ اپنے اندرونی میکانزم کے ذریعہ تبدیل کردیتا ہے اور ا سکو برتر چیز کی صورت میں باہر لاتا ہے۔

یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔زندگی بھی اسی قسم کا امتحان ہے۔موجودہ دنیا میں انسان کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کو محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے۔اس کو ناخوش گوار حالات پیش آتے ہیں۔ یہاں دوبارہ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کرسکے۔ وہ اپنی ناکامیوں کے اندر سے کامیابی کا راستہ نکال لے۔

یہی دنیا کا قانون ہے ۔انسان کے لیے بھی اور غیر انسان کے لیے بھی۔جو کوئی اس خاص صلاحیت کو ثبوت دے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہے، او رجو اس صلاحیت کا ثبوت دینے میں ناکام رہے وہ خدا کی اس دنیا میں اپنے آپ کو ناکامی سے بھی نہیں بچا سکتا۔

خدا کی گائے گویا خدا کی مرضی کا اعلان ہے۔وہ بتاتی ہے کہ اس دنیا میں خدا کو ہم سے کیا مطلوب ہے۔خدا کو ہم سے یہ مطلوب ہے کہ ہمارے اندر ’’گھاس‘‘ داخل ہو اور وہ ’’دودھ‘‘ بن کر باہر نکلے۔ لوگ ہمارے ساتھ برائی کریں تب بھی ہم ان کے ساتھ بھلائی کریں۔ہمارے ساتھ ناموافق حالات پیش آئیں تب بھی ہم ان کو موافق حالات میں تبدیل کرسکیں۔

 

بچاو کا انتظام

الور میں ایک مدرسہ ہے جو شہر کے کنارے واقع ہے۔مدرسہ کے ایک طرف شہر کی عمارتیں ہیں اور دوسری طرف کھیت شروع ہوجاتے ہیں۔ایک بار مجھ کو اس مدرسہ میں چند دن گزارنے کا اتفاق ہوا۔شام کو عصر کی نماز کے بعد میں مدرسہ سے نکلا اور کھیتوں کی طرف ٹہلنے چلا گیا۔کچھ دو ر آگے بڑھا تو ایک جگہ بہت سے کتے نظر پڑے۔وہ مجھ کو دیکھ کر زور زور سے بھونکنے لگےاور میری طرف لپکے۔مجھ کو پتھر پھینک کر انہیں بھگانا پڑا۔مغر ب کے قریب میں ٹہل کر واپس ہواتو میں نے مدرسہ کے ناظم مولانا مفتی جمال الدین قاسمی سے اس کا ذکر کیا۔وہ مسکرائے انہوںنے کہا کل ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔پھر آپ دیکھئے گا کہ کوئی کتا نہیں بھونکے گا۔اگلے دن عصر کی نماز کے بعد جب میں ٹہلنے کیلیے نکلا تو مفتی صاحب بھی میرے ساتھ ہوگئے۔انہوںنے اپنے ہاتھ میں ایک لمبی لاٹھی لے لی جو دور سے دکھائی دیتی تھی۔ہم لوگ چلتے ہوئے اس مقام پر پہنچے جہاں پچھلے روز مجھے کتوں کا غول ملاتھا، میں نے دیکھا تو اب بھی کتے وہاں موجود تھے۔مگر آج کوئی کتا ہماری طرف نہیں لپکا او رنہ کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ہم سکون کے ساتھ اس مقام سے گزرگئے اور کتے ہماری طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنے مشغلوں میں لگے رہے۔واپس ہوتے ہوئے ہم دوبارہ اس مقام سے گزرے۔اب بھی کتے وہاں موجود تھے۔مگر انہوں نے ہماری طرف کوئی توجہ نہ دی۔ہم کسی مزاحمت کے بغیر اپنی منزل پر واپس آگئے۔

’’یہ لاٹھی کی برکت تھی‘‘ مفتی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ کل آپ لاٹھی کے بغیر تھے تو کتوں کو ہمت ہوئی وہ بھونکتے ہوئے آپ کی طرف دوڑپڑے۔آج ہمارے ساتھ لمبی لاٹھی تھی تو کتے ا سکو دیکھ کر سمجھ گئے کہ ہم بے زور نہیں ہیں بلکہ ان کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس مضبوط ہتھیار موجود ہے۔اس چیز نے کتوں کو ہمارے اوپر اقدام کرنے سے بے ہمت کردیا۔’’کتا ہمیشہ اس وقت آپ کی طرف دوڑے گا جب وہ آپ کو کمزور محسوس کرے۔اگر وہ دیکھے کہ آپ کے پاس طاقت ہے تو وہ آپ کی طرف رخ نہیں کرے گا۔‘‘

انسانوں میں بھی کچھ لوگ اسی قسم کے مزاج والے ہوتے ہیں۔وہ اس شخص سے ٹھیک رہتے ہیں جو اپنے ہاتھ میں ’’ایک لاٹھی‘‘ لیے ہوئے ہو۔ایسے شخص سے سامنا ہو تو وہ کترا کر الگ ہو جاتے ہیں۔البتہ جب وہ کسی کو دیکھتے ہیں کہ وہ لاٹھی کے بغیر ہے تو ا سکے لیے وہ شیر ہوجاتے ہیں۔وہ طاقت ورکے لیے بزدل ہوتے ہیں او رکمزور کے لیے بہادر ۔یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ آدمی سماج کے ایسے افراد کے لیے ’’لاٹھی‘‘ کا انتظام بھی رکھے۔

اصولی اور عمومی طور پر وہ پرامن ہو۔وہ لوگوں کے ساتھ تواضع اور نرمی کا رویہ اختیار کرے۔مگر اسی کے ساتھ کم ازکم دکھانے کی حد تک وہ اپنے آس پاس ’’لاٹھی‘‘ بھی کھڑی رکھے تاکہ اس قسم کے لوگوں کو اس کے اوپر حملہ کی جرأت نہ ہوسکے۔ٹھیک ویسے ہی جیسے قدرت ایک شاخ پر نرم و نازک پھول کھلاتی ہے تو اسی کے ساتھ وہ شاخ کے چاروں طرف کانٹے بھی اگادیتی ہے۔

کردار

 

بدعنوانی

بمبئی میں ایک کئی منزلہ عمارت بنائی گئی۔اس کا نام ’’آکاش دیپ‘‘ رکھا گیا۔مگر جب وہ بن کر تیار ہوئی تو اچانک گر پڑی۔بتایا جاتا ہے کہ گرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی تعمیر میں سیمنٹ کا جز ء، مقررہ مقدار سے کم استعمال کیا گیا تھا۔

ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے اس سلسلے میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا:

RCC construction is a scientific process which is excellent in the hands of qualified and experienced people, but dangerous if managed by incompetent engineers and contractors.

آرسی سی تعمیر ایک سائنسی طریقہ ہے جو بہت عمدہ ہے جب کہ و ہ لائق اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہو مگر وہ اس وقت خطرناک ہوجاتا ہے جب اس کو استعمال کرنے والے نااہل انجینئر اور ٹھیکہ دار ہوں۔)ٹائمس آف انڈیا 4 ستمبر 1983(

بظاہر یہ ایک صحیح اور خوب صورت بات معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک مغالطہ چھپا ہوا ہے۔یہ مغالطہ اس وقت کھل جاتا ہے جب کہ ہم نااہل (Incompetent)کی جگہ بدعنوان(Corrupt) کا لفظ رکھ دیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کے مسائل لوگوں کی حرص اور بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیںنہ کہ فنی عدم مہارت کی وجہ سے۔

بھاکڑا ڈیم ہندوستان کا اعلیٰ ترین سرکاری منصوبہ تھا۔اس کی تعمیر میں ملک کے بہترین انجینئر لگا ئے گئے۔مگر جب وہ بن کر تیار ہوا تو اس کی دیوار میں شگاف ہوگیا جس کی تعمیر میں دوبارہ کروڑوں روپیہ لگانا پڑا۔ اس قسم کے واقعات ہر روز ہمارے ملک میں ہورہے ہیں۔یہ سب کام ہمیشہ فنی ماہرین کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ حال ہے کہ سڑکیں بننے کے بعد جلد ہی خراب ہوجاتی ہیں۔عمارتیں تیار ہونے کے ساتھ ہی قابل مرمت ہوجاتی ہیں۔منصوبے تکمیل کو پہنچ کر غیر مکمل نظر آنے لگتے ہیں۔اس قسم کے تمام واقعات کی وجہ بدعنوانی ہے نہ کہ فنی مہارت کی کمی۔

بدعنوانی ایک نفسیاتی خرابی ہے اور فنی مہارت میں کمی ایک ٹیکنیکل خرابی۔نفسیاتی خرابی کو ٹیکنیکل اصلاح کے ذریعہ دور نہیں کیا جاسکتا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں واقعتا ایک بہتر سماج بنے تو افراد قوم کی نفسیاتی اصلاح کرنی ہوگی۔صر ف ٹیکنیکل کورس میں اضافہ سے یہ مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔

 

قومی کردار

1965 کا واقعہ ہے۔ہندوستان کے ایک صنعت کار مغربی جرمنی گئے۔وہاں ان کو ایک کارخانہ میں جانے کا موقع ملا۔وہ ادھر ادھر گھوم کرکارخانہ کی کارکردگی دیکھتے رہے۔اس درمیان میں وہ ایک کاریگر کے پاس کھڑے ہوگئے اور اس سے کچھ سوالات کرنے لگے۔باربار خطاب کرنے کے باوجود کاریگر نے کوئی توجہ نہیں دی ۔وہ بدستور اپنے کام میںلگا رہا۔

کچھ دیر کے بعد کھانے کے وقفہ کی گھنٹی بجی۔اب کاریگر اپنی مشینوں سے اٹھ کر کھانے کے ہال کی طرف جانے لگے۔اس وقت مذکورہ کاریگر ہندوستانی صنعت کار کے پاس آیا۔ا س نے صنعت کار سے ہاتھ ملایا اور اس کے بعد تعجب کے ساتھ کہاکیا آپ اپنے ملک کے کاریگروں سے کام کے وقت بھی باتیں کرتے ہیں۔اگر اس وقت میں آپ کی باتوں کاجواب دیتا تو کام کے چند منٹ ضائع ہوجاتے اور کمپنی کانقصان ہوجاتا ۔جس کا مطلب پوری قوم کا نقصان تھا۔ہم یہاں اپنے ملک کو فائدہ پہنچانے آتے ہیں، ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں آتے۔

یہی وہ کردار ہے جو مغربی قوموں کی ترقی کا راز ہے ۔1945 میں اتحادی طاقتوں (الائڈ پاورز) نے جرمنی کو بالکل تباہ کردیا تھا۔مگر صرف 25 سال بعد جرمنی دوبارہ پہلے سے زیادہ طاقت ور بن چکا ہے اور اس کی ترقی کا راز یہی ہے کہ وہاں کا ہر فرد اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی کو بخوبی طور پر انجام دے۔وہ اپنی ذات کو اپنی قوم کے تابع سمجھتا ہے۔ہر آدمی اپنی ذات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے۔مگر قومی مفاد کی قیمت پر نہیں بلکہ ذاتی جدوجہد کی قیمت پر ۔جہاں ذات اور قوم کے مفاد میں ٹکرائو ہو، وہاں وہ قوم کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے، اور اپنی ذاتی خواہش کو دبالیتا ہے۔

قوم کی حالت کا انحصارہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے او رفرد کے بگڑنے سے قوم بگڑ جاتی ہے۔قوم کا معاملہ وہی ہے جو مشین کا معاملہ ہوتا ہے۔مشین اسی وقت صحیح کام کرتی ہے جب کہ اس کے پرزے صحیح ہوں۔اسی طرح قوم اس وقت درست رہتی ہے جب کہ اس کے افراد اپنی جگہ پر درست کام کررہے ہوں۔مشین بنانا یہ ہے کہ پرزے بنائے جائیں۔اسی طرح قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔فرد کی اصلاح کے بغیر قوم کی اصلاح اسی طرح ناممکن ہے جس طرح پرزے تیار کئے بغیر مشین کھڑی کرنا۔

 

طاقت کاراز

عالمی سطح کے کھلاڑی اکثر یکساں جسمانی قوت کے مالک ہوتے ہیں۔ان کو تربیت بھی یکساں معیار کی ملتی ہے پھر ان میں ہار جیت کا سبب کیا ہوتا ہے ۔جو شخص جیتتا ہے وہ کیوں جیتتا ہے او رجو ہارتا ہے وہ کس بنا پر ہارتا ہے۔یہ سوال پچھلے تین سال سے امریکہ کے سائنس دانوں کی ایک جماعت کے لیے تحقیق کا موضوع بناہوا تھا، اب انہوںنے تین سال کے بعد اپنی تحقیق کے نتائج شائع کیے ہیں۔

ان سائنس دانوں نے عالمی سطح کے بہترین کشتی لڑنے والوں (Wrestlers) پر تجربات کئے۔ انہوںنے ان کی عضلاتی طاقت اور ان کی نفسیات کا بغور مشاہدہ کیا۔انہوںنے پایا کہ عالمی مقابلوں میں جیتنے والے پہلوانوں اور ہارنے والے پہلوانوں میں ایک خاص فرق ہوتا ہے ۔مگر یہ فرق جسمانی نہیں بلکہ تمام تر نفسیاتی ہے۔یہ دراصل پہلوان کی ذہنی حالت (State of mind) ہے جو اس کے لیے ہا ریا جیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ماہرین نے پایا کہ ہارنے والے کے مقابلہ میں جیتنے والا زیادہ بااصول اور قابو یافتہ شخص (Conscientious and in Control)  ہوتا ہے۔ان کی رپورٹ کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

Losers tended to be more depressed and confused before competing, while the winners were positive and relaxed.

تجربہ میں پایا گیا کہ ہارنے والے کھلاڑی مقابلہ سے پہلے ہی بددل اور پریشان تھے ، جب کہ جیتنے والے پر اعتماد اور مطمئن تھے۔(ٹائمس آف انڈیا 26 جولائی 1981)

یہی بات زندگی کے وسیع تر مقابلہ کے لیے بھی درست ہے۔زندگی کے میدان میں جب دو آدمیوں یا دو گروہوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو کامیاب ہونے یا نہ ہونے میں اصل فیصلہ کن چیز یہ نہیں ہوتی کہ کس کے پاس مادی طاقت یا ظاہری سازوسامان زیادہ ہے او رکس کے پاس کم۔بلکہ اصل فیصلہ کن چیز قلب اور دماغ کی حالت ہوتی ہے۔جس کے اندر قلبی اور ذہنی اوصاف زیادہ ہوتے ہیں وہ کامیاب ہوتا ہے اور جس کے اندر یہ اوصاف کم ہوتے ہیںوہی ناکام ہوجاتا ہے خواہ اس کے پاس ظاہری اسباب کی کثرت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

مقصد کی صحت کا یقین ، تضاد فکری سے خالی ہونا ،نظم و ضبط کو کبھی نہ چھوڑنا، ہیجان خیز لمحات میںبھی ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ، جذبات پر پوری طرح قابو رکھنا ،ہمیشہ سوچے سمجھے اقدام کے تحت عمل کرنا، یہ تمام قلب و دماغ سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں او ریہی وہ چیزیں ہیں جو زندگی کے معرکہ میں ہمیشہ فیصلہ کن ہوتی ہیں۔

 

تعمیری مزاج

ڈاکٹر عبدالجلیل صاحب (نئی دہلی) 1970 میں جاپان گئے تھے اور وہاں چھ مہینے تک رہے۔ انہوںنے 14 اکتوبر 1984کی ایک ملاقات میں بتایا کہ میں ٹوکیو میں مقیم تھا اور اپنے کام کے تحت ٹوکیو سے ایک مقام پر جایا کرتا تھا۔یہ سفر ٹرین سے پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا۔

انہوںنے بتایا کہ ایک روز وہ ٹوکیو سے ٹرین پر سوا ر ہوئے۔پندرہ منٹ گزرگئے مگر ان کا مطلوبہ اسٹیشن نہیں آیا۔ایک اسٹیشن پر ٹرین رکی مگر انہوں نے بورڈ دیکھا تو یہ کوئی دوسرا اسٹیشن تھا۔اب تشویش ہوئی ۔ان کو خیال ہوا کہ غالباً وہ کسی غلط ٹرین پر سوار ہوگئے ہیں۔ڈبہ میں ان کے قریب ایک جاپانی نوجوان کھڑاہوا تھا۔مگر زبان کی مشکل تھی۔کیوں کہ ڈاکٹر صاحب جاپانی زبان نہیں جانتے تھے اور وہ شخص انگریزی زبان سے ناواقف تھا۔انہوں نے یہ کیا کہ ایک کاغذ پر اپنے مطلوبہ اسٹیشن کا نام لکھا اور جاپانی نوجوان کو اسے دکھایا۔

ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس درمیان میں ٹرین چل چکی تھی مگر ابھی اس نے پلیٹ فارم نہیں چھوڑا تھا ۔نوجوان نے ڈاکٹر صاحب کا کارڈ دیکھتے ہی فوراً زنجیر کھینچی۔ٹرین رکی تو وہ ڈاکٹر صاحب کو لے کر نیچے اترا ۔اب وہ ان کے ساتھ چلنے لگا۔اس کے بعد اس نے ان کو مخالف سمت سے آنے والی دوسری ٹرین پر بٹھایا اورخود بھی ان کے ساتھ بیٹھا۔ٹرین دونوں کو لے کر روانہ ہوئی۔چند منٹ میں ڈاکٹر صاحب کا مطلوبہ اسٹیشن آگیا۔اب نوجوان ان کو لے کر اترا اور یہاں چھوڑ کر دوسری ٹرین سے وہاں کے لیے روانہ ہوگیا جہاںاس کو جانا تھا۔اس دوران دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب جاپانی زبان نہیں جانتے تھے اور جاپانی نوجوان انگریزی زبان سے ناواقف تھا۔

اسی طرح مثلاً انہوں نے بتایا کہ میں کسی سڑک پر تھا۔میں نے دیکھا کہ دو جاپانیوں کی کار آمنے سامنے سے آتے ہوئے ٹکرا گئی، دونوں اپنی گاڑی سے اترے اور ایک دوسرے کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوگئے۔ایک نے کہا کہ غلطی میری ہے ، مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔دوسرے نے کہا غلطی میری ہے مجھے معاف کردو۔

اسی کا نام تعمیری مزاج ہے ، اور یہی تعمیری مزاج قوموں کی ترقی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔اس کے برعکس جس قوم کے افراد کا یہ حال ہو کہ وہ صرف اپنے کو جانیں اور دوسرے کو نہ جانیں وہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔

 

اخلاق کی طاقت

خوش اخلاقی کی دوقسمیں ہیں۔ایک یہ کہ جس سے آپ کا کوئی تعلق ہو یا جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہو اس کے ساتھ خوش اخلاقی برتنا۔دوسرے یہ کہ خوش اخلاقی کو اپنی عام عادت بنا لینا اور ہر ایک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا ، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔خوش اخلاقی کی پہلی قسم سے بھی آدمی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ملتا ہے۔مگر خوش اخلاقی کی دوسری قسم کے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔

مسٹراجوانی 1965 میں کلکتہ کی ایک بڑی دواساز فرم میں سیلز مین مقرر ہوئے۔ان سے پہلے جو شخص ان کی جگہ پر کام کررہاتھا اس کو 12 سوروپے تنخواہ اور آمدورفت کے لیے ریلوے کا کرایہ ملتا تھا۔اجوانی نے کہا کہ میں تین ہزار روپے مہینہ لوں گا اور ہوائی جہاز سے سفر کروں گا۔کارخانہ کے ڈائریکٹر نے کہا یہ تو بہت زیادہ ہے۔انہوںنے کہا میں کام بھی بہت زیادہ دوں گا۔آپ ایک بار تجربہ کرکے دیکھئے۔بالآخر ان کا تقرر ہوگیا اورگجرات کا علاقہ ان کے سپرد ہوا۔

اس زمانہ میں گجرات میں ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جس کی پریکٹس بہت کامیاب تھی اور اس کے یہاں دوائوں کی کھپت بہت زیادہ تھی۔مگر وہ کسی مرد ایجنٹ سے نہیں ملتی تھی ۔ا ک دوا ساز ادارہ کاایجنٹ ایک بار اس کے یہاں آیا۔باتوں کے دوران اس نے بتایا کہ میں پامسٹری جانتاہوں اور ہاتھ بھی دیکھتا ہوں۔لیڈی ڈاکٹر نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کردیا۔ایجنٹ نے دیکھ کر کہا کہ آپ کے ہاتھ کی ریکھائیں بہت اچھی ہیں۔یہ کہتے ہوئے اس نے اس کا ہاتھ چوم لیا۔اس واقعہ کے بعد لیڈی ڈاکٹر کو مرد ایجنٹوں سے نفرت ہوگئی اور اس نے اپنے دواخانہ میں مرد ایجنٹوں کا داخلہ بالکل بند کردیا۔

مسٹرا جوانی اپنے تجارتی سفر پر مذکورہ شہر کے لیے روانہ ہوئے تو کمپنی کے ڈائریکٹر سے لیڈی ڈاکٹر کا ذکر آیا۔ مسٹراجوانی نے کہا کہ میں اس سے بھی آرڈر لوں گا۔ڈائریکٹر نے اس کو ان کی سادگی پر محمول کیا۔اس نے کہا کہ اس سے آرڈر لینا بالکل ناممکن ہے۔لیڈی ڈاکٹر اس بارے میں اتنا زیادہ مشہور ہوچکی تھی کہ لوگوں نے اس کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا تھا۔

مسٹر اجوانی اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ہوائی جہاز میں ان کی سیٹ سے ملی ہوئی سیٹ پر ایک بوڑھی خاتون تھیں۔ راستہ میں ایسا ہو اکہ بوڑھی خاتون کو کھانسی اٹھی اور کف آنے لگا۔بوڑھی خاتون پریشان ہوئی۔مسٹر اجوانی کو اپنی عام اخلاقی عادت کے مطابق اس خاتون سے ہمدردی پیدا ہوئی اور انہوں نے فوراً اپنا رومال اس کے منھ کے سامنے کردیا۔ اس کا کف اپنے رومال پر لے لیا اور پھر غسل خانہ میںجاکر اسے دھولیا۔خاتون اس واقعہ سے بہت متاثر ہوئی۔اس خاتون کوبھی وہیںجانا تھا جہاں مسٹر اجوانی جارہے تھے۔ہوائی جہاز جب وہاںپہنچا او ر بوڑھی خاتون باہر آئی تو وہ یہ دیکھ کر پریشان ہوئی کہ اس کولینے کوئی ہوائی اڈہ پر نہیں آیاہے۔یہ خاتون کسی بڑے گھر سے تعلق رکھتی تھی اور اس کو لینے کے لیے کار آنا چاہیے تھی۔مگر اس کی آمد کی صحیح اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے اس کے گھر سے کار نہ آسکی۔مسٹر اجوانی نے یہاں دوبارہ اس کی مدد کی۔انہوں نے کہا کہ میں ہوٹل جانے کے لیے ٹیکسی کررہا ہوں۔آپ اس پر بیٹھ جائیں۔میں پہلے آپ کو آپ کے گھر اتار دوں گا ۔اس کے بعد اپنے ہوٹل پر جائوں گا۔چنانچہ انہوںنے بوڑھی خاتون کو اپنی ٹیکسی پر بٹھایا اور اس کولے کراس کے گھر پہنچے۔خاتون نے اپنے گھر پہنچ کر ان کا نام اور پتہ پوچھا۔انہوںنے اپنا نام اور ہوٹل کا پتہ لکھ کر دے دیا اور پھر اپنے ہوٹل آگئے۔

کچھ دیر کے بعد خاتون کی لڑکی اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچی تو دیکھا کہ اس کی ماں آئی ہوئی ہے۔اس نے کہا کہ ہم کو آپ کی آمد کی خبر نہ تھی اس لیے گاڑی ہوائی اڈہ پر نہ جاسکی۔آپ کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ماںنے کہا کہ نہیںمجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور اس کے بعد اس نے مسٹر اجوانی کی پوری کہانی سنائی۔یہ سن کر لڑکی بہت متاثر ہوئی ۔ اس نے فوراً مذکورہ ہوٹل کو ٹیلی فون کرکے مسٹر اجوانی سے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ ہم آپ کے بہت مشکور ہیں اور رات کا کھانا آپ ہمارے یہاں کھائیں۔مسٹر اجوانی مقررہ پروگرام کے مطابق خاتون کے مکان پر پہنچ گئے۔جب لوگ کھانے کی میز پر بیٹھے اور تعارف ہو اتو معلوم ہوا کہ بوڑھی خاتون کی لڑکی وہی لیڈی ڈاکٹر ہے جس کو مرد ایجنٹوں سے نفرت تھی اور وہ مرد ایجنٹوں سے ملاقات کی روادار نہ تھی۔جب اس کو معلوم ہوا کہ مسٹر اجوانی دواساز کمپنی کے سیلز مین ہیں تواسی وقت اس نے خود اپنی طرف سے دوائوں کا ایک بڑا آرڈر لکھوادیا۔اور کہا کہ ہمارے یہاں دوائوں کی کھپت بہت ہے۔آپ تو ہم کو مستقل گاہک سمجھ لیجئے اور ہر مہینہ دوائیں بھیجتے رہیے۔

مسٹر اجوانی کھانے اور ملاقات سے فارغ ہو کر ہوٹل واپس آئے اور اسی وقت کلکتہ میں اپنے ڈائریکٹر کو ٹرنک کال کیا۔انہوںنے اپنے ڈائریکٹر کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مذکورہ لیڈی ڈاکٹر سے میں نے اتنے ہزار کا آرڈر حاصل کرلیاہے۔ ڈائریکٹر نے فوراً کہا کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ایسا تو کبھی ہونہیں سکتا۔تاہم اگلی ڈاک سے جب ڈائریکٹر کے پاس مذکورہ لیڈی ڈاکٹر کا چیک اور اس کا دستخط شدہ آرڈر پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ واقعہ بالفعل پیش آچکا ہے جس کو وہ اب تک ناممکن سمجھے ہوئے تھا۔

21 نومبر 1980 کی ملاقات میں میں نے مسٹر اجوانی سے پوچھا کہ آپ کو تجارت کا بہت تجربہ ہے۔یہ بتائیے کہ تجارت میں کامیابی کا راز کیا ہے ۔انہوں نے جواب دیا میٹھی زبان، اچھا سلوک۔میں نے کہا ہاں، اور اس وقت بھی جب کہ بظاہر اس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔میٹھی زبان اور اچھا سلوک ہر حال میں مفید ہے، لیکن اگر وہ آدمی کا عام اخلاق بن جائے تو اس کے فائدوںکا کوئی ٹھکانہ نہیں۔

 

تعمیر خویش

اللہ تعالیٰ نے لکڑی پیدا کی مگراس نے کشتی نہیں بنائی۔اس نے لوہا زمین میں رکھ دیا مگر اس نے لوہے کو مشین کی شکل میں نہیں ڈھالا۔اس نے المونیم اور پلاسٹک پیدا کیا مگر ان کو جہاز کی صورت میں تشکیل دینے کا کام چھوڑدیا۔اس کی وجہ کیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسراکام اللہ تعالیٰ انسان سے لینا چاہتا ہے۔اللہ نے ایک طرف ہر قسم کے خام مواد پیدا کیے۔اور دوسری طرف انسان کو عقل کی صلاحیت عطا فرمائی۔اب اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ انسان زمین سے خام مواد لے کر اس کومشین کی صورت دے۔وہ بغیر گھڑے ہوئے مادہ کو گھڑے ہوئے مادہ میں تبدیل کرے۔

یہ فطرت کی قوتوں کو تمدن میں ڈھالنے کی مثال ہے۔ٹھیک یہی معاملہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہترین شخصیت عطا فرمائی۔فطرت کی سطح پر اس کو اعلیٰ ترین وجود عطا فرمایا۔تاہم یہ انسانی شخصیت اپنی ابتدائی صورت میں ایک قسم کا خام مواد ہے۔اب یہ کام خود انسان کو کرنا ہے کہ وہ خداکے دیے ہوئے اس ابتدائی وجود کی تشکیل نو کرے۔وہ فطرت کے سادہ ورق پر اپنا کلام تحریر کرے۔یہی انسان کا امتحان ہے۔اسی معاملہ میں کامیابی یا ناکامی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے شعور کو معرفت میں ڈھالے۔اپنے احساسات کو ذکر الٰہی میں تبدیل کرے۔وہ اپنے عمل کو ربانی کردار کی صورت میں ظاہر کرے۔وہ اپنی شخصیت کو آخری حد تک خدا کا بندہ بنادے۔

ایک انسان وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔دوسرا انسان وہ ہے جس کو ہر شخص اپنے آپ بناتا ہے۔آدمی اپنی ماں کے پیٹ سے گویائی لے کر پیدا ہوتا ہے۔اب کوئی انسان اپنی گویائی کو حق کے اعتراف کی طرف لے جاتا ہے اور کوئی حق کے انکار کی طرف۔آدمی اپنی ماں کے پیٹ سے اعلیٰ صلاحیت لے کر موجودہ دنیا میں آتا ہے۔اب کوئی شخص اس صلاحیت کو فوری فائدے کے حصول میں لگاتا ہے اور کوئی اس کو اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کردیتا ہے۔ہر آدمی فطرت کی ایک زمین ہے۔کوئی اپنی زمین پر کانٹے اگاتا ہے او ر کوئی ہے جو اپنی زمین پر پھولوں کا باغ بنادیتا ہے ۔کوئی اپنے آپ کو جنت کا باشندہ بناتا ہے اور کوئی جہنم کا باشندہ۔

 

یہ خوش اخلاقی

خوش اخلاقی کی سب سے زیادہ عام قسم وہ ہے جو بداخلاقی کی بدترین قسم ہے۔اس کی ایک صورت وہ ہے جس کو تاجرانہ اخلاق کہا جاسکتا ہے۔ایک کامیاب دکاندار اپنے ہر گاہک سے انتہائی خوش اخلاقی کا معاملہ کرتا ہے۔مگر اس خوش اخلاقی کے پیچھے ذاتی مفاد کے سوااور کچھ نہیں ہوتا۔دکان پر آنے والا گاہک اگر اپنا لبادہ اتار کر چندہ مانگنے والا آدمی بن جائے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ دکاندار کی خوش اخلاقی کی حقیقت کیا تھی۔

خوش اخلاقی کی ایک قسم وہ ہے جس کو ’’تہذیب‘‘ کہا جاسکتا ہے ۔یہ قسم خاص طو ر پر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان رائج ہے۔یہ لوگ جب باہم ملیں گے تو وہ نہایت ترشے ہوئے الفاظ میں بات کریں گے۔ایک بے معنی رائے کو بھی خوبصورت علمی الفاظ میں بیان کریں گے۔آتشیں موضوعات پر بھی وہ اس طرح بولیں گے جیسے کہ وہ برف کے موضوع پر بول رہے ہیں۔اپنے مخالف سے بات کرتے ہوئے ایسا رویہ اختیارکریں گے جیسے ان کا اختلاف سراسر علمی اختلاف ہے۔اس کو ذاتی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ ان سب کی حقیقت مصنوعی اخلاقیات سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ان کا اول و آخر مقصد سماج میں مہذب انسان کہلایا جانا ہے نہ کہ فی الواقع اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا۔

خوش اخلاقی کی ایک اور قسم وہ ہے جو ’’بڑوں‘‘ کے یہاں پائی جاتی ہے۔جو لوگ ان سے چھوٹے بن کر ملیں ان سے وہ پوری طرح خوش اخلاق بنے رہتے ہیں۔اسی طرح جو لوگ مسلّم طور پر بڑائی کا مقام حاصل کرچکے ہوں ان کے ساتھ بھی ان کا رویہ ہمیشہ خوش اخلاقی کا ہوتا ہے۔مگر ان دونوں کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں۔اول الذکر کے ساتھ ان کی خو ش اخلاقی دراصل ان کے اس عمل کی قیمت ہوتی ہے کہ انہوں نے ان کی متکبرانہ نفسیات کے لیے غذا فراہم کی۔ثانی الذکر کے ساتھ ان کی خوش اخلاقی اس لیے ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ اپنے کومنسوب کرنا عوام کی نظر میں ان کی یہ تصویر بناتا ہے کہ وہ بھی بڑوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ’’بڑے‘‘ اس وقت اپنی خوش اخلاقی کھودیتے ہیں جب کہ کوئی آدمی ان کی بڑائی کو چیلنج کرے، جب وہ کوئی ایسی بات کہہ دے جس سے ان کی متکبرانہ نفسیات پر زد پڑتی ہو۔ایسے شخص کے مقابلہ میں وہ فوراً اپنا لبادہ اتاردیتے ہیں۔ان کی خوش اخلاقی اچانک بدترین بداخلاقی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

 

کردار کی طاقت

لوگ عام طو ر پر دوہی قسم کے لوگوں کو طاقت ور سمجھتے ہیں۔ایک وہ جن کے پاس مادی چیزوں کا ڈھیر ہو۔دوسرے وہ جو داداگیری کرنا جانتے ہوں۔مگر طاقت کا سب سے بڑا رازکر دار ہے ۔مزید یہ کہ کردار ایک ایسی چیز ہے جس کا مالک ہر ایک آدمی بن سکتا ہے۔اس کےلیے نہ مادی دیوہونا ضروری ہے اور نہ جسمانی پہلوان ہونا۔

مولانا محمد قاسم قاسمی (پیدائش 1957) مدرسہ حسین بخش دہلی میں استاد ہیں اور اسی کے ساتھ ایک مسجد میں امام ہیں۔

موصوف نے دہلی میں گھڑی کی مرمت کی دکان کھولی۔ان کو اپنی دکان پر بٹھانے کے لیے ایک کاریگر کی ضرورت تھی۔اس اثناء میں یہ ہوا کہ ایک روز ان کی مسجد میں ایک شخص نے نماز پڑھی۔عمر تقریباً 40 سال تھی۔تعارف کے بعد معلوم ہواکہ ان کا نام محمد دین کشمیری ہے اور وہ گھڑی کا کام جانتے ہیں۔

’’آپ دہلی میں کیسے آئے‘‘ مولانا محمد قاسم نے پوچھا

’’کام کی تلاش میں‘‘ محمددین کشمیری نے جواب دیا

’’آپ گھڑی کی مرمت کا کام جانتے ہیں‘‘

’’الحمدللہ جانتا ہوں اور میں اپنے کام پر مطمئن ہوں‘‘

’’دہلی میں کوئی آدمی ہے جو آپ کی ضمانت لے سکے‘‘

’’میرا ضامن صرف اللہ ہے۔اگر آپ کو اللہ کی ضمانت پر اطمینان ہو تو میں اس کو اپنی ضمانت میں پیش کرسکتاہوں‘‘ محمد دین کشمیری کی گفتگو کے اس انداز نے مولانا قاسم کو متاثر کیا اور انہوں نے ان کواپنی دکان پر رکھ لیا۔اب اس واقعہ کو کئی مہینے گزر چکے ہیں اور خدا کے فضل سے دونوں فریق مطمئن ہیں۔مولانا محمد قاسم صاحب کی دکان بھی کامیاب ہے اور محمد دین کشمیری صاحب کو بھی روزگارمل گیا ہے۔

اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ کردار خود اپنے اندر طاقت رکھتا ہے۔اگر آدمی باکردار ہو تو اس کا باکردار ہونا اس کی زبان میں یقین اور عزم کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور جہاں یقین اور عزم آجائے وہاں کامیابی اسی طرح آتی ہے جس طرح سورج کے بعد روشنی اور پانی کےبعد سیرابی۔

 

کردار کا معاملہ

انسان مادہ کو تمدن میں تبدیل کرتا ہے۔وہ سادہ چیزوں کو استعمال کرکے شاندار شہر وجود میں لاتاہے۔ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔اس کار از صرف ایک ہے۔اور وہ ہے چیزوں کے اندر کچھ لازمی اوصاف کا ہونا۔آدمی انھی فطری خصوصیات کو دریافت کرکے انہیں کام میں لاتا ہے۔یہ خصوصیات گویا چیزوں کا کیرکٹر (کردار) ہیں۔ ہر چیز کا ایک متعین کیرکٹر ہے جس کو وہ لازماً ادا کرتی ہے۔یہی وہ کیرکٹر کی یقینیت ہے جس کی وجہ سے زندگی کی تمام سرگرمیاں اور ترقیاں ممکن ہوتی ہیں۔اگر یہ یقینیت باقی نہ رہے تو اچانک پوراانسانی تمدن کھنڈر ہوکر رہ جائے گا۔

اگر ایسا ہو کہ ایک دریا کے اوپر لوہے کا پل کھڑا کیا جائے اور پھر معلوم ہوکہ وہ موم کی طرح نرم ہے۔پتھر اور سیمنٹ کے ذریعہ کئی منزلہ بلڈنگ بنائی جائے اور وہ ریت کا ڈھیر ثابت ہو۔انجن میں پٹرول بھرا جائے مگر جب انجن کو چلایا جائے تو پٹرول توانائی میں تبدیل نہ ہو۔مقناطیسی میدان (Magnetic Field) اور حرکت (Motion)کو یکجا کیا جائے مگر الیکٹران متحرک ہو کر بجلی پیدا نہ کریں، وغیرہ وغیرہ۔

اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں نے اپنا کیرکٹر کھودیا ہے۔اور اگر چیزیں اپنا متعین کیرکٹر کھودیں تو تمدن کی تعمیر ناممکن ہوجائے۔تمدن اسی وقت بنتا ہے جب کہ اس کے ضروری مادی اجزاء اس کردار کو اد ا کریں جس کی ان سے توقع کی گئی ہے۔اگر برف کی فیکٹری میں پانی جمنے کے بجائے بھاپ بن کر اڑنے لگے تو آئس فیکٹری کا وجود بے معنیٰ ہوجائے گا۔اگر بھٹی میں لوہا ڈالا جائے اور وہ پگھلنے سے انکار کردے تو سارا مشینی کاروبار درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔

ٹھیک یہی معاملہ انسانی اجتماعیت کا بھی ہے۔کسی اجتماعی نظام میں جو افراد منسلک ہوتے ہیں ان میں سے ہر فرد کو اپنے اپنے مقام پر کوئی کردار ادا کرناپڑتا ہے۔اسی کردار کی صحیح ادائیگی پر اجتماعیت کے قیام کا انحصار ہے۔جس طرح مادی چیزوں کی قیمت ان کے مخصوص کیرکٹر کی بنا پر ہے۔اسی طرح انسان کی قیمت بھی اس میں ہے کہ وہ مختلف مواقع پر اس کیرکٹر کا ثبوت دے جس کی بحیثیت انسان اس سے امید کی جاتی ہے۔

لوہا وہی لوہا ہے جو استعمال کے وقت بھی لوہا ہو۔اسی طرح آدمی بھی وہی آدمی ہے جو تجربہ کے موقع پر لوہ پرش (لوہا انسان) ثابت ہوسکے۔جو اس امید میں پورا اترے جو اس سے کی گئی ہے وہ ہر موقع پر انسان ثابت ہونہ کہ غیر انسان۔

 

اچھا معاشرہ

مادی دنیا کا نظام محکم نظام ہے اور انسانی دنیا کا نظام منتشر نظام۔مادی دنیا میں ہر طرف بنائو ہے اور انسانی دنیا میں ہر طرف بگاڑ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مادہ اپنے قوانین کا پابند ہے اور انسان اپنے قوانین کا پابند نہیں۔

کوئی طاقتور نظام یا ایک اچھا معاشرہ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کے انسان حقیقی معنوں میں انسان ثابت ہوں۔جہاں پختگی کی ضرورت ہے وہاں وہ لوہے کی طرح پختہ بن جائیں۔جہاں نرمی کی ضرورت ہے وہاں وہ چشمہ کی طرح نرم ثابت ہوں۔جہاں چپ رہنے کی ضرورت ہے وہاں وہ پتھر کی طرح خاموش ہو جائیں۔جہاں ٹھہرنے کی ضرورت ہے وہاں وہ پہاڑ کی طرح جم کر کھڑے ہو جائیں۔جہاں اقدام کی ضرورت ہے وہاں وہ سیلاب کی طرح رواں بن جائیں۔وہ ہر موقع پر وہی بولیں جو انھیں بولنا چاہیے اور ہر موقع پر وہی ثابت ہوں جو انھیں ثابت ہونا چاہئے۔

ایسے انسان اجتماعی زندگی کے لیے اسی طرح اہم ہیں جس طرح لوہا اور پٹرول تمدنی زندگی کے لیے۔لوہا اور پٹرول کے بغیر کوئی تمدن نہیں۔اسی طرح پختہ کردار آدمیوں کے بغیر کوئی اجتماعی زندگی نہیں۔

ایک انسان کو جہاں وعدہ پورا کرنا چاہیے وہاں وہ وعدہ خلافی کرے۔جہاں اسکو شرافت کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے وہاں وہ کمینہ پن کا طریقہ اختیار کرے۔جہاں اسکو فیاضی دکھانا چاہئے وہاں وہ تنگ ظرفی کا ثبوت دے۔جہاں اس کو بڑا پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے وہاں وہ چھوٹا پن دکھائے۔جہاں اس کو معاف کر دینا چاہئے وہاں وہ انتقام لینے لگے۔جہاں اس کو اطاعت کرنا چاہئے وہاں وہ سرکشی کرنے لگے۔جہاں اس کو اعتراف کر لینا چاہئے وہاں وہ ہٹ دھرمی دکھانے لگے۔جہاں اس کو اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرنا چاہئے وہاں وہ اس کی پردہ دری کرنے پر تل جائے۔جہاں اس کو ایثار سے کام لینا چاہئے وہاں وہ خود غرضی سے کام لینے لگے۔

اگر ایسا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنا انسانی کردار کھو دیا ہے۔وہ اس امید کو پورا نہیں کررہا جو اجتماعی نظام کا ایک جزٔ ہونے کے اعتبار سے اس سے قائم کی گئی تھی۔جس اجتماعی معاشرہ کا یہ حال ہو کہ اس کے افراد اپنا انسانی کردار کھو دیں وہاں صرف انتشار کا راج ہو گا، وہاں کوئی مستحکم اجتماعی نظام نہیں بن سکتا۔

 

اعتبار پیدا کیجئے

ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا اس کے پاس مشکل سے چند سوروپے تھے۔وہ کپڑے کے ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کرکے اس کو فروخت کرتا۔کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے پٹری پر بیٹھنا شروع کردیا۔

کپڑے کے جس تھوک فروش سے وہ کپڑا خریدتا تھا اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔ دھیرے دھیرے اس تھوک فروش کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہوگیا۔وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔جب آدمی ادھا ر پر کپڑے لاتا تو اس کی کوشش رہتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کردے۔

وہ اسی طرح کرتا رہا۔یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اس کا اعتبار بہت بڑھ گیا۔اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔چند سال میں یہ نوبت آ گئی کہ تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دیدیتا ۔وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا جیسے کہ وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کررہا ہو۔

اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔وہ تیزی سے بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار کیا جانے لگا۔

اس دنیا میں بڑی دولت روپیہ نہیں، اس دنیا میں سب سے بڑی دولت اعتبار ہے۔اعتبار کی بنیاد پر آپ اسی طرح کوئی چیز لے سکتے ہیں جس طرح نوٹ کی بنیاد پر کوئی شخص بازار سے سامان خریدتا ہے۔اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔

مگر اعتبار زبانی دعووں سے قائم نہیںہوتا اور نہ اعتبار ایک دن میں حاصل ہوتا ہے۔اعتبار قائم ہونے کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ حقیقی عمل ہے۔خارجی دنیا اس معاملہ میں انتہائی حدتک بے رحم ہے۔لمبی مدت تک بے داغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے کہ لوگ آپ کے اوپر اعتبار قائم کریں جو اعتبار مذکورہ تھوک فروش نے ایک پھیری والے کے اوپر قائم کیا تھا۔

حقیقت پسندی

 

آسان حل

ایک حکیم صاحب تھے ۔ایک شخص ان کے پاس آیا۔اس کے پاس ایک ڈبہ تھا۔اس نے ڈبہ کھو ل کر ایک زیور نکالا۔اس نے کہا کہ یہ خالص سونے کا زیور ہے۔اس کی قیمت دس ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔اس وقت مجھے مجبوری ہے ۔آپ اس کو رکھ کر پانچ ہزار روپے مجھے دے دیجیے میں ایک ماہ میں روپیہ دے کر اسے واپس لے لوں گا۔حکیم صاحب نے کہا کہ نہیں۔میں اس قسم کا کام نہیں کرتا۔مگر آدمی نے کچھ اس انداز سے اپنی مجبوری بیان کی کہ حکیم صاحب کو ترس آگیا اور انہوں نے پانچ ہزار روپے دے کر زیور لے لیا۔اس کے بعد انہوں نے زیور کو لوہے کی الماری میں بند کرکے رکھ دیا۔

مہینوں گزر گئے اور آدمی واپس نہیں آیا۔حکیم صاحب کو تشویش ہوئی۔آخر انہوں نے ایک روز اس زیور کو لوہے کی الماری سے نکالا اور اس کو بیچنے کے لیے بازار بھیجا۔مگر سنا ر نے جانچ کر بتایا کہ وہ پیتل کا ہے۔حکیم صاحب کو سخت صدمہ ہوا ۔تاہم روپیہ کھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔انہوں نے اس کو بھلا دیا۔انہوںنے صرف یہ کیا کہ جس زیور کو وہ اس سے پہلے بند الماری میں رکھے ہوئے تھے اس کو ایک کھلی الماری میں ڈال دیا۔انہوںنے اس کو سونے کے خانہ سے نکال کر پیتل کے خانہ میں رکھ دیا۔

انسانی معاملات کے لیے بھی یہی طریقہ بہترین طریقہ ہے۔انسانوں کے درمیان اکثر شکایت اور تلخی صرف اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ ایک آدمی سے ہم نےجو امید قائم کررکھی تھی اس میں وہ پورا نہیں اترا۔ہم نے ایک آدمی کو بااصول سمجھا تھا مگرتجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بے اصول ہے۔ہم نے ایک شخص کو اپنا خیر خواہ سمجھا تھا مگر وہ بدخواہ ثابت ہوا۔ہم نے ایک شخص کو معقول سمجھ رکھا تھا مگر تجربہ کے بعد وہ غیر معقول نکلا۔

ایسے مواقع پر بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو اس خانہ سے نکال کر اس خانہ میں رکھ دیا جائے۔ جس چیز کو ہم نے سونے کی الماری میں محفوظ کررکھا تھا اس کو اس سے نکال کر پیتل کی الماری میں ڈال دیا جائے۔

 

دنیا ٹائپ رائٹر نہیں

ایک شخص میز پر بیٹھا ہوا ہے۔اس کے سامنے کھلا ہوا ٹائپ رائٹر ہے۔اس کے ذہن میں کچھ خیالات آئے۔اس نے ٹائپ رائٹر میں کاغذ لگایا اور اپنے ذہن کے مطابق تختہ حروف (کی بورڈ) پر انگلیاں مارنی شروع کیں۔اچانک اس کا ذہنی خیال واقعہ بننے لگا۔سامنے کے کاغذ پر مطلوبہ الفاظ چھپ چھپ کر ابھرنے لگے۔یہاں تک کہ اس کے تمام جملے کاغذ پر ٹائپ ہوکر سامنے آگئے۔چند جملے یہ تھے

میں حق پر ہوں،           میرے سوا جو لوگ ہیں سب باطل پر ہیں

میرا کوئی قصور نہیں،        ہر معاملہ میں قصور صرف دوسروںکا ہے

میں سب سے بڑا ہوں،      دوسرے تمام لوگ میرے مقابلہ میں چھوٹے ہیں

میں خدا کا محبوب ہوں ،      دنیا بھی میری ہے اور آخرت بھی میری

آدمی خوش تھا کہ اس نے جو کچھ چاہا وہ کاغذ پر موجود ہوگیا۔مگر آدمی کی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ جس دنیا میں تھا وہ کوئی ٹائپ رائٹر نہیں تھی۔ٹائپ رائٹر کے ایک کاغذ پر جس طرح اس نے اپنے خیال کو واقعہ بنا لیا اسی طرح وہ حقیقت کی دنیا میں اپنے خیال کو واقعہ نہیں بناسکتا تھا۔کاغذ پر اپنی پسند کے الفاظ چھاپنے کے لیے تو صرف کی بورڈ پر انگلیاں مارنا کافی تھا۔مگر حقیقت کی دنیا میں کسی خیال کو واقعہ بنانے کے لیے ایک لمبی اور سوچی سمجھی جدوجہد کی ضرورت ہے نہ کہ ٹائپسٹ کی طرح محض انگلیوں کو متحرک کرنے کی۔نتیجہ ظاہر ہے۔ٹائپ رائٹر کا آدمی عمل کی دنیا میں اس وقت بھی مکمل طور پر محروم تھا جب کہ الفاظ کی دنیا میں بظاہر وہ سب کچھ حاصل کرچکا تھا۔

یہ بات خواہ ہمارے لیے کتنی ہی ناگوار ہو۔مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ دنیا ہمارے لیے کوئی ٹائپ رائٹر نہیں اور ہم اس کے کوئی ٹائپسٹ نہیں کہ محض ’’انگلیوں‘‘ کی حرکت سے ہم جو چاہیں دنیا کی سطح پر نقش کرتے چلے جائیں۔یہ سنگین حقیقتوں کی دنیا ہے اور حقیقتوں سے موافقت کرکے ہی یہاں ہم اپنے لیے کچھ پاسکتے ہیں۔ آدمی کے پاس زبان اور قلم ہے۔وہ جو چاہے لکھے اور جو چاہے بولے۔مگر آدمی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی زبان و قلم صرف الفاظ کی لکیریں بناتے ہیں نہ کہ زندگی کی حقیقتیں۔الفاظ کا غذ پر نشان بن کر رہ جاتے ہیں۔ آواز ہوا میں غیر مرئی لہروں کی صورت میں گم ہوجاتی ہے۔اور بالآخر آدمی کے پاس جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف ایک جھوٹا انتظار ہے۔اور حقائق کی اس دنیا میں کسی کا جھوٹا انتظار کبھی پورا نہیںہوتا۔

 

سڑک کا سبق

شہر کی مصروف سڑکوں پر ہر وقت حادثہ کا خطرہ رہتا ہے۔چنانچہ ٹریفک کی رہنمائی کے لیے سڑکوں پر مختلف ہدایات لکھ دی جاتی ہیں۔ان ہدایات میں سے ایک یہ ہے کہ پٹری پر چلنا محفوظ چلنا ہے:

Lane driving is save driving

یعنی آدمی اگر پٹری کا پابند رہتے ہوئے اپنی سواری چلائے تو وہ اپنے آپ کو حادثات سے بچا سکتا ہے۔وہ اس خطرہ سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ دوسری گاڑیوں سے اس کا ٹکرائو ہو اور وہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے کے بجائے قبرستان کی طرف بڑھنے پر مجبور ہوجائے۔

لندن کے ایک ڈرائیور نے ایک بار ایک مضمون شائع کیا اس میں اس نے ٹریفک کے مختلف اصول بتائے۔اس نے اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں بڑی عجیب عجیب باتیں لکھی تھیں۔مثلاً اس نے لکھا کہ آپ اپنی گاڑی سڑک پر دوڑاتے ہوئے چلے جارہے ہیں کہ اچانک سائڈ کی گلی سے ایک گیند سڑک پر آگئی یہ گیند دیکھ کر آپ کو جاننا پڑتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک بچہ بھی آرہا ہوگا۔اگر آپ صرف ’’گیند‘‘ کو دیکھیں اور بچہ کو نہ دیکھیں تو آپ ڈرائیور نہیں ہیں۔اچھا ڈرائیور صرف وہ ہے جو گیند کو دیکھتے ہی بچہ کو بھی دیکھ لے، اگرچہ اس وقت بچہ بظاہر اس کی آنکھوں کے سامنے نہ ہو۔اگر ڈرائیور نے گیند کو دیکھ کر اپنی گاڑی کو بریک نہیں لگایا تو یقینی ہے کہ اگلے لمحہ اس کی گاڑی ایک بچہ کو سڑک پر کچل چکی ہو گی۔

سڑک کا سفر زندگی کے سفر کا معلم ہے۔آدمی اگر چاہے تو سڑک کے سفر سے وہ سب کچھ سیکھ سکتا ہے جو اس کو زندگی کے زیادہ بڑے سفر کے لیے درکا رہے۔

اپنی سرگرمیوں کو ہمیشہ اپنے دائرہ میں محدود رکھیے۔اگر آپ نے دوسرے کے دائرہ میں مداخلت کی تو فوراً اس سے آپ کا ٹکرائو شروع ہوجائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کا جاری سفر رک جائے گا۔ اجتماعی زندگی میں جب خارج سے ایک علامت ظاہر ہو تو یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ اس علامت کے پیچھے اورکیا باتیں ہیں جو اگرچہ موجود ہیںلیکن بروقت وہ دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔اگر آپ نے صرف دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھا اور جو چیزیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں ان سے بے خبر رہے تو مقابلہ کی اس دنیا میں آپ کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔

 

حقیقت پسندی

امریکہ نے اگست 1945 میں اپنے دو ایٹم بم جاپان میں گرائے۔اس کے نتیجہ میں جاپان تہس نہس ہو کر رہ گیا۔ مگر جاپانیوں کو اس پر غصہ نہیں آیا۔کیونکہ امریکیوں کی کارروائی یک طرفہ نہیں تھی۔بلکہ و ہ جاپان کی متشددانہ کارروائی کے جواب میں کی گئی ۔۔جاپانیوں کا یہی حقیقت پسندانہ مزاج ہے جس نے انہیں موجودہ زمانے میں غیر معمولی ترقی کے مقام تک پہنچایا ہے۔

امریکہ نے جاپان کے دو بڑے صنعتی شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔چند منٹ کے اندر  دونوں آباد شہر عظیم الشان کھنڈر بن گئے۔ان میں سے ہر ایک شہر 10 میل سے زیادہ بڑے رقبہ میں بسا ہوا تھا مگرجب ان پر ایٹم بم گرا تو یہ حال ہوا کہ انسان ، حیوان ، درخت سب جل بھن کر رہ گئے۔ڈیڑھ لاکھ آدمی مرگئے۔دس ہزار آدمی ایسے تھے جو حادثہ کے بعد فوراً بخارات میں تبدیل ہوگئے۔آج یہ دونوں شہر شان دار طور پر دوبارہ آباد ہوچکے ہیں۔چوڑی سڑکیں، کشادہ مکانات ، جگہ جگہ پارک اور باغ نے شہر کو بالکل نیا منظر عطاکیا ہے۔اب شہر میں صرف ایک ٹوٹی ہوئی عمار ت باقی ہے جو دیکھنے والوں کو یاد دلاتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اس شہر پر کیسی قیامت آئی تھی۔

ہندوستان ٹائمس (نئی دہلی) کے ایڈیٹر مسٹر خوشونت سنگھ جاپان گئے تھے۔اپنے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے جاپان میں ایک بے حد عجیب بات دیکھی۔جب کہ بقیہ دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے واقعات کو بہت بڑے پیمانہ پر امریکہ کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ہے ، خود جاپانی ان واقعات کو امریکہ کے خلاف نہیں لیتے۔خوشونت سنگھ نے اپنے جاپانی رفیق سے اس کی بابت سوال کیا تو خلاف توقع اس نے نرم لہجہ میں کہا:

We hit them first at Pearl Harbour. We killed a lot of them. They warned us of what they were going to do but we thought they were only bluffing. They beat us fair and square. We were quits. And now we are friends.

پہلے ہم نے ان کے پرل ہاربر پر حملہ کیا۔ہم نے ان کے بہت سے لوگوں کو مارڈالا۔اس کے جواب میں وہ جو کچھ کرنے والے تھے اس سے انہوںنے ہمیں آگاہی دی۔مگر ہم نے سمجھا کہ یہ محض دھونس ہے۔انہوں نے ہمیں کسی دھوکے کے بغیر کھلے طو رپرمارا۔پہلے ہم ایک دوسرے سے دور تھے۔اب ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (ہندوستان ٹائمس 4 پریل 1981)۔

ایٹمی حملہ سے مرنے والوں کی یادگار ہیروشیما میں قائم کی گئی ہے۔امن میوزیم (Peace Museum) میں جنگی تباہ کاریوں کی تصویریں بھی لگی ہوئی ہیں۔ان چیزوں کو دیکھنے کیلئے ہر سال تقریباً 70 لاکھ جاپانی ہیروشیماآتے ہیں۔گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عام جاپانی کے دل میں امریکہ کے خلاف نفرت چھپی ہوئی موجود ہے۔تاہم وہ اپنے عملی رویہ میں اس کا اظہار ہونے نہیں دیتے۔انہوں نے اپنے مخالفانہ جذبات پرحقیقت پسندی کا پردہ ڈال رکھا ہے۔جاپانیوں کے اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ جنگ کے بعد بہت تھوڑی مدت میں انہوں نے دوبارہ غیر معمولی ترقی کرلی۔ان کے یہاں نہ تیل نکلتا ہے اور نہ ان کے پاس معدنیات کی کانیں ہیں۔ان کو بیش تر خام مال باہر سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود جاپان آج اپنے اعلیٰ سامانوں کی بدولت دنیا کی مارکیٹ پر چھایا ہوا ہے۔

مسٹر خشونت سنگھ نے جاپان میں وکیلوں کی بابت معلوم کیا۔انہیں بتایا گیا کہ یہاں وکالت کے پیشہ کا حال اچھا نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان جب کوئی نزاع پیدا ہوتی ہے تو وہ عدالت میں جانے کے بجائے باہمی گفتگو سے اس کو طے کرلیتے ہیں۔جب آدمی اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہوتو جھگڑا کبھی آگے نہیں بڑھتا۔جھگڑا ختم نہ ہونے کی وجہ اکثر حالات میں یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی یک طرفہ طور پر دوسرے کو الزام دیتا ہے۔اس کی وجہ سے دوسرے کے اندر بھی ضد پیدا ہوجاتی ہے۔اور مسئلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔جب ایک فریق اپنی جانب کی غلطی مان لے تو دوسرے کے اندر بھی جھکائو پیدا ہوگا اور مسئلہ وہیں کا وہیں ختم ہوجائے گا۔

اس حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کا جاپان کویہ بہت بڑافائدہ ملاہے کہ ایک جاپانی دوسرے جاپانی پر اعتماد کرتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملکوں میں تجارتی معاہدے اور تجارتی خط وکتابت عام طور پر ایسے ماہرین انجام دیتے ہیں جو بہت بندھے ہوئے الفاظ اور قانونی پہلوئوں کی کامل رعایت کرنے والی زبان لکھنا جانتے ہیں۔مگر جاپانی اپنا وقت اس قسم کے تحریری مسودات تیار کرنے میں ضائع نہیں کرتے۔امریکہ میں قانون دانوں کی تعداد 50 ہزار ہے جبکہ جاپان میں قانون دانوں کی تعداد صرف 11 ہزار ہے۔جاپان میں ایسے لفظی ماہرین کا زیادہ کام ہی نہیں۔

جاپان کے اکثر تجارتی ادارے زبانی معاہدوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔اولاً اس کا رواج جاپانیوں کے باہمی تعلقات میں ہوامگر اب باہر کے تاجر بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ جاپانی کے منھ سے بولے ہوئے لفظ پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔قانونی بندشوں سے آزادی کا یہ فائدہ ہے کہ کام تیزی سے ہوتا ہے او رغیر ضروری لفظی پابندیاں کارکردگی میں حارج نہیں بنتیں۔

جاپان کے اس مزاج نے اس کو باہمی اتحاد کا تحفہ دیا ہے۔اور اتحاد بلاشبہ سب سے بڑی طاقت ہے۔جاپان کی ترقی کا راز جاپانیایت کے ایک ماہر نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

Never quarrelling amongst themselves, always making everything together.

آپس میں کبھی نہ جھگڑنا، ہر کام ہمیشہ مل جل کر کرنا (ہندوستان ٹائمس 4 اپریل 1981ء)

 

نیا دور

چودھویں صدی ہجری پر تاریخ کا ایک دورختم ہو اہے۔پندرہویں صدی ہجری میںتاریخ کے نئے دور کا آغاز ہونا ہے۔مزید یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج وہ تمام موافق حالات مکمل طور پر پید اہوچکے ہیں جو ایک نیا بہتر دور شروع کرنے کے لیے درکار ہیں۔

جب رات کا اندھیرا ختم ہوتا ہے اور نئے دن کا سورج نکلنے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں تو یہ فطرت کی طرف سے اس بات کا خاموش اعلان ہوتا ہے کہ روزوشب کی ایک گردش پوری ہوگئی۔اب اس کی دوسری گردش شروع ہونے والی ہے۔جو شخص چاہے اس کی روشنی میں اپنا نیا سفر شروع کرے اور منزل پر پہنچ جائے۔

صبح کے وقت سورج کا نکلنا ہر آدمی کو دوچیزوں کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔ایک وہ موقع جو گزر چکا۔دوسرا وہ موقع جو سامنے کھلا ہو اموجود ہے۔جو شخص بھی ان مواقع کو استعمال کرے گا وہ لازماً اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔تاہم امتحان کی اس دنیا میں مواقع صرف انہیں کے لیے ہوتے ہیں جو مواقع کو استعمال کریں۔جو لوگ مواقع کو استعمال کرنے میں ناکام رہیں ان کے لیے کوئی موقع موقع نہیں۔ کامیابی دوسرے لفظوں میں موجود مواقع کو استعمال کرنے ہی کا دوسرا نام ہے۔

کوئی شخص پچھلے کل میں اپنا سفر شروع نہیں کرسکتا۔سفر جب بھی شروع ہوگا ’’آج‘‘ سے شروع ہوگا نہ کہ گزرے ہوئے ’’کل‘‘ سے۔جو لوگ آج کے دن بھی کل میں جئیں ان کے لیے اس دنیا میں بربادی کے سوا اور کوئی چیز مقدر نہیں۔

جو مواقع گزرچکے انہیں بھول جائیے۔جو مواقع آج موجود ہیں ان کو جانیے اور انہیں استعمال کیجئے۔ان شاء اللہ آپ یقینا کامیاب ہوں گے۔یادرکھئیے گزرا ہو ادن کبھی کسی کے لیے واپس نہیں آیا۔گزرا ہوا دن آپ کے لیے بھی واپس آنے والا نہیں۔

 

خود کشی نہیں

پاکستان کے (ریٹائرڈ) جنرل عتیق الرحمٰن آج کل پاکستان فیڈرل سروس کمیشن کے صدر ہیں وہ ایک ’’مہاجر‘‘ ہیں اور دوسری جنگ عظیم میں فیلڈ مارشل مانک شاہ کے ساتھ برما میں کام کرچکے ہیں۔

فروری 1984 میں جنر ل رحمان ایک سرکاری دورہ پر نئی دہلی آئے۔ایک اخباری ملاقات میں انہوں نے کہا کہ برما کے زمانۂ قیام میں ایک بار مانک شاہ شدید طور پر زخمی ہوگئے۔تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی تو مانک شاہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو گولی مارکر اپنا خاتمہ کرلیں۔انہوںنے جنرل رحمان سے ایک پستول مانگا۔جنرل عتیق الرحمٰن نے پستول دینے سے انکار کردیا۔جنرل رحمان نے قہقہہ کے ساتھ کہامانک شاہ نے 1971 کی جنگ میں ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ، اگر اس کو میں اس وقت جانتا تو یقینا میں اپنا پستول انہیں دے دیتا (ٹائمس آف انڈیا 20 فروری 1984)۔

مانک شاہ دوسری عالمی جنگ میںمایوس ہو کر خودکشی کررہے تھے حالانکہ اس کے 25 سال بعد 1971 کی جنگ میں و ہ فاتح بن کر نمایاں ہونے والے تھے۔

اسلام میں خودکشی حرام ہے ،کیونکہ خودکشی خدا سے کامل مایوسی ہے۔اسی کے ساتھ وہ آخرت سے انکار کے ہم معنی ہے۔اگر آدمی کو یقین ہو کہ مرنے کے بعد وہ ختم نہیں ہوگا بلکہ دوبارہ زندہ ہو کر آخرت کی دنیا میں پہنچ جائے گا تو وہ کبھی خودکشی نہ کرے۔جس شخص کو آخرت کے مسئلہ کی سنگینی کا احساس ہو اس کے لیے ہر دوسری تکلیف ہیچ بن جائے گی۔

اسی کے ساتھ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔خودکشی کو حرام قرار دینا گویا انسان کو یہ پیغام دینا ہے کہ ۔۔وقتی تکلیف سے گھبرا کر مستقبل کو نہ بھول جائو۔

موجودہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر انسان پر غم اور تکلیف کا لمحہ آتا ہے۔مگر ایسے لمحات ہمیشہ وقتی ہوتے ہیں۔اگر آدمی اس لمحے کو برداشت کرلے تو اس کو بہت جلد معلوم ہوتا ہے کہ’’ تاریک حال‘‘ میں اس کے لیے ایک ’’روشن مستقبل ‘‘کا امکان چھپا ہوا تھا۔وہ شکست خوردہ ہو کر اپنے کو مٹادینا چاہتا تھا حالانکہ مستقبل اس انتظار میں تھا کہ اس کا نام فاتح کی حیثیت سے تاریخِ عالم میں درج کرے۔

 

اور تالا کھل گیا

اس کی ناکام کوشش اب جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوچکی تھی۔وہ کافی دیر سے تالے کے ساتھ زور آزمائی کررہا تھا۔’’ کنجی تو بظاہر صحیح ہے۔یقینا تالے کے اندر کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے تالا کھل نہیں رہا‘‘ اس نے سوچا۔اس کا غصہ اب اس درجہ پر پہنچ چکا تھا کہ اگلا مرحلہ صرف یہ تھا کہ تالا کھولنے کے لیے وہ کنجی کے بجائے ہتھوڑے کا استعمال شروع کردے۔

اتنے میں اس کے میزبان رفیق احمد آگئے۔’’کیا تالا نہیں کھل رہا‘‘ انہوں نے کنجی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔’’اچھا آپ کنجی غلط لگا رہے تھے۔اصل میں آج ہی میں نے اس کا تالاتبدیل کردیا ہے۔مگر میں نئی کنجی چھلے میں ڈالنا بھول گیا۔اس کی کنجی دوسری ہے‘‘۔اس کے بعد انہوں نے جیب سے دوسری کنجی نکالی اور دم بھر میں تالا کھل چکا تھا۔

زمانہ جب بدلتا ہے تو ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہوجاتا ہے جو ماضی کی صلاحیت کی بنیاد پر حال کی دنیا میں اپنی قیمت وصول کرنا چاہیں۔نئے زمانہ میں زندگی کے دروازوں کے تمام تالے بدل چکے ہوتے ہیں۔مگر وہ پرانی کنجیوں کا گچھا لیے ہوئے نئے تالوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ اور جب ان کی پرانی کنجیوں سے نئے تالے نہیں کھلتے تو کبھی تالا بنانے والے پر اور کبھی سارے ماحول پر خفا ہوتے ہیں۔حالانکہ جب تالے بد ل چکے ہوں توایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ پرانی کنجیوں سے نئے تالے کھل جائیں۔

حقیقت نگاری کے دور میں جذباتی تقریریں اور تحریریں، اہلیت کی بنا پر حقوق حاصل کرنے کے دور میں رزرویشن کے مطالبے، تعمیری استحکام کے ذریعہ اوپر اٹھنے کے دور میں جلسوں اور جلوسوں کے ذریعہ قوم کا مستقبل برآمد کرنے کی کوشش، سماجی بنیادوں کی اہمیت کے زمانہ میں سیاسی سودے بازی کے ذریعہ ترقی کے منصوبے، یہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔یہ ماضی کے معیاروں پر حال کی دنیا سے اپنے لیے زندگی کا حق وصول کرنا ہے جو کبھی کامیاب نہیںہوسکتا۔ایسے لوگوں کا انجام موجودہ دنیا میں صرف یہ ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہو کر رہ جائیں۔جو کچھ ان کو بربنائے حق نہیں ملا ہے اس کو سمجھیں کہ وہ بربنائے ظلم ان کو نہیں مل رہا ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے منفی ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائیں۔

 

شوق کافی ہے

استاد یوسف دہلوی (م 1977) مشہور خوشنویس تھے۔ان کو فن خطاطی پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار جلی خط کا مقابلہ ہوا۔جمنا کے کنارے ریت کے میدان میں بہت سے خطاط جمع ہوئے۔استاد یوسف آئے تو ان کے ہاتھ میں بانس کا ایک بڑاٹکڑا تھا۔انہوں نے بانس سے ریت کے اوپر لکھنا شروع کیا۔الف سے ش تک پہنچے تھے کہ تقریباً ایک فرلانگ کا فاصلہ ہوگیا۔لوگوں نے کہا کہ بس کیجئے۔استاد یوسف نے کہامیں نے جو لکھا ہے اس میں رنگ بھردو اور پھر ہوائی جہاز سے چھوٹے سائز میں ان کا فوٹو لے لو۔مجھے یقین ہے کہ فوٹو میں وہ خط رہے گا جو میرا اصل خط ہے۔اس کے بعد کسی او رکو اپنا فن پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے تھے۔وہاں شاہ سعود کی آمد پر ان کو ایک محراب کا مضمون لکھنے کے لیے دیا گیا۔استقبال کی تیاریوں کا بچشم خود معائنہ کرنے لیے گورنر جنرل آئے۔اس دوران انہوں نے استاد یوسف کا لکھا ہوا محراب بھی دیکھا۔اس کے شان خط کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ کس خطاط نے لکھا ہے۔چنانچہ استاد یوسف کو بلایاگیا۔گورنر جنرل نے ان کے کام کی تعریف کی اور پوچھا کہ اس کو لکھنے میں آپ کو کتنا وقت لگا۔استاد یوسف نے کہا کہ سات دن۔گورنر جنرل نے فوراً اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ استادکوان کی خدمت کے اعتراف میں سات ہزار روپے پیش کرو۔چنانچہ اسی وقت ان کو اتنی رقم کا چیک دے دیا گیا۔

استاد یوسف سے ایک شخص نے پوچھا کہ خوش نویسی کا فن آپ نے کس استاد سے سیکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی سے نہیں۔ان کے والد خود ایک مشہور خوش نویس تھے۔مگر انہوں نے اپنے والد کی شاگردی بھی نہیں کی۔پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے خوش نویسی کا فن لال قلعہ سے سیکھا ہے۔لال قلعہ میں مغل دور کے استادوں کی وصلیاں (تختیاں) رکھی ہوئی ہیں۔ان تختیوں میں قطعات لکھے ہوئے ہیں جو فن خطاطی کے شاہکار نمونے ہیں۔استاد یوسف دس سال تک برابر یہ کرتے رہے کہ لال قلعہ جا کر ان تختیوں کو دیکھتے۔ہر روز ایک قطعہ اپنے ذہن میں بٹھا کر واپس آتے۔اس کو اپنے قلم سے بار بار لکھتے۔اور پھر اگلے دن اپنا لکھا ہوا کاغذ لے کر لال قلعہ جاتے۔وہاں کی محفوظ تختی سے اپنے لکھے ہوئے کو ملاتے اور اس طرح مقابلہ کرکے اپنی غلطیوں کی اصطلاح کرتے۔اس طرح مسلسل دس سال تک ہر روز لال قلعہ کی قطعات کی تختیوں سے وہ خود اپنی اصلاح لیتے رہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر مشق کرتے رہے۔یہی دس سالہ جدوجہد تھی جس نے انہیں استاد یوسف بنادیا۔

اگر آدمی کے اندر شوق ہو تو نہ پیسہ کی ضرورت ہے اور نہ استاد کی ، نہ کسی اور چیز کی۔اس کا شوق ہی اس کے لیے ہر چیز کا بدل بن جائے گا۔وہ بغیر کسی چیز کے سب چیز حاصل کر لے گا۔

 

زبان درازی

سقراط کا قول ہے۔اگر تم اتنے زبان دراز ہو کہ تمہاری زبان درازی کے مقابلہ میں کوئی تم سے جیت نہ سکے تو تم کبھی غریبوں کیسا تھ ہمدردی نہیں کرسکتے۔

بظاہر یہ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کہ زبان درازی کا غریبوں کے ساتھ ہمدردی سے کیا تعلق۔ لیکن گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو ان میں بہت گہرا تعلق ہے۔غریب کے ساتھ ہمدردی وہی شخص کرسکتا ہے جو حق کا اعتراف کرنا جانتاہو، خواہ اس حق کا تعلق ایک غریب آدمی سے کیوں نہ ہو۔

ایک واقعہ سے اس کی بخوبی وضاحت ہوجائے گی۔ایک زمیندار نے اپنا آم کا باغ کسی باغبان کے ہاتھ فروخت کیا، جب درختوں میں پھل لگے تو آندھی آئی۔اس آندھی میں بہت سے پھل گرگئے۔ باغبان کو اندیشہ ہوا کہ وہ پھلوں کی فروخت سے پوری قیمت حاصل نہ کرسکے گا اور اس کو نقصان ہوگا۔ اس نے ٹوٹے ہوئے آم ایک ٹوکری میں رکھے اور ان کو لے کر زمیندا رکے پاس گیا۔اور کہا کہ دیکھئے آندھی کی وجہ سے کافی پھل گرگئے ہیں۔اور ہم کو نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے آپ باغ کی قیمت میں کچھ کمی کردیں۔

زمیندار نے یہ سنا تو بگڑ کر کہا جب تم نے ہمار اباغ خرید اتھا اس وقت تم کو یہ معلوم نہ تھا کہ باغ کے گرد کوئی ایسی اونچی دیوار کھڑی ہوئی نہیں ہے جو آندھی اور باغ کے درمیان روک بن سکے۔غریب باغبان مایوس ہو کر چلا گیا۔

زمیندا ر کے ایک دوست اس وقت زمیندار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔اور زمیندار او ر باغبان کی پوری بات سن رہے تھے۔جب باغبان چلا گیا تو انہوں نے زمیندا ر سے کہا ۔تم بہت سنگدل معلوم ہوتے ہو ، غریب آدمی پر رحم کرنا نہیں جانتے۔زمیندار صاحب نے یہ سن کر کہا۔آپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان کو رزق دیتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا خدا ہے، وہ بہرحال ہر ایک کو اس کا رزق پہنچاتا ہے۔

طاقتور کے مقابلہ میں آدمی زیادہ بول نہیں پاتا۔مگر جب کمزور سے معاملہ ہو تو وہ خوب زبان درازی دکھاتا ہے۔اس کی یہ زبان درازی اس کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ معاملہ کو سمجھے اور حق کو مان کر اس کے مطابق وہ کرے جو اسے کرنا چاہیے۔

 

حقیقت پسندی نہ کہ شوق

شہد کی مکھیاں اپنا چھتہ جہاں بناتی ہیں ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پھولوں کا مقام اس سے کئی میل دورہوتا ہے۔ایک پھول میں بہت تھوڑی مقدار رس کی ہوتی ہے۔اس لیے بھی اس کو بہت دور دور تک جانا ہوتا ہے۔تاکہ بہت سے پھولوں کا رس چوس کر ضروری مقدار حاصل کرسکے۔

شہد جمع کرنے والی مکھی سارے دن اڑانیں بھرتی ہے تاکہ وہ ایک ایک پھول کا رس نکالے اور اس کو لا کر اپنے چھتہ میں جمع کرے۔مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ شہد کی مکھی صبح جب اپنے پہلے سفر پر نکلتی ہے تو اندھیرے میں روانہ ہوتی ہے۔مگر شام کو جب پھولوں کے مقام سے وہ اپنی آخری باری کیلئے چلتی ہے تو اس کا یہ سفر نسبتاً اجالے میں ہوتا ہے ۔پہلی باری کے لیے اندھیرے میںچلنا اور آخری بار ی کے لیے اجالے میں سفر شروع کرنا کیوں ہوتا ہے۔اس کی وجہ دونوں وقتوں کا فرق ہے۔صبح کے وقت سفر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اندھیرے سے اجالے کی طرف جارہی ہے۔جب کہ شام کے وقت سفر کا مطلب اجالے سے اندھیرے کی طرف جانا ہے۔

شہد کی مکھی وقت کے اس فرق کو ملحوظ رکھتی ہے اور اس کی پوری طرح رعایت کرتی ہے۔شہد کی مکھی اپنے لمبے سفر کو چونکہ سورج کی روشنی ہی میں صحیح صحیح انجام دے سکتی ہے۔اندھیرے میں اس کا امکان رہتا ہے کہ وہ بھٹک جائے اور اپنی منزل پر نہ پہنچے۔اس لیے صبح کو وہ اپنی پہلی باری اندھیرے میں شروع کردیتی ہے۔کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اگلے لمحات اجالے کے لمحات ہوں گے۔اس کے برعکس شام کو اپنی آخری باری کے لیے وہ اجالا رہتے ہوئے چل پڑتی ہے۔کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جتنی دیر ہوگی اتنا ہی اندھیرا بڑھتا چلا جائے گا۔

یہ قدرت کا سبق ہے ۔اس طرح قدرت بتاتی ہے کہ زندگی میں ہمارا ہر قدم حقائق کی بنیاد پر اٹھنا چاہیے نہ خوش فہمیوں اور موہوم امیدوں کی بنیاد پر۔آنے والے لمحات کبھی ’’اندھیرے‘‘ کے لمحات ہوتے ہیں اور کبھی ’’اجالے‘‘ کے لمحات ، اگر اس فرق کی رعایت نہ کی جائے اور آنے والے لمحات کا لحاظ کئے بغیر بے خبری میں سفر شروع کردیاجائے تو آنے والاہر لمحہ ہماری رعایت نہیں کرے گا۔وہ اپنے نظام کے تحت آئے گا نہ کہ ہماری خوش فہمیوں کے تحت۔نتیجہ یہ ہوگا کہ کبھی ہم سمجھیں گے کہ ہم روشن مستقبل اور شاندار انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔حالانکہ اگلا لمحہ جب آئے گا تو معلوم ہوگا کہ ہم صرف اندھیروں کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے۔

 

دشمنی کے وقت بھی

روس اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن ہیں۔مزید یہ کہ دونوں نے بے حساب مقدار میں خطرناک نیوکلیرہتھیار تیار کررکھے ہیں۔جومنٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ جائیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک معمولی سی غلط فہمی دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک ایسی جنگ چھیڑ سکتی ہے جو ان کے شاندار شہروں کو اچانک کھنڈر میں تبدیل کردے۔

چنانچہ یہ ممالک ایک طرف ایک دوسرے کے خلا ف ہر قسم کے انتہائی مہلک ہتھیار جمع کررہے ہیں دوسری طرف دونوں کے درمیان پچھلے 20 سال سے ہنگامی مواصلات (Emergency Communications) کا ایک نظام قائم ہے جس کے ذریعہ رات دن کے کسی بھی لمحہ میں دونوں ایک دوسرے سے ربط پیدا کرسکتے ہیں۔اور نازک مواقع پر فوراً براہ راست گفتگو کرکے جنگ کے اتفاقی خطرہ کو ٹال سکتے ہیں۔اس ہروقت متحرک رہنے والے مواصلاتی نظام کو گرم لائن(Hot-Line)کہاجاتا ہے۔ نیوکلیر ہتھیاروں کی مزید ترقی کے بعد محسوس کیا گیا کہ قدیم گرم لائن بہت ’’سست‘‘ ہے۔وہ ہتھیاروں کے رفتار سفر میں جدید ترقیوں کی نسبت سے جنگ کے فوری اندیشہ کوٹالنے کے لیے سراسر ناکافی ہے۔چنانچہ پچھلے ایک سال سے ماسکو اور واشنگٹن کے ماہرین اس موضوع پر گفتگو کررہے تھے کہ موجودہ گرم لائن کو ترقی دے کر اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق (Update) کیا جائے۔بالآخر جولائی 1984ء میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے معاہدہ پر سمجھوتہ ہوگیا۔(ٹائمس آف انڈیا 11 جولائی 1984)۔

اب تک جو ٹیلکس مشینیں ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال ہورہی تھیں وہ ایک منٹ میں ساٹھ الفاظ (ایک سیکنڈ میں ایک لفظ) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتی تھیں۔نئے معاہدہ کے تحت جوسسٹم رائج کیا گیا ہے اس کے مطابق ایک تیار شدہ مضمون (prepared text) کے پورے ایک صفحہ کا عکس صرف ایک سیکنڈ میں واشنگٹن سے ماسکو یا ماسکو سے واشنگٹن پہنچ جائے گا۔گویا تیز رفتاری کے اعتبار سے پہلے کے مقابلہ میں کئی سو گنا زیادہ۔اس طرح روس اور امریکہ نے خطرہ سے بچائو کی تدبیر کو خطرہ کے مطابق کرلیا۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندہ لوگ دشمنی کی آخری حد پر پہنچ کر بھی کس قدر باہوش رہتے ہیں۔دوسری طرف مردہ لوگ ہیں جن کو صرف یہ معلوم ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑجائیں اور پھر اپنی بے معنی لڑائی کو کسی حال میں ختم نہ کریں۔

 

تعلیم کی اہمیت

تعلیم صرف روزگار کا سرٹیفکیٹ نہیں۔اس کا اصل مقصد قوم کے افراد کوباشعور بنانا ہے۔افراد کو باشعور بنانا ملت کی تعمیر کی راہ کا پہلا قدم ہے۔ملت کا سفر جب بھی شروع ہوگا یہیں سے شروع ہوگا۔ اس کے سوا کسی اور مقام سے ملت کا سفر شروع نہیں ہوسکتا۔

باشعور بنانا کیا ہے۔باشعور بنانایہ ہے کہ ملت کے افراد ماضی اور حال کو ایک دوسرے سے جو ڑ سکیں۔وہ زندگی کے مسائل کو کائنات کے ابدی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکیں۔وہ جانیں کہ وہ کیا ہیں۔اور کیا نہیں ہیں۔وہ اس راز سے واقف ہوں کہ وہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے ہم آہنگ کرکے ہی خدا کی اس دنیا میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔باشعور انسان ہی حقیقی معنوں میں انسان ہے۔جو باشعور نہیں وہ انسان بھی نہیں۔

باشعور آدمی اپنے اوردوسرے کے بارہ میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کی کون سی رائے جانب دارانہ رائے ہے اور کون سی غیر جانب دار انہ۔جب بھی کوئی موقع آتا ہے تو وہ پہچان لیتا ہے کہ یہاں کون سی کارروائی ردعمل کی کاروائی ہے اور کون سی مثبت کاروائی۔وہ شر کو خیر سے جدا کرتا ہے اور باطل کو الگ کرکے حق کو پہچانتا ہے۔ایک آنکھ وہ ہے جو ہر آدمی کی پیشانی پر ہوتی ہے۔تعلیم آدمی کو ذہنی آنکھ عطا کرتی ہے۔عام آنکھ آدمی کو ظاہری چیزیں دکھاتی ہے، تعلیم کی آنکھ آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ معنوی چیزوں کو دیکھ سکے۔

جس طرح ایک کسان بیج کو درخت بناتا ہے۔اسی طرح تعلیم گاہ کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو فکری حیثیت سے اس قابل بنائے کہ وہ ارتقائے حیات کے سفر کو مکمل کرسکے۔تعلیم آدمی کو ملازمت دیتی ہے۔مگر یہ تعلیم کا ثانوی فائدہ ہے۔تعلیم کا اصل پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کو زندگی کی سائنس بتائے۔وہ آدمی کو حقیقی معنوں میں آدمی بنادے۔

 

اس کے باوجود

11 نومبر 1986 کی صبح کو میرے ساتھ ایک ’’حادثہ‘‘ پیش آیا۔میری عینک ایک بھول کی وجہ سے پتھر کے فرش پر گر پڑی۔اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔تھوڑی دیر کے لیے مجھے جھٹکا لگا۔پھر میں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو ہمیشہ یہی ہوگا کہ یہاں پتھر کا فرش بھی رہے گا اور نازک شیشہ بھی۔اس لیے اس دنیا میں حفاظت اس کا نام نہیں ہے کہ چیزیں کبھی نہ ٹوٹیں۔اس دنیا میں حفاظت یہ ہے کہ ٹوٹنے کے باوجود ہم چیزوں کو محفوظ رکھ سکیں۔محرومی کے درمیانی واقعات پیش آنے کے باوجود ہم اپنے آپ کوآخری محرومی سے بچائیں۔

گلاب کا پھول کتنا خوبصورت ہوتا ہے۔اس کو پھولوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے مگر جس ڈالی میں گلاب کا نازک پھول کِھلتا ہے ، اسی ڈالی میں سخت کانٹے بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ قدرت کا قانون ہے۔ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم پھول کو کانٹے سے جدا کرسکیں۔ہمیں کانٹے کے باوجود پھول کو لینا ہوگا۔ہم اس دنیا میں کانٹے کے بغیر پھول کو نہیں پاسکتے۔

یہ زندگی کا ایک سبق ہے جو فطرت کی خاموش زبان میں ہمیں دیا جارہا ہے۔یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں ’’باوجود‘‘ کا اصول کارفرما ہے۔یہاں ناخوش گواریوں کے باوجود خوش گواری کو قبول کرنا پڑتا ہے ، یہاں ’’نہیں‘‘ کے باوجود اس کو ’’ہے‘‘ میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

یہی اس دنیا کا عام اصول ہے۔یہاں کامیابی اس کا نام ہے کہ آدمی ناکامیوں کے باوجود کامیابی تک پہنچنے کا راستہ نکالے۔یہاں تجارت یہ ہے کہ گھاٹے کے باوجود نفع حاصل کیا جائے۔یہاں آگے بڑھنا یہ ہے کہ پیچھے ہٹنے کے واقعات پیش آنے کے باوجود آگے کا سفر جاری رکھا جائے۔اس دنیا میں کھونے کے باوجود پانے کا نام پانا ہے۔یہاں اتحاد صرف ان لوگوں کے درمیان قائم ہوتا ہے جو اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا فن جانتے ہوں۔

امکانات

 

اپنی کوشش سے

نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے عام طور وہ ان کا صرف دس فی صد حصہ استعمال کرتا ہے۔اس تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے ہار ورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ۔۔۔’’ جو کچھ ہمیں بننا چاہئے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں ‘‘ ہم کو دوسروں سے شکایت ہے کہ وہ ہم کو ہمارا حصہ نہیں دیتے۔مگر سب سے پہلے ہم کو خود اپنے آپ سے شکایت ہونی چاہئے کہ قدرت نے پیدائشی طور پر ہمارے لیے دنیا میں جو ترقیاں اور کامیابیاں مقدر کی تھیں ، ہم اس کے مقابلہ میں ایک بہت کمتر زندگی پر قانع ہو کر رہ گئے ہیں۔

ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود اپنی طرف دیکھے۔کیوں کہ انسان آپ ہی اپنا دوست بھی ہے اور آپ ہی اپنا دشمن بھی۔ا ٓدمی کے باہر نہ اس کا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی اس کا دشمن۔آدمی اپنی امکانیات کو استعمال کر کے کامیابی حاصل کرتا ہے اور جب وہ اپنی امکانیات کو استعمال نہ کرے تو اسی کا دوسرا نام ناکامی ہے۔

تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ کوششوں کا استعمال صحیح رخ پر ہو۔غلط رخ پر کوشش کرنا اپنی قوتوں کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔

قدیم انسان کے نزدیک دولت مند بننے کی صورت صرف ایک تھی۔وہ یہ کہ لوہے کو سونا بنایا جائے۔وہ قیمتی چیز کے نام سے صرف سونے کو جانتا تھا۔بے شمار لوگ ہزاروں سال تک لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کرتے رہے۔مگر ان کے حصہ میں بالآخر اس کے سوا اور کچھ نہ آیا کہ اپنے وقت اور پیسہ کو ضائع کریں اور پھر ایک دن حسرت کے ساتھ مر جائیں۔

مگر خدا کی دنیا میں ایک اور اس سے زیادہ بڑا امکان موجود تھا۔اور وہ تھا لوہے کو مشین میں تبدیل کرنا۔موجودہ زمانہ میں مغربی قوموں نے اس راز کو جانا اور اپنی محنتیں اس رخ پر لگا دیں۔انھوں نے لوہے کو مشین میں تبدیل کر دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سونے اور چاندی سے بھی زیادہ بڑی مقدار میں دولت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

 

ایک کے بعد دوسرا

پرل ہاربر امریکہ کی ایک بندرگاہ ہے۔دوسری جنگ عظیم کے زمانہ میں یہاں امریکی بحریہ کا زبردست فوجی اڈہ قائم تھا۔7 دسمبر 1941 کو جاپان نے اچانک پرل ہاربر پر بمباری کر کے اس کو تباہ کر دیا۔امریکہ کا جرم یہ تھا کہ وہ جاپان دشمن طاقتوں کے ہاتھ فوجی ہتھیار فروخت کرتا ہے۔مگر جاپان کے اس جنگی اقدام نے مسئلہ کو اور زیادہ بڑھا دیا۔اب امریکہ براہ راست جنگ میں شریک ہو گیا۔اس کے بعد امریکہ ، برطانیہ اور روس نے مل کر وہ فوجی محاذ قائم کیا جو تاریخ میں اتحادی طاقتوں ( Allied Powers) کے نام سے مشہور ہے۔اس فوجی اتحاد کا سب سے زیادہ نقصان جاپانیوں کے حصہ میں آیا۔امریکہ نے اگست 1945 میں جاپان کے دوصنعتی شہروں (ہیرو شیما اور نا گا ساکی )پر تاریخ کے پہلے ایٹم بم گرائے۔جاپان کے دونوں صنعتی مراکز بالکل برباد ہو گئے اور اسی کے ساتھ جاپان کی فوجی طاقت بھی۔

پرل ہاربر پر بمباری کرنا بلاشبہ جاپان کی عظیم الشان فوجی غلطی تھی۔اس اقدام نے غیر ضروری طور پر امریکہ کو جاپان کا دشمن بنا کر براہ راست اس کے خلاف کھڑا کر دیا۔مگر جاپان ایک زندہ قوم تھی۔اس نے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہیں کی۔اس نے نئے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے لڑنے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کر لیا۔

جاپان کی اس عقل مندی نے اس کے لیے ایک نیا عظیم تر امکان کھول دیا۔جنگی میدان میں اقدام کے مواقع نہ پا کر اس نے تعلیم اور صنعت کے میدان میں اپنی جدوجہد شروع کر دی۔سیاسی اور فوجی اعتبار سے اس نے امریکہ کی بالا دستی تسلیم کر لی اور دوسرے پر امن میدانوں میں اپنے آپ کو موڑ دیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 30 سال میں جاپان نے پہلے سے بھی زیادہ طاقت ور حیثیت حاصل کر لی۔اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک مبصر نے لکھا ہے:

That is a queer culmination of Pearl Harbour, but history has many 

contrived corridors and perhaps Pearl Harbour were one of them

یہ پرل ہاربر کے واقعہ کا بڑا عجیب اختتام ہے۔مگر تاریخ میں اس طرح سے راستہ نکال لینے کی بہت سی مثالیں ہیں اور شاید پرل ہار بر ان میں سے ایک ہے (ہندوستان ٹائمس 30 نومبر 1981)

ہر ناکامی کے بعد ایک نئی کامیابی کا امکان آدمی کے لیے موجود رہتا ہے ، بشرطیکہ وہ نہ جھوٹی اکڑ دکھائے اور نہ بے فائدہ ماتم میں اپنا وقت ضائع کرے۔بلکہ حالات کے مطابق از سر نو اپنی جدوجہد شروع کر دے ۔

 

مواقع کا استعمال

امریکہ میں ان انتہائی بڑے بڑے تاجروں کا مطالعہ کیا گیا ہے جو ترقی کے بلندترین مقام تک پہنچے ہیں۔ان کی غیر معمولی ترقی کا راز کیا ہے ، اس سلسلے میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں ۔۔بڑھی ہوئی محنت ، کام کی اتنی دھن کہ بیوی بچے ، چھٹی ، تفریح ، تمام چیزیں ثانوی بن جائیں ، وغیرہ۔تاہم ان کی بڑی بڑی ترقیوں میں جو چیز فیصلہ کن طور پر اہم ترین ہے وہ ایک تحقیق کرنے والے کے الفاظ (ریڈرز ڈائجسٹ مئی 1982) میں یہ ہے کہ ایسے لوگ مواقع کو پہچاننے کے ماہر ہوتے ہیں۔اپنی ترقی کے کسی بھی موقع کو فوراً استعمال کرنے سے وہ کبھی نہیں چوکتے  :

They are masterful opportunists. keenly alert to any chance for personal advancement.

حقیقت یہ ہے کہ بڑی ترقی مواقع کو عین وقت پر استعمال کرنے ہی کا دوسرا نام ہے۔خواہ یہ شعوری طور پر ہو یا اتفاقی طور پر ، آدمی خواہ کسی بھی میدان میں ہو، اس کو ہمیشہ چوکنا رہنا چاہئے اور جب کوئی موافق موقع سامنے آئے تو فوراً اس کو استعمال کرنا چاہئے۔کیونکہ ایک موقع ہمیشہ صرف ایک بار آتا ہے ، وہ دوسری بار کبھی نہیں آتا۔جس نے کسی موقع کو پہلی بار کھو دیا اس نے گویا ہمیشہ کے لیے اسے کھو دیا۔

نئے مواقع بالکل چھپے ہوئے نہیں ہوتے ، ان کا اندازہ بہت سے لوگوں کو ہو جاتا ہے۔مگر آگے بڑھ کر ان کو استعمال کرنے والے ہمیشہ بہت کم ہوتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ نئے مواقع کو استعمال کرنے میں ہمیشہ کچھ خطرہ کا پہلو بھی ہوتا ہے۔اس کا نتیجہ ایک مستقبل کی چیز ہوتا ہے اس لیے اس کے ساتھ امید اور اندیشہ دونوں ہی لگے ہوتے ہیں ، جو لوگ کاہلی کرتے ہیں یا سوچ بچار میں رہتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں۔اس کے بر عکس جو لوگ مستعدی دکھاتے ہیں اور خطرہ مول لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔وہ کامیاب رہتے ہیں۔

امکانات کو پہچانئے ، کوئی موقع پیدا ہو تو فوراً اس کو استعمال کیجئے ، آپ یقینا بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کریں گے۔

 

ہار میں جیت

دوسری عالمی جنگ ( 45۔1939) میں ابتداء ً امریکہ براہِ راست شامل نہ تھا۔تاہم ہتھیار اور سامان کے ذریعہ اس کی مدد برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔چنانچہ جاپان نے امریکہ کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔اس نے 7 دسمبر 1941 کو اچانک امریکہ کے بحری اڈہ پرل ہار بر (Pearl Harbor) پر شدید حملہ کیا اور اس کو تباہ کر دیا۔تاہم امریکہ کی ہوائی طاقت بدستور محفوظ رہی۔

یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکہ میں ایٹم بم کی پہلی کھیپ زیر تکمیل تھی۔چنانچہ اس کے مکمل ہوتے ہی امریکہ نے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ورنہ اس کو برباد کر دیا جائے گا ۔ جاپان کو امریکہ کی جدید قوت کا اندازہ نہ تھا، اس نے اس کو منظور نہیں کیا۔چنانچہ 14 اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے دو صنعتی شہروں ، ہیروشیما اور نا گا ساکی پر ایٹم بم گرائے ایک لمحہ میں جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہو کر رہ گئی۔جاپان نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔

اس کے فوراً بعد جنرل میکار تھر (Douglas Macarthur) امریکی فوجوں کے ساتھ جاپان میں اُتر گئے۔جاپان کے اوپر مکمل طور پر امریکہ کا فوجی قبضہ ہو گیا۔

جاپان اگر چہ خالص ہتھیار کے اعتبار سے شکست کھا چکا تھا مگر جاپانیوں کے درمیان جنگی جنوں بدستور باقی تھا۔جاپانیوں کا جنگی جنون اس زمانہ میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنے جسم میں بم باندھ کر جہازوں کی چمنی میں کود جاتے تھے۔اب جنرل میکار تھر کے سامنے یہ سوال تھا کہ اس جنگی جنون کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔جنرل میکار تھر نے اس کا حل اس تدبیر میں تلاش کیا کہ جاپانیوں کے جذبہ کو جنگ سے ہٹا کر معاشی سر گرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔ایک امریکی مبصر اینتھو نی لیویس (Anthony Lewis) نے لکھا ہے :

When Japan surrendered, 40 years ago, Gen. Douglas Macarthur undertook not just to occupy but to remake the country. If he had been asked than what his most extravagant hope was. I think he might have said: to channel the drive of this aggressive people away from militarism and into economic ambition.

جب جاپان نے 40 سال پہلے ہتھیار ڈالے تو جنرل میکار تھر نے نہ صرف جاپان پر فوجی قبضہ کرلیا بلکہ اسی کے ساتھ ان کی مہم یہ تھی کہ وہ ملک کی از سر نو تشکیل کریں۔اگر اس وقت ان سے پوچھا جاتا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ یہ کہتے کہ جاپان کے جارح عوام کے جوش کو جنگ کے بجائے اقتصادی حوصلوں کی طرف موڑ دینا۔(ٹائمس آف انڈیا 26 اِگست 1985)

اب جاپان کے لیے ایک صورت یہ تھی کہ وہ اپنے ذہن کو باقی رکھتا۔اگر کھلے طور پر میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع نہیں تھے تو خفیہ طریقہ پر امریکہ کے خلاف اپنی مقابلہ آرائی کو جاری رکھتا۔آخری درجہ میں وہ اس کام کو کر سکتا تھا جس کا نمونہ ہندوستان کے مسلمانوں میں نظر آرہا ہے۔یعنی اپنے مفروضہ حریف کے خلاف الفاظ کی بے فائدہ جنگ جاری رکھنا۔

مگر جاپان نے فاتح کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے فوراً اپنے عمل کا رُخ بدل دیا۔اس نے امریکہ سے براہِ راست ٹکرائو کو مکمل طور پر ختم کر دیا اور اپنی تمام قوتوں کو سائنسی تعلیم اورٹیکنیکل ترقی کے راستہ میں لگا دیا۔

اس کا نتیجہ عظیم الشان کامیابی کی شکل میں برآمد ہوا۔جاپان نے تیزی سے اقتصادی ترقی شروع کی۔اس نے 1971میں چھ بلین ڈالر کاتجارتی سامان امریکہ بھیجا تھا، اس کے بعد جاپانی مصنوعات کی مقبولیت امریکہ میں بڑھتی رہی یہاں تک کہ موجودہ اندازہ کے مطابق 1985 میں جاپان کے مقابلہ میں امریکہ کا تجارتی خسارہ ( Trade deficit) کی مقدار 45 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی (ٹائمس آف انڈیا 14 ستمبر 1985)

نیوز ویک (12 اگست 1985 ) میں ایک رپورٹ بعنوان (JAPAN: The 40- year Miracle) چھپی ہے۔اس میں 1945 میں جاپان کی کامل بربادی کے چالیس سال بعد اس کی غیر معمولی ترقی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جاپانی قوم افسانوی پرندہ کی طرح خود اپنی راکھ کے اندر سے اٹھ کھڑی ہوئی:

The nation rose like the mythical phoenix from its own ashes.

جاپان کو خود اپنے فاتح کے مقابلے میں یہ کامیابی اس لیے حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی ناکامی کااعتراف کر لیا۔حقیقت کا اعتراف ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔اگرچہ بہت سے نادان لوگ حقیقت کے انکار میں کامیابی کا راز تلاش کرنے لگتے ہیں۔

 

کامیابی کے لیے

ایک تاجر سے پوچھا گیا:کامیابی کیا ہے۔اس نے جواب دیا  :

When you wake up in the morning, jump out of bed and shout: Great, another day. Then You're a success.

صبح کے وقت جب تم جاگو تو کود کر بستر سے نکلو اور چلا کر کہو۔عظیم دوسرا دن ، تب تم ایک کامیابی ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ رات کے بعد ایک نئی صبح کا طلوع ہونا عظیم ترین چیز ہے۔کیوں کہ وہ ہم کو کام کا ایک اور دن دیتا ہے۔جس شخص کے اندر کام کا واقعی جذبہ ہو وہ ایسے ایک دن کو پاکر اچھل پڑے گا۔اور جو شخص کام کا دن پا کر اچھل پڑے وہی اس دنیا میں کوئی بڑا کام کر سکتا ہے۔

زمین پر رات اور دن کا باری باری آنا ساری معلوم کائنات میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔کیوں کہ وسیع کائنات میں یا تو سورج جیسے ستارے ہیں جو آگ کے بہت بڑے الائو کی مانند ہیں۔اور ان میں انسان جیسی زندگی ممکن نہیں۔اس کے بعد جو سیارے یا سیارچے ہیں۔مثلاً مریخ یا چاند، ان کی گردش زمین کے بر عکس، صرف یک طرفہ ہے۔یعنی وہ صرف اپنے مدار پر گھومتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ایک حصہ پر مستقل رات اور ان کے دوسرے نصف حصہ پر مستقل دن رہتاہے۔

زمین وہ استثنائی کرہ ہے جو اپنے مدار پر گھومنے کے علاوہ اپنے محور پر بھی گھومتا ہے۔اس کی وجہ سے اس پر رات اور دن بار باری آتے رہتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کا حیرت انگیز انتظام ہے۔اس طرح اللہ نے انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ دن کے اوقات میں کام کرے اور رات کو اپنی تکان مٹائے۔

آدمی اگر اس پورے نظام پر غور کرے تو زمین پر رات کے بعد دن کا آنا اس کو اتنا عجیب معلوم ہو گا کہ صبح ہوتے ہی وہ واقعۃً بستر سے کود کر کھڑا ہو جائے گا اور خدا کا شکر ادا کرے گا کہ اس نے اس کو کام کا قیمتی موقع عطا فرمایا۔جو لوگ صبح کو ایک قیمتی نعمت سمجھیں وہی لوگ اپنی صبح کو ایک نئے امکان کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

 

کمی کی تلافی

قیصر ولیم دوم (Friedrich William II) 1888 سے لے کر 1918 تک جرمنی کا بادشاہ تھا۔اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر ناقص اور چھوٹا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس کے غیر معتدل مزاج کا سبب اس کا یہی عضو یاتی نقص تھا۔

قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجہ میں پہلی جنگ (1918۔1914) چھڑی۔اس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی۔آخر کار جرمنی کو شکست ہوئی۔اسی کے ساتھ ہی قیصر ولیم کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔قید یا قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا۔وہ ندر لینڈ چلا گیا۔وہاں وہ دوم (Doom) میں خاموشی سے زندگی کے بقیہ دن گزارتا رہا۔ یہاں تک کہ 4 جون 1941 کو 82 سال کی عمر میں مر گیا۔

پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔قیصر ولیم دوم ایک سرکاری دورہ پر سوئز ر لینڈ گیا۔وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئزر لینڈ اگرچہ ایک چھوٹا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے۔اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزر لینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہو ، اگر تمہارے ملک پر حملہ کر دے تو تم کیا کرو گے۔اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا  :

سر، ہمیں بس ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے۔

سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے ۔۔۔وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں۔آپ کی تعداد اگر فریق ثانی کی تعدا دکا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کا ثبوت دے کر زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہو سکتے ہیں۔

زندگی کی جدوجہد میںکبھی کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور کوئی پیچھے ہو جاتا ہے۔کوئی غالب ہو جا تا ہے اور کوئی مغلوب۔مگر اس دنیا کے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ کبھی کسی کے لیے حد نہیں آتی۔یہاں ہر پچھڑے ہوئے کے لیے دوبارہ آگے بڑھنے کا امکان ہے۔ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی زیادہ بڑی مقدار میں عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔

 

بربادی کے بعد بھی

ایک انگریز عالم مسٹر آئن نیش (Ian Nish) جاپان گئے۔انھوں نے وہاں گیارہ سال رہ کر جاپانی زبان سیکھی اور گہرائی کے ساتھ جاپانی قوم کا مطالبہ کیا۔اس کے بعد انھوں نے اپنے مطالعہ اور تحقیق کے نتائج 238 صفحات کی ایک کتاب میں شائع کیا ہے جس کا نام ہے جاپان کی کہانی (The Story of Japan) مصنف لکھتے ہیں :

جاپانی قوم کی زندگی کو جس چیز نے سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ متاثر کیا وہ سیاست نہیں تھی بلکہ کانٹو کا عظیم زلزلہ تھا۔یکم ستمبر 1923 کو زلزلہ کے زبردست جھٹکوں نے مشرقی جاپان کو تہس نہس کر دیا جو کہ جاپان کا سب سے زیادہ آباد علاقہ تھا۔دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945 میں جاپان کی شکست تھی۔جب کہ دو ایٹم بموں نے جاپان کے دو انتہائی بڑے شہروں کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا ’’زلزلہ ‘‘ سے اگر تعمیر نو کا ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔اس کے بر عکس زلزلہ اگر صرف محرومی اور جھنجھلاہٹ کا احساس پیدا کرے تو اس کے بطن سے سیاسی چیخ وپکار وجود میں آتا ہے جو نتیجہ کے اعتبار سے اتنا بے معنی ہے کہ اس سے زیادہ بے معنی کوئی چیز نہیں۔

کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز عمل کا جذبہ ہے۔آدمی کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو جائے تو اس کے اندر کی تمام سوئی ہوئی قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔وہ زیادہ بہتر طور پر سوچتا ہے۔زیادہ کامیاب منصوبہ بناتا ہے اور زیادہ محنت کے ساتھ اپنے کام کی تکمیل میں لگ جاتا ہے۔اس کے بر عکس جس آدمی کے اندر عمل کا جذبہ نہ ابھرے وہ اس طرح سست پڑا رہتا ہے جیسے کوئی مشین غیر متحرک حالت میں خاموش پڑی ہوئی ہو۔اور تجربہ بتاتا ہے کہ اطمینان اور آسودگی کے حالات عام طور پر آدمی کی قوتوں کو سلاتے ہیں ، وہ اس کے اندر بیداری پیدا نہیں کرتے۔اس کے برعکس جب آدمی کی زندگی مشکلوں اور رکاوٹوں سے دو چار ہو تو اس کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو جھٹکا لگتا ہے۔اس کی صلاحیتیں اسی طرح جاگ اٹھتی ہیں جیسے کوئی آدمی بے خبر سو رہا ہو اور اس کے اوپر ایک پتھر گر پڑے۔

تاہم یہ فائدہ کسی کو اپنے آپ نہیں مل جاتا۔ہر معاملہ میں ایک ابتدائی حصہ آدمی کو خود ادا کرنا پڑتا ہے۔جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی ’’ بربادی ‘‘ کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کر دیتا ہے۔وہ یا تو اس سے یہ سبق لے کہ اس کو از سر نو متحرک ہو کر اپنی نئی تعمیرکرنی ہے۔یا اس سے مایوسی اور شکایت کی غذا لے کر سرد آہیں بھرتا رہے۔ابتدائی مرحلہ میں آدمی دونوں میں سے جس رجحان کو اپنا تا ہے اسی رخ پر اس کی پوری زندگی چل پڑتی ہے۔اسی کے مطابق اس کی اندرونی صلاحیتیں اپنا عمل کرنے لگتی ہیں۔جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ا سکو حادثہ کو دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے۔مستقبل کے کسی بھی نتیجہ کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ آدمی حالات کے مقابلہ میں کس قسم کے رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔تعمیر نو کا جذبہ پیدا ہو تو یہ مثبت رد عمل ہے جو لازماً کامیابی تک پہنچاتا ہے اور اگر احتجاج اور شکایت کا ذہن ابھرے تو یہ منفی رد عمل ہے جس کا آخری انجام مزید بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔

 

تم غریب نہیں ، دولت مند ہو

’’بابا پیسہ دے ‘‘فقیر نے آواز لگائی۔سننے والے نے دیکھا تو وہ ہاتھ پائوں کا درست معلوم ہور ہا تھا۔اس نے کہا:تم کو پیسہ کیوں دیا جائے۔فقیر بولا کہ میں غریب ہوں۔آدمی نے کہا:نہیں تم غریب نہیں ہو۔تم بہت دولت مند ہو۔فقیر نے کہا:بابو جی مذاق نہ کیجئے۔میرے پاس دولت کہاں۔میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔میں تو بالکل غریب ہوں۔آدمی نے کہا:اچھا تمھارے پاس جو کچھ ہے مجھے دے دو، میں اس کے بدلے تم کو پچاس ہزار روپے دیتا ہوں ۔ فقیر نے اپنی جھولی کندھے سے اتاری اور کہا:میرے پاس تو بس یہی ہے۔اس کو آپ لے لیجئے۔آدمی نے کہا:نہیں تمھارے پاس اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔تمھارے پاس دو پائو ں ہیں۔ایک پائوں تم مجھ کو دے دو اور مجھ سے دس ہزار روپے لے لو۔فقیر نے دینے سے انکار کیا۔اب آدمی نے کہا:اچھا تمھارے پاس دو ہاتھ ہیں۔ایک ہاتھ تم مجھ کو دے دو اور مجھ سے 20 ہزار روپے لے لو۔فقیر نے دوبارہ دینے سے انکار کیا۔آدمی نے کہا:اچھا تمھارے پاس دو آنکھیں ہیں۔ایک آنکھ تم مجھ کو دے دو اور مجھ سے 20 ہزار روپے لے لو۔فقیر نے اب بھی دینے سے انکار کیا۔آدمی نے کہا: دیکھو تمھارے پاس دو پائوں ، دو ہاتھ اور دو آنکھیں ہیں۔میں نے صرف ایک ایک کے دام لگائے تو پچاس ہزار روپے ہو گئے۔اگر دونوں پائوں ، دونوں ہاتھ اور دونوں آنکھوں کا دام لگایا جائے تو ان کی قیمت ایک لاکھ روپے ہو جائے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو تمھارے پاس جسم ہے جس میں بے شمار چیزیں ہیں اس کی صرف تین چیزوں کا دام بھی کم سے کم ایک لاکھ روپیہ ہے۔پھر تم غریب کیسے ہو۔تم تو بہت بڑے دولت مند ہو۔تم بھیک مانگنا چھوڑ دو اور اپنی اس قیمتی دولت کو استعمال کرو۔تم سے زیادہ کامیاب دنیا میں کوئی نہ ہو گا۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عجیب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔عام حالات میں اس کا انداز ہ نہیں ہوتا۔ البتہ کوئی چیز نہ رہے تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسی قیمتی تھی۔جیمز ٹامس دہلی کا ایک مشین آپریٹر ہے۔اس کی عمر 24 سال ہے۔بیماری کی وجہ سے اس کے دونوں گرد ے خراب ہو گئے۔اس نے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے لیے زندگی کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ کسی شخص سے ایک گردہ بطور عطیہ حاصل کرے ، گردہ ایک خالص قدرتی پیداوار ہے۔کسی انسانی کارخانہ میں کھرب ہا کھرب روپیہ خرچ کر کے بھی گردہ بنایا نہیں جا سکتا۔تاہم یہ قیمتی گردہ اگر کوئی شخص بطور عطیہ دے دے تو ڈاکٹروں کی فیس اور سر جری کے اخراجات چھوڑنے کے بعد بھی جیمز ٹامس کو 45 ہزار روپے درکار تھے تاکہ یہ گردہ اس کے جسم میں نصب کیا جا سکے (ٹائمس آف انڈیا 10جنوری 1980) حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے پاس کچھ نہ ہو تب بھی اس کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے۔یہ جسم اور یہ دماغ جو ہم کو ملا ہوا ہے ، یہ تمام قیمتی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔آدمی اگر اپنے جسم ودماغ کی صلاحیتوں کو بھر پور استعمال کرے تو وہ دنیا کی ہر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔کوئی چیز اس کے لیے نا ممکن نہیں۔اگر آپ کے پاس ہاتھ ہے جس سے آپ پکڑیں اور پائوں ہے جس سے آپ چلیں۔آپ کے پاس آنکھ ہے جس سے آپ دیکھیں اور زبان ہے جس سے آپ بولیں تو گویا آپ کے پاس سب کچھ ہے۔کیوں کہ ان کے ذریعہ سے دنیاکی تمام چیزیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ کوئی چیز بھی ان کے دائرہ سے باہر نہیں۔

 

کمزوری نعمت ثابت ہوئی

گاندھی جی اپنی کتاب تلاش حق (My Experiments with Truth) میں لکھتے ہیں کہ وہ پیدائشی طور پر شرمیلے تھے۔ان کا یہ مزاج بہت عرصہ تک باقی رہا۔جب وہ تعلیم کے لیے لندن میں تھے تو وہ ایک ویجیٹیرین سوسائٹی کے ممبر بن گئے۔ایک بار انھیں سوسائٹی کی میٹنگ میں تقریر کے لیے کہا گیا۔وہ کھڑے ہوئے۔مگر کچھ بول نہ سکے۔ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اپنے خیالات کو کس طرح ظاہر کریں ۔ بالآخر وہ شکریہ کے چند کلمات کہہ کر بیٹھ گئے۔ایک اور موقع پر ان کو مدعو کیا گیا کہ وہ سبزی خوری کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کریں۔اس بار انھوں نے اپنے خیالات ایک کاغذ پر لکھ لیے۔مگر جب وہ کھڑے ہوئے تو وہ اپنا لکھا ہوا بھی نہ پڑ ھ سکے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک شخص نے مدد کی اور ان کی لکھی ہوئی تحریر  کو پڑھ کر سنایا۔

گاندھی جی نے وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد بمبئی میں پریکٹس شروع کی۔مگر یہاں بھی ان کا شرمیلا پن ان کے لیے رکاوٹ بن گیا۔پہلا کیس لے کر جب وہ جج کے سامنے کھڑے ہوئے تو حال یہ ہواکہ ان کا دل بیٹھنے لگا اور وہ کچھ بول نہ سکے۔چنانچہ انھوں نے اپنے موکل سے کہا کہ میں تمھارے کیس کی وکالت نہیں کر سکتا۔تم کوئی دوسرا وکیل تلاش کر لو۔

بظاہر یہ سب کمی کی باتیں ہیں۔مگر گاندھی جی لکھتے ہیں کہ یہ کمیاں بعد کو میرے لیے بہت بڑی نعمت (Advantage) ثابت ہوئیں۔اس سلسلے میں ان کے الفاظ یہ ہیں  :

My hesitancy in speech, which was once an annoyance is now a pleasure, its greatest benefit has been that it has taught me the economy of words. I have naturally formed the habit of restraining my thoughts. And I can now give myself a certificate that a thoughtless word hardly ever escaped my tongue or pen.

 بولنے میں میری یہ ہچکچاہٹ جو کبھی مجھے تکلیف دہ معلوم ہوتی تھی ، اب وہ میرے لیے ایک مسرت ہے ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو اکہ اس نے مجھے مختصر الفاظ میں بولنا سکھایا۔میرے اندر فطری طور پر یہ عادت پیدا ہو گئی کہ میں اپنے خیالات پر قابو رکھوں۔اب میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بمشکل ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لا یعنی لفظ میری زبان یا قلم سے نکلے۔

گاندھی جی اپنی اس خصوصیت میں مشہور ہیں کہ وہ بہت سوچی سمجھی بات بولتے تھے اور سادہ اور مختصر الفاظ میںکلام کرتے تھے۔مگر یہ امتیازی خصوصیت ان کو صرف ایک غیر امتیازی خصوصیت کے ذریعہ حاصل ہوئی۔وہ یہ کہ وہ اپنے بڑھے ہوئے شرمیلے پن کی وجہ سے ابتداء ً لوگوں کے سامنے بول ہی نہیں پاتے تھے ۔

 

سڑک بند ہے

سڑک کی مرمت ہو رہی ہو تو سڑک کے درمیان میں ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’’سڑک بند ہے ‘‘ مگر اس کامطلب کبھی یہ نہیں ہوتا کہ سرے سے راستہ بند ہو گیا ہے اور اب آنے جانے والے اپنی گاڑی روک کر کھڑے ہو جائیں۔اس کامطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ’’ یہ سامنے کی سڑک بند ہے ‘‘ ہر شخص کو اس قسم کے بورڈ کے معنی معلو م ہیں۔چنانچہ سواریاںجب وہاں پہنچ کر بورڈکو دیکھتی ہیں تو وہ ایک لمحہ کے لیے نہیں رکتیں۔وہ دائیں بائیں گھوم کر اپنا راستہ نکال لیتی ہیں اور آگے جا کر دوبارہ سڑک پکڑ لیتی ہیں۔اور اگر کسی وجہ سے دائیں بائیں راستہ نہ ہو تب بھی سواریوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔وہ ا طراف کی سڑکوں سے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔کچھ دور آگے جا کر دوبارہ انھیں اصل سڑک مل جاتی ہے اور اس پر اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے وہ منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔اس طرح کچھ منٹوں کی تاخیرتو ضرور ہو سکتی ہے۔مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ان کا سفر رک جائے یا وہ منزل پر پہنچنے میں ناکام رہیں۔

یہی صورت زندگی کے سفر کی بھی ہے۔زندگی کی جدوجہد میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ اس کا راستہ بند ہے۔مگر اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ سامنے کا راستہ بند ہے نہ کہ ہر طرف کا راستہ بند۔جب بھی ایک راستہ بند ہوتو دوسرے بہت سے راستے کھلے ہوئے ہو ںگے۔عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے سامنے ’’ سڑک بند ہے ‘‘ کا بورڈ دیکھ کر رک نہ جائے بلکہ دوسرے راستے تلاش کر کےاپنا سفر جاری رکھے۔

ایک میدان میں مواقع نہ ہوں تو دوسرے میدان میں اپنے لیے مواقع کار تلاش کر لیجئے۔حریف سے براہ راست مقابلہ ممکن نہ ہو تو بالواسطہ مقابلہ کا طریقہ اختیار کیجئے۔آگے کی صف میں آپ کو جگہ نہ مل رہی ہو تو پیچھے کی صف میں اپنے لیے جگہ حاصل کر لیجئے۔ٹکرائو کے ذریعہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہ آتا ہو تو مصالحت کے ذریعہ مسئلہ کے حل کی صورت نکال لیجئے۔دوسروں کا ساتھ حاصل نہ ہو رہا ہو تو تنہا اپنے کام کا آغاز کر دیجئے۔چھت کی تعمیر کا سامان نہ ہو تو بنیاد کی تعمیر میں اپنے کو لگا دیجئے۔بندوں سے ملتا ہوا نظرنہ آتا ہو توخدا سے پانے کی کوشش کیجئے ۔۔۔۔ہر بند سڑک کے پاس ایک کھلی سڑک بھی ہوتی ہے ۔ مگر اس کو وہی لوگ پاتے ہیں جو آنکھ والے ہوں۔

 

افسوس نہ کیجئے

امریکہ کے ایک نفسیاتی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں اپنا وقت برباد کرتا ہے وہ افسوس ہے۔اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کی تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں۔وہ یہ سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تومیرا جو کام بگڑ گیا وہ نہ بگڑتا۔اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا۔وغیرہ۔

اس قسم کے احساسات میں جینا اپنے وقت اور قوتوں کو ضائع کرنا ہے۔گزرا ہوا موقع دوبارہ واپس نہیں آتا ، پھر اس کا افسوس کیوں کیا جائے۔مذکورہ ڈاکٹر کے الفاظ میں بہترین بات یہ ہے کہ ہر ایسے موقع پر آپ یہ کہیں کہ اگلی بار میں اس کا م کو دوسرے ڈھنگ سے کروں گا:

Next time I'll do it differently

جب آپ ایسا کریں گے تو آپ گزرے ہوئے معاملہ کو بھول جائیں گے۔آپ کی توجہ جو اس سے پہلے ماضی کی بے فائدہ یاد میں لگی ہوئی تھی ، وہ مستقبل کے متعلق غوروفکر اور منصوبہ بندی میں لگ جائے گی ( ریڈرز ڈائجسٹ ستمبر 1981)

اس کا نقد فائدہ یہ حاصل ہو گا کہ آپ افسوس اور کڑھن میں اپنی قوتیں ضائع کرنے سے بچ جائیں گے۔جو چیزاس سے پہلے آپ کے لیے صرف تلخ یا دبنی ہوئی تھی ، وہ آپ کے لیے ایک قیمتی تجربہ کی حیثیت اختیار کرلے گی ، ایک ایسا تجربہ جس میں مستقبل کے لیے سبق ہے ، جس میں آئندہ کے لیے نئی روشنی ہے۔

افسوس یا غم بیشتر حالات میں یا ماضی کے لیے ہوتے ہیں یا مستقبل کے لیے۔آدمی یا تو کسی گزرے ہوئے نقصان کا افسوس کرتا رہتا ہے یا ایسے واقعہ کا غم جس کے متعلق اسے اندیشہ ہو کہ وہ آئندہ پیش آئے گا۔مگر یہ دونوں ہی غیر ضروری ہیں۔جو نقصان ہو چکا وہ ہو چکا۔اب وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں۔پھر اس کا غم کرنے سے کیا فائدہ۔اور جس واقعہ کا اندیشہ ہے وہ بہرحال ایک امکانی چیز ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی جس خطرہ کا اندیشہ کرے وہ عین اس کے اندیشہ کے مطابق پیش آجائے۔

 

ناکامی زینہ بن گئی

اسپنسرس مدراس شہر کی ایک بہت مشہور دکان ہے۔اک بار آگ نے اس دکان کو برباد کر دیا۔مگر اس نے بہت جلد اپنی تجارت دوبارہ بحال کر لی۔اس طرح کہ اس نے اپنی دکان کے سامنے ایک تختہ لگا دیا جس پر لکھا ہوا تھا یقین جانئے ، ہماری دکان آج واحد دکان ہے جہاں صرف تازہ مال موجود ہے  :

When a fire devastated Spencer’s, Madras city's most famous store, it quickly regained business by putting up a sign reading: "You bet ours is the only store today with nothing but fresh stock."

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدمی بربادی سے دو چار ہونے کے بعد اگر اپنی عقل کو نہ کھوئے تو وہ نہ صرف دوبارہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔بلکہ اپنی ناکامی کو اپنے لیے نئی کامیابی کا زینہ بنا سکتا ہے۔مدراس کی مذکورہ دکان آگ سے جل کر تباہ ہو گئی تھی۔بظاہر یہ بربادی کا واقعہ تھا۔مگر اس واقعہ کو دکاندار نے زینہ کے طور پر استعمال کیا۔

دکان کے آگ میں جل جانے کے معنی یہ ہیں کہ پچھلا سامان جو دکان میں تھا سب ختم ہو چکا ہے ۔ اب دکاندار نے فوراً سامان لا کر دکان میں رکھ دیا اور پھر خریدار کی اس نفسیات کو استعمال کیا کہ وہ ہمیشہ تازہ بنا ہوا مال پسند کرتا ہے۔اس نے جب مذکورہ اعلان کیا تو عوام نے فوراً اس کو صحیح سمجھ لیا۔کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ دکان آگ میں جل کر تباہ ہو چکی ہے۔انھوں نے یقین کر لیا کہ اس کا سب سامان بالکل نیا ہے۔اور خریداری کے لیے ٹوٹ پڑے۔گزرے ہوئے نقصان کو اس نے بہت جلد زیادہ بکری کے ذریعہ حاصل کر لیا۔

اس دنیامیں اس وقت بھی ایک نیا امکان چھپا ہوا موجود ہوتا ہے جب کہ آدمی کا اثاثہ جل کر راکھ ہو گیا ہو۔آدمی کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی مایوس نہ ہو۔بربادی سے دو چار ہونے کے بعد فوراً ہی وہ اپنی عقل کو نئی راہ تلاش کرنے میں لگا دے۔وہ پائے گا کہ جہاں اس کے لیے ایک امکان ختم ہوا تھا وہیں دوسرا زیادہ بہتر امکان اس کا انتظار کر رہا ہے۔جہاں ایک تاریخ ختم ہوئی تھی وہیں اس کے لیے ایک نئی تاریخ شروع ہو گئی۔

 

سمجھ دار کون

ڈیل کارنیگی (Dale Carnegie) نے کہا کہ زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں ہے۔ہر بیوقوف آدمی ایسا کر سکتا ہے۔حقیقی معنوں میں اہم چیز یہ ہے کہ تم اپنے نقصانات سے فائدہ اٹھائو۔اس دوسرے کام کے لیے ذہانت درکار ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایک سمجھدار اور ایک بے وقوف کے درمیان فرق کرتی ہے  :

The most important thing in life is not to capitalize on your gains. Any fool can do that. The really important thing is to profit from your losses. That requires intelligence; and it makes the difference between a man of sense and a fool.

اس دنیا میں اتفاقاً ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی صرف کامیابیوں کے درمیان ہو ، اور اس کے لیے اس کے سوا اور کوئی کام نہ ہو کہ وہ بس کامیابیوں سے بے روک ٹوک فائدہ اٹھاتا رہے۔بیشتر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مشکلوں اور نقصانات کے درمیان پاتا ہے۔اور اس کو مشکلوں اور نقصانات سے گزرتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنا پڑتا ہے۔

اس دنیامیں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس ہوش مندی کا ثبوت دیں کہ وہ ناموافق حالات کی شکایت کرنے کے بجائے ناموافق حالات کا استقبال کرنا جانتے ہیں۔جو مشکلوں کے خلاف فریاد کرنے کے بجائے مشکلوں کو حل کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔

ـ’’ نقصان سے فائدہ اٹھانا ‘‘ یہی واحد خصوصیت ہے جو اس دنیا میںکسی کو کامیاب کرتی ہے ، کوئی فرد ہو یا کوئی قوم ، دونوں کو اس دنیامیں اسی ایک امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اس دنیامیں کامیاب وہ نہیں ہے جس کو مشکلیں پیش نہ آئیں۔یہاں کامیاب وہی ہے جو مشکلوں کے باوجود کامیاب ہو سکے ۔ یہاں منزل پر وہ پہنچتا ہے جو راستہ کی دشواریوں کے باوجود اپنا سفر طے کر سکے۔

 

تاریخ سازی

بی ٹکمین (B. Tuchman) کا قول ہے کہ تاریخ غلط اندازہ کا ظہور ہے  :

History is the unfolding of miscalculation.

اس کا مطلب یہ ہے کہ حال کے اعتبار سے مبصرین تاریخ کے بارہ میں ایک رائے قائم کر تے ہیں۔مگر حال جب مستقبل بنتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندازے بالکل غلط تھے۔مستقبل اکثر حالات میں اس سے مختلف صور ت میں ظاہر ہوتا ہے جو ابتدائی طور پر سمجھنے والوں نے اس کے بارے میں سمجھا تھا۔

مثال کے طور پر  6     ؁ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔اس وقت قریش کے تمام لوگوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں نے خود اپنے خاتمہ کے کاغذ پر دستخط کر دئیے ہیں۔مگر بعد کے سالوں نے بتایا کہ اس بظاہر ہار میں فتح کا عظیم مستقبل چھپا ہوا تھا۔موجودہ زمانہ میں 45 19 میں جب امریکہ کے جنگی جہاز فضا میں چنگھاڑتے ہوئے جاپان پر ایٹم بم گرانے کے لیے روانہ ہوئے تو امریکہ کا اندازہ یہی تھا کہ وہ جاپان کو ہمیشہ کے لیے راکھ کا ڈھیر بنا رہا ہے۔مگر اس واقعہ کے 40 سال بعد لوگوں نے دیکھا کہ جاپان دنیا کی سب سے بڑی صنعتی طاقت بن کر ابھر آیا ہے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کو بنانے والا خود انسان نہیں ، یہ دراصل خدا ہے جو انسانی تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایک یا دوسری صورت دیتا ہے۔تاریخ کی صورت گری کا فیصلہ غیب سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہری احوال سے۔

تاریخ کے اس مطالعہ میں ان لوگوں کے لیے تسلی کا سامان ہے جن کے متعلق دنیا کے مبصرین سمجھ لیں کہ وہ بجھ چکے ہیں یا ان کو مٹایا جا چکا ہے۔کیوں کہ واقعات بتاتے ہیں کہ اس دنیامیں بظاہر بجھی ہوئی راکھ سے شرارے ظاہر ہو جاتے ہیں۔یہاں ایک مٹی ہوئی شئی دوبارہ زندہ اور طاقتور بن کر زمین پر کھڑی ہو جاتی ہے ۔یہاں بظاہر ایک ختم شدہ طاقت (Spent force) ازسرِ نو زندہ طاقت بن جاتی ہے۔

ظاہری حالات سے کبھی مایوس نہ ہوں۔عین ممکن ہے کہ تاریخ اگلا ورق الٹے تو ایسا انجام سامنے آئے جو ظاہری حالات سے بالکل مختلف ہو۔

 

کوئی چیز مشکل نہیں

ہیرا ہماری تمام معلوم دھاتوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔دنیا کی کوئی چیز ہیرے سے زیادہ سخت نہیں ہوتی۔شیشہ کا فریم بنانے والے کو آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ ’’ قلم ‘‘ کی صورت کی ایک چیز شیشہ کے تختہ پر گزارتا ہے اور شیشہ کٹ کر دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔اس قلم میں ہیرے کا ٹکڑا لگا ہوتا ہے ۔ ایسا اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ ہیرا انتہائی سخت چیز ہے ، خواہ وہ قدرتی ہو یا مصنوعی۔

تمام دوسری معدنیات کے بر عکس ہیرے پر کسی قسم کا ایسڈ (تیزاب ) اثر نہیں کرتا۔آپ ہیرے کو خواہ کسی بھی تیزاب میں ڈالیں وہ ویسا کا ویسا باقی رہے گا۔مگر اسی سخت ترین ہیرے کو اگر ہوا کی موجودگی میں خوب گرم کیا جائے تو وہ ایک بے رنگ گیس بن کر اڑ جائے گا۔اور یہ گیس کا ربن ڈائی آکسائڈ ہو گی۔

اسی طرح ہر چیز کا ایک ’’ توڑ‘‘ ہوتا ہے۔اگر آپ کسی مشکل کا مقابلہ وہاں کریں جہاں وہ اپنی سخت ترین حیثیت رکھتی ہے تو ممکن ہے کہ آپ کی کوشش کامیاب نہ ہو گی۔مگر کسی دوسرے مقام سے آپ کی یہی کوشش انتہائی حد تک نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔

جب بھی آپ کا مقابلہ کسی مشکل سے پیش ا ٓئے تو سب سے پہلے یہ معلوم کیجئے کہ اس کا کمزور مقام کون سا ہے۔اور جو اس کا کمزور مقام ہو وہیں سے اپنی جدوجہد شروع کر دیجئے۔ایک چیز کسی اعتبار سے ناقابل شکست ہو سکتی ہے۔مگر وہی چیز دوسرے اعتبار سے آپ کے لیے موم ثابت ہو گی۔

ایک شخص جس کو آپ کڑوے بول سے اپنا موافق نہ بنا سکے اس کو آپ میٹھے بول سے اپنا موافق بنا سکتے ہیں۔اپنے جس حریف کو آپ لڑائی کے ذریعہ دبانے میں کامیاب نہ ہو سکے اس کو آپ اخلاق اور شرافت کے ذریعہ دبانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ایک ماحول جہاں آپ مطالبہ اور احتجاج کے ذریعہ اپنا مقام حاصل نہ کر سکے وہاں آپ محنت اور لیاقت کے ذریعہ اپنا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

ہیرا تیزاب کے لیے سخت ہے مگر وہ آنچ کے لیے نرم ہو جاتا ہے۔یہی معاملہ انسان کا بھی ہے ۔ ایک آدمی اگر ایک اعتبار سے سخت نظر آئے تو اس کو ہمیشہ کے لیے سخت نہ سمجھ لیجئے۔اگر وہ ایک اعتبار سے سخت ہے تو دوسرے اعتبار سے نرم بھی ہو سکتا ہے۔

ہر چیز کا یہ حال ہے کہ وہ کسی اعتبار سے سخت ہے اور کسی اعتبار سے نرم۔ایک شخص ایک انداز سے معاملہ کرنے میں بے لچک نظر آتا ہے مگر وہی دوسرے انداز سے معاملہ کرنے میں ہر شرط پر راضی ہو جاتا ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننے میں زندگی کی تمام کامیابیوں کاراز چھپا ہوا ہے۔

حکمت

 

جواب کا صحیح طریقہ

مولانا محمدہاشم القاسمی نے بتایا کہ وہ ایک مقام پر گئے۔وہاں ایک مسجد میں انھوں نے نماز پڑھی۔اس کے بعد وہ وہاں بیٹھ گئے۔اس وقت وہاں تقریبا پندرہ آدمی تھے۔الرسالہ کا ذکر آیا تو حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا’’ ہاں میں الرسالہ کو جانتا ہوں۔وہ تو ایک نیم مذہبی پرچہ ہے اس کو خالص دینی پرچہ نہیں کہہ سکتے ‘‘۔

اس کے بعد انھوں نے بآواز بلند الرسالہ کے خلاف تقریر شرو ع کر دی۔تاہم مولانا قاسمی صاحب برہم نہیں ہوئے۔انھوں نے خاموشی سے اپنی جیب سے تین روپیہ نکالا اور اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ بازار میں فلاں اسٹال پر الرسالہ فروخت ہو رہا ہے۔وہاں سے ایک شمارہ لے کر آجائو۔آدمی نے پوچھا کہ کس مہینہ کا شمارہ۔انھوں نے کہا جس مہینہ کا بھی مل جائے۔تھوڑی دیر کے بعد جولائی 1982 کا شمارہ ان کے ہاتھ میں تھا۔

اب مولانا قاسمی نے کہا :دیکھئے یہ جولائی 1982 کا الرسالہ ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس کے اوراق کھول کھول کر ایک ایک سرخی پڑھنی شروع کی اور مذکورہ بزرگ سے پوچھا کہ بتائے ان میں سے کون سا مضمون آپ کے خیال میں نیم مذہبی ہے۔عنوانات یہ تھے:جنت کا دروازہ ، روزہ کی حقیقت، ہر طرف فریب ، شناختی کارڈ کے بغیر۔

’’ شناختی کارڈ کے بغیر ‘‘کے  الفاظ سُن کر مذکورہ بزرگ فوراً بولے۔اس کو دیکھئے یہ نیم مذہبی نہیں تو اور کیا ہے۔شناختی کارڈ کا دین اور مذہب سے کیا تعلق۔

مولانا قاسمی نے کہا کہ آپ کے بیان کے مطابق یہ مضمون یقینی طور پر نیم مذہبی ہے۔اب میں اس مضمون کو پڑھتا ہوں۔آپ بھی سنیں اور سب حاضرین سنیں اوراس کے بعد فیصلہ کریں۔

اس مضمون کا تقریباً نصف حصہ ایک واقعہ پر مشتمل ہے۔مولانا قاسمی جب نصف تک پہنچے تو مذکورہ بزرگ نے پھر بولنا شروع کیا۔مولانا قاسمی نے کہا آپ تھوڑی دیر رکئے۔میں پورا مضمون پڑھ دوں۔اس کے بعد آپ تبصرہ کریں۔اس کے بعد انھوں نے اگلی سطریں پڑھنی شروع کیں تو وہ سراسر آخرت سے متعلق تھا ، اب جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہے تھے مذکورہ بزرگ ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے، یہاں تک کہ جب مضمون ختم ہوا تو وہ بالکل لا جواب ہو چکے تھے۔تمام حاضرین کہہ اٹھے کہ یہ تو سراسر مذہبی بات ہے۔اور نہایت موثر انداز میں ہے۔پھر اس پر اعتراض کیا۔

 

عقل کا استعمال

ایک صاحب پرنٹنگ پریس کا کام کرتے تھے۔انھوں نے دہلی کے ایک سفارت خانہ کو اپنے کام سے اتنا گرویدہ بنا لیا کہ لمبے عرصہ تک اس سفارت خانہ نے اپنا چھپائی کا کام ان کے سوا کسی دوسرے پریس کونہیں دیا۔

کوئی شخص جب پریس میں چھپنے کے لیے کتاب دیتا ہے تو اصل کتاب چھپنے سے پہلے پریس اس کو اس کا پروف دکھاتا ہے۔پروف عام طور پر معمولی ڈھنگ سے بڑے بڑے کا غذ پر نکالے جاتے ہیں۔اور منتشر اوراق کی صورت میں نا شر کو دے دئے جاتے ہیں۔چنانچہ یہ پروف اصل چھپی ہوئی کتاب کا نہایت ناقص نمونہ ہوتے ہیں۔ان سے چھپائی کی صحت اور غلطی تو معلوم کی جا سکتی ہے۔مگر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ کتاب چھپنے کے بعد کیسی ہو گی۔

مذکورہ پریس کے مالک کو پہلی بار سفارت خانہ سے ایک کتاب چھاپنے کو ملی تو انھوں نے پروف پیش کرنے کا نیا انداز اختیار کیا۔انھوں نے تمام اوراق باقاعدہ پریس میں چھاپ کر نکالے ان کو عام طریقہ کے خلاف دونوں طرف چھاپا۔اس طرح پوری کتاب کا ہر فارم اچھے کاغذ پر چھاپ کر اس کو کتاب کی طرح موڑ اور اس کی جلد بندی کرا کے پوری کتاب کا ایک پیشگی نمونہ تیار کر دیا۔انھوں نے پروف کے بجائے یہ کتاب سفارت خانہ کے سامنے پیش کی۔سفارت خانہ کے ذمہ دار اس باقاعدگی کو دیکھ بہت خوش ہوئے اور اپنا چھپائی کا تمام آڈران کے حوالے کر دیا۔

چند سال کے بعد ایسا ہو اکہ کسی دوسرے پریس نے سفارت خانہ والوں سے کہا کہ جس پریس سے آپ چھپواتے ہیں وہ آپ سے زیادہ دام چارج کرتا ہے۔آپ ہم کو اپنی فرمائش دیں ، ہم کم نرخ پر ویسی ہی کتاب چھاپ کر آپ کو دیں گے۔سفارت خانہ والے اس کے کہنے میں آگئے اور آزمائشی طور پر ایک کتاب کی چھپائی کا کام اس کے حوالے کر دیا۔کچھ دنوں بعد جب پریس کی طرف سے کتاب کے پروف آئے تو وہ عام قاعدہ کے مطابق معمولی کاغذ کے ایک پلندے کی صورت میں تھے ۔ نیز زیادہ اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے چھپائی بھی ویسی نہ تھی جیسی اصل کتاب کی ہوتی ہے۔یہ پروف جب سفارت خانہ کے ذمہ دار کے سامنے آئے تو وہ ان کو دیکھ بگڑ گیا۔وہ سمجھا کہ کتاب کی چھپائی کا معیار بھی یہی ہو گا۔اس نے اس کو نا اہل سمجھ کر اس کو دیا ہوا آڈر منسوخ کر دیا اور دوبارہ سابقہ پریس سے فرمائش کی کہ وہ اس کا کام کرے۔اگر آپ کے اندر کوئی جوہر ہے تو اس کی قیمت بہر حال آپ کو مل کر رہے گی۔

 

لچک بھی ضروری ہے

دکان دار کے یہاں ایک آدمی آیا۔اس کو کپڑا خریدنا تھا۔کپڑا اس نے پسند کر لیا مگر دام کے لیے تقریباً آدھ گھنٹہ تک تکرار ہوتی رہی۔نہ دکاندار کم کرنے پر راضی ہوتا تھا نہ خریدار بڑھانے پر ۔آخر دکاندار نے اسی قیمت میں کپڑا دے دیا جس پر گاہک اصرار کر رہا تھا۔

ایک بزرگ اس وقت دکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔جب گاہک چلا گیا تو انھوں نے کہا جب تمہیں گاہک کی لگائی ہوئی قیمت پر کپڑا دینا تھا تو پہلے ہی دے دیا ہوتا۔آخر اتنی دیر تک اس کا اور اپنا وقت کیوں ضائع کیا۔’’ حضرت آپ سمجھے نہیں ‘‘ دکاندار نے کہا ’’ میں اس کو پکا کر رہا تھا۔اگر میں اس کی لگائی ہوئی قیمت پر فوراً سودا دےدیتا تو وہ شبہ میں پڑ جاتا اور خریدے بغیر واپس چلا جاتا۔اس کے علاوہ میں یہ اندازہ کر رہا تھا کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے۔جب میں نے دیکھا کہ وہ اس سے آگے بڑھنے والانہیں ہے تو میں نے اس کو کپڑا دے دیا۔

جب دو فریقوں کے درمیان مقابلہ ہو تو لازماً ایسا ہوتاہے کہ ہر فریق اپنی اپنی مرضی کے مطابق معاملہ طے کرانا چاہتا ہے۔ایسے موقع پر بلا شبہ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اپنی مانگ پر اصرار کیا جائے ۔ مگر اسی کے ساتھ عقل مندی ہی کا دوسرا لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی اپنی حدود کو جانے اور اس کے لیے تیار رہے کہ بالآخر کہاں پہنچ کر اس کو راضی ہو جانا ہے۔

اس اصول کو ایک لفظ میں توافق (Adjustment) کہہ سکتے ہیں۔یہ توافق زندگی کا ایک راز ہے۔یہ موجودہ د نیا میں کامیابی کا اہم ترین اصول ہے۔اس اصول کی اہمیت ذاتی معاملات کے لیے بھی ہے اور قومی معاملات کے لیے بھی۔

اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جاننے کے ساتھ دوسروں کو بھی جانے۔موجودہ دنیا میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو دو طرفہ تقاضوں کی رعایت کر سکے۔جو شخص یک طرفہ طور پر صرف اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑے اس کے لیے موجودہ دنیا میں ناکامی اور بربادی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔

 

مشتعل نہ ہو

برٹر ینڈر سل ایک انتہائی آزاد خیال آدمی تھا۔وہ اکثر ایسی غیر روایتی باتیں کرتا تھا جس سے قدامت پسند طبقہ بگڑ جاتا۔اپنے ایک لیکچر کے دوران پیش آنے والا واقعہ وہ اس طرح نقل کرتا ہے  :

A man rose in fury, remarking that I looked like a monkey; to which I replied, 'Then you will have the pleasure of hearing the voice of your ancestors'.

ایک آدمی طیش میں آکر کھڑا ہو گیا۔اس نے کہا کہ میں ایک بندر دکھائی دیتا ہوں۔میں نے اس کو جواب دیا پھر تو آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ آپ اپنے پرکھوں کی آواز سُن رہے ہیں ۔( آٹو بیاگرافی ، صفحہ 565)

برٹر ینڈر سل کا یہ جواب نظر یہ ارتقاء کے پس منظر میں ہے۔اس نظریہ کے مطابق انسان بندر کی نسل سے ہے۔تاہم یہاں ہم کو اس نظریہ کی صحت سے بحث نہیں۔یہ واقعہ ہم نے اس لیے نقل کیا ہے کہ یہ غیر مشتعل انداز میں جواب دینے کی ایک اچھی مثال ہے۔جب کوئی شخص آپ کے خلاف کوئی سخت جملہ کہے یا آپ پر تیز وتند تنقید کرے تو اس وقت ایک صورت یہ ہے کہ آپ اس کو سُن کر بگڑ جائیں اور اس کی سخت بات کاسخت اور شدید انداز میں جواب دیں۔یہ جواب دینے کا غیر سنجیدہ طریقہ ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اشتعال انگیز بات سن کر مشتعل نہ ہوں۔کوئی شخص خواہ کتنی ہی سخت کلامی کرے آپ اپنے توازن کو باقی رکھیں۔آپ کا جواب رد عمل کا جواب نہ ہو بلکہ مثبت طور پر سوچا سمجھا ہواجواب ہو۔

جواب کا پہلا انداز صرف اشتعال میں اضافہ کرتا ہے۔جب کہ دوسرا انداز اشتعال کو ٹھنڈا کرنے والا ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے آگ پر پانی ڈال دیا جائے۔

مزید یہ کہ دوسرا طریق جواب قائل کو خاموش کرنے کی بہترین تدبیر ہے۔مذکورہ واقعہ میں برٹرینڈر سل کا جواب جتنا موثر ثابت ہوا وہ اس وقت کبھی اتنا موثر نہ ہوتا جب کہ برٹر ینڈرسل نے رد عمل والا جواب دیا ہوتا۔

 

محفوظ سفر

جولائی 1969 میں امریکہ نے انسان بردارراکٹ چاند کی طرف بھیجا تھا۔اس راکٹ کی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ جب اس کی پہلی منزل کا انجن داغا گیاتو ایک بے حد ہولناک آواز پیدا ہوئی۔یہ آواز اتنی تیز تھی کہ اس نے ایک سو میل کے رقبہ کو ہلا دیا۔مگر جو خلا باز اس راکٹ میں سفر کر رہے تھے ، ان کو صرف دس سیکنڈ بعد یہ آواز سنائی دینا بند ہو گئی۔وہ کان کے پردے پھاڑ دینے والی اس آواز سے محفوظ ہو کر اپنے سفر پر رواں ہو گئے۔

ایسا کیوں کر ہوا۔اس کی وجہ انسان بردار راکٹ کی تیز رفتاری تھی۔آواز معمولاً ہوا کے ذریعہ پھیلتی ہے ، اس لیے اس کی رفتار سات سو میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔جب کہ راکٹ کی رفتار 25 ہزار میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ تھی۔رفتار کے اس فرق کی وجہ سے ایسا ہواکہ صرف دس سیکنڈ بعد راکٹ اس خوفناک آواز کی زد سے باہر جا چکا تھا۔آواز سات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی اور راکٹ 25 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ رہا تھا۔اس فرق کا یہ نتیجہ ہوا کہ ابتدائی لمحات کے بعد راکٹ کے پھٹنے کی آواز خلا بازوں کے کنٹرول روم تک پہنچنا بند ہو گئی۔خلا باز بھیانک آواز پیدا کرنے والی سواری میں سفر کر رہے تھے۔مگر اس کے باوجود اس کی بھیانک آواز سے ان کے کان محفوظ تھے ۔

اسی طرح ہر شخص اور ہر قوم کی زندگی میں یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ناخوش گوار حالات اس کا پیچھا کرتے ہیں۔اب اگر وہ اپنی جدوجہد کی رفتار اتنی تیز کر لے کہ نا خوش گوار حالات کے مقابلہ میں اس کی رفتار بڑھ جائے تو وہ ان کی زد سے نکل جائے گا ، وہ ان سے اسی طرح محفوظ ہو جائے گا جس طرح خلا باز اپنے راکٹ کے پھٹنے کی طوفانی آواز سے محفوظ ہو گئے۔

زندگی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ایک شخص یا قوم کے لیے ممکن ہے کہ یہاں بھی وہ ایسا سفر کر سکے جس میں وہ دوسروں کی زد سے محفوظ ہو۔اگر دوسرے جلد بازی کی رفتار سے چل رہے ہوں اور آپ صبر کی رفتار سے چلنے لگیں۔دوسرے منفی کارروائیوں کی بنیاد پر اٹھے ہوں اور آپ مثبت عمل کا طریقہ اختیار کریں۔دوسرے مادی طاقت کے سہارے بڑھیں اور آپ اخلاقی طاقت کے زور پرکھڑے ہوں۔ دوسرے ظاہری انسان سے ٹکرا رہے ہوں اور آپ اندرونی انسان کو اپنا نشانہ بنائیں۔تو یقینی ہے کہ آپ لوگوں کی زد سے اسی طرح باہر ہوں گے جس طرح راکٹ سوار اپنے راکٹ کی بھیانک آواز سے۔

 

الٹی چھلانگ

ایک واقعہ انگریزی اخبار میں ان الفاظ میں آیا ہے ۔

In a daring escape from the Sydney, Australia, jail, a prisoner climbed underneath the hood of a truck. At the truck's next stop, he clambered out and found himself in the yard of another prison 6.5 kilometers from the first (UPI).

آسٹریلیا کی سڈنی جیل کے ایک قیدی نے جیل سے بھاگنے کے لیے ایک جرأت مندانہ اقدام کیا۔وہ کسی نہ کسی طرح ایک ٹرک کے اندر داخل ہو گیا اور اس کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔ٹرک روانہ ہو کر اگلے مقام پر رکا۔وہ بمشکل ٹرک سے باہر آیا۔اس نے پایا کہ وہ دوبارہ ایک جیل میں ہے۔یہ دوسرا جیل اس کی پہلی جیل سے تقریباً چھ کلو میٹر دور تھا۔

جیل کا مذکورہ قیدی جیل کی زندگی سے گھبرایا ہوا تھا۔اس کے دماغ پر صرف ایک چیز سوا ر تھی۔یہ کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل کی بند دنیا سے باہر پہنچ جائے۔اس ذہنی کیفیت کے ساتھ جب اس کو ایک ٹرک نظر آیا تو اس نے یقین کر لیا کہ وہ ضرور جیل کے باہر کہیں جا رہا ہے۔مگر وہ ٹرک ایک جیل سے دوسری جیل میں جا رہا تھا۔آدمی اس ٹرک میں سوا ر ہو کر اپنی جیل سے نکلا۔مگر ا سکے بعد صرف یہ ہوا کہ وہ ایک اور جیل میں پہنچ گیا۔

یہ ایک دل چسپ مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات اقدام صر ف الٹی چھلانگ کے ہم معنی ہوتا ہے۔اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی ناکام ہو کر دوبارہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آجائے۔

زندگی کا سفر دو چیزوں کے ملنے سے طے ہوتا ہے۔ایک ’’ مسافر ‘‘ اور دوسرا ’’ ٹرک ‘‘۔کسی مسافر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ محض ذاتی چھلانگ کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائے۔اس کو لازماً اپنے سے باہر ایک سواری درکار ہوتی ہے۔اگر آدمی محض اپنے ذاتی جوش کے تحت کود کر ایک سواری میں داخل ہو جائے۔اور یہ تحقیق نہ کرے کہ وہ سواری کہا ں جا رہی ہے۔تو عین ممکن ہے کہ اس کا انجام وہی ہو جو مذکورہ مثال میں آسٹریلیا کے قیدی کا ہوا۔یعنی وہ ایک ’’ قید خانہ ‘‘ سے نکل کر دوسرے ’’قید خانہ ‘‘ میں پہنچ جائے۔

 

سب سے زیادہ خطرناک

شیر کے ڈرائونے چہرے کو دیکھ کر مشکل سے کوئی آدمی یقین کرے گا کہ اس پھاڑ کھانے والے درندہ سے بھی زیادہ خطرناک دشمن کوئی انسان کے لیے ہو سکتا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کا سب سے زیادہ خطرناک دشمن شیر یا بھیڑ یا نہیں۔اس کے سب سے خطرناک دشمن وہ بیکٹیریا ہیں جو اتنے چھوٹے ہیں کہ خالی آنکھ سے نظرنہیں آتے۔یہ بیکٹریا اتنی تیزی سے اپنی نسل بڑھاتے ہیں کہ موافق حالات میں صرف دس گھنٹوں کے اندر ایک کیڑا اپنی نسل کے دس ہزار جان دار پیداکر لیتا ہے۔شیر یا بھیڑیا کہیں کسی ایک آدمی کو پھاڑتے ہوں گے مگر بیکٹریا کی زد میں ہر آدمی ہر وقت ہوتا ہے۔

بیکٹیریا کی ہزارو ں قسمیں ہیں۔ہماری خوش قسمتی سے ان کی 99 فی صد تعدا د یا تو بے ضرر ہے یا ہمارے لیے مفید ہے۔مگر ایک فی صد تعداد جو مضر ہے وہ بھی اتنی خطرناک ہے کہ آن کی آن میں آدمی کی جان لے سکتی ہے۔میڈیکل سائنس کے مطابق تمام مہلک بیماریا ں انھیں بیکٹریا کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔بیکٹریا انتہائی چھوٹے ہونے کی وجہ سے ایسے راستوں سے انسان کے اندر داخل ہو جاتے ہیں جن کا روکنا عام طور پر آدمی کے بس میں نہیں ہوتا۔

لوگ عام طور پر بڑے بڑے حادثات کو جانتے ہیں اور ان کو اپنی تباہی کا سبب سمجھتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ’’ چھوٹے چھوٹے دشمن ‘‘ ہم کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں جتنا کہ بڑے بڑے دشمن۔اور ہماری سب سے زیادہ خطرناک دشمن خود ہماری اپنی چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں ہیں جو ہم کو محسوس نہیں ہوتیں مگر وہ ہماری زندگی کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔

مثلاً ہر شخص کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے روزانہ اوقات کا ایک حصہ بغیر استعمال کئے ہوئے گذار دیتا ہے۔ہر شخص روزانہ غیر ضروری مدوں میں کچھ نہ کچھ رقم خرچ کر تا رہتا ہے یہ وقت اور یہ سرمایہ ایک دن کے لحاظ سے تو بہت تھوڑا نظر آتا ہے ، چند گھنٹے یا چند روپے۔لیکن اگر پورے سال اور آدمی کی پوری عمر کو ملا کر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ ہر شخص اپنی تقریباً نصف عمر اور اپنی نصف کمائی کو بے نتیجہ چیزوں میں برباد کر رہا ہے۔اس بربادی کو اگر پوری قوم پر پھیلائیے تو یہ نقصان اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ اس کا شمار بھی نا ممکن ہو۔

 

بے معنی اچھل کود

یوپی کی ایک مسلم خاتون بیوہ ہو گئیں۔ان کی تین چھوٹی لڑکیاں تھیں۔ایک لڑکا تھا جو باپ کے انتقال کے وقت نویں کلاس میں پڑھ رہا تھا۔خاتون نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے لڑکے کو انجینئر بنائے گی ۔ اس نے شوہر کا پراویڈنٹ فنڈ خرچ کر کے اور خود بارہ بارہ گھنٹے روزانہ سلائی کا کام کر کے اپنے لڑکے کو پڑھانا شروع کیا۔

گھر کے حالات نے لڑکے کے اندر محنت کا جذبہ پیدا کیا۔ہائی اسکول میں اس کو 71 فی صد نمبر ملے۔انٹر میڈیٹ میں لڑکے نے 76 فی صد نمبر حاصل کئے۔اس کے بعد خاتون نے ہمت کر کے اپنے لڑکے کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انجینئرنگ میں داخل کر ا دیا۔یہاں بھی لڑکا انتہائی محنت کے ساتھ پڑھتا رہا۔انجینئرنگ کے پہلے سال سے لے کر چوتھے سال تک اس نے اس طرح پاس کیا کہ ہر سال اس کو 80 فی صد سے زیادہ نمبر ملتے رہے۔

لڑکے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے خاتون کا یہ منصوبہ بہت مہنگا تھا۔اس مدت میں گھر کا اثاثہ ختم ہو گیا مکان گروی رکھنا پڑا۔رات دن سلائی کا کام کرتے کرتے خاتون کی آنکھیں خراب ہو گئیں۔

1981 اس لڑکے کا فائنل ائیر تھا۔اگر وقت پر امتحان ہو جاتا تو لڑکا انجینئر بن جاتا۔اس کی ماں نے اسی دن کی امیدمیں دس نہایت مشقت کے سال گزار دئیے تھے۔وہ اس امید میں جی رہی تھی کہ میرا لڑکا انجینئر بنے گا۔پھر وہ کما کر گھر کا خرچ چلائے گا۔قرضے ادا کرے گا۔بہنوں کی شادی کروائے گا۔ اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔مگر اس سال یونی ورسٹی کے لیڈر لڑکوں نے یونی ورسٹی میں ایسے ہنگامے شروع کئے کہ امتحان ہی نہ ہو سکے۔خاتون کی دنیا بنتے بنتے اپنے آخری مقام پر پہنچ کر اجڑ گئی (حسب روایت احمد رشید شروانی مطبوعہ الجمعیۃ 23 جون 1981)

اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے مسائل کتنے نازک ہوتے ہیں۔یہاں بے شمار مسائل ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہوتے ہیں کہ ایک کو چھیڑنے میں دوسرا متاثر ہوتا ہے۔اس لیے اجتماعی معاملات میں پڑنا صرف ان لوگوں کے لیے جائز ہے جو معاملات کو دور اندیشی کی نگاہ سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔جو دوسرے کے سینے کا درد اپنے سینہ میں محسوس کریں۔جن لوگوں کے اندر یہ دونوں صفات نہ ہوں وہ اگر اجتماعی اصلاح کے میدان میں کودتے ہیں تو وہ صرف جرم کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے واحد صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ خاموش رہیں۔نہ یہ کہ احمقانہ اقدام کر کے مسائل میں اور اضافہ کرنے کا سبب بن جائیں۔

 

خود جانناپڑتا ہے

ٹیلر ماسٹر کو جب آپ کوٹ سینے کے لیے دیتے ہیں تو وہ آپ کے جسم کا ناپ لیتا ہے۔ناپ لینے کا مقصد آپ کے جسم کی بناوٹ کا اندازہ کرنا ہے تاکہ کوٹ آپ کے جسم پر بالکل فٹ آجائے اور اس میں کہیں شکن یا جھول نہ ہو۔مگر ٹیلر ماسٹر جسم کے جن چند حصوں کا ناپ لیتا ہے اتنا ہی علم ایک کامیاب کوٹ تیار کرنے کے لیے کافی نہیں۔ایک صحیح کوٹ تیار کرنے کے لیے ٹیلر ماسٹر کو بہت سی اور باتیں بطور خود جاننی پڑتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کے نشیب وفراز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ اس کے ہر حصے کا مکمل ناپ لیا جا سکے۔ایک ٹیلر ماسٹر جسم کے جن حصوں کا ناپ لیتا ہے ، اگر اس کی واقفیت بس اتنی ہی ہو تو وہ کبھی ایک معیاری کوٹ تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

یہی بات زندگی کے دوسرے معاملات کے لیے بھی صحیح ہے۔ایک گھر چلانے کا معاملہ ہو یا دینی مشن چلانے کا۔ملت کی تعمیر کی مہم ہو یا اسلام کی اشاعت کی ، ہر ایک اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ اس کو ایسے افراد ہاتھ آجائیں جو بتائے بغیر باتوں کو جانیں ، جو تفصیلات جانے بغیر ہر موقع پر اطمینان بخش جواب پا لیں۔

جو لوگ صر ف فہرست میں درج شدہ باتوں کو جانیں اور جہاں فہرست ختم ہو وہیں اپنے کام کو بھی ختم سمجھ لیں ، ایسے لوگ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے۔اسی طرح جب کوئی مشن چلایا جاتا ہے۔تو بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جن کے بارے میں پہلے سے اندازہ نہ تھا یا ان کے بارے میں پیشگی طور پر لوگوں کو خبر دار نہیں کیا جا سکا تھا۔ایسے موقع پر ضرورت ہوتی ہے کہ لوگ بتائے بغیر باتوں کو جان لیا کریں۔اور اگر ان کا شعور اتنا ترقی یافتہ نہیں ہے تو ذمہ داروں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو قبول کر لیں اور اپنے آپ کو اس کے مطابق بنا لیں۔جس مشن کے افراد میں یہ صلاحیت نہ ہو وہ بار بار خود ساختہ شکایت لے کر بیٹھ جائیں گے ، معاملات کی حقیقت جانے بغیر وہ بطور خود ایک رائے قائم کریں گے اور پھر روٹھ کر الگ ہو جائیں گے۔

کسی مشن کو کامیابی تک پہنچانے کے لیے بہت گہرا شعور اور بہت بڑا دل درکار ہوتا ہے۔جن لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو ، وہ صرف تاریخ کے کوڑا خانہ میں جگہ پائیں گے ، خواہ دیواری پوسٹروں میں وہ اپنے آپ کو تاریخ ساز کیوں نہ لکھتے رہیں۔

جدید نسل

ٹائمس آف انڈیا (21 مئی 1985 ) میں مسٹر جارج منز یز نے اپنا قصہ شائع کیا ہے۔انھیں ایک کالج کے سمر کیمپ کا افتتاح کرنا تھا۔مسٹر جی بی کھیر جب بمبئی کے وزیر تعلیم تھے تو ان کے والد اس وقت وزارت تعلیم میں انڈر سیکر ٹری تھے۔میٹرک کا رزلٹ آیا تو مضمون نگار کے بھائی ریاضی میں چند نمبروں سے فیل ہو گئے۔ایک ماسٹر صاحب ازراہ خیر خواہی طالب علم کے والد ( انڈرسیکرٹری وزارت تعلیم ) سے ملے۔انھوں نے کہا کہ آپ ماڈریٹر (Moderator) کو ایک ٹیلیفون کر دیں اور سب معاملہ درست ہو جائے گا۔مضمون نگار کا بیان ہے کہ ان کے والد نے اس کے جواب میں کہا کہ میرا لڑکا اگر فیل ہونے کا مستحق ہے تواس کو فیل ہونے دیجئے یہ واقعہ اس کو ایک اچھا سبق دے گا:

If my son deserves to fail, let him fail.

It will teach him a valuable lesson.

مضمون نگار کہتے ہیں کہ مذکورہ سمر کیمپ کا افتتاح کرتے ہوئے میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو طلبہ نے اس کو اس طرح سنا جیسے وہ بالکل غیر اہم بات ہو۔حتی کہ ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ کے والد کوئی بے وقوف آدمی ہوں گے۔اگر وہ میرے ساتھ ایسا کرتے تو میں ان کو مار ڈالتا :

Your father must have been a fool. I would

have killed him if he had done that to me.

آج کل کے نوجوانوں میں یہ مزاج عام ہے۔ہندوستان میں بھی اور اسی طرح پاکستان میں بھی۔ اس مزاج کو پیدا کرنے کی اصل ذمہ داری لیڈروں پر ہے ۔لیڈروں نے اپنی مخالف حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے نوجوانوں کو بھڑکایا۔وہ ان کی تخریبی کا رروائیوں کو صحیح بتاتے رہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ماضی کی تمام روایات ٹوٹ گئیں۔آدمی کے سامنے اس کی خواہشات اور مفادات کے سوا کوئی چیز نہیں رہی جس کا وہ لحاظ کرے۔

احترام کی روایات کو توڑنے کا مزاج اگر ایک بار پیدا ہو جائے تو وہ کسی حد پر نہیں رکتا۔غیروں کو بے عزت کرنے والے بالآخر اپنوں کو بھی بے عزت کر کے رہتے ہیں۔

 

خوش خیالی حقیقت کا بدل نہیں

سڑک پر مجمع 21 نمبر کی بس کا انتظار کر رہا تھا۔اتنے میں ایک بس آتی دکھائی دی اور سارے لوگ اس کی طرف دوڑ پڑے۔’’ اوہ! یہ تو 12 نمبر کی بس ہے ‘‘۔بورڈ دیکھ کر ایک شخص بولا۔’’ 12 کو 21 کر لو اور چلے جائو ‘‘۔دوسرے نے کہا۔

ظاہر ہے کہ یہ صرف مذاق تھا۔کوئی شخص ایسا نہیں کرے گا کہ کھر یا مٹی لے کر بس پر اپنا مطلوبہ نمبر لکھے اور اس پر بیٹھ کر سمجھے کہ اب وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔یہ ہندسہ کا فرق نہیں ، حقیقت کا فرق تھا۔اور حقیقت کے فرق کو ہندسہ کے فرق سے بدلا نہیں جا سکتا۔یہ بات اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں ہر شخص جانتا ہے ، مگر عجیب بات ہے کہ ملت کے رہنما جب ملت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اٹھتے ہیں تو وہاں وہ اس انتہائی معلوم حقیقت کو بھول جاتے ہیں۔شاید اس لیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندسہ کو بدل کر وہ اُس کام کا کریڈٹ حاصل کر لیں جو اسباب کی اس دنیا میں صرف حقیقت کو بدلنے کے نتیجہ میں کسی کو ملتا ہے۔

ایک ایسا سماج جہاں امتیاز اور لیاقت کی بنیاد پر لوگوں کو درجات ملتے ہیں ، ہم مراعات اور تحفظات کے عنوان پر کانفرنس کر رہے ہیں۔ایک ایسا نظام جہاں علمی اور اقتصادی طاقت کے بل پر قوموں کے فیصلے ہوتے ہیں ، ہم احتجاج اور مطالبات کے پوسٹر دیواروں پر چپکا رہے ہیں۔ایک ایسی دنیا جہاں زبان وبیان نے بالکل نیا انداز اختیار کر لیا ہے ، ہم اپنے روایتی کتب خانہ کے بورڈ پر ’’ دور جدید ‘‘ کا لفظ لکھنے کے لیے آرٹسٹ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ایک ایسا زمانہ جہاں عالمی ذہن نے سیاست کو سیکولر بنیادوں پر قائم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے ، ہم عوام کا ذہن بدلے بغیر بیلٹ بکس سے اسلامی نظام برآمد کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ایک ایسی آبادی جہاں اختلاف اور شکایت کے گہرے مادی اسباب موجود ہیں ، ہم لفظی تقریروں کے کرشمے دکھا کر حالات کو درست کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ایک ایسے معاشرہ میں جہاں ہم تعلیم ، اقتصادیات، باہمی اتحاد ہر لحاظ سے تمام گروہوں میں سب سے پیچھے ہیں ، ہم جلسوں اور کنونشنوں کے ذریعہ ملک کی قسمت بدلنے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ایک ایسا جغرافیہ جہاں ہمارے پاس اپنے تحفظ کی بھی طاقت نہیں ، ہم ’’ حریف کو نقصان پہنچائو ‘‘ کا طریق کار اختیارکر کے با عزت زندگی حاصل کرنے کی تجویزیں پیش کر رہے ہیں۔اس قسم کی تمام باتیں اسی طرح بے معنی ہیں جس طرح 12 نمبر کی بس پر 21 نمبر لکھ کر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کرنا۔

موجودہ دنیامیں ہر چیز ممکن بھی ہے اور نا ممکن بھی۔کسی چیز کو اگر اس کے فطری طریقہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے ضروری اسباب فراہم کر دئے جائیں تو اس کا حصول اسی طرح ممکن ہو جاتاہے جیسے رات پوری ہونے کے بعد سورج کا نکلنا۔لیکن اگر فطرت کے مقررہ طریقہ سے انحراف کیا جائے اور مطلوبہ چیز کے مطابق ضروری اسباب جمع نہ کئے جائیں تو اس کے بعد ناکامی اتنی ہی یقینی ہو جاتی ہے جتنی پہلی صورت میں کامیابی۔عالمِ فطرت پر یہ انسان کا حق ہے کہ وہ اس کو کامیاب کرے۔مگر وہ کامیاب اس کو کرتا ہے جو اس کے مقررہ شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو۔

 

بلا تحقیق

31 اکتوبر 1984 کو مسز اندرا گاندھی کا قتل ہوا۔لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ قتل کا یہ واقعہ وزیر اعظم کے حفاظتی دستہ کے دو سکھ جوانوں نے کیا ہے تو سکھ فرقہ کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا۔یکم نومبر اور 2 نومبر کی درمیانی شب میں راقم الحروف دہلی ( نظام الدین ) میں اپنے مکان میں لیٹا ہوا تھا کہ گیارہ بجے رات کو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ایک صاحب بتا رہے تھے کہ دہلی کے پانی میں زہر ملا دیا گیا ہے ، اس لیے نل کا پانی استعمال نہ کیا جائے۔چند منٹ بعد دوبارہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ایک اور صاحب نے یہی خبر سنائی۔کچھ دیر بعد دروازہ کی گھنٹی نے متوجہ کیا۔باہر نکلا تو سڑک پر کئی نوجوان اسی خبر کو بتانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔کچھ دیر کے بعد پھر ایک وفد نے دروازہ کی گھنٹی بجا کر یہی خبر سنائی۔جلد ہی بعد نظام الدین بستی کی مسجدوں میں لگے ہوئے لائوڈ اسپیکر گونجے اور مسلسل یہ اعلان کیا جانے لگا کہ ۔۔خبر ملی ہے کہ پانی میں زہر ملا دیا گیا ہے ، آپ لوگ نلوں کا پانی بالکل استعمال نہ کریں۔

تقریباً دو گھنٹے تک ان خبروں اور اعلانا ت کا ہنگامہ لوگوں کی نیند کو درہم برہم کر تا رہا۔خبر ملتے ہی ہم نے فوری طور پر یہ کیا کہ ریڈیو کھولا اور بارہ بجے رات اور ایک بجے رات کو دہلی ریڈیو سے نشر ہونے والا پروگرام سنا۔دونوں بار ریڈ یو نے واضح لفظوں میں بتایا کہ یہ افواہ بالکل غلط ہے کہ پانی میں زہر ملا دیا گیا ہے۔سرکاری طور پر باقاعدہ پانی کا ٹسٹ لیا گیا ہے اور مکمل طور پر درست پایا گیا ہے۔اس کے بعد ہم نے دہلی پولس کو نمبر 100 پر ٹیلیفون کیا۔انھوں نے بھی کہا کہ پانی میں زہر ملانے کی افواہ سراسر غلط ہے۔پانی بالکل ٹھیک حالت میں ہے۔جانچ کے بعد اس میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی۔

2 نومبر کی صبح کو اخبارات دیکھے تو پہلے ہی صفحہ پر دہلی میو نسپل کمشنر مسٹر پی پی سری واستو کا یہ بیان موجود تھا کہ دہلی میں نل کا پانی بالکل صحیح ہے۔اس کا بار بارٹیسٹ لیا گیا ہے اور کسی طرح کی زہریلی آمیزش اس میں نہیں پائی گئی۔انھوں نے مزید کہا کہ 31 اکتوبر ہی سے پانی کے تمام فلٹریشن پلانٹ پر سخت حفاظتی پہرہ بٹھا دیا گیا ہے۔

سماجی زندگی میں اکثر بگاڑ صرف اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ لوگ ایک خبر سنتے ہیں اور بلا تحقیق اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔اگر اسلام کے حکم کے مطابق خبروں کی تحقیق کی جانے لگے تو اکثر جھگڑے اور فساد پیدا ہونے سے پہلے ختم ہو جائیں۔

 

تحقیق کیجئے

ایک ہندوستانی حجاز گیا۔ایک روز مدینہ میں اس کی ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔بظاہر وہ ایک بدو دکھائی دیتا تھا اور اس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا۔وہاں چونکہ چور کے ہاتھ کاٹ دئے جاتے ہیں، ہندوستانی نے خیال کیا کہ یہ کوئی چور ہے۔اس نے چوری کی تھی جس کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ہندوستانی کو اولاً اس سے ملنے میں کچھ کراہت محسوس ہوئی۔پھر جبر کرکے اس کی طرف بڑھا اور اپنے عرب بھائی سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔

گفتگو چلی تو اس نے بتایا کہ وہ مدینہ کے قریب ایک بستی ’’یُتمہ‘‘کا رہنے والا ہے۔اس کے پاس کافی زمینیں ہیں جہاں 23مکائن(ٹیوب ویل) لگے ہوئے ہیں۔اس کے کھیتوں کی پیداوار بہت بڑی مقدار میں روزانہ مدینہ کے بازار میں آتی ہے۔

پھر اس کے ہاتھ کٹنے کا ذکر ہوا تو اس نے بتایا کہ 1948ء میں فلسطین کے معاملہ میں عربوں اور یہودیوں میں جو لڑائی ہوئی وہ اس میں شریک تھا۔اس کے بازو میں چھ گولیاں لگیں۔اس کے بعد وہ عرصہ تک اسپتال میں رہا۔وہاں ڈاکٹروں نے ناگزیر سمجھ کر اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا۔تاکہ پورے بازو کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکے۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناقص معلومات کی وجہ سے کس طرح ایک بات کسی کے ذہن میں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔مذکورہ عرب کو ایک ہندوستانی نے ناواقفیت کی بنا پر چور سمجھ لیا حالانکہ وہ ایک مجاہد اور ایک تاجر آدمی تھا۔وہ دوسروں کو دینے والا تھا  نہ کہ ان سے لینے والا ۔وہ سماج کا ایک کار آمد فرد  تھا  نہ کہ سماج کارہزن۔

ہر آدمی کے اوپر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کے بارہ میں رائے قائم کرنے میں کبھی جلدی نہ کرے۔جب بھی اس کے سامنے کوئی بات آئے تو وہ اس کی پوری تحقیق کرے۔تحقیق سے پہلے ہرگز اس کے بارہ میں اپنی زبان نہ کھولے۔

اگر کسی شخص کے پاس تحقیق کرنے کا وقت یا سامان نہیں ہے تو اس کےلیے دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ مذکورہ معاملہ میں چپ رہے نہ یہ کہ ناقص معلومات کے تحت اس کے بارہ میں بولنے لگے۔اس دنیا میں چپ رہنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا بولنا۔

 

کامیابی کا سادہ صول

ایک صاحب نے تالے کی مارکیٹ میں دکان کھولی۔وہ روزانہ دیکھتے تھے کہ بے شمار آدمی سٹرک پر آرہے ہیں اور جارہے ہیں۔مگر ان کی اکثریت ان کی دکان کو دیکھتی ہوئی گزر جاتی تھی۔ایک روزان کے ساتھ ایک واقعہ گزرا جس نے ان کو دکان داری کا راز بتادیا۔وہ کپٹرا خریدنے کےلیے کپڑے کی مارکیٹ میں گئے۔وہاں مسلسل بہت سی دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔وہ ایک کے بعد ایک دکان سے گزررہے تھے مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس دکان میں داخل ہوں۔اتنے میں ایک دکان دار نے ان کو اپنی دکان کے سامنے دیکھ کر کہا ’’آئیے جناب اندر آکر دیکھئے ‘‘یہ سن کر وہ دکان کے اندر داخل ہوگئے۔

اپنے اس تجربہ سے ان کی سمجھ میں آیا کہ مارکیٹ میں جو گاہک آتے ہیں ان کی اکثریت یا تو نئی ہوتی ہے یا کسی خاص دکان سے بندھی ہوئی نہیں ہوتی۔ایسے لوگ دکانوں کی لائن سے گزرتے ہیں تو ایک قسم کے تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔وہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کس دکان میں داخل ہوں۔ایسے وقت میں ایک شخص ہمدردانہ انداز میں اگر ان سے کہے کہ اندر تشریف لائیے تو گویا کہ اس نے ان کے تذبذب کو ختم کیا۔اس نے ان کو فیصلہ کرنے میں مدددی۔ایسا آدمی بیشتر حالات میں چلنے والے آدمی کو اپنی دکان کے اندر بلانے میں کامیاب ہوجائے گا۔بیشتر لوگوں کے ذہن میں پہلے سے کوئی طے شدہ چیز موجود نہیں ہوتی۔اگر آپ اس راز کو جان لیں تو معمولی دانش مندی سے بہت سے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا سکتے ہیں۔

اس اصول کو انھوں نے اپنی دکان میں استعمال کرنا شروع کیا۔وہ اپنی دکان کے بیرونی حصہ میں بیٹھ جاتے اور ہر آنے جانے والے کے چہرے کو پڑھتے۔یہاں تک کہ ان کی نظر اتنی پکی ہوگئی کہ وہ کسی آدمی کو دیکھ کر فوراً پہچان لیتے کہ یہ تالے کا گاہک ہے یا کسی اور مقصد سے سٹرک پر چل رہا ہے۔ جس کے متعلق وہ اندازہ کرتے کہ وہ تالے کی لائن کی چیز خریدنا چاہتا ہے اس کوفوراً اپنی آواز سے متوجہ کرتے اور اس کو اپنی دکان کے اندر بلاتے۔اس طرح ان کی دکانداری اچانک کافی بڑھ گئی۔یہاں تک کہ وہ بازار میں سب سے زیادہ فروخت کرنے والے دکاندار بن گئے۔

ترقی کا راز ہمیشہ سادہ اصولوں میں ہوتا ہے مگر انسان اکثر ترقی کو ایسی چیز سمجھ لیتا ہے جو کسی بہت بڑی چیز کے ذریعہ حاصل ہوتی ہو۔آپ چند میٹھے بول سے، اپنے ہاتھ پاؤں کی محنت سے، اپنے محدود وسائل کو استعمال کرنے سے اور ایک کام کو مسلسل پکڑے رہنے سے کامیابی کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ سکتے ہیں۔حالانکہ ان میں سے کوئی چیز نہیں جو بہت بڑی ہو اور ایک عام آدمی اس کو حاصل نہ کرسکتا ہو۔

نفع بخش

 

تلوار سے زیادہ

سابق صدر مصر انور سادات (1981۔1918) کے قتل کے بعد امریکہ کے ٹائم میگزین (19 اکتوبر 1981) نے اس واقعہ کے بارے میں خصوصی مضمون شائع کیا تھا۔اس مضمون کا آغاز اس نے نپولین کے ایک قول سے کیا۔نپولین نے اپنے آخری زمانہ میں سوال کیا ’’کیا تم جانتے ہو کہ دنیا کے بارے میں کیا چیز مجھے سب سےزیادہ تعجب میں ڈالتی ہے‘‘ اس کے بعد خود ہی جواب دیا کہ وہ چیز طاقت کی یہ بے بسی ہے کہ اس کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔بالآخر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دماغ تلوار کو فتح کرلیتا ہے:

In the end, sword is always conquered by the mind.

انور سادات نے مصر میں ہر قسم کی طاقت حاصل کرلی مگر 6 اکتوبر1981کو وہ عین اس وقت قتل کردئیے گئے جب کہ قاہرہ میں وہ اپنی تمام افواج کے ساتھ فتح سوئز (1973) کی تقریب منارہے تھے۔انورسادات کی عالی شان نشست گاہ میں آنے والے تمام لوگوں کی جانچ مخصوص آلات (Metal Detector)کے ذریعہ کی جارہی تھی۔حتیٰ کہ پریڈ میں حصہ لینے والے تمام فوجیوں کی رائفلوں کو کارتوس سے خالی کردیا گیا تھا۔مگر سادات کی فوج ہی کا ایک آدمی پریڈ سے نکل کر تیزی سے ڈائس کی طرف آیا اور قبل اس کے حفاظتی عملہ اس کو روکے وہ سادات کو اپنی گولی کا نشانہ بنا چکا تھا۔

یہ واقعہ تلوار کے اوپر دماغ کی فتح کا واقعہ تھا۔انور سادات کے کچھ مخالفین نے یہ تصور پھیلایا کہ انور سادات مرتد ہوچکے ہیں اور شریعت اسلام کے مطابق مرتد شخص قتل کا مستوجب ہوتا ہے ۔یہ تصور فوج تک پہنچا۔لیفٹنٹ خالد استانبولی شدت کے ساتھ اس سے متاثر ہوا۔اس نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے خفیہ منصوبہ بنایا اور فتح کی پریڈ کے دن منصوبہ کے مطابق سادات کو گولی مار کر قتل کردیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہن تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے۔تاریخ میں اس کی بےشمار مثالیں موجود ہیں۔مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان نے اس ذہن کو زیادہ تر منفی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ مثبت مقاصد کےلیے ذہن کو استعمال کرنے کی مثالیں تاریخ میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اکثر عمل کرنے والوں نے انسانیت کو صرف تخریب کاتحفہ دیا ہے۔بہت کم عمل کرنے والے ہیں جن کے عمل سے انسانیت کو تعمیر کا تحفہ ملا ہو۔

 

عزت کا مقام

دوسروں کے درمیان جگہ حاصل کرنے کا راز صرف ایک ہےآپ دوسروں کی ضرورت بن جائیں۔اگر آپ دوسروں کو یقین دلادیں کہ آپ ان کی ضرورت ہیں تو دوسروں کےلیے ناممکن ہوجائے گا کہ وہ آپ کو نظر انداز کریں۔

ایک تعلیم یافتہ نوجوان کی شادی ہوئی۔بیوئی آئی تو وہ شکل و صورت کے اعتبار سے گھروالوں کے معیار سے کم تھی۔چنانچہ نوجوان کی بہنوں نے اس کو ناپسند کردیا۔ہر ایک اس کو حقیر نظروں سے دیکھنے لگا۔سب کے نزدیک وہ ایسی بن گئی جیسے کہ وہ کوئی نامطلوب چیز ہے جو گھر کے اندر غیر ضروری طور پر داخل ہوگئی ہے۔

خاتون اگرچہ شکل و صورت کے اعتبار سے زیادہ اچھی نہ تھی، مگر وہ عقل کے اعتبار سے کافی سمجھ دار تھی۔اس نے لوگوں کے سلوک کو برا نہیں مانا۔وہ جانتی تھی کہ شکل صورت وقتی چیز ہے اور زیادہ پائیدار چیز انسان کا عمل ہے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اگرچہ صورت کے اعتبار سے گھر والوں کےلیے محبوب نہ بن سکی۔مگر وہ عمل کے اعتبار سے گھروالوں کےلیےمحبوب بنے گی۔

اس نے خاموشی سے گھر کا سارا کام سنبھال لیا۔گھر کی دیکھ بھال، مہمانوں کی خدمت، باورچی خانہ کا انتظام ، ہر ایک کی ضرورت فرمائش کے بغیر پوری کرنا، یہ اس کا روزانہ کا معمول بن گیا۔اس نے گھر کے ہر کام کو اپنی ڈیوٹی سمجھ لیا۔خواہ اس کےلیے اس سے کہا گیا ہو یا نہ کہا گیا ہو۔

خاتون نے زبان سے کچھ نہیں کہا اور نہ کسی کی بات کا جواب دیا۔اس نے ساری توجہ صرف اپنے عمل پر لگادی۔نتیجہ یہ ہو اکہ بہت جلد گھر کی فضا بدلنے لگی۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ جس گھر میں وہ ایک نامطلوب شخصیت بنی ہوئی تھی وہاں وہ لوگوں کے درمیان سب سے زیادہ مطلوب شخصیت بن گئی۔

یہی زندگی کا راز ہے ۔گھر کا معاملہ ہویا بستی کا معاملہ یا پورے ملک کا معاملہ ، ہر جگہ عزت کا مقام حاصل کرنے کا واحد بے خطا راز یہ ہے کہ آپ یہ ثابت کردیں کہ آپ لوگوں کی ضرورت ہیں۔اورلوگ یقینی طور پر آپ کو نہ صرف عزت کا مقام دیں گے بلکہ وہ آپ کے پرستار بن جائیں گے۔

 

سب سے بڑی ضمانت

لارڈ ولیم وینٹک انیسویں صدی کے ربع ثانی (1835۔1828) میں ہندوستان کے گورنر جنرل تھے۔ انھوں نے ایک بار حکم دے دیا تھا کہ تاج محل کو گرادیا جائے مگر عملاً وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔اس کا انکشاف 7فروری 1900کو اس وقت کے وائسرئے لارڈ کرزن نے کیا تھا۔لارڈ کرزن نے کلکتہ کے ایک جلسہ عام میں کہا کہ ان دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کی اقتصادی حالت خراب ہوگئی تھی۔کمپنی کو اقتصادی بحران سے نکالنے کےلیے سابق برطانوی گورنر جنرل (لارڈ وینٹک) نے چاہا کہ کہ تاج محل کے سنگ مرمر کو فروخت کردیں۔اس سے ان کو اس زمانہ میں ایک لاکھ روپیہ حاصل ہونے کی امیدتھی۔جب یہ خبر پھیلی تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔اب لارڈ وینٹک بگڑ گئے اور انھوں نے غصہ میں آکر حکم دیا کہ تاج محل کو گرا کر زمین کے برابر کردیا جائے۔ ان کے اس حکم کے بعد عوام کی مخالفت اور زیادہ بڑھ گئی۔ہندواور مسلمان دونوں نے مل کر شدید احتجاج کیا۔حتیٰ کہ یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ اگر تاج محل کو گرایا گیا تو عوامی بغاوت پیدا ہوجائے گی۔لارڈ وینٹک کے مشیروں نے ان کو صورت حال کی نزاکت بتائی۔چنانچہ انھوں نے حکم واپس لے لیا (نو بھارت ٹائمز 18جون 1969)

’’تاج محل کو عوام نے نہیں بچایا ‘‘ اس خبر کو پڑھ کر ایک شخص نے کہا ’’ بلکہ تاج محل کو اس کے اپنے حسن نے بچایا۔تاج اگر اتنا حسین نہ ہوتا تو برطانوی اقتدار کے مقابلہ میں اس کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی اتنی بڑی حمایت حاصل نہیں ہوسکتی تھی‘‘

عمارت کا یہی انجام اس کے معماروں کےلیے بھی مقدر تھا۔مگر افسوس کہ معمار اپنے اندر وہ ’’حسن‘‘ پیدا نہ کرسکے جو انھوں نے سنگ مرمر کے خاموش مجموعہ میں اپنی مہارت سے پیدا کردیا تھا۔

آدمی کے اندر کوئی خوبی ہو تو یہ خوبی ہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی ضمانت ہوتی ہے۔وہ دشمنوں میں بھی اپنے دوست پالیتا ہے۔اغیار کی صفوں میں بھی اس کو اپنے قدر دان مل جاتے ہیں۔یہ ناممکن ہے کہ کسی کے اندر کوئی واقعی خوبی ہو ، اس کے باوجود دنیا میں اس کا اعتراف نہ کیا جائے۔

تاہم اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کا یہ حسن سانپ کا حسن نہ ہو۔ایک سانپ خواہ وہ کتنا ہی حسین ہو آدمی اس سے محبت نہیں کرسکتا۔اسی طرح جس آدمی کا حال یہ ہو کہ اس کے اندر ایک خوبی تو ہو مگر اسی کے ساتھ اس کی زبان میں ’’ڈنک‘‘ہو، وہ لوگوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کو چیلنج کرنے لگے، وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات میں باربار جارحیت پر اترآتا ہو، وہ اپنی جذباتی کاروائیوں سے لوگوں کو اپنا مخالف بنالے۔ایسا آدمی خواہ وہ کتنا ہی زیادہ خوبیوں والا ہو، لوگوں کا محبوب نہیں بن سکتا۔

تاج محل لوگوں کا محبوب اسی وقت بنتا ہے جب کہ وہ خاموش حسن میں ڈھل جائے۔اگر وہ جارح حسن کا نمونہ ہو تو ایسے تاج محل کو کوئی نہیں بخشے گا۔

 

زندگی کی سٹرک

سٹرکوں میں چوراہے ہوتے ہیں۔یعنی ایسے مقامات جہاں پورب سے پچھم جانے والی سٹرک پر ان مسافروں کےلیے راستہ جو اُتّرسے دکھن یا دکھن سے اُتّرجارہے ہوں۔

ٹریفک قانون کے تحت یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک طرف کی سٹرک بند کرکے دوسری طرف کی سٹرک کھول دی جاتی ہے ۔اس مقصد کےلیے علامتی طور پر ہرا سگنل اور لال سگنل استعمال کیا جاتا ہے۔ایک گاڑی چلتے چلتے چوراہہ پہنچتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس کے سامنے لال سگنل روشن ہوگیا ہے تو وہ وہیں رک جاتی ہے تاکہ دوسری سٹرک سے چلنے والی سواریوں کو گذرنے کا موقع دیدے۔جب دوسری سٹرک کی سواریاں نکل جاتی ہیں تو لال سنگل کی جگہ ہرا سگنل روشن ہوجاتا ہے۔اب آپ کی سواری کےلیے موقع ہوتا ہے کہ وہ چوراہہ کو پار کرکے آگے بڑھے اور اپنا سفر جاری رکھے۔

چوراہہ کا یہ قانون زندگی کا قانون بھی ہے۔زندگی کی سٹرک کوئی خالی سٹرک نہیں جس پر آپ اپنی مرضی کے مطابق صرف اپنی گاڑی دوڑاتے رہیں۔یہاں دوسرے بھی بہت سے لوگ ہیں اور وہ بھی اپنا اپنا سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے اندر یہ وسعت اور لچک پیدا کرے کہ وہ یہاں خود راستہ لینے کے ساتھ دوسروں کو بھی راستہ دے۔جولوگ اپنے اندر یہ حکمت پیدا نہ کریں ان کا انجام وہی ہوگا جو ایسے چوراہہ کا ،جہاں کوئی سوار اپنی سواری کو نہ روکے۔ہر ایک بس اندھا دھند اپنی سواری دوڑاتا ہے۔

یاد رکھئے،زندگی کی شاہراہ پر آپ ہی اکیلے نہیں ہیں۔یہاں بہت سے دوسرے چلنے والے بھی ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ زندگی کی شاہراہ پر آگے بڑھیں تو آپ کو دوسروں کےلیے بھی گزرنے کا موقع دینا ہوگا۔سٹرک کے کسی حصہ پر اگر آپ اپنی گاڑی کو دوڑانے کا موقع پا رہے ہیں تو سڑک کے کسی دوسرے حصے پر آپ کو اپنی گاڑی روکنی بھی ہوگی تاکہ دوسری سواریاں ٹکرائے بغیر گزرنے کا موقع پاسکیں۔

اپنا حق لینے کےلیے دوسروں کا حق دینا پڑتا ہے۔اگر آپ چاہیں کہ دوسروں کو ان کا حق دئے بغیر اپنا حق پالیں تو موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔

 

کامیاب تدبیر

ایک مغربی کمپنی نے موٹر کار کا ایک ٹائر بنایا۔اس نے اشتہار دیا کہ جو شخص ہمارے ٹائر میں کوئی واقعی خرابی بتائے گا اس کو پچاس ہزار ڈالر انعام دیا جائے گا۔جب اس کمپنی کا ٹائر بازار میں آیا تو لوگ اس کو خریدنے کےلیے ٹوٹ پڑے۔لوگوں نے سوچا کہ اگر کوئی خرابی نکال پائے تو پچاس ہزار ڈالر مل جائیں گے۔ ورنہ ٹائر تو ہے ہی۔

کمپنی کو بےشمار شکایت نامے موصول ہوئے چھان بین کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے 20فیصد خطوط قابل لحاظ ہیں۔چنانچہ کمپنی نے ہر علاقہ کے منتخب مکتوب نگاروں کو دعوت نامے روانہ کئے۔ان کو آمدورفت کا کرایہ دیا اور ان کو عمدہ ہوٹلوں میں ٹھہرایا۔کمپنی کے تحت ایک سمینار میں یہ لوگ شریک ہوئے۔ہر ایک نے اپنی اپنی تنقیدی رائیں پیش کیں۔بحث مباحثہ کے بعد ایک متفقہ تجویز منظور ہوئی اور انعام بھی تقسیم کیا گیا۔

اس کے بعد کمپنی نے نیا ٹائر بنایا۔اس نے نئے ٹائر کی قیمت پہلے کےمقابلہ میں دگنا کردی جب اشتہار دیا گیا تو دوسرا ٹائر پہلے ٹائر سے بھی زیادہ فروخت ہوا۔پہلا ٹائر کمپنی نے اپنی رائے سے بنایا تھا۔دوسرے ٹائر میں عوام کی رائے شامل ہوگئی۔لوگوں نے سمجھا کہ یہ ٹائر استعمال کرنے والوں کی تجاویز اور مشوروں کے مطابق بنایا گیا ہے۔اس لیے وہ اس ٹائر سے زیادہ اچھا ہوگا جس کو کمپنی خود اپنی رائے سے بنائے۔

موجودہ دنیا میں ہر آدمی دوسرے آدمی سے بندھا ہوا ہے۔ہر آدمی دوسروں کو شریک کرنے کے بعد کامیاب ہوتا ہے۔اس لیے موجودہ دنیا میں کامیاب عمل کےلیے دوسروں کی رعایت ضروری ہے۔ آپ اپنی ذات کےلیے کوئی کامیابی اس وقت حاصل کرسکتے ہیں۔جب کہ دوسروں کو کامیاب بنانے میں بھی آپ نے کوئی حقیقی حصہ ادا کیا ہو۔

اس دنیا میں کامیاب ہونے کےلیے آدمی کو نفع بخش بننا پڑتا ہے جن لوگوں سے وہ لے رہا ہے ان کو یہ یقن دلانا پڑتا ہے کہ وہ ان کو کچھ دے بھی رہا ہے۔یہ دنیا دو طرفہ لین دین کا بازار ہے جو دوسروں کو دے گا وہی دوسروں سے پائے گا جس کے پاس دوسروں کو دینے کےلیے کچھ نہ ہو۔اس کو شکایت نہ ہونی چاہئے اگر دوسرے اسے کچھ دینے کےلیے تیار نہیں ہوئے۔

 

کام ہے کام کرنے والے نہیں

مہاراشٹر کا ایک نوجوان رامیش دھوبی (22سال) بے روزگاری سے سخت پریشان تھا۔مایوسی نے اس کی زندگی اس کی نظر میں بے قیمت بنا دی تھی۔آخر کار ایک روز وہ موہدی اسٹیشن پہنچا۔ ’’میرے اس ہاتھ کی کیا ضرورت ہے جس کےلیے دنیا میں کوئی کام نہ ہو‘‘ یہ احساس اس کے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔اتنے میں اس کو ایک ٹرین آتی ہوئی دکھائی دی۔وہ ریلوے لائن کے کنارے کھڑا ہوگیا اور جیسے ہی ٹرین سامنے آئی اس نے اپنے دونوں ہاتھ پہیہ اور پٹری کے بیچ میں ڈال دئے۔انجام ظاہر تھا۔اس کے دنوں ہاتھ کٹ کر اس کے جسم سے الگ ہوگئے۔

مسافروں نے جب اس کا حال دیکھا تو اس کو لے کر فوراً اسپتال پہنچے اور اس کو ڈاکٹروں کے حوالے کیا۔رامیش دھوبی سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔اس نے جو جواب دیا وہ انگریزی رپورٹنگ (ٹائمس آف انڈیا 14اگست 1981) میں ان الفاظ میں نقل ہواہے

My hands are useless as I can find no work,

and living is shameful without work.

جب میرے لیے کوئی کام نہیں تو میرے ہاتھ بھی بے کار ہیں۔کام کے بغیر زندگی رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں۔

اخبار کی یہ خبر میں نے پڑھ کر ختم کی تھی کہ ایک صاحب کمرہ میں داخل ہوئے۔انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ میرے پاس کافی کھیت ہیں اور نہر ہونے کی وجہ سے آب پاشی کا معقول انتظام ہے۔محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کام کیا جائے تو بآسانی ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی پیدوار حاصل کی جاسکتی ہے۔اب تک میں خود کرتا رہا۔مگر اب میرے پاس وقت نہیں۔اور کوئی ایسا قابل اعتماد آدمی نہیں ملتا جس کے حوالے میں اپنا کام کرسکوں۔اس لیے میں نے طے کیا ہے کہ میں اپنی زمینوں کو بیچ دوں۔

آج کی دنیا میں جس طرح بے شمار لوگ بے روزگار ی سے پریشان ہیں۔اسی طرح یہ بھی واقعہ ہے کہ بےشمار لوگ اس مسئلہ سے دوچار ہیں کہ ان کے پاس کام ہیں مگر ایسے آدمی نہیں ملتے جو سلیقہ کے ساتھ کام کو سنبھال سکیں۔

ان دونوں واقعات کوملا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ دنیامیں کام کی کمی نہیں بلکہ کام کرنے والوں کی کمی ہے۔جو لوگ بے روزگار ہیں اگر وہ اپنے اندر صرف دو صلاحیت پیدا کر لیں تو روزگار خود انھیں تلاش کرے گا نہ کہ وہ روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھریں۔وہ دو صلاحیتیں ہیں ۔۔۔محنت اور دیانت داری

 

جتنا دینا اتنا پانا

مسٹر سرجیت سنگھ لانبہ ( پیدائش 1931) عکسی حافظ (Photographic Memory) کے مالک ہیں۔کسی چیز کو چند بار پڑھ لیں تو وہ ان کو یاد ہوجاتی ہے۔12جون 1983کو وہ ہمارے دفتر میں آئے تو الرسالہ کے کئی مضمون انھوں نے لفظ بلفظ زبانی سنادئیے۔

مسٹر لانبہ وزارت قانون میں ہیں اور دہلی میں کرتی نگر میں رہتے ہیں۔وہ اقبال کے شیدائی ہیں۔اقبالیات کے موضوع سے انھیں خاصی دلچسپی ہے۔اقبال کے ہزاروں اشعار ان کو زبانی یاد ہیں۔اور اسی طرح ان کی زندگی کے حالات بھی۔

مسٹر سرجیت سنگھ لانبہ مئی 1983 میں پاکستان گئے۔وہاں اقبالیات کے ماہر کی حیثیت سے ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔اس سلسلے میں ان کی ملاقات امیر حسین صاحب (لاہور) سے ہوئی۔انھیں بھی اقبال کے اشعار کثرت سے یاد ہیں۔انھوں نے مسٹر لانبہ کو چیلنج کیا اور کہا کہ اگر تم ثابت کردو کہ تم کو مجھ سے زیادہ اقبال کے اشعاریاد ہیں تو میں اپنی ہارمان لوں گا اور تم کو پانچ ہزار روپے انعام دوں گا۔ مسٹر لانبہ نے کہا

میں پچھلے دس سال سے شمع اقبال پر پروانے کی طرح رقص کررہاہوں تم مجھ سے زیادہ اقبال کا کلام اسی وقت پیش کرسکتے ہو جب کہ تم نے پروانہ بن کر شمع اقبال پر مجھ سے زیادہ رقص کیا ہو۔چنانچہ مسٹر سرجیت سنگھ لانبہ مقابلہ میں جیت گئے۔امیر حسین صاحب اقبال کی جس نظم کا مصرعہ پڑھتے مسٹر لانبہ مسلسل اس کے آگے کے اشعار سنانا شروع کردیتے۔اس کے برعکس جب مسٹر لانبہ نے اقبال کا کوئی مصرعہ پڑھا تو وہ اس کے آگے زیادہ نہ سنا سکے۔

اقبالیات کے مقابلہ میں سرجیت سنگھ لانبہ جیت گئے اور امیر حسین لاہوری ہار گئے۔

کسی میدان میں کامیابی کی سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ اس میدان میں آدمی اپنے آپ کو وقف کردے۔زندگی کا ہر معاملہ گویا ایک شمع ہے۔اور اس معاملہ میں وہی شخص سب سےزیادہ آگے بڑھے گا جو سب سےزیادہ اس شمع کے لیے تڑپا ہو،جس نے سب سے زیادہ اس شمع کےلیے رقص کیا ہو۔

زندگی لین دین کا سودا ہے۔یہاں دینے والا پاتا ہے۔اور اتنا ہی پاتا ہے جتنا اس نے دیا ہو۔ یہاں نہ دئیے بغیر پاناناممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کم دے کر زیادہ کا حصہ دار بن جائے۔

 

دینے والے بنو

باٹا شو کمپنی باٹا خاندان کے نام پر ہے۔یہ خاندان ابتداء چیکو سلواکیا میں رہتا تھا۔1620میں انہوں نے جوتا بنانے کا کام شروع کیا۔ٹامس باٹا سینئر (موجودہ باٹا کے والد) نے 1925میں پہلی بار جوتے کا کارخانہ بنایا۔

ٹامس باٹا سینئر اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں اڑ رہے تھے کہ ان کا جہاز گہرے کہر میں پھنس کر گر گیا۔ اسی وقت وہ جل کر مر گئے۔اس کے بعد سے ٹامس باٹا جونئیر باٹا لمیٹڈ کے پریزیڈنٹ ہیں۔ان کی عمر اس وقت 68 سال ہے۔

باٹا کمپنی کا کاروبار اس وقت 114 ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔پچھلے سال اس کمپنی نے 315 ملین جوڑے جوتے ساری دنیا میں فروخت کئے۔اس کمپنی کا سب سے بڑا کاروبار کناڈا میں ہے۔اور اسکے بعددوسرے نمبر پر ہندوستان میں ہے۔باٹا کمپنی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جوتا سازادارہ ہے۔اس کے براہ راست ملازمین کی تعداد مجموعی طور پر تقریباً 90 ہزار ہے۔بالوواسطہ کارکنوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

مسٹر ٹامس باٹا جونئیر 1983 میں چالیسویں بار ہندوستان آئے۔اخباری نمائندے نے ایک ملاقات میں ان سے سوال کیا آپ کی کامیابی کا واحد سب سے بڑا عامل کیا ہے جس نے آپ کو موجودہ کامیابی تک پہنچایا۔مسٹر باٹا نے جواب دیا کہ ہم ہر قسم کے جوتے بناتے ہیں۔سستے بھی اور انتہائی قیمتی بھی۔مگر ہم ہر خریدار کی ضرورت مکمل طور پر پوری کرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے خریداروں کا اتنا زیادہ لحاظ کرتے ہیں جتنا کوئی بھی نہیں کرتا۔

We really look after our customers as nobody else.

باٹا کی جوتا کمپنی کی عظیم کامیابی یہ سبق دے رہی ہے کہ اگر تم اپنے لیے لینا چاہتے ہو تو دوسروں کو دینے کی کوشش کرو۔کیوں کہ دوسروں کو دے کر ہی اس دنیا میں تم اپنے لیے پاسکتے ہو۔

 

قدر دانی

چارلس ڈارون (1882۔1809) اپنے اسکول کے زمانہ میں اچھا طالب علم نہ تھا۔اس کے والد نے ایک بار اس کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تم بس شکار کھیلتے رہتے ہو اور کتوں کے ذریعہ چوہا پکڑنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے ہو‘‘ اسکول کی تعلیم کے بعد اس کے والد نے اس کو ڈاکٹری کے کورس میں داخل کیا مگر وہ ڈاکٹری کا کورس مکمل نہ کرسکا۔اس کے بعد پادری بننے کا ارادہ کیا اور کیمبرج یونیورسٹی میں دینیات میں داخلہ لیا۔مگر یہاں بھی وہ ناکام رہا ۔

کیمبرج کے قیام کے زمانہ میں ڈارون کو تاریخ طبیعی (Natural history) کے موضوع سے دلچسپی پیدا ہوئی۔یہ مضمون اگرچہ اس کے ڈگری کورس کے نصاب میں شامل نہ تھا۔تاہم ذاتی شوق کے تحت وہ اس کو پڑھتا رہا۔تاریخ طبیعی اور علم طبقات الارض سے دلچسپی نے ڈارون کو پروفیسر ہنسلو (J.S.Henslow) تک پہنچایا۔پروفیسر ہنسلو نہایت علم دوست اور وسیع الظرف آدمی تھے۔ان سے تعلق ہی ڈارون کےلیے پہلا زینہ تھا جس نے اس کو علم کی دنیا میں چوٹی کے مقام پر پہنچا دیا۔

اس زمانہ میں برطانوی حکومت نے اپنے بحریہ کے ایک خاص دخانی جہاز کو جس کا نام بیگل (Beagle) تھا تحقیقات کی مہم پر روانہ کیا۔یہ جہاز بحر الکاہل اور اٹلانٹک کے ساحلی ملکوں کا پانچ سال (36۔1831) تک سروے کرتا رہا۔پروفیسر ہنسلو نے اپنے ذاتی اثرات سے کام لے کر ڈارون کو اس جہاز میں جگہ دلا دی۔ڈارون اس جہاز میں تاریخ طبیعی کے عالم (Naturalist) کے طور پر مقرر کردیا گیا۔اس طرح اس کو موقع مل گیا کہ دنیا کے مختلف حصوں کا عملی مشاہدہ کرسکے۔ڈارون اس وقت بطور خود بیگل میں جگہ نہیں حاصل کرسکتا تھا۔یہ صرف پروفیسر ہنسلو تھے جنھوں نے نوجوان ڈارون کی صلاحیت کو پہچانا اور اس کو اس تاریخی کشتی میں سفر کرنے کا موقع فراہم کیا۔

اس پانچ سالہ مدت میں ڈارون نے مختلف ملکوں کو دیکھا اور سواحل پر واقع جنگلوں اور پہاڑوں کے سفر کئے۔کہیں پیدل اور کہیں گھوڑے پر وہ میلوں تک اندر گیا اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف قسم کے پودوں اور جانوروں کا مشاہدہ کیا اور ان کے نمونے جمع کیے۔ساتھ ہی اس نے پتھروں میں محفوظ مختلف جانداروں کے باقیات (Fossils) کا ذخیرہ بھی اکٹھا کیا۔

اس سفر کے مشاہدات سے اس نے بہت سے نظریات قائم کئے۔مثلاً یہ کہ مختلف اقسام کے جانور ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود بہت سے پہلوؤں سے باہم مشابہت رکھتے ہیں۔اسی طرح یہ کہ کوئی جاندار جس ماحول میں رہتا ہے وہ اس ماحول کا مناسبت سے اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے وغیرہ۔بنیادی طور پر یہی وہ مشاہدات تھے جو مزید مطالعہ کے بعد ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی صورت میں ڈھل گئے۔

راقم الحروف ذاتی طور پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا کوسراسر وہم سمجھتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔تاہم ڈارون کی زندگی میں یہ سبق ہے کہ ’’بڑوں ‘‘ کی قدردانی کس طرح ’’ چھوٹوں‘‘ کو آگے بڑھاتی ہے اور ان کی صلاحیت کو نمایاں ہونے کا موقع دیتی ہے جس معاشرے میں بڑے لوگ جوہر کی بنیاد پر افراد کی قدردانی کریں وہاں افراد ترقی کریں گے اور جہاں ایسا ہو کہ وقت کے بڑے لوگ صرف اپنے حاضر باشوں اور خوشامد پرستوں کی قدر کرنا جانیں وہاں افراد کی صلاحیتیںمُرجھا کر رہ جائیں گی۔ایسا معاشرہ کبھی اعلیٰ ترقی تک نہیں پہنچ سکتا۔

ڈارون کی زندگی کا ایک اور واقعہ بہت سبق آموز ہے۔ڈارون کے ساتھ ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔ڈارون نے 1852 میں طبیعی انتخاب (Natural Selection) کے متعلق اپنے خیالات قلمبند کرلیے تھے۔مگر ابھی اس کے چھپنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔جون 1858میں اس کو الفرڈویلیس (Alfred Wallace) کا ایک خط موصول ہوا۔اس خط میں اس نے اپنے ایک غیر مطبوعہ مقالہ کا ذکر کیا تھا۔اس مقالہ میں اس نے عین وہی بات لکھی تھی جو ڈارون نے اپنے مقالہ میں لکھ رکھی تھی۔ ڈارون یہ کرسکتا تھا کہ اولیت کا کریڈٹ لینے کےلیے وہ فوراً اپنے مقالے کو شائع کردے۔مگر اس نےایسا نہیں کیا۔اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ اپنے اور ویلیس کے خیالات کو ایک مشترکہ مقالہ کی صورت میں لند ن کی سوسائٹی (Lennean Society) کے سامنے پیش کرے تاکہ یہ نیا نظریہ لوگوں کے سامنے زیادہ طاقت اور اہمیت کے ساتھ لایا جاسکتے۔چنانچہ 20 جون 1858 کو ارتقاء کا نظریہ ایک مشترکہ مقالہ کی صورت میں لندن کے اہل علم کے اجتماع کے سامنے پیش کیا گیا۔اور فورا ہی اہمیت کا موضوع بن گیا۔۔۔۔اجتماعی عمل ہمیشہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے،بشرطیکہ افراد اپنی انفرادی خواہشوں کو روکیں اور اجتماعی انداز میں کام کرنے کا حوصلہ کرسکیں۔

محنت

تعمیر کی فتح

صبح کو وہ سو کر اُٹھا تو کمرہ میں چڑیا کا انڈا ٹوٹا ہو۔ا پڑا تھا۔یہ گوریا کا انڈا تھا جس نے چھت کی لکڑی میں ایک گوشہ پا کر وہاں اپنا گھونسلا بنا رکھا تھا۔اس گھونسلے کی وجہ سے کمرہ میں ہر وقت چڑیوں کا شور رہتا۔تنکے گرتے رہتے۔آدمی نے فرش پر ٹوٹا ہوا انڈا دیکھا تو اس نے گھونسلا اجاڑ کر پھینک دیا۔

اگلے دن پھر وہی ’’چوں چوں‘‘ کا شور تھا۔چڑیاں دوبارہ چھت کی لکڑی میں تنکے جمع کررہی تھیں۔شاید اجڑے ہوئے گھونسلے کو دوبارہ بنا بنایا دیکھنے کے جذبہ نے ان کے اندر عمل کا شوق بڑھادیا تھا۔اس جسارت پر اس کو غصہ آیا اور اس نے دوبارہ ان کا گھونسلا اجاڑ کر پھینک دیا۔وہ سمجھتا تھا کہ اس نے چڑیوں کے اوپر آخری طور پر فتح پالی ہے۔مگر اگلے دن پھر گھونسلے کا مسئلہ اس کے سر پر موجود تھا ۔ چڑیوں نے جب دیکھا کہ ان کا بنابنایا گھونسلا اجاڑ دیا گیا ہے اور انڈے توڑے جاچکے ہیں تو انھوں نے رونے میں یا فریاد کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا۔انھوں نے ایسا بھی نہیں کیا کہ باہر جا کر دوسری ہم جنس چڑیوں کو ڈھونڈیں اور ان کے ساتھ متحدہ محاذ بنا کر گھر پر حملہ کریں۔اسکے برعکس وہ خاموشی سے باہر نکل گئیں اور ایک ایک تنکا لا کر دوبارہ گھونسلا بنانا شروع کردیا۔

اب یہی روزانہ کا قصہ ہوگیا۔چڑیاں روزانہ گھونسلا بنانا شروع کرتیں اور آدمی روزانہ اس کو اجاڑ دیتا۔اسی طرح ایک مہینہ گزرگیا۔اس دوران میں کتنی ہی بار چڑیوں کی محنت ضائع ہوئی۔ان کے چنے ہوئے تنکے بیکار ہوگئے۔مگر چڑیاں ان چیزوں سے بے پروا ہو کر اپنا کام کئے جارہی تھیں۔آدمی کی نفرت کا جواب چڑیوں کے پاس صرف خاموش عمل تھا۔آدمی کی تخریب کا مقابلہ ہر بار وہ نئی تعمیر سے کرتی تھیں۔چڑیوں کا دشمن طاقت ور تھا مگر طاقت ور دشمن کا توڑا نھوں نے اپنے لگاتار عمل میں ڈھونڈھ لیا تھا۔

آخر نفرت پر خاموش عمل غالب آیا۔چڑیوں کی مسلسل تعمیر نے آدمی کی مسلسل تخریب پر فتح پائی ۔ ایک مہینہ کے ناکام مقابلہ کے بعد آدمی تھک چکا تھا۔اس نے چڑیوں کا گھونسلا اجاڑنا چھوڑدیا۔اب گوریا نے اپنے گھونسلے کو مکمل کرکے پھر اس میں انڈے دے دئیے ہیں۔وہ ان کو سینے میں مشغول ہے تاکہ وہ اپنی اگلی نسل پیدا کرے اور پھر اپنا کام کرکے اڑ جائے۔جب یہ چڑیاں اپنے گھونسلے میں جمع ہوتی ہیں تو ان کا ’’چوں چوں ‘‘ کا شور اب بھی کمرہ میں گونجتا ہے۔مگر اب آدمی کو یہ شور برا نہیں لگتا کیونکہ ’’چوں چوں‘‘ کی آواز میں اس کو یہ قیمتی پیغام سنائی دیتا ہے۔اپنے دشمن سے نفرت نہ کرو۔ہر حال میں اپنی تعمیری جدوجہد میں لگے رہو۔تم کامیاب ہوگے۔

 

محنت کا ذریعہ

جوزف کانریڈ (Joseph Conrad) پولینڈ کے ایک شہر برڈک زیو (Berdiczew) میں 1857 میں پیدا ہوا۔وہ بچپن ہی میں یتیم ہوگیا۔اپنی زندگی کے ابتدائی زمانہ میں اس کو ملاحی کے ذریعہ اپنی معاش فراہم کرنی پڑی۔اس کی باقاعدہ تعلیم بھی نہ ہوسکی۔مختلف ملکوں میں سفر کرتا ہوا بالآخر وہ انگلستان پہنچا۔اور 1886میں اس نے برطانوی شہریت حاصل کرلی۔

برطانیہ کے زمانۂ قیام میں اس نے انگریزی سیکھنے کےلیے غیرمعمولی محنت کی۔یہاں تک کہ وہ انگریزی زبان کا مستند ادیب بن گیا۔کہا جاتا ہے کہ اپنے زمانہ میں انگلستان کے زندہ مصنفین میں اس کی شہرت ہارڈی (Hardy) کے بعد صرف نمبر 2پر تھی۔

اس کی کتاب لارڈ جم ( Lord Jim) میں اس کے جو حالات چھپے ہیں اس میں اس کے بارے میں یہ جملہ درج ہے ’’اس نے انگریزی زبان میں صاحب طرز ادیب کا نام حاصل کیا اگرچہ 19 سال کی عمر تک اس کا یہ حال تھا کہ وہ انگریزی کا ایک لفظ نہ بول سکتا تھا:

He made his name as a stylist in English although he was unable to speak a word of the language before he was nineteen.

جوزف کانریڈ کی دودرجن سے اوپر کتابیں ہیں جوزیادہ تر ناول یا کہانی کے پیرایہ میں ہیں۔ انگریزی اگرچہ اس کی مادری زبان نہ تھی مگر اس کی انگریزی کتابیں یونی ورسٹیوں کے تعلیمی نصاب میں شامل ہیں۔اس نے 1924میں انگلستان میں وفات پائی۔

انگلستان کے ایک باشندہ نے مجھ سے بتایا کہ کالج میں اس کے انگریز استاد نے ایک بار اس سے کہا کہ تم جوزف کانریڈ کو پڑھو۔وہ بہت خوب صورت انگریزی لکھتا ہے:

Read Joseph Conrad. He writes beautiful English.

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محنت ہر چیز کا بدل ہے آپ غریب گھر میں پیدا ہو کر بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ بن سکتے ہیں۔آپ غیر اہل زبان ہو کر اہل زبان جیسے ادیب بن سکتے ہیں۔آپ لوگوں کی نظر میں غیر اہم ہوتے ہوئے ایسی چیز لکھ سکتے ہیں جس کو پڑھنے کےلیے تمام دنیا والے مجبور ہوں۔

 

کام کا شوق

ایک تعلیم یافتہ شخص ایک مصروف ادارہ میں ہمہ وقتی ملازم تھے۔اسی کے ساتھ وہ ایک انگریزی اخبار میں سب ایڈیٹر تھے۔وہ مذکورہ ملازمت کی ذمہ داریاں پوری طرح نبھاتے تھے اور اسی کے ساتھ اخبار کے ادارتی ذمہ داریاں بھی۔کسی شخص نے ان سے پوچھا آپ اتنا زیادہ کام کرتے ہیں۔آپ کو وقت کیسے ملتاہے۔انھوں نے جواب دیا۔وقت کوئی چیز نہیں۔یہ صرف دلچسپیوں کی کارگزاری ہے:

Time is nothing but it is a function of interests.

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کام کی تکمیل کےلیے اصل اہمیت وقت کی نہیں ، اصل اہمیت دلچسپی کی ہے ، یہ آدمی کی دلچسپی ہے جو اس سے کسی کام کو پورا کرادیتی ہے۔واقعی لگن اور شوق ہو تو کم وقت میں آدمی بہت سا کام کرلے گا۔اور اگر شوق اور لگن نہ ہو تو زیادہ وقت بھی اس کےلیے تھوڑا بن جائے گا۔

ایک شخص کے پاس ملک کے باہر سے ایک پیش کش آئی۔وقت صرف تین ہفتہ کا تھا، جبکہ اس کے پاس ابھی تک پاسپورٹ بھی نہیں تھا۔موجودہ زمانہ میں بیرونی سفر کےلیے بہت سے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔بظاہر وقت پر سفر کرنا انتہائی دشوار تھا۔مگر اس نے رات دن ایک کرکے سارا کام پورا کرلیا اور ٹھیک تاریخ پر وہ ہوائی جہاز پر بیٹھ کر مطلوبہ ملک کو پرواز کررہا تھا۔

دوسری طرف اسی قسم کا موقع ایک اور شخص کےلیے پیدا ہوا۔وہ شہر سے دور دیہات میں تھا، اس نے اپنے ایک رشتہ دار کو جو شہر میں رہتے تھے ، خط لکھا کہ میرے لیے شہر میں آنا مشکل ہے۔آپ میرا یہ کام کرا دیجئے اور اس سلسلہ میں جو پیسہ خرچ ہوگا۔وہ سب میرے ذمہ ہوگا۔رشتہ دار نے جواب دیا کہ اچھا میں کوشش کروں گا۔مذکورہ شخص ان کے اطمینان پر رہ گیا۔اس کے پاس پورے دو مہینے کا وقت تھا مگر اس کا کوئی کام نہیں ہوااور وہ باہر نہ جاسکا۔آخر میں مذکورہ رشتہ دار کا پیغام ملاکہ فلاں وجہ پیش آگئی اس وجہ سے میں تمہارا کام نہ کرسکا۔یہ زبانی پیغام تاخیر سے اس وقت پہنچا جب کہ وقت گزر چکا تھا۔

پہلے شخص نے اپنا کام سمجھ کر دلچسپی لی تو اس نے کم وقت کے باوجود کام کو پورا کرلیا۔دوسرے شخص نے اپنے کام کی طرح دل چسپی نہیں لی اس لیے معمولی باتیں اس کےلیے عذر بن گئیں اور زیادہ وقت کے باوجود وہ کام کو انجام نہ دے سکا ۔

آدمی کو جب کام کا شوق ہو تو اس کی عقل کے دروازے کھل جاتے ہیں۔مقصد کو حاصل کرنے کی تڑپ اس کے قوتِ عمل کو بڑھا دیتی ہے۔وہ اس کی خاطر ہر قربانی کےلیے تیار ہوجاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنوں میں وہ کام کرلیتا ہے جس کو دوسرا شخص ہفتوں اور مہینوں میں بھی نہ کرسکے۔

 

ایک تاثر

20 جنوری 1986 کو میں انڈین ائیر لائنز کی فلائٹ نمبر 439کے ذریعہ دہلی سے حیدر آباد گیا۔ جہاز کے اندر حسب معمول اعلانات شروع ہوئے تواناؤنسر نے دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا:

Captain Mustafa is in command.

(کیپٹن مصطفٰے اس جہاز کے پائلٹ ہیں) انڈین ائیر لائنز میں مَیں نے بہت سفر کیے ہیں مگر ’’کیپٹن مصطفیٰ ‘‘ جیسا لفظ پہلی بار سننے میں آیا۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اب دیگر اعلیٰ سروسوں کے علاوہ اس ملک کی ہوائی سروسوں میں بھی داخل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔وہ اپنے پچھڑے پن کو ختم کرکے تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ہندوستان کے مسلم لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے بارے میں ’’نکالے جانے‘‘ کی خبریں دنیا کوسناتے ہیں۔مگر یہ سراسر ناانصافی ہے۔ان کو چاہئے کہ اسی کے ساتھ ’’داخل کیے جانے‘‘ کی خبریں بھی وہ دنیا کو سنائیں تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رُخ بھی معلوم ہوسکے۔مسلم قائدین کا یہ عمل یقینی طور پر غیر منصفانہ عمل ہے۔اور غیر منصفانہ عمل کےلیے اس دنیا میں بربادی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔

میں مانتا ہوں کہ اس ملک میں اگر ایسے واقعات ہیں کہ ایک ’’مصطفٰے ‘‘ کو سروس میں لیا گیا ہے تو اسی کے ساتھ ایسا واقعہ بھی موجود ہے کہ کسی ’’مصطفٰے ‘‘کو سروس میں نہیں لیا گیا۔مگر مجھے جس چیز سے اختلاف ہے وہ یہ کہ اس کو تعصب اور امتیاز قرار دیا جائے۔یہ دراصل زندگی کی ایک حقیقت ہے نہ کہ تعصب اور امتیاز۔

اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے یہاں لازماً یہ ہونا ہے کہ افراد اور قوموں کے درمیان دوڑ جاری رہے ۔اور پھر کوئی آگے بڑھے اور کوئی پیچھے رہ جائے۔چڑیا گھر میں جو جانور ہوتے ہیں وہ کچھ دن کے بعد سُست پڑ جاتے ہیں۔چنانچہ ان کے کٹہرے میں وقتی طور ان کے دشمن جانور ڈالے جاتے ہیں تاکہ ان کے لیے دوڑنے اور بھاگنے کا ماحول پیدا کیا جائے۔یہ قدرت کا اصول ہے، اور مقابلہ اور مسابقت کے اسی اصول میں زندگی کا راز چھپاہوا ہے۔۔۔ایک واقعہ کو قومی تعصب کہیں تو صرف شکایت کا ذہن بنتا ہے ، اسی واقعہ کو قومی مسابقت کہیے توعمل کا جذبہ بیدار ہونے لگےگا۔

 

ایک وراثت یہ بھی ہے

کریم بخش سیدھے سادھے دین دار آدمی تھے۔گاؤں کی معمولی آمدنی پر گزر کرلیتے۔65 سال میں عمر میں وہ چار بچے چھوڑ کر مرے تو ان کےلیے انھوں نے کوئی قابل ذکر جائیداد نہیں چھوڑی تھی۔ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے رحیم بخش شہر چلے آئے تاکہ اپنے لیے کمائی کی کوئی صورت کرسکیں۔شہر میںانھوں نے مختصر سرمایہ کے ساتھ ایک کاروبار شروع کردیا۔

رحیم بخش کے والد نے ان کےلیے کوئی مادی وراثت نہیں چھوڑی تھی۔مگر قناعت اور سادگی اور کسی سے لڑے بھڑے بغیر اپنا کام کرنے کی وراثت چھوڑی تھی۔یہ وراثت رحیم بخش کےلیےبےحد مفید ثابت ہوئی۔ان کی سادگی اور قناعت کانتیجہ یہ ہوا کہ معمولی آمدنی کے باوجود وہ مسلسل ترقی کرنے لگے۔ان کا لڑائی بھڑائی سے بچنے کا مزاج ان کےلیے مزید معاون ثابت ہوا۔ہر ایک ان سے خوش تھا۔ہر ایک سے ان کو تعاون مل رہا تھا۔ان کی ترقی کی رفتار اگرچہ سست تھی مگر وہ ایک دن رکے بغیر جاری رہی۔

رحیم بخش کا کاروبار اگرچہ معمولی تھا مگر ان کی شرافت ، ان کی بے غرضی اور ان کی ایمان داری نے ان کو اپنے ماحول میں اتنی عزت دے رکھی تھی جیسے کہ وہ کوئی بڑی حیثیت کے آدمی ہوں۔ان کے پاس سرمایہ بہت کم تھا مگر لین دین میں صفائی اور وعدہ کا پکا ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بازار میں بڑے بڑے تھوک بیوپاری ان سے کہتے کہ ’’میاں جی، جتنا چاہے مال لے جاؤ۔پیسہ کی پروانہ کرو۔پیسے بعد میں آجائیں گے‘‘۔بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کسی سے جھگڑے کی نوبت آگئی۔مگر انھوں نے خود ہی اپنے کو چپ کرلیا۔وہ شریر آدمی کے خلاف کوئی جوابی کاروائی نہ کرتے بلکہ خاموشی سے اپنے کاروبار میں لگ جاتے اور اس کے حق میں دعا کرتے رہتے۔جب ان کے دل میں شیطان کوئی بدمعاملگی کا جذبہ ڈالتا تو ان کے والد کا معصوم چہرہ ان کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا۔ان کو ایسا محسوس ہوتا کہ اگر میں نے کوئی غلط معاملہ کیا یا کسی سے جھگڑا فساد کیا تو میرے باپ کی روح قبر میں تڑپ اٹھے گی۔یہ خیال فوراً ان کے جذبات کو دبادیتا۔وہ دوبارہ اسی تعمیری راستہ پر چل پڑتے جس میں انھیںان کے باپ نے چھوڑا تھا۔

ان کا کاروبار بڑھا تو ان کو مزید معاون کی ضرورت محسوس ہوئی۔اب انھوں نے اپنے بھائیوں کو بلانا شروع کیا۔یہاں تک کہ چاروں بھائی شہر میںمنتقل ہوگئے۔دھیرے دھیرے ان کے کاروبار کے چار مستقل شعبے ہوگئے۔ہر شعبہ ایک ایک بھائی کے سپرد تھا۔چاروں بھائی ایک ساتھ مل کر رہتے اور ساتھ کھاتے پیتے۔ مگر کاروباری اعتبار سے ہر بھائی اپنے اپنے شعبہ کو آزادانہ طور پر انجام دیتا تھا۔

کچھ دنوں کے بعد رحیم بخش کو محسوس ہوا کہ بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے چونکہ وہی کاروبار کے مالک ہیں اس لیے بقیہ بھائی اپنے کام کو اس دلچسپی سے نہیں کرتے جیسا کوئی آدمی اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ کام کو اپنا ذاتی کام سمجھتا ہو۔اب رحیم بخش کےلیے دو صورتوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کا سوال تھا۔ یا تو کاروبار کو اپنے قبضہ میں لے کر بقیہ تینوں بھائیوں کو اس سے الگ کردیں اور اس کے نتیجہ میں ہمیشہ کےلیے بھائیوں کی دشمنی خریدیں۔دوسرے یہ کہ معاملات کو اسی طرح چلنے دیں۔یہاں تک کہ بالآخر وہی ہو جو عام طور پر مشترک کاروبار میں ہوتا ہے۔یعنی باہمی شکایت اور اس کے بعد تلخ یادوں کے ساتھ کاروبار تقسیم۔

رحیم بخش نے چند دن سوچا اور اس کے بعد سب بھائیوں کو جمع کرکے ساری بات صاف صاف ان کے سامنے رکھ دی۔انھوں نے کہا کہ خدا کے فضل سے ابھی کوئی بات بگڑی نہیں ہے۔بہترین بات یہ ہے کہ چاروں بھائی ایک ایک کاروبار کو لے لیں اور ہر ایک ذاتی طور پر اپنا کاروبار چلائے۔اس طرح ہمارے والد کی روح کو سکون پہنچے گا۔اور مجھے یقین ہے کہ اس میں ہر ایک کےلیے زیادہ برکت ہوگی۔تینوں بھائیوں نے کہا کہ ہم تو سراپا آپ کے احسان مند ہیں۔اس لیے آپ جو بھی فیصلہ کردیں وہ ہم کو منظور ہے۔مختصر گفتگو کے بعد یہ طے ہوا کہ قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔چنانچہ اسی وقت قرعہ کے ذریعہ ہر بھائی کو ایک ایک کاروبار دے دیاگیا۔

اب چاروں بھائی اپنے اپنے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ہر ایک اپنے بچوں کو لے کر اپنے اپنے کام میں صبح سے شام تک محنت کرتا ہے۔چاروں کے درمیان پہلے سے بھی زیادہ اچھے تعلقات ہیں۔ہر ایک دوسرے کی مدد کرنے کےلیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔چاروں نے الگ الگ اپنے مکانات بنالیے ہیں۔مگر رحیم بخش اب بھی اسی طرح سب کے ’’بڑے بھائی‘‘ ہیں جیسے وہ پہلے بڑے بھائی تھے۔ایک بھائی جو بات کہہ دے اس کو دوسرا بھائی کبھی نہیں ٹالتا۔ایک گھر میں کوئی ضرورت پیش آجائے تو چاروں گھروں کی عورتیں اور بچے مل کر اس کو اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ ہر ایک کا اپنا کام ہو۔

اکثر باپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی اولاد کےلیے سب سے بڑی وراثت یہ ہے کہ وہ ان کےلیے مال اور جائیداد چھوڑ کر اس دنیا سے جائیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ سب سےز یادہ خوش نصیب اولاد وہ ہے جس کے باپ نے اس کےلیے بااصول زندگی کی وراثت چھوڑی ہو۔وہ اپنی اولاد کو یہ سبق دے کر دنیا سے گیا ہو کہ اپنی محنت پر بھروسہ کرو، لوگوں سے الجھے بغیر اپنا کام کرو۔اپنے واجبی حق پر قناعت کرو۔حال کے فائدوں سے زیادہ مستقبل کے امکانات پر نظر رکھو۔خوش خیالیوں میں گم ہونے کے بجائے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرو۔۔۔۔مادی وراثت سےزیادہ بڑی چیز اخلاقی وراثت ہے۔مگر بہت کم باپ ہیں جواس حقیقت کو جانتے ہوں۔

 

اس کو اسکول سے خارج کردیا گیا تھا

پروفیسر البرٹ آئن سٹائن (1955۔1879) نے 20 ویںصدی کی سائنس میں عظیم انقلاب برپا کیا۔مگر اس کی زندگی کا آغاز نہایت معمولی تھا۔تین سال کی عمر تک وہ بولنا شروع نہ کرسکا۔بظاہر وہ ایک معمولی باپ کا معمولی بچہ تھا ۔ نوسال کی عمر تک وہ بالکل عام بچہ دکھائی دیتا تھا۔اسکول کی تعلیم کے زمانہ میں ایک بار وہ اسکول سے خارج کردیا گیا۔ کیوں کہ اس کے استادوں کا خیال تھا کہ اپنی تعلیمی نااہلی کی وجہ سے وہ دوسرے طالب علموں پر برا ثر ڈالتا ہے ۔ زیورک کے پولی ٹیکنیک میں اس کو پہلی بار داخلہ نہ مل سکا کیوں کہ آزمائشی امتحان میں اس کے نمبر بہت کم تھے۔چنانچہ اس نے مزید تیاری کرکے اگلے سال داخلہ لیا۔اس کے ایک استاد نے اس کے بارے میں کہا:

Albert was a lazy dog.

البرٹ ایک سست کتا تھا۔20 سال کی عمر تک البرٹ آئن سٹائن میں کوئی غیر معمولی آثار نظر نہ آتے تھے۔مگر اس کے بعد اس نے محنت شروع کی تو وہ اس بلندی تک پہنچا جو موجودہ زمانہ میں بمشکل کسی دوسرے سائنس دان کو حاصل ہوئی۔اس بنا پر اس کے ایک سوانح نگار نے لکھاہے:

We could take heart that it is not necessary

to be a good student to become Einstein.

ہم کو جاننا چاہئے کہ آئن سٹائن بننے کےلیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی طالب علمی کے زمانہ میں ممتازرہا ہو۔ آئن سٹائن نے اپنی پہلی سائنسی کتاب اس وقت شائع کی جب کہ اس کی عمر 26سال تھی۔اس کے بعد سے اس کی شہرت بڑھتی ہی چلی گئی۔آئن سٹائن کی زندگی بالکل سادہ تھی۔وہ نہایت سادہ غذا کھاتا تھا۔وہ اکثر آدھی رات تک اپنے کام میں مشغول رہتا تھا۔اس کو اسرائیل کی صدرات پیش کی گئی تھی مگر اس نے انکار کردیا۔اس کا کہنا تھا کہ سیاست انسانیت کا کینسر ہے۔1933 میں اس نے ہٹلر کے جرمنی کو چھوڑ دیا تھا۔ہٹلر کی حکومت نے اعلان کیا کہ جو شخص آئن سٹائن کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو 20ہزار مارک انعام دیا جائے گا۔اس زمانہ میں یہ رقم بہت زیادہ تھی مگر آئن سٹائن کی عظمت لوگوں کے دلوں میں اتنی قائم ہوچکی تھی کہ کوئی اس انعام کو حاصل کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔(7اکتوبر 1979)

تاریخ میں اس طرح کی بہت مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ بڑا انسان بننے کےلیے بڑا بچہ پیدا ہونا ضروری نہیں ۔ معمولی حیثیت سے آغاز کرکے آدمی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔بشرطیکہ وہ جدوجہد کی شرطوں کو پورا کرے۔بلکہ وہ لوگ زیادہ خوش قسمت ہیں جن کو مشکل مواقع میں زندگی کا ثبوت دینا پڑے۔کیونکہ مشکل حالات عمل کا محرک ہوتے ہیں۔وہ آدمی کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہیں۔نیز زندگی کے بہترین سبق ہمیشہ مشکل حالات میں ملتے ہیں۔اعلیٰ انسان راحتوں میں نہیں بلکہ مشکلوں میں تیار ہوتا ہے۔حققیت یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں امکانات کی کوئی حد نہیں۔یہاں کسی کو اپنے عمل کےلیے معمولی آغاز ملے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔معمولی حالات زندگی کا سب سے مضبوط زینہ ہیں۔تاریخ کی اکثر اعلیٰ ترین کامیابیاں معمولی حالات کے اندر ہی سے برآمد ہوئی ہیں۔

 

بیس سال بعد

1950 اور 1970 کے درمیان تقریباً 20 سال تک جاپان کا حال یہ تھا کہ وہ صنعتی ٹیکنالوجی کی اعلیٰ قسموں کو مغربی ملکوں سے حاصل کرتا تھا۔کبھی اُدھار ، کبھی مانگ کر اور کبھی خرید کر۔مگر آج جاپان کی اقتصادیات اپنی ذاتی بنیادوں پر قائم ہیں۔جاپان اس حیثیت میں ہوگیا ہے کہ وہ نہ صرف مصنوعات کو بلکہ اپنی صنعتی مہارت کو بھی دوسرے ملکوں میں بھیج سکے۔

صنعت میں اپنی ترقی یافتہ تکنیکی صلاحیت کی بنا پر اس کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی مدد کرکے ان کی دوستی حاصل کرسکے۔مختلف ملکوں کی بڑی بڑی اسکیموں کا ٹھیکہ لے کر ان سے تجارتیں کرے۔جاپانی ماہرین آج تھائی لینڈ میں آب پاشی کے جدید منصوبوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔وہ سنگار پور میں کمپیوٹر پروگرام کی تعلیم دے رہے ہیں۔وہ جنوبی کوریا اور چین میں فولاد کے کارخانے تعمیر کر رہے ہیں۔وہ شرق اوسط میں پٹروکیمیکل صنعتیں قائم کر رہے ہیں۔وغیرہ۔

جاپانیوں نے ابتداً فولاد بنانا امریکیوں سے سیکھا تھا، اب وہ اس ہنر کو مزید ترقی دے کر اس کو خود امریکہ کو برآمد کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔جاپان جو کسی وقت امریکہ کا شاگر د تھا، اب اس نے کئی چیزوں، خاص طور پر مواصلات (کمیونیکیشن ) اور الیکٹرانکس میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ امریکہ خود اپنے فوجی اہمیت کے شعبوں میں جاپان کی تکنیکی مدد حاصل کرنے کےلیے جاپان سے معاہدہ کررہا ہے ۔ شاگرد اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنے استاد کو سبق دے سکے۔

جاپان کے اس تجربہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک اخباری مبصر (ہندوستان ٹائمز 11 جون 1981) نے لکھا ہے ٹیکنالوجی کا بہاؤ پہلے جاپان کے اندر تھا ، اب اس کا بہاؤ جاپان کے باہر ہے:

Now the flow is out instead of in.

جاپان20 سال تک صنعتی مغلوبیت پر راضی رہا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج اس کو صنعتی غلبہ کا مقام حاصل ہوگیا۔اگر وہ اول دن سے غلبہ پر اصرار کرتا تو اس کے حصہ میں صرف یہ آتا کہ اس کی مغلوبیت کبھی ختم نہ ہو۔ہر پانے کےلیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ہر بلندی کے لیے کچھ پستی کو گوارا کرنا ہوتا ہے ۔ یہی دنیا کا قانون ہے۔جو لوگ دنیا کے اس قانون کے ساتھ موافقت کریں وہی خدا کی اس دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ اس قانون کے ساتھ موافقت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ان کے حصہ میں صرف یہ آتا ہے کہ وہ ناکام ہو کر رہ جائیں اور اس کے بعد بے فائدہ طور پر دوسروں کو اپنی بربادی کا جھوٹا الزام دیتے رہیں۔

 

بے کاری

کان عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یقول: اری الرجل یعجبنی فاذا قیل لا صناعۃَ لہ سقط من عینی(التراتیب الادار یۃ للکتانی،جزٔ 3 صفحہ 23)

حضرت عمر فرماتے تھے کہ میں کسی آدمی کو دیکھتا ہوں اور وہ مجھے پسند آتا ہے مگر جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا تو وہ میری نگاہوں سے گرجاتا ہے۔

یہی روایت ابن الجوزی نے تلبیس ابلیس میں ان الفاظ میں نقل کی ہے:

عن محمد بن عاصم قال:بلغنی ان عمر بن الخطاب کان اذا رأی غلاما فاعجبہ سأل ھل لہ حرفۃ ۔فان قیل لا، سقط من عینہ

محمد بن عاصم کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمر جب کسی نوجوان کو دیکھتے اور وہ انھیں اچھا معلوم ہوتا تو پوچھتے کیا اس کا کوئی کام ہے۔اگر کہا جاتا کہ نہیں تو وہ ان کی نگاہ سے گرجاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ بےکاری نہایت بری چیز ہے وہ آدمی کی تمام بہترین صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے۔ بے کار آدمی بظاہر دیکھنے میں زندہ معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتہً وہ ایک مرا ہوا انسان ہوتا ہے۔اس کے اندر سے وہ تمام لطیف احساسات ختم ہوجاتے ہیں جو کسی انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتے ہیں۔

بے کاری کی ایک صورت وہ ہے جب کہ آدمی محنت اور مشقت کی چیزوں سے گھبراتا ہے اور اس کے اندر یہ صلاحیت موجود نہیں ہوتی کہ کوئی بے مشقت کا کام اسے مل جائے۔چنانچہ وہ اپنے پسندیدہ کام کے انتظار میں بے کار پڑا رہتا ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی کو وراثت میں یا اور کسی اتفاقی سبب سے ایسے ذرائع معاش حاصل ہوجائیں جن کےلیے اس نے کوئی ذاتی کسب نہیں کیا تھا۔مثلاً بنک میں جمع شدہ رقم۔یا جائیداد جس کی آمدنی یا کرایہ اس کو اپنے آپ ہر ماہ ملتا رہے۔اس قسم کی ہر صورت بے کاری کے صورت ہے اور وہ آدمی کےلیے قاتل ہے ، خواہ بظاہر وہ خوش پوش ہو اور چلتا پھرتا نظر آتا ہو۔

ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے کوئی جائز کام اختیار کرے اور صبح شام اپنے آپ کو اس میں مشغول رکھے۔جس کے پاس کام کی مشغولیت نہیں اس کے پاس زندگی بھی نہیں۔بے کار آدمی کو کبھی بھی آپ اعلیٰ انسان نہیں پائیں گے۔

 

بڑی کامیابی

انگریزی کے ایک شاعر نے کہا ہے ’’جس شخص کو دنیا میں بڑا آدمی بننا ہوتا ہے وہ اس وقت کام میں مصروف رہتا ہے جس وقت عام لوگ سو رہے ہوتے ہیں‘‘مطلب یہ ہے کہ ایسا آدمی صرف عام وقتوں ہی میں کام نہیں کرتا بلکہ اس وقت بھی کام کرتا ہے جب کہ لوگ اپنے کام سے فارغ ہو کر آرام کر رہے ہوتے ہیں۔وہ لوگوں سے زیادہ کام کرتا ہے اس لیے وہ لوگوں سے زیادہ ترقی حاصل کرتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زیادہ بڑی کامیابی ہمیشہ زیادہ بڑی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔

سر سی وی رمن ہندوستان کے مشہور سائنس دان گزرے ہیں جن کو نوبل انعام دیا گیا۔ان سے کسی نے کہا کہ سائنس دانوں نے جو بڑی بڑی دریافتیں کی ہیں ان میں سائنس دانوں کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں۔کیونکہ اکثر دریافتیں محض اتفاق سے حاصل ہوئی ہیں۔ڈاکٹر رمن نے جواب دیا ہاں ، مگر ایسا اتفاق صرف ایک سائنس دان کو پیش آتا ہے۔

سائنسی دریافتیں(مثلاً بجلی کی دریافت) اکثر اس طرح ہوئی ہیں کہ ایک سائنس دان اپنی تجربہ گاہ میں تحقیق کر رہا ہے۔تحقیق کرتے کرتے اچانک ایک چیز چمک اٹھی۔اب سائنس دان نے اس کی کھوج شروع کی۔یہاں تک کہ وہ ایک نئی دریافت تک پہنچ گیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی دریافت اگرچہ اچانک ہوتی ہے۔مگر یہ اچانک دریافت اسی شخص کے حصہ میں آتی ہے جو مسلسل تحقیق و تلاش میں لگا ہوا ہو۔کوئی آدمی بے کار بیٹھاہوا ہو تو اس کے ساتھ ایسا خوش قسمت لمحہ کبھی نہیں آئے گا۔

یہی معاملہ زندگی کی تمام ترقیوں کا ہے۔بڑی کامیابی اکثر کسی کے حصہ میں اس طرح آتی ہے کہ وہ اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔وہ محنت میں رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔پھر اچانک ایک موقع سامنے آتا ہے اور وہ اس کو استعمال کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔یہ موقع اچانک آتا ہے اور پہلے سے بتائے بغیر آتا ہے۔کوئی شخص دن کو کام کرے اور رات کو غافل ہو تو رات کو وہ موقع آئے گا اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے گا۔اسی طرح کوئی شخص رات کو کام کرے اور دن کو غافل ہو تو دن میں وہ موقع آئے گا اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائے گا۔بڑی کامیابی ہمیشہ بڑی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے۔بڑی کامیابی حاصل کرنے کی دوسری کوئی صورت نہیں۔

 

25 پیسے سے

شام کا وقت تھا۔بارہ سال کا بچہ اپنے گھر میں داخل ہوا، اس کو بھوک لگ رہی تھی۔وہ اس امید میں تیز تیز چل کر آرہا تھا کہ گھر پہنچ کر کھانا کھائوں گا اور پیٹ کی آگ بجھائوں گا۔مگر جب اس نے اپنی ماں سے کھانا مانگاتو جواب ملا’’اس وقت گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے‘‘بچہ کا باپ ایک غریب آدمی تھا۔وہ محنت کر کے معمولی کمائی کرتا تھا۔روزانہ کمانا اور روزانہ دکان سے سامان لا کر پیٹ بھرنا یہ اس کی زندگی تھی تاہم ایسا بھی ہوتا کہ کسی دن کوئی کمائی نہ ہوتی اور باپ خالی ہاتھ گھر واپس آتا۔یہ ان کے لیے فاقہ کا دن ہوتاتھا۔اس خاندان کی معاشیات کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ تھا’’کام مل گیا تو روزی، کام نہیں ملا تو روزہ‘‘

ماں کا جواب سن کر بچہ کو بڑا صدمہ ہوا’’مجھے بھوک لگ رہی ہے اور میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں‘‘وہ چپ ہو کر دیر تک سوچتا رہا۔اس کے بعد بولا’’کیاتمہارے پاس 25 پیسے بھی نہیں ہیں‘‘ماں نے بتایا کہ 25 پیسے اس کے پاس موجود ہیں’’اچھا تو لائو 25 پیسے مجھے دو‘‘بچہ نے کہا۔اس نے اپنی ماں سے 25 پیسے لیے۔ اس کے بعد ایک بالٹی میں پانی بھرا۔دو گلاس لیے ۔25 پیسے کا برف لے کر بالٹی میں ڈالا اور سیدھا سینما ہائوس پہنچا۔یہ گرمی کا زمانہ تھا جب کہ ہر آدمی پانی پینے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔وہاں اس نے آواز لگا کر ’’ٹھنڈا پانی‘‘بیچنا شروع کیا۔اس کا پانی تیزی سے بکنے لگا۔کئی لوگوں نے بچہ سمجھ کر زیادہ پیسے دئیے۔آخر میں جب وہ خالی بالٹی میں گلاس ڈال کر واپس گھر پہنچا تو اس کے پاس پندرہ روپے ہو چکے تھے۔

اب بچہ روزانہ ایسا ہی کرنے لگا۔دن کو وہ اسکول میں محنت سے پڑھتا اور شام کو پانی یا اور کوئی چیز بیچ کر کمائی کرتا۔اسی طرح وہ دس سال تک کرتا رہا، ایک طرف وہ گھر کا ضروری کام چلاتا رہا دوسری طرف اپنی تعلیم کو مکمل کرتا رہا۔آج یہ حال ہے کہ اس لڑکے نے تعلیم پوری کر کے ملازمت کر لی ہے۔اس کو تنخواہ سے ساڑھے سات سو روپے مہینہ مل جاتے ہیں۔اسی کے ساتھ ’’شام کا کاروبار ‘‘بھی وہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ اس کی زندگی بڑی عافیت سے گزر رہی ہے۔اس کی محنت کی کمائی  میں اللہ نے اتنی برکت دی کہ اپنا آبائی ٹوٹا پھوٹا مکان اس نے ازسرنو بنوا لیا۔سارے محلہ والے اس کی عزت کرتے ہیں ماں باپ کی دعائیں ہر وقت اس کو مل رہی ہیں۔

مشکل حالات آدمی کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتے ہیں، بشرطیکہ مشکل حالات آدمی کو پست ہمت نہ کریں بلکہ اس کے اندر نیا عزم پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائیں۔زندگی میں اصل اہمیت ہمیشہ صحیح آغاز کی ہوتی ہے۔ اگر آدمی اتنے پیچھے سے سفر شروع کرنے پر راضی ہوجائے جہاں سے ہر قدم اٹھانا آگے بڑھنا ہو تو کوئی بھی چیز اس کو کامیابی تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔’’25 پیسے ‘‘سے سفر شروع کیجئے۔کیوں کہ ’’25 پیسے‘‘ سے سفر شروع کرنا ہر ایک کے لیے ممکن ہے اور جو سفر ’’25 پیسے ‘‘سے شروع کیا جائے وہ ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔

 

اپنا حصہ ادا کرنا پڑتا ہے

 ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص اس بات کو نہیں مانتا تھا کہ خدا رازق ہے اور وہی آدمی کو کھلاتا ہے۔اس کے ساتھی اس کو سمجھاتے مگر وہ نہ مانتا۔آخر اس نے کہا کہ میں اس کا تجربہ کروں گا۔چنانچہ ایک روز وہ بالکل سویرے گھر سے نکلا اور جنگل میں جا کر ایک درخت کے اوپر بیٹھ گیا۔اس نے کہا:اگر کھلانے والا خداہے تو وہ ضرور یہاں بھی میرا رزق بھیجے گا۔

وہ سارا دن پیڑ پر بیٹھا رہا مگر خدا کی طرف سے اس کا کھانا نہ آیا۔صبح ناشتہ کا وقت گزرا۔پھر دوپہر کے کھانے کا وقت گزر گیا۔اس کے بعد شام آئی اور شام کے کھانے کا وقت بھی گزر گیا اور اس کا کھانا نہ آیا۔اب اس کو یقین ہو گیا کہ یہ بات غلط ہے کہ خدا کھلاتا ہے۔اتنے میں اس کو کچھ آدمی آتے ہوئے نظر آئے۔وہ مسافر تھے اور انھیں کسی درخت کی تلاش تھی جس کے نیچے وہ رات گزار سکیں۔انھوں نے اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد اسی درخت کو پسند کیا جس کے اوپر مذکورہ شخص بیٹھا ہوا تھا۔

درخت پر بیٹھے ہوئے آدمی نے بالکل خاموشی اختیار کر لی کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔مسافروں نے پڑائو ڈالنے کے بعد لکڑیاں جمع کیں۔پھر اپنی گٹھری کھولی اور چاول دال نکال کر کھچڑی پکانے لگے۔جب کھچڑی تیار ہوگئی تو انھوں نے سوچا کہ اس کو بگھار بھی دے دیں۔تیل میں مرچ ڈال کر جب انھوں نے گرم کیا تو اس کا دھواں اوپر اٹھا اور درخت پر بیٹھے ہوئے آدمی تک پہنچا۔اس کی وجہ سے اس کو چھینک اور کھانسی آگئی۔کھانسی کی آواز سن کر مسافروں کو معلوم ہوا کہ درخت کے اوپر بھی کوئی آدمی بیٹھا ہواہے۔انھوں نے اس کو آواز دے کر بلایا اور اس کو درخت سے اتار کر اپنے کھانے میں شریک کر لیا۔

صبح کو آدمی خوشی خوشی اپنے گھر واپس آیا۔اس نے اپنے ساتھیوں سے کہاتم نے جو بات کہی وہ صحیح تھی۔مگر تم لوگوں نے آدھی بات بتائی۔بے شک خدا کھلاتا ہے مگر وہ کھانسی آنے کے بعد کھلاتا ہے۔

اس لطیفہ میں تمثیل کے ذریعہ یہ بات بتائی گئی ہے کہ آدمی جو کچھ پاتا ہے وہ خدا کے دئیے سے پاتا ہے۔مگر اسی کے ساتھ اسے اپنا بھی ایک حصہ ادا کرنا پڑتا ہے۔خدا اسی کو دیتا ہےجو خدا کے منصوبہ میں اپنے کو شریک کرے۔انسان کی شرکت اگرچہ پورے واقعہ کا بے حد جزئی حصہ ہوتی ہے۔مگر وہ بہرحال ضروری ہے۔اس دنیا میں آدمی اس کا ثبوت دئیے بغیر کچھ نہیں پا سکتا۔یہی دینا تو پانے کا امتحان ہے۔اسی شرط پر پانے کا استحقاق پیدا ہوتا ہے۔پھر اپنی طرف سے دینے کی شرط پوری کئے بغیر کوئی شخص خدا کے یہاں پانے والوں کی فہرست میں کس طرح شامل ہو سکتاہے۔

منصوبہ بندی

 

تاخیر نہیں

میڈیکل کالج کا پروفیسر زبانی امتحان لے رہا تھا۔اس نے طالب علم سے پوچھا’’تم ان میں سے کتنی گولیاں اس شخص کو دو گے جس کو دل کا دورہ پڑا ہو‘‘طالب علم نے جواب دیا ’’چار‘‘ایک منٹ کے بعد طالب علم نے دوبارہ کہا ’’پروفیسر، کیا میں اپنا جواب بدل سکتا ہوں‘‘پروفیسر نے کہا ’’ہاں ضرور‘‘اس کے بعد پروفیسر نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا ’’مگر مجھے افسوس ہے کہ تمہارا مریض 40 سیکنڈ پہلے مر چکا ہے‘‘۔

The Medical-College professor was giving an oral examination. "How many of these pills" he asked, "would you give a man who had a heart attack?" "Four" replied the student. A minute later he piped up. "Professor, can I change my answer?" "You can, by all means", said the professor, looking at his watch. "But regrettably, your patient has already been dead for 40 seconds."

ایک شخص جس کو دل کا دورہ پڑا ہوا ہو وہ نہایت نازک حالت میں ہوتا ہے۔اس کو فوری طور پر دوا کی بھر پور خوراک دینا انتہائی ضروری ہے۔اگر اس کو فوری طور پر بھی بھرپور دوا نہ ملے تو اگلے لمحہ کا تقاضا صرف یہ ہو گا کہ اس آدمی کو ڈاکٹر کی بجائے گورکن کے حوالے کیا جائے۔

یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔بعض معاملات اتنے نازک ہوتے ہیں کہ وہ بلاتاخیردرست کاروائی کا تقاضا کرتے ہیں۔ایسے معاملات میں آدمی کو فی الفور قطعی فیصلہ لینا پڑتاہے۔اگر آدمی فوراً فیصلہ نہ لے سکے تو وہ یقینی طور پر ناکام رہے گا۔اگلا لمحہ جو اس پر آئے گا وہ صرف اس کی حسرت میں اضافہ کرنے کے لیے ہو گا نہ کہ اس کی کامیابی کے باب کو مکمل کرنے کے لیے۔

زندگی کے سفر کی مثال ٹرین کے سفر کی ہے۔ٹرین ہمیشہ مقرر وقت پر اسٹیشن پر آتی ہے۔اور چند منٹ رک کر دوبارہ آگے کے لیے روانہ ہو جاتی ہے۔ایسی حالت میں صرف وہی شخص ٹرین میںاپنی جگہ پا سکتا ہے جوضروری تیاری کے ساتھ ٹھیک وقت پر پلیٹ فارم پر موجودہو۔ورنہ ٹرین آئے گی اور اس کو لیے بغیر آگے چلی جائے گی۔اسی طرح مواقع ہمیشہ اپنے وقت پر آتے ہیں۔مگر مواقع کسی کے لیے ترقی کا زینہ بن جاتےہیں اور کسی کے لیے محرومی کا اعلان۔

 

نا موافق حالات ترقی کا زینہ بن گئے

ایک ’’ملا جی‘‘دہلی کی ایک مسجد میں امام تھے۔امامت کے علاوہ ان کی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ روزانہ قرآن کا درس دیں۔ان تمام خدمات کا معاوضہ تھا—ماہانہ 25 روپے تنخواہ،مسجد میں ایک حجرہ اور دو وقت کا کھانا۔نوجوان ملا جی اس مختصر معاوضہ پر قانع ہونے کے لیے تیار تھے۔ان کا خیال تھا کہ یہ مسجد میرے لیے کم از کم ایک ٹھکانا تو ہے ۔یہاں رہ کر میں اپنے بچے کی تعلیم پوری کرا لوں گا۔میں نہیں تو میرا بچہ مستقبل میں بہتر معاشی زندگی حاصل کر لے گا۔

مگر مسجد کے لوگوں کا سلوک ان کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ہر نمازی ان کو اپنا ملازم سمجھتا۔ذرا ذرا سی بات میں ہر آدمی ان کے اوپر برس پڑتا اور ان کو ذلیل کرتا۔کوئی فرش کے لیے، کوئی جھاڑو کے لیے، کوئی لوٹے کے لیے، کوئی کسی اور چیز کے لیے ان کو بگڑتا رہتا۔وہ معاشی تنگی برداشت کر سکتے تھے۔مگر ذلت ان کے لیے برداشت سے باہر تھی۔بالآخر انھوں نے ایک نیا فیصلہ کیا۔انھوں نے طے کیا کہ مجھےاپنی زندگی کو مستقل طور پر مسجد سے وابستہ نہیں رکھنا بلکہ اپنے لیے کوئی دوسرا کام پیدا کرنا ہے۔تا ہم فوری طور پر مسجد چھوڑنا بھی بُرا تھا۔کیونکہ مسجد کی امامت چھوڑنے کے بعد مسجد کا حجرہ ان سے چھن جاتا۔اور شہر میں دوسری جگہ حاصل کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔

انھوں نے مسجد کی امامت کرتے ہوئے شہر کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور خاموشی کے ساتھ طب کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔طبّی تعلیم کی تکمیل میں ان کو پانچ سال لگ گئے۔اس دوران وہ مسجد کے لوگوں کے برے سلوک کو پہلے سے بھی زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔نئے فیصلہ میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری تھا کہ وہ صبر کریں۔ذلت کی زندگی سے نکلنے ہی کی خاطر ذلت کی زندگی کو چند سال اور برداشت کریں۔

بالآخر وہ وقت آیا کہ انھوں نے طبّی کالج سے ڈاکٹری کی سند حاصل کر لی۔اب انھوں نے مسجد والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امامت سے استعفیٰ دے دیا اور شہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ کرایہ پر لے کر اپنا مطب کھول لیا۔ان کی زندگی کے تلخ تجربات اور مستقبل کی خاطر ان کی طویل جدوجہد نے ان کو بہت کچھ سکھا دیا تھا۔انھوں نے نہایت محنت اور ہوشیاری کے ساتھ اپنا مطب چلایا۔صرف چھ ماہ بعد ان کی آمدنی اتنی ہو گئی کہ ایک مکان لے کر وہ بچوں کے ساتھ بفراغت رہنے لگے۔ایک سال کے بعد انھیں مقامی طبّی کالج میںلیکچرر کی جگہ بھی مل گئی۔اس طرح ان کی معاشی زندگی میں مزید استحکام پیدا ہو گیا۔کل کے ملا جی اب ڈاکٹر صاحب بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ان کو عزت بھی حاصل ہے اور معاشی فارغ البالی بھی۔

زندگی کے نا موافق حالات زندگی کے نئے زینے ہوتے ہیں جن کو استعمال کر کے آدمی آگے بڑھ سکتا ہے۔بشرطیکہ وہ ناموافق حالات سے نفرت اور شکایت کا سبق نہ لے۔بلکہ مثبت ذہن کے تحت اپنے لیے نیا مستقبل بنانے میں لگ جائے۔

 

بہتر منصوبہ بندی سے

ایڈ مرل ایس۔این کوہلی(ہندوستانی بحریہ کے سابق چیف) نے نئی دہلی کی ایک تقریر میں کہا کہ کامیابی تمام تر ایک ذہنی چیز ہے۔اگر آپ کے اندر ارادہ ہے تو آپ اپنے مقصد کی تکمیل کے راستے پا لیں گے۔اور اگر ارادہ نہیں ہے توآپ یہ کہہ کر بیٹھ جائیں گے کہ ’’یہ نہیں ہو سکتا‘‘انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہند۔پاک جنگ(دسمبر 1971)میں ہندوستانی بحریہ کے پاس جو جنگی جہاز تھے وہ بنیادی طور پر دفاعی کار کردگی (Defensive Role)کے لیے بنائے گئے تھے۔مگر انھیں جہازوں کو ہم نے اقدامی کاروائی کے لیے استعمال کیا۔ہم نے کراچی بندرگاہ پر حملہ کیا اور اس میں اتنی شان دار کامیابی حاصل کی کہ فریق ثانی حیران ہو کر رہ گیا۔اس کامیابی کی وجہ یہ نہ تھی کہ ہم بہتر سازوسامان سے آراستہ تھے۔اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ دستیاب سازوسامان کو ہوشیاری کے ساتھ استعمال کیا گیا:

Only that the available equipment was intelligently used.

ایڈمرل کوہلی نے جو اصول بتایا وہی اصول فرد کے لیے بھی ہے اور وہی قوم کے لیے بھی۔کامیابی کا راز ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر اپنے مقصد کےحصول کا پختہ ارادہ ہو اور اس کے بعد وہ یہ کرے کہ اس کے پاس جو وسائل موجود ہیں ان کو پوری احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے مقصد کو بروئے کار لانے میں لگا دے۔

انسان کی ناکامی کا راز بیشتر حالات میں یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پاس وسائل نہ تھے۔بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ممکن وسائل کو صحیح طور پر استعمال نہ کر سکا۔دیہات میں ایک صاحب نے پختہ گھر بنانے کا ارادہ کیا۔ان کے وسائل محدود تھے۔مگر انھوں نے اپنے تعمیری منصوبہ میں اس کا لحاظ نہیں کیا۔انھوں نے پورے مکان کی نہایت گہری بنیاد کھدوائی، اتنی گہری جیسے کہ وہ قلعہ تیار کرنے جا رہے ہوں۔ایک شخص نے دیکھ کر کہامجھے امید نہیں کہ ان کا گھر مکمل ہو سکے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ان کی بیشتر اینٹ اور مسالا بنیاد میں کھپ گیا اور اوپر کی تعمیر کے لیے ان کے پاس بہت کم سامان رہ گیا۔بمشکل دیواریں کھڑی ہو سکیں اور ان پر چھت نہ ڈالی جا سکی۔صرف ایک کمرہ پر کسی طرح چھت ڈال کرانھوں نے اپنے رہنے کا انتظام کیا۔غیر ضروری طور پر گہری بنیادوں میں اگر وہ اینٹ اور مسالہ ضائع نہ کرتے تو ان کے پاس اتنا سامان تھا کہ مکان پوری طرح مکمل ہو جاتا۔مگر غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ان کا مکان زمین کے اندر تو پورا بن گیا۔مگر زمین کے اوپر صرف ادھورا ڈھانچہ کھڑا ہو کر رہ گیا۔

 

ناکامی کا سبب

لاس اینجلس میں ہونے والے اولمپک گیم(جولائی ۔اگست 1984)میں ہندوستان سے حصہ لینے والوں کا جو دستہ گیا تھا اس میں کل 62 افراد تھے۔کھیل کے خاتمہ پر یہ لوگ واپس ہو کر 16 اگست 1984 کو نئی دہلی پہنچے تو ہوائی اڈہ پر ان کا زیادہ پر جوش استقبال نہیں ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اولمپک میں کوئی میڈل نہ جیت سکے۔نہ سونے کا نہ چاندی کا اور نہ کانسی کا۔

اس ناکامی کا سبب کیا تھا، ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ (17 اگست 1984) کے مطابق لوٹنے والے کھلاڑیوں میں سے ایک نے کہا کہ سائنسی اور منظم تربیت کا نہ ہونا ہندوستان کے ناقص کھیل کی بنیادی وجہ تھی۔ہم نے اپنی بہترین کوشش کی۔مگر بدقسمتی سے وہ کافی نہ تھی۔ہندوستانی ٹیم کی تربیت کافی پہلے سے شروع ہونی چاہیے نہ کہ صرف تین ماہ پہلے سے۔اس سلسلہ میں اخبار میں جو باتیں شائع ہوئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ ہے ۔

Lack of scientific and systematic training was the main reason for India's poor showing. We did our best but that, unfortunately, was not good enough. The training of Indian teams should start well before an event and not just three months.

مذکورہ شخص نے جو بات اولمپک کے کھیل کے بارہ میں کہی وہی زندگی کے ہر ’’کھیل‘‘کے لیے درست ہے۔

مقابلہ کی اس دنیا میں کامیابی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے کہ آپ میدان میں اتریں تو پوری تیاری کر کے اتریں۔اگر آپ کم تر تیاری کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہو گئے تو آپ کے لیے ناکامی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔

آپ کی تیاری دو پہلوئوں کے اعتبار سے ہونا چاہئے۔ایک یہ کہ وہ باقاعدہ ہو اور دوسرے یہ کہ وہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ہو۔اگر آپ کی تربیت باقاعدہ اور منظم نہیں تو آپ زندگی کے اسٹیج پر شاعر اور خطیب بن کر رہ جائیں گے اور اگر آپ کی تربیت وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں تو آپ کو صرف تاریخ کے عجائب خانہ میں جگہ ملے گی۔آپ خواہ اور جو کچھ ہو جائیں۔مگر آپ وقت کے زندہ نقشوں میں اپنے لیے جگہ نہیں بناسکتے۔

 

جڑ کا کام

جارج برنارڈشا انگریزی زبان کا مشہور ادیب اور مفکر ہے۔اس نے شیکسپئر سے اپنا مقابلہ کرتے ہوئے کہا ہے:

He was a much taller man than me, but I stand on his shoulders.

وہ مجھ سے بہت زیادہ لمبا انسان تھا مگر میں اس کے کندھے پر کھڑا ہوا ہوں۔برنارڈ شا، شیکسپئر کے مرنے کے تقریباً ڈھائی سو سال بعد 1856 میں پیدا ہوا۔شیکسپئر(1616۔1564)نے اپنے زمانہ میں انگریزی زبان کو جہاں پایا تھا اس پر اس نے اپنی کوششوں سے مزید اضافہ کیا۔حتیٰ کہ اس کو ترقی کے ایک نئے مرحلہ میں پہنچا دیا۔شیکسپئرکے بعد سینکڑوں اہل قلم پیدا ہوئے جو اس کو مزید آگے بڑھاتے رہے۔یہاں تک کہ زبان اس اعلیٰ ترقی یافتہ مرحلہ تک پہنچ گئی جہاں سے برنارڈ شا کو موقع ملا کہ وہ اپنی قلمی جدوجہدکا آغازکرے۔برنارڈ شا کے پیش روئوں نے اگر اس کے لیے ’’کندھا‘‘فراہم نہ کیا ہوتا تو برنارڈ شا کے لیے ناممکن تھا کہ وہ ادبی ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچے جہاںوہ اپنی کوششوں سے پہنچا۔

یہی اصول زندگی کے تمام معاملات میں جاری ہے۔پچھلے لوگ جب ابتدائی منزلیں طے کر چکے ہوں، اسی وقت یہ ممکن ہے کہ بعد کے لوگ آگے کی منزلوں پر اپنا سفر جاری کریں۔اگر پچھلے لوگوں نے اپنے حصہ کا کام نہ کیا ہو تو آگے آنے والوںکو آگے کے بجائے پیچھے سے اپنا سفر شروع کرنا پڑے گا۔کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہوں، نہ کہ وہاں سے جہاں آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔جس مکان کے نیچے کی دیواریں ابھی تیار نہ ہوئی ہوں اس مکان کی بالائی منزلیں کس چیز کے اوپر کھڑی کی جائیں گی۔

جو قوم ایک ایسے ماضی کی وارث ہو جس نے وراثت میں اپنی اگلی نسلوں کو صرف رومانی شاعری اور پرجوش تقریریں دی ہوں۔جو غیر پختہ اقدامات کے نتیجہ میں بربادیوں سے دو چار ہوتی رہی ہو۔جو جذباتی خوش فہمیوں کی غذا کھاتے کھاتے حقیقت پسندی کا مزاج کھو بیٹھی ہو۔جس نے ابتدائی استحکام سے پہلے سیاست بازی میں پڑ کر اپنے مواقع کو ضائع کیا ہو۔جو اپنی ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے تعلیم، صنعت، تجارت اور زمانی شعور میں تمام قوموں سے پیچھے ہو گئی ہو۔جو مطالباتی مہموں اور احتجاجی سیاستوں میں یہ بھول گئی ہو کہ مانگنے سے پہلے منوانے کی طاقت پیدا کرنا ضروری ہے۔ایسی پچھڑی ہوئی قوم کی اگلی نسلیں آگے کی منزل سے اپنا سفر شروع نہیں کر سکتیں۔ان کو لامحالہ وہاں سے چلنا پڑے گا جہاں سے ان کے باپ دادا نے اپنے راستہ کو چھوڑا تھا۔ایسے لوگ اگر دوبارہ لفظوں کی اسی بہادری میں مشغول ہو جائیں جس میں ان کے پیش رومشغول تھے تو یہ صرف اس وقت کو مزید ضائع کرنےکے ہم معنی ہو گا جس کو ان کے باپ دادا بہت بڑی مقدار میں ضائع کر چکے ہیں۔عملی نتیجہ صرف عملی کاموں کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ الفاظ کی کھیتی سے عمل کی فصل کاٹی نہیں جا سکتی۔قدرت کو ایک درخت اگانا ہوتا ہے تو وہ بیج سے اپنا عمل شروع کرتی ہے۔یہ قدرت کی طرف سے انسان کے لیے ایک خاموش سبق ہے۔۔’’بیج‘‘سے چل کر کوئی بھی شخص’’درخت‘‘تک پہنچ سکتا ہے۔مگر درخت سے چل کر درخت تک پہنچنا چاہیں تو ایسا واقعہ اس زمین پر کبھی نہیں ہو گا۔

 

الٹا اہرام

دہلی کی سب سے اونچی عمارت وکاس مینار ہے۔ جب یہ عمارت بنی اور اخبار میں اس کی خبر چھپی تو خبر کا پہلا لفظ یہ تھا’’شہر کی 21 منزلہ عمارت تیار ہو گئی‘‘ ظاہر ہے کہ عمارت اس طرح نہیں بنی کہ اس کی 21ویں منزل سب سے پہلے بن کر کھڑی ہو گئی ہو۔عمارت کی تعمیر کا کام اس کی بنیاد سے شروع ہوا۔پھر ہوتے ہوتے کئی سال میں اوپری منزل تک پہنچا۔مگر خبر کی ترتیب میں ’’21منزل ‘‘کا لفظ سب سے پہلے تھا۔

اخباروں میں خبر مرتب کرنے کا یہی طریقہ رائج ہے۔اس طریقہ کو صحافتی اصطلاح میں مثلث معکوس یا الٹا اہرام (Inverted Pyramid) کہتے ہیں۔یعنی خبر کو اس کی اصلی ترتیب کے ساتھ بیان کرنے بجائے الٹی ترتیب کے ساتھ بیان کرنا۔کوئی واقعہ جو ہماری زندگی میں پیش آتا ہے۔وہ ایک فطری ترتیب سے پیش آتا ہے۔اس کی ایک ابتدا ہوتی ہے۔پھر درمیانی اجزاء سامنے آتے ہیں۔اس کے بعد اس کا آخری اور انتہائی جز ٔ وقوع میں آتا ہے۔یہ واقعہ کی فطری ترتیب ہے۔مگر اخباری رپورٹر کو معاملہ کی واقعاتی ترتیب سے دل چسپی نہیں ہوتی۔اس کے پیش نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ فوراً کوئی بڑی سی بات کہہ کر قارئین کی توجہ اپنی طرف مائل کر لے۔اسی لیے جب وہ خبر کو مرتب کرتا ہے تو وہ اس کی ترتیب کو الٹ دیتا ہے۔ اصل واقعہ کا جو جز ٔ بالکل آخر میں پیش آیا تھا اس کو وہ آغاز میں رکھ دیتا ہے اور اس کے بعد پوری خبر بیان کرتا ہے۔گویا کہ ’’اہرام‘‘کے بننے کی ترتیب خبر کی صورت اختیار کرتے وقت الٹ جاتی ہے۔اخباری رپورٹر ایسا اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ پہلے ہی مرحلہ میں ناظرین کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکے۔

’’الٹا اہرام‘‘اخبار کے صفحات میں بن سکتا ہے مگر وہ زمین پر نہیں بن سکتا۔اسی طرح ملت کے مستقبل کا قلعہ بھی الٹی سمت سے صرف الفاظ کی دنیا میں کھڑا کیا جا سکتا ہے وہ حقیقت کی دنیا میں وجود میں نہیں آ سکتا۔اگر آپ کو تعمیر ملت کی لفظی مہم چلانا ہے تو وہ ایک ’’عہد آفرین‘‘اعلان یا ایک ’’تاریخ ساز‘‘اجلاس کے ذریعہ آخری منزل سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔مگر کوئی واقعی تعمیر اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ابتدائی مقام سے اپنے کام کا آغاز کیا جائے۔

الفاظ بولنے والا اپنے پہلے ہی جملے میں آخری منزل پر چھلانگ لگا کر یہ کہہ سکتا ہے ’’شہر کی بیس منزلہ عمارت تیار ہو گئی‘‘لفظ بولنے والے کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے ’’عمل‘‘کو آخری مرحلہ سے شروع کرے۔مگر جو شخص ایک حقیقی واقعہ کو ظہور میں لانا چاہتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے عمل کو ابتدا ء سے شروع کرے، وہ آخری منزل سے اپنے سفر کاآغاز نہیں کر سکتا۔

 

آغاز نیچے سے

ایک شخص جس کی داڑھی میں سفیدی آچکی تھی، رکروٹنگ آفس میںداخل ہوا’’مجھے سپاہی کی حیثیت سے بھرتی کر لیجئے‘‘اس نے کہا۔

’’مگرتمھاری عمر کیا ہے‘‘سرجنٹ نے پوچھا

’’باسٹھ سال‘‘

’’تم اچھی طرح جانتے ہو کہ باسٹھ سال کی عمر سپاہی بننے کے لیے بہت زیادہ ہے‘‘

’’سپاہی کے لیے یہ عمر زیادہ ہو سکتی ہے‘‘آدمی نے کہا ’’مگر کیا آپ کو کسی جنرل کی ضرورت نہیں؟‘‘

ایک انگریزی رسالہ (مئی 1982)میں مذکورہ واقعہ چھپا ہے اوراس کا عنوان طنزیہ طور پر ان لفظوں میں قائم کیا گیا ہےاوپر سے آغاز:

Starting at the top

ایک شخص جنرل کے عہدہ سے اپنی فوجی زندگی شروع کرنا چاہے تو وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔یہی معاملہ عام زندگی کا ہے۔یہاں کسی کے لیے چھلانگ ممکن نہیں۔جس طرح درخت کا آغاز بیج سے ہوتا ہے اسی طرح زندگی کی تعمیر کا آغاز بھی ابتدائی نقطہ سے ہوتا ہے۔آخری نقطہ سے آپ اپنی زندگی کا آغاز نہیں کر سکتے۔

تجارت روپیہ لگانے سے شروع ہوتی ہے نہ کہ نفع کمانے سے۔ڈاکٹری کی تعلیم محنت سے شروع ہوتی ہے نہ کہ بازار میں شان دار بورڈ لگانے سے۔مکان کی تعمیر بنیاد سے شروع ہوتی ہے نہ کہ چھت ڈالنے سے۔کھانے کا آغاز فصل بونے سے ہوتا ہے نہ کہ دسترخوان لگانے سے۔کارخانہ کاآغازمشین کی فراہمی سے ہوتا ہے نہ کہ تیار مال بیچنے سے وغیرہ

اسی طرح اجتماعی معاملات میں آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ افراد کے اندر مقصد کا شعور ابھارا جائے۔ان کو محنتی اور دیانت دار بنایا جائے، ان کے اندر برداشت اور اتحاد کی صلاحیت پیدا کی جائے۔قوم کے افراد میں ’’قابل لحاظ حد تک‘‘ان صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے پہلے اگر عملی اقدام شروع کر دیا جائے تو وہ صرف ناکامی پر ختم ہو گا۔اس قسم کی قومی تعمیر کی مثال بالکل ایسی ہو گی جیسے دیوار بنانے سے پہلے چھت کھڑی کرنے کی کوشش۔ایسی چھت ہمیشہ اٹھانے والے کے سر پر گرتی ہے۔اسی طرح افراد کی تعمیر سے پہلے قومی اقدام صرف ناکامی اور بربادی پر ختم ہوتا ہے۔

 

بڑی چھلانگ کب

امریکی خلاباز آرمسٹرانگ(Neil Armstrong)نے جولائی 1969 میںپہلی بار چاند پر قدم رکھا تھا۔جب وہ اپنی خلائی مشین کے ساتھ چاند پر اترا تو امریکہ کے مشن کنٹرول کو اس کے یہ الفاظ موصول ہوئےیہ ایک آدمی کے لیے ایک چھوٹا قدم ہے مگر انسانیت کے لیے وہ ایک عظیم چھلانگ ہے:

That's one small step for a man, one giant leap for mankind.

آرمسٹرانگ اور اس کے دو ساتھی امریکہ کے 30 بہترین خلابازوں میں سے چنے گئے تھے۔ان کے اندر وہ خصوصیات امتیازی درجہ میں موجودتھیں جو اس مشکل تاریخی مہم کے لیے درکار تھیں۔۔۔۔ پرواز میں غیر معمولی مہارت، ذہانت اور قوت، معلومات کو اخذ کرنے کی صلاحیت، برف کی طرح ٹھنڈا ہونے کے باوجود چیلنج کو بے خطر قبول کرنا۔پھر ان کو شدید قسم کے تربیتی کورس سے گزرنا پڑا۔مثلاً وہ دیر دیر تک گہرے پانی میں رہے تا کہ بے وزنی کی حالت کے عادی بن سکیں۔انہوں نے بے شمار قسم کے ممکن ہنگامی حالات(Emergencies)کا تجربہ کیا۔انہوں نے فلکیات، خلابازی،راکٹ کی پرواز کے کورس پڑھے۔انہوں نے خلائی کمپیوٹر اور چاند کی طبیعات کا مطالعہ کیا۔

ان کا 3100 ٹن کا اپالو 11 ایک عظیم دیو معلوم ہوتا تھا۔وہ 36 منزلہ عمارت کے برابر اونچا تھا۔اس کے اندر آٹھ ملین پرزے تھے اور 91انجن نصب تھے۔سب سے اوپر وہ چھوٹی سی مشین(Columbia)تھی جس کے اندر خلابازوں کو بیٹھ کر اپنا سفر طے کرنا تھا۔

خلائی مشین نے اوپر بلند ہو کر ڈھائی گھنٹہ زمین کا چکر لگایا۔اس کے بعد اس کی رفتار 403 میل فی منٹ ہو گئی۔3000میل کی بلندی پر پہنچ کر کولمبیا الگ ہو گئی۔اس مشین کانیچے اوپر تک تمام حصہ پرزوں سے بھرا ہوا تھا۔خلابازوں کے بیٹھنے کے لیے مشکل سے اتنی جگہ تھی جتنی ایک ٹیکسی میں ہوتی ہے۔بالآخرخلا باز چاند پر اترے۔وہاں سے 46پونڈمٹی لی۔انہوں نے چاند کی سطح پر پانچ لاکھ پونڈ کے آلات چھوڑے۔چاند کی سطح پر انہوں نے دوسری چیزوں کے ساتھ اپنے قدموں کا نشان بھی چھوڑا جو وہاں تقریباًنصف ملین سال تک باقی رہے گا۔

اتنی زیادہ تیاریوں کے بعد وہ چھوٹا قدم اٹھایا جا سکا جس کا نتیجہ ایک بڑی چھلانگ ہو۔

 

ابتدائی تیاری

ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کو پیشگی عمل (Pre-treatment)کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی کپڑے کو ضروری کاروائیوں سے اس قابل بنانا کہ وہ اگلے مرحلہ کے عمل کو قبول کر سکے۔

کپڑے کو اگر رنگنا ہے تو ضروری ہے کہ پہلے اس کی صفائی کی جائے۔اس کو اس قابل بنایا جائےکہ وہ رنگ کو پوری طرح پکڑ سکے۔اگر وہ بخوبی طور پر صاف نہ ہو یا رنگ کو جذب کرنے کی صلاحیت اس کے اندر پیدا نہ کی گئی ہو تو رنگ اس پر اچھی طرح ظاہر نہیں ہو سکتا۔اندازہ کیا گیا ہے کہ رنگے ہوئے کپڑوں کے 70 فیصد نقائص صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ ان پر پیشگی عمل ٹھیک طور پر نہیں کیا گیا تھا۔

پیشگی تیاری کا یہ اصول انسانی معاملات کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کپڑے کے معاملہ کے لیے۔اگر ہم اپنے اقدام کا اچھا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اقدام سے پہلے متعلقہ تیاریاں بھی ضرور مکمل کرلیں۔ابتدائی ضروری تیاریوں کے بغیر جو اقدام کیا جائے گا اس کا انجام اس کپڑے کا سا ہو گا جو پری ٹریٹمنٹ کے بغیر رنگائی کے مرحلہ میں داخل کر دیا جائے، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ برا۔

اگر آپ اعلیٰ صحافت وجود میں لانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کے پاس انڈسٹری ہو۔کیونکہ انڈسٹری ہی اخبارات کو خوراک فراہم کرتی ہے۔جس قوم کے پاس انڈسٹری نہیں، اس کے پاس صحافت بھی نہیں۔

اگر آپ الیکشن کے موقع پر اپنے ووٹوں کی طاقت استعمال کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس سے پہلے آپ کے اندر اتحاد پیدا ہو چکا ہو۔اگر آپ کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے تو آپ کے ووٹ منتشر ہو جائیں گے وہ کوئی سیاسی طاقت نہ بن سکیں گے۔

اگر آپ کوئی اجتماعی اقدام کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کے اندر اجتماعی قیادت ہو، یعنی ایک ایسا سردار جس کی بات سب لوگ مانتے ہوں۔اجتماعی قیادت پیدا کئے بغیر اجتماعی اقدام کرنا صرف ناکامی کےگڑھے میں چھلانگ لگانا ہے۔

 

ملّت کا درخت اگانے کے لیے

سابق صدر امریکہ جان ایف کینیڈی نے ایک بار لاوٹے (Lyautay)کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا اپنا ایک قصہ نقل کیا تھا۔اس کے الفاظ یہ تھے:

(I) once asked (my) gardener to plant a tree. The gardener, objected that the tree was slow growing and would not reach the maturity for a hundred years. (I) replied: "In case there is no time to loose, plant in the afternoon.........."

Chartered Accountant (Supplement)

New Delhi, June 1979

میں نے ایک بار اپنے باغبان سے ایک درخت کا پودا لگانے کے لیے کہا۔باغبان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخت بہت دھیرے دھیرے بڑھتا ہے اور اس کو پورا درخت بننے میں ایک سو سال لگ جائیں گے۔میں نے جواب دیاایسی حالت میں تو ہم کو بالکل وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔تم آج ہی دوپہر بعد اس کا پودالگا دو۔

ملت کی تعمیر و ترقی ایک طویل المدت منصوبہ ہے۔فرد اور اجتماع کی سطح پر بے شمار اسباب فراہم کرنے کے بعد وہ وقت آتا ہےجب کہ ملت اپنی پوری شان کے ساتھ زندہ ہو اور وہ ایک طاقتور قوم کی حیثیت سے زمین پر اپنی جگہ حاصل کرے۔مگر جب اس قسم کا منصوبہ پیش کیا جاتاہے تو کہنے والے فوراً کہہ دیتے ہیںیہ تو بڑالمبا منصوبہ ہے۔اس کو پورا ہونے میں سو سال لگ جائیں گے۔ایسے لوگوں کو ہمارا جواب صرف ایک ہےجب ایسا ہے تو ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا وقت کھونا نہیں چاہیے۔ہم کو چاہئے کہ ہم آج ہی پہلی فرصت میں اپنا ’’درخت‘‘نصب کر دیں۔

ایک طاقتور درخت ہمیشہ ’’سو سال‘‘ہی میں تیار ہوتا ہے۔اس لیے جو شخص طاقتور درخت کا مالک بننا چاہتا ہو اس کے لیے سو سالہ باغبانی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اگر وہ ایسا کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل کر ’’درخت ستیہ گرہ‘‘ شروع کر دے۔یا کسی میدان میں جمع ہو کر ’’باغ ملت زندہ باد‘‘کے نعرے لگانے لگے تو یہ ایک احمقانہ حرکت ہو گی جس سے نہ کوئی درخت اگے گا اور نہ وہ باغ والا بنے گا۔اس کا واحد انجام صرف یہ ہے کہ وہ اس وقت کو مزید ضائع کر دے جو درخت اگانے کے لیے اس کو قدرت کی طرف سے حاصل تھا۔آپ کے پاس مکان نہ ہو اور آپ سڑک پرکھڑے ہو کر پھلجھڑی چھوڑنے لگیں تو اس سے آپ شہر میں ایک مکان کے مالک نہیں بن جائیں گے۔اسی طرح ملّت کا نام لے کر کچھ لوگ سیاسی شعبدہ بازی کرنے لگیں تو اس قسم کے شعبدوں سے ایسا نہیں ہو سکتا کہ زمین پر ملّت کا قلعہ کھڑا ہو جائے۔اشعار کی دنیا میں صرف تُک بندیوں کے ذریعہ بڑے بڑے انقلاب لائے جا سکتے ہیں، ایک خطیب اپنے پرجوش الفاظ کے ذریعہ آناً فاناً ایک پنڈال کو شان دار کامیابیوں کے آسمان پر پہنچا سکتا ہے۔مگر ایک حقیقی واقعہ کو ظہور میں لانا ایسا صبرآزما کام ہے جو طویل منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔

 

سیڑھی نہ کہ لفٹ

’’موجودہ منزل تک میں سیڑھی سے پہنچا ہوں نہ کہ لفٹ سے‘‘ایک ٹیلر ماسٹر نے کہا’’ایک اچھا کوٹ تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔کوٹ تیار کرنے کا پورا عمل اتنا پیچیدہ ہے کہ کوئی شخص کافی معلومات اور تجربہ کے بغیر اس کو بخوبی طور پر انجام نہیں دے سکتا۔میں نے اس راہ میں ایک عمر صرف کی ہے۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا ہے کہ میں شہر میں سلائی کی ایک دکان کامیابی کے ساتھ چلا سکوں۔‘‘

ٹیلر ماسٹر نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ اولاً میں نے ایک ٹیلر ماسٹر کی شاگردی کی۔اس کے یہاں پانچ سال تک کوٹ کی سلائی اور کٹائی کا کام سیکھتا رہا۔پانچ سال کی مسلسل محنت کے بعد میں اس قابل ہو گیا کہ میں ایک عام کوٹ سی سکتا تھا۔مگر جب میں نے اپنی دکان کھول کر کام شروع کیاتو معلوم ہوا کہ ابھی بہت سے مسائل ہیں جن کو حل کرنا باقی ہے۔ہر آدمی کا جسمانی ڈھانچہ الگ الگ ہوتا ہے اور کسی کوٹ کو پہننے والے شخص کے اپنے ڈھانچہ کے مطابق ہونا چاہئے۔چنانچہ جو کوٹ میں تیار کرتا اکثر اس میں شکایت ہو جاتی۔کیوں کہ اس میں گاہک کے اپنے جسمانی ڈھانچہ کے لحاظ سے کچھ فرق ہو جاتا اور کوٹ صحیح نہ آتا۔اس تجربہ کے بعدمیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ انسانی جسم کی بناوٹ(اناٹومی) کے اچھے مطالعہ کے بغیر یہ ناممکن ہے کہ میں ایک معیاری کوٹ تیار کر سکوں۔میں ایک گریجویٹ تھا۔میں نے باقاعدہ اناٹومی کا مطالعہ شروع کر دیا اور انسانی جسم کی اوپر کی ساخت کے بارے میں پوری معلومات حاصل کیں۔اس مطالعہ میں مجھ کو مزید پانچ سال لگ گئے۔اس طرح دس سال کی محنت کے بعد یہ ممکن ہوا کہ میں ہر شخص کے جسم سے ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھنے والا کوٹ تیار کر سکوں۔حتیٰ کہ ان لوگوں کا بھی جن میں کبڑا پن یا اور کوئی جسمانی فرق ہو جاتا ہے۔ایسے لوگوں کا کوٹ بھی میں اس طرح تیار کر سکتا ہوں کہ کہیں کوئی شکن نہ ہو۔ہر لحاظ سے ایک موزوں کوٹ تیار کرنے کے لیے بہت سی باتیں بطور خود جاننی پڑتی ہیں۔کیوں کہ ہر چیز کا ناپ نہیں لیا جا سکتا۔ایک ٹیلر ماسٹر جسم کے جن حصوں کا ناپ لیتا ہے اگر اس کا علم اتنا ہی ہو تو وہ کبھی ایک معیاری کوٹ تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ٹیلر ماسٹر نے اپنے فن کے بارے میں اس طرح کی اور بھی کئی باتیں بتائیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ’’تعمیر ملّت‘‘کے موضوع پر ایک تجربہ کار آدمی کا لیکچر سن رہا ہوں۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے جو معاشی اور سماجی مسائل ہیں ان میں وہی طریقہ کارآمد ہے جس سے مذکورہ ٹیلر ماسٹر نے کامیابی حاصل کی۔یعنی لفٹ کے بجائے سیڑھی سے چڑھنا۔زندگی میں کوئی چھلانگ نہیں۔یہاں ایسا کوئی بٹن نہیں ہے کہ آپ اس کو دبائیں اور اچانک ایک لفٹ متحرک ہو کر آپ کو اوپر پہنچا دے۔یہاں تو زینہ بہ زینہ ہی سفر طے کیا جا سکتا ہے۔آپ ’’سیڑھی‘‘کے ذریعےاپنی زندگی کو کامیاب بنا کر ایک لفٹ خرید سکتے ہیں مگر ’’لفٹ ‘‘کے ذریعہ اپنی زندگی کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔

 

تنگی میں وسعت

ایک آدمی نے شہر میں عینک کی دکان کھولی۔عینک بیچنے والوں کو اپنے گاہکوں کی سہولت کے لیے آنکھ کے ٹیسٹ کا انتظام بھی کرنا ہوتا ہے۔تا کہ آدمی ایک ہی جگہ اپنی آنکھوں کی جانچ کرائے اور وہیں سے عینک بھی لے لے۔مگر اس آدمی کی دکان ٹیسٹ کی ضرورت کے لیے چھوٹی تھی۔آنکھ کے ٹیسٹ میں دور کی نگاہ جانچنے کے لیے اصولاً 18 فٹ کے فاصلہ سے پڑھوایا جاتا ہے، جب کہ اس دکان میں صرف اس کے نصف کے بقدر گنجائش تھی۔یعنی گاہک کو بٹھانے کی جگہ سے لے کر دیوار تک کا فاصلہ بمشکل9 فٹ بنتا تھا۔

’’نوفٹ کو شیشہ لگا کر اٹھارہ فٹ کر لیں گے‘‘دکان دار نے اپنے دوست کے سوال کے جواب میں کہا۔دوست نے اس سے پوچھا تھا کہ تم اتنی چھوٹی دکان میں آنکھوں کے ٹیسٹ کا انتظام کیسے کرو گے۔دکان دار نے بتایا کہ پڑھانے والے حروف کا چارٹ جس دیوار پر لٹکا ہو، اس کے بالکل سامنے دوسری دیوار پر اگر آئینہ لگا دیا جائے اور ٹیسٹ کرانے والے کو اصل چارٹ کے بجائے آئینہ کے عکس میں پڑھوایا جائے تو پڑھنے والے شخص اور پڑھی جانے والی چیز کے درمیان کا فاصلہ خودبخود وگنا ہو جاتا ہے۔آدمی کی نگاہ پہلے 9فٹ کا فاصلہ طے کر کے آئینہ کو دیکھتی ہے۔پھر آئینہ کی مدد سے اس کی نگاہ مزید 9 فٹ کا فاصلہ طے کر کے چارٹ تک پہنچتی ہے۔اس طرح کل اٹھارہ فٹ ہو جاتے ہیں۔دکان دار نے ایسا ہی کیا۔چھوٹی دکان کے باوجود اس کے یہاں آنکھوں کے ٹیسٹ کا ویساہی انتظام ہو گیا جیسا بڑی دکانوں میں ہوتا ہے۔

یہی اصول زندگی کے ہر معاملہ میں چسپاں ہوتاہے۔آپ کے مواقع اگر کم ہوں، آپ کے لیے پھیلنے کا دائرہ تنگ ہوتو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔آپ اپنی عقل کو استعمال کر کے اپنے ’’نو فٹ‘‘کو ’’اٹھارہ فٹ‘‘بنا سکتے ہیں۔

آپ کا مکان چھوٹا ہوتو دو منزلہ بنا کر اس کو وسیع کر سکتے ہیں۔آپ کے پاس سرمایہ کم ہو تو دیانت داری کا ثبوت دے کر اس کی تلافی کر سکتے ہیں۔آپ کی ڈگری معمولی ہو تو خوش اخلاقی کے ذریعہ اس کو زیادہ کارآمد بنا سکتے ہیں لڑ کر آپ کے لیے جیتنے کے مواقع نہیں ہیں تو حکمت کا طریقہ اختیار کر کے اپنے حریف کو قابو میں لا سکتے ہیں۔سیاسی اقتدار میں آپ کو کم حصہ ملا ہے تو اقتصادی میدان میں ترقی کر کے اپنے آپ کو آگے لے جا سکتے ہیں۔تعداد کے اعتبار سے اگر آپ اقلیت میں ہیں تو اتحاد اور تنظیم میں اضافہ کر کے آپ اکثریت کی برابری کر سکتے ہیں۔

ہر چھوٹی ’’دکان‘‘بڑی دکان بن سکتی ہے۔کوئی دکان اسی وقت تک چھوٹی ہے جب تک دکان دار نے اسکوبڑھانے والی حکمت کو استعمال نہ کیا ہو۔بڑھانے والی حکمت کو استعمال کرنے کے بعد اس دنیامیں کوئی دکان چھوٹی دکان نہیں۔

 

اتنی عقل جانور کو بھی ہوتی ہے

قرآن میں آدم کے دوبیٹوں کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ایک بھائی نے غصہ میں آکر دوسرے بھائی کو قتل کر دیا۔ یہ کسی انسان کے قتل کا پہلا واقعہ تھا۔قاتل کی سمجھ میں نہ آیا کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیا کرے۔اس وقت اللہ نے ایک کوا بھیجا۔اس نے مرے ہوئے کوے کو اس کے سامنے ’’دفن ‘‘کیا۔اس نے اپنی چونچ اور پنجے سے زمین کھودی اور مردہ کوے کو اس کے اندر رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔یہ دیکھ کر قاتل بولاافسوس ہے مجھ پر۔میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں چھپانے کی تدبیر کرتا(مائدہ)یہ نسل انسانی کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے۔اس وقت سے اب تک برابر خدا یہ کررہا ہے کہ وہ حیوانات میں سے کسی حیوان کو ’’بھیج کر‘‘ہم کو ہماری زندگی کے بارہ میں سبق دیتا ہے۔مگر انسان مشکل ہی سے ایسا کرتا ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات سے اپنے لیے سبق لے۔یہاں ایک پرندے کا واقعہ نقل کیا جاتا ہے جس میں ہمارے آج کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔

ابابیل نے چھت کی لکڑی میں گھونسلا بنایا۔گھونسلا مٹی کا تھا۔نر اور مادہ دونوں تھوڑی تھوڑی گیلی مٹی اپنی چونچ میں لاتیں اور اس سے گھونسلے کی تعمیر کرتیں۔لگاتار محنت کے بعد چند دن میں گھونسلا تیار ہو گیا۔اب ابابیل نے اس کے اندر انڈہ دے دیا۔ایک روز ابابیل کا جوڑا گھونسلے پر بیٹھا ہوا تھا، چار انڈے اور دو ابابیلوں کا بوجھ گھونسلے کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا اور وہ لکڑی سے چھو ٹ کر نیچے گرپڑا۔انڈے ٹوٹ کر برباد ہو گئے۔اس کے بعد دیکھنے والوں نے دیکھا کہ دونوں ابابیلیں پوری چھت میں چاروں طرف اڑ رہی ہیں۔وہ چھت کی لکڑیوں میں اپنے اگلے گھونسلے کے لیے زیادہ محفوظ جگہ تلاش کر رہی تھیں۔بالآخر انھوں نے اپنے لیے ایک ایسی جگہ پا لی جو غیر ہموارہونے کی وجہ سے گھونسلے کو زیادہ سنبھال سکتی تھی۔

پہلی بار ابابیلوں نے خالی مٹی کا گھونسلا بنایا تھا۔اب دوسری بار انھوں نےجو مٹی لانی شروع کی اس میں گھاس ملی ہوئی تھی۔پہلے تجربہ کے بعد انھوں نے صاف گارے کو ناکافی پایا تو انھوں نے گھاس ملے ہوئے گارے سے گھونسلا بنانا شروع کیا۔گویا پہلے اگر خالی مٹی تھی تو اب آہن بستہ(Reinforced)مٹی گھونسلے کے لیے منتخب کی گئی۔نتیجہ ظاہر ہے۔دوسرا گھونسلا زیادہ مضبوط اور جما ہوا تھا۔وہ اپنی جگہ پر قائم ہو گیا اور اس میں جو انڈے دئیے گئے وہ محفوظ رہے یہاں تک کہ ان میں بچے نکل آئے۔بچے اپنی ماں کے ساتھ اڑ کر فضا میں غائب ہو گئے۔یہ واقعہ خورشید احمد بسمل صاحب(پیدائش 1947) کے اپنے مکان کا ہے جو تھنہ منڈی(راجوری)کے رہنے والے ہیں۔انھوں نے19ستمبر 1979کو اپنا مذکورہ کمرہ دکھایا اور مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا۔۔۔۔جانور کی پہلی کوشش اگر پہلی بار ناکام ہو جائے تو دوسری کوشش سے پہلے وہ یہ معلوم کرتا ہے کہ اس کے عمل میں کون سی کمی تھی جس نے اس کے منصوبہ کو ناکام بنا دیا۔اور پھر زیادہ کامل منصوبہ کے تحت دوسری تعمیر کرتا ہے۔مگر ہمارا’’آشیانہ‘‘گرتا رہتا ہے اور کبھی ہم کو احساس نہیں ہوتاکہ اپنی کمی کو معلوم کر کے زیادہ مستحکم تعمیر کا منصوبہ بنائیں۔

 

فرد کی سطح پر

ایک شخص بائیسکل پر سفر کر رہا تھا۔اچانک اس کا بریک جام ہو گیا۔وہ اتر کر سائیکل ساز کے پاس گیا۔مسافر کا خیال تھاکہ جس مقام پر اس کا بریک جام ہوا ہے، سائیکل ساز اسی مقام پر ہاتھ لگا کر اس کو درست کرے گا۔مگر سائیکل ساز نے ہتھوڑی لی اور بالکل دوسرے مقام پر ٹھونکنا شروع کر دیا۔ مسافر ابھی اپنی حیرت کا اظہار بھی نہیں کر پایا تھا کہ مستری نے کہا’’بس ٹھیک ہے ، لے جائیے‘‘اگلے لمحے سائیکل اپنے مسافر کو لیے ہوئے دوبارہ سڑک پر دوڑرہی تھی۔

یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ظاہری اسباب کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ خرابی یہاں ہے۔وہ اسی مقام پر ٹھونک پیٹ شروع کر دیتا ہے۔مگر خرابی دور نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خرابی کی اصل جڑ کہیں اور ہوتی ہے اور جب تک اصل جڑ کی اصلاح نہ کی جائے۔خرابی کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔

مثلاً قوم کے اندر اتحاد نہیں ہے۔اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔لوگ آپس کے اختلاف میں غیروں سے مل جاتے ہیں۔ان کی کوئی اجتماعی آواز نہیں ہے، وغیرہ۔ان مظاہر کو دیکھ کر ایک شخص کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ اٹھتا ہے اور وہ فوراً اجتماع اور کنونشن کی اصطلاحات میں سوچنے لگتا ہے۔اس کو کام یہ نظر آتا ہے کہ قوم کے افراد کو جمع کر کے پُر جوش تقریریں کی جائیں۔رزولیوشن پاس کیے جائیں۔وغیرہ۔

مگر یہ مسئلہ کاحل نہیں۔یہ گویا علامتوں پر محنت کرنا ہے۔حالانکہ اصلی حل یہی ہے کہ سبب پر محنت کی جائے۔زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسئلہ بظاہر کہیں اور پیدا ہوتا ہے اور اس کے حل کا راز کہیں اور ہوتا ہے۔مثلاً قوم کے اندر اگر اتحاد نہیں ہے تو اس کا سبب افراد کی بے اتحادی ہو گی۔ایسی حالت میں آپ ’’اتحاد کانفرنس‘‘کرکے لوگوں کے اندر اتحاد پیدا نہیں کر سکتے۔پہلے فرد کی سطح پر اتحاد پیدا کیجئے۔اس کے بعد قوم کی سطح پر اپنے آپ اتحاد پیدا ہو جائے گا۔اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ’’پھل‘‘پر محنت کرنے والے کو پھل نہیں ملتا۔یہاں پھل صرف وہ شخص پاتا ہے جس نے ’’بیج‘‘پر محنت کرنے کا ثبوت دیا ہو۔

 

رخ صحیح کیجئے

ایک مغربی مفکر نے کہا ہے ۔۔۔۔۔کامیابی کے راستہ کی اکثر رکاوٹوں کو تم نے دور کر لیا ہے اگر تم نے یہ جان لیا ہے کہ محض حرکت اور صحیح رخ پر حرکت میں کیا فرق ہے:

You've removed most of the roadblocks to success when

you've learnt the difference between motion and direction.

ہر سرگرمی بظاہر سرگرمی معلوم ہوتی ہے۔آپ اپنی گاڑی مطلوبہ منزل کی سمت میں چلا رہے ہوںیا منزل کے بالکل الٹی سمت میں اپنی گاڑی دوڑا رہے ہوں، دونوں حالتوں میں دیکھنے والوں کو گاڑی یکساں طور پر حرکت کرتی ہوئی نظر آئے گی۔مگر دونوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک حرکت آپ کو ہر آن منزل سے قریب کر رہی ہوگی اور دوسری حرکت ہر آن منزل سے دور۔

انفرادی زندگی کا معاملہ ہو یا اجتماعی زندگی کا ہمیشہ یہ ضرورت ہوتی ہے کہ حالات اور وسائل کا جائزہ لے کر اس کے مطابق صحیح رخ پر سفر شروع کیا جائے۔ایسا سفر دیر یا سویر منزل پر پہنچ کر رہتا ہے۔اس کے برعکس اگر الل ٹپ طریقہ پر ایک دوڑ جاری کر دی جائے تو ایسی دوڑ صرف نقصان اور بربادی پر ختم ہو گی۔

اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر ایک کام شروع کر دیتے ہیں یا وقتی جذبات کے اثر سے کوئی کاروائی کرنے لگتے ہیں اور اس کے بعد جب اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو دوسروں کی شکایت کرتے ہیں کہ ان کی ضد اور تعصب کی وجہ سے ایسا ہوا۔حالاں کہ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انھوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کو کرنا سمجھ لیا۔حالانکہ کرنا صرف وہ ہے جو درست طریقہ پر اور درست سمت میں کیا جائے نہ کہ درست اور نا درست کا لحاظ کئے بغیر بس یوں ہی ہاتھ پائوں چلانا شروع کر دیا جائے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی ناکامی کے لیے دوسروں کو الزام دیتا ہے۔حالاں کہ دوسروں کو اس کے خلاف جو موقع ملا وہ اسی لیے ملا کہ اس نے غلط رخ سے اپنا سفر جاری کیا تھا، اگر اس نے صحیح رخ سے اپنا سفر شروع کیا ہوتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ کوئی اس کے راستہ میں حائل ہو جائے۔وہ اس کے کامیابی کے سفر کو ناکامی اور بربادی کا سفر بنا دے۔

 

بڑا کام کرنے والے

دنیامیں ہمیشہ دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ایک وہ انسان جس کا حال یہ ہو کہ وہ جو کچھ کرے اس کی قیمت مع اضافہ کے وصول کرنا چاہے۔دوسرا انسان وہ ہے کہ وہ جو کچھ کرے اسے بھول جائے۔ اسے اپنے کیے کا کوئی معاوضہ نہ ملے تب بھی وہ کوئی شکایت اپنے دل میں نہ لائے۔اس کی تسکین کا سامان یہ ہو کہ وہ اپنے آپ کو مقصد میں لگائے ہوئے ہے نہ یہ کہ اس کو اس کے عمل کا فوری معاوضہ مل رہا ہے۔

پہلی قسم کے لوگ بھی انسان ہیں اور دوسری قسم کے لوگ بھی انسان۔مگر دونوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ظاہری صورت کے سوا دونوں میں کوئی چیز مشترک نہیں۔پہلی قسم کے لوگ صرف بازار چلاتے ہیں۔جب کہ دوسری قسم کے لوگ تاریخ بناتے ہیں۔

یہی دوسری قسم کے لوگ انسانیت کا اصل سرمایہ ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بڑا کام کرنے کے لیے ہمیشہ اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ مل کر کام کریں۔جب اس طرح لوگ ملتے ہیں تو کسی کو کم ملتا ہےاور کسی کو زیادہ۔کوئی کریڈٹ پاتا ہےا ور کوئی بے کریڈٹ رہ جاتا ہے۔کسی کا استقبال ہوتا ہےاور کوئی دیکھتا ہے کہ وہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔یہ صورت حال بالکل فطری ہے۔یہ فرق ہمیشہ پیش آتا ہے۔خواہ وہ کوئی عام تحریک ہو۔یا کسی پیغمبر کی تحریک ہو۔ایسی حالت میں متحدہ کوشش کو باقی رکھنے کی واحد قابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ لوگ اپنے حقوق کو بھول جائیں اور صرف اپنی ذمہ داری کو یاد رکھیں۔

اس مزاج کی ضرورت صرف اس لیے نہیں ہے کہ اجتماعی جدوجہد میں لوگ بے معاوضہ رہ جاتے ہیں۔بلکہ اس لیے بھی ہےکہ ملنے والا معاوضہ اکثر آدمی کے اپنے اندازہ سے کم ہوتا ہے۔چنانچہ معاوضہ ملنے پر بھی وہی تمام شکایتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ سرے سے کوئی معاوضہ نہ ملا ہو۔

بڑا کام کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کا حال یہ ہو کہ ان کا عمل ہی ان کا معاوضہ بن جائے۔اپنی ذمہ داری کو بھر پور طور پر ادا کر کے ان کو وہ خوشی حاصل ہو جو کسی شخص کو اس وقت ہوتی ہےجب کہ اس کے کام کے نتیجہ میں اس کو کوئی بہت بڑا انعام حاصل ہو جائے۔

استقلال

 

لگاتار عمل

کمیونسٹ چین کے سابق چیئرمین مائوزے تنگ نے ایک دلچسپ چینی کہانی لکھی ہے۔

پرانے زمانے میں چین کے شمالی علاقہ میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔اس کے مکان کی سمت جنوب کی طرف تھی۔اس بوڑھے آدمی کی مشکل یہ تھی کہ اس کے دروازے کے سامنے دو اونچے اونچے پہاڑ کھڑے ہوئے تھے۔ان پہاڑوں کی وجہ سے سورج کی کرنیں اس کے گھر میں کبھی نہ پہنچتی تھیں۔ ایک دن اس بوڑھے آدمی نے اپنے جوان بیٹوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ آئو ہم اس پہاڑ کو کھود کر یہاں سے ہٹا دیں تا کہ سورج کی کرنیں ہمارے گھر میں بلا روک ٹوک داخل ہو سکیں۔بوڑھے آدمی کے پڑوسی کو اس کا یہ منصوبہ معلوم ہوا تو وہ اس پر ہنسا۔اس نے اس بوڑھے آدمی سے کہامیںیہ جانتا تھا کہ تم ایک بے وقوف آدمی ہو لیکن مجھے یہ گمان نہ تھا کہ تم اتنا زیادہ بے عقل ہو گے۔آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ تم اپنی کھدائی کے ذریعےان اونچے پہاڑوں کو یہاں سےہٹا دو۔

بوڑھے آدمی نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ جواب دیاتمہارا کہنادرست ہے۔لیکن اگر میں مر گیا تو اس کے بعد میرے بیٹے اس کو کھودیں گے۔ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے ، اور پھر ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے۔اس طرح کھدائی کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔تم جانتے ہو کہ پہاڑ آئندہ اور زیادہ بڑے نہیں ہو جائیں گے۔ہر مزید کھدائی ان کے حجم کو کم کرتی رہے گی۔اس طرح آج کے دن نہیں تو کسی اگلے دن یہ مصیبت ہمارے گھر کے سامنے سے دور ہو چکی ہو گی۔

یہ کہانی بہت خوبصورتی کے ساتھ بتا رہی ہے کہ بڑی کامیابی کے لیے ہمیشہ بڑا منصوبہ درکار ہوتا ہے۔اگر آپ اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیںتو آپ کو بڑے منصوبہ کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے اور ان تمام تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے جو ایک بڑے منصوبہ کو مسلسل چلانے کے لیے ضروری ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل کے مقابلہ میں ان کے حل کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔مسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں اور حل ہمیشہ لا محدود۔اگر آپ حل کی اسکیم کو نسل در نسل چلا سکیں تو آپ ہر پہاڑکو کاٹ سکتے ہیں اور ہر دریا کو عبور کر سکتےہیں۔جو شخص لگاتار عمل کرنے کے لیے تیار ہو اس کے لیے کوئی پہاڑ پہاڑ نہیں اور کوئی دریا دریا نہیں۔

 

یہ وقت کا سوال ہے نہ کہ قیمت کا

آکسفورڈ یونیورسٹی 1163 ء میں قائم ہوئی۔اس کے ہرے ہرے لان ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ایک امریکن کروڑ پتی نے اس کے لان دیکھے تو وہ ان کو بہت پسند آگئے۔انھوں نے چاہا کہ ایسا ہی لان ان کی کوٹھی میں بھی ہو۔’’ ایسا لان کتنے ڈالرمیں تیار ہو جائے گا ‘‘ انھوں نے آکسفورڈ کے مالی سے پوچھا۔

’’ مفت میں ‘‘مالی نے سنجیدگی کے سا تھ جوا ب دیا

’’ وہ کیسے ‘‘

’’ اس طرح کہ آپ اپنی زمین کو ہموار کر کے اس پر گھاس جماد یجئے۔جب گھاس بڑھے تو اس کو کاٹ کر اوپر سے رولر پھیر دیجئے۔اسی طرح پانچ سو برس تک کرتے رہیے۔جب پانچ سو سال پورے ہوں گے تو ایسا ہی لان آپ کے یہاں تیار ہو جائے گا۔یہ وقت کا سوال ہے نہ کہ قیمت کا ‘‘۔

شام کے وقت سورج آپ کے ا وپر غروب ہو جائے اور آپ دوبارہ صبح کا منظر دیکھنا چاہیں تو آپ کو پوری رات تک انتظار کرنا ہو گا۔رات کا وقفہ گزارے بغیر آپ دوبارہ صبح کے ماحول میں آنکھ نہیں کھول سکتے۔آپ کے پاس ایک بیج ہے اور آپ اس کو درخت کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ 25 سال تک انتظار کریں۔اس سے پہلے آپ کا بیج ایک سر سبز وشاداب درخت کی صورت میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔اسی طرح قدرت کے تمام واقعات کے ظہور کے لیے ایک ’’ وقت ‘‘ مقرر ہے۔کوئی واقعہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ظہور میں نہیں آتا۔

وقت سے مراد وہ مدت ہے جس میں ایک طریق عمل جاری ہو کر اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔قدرت کے پورے نظام میں یہی اصول کار فرما ہے۔انسان کے سوا بقیہ کائنات میں یہ اصول براہ راست خدائی انتظام کے تحت قائم ہے اور انسان کو اپنے ارادہ کے تحت اس کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔کائنات اپنے پورے نظام کے ساتھ انسان کو یہ عملی سبق دے رہی ہے کہ واقعات کے ظہور کے لیے وہ کون سی حقیقی تدبیر ہے جس کو اختیار کر کے آدمی اس دنیا میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

شخصی زندگی کی تعمیر کا معاملہ ہو یا قومی زندگی کی تعمیر کا ، دونوں معاملات میں انسان کے لیے واحد صورت یہ ہے کہ وہ ’’ آغاز ‘‘ سے اپنا سفر جاری کرے اور مطلوبہ مدت سے پہلے نتیجہ دیکھنے کی تمنا نہ کرے۔ورنہ اس کا انجام اس مسافر کا ہو گا جو ایک دوڑتی ہوئی ٹرین میں بیٹھا ہو اور اسٹیشن کے آنے سے پہلے اسٹیشن پر اترنا چاہے۔ایسا مسافر اگر وقت سے پہلے اپنے ڈبہ کا دروازہ کھول کر اتر پڑے تو اس کے بعد وہ جہاں پہنچے گا وہ قبر ہو گی نہ کہ اس کی مطلوبہ منزل ۔۔۔۔ہر کامیابی سب سے زیادہ جو چیز مانگتی ہے وہ وقت ہے۔مگر کامیابی کی یہی وہ قیمت ہے جو آدمی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

 

پتھر کا سبق

راجستھان کا ایک طالب علم ہائی اسکول میں فیل ہو گیا۔دوسرے سال اس نے پھر امتحان دیا۔مگر وہ دوبارہ فیل ہو گیا۔اس کے بعد جب اس کا تیسرے سال کا نتیجہ آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب بھی فیل ہے تو اس کو سخت دھکا لگا۔وہ اتنا بیزار ہو ا کہ گھر سے بھاگ نکلا۔

چلتے چلتے وہ ایک گائوں کے کنارے پہنچا۔اس کو پیاس لگ رہی تھی۔اس نے دیکھا کہ ایک کنواں ہے جس پر کچھ عورتیں اور بچے پانی بھر رہے ہیں۔وہ کنویں کے پاس پہنچا تاکہ اپنی پیاس بجھا سکے۔مگر وہاں اس نے ایک منظر دیکھا۔منظر بظاہر چھوٹا سا تھا مگر وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنی پیاس بھول گیا۔اس کو اچانک محسوس ہوا کہ اس نے پانی سے زیادہ بڑی ایک چیز پا لی ہے۔

 اس نے دیکھا کہ گائوں کے لوگ جو پانی بھرنے کے لیے کنویں پر آتے ہیں ، عام طور پر ان کے ساتھ دو عدد مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں۔ایک گھڑے کو وہ کنویں کے قریب ایک پتھر پر رکھ دیتے ہیں اور دوسرے گھڑے کو کنویں میں ڈال کر پانی نکالتے ہیں۔اس نے دیکھا کہ جس پتھر پر گھڑا رکھا جاتا ہے وہ گھڑا رکھتے رکھتے گھس گیا ہے۔

’’ گھڑا مٹی کی چیز ہے ‘‘اس نے سوچا ’’ مگر جب وہ بار بار بہت دنوں تک ایک جگہ رکھا گیا تواس کی رگڑ سے پتھر گھس گیا۔استقلال کے ذریعہ مٹی نے پتھر کے اوپر فتح حاصل کر لی۔مسلسل عمل نے کمزور کو طاقت ور کے اوپر غالب کر دیا۔پھر اگر میں برابر محنت کروں تو کیا میں امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔کیا کوشش کے اضافہ سے میں اپنی کمی پر قابو نہیں پا سکتا ‘‘.

یہ سوچ کر بھاگے ہوئے طالب علم کے قدم رک گئے۔و ہ لوٹ کر اپنے گھر واپس آگیا اور دوبارہ تعلیم میں اپنی محنت شروع کر دی۔اگلے سال وہ چوتھی بار ہائی اسکول کے امتحان میں بیٹھا۔اس بار نتیجہ حیرت انگیز طور پر مختلف تھا۔ اس کے پرچے اتنے اچھے ہوئے کہ وہ اول درجہ میں پاس ہو گیا۔تین بار ناکام ہونے والے نے چوتھی کوشش میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔پتھر کا یہ سبق نوجوان کی زندگی کے لیے اتنا اہم ثابت ہوا کہ اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔جو طالب علم ہائی اسکول میں مسلسل ناکام ہو کر بھاگا تھا وہ اس کے بعد مسلسل فرسٹ آنے لگا۔یہاں تک کہ ایم اے میں اس نے ٹاپ کیا۔اس کے بعد وہ ایک اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونی ملک میں گیا۔اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں جو صرف ایک گائوں میں پیش آیا ہو۔حقیقت یہ ہے کہ ہر جگہ ایسے ’’ پتھر ‘‘ موجود ہیں جو آدمی کو زندگی کا سبق دے رہے ہیں جو ناکامیوں میں سے کامیاب بن کر نکلنے کا اشارہ دیتے ہیں۔اگر آدمی کے اندر نصیحت لینے کا مزاج ہو تو وہ اپنے قریب ہی ایسا ایک ’’ پتھر ‘‘ پا لے گا جو خاموش زبان میںاس کو وہی پیغام دے رہا ہو جو مذکورہ نوجوان کو اپنے پتھر سے ملا تھا۔

 

خود جاننا پڑتا ہے

ٹائمس آف انڈیا( 18 جولائی 1983 )میں ایک دلچسپ قصہ شائع ہوا ہے۔ہندوستان کے ایک لیڈر جن کا نام درج نہیں ) 1970 میں فرانس گئے۔پیرس میں ان کی ملاقات ایک فرانسیسی لیڈر سے ہوئی جو حکمراں گالسٹ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہندوستانی لیڈر اور فرانسیسی لیڈر کے درمیان گفتگو کا ایک حصہ حسب ذیل تھا  :

"Is there anything in particular you would like to do in Paris"

Asked the Gaullist.

"I am a great admirer of de Gaulle. replied to the Indian visitor. "I should like to make a courtesy call on him. "But he is dead, Sir"

"What? Nobody told me in India during the briefing".

"They must have presumed you were aware of it.

He died four years ago".

فرانسیسی لیڈر نے پوچھا ـ’’ کیا آپ پیرس میں کوئی خاص چیز پسند کریں گے ـ ‘‘ ہندوستانی لیڈر نے جواب دیا’’ میں جنرل ڈیگال سے بہت متاثر ہوں اور میری خواہش ہے کہ ان سے ملاقات کروں‘‘کہنے والے نے کہا’’مگر جناب ان کا تو انتقال ہو گیا‘‘ہندوستانی لیڈر نے کہا’’کیا‘‘ ہندوستان میں فرانس کے حالات بتاتے ہوئے تو کسی نے مجھ سے یہ بات نہیں کی ‘‘ کہنے والے نے دوبارہ کہا ’’ انھوں نے فرض کیا ہو گا کہ آپ اس کو جانتے ہیں۔جنرل ڈیگال چار سال پہلے مر چکے ہیں۔‘‘

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر بات بتائی نہیں جا سکتی۔ضروری ہے کہ آدمی خود کچھ باتوں کو جانے۔سننے والا اگر پچاس فیصد بات جانتا ہو تو اس کو بقیہ پچاس فی صد بات بتائی جا سکتی ہے ۔اگروہ نصف بات پہلے سے نہ جان چکا ہو تو بقیہ نصف بھی وہ نہ جان سکے گا۔خواہ وہ بات کتنی ہی معقول ہو اور کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ اس کو پیش کر دی جائے۔

آج کسی سے کہئے کہ ’’ فلاں کھلاڑی نے سنچری بنائی ‘‘ تو وہ فوراً سمجھ لے گا کہ اس سے مراد کرکٹ کے ایک سو رن ہیں۔مگر یہ کہئے کہ ’’ قوم کی ترقی کے لیے ایک سنچری کی جدوجہد درکا ر ہے ‘‘ تو اس کو کوئی نہیں سمجھتا۔کیوں کہ تعمیر قوم کے معاملہ میں سو سالہ جدوجہد سے کوئی واقف نہیں۔

 

کامیابی پندرہ سال میں

ایک صاحب ایک بیڑی کے کارخانہ میں معمولی ملازم تھے۔وہاں انھوں نے بیڑی کے کاروبار کے تمام ’’گُر‘‘دیکھ لیے اور اس کے بعد اپنا الگ کام کر لیا۔انھوں نے پانچ ہزار روپے سے اپنا کام شروع کیا تھا۔مسلسل محنت کے تقریباً پندرہ سال گزارنے کے بعد ان کا بہت بڑا کارخانہ ہو گیا۔ایک روز اپنے دوستوں سے اپنی کہانی بتاتے ہوئے انھوں نے کہا۔۔۔۔جس طرح بچہ پندرہ سال میں جوان ہوتا ہے۔اسی طرح بزنس بھی پندرہ سال میں جوان ہوتا ہے۔میں اپنی موجودہ حالت تک ایک دن میں نہیں پہنچ گیا۔یہاں تک پہنچنے میں مجھ کو پندرہ سال لگ گئے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر کام ’’ پندرہ سال ‘‘ ہی میں پورا ہوتا ہے ، خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔خواہ وہ کوئی کاروبار ہو یا ملّی خدمت ہو۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا بھی کوئی نسخہ ہو سکتا ہے کہ جو فوراً کامیاب کر دے وہ خوش خیالیوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔’’ ایک چھلانگ لگائو اور منزل تک پہنچ جائو ‘‘ قواعد کے لحاظ سے ایک صحیح جملہ ہے۔مگر زندگی کی حقیقتوں کے اعتبار سے یہ بے معنی الفاظ کا ایک مجموعہ ہے جس کی واقعات کی دنیا میں کوئی قیمت نہیں۔گلائن کننگھم Gleun Cunninghamوہ شخص ہے جو ایک میل کی دوڑ کا چیمپئن بنا۔وہ جس اسکول میں پڑھ رہا تھا اس میں آگ لگ گئی۔وہ آگ کی لپیٹ میں آگیا اس کا پائوں اس طرح جھلس اٹھا کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا۔ڈاکٹروں کا اتفاق تھا کہ اس کو دوبارہ چلنے ا ور دوڑنے کے قابل بنانے کے لیے ایک معجزہ کی ضرورت ہے۔مگر گلائن کننگھم کی معذوری نے اس کے اندر چلنے اور دوڑنے کا ایک نیا شوق ابھار دیا۔اس کے دل ودماغ کی ساری توجہ اس پر لگ گئی کہ وہ دوبارہ اپنے آپ کو چلنے کے قابل بنائے۔اس نے طرح طرح کی مشقیں شروع کر دیں۔بالآخر اس کی سمجھ میں ایک تدبیر آئی۔اس نے چلتے ہوئے ہل کے دستہ سے لٹک کر گھسٹنے کی مشق شروع کر دی۔تدبیر کامیاب رہی۔جب اس کے پائوں زمین پر ٹکنے کے قابل ہو گئے تو اس کی ہمت بندھی۔اب اس نے اپنی مشق اور تیز کر دی۔بالآخر وہ معجزہ رونما ہو کر رہا جس کی ڈاکٹروں نے پیشنگوئی کی تھی۔وہ باقاعدہ چلنے اور دوڑنے کے قابل ہو گیا۔اس کے بعد اس نے ایک مقابلہ میں حصہ لیا اور ایک میل کی دوڑ کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر اس کا چیمپئن بن گیا۔۔۔مگر گلائن کننگھم کو یہ کامیابی چند دن میں حاصل نہیں ہوئی۔اس منزل تک پہنچنے میں اس کے ’’ پندرہ سال ‘‘ لگ گئے۔پندرہ سالہ جدوجہد کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا کہ وہ دوڑ کا چیمپئن بنے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ’’ پندرہ سال ‘‘ کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں۔فی الفور نتائج نکالنے پر جو ہستی سب سے زیادہ قادر ہے وہ اللہ ہے۔مگر اللہ نے اپنی دنیا کا نظام فی الفور نتائج کی بنیاد پر نہیں بنایا، صرف اس لیے تاکہ انسان کو عبرت ہو اور وہ لا حاصل کوششوں میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔خدا کی دنیا میں رات دن بے شمار واقعات ہو رہے ہیں۔مگر سب کچھ حد درجہ محکم قوانین کی بنیادپر ہوتا ہے۔یہاںایک گھاس بھی ایسی نہیں جو خوش فہمی کی زمین پر کھڑی ہو اور ایک چیونٹی بھی نہیں جو حقائق کو نظر انداز کر کے زندہ ہو ، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان کے لیے خدا کا قانون بدل جائے۔کامیابی کی واحد شرط ’’ سعی ‘‘ ہے یعنی وہ کوشش کرنا جو مطلوبہ مقصد کے لیے قانون الہیٰ کے تحت مقدر ہے۔یہی اصول دنیا کی کامیابی کے لیے ہے اور یہی آخرت کی کامیابی کے لیے۔

 

مستقل ارادہ

کسی مفکر کا قول ہے’’ لوگوں میں طاقت کی اتنی کمی نہیں جتنی مستقل ارادے کی ‘‘ یہ ایک واقعہ ہے کہ اکثر لوگوں کے اندر صلاحیت پوری طرح موجود ہوتی ہے۔مگر اس کا فائدہ وہ صرف اس لیے نہیں اٹھا پاتے کہ وہ استقلال کے ساتھ دیر تک جدوجہد نہیں کر سکتے۔اور کسی واقعی کامیابی کے لیے لمبی جدوجہد فیصلہ کن طور پر ضروری ہے۔اگر آپ اپنی کوششوں کاکوئی ٹھوس اور مفید نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے دن یہ سوچ لیجئے کہ آپ کو لمبی مدت تک انتظار کرنا پڑے گا۔اگر آپ کے اندر انتظار کی طاقت نہیں ہے تو آپ کو اپنے لیے کسی پائدار کامیابی کی امید بھی نہیں رکھنا چاہئے۔زندگی کا راز ایک لفظ میں یہ ہے۔۔۔ جتنا زیادہ انتظار اتنی ہی زیادہ ترقی۔

قومی زندگی کی ’’ تعمیر ‘‘ تھوڑے سے وقت میں بھی ہو سکتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مدت بھی درکارہوتی ہے۔اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کس قسم کی قومیت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔اگر قوم کے اندر فوری جوش پیدا کرنا مقصود ہے۔اگر محض منفی نوعیت کے کسی وقتی ابال کو آپ مقصد سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں۔اگر عوامی نفسیات کو اپیل کرنے والے نعرے لگا کر تھوڑی دیر کے لیے ایک بھیڑ جمع کرلینے کو آپ کام سمجھتے ہیں ۔ا گر جلسوں کی دھوم کا نام آپ کے نزدیک قوم کی تعمیر ہے تواس قسم کی قومی تعمیر ، اگر اتفاق سے اس کے حالات فراہم ہو گئے ہوں ، آناً فاناً ہوسکتی ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قوم کی تعمیر سے زیادہ قیادت کی تعمیر ہے۔کیونکہ اس طرح کے شوروشر سے وقتی طور پر کچھ قائدین کو تو ضرور فائدہ ہو جاتا ہے ۔ مگر انسانیت کے اس مجموعی تسلسل کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتاجس کو قوم یا ملت کہتے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھئے تو اس قسم کے طریقے گویا ایک قسم کا استحصال ہیں ۔جن سے فائدہ اٹھا کر وقتی طور پر کچھ لوگ اپنی قیادت جما لیتے ہیں۔یہ سستی لیڈری حاصل کرنے کا ایک کامیاب نسخہ ہے۔جس کو سطحی قسم کے لوگ نادانی کی بنا پر یا ذاتی حوصلوں کی تکمیل کے لیے اختیار کرتے ہیں۔

اگر ہم واقعی قوم کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو سمجھ لینا چاہئے کہ ہم شاہ بلوط کا درخت اگانے اٹھے ہیں نہ کہ ککڑی کی بیل جمانے۔یہ ایک ایسا کام ہے جو لازمی طور پر لمبا منصوبہ چاہتا ہے۔تھوڑی مدت میںاس کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔اگر کوئی لیڈر ایسے نعرے لگاتا ہے تو وہ یا تواس کی سادہ لوحی کی دلیل ہے یا اس کی استحصالی ذہنیت کی۔اور اگر کوئی قوم ایسی ہے جو لمبے انتظار کے بغیر اپنی تعمیر وترقی کا قلعہ بنا بنا یا دیکھنا چاہتی ہے تو اس کو جان لینا چاہئے کہ ایسے قلعے صرف ذہنوں میں بنتے ہیں ، عالم واقعہ میں نہیں۔

 

دو سو سال

1782 میں ایک انگریز اڈنبرا سے گلیسگو آیا۔اس کے پاس دو سو پونڈ تھے اور ایک لکڑی کا پریس۔اس نے اس کے ذریعہ ایک اخبارجاری کیا۔ابتداء ً اس کا نام تھا گلیسگو ایڈورٹائزر (Glasgow Advertiser) یہی وہ اخبار ہے جو اب) (Glasgow Heraldکے نام سے مشہور ہے۔اور اس کی موجودہ اشاعت روزانہ چار لاکھ ہے۔اس کے اجراء پر اب دو صدیاں گزر چکی ہیں

اس کا بانی جان مننز ( John Mennons) ہر قسم کے نا موافق حالات سے دو چار تھا۔ البتہ ایک مبصر کے الفاظ میں ایک چیز اس کے پاس افراط کے ساتھ موجود تھی۔وہ تھا اس کا اتھاہ جوش (Limitless enthusiasm) اتھا ہ جوش اس کے لیے ہر کمی کا بدل بن گیا۔اس نے ایک ایسے اخبار کی بنیاد رکھی جو دو سو سال سے مسلسل جاری ہے۔درمیان میں شرکاء کے درمیان زبردست اختلافات بھی پیدا ہوئے مگر وہ حکمت اور صبر کے ساتھ طے کر لیے گئے۔

جو اخبار دو سو سال پہلے لکڑی کے پریس میں ہاتھ کے عمل سے چھاپا گیا تھا وہ آج تمام کا تمام آٹو میٹک مشینوں کے ذریعہ تیار کیا جاتا ہے ۔اس میں حروف کمپوز نہیں کیے جاتے اور نہ ڈھالے جاتے۔بلکہ وہ لیزر شعاعوں کے ذریعہ پلیٹ پر منعکس ہوتے ہیں۔کاغذ اپنے آپ چھپ کر نکلتا ہے۔وہ اپنے آپ مڑتا ہے۔اس کے بعد اس کے بنڈل بنتے ہیں۔اور بنڈ ل کے اوپر پولی تھین لپیٹا جاتا ہے ۔ا و ر پھر ڈسپیچ ڈیپارٹمنٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔یہ سب کمپیوٹر کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔(ٹائمس آف انڈیا 22 جنوری 1984)

مذکورہ انگریزی اخبارچوں کہ برابر دو سو سال سے جاری ہے۔اس لیے یہ ممکن ہوا کہ اس دوران میں ہونے والی تمام طباعتی اور اشاعتی ترقیاں اس کی تاریخ کا جزء بن جائیں۔وہ اس کی ترقی کے لیے زینہ بنتی چلی جائیں۔اگر بالفرض وہ ابتدائی 25 سال یا 50 سال میں بند ہو گیا ہوتا تو دنیا میں ہر قسم کی ترقیاں ہوتیں مگر مذکورہ اخبار ان ترقیوں میں حصہ دار بننے کے لیے موجود نہ ہوتا۔

موجودہ دنیا میں کوئی کام ’’ دو دن ‘‘میں انجام نہیں پاتا۔اس کو کرنے کے لیے ’’ دوسو سال ‘‘ درکار ہوتے ہیں۔مگر دو سو سالہ منصوبہ کی تکمیل کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔جوش عمل اور استقلال۔ان دو چیزوں کے بغیر یہاں کوئی بڑی ترقی ممکن نہیں۔

ہار مان لینا

امریکہ کے ایک شخص نے 1831ء میں تجارت کی ۔اس میں وہ ناکام ہو گیا۔1832 میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا مگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی۔1834 میں اس نے دوبارہ تجارت کی۔اس بار بھی وہ اپنی تجارت کو چلانے میں ناکام رہا۔

1841 میں اس کے اعصاب جو اب دے گئے۔1843 میں وہ دوبارہ سیاست میں داخل ہوا۔اس کو امید تھی کہ اس بار اس کی پارٹی اس کو کانگرس کی ممبری کے لیے نامز کر دے گی۔مگر آخر وقت میں اس کی امید پوری نہ ہو سکی۔اس کا نام پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں نہیں آیا ۔ 1855 میں اس کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینٹ کے لیے کھڑا ہو۔مگر وہ الیکشن میں ہار گیا۔1858 میں وہ دوبارہ سینٹ کے الیکشن میں کھڑا ہوا اور دوبارہ شکست کھائی۔

یہ بار بار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن ( 65۔1809 ) تھا جو 1860 میں امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔اس نے امریکہ کی تعمیر میں اتنا بڑا کام کیا کہ آج وہ نئے امریکہ کا معمار سمجھا جاتا ہے ۔

ابراہام لنکن کو امریکہ کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا اور وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا، ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل کے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جانتا تھا کہ شکست کو کس طرح تسلیم کیا جائے :

He knew how to accept defeat.

حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے اور ہار ماننا حقیقت پسندی کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ہار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کر لیں کہ آپ دوسروں سے آگے نہیں ہیں بلکہ دوسروں سے پیچھے ہیں۔بالفاظ دیگر، آپ جہاں فی الواقع ہیں وہیں نظری طور پر اپنے آپ کو کھڑا مان لیں۔ہار ماننے کے بعد آدمی فوراً اس حیثیت میں ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کر سکے۔کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں نہ کہ وہاں سے جہاں ابھی آپ پہنچے ہی نہیں۔

 

حقیقت پسندی

باغ لگانے کا کام ’’ باغ کانفرنس ‘‘ سے شروع نہیں ہوتا۔بلکہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ ایک ایک پودے کو وہ حالات فراہم کئے جائیں جن میں وہ اپنی ذاتی اپجائو کی صلاحیت کو بروئےکار لائے اور درخت کی صورت میں ترقی کر کے باغ کے مجموعہ کا جزء بن جائے۔

یہی طریقہ ملت کی تعمیر کا بھی ہے۔ملت کی تعمیر دراصل افراد کی تعمیر کا نام ہے۔ایک ایک فرد کو با شعور بنانا، ایک ایک فرد کی چھپی ہوئی فطری صلاحیتوں کو بیدار کر کے اس کو حقیقی انسان کے درجہ پر پہنچانا، ایک ایک فرد کے اندر یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ دوسرے بھائیوں کے لیے مسئلہ بنے بغیر اپنے ترقیاتی امکانات کو ظہور میں لانے کی جدوجہد کرے۔اسی قسم کے عمل کا نام ملت کی تعمیر ہے۔اس کے سوا جو کچھ ہے وہ بے فائدہ شوروغل ہے۔اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے۔یہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی کے لیے بے روک ٹوک مواقع کھلے ہوئے ہوں اور میدان میں اس کا کوئی حریف موجود نہ ہو۔ایسا نہ کبھی اس زمین پر کسی کے لیے ہوا اور نہ آج کسی کے لیے ایسا ہو سکتا ہے۔زندگی حقیقۃ ً رکاوٹوں کے درمیان سے اپنے لیے راستہ نکالنے کا نام ہے نہ کہ رکاوٹوں کی غیر موجودگی میں بے خوف وخطر دوڑنے کا۔

تاریخ کا مطالعہ جس طرح یہ بتاتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا آغاز ہمیشہ رکاوٹوں اور مشکلوں کے درمیان کرنا پڑتا ہے ، اسی طرح تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ رکاوٹیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں ، ہمیشہ آدمی کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ کھلا ہوتا ہے جس سے چل کر وہ اپنی منزل پر پہنچ سکے۔مگر یہ راستہ انھیں لوگوں کے لیے ہے جو راستہ کے بند مقامات پر سر نہ ٹکرائیں بلکہ دوسرے گوشوں میں اپنے لیے کوئی ’’ درہ ‘‘ تلاش کر کے آگے بڑھ جائیں۔

پھر تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ حادثہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو ، اس کی تلافی کی صورت بھی انسان کے لیے ہمیشہ موجود رہتی ہے۔اس دنیا میں کوئی بھی آفت یا حادثہ انسان کے لیے اس امکان کو ختم نہیں کرتا کہ وہ دوبارہ زیادہ بہتر منصوبہ کے ساتھ اپنے عمل کا آغاز کرے اور کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئے انداز سے حاصل کر لے۔

جو کچھ کسی دوسرے انسان کے پاس ہے وہی آپ بھی حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس راز کو جان لیں کہ اس دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے حقیقت پسندانہ جدوجہد سے ملتا ہے نہ کہ تمنائوں اور خوش خیالیوں سے۔

 

دوسروں کا لحاظ

کیپ بیل راجر س پولٹری کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ہیں۔پولٹری ( مرغ بانی ) پر ان کی ایک مشہور کتاب ہے۔یہ کتاب ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے بڑے پیمانہ کی کامیاب پولٹری فارمنگ بڑی حد تک ایک مزاجی کیفیت کا معاملہ ہے۔کوئی شخص جو چڑیوں اور جانوروں کے لیے شفقت کا جذبہ نہ رکھتا ہو وہ اس کا م میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔پولٹری فارمنگ کے لیے سخت اور صبر آزما قسم کا روٹین کا کام (Routine work) بے حد ضروری ہے۔یہ کام ان لوگوں کو بہت اکتا دینے والا معلوم ہو گا جو ایک ہی کام کو ہر روز کرنے کے عادی نہ ہو ، اور وہ بھی بغیر اس امید کے کبھی اس میں انقطاع یا تعطیل کا دن آسکتا ہے۔

Success is a matter of cooled decisions, without constant hovering and changing of the mind, acute observation, initiative, and unremitting attention to a vast amount of petty details.

A.C. Campbell Rogers,

Profitable Poultry Keeping in India and the East,

D.B Taraporevala Sons & Co. Bombay 1959, p. 223

کامیابی ایک ٹھنڈے فیصلوں کا معاملہ ہے ، بغیر اس کے کہ آدمی اِدھر اُدھر مڑے یا ذہن کو بدلے۔گہرائی کے ساتھ مشاہدہ ، اقدام ، اور چھوٹی چھوٹی تفصیلات کی بہت بڑی تعداد پر مسلسل اور غیر منقطع توجہ۔

مرغبانی کے ماہر نے جو بات مرغبانی کے لیے کہی ہے وہی عام زندگی کے لیے بھی صحیح ہے۔جس طرح مرغیاں پالنے والا شخص صرف اپنی مرضی پر نہیں چلتا بلکہ وہ مرغیوں کی عادات اوران کی ضروریات کا لحاظ کرتا ہے۔اسی طرح زندگی میں ہمیں دوسرے انسانوں کے مزاج اور ان کے مفادات کی رعایت کرنا ہے۔دوسروں کی عزت کر کے ہی ہم دوسروں کے درمیان عزت پاسکتے ہیں۔دوسروں کے لیے مفید بن کر ہی ہم دوسروں کو اپنے لیے مفید بنا سکتے ہیں۔اس دنیا میں ذاتی کامیابی دراصل دوسروں کی کامیابی میں مدد گار بننے کا نام ہے ، جو لوگ صرف اپنے کو جانیں اور دوسروں کو نہ جانیں وہ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

 

موقع صرف ایک بار

کالج کے ایک پرانے استاد کے ایک جملہ نے مجھے بہت متاثر کی’’ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ‘‘ انھوں نے کہا۔وہ اپنی زندگی پر تبصرہ کر رہے تھے ’’ میں بی ایس سی کر کے ملازمت میں لگ گیا تھا۔ایم ایس سی نہیں کیا۔اب کتنے اچھے اچھے چانس میرے سامنے آتے ہیں۔مگرمیں ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔صرف اس لیے کہ میرے پاس ماسٹر ڈگری نہیں۔اگر آپ کے پاس اعلیٰ لیاقت نہیں ہے تو آپ اعلیٰ مواقع سے فائدہ اٹھانے سے بھی محروم رہیں گے ‘‘۔

یہ تبصرہ ہمارے سماج کے تقریباً 99 فی صد لوگوں پر صادق آتا ہے۔ابتدائی عمر انسان کے لیے تیاری کی عمر ہے۔مگر بیشتر افراد اس عمر کو پوری طرح استعمال میں نہیں لاتے۔وہ اپنے بہترین وقت کو سستے مشاغل میں ضائع کر دیتے ہیں۔یہاں تک کہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور کام کرنے کا وقت آجاتا ہے۔اب وہ مجبور ہوتے ہیں کہ کمتر تیاری کے ساتھ عملی زندگی کے میدان میں داخل ہو جائیں۔ وہ چاہنے کے باوجود زیادہ ترقی نہیں کر پاتے۔ان کو ساری عمر اس طرح گزارنی ہوتی ہے کہ اس دنیا میں ان کی صلاحیتوں کے لیے جو آخری امکان مقدر تھا ، اس سے بہت کم امکان تک وہ پہنچ پاتے ہیں۔ وہ محرومی اور ناکامی کے احساس کے تحت زندگی گزارتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ اسی حال میں مر جاتے ہیں۔

اگر آپ کمتر تیاری کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوئے ہیں تو اس دنیا میں آپ اپنا بھرپور حصہ نہیں پا سکتے ، اور جو ایک بار محروم رہا وہ گویا ہمیشہ کے لیے محروم رہا۔کیونکہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ، بار بار نہیں ملتی۔

پتھر ہر ایک کے لیے سخت ہے۔مگر پتھر اس شخص کے لیے نرم ہو جاتا ہے جس نے اس کو توڑنے کا اوزار فراہم کر لیا ہو۔یہی صورت ہر معاملہ میں پیش آتی ہے۔اگر آپ لیاقت اور اہلیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوں تو ہر جگہ آپ اپنا حق وصول کر کے رہیں گے۔اور اگر لیاقت اور اہلیت کے بغیر آپ نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کے لیے اس دنیا میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اپنی مفروضہ حق تلفی کے خلاف فریاد واحتجاج کرتے رہیں۔

ماحول سے امید نہ رکھیے بلکہ اپنی محنت اور لیاقت پر بھروسہ کیجئے ، آپ کو کبھی ماحول سے شکایت نہ ہو گی۔ماحول کی شکایت دراصل ماحول سے زیادہ خود اپنی نالائقی کا اظہار ہے۔کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ مطلوبہ تیاری نہیں کی تھی جو ماحول سے اپنا حق وصول کرنے کے لیے ضروری ہے۔

 

جھوٹی بڑائی

ایک صاحب کا قصہ ہے۔ان کے دادا کا میاب تاجر تھے۔مگر بعد کو ان کی تجارت ختم ہو گئی۔والد اور والدہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا۔مذکورہ صاحب کے حصہ میں باپ دادا کا مال تو نہ آیا البتہ یہ احسا س انھیں وراثت میں ملا کہ ’’میرے باپ دادا بڑے آدمی تھے ‘‘۔

وہ ا بھی نوجوان تھے کہ انھیں معلوم ہوا کہ قصبہ کے ڈاک خانہ میں پوسٹ مین کی جگہ خالی ہے۔وہ درخواست دے کر پوسٹ مین ہو گئے۔لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ تمہاری تعلیم صرف آٹھویں کلاس تک ہوئی ہے ، تم کوشش کر کے ہائی اسکول کر ڈالو۔اس کے بعد تم آسانی سے مقامی ڈاک خانہ میں پوسٹ ماسٹر ہو جائو گے۔اسی کے ساتھ کچھ گھر کی کھیتی ہے۔دونوں کو ملا کر آسانی سے تمہاری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔مگر ان کے جھوٹے فخر کی نفسیات اس میں رکاوٹ بن گئی کہ وہ کسی کا مشورہ مانیں۔مزید یہ ہوا کہ جھوٹی بڑائی کے احساس کی بنا پر اکثر وہ ڈاک خانہ کے کارکنوں سے لڑ جاتے تھے۔یہاں تک کہ ایک روز انھوں نے پوسٹ ماسٹر سے جھگڑا کر لیا اور کام چھوڑ کر چلے آئے۔

پوسٹ آفس کی ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ بے کار پڑے رہے۔نہ کوئی دوسرا کام کیا اور نہ تعلیم حاصل کی۔ان کا مشغلہ صرف یہ رہ گیا کہ اپنی فرضی بڑائی کے تذکرے کریں اور اس کے ذریعہ جھوٹی تسکین حاصل کرتے رہیں۔ملازمت چھوڑنے کے بعد کھیتی سے کام چلتا رہاجس کو بٹائی پر دئیے ہوئے تھے۔یہاں تک کہ ان کے چھ بچے ہو گئے۔اب مسائل نے پریشان کرنا شروع کیا۔تاہم ان کی جھوٹی بڑائی کا احسا س دوبارہ اس میں رکاوٹ بنا رہا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کریں۔وہ اپنے رشتہ داروں کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان سے لڑنے لگے۔مگر اس غیر حقیقت پسندانہ رویہ نے صرف ان کی بربادی میں اضافہ کیا یہاں تک کہ ان کا ذہنی توازن خراب ہو گیا۔

موجودہ دنیا حقیقتوں کی دنیا ہے۔یہاں حقیقت سے مطابقت کر کے آپ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔اور اگر آپ حقیقت سے مطابقت نہ کریں تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔خدا کی اس دنیا میں جھوٹی بڑائی سے زیادہ بے معنی کوئی چیز نہیں۔یہاں جھوٹی بڑائی سے زیادہ تباہ کن کوئی ذہنیت نہیں۔

برداشت

 

صبر ایک مثبت عمل

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صبر ایک منفی عمل ہے مگر یہ سراسر غلط فہمی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ صبر ایک مثبت عمل ہے بلکہ وہ مثبت عمل کی بنیاد ہے۔کیوں کہ صبر کے بغیر اس دنیا میں کوئی مثبت عمل نہیں کیا جا سکتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری دور میں اطراف عرب کے رئیسوں اور بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔آپ کا یہ عمل واضح طور پر ایک مثبت عمل تھا۔مگر اس مثبت عمل کی قیمت صبر تھی۔اس سے پہلے آپ کو صبر کرنا پڑا۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ حالات پیدا ہوں جن میں مذکورہ قسم کا مثبت عمل انجام دیا جا سکے۔

یہ ایک معلوم بات ہے کہ رئیسوں اور بادشاہوں کے نام یہ خطوط صلح حدیبیہ کے بعد روانہ کیے گئے۔ظاہر ہے کہ یہ کام صلح حدیبیہ سے پہلے بھی ہو سکتا تھا۔پھر آپ نے اس کو صلح حدیبیہ کے بعد کیوں انجام دیا۔اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے پہلے آپ جنگ وقتال کے حالات میں گھرے ہوئے تھے۔صبح وشام دشمنوں کے حملہ کاخطرہ لگا رہتا تھا اورآپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی ساری توجہ دفاعی کاموں میں خرچ ہو رہی تھی۔ایسے غیر معتدل حالات میں حکمرانوں کے نام دعوتی مہم کا منصوبہ بنانا اور اس کی تعمیل کرنا عملاً سخت دشوار تھا۔

صلح حدیبیہ حقیقۃً مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان دس سال کا نا جنگ معاہدہ (No war pact) تھا۔چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد حالات بالکل معتدل ہو گئے۔اس کے بعد فوراً آپ نے حکمرانوں کے نام دعوت نامے بھیجنے کامنصوبہ بنایا اور اس کی تعمیل فرمائی۔جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صبر کے بغیر کوئی مثبت عمل ممکن نہیں۔اگر آپ کو داعی بننا ہے تو مدعو کے ساتھ تمام جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا ہو گا۔اگر آپ کو متواضع اخلاق اختیار کرنا ہے تو اپنے سینہ کو تکبر کا قبرستان بنانا ہو گا۔اگر آپ کو لوگوں کا خیر خواہ بننا ہے تو اپنے اندر اٹھنے والے حسد کے جذبات کو دبانا ہو گا۔اگر آپ لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اندر پیدا ہونے والے انتقامی جذبات کو ذبح کرنا ہو گا۔اور یہ سب وہ چیزیں ہیں جو صبر سے تعلق رکھتی ہیں۔صبر کے بغیر ان کا حصول ممکن نہیں۔

 

عملی حل

ایک عالم نفسیات کا قول ہے کہ جب کسی کی انا کو مَس کیا جاتا ہے تو وہ برتر انا بن جاتا ہے اور اس کا نتیجہ ہے فساد  :

When one's ego is touched, it turns into

super-ego, and the result is break-down.

عمیر بن حبیب بن حماشہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آخر زمانہ میں اپنے پوتے ابو جعفر کو ایک لمبی نصیحت کی۔اس نصیحت کا ایک حصہ صبر سے متعلق تھا۔اس سلسلے میں انھوں نے کہا  :

من لا یرضی بالقلیل مما یاتی بہ السفیہ یرضی بالکثیر ( الطبرانی فی الا وسط )

جو شخص نا دان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہو گا اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔

ان دونوں اقوال میں بدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ ایک ہی بات کہی گئی ہے۔وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں لوگوں کے شر سے بچنے کی ایک ہی یقینی تدبیر ہے۔اور یہ کہ اپنے آپ کو لوگوں کو شر سے دور رکھا جائے۔

ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر ’’ انا ‘‘ موجود ہے۔یہ انا عام حالت میں سویا ہوا رہتا ہے اس کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اس کو سو یا رہنے دیا جائے۔اگر کسی کارروائی سے اس انا کو چھیڑ دیا گیا تو وہ سانپ کی طرح اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا اور پھر وہ ہر وہ ممکن فساد برپا کرے گا جو اس کے بس میں ہو۔

اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی نادان یا کسی فسادی آدمی سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے۔اکثر حالات میں اس کا بہترین حل یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی تکلیف کو برداشت کر لیا جائے ۔ کیونکہ اگر ابتدائی معمولی تکلیف کو برداشت نہیں کیا گیا اور اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی تو فریق ثانی اور زیادہ بھڑک اٹھے گا۔نتیجہ یہ ہو گا کہ جس آدمی نے کنکری کی چوٹ برداشت نہیں کی تھی وہ مجبور کر دیا جائے گا کہ پتھروں کی بارش کو برداشت کرے۔

 

دور کا راستہ

ترقی یافتہ ملکوں میں ٹیلی فون کا نظام نہایت معیاری ہوتا ہے۔اس کے بر عکس غیر ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ ہر جگہ ٹیلی فون ہے مگر اس کا نظام درست نہیں۔مثلاً ہندوستان میں اگر آپ مقامی ٹیلی فون کریں یا ایک شہر سے دوسرے شہر بات کریں تو طرح طرح کی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے بر عکس اگر آپ دہلی سے لندن کے کسی نمبر پر ڈائل کریں تو آپ کو فوراً لائن مل جائے گی اور نہایت صاف طور پر گفتگوہو سکے گی۔

اس سلسلہ میں افریقہ کا ایک لطیفہ اخبار میں نظر سے گزرا۔افریقہ کے ایک ملک میں کسی عورت نے گوشت کی مقامی دکان پر ٹیلی فون کرنا چاہا۔کافی دیر تک کوشش کرنے کے باوجود اس کو نمبر نہیں ملا۔ اس عورت کی ماں لندن میں رہتی تھی۔اس کے بعد اس نے لندن کے ٹیلی فون پر اپنی ماں کا نمبر ڈائل کیا۔یہ نمبر اس کو فوراً مل گیا۔اپنی ماں سے بات کرتے ہوئے مذکورہ عورت نے ضمناً کہا کہ وہ گوشت منگوانے کے لیے ایک گھنٹہ سے گوشت کی دکان پر ٹیلی فون ملانے کی کوشش کر رہی تھی۔مگر رابط قائم نہ ہو سکا۔اس کی ماں نے کہا کہ اچھا میں یہاں سے ملاتی ہوں۔چنانچہ اس کی ماں نے لندن سے افریقہ کی گوشت کی دکان کا ٹیلی فون نمبر ملایا۔نمبر بلاتا خیر مل گیا۔افریقہ کی گوشت کی دکان کو جو پیغام مقامی ٹیلی فون سے نہیں پہنچ سکا تھا۔وہ لندن کے ٹیلی فون سے پہنچ گیا۔

یہ لطیفہ زندگی کی ایک حقیقت کو بتا رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ۔۔۔کبھی دور کا راستہ عملاً زیادہ قریب ہوتا ہے۔

بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ منزل پر پہنچنے کے لیے مختصر راستہ تلاش کرتے ہیں۔وہ اپنے مطلوبہ نتیجہ کو حاصل کرنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو بظاہر جلد نتیجہ کو سامنے لانے والا ہو۔مگر منزل تک جلد پہنچنے کے لیے صرف ’’ راستہ ‘‘ کو دیکھنا کافی نہیں ہے بلکہ ’’ سواری ‘‘ کو دیکھنا بھی ضروری ہے ، نتیجہ کو جلد حاصل کرنے کا تعلق صرف ظاہری اسباب سے نہیں ہے بلکہ بہت سے ان دوسرے اسباب سے ہے جو دکھائی نہیں دیتے۔

کبھی دور کا راستہ زیادہ قریب ہوتا ہے اور قریب کا راستہ زیادہ دور بن جاتا ہے۔

 

اندر اور باہرکا فرق

اپا لو ۔۔8 کے تین خلائی مسافر 27 دسمبر 1968 کو بحر الکاہل میں اترے تھے۔زمین سے چاند تک کا سفر کرنے میں ان امریکی خلا بازوں کو چھ دن تین گھنٹے لگے اور انھوں نے تقریباً پانچ لاکھ 47ہزار میل کا سفر طے کیا۔ان کے سفر کا سب سے زیادہ نازک لمحہ وہ تھا جب کہ ان کا چھ ٹن وزنی جہاز ساٹھ میل کے فاصلہ سے چاند کا چکر لگا کر دوبارہ زمین کے قریب واپس پہنچا۔

امریکی راکٹ جب زمین کی بیرونی فضا میں داخل ہوا تو زمین کی کشش کی وجہ سے اس کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ کر 39 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گئی۔چاند کے مقابلہ میں اس کو سات گنا زیادہ قوت کشش کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا تھا۔اس غیر معمولی رفتار کی وجہ سے خلائی جہاز انتہائی خوفناک قسم کی گرمی سے دو چار ہوا۔کرئہ فضا میں داخل ہوتے ہی خلائی جہاز ہوا کی رگڑ سے گرم ہونا شروع ہوا۔یہاں تک کہ وہ آگ کے انگار ے کی طرح سرخ ہو گیا۔اس وقت خلائی جہاز کے بیرونی حصہ کی تپش تین ہزار تین سو سنٹی گریڈ (6 ہزار ڈگری فارن ہائٹ ) تھی ، جب کہ صرف سو ڈگری کی حرارت پر پانی ابلنے لگتا ہے۔

تین ہزار تین سو ڈگری سنٹی گریڈ کی حرارت میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔پھر اس غیر معمولی تپش میں تینوں خلائی مسافر کس طرح زندہ سلامت رہ کر واپس آگئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جس خلائی جہاز کے اندر وہ بند تھے ، وہ خاص طور پر اس ڈھنگ سے بنایا گیا تھا کہ وہ باہر کی شدت کو اند ر نہ پہنچنے دے۔چنانچہ سخت ترین گرمی کے باوجود اس کے اندر کا درجہ حرارت 21 ڈگری سنٹی گریڈ سے آگے نہیں بڑھا۔باہر کا درجہ حرارت تین ہزار تین سو اور اندر کا درجہ حرارت صرف 21۔

خلائی سفر کا یہ واقعہ اپنے اندر بڑا سبق رکھتا ہے۔انسانی زندگی میں بھی بار بار ایسے سخت مرحلے آتے ہیں جب بیرونی ماحول انتہائی طور پر آپ کے خلاف ہو جاتا ہے۔اس وقت حالات کی شدت سے بچنے کی صرف ایک سبیل ہوتی ہے۔وہ یہ کہ آپ اپنے اندرونی جذبات کو دبائیں اور اپنے احساسات پر قابو رکھتے ہوئے اس کو معتدل حالت پر قائم رکھیں۔اگر ایسا ہو کہ آپ کے ’’ اندر ‘‘بھی شدت کا وہی حال ہو جائے جو آپ کے ’’باہر ‘‘ ہے تو آپ اپنے کو تباہ کر لیں گے۔اس کے برعکس اگر اندر کی شدت باہر سے غیرمتاثر رہ کر اعتدال کی حالت پر قائم رہے تو آپ باہر کی ’’ آگ ‘‘ سے محفوظ رہیں گے اور آخر سلامتی کے ساتھ کامیابی کی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

زندگی کا راز یہ ہے کہ آپ کے باہر اگر آپ کے خلاف نفرت اور بغض پایا جاتا ہو تو آپ اس نفرت اور بغض کو اپنے اندر داخل نہ کریں۔بلکہ اپنے کو قابو میں رکھ کر اپنے اندر محبت اور درگزر کے جذبات کی پرورش کریں۔باہر کی دنیا آپ کے ساتھ برائی کا معاملہ کرے تو آپ بھلائی کی صورت میں اس کا جواب دیں۔یہی طریقہ زندگی اور کامیابی کا طریقہ ہے۔اگر آپ بھی ویسے ہی ہو گئے جیسا ماحول تھا تو یقینا آپ مقابلہ کی اس دنیامیں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

 

بے صبری کا نتیجہ

15 جنوری 1986 کا واقعہ ہے۔انڈین ائیرلائنز کا ایک جہاز ( فلائٹ نمبر 406 ) بمبئی سے دہلی کے لیے اڑا۔مگر صرف پندرہ منٹ بعد وہ واپس ہوا اور دوبارہ بمبئی کے ہوائی اڈہ پر اتر گیا۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ یہ جہاز کسی ٹیکنیکل سبب سے آدھ گھنٹہ لیٹ ہو گیا تھا۔جہاز جب اوپر فضا میں پہنچا تو اس کے ایک مسافر نے کیپٹن بھٹنا گر کے نام ایک نوٹ بھیجا کہ وہ بتائے کہ جہاز کیوں آدھ گھنٹہ لیٹ روانہ ہو ا ہے۔

کیپٹن نے مذکورہ مسافر کو کاک پٹ میں بلایا اور وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ لیٹ ہونے کی وجہ کیا تھی۔مسافر اس کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوا اور کیپٹن کی پیٹھ پر گھونسہ مار کر کہا کہ میں نے تمہارے جیسے بہت پائلٹ دیکھے ہیں :

I have seen many pilots like you.

کیپٹن بھٹناگر اس صورت حال سے گھبرا اٹھے۔انھوں نے فوراً جہاز کو موڑ دیا اور اس کو واپس لا کر دوبارہ بمبئی کے ہوائی اڈہ پر اتار دیا۔اسکے بعد بمبئی کے ہوائی اڈہ پر کافی دیر تک ہنگامہ رہا بالآخر انڈین ائیر لائنز کےذ مہ داروں نے جہاز کو دوسرے پائلٹ کے ذریعہ روانہ کیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذکورہ جہاز جب بمبئی سے دہلی پہنچا تو وہ تین گھنٹہ لیٹ ہو چکا تھا۔مسافر نے آدھ گھنٹہ کی تاخیر برداشت نہ کی۔اس کی قیمت انھیں یہ دینی پڑی کہ وہ تین گھنٹہ تاخیر کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچے۔مزید یہ کہ انڈین ائیر لائنز کے ذمہ داروں نے ایک انکوائری ( High-level inquiry) بٹھائی ہے۔مذکورہ مسافر بالفرض کسی سزا سے بچ جائے تب بھی وہ ایک انجام سے بچ نہیں سکتے۔اسی چیز کی اور زیادہ قیمت دینا جس کی تھوڑی قیمت دینے پر وہ راضی نہیں ہوئے تھے ، یعنی وقت۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کر رہا ہے۔حالاں کہ وہ اپنے مقصد کو کھو رہا ہوتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہوں۔حالاں کہ اس کی تیزی کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی منزل سے کچھ اور دور ہو جائے۔(ٹائمس آف انڈیا ، ہندوستان ٹائمس 16 جنوری 1986)

 

جینے کا راز

ایک مسلمان لیڈر نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نام ایک خط لکھا۔اس میں انہوں نے یہ شکایت کی کہ مسلم اقلیت کے ساتھ ہندوستان میں ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اس صورتِ حال کو ختم نہ کیا گیا تو ان کی پارٹی ستیہ گرہ شروع کر دے گی۔اس کے جواب میں مسز اندرا گاندھی نے مکتوب نگار کو جو خط لکھا اس کا ایک جملہ یہ تھا۔

No minority could survive if their

neighbours of the majority were irritated.

کوئی اقلیت زندہ نہیں رہ سکتی اگر اس کی پڑوسی اکثریت مشتعل ہو۔( ہندوستان ٹائمز 21 فروری 1983)

اگر بالکل غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو وزیر اعظم اندرا گاندھی کا یہ جملہ صورتِ حال کی نہایت صحیح ترجمانی ہے۔نیز اسی کے اندر مذکورہ مسئلہ کا حقیقی حل بھی چھپا ہوا ہے۔

موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف اسباب سے ایک دوسرے کے خلاف ناراضگی کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں۔کوئی آگے بڑھ گیا ہے تو دوسروں میں اس کے خلاف حسد کا جذبہ ، کسی کو زیادہ مل گیا ہے تو اس کے مقابلہ میں اپنی محرومی کا احساس، کسی سے شکایت کی کوئی بات ہو جائے تو اس کے خلاف غصہ اور انتقام ، وغیرہ۔اس قسم کے جذبات انتہائی عام ہیں او روہ ہر سماج میں بلکہ ہر گھر میں موجود ہوتے ہیں۔مگر عام حالات میں وہ دلوں کے اندر چھپے رہتے ہیں۔لوگوں کی روز مرہ کی مصروفیات بھی اس کے ابھرنے میں رکاوٹ بنی رہتی ہیں۔لیکن اگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو یہ جذبات ظاہر ہو جاتے ہیں۔

سماجی امن درحقیقت اس کا نام ہے کہ ان منفی جذبات کو دبا رہنے دیا جائے۔اس کے بر عکس سماجی بدامنی یہ ہے کہ کوئی نادانی کر کے ان چھپے ہوئے جذبات کو مشتعل کر دیا جائے۔

یہ زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے۔موجودہ مقابلہ کی دنیا میں کوئی معاشرہ حتی کہ کوئی خاندان اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔ایسی حالت میں زندگی کا راز صرف ایک ہے۔وہ یہ کہ صبر اور حکمت کا طریقہ اختیار کر کے دبے ہوئے جذبات کو دبا رہنے دیا جائے۔ان کو ہر قیمت پر بروئے کار آنے سے روکا جائے۔

زندگی کا یہی راز ہے جس کو ایک مفکر نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ۔۔۔۔اس دنیامیں ہر آدمی کے پاس ایک وسیع قبرستان ہونا چاہئے جس میں وہ لوگوں کے قصوروں کو دفن کر سکے ۔

 

صبرکی ضرورت

مغل حکمراں اورنگ زیب کو اپنے والد شاہ جہاں سے سیاسی اختلاف ہو ا۔8 165ء میں اس نے شاہجہاں کو تخت سے بے دخل کر کے آگرہ کے قلعہ میں قید کر دیا۔اسی حال میں شاہجہاں 1666ء میں 74 سال کی عمر میں مر گیا۔اسیری کے زمانہ میں اس کی بہن جہاں آرا بھی قلعہ میں اس کے ساتھ تھی۔شاہ جہاں آگرہ کے قلعہ سے تاج محل کو دیکھا کرتا تھا اور اشعار پڑھتا رہتا تھا۔

ڈاکٹر آر۔سی۔مجمدار ، ڈاکٹر ایچ۔سی۔رائے چودھری اور ڈاکٹر کالی کِنکر دتہ نے اپنی مشترک کتاب تاریخ ہند (An Advanced History of India) میں شاہ جہاں کے آخری حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے مذہب میں اپنی تسکین کا سامان پا لیا۔اور صبر کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آخری ایام اپنی پارسالڑ کی جہاں آرا کے ساتھ عبادت اور مراقبہ میں گزار دئیے یہاں تک کہ مر گیا:

He found solace in religion, and, in a spirit of resignation, passed his last days in prayer and meditation in the company of his pious daughter, Jahanara, till his death (p. 477)

کہا جاتا ہے کہ ایک عرصہ کے بعد شاہ جہاں قید کی زندگی سے گھبرا اٹھا۔اس نے اورنگ زیب کو ایک مصرعہ لکھ کر بھیجا جس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو ہم کو مار ڈالو یا دام دو یا پھر ہم کو آزاد چھوڑ دو:

یا بکش یا دام دہ یا ازقفس آزاد کن

اونگ زیب نے بھی اس کے جواب میں ایک اور مصرعہ لکھ کر شاہ جہاں کے پاس بھیج دیا۔جو یہ تھا کہ ہوشیار چڑیا جب جال میں پھنس جائے تو اس کو برداشت سے کام لینا چاہئے  :

مرغ زیر ک چوں بدام افتد تحمل بایدش

ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ نہ ہو ، صرف ایک لطیفہ ہو۔تاہم یہ بذات خود ایک حکمت کی بات ہے۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی غلطی یا کسی حادثہ کی بنا پر ایک ایسی صورت حال میں پھنس جاتا ہے جو اس کے لیے عام حالات میں بالکل نا قابل برداشت ہوتی ہے۔مگر اب جہاں وہ پھنس گیا ہے وہاں سے فوری طور پر نکلنا عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ایسی حالت میں گھبرا کر کوئی اقدام کرنا سراسر نادانی ہے۔جال میں پھنسنے کے بعد چڑیا اگر پر پھڑ پھڑ ائے تو وہ اور زیادہ پھنستی چلی جاتی ہے ، اسی طرح کسی نازک صورت حال میں پھنس جانے کے بعد آدمی اگر بے صبری کے ساتھ کاروائی کرے تو وہ اور زیادہ اس میں الجھ جائے گا۔

حکمت کا یہ اصول افراد کے لیے بھی ہے اور قوموں کے لیے بھی۔

 

رد عمل کے بغیر

ایک ہندی کہاوت ہےچوٹ سہے جو شبد کی وائے گرو میں داس۔یعنی جو شخص لفظ کی چوٹ سہہ سکے وہ اس قابل ہے کہ اس کو پیشوائی کا درجہ دیا جائے اور دوسرے لوگ اس کے خادم بن کر رہیں ۔

لفظ کو سن کر بظاہر نہ کسی کا خون بہتا اور نہ کسی کا ہاتھ پائوں ٹوٹتا۔مگر لفظ کی چوٹ کو برداشت کرنا بلاشبہ کسی آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے ، لفظ کی چوٹ وہی شخص برداشت کر سکتا ہے جس کے اندر گہرائی ہو۔جو ظاہری سطح سے اوپر اٹھ کر چیزوں کو دیکھ سکے۔

مسٹر کرشنا مورتی (عمر 90 سال ) ہندوستان کے مشہور مفکر ہیں۔وہ نہایت عمدہ انگریزی بولتے ہیں۔چنانچہ ان کی تقریروں میں انگریزی دان طبقہ ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتا ہے۔ہندوستان کے علاوہ مغربی ملکوں میں بھی ان کی تقریریں دل چسپی سے سنی جاتی ہیں۔

تاہم کرشنا مورتی کو یہ شکایت ہے کہ کوئی ان کے خیالات کو عملی طور پر نہیں اپناتا۔مدراس کی ایک تقریر میں انھوں نے کہا کہ 50 سال سے میں دنیا بھر میں سفر کر کے اپنے خیالات پیش کر رہا ہوں مگر لوگوں کے اندر کوئی عملی حرکت پیدا نہیں ہوتی ’’ کیا آپ لوگ اپنے آپ کو بدل لیں گے ‘‘ انھوں نے مجمع سے سوال کیا، پھر خود ہی جواب دیا ’’ آپ لوگ میری باتیں سن کر واپس چلے جائیں گے اور بد ستور ویسا ہی کرتے رہیں گے جیسا اب تک کر رہے تھے‘‘۔

یہ سن کر مجمع سے ایک شخص اٹھا اور سخت غصہ میں کہا ’’ ہر سال آپ یہی کہتے ہیں کہ ہم آپ کا ساتھ نہیں دیتے۔پھر کس لیے آپ ہم کو اپنی بات سناتے رہتے ہیں ‘‘ اس کے جواب میں مسٹر کرشنا مورتی نے نہایت نرمی کے ساتھ کہا  :

Sir, have you ever asked a rose why does it bloom?

جناب ، کیا آپ نے کبھی گلاب سے پوچھا ہے کہ وہ کیوں کھلتا ہے (ہندوستان ٹائمس 24 فروری 1984)

تنقیدی بات سن کر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بپھر اٹھتا ہے۔مگر ایسے موقع پر بپھرنا خود اپنا ہی نقصان کرنا ہے۔اگر آپ مخاطب کی تنقید سن کر غصہ ہو جائیں تو آپ صرف تیز وتند الفاظ بولیں گے ۔ لیکن اگر ایسے موقع پر آپ اپنے جذبات کو سنبھال لیں تو آپ ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو دل میں اتر جائے اور مخاطب کو خاموش کر دے۔

 

آسانی ہمیشہ مشکلوں کے بعد آتی ہے

گرمیوںکے موسم میں گردوغبار سے بھری ہوئی آندھی جب اٹھتی ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مصیبت کے سوا اور کچھ نہیں۔مگر روس کے ماہرین موسمیات نے قراقرم کے ریگستانوں میں تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ گرد بھری ہوئی آندھیاں زمین پر موسم کی سختی کو کنٹرول کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔جب آندھیاں چلتی ہیں تو ان کی وجہ سے گرد اٹھ کر اوپر چھا جاتی ہے اور فضا میں ایک غلاف کی صورت بنا لیتی ہے۔اس طرح یہ آندھیاں زمین کی سطح کو گرمی کی تپش سے محفوظ رکھتی ہیں۔روسی سائنس دانوں نے مختلف آلات اور جہازوں کا استعمال کر کے ا ٓندھیوں کی خصوصیات کا مطالعہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں بھی ریگستان کی تپتی ہوئی سطح اس وقت ٹھنڈی ہو جاتی ہے جب گرد سے بھری ہوئی آندھیاں چلنا شروع ہوتی ہیں۔گرد کے یہ سایہ دار بادل محدود فضا میں بھی چھا سکتے ہیں اور کافی دور تک بھی ، جیسے عرب سے جنوبی امریکا تک اور وسط ایشیا سے بحر آرکٹک تک۔

قدرت کا نظام کچھ اس طرح بنا ہے کہ ہر مفید واقعہ کسی پُر مشقت عمل کے بعد ظہور میں آتا ہے۔یہ ایک سبق ہے جو بتاتا ہے کہ ہم جب اپنی زندگی کے بارے میں کوئی منصوبہ بنائیں تو اس حقیقت کو بھی ضرور سامنے رکھیں کہ مطلوبہ نتیجہ کو حاصل کرنے کے لیے ہم کو جدوجہد کے پُر مشقت دور سے گزرنا ہو گا۔موجودہ دنیا کو اس کے بنانے والے نے اسی ڈھنگ پر بنایا ہے۔اور اس سے مطابقت کر کے ہی ہم کوئی مفید نتیجہ برآمد کر سکتے ہیں۔اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم کو ’’آندھی ‘‘ کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے اور اس کے بغیر ہی ہمارے سروں پر ٹھنڈا بادل سایہ کرلے تو ایسے نتیجہ کو پانے کے لیے ہمیں دوسری کائنات بنانی پڑے گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر حالات میں نا کامی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی فوراً کامیابی چاہتا ہے۔’’ مختصر راستہ ‘‘ کا لفظ سڑکوں اور پگڈنڈیوں کی دنیا کے لیےصحیح ہے مگر زندگی کی جدوجہد میں ’’ مختصر راستہ ‘‘ کی قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔سورت میں ہیرے کی ایک دکان ہے جو دوسری منزل پر ہے۔ایک نوجوان اس دکان میں داخل ہوا۔اس نے ایک ہیرا چرا لیا اور اس کو لے کر باہر نکل جانا چاہا۔مگر دکان کے آدمیوں کو شبہ ہو گیا۔انھوں نے فوراً سیڑھی کا دروازہ بند کر دیا اورنوجوان سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔نوجوان نے دیکھا کہ سیڑھی کے راستہ سے بھاگنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔وہ تیزی سے قریب کی کھڑکی میں داخل ہوا اور وہاں سے نیچے کی طرف چھلانگ لگا دی۔بظاہر اس نے بھاگ نکلنے کے لیے چھلانگ لگائی تھی۔مگر دوسری منزل سے جب وہ سڑک پر گرا تو اس کو اتنی سخت چوٹ آئی کہ وہ وہیں سڑک پر مر گیا (ٹائمس آف انڈیا 21 جنوری 1980) ’’ سیڑھی ‘‘ کا راستہ اگر کسی کو بند نظر آئے تووہ ’’ کھڑکی ‘‘ سے چھلانگ لگا کر سڑک پر نہیں پہنچ سکتا۔ایسی چھلانگ اس کو جہاں پہنچائے گی وہ قبر ہے نہ کہ سڑک۔بظاہر یہ ایک احمق نوجوان کا قصہ معلوم ہوتا ہے۔مگر بہت سے عقل مند لوگ بھی ٹھیک اسی طریقہ کو اپنی زندگی میں دہراتے ہیں اور بالآخر اسی انجام سے دو چار ہوتے ہیں جس سے مذکورہ نوجوان دو چار ہوا۔

 

اپنی کمیوں کو جانئے

وہ بڑھاپے کی منزل میں تھا۔مگر اس نے شادی نہیں کی تھی ، اس لیے کہ اس کو ایک آئیڈیل رفیقۂ حیات کی تلاش تھی۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ کو زندگی بھر کوئی ایسی خاتون نہیں ملی جو آئیڈیل رفیقۂ حیات بن سکتی ہو۔اس نے جواب دیا:ایک خاتون ایسی ملی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ بھی اپنے لیے ایک آئیڈیل شوہر تلاش کر رہی تھیاور بدقسمتی سے میں اس کے معیار پر پورا نہ اتر سکا۔

لوگ عام طور پر دوسروں کی کمیوں کو جاننے کے ماہر ہوتے ہیں اس لیے ان کا کسی سے نباہ نہیں ہوتا۔اگر آدمی اپنی کمیوں کو جان لے تو اس کو معلوم ہو کہ وہ بھی اسی بشری مقام پر ہے جہاں وہ دوسرے کو کھڑا ہوا پاتا ہے۔اپنی کمیوں کا احساس آدمی کے اندر تواضع اور اتحاد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔اس کے بر عکس اگر وہ صرف دوسروں کی کمیوں کو جانتا ہو تو اس کے اندر گھمنڈپیدا ہو گا اور کسی سے نباہ کرنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی ایک آدمی میں ساری خصوصیات جمع نہیں ہوتیں۔کسی میں کوئی خصوصیت ہوتی ہے اور کسی میں کوئی خصوصیت۔پھر جس شخص میں کوئی ایک خصوصیت ہوتی ہے اس کے اندر اسی نسبت سے کچھ اور خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو گویا اس خصوصیت کا ضمنی نتیجہ ہوتی ہیں مثلاً ایک شخص اگر بہادر ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر شدت ہو گی۔ایک شخص شریف ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر نرمی ہو گی۔ایک شخص حساس ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر غصہ ہو گا۔ایک شخص ذہین ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر تنقیدی مادہ ہو گا۔ایک شخص عملی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے تو اسی نسبت سے اس کے اندر فکری استعداد کم ہو گی۔وغیرہ۔

ایسی حالت میں قابل عمل بات صرف ایک ہے۔ہم جس شخص کے ’’روشن پہلو ‘‘ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اس کے ’’ تاریک پہلو ‘‘ کو نظر انداز کریں۔یہی واحد تدبیر ہے جس سے ہم کسی کی صلاحیتوں کو اپنے لیے کارآمد بنا سکتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلقات ہوں یا مالک اور ملازم کے تعلقات یا دکان دار اور شرکت دار کے تعلقات ہر جگہ اسی اصول کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم کو ’’ پھول ‘‘ لینا ہے تو ہم کو ’’ کانٹے ‘‘ کو بھی برداشت کرنا ہو گا۔جس کے اندر کانٹے کی برداشت نہ ہو اس کے لیے اس دنیا میں پھول کا مالک بننا بھی مقدرنہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ تنہا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ کام کی پشت پر کئی آدمیوں کی صلاحیتیں ہوں۔اسی ضرورت نے مشترک سرمایہ کی کمپنیوں کا تصور پیدا کیا ہے ۔لیکن کئی آدمیوں کامل کرکسی مقصد کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کے افراد میں صبر اور وسعتِ ظرف کا مادہ ہو۔وہ ایک دوسرے کو برداشت کریں۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے نہ الجھیں۔وہ نا خوش گوار باتوں کو یاد رکھنے کے بجائے نا خوش گوار باتوں کو بھلانے کی کوشش کریں۔معیار پسندی بہت اچھی چیز ہے مگر جب معیار کا حصول ممکن نہ ہو تو حقیقت پسندی سب سے بہتر طریق عمل ہوتا ہے۔

 

صبر کی زمین پر

ہری بھری فصل مٹی کے کھیت میں اگتی ہے نہ کہ سونے چاند ی کے فرش پر یہ محدود معنوں میں صرف زراعت کی بات نہیں۔بلکہ یہ زندگی کا عالم گیر قانون ہے۔خدا نے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لیے ایک نظام مقرر کر دیا ہے۔اسی خاص نظام کے تحت وہ چیز وجود میں آتی ہے۔کسی اور طریقہ سے ہم اس کو وجود میں نہیں لا سکتے۔

یہی انسانی زندگی کا معاملہ بھی ہے۔زندگی ایک ایسا امتحان ہے جو صبر کی زمین پر دینا پڑتا ہے۔ زندگی ایک ایسی کھیتی ہے جو صبر کی زمین پر اگتی ہے۔خدا نے ابدی طور پر مقرر کر دیا ہے کہ زندگی کی تعمیر صبر کی زمین پر ہو اب قیامت تک یہی ہونا ہے۔ہم اس کی تعمیر کے لیے کوئی دوسری زمین نہیں بنا سکتے ۔

صبر کسی منفی چیز کا نام نہیں وہ سراسر ایک مثبت رویہ ہے۔صبر کامطلب ہےبے سوچے سمجھے کر گزرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اپنا کام کرنا۔جذباتی رد عمل کے بجائے شعوری فیصلہ کے تحت اپنا منصوبہ بنانا۔وقتی ناامیدیوں میں مستقبل کی امید کو دیکھ لینا۔حالات میں گھر کر رائے قائم کرنے کے بجائے حالات سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرنا۔

ایک بیج کو آپ سونے کی پلیٹ میں رکھ دیں تو وہ اپنی زندگی کے سر چشموں سے مربوط نہیں ہوتا ۔ وہ زندگی کے اسباب سے بھری ہوئی کائنات میں بے اسباب بنا ہوا پڑ ا رہتا ہے۔وہ اپجائو کی ساری صلاحیت رکھتے ہوئے اپجنے سے محروم رہتا ہے۔

یہی حال انسان کا ہے۔اگر وہ بے صبری کی حالت میں ہو تو وہ خدائی سر سبز وشاداب دنیا میں ایک ٹھنٹھ کی مانند سوکھا ہوا پڑا رہے گا۔لیکن صبر کو اختیار کرتے ہی وہ اچانک خدا کی زمین میں اپنی جڑیں پا لیتا ہے اور بڑھتے بڑھتے بالآخر پورا درخت بن جاتا ہے۔

جب آدمی حقیقی معنوں میں صبر کا ثبوت دیتا ہے تووہ بندوں کی سطح پر جینے کے بجائے خدا کی سطح پر جینے لگتا ہے۔دنیا کی تنگیوں سے گزر کر وہ آخرت کی وسعتوں میں پہنچ جاتا ہے۔وہ بے معنی زندگی کے مرحلہ سے نکل کر با معنی زندگی کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے۔

صبر والا انسان ہی مومن انسان ہے۔اسی کے لیے وہ ابدی انعام مقدر کیا گیا ہے جس کا دوسرا نام جنت ہے۔

 

انتقام نہیں

ایک صاحب ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔ان کے پاس ایک گاڑی تھی جس کا لائسنس رسمی طور پر دوسرے کے نام تھا۔کچھ دنوں کے بعد اس آدمی کی نیت خراب ہو گئی۔اس نے چاہا کہ کاغذ میں قانونی اندراج سے فائدہ اٹھا کر گاڑی پر قبضہ کرلے یا اس کے معاوضہ میں ان سے کوئی بڑی رقم حاصل کرے۔ٹرانسپورٹ کے مالک کے سامنے جب یہ بات آئی تو اس کے بدن میں آگ لگ گئی۔وہ اپنے اس ’’ دوست ‘‘ کا جانی دشمن ہو گیا۔

اب اس کا ذہن ہر وقت ایک ہی سوچ میں رہتا۔وہ یہ کہ اس شخص کو کس طرح مروایا جائے۔انتقام کے جذبہ نے اس کے ذہن کو جرائم کا کارخانہ بنا دیا۔اب اس کو نہ اپنے کاروبار کی ترقی کی فکر تھی نہ اپنے گھر کو بنانے کی۔ساری فکر اس بات کی تھی کہ مذکورہ شخص کو کسی نہ کسی طرح ہلاک کر دیا جائے۔اسی حال میں چھ ماہ گزر گئے۔بالآخر ایک ایسا واقعہ پیش ا ٓیا جس نے اس کی زندگی کا رخ بدل دیا۔وہ اتفاقاً ایک مقام پر گیا ہوا تھا۔ایک سڑک سے گزرتے ہوئے اس کے کان میں کچھ آوازیں آئیں۔اس کو محسوس ہوا کہ یہاں کوئی تقریر ہو رہی ہے۔وہ جلسہ گاہ کی طرف مڑ گیا اور وہاں بیٹھ کر تقریر سننے لگا۔تقریر کرنے والا کہہ رہا تھا :

انتقام لینے سے پہلے سوچ لوکہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا۔

تقریر کی سادگی نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا۔وہ انتہائی غور کے ساتھ مقرر کی باتیں سنتا رہا جو بار بار مختلف مثالوں کے ذریعہ اپنے نقطہ نظر کو واضح کر رہا تھا۔تقریر کے بعد جب وہ جلسہ گاہ سے اٹھا تو وہ دوسرا انسان بن چکا تھا۔ان نے طے کیا کہ وہ انتقام کے ذہن کو ختم کر دے گا اور مذکورہ شخص کے معاملہ کو خدا کے حوالہ کر کے اپنے کاروبار کی ترقی میں لگ جائے گا۔

ٹرانسپورٹ کے مالک کو اب تک کام کرنے کاصرف ’’ تخریبی ڈھانچہ ‘‘ معلوم تھا۔اب انھوں نے کام کرنے کا ’’تعمیری ڈھانچہ ‘‘ دریافت کر لیا۔ان کو معلوم ہوا کہ کام کرنے کا وہی ایک اندا ز نہیں ہے جس پر دوسرے اکثر لوگ چل رہے ہیںٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ۔کام کرنے کا ایک اور انداز بھی ہے۔اور وہ ہے۔۔۔۔دوسرےکے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے پیچھے دوڑنا۔

مذکورہ شخص نے اب اسی دوسرے طریقے کو پکڑ لیا۔انھوں نے 6 ستمبر 1983 کی ایک ملاقات میں کہا کہ ’’ اب وہ اپنے کو زیادہ پر سکون بھی پاتے ہیں اور زیادہ کامیاب بھی ‘‘

 

نا گزیر برائی

مسٹر ڈی کے داس دہلی کے اعلیٰ ترین سرکاری افسران (Seniormost IAS officers)میں سے ایک تھے۔دہلی کی ایک پوش کالونی ’’ مدھوبن ‘‘ میں ان کا بہت بڑا مکان تھا۔

مگر 13 اگست 1985 کو انھوں نے اپنے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی۔ان کی اہلیہ مسز ہیناداس ایک بجے دن میں ان کے کمرے میں داخل ہوئیں تو ان کا مردہ جسم چھت کے پنکھے سے بندھا ہوا لٹکا تھا ۔موت کے وقت مسٹر د اس کی عمر 56 سال تھی۔وہ حال میں دہلی ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے چیئر مین مقرر ہوئے تھے اور آئی اے ایس کے اسکیل کا آخری مشاہرہ پا رہے تھے۔اس کے باوجود مسٹر داس نے کیوں خود کشی کر لی۔اس سلسلہ میں ہم دو اخباروں کی رپورٹ سے چند جملے یہاں نقل کرتے ہیں۔پہلا اقتباس ہندوستان ٹائمس 4 اگست کا ہے اور دوسرا ٹائمس آف انڈیا 4 اگست کا ہے:

A businessman friend of Mr Das said the deceased bureaucrat was dissatisfied with many of the postings he got. He said that Mr Das often used to say that he was always given insignificant and ordinary positions. He was also depressed because he felt that he was not being given his due in the Delhi administration.

مسٹر داس کے ایک تاجر دوست نے کہا کہ آنجہانی افسر اپنی کئی تقرری پر مطمئن نہ تھے۔مسٹر داس اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کو ہمیشہ غیر اہم اور معمولی پوزیشن دی جاتی ہے۔وہ غیر مطمئن بھی تھے کیوں کہ وہ محسوس کرتے تھے کہ دہلی ایڈ منسٹریشن میں ان کو ان کی واجبی جگہ نہیں دی گئی ہے۔

اس دنیا میں کوئی شخص اقلیتی فرقہ کا ہو یا اکثریتی فرقہ کا ، معمولی ملازم ہو یا اعلیٰ عہدیدار ، ہر حال میں اس کو کہیں نہ کہیں امتیازی برتائو کا تجربہ ہوتا ہے۔امتیاز اس دنیا کی نا گزیر برائی ہے۔اس دنیا میں کوئی شخص اس احساس سے بچ نہیں سکتا کہ اس کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔ایسی حالت میں عقلمندی یہ ہے کہ اس صورت حال کو گوارا کیا جائے۔کیوں کہ اس کو گوارا نہ کرنا آدمی کو یا تو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے یا خود کشی کی طرف۔

 

چھلانگ نہیں

A young man once came to a venerable master and asked, "How long will it take to reach enlightenment?"

The master said, "Ten years."

The young man blurred, "So long".

The master said," No. I was mistaken. It will take you 20 years".

The young man asked, "Why do you keep adding to it".

The master answered, " Come to think of it, in your case it will probably be 30 years".

اوپر کا اقتباس فلپ کپلیو (Philip Kapleau) کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔اس کا ترجمہ یہ ہے ایک نوجوان شخص ایک بار ایک بزرگ استاد کے پاس آیا اور کہا صاحب علم بننے میں کتنا وقت لگے گا۔

ــ’’ دس سال ‘‘۔استاد نے جواب دیا۔

’’اتنی لمبی مدت ‘‘۔نوجوان بولا۔

استا د نے کہا ’’ نہیں مجھ سے غلطی ہو گئی۔تمہارے لیے اس میں 20سال کی مدت درکار ہو گی۔

نوجوان شخص نے پوچھا آپ مدت میں اضافہ کیوں کرتے جا رہے ہیں ‘‘۔

استاد نے جواب دیا  ’’بات کو سمجھو ، تمہارے معاملہ میں غالباً اس کو 30 سال لگ جائیں گے ‘‘۔ (آر ڈی جنوری 1983 ) جو مقصد عام رفتار سے 10 سال میں حاصل ہوتا ہو اس کو آپ دس دن میں حاصل کرنا چاہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ چھلانگوں کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔اور چھلانگوں کے ذریعہ سفر ہمیشہ اصل سفر کو طویل تر بنا دیتا ہے۔

چھلانگ لگانے والے کا انجام ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی چٹان سے ٹکرا جاتا ہے یا کسی کھڈ میں جا گرتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو پیچھے لوٹ کر کسی اسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں وہ مدت تک علاج کے لیے پڑا رہے۔اگر وہ عام رفتار سے چلتا تو وقت پر اپنی منزل تک پہنچ جاتا۔مگر چھلانگ نے اس کو پیچھے ڈال کر اس کے سفر کو اور لمبا کر دیا۔

کسی کام میں دیر لگانا جتنا غلط ہے اتنا ہی غلط یہ بھی ہے کہ آپ اس کو جلد پورا کرنا چاہیں ہر کام کی تکمیل کا ایک وقت ہے اور صحیح تکمیل وہی ہے جو اپنے وقت پر انجام پائے دیر کرنا اگر سستی ہے تو جلدی کرنا بے صبری، اور خدا کی اس محکم دنیا میں دونوں بالآخر جہاں پہنچتے ہیں وہ بے انجامی کے سوا اور کچھ نہیں۔

حوصلہ مندی

 

حوصلہ مندی

نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبد السلام نے جنوری 1986 میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا ۔ اس سلسلہ میں ان کی تقریروں کی رپورٹیں اخبارات میں آتی رہیں۔ان کی ایک تقریر کی رپورٹ میں حسب ذیل الفاظ شامل تھے  :

Citing the example of South Korea, he said that about 15 years ago, the gross national product per capita there was equal to that of India. However, it was many times more now due to the efforts they had put. Prof. Salam said that a team from South Korea had come to Trieste, Italy, where he stays, and wanted to know how Nobel prizes were won. He said that it was a similar spirit which should be inculcated in the people of the third world.

The Times of India, January 16, 1986

جنوبی کوریا کی مثال دیتے ہوئے پروفیسر عبد السلام نے کہا کہ تقریباً پندرہ سال پہلے اس کی اور ہندوستان کی قومی پیداوار فی شخص برابر تھی۔مگر اب جنوبی کوریا کی کوششوں کے نتیجہ میں اس کی فی شخص قومی پیداوار ہندوستان سے کئی گُنا زیادہ ہو چکی ہے۔پروفیسر عبد السلام نے کہا کہ جنوبی کوریا کی ایک ٹیم ٹریسٹ ( اٹلی ) آئی جہاں وہ رہتے ہیں اور ان سے یہ جاننا چاہا کہ نوبل انعام کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ، یہی وہ روح ہے جو تیسری دنیا کے لوگوں میں پیدا کی جانی چاہیے۔

تلاش کا یہ جذبہ ہی تمام ترقیوں کی بنیاد ہے ، خواہ وہ فرد کی ترقی کا معاملہ ہو یا قوم کی ترقی کا معاملہ۔ اور خواہ اس کا تعلق دنیا کی ترقیوں سے ہو یا آخرت کی ترقیوں سے۔ہر ترقی انھیں لوگوں کے لیے ہے جو اپنے اندر تلاش وجستجو کا کبھی نہ ختم ہونے والا جذبہ رکھتے ہوں۔

تلاش کا جذبہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی کے اندر جمود نہیں پیدا ہوا ہے۔اور جمود تمام ترقیوں کا قاتل ہے۔جہاں جمود آیا وہاں ترقی کا عمل بھی لازمی طور پر رک جائے گا۔جمود کی حالت طاری ہونے کے بعد آدمی ’’ مزید ‘‘ کے شوق سے محروم ہو جاتا ہے۔اور جس سے مزید کا شوق رخصت ہو جائے وہ جہاں ہے وہاں بھی باقی نہیں رہے گا۔بلکہ پیچھے جانا شروع ہو جائے گا ،یہاں تک کہ بالکل آخری صف میں پہنچ جائے گا۔

 

صحیح سبق

حضرت شفیق بلخی اور حضرت ابراہیم ادہم دونوں ہم زمانہ تھے۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار شفیق بلخی اپنے دوست ابراہیم ادہم کے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک تجارتی سفر پرجا رہا ہوں۔سوچا کہ جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں۔کیوں کہ اندازہ ہے کہ سفر میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔

اس ملاقات کے چند دن بعد حضرت ابراہیم ادہم نے دیکھا کہ شفیق بلخی دوبارہ مسجد میں موجود ہیں۔انھوں نے پوچھا کہ تم سفر سے اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے۔شفیق بلخی نے بتایا کہ میں تجارتی سفر پرروانہ ہو کر ایک جگہ پہنچا۔وہ ایک غیر آباد جگہ تھی۔میں نے وہاں پڑا ئو ڈالا۔وہاں میں نے ایک چڑیا دیکھی جو اڑنے کی طاقت سے محروم تھی۔مجھے اس کو دیکھ کر ترس آیا۔میں نے سوچا کہ اس ویران جگہ پر یہ چڑیا اپنی خوراک کیسے پاتی ہو گی۔میں اس سوچ میں تھا کہ اتنے میں ایک اور چڑیا آئی۔اس نے اپنی چونچ میں کوئی چیز دبا رکھی تھی۔وہ معذور چڑیا کے پاس اتری تو اس کی چونچ کی چیز اس کے سامنے گر گئی۔معذور چڑیا نے اس کو اٹھا کر کھا لیا۔اس کے بعد آنے والی طاقت ور چڑیا اڑ گئی۔

یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا سبحان اللہ۔خدا جب ایک چڑیا کا رزق اس طرح اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھ کو رزق کے لیے شہر در شہر پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔چنانچہ میں نے آگے جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور وہیں سے واپس چلا آیا۔یہ سن کر حضرت ابراہیم ادہم نے کہا کہ شفیق ، تم نے اپا ہج پرندے کی طرح بننا کیوں پسند کیا۔تم نے یہ کیوں نہیں چاہا کہ تمہاری مثال اس پرندے کی سی ہو جو اپنے قوت بازو سے خود بھی کھاتا ہے اور اپنے دوسرے ہم جنسوں کو بھی کھلاتا ہے۔شفیق بلخی نے یہ سنا تو ابراہیم ادہم کا ہاتھ چوم لیا اور کہا کہ ابو اسحاق ، تم نے میری آنکھ کا پردہ ہٹا دیا۔وہی بات صحیح ہے جو تم نے کہی۔

ایک ہی واقعہ ہے ، اس سے ایک شخص نے بے ہمتی کا سبق لیا اور دوسرے شخص نے ہمت کا۔اسی طرح ہر واقعہ میں بیک وقت دو پہلو موجود ہوتے ہیں۔یہ آدمی کا اپنا امتحان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو کس زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ایک زاویہ سے دیکھنے میں ایک چیز بری نظر آتی ہے ، دوسرے زاویہ سے دیکھنے میں وہی چیز اچھی بن جاتی ہے۔ایک رُخ سے دیکھنے میں ایک واقعہ میں منفی سبق ہوتا ہے اور دوسرے رخ سے دیکھنے میں مثبت سبق ۔

 

خود کشی

مسٹر آئنا دیو انگاڈی (بنگلور ) اس وقت کیمبرج میں زیر تعلیم تھے جب پنڈت جواہر لال نہرو وہاں تعلیم کے لیے گئے۔ان کا اور نہرو کا بہت قریبی ساتھ تھا۔چنانچہ ان کے بیٹے مسٹرڈیرین انگاڈی کی پرورش اس طرح ہوئی کہ وہ بچپن سے نہرو کے تذکرے سنتے تھے اور نہرو کی نقل کرتے تھے۔مسٹر ڈیرین انگاڈی بعد کو فلم ایکٹر بن گئے۔

لارڈ اٹن برو نے تقریباً 25 کروڑ روپے کے خرچ سے ’’ گاندھی ‘‘ نامی مشہور فلم بنائی ہے۔ابتداء ً جب اس فلم کے لیے کرداروں کی تلاش ہوئی تو جو اہر لال نہرو کا رول ادا کرنے کے لیے مسٹر ڈیرین انگاڈی کو موزوں سمجھا گیا اور ان کو اس کام کے لیے منتخب کر لیا گیا۔مگر چھ ماہ بعد انھیں اطلاع دی گئی کہ ان کا نام کرداروں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے اور مسٹر روشن سیٹھ ان کے بجائے پنڈت نہرو کا رول ادا کریں گے :

This was six months after Darien Angadi had been given the part, during which he had worked hard to perfect his role.

 ڈیرین کو رول دینے کے چھ ماہ بعد ایسا ہوا جس کے دوران انھوں نے سخت محنت کی تھی تاکہ وہ فلم میں معیاری رول ادا کر سکیں (ہندوستان ٹائمس 16 ستمبر 1984 ) مسٹر ڈیرین کو اس کا اتنا صدمہ ہوا کہ انھوں نے 5 دسمبر 1981 کو خود کشی کر لی۔

مذکورہ شخص نے کیوں خود کشی کر لی۔اس لیے کہ اس نے چھ مہینے تک محنت کر کے اپنے اندر جو صلاحیت پیدا کی تھی اس کو اس کا وہ استعمال نہیں ملا جو اس نے چاہا تھا۔اس سے اس کے اندر مایوسی پیدا ہوئی اور اس نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔

مگر انسان اپنی محنت سے اپنے اندر جو صلاحیت پیدا کرتا ہے۔وہ صلاحیت اپنی قیمت آپ ہے۔ اگر فوری طور پر اس کو اس کے استعمال کا موقع نہ ملے تب بھی وہ ایک محفوظ خزانہ ہے۔اسکو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی محنت بے کار چلی گئی۔اس کی محنت سے پیدا شدہ لیاقت بد ستور اس کے پاس موجود رہتی ہے اور جلد ہی آدمی کوئی دوسرا موقع پا لیتا ہے جہاں وہ اس کو استعمال کر کے اس کی پوری قیمت وصول کر سکے۔

 

امامت عالم کا راز

نومبر 1847 کی چار تاریخ تھی۔اسکاٹ لینڈ کے ایک ڈاکٹر کے کمرہ میں اس کا ملازم داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر اور اس کے دو ساتھی اپنی کرسیوں سے گر کر فرش پر اوندھے مُنھ بے ہوش پڑے ہوئے ہیں۔ملازم نے سمجھا کہ ان لوگوں نے شاید آج کوئی تیز قسم کی شراب پی لی ہے اس بنا پر ان کا یہ حال ہوا ہے۔اس نے ان کے کپڑے درست کیے اور خاموشی کے ساتھ باہر چلا گیا۔مگر بات دوسری تھی۔یہ دراصل سر جیمز سمپسن ( 1870۔1811) اور ان کے دو اسسٹنٹ تھے۔انھوں نے انسانی جسم پر کلو رو فارم کے اثرات کا تجربہ کرنے کے لیے پہلی بار اس کو سانس کے ذریعہ اپنے اندر داخل کر لیا تھا۔

سمپسن ایک غریب نانبائی کے سات لڑکوں میں سب سے چھوٹا تھا۔چار سال کی عمر میں اس نے اپنے گائوں کے اسکول میں تعلیم شروع کی۔اس نے تعلیم میں اتنی دلچسپی دکھائی کہ اس کا باپ اورچھ بھائی اس پر راضی ہو گیے کہ خود انتہائی ضروری مصارف پر قناعت کر کے اس کو اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر بھیجیں۔اس طرح وہ اڈنبرا یونیورسٹی پہنچا اور ڈاکٹر ی میں اس وقت کی سب سے اونچی ڈگری (ایم ڈی) حاصل کی۔

ڈاکٹر سمپسن کو اپنے مطالعہ کے دوران معلوم ہوا کہ کلو رو فارم میں بے ہوش کرنے کی صلاحیت ہے۔اس نے اس کی تحقیق شروع کر دی۔وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ آپریشن کے وقت اگر مریض کو وقتی طورپر کلوروفارم کے ذریعہ بے ہوش کر دیا جائے تو اس کو چیر پھاڑ کی بھیانک تکلیف سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔اس نے اپنی تحقیق جاری رکھی۔یہاں تک کہ خود اپنے آپ پر تجربہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ کلوروفارم تو بے ضرر بے ہوشی کے لیے کامیاب طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس طرح غریب نانبائی کا یہ لڑکا انسان کو وہ چیز دے سکا جس کو ڈاکٹر براؤن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہےدکھی انسانوں کے لیے خدا کا ایک بہترین تحفہ

...one of God's best gifts to his suffering children.

جدید دنیا میں مغرب کی امامت کا راز اس کے اسی قسم کے با حوصلہ افراد ہیں نھوں نے اپنے آپ کو کھویا تاکہ وہ انسانیت کو دیں۔انھوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا تاکہ وہ دوسروں کو خطرہ سے بچا سکیں۔

 

ایک طریقہ یہ بھی ہے

نپولین (1821۔1769) جب پہلی قید کے بعد جزیرہ البا (Elba) سے بھاگا تو اس کے ساتھ اس کے وفادار سپاہیوں کی صرف ایک مختصر جماعت تھی۔اس معزول تاجدار کے عزائم یہ تھے کہ وہ فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرے۔مگر پہلے ہی معرکہ میں اس کو فرانس کے 20 ہزار جوانوں کا سامنا کرنا پڑا۔

نپولین دنیا کے انتہائی بہادر انسانوں میں سے ایک ہے۔مگر اس نے ایسا نہیں کیا کہ اپنی فوجی کمی کا لحاظ نہ کرتے ہوئے حریف سے ٹکرا جائے۔جب دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے تو وہ اکیلا بالکل غیر مسلح حالت میں اپنی جماعت سے نکلا اور نہایت اطمینان کے ساتھ فریق مخالف کی صفوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔اس نے اپنے کوٹ کے بٹن کھولے اور اپنے سینہ کو ننگا کر دیا۔اس کے بعد جذباتی انداز میں اپنے مخالف سپاہیوں سے ، جن میں سے اکثر اس کے ماتحت رہ چکے تھے ، خطاب کر کے بولا

ـ’’ تم میں سے کون وہ سپاہی ہے جو اپنے باپ کے ننگے سینہ پر فائرکرنے کو تیار ہو ‘‘

اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف سے ’’کوئی نہیں ، کوئی نہیں ‘‘ کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔تمام سپاہی مخالف جماعت کو چھوڑ کر نپولین کے جھنڈے کے نیچے آگئے۔نتیجہ ظاہر ہے۔نپولین اپنی بے سروسامانی کے باوجود فاتح ہوا۔اس نے ملک فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔حالاں کہ اس وقت وہ جس بے سروسامانی کی حالت میں تھا ، اس کے ساتھ اگر وہ فرانس کی فوجوں سے لڑ جاتا تو میدان جنگ میں شاید اس کی لاش تڑپتی ہوئی نظر آتی۔

آدمی کے پاس کتنا ہی سازو سامان ہو لیکن خطرہ پیش آنے کی صورت میں اگر وہ گھبرا اٹھے تو اس کے اعصاب جواب دے جائیں گے وہ اس قابل نہیں رہے گا کہ صورت حال کے بارے میں سوچے اور مقابلہ کے لیے اپنا منصوبہ بنائے۔اس کے بر عکس اگر و ہ خطرہ کے وقت اپنے ذہن کو حاضر رکھے تو بہت جلد ایسا ہو گا کہ وہ خطرہ کی اصل نوعیت کو سمجھ لے اور اپنے ممکن ذرائع کو بروقت استعمال کر کے کامیاب رہے۔

تاریخ میں بار بار کم تعداد اور کم طاقت والوں نے زیادہ تعداد اور زیادہ طاقت والوں پر کامیابی حاصل کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دشمن ہمیشہ اس سے بہت کم طاقت ور ہوتا ہے جتنا کہ وہ بظاہر دکھائی دیتاہے۔اس دنیا کا نظام کچھ اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ خواہ کتنا ہی طاقت ور ہو جائے اس کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری موجود رہتی ہے۔اسی کمزوری کو استعمال کر نے کا نام دشمن پر فتح حاصل کرنا ہے۔کسی شخص کی واحد طاقت اس کے فریق کی کمزوری ہے ، اور یہ طاقت ہمیشہ ہر ایک کو حاصل رہتی ہے۔بشرطیکہ وہ اس ہوشیاری کا ثبوت دے سکے کہ وہ اپنے حریف کی کمزوری کو استعمال کرنا جانتا ہے۔

 

جرأت مندی

احمد اور اقبال دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔احمد بی اے پاس تھا۔جب کہ اقبال کی تعلیم صرف آٹھویں کلاس تک ہوئی تھی۔

ایک بار اقبال کو ایک سرکاری دفتر میں جانا تھا۔وہ وہاں جانے لگا تو احمد بھی اس کے ساتھ چلا گیا ۔ دونوں مذکورہ دفتر میں پہنچے۔احمد نے دیکھا کہ اقبال وہاں مسلسل انگریزی بول رہا ہے۔جب دونوں باہر نکلے تو احمد نے کہا کہ تم بالکل غلط سلط انگریزی بول رہے تھے۔میں تو کبھی اس طرح بولنے کی ہمت نہیں کروں گا۔اقبال کو احمد کے اس تبصرے سے کوئی شرمندگی نہیں ہوئی۔اس نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا

غلط بولو تاکہ تم صحیح بول سکو۔

اقبال نے مزید کہا کہ تم اگرچہ بی اے ہو اور میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر دیکھ لینا کہ میں انگریزی بولنے لگوں گا اور تم کبھی بھی نہ بول سکو گے۔

اس واقعہ کو اب بیس سال ہو چکے ہیں۔اقبال کے الفاظ صد فی صد صحیح ثابت ہوئے۔احمد آج بھی وہیں ہے جہاں وہ بیس سال پہلے تھا۔مگر اقبال نے اس مدت میں زبردست ترقی کی۔وہ اب بے تکلف انگریزی بولتا ہے اور بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس کی گفتگو میں زبان کی غلطی پکڑسکیں۔

اقبال کے اس جرأت مند انہ مزاج نے اس کو بہت فائدہ پہنچایا۔اس سے پہلے شہر میں اس کی ایک معمولی دکان تھی۔مگر آج اسی شہر میں اس کا ایک بڑا کارخانہ قائم ہے ’’ غلط بولو تاکہ تم صحیح بول سکو ‘‘ اس کے اپنے حق میں صد فی صد درست ثابت ہوا۔

اقبال کے اس طریقہ کا تعلق صرف زبان سے نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔موجودہ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو حوصلہ کے مالک ہوں جو بے دھڑک آگے بڑھنے کی ہمت کر سکیں۔جو خطرہ مول لے کر اقدام کرنے کی جرأت رکھتے ہوں۔اس دنیا میں غلطی کرنے والا ہی صحیح کام کرتا ہے۔جس کو یہ ڈر لگا ہوا ہے کہ کہیں اس سے غلطی نہ ہو جائے وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔اس کے لیے آگے کی منزل پر پہنچنا مقدر نہیں۔

 

استاد کے بغیر

ایک خاتون نے انگریزی پڑھی۔ان کے والد مولوی تھے۔ان کے گھر پر انگریزی کا ماحول نہ تھا۔چنانچہ ایم۔اے (انگلش ) انھوں نے بمشکل تھرڈ نمبروں سے پاس کیا۔ان کو شوق تھا کہ ان کو انگریزی لکھنا آجائے۔یہ کام ایک اچھے استادکے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔لیکن ان کے گھر کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ کوئی استاد رکھیں اور اس کی مدد سے اپنے اندر انگریزی لکھنے کی صلاحیت پیدا کریں۔

مگر جہاں تمام راستے بند ہوتے ہیں وہاں بھی ایک راستہ آدمی کے لیے کھلا ہوتا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر طلب ہوا ور وہ اپنے مقصد کے حصول میں اپنی پوری طاقت لگا دے۔خاتون نے استاد کے مسئلہ کا ایک نہایت کامیاب حل تلاش کر لیا۔انھوں نے لندن کی چھپی ہوئی ایک کتاب پڑھی۔اس میں انگریز مصنف نے بیرونی ملکوں کے انگریزی طالب علموں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ انگریزی لکھنے کی مشق اس طرح کریں کہ کسی اہل زبان کی لکھی ہوئی کوئی کتاب لے لیں۔اس کے بعد روزانہ اس سے چند صفحات لے کر پہلے اس کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں پھر کتاب بند کر کے الگ رکھ دیں۔اور اپنے ترجمہ کو بطور خود انگریزی میں منتقل کریں۔جب ایسا کر لیں تو اس کے بعد دوبارہ کتاب کھولیں اور اس کی چھپی ہوئی عبارت سے اپنے انگریزی ترجمہ کا مقابلہ کریں۔جہاں نظر آئے کہ انھوں نے کوئی غلطی کی ہے یا طریق اظہار میں کوتاہی ہوئی ہے اس کو اچھی طرح ذہن کی گرفت میں لائیں اور کتاب کی روشنی میں خود ہی اپنے مضمون کی اصلاح کریں۔

خاتون نے اس بات کو پکڑ لیا۔اب وہ روزانہ اس پر عمل کرنے لگیں۔انگریزی اخبار یا رسالہ یا کسی کتاب سے انگریزی کا کوئی مضمون لے کر وہ روزانہ اس کو اردو میں ترجمہ کرتیں اور پھر اپنے اردو ترجمہ کو دوبارہ انگریزی میں منتقل کرتیں اور پھر اپنے انگریزی ترجمہ کو اصل انگریزی عبارت سے ملاکر دیکھتیں کہ کہاں کہاں فرق ہے۔کہاں کہاں ان سے کوئی کمی ہوئی ہے۔اس طرح وہ روزانہ تقریباً دو سال تک کرتی رہیں۔اس کے بعد ان کی انگریزی اتنی اچھی ہو گئی کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں۔ان کے مضامین انگریزی جرائد میں چھپنے لگے۔ان کے بھائی نے ایکسپورٹ کا ایک کام شروع کیا جس میں انگریزی خط وکتابت کی کافی ضرورت پڑتی تھی۔خاتون نے انگریزی خط و کتابت کا پوراکام سنبھال لیا اور اس کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔۔۔مذکورہ خاتون نے جو تجربہ انگریزی زبان میں کیا وہی تجربہ دوسری زبانوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

ہماری دنیا کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی کامیابی تک پہنچنے کے بہت سے ممکن طریقے ہوتے ہیں۔کچھ دروازے اگر آدمی کے اوپر بند ہو جائیں تب بھی کچھ دوسرے دروازے کھلے ہوتے ہیں جن میں داخل ہوکر وہ اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی شخص کی ناکامی کا سبب ہمیشہ پست ہمتی ہوتا ہے نہ کہ اس کے لیے مواقع کا نہ ہونا۔

 

شبہات

1950 کے لگ بھگ کی بات ہے۔میں اعظم گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ خرید رہا تھا۔ٹرین پلیٹ فارم پرکھڑی تھی اورچھوٹنے کے قریب تھی کہ ایک دیہاتی آدمی ٹکٹ لینے کے لیے آگیا۔اسکو جس مقام تک جانا تھا اس کا کرایہ چند روپیہ ہوتا تھا۔اس نے اپنی بندھی ہوئی مٹھی کھڑکی کے اندر ڈال کرکھولی تو اس میں سب سے چھوٹی ریز گاری تھی۔بابو اس کو دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا روپیہ لے آئو ، اتنی سب ریز گاری ہم کب تک گنتے رہیں گے۔مجھے غریب دیہاتی پر رحم آیا۔میں نے فوراً جیب سے نوٹ نکالے اور اس سے کہا کہ تم یہ نوٹ لے لو اور ریز گاری مجھے دے دو۔مگر دیہاتی نے میری پیش کش قبول نہ کی۔اس نے وحشت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے ایک طرف چلا گیا۔میں تیزی سے چل کر ٹرین پر سوار ہو گیا۔تاہم میری نظریں اس دیہاتی کا ناکام تعاقب کرتی رہیں۔مجھے اندیشہ ہے کہ دیہاتی وقت پر ٹکٹ نہ لے سکا اور وہ ٹرین اسے چھوڑ دینی پڑی۔

دیہاتی آدمی نے میری پیش کش کیوں قبول نہ کی۔اس کی وجہ ’’ شبہ ‘‘ہے۔اس نے سمجھا کہ میں اس کی کم زوری سے فائدہ اٹھا رہا ہوں اور اپنے خراب سکّوں کو اس کی ریز گاری سے بدل لینا چاہتا ہوں۔یہ شبہ اس کے ذہن پر اتنا چھایا کہ وہ اپنی ریز گاری کو میرے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس کی گاڑی اس سے چھوٹ گئی۔

یہی آج ہمارے سماج کی عام حالت ہے ، ہر آدمی دوسرے آدمی کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ہر آدمی دوسرے کو بے بھروسہ سمجھ رہا ہے۔اس کی وجہ سے پورے سماج میں ایک دوسرے کے خلاف بے اعتمادی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ہر آدمی اپنے آپ کو بہت سے ممکن فائدوں سے محروم کئے ہوئے ہے۔کیونکہ اکثر کام کرنے کے لیے کئی آدمیوں کا تعاون ضروری ہوتا ہے اور شبہات کی فضا نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا امکان ہی ختم کر دیا ہے۔

شبہ سے شبہ جنم لیتا ہے اور اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔اگر آپ کسی کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگیں تو جواب میں اس کے اندر بھی آپ کے خلاف شبہات پیدا ہوں گے اور دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔اس کے بر عکس اگر آپ اس کے ساتھ اعتماد کا معاملہ کریں تو اس کے دل میں بھی آپ کے بارے میں اعتماد پیدا ہو گا اور دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔

جو ’’انسان ‘‘ ایک جسم کے اندر ہے وہی انسان دوسرے جسم کے اندر بھی ہے۔مگر آدمی اکثر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ خود کچھ اور ہے اور دوسرا کچھ اور۔

 

تنقید

برطانیہ میں جون 1983میں جنرل الیکشن ہوا۔اس الیکشن میں کنزرویٹو پارٹی کامیاب ہوئی اور اس کی لیڈر کی حیثیت سے مسز مارگریٹ تھیچر دوبارہ برطانیہ کی وزیر اعظم مقرر ہوئیں۔اس کامیابی کے بعد مسز تھیچر نے پہلا کام یہ کیا کہ مسٹر فرانسس پم (Francis Pym) کو حکومت سے علیحٰدہ کر دیا۔ مسٹر پم مسز تھیچر کی اپنی پارٹی کے لیڈر تھے اور مسز تھیچر کی کیبنٹ میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر تھے۔

مسٹر پم ایک بہت اونچے خاندان کے فرد ہیں۔ان کو حکومت میں اعلیٰ مناصب حاصل رہے ہیں ۔ پھر مسز تھیچر نے کیوں ان کو کابینہ سے علیحٰدہ کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ الیکشن کے زمانہ میں ایک تقریر میں مسٹرپم نے ایک ایسی بات کہہ دی جو مسز تھیچر کو پسند نہیں آئی۔

مسٹر پم نے ایک انتخابی تقریر میں حزب اختلاف (اپوزیشن ) کا ذکر کیا۔انھوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت معیاری حکومت نہیں ہوتی۔اس لیے اچھی حکومت قائم کرنے کے لیے مضبوط حزب اختلاف لازمی طور پر ضروری ہے جو اس کی اصلاح کرتی رہی  :

A strong opposition is an indispensable ingredient of good government . (Because) no government is perfect.

مسٹر پم کا یہ بیان مسز تھیچر کے لیے نا قابل برداشت تھا۔انھوں نے فوراً مسٹر پم کو وزارت سے خارج کر دیا۔

انسان کی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتا۔اس کمزوری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی اچھے ساتھیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

کوئی اعلیٰ کام اعلیٰ قابلیت کے ساتھیوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔اور اعلیٰ قابلیت کے ساتھیوں کو جوڑنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ ان کی تنقیدوں کو برداشت کیا جائے۔کیوں کہ اعلیٰ ذہن کے لوگ اپنی ذہنی آزادی کو مقید کر کے نہیں رہ سکتے۔اب اگر سربراہ وسیع ظرف کا آدمی ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کی فکری آزادی اور ان کے اختلاف کو برا نہیں مانے گا۔اس طرح وہ ایسے تمام لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑے رہے گا۔اس کے بر عکس اگر سر براہ تنگ ذہن کا آدمی ہے تو وہ ایسے لوگوں کی قدر نہ کر سکے گا۔اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی جماعت تیسرے درجہ کے لوگوں کی ٹولی بن کر رہ جائے گی جو نہ کسی اعلیٰ کام کو کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ اس کو سمجھنے کی۔

 

مایوسی نہیں

ابراہام لِنکن (1865۔1809) جدید امریکہ کا معمار ہے۔امریکہ کی سیاسی تاریخ میں اس کو بہت نمایاں مقام حاصل ہے۔مگر لِنکن کو یہ کامیابی اچانک نہیں ملی۔اس کامیابی تک پہنچنے کے لیے اس کو ناکامی کے اَن گنت زینے طے کر نے پڑے۔لنکن کی زندگی کو ایک شخص نے چند الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے:

This man had failed in business in '31.He was defeated in politics in '32, he failed once again in business in '34.He had a nervous break-down in '41.In '43 he hoped to receive his party's nomination for Congress but didn't. He ran for the Senate and lost in '55; he was defeated again in '58. A hopeless loser, some said. But Abraham Lincoln was elected President of the United States in 1860.He knew how to accept defeat - temporarily.

ایک آدمی 1831 میں تجارت میں ناکام ہو گیا۔اس نے 1832 میں سیاست میں شکست کھائی۔ 1834 میں دوبارہ اس کو تجارت میں ناکامی ہوئی۔1841 میں اس پر اعصاب کا دورہ پڑا۔1843 میں وہ الیکشن میں کھڑا ہو ا مگر ہار گیا۔1858 کے الیکشن میں اس کو دوبارہ شکست ہوئی۔لوگ اس کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ شخص کبھی کامیاب نہ ہو گا۔مگر یہی وہ شخص ہے جو 1860 میں ابراہام لنکن کے نام سے امریکہ کا 16 واں صدر منتخب ہوا۔اس کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ جانتا تھا کہ شکست کو کیسے تسلیم کیا جائے ، عارضی طور پر نہ کہ مستقل طور پر۔(ستمبر 1972)

کامیابی ہمیشہ ناکامیوں کے بعد آتی ہے۔اس دنیا میں فتح صرف اس شخص کے لیے ہے جو شکست کو مان لینے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور ناکامی کا اعتراف ہی کامیابی کی اصل قیمت ہے۔جو لوگ یہ قیمت ادا نہ کریں وہ کبھی اس دنیا میں کامیابی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتے۔

اس دنیا میں کامیابی کا راز صرف ایک ہے۔یہ کہ آپ ناکامی کو وقتی واقعہ سمجھیں۔ناکامی کو دوبارہ کامیابی میں بدلنے کے لیے آپ کبھی اپنا حوصلہ نہ کھوئیں۔

قربانی

 

ٹوٹنے کے بعد

مادہ کی آخری اکائی ایٹم ہے جس طرح سماج کی آخری اکائی فرد ہوتا ہے۔اگر ہم ایٹم کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم اس کو فنا نہیں کرتے۔بلکہ اس کو ایک نئی اور زیادہ بڑی قوت میں تبدیل کر دیتے ہیں جس کا نام جوہری توانائی((Atomic energyہے۔مادہ منجمد توانائی ہے اور توانائی منتشر مادہ۔مادہ اپنی ابتدائی شکل میں جتنی قوت رکھتا ہے ، اس کے مقابلہ میں اس وقت اس کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کے ایٹموں کو توڑ کر جو ہری توانائی میں تبدیل کر دیا گیا ہو۔

معمولی مادی قوت اور جوہری قوت میں کیا فرق ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ دوٹن کوئلہ ایک ریل گاڑی کو ستر میل تک لے جاتا ہے اور نو گیلن کرو سین ایک موٹر کو پانچ سو میل تک دوڑانے کے لیے کافی ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں بارہ پونڈ یورینیم جب جوہری توانائی میں تبدیل کر دیا جائے تو وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ ایک تیز رفتار راکٹ کو دو لاکھ چالیس ہزار میل کا سفر طے کر ا سکے۔

ایسا ہی معاملہ اس سماجی اکائی کا ہے جس کو انسان کہتے ہیں۔انسان جب ’’ ٹوٹتا ہے ‘‘ تو وہ بے پناہ حد تک وسیع ہو جاتا ہے۔جس طرح مادہ ٹوٹنے سے فنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی قوت بڑھا لیتا ہے۔اسی طرح انسان کی ہستی جب ’’ شکست ‘‘ سے دو چارہوتی ہے تو وہ ختم نہیں ہوتی بلکہ نئی شدید تر طاقت حاصل کر لیتی ہے۔

انسان پر شکست کا حادثہ گزرنا اس کے تمام اندرونی تاروں کو چھیڑنے کے ہم معنی ہے۔اس کے بعد اس کے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔اس کی چھپی ہوئی طاقتیں اپنی ناکامی کی تلافی کے لیے حرکت میں آجاتی ہیں۔اس کے عزم وارادہ کو مہمیز لگتی ہے۔اس کے اندر ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کا وہ بے پناہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو سیل رواں کی طرح آگے بڑھتا ہے۔اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ، حتی کہ پتھریلی چٹانوں کے بس میں بھی نہیں۔

مادہ کے اندر ایٹمی انفجار (Atomic explosion) اس کو بہت زیادہ طاقت ور بنا دیتا ہے۔ اسی طرح انسانی شخصیت کے اندر بھی بے پناہ امکانات چھپے ہوئے ہیں۔یہ امکانات اس وقت بروئےکار آتے ہیں جب کہ انسانی شخصیت کسی انفجار سے دوچار ہو جائے۔اس پر کوئی ایسا حادثہ گزرے جو اس کی شخصیت کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔جو اس کے تاروں کو چھیڑ کر اس کی سازحیات کو بجا دے۔

 

کامیابی کا راز

ایک جاہل شخص ہندوستان سے عراق گیا۔وہاں سے وہ دو سال کے بعد واپس آیا تو ایک آدمی نے پوچھا کہ کتنا پیسہ کما کر لائے۔اس نے کہا کہ میں زیادہ تو نہیں کما سکا۔پھر بھی کھاپی کر پچاس ہزار روپے لایا ہوں۔آدمی نے دوبارہ پوچھا کہ یہ بتائو کہ پیسہ حاصل کرنے کا راز کیا ہے۔اس نے جواب دیا  :

بھائی صاحب، میں نے تو یہ جانا کہ من مارو گے تو منی پائو گے۔

منی ( دولت ) پانے کا راز یہ ہے کہ آدمی صبر کے ساتھ کام کرے ، اپنے ذوق پر چلنے کے بجائے دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے جدوجہد کرے۔کیونکہ دولت حاصل کرنے کا مطلب دوسروں کی جیب سے دولت نکالنا ہے۔پھراگر آپ دوسروں کی رعایت نہ کریں گے تو دوسرا شخص آپ کو یہ موقع کیوں دے گا کہ آپ اس کے جیب کی دولت نکال کر اپنی جیب میں ڈالیں۔

دولت حاصل کرنے کا راز من کو مارنا ہے۔اپنے ذوق پر چلنے کے بجائے دوسرے کے ذوق پر چلناہے۔یہی بات دوسرے مقاصد کے لیے بھی صحیح ہے اور یہی بات دینی مقصد کے لیے بھی۔اس دنیا میں آدمی کو دوسرے بہت سے لوگوں کے درمیان کام کرنا پڑتا ہے۔اپنے سے باہر بہت سے حالات سے مقابلہ کر کے اپنا سفرجاری کرنا ہوتا ہے۔اس لیے اس دنیا میں کوئی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ نہ ہو کہ آدمی اپنے ذاتی خول سے باہر آئے ، وہ اپنی من مانی کارروائی کرنے کے بجائے دوسرے افراد اور خارجی حالات کی رعایت کرتے ہوئے اپنا راستہ نکالے۔وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی شامل کر لے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں آدمی اپنے آپ کو کچل کردوسرے کو پاتا ہے۔خارجی تقاضوں کا اعتراف کر کے وہ خارج سے اپنا اعتراف کر وانے میں کامیاب ہوتا ہے۔اپنے سے باہر کی دنیا کو کچھ دینے کے بعد ہی اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ باہر کی دنیا سے اپنے آپ کے لیے کچھ پا سکے۔

 

ناموافق حالات

جانوروں کو جنگل کے ماحول میں ہر وقت اپنے دشمنوں کا خطرہ ہوتا ہے۔اس کی وجہ سے وہ ہر وقت چوکنے رہتے ہیں۔یہ چوکنا رہنا ان کے لیے بہت ضروری ہے۔اس کی وجہ سے ان کی فطری صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔ان کی شخصیت ختم ہونے نہیں پاتی۔یہی وجہ ہے کہ جانوروں کو پالنے کے لیے جو بڑے بڑے پارک بنتے ہیں ان میں مصنوعی طور پر ان کے لیے خطرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔مثلاً خرگوش کے پارک میں بلی ڈال دی جاتی ہے یا ہرن کے پارک میں ایک شیر یا ایک بھیڑیا ڈال دیا جاتا ہے۔اس طرح جانوروں کی چوکسی( Alertness)باقی رہتی ہے۔وہ اپنے تحفظ کی خاطرہروقت زندہ اور سرگرم رہتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہو تو دھیرے دھیرے وہ بجھ کر رہ جائیں گے۔

یہی بات انسانوں کے لیے بھی صحیح ہے۔انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں ہیں۔یہ صلاحیتیں عام حالات میں سوئی رہتی ہیں۔وہ بیدار اس وقت ہوتی ہیں جب ان کو جھٹکا لگے۔جب وہ عمل میں آئیں ۔ کسی بھی مقام پر اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ جن خاندانوں میں آسودگی کے حالات آجاتے ہیں اس کے افراد بےحس اور کم عقل ہو جاتے ہیں۔اس کے برعکس جن خاندانوں کو مشکل حالات گھیرے ہوئے ہوں ان کے افراد میں ہر قسم کی ذہنی اور عملی صلاحیتیں زیادہ اجا گر ہوتی ہیں۔

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے ماحول میں عدم تحفظ کی صورت حال میں مبتلا ہیں۔مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مکہ اور مدینہ کے مسلمان اس سے کہیں زیادہ عدم تحفظ کی صورت حال میں مبتلا تھے۔اگر عدم تحفظ کوئی ’’ برائی ‘‘ ہوتی تو یقینا اللہ کا رسول اوراس کے اصحاب کہیں زیادہ اس کے مستحق تھے کہ اللہ انھیں اس برائی سے دور رکھے۔مگر اللہ نے ایسانہیں کیا۔بلکہ ان کو مسلسل عدم تحفظ کی صورت حال میں رکھا۔ان کو اپنی زندگی میں کبھی چین اور آسودگی نہ مل سکی۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے جس ڈھنگ پر بنایا ہے وہ یہی ہے کہ یہاں دبنے سے ابھار پیدا ہو۔مشکلوں کے مدرسہ میں انسان کی اعلیٰ تربیت ہو۔غیرمحفوظ حالات کے اندر مستعدی کا ظہور ہو

تاریخ بتاتی ہے کہ انھیں لوگوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں جو حالات کے دبائو میں مبتلا تھے۔قدرت کا یہی قانون افراد کے لیے ہے اور یہی قوموں کے لیے۔

 

بڑا کام

ولیم بلیک ( William Blake) نے کہا ہے کہ عظیم کام اس وقت ہوتے ہیں جب کہ انسان اور پہاڑ ملتے ہیں۔کوئی عظیم کام سڑک پر دھکم دھکا کرنے سے نہیں ہوتا :

Great things are done when men and mountains meet. This is not done by Jostling in the street

ولیم بلیک کی یہ بات صدفی صد درست ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے کام کے لیے بڑا عمل درکار ہوتا ہے۔پہاڑوں کی کٹھن چڑھائی کے بعد آدمی چوٹی پر پہنچتا ہے۔سڑکوں پر شوروغل کرنے یا جلسوں میں الفاظ کے دریا بہانے سے کوئی بڑا مقصد کبھی حاصل نہیں ہوتا۔

حقیقی معنوں میں کوئی بڑاانجام پانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حالات کو انتہائی گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے۔اپنے وسائل اور خارجی امکانات کی پوری رعایت کرتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے۔سفر شروع کیا جائے تو اس حقیقت کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جائے کہ راستہ میں دوسرے بہت سے مسافر بھی موجود د ہیں۔

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی ہر وہ قربانی دے جو اس کا مقصد اس سے تقاضا کرے۔کہیں وہ مال کی قربانی دے اور کہیں وقت کی۔کہیں وہ رائے کی قربانی دے اور کہیں جذبات کی۔کہیں وہ دوسروں سے نمٹے اور کہیں وہ خود اپنا احتساب کرے۔کہیں وہ چلے اور کہیں شدید ہیجان کے باوجود رُک جائے ۔

پہاڑ کی چڑھائی جیسی محنت کیے بغیر کوئی بڑا کام انجام نہیں پاتا۔ہر بڑا کام بڑی جدوجہد چاہتا ہے۔ایسا کام جو آدمی کے مرنے کے بعد بھی اپنے مثبت اثرات باقی رکھے۔ایسا کام جو مستقبل کی نقشہ گری کرنے والا ہو، ایسا کام جو تاریخ کے رُخ کو موڑ دے ، بے پناہ محنت چاہتا ہے۔ایسے کام کے لیے اتھاہ دانش مندی درکار ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا کام وہی لوگ کرپاتے ہیں جو فی الواقع پہاڑ کی چڑھائی جیسے عمل کا ثبوت دیں۔اس کے برعکس جو لوگ سڑکوں پر شوروغل کرنے کو کام سمجھیں وہ صرف اجتماعی کثافت میں اضافہ کرتے ہیں۔وہ تاریخ کو کوئی حقیقی تحفہ دینے کی توفیق نہیں پاتے۔

 

مشکلیں ہیرو بنا دیتی ہیں

اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی (امریکہ)میں ایک ادارہ ہے جس کا نام ہے آفات وحوادث کی تحقیق کا مرکز (Disaster Research Centre) یہ ادارہ 1963میں قائم ہوا۔اب تک اس نے ایک سو سے زیادہ تعداد میں مختلف قسم کی بڑی بڑی انسانی آفتوں کا مطالعہ کیا ہے۔اس نے پایا کہ غیرمعمولی مشکل مواقع پر انسان کے اندر غیر معمولی طور پر کچھ نئی قوتیں ابھر آتی ہیں جو اس کو حوادث کا شکار ہونے سے بچاتی ہیں۔مثلاً 1961میں ٹکساس میں زبردست قسم کا ساحلی طوفان آیا مگر اس طوفان میںاس علاقہ کے صرف آدھے ملین لوگوں نے اپنا مکان چھوڑا۔50 فی صد سے زیادہ آبادی اپنے مکانوں میں جمی رہی۔جب کہ اس طوفان کے آنے کی اطلاع چار دن پہلے دی جا چکی تھی۔ 1971 میں کیلیفورنیاکے زلزلہ میں ایک بہت بڑا ڈیم کمزور ہو گیاجس سے 70 ہزار آبادی کے لیے سنگین خطرہ لاحق ہو گیا۔مگر ایسے نازک حالات میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد صرف 7 فی صد تھی۔

تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ حادثات کا شکار ہو جانے کے بعد بھی اکثر لوگ پُرامید رہتے ہیں۔ٹیکساس کے دو شہروں میں ہولناک طوفان سے تباہ ہونے والے لوگوں سے ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا۔10فی صد سے بھی کم لوگوں نے مستقبل کے بارے میں کسی اندیشہ کا اظہار کیا۔بقیہ تمام لوگ تباہی کے باوجود اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید تھے۔حوادث کے بارے میں اپنی لمبی تحقیق کا خلاصہ مذکورہ ادارہ کی رپورٹ میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے واقعات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان مصیبتوں کے مقابلہ میںحیرت انگیز طور پر قابو یافتہ اور لچکدار واقع ہوئے ہیں۔مصائب کے وقت انسان جس رویہ کا مظاہر ہ کرتے ہیں ، اس کو دہشت اور گھبراہٹ کے بجائے ہیروازم کے لفظ سے تعبیر کرنا زیادہ صحیح ہو گا۔

In conclusion, the reality of events suggests that human beings are amazingly controlled and resilient in the face of adversity. Perhaps heroism - not panic or shock - is the right word to describe their most common behaviour in time of disaster.

انسان کو اس کے بنانے والے نے حیرت انگیز طور پر بے شمار صلاحیتیں عطافرمائی ہیں۔اسی میں سے ایک صلاحیت یہ ہے کہ عین بربادی کے کھنڈر میں کھڑا ہو کر بھی وہ ختم نہیں ہوتابلکہ اپنی نئی تعمیر کا منصوبہ سوچتا ہے اور بہت جلد اپنے نقصانات کی تلافی کر لیتا ہے۔انسان کے اندر یہ فطری امکان ہم کو بہت بڑا سبق دے رہا ہے۔کوئی فرد یا قوم اگر کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو اس کو ماتم اور شکایت میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ خدا کی دی ہوئی صلاحیت کو بروئے کار لا کر اپنے کودوبارہ اٹھانے کی کوشش میں لگ جانا چاہئے۔عین ممکن ہے کہ حالات نے جہاں آپ کی کہانی ختم کر دینی چاہی تھی وہیں سے آپ کی زندگی کے ایک نئے شان دار باب کا آغاز ہو جائے۔

 

قربانی

درخت کیا ہے۔ایک بیج کی قربانی۔ایک بیج جب اپنے کو فنا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک سر سبز وشاداب درخت زمین پر کھڑا ہو۔

اینٹوں سے اگر آپ پوچھیں کہ مکان کس طرح بنتا ہے تو وہ زبان حال سے یہ کہیں گی کہ کچھ اینٹیں جب اس کے لیے تیار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے زمین میں دفن کر دیں ، اس کے بعد وہ چیز ابھرتی ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔

یہی حال انسانی زندگی کی تعمیر کا ہے۔انسانیت کے مستقبل کی تعمیر اس وقت ممکن ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے کو بےمستقبل دیکھنے پر راضی ہو جائیں۔ملت کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب کہ کچھ لوگ جانتے بوجھتے اپنے کو بے ترقی کر لیں۔۔۔قربانی کے ذریعہ تعمیر،یہ قدرت کا ایک عالمگیر قانون ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔قدرت کا یہی اصول مادی دنیا کے لیے بھی ہے اور قدرت کا یہی اصول انسانی دنیا کے لیے بھی۔

عمارت میں ایک اس کا گنبد ہوتا ہے ، اور ایک اس کی بنیاد۔گنبد ہر ایک کو دکھائی دیتا ہے مگر بنیاد کسی کودکھائی نہیں دیتی۔کیوں کہ وہ زمین کے اندر دفن رہتی ہے۔مگر یہی نہ دکھائی دینے والی بنیاد ہے جس پر پوری عمارت اور اس کا گنبد کھڑا ہوتا ہے۔قومی تعمیر کا معاملہ بھی یہی ہے۔قربانی یہ ہے کہ آدمی قومی تعمیر میں اس کی بنیاد بننے پر راضی ہوجائے۔

قربانی یہ نہیں ہے کہ آدمی جوش میں آکر لڑ جائے اور اپنی جان دے دے۔قربانی یہ ہے کہ آدمی ایک نتیجہ خیز عمل کے غیرمشہور حصہ میں اپنے کو دفن کر دے۔وہ ایسے کام میں اپنی کوشش صرف کرے جس میں دولت یا شہرت کی شکل میں کوئی قیمت ملنے والی نہ ہو۔جو مستقبل کے لیے عمل کرے نہ کہ حال کے لیے۔

کسی قوم کی ترقی اور کامیابی کا انحصار ہمیشہ اسی قسم کے افراد پر ہوتا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو کسی قوم کے مستقبل کی بنیاد بنتے ہیں۔وہ اپنے کو دفن کر کے قوم کے لیے زندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

 

اسی خرچ سے

ایک عالم کا واقعہ ہے۔ان کی زندگی ایک تصنیفی ادارہ میں گزری۔وہ بہت سادہ طور پر رہتے تھے۔اپنی مختصر آمدنی میں بھی وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کر لیا کرتے تھے۔ان کی صرف ایک لڑکی تھی۔اس کی انھوں نے شادی کی تو شادی میں کچھ خرچ نہیں کیا۔ایک نوجوان سے سادہ طور پر نکاح پڑھایا اور اس کے بعد لڑکی کو رخصت کر دیا۔البتہ انھوں نے رخصت کرتے ہوئے اپنی لڑکی اور داماد کو ایک چیک دیا۔یہ چیک دس ہزار روپے کا تھا۔انھوں نے کہا ’’یہی میری زندگی بھر کی بچت ہے جو بینک میں جمع تھی۔اس رقم کو میں شادی کے رسوم میں بھی خرچ کرسکتا تھا۔تاہم اس کے مقابلہ میں مجھے یہ زیادہ پسند آیا کہ میں اس کو نقد تم لوگوں کے حوالے کردوں۔تم لوگ اسے سنبھالو اور اس کو اپنی زندگی کی تعمیرمیں استعمال کرو ‘‘۔

لڑکی اور داماد نے باہم مشورہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس رقم سے کوئی کاروبار شروع کیا جائے۔چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ابتدا میں ان کو کافی محنت کرنی پڑی۔بعض اوقات بڑے سخت مراحل سامنے آئے۔مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کاروبار پر جمے رہے۔بالآخر حالات بدلنا شروع ہوئے۔مذکورہ ’’ دس ہزار ‘‘ روپیہ میں برکت ہوئی اور وہ لوگ چند سال کے بعد کافی ترقی کر گئے۔اب وہ اپنے مقام پر ایک با عزت اور خوش حال زندگی گزاررہے ہیں۔

شادی آدمی کی زندگی کا ایک بے حد سنجیدہ واقعہ ہے۔وہ دھوم مچانے کا دن نہیں بلکہ زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کا دن ہے۔اس دن ایک مرد اور ایک عورت اپنے کو گاڑھے اقرار (نساء 21) میں باندھتے ہیں۔اس کا تقاضا ہے کہ نکاح کی تقریب سادہ ہو،وہ فضول نمائشوں سے بالکل پاک ہو۔ اور اگر کسی کو خرچ ہی کرنا ہے تو اس خرچ کی ایک اچھی صورت وہ ہے جس کی مثال اوپر کے واقعہ میں نظر آتی ہے۔

اگر ہمارے درمیان اس قسم کا رواج پڑ جائے تو شادی قومی تعمیرکے پروگرام کا ایک اہم جزء بن جائے۔ہر خاندان میں نہایت خاموشی کے ساتھ ترقی کا سلسلہ چل پڑے۔قوم کے اربوں روپے جو ہر سال چند دن کے تماشوں میں ضائع ہو جاتے ہیں ، قوم کی تعمیر کا ایک مستحکم ذریعہ بن جائیں۔وہ قومی اقتصادیات کے منصوبہ کا جزء بن جائیں۔اور قوم اقتصادی حیثیت سے اوپر اٹھ جائے تو یہ صرف ایک اقتصادی واقعہ نہیں ہو گا بلکہ بے شمار پہلوئوں سے وہ قوم کی ترقی کے لیے مفید ہو گا ۔۔۔۔یہ ایک مزید فائدہ ہے مگر مزید خرچ کے بغیر۔

 

خاموش تعمیر

سوامی ویویکانند (1902۔1863) کو سچائی کی تلاش تھی۔وہ سفر کرتے ہوئے راس کماری کے ساحل پر پہنچے۔یہاں سمندر کے اندر تقریباً ایک فرلانگ کے فاصلہ پر ایک چٹان ہے۔سوامی ویویکانند سمندر میں کود پڑے اور تیر کر چٹان کے اوپر پہنچے۔یہاں انھوں نے دھیان گیان کیا اور اس کے بعد واپس آکر ہندو دھرم کے پرچار میں لگ گئے ۔

آزادی کے بعد اس چٹان پر ’’ویویکانندکیندر ‘‘قائم کیا گیاہے۔تقریبا دو کروڑ روپے کے خرچ سے ایک بہت بڑا سنٹر بنایا گیا ہے جو 1970 میں مکمل ہوا ہے۔اس کا خاص مقصد ہے انسان بنانا (Man making) افراد کار کی فراہمی کے لیے اس سنٹر نے اپیل کی تھی ، اس کے نتیجہ میں درجنوں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں اس کے لیے وقف کر دیں۔وہ اس مشن میں تاحیات کا رکن ( Life worker) بن گئے۔(ٹائمس آف انڈیا 27 جنوری 1984)

انھیں میں سے ایک ڈاکٹر ایچ آرنگیندر ہیں۔وہ امریکہ میں خلائی پرواز مرکز (space Flight Centre)میں اعلیٰ عہدہ پر تھے۔وہ اس کو چھوڑ کر اب ویو یکا نند کیندر(کنیا کماری ) میں معمولی زندگی گزار رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہاں میں اپنے آپ کو بے جگہ محسوس نہیں کرتا۔ایک سائنس دان کا کام سچائی کی تلاش ہے۔اور میری تلاش بد ستور جاری ہے۔پہلے یہ میکانیکل انجینئرنگ کے میدان میں تھی ، اب یہ انسانی انجینئرنگ کے میدان میں ہے  :

Earlier it was in mechanical engineering, now it is in human engineering.

ویویکانندسنٹر اس وقت خاص طور پر چار میدانوں میں کام کر رہا ہے ۔۔۔۔تعلیم ، دیہی ترقی ، یو گا ریسرچ اور رسائل اور کتابوں کی اشاعت۔سینکڑوں لوگ اپنے اعلیٰ عہدے اور آرام کی زندگی کو چھوڑ کر اس کے پروگرام کے تحت مختلف ریاستوں میں خاموشی کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ڈاکٹر نگیندر کے الفاظ ہیں ، یہ ان کے لیے ایک بھرپور زندگی ہے ، ان کو پورا اطمینان ہے کہ وہ ایک کام میں لگے ہوئے ہیں  :

It is indeed a rich life.—. rich in job satisfaction.

وہی قوم زندہ قوم ہے جس میں اعلیٰ صلاحیت کے لوگ اس قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔

 

قربانی

1962 کا واقعہ ہے۔مسٹر سریش ایچ کامدار کی عمر اس وقت 29 سال تھی۔وہ کلکتہ کے میڈیکل کالج ہسپتال میں اپنے ایک بیمار عزیز کو دیکھنے کے لیے گیے۔وہاں اس وقت ایک مریض لایا گیا۔اس کا آپریشن ضروری تھااور اس کے لیے فوری طورپر خون(Blood transfusion)کی ضرورت تھی۔یہ اس آدمی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔مسٹر کامدار کا بلڈگروپ اے (A-Rh Positive)تھا۔ان کو مریض پر ترس آیا۔انھوں نے رضاکارانہ طور پر خون کی پیش کش کر دی۔ایک زندگی بچا لی گئی۔

مسٹر کامدار کی عمر اب 53 سال ہو چکی ہے کلکتہ کے مذکورہ تجربہ کے بعد انھوں نے خون دینے کو اپنا مستقل مسلک بنا لیا۔پچھلے 24 سال کے اندر وہ ایک سو بار رضاکارانہ طور پر خون دے چکے ہیں۔ انھیں ریڈ کر اس سوسائٹی نے اعلیٰ امتیاز کے تمغے عطا کیے ہیں۔( ٹائمس آف انڈیا 2دسمبر 1985)

دنیا میں ایسے لوگ بہت ہیں جو فوری جوش سے بھڑک اٹھیں اور لڑ کر اپنا خون دے دیں۔مگر ایسے لوگ بے حد کم یاب ہیں جو سوچے سمجھے ذہن کے تحت مستقل خون دیں اور زندگی کے آخری لمحات تک دیتے رہیں۔

یہ دوسرے لوگ بظاہر چھوٹا کام کرنے والے لوگ نظر آتے ہیں۔مگر یہی لوگ ہیں جو دنیا میں بڑا کام کرتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ بناتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی انفرادی قربانیوں کے ذریعہ پوری قوم کو آگے لے جاتے ہیں۔پہلی قسم کی قربانی اگر لیڈر بناتی ہے تو دوسری قسم کی قربانی قوم تیار کرتی ہے۔پہلی قربانی اگر حال کی تعمیر ہے تو دوسری قربانی مستقبل کی تعمیر۔

ایک بڑا مکان اچانک نہیں بنتا۔سالہا سال تک ایک ایک اینٹ جوڑی جاتی ہے ، اس کے بعد وہ مجموعہ تیار ہوتا ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔ایک تالاب اچانک نہیں بھر جاتا۔بارش ایک عرصہ تک بوندبوند پانی اس میں پہنچاتی ہے تب ایک بھرا ہوا تالا ب وجود میں آتاہے۔یہی معاملہ انسانی معاملات کا ہے۔انسانی زندگی میں کوئی بڑا واقعہ اس وقت ظہور میں آتا ہے جب کہ بہت سے لوگ اس کے لیے تیار ہوں کہ وہ اپنی تھوڑی کوششوں کو لمبی مدت تک جمع کریں گے۔انسانی کامیابی صابرانہ عمل کا نتیجہ ہے نہ کہ وقتی اقدام کا نتیجہ ۔

 

کامیابی کی قیمت

ایک طالب علم کے سر پرست کالج کے پرنسپل سے ملے۔

’’ آپ لوگوں نے جو تعلیمی نصاب بنایا ہے وہ بہت لمبا ہے۔طالب علم کی عمر کا ایک بڑا حصہ صرف پڑھنے میں گزر جاتا ہے ‘‘ انھوں نے کہا

’’ اس کا حل تو بہت آسان ہے ‘‘پرنسپل نے جواب دیا

’’ وہ کیسے ‘‘

’’ آپ مختصر نصاب بھی بنا سکتے ہیں۔اصل میں مدت کا تعلق اس بات سے ہے کہ آپ طالب علم کے اندر کیسا علمی معیار چاہتے ہیں۔قدرت کو شاہ بلوط (Oak) کا درخت اگانے میں سو برس لگ جاتے ہیں۔مگر جب وہ ککڑی کا درخت اگانا چاہتی ہے تو اس کے لیے صرف چھ مہینے درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ معمولی معیار چاہتے ہوں تو چند سال کی تعلیم بھی کافی ہو سکتی ہے مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے لیے تو بہر حال زیادہ وقت دینا پڑے گا۔

یہی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔چھوٹی ترقی چھوٹی کوشش سے مل سکتی ہے ۔ لیکن اگر آپ بڑی ترقی چاہتے ہوں تو لازماً آپ کو بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔چھوٹی کوشش سے کبھی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔

ہر ولڈ شرمن (Harold Sherman) نے اسی بات کو ان الفاظ میں کہا ہے  :

Every worthwhile accomplishment has a price tag on it: how much are you willing to pay in hard work and sacrifice, in patience, faith, and endurance to obtain it.

ہر کامیابی کے ساتھ قیمت کا ایک پرچہ لگا ہوا ہے۔اب یہ آپ پر موقوف ہے کہ آپ اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور قربانی ، صبر ، یقین اور برداشت کی شکل میں کتنی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔بازار میں آدمی کو وہی چیز ملتی ہے جس کی اس نے قیمت ادا کی ہو۔اسی طرح ہر ترقی اور ہر کامیابی کی بھی ایک قیمت ہے اور آدمی کو وہی ترقی اور وہی کامیابی ملے گی جس کی اس نے قیمت ادا کی ہو۔نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔

دانش مندی

 

زمانہ کے خلاف

شہر کی پوش کالونی میں ایک آدمی آوا ز لگا رہا تھا:

برتن قلعی والا، برتن قلعی والا

وہ آواز لگاتا ہوا تمام سڑکوں پر گھومتا رہا۔ مگر شاندار مکانات میں سے کسی نے بھی اس کی طرف توجہ نہ دی۔ ساری کالونی میں کسی کے یہاں بھی اس کو کام نہ ملا۔

کیا یہ تعصب کا معاملہ تھا۔ کیا ظلم اور گھمنڈ کی وجہ سے لوگوں نے ’’برتن قلعی والے‘‘ کو کام نہیں دیا۔ہو سکتا ہے کہ ’’برتن قلعی والا‘‘اسی طرح سوچتا ہو۔ وہ ایک جاہل آدمی تھا۔ اس کے باپ دادا یہی کام کرتے تھے۔ وہ خود چالیس سال سے یہی کام کر رہا ہے۔ اس بنا پر اس کا ذہن ’’برتن قلعی ‘‘میں اتنا گم ہو چکا ہے کہ وہ اس سے باہر نکل کر نہیں سوچ سکتا۔

مگر جو شخص ’’برتن قلعی ‘‘ سے باہر کی حقیقتوں کو جانتا ہو، جو وسیع تر دائرہ میں سوچ سکے، وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ برتن قلعی والے کو کالونی میں کام نہ ملنے کی وجہ کیا تھی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ قلعی کا کام تانبے پیتل کے برتنوں میں ہوتا ہے، جب کہ کالونی کے تمام مکانات میں اسٹین لیس اسٹیل کے برتن استعمال ہو رہے تھے۔ پھر یہاں برتن قلعی والے کو کام ملتا تو کس طرح ملتا۔

موجودہ دنیا میں کامیابی کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی وقت کو پہچانے۔ وہ زمانہ کے تقاضوں سے واقف ہو۔ جو شخص وقت اور زمانہ کو نہ جانے اس کا حال وہی ہو گا جو مذکورہ آدمی کا ہوا۔ وہ اسٹین لیس اسٹیل استعمال کرنے والوں کے درمیان ’’برتن قلعی ‘‘کی آواز لگاتا رہے گا اور وہاں کوئی بھی شخص نہ ملے گا جواس کا خریدار بن سکے۔ وہ اپنی خلاف زمانہ دکانداری کی بنا پر ناکام ہو گا اور پھر دوسروں کو الزام دے گا کہ انھوں نے تعصب اور ظلم کی وجہ سے میری دکان چلنے نہ دی۔ لیاقت کے دور میں تحفظ کا مطالبہ، معافی کی دنیا میں الفاظ کا کرتب دکھانا،حقیقت کے بازار میں خوش خیالی کی قیمت پر سودا حاصل کرنے کی کوشش، یہ سب اسی قسم کی خلاف زمانہ حرکت ہے اور ایسی ہر کوشش کا ایک ہی انجام ہے، اور وہ یہ کہ ان کا کوئی انجام نہیں۔

 

بتائے بغیر

ایک انگریزی کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ پڑھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:

 

When Sir Charles Napier conquered sind in 1843, his

victory message to the Governor-General, Lord Dalhousie, read "Peccavi" which in Latin means, "I have sinnned".

انگریز جنرل سر چارلس نیپئر نے جب 1843ء میں سندھ کو فتح کیا تو اس نے اس وقت کے ہندوستانی گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کو فتح کا پیغام ان لفظوں میں بھیجا’’پیکاوی‘‘ یہ لاطینی لفظ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’میں نے گناہ کیا‘‘۔

بظاہر یہ بڑا عجیب پیغام تھا۔ فوجی افسر اور گورنر جنرل میں پہلے سے ایسی کوئی قرارداد نہیں ہوئی تھی جس کے مطابق وہ اس کا مطلب جان لیتا۔ اس کے باوجود گورنر جنرل اس کو سمجھ گیا۔ اس نے پیکاوی کا انگریزی ترجمہ کاغذ پر لکھا تو وہ اس طرح تھا۔ I have sinnedاس کو دیکھ کر وہ فوراً سمجھ گیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں نے سندھ کو سر کر لیا ہے۔

نازک اور بڑے معاملات میں عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیشہ ایسے ہی ذہین اور دور رس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ایسے لوگ جو اشاروں کی ذریعے تفصیل کو سمجھ لیں۔ جو نہ کہی ہوئی بات کو کہی ہوئی بات کی طرح جان لیں۔ جو اس بات کو پڑھ لیں جو سطروں میں لکھی ہوئی موجود نہیں ہے اور نہ کبھی موجود ہو سکتی ہے۔

زندگی کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ ہر بات پیشگی بتائی نہیں جا سکتی۔ بہت سی باتوں کو بتائے بغیر جاننا پڑتا ہے۔ جن لوگوںکے اندر یہ صلاحیت ہو وہی کوئی قابل ذکر کام کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اس صلاحیت سے محروم ہوں وہ صرف نادانیاں کریں گے اور اس کے بعد شکایتوں کا دفتر لے کر بیٹھ جائیں گے۔

دنیا میں سب سے زیادہ خوش قسمت انسان وہ ہے جس کو ایسے ساتھی مل جائیں جوچپ کی زبان جانتے ہوں۔ جو بولے بغیر سنیں اور لکھے بغیر پڑھیں۔ جو سطروں سے گزر کر بین السطور میں چھپی ہوئی باتوں کو جان لیں۔

 

واقفیت کی کمی

مالکم فوربس(Malcolm Forbes)کا ایک بہت با معنی قول ہے۔ اس نے کہا کہ مسئلہ کا حل پیش کرنا ان لوگوں کے لیے بہت آسان ہے جو مسئلہ کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتے ہوں:

It's so much easier to suggest solutions when you don't know too much about the problem.

The Sayings of Chairman Malcolm

 

انسان کی اجتماعی زندگی میں جب ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کانٹوں کے ڈھیر میں آدمی کے دامن کا الجھ جانا۔ ایسی حالت میں اگر آدمی بے سوچے سمجھے کھینچ تان شروع کر دے تو دامن اور زیادہ الجھ جائے گا اور اگراس سے نکلے گا بھی تو پھٹ کر نکلے گا۔ ایسی حالت میں ہمیشہ ضرور ت ہوتی ہے کہ برداشت سے کام لیا جائے۔ صورت حال کا پورا اندازہ کر کے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی جائے۔

مگر جو شخص دور کھڑا ہوا ہو۔جس کو صورت حال کی نزاکت کا پورا اندازہ نہ ہو وہ بے تکان بولے گا اور برجستہ حل پر حل پیش کرتا چلا جائے گا۔

اجتماعی زندگی ایک بے حد پیچیدہ چیزہے۔اجتماعی زندگی میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی بس یک طرفہ کاروائی کرنے لگے۔اجتماعی زندگی میں اپنی اور دوسروں کی قوت کے تناسب کا اندازہ کرنا پڑتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں یہ کوشش کرنی پڑتی ہے کہ آخری حد تک دوسروں کے ٹکرائو سے بچتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کیا جائے۔ اجتماعی زندگی میں یہ دیکھنا پڑتاہے کہ فوری طور پر کیا چیز قابل حصول ہے اور وہ کیا چیزیں ہیں جس کے لیے ہمیں انتظار کی پالیسی اختیار کرنا چاہیے۔

جس شخص کو اجتماعی زندگی کی نزاکتوں کا احساس ہو وہ یقینی طور پر اجتماعی زندگی کے معاملہ میں بےحد حساس ہو جائے گا۔ وہ تجویز پیش کرنے سے پہلے اس کے بارے میں ہزار بار سوچے گا۔ اس کے برعکس جس شخص کو مذکورہ بالا نزاکتوں کا احساس نہ ہوہ وہ بے تُکان تجویزیں پیش کرے گا۔ اس کی بے حسی اس کے دماغ کو تجویزوں کا کارخانہ بنا دے گی۔

 

غلط اقدام

لیما(Lima)جنوبی امریکہ کا ایک شہر ہے۔ یہاں ایک غریب عورت اپنے چار بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ مقامی طور پر وہ کوئی اچھا روزگار پانے میں ناکام رہی۔ اس نے سنا تھا کہ شمالی امریکہ (USA)بہت خوش حال ملک ہے۔اس نے حصول معاش کے لیے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔ مگر اس کے پاس ہوائی جہاز کا کرایہ نہیں تھا۔اس نے یہ تدبیر کی کہ اپنے آپ کو سوٹ کیس میں بند کیا اور اس سوٹ کیس کو کسی نہ کسی طرح لیما سے لاس انجلس جانے والے ہوائی جہاز پر بطورلگیج سوار کرا دیا۔

جہاز لاس انجلس پہنچا۔ اس کا سامان حسب معمول نکال کر مخصوص مقام پر لایا گیا جہاںہر آدمی پہچان کر اپنا سامان لے لیتا ہے۔ مگر ایک سوٹ کیس کا کوئی لینے والا نہیں ملا۔بالآخر پولیس نے اس سوٹ کیس کو کھولا تو اس کے اندر مذکورہ عورت کی لاش بند تھی۔ یو پی آئی کی خبر کا آخری فقرہ یہ تھا:

Detectives said the woman may have been crushed by the weight of other luggage.

تفتیش کرنے والوں نے کہا کہ عورت غالباً دوسرے سامانوں کے بوجھ کے نیچے کچل کر مر گئی(ٹائمس آف انڈیا 12 جنوری 1985)

یہ واقعہ زندگی کی ایک حقیقت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ منزل تک پہنچنے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کسی نہ کسی طرح ایک اقدام کر ڈالے۔اقدام کی کامیابی کے لیے بہت سے دوسرے اسباب کی موافقت ضروری ہے۔ یہ دوسرے اسباب اگر موافقت کے لیے موجود ہوں تو اقدام کامیاب ہو گا اور اگر دوسرے اسباب موافقت نہ کریں تو اقدام سراسر ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

مذکورہ واقعہ میں عورت کا اقدام ایک انفرادی اقدام تھا۔اس غلط اقدام کا نتیجہ اسے انفرادی طور پر بھگتنا پڑا۔ مگر ایک لیڈر جب کسی قوم کو اقدام کی طرف لے جاتا ہے تو یہ ایک اجتماعی اقدام ہوتا ہے اس کا انجام پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیڈر کو مذکورہ خاتون کے مقابلہ میں کروڑوںگنا زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ لیڈر کے لیے غلط اقدام صرف غلط اقدام نہیں بلکہ وہ ایسا سنگین جرم ہے جس کے مقابلہ میں کوئی عذر قابل سماعت نہیں ہو سکتا۔

غلط اقدام سے کروڑوں گنا زیادہ بہتر ہے کہ آدمی کوئی اقدام ہی نہ کرے۔

 

دانش مندی کے ذریعہ

کیا یہ ممکن ہے کہ زندہ شیر کا مطالعہ کھلے جنگل میں عین اس کے قریب بیٹھ کر کیا جائے۔ اس طرح کہ آدمی اس کو چھوئے اور اس کے جسم کے اعضاء کی صحیح پیمائش کر سکے۔ بظاہر یہ ایک نا ممکن سی بات نظر آتی ہے۔ مگر خدا نے انسان کو جو عقل دی ہے وہ ایسی عجیب و غریب ہےکہ وہ ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے۔

امریکہ کے ایک ماہر حیوانات جارج بی شیلر نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ شیلر کو شیر ببر کی عادات و خصوصیات پر ایک کتاب لکھنی تھی۔ چنانچہ اس نے دو سال تک کھلے جنگل میں زندہ شیروں کے بالکل قریب جا کر ان کا مطالعہ کیا۔اس نے اس قریبی مطالعہ کے ذریعہ جنگل کے بادشاہ کے بارہ میں عجیب و غریب حقائق دریافت کئے۔ مثلاً یہ کہ شیر ببر نہایت سست اور کاہل درندہ ہے۔ شیروں کے اکثر بچے بھوکے مر جاتے ہیں کیوں کہ ان کے ماں باپ اپنی سستی کی وجہ سے اپنے بچوں کے لیے خوراک مہیا نہیں کرتے، وغیرہ۔

مسٹر شیلر کو کیسے یہ موقع ملا کہ وہ کھلے جنگل میں زندہ شیر کے بالکل پاس جاکر شیرکا مطالعہ کریں۔ جواب یہ ہے عقل کے ذریعے۔ مسٹر شیلر نے ایسے کارتوس تیار کئے جن میں گولی کے بجائے بے ہوش کرنے والی دوا بھری ہوتی تھی۔ اس بے ہوشی کےکارتوس کو مخصوص بندوق میں رکھ کر وہ داغتے تو وہ شیر کے پاس پہنچ کر منٹوں میں اس کو غافل اور بے ہوش کر دیتی تھی۔ انھوں نے اس طریقہ کے ذریعہ تقریباً ایک سو شیروں کو بے ہوشی کی دوائوں کا نشانہ بنا کر بے حس کر دیا اور جب وہ بے حس ہو کر زمیں پر گر پڑتے تو ان کے قریب جا کر ان کی ہر چیز دیکھی اور غور کے ساتھ ان کا مکمل مطالعہ کیا۔

انسان جس طرح جنگل کے خونخواردرندوں کو قبضہ میں کرلیتا ہے، اسی طرح وہ انسانی بستی کے مردم نما بھیڑیوں پر بھی قابو پا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ انسانی بھیڑیوں پر بھی خدا کی دی ہو ئی عقل کو اسی طرح استعمال کیا جائے۔ جس طرح اسے جنگل کے بھیڑیوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک شخص آپ سے کسی اعتبار سے بڑا ہے اور آپ سے اپنی بڑائی منوانا چاہتا ہےتو آپ اس کی بڑائی مان کر اسے ’’ بے ہوش ‘‘ کر دیجئے اور پھر اپنی خاموش تعمیر میں لگ جائیے۔ اگر آپ ایسا کریں تو بالآخر وہ وقت آجائے گا کہ خود اس کو وہ واقعہ ماننا پڑے جس کا مطالبہ اس سے پہلے وہ آپ سے کر رہا تھا۔

 

خود جاننا پڑتا ہے

پچاس سال پہلے دیا سلائی اور لائٹر کا رواج نہیں تھا۔ دیہات کے لوگ ایک دوسرے کے گھروں سے آگ مانگ کر اپنا چولھا گرم کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک خاتون اپنے پڑوسی کے گھر گئیں اور پوچھا کہ کیا آگ ہے۔پڑوسی خاتون بولیں’’ہاں بہن، طاق پر رکھی ہے‘‘یہ خاتون بڑھاپے کی وجہ سے بہت کم سنتی تھیں۔اس بنا پر ان کے لیے اس غیرمتعلق جواب کا عذر تھا۔ مگر بہت سے لوگ جن کے آنکھ اور کان پوری طرح درست ہوتے ہیں وہ بھی اکثر اس سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوتے۔

جنرل جے این چودھری نے جنوری 1971 میں ’’قومی تحفظات کے مسائل ‘‘پر لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ دفاع میں خبر رسانی (انٹیلی جنس)کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ واقعہ سے پہلے صحیح علم ضروری ہے۔ تاکہ دشمن کی چال کو ذمہ دار لوگ اچھی طرح سمجھیں اور جو فیصلہ کریں خوب سمجھ کر کریں۔انٹیلی جنس کی سروس کا بہتر نہ ہونا بہت خطرناک ہے۔اس سلسلہ میں انھوں نے انٹیلی جنس کی ناکاکردگی کی ایک دلچسپ مثال دی۔ انھوں نے بتایا کہ 1961 میں جب ہندوستان نے گوا میں فوجی کاروائی کی تو اس کے دوران جنوبی کمان سے وائرلیس پر پوچھا گیاکہ کیا تم پرتگالیوں کےپاس آرمرڈکار اور ٹینک ہیں۔ وہاں سے جواب آیا۔۔۔’’ٹینک تو ٹھیک ہیں۔ مگر ان میں صرف پندرہ ہزار گیلن پانی کی گنجائش ہے‘‘۔سوال جنگی ٹینک کے بارے میں تھا اور جواب پانی کے ٹینک کے بارے میں ملا۔

کوئی اجتماعی کام اسی وقت صحیح طور پر انجام پاتا ہےجب کہ اس سے متعلق تمام لوگ اپنے حصہ کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دے رہے ہوں۔اجتماعی کام ہمیشہ مشترک ذمہ داری پر ہوتا ہے۔اگر ہر ایک اپنی انفرادی ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک ادا کر رہا ہو تو گاڑی کامیابی کے ساتھ چلتی رہے گی۔اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے حصہ کا کام کرنے میں کوتاہی کی تو وہیں گاڑی ٹھپ ہو جائے گی۔کیونکہ کوئی شخص دوسرے کے حصہ کا کام نہیں کر سکتا۔

نیز یہ کہ ہر بات بتائی نہیں جا سکتی۔ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو متعلقہ شخص کو خود جاننا پڑتا ہے۔ ہر شخص کو اتنا ذمہ دار اور باشعور ہونا چاہیے کہ وہ بتائے بغیر جان لے کہ کسی معاملہ میں اس کو کس قسم کا حصہ ادا کرنا ہے یا کسی وقت خاص میں اجتماعیت اس سے کسی چیز کا تقاضا کر رہی ہے۔گویا ایک فوجی افسر جب اپنے ساتھی سے ’’ٹینک‘‘کے بارے میں پوچھے تو ساتھی کو وضاحت کے بغیر یہ جاننا چاہیے کہ پوچھنے والا جنگی ٹینک کے بارے میں پوچھ رہا ہے نہ کہ پانی کے ٹینک کے بارے میں۔

 

حالات کی رعایت

19 جولائی 1981 کو دہلی۔ احمد آباد میل حسب معمول اپنے وقت پر روانہ ہوئی۔ مگر مہسانہ اسٹیشن پر وہ چالیس منٹ لیٹ ہو گئی۔ ٹرین جب مہسانہ سے آگے بڑھی تو ڈرائیور نے اس کو عام رفتار سے زیادہ تیز دوڑانا شروع کیا تا کہ وہ اپنے مقررہ وقت پر احمد آباد پہنچ جائے۔ ٹرین ڈنگروا سے دو کلومیٹر کے فاصلہ پر تھی کہ ڈرائیور نے دیکھا کہ آگے کی پٹری میں کچھ فش پلیٹیں غائب ہیں۔اس نے فوری طور پربریک لگایا کہ ٹرین کو روک کر حادثہ سے بچائے۔ مگر تیز دوڑتی ہوئی ٹرین اچانک بریک لگنے سے بے قابو ہو گئی۔ انجن اور اس کے ساتھ لگی ہوئی 12 بوگیاں پٹری سے اچھل پڑیں اور پوری گاڑی اپنی پٹری چھوڑ کر کنارے کے کھڈ میں جا گری۔ کافی لوگ مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔

اس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ حالات کو نظر انداز کر کے اپنی زندگی کی گاڑی تیز دوڑانا شروع کر دیں۔ کیونکہ اس دنیا میں صرف آپ ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے بھی ہیں۔ یہاں صرف آپ برسرعمل نہیں ہیں بلکہ دوسرے بھی برسرعمل ہیں۔ ایسی ایک دنیا میں اسی شخص یا قوم کا سفر کامیاب ہو سکتا ہے جو خارجی حالات کو اچھی طرح سمجھے اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنی گاڑی کو آگے بڑھائے۔ اگر یہ حکمت نہ برتی جائے تو راستہ میں کوئی بھی غیر موافق واقعہ پیش آکر ہمارے سارے منصوبہ کو خاک میں ملا دے گا۔

موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بہت سے بڑے بڑے اقدامات کئے اور سب ناکام ہوتے چلے گئے۔ اس ناکامی کی توجیہہ ہر ایک کے پاس صرف ایک ہے’’فلاں کی ساز ش نے ان کے منصوبہ کو ناکام بنادیا‘‘مگر یہ عذر صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ مذکورہ اقدام میں حالات کی پوری رعایت شامل نہ تھی۔خوش فہمی کے تحت اپنی گاڑی دوڑا دی گئی اور اس بات کا اندازہ نہیں کیا گیا کہ آگے کی پٹری پر ایک دشمن موجود ہے جو ’’فش پلیٹ ‘‘نکال کر ہماری گاڑی کو الٹنے کا خفیہ منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔

’’گاڑی‘‘خواہ مکمل طور پر آپ کی ہو مگر جس ’’سڑک‘‘پر آپ کو اپنی گاڑی دوڑانی ہے وہ مکمل طور پر آپ کی نہیں۔ یہ حقیقت خواہ کسی کے لیے کتنی ہی تلخ ہو مگر بہر حال وہ ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اس کو نظر انداز کر کے کوئی شخص اس دنیا میں کامیاب ہو سکے۔

جو لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے اپنی زندگی کی گاڑی دنیا کی سڑک پر دوڑائیں ان کے حصے میں کبھی منزل نہیں آتی۔ واحد چیز جو اس دنیا میں ان کے لیے مقدر ہے وہ یہ کہ وہ اپنے ہر اقدام کے بعد ناکام ہوں اور پھر کسی نہ کسی ’’سازش‘‘ کا انکشاف کرکے اس کے خلاف فریاد کرتےرہیں۔

 

پہلے شعور پیدا کیجئے

مسجد کا مؤذن فجر سے کچھ پہلے اٹھا۔وہ کسی ضرورت سے مسجد کے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کھول رہا ہے۔ چوں کہ ابھی فضا میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اور اتنے سویرے دکان کھولنا ایک غیر معمولی بات تھی،وہ ٹھہر کر دیکھنے لگا۔’’یہ آدمی اندھیرے میں دکان کے اندر داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے کیا کام کرے گا ‘‘ اچانک یہ سوال اس کے ذہن میں آیا۔ ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس کے دل نے کہا کہ یہ شخص سب سے پہلے دکان کی لائٹ جلائے گا۔ کیوں کہ جب تک دکان کے اندر اندھیرا ہے وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ اب وہ اپنے اندازہ کی تصدیق یا تردید جاننے کےلیے وہاں ٹھہر کر دکان دار کو دیکھنے لگا۔ مؤذن کا اندازہ صحیح نکلا۔ دکان کا دروازہ کھولتے ہی دکان دار کا ہاتھ سب سے پہلے بجلی کے بٹن پر پہنچا۔ معاً بعد دکان کے اندر روشنی ہو گئی۔اسی مثال سے ہم دین و ملت کے معاملہ کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ دینی یا ملّی کام کرنے کے لیے بھی سب سے پہلے ’’روشنی‘‘جلانے کی ضرورت ہے۔ یعنی شعور کی بیداری۔ اندھیرے مکان یا دکان کو اجالے میں لانے کےلیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ملت کے اندر کوئی حقیقی اور مفید کام وجود میں لانے کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ملت کے افراد کو ذہنی حیثیت سے باشعور بنایا جائے۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بیدار کیا جائے۔ افراد کے اندر شعور کی روشنی جلائے بغیر کوئی حقیقی کام نہیں کیا جا سکتا۔

آغاز سے پہلے اختتام کا اندازہ کر لیجئے۔

حاجیوں کا ایک قافلہ غار حرا کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوا۔ غار حرا جس پہاڑ کے اوپر واقع ہے وہاں تک سڑک جاتی ہے۔ آدمی پہاڑ تک سواری سے جاتا ہے اور پھر وہاں سے پیدل پہاڑ پر چڑھتا ہے۔ قافلہ کے لوگ جب پہاڑپر چڑھنے لگے تو کچھ لوگوںنے احترام و تقدس کے جذبہ کے تحت سڑک کے پاس اپنے چپل اتار دئیے۔ جاتے وقت صبح کا وقت تھا اس لیے ننگے پائوں اوپر جانے میں کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔ مگر جب وہ لوگ واپس لوٹے تو دوپہر ہو چکی تھی۔پہاڑی کے سرخ پتھر تپنے لگے تھے۔ بغیر چپل والے لوگ سخت تکلیف کے ساتھ اس حال میں اترے کہ ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے وہ کئی دن تک پریشان رہے۔

سفر خواہ پہاڑکا ہو یا زندگی کا، ہر ایک کی کامیابی کا ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ کہ سفر کے آغاز میں سفر کے اختتام کا پورا اندازہ کر لیا جائے۔ جو شخص سفر کے شروع میں سفر کے آخری حالات کا اندازہ نہ کر سکے اس کے حصہ میں اکثر ایسی مشکلات آتی ہیں جو اس کے سفر کے مقصد کو بے معنی کر دیتی ہیں۔ خدا کا یہ قانون اتنا بے لاگ ہے کہ ایک مخلص آدمی بھی اس قسم کی غلطی کرنے کے بعد اس کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ اگر وہ اچھی نیت سے ایک ایسا اقدام کر بیٹھے جس کے عواقب پر اس نے غور نہ کیا ہو تو اس دنیا میں اس کے بُرے نتائج سے وہ بھی اسی طرح دو چار ہو گا۔ جس طرح ایک بدنیت شخص اس قسم کی غلطی کر کے دو چار ہوتا ہے۔ کسی کا اخلاص اس کی غلطی کے خلاف اس کا محافظ نہیں بن سکتا۔

 

اقتصادی حملہ

ہوائی (Hawaii) بحر الکاہل کا جزیرہ ہے۔ اس کے ایک ساحلی مقام کا نام پرل ہار بر ہے ۔ پرل ہار بر کو امریکہ نے ایک فوجی بندرگاہ کے طور پر ترقی دی۔یہ بحر الکاہل میں امریکہ کا سب سے زیادہ مضبوط بحری اڈہ بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 7 دسمبر 1941 کو جاپان نے پرل ہار بر پر بمبار ہوائی جہازوں سے حملہ کیا۔ اس وقت امریکہ کے تقریباً ایک سو جنگی جہاز یہاں موجود تھے جاپانی بمباری نے ان میں سے اکثر کو تباہ کر دیا۔

اس کا بدلہ امریکہ نےاس طرح لیا کہ 6 اگست 1945 کو اس نے دو ایٹم بم جاپان پر گرائے جس کے نتیجہ میں جاپان کے دو اہم ترین صنعتی شہر بالکل تباہ ہو گیے۔تاہم یہ دونوں شہر (ہیرو شیما اور ناگاساکی) اب دوبارہ زیادہ شاندار طور پر تعمیر کر لیے گئے ہیں۔ 1945 میں وہ جاپان کی بربادی کی علامت تھے۔1985 میں وہ جاپان کی غیر معمولی ترقی کی علامت ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ جاپان کی مکمل شکست پر ہوا تھا۔مزید یہ کہ امریکہ نے اس کے اوپر اپنی فوجی اور سیاسی بالادستی قائم کر لی۔مگر جاپان نے حیرت انگیز طورپر اس کا ثبوت دیا کہ وہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق بدل لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔دوسری جنگ عظیم سے پہلے وہ ہتھیاروں پر یقین رکھتا تھا مگر جنگ کے بعد اس نے خود اپنی مرضی سے ہتھیار الگ رکھ دئیے اور خالص پُرامن انداز میں اپنی نئی تعمیر شروع کر دی۔جاپان نے لڑائی کے میدان کو چھوڑ دیا جو اس کے لیے بند ہو گیا تھا۔اس نے تعمیر کے میدان کو اختیار کر لیا جو اب بھی اس کے لیے کھُلا ہوا تھا۔

دوسری تدبیر پہلی تدبیر سے زیادہ کامیاب ہوئی۔جاپان صنعت وتجارت میں اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ آج وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت سمجھا جاتا ہے۔امریکہ کے مقابلہ میں اس کا ٹریڈسرپلس 37 بلین ڈالر کے بقدر زیادہ ہے۔جنگ کے فاتح امریکہ کو مفتوح جاپان نے اقتصادیات کے میدان میں شکست دے دی۔

اس صورت حال سے امریکہ کے لوگ بے حد پریشان ہیں۔ وہ جاپان کے موجودہ حملہ کو اقتصادی پرل ہاربر( Economic Pearl Harbou) کا نام دیتے ہیں۔امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جو اس وقت امریکہ اور جاپان میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن گئی ہے۔اس کتاب کا نام ہے جاپان نمبر ایک (Japan - Number One)۔

اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ جاپان اور امریکہ کے درمیان تجارت میں جاپان بہت زیادہ آگے بڑھ گیا ہے اور عنقریب وہ برطانیہ سے بھی آگے بڑھ جانے والا ہے۔بیرونی اثاثہ کے اعتبار سے جاپان آج دنیا کی سب سے زیادہ دولت مند قوم ہے۔اس کا بیرونی اثاثہ 1984 کے آخر میں 74 بلین ڈالر تھا۔( ٹائمس آف انڈیا 13۔ 14 جون 1985)

جاپان نے اپنی فوجی شکست کو اقتصادی فتح میں کس طرح تبدیل کیا۔ جواب یہ ہے کہ اس کا راز یہ تھا کہ جاپان نے از سر نو وہاں سے اپنا سفر شروع کیا جہاں حالات نے اس کو پہنچا دیا تھا۔

اس نے اشتعال کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کیا۔اس نے ٹکرائو کے میدان سے ہٹ کر پُر امن میدان میں اپنی قوتوں کو استعمال کیا۔جو امکان برباد ہوگیا تھا ، وہ اس کا فریادی نہیں بنا۔بلکہ جو امکان باقی رہ گیا تھا اس نے اپنی ساری توجہ اس پرلگادی۔

خلاصہ یہ کہ جاپان نے دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے آپ کو الزام دیا اور اس کے بعد فوراً اس کی نئی تاریخ بنناشروع ہو گئی جو اس وقت تک نہ رکی جب تک وہ تکمیل کی حد کو نہ پہنچ گئی۔

آپ اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ یہاں دوسرے بہت سے لوگ بھی ہیں۔اور وہ سب بڑھنے اور غالب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس صورت حال کے مقابلہ میں آپ کا طریقہ دو قسم کا ہو سکتا ہے۔ایک یہ کہ جہاں کوئی دوسرا آپ کو اپنی راہ میں حائل نظر آئے وہاں آپ اس سے لڑنا شروع کر دیں۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ٹکرائو سے بچ کر اپنی مثبت تعمیرکرنے کی کوشش کریں۔

تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں صرف دوسرا طریقہ کامیاب طریقہ ہے۔اس کے بر عکس پہلا طریقہ صرف بربادی کا طریقہ ہے۔سمندری جہاز کو اگر چلتے ہوئے راستہ میں چٹان مل جائے تو وہ اس سے کترا کر نکل جاتا ہے۔اور جو جہاز اس سے لڑ کر جانا چاہے وہ ٹوٹ کرختم ہو جاتا ہے۔ایسے جہاز کے لیے منزل پر پہنچنا مقدر نہیں۔

 

جانے بغیر بولنا

22 دسمبر 1985 کا واقعہ ہے۔میں کچھ ساتھیوں کے ہمرا ہ دہلی کا زو ( چڑیا گھر ) دیکھنے گیا۔ مختلف جانوروں کو دیکھتے ہوئے ہم اس مقام پر پہنچے جہاں آہنی کٹہرے کے اندر سفید شیر رکھا گیا ہے ۔ خوش قسمتی سے اس وقت شیر اپنے غار کے باہر ٹہل رہا تھا اور زائرین کو موقع دے رہا تھا کہ وہ اس کو بخوبی طور پر دیکھ سکیں۔

میں کٹہرے کے پاس دوسرے زائرین کے ساتھ کھڑا ہوا تھا کہ ایک صاحب کی پر جوش آواز کان میں آئی ۔۔۔۔ ’’ سفید شیراب دنیا میں صرف یہی ایک ہے۔مہاراجہ ریوا کے پاس دو سفید شیر تھے جو انھوں نے آزادی کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا کو دے دئیے۔ان میں سے ایک مر چکا ہے اور ایک باقی ہے جس کو ہم لوگ اس وقت دیکھ رہے ہیں ‘‘۔

مجھے اس وقت تک اس سلسلہ میں زیادہ معلومات نہ تھیں۔میں ان کی بات سن کر آگے بڑھ گیا مگر چند قدم چلا تھا کہ کٹہرے کے پاس لگا ہوا بڑا سا بورڈ نظر آیا جس پر زو کے ذمہ داروں کی طرف سے سفید شیر کے بارے میں تفصیلی معلومات درج تھیں۔یہ معلومات دو زبانوں (انگریزی اور ہندی ) میں تھیں۔میں نے اس کو پڑھا۔اس میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت دنیا میں کل 69 سفید شیر پائے جاتے ہیں ان میں سے 25 سفید شیر صرف ہندوستان میں ہیں۔بورڈ میں 69 سفید شیروں کی موجودگی کا ذکر تھا اور عین اس کے قریب ایک صاحب یہ اعلان کر رہے تھے کہ دنیا میں اس وقت صرف ایک سفید شیر پایا جاتا ہے۔اور یہ واحد شیر دہلی کے زو کی ملکیت ہے۔

یہ ایک سادہ سی مثال ہے جو یہ بتاتی ہے کہ لوگ حقیقتوں سے کتنا زیادہ بے خبر ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ حقیقتوں کے بارہ میں کتنا زیادہ بولتے ہیں۔آج کی دنیا میں یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ آدمی باتوں کی تحقیق نہیں کرتا۔اس کے باوجود وہ اس کو اپنا فطری حق سمجھتا ہے کہ وہ ہر موضوع پر بے تکان بولے ، خواہ اس کے بارے میں اسے کچھ بھی واقفیت نہ ہو۔

کہنے سے پہلے جانیے۔اظہار رائے سے پہلے تحقیق کیجئے۔واقفیت کے بغیر بولنا اگر جہالت ہے تو تحقیق کے بغیر رائے ظاہر کرنا شرارت۔اور دونوں یکساں طور پر برائی ہیں۔ان میں اگر فرق ہے تو درجہ کا ہے نہ کہ نوعیت کا۔

 

خوشی کا راز

مارگریٹ لی رنبک ( Margaret Lee Runbeck) کا قول ہے کہ خوشی کوئی منزل نہیں جہاں آدمی پہنچے ، بلکہ خوشی سفر کرنے کا ایک طریقہ ہے :

Happiness is not a station you arrive at, but a manner of travelling.

ہر آدمی خوشی کا طالب ہے۔مگر موجودہ دنیا میں کسی کو خوشی نہیں ملتی۔یہ دنیا اس لیے بنائی ہی نہیں گئی کہ یہاں آدمی اپنی خوشیوں کا گھر تعمیر کر سکے۔جو شخص خوشی کو اپنی منزل سمجھے وہ کبھی خوشی کو نہیں پا سکتا۔ خوشی صرف اس کے لیے ہے جو خوشی کے بغیر خوش رہنا سیکھ جائے۔

اگر آدمی یہ جان لے کہ اس دنیا میں غم نا گزیر ہے تو وہ غم کے ساتھ رہنا سیکھ جائے گا۔اس کو نقصان لا حق ہو گا تو وہ فریاد وماتم نہیں کرے گا بلکہ اس سے اپنے لیے سبق کی غذا حاصل کر لے گا۔اس کی امیدیں پوری نہ ہوں گی تو وہ مایوسی میں مبتلا نہیں ہو گا ۔اس کا یہ شعور اس کے لیے سہارا بن جائے گا کہ اس دنیا میں کسی کی بھی امیدیں پوری نہیں ہوتیں ، چاہے وہ امیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا کوئی معمولی آدمی۔

خوشی اور کامیابی سے اگر آدمی کو کچھ ملتا ہے تو غم اور ناکامی سے بھی آدمی کو بہت کچھ ملتا ہے۔غم اور ناکامی کے تجربات آدمی کو سنجیدہ بناتے ہیں۔وہ اس کی سوچ میں گہرائی پیدا کر دیتے ہیں۔ان کے ذریعہ سے وہ نئے نئے سبق سیکھتا ہے۔غم اور ناکامی کے تجربات آدمی کے پورے وجود کو بدل کر ایک نیا آدمی بنا دیتے ہیں۔اگر دنیا میں صرف خوشی اور کامیابی ہوتی تو دنیا سطحی اور بے حس انسانوں کا قبرستان بن جاتی۔یہ دراصل غم اور ناکامی ہی ہے جس کی وجہ سے دنیا کبھی زندہ انسانوں سے خالی نہیں ہوتی۔

زندگی کی تلخیاں آدمی کی زندگی کے لیے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو سونے چاندی کے لیے تپانے کی حیثیت ہے۔تپانے کا عمل سونے چاندی کو نکھارتا ہے۔اسی طرح تلخ تجربات آدمی کی اصلاح کرتے ہیں۔وہ بے چمک انسان کو چمک دار انسان بنا دیتے ہیں۔

 

برائی کی جڑ

ولیم لا (1761۔1686) ایک مشہور انگریز مصنف ہے۔اس نے اخلاقیات کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے ۔۔۔ برائی جب بھی شروع ہوتی ہے غرور سے شروع ہوتی ہے۔برائی کا جب بھی خاتمہ ہوتا ہے تو انکساری کے ذریعہ ہوتا ہے  :

Evil can have no beginning, but from pride, nor any end but from humility ( William Law).

کہنے والے نے یہ بات اخلاقی اعتبار سے کہی ہے۔مگر آسمانی شریعت کی بات بھی یہی ہے۔خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم شرک اور غرور ہے۔ہر چیز کی معافی ہو سکتی ہے مگر شرک اور غرور کی معافی نہیں۔

ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں جو بھی ظلم یا فساد کرتا ہے ان سب کی جڑ میں کھلا یا چھپا ہوا غرور شامل رہتا ہے۔غرور کی وجہ سے آدمی حق کا اعتراف نہیں کرتا۔کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ حق کا اعتراف کرنے سے ان کی بڑائی ختم ہو جائے گی۔وہ بھول جاتا ہے کہ حق کو نہ مان کر وہ حق کے مقابلہ میں خود اپنی ذات کو بر تر قرار دے رہا ہے۔حالاں کہ اس دنیا میں سب سے بڑی چیز حق ہے نہ کہ کسی کی ذات۔

جس آدمی کے مزاج میں غرور ہو وہ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں کامیابی کا اصل راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔وہ وہی کرے جو ازروئے حقیقت اس کو کرنا چاہیے اور وہ نہ کرے جو ازروئے حقیقت اس کو نہیں کرنا چاہیے۔

مگر معزور آدمی کا برتری کا مزاج اس کے لیے اس میں مانع بن جاتا ہے کہ وہ اپنے کو حقیقت کے مطابق ڈھالے۔وہ چاہتا ہے کہ حقیقت خود اُس کے مطابق ڈھل جائے۔

چوں کہ عملاً ایسا ہونا ممکن نہیں ، اس لیے ایسے آدمی کا اس دنیاہی میں کامیاب ہونا بھی ممکن نہیں ۔

 

کامیاب تدبیر

جیل سے فرار موجودہ زمانہ میں ایک آرٹ بن گیا ہے۔اخبارات میں اس کی مثالیں آتی رہتی ہیں۔ اس سلسلہ کا ایک دل چسپ واقعہ وہ ہے جو 26 مئی 1986 کو پیرس میں پیش آیا۔

ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر عام استعمال کی چیز بن گئے ہیں۔وہاں کوئی شخص اسی طرح ایک ہیلی کاپٹر کرایہ پر لے سکتا ہے جس طرح ہندوستان جیسے ملکوں میں موٹرکار کرایہ پر حاصل کی جاتی ہے۔مذکورہ تاریخ کو ایک 30 سالہ عورت نے ایک تجارتی ادارہ ائیر کانٹیننٹ (Air continent)سے ایک ہیلی کاپٹر کرایہ پر لیا۔ وہ خود اس کو اڑاتی ہوئی پیرس کے جیل (La Sante prison) کے اوپر پہنچی اور طے شدہ پروگرام کے مطابق ایک قیدی کو لے کر فرار ہو گئی۔

اس جیل میں ایک 34 سالہ شخص قید تھا۔اس کا نام مائیکل واجور ((Michel Vaujourبتایا گیا ہے۔مسلح قزاقی کے جرم میں اس کو 8 مارچ 1985 کو 18 سال کی سزا ہوئی تھی۔مذکورہ ہیلی کاپٹر ساڑھے دس بجے دن میں اڑتا ہوا جیل کی فضا میں پہنچا۔وہ اس کی ایک چھت پر اُترا اور مذکورہ قیدی کو لے کر اڑ گیا۔یہ پوری کارروائی صرف 5 منٹ کے اندر مکمل ہو گئی۔ جیل میں مسلح پولیس موجود تھی۔مگر یہ ساری کارروائی اتنی اچانک اور اس قدر غیر متوقع طور پر ہوئی کہ مسلح پولیس اس کے اوپر ایک فائر بھی نہ کر سکی۔( ٹائمس آف انڈیا ، انڈین ایکسپریس 27 مئی 1986)

جب دو فریقوں میں مقابلہ ہو تو اس میں وہی فریق کامیاب ہوتا ہے جو مذکورہ قسم کی تدبیر اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ حریف کو بے خبری میں پکڑ لیا جائے۔ اچانک ایسا اقدام کیا جائے جس کے متعلق فریق ثانی فوری طور پر کچھ نہ سوچ سکے۔اس کو صرف اس وقت ہوش آئے جب کہ اس کے خلاف کاروائی اپنی کامیابی کی آخری حد پر پہنچ چکی ہو۔

مذکورہ مثال میں اس تدبیر کو ایک شخص نے مجرمانہ جارحیت کے لیے استعمال کیا۔ مگر جائز دفاع کے لیے بھی یہی تدبیر سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے۔

امتیاز

 

ایک کے بجائے دو

ولیم دوم (1941۔ 1859 ) جرمنی کا بادشاہ تھا۔اپنے باپ شہنشاہ فریڈرک کے بعد 1888 میں تخت پر بیٹھا۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔اس نے جرمنی کو فوجی اعتبار سے ترقی دینے میں کافی دل چسپی لی ۔ مگر اس کا فوجی استحکام اس کی شہنشاہیت کو بچانے میں کامیاب نہ ہوا۔ملکی حالات کے تحت اس کو تخت چھوڑنا پڑا۔نومبر 1918میں وہ حکومت چھوڑ کر ہالینڈ چلا گیا اور وہاں خاموشی کے ساتھ زندگی گزار کر مر گیا۔اس کی جلا وطنی کی موت گویا اس بات کا ایک واقعاتی ثبوت تھی کہ فوجی قوت کے مقابلہ میں حالات کی قوت زیادہ اہم ہے۔

جنگ عظم اول سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔جرمنی کا مذکورہ بادشاہ ولیم دوم سوئزرلینڈ گیا ہوا تھا وہ وہاں کی منظم فوج کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے مزاحیہ انداز میں سوئزرلینڈ کے ایک فوجی سے پوچھا اگر جرمنی کی فوج جس کی تعداد تمھاری فوج سے دگنی ہو، تمھارے ملک پر حملہ کر دے تو تم اس وقت کیا کرو گے۔اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا

سر ، ہم کو بس ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں اصل اہمیت تعداد کی نہیں بلکہ محنت اور کارکردگی کی ہے۔آپ کا حریف اگر تعداد میں زیادہ ہو تو آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔آپ اپنی محنت اور کارکردگی میں اضافہ کر کے کم تعداد کے باوجود زیادہ تعداد پر غالب آسکتے ہیں۔

دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی دو صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ جس آسامی کے لیے بی اے کی قابلیت کی شرط ہو اور بی اے والوں نے درخواستیں دے رکھی ہوں ، وہاں آپ بھی بی اے کی ڈگری لے کر پہنچ جائیںاور جب آپ کو نہ لیا جائے تو شکایت کریں کہ کیوں آپ کے مقابلہ میں دوسرے امیدوار کو ترجیح دی گئی، جب کہ دونوں یکساں طور پر گریجویٹ تھے۔دوسری صورت یہ ہے کہ جہاں لوگ بی اے کی ڈگریاں پیش کر رہے ہوں وہاں آپ ماسٹر ڈگری لے کر پہنچیں ، جہاں لوگ مطابق شرائط قابلیت کی بنیاد پر اپنا حق مانگ رہے ہوں وہاں آپ برتراز شرائط قابلیت دکھا کر اپنا حق تسلیم کرائیں۔

یہی دوسرا طریقہ زندگی کا اصلی طریقہ ہے۔تمام بڑی بڑی ترقیاں اور کامیابیاں انھیں لوگوں کے لیے مقدر ہیں جو برتر قابلیت لے کر زندگی کے میدان میں داخل ہوں۔جن لوگوں کے پاس صرف کمتر لیاقت یا برابر کی لیاقت کا سرمایہ ہو ان کے لیے صرف ایک ہی انجام مقدر ہے۔۔۔ مقابلہ کی اس دنیا میں دوسروں سے پچھڑجانا اور اس کے بعد بے فائدہ احتجاج میں اپنا وقت ضائع کرتے رہنا۔

 

ٹاپ کی جگہ خالی ہے

کچھ مسلم نوجوان بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ہر ایک ماحول کی شکایت کر رہا تھا داخلے نہیں ہوتے ، ملازمت نہیں ملتی۔کام نہیں ملتا وغیرہ۔ایک زیادہ عمر کا تجربہ کار آدمی بھی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔وہ خاموشی سے سب کی باتیں سن رہا تھا۔آخر میں اس نے کہا:آپ لوگوں کی شکایتیں بالکل بے جا ہیں۔آپ وہاں جگہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں جگہیں بھری ہوئی ہیں۔اور جہاں جگہ خالی ہے وہاں پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔آپ لوگ اونچی لیاقت پیدا کیجئے۔پھر آپ کے لیے مایوسی کا کوئی سوال نہ ہو گا۔کیونکہ عام جگہیں اگرچہ بھری ہوئی ہیں۔مگر ٹاپ کی جگہ ہر طرف خالی ہے۔

امتیاز کامیابی کا راز ہے۔آپ طالب علم ہوں یا تاجر، آپ وکیل ہوں یا ڈاکٹر ، آپ خواہ جس میدان میں بھی ہوں،اپنے اندر امتیاز پیدا کرنے کی کوشش کیجئے اور یقیناآپ کامیاب رہیں گے۔اگر آپ چوہاپکڑنے کا اچھا پنجرہ ہی بنانا جانتے ہوں تو لوگ خود آکر آپ کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیں گے۔لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ جس قسم کے ’’ پنجرے ‘‘ بازار میں بھرے ہوئے ہیں اسی قسم کا ایک اور ’’پنجرہ ‘‘ بناکربازار میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا پنجرہ فروخت نہیں ہوتا۔ اگر آپ محنت کریں اور اپنے دماغ کو استعمال کر کے امتیازی پنجرہ بنائیں تو یقینا لوگ اس کو خرید نے کے لیے ٹوٹ پڑیں گے۔

ہر ماحول میں ہمیشہ تعصب اور تنگ نظری موجود ہوتی ہے۔یہ بالکل فطری ہے۔مگر تعصب اور تنگ نظری کے عمل کی ایک حد ہے۔اگر آپ اس حد کو پار کر جائیں تو تعصب اور تنگ نظری ہو کر بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آپ کے نمبر 45 فی صد ہیں اور آپ کے حریف کے 40 فی صد ، تو عین ممکن ہے کہ تعصب آپ کی راہ میں حائل ہو جائے اور آپ کو نہ لیا جائے۔لیکن اگر ایسا ہو کہ حریف کے نمبر 40 فی صد ہیں اور آپ کے نمبر 80 فی صد تو تعصب اور تنگ نظری کی تمام دیواریں گر جائیں گی اور یقینی طور پر آپ اپنے حریف کے مقابلہ میں کامیاب رہیں گے۔

معمولی جگہیں بھری ہوئی ہیں مگر ٹاپ کی جگہ خالی ہے۔پھر آپ کیوں نہ اس خالی جگہ پر پہنچنے کی کوشش کریں جواب بھی آپ کا انتظار کر رہی ہے۔اگر آپ دوسروں سے زیادہ محنت کریں۔اگر آپ عام معیار سے اونچا معیار پیش کریں۔اگر آپ زیادہ بڑھی ہوئی صلاحیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوں تو آپ کے لیے بے جگہ یا بے روز گار ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ہر جگہ آپ کی جگہ ہے ، کیونکہ وہ اب تک کسی آنے والے کے انتظار میں خالی پڑی ہوئی ہے۔

 

کامیاب انسان

لی آئی کوکا (Lee Lacocca) کی پیدائش 1924 میں ہوئی۔ ان کے والدین بہت غریب تھے اوروہ تلاش معاش میں اٹلی چھوڑکر امریکہ چلے گئے۔آئی کوکانے محنت سے تعلیم حاصل کی اور انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری لی۔تعلیم کے بعد مسٹر آئی کوکا کو فورڈموٹر کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ وہ ترقی کرتے رہے۔یہاں تک کہ وہ فورڈ کمپنی کے پریزیڈنٹ ہو گئے۔ اس کے بعد ہنری فورڈدوم سے ان کا اختلاف ہو گیا۔1978 میں انھیں فورڈکمپنی چھوڑ دینا پڑا۔

آئی کوکا کو ایک او ر کمپنی کی صدارت مل گئی جس کا نام کرسلر کارپوریشن ( Chrysler Corporation)ہے۔یہ کمپنی اس وقت بالکل دیوالیہ ہو گئی تھی۔آئی کوکا نے تین سال کی غیر معمولی محنت سے اس کو کامیابی کے ساتھ چلادیا۔ حتیٰ کہ اب وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں:

I am the company

آئی کوکانےاپنی سوانح عمری لکھی ہے جس کانام ہے۔(lacocca:An Autobio-

-graphy)اس خود نوشت سوانح عمری میں بہت سے قیمتی تجربات ہیں انھوں نے اپنے ایک تجربہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے  :

The key to success is not information.It's people.And the kind of people I look for to fill top management spots are the eager beavers. These are the guys who try to do more than they're expected to...

کامیابی کی کنجی معلومات اور ڈگریاں نہیں ہیں۔یہ دراصل افراد ہیں۔اورمیں اپنی کمپنی کے بڑے عہدوں کے لیے جس قسم کے افراد کی تلاش میں رہتا ہوں وہ عمل کے شائق لوگ ہیں۔یہ وہ آدمی ہیں جو اس سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جتنی ان سے کرنے کی امید کی گئی ہو۔ (ٹائمس آف انڈیا 22 ستمبر 1985)

امید سے زیادہ کام کرنا سنجیدہ اور با عمل آدمی کی قطعی پہچان ہے۔جو لوگ امید سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کریں وہی وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی میں امید سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔

 

خود اعتمادی کا راز

حبیب بھائی (حیدر آباد ) نے 12 فروری 1984 کو اپناایک واقعہ بیان کیا۔وہ چند سال پہلے یورپ کے ایک سفر پر گئے تھے۔اس سلسلہ میں وہ لوزان (سوئزرلینڈ)بھی گئے وہاں انھوں نے ایک دکان سے ایک کیمرہ خریدا۔یہ کیمرہ انھیں ہندوستانی قیمت کے لحاظ سے پانچ ہزار روپے میں ملا۔ انھوں نے کیمرا لے لیا۔ مگر بعد کو انھیں احساس ہوا کہ انھوں نے غلطی کی ہے۔ان کو یورپ سے واپسی میں عمرہ کے لیے سعودی عرب بھی جانا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ سعودی عرب میں یہ کیمرہ تقریباً تین ہزار روپے میں مل جائے گا۔پھر یہاں میں اس کو مہنگی قیمت میں کیوں خریدوں۔

اب انھوں نے چاہا کہ اس کیمرہ کو واپس کر دیں۔مگر فوراً خیال آیا کہ جب میں دکان پر جا کر واپسی کے لیے دکاندار سے کہوں گا تو وہ پوچھے گا کہ کیوں واپس کر رہے ہو۔واپسی کو برحق ثابت کرنے کے لیے مجھے کیمرے میں کوئی نقص بتانا ہو گا۔ چنانچہ انھوں نے ادھر ادھر دیکھ کر یہ چاہا کہ کیمرہ میں کوئی خرابی دریافت کریں تاکہ اس کا حوالہ دے کر اپنی واپسی کو درست ثابت کر سکیں۔مگر تلاش کے باوجود کیمرہ میں کوئی نقص نہیں ملا۔

تاہم ان کی طبیعت اندر سے زور کر رہی تھی۔چنانچہ وہ کیمرہ لے کر دوبارہ دکان پر گئے۔وہاں کاؤنٹر پر ایک خاتون کھڑی ہوئی تھی۔انھوں نے کہا کہ یہ کیمرہ میں نے آپ کے یہاں سے خریدا تھا۔ اب میں اس کو واپس کرنا چاہتا ہوں۔جب انھوں نے یہ بات کہی تو ان کی توقع کے خلاف خاتون نے واپسی کی وجہ دریافت نہیں کی۔ اس نے صرف یہ پوچھا کہ آپ اپنی رقم ڈالر میں چاہتے ہیں یا ملکی سکّہ میں۔انھوں نے کہا کہ ڈالر میں۔خاتون نے اسی وقت واپسی کا پرچہ بنا دیا۔ وہ اس کو لے کر دوسرے کائونٹر پر پہنچے۔وہاں فوراً ان کو مذکورہ ڈالر واپس کر دئیے گئے۔جیسے کہ رقم اور مال میں اس کے نزدیک کوئی فرق ہی نہیں۔

سوئزرلینڈ کے دکان دار نے کیوں ایساکیا کہ کچھ کہے بغیر فوراً کیمرہ واپس لے لیا، اور پوری قیمت لوٹا دی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کو اپنے مال کی کوالٹی پر پورا بھروسہ تھا۔اس کو یقین تھا کہ میرا مال چونکہ معیاری ہے اس لیے ضرور کوئی نہ کوئی اسے خریدے گا۔خواہ ایک شخص اسے خریدے یا دوسرا شخص۔

 

استحقاق پیدا کیجئے

ایم اے خان ہائر سیکنڈری کے امتحان میں اچھے نمبر سے پاس ہوئے تھے۔مگر کسی وجہ سے وہ بر وقت آگے داخلہ نہ لے سکے۔یہاں تک کہ اکتوبر کا مہینہ آگیا۔اب بظاہر کہیں داخلہ ملنے کی صورت نہ تھی۔تاہم تعلیم کا شوق ان کو ہندو سائنس کالج کے پرنسپل کے دفتر میں لے گیا۔

’’ جناب ، میں بی ایس سی میں داخلہ لینا چاہتا ہو ں ‘‘انھوں نے ہندو پرنسپل سے کہا۔

’’ یہ اکتوبر کا مہینہ ہے ، داخلے بند ہو چکے ہیں۔اب کیسے تمھارا داخلہ ہو گا ‘‘

’’ بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ داخلہ لے لیں۔ورنہ میرا پورا سال بیکار ہو جائے گا ‘‘

’’ ہمارے یہاں تمام سیٹیں بھر چکی ہیں۔اب مزید داخلہ کی کوئی گنجائش نہیں ‘‘

پرنسپل اتنی بے رخی برت رہا تھا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہر گز داخلہ نہیں لے گا اور اگلا جملہ طالبعلم کو شاید یہ سننا پڑے گا کہ ’’ کمرہ سے نکل جائو ‘‘ مگر طالب علم کے اصرار پر اس نے بد دلی سے پوچھا ’’ تمھارے مارکس کتنے ہیں ‘‘۔پرنسپل کا خیال تھا کہ اس کے نمبر تقریباً بہت کم ہوں گے۔اسی لیے اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا۔ چنانچہ طالبعلم جب اپنے خراب نتیجہ کو بتائے گا تو اس کی درخواست کو رد کرنے کے لیے معقول وجہ ہاتھ آجائے گی۔مگر طالبعلم کا جواب اس کی امید کے خلاف تھا۔اس نے کہا 85 فی صد

Sir, eighty-five per cent.

اس جملہ نے پرنسپل پر جادو کا کام کیا۔ فوراً اس کا موڈ بدل گیا۔اس نے کہا ’’ بیٹھو بیٹھو ‘‘ اس کے بعد اس نے طالبعلم کے کاغذات دیکھے اور جب کاغذات نے تصدیق کر دی کہ واقعی وہ پچاسی فیصد نمبروں سے پاس ہوا ہے تو اسی وقت اس نے پچھلی تاریخ میں درخواست لکھوائی۔اس نے ایم اے خان کو نہ صرف تاخیر کے باوجود اپنے کالج میں داخل کر لیا بلکہ کوشش کر کے ان کو ایک وظیفہ بھی دلوایا۔

یہی طالبعلم اگر اس حالت میں پرنسپل کے پاس جاتاکہ وہ تھرڈ کلاس پاس ہوتا اور پرنسپل اس کا داخلہ نہ لیتا تو طالبعلم کا تاثر کیا ہوتا۔وہ اس طرح لوٹتا کہ اس کے دل میں نفرت اور شکایت بھری ہوتی۔وہ لوگوں سے کہتا کہ یہ سب تعصب کی وجہ سے ہوا ہے۔ورنہ میرا داخلہ ضرور ہونا چاہئے تھا۔داخلہ نہ ملنے کی وجہ اس کا خراب نتیجہ ہوتا مگر اس کا ذمہ دار وہ ہندو کالج کو قرار دیتا۔ماحول کا ردعمل اکثر خود ہماری حالت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر ہم اس کو ماحول کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔تاکہ اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کر سکیں۔

اگر آدمی نے خود اپنی طرف سے کوتاہی نہ کی ہو ، اگر زندگی میں ان تیاریوں کے ساتھ داخل ہوا ہو جو زمانہ نے مقرر کی ہیں تو دنیا اس کو جگہ دینے پر مجبور ہو گی۔وہ ہر ماحول میں اپنا مقام پیدا کر لے گا ، وہ ہر بازار سے اپنی پوری قیمت وصول کرے گا۔مزید یہ کہ ایسی حالت میں اس کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہو گی۔وہ اپنے تجربات سے جرأت ، اعتماد ، عالی حوصلگی ، شرافت ، دوسروں کا اعتراف ، حقیقت پسندی، ہر ایک سے صحیح انسانی تعلق کا سبق سیکھے گا۔وہ شکایت کی نفسیات سے بلند ہو کر سوچے گا۔ ماحول اس کو تسلیم کرے گا۔ اس لیے وہ خود بھی ماحول کا اعتراف کر نے پر مجبور ہو گا۔

اس کے بر عکس اگر اس نے اپنے کو اہل ثابت کرنے میں کوتاہی کی ہو۔اگر وہ وقت کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ اگر وہ کم تر لیاقت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہو ا ہو تو لازماً وہ دنیا کے اندر اپنی جگہ بنانے میں ناکام رہے گا۔ اور اس کے نتیجہ میں اس کے اندر جو اخلاقیات پیدا ہوں گی وہ بلا شبہ پست اخلاقیات ہوں گی۔وہ شکایت، جھنجلاہٹ ، غصہ ، حتیٰ کہ مجرمانہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔جب آدمی ناکام ہوتا ہے تو اس کے اندر غلط قسم کی نفسیات ابھرتی ہیں۔اگرچہ آدمی کی ناکامی کی وجہ ہمیشہ اپنی کمزوری ہوتی ہے۔مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے۔وہ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کے لیے دوسروں کو مجرم ٹھہراتا ہے۔وہ صورت حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے سے قاصر رہتا ہے۔کمتر تیاری آدمی کو بیک وقت دو قسم کے نقصانات کا تحفہ دیتی ہے۔۔۔ اپنے لیے بے جا طور پر ناکامی اور دوسروں کے بارے میں بے جا طور پر شکایت۔

پتھر ہرایک کے لیے سخت ہے۔البتہ وہ اس آدمی کے لیے نرم ہو جاتا ہے جو اس کو توڑنے کا اوزار رکھتا ہو۔ یہی صورت ہر معاملہ میں پیش آتی ہے۔اگر آپ لیاقت اور اہلیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہو ئے ہوں تو آپ اپنی واقعی حیثیت سے بھی زیادہ حق اپنے لیے وصول کر سکتے ہیں۔ ’’ وقت ‘‘ گزرنے کے بعد بھی ایک اجنبی کالج میں آپ کا داخلہ ہو سکتا ہے۔لیکن اگر لیاقت اور اہلیت کے بغیر آپ نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کو اپنا واقعی حق بھی نہیں مل سکتا۔

گیس نیچے نہیں سماتی تو اوپر اٹھ کر اپنے لیے جگہ حاصل کرتی ہے۔پانی کو اونچائی آگے بڑھنے نہیں دیتی تو وہ نشیب کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔درخت سطح کے اوپر قائم نہیں ہو سکتا تو وہ زمین پھاڑ کر اس سے اپنے لیے زندگی کا حق وصول کر لیتا ہے۔یہ طریقہ جو غیرانسانی دنیا میں خدا نے اپنے براہ راست انتظام کے تحت قائم کر رکھا ہے وہی انسان کو بھی اپنے حالات کے اعتبار سے اختیار کرنا ہے۔

ہر آدمی جو دنیا میں اپنے آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہو اس کو سب سے پہلے اپنے اندر کامیابی کا استحقاق پیدا کرنا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانے اور پھر اپنے حالات کو سمجھے۔اپنی قوتوں کو صحیح ڈھنگ سے منظم کرے۔جب وہ ماحول کے اندر داخل ہو تو اس طرح داخل ہو کہ اس کے مقابلہ میں اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو پوری طرح مسلح کر چکا ہو۔اس نے حالات سے اپنی اہمیت منوانے کے لیے ضروری سامان کر لیا ہو۔اگر یہ سب ہو جائے تو اس کے بعد آپ کے عمل کا جو دوسرا لازمی نتیجہ سامنے آئے گا وہ وہی ہو گا جس کا نام ہماری زبان میں کامیابی ہے۔(24 نومبر 1967)

 

معمولی تدبیر سے

ایک ڈاکٹر نے مطب شروع کیا اور تھوڑے ہی دنوں میں کامیاب ہو گیا۔انھوں نے یہ خصوصیت دکھائی کہ وہ ہر آنے والے مریض کو سلام میں پہل کرتے۔عام طور پر ڈاکٹر لوگ اس کے منتظر رہتے ہیں کہ مریض ان کو سلام کرے۔یہاں ڈاکٹر نے خود مریض کو سلام کرنا شروع کر دیا۔ یہ طریقہ کامیاب رہا اور جلد ہی ان کا مطب خوب چلنے لگا۔ حالانکہ وہ باقاعدہ سند یافتہ نہیں تھے۔صرف ’’ آر۔ایم۔پی ‘‘ تھے۔

ایک دکان دار نے دیکھا کہ گاہک کے پاس اگر کئی نوٹ ہیں تو عام طور پر وہ میلے اور پھٹے ہوئے نوٹ دکان دار کو دیتا ہے اور اچھے اور صاف نوٹوں کو بچا کر جیب میں رکھتا ہے۔اس سے دکان دار نے سمجھا کہ گاہک صاف نوٹ کو پسند کرتا ہے۔اس نے گاہک کی اس نفسیات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہ اصول بنایا کہ جب کوئی گاہک اس سے سامان خریدے گا اور قیمت ادا کرنے کے لیے بڑا نوٹ دے گا تو وہ حساب کرتے وقت ہمیشہ گاہک کو نئے اور صاف نوٹ لوٹائے گا۔

دکان دار کے بکس میں ہر طرح کے نوٹ ہوتے۔مگر جب وہ گاہک کو دینے کے لیے اپنا بکس کھولتا تو پرانے اور پھٹے ہوئے نوٹوں کو الگ کرتا جاتا اور نئے نوٹ چھانٹ کر گاہک کو دیتا۔نئے نوٹ حاصل کرنے کے لیے اس نے یہ کیا کہ اپنے تمام پرانے نوٹ جمع کر کے اپنے بینک کو دے دیتا اور اس کے بدلے بینک سے چھوٹے نئے نوٹ حاصل کر لیتا۔وہ نئے نوٹوں کو اپنے بکس کے پرانے نوٹوں میں ملا دیتا تاکہ گاہک کے سامنے دونوں قسم کے نوٹ ہوں اور وہ دیکھے کہ اس کا دکان دار بکس کے خراب نوٹوں کو الگ کرتا جا رہا ہے اور صاف نوٹوں کو چھانٹ چھانٹ کر اسے دے رہا ہے۔

دکان دار کی یہ تدبیر بظاہر معمولی اور بے قیمت تھی۔مگر اس نے گاہکوں کو بے حد متاثر کیا۔ وہ سمجھے کہ ان کا دکان دار ان کا بہت خیال کرتا ہے۔دھیرے دھیرے اس نے اس معمولی تدبیر سے گاہکوں کے دل جیت لیے۔اس کی دکان اتنی کامیاب ہو گئی کہ ہر وقت اس کے یہاں بھیڑ لگی رہتی۔

کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ اپنے اندر کوئی امتیازی خصوصیت پیدا کریں، آپ یہ ثابت کریں کہ آپ لوگوں کے ہمدرد ہیں۔یہ کام کسی معمولی تدبیر سے بھی ہو سکتا ہے ، حتیٰ کہ محض چند الفاظ بولنے یا پرانے نوٹ کے بدلے نیا نوٹ دینے سے بھی۔

 

بے کچھ سے سب کچھ تک

جو شخص کم فائدہ پر قناعت کرے گا وہ بڑے فائدہ کا مالک بنے گایہ ایک ایسا بے خطا اصول ہے جو اپنے اندر ابدی اہمیت رکھتاہے۔آپ جس معاملہ میں بھی اس کو آزمائیں گے یقینی طور پر آپ کامیاب رہیں گے۔

ایک شخص نے بازار میں چھوٹی سی دکان کھولی۔وہ کپڑا دھونے کا صابن اور کچھ اور چیزیں بیچتا تھا۔ اس کی دکان پر بہت جلد بھیڑ لگنے لگی۔دن کے کسی وقت بھی اس کی دکان گاہکوں سے خالی نہ رہتی۔ اس کا را ز یہ تھا کہ وہ دور وپے کا صابن پونے دو روپے میں بیچتا تھا۔آدمی اگر چار صابن خریدے تو عام نرخ کے لحاظ سے اس کا ایک روپیہ بچ جاتا تھا۔ ایک آدمی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پونے دو روپیہ اس صابن کی تھوک قیمت ہے۔دکان دار کو وہ صابن کارخانہ سے پونے دو روپے میں ملتا تھا اور اسی دام پر وہ اس کو گاہکوں کے ہاتھ فروخت کر دیتا تھا۔

اس آدمی نے دکان دار سے پوچھا کہ تم دام کے دام صابن بیچتے ہو۔ پھر تم کو اس میں کیا فائدہ ملتا ہے۔دکان دار نے کہا کہ میری دکان پر اتنا صابن بکتا ہے کہ اس کی 25 پیٹیاں دن بھر میں خالی ہو جاتی ہیں۔میں ان خالی پیٹیوں کو ایک روپیہ فی پیٹی کے حساب سے 25 روپیہ میں بیچ دیتا ہوں ، اس طرح ہر روز میرے 25 روپے بچ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ جب آدمی میرے یہاں سے صابن لیتا ہے تو اکثر وہ کچھ نہ کچھ دوسری چیزیں بھی خرید لیتا ہے ، یہ فائدہ اس کے علاو ہ ہے۔

یہ دکان دار دھیرے دھیرے ترقی کرتا رہا۔ اس کا نفع پہلے 25 روپے روز تھا۔ پھر 50 روپے روز ہوا۔ پھر وہ سو روپے اور دو سو روپے روز تک پہنچا۔ آدمی نے پیسہ بچا کر اپنے بغل کی دکان بھی حاصل کر لی اور دونوں کو ملا کر ایک کافی بڑی دکان بنا لی۔اب اس کا کاروبار اور بڑھا۔یہاں تک کہ دس سال میں وہ شہر کا ایک بڑا دکان دار بن گیا۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے امکانات کس قدر زیادہ ہیں۔حتیٰ کہ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ آدمی آج’’ بے نفع ‘‘ کی تجارت شروع کرے اور کل وہ زبردست نفع والا تاجر بن جائے۔آج وہ اپنے آپ کو ’’بے کچھ ‘‘ پر راضی کر لے اور کل وہی شخص ہو جو ’’سب کچھ ‘‘ کا مالک بنا ہوا ہو۔ مگر دنیا کے ان بے حساب امکانات کو اپنے حق میں واقعہ بنانے کی لازمی شرط صبر اور عقل مندی ہے۔جس کے پاس صرف بے صبری اور نادانی کا سرمایہ ہو اس کے لیے دنیا کے بازار میں کچھ نہیں۔

 

خصوصی صلاحیت

عرصہ ہوا میں نے ایک مضمون پڑھا تھا۔اس کے مغربی مضمون نگار نے بہت سے بڑے لوگوں کے حالات زندگی کو پڑھ کر یہ متعین کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ کون سی مشترک صفت ہے جو کسی بڑے آدمی کو بڑا بناتی ہے۔اس نے اپنی تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ وہ لوگ جو کسی بڑی ترقی کے مقام کو پہنچتے ہیں ان میں دو خاص صفت پائی جاتی ہے :

Curiosity and Discontent

یعنی تجسس اور عدم قناعت۔تجسس ہمیشہ ان کو عمل میں مصروف رکھتا تھا اور عدم قناعت نے انھیں کسی مقام پر رکنے نہیں دیا۔

ولٹشائر(Wiltshire)کی میتھمیٹکس ایڈوائزرمسزانیتااسٹریکر(Mrs Anita Straker) نے اسکولزکونسل کےلیے 108 صفحات پر مشتمل ایک تعلیمی رپورٹ تیار کی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موہوب لڑکوں (Gifted Children) کی صفات کیا ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے الفاظ میں ان میں سے ایک خاص صفت یہ ہے :

Pupils who are impatient with anything that is second best , are probably gifted.

جو طلبہ ایسی چیز پر راضی نہ ہوتے ہوں جو دوسری بہتر چیز ہے،گمان غالب ہے کہ وہ خصوصی وہبی صلاحیت کے مالک ہوں گے ( ہندوستان ٹائمس 2 فروری 1983)

کسی انسان کی یہ نہایت اعلیٰ خصوصیت ہے کہ وہ پہلی بہتر چیز سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوتا ہو۔ یہی خصوصیت آدمی کے لیے تمام خوبیوں اور بڑائیوں کا زینہ ہے۔

یہ مزاج آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کامل سچائی کی طرف بڑھتا چلا جائے اور کسی ادھوری سچائی پر نہ ٹھہرے۔یہ مزاج اس کو پست کرداری سے اٹھاتا ہے اور اعلیٰ کردار والا بناتا ہے۔یہ مزاج اس کو چھوٹی کامیابی پر قانع نہیں ہونے دیتا۔ او ر برابر بڑی ترقیوں کی طرف بڑھاتا رہتا ہے۔یہ مزاج اس کو اس قابل بناتا ہے کہ اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں وہ صرف معیاری صورت کو اپنے سامنے رکھے۔اور اپنی ڈیوٹی کو پوری طرح انجام دے کر خوشی حاصل کرے۔یہ مزاج آدمی کے خود اپنے اندر ایک ایسا محرک رکھ دیتا ہے جو آدمی کو اکساتا رہتا ہے کہ وہ صرف خیراعلیٰ پر ٹھہرے ، اس سے کم کسی چیز پر اپنے کو راضی نہ ہونے دے۔

 

خود ساز ، تاریخ ساز

آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک خود ساز، اور دوسرے تاریخ ساز، خود ساز آدمی کی توجہات کا مرکز اس کی اپنی ذات ہوتی ہے۔اور تاریخ ساز آدمی کی توجہات کا مرکز وسیع تر انسانیت۔

خود ساز آدمی کی سوچ اس کی ذاتی مصلحتوں کے گرد بنتی ہے۔اس کے جذبات وہاں بھڑکتے ہیں جہاں اس کے ذاتی فائدہ کا کوئی معاملہ ہو۔اور جس معاملہ کا تعلق اس کے ذاتی فائدے سے نہ ہو وہاں اس کے جذبات میں کوئی گرمی پیدا نہیں ہوتی۔

خود ساز آدمی اپنے ذاتی نفع کے لیے ہر دوسری چیز کو قربان کر سکتا ہے ، خواہ وہ کوئی اصول ہو یا کوئی قول وقرار ، خواہ وہ کوئی اخلاقی تقاضا ہو یا کوئی انسانی تقاضا۔وہ اپنی ذات کے لیے ہر دوسری چیز کو بھلا سکتا ہے ،وہ اپنی خواہشات کے لیے ہر دوسرے تقاضے کو نظر انداز کر سکتا ہے۔

تاریخ ساز انسان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔وہ اپنی ذات کے خول سے نکل آتا ہے۔وہ برترمقصد کے لیے جیتا ہے۔وہ اصولوں کو اہمیت دیتا ہے نہ کہ مفادات کو۔وہ مقصد کے لیے تڑپنے والا انسان ہوتا ہے نہ کہ مفاد کے لیے تڑپنے والا انسان۔وہ اپنے آپ میں رہتے ہوئے اپنے آپ سے جدا ہو جاتا ہے۔

تاریخ ساز انسان بننے کی واحد شرط خود سازی کو چھوڑنا ہے۔آدمی جب اپنے کو فنا کرتا ہے اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ تاریخ سا ز انسانوں کی فہرست میں شامل ہو سکے۔۔۔ اس کے دل کو جھٹکے لگیں پھر بھی وہ اس کو سہہ لے۔اس کے مفاد کا گھر وندا ٹوٹ رہا ہو پھر بھی وہ اس کو ٹوٹنے دے۔اس کی بڑائی اس کی آنکھوں کے سامنے مٹائی جائے پھر بھی وہ اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کرے۔

تاریخ سازی کے لیے وہ افراد درکار ہیں جو خودسازی کی خواہشات کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر راضی ہو جائیں۔جو صرف اپنے فرائض کو یاد رکھیں اور اپنے حقوق سے دستبرداری پر خود اپنے ہاتھ سے دستخط کر دیں۔

 

ایک کردار ادا کرنے کے لیے

22 ملین ڈالر کے خرچ سے ’’ گاندھی ‘‘ کے نام پر ایک فلم بنی ہے جس میں مہاتما گاندھی کی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔اس فلم کے بنانے والے ایک انگریز سر رچرڈاٹن برو ہیں۔وہ بیس سال سے اس فلم کو بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔کوئی مووی کمپنی اس میں سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتی تھی ، کیونکہ اس فلم کے متعلق ان کا عام خیال یہ تھا کہ وہ بالکل غیر نفع بخش (Totally uncommercial)ہو گی۔مگر بن کنگسلے (Ben Kingsley)نے اتنی کامیابی کے ساتھ گاندھی کا پارٹ ادا کیا کہ یہ فلم آج کامیاب ترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔

بن کنگسلے کے باپ ایک ہندوستانی گجراتی ڈاکٹر تھے۔جنہوں نے ایک انگریز خاتون سے شادی کی۔ ان کا ابتدائی نام کرشنا بھنجی تھا۔ بعد کو انہوں نے اپنا نام بن کنگسلے رکھ لیا۔بن کنگسلے کو گاندھی سے جسمانی مشابہت کی بنا پر اس فلم میں ہیرو کا پارٹ ادا کرنے کے لیے چنا گیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے طویل مدت تک سخت محنت کی۔

بن کنگسلے شوٹنگ سے کافی پہلے ہندوستان آئے۔انہوں نے اپنے سر کو منڈایا تاکہ ان کا سر گاندھی کی طرح گنجا معلوم ہو۔وہ موٹے تھے چنانچہ انہوں نےمسلسل کم کھانا کھاکر اپنا وزن 20 کلو تک گھٹایا اور اپنے کو دبلا بنایا۔سورج میں دیر دیر تک رہے تاکہ ان کا رنگ سانولا دکھائی دینے لگے۔فلم کی کہانی کو پورا کا پورا یاد کر ڈالا۔ انہوں نے اپنے کمرہ کی دیواروں کو مہاتما گاندھی کی تصویروں سے بھر دیا۔ وہ مہاتما گاندھی کی پانچ گھنٹہ کی ڈاکومنٹری کو دیکھتے رہے۔وہ گاندھی کی طرح پائوں توڑ کر بیٹھنے پر قادر نہ تھے۔چنانچہ انہوں نے روزانہ دو گھنٹے کی یو گا ورزش کر کے اپنے کو اس کا عادی بنایا کہ وہ پائوں تو ڑ کر دیر دیر تک بیٹھیں۔اسی کے ساتھ انہوں نے روزانہ دو گھنٹے چر خا چلایا تاکہ وہ شوٹنگ کے وقت بالکل مہاتما گاندھی کی طرح چرخا چلا سکیں۔( نیوز ویک 13 دسمبر 1982)

بن کنگسلے کوایک فلم میں خاص کردار ادا کرنا تھا۔اس کے لیے انہوں نے اتنی تیاریاں کیں۔طویل مدت تک سخت محنت کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ یہ کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں۔ پھر جو لوگ اپنے کو خیر امت کہتے ہیں ان کو تو تاریخ انسانی میں اہم ترین کردار ادا کرنا ہے۔کیا وہ کسی تیاری کے بغیر یہ مشکل رول ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 

فرق کا سبب

ستمبر 1986 میں سی اول (کوریا ) میں دسویں ایشیائی کھیل ( 10th Asian Games) ہوئے ۔ اس 16 روزہ مقابلہ میں سائوتھ کوریا کو مجموعی طور پر سب سے زیادہ میڈل ملے۔چند ملکوں کی تفصیل یہ ہے :

Countries

Gold

Silver

Bronze

Total

China

94

82

46

222

S. Korea

93

55

76

224

Japan

58

76

77

211

Iran

6

6

10

22

India

5

9

23

37

Philippines

4

5

9

18

Thailand

3

10

13

26

Pakistan

2

3

4

9

اس نقشہ کے مطابق تین قوموں (چین ، کوریا ، جاپان ) نے 270 سونے کے میڈل میں سے 245 میڈل حاصل کیے۔سائوتھ کوریا کے مقابلہ میں ہندوستان بہت بڑا ملک ہے ، مگر اوپر کے نقشہ سے ظاہر ہے کہ ہندوستان اس مقابلہ میں سائوتھ کوریا سے بہت پیچھے رہا۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نئی دہلی کے انگریزی اخبار انڈیا ایکسپریس (6اکتوبر 1986) نے لکھا ہے کہ کوریا والوں نے اپنے کھلاڑیوں کو چُننے کے لیے ایک کمپیوٹر کا استعمال کیا اور ہر کھیل کے لوگوں کی تربیت پر ایک ایک ملین ڈالر خرچ کیے۔یہ تربیتی عمل دو سال تک جاری رہا۔ ہندوستان نے اپنا روایتی طریقہ ’’ کوشش کرو ، خواہ ہار جائو ‘‘ اختیار کیا ، جو اس کی پرانی بیماری ، علاقائیت اور اقر بانوازی سے بھی پوری طرح خالی نہ تھا  :

The Koreans used a computer to select their athletes and spent $ a million to train them for each discipline, for two years. India used familiar try-or-miss methods in which the old malady of parochialism and nepotism may not have been at a total discount.

دوسرے لفظوں میں یہ کہ کوریا والوں نے اپنے کھلاڑیوں کا انتخاب ان کے ذاتی جوہر کو دیکھ کر کیا۔ اور ہندوستان میں کھلاڑیوں کا انتخاب زیادہ تر تعلقات کی بنیاد پر کیا گیا۔ کوریا نے بہت سے کھلاڑیوں کے بارہ میں ضروری معلومات کمپیوٹر کے اندر بھر دیں اور پھر کمپیوٹر نے مشینی غیر جانبداری کے ساتھ جو فیصلہ کیا اس کو مان لیا۔اس کے برعکس ہندوستان میں انتخاب کی بنیاد یہ تھی کہ یہ میرا رشتہ دار ہے،یہ میرے علاقہ کا آدمی ہے۔جہاں طریقہ میں اس قسم کا فرق پایا جائے وہاں نتیجہ میں فرق پیدا ہو جانا لازمی ہے۔

اتحاد

 

مل کر کام کرنا

شہد کی تیاری ایک بے حد محنت طلب کام ہے۔بہت سی مکھیاں لگاتار رات دن کام کرتی ہیں تب وہ چیز وجود میں آتی ہے جس کو شہد کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک پھول میں اس کی مقدار بہت تھوڑی ہوتی ہے۔بے شمار پھولوں کا رس جمع کیا جاتا ہے تب کہیں یہ ہوتا ہے کہ شہد کی قابل لحاظ مقدار تیار ہو سکے۔

ایک پونڈ (نصف کلو)شہد تیار کرنے کے لیے شہدکی مکھیوں کو مجموعی طور پر بعض اوقات تین لاکھ میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایک مکھی کی عمر چند مہینے سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے کوئی ایک مکھی تنہا ایک پونڈ شہد تیار نہیں کر سکتی ،خواہ وہ اپنی عمر کا ہر لمحہ پھولوں کا رس جمع کرنے میں لگا دے۔

اس مشکل کا حل شہد کی مکھیوں نے اجتماعی کوشش میں تلاش کیا ہے۔یعنی جو کام ایک مکھی نہیں کر سکی اس کو لاکھوں مکھیا ں مل کر انجام دیتی ہیں۔جو کام ’’ ایک ‘‘ کے لیے نا ممکن ہے وہ اس وقت ممکن بن جاتا ہے جب کہ کرنے والے ’’ لاکھوں ‘‘ ہو گئے ہوں۔

یہ قدرت کا سبق ہے۔اللہ تعالیٰ کے لیے یہ ممکن تھا کہ شہد کے بڑے بڑے ذخیرے زمین پر رکھ دے جس طرح پٹرول اور پانی کے ذخیرے بہت بڑی مقدار میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔مگر شہد کی تیاری کو اللہ نے ایک بے حد پیچیدہ نظام سے وابستہ کر دیا۔ اس حیرت انگیز نظام کے اندر انسان کے لیے بیشما ر سبق ہیں۔ان میں سے ایک سبق وہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔

انسانی زندگی میں کچھ کام ایسے ہیں جن کو ہر آدمی کم وقت میں اپنی ذاتی کوشش سے انجام دے سکتا ہے۔مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو کوئی شخص تنہا انجام نہیں دے سکتا۔ایسے کام کو واقعہ بنانے کی واحد ممکن شکل وہی ہے جو شہد کی مکھی کی مثال میں نظر آتی ہے۔یعنی بہت سے لوگ مل کر اسے انجام دیں۔

تاہم مل کر کام کرنا ہمیشہ ایک قربانی کی قیمت پر ہوتا ہے ، اور وہ قیمت صبر ہے۔فرد کے اندر اٹھنے والے با غیانہ جذبات کو کچلنا ہی وہ چیز ہے جو اجتماعی عمل کو ممکن بناتی ہے۔اس قربانی کے بغیر کبھی اجتماعی عمل ظہور میں نہیں آتا۔

 

حقیقی حل

ایک فارسی شاعر نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے دوست سے سو بار جنگ کی اور سو بار صلح کی۔مگر اس کو ہماری جنگ وصلح کی خبر بھی نہ ہو سکی۔کیوں کہ یہ سب ہم خود ہی خود اپنے اندر کرتے رہے  :

صدبار جنگ کردہ بہ اوصلح کر دہ ایم                او ر اخبر نہ بودہ زصلح وزجنگ ما

یہ بات بظاہر شاعری کی دنیا کی ہے مگر یہ حقیقت کی دنیا کے لیے بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے جس صلاحیت کے افراد درکار ہوتے ہیں وہ بھی عین وہی صلاحیت ہے جس کا ذکر اس شعر میں کیا گیاہے۔یعنی اپنے اندر پیدا ہونے والی شکایت کو خود ہی اپنے اندر ختم کر لینا۔

کوئی بڑا مقصد کوئی شخص تنہا حاصل نہیں کر سکتا۔ہر بڑے مقصد کے لیے بہت سے آدمیوں کی متحدہ کوشش ضروری ہوتی ہے۔مگر متحدہ کوشش ہمیشہ ایک مسئلہ بھی پیدا کرتی ہے۔اور وہ ہے افراد کا باہمی اختلاف۔

جب بھی بہت سے لوگ مل کر کوشش کریں تو لازماً ان کے درمیان طرح طرح کی شکایتیں اور تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔کبھی تقسیم میں کسی کو کم ملتا ہے اور کسی کو زیادہ۔کسی کو با عتبار عہدہ اونچی جگہ ملتی ہے اور کسی کو نیچی۔کسی کی کوئی بات دوسرے کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔کسی کا کوئی عمل دوسرے کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آتا ہے۔غرض بار بار ایک دوسرے کے درمیان ایسی باتیں ہوتی ہیں جو آپس کی تلخی پیدا کریں۔جو ایک کو دوسرے کے خلاف غصہ ، حسد ، انتقام اور عداوت میں مبتلا کر دیں۔

ایسے موقع پر قابل عمل حل صرف ایک ہے۔اور وہ یہ کہ ہر آدمی ایک خود اصلاحی مشین (Self-correcting machine) بن جائے۔وہ اپنے اندر پیدا ہونے والے ہیجان کو خود ہی ٹھنڈا کر لے۔وہ اپنی شکایت کو خود ہی اپنے اندر رفع کر لے۔

خلیفہ دوم عمر فاروق ؓ نے جب خالد بن ولید ؓکو سپہ سالاری کے عہدہ سے معزول کیا تو فوری طور پر حضرت خالد کے دل میں شدید ردعمل پیدا ہوا مگر پھر اسی لمحہ انھوں نے یہ کہہ اپنے آپ کو مطمئن کرلیا کہ تم جو کچھ کر رہے تھے خدا سے انعام پانے کی امید میں کر رہے تھے۔پھر تم کو عُمرسے خفا ہونے کی کیا ضرورت ۔انھوں نے حضرت عمر سے شکایت کرنے کے بجائے اپنی اصلاح آپ کر لی۔

 

اجتماعی عمل

امریکہ کے جہاز ساز کارخانے 50 ہزار ٹن کا ایک ٹینکر 16 مہینے میں بناتے ہیں اور اسپین میں وہ 24 مہینے میں بن کر تیار ہوتا ہے۔مگر جاپان کے جہاز ساز اسی ٹینکر کو صرف آٹھ مہینے میں بنا لیتے ہیں۔

اس جاپانی معجزہ کا راز کیا ہے۔مغربی ماہرین نے مکمل جائزہ کے بعد بتایا ہے کہ اس کی خاص وجہ متحدہ عمل (Team Work) ہے۔جاپان کے کاریگر اور منتظمین اور افسران سب حد درجہ اتحاد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔عمل کے دوران کسی بھی مرحلہ میں ان کا اتحاد ٹوٹتا نہیں۔اس کا نتیجہ انھیں کم وقت میں معیاری سامان کی صورت میں مل رہا ہے۔

جاپانی کلچر اور طریق کار میں اجتماعی ہم آہنگی (Group Harmony) رچی بسی ہوئی ہے ۔ خاندان میں ، کارخانہ میں ، چھوٹے اداروں اور بڑے اداروں کے درمیان ہر جگہ ہم آہنگی جاپانی کیرکٹر کا امتیازی وصف (Distinctive Feature) بن چکا ہے۔جاپانی امور کے ایک ماہر ولیم اوشی (William Ouchi) کے الفاظ میں  :

Every activity in Japan is group activity,and not a spring -board to individual glory and personal advertisement.

The Hindustan Times, February 16, 1986

جاپان میں ہر سرگرمی اجتماعی سرگرمی ہے۔وہاں کوئی سرگرمی انفرادی عظمت یا شخصی اشتہار کا ذریعہ نہیں بنائی جاتی۔

جاپانیوں کی یہ خصوصیت ان کی قومی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔زیادہ بڑی ترقی ہمیشہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ زیادہ بڑی تعداد ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرے۔مل کر کام کرنے میں اصل رکاوٹ یہ ہے کہ افراد کی انفرادی شخصیت اس میں نہیں ابھرتی۔ جس قوم کے افراد میں اپنی انفرادی شخصیت بنانے کا مزاج ہو وہ قوم کبھی متحدہ عمل میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور اسی لیے وہ کوئی بڑی ترقی بھی نہیں کر سکتی۔

بڑی ترقی حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ اتحاد ہے۔اتحاد ایک کو کئی بنا دیتا ہے ، وہ کوشش کی مقدار کو ہزار گنا زیادہ کر دیتا ہے۔

 

اتحاد کا طریقہ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ قاعدہ ہے کہ باری باری ہر معیاد پر مختلف علاقائی گروہوں    (Regional groups)کو صدارت کا موقع دیا جاتا ہے۔پچھلی میعاد میں لا طینی امریکہ کو صدر مقرر ہونا تھا۔مگر جب انتخاب کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا تو لاطینی امریکہ کے ممالک کسی ایک ممبرملک کی صدارت پر متفق نہ ہو سکے۔نتیجہ یہ ہوا 158 ممبران کی پوری اسمبلی سے ووٹ لیا گیا اور عمومی ووٹوں کی کثرت سے اس کا فیصلہ کیا گیا۔یہی صورت اکثر حالات میں پیش آتی ہے۔

موجودہ میعاد میں افریقہ کی باری تھی۔جب یہ مسئلہ زیر غور آیا تو افریقی ممالک نے اتفاق رائے سے منظور کر لیا کہ زامبیا کے مندوب مسٹر پال لوساکا(Paul Lusaka) 39 ویں جنرل اسمبلی کے صدر ہوں گے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 39 واں سیشن ستمبر 1984 میں شروع ہو گا۔واضح ہوکہ افریقی ممالک نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔مثلاً لیبیا پرجوش انقلابی ہے۔مصرمعتدل پالیسی پر عامل ہے۔موزمبیق میں مارکسی حکومت ہے۔زائر ایک قدامت پرست ملک ہے۔ان کے درمیان اندرونی معاملات میں کافی اختلافات ہیں۔اس کے باوجود بین الاقوامی انجمن میں انھوں نے نادر اتفاق رائے کا ثبوت دیا ہے۔

یہ انوکھا واقعہ کیسے ظاہر ہوا،اس سلسلے میں نیو یارک ٹائمس کے نامہ نگار رچرڈبرنسٹین (Richard Bernstein)نے بعض ڈپلومیٹ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔

African unanimity is only achived by

avoiding potentially contentious issues.

افریقی اتحاد رائے صرف اس طرح حاصل کیا گیا ہے کہ انھوں نے اختلافی باتوں کو پس پشت رکھا( ٹائمس آف انڈیا 29 جنوری 1984)

یہی موجودہ دنیا میں اتحاد واتفاق کا واحد یقینی راستہ ہے۔انسانوں کی راہیں ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ ہر معاملہ میں تمام لوگ بالکل متفق الرائے ہو جائیں۔ایسی حالت میں باہمی اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ اتحاد کی خاطر اختلاف کو بازو میں رکھ دیا جائے۔اختلاف کو ختم کر کے اتحاد قائم نہیں ہوتا۔اتحاد ہمیشہ صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب کہ کچھ لوگ اپنے اختلاف کو صبر کے خانہ میں ڈالنے پر راضی ہو جائیں۔

 

متحدہ عمل

اسٹیم انجن چلانے والا آدمی آگ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مادی مجموعہ متحرک ہو جس کو مشین کہتے ہیں۔اسی طرح مل کر کام کرنے والوں کو برداشت کی زمین پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔جو لوگ برداشت کے لیے تیار نہ ہوں وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام بھی نہیں کر سکتے۔

جب بھی کچھ لوگ باہم مل کر کام کریں تو لازماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک کودوسرے سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ایک کے دل میں دوسرے کے خلاف شکایت کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ایسا بہر حال ہوتا ہے۔ جمع ہونے والے لوگ انفرادی طور پر خواہ کتنے ہی اچھے ہوں مگر ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کے منفی جذبات لازماً پیدا ہوتے ہیں۔ان کی پیدائش کو کسی حال میں روکا نہیں جا سکتا۔

ایسی حالت میں متحدہ کوشش اور مشترکہ عمل کو کیسے ممکن بنایا جائے۔اس کی ایک ہی صورت ہے ۔ اور وہ ہے اختلاف کے باوجود متحد رہنا۔ لوگوں کو شعوری طور پر اتنا بیدار ہونا چاہئے کہ وہ ہر شکایت کو پی جائیں ۔ہر جذباتی ردعمل کو اپنے سینہ میں دفن کر دیں۔وہ اتحاد کو باقی رکھنے کی خاطرہراختلافی بات کو برداشت کرتے رہیں ۔

یہ مطالبہ کسی نا ممکن چیز کا مطالبہ نہیں ہے۔یہ عین وہی چیز ہے جس کو ہر ا ٓدمی عملاً اپنے گھر میں اختیار کیے ہوئے ہے۔ایک گھر جس کے اندر چند افرادِ خاندان مل کر رہتے ہوں ان میں روزانہ کسی نہ کسی بات پر ناگواری پیش آتی ہے۔روزانہ ایک کے دل میں دوسرے کے خلاف شکایتی جذبات ابھرتے ہیں۔مگر پھر خونی رشتہ غالب آتا ہے۔بار بار ناگواری پیدا ہوتی ہے اور بار بار باہمی محبت کا جذبہ اسے ختم کرتا رہتا ہے۔اس طرح گھر کا اتحاد برقرار رہتا ہے۔ہرگھراختلاف کے باوجود متحد رہنے کی عملی مثال ہے۔

یہی چیز اجتماعی زندگی میں شعور کے تحت ظہور میں آتی ہے۔خاندانی زندگی میں جو واقعہ محبت کے جذبہ کے تحت پیش آتا ہے وہی واقعہ اجتماعی زندگی میں شعوری فیصلہ کے تحت انجام دیا جاتا ہے۔گھر کے اندر دل کا تعلق لوگوں کو باہم جڑے رہنے پر مجبورکرتا ہے اور گھر کے باہر لوگوں کا عقلی فیصلہ انھیں اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اتحاد کو باقی رکھنے کی خاطر ہر ناگواری کو گوارا کرتے رہیں۔

 

اختلاف دشمن کا ہتھیار

اسرائیل کے سابق وزیر جنگ موشے دایان( 1981۔ 1915)نے اپنی خود نوشت سوانح عمری The Story of My Life))میں لکھا تھاکہ غیرمتحدعرب جوہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں،اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتے۔

The Arabs disunited and at odds with one another over every issue, big and small, present no threat.

اب 1983 کے نصف آخر میں خود فلسطینی تنظیم (الفتح ) میں اختلاف اور باہمی ٖٹکرائو شروع ہو گیا ہے۔لبنان میں فلسطینیوں کی ناکامی کے بعد ان کے ایک بڑے طبقہ میں یاسرعرفات کی قیادت پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔وہ ابو موسیٰ کے جھنڈے کے نیچے یاسرعرفات کو قیادت سے ہٹانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔دوسری طرف یاسرعرفات قیاد ت کے منصب سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس طرح فلسطینیوں میں دو گروہ بن گئے ہیں اور وہ آپس میں خوں ریزتصادم میں مصروف ہیں۔

ان حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اسرائیل کے وزیر خارجہ یتزاک شامر( (Yitzhak Shamirکا قول نقل کیا ہے۔اس نے کہاکہ میں یہ کہوں گاکہ یہ اسرائیل کے حق میں اچھا ہے کہ فلسطینی تنظیم کے درمیان اندرونی جھگڑے ، علیحدگی اور تقسیم پائی جا رہی ہے :

I must say that it is good for Israel that there are domestic quarrels, breakups and divisions within the organization of the PLO.

واشنگٹن پوسٹ نے مزید نقل کیا ہے کہ اسرائیل کے محکمہ جنگ کے ایک افسر نے کہا کہ اسرائیل میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ لبنان کے شمالی اور مشرقی حصہ میں یاسرعرفات کے خلاف بڑھتی ہوئی بغاوت کا یہ نتیجہ ہواہے کہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں پر فلسطینی حملوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔اسرائیل کے محکمہ جنگ کے دوسرے افسر نے اس کے جواب میں کہا  :

They are busy themselves, and that is good for us.

وہ لوگ خود اپنے درمیان مصروف ہیں اور یہ ہمارے لیے بہت اچھا ہے (گارجین،3 جولائی 1983) آپس میں لڑنا گویا اپنا دشمن آپ بننا ہے۔یہ اس تخریبی کام کو خود اپنے ہاتھوں انجام دینا ہے جس کو دشمن اپنے ہاتھوں سے انجام دینا چاہتا ہے۔

 

ایک تجربہ

گجرات کی ایک مسلم برادری ہے جس کا نام مَومن برادری ہے۔عام طور پر اس کو چلیا برادری کہا جاتا ہے۔یہ ایک تجارت پیشہ برادری ہے۔ان کے افراد مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔بمبئی میں یہ برادری تقریباً 25 ہزار کی تعداد میں آباد ہے۔

تجارت سے آدمی کے اندر ایک مخصوص کردار پیدا ہوتا ہے۔یہ کردار اس برادری میں پوری طرح موجود ہے۔مثلاً،وہ ملازمت کرنے کے بجائے اپنی محنت سے کمانا پسند کرتے ہیں۔ان کی زندگی نہایت سادہ ہوتی ہے۔حتی کہ شادیوں میں ان کے یہاں جہیز کا کوئی رواج نہیں۔وہ سیاسی جھگڑوں سے بالکل دور رہتے ہیں۔ان کے درمیان باہمی اختلافات دوسرے مسلمانوں کی نسبت سے بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔اور اگر کوئی باہمی اختلاف پیدا ہو جائے تو وہ اپنے بڑوں کے فیصلہ پر راضی ہو کر اختلاف ختم کر دیتے ہیں۔وہ اپنے اختلافی معاملات کے لیے کبھی عدالت میں نہیں جاتے۔

چلیا برادری کے اس مزاج کی وجہ سے اس کو دینی فائدہ بھی مل رہا ہے اور دنیوی فائدہ بھی۔اس کے مزاج کی سادگی ، حقیقت پسندی ، بات کو مان لینے،کانتیجہ یہ ہواکہ تبلیغی تحریک کو اس نے بہت جلد قبول کر لیا۔ تبلیغ میں شامل ہونے سے مزید ان کے اندر اعتماد اور یقین کی نفسیات پیدا ہوئی۔وہ ترقی کی راہ میں آگے بڑھتے چلے گئے۔

چلیا برادری کی مذکورہ نفسیات کا دوسرا زبردست فائدہ انھیں اتحاد کی صورت میں ملا۔اس برادری کے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ بہت جلد تجارتی شرکت کو قبول کر لیتے ہیں۔ان کی اکثر تجارتیں آپس کے مشترک سرمایہ سے چل رہی ہیں۔ان کا ایک آدمی کہے گا کہ فلاں ہوٹل دس لاکھ روپے میں بک رہا ہے۔ آئو ہم مل کر اس کو خرید لیں۔اس کو نہایت آسانی سے سرمایہ لگانے والے افراد مل جائیں گے اور وہ مشترک سرمایہ سے ہوٹل کو خرید کر اس کو منظم انداز سے چلاتے رہیں گے اور ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں پیدا ہو گا۔

موجودہ زمانہ میں کوئی بڑا کام کرنے کے لیے بڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سرمایہ عام طور پر بینک فراہم کرتے ہیں۔اسلام میں چونکہ سود کو حرام قرار دیا گیا ہے اس لیے بہت سے ’’ ترقی پسند ‘‘ یہ کہتے ہیں کہ اسلام اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے کیوں کہ اقتصادی ترقی بینک کے سودی قرضوں سے ہوتی ہے اور سودی قرضہ پر کاروبارکر نے کی اسلام میں گنجائش نہیں۔

بمبئی کی چلیا برادری اس الزام کی عملی تردید ہے۔چلیا برادری کا نمونہ بتاتا ہے کہ اقتصادی عمل کے لیے سودی مالیات لازمی نہیں ہیں۔یہاں سودی مالیات کا ایک بدل موجود ہے۔اور وہ ہے مشارکتی مالیات۔یعنی حصہ داری کی بنیاد پر مشترک سرمایہ فراہم کرنا اور اس کے ذریعہ سے کئی آدمیوں کا مل کر کاروبار کرنا۔

یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانہ میں کو آپریٹو سسٹم کہاجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کو آپریٹو نظام سودی نظام کا اسلامی بدل ہے۔مگر کو آپریٹونظام کے تحت اقتصادی عمل جاری کرنے کے لیے ایک لازمی شرط ہے اور وہ ہے اتحاد کا مزاج۔چلیا برادری میں یہ مزاج پوری طرح پایا جاتا ہے اس لیے ان کے درمیان تجارتی مشارکت کامیاب ہے۔عام مسلمانوں میں یہ مزاج موجود نہیں۔اس لیے ان کے یہاں تجارتی مشارکت بھی نہیں پائی جاتی۔

اتحادو اتفاق ایک ایسی چیز ہے جو ہر اعتبار سے مفید ہے ، دین کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے اعتبار سے بھی۔مگر یہی وہ سب سے قیمتی چیز ہے جو آج مسلمانوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔

زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت قومی مزاج کی ہوتی ہے۔قوم کے اندر اگر تعمیری مزاج ہو تو اس کا ہر معاملہ اپنے آپ درست ہوتا چلا جائے گا۔اس کے اندر وہی قیادت ابھرے گی جو واقعۃً صحیح قیادت ہو۔ غیر صالح قیادت اس کے اندر اپنی زمین نہ پا سکے گی۔اس کے افراد کسی مفید کام کے لیے نہایت آسانی سے متحد ہو جائیں گے۔دوسری قوموں سے اس کا غیر ضروری ٹکرائواپنے آپ ختم ہو جائے گا۔

قومی مزاج کے صالح ہونے پر ہی قوم کی تمام ترقیوں کا انحصار ہے۔اور اگر قوم کا مزاج بگڑا ہوا ہو تو ایسی قوم کو کوئی چیز بربادی سے نہیں بچا سکتی۔اگر آپ کو قوم کی اصلاح کرنی ہو تو اس کے مزاج کی اصلاح کر دیجئے۔اس کے بعد تمام چیزوں کی اصلاح اپنے آپ ہو جائے گی۔

 

اتحاد کی قیمت

آج ہر آدمی اتحاد پر بول رہا ہے۔ہر آدمی اتحاد پر لکھ رہا ہے۔مگر کہیں بھی اتحاد قائم نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔اسی طرح اتحاد کی بھی ایک قیمت ہے۔لوگ اتحاد کی باتیں کرتے ہیں مگر اتحاد کی قیمت دینا نہیں چاہتے،یہی وجہ ہے کہ کہیں اتحاد قائم نہیں ہوتا۔

اتحاد جب ٹوٹتا ہے توکیوں ٹوٹتا ہے۔اس کی وجہ صرف ایک ہے۔اور وہ ہے،اپنے اندر پیدا ہونے والے بے اتحادی کے جذبات کو ختم نہ کرنا۔یہ دنیا دارالامتحان ہے۔یہاں مختلف وجوہ سے ایک دوسرے کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ان جذبات کو اگر آپ اپنے اندر کچل دیں تو اتحاد قائم رہے گا۔اور اگر ان جذبات کو نہ کچلیں تو وہ ظاہر ہو کر اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گے۔

کبھی ایک آدمی کو دوسرے آدمی سے شکایت ہو جاتی ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص آپ کو اپنے مفاد کی راہ میںحائل نظر ا ٓتا ہے۔کبھی دوسرے کی ترقی کو دیکھ کر اس کے خلاف حسد کا جذبہ سینہ میں جاگ اٹھتا ہے۔کبھی فخر اور غرور کی نفسیات کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ دوسرے کو ذلیل اور بے قیمت کر کے خوشی حاصل کی جائے۔

اس قسم کے تمام مواقع آدمی سے ایک قیمت مانگتے ہیں۔یہ قیمت کہ وہ اتحاد اور تعلق کی فضا کوباقی رکھنے کے لیے اپنے آپ کو دبائے وہ شکایت اور تلخی کو برداشت کر لے۔وہ اپنے مفاد کی بربادی پر راضی ہو جائے۔وہ دوسرے کی ترقی پر خوش ہونے کا حوصلہ پیدا کرے۔ وہ گھمنڈ کے جذبات کو تواضع کے جذبات میں تبدیل کر لے۔یہی شخصی قربانی، اجتماعی اتحاد واتفاق کا واحد راز ہے۔

اس قسم کے مواقع کا پیش آنا لازمی ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ موجودہ دارالامتحان میں ایسے مواقع پیش نہ آئیں۔یہی مواقع دراصل اتحاد یابےاتحادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔آدمی اگر ایساکرے کہ وہ اتحاد کو توڑنے والے جذبات کواپنے سینہ میں دبالے تو وہ معاشرہ کے اندر اتحاد کو باقی رکھے گا۔اگر وہ ان جذبات کو ظاہر ہونے کے لیے کھلا چھوڑ دے تو معاشرہ کے اتحاد کو برباد کر دے گا۔

دوسروں سے نہ لڑنے کے لیے اپنے آپ سے لڑنا پڑتا ہے۔چونکہ لوگ اپنے آپ سے لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اس لیے دوسروں سے ا ن کی لڑائی بھی ختم نہیں ہوتی۔

 

اتحاد کا راز

چڑیا گھر میں سینکڑوں لوگ موجود تھے۔کوئی کھلے سبزہ پر بیٹھا ہوا کھا پی رہا تھا۔کوئی طرح طرح کے جانوروں کو دیکھ رہا تھا۔کوئی اِدھر اُدھر بے فکری کے ساتھ گھوم رہا تھا۔

اتنے میں دھاڑنے کی آواز آئی اور اسی کے ساتھ یہ خبر اڑی کہ ایک شیر اپنے کٹہرے سے باہر آگیا ہے۔یہ سنتے ہی تمام لوگ بیرونی گیٹ کی طرف بھاگے۔جو لوگ اب تک ’’ مختلف ‘‘ نظر آرہے تھے، وہ سب کے سب ’’ متحد ‘‘ ہو کر ایک رخ پر چل پڑے۔ہرقسم کی مختلف سرگرمیاں ختم ہو کر ایک نقطہ پر مرتکز ہو گئیں۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح شدت خوف رایوں کے تعدد کو ختم کر دیتا ہے۔ایسے وقت میں ہر آدمی اسی ایک چیز کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو سب سے زیادہ قابل توجہ ہے۔ ہر آدمی اسی ایک چیز سے ڈرنے لگتا ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے کے قابل ہے۔ہرآدمی کا خیال اسی ایک چیز کی طرف لگ جاتا ہے جس کی طرف دوسرے آدمی کا خیال لگا ہوا تھا۔

آخری قابل لحاظ چیز ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔آخری چیز میں تعدد نہیں۔لوگوں کے درمیان اختلاف اس لیے ہوتا ہے کہ لوگ آخری چیز پر نہیں ہوتے۔آدمی کے اوپر جب شدید ترین اندیشہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو دوسرے اور تیسرے درجہ کی تمام چیزیں اپنے آپ حذف ہو جاتی ہیں۔اس وقت لازماً ایسا ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کی توجہ ’’ آخری اہم ترین چیز ‘‘ کی طرف لگ جاتی ہے۔اس سے کم درجہ کی تمام چیزیں خود بخود حذف ہو جاتی ہیں۔اورجہاں آخر سے پہلے کی تمام چیزیں حذف ہو جائیں وہاں اتحاد کے سوا اور کچھ نہ ہو گا۔

اختلاف اس صورت حال کا نام ہے کہ لوگوں کی نظر یں آخری اہم ترین چیز پر لگی ہوئی نہ ہوں ۔ اس لیے اتحاد کی واحد کامیاب تدبیر یہ ہے کہ لوگوں کی نظریں کم اہم یا غیر اہم چیزوں سے ہٹا دی جائیں۔ کسی ملک پر دشمن کے حملہ کے وقت یہی چیز ہوتی ہے۔چنانچہ ایسے موقع پر پوری قوم متحد ہو جاتی ہے۔دشمن کے خطرہ سے زیادہ بڑا خطرہ خداکی پکڑ کا خطرہ ہے۔اس لیے جس قوم میں خدا کا ڈر پیدا ہو جائے وہ لازمی طور پر دنیا کی سب سے زیادہ متحد قوم بن جائے گی۔

مطالعہ بتاتا ہے کہ دشمن کے خطرہ کے وقت جانور بھی متحد ہو جاتے ہیں۔خطرناک سیلاب میں کتااور بلی یا نیولا اور سانپ دونوں ایک جگہ چپ چاپ بیٹھے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔مگر یہ اتحاد کی حیوانی سطح ہے۔انسانی اتحاد وہ ہے جو خدا کے خوف اور آخرت کے فکر سے پیدا ہو۔یہ دوسرا اتحاد زیادہ اعلیٰ ہے اور زیادہ پائیدار بھی۔

 

شکایات

ہندوستان کی آزادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔دیہات کے ایک آدمی شہر آئے اور اپنے ایک ملاقاتی کے یہاں مقیم ہوئے۔ان کی ضیافت کے لیے گھر کے اندر سے خربوزہ بھیجا گیا۔ایک بڑی پلیٹ میں خربوزہ کے ساتھ چھری رکھی ہوئی تھی۔انھوں نے جب اس کو دیکھا تو سخت حیران ہوئے۔انھوں نے کہا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خربوزہ اور چھری کا کیا جوڑ ہے۔حتی ٰ کہ انھوں نے خربوزہ کھائے بغیر اسے لوٹا دیا۔

بعد کو ایک شخص نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ خربوزہ کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سے دبا کر اس کو توڑا اور کھا گئے۔پھر یہ چھری کس لیے۔ میںتو اسے ٹونا ٹوٹکا سمجھا، اس لیے میں نے اسے نہیں کھایا۔

اسی قسم کا ایک اور واقعہ مذکورہ شخص کے ساتھ رات کو پیش آیا۔ رات کو جب ان کے سونے کے لیے بستر بچھایا گیا تو ان کے بستر پر ایک تکیہ بھی تھا۔ وہ رات بھر تکیہ کو دیکھتے رہے اور سونہ سکے۔بعد کو اس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ میں تو یہی سمجھا کہ اس کے اندر مال ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس’’ گٹھری ‘‘کی رکھوالی کروں یا سوئوں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے کے بارے میں شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔حتیٰ کہ وہ اس کے خلاف سخت برہم ہو جاتا ہے۔اپنے طور پر وہ سمجھتاہے کہ اس کی شکایت اور برہمی بالکل بجا ہے ۔ حالانکہ اس کی وجہ صرف اس کا ناقص علم ہوتاہے۔پوری صورت حال سے بے خبری کی بنا پر وہ بطور خود ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور اس پر شدت سے قائم ہو جاتا ہے۔حالانکہ اصل واقعہ کے اعتبار سے اس کی شکایت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔

اس برائی سے بچنے کی ترکیب قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ جب بھی کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کر لو۔اگر آدمی واقعۃً سنجیدہ ہو تو وہ دو میں سے کوئی ایک رویہ اختیار کرے گا۔یا تو سنی ہوئی بات کو بھلا دے گا اور اس کا کوئی چرچا نہیں کرے گا۔اور اگر کسی وجہ سے وہ اس کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہ متعلقہ شخص سے اس کی تحقیق کرے گا۔اور تحقیق کے بعد جو بات سامنے آئے گی اس کو مان لے گا۔تحقیق کے بغیر شکایتوں کا چرچاکرناجتنا غلط ہے اتنا ہی غلط یہ بھی ہے کہ تحقیق کے بعد بھی آدمی اپنی رائے پر قائم رہے۔متعلقہ شخص کی تردید کے باوجود وہ اس کو مسلسل دہراتا رہے۔

بیکار بھاو بِکو گے

شری ہردیوسنگھ المست (1983۔1927) انگریزی اور پنجابی زبان کے شاعرتھے۔وہ اکثر سادہ مثالوں میں بڑی گہری باتیں کیا کرتے تھے۔

شری المست جی نے ایک بار اپنا ایک گیت سنایا۔یہ گیت پنجابی زبان میں تھا۔اس گیت میں موٹرکار کے پرزوں کو خطاب کیا گیا تھا۔شاعر نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تھا کہ اے پرزو،تم اپنے انجن کے ساتھ جڑے رہو۔اسی میں تمہاری قیمت ہے۔اگر تم اپنے انجن سے الگ ہو گئے تو یاد رکھو کہ تم اس دنیا میں بے کار لو ہے کے بھائو بکو گے۔

یہ تمثیل بہت با معنی ہے۔ایک مشین کے اندر بہت سے پرزے ہوتے ہیں۔مگر پرزے کی اہمیت اپنی مشین سے جڑے رہنے میں ہے۔مشین سے جڑکر ایک پرزہ انجن کا حصہ ہوتا ہے۔مجموعی اعتبار سے وہ انجن کہا جاتا ہے۔لیکن پرزہ اگر اپنی مشین سے الگ ہو جائے تو وہ اپنی ساری اہمیت کھو دے گا۔اب وہ کباڑخانہ کا حصہ ہو گا نہ کہ مشین کا حصہ۔اب اس کی قیمت ’’لو ہے ‘‘کی ہو جائے گی جب کہ اس سے پہلے اس کی قیمت مشین کی تھی۔

یہی معاملہ انسان کا ہے۔انسان اپنے پورے مجموعہ میں شامل ہو تو وہ عظیم تر مجموعہ کا جزء ہے۔متحد ہونے کی صورت میں ایک فرد کی بھی وہی قیمت ہو جاتی ہے جو پورے مجموعہ کی قیمت ہے۔مگر جو فرد اتحاد کے بندھن سے الگ ہو جائے وہ بس ایک فرد ہے۔اس کی مثال اس پر زہ کی سی ہے جو اپنے انجن سے الگ ہو گیا ہو۔ایسا پرزہ کباڑخانہ میں جا کر لوہے کے بھائو بکتا ہے۔اسی طرح فرد اپنے مجموعہ سے الگ ہو کر اپنی قیمت کھو دیتا ہے۔

پرزہ کو انجن کا جزء بننے کے لیے اپنی انفرادی ہستی کھو دینی پڑتی ہے۔اسی طرح فرد کو بھی متحدہ مجموعہ کا جزء بننے کے لیے اپنی انفرادیت کو کھونا پڑتا ہے۔یقینا فرد کے لیے یہ ایک بھاری قیمت ہے ۔ مگر اس دنیا میں کوئی بھی چیز قیمت دئیے بغیرنہیں ملتی۔فرد کی تسکین کے لیے یہ کافی ہے کہ اس نے اتحاد کی جو قیمت دی تھی اس سے بڑی چیز اس نے اپنے لیے پالی۔

’’ لوہا ‘‘اگر اپنی انفرادیت کو کھو کر ’’مشین ‘‘ کا درجہ حاصل کر لے تو یہ اس کے لیے کھونا نہیں ہے بلکہ وہ سب سے بڑی چیز پا لینا ہے جس کی وہ اس دنیا میں تمنا کر سکتا ہے۔

بے غرضی

 

نفرت کی تیزاب

مغرب کے ایک ماہر نفسیات کا قول ہے کہ نفرت کی مثال ایک قسم کے تیزاب کی سی ہے۔ایک عام برتن میں اس کو رکھا جائے تو وہ اپنے برتن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائے گا جتنا اس کو جس پر وہ تیزاب ڈالا جانے والا ہے۔

Hatred is like an acid. It can do more damage to the container in which it is stored than to the object on which it is poured.

اگر آپ کو کسی کے خلاف بغض اور نفرت ہو جائے اور آپ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائیں تو جہاں تک آپ کا تعلق ہے ،آپ کے سینے میں تورات دن ہر وقت نفرت کی آگ بھڑکتی رہے گی۔مگر دوسرے شخص پر اس کا اثر صرف اس وقت پہنچتاہے جب کہ آپ عملاً اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔مگر ایسا بہت ہی کم ہوتاہے کہ آدمی کسی کو وہ نقصان پہنچا سکے جو اس کو وہ پہنچانا چاہتا ہے۔ نفرت کے تحت عمل کرنے والے کا منصوبہ بیشتر حالات میں ناکام رہتا ہے۔

مگر جہاں تک نفرت کرنے والے کا تعلق ہے ، اس کے لیے دو میں سے ایک عذاب ہر حال میں مقدر ہے۔جب تک وہ اپنے انتقامی منصوبہ میں کامیاب نہیں ہوا ہے انتقام کی آگ میں جلتے رہنا اور اگر بالفرض کامیاب ہو جائے تو اس کے بعد ضمیر اس کا پیچھا کرتا ہے۔ وہ اپنے حریف کو قتل کر کے خود بھی اپنے چین کو ہمیشہ کے لیے قتل کر لیتا ہے۔انتقام کے جنون میں اس کا انسانی احساس دبا رہتا ہے مگر جب حریف پر کامیابی کے نتیجہ میں اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑتا ہے تو اس کے بعد اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور ساری عمر اس کو ملامت کرتا رہتا ہے کہ تم نے بہت برا کیا۔

فوجداری کے ایک وکیل نے ایک بار راقم الحروف سے کہا کہ میرا سابقہ زیادہ تر ایسے لوگوں سے پیش ا ٓتا ہے جن پر قتل کا الزام ہوتا ہے۔مگر میں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی قاتل دیکھے سب کو میں نے پایا کہ قتل کے بعد وہ اپنے قتل پر پشیمان تھے۔وقتی جوش میں آکر انھوں نے قتل کر دیا مگر جب جوش ٹھنڈا ہوا تو ان کا دل انھیں ملامت کرنے لگا۔یہی ہر مجرم کا حال ہے۔کوئی مجرم اپنے کو احساس جرم سے آزاد نہیں کر پاتا۔ جرم کے بعد ہر مجرم کا سینہ ایک نفسیاتی قید خانہ بن جاتا ہے جس میں وہ مسلسل سزا بھگتتا رہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ منفی کاروائی سب سے پہلے اپنے خلاف کاروائی ہے۔منفی کاروائی کا نقصان آدمی کی اپنی ذات کو پہنچ کر رہتا ہے خواہ وہ دوسروں کو پہنچے یا نہ پہنچے ۔

 

مزاج کی اہمیت

ٹوائیٹاموٹرکمپنی جاپان کی ایک کار بنانے والی کمپنی ہے۔پچھلے تقریباً 30 سال میں کام کا ایک دن ضائع کئے بغیر اس نے اپنا پیداواری عمل جاری رکھا ہے۔یہ صرف ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاپان میں صنعتی ترقی کی اتنی تیز رفتاری کی وجہ کیا ہے۔امریکہ کی جنرل موٹر ز کارپوریشن اور فورڈموٹرکمپنی دنیا کی سب سے بڑی موٹرسازکمپنیاں سمجھی جاتی ہیں۔مگر امریکہ کی ان کمپنیوں میں سالانہ پیداوار کا اوسط فی مزدور گیارہ کاریں ہیں۔جب کہ جاپان کی مذکورہ موٹرکمپنی میں سالانہ پیدا وار کا اوسط فی مزدور 33 کاریں ہیں۔

جاپان کی اس غیرمعمولی صنعتی ترقی کا راز اس کے مزدور ہیں۔جاپانی مزدور کا تعمیری مزاج جاپان کی سب سے بڑی دولت ہے۔یہی وجہ ہے کہ جاپان میں اگرچہ کوئلہ ، لوہا ، پٹرول اور دوسری دھاتیں یا تو بالکل پیدا نہیں ہوتیںیا بہت کم پیدا ہوتی ہیں اس کے باوجو د جاپان کی صنعتی ترقی کی رفتار دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔جاپانی مزدور کے مزاج میں وہ کون سی بات ہے جو جاپان کے لیے سب سے بڑی  دولت بن گئی ہے۔ایک مبصر کے الفاظ میں وہ حسب ذیل ہے :

A national spirit of compromise and co-operation and a willingness to endure short-term setbacks for the long-term good of the nation, company or a family.

جاپانیوں کی یہ قومی سیرت کہ وہ ہمیشہ مصالحت اور تعاون کے لیے تیار رہتے ہیں۔قوم یاکمپنی یا خاندان کے وسیع تر مفاد کی خاطر وہ وقتی نقصان کو سہنے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں۔(ہندوستان ٹائمس 25 اگست 1981)

کسی قوم کی تعمیر میں سب سے اہم چیز اس کے افراد کا مزاج ہے۔افراد کا مزاج اگر بگڑا ہوا ہے تو قوم کو تباہ ہونے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی اور اگر افراد کا مزاج درست ہے تو ایسی قوم ضرور کامیاب ہو کر رہتی ہے خواہ اس کے دشمنوں کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

قوم کی تعمیر میں افرادکا درجہ وہی ہے جو کسی عمارت میں اینٹوں کا ہے۔کچی اینٹوں سے بنی ہوئی عمارت ایک بے اعتبار عمارت ہوتی ہے۔کوئی بھی حادثہ اسے گرا سکتا ہے۔اس کے بر عکس جو عمارت پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہو اس پر پورا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔وہ سیلاب اور طوفان کے علی الر غم زمین پر کھڑی رہتی ہے۔ہر آندھی جو آتی ہے وہ اس سے ٹکرا کر واپس چلی جاتی ہے ، وہ اس کا کچھ بگاڑنے میںکامیاب نہیں ہوتی۔

 

اپنے لیے کچھ دوسروں کے لیے کچھ

سر رچرڈ ڈابسن ( Sir Richard Dobson) انگلستان کے ایک کامیاب صنعت کار ہیں وہ 31سال تک بر ٹش،امیریکن،ٹوبیکو(British American Tobacco)کے اعلیٰ ذمہ دار رہے ہیں۔وہ ایک سال تک برٹش لیلینڈ (British Leyland) کے چیئرمین رہے ہیں۔یہ فرم دومنزلہ بس بنانے کے لیے بہت مشہور ہے۔

سر رچرڈ ڈابسن آج کل لندن کے ایک خاص علاقہ ،رچمنڈ (Richmond) میں مارچ منٹ روڈ (Marchmont Road) پر رہتے ہیں۔یہ لندن کی ایک نہایت پرسکون سڑک ہے اور صرف کروڑ پتی قسم کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔

حال میں ایسا ہواکہ رچمنڈ علاقہ کی ایک سڑک خراب ہو گئی۔اور اس پر ازسرنو تعمیرکا کام چھیڑنا پڑا۔ اس سڑک پر لندن کی بس نمبر 65 چلتی تھی۔چونکہ یہ سڑک تعمیری کام کی وجہ سے نا قابل استعمال ہو رہی تھی اس لیے عارضی طور پر اس کا روٹ بدل دیا گیا اور کچھ دنوں کے لیے اس کو مارچ منٹ روڈ سے لے جایا جانے لگا۔

سر رچرڈ ڈابسن اگرچہ ایک بہت بڑے مکان میں رہتے ہیں تاہم اپنے مکان کے سامنے کی سڑک سے دھواں نکالنے والی بس کا گزرنا انھیں پسند نہیں آیا۔گارجین (14 اگست 1983)نے نقل کیا ہے کہ انھوں نے لندن کے اخبار میں اپنا ایک احتجاجی خط چھپوایا جس میں انھوں نے تحریر کیا تھا کہ تنہا بس کے ڈیزل ایندھن کی بو ہی توہین آمیز اور صحت کے لیے خطرناک ہے  :

The smell of the diesel fuel alone is an affront and a health hazard.

سر رچرڈ ڈابسن سگریٹ اور بس کے تاجر ہیں۔یہ دونوں چیزیں وہ ہیں جو دھواں نکال کر فضا خراب کرتی ہیں۔وہ ساری زندگی دھویں کا کاروبار کرتے رہے۔یہ دھواں جب تک دوسروں کے گھر میں پہنچ رہا تھا انھیں اس کی خرابی کا احساس نہیں ہوا۔ مگر ایک بار جب اتفاق سے وہ ان کے اپنے گھر کے اندر پہنچ گیا تو وہ چیخ اٹھے۔

ہر آدمی اپنےلیے کچھ چاہتا ہے اور دوسرے کے لیے کچھ ، اور بلاشبہ یہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

 

کام یا نام

مولانا شبلی نعمانی سے کسی نے پوچھاکہ بڑاآدمی بننے کا آسان نسخہ کیا ہے۔انھوں نے جواب دیاکسی بڑے آدمی کے اوپر کیچڑ اچھالنا شروع کر دو۔

اصل یہ ہے کہ کام کی دو قسمیں ہیں۔ایک کام وہ ہے جو معروف میدانوںمیں ہوتا ہے ، دوسرا وہ جو غیرمعروف میدان میں کیا جاتا ہے۔معروف میدان میں زور دکھانے والا آدمی فوراً لوگوں کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔اس کے بر عکس غیر معروف میدان میں محنت سے آدمی کو نہ شہرت ملتی ہے اور نہ مقبولیت۔جس چیز کا عوام میں چرچا ہو اس کے ساتھ اپنے کو ملانے میں آپ کا چرچا بھی بڑھے گا۔اور جس چیز کا عوام میں چرچا نہ ہو اس کے ساتھ لگنے میں آپ بھی چرچے سے محروم رہیں گے۔

اگر آپ کسی مسلمہ شخصیت کے خلاف بولنے لگیں۔کسی مشہور معاملہ کو اپنا نشانہ بنائیں،کسی حکومت سے ٹکرائو شروع کر دیں۔کوئی عالمی عنوان لے کر جلسہ جلوس کی دھوم مچائیں تو فوراًآپ اخباروں کے صفحہ اول میں چھپنے لگیں گے۔لوگوں کے درمیان آپ پر تبصرے شروع ہو جائیں گے۔آپ بہت سے لوگوں کے خیالات کامرجع بن جائیں گے۔آپ جلسہ کا اعلان کریں گے تو بھیڑ کی بھیڑوہاں جمع ہوجائے گی۔آپ چندے کا مطالبہ کریں گے تو لوگ آپ کو روپیہ میں تول دیں گے۔

لیکن اگر آپ خاموش تعمیری کاموں میں اپنے آپ کو لگائیں۔ ’’ گنبد ‘‘ کے بجائے ’’ بنیاد ‘‘ سے اپنے کام کا آغاز کریں۔ انقلابی پوسٹر چھاپنے کے بجائے خاموش جدوجہد کو اپنا شعار بنائیں۔ملت کا جھنڈابلند کرنے کے بجائے فرد کی اصلاح پر محنت کریں۔سیاسی ہنگامہ چھیڑنے کے بجائے غیر سیاسی میدان میں اپنے کو مشغول کریں ، توحیرت انگیز طور پر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گرد نہ ساتھیوں کی بھیڑہےاور نہ چندہ دینے والوں کی قطاریں۔آپ کا نام نہ اخباروں کی سر خیوں میں جگہ پار ہا ہے اور نہ پُر رونق جلسوں کے ڈائس کی زینت بن رہا ہے ۔

مگر یہی دوسرا کام کام ہے۔اسی کے ذریعہ کسی حقیقی نتیجہ کی امید کی جا سکتی ہے۔اس کے برعکس پہلا کام کام کے نام پر استحصال ہے۔اس سے شخصی قیادتیں تو ضرور چمکتی ہیں مگر قوم اورملت کو اس سے کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ایک اگر کام ہے تو دوسرا صرف نام۔

 

تعبیر کا فرق

’’قم ‘‘کے معنی عربی زبان میں ’’ اٹھو ‘‘ کے ہیں اور قم ایران کے ایک شہر کا نام بھی ہے۔ایک پرانا لطیفہ ہے کہ شہر قم کے قاضی صاحب کو ان کے حاکم کا ایک حکم نامہ ملا جس میں عربی زبان میں یہ تحریر تھایاقاضی قم لقد شبتَ فقم۔اس جملہ کا لفظی مطلب یہ ہے کہ اے قم کے قاضی،اب تم بوڑھے ہو گئے اس لیے اٹھو ( اپنا عہدہ چھوڑ دو ) یہ حکم نامہ جب قاضی قم کو ملا تو اس نے کہا  ’’ قتلنی حبّ الامیر للقافیۃ‘‘ (امیر کی قافیہ پسندی نے مجھے مار ڈالا)

قاضی صاحب کی نظر قُم پر گئی۔شبتَ پر نہیں گئی۔اگر وہ شبتَ کے لفظ پر غور کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ان کو عہدئہ قضا سے ہٹانے کی اصل وجہ ان کا بڑھاپاہے نہ کہ قُم کا قافیہ۔امیرکو انھیں بڑھاپے کے سبب سے اس ذمہ دارانہ منصب سے ہٹا کر کسی دوسرے جواں سال آدمی کو وہاں رکھنا تھا۔یہ محض اتفاقی بات تھی کہ وہ شہر قُم کے قاضی تھے اور اس بنا پر حسن تعبیر کے لیے اس نے اپنے حکم کے لیے مذکورہ الفاظ استعمال کر لیے۔اگر وہ قم کے بجائے کسی اور شہر کے قاضی ہوتے تب بھی وہ انھیں معزول کرتا ۔ البتہ اس صورت میں اس کے حکم کے الفاظ دوسرے ہوتے۔

جب بھی ایک بات کہی جائے تو اس کا کوئی جزء اصلی ہوتا ہے اور کوئی جزء اتفاقی۔کوئی چیز اصل مقصود کلام کے طو پر آتی ہے اور کوئی اتفاقاً کلام کا جزء بن جاتی ہے۔آدمی کسی کلام کی حکمت کو اسی وقت سمجھ سکتا ہے جب کہ وہ الفاظ کے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر کلام کا مفہوم متعین کرے۔اس کے بر عکس اگر وہ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو وہ سخت غلطی کرے گا۔وہ بظاہر کلام کو سمجھتے ہوئے بھی کلام کو نہیں سمجھے گا۔وہ نہ کہنے والے کے ساتھ انصاف کرے گا اور نہ خود اپنے ساتھ۔

مذکورہ قاضی صاحب اتنے نا دان نہیں ہو سکتے کہ وہ اس راز کو نہ سمجھ سکیں۔یہ واقعہ اگر دوسرے شخص سے متعلق ہوتا تو وہ فوراً اس کو جان لیتے۔مگر معاملہ ان کی اپنی ذات کا تھا اس لیے وہاںاس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔جب بھی کوئی آدمی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہو تو وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچ نہیں پاتا اور اس بنا پر اصل معاملہ کو سمجھنے میں اسی طرح ناکام رہتا ہے جس طرح قاضی صاحب ناکام رہے۔

 

قانع بنئے

ایک صاحب نے اپنی زندگی کا آغاز معمولی ملازمت سے کیا تھا اور اب ان کا کافی بڑا کاروبار ہو چکا ہے ، انھوں نے ایک ملاقات میں کہا  ’’ جب میں دو سو روپیہ کا ملازم تھا تو میں اپنے کو سو روپیہ کا آدمی سمجھتا تھا،اب جب کہ میرا کاروبار دو کروڑروپیہ تک پہنچ چکا ہے تب بھی میں اپنے کو صرف ایک کروڑروپیہ کا آدمی سمجھتا ہوں ‘‘ ۔۔۔۔ یہ وہی چیز ہے جس کو مذہب کی اصطلاح میں قناعت کہا جاتا ہے۔ اس قناعت کا تعلق انفرادی معاملات سے بھی ہے اور اجتماعی معاملات سے بھی۔

یہ بات جو ایک آدمی نے سادہ طور پر کہی،یہی زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔اکثر حالات میں آدمی صرف اس لیے ناکام رہتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں زیادہ اندازہ کر لیتا ہے ، وہ اپنی حقیقی استعداد سے زیادہ بڑا اقدام کر دیتا ہے ، وہ ’’ کم ‘‘ پر قناعت نہ کرتے ہوئے ’’ زیادہ ‘‘ کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔آدمی اگر مذکورہ تاجر کے اصول پر رہے تو وہ کبھی نا کامی سے دو چار نہیں ہو سکتا۔

جو آدمی زیادہ خرچ کی استطاعت رکھتے ہوئے کم خرچ کرے وہ کبھی اقتصادی بحران کا شکار نہیں ہو گا۔جو آدمی دوڑنے کی طاقت رکھتے ہوئے آہستہ چلے اس کے ساتھ کبھی یہ حادثہ پیش نہ آئے گا کہ وہ راستہ میں تھک کر بیٹھ جائے۔جو اپنے مخالف پروار کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہوئے صبر کر جائے وہ کبھی اپنے مخالف سے شکست نہیں کھا سکتا۔جو بڑے کام کے قابل ہوتے ہوئے اپنے آپ کو چھوٹے کام میں لگا دے وہ کبھی اپنی کوششوں کو رائیگاں کرنے والا ثابت نہیں ہو گا۔جو سیاسی مقابلہ آرائی کا موقع رکھتے ہوئے غیر سیاسی کام میں اپنے کو مشغول کر لے اس کا یہ انجام کبھی نہ ہو گا کہ پُر شورعمل کے بعد بالآ خر اس کے حصہ میں جو چیز آئے وہ صرف احتجاج اور فریاد ہو۔جس کے لیے شہرت کا میدان کھلا ہوا ہو مگر وہ اپنے کو گم نامی کے میدان میں کام کرنے پر راضی کر لے۔وہ کبھی اس حال میں دنیا سے نہیں جا سکتا کہ اس نے اپنے پیچھے اپنا شان دار مقبرہ تو چھوڑا ہو مگر ا سکے عمل کے شان دار نتائج کا کہیں پتہ نہ ہو۔

ایک شخص کا قول ہے:دور کے بڑے فائدہ کی خاطر قریب کے چھوٹے فائدہ کو قربان کیا جا سکتا ہے  :

Present short interest can be sacrificed for the larger long range gain.

اس میں شک نہیں کہ یہ ترقی کا بہت اہم اصول ہے۔مگر اس اصول کو وہی لوگ برت سکتے ہیں جو دور تک سوچ کر اقدام کرنا جانیں نہ کہ فوری طور پر بھڑک کر اُٹھ کھڑے ہوں۔

 

پاگل پن

ایک لطیفہ ہے کہ کسی وکیل صاحب نے قانون کی پریکٹس میں کافی پیسہ کمایا تھا۔جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت نامہ لکھوایا۔اپنی وصیت میں انہوں نے کہا تھاکہ میری ساری دولت اور جائیداد میرے مرنے کے بعد پاگل لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔کسی نے اس کارِخیر کی وجہ پوچھی تو وکیل صاحب نے جواب دیا  :

میرے پاس جو کچھ ہے وہ پاگلوں ہی سے تو مجھے ملا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ قانون ‘‘ کا کاروبار پاگل انسانوں کے ذریعہ دنیا میں قائم ہے۔آدمی انتقام کے جوش میں آکر کسی کو قتل کر دیتا ہے۔کوئی شخص کسی کی جائیداد ہڑپ کر لیتا ہے کوئی حسد اور بغض کا شکار ہو کر کسی کو پریشان کرنا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو بے بس پا کر اس کو عدالت کے شکنجہ میں الجھانے کے لیے اس کے اوپر جھوٹے مقدمے قائم کرتا ہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعہ وکیلوں کی تجارت قائم ہے ۔

اس قسم کے لوگ اگرچہ اپنے کو عاقل اور ہوشیار سمجھتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بد ترین قسم کے پاگل ہیں۔عام پاگل صرف ا پنے لیے پاگل ہوتے ہیں ۔مگر یہ ہوشیار پاگل اپنے ساتھ ساری انسانیت کے لیے پاگل ہیں۔ان کی آخری سزا اگر چہ خدا کے یہاں ملے گی۔مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں بھی بالآخر وہ عبرت ناک انجام کا شکار ہوتے ہیں جس انسان کو انہوں نے اپنے پاگل پن کا شکار بنانا چاہا تھا، وہ تو خدا کی مدد سے محفوظ رہتا ہے۔مگر یہ لوگ خود اسی گڑھے میں داخل کر دئیے جا تے ہیں جہاں وہ دوسروں کو داخل کرنا چاہتے تھے۔

ہر آدمی جو کچھ کرتا ہے اپنے فائدہ کے لیے کرتا ہے۔اپنا فائدہ انسان کا سب سے بڑا معبود ہے ۔ آدمی اگر معتدل حالت میں ہو تو وہ کبھی جان بوجھ کر ایسی کارروائی نہیں کریگا ، جو اس کو خود اپنے نقصان کی طرف لے جانے والی ہو۔ مگر غصہ اور انتقام وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو اندھا کر دیتی ہیں۔وہ دوسرے کی ضد میں ایسی کاروائیاں کرنے لگتا ہے جس کا نقصان بالآخر خود اسی کو اٹھانا پڑے۔ایسی ہر کاروائی یقینی طور پر پاگل پن ہے۔معروف پاگل اگر طبی پاگل ہوتے ہیں تو ایسے لوگ نفسیاتی پاگل۔

 

غیر حقیقی اضافہ

ایک مغربی ملک کے ایک ادارہ نے ایک اشتہار شائع کیا۔اس کو ایک خاتون کارکن کی ضرورت تھی۔ادارہ کو خاتون کے اندر جو مختلف صفات درکار تھیں ان میں سے ایک صفت اس کا خاص اور متعین قد بھی تھا ۔

اشتہار کی اشاعت کے بعد ادارہ کے پاس بہت سی درخواستیں آئیں۔جانچ ہوئی تو ایک خاتون تمام مطلوبہ اوصاف میں غیرمعمولی طور پر پوری ہوتی چلی گئی۔تاہم قد کے معاملہ میں وہ نا منظور کر دی گئی اس کاقد مطلوبہ لمبائی سے آدھ انچ کم تھا جس کو اس نے اپنے جوتے کی ہیل میں آدھ انچ اونچائی کا اضافہ کر کے پورا کیا تھا۔ججوں نے لکھا  :

غیر نارمل ہونا ہر حال میں نا قابل قبول ہے۔خواہ وہ قد کے آدھ انچ کم ہونے میں ہو یا ہیل کے آدھ انچ زیادہ ہونے میں۔

یہ چھوٹا سا واقعہ زندگی کے ایک قانون کو بتاتاہے۔ یہ قانون کہ غیرحقیقی چیزمیں اضافہ حقیقی چیز میں کمی کا بدل نہیں ہے۔اگر آپ کا اپنا ’’ جسم ‘‘ چھوٹاہے تو ’’ اسٹیج ‘‘ کو اونچا کر کے آپ کبھی بلندی کا مقام حاصل نہیں کر سکتے۔

جب بھی آدمی زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہو جائے تو اس کی وجہ ہمیشہ اپنی کوئی کمی ہو گی۔آدمی کو چاہئے کہ وہ اس کمی کو جانے۔وہ اپنی ساری توجہ اپنی کمی کو دور کرنے میں لگا دے۔اپنی کمی کو دور کر کے دوبارہ آدمی اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔مگر دوسری باتوں پر ہنگامہ کھڑاکر کے وہ صرف وقت کو ضائع کرتا رہے گا۔

اگر آپ کا رکردگی میں کم ہوں تو مطالبات میں اضافہ سے آپ اس کی تلافی نہیں کر سکتے۔اگر آپ منصوبہ بندی میں کم ہوں تو شوروغل میں زیادتی سے آپ اس کی تلافی نہیں کر سکتے۔اگر آپ معنویت میں کم ہوں تو آپ الفاظ میں اضافہ سے اس کی تلافی نہیں کر سکتے۔اگر آپ مقابلہ کی دوڑ میں پیچھے ہو گئے ہوں تو احتجاج اور شکایت میں اضافہ سے آپ زندگی کی اگلی صفوں میں جگہ نہیں پا سکتے۔

ایک حقیقی کمی صرف حقیقی چیزسے پوری ہو سکتی ہے نہ کہ کسی غیرحقیقی اور غیرمتعلق چیزسے۔

 

سب کا فائدہ

ایک لطیفہ ہے کہ شہنشاہ اکبر نے ایک روز اپنے خاص درباری بیربل سے کہا:بیربل اگر ایک بادشاہ کی بادشاہت ہمیشہ رہتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔بیربل نے جواب دیاعالی جاہ،آپ نے بجا فرمایا۔لیکن اگر ایسا ہوتا تو آج آپ باد شاہ کیوں کر ہوتے۔

اکبر نے بادشاہت کو اپنی ذات سے شروع کیا۔اس نے سوچاکہ اگر دنیا میں یہ اصول رائج ہو کہ ایک بادشاہ ہمیشہ باقی رہے تو میں ہمیشہ اسی طرح بادشاہ بنا رہوں گا۔اکبر بھول گیاکہ بادشاہت کا سلسلہ تو دنیا میں اس وقت سے ہے جب کہ وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ایسی حالت میں اگر اکبر کا پسندیدہ اصول دنیا میں رائج ہوتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ اکبر بادشاہ بن کر تخت پر بیٹھے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کو سامنے رکھ کر سوچتا ہے۔وہ صرف ذاتی مفاد کے تحت اپنے گرد ایک نقشہ بنا لیتا ہے۔وہ بھول جاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ اکیلا نہیں ہے۔چنانچہ بہت جلد خارجی حقیقتیں اس سے ٹکراتی ہیں اور اس کے نقشہ کو توڑ ڈالتی ہیں۔اس وقت آدمی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ذاتی مفاد بھی اسی میں تھاکہ وہ مجموعی مفاد کا لحاظ کرتا۔

اگر آپ اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہوں تب بھی آپ کو سب کا فائدہ چاہنا چاہیے۔سب کے فائدے میں آپ کا اپنا فائدہ بھی ہے۔اس دنیا میں ہر آدمی ایک اجتماعی کشتی میں سوارہے۔کشتی کے بچائو میں اس کی اپنی ذات کا بچائو بھی اپنے آپ شامل ہے ۔

جن لوگوں کو اس دنیا میں کچھ مواقع ملتے ہیں وہ اکثریہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنی ذات کے لحاظ سے اصول اور قاعدے بنانے لگتے ہیں۔ وہ جس طریقے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اس کو رائج کرنے لگتے ہیں مگر یہ طریقہ اکثرالٹا پڑتا ہے۔کیوں کہ اس دنیا میں کوئی شخص ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا۔مواقع کبھی ایک شخص کے ہاتھ میں آتے ہیں اور کبھی وہ دوسرے کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔ایسی حالت میں محض اپنی ذات کو سامنے رکھ کر قواعد بناناعقل مندی نہیں۔کیوں کہ عین ممکن ہے کہ حالات بدلیں اور جو چیز پہلے آپ کو اپنے موافق نظرآتی تھی وہ بعد کو آپ کے مخالف بن جائے۔اپنی ذات کو مرکز بنا کر سوچنا باعتبار ِحقیقت نہ اپنی ذات کے لیے مفید ہے اور نہ بقیہ انسانیت کے لیے۔

 

مغالطہ

کولن ولسن (Colin Wilson) انگریزی زبان کا شاعر تھا۔اس کے خیالات بہت سخت تھے۔اس کو بیسویں صدی کے سارے مغربی ادب کا انسان شکست خوردہ ، مفلوج اور قنوطیت زدہ نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک آج کا انسان اس ذہنی مرض میں مبتلا ہے جس کو وہ(Fallacy of insignificance)یعنی بے اہمیتی کا مغالطہ کہتاہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان کا زیادہ بڑا ذہنی مرض وہ ہے جو اس کے برعکس نفسیات پیداکرتا ہے اور وہ اہمیت کا مغالطہ(Fallacy of significance)ہے۔کچھ لوگ بعض تاریخی یا غیر تاریخی اسباب کے تحت اپنے آپ کو غیرضروری طور پر اہم سمجھ لیتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ اپنے آپ کو صحیح طور پر سمجھ پاتے اور نہ دوسروں کے بارے میں حقیقت پسندانہ رائے قائم کرنے میں کامیا ب ہوتے۔

بےاہمیتی کا مغالطہ ایک ذہنی مرض ہے۔تاہم اس ذہنی مرض کا نقصان آدمی کی صرف اپنی ذات کو پہنچتا ہے۔جو شخص اپنے آپ کو فرضی طور پر غیراہم سمجھ لے وہ اقدام سے گھبرائے گا۔وہ کوئی بڑا کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو نااہل سمجھے گا۔ وہ اپنی فعالیت کھو دے گا اور متحرک دنیا میں بےحس وحرکت پڑا رہے گا۔مگر یہ سب ذاتی نقصان کی چیزیں ہیں۔بےاہمیتی کے مغالطہ کی قیمت آدمی کو خود ادا کرنی پڑتی ہے۔اس کے برعکس مغالطہ کی دوسری قسم اس سے زیادہ سنگین ہے۔بےاہمیتی کا مغالطہ اپنی ذات کے حق میں زہر ہے اور اہمیت کا مغالطہ پورے سماج کے حق میں زہر۔ 

اہمیت کے مغالطہ میں مبتلا ہونے والا آدمی اپنے آپ کو اس سے زیادہ سمجھ لیتا ہے جتناکہ فی الواقع وہ ہے۔وہ غیر واقعی طور پر اپنے کو بڑاسمجھنے لگتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کو جو درجہ دیتے ہیں وہ اس کو اس سے کم نظر آتا ہے جو اس کے اپنے نزدیک اس کا درجہ ہے۔اس لیے دوسرے تمام لوگ اس کو ظالم نظر آنے لگتے ہیں۔وہ اپنے سوا ہر ایک کو برا سمجھنے لگتا ہے۔وہ ہر ایک کا دشمن بن جاتا ہے۔بےاہمیتی کا مغالطہ اگر آدمی کے اندر پست ہمتی پیدا کرتا ہے تو اہمیت کا مغالطہ آدمی کو جارح بنا دیتا ہے۔اور جارحیت بلا شبہ سماج کے حق میں پست ہمتی سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔

اعراض

 

مسائل اور مواقع

انگریزی کا ایک مثل ہے مسائل کو بھوکا رکھو ، مواقع کو کھلاو  :

Starve the problems, feed the opportunities.

یہ ایک بہت با معنی بات ہے۔بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔جو شخص اس گہری حکمت کو جانے اور اس کو استعمال کرے وہی اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے جو شخص اس حکمت کو نہ جانے اور اس کو استعمال نہ کر سکے اس کے لیے نا کامی کے سوا اور کوئی چیز مقدر نہیں۔

اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں آدمی ہمیشہ دو قسم کی چیزوں کے درمیان رہتا ہے۔ایک مسائل اور دوسرے مواقع۔ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ مسائل سے گھرا ہوا ہوتا ہے۔اسی کے ساتھ ہمیشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے قریبی ماحول میں کچھ قیمتی مواقع موجود ہوتے ہیں جن کو بھرپور استعمال کرکے وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔یہ صورت حال ایک فرد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور ایک پوری قوم کے ساتھ بھی۔

یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ دنیا لوگوں کا امتحان لے رہی ہے۔جو شخص صرف اپنے مسائل کو دیکھے اور اس میں الجھ جائے وہ اپنے مواقع کو کھو دے گا۔اس کے بر عکس جو شخص مواقع کو دیکھے اور ان کو بھر پور استعمال کرے وہ مسائل میں زیادہ توجہ نہ دے سکے گا۔مسائل کو ’’ کھلانا ‘‘ مواقع کو ’’ بھوکا ‘‘ رکھنے کی قیمت پر ہوتا ہے۔اسی طرح جو شخص مواقع کو کھلائے وہ اس قیمت پر ہو گا کہ اس کے مسائل بھوکے رہ جائیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ہمیشہ مسائل کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔

تجربہ بتاتا ہے کہ مسائل میں الجھنا کبھی کسی کے لیے مفید نہیں ہوتا۔آخری نتیجہ کے طور پر وہ صرف وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔مگرجو شخص اپنے آپ کو مواقع کے استعمال میں لگاتا ہے وہ نہ صر ف مواقع کا فائدہ حاصل کرتا ہے بلکہ اس کی کامیابی بالواسطہ طو رپر اس چیزکو بھی حل کر دیتی ہے جس کو مسائل کہتے ہیں۔

 

بڑا آدمی

مسٹرڈیل کارنیگی کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے:

How to Stop Worrying and Start Living

یہ کتاب پہلی بار 1948 میں چھپی۔مصنف لکھتے ہیں کہ جب میں نے پہلی بار اس کتاب کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے اعلان کیا کہ جو شخص اس موضوع پر بہترین حقیقی کہانی پیش کرے گا اس کو دو سو ڈالر انعام دئیے جائیں گے۔اس سلسلہ میں موصول ہونے والی دو اہم ترین کہانیوں میں سے ایک کہانی وہ تھی جس کا ایک حصہ حسب ذیل ہے :

مسٹر سی آر برٹن (C.R.Burton) نے لکھا کہ جب میں نو سال کا تھا تو میری ماں کا انتقال ہو گیا۔12 سال کی عمر میں میں نے اپنے باپ کو بھی کھو دیا۔اس کے بعد میں بے سہارا ہو کر رہ گیا۔مجھے لوگ یتیم کہنے لگے۔

اس کے بعد مسٹر اور مسز لافٹن (Loftin) نے مجھ کو ازراہ ہمدردی اپنے پاس رکھ لیا۔ انھوں نے کہا کہ تم جب تک چاہو ہمارے پاس رہ سکتے ہو۔میں اسکول جانے لگا تو اسکول کے بچے میری اونچی ناک پر مذاق اڑاتے۔وہ مجھے تحقیر کے طور پر یتیم بچہ (Orphan brat) کہنے لگے۔مجھے ان کی باتوں سے بہت تکلیف ہوتی تھی۔حتیٰ کہ میں چاہنے لگاکہ ان سے لڑوں۔مگر جس چیز نے مجھے لڑائی سے بچایا وہ مسٹر لا فٹن کا یہ جملہ تھا  :

Always remember that it takes a bigger man to walk

away from a fight than it does to stay and fight (p. 187).

ہمیشہ یاد رکھو کہ جنگ ہر آدمی کر سکتا ہے مگر بڑا آدمی وہ ہے جو جنگ سے اعراض کرے۔

گڑھے کے اندر پتھر پھینکیں تو اس کے پانی میں ہیجان پید اہوجاتا ہے۔مگر سمندر کے اندر ایک پورا پہاڑ ڈال دیجئے تب بھی وہ ویساکا ویسا ہی رہے گا۔اسی طرح چھوٹے ظرف والا آدمی ایک سخت بات سن کر بگڑ اٹھتا ہے۔مگر بڑے ظرف والے آدمی کے اوپر طوفان گزر جاتے ہیں اور پھر بھی اس کا سکون برہم نہیں ہوتا۔

 

اُلٹا نتیجہ

سبھاش ایک ڈاکو تھا جو ڈاکہ زنی کے 20 واقعات میں ماخود تھا۔پولیس نے اس کو زندہ یا مردہ پکڑنے پر پندرہ ہزار روپیہ نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔

13 دسمبر 1983 کا واقعہ ہے۔دہلی کی ایک پولیس پارٹی اپنے میٹا ڈورپر انکم ٹیکس آفس کے پاس سڑک پر تھی۔اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک سفید فیٹ کارآرہی ہے۔پولیس کی گاڑی کے قریب آکر اچانک اس نے یوٹرن (U.Turn) لیا۔یعنی گھوم کر پیچھے کی طرف واپس ہو گئی۔پولیس والوں کو شبہ ہوا اور انھوں نے کار کا پیچھا کیا۔پولیس کی گاڑی جب بالکل قریب پہنچ گئی تو کارکے مسافروں نے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔

اب پولیس پارٹی کو یقین ہو گیاکہ اس کے اند رکوئی مجرم بیٹھا ہوا ہے۔چنانچہ پولیس والوں نے بھی جواب میں کار کے اوپر فائر کیے۔مگر کار آگے کی طرف بھاگتی رہی اور بالآخر نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ تاہم اسی شام کو شاہدرہ اسپتال کے قریب ایک لاش سڑک پر پڑی ہوئی ملی۔یہ مذکورہ ڈاکو سبھاش کی لاش تھی۔پولیس کی گولیوں سے زخمی ہو کر وہ جلد ہی مر گیا تو اس کے بقیہ چار ساتھیوںنے اس کو کار سے نکال کر باہر سڑک پر پھینک دیا اور خود آگے کی طرف روانہ ہو گئے ( ٹائمس آف انڈیا۔ہندوستان ٹائمس 14 دسمبر 1983)

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی بچائو کا اقدام الٹا پڑتا ہے۔سفید کا روالے اگر معمول کے مطابق اپنے راستہ سے گزر گئےہوتے تو ممکن تھا کہ وہ پولیس کی زد سے بچ جاتے۔مگر جب انھوں نے اپنے بچائو کے لیے جارحانہ اقدام کیا تو وہ ہلاکت کے منہ میں جا پڑے۔

اس دنیا میں ہرآدمی کی سوجھ بوجھ کا امتحان لیا جا رہا ہے۔جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ جس مخالف چیز کو دیکھیں اس سے لڑنے کے لیے آمادہ ہو جائیں وہ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے کبھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور کبھی اعراض کرنا پڑتا ہے۔کبھی سامنے کی سڑک سے چلناہوتا ہے اور کبھی ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی دائیں یا بائیں سے کترا کر آگے بڑھ جائے۔یہ دنیا ہوش مندی کا امتحان ہے،یہاں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو اس نازک امتحان میں پورا اترے۔

 

کامیابی کا راز یہاں ہے

یہ مدراس کا واقعہ ہے۔سمندر کے ساحل پر دو نوجوان نہا رہے تھے۔دونوں دوست تھے اور تیراکی اچھی جانتے تھے۔وہ پانی کے اوپر اوپر بھی تیرتے تھے اور ڈبکی لگا کرپانی کے اندر اندربھی دور تک نکل جاتے تھے۔ دونوں تیرتے ہوئے دور تک چلے گئے۔اس کے بعد موجوں کا ایک تھپیڑا آیا۔دونوں اس کی زد میں آگئے۔ایک نوجوان زیادہ ماہر تھا۔۔’’ میں موجوں سے لڑ کر پار ہو جائوں گا ‘‘ اس نے کہا اور موجوں کے مقابلہ میں اپنی تیراکی کا کمال دکھانے لگا۔مگر موجوں کا زور زیادہ تھا،وہ اپنے طاقت ور بازوئوں کے باوجود ان سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔اور ڈوب کرمرگیا۔

دوسرا نوجوان بھی طوفان کی زد میں آیا۔تھوڑی دیر اس نے اپنے ساتھی کی پیروی کی۔اس کے بعد اس نے محسوس کر لیا کہ موجوں کی شدت اس سے زیادہ ہے کہ میرے بازو اس کا مقابلہ کر کے نکلنے میں کامیاب ہو سکیں۔اچانک اس کو ایک بات یاد آئی۔اس نے سنا تھاکہ موجیں خواہ کتنی ہی شدید ہوں ان کا زور اوپر اوپر رہتا ہے۔پانی کی نیچے کی سطح پھر بھی ساکن رہتی ہے۔اس کے بعد اس نے اپنا طریق عمل بدل دیا۔اوپر کی موجوں سے لڑنے کے بجائے اس نے نیچے کی طرف ڈبکی لگائی اور پانی کی نچلی سطح پر پہنچ گیا۔یہاں پانی نسبتاً ٹھہرا ہوا تھا اور اس کے لیے ممکن تھا کہ وہ اپنے تیرنے کے فن کو کامیابی کے ساتھ استعمال کر سکے۔اس نے ساحل کی طرف تیرنا شروع کر دیا۔اگرچہ وہ کافی تھک چکا تھا۔تاہم ہاتھ پائوں مارتے ہوئے بالآخر وہ سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔کنارے پہنچتے پہنچتے وہ بےہوش ہوچکا تھا۔سمندر کے کنارے چند ملاح اپنی کشتیاں لیے ہوئے موجود تھے۔انھوں نے فوراً اس کو دیکھ کر اٹھایا اورخشکی پرلے گئے۔اس کے بعد اس کو ہسپتال پہنچایاگیا۔ وہاں چنددن زیرعلاج رہ کر وہ اچھا ہو گیا۔۔۔ جس نے موجوں سے لڑنے کو تیراکی سمجھا تھا وہ ہلاک ہو گیااور جس نے موجوں سے کترا کر نکلنے کا طریقہ اختیار کیا وہ کامیاب رہا۔

یہی معاملہ پوری زندگی کا ہے۔زندگی میں طرح طرح کے طوفان آتے ہیں۔مگرعقل مندی یہ نہیں ہے کہ جو تھپیڑا سامنے آئے بس آدمی اس سے لڑناشروع کر دے۔عقل مندی یہ ہے کہ آدمی جائزہ لے کر دیکھے کہ کامیابی کے ساتھ ساحل تک پہنچنے کا زیادہ قابل عمل راستہ کون سا ہے۔اور جو راستہ قابل عمل ہو اسی کو اختیار کرے خواہ وہ موجوں کی سطح سے اتر کر نیچے نیچے اپنا راستہ بناناکیوں نہ ہو۔یہ قدرت کا انتظام ہے کہ دریائوں اور سمندروں میں جو تیز وتند موجیں اٹھتی ہیں وہ پانی کے اوپر اوپر رہتی ہیں۔پانی کے نیچے کی سطح ساکن رہتی ہے۔چنانچہ بھنور کے وقت مچھلیاں نچلی سطح پر چلی جاتی ہیں۔یہ قدرت کاسبق ہے۔اس طرح قدرت ہم کو بتاتی ہے کہ طوفانی موجوں کے وقت ہم کو کیا طریق عمل اختیارکرنا چاہیے۔زندگی میں کبھی طوفان سے لڑنا بھی پڑتا ہے۔مگر اکثر اوقات کامیابی کا راز یہ ہوتا ہے کہ آدمی طوفانی سیلاب سے کتراکرنکل جائے وہ طوفان کی زد سے بچتا ہوا اپنا راستہ بنائے۔

 

شیر کا سبق

جم کاربٹ ( Jim Corbett) شیرکے مطالعہ کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔اس کے نا م پرہندوستان میں حیوانات کاایک پارک بنا ہوا ہے۔جم کاربٹ نے لکھا ہے کہ کوئی شیر کسی آدمی پر اس وقت تک حملہ نہیں کرتا  جب تک کہ اس کواپنی طرف سے کوئی کارروائی کر کے بھڑکانہ دیا جائے :

No tiger attacks a human being unless provoked.

جو لوگ جنگل کے علاقوں میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر کبھی ان کا سابقہ شیر سے پڑ جائے تو اس میں خطرہ کی کوئی بات نہیں ہے۔کیونکہ شیر اپنا راستہ چلتا ہوا گزر جائے گا۔بشرطیکہ اس کو چھیڑانہ جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیر اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان دشمن جانور نہیں۔شیر کےلیے’’ مردم خور ‘‘ کا لفظ صرف اتفاقی معنی میں صحیح ہے۔شیر پیدائشی طورپرمردم خور نہیں ہوتا۔بلکہ بعض نادان انسانوں کی کارروائیاں کسی شیر کو مردم خور بنا دیتی ہیں۔کسی شیر کو مردم خور بنانے والے اکثر وہ غیر ماہرشکاری ہوتے ہیں جو کافی تیقن کے بغیر شیر کے اوپر اپناکارتوس خالی کردیتے ہیں۔وہ شیر مارنے کے شوق میں شیرپرگولی چلاتے ہیں مگر کافی مہارت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی گولی صحیح نشانہ پر نہیں پڑتی اور اچٹتی ہوئی نکل جاتی ہے۔شیرمعمولی طور پر زخمی ہو جاتا ہے مگر وہ مرتا نہیں۔اس قسم کا زخم خوردہ شیر انسان کا دشمن ہو جاتا ہے۔وہ جہاں کہیں بھی انسانی صورت کو دیکھتا ہے اس کو اپنا دشمن سمجھ لیتا ہے اور اس پر حملہ کرکےاسےختم کر دیتاہے۔یہی حال اکثر درندہ جانوروں کا ہے۔

اس مثال میں ہمارے لیے دو بہت بڑے سبق ہیں۔ایک یہ کہ کسی کو پیشگی طور پر اپنا ’’ دشمن ‘‘ سمجھ لینا درست نہیں۔حتیٰ کہ ایک درندہ صفت انسان کو بھی نہیں۔کوئی شخص اسی سے دشمنانہ معاملہ کرتا ہے جس کو وہ اپنا دشمن سمجھ لے۔اگر ہم اپنے کو دشمن ظاہر نہ کریں تو دوسرا بھی ہم سے دشمن کا سلوک نہیں کرے گا۔

دوسرا سبق یہ ہے کہ ناکافی تیاری کے بغیر کبھی کسی کے خلاف کاروائی نہیں کرنا چاہیے۔اگر آپ اپنے حریف پر ایسے اقدامات کریں جو کافی تیاری کے بغیر کئے گئے ہوں اور اس بنا پر وہ فیصلہ کن نہ بن سکیں تو ایسا اقدام آپ کے حریف کو پہلے سے زیادہ مشتعل کر کے آپ کے مسئلہ کو اور زیادہ سنگین بنا دے گا۔

ہرشخص خود اپنے اندرونی تقاضے کے تحت اپنی ضرورتوں کی تکمیل میں مشغول رہتا ہے اور اگر ضرورتیں پوری ہو جائیں تو ہوس کی تکمیل میں۔یہ ایک قدرتی انتظام ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے روکے رہتا ہے۔ آپ دوسرے کو نہ چھیڑئیے اور آپ دوسرے کے ظلم سے محفوظ رہیں گے۔کیوں کہ یہاں ہر ایک اپنے آپ میں اتنا مشغول ہے کہ اس کو دوسرے کے خلاف سوچنے کی فرصت نہیں ۔

 

جواب کا طریقہ

ایک آدمی نے ایک بزرگ کی تعریف کی۔اس نے کہا کہ وہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ تھے کہ وہ نماز کی حالت میں مرے۔گویا ان کی موت خدا کی گود میں ہوئی۔سننے والا کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد بولاخدا کے رسول کی وفات ہوئی تو وہ اپنی اہلیہ کی گود میں تھے اور بزرگ کی وفات خدا کی گود میں ہوئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بزرگ خدا کے رسول سے بھی زیادہ پہنچے ہوئے تھے۔یہ جواب اتنا وزنی تھا کہ اس کو سن کر آدمی خاموش ہو گیا۔ 

سننے والے نے مذکورہ بزرگ کے حالات پڑھے تھے۔اس میں اس کو کہیں یہ بات نہیں ملی تھی کہ بزرگ کی موت نماز کی حالت میں ہوئی۔تاہم اس نے سوچاکہ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات کہاں لکھی ہے یا کس ذریعہ سے ثابت ہوتی ہے تو خواہ مخواہ کی بحث شروع ہو جائے گی اور وہ کہیںختم نہ ہو گی ۔ چنانچہ اس نے اس سوال کو نہیں چھیڑا۔اس نے ایسی بات کہی جو نہ صرف یقینی تھی بلکہ اپنے عمومی پہلو کی بنا پر وہ آدمی کو چپ کر دینے والی تھی۔چنانچہ لمبی بحث کی نوبت نہیں آئی اور ایک ہی جملہ سارے سوال کا جواب بن گیا۔ 

یہی ایسے معاملات میں جواب دینے کا صحیح طریقہ ہے۔اگر آدمی ایساکرےکہ وہ مخاطب کی بات سنتے ہی فوراً اس سے الجھ نہ جائے بلکہ تھم کر سوچے کہ اس کا صحیح اور موثر جواب کیا ہو سکتا ہے تو یقینی طور پر وہ ہر سوال کا ایسا جواب پا لے گا جو اس قدر فیصلہ کن ہو کہ لمبی بحث وتکرار کی نوبت نہ آئے اور صرف ایک جملہ پورے سوال کے لیے فیصلہ کن بن جائے۔

سب سے برا جواب وہ ہے جس میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں الجھ جائیں اور بالآخر اس طرح الگ ہوں کہ دونوں میں سے کوئی ہار ماننے کے لیے تیارنہ ہوا تھا۔اور سب سے اچھا جواب وہ ہے جب کہ جواب دینے والا ایسا سوچا سمجھا ہوا وزنی جواب دے جس کے بعد سوال کرنے والے کی سمجھ ہی میں نہ آئے کہ اس کے آگے وہ کیا کہہ سکتا ہے۔

 

اشتعال نہیں

ایک صاحب ہیں۔وہ بظاہر عام حلیہ میں رہتے ہیں مگر مزاج کے اعتبار سے بہت دیندار ہیں۔وہ ایک تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور قرآن وحدیث کے موضوعات پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

ایک روز نما ز جمعہ کے بعد مسجد میں ان کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی۔موصوف کے ساتھی نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور وہ قرآن وحدیث پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ بزرگ نے موصوف کی طرف دیکھا تو انھوں نے پایا کہ وہ قیمیص پہنے ہوئے ہیں۔سرپر گاندھی ٹوپی ہے۔داڑھی بھی ایک مشت کے ناپ سے کم ہے۔بزرگ نے یہ دیکھ کر فرمایا  :

صورت سے تو ایسا معلوم نہیں ہوتا

بزرگ کی زبان سے یہ توہین آمیز تبصرہ سن کر موصوف کو غصہ آگیا۔تاہم انھوں نے برداشت کر لیا۔ وہ ایک لمحہ چپ رہے اور اس کے بعد بولے:

آپ کا ارشاد بجاہے۔مگر اللہ تعالیٰ کبھی گنہ گاروں سے بھی اپنا کام لےلیتے ہیں۔

یہ ٹھنڈا جواب مذکورہ بزرگ کے لیے اتنا سخت ثابت ہوا کہ اس کے بعد وہ کچھ بول نہ سکے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہےکہ اشتعال کے وقت آدمی کو کیسا جواب دینا چاہیے ۔ جب بھی کوئی آدمی آپ پر تنقیدکرتا ہے،آپ کے خلاف کوئی سخت بات کہہ دیتا ہے تو آپ کے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔آپ چاہنے لگتے ہیں کہ اس کو بھسم کر دیں جس طرح اس نے آپ کو بھسم کیا  ہے ، مگر یہ طریقہ شیطانی طریقہ ہے۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کڑواہٹ کو پی جائیں۔جو جھٹکا آپ پر لگا ہے اس کو دوسرے کے اوپر ڈالنے کے بجائے خود اپنے آپ پر سہہ لیں۔جب آپ ایساکریں گے تو آپ کو ایک نئی قوت حاصل ہو گی۔آپ اس حکمت کو جانیں گے کہ کڑوے الفاظ کا جواب میٹھے الفاظ سے دینا زیادہ سخت جواب ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اشتعال کے وقت جو شخص صبرکرلے اور سوچ سمجھ کر بولے وہ زیادہ طاقتور انداز میں اپنی بات کہنے کے لائق ہو جاتا ہے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ مشتعل الفاظ کا جواب ٹھنڈے الفاظ سے دے اور ٹھنڈک آگ کو زیادہ بجھانے والی ہے۔وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنے مخالف کو معاف کر دے اور معاف کر دینا یقینا سب سے بڑا انتقام ہے۔

 

جھگڑے سے بچ کر

دو کسانوں کے کھیت ملے ہوئے تھے۔ان کے درمیاان ایک مینڈ کا جھگڑا ہو گیا۔ ہرایک کہتا تھا کہ مینڈ میری ہے۔دونوں کھیت کی مینڈ پر لڑ گئے۔یہ جھگڑا پہلے ’’ مینڈ ‘‘ کا تھا پھر وہ ’’ ساکھ ‘‘ کا مسئلہ بن گیا۔ ہر ایک کو دکھائی دینے لگا کہ مینڈ سے ہٹنا لوگوں کی نظر میں اپنے آپ کو بے عزت کرنا ہے ۔ چنانچہ جھگڑا بڑھتا رہا۔ وہ یہاں تک بڑھا کہ دونوں طرف قتل ہوئے ، کھیت کاٹے گئے۔دونوں نے ایک دوسرے کی چیزیں جلائیں۔اس کے بعد معاملہ اور بڑھا۔وہ پولس اور عدالت کا معاملہ بن گیا۔ مقدمہ بازی کا لمبا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ مقدمات 20 سال بعد صرف اس وقت ختم ہوئے جب کہ ان کے کھیت، باغ ، زیورات سب بک گئے۔ایک معمولی مینڈ کو پانے کے لیے دونوں نے اپنا سب کچھ کھو  دیا۔ 

یہی مینڈ کا جھگڑا ایک اور کسان کے ساتھ پیدا ہوا۔ مگر اس نے فوری اشتعال کے تحت کاروائی کرنے کے بجائے اس پر غور کیا۔سمجھ دارلوگوں سے مشورے کئے۔آخر کار اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ مینڈ کا جھگڑا مینڈ پر طے نہیں ہوتا۔ جھگڑے کو طے کرنے کی جگہ دوسری ہے۔یہ سوچ کر اس نے جھگڑےکی مینڈ چھوڑ دی۔

اس نے یہ کیا کہ مسئلہ پر ’’ آج ‘‘ سے سوچنے کے بجائے ’’ پیچھے ‘‘ سے سوچنا شروع کیا۔ مینڈ کے واقعہ سے اس کے دل کو بھی چوٹ لگی۔اس کو بھی اپنے نقصان اور اپنی بے عزتی سے وہی تکلیف ہوئی جو ہر انسان کو ایسے وقت پر ہوتی ہے۔مگر اس نے اپنے جذبات کو تھاما۔فوری جوش کے تحت کاروائی کرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

میرے حریف کو میری مینڈ پر قبضہ کرنے کی جرأت ہی کیوں ہوئی، اس سوال پر غور کرتے کرتے وہ اس رائے پر پہنچا کہ اس کی وجہ حریف کے مقابلہ میں میری کمزوری ہے۔میرا اور حریف کا اصل معاملہ مینڈ کامعاملہ نہیں ہے۔بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ میری پوزیشن میرے حریف کے مقابلہ میں اتنی زیادہ نہیں کہ وہ مجھ سے دبے اور میرے حقوق پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرے۔ٹھنڈے ذہن سے سوچنے کے بعد اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اگر وہ اپنی طاقت اور حیثیت کو بڑھالے تو وہ زیادہ بہتر طور پر اپنے حریف کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔کیونکہ اس کے بعد اس کے حریف کو اس کے اوپر دست اندازی کی جرأت ہی نہ ہو گی۔

اب اس نے اپنے کھیتوں پر پہلے سے زیادہ محنت شروع کر دی جو طاقت وہ حریف کو برباد کرنے کی کوششوں میں لگا تا اسی طاقت کو اس نے خود اپنی تعمیر میں لگانا شروع کر دیا۔اس نئی فکر نے اس کے اندر نیا حوصلہ جگا دیا۔ وہ نہ صرف اپنے کھیتوں میں زیادہ محنت کرنے لگا بلکہ کھیتی کے ساتھ کچھ اور قریبی کاروبار بھی شروع کر دیا۔اس کے نئے شعور کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کو ازسرنو منظم کیا۔وہ خرچ کو کم کرنے اور آمدنی کو بڑھانے کے اصول پر سختی سے عمل کرنے لگا۔اسی کے ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم کی راہ پر لگا دیا۔اس نے طے کر لیا کہ اپنے ہر بچہ کو اعلیٰ مرحلہ تک تعلیم دلائے گا۔  

اس دوسرے شخص کو بھی اپنی کوششوں میں اسی طرح 20 سال لگ گئے جس طرح پہلے شخص کو 20 سال لگے تھے۔مگر پہلے شخص کے لیے 20 سال بربادی کے ہم معنی تھا، جب کہ دوسرے شخص کے لیے 20 سال آبادی کے ہم معنی بن گیا۔ اس 20 سال میں اس کے بچے پڑھ لکھ کر اچھے عہدوں پرپہنچ چکے تھے۔اس نے اپنی کھیتی اتنی بڑھا لی تھی کہ اس کے یہاں ہل بیل کے بجائے ٹریکٹر چلنے لگا تھا۔جس کسان سے اس کا مینڈ کا جھگڑا ہوا تھا اس کا وہ پورا کھیت اس نے مینڈ سمیت خرید لیا۔ 

جس آدمی نے مینڈ کا جھگڑا مینڈ پر طے کرنے کی کوشش کی وہ تباہ ہو گیا۔ اس کے برعکس جس نے مینڈ کو چھوڑ کر دوسرے میدان میں مقابلہ کی کوشش کی وہ آخر کار نہ صرف مینڈ کا مالک بنا بلکہ حریف کا پورا کھیت اس کے قبضہ میں آگیا۔

بجلی کا بلب جلتے جلتے بجھ جائے یا پنکھا چلتے چلتے رک جائے تو ہم بلب کو توڑ کر نہیں دیکھتے یاپنکھے سے نہیں الجھتے۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بلب بجھنے اور پنکھا بند ہونے کی وجہ بلب اور پنکھے کے اندر نہیں ان کے باہر ہے۔اور پھر جہاں سے فرق پڑا ہو وہاں درست کر کے اپنے بلب اور پنکھے کو دوبارہ چلا لیتے ہیں۔انسانی معاملات بھی اکثر اسی قسم کے ہوتے ہیں۔مگر عجیب بات ہے کہ بلب اور پنکھے کے معاملہ میں جو بات آدمی کبھی نہیں بھولتا اسی بات کو انسانی معاملہ میں ہمیشہ بھول جاتا ہے۔

آدمی کی یہ عام کمزوری ہے کہ جب بھی اس کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی مقام پر اپنا سر ٹکرانے لگتا ہے جہاں مسئلہ پیدا ہوا ہے۔حالانکہ اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کہیں پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ کہیں ہوتی ہے۔ ’’حال ‘‘ کا ایک واقعہ اکثر ’’ ماضی ‘‘ کے کسی واقعہ کا نتیجہ ہوتا ہے ایک معاملہ میں کسی کی زیادتی اکثر حالات میں کسی اور معاملہ میں پائی جانے والی ایک صورت حال کے سبب سے وقوع میں آتی ہے۔ایسی حالت میں بہترین عقل مندی یہ ہے کہ آدمی جائے وقوع پر سر نہ ٹکرائے ۔ بلکہ اصل سبب کو معلوم کر کے بات کو وہاں بنانے کی کوشش کرے جہاں بات بگڑ جانے کی وجہ سے اس کے ساتھ وہ حادثہ پیش آیا ہے جس میں وہ آج اپنے کو مبتلا پاتا ہے۔

 

ڈیگال ازم

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قوم کو زندہ کرنے کے لیے فرد کو اپنے آپ کو ہلاک کرنا پڑتاہے۔ موجودہ زمانہ میں فرانس کے چارلس ڈیگال (1970۔1890) نے اس کی شاندار مثال پیش کی ہے۔

ڈیگال دسمبر 1958 میں فرانس کے صدر منتخب ہوئے۔اس وقت افریقہ میں فرانس کے تقریباً ایک درجن مقبوضات تھے جن میں آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ خاص طور پر الجیریا میں یہ تحریک بہت شدت اختیار کر چکی تھی۔فرانس نے اس کو کچلنے کے لیے تقریباً 25 لاکھ آدمی قتل کر دئیے۔اس کے باوجود الجیریا میں آزادی کی تحریک دبتی ہوئی نظر نہیں آتی تھی۔یہ صورت حال چارلس ڈیگال کے لیے سخت تشویشناک بن گئی۔ انسائیکلوپیڈیا بر ٹانیکا کے الفاظ میں ، الجیریا کی جنگ کے مسائل ان کے لیے اس میں روک بن گئے کہ وہ مستقبل کی مثبت پالیسیوں ( Positive policies) کے بارہ میں نقشہ بنانے سے زیادہ کچھ کر سکیں (جلد 7 ، صفحہ 964)

فرانس اپنے افریقی مقبوضات کو فرانس کا صوبہ (Province) کہتا تھا۔وہ ان کی زبان اور کلچر کو اس حد تک بدل دینا چاہتا تھا کہ وہاں کے با شندے اپنے آپ کو فرانسیسی سمجھنے لگیں۔مگر یہ منصوبہ فرانس کے لیے بہت مہنگا پڑا۔عملاً یہ ممالک فرانس کا صوبہ نہ بن سکے اور اس غیر حقیقت پسندانہ کوشش نے خود فرانس کوایک کمزور ملک بنا دیا۔ فرانس کی تمام بہترین طاقت مقبوضہ ممالک میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے اور کچلنے میں استعمال ہونے لگی اور فرانس نے یورپ کی ایک عظیم طاقت(Great power) ہونے کی حیثیت کھو دی۔

سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ افریقہ پر قبضہ کرنے کی کوشش میں فرانس ایٹمی دوڑ میں پیچھے ہو گیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ چارلس ڈیگال نے محسوس کیا کہ نو آبادیاتی جنگ لڑنے کی کوشش فرانس کے لیے اس میںمانع ہو گئی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرے۔چنانچہ ڈیگال نے الجیریا کو آزاد کر دیا۔ اور اس کے بعد مضبوط ایٹمی طاقت کو وجود میں لانے کی کوشش شروع کر دی جو فرانس کی عظیم حیثیت کے لیے نئی بنیاد بن سکے ( جلد 4، صفحہ 905)

ڈیگال نے معاملہ کو قومی ساکھ یا ذاتی قیادت سے الگ ہو کر دیکھا۔ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بعد وہ اس رائے پر پہنچے کہ اس مسئلہ کا حقیقت پسندانہ حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ افریقی مقبوضات کو آزاد کر دیا جائے۔تاہم فرانس کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔یہ فرانس کے قومی وقار (National prestige) کا مسئلہ تھا اور قومی وقار ایسی چیز ہے کہ قومیں لڑ کر ہلاک ہو جاتی ہیں مگر وہ اپنے وقار کو کھونا برداشت نہیں کرتیں۔یہ یقینی تھا کہ جو شخص اس معاملہ میں قومی وقار کے خلاف فیصلہ کرے گا وہ فرانس میں اپنی مقبولیت کو یکسرختم کر دے گا۔تاہم ڈیگال نےیہ خطرہ مول لے لیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے الفاظ میںڈیگال نے الجیریا کے مسئلہ کو اس وقت حل کر دیا جب کہ ان کے سوا کوئی دوسرا شخص اس کو حل نہیں کر سکتا تھا۔( جلد 7، صفحہ 965)

جنرل ڈیگال نے اس کے بعد الجیریا کے لیڈروں کو گفت وشنید کی دعوت دی۔اس گفت وشنید کا فیصلہ عین منصوبہ کے تحت الجیریا کے حق میں ہوا ۔یعنی حکومت فرانس اس پر راضی ہو گئی کہ الجیریا میں ریفرنڈم کرایا جائے اور لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ فرانس کی ماتحتی پسند کرتے ہیں یا آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ریفرنڈم ہوا۔پیشگی اندازے کے مطابق الجیریا کے با شندوں نے آزاد الجیریا کے حق میں اپنی رائیں دیں اور اس کا احترام کرتے ہوئے حکومت فرانس نے جولائی 62 19 میں الجیریا کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

اس کے نتیجہ میں چارلس ڈیگال پر سخت تنقیدیں ہوئیں۔ان کے اوپر قاتلانہ حملے کیے گئے۔اس کے بعد عوام کے دبائو کے تحت ڈیگال نے فرانس میں ایک ریفرنڈم کرایا جس میں ڈیگال کو شکست ہوئی۔ بالآخر انھوں نے 28 اپریل 1969 کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔9 نومبر 1970 کو ان پر قلب کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ڈیگال ایک معمولی قبرستان میں اس طرح دفن کر دئیے گئے کہ ان کے جنارے میں ان کے چند رشتہ داروں اور دوستوں کے سوا کوئی اور شریک نہ تھا۔ ڈیگال خود مر گئے۔ مگر انھوں نے مر کر اپنی قوم کو دوبارہ زندگی دے دی۔

ڈیگال کے اس واقعہ سے اگر ڈیگال ازم (Degaullism) کی اصطلاح بنائی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیگال ازم اپنی قیادت کی قیمت پر قوم کو بچانا ہے۔برٹانیکا (1984) کے الفاظ میں ، ڈیگال تنہا شخص تھے جن میں یہ حوصلہ تھا کہ وہ ایسے نازک فیصلے لے سکیں جن سے سخت قسم کے سیاسی اور شخصی خطرات (Political and personal risks) وابستہ ہوتے ہیں ( 7:965)

ڈیگال ازم قومی زندگی کا راز ہے۔مگر بہت کم ایسا ہوتا ہےکہ کسی قوم کو ایک ڈیگال حاصل ہو جائے۔

 

کہانی بن گئی

سرونسٹن چرچل جو بعد کو برطانیہ کے وزیر اعظم بنے ، افریقہ کے بوئروں کی جنگ (1899) میں برطانوی اخبار مارننگ پوسٹ کے جنگی نامہ نگار تھے۔اس دوران ایک واقعہ پیش آیا جس کو جنوبی افریقہ کے سابق وزیر اعظم جان کرسچین سمٹس نے چرچل کے عروج کے زمانہ میں سنایا۔ وہ چرچل کی موجودگی میں وائٹ ہائوس ( واشنگٹن ) کے ڈنر کے موقع پر تقریر کر رہے تھے۔

انھوںنےبتایا کہ بوئر وار کے دوران مسٹرچرچل برطانوی سپا ہیوں کے ایک دستہ کے ساتھ بوئروں کے ہاتھوں پکڑے گئے۔بوئروں نے سپاہی اور اخباری نامہ نگار میں کوئی تمیز نہیں کی۔انھوں نے سب کو ایک ساتھ جیل میں ڈال دیا۔

مسٹرچرچل نےجیل سےاس واقعہ کی رپورٹ مجھے بھیجی اور اپنی فوری رہائی پر زور دیا۔کیونکہ  بین الاقوامی رواج کے مطابق اخباری رپورٹر کو قید نہیں کیا جا سکتا۔میں نے اس خط پر کاروائی شروع کی مگر اس سے پہلے کہ اس کیس کا فیصلہ ہو مسٹر چرچل کسی نہ کسی طرح جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد میری ملاقات مسٹر چرچل سے ہوئی جو اس وقت برطانوی کا بینہ کے رکن تھے۔میں نے وہ واقعہ یاد دلایا تو مسٹر چرچل بولےآپ نے اچھا کیا کہ میرے خط پر میری درخواست کے باوجود فوری کاروائی نہ کی۔اگر آپ جلدی میں میری رہائی کا انتظام کر ا دیتے تو میرا نوہزار پونڈ کا نقصان ہو جاتا۔’’وہ کیسے ‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔’’ وہ اس طرح کہ میں نے اپنی جیل سے فرار ہونے کی داستان ایک رسالہ کے لیے لکھ کر نو ہزار پونڈ میں فروخت کیا ‘‘۔

مسٹرچرچل اگر آسانی سے رہا ہو جاتے تو یہ واقعہ ایک سادہ واقعہ ہوتا وہ کہانی نہ بنتا۔مگر گرفتاری اور اس کے بعد جیل سے فرار نے اس کو کہانی بنا دیا۔

زندگی میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ پیش آتا ہے جو بظاہر نا خوش گوار ہوتا ہے۔آدمی اس کو دیکھ کر بے حوصلہ ہونے لگتا ہے۔مگر بعد کو جب آخری نتیجہ سامنے آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی اندازہ بالکل غلط تھا۔نا خوش گوار پہلو میں ایک خوش گوار پہلو چھپا ہوا موجودہ تھا جو واقعہ اپنی ابتدا میں نقصان کا واقعہ نظر آتا تھا وہ اپنی انتہا میں فائدہ کا واقعہ بن جاتا ہے۔

اعتراف

 

بنیاد

مکان کی تعمیر کا آغاز بنیاد سے ہوتا ہے۔ایک انجینئر کو ’’ اسکائی اسکریپر ‘‘ بنانا ہو تب بھی وہ بنیاد ہی سے اس کا آغاز کرے گا۔بنیاد سے آغاز کرنا دوسرے لفظوں میں اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہوا ہے اور وہ کون سا نقطہ ہے جہاں سے وہ اپنے سفر کا آغاز کر سکتا ہے۔

اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔یہاں ایک طرف قدرت (نیچر) ہے جو ہم سے الگ خود اپنے قوانین پر قائم ہے۔اسی کے ساتھ یہاں دوسرے انسان ہیں۔ان میں سے ہر انسان کے سامنے اپنا مقصد ہے اور ہر شخص اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ایسی حالت میں ضروری ہے کہ ہم ان حقیقتوں کو جانیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے ’’ ہے‘‘ کو جانتا ہے اسی طرح وہ اپنے ’’ نہیں ‘‘ سے بھی واقف ہے۔وہ ایک طرف اگر یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔وہ آغاز اور انجام کے فرق کو جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اپنا پہلا قدم اسے کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخر کار اپنے آپ کو پہنچانا چاہتا ہے۔

اعتراف بزدلی نہیں ، اعتراف سب سے بڑی بہادری ہے۔اعتراف کر کے آدمی بے عزت نہیں ہوتا ،وہ عزت کے سب سے بڑےمقام کو پا لیتا ہے۔جو شخص اعتراف نہ کرے وہ گویا فرضی خیالات میں جی رہا ہے۔اس کے بر عکس جو شخص اعتراف کرے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس نے فرضی تخیلات کے طلسم کو توڑ دیا ہے۔وہ حقائق کی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔

چیزوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا دانش مندی کا آغاز ہے۔جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو وہی کامیابی کے آخری زینہ پر پہنچتا ہے۔جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو وہ یا تو اپنا سفر شروع نہ کر سکے گا اور اگر سفر شروع ہو گیا تب بھی وہ درمیان میں اٹک کر رہ جائے گا۔وہ کبھی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔

 

انسان کی شخصیت

ایک برتن میں پانی ہے۔اس سے ایک قطرہ ٹپکا۔یہ قطرہ اگر بدبودار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برتن کا سارا پانی بدبودار ہے۔پانی کا قطرہ پانی کے پورے ذخیرہ کا نمائندہ ہے۔پانی کا ایک قطرہ جیسا ہے،سمجھ لیجئے کہ سارا پانی ویسا ہی ہو گا۔یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ہر انسان گویا پانی کا ایک ذخیرہ ہے۔اس ذخیرہ سے بار بار اس کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ان ظاہر ہونے والی بوندوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اندر کا انسان کیسا ہو گا۔ کسی آدمی سے آپ بات کریں اور بات چیت کے دوران اس کی زبان سے ایک ہلکی بات نکل جائے،کسی آدمی سے آپ معاملہ کریں اور معاملہ میں وہ کوئی کمزوری دکھائے،کسی آدمی کے ساتھ آپ کا سفر پیش آئے اور سفر میں اس کی طرف سے کوئی برا سلوک ظاہر ہو تو یہ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ وہ آدمی اچھا آدمی نہیں۔

آدمی ایک مکمل مجموعہ ہے۔جیسے برتن کا پانی ایک مکمل مجموعہ ہوتا ہے۔کسی آدمی سے ایک کمزوری ظاہر ہو تو وہ اس کی شخصیت کا انفرادی یا استثنائی واقعہ نہ ہو گا بلکہ وہ اس کی پوری شخصیت کا اظہار ہو گا۔وہ ایک عکس ہو گا جس میں اس کی پوری شخصیت جھلک رہی ہو گی۔کوئی آدمی کسی معاملہ میں کمزور ثابت ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور ہے۔آدمی ایک معاملہ میں ناقابل اعتماد ثابت ہونے کے بعد ہر معاملے میں اپنے آپ کو ناقابل اعتماد ثابت کر دیتا ہے۔اس کلیہ میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ اس انسان کا ہے جو اپنا محاسبہ کرتا ہو۔جس کے اندر احتساب کی صلاحیت زندہ ہو۔جو بار بار اپنے اندرجھانک کر دیکھتا ہو کہ اس نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط کیا۔ اس کی زبان کس موقع پر انصاف کی بات بولی اور کس موقع پر وہ انصاف سے ہٹ گئی۔

ایک شخص تجربہ میں غلط ثابت ہو۔اس کے بعد اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ آپ سے معافی مانگے تو سمجھ لیجئے کہ وہ صحیح انسان ہے۔وہ غلطی کر کے اس کی تصحیح کرنا جانتا ہے۔مگر جس کا حال یہ ہو کہ اس سے قول یا فعل کی غلطی صادر ہو اس کے بعد اس کا ضمیر اسے نہ تڑپائے۔اس کے اندر احتساب کی کیفیت نہ جاگے اور اس کی زبان معافی مانگنے کے لیے نہ کھلے تو ایسا انسان بالکل بے قیمت انسان ہے وہ اِس قابل نہیں کہ اُس پر کسی بھی معاملہ میں بھروسہ کیا جا سکے۔

 

غلطی پر غلطی

آدمی اگر اپنی غلطی نہ مانے تو وہ ہمیشہ دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ دوسرے کو برا ظاہر کر کے اپنی برائی پر پردہ ڈال سکے۔

ایک آدمی بے روز گار تھا۔اس کے دوست نے کہا کہ تم کوئی کاروبار کرو۔ آدمی نے کہا میرے پاس سرمایہ نہیں۔دوست نے کہا کہ تم کسی طرح پانچ ہزار روپے فراہم کر لو تو میں تم کو پانچ ہزار روپے بطور قرض دے دوں گا۔پھر تم دس ہزار روپے سے اپنا کام کر لینا۔ آدمی نے کہیں سے پانچ ہزار روپے حاصل کئے۔اس کے بعد جب اس نے دوست سے وعدہ کے مطابق رقم مانگی تو اس نے عذر کر دیا۔ اس کے بعد دوست کا یہ حال ہوا کہ وہ اس آدمی کو مستقل برا کہتا رہتا۔ ہر موقع پر اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔

دوست ایسا کیوں کرتا تھا۔جواب یہ ہے کہ اپنے احسا س جرم کو دوسرے کے اوپر ڈالنے کے لیے۔یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں روپیہ دینے کے لیے تو تیار تھا۔مگر یہ آدمی اس قابل ہی نہ تھا کہ اس کو روپیہ دیا جائے۔اس کی اپنی نالائقی نے اس کو روپیہ سے محروم رکھا نہ کہ میری کوتاہی نے۔انسان یا تو اپنی غلطی مانے گا یا دوسرے کو غلط کہے گا۔وہ بیک وقت دونوں سے بچ کر نہیں رہ سکتا۔

ایسا آدمی بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہوشیاری کر رہا ہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ایک جرم کو دو جرم بنا رہا ہے۔پہلے مرحلہ میں دوست صرف وعدہ خلافی کا مجرم تھا، اب وہ جھوٹا الزام لگانے کا بھی مجرم بن گیا۔

جب بھی آدمی سے کوئی غلطی ہو تو بہترین بات یہ ہے کہ وہ اس کا اعتراف کر لے۔غلطی کا اعتراف بات کو وہیں کا وہیں ختم کر دیتا ہے۔مگر جب آدمی غلطی کا اعتراف نہ کرے تو لازماً ایسا ہو گا کہ وہ دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح غلطی پر غلطی کرتا چلا جائے گا۔آدمی یا تو اپنے کو غلط مان کر مطمئن ہوتا ہے یا دوسرے کو غلط ثابت کرکے۔اگر وہ پہلا کام نہ کرے تو ضرور اس کو دوسرا کام کرنا پڑے گا۔اور دوسرا کام یقینی طور پر اس کے لیے پہلے سے زیادہ برا ہو گا۔

غلطی کرنا بشری کمزوری ہے۔مگر جھوٹا الزام لگانا سر کشی ہے۔اور کمزوری کے مقابلہ میں سر کشی یقینا زیادہ بڑا جرم ہے۔

 

غلطی مان لینے سے

ایک پریس نے ایک مرتبہ ایک بڑے ادارہ کی کتاب چھاپی۔کتاب کی تعداد پانچ ہزار تھی۔کتاب جب چھپ کر اور مکمل ہو کر ادارہ میں پہنچی تو اس کے بعد ادارہ کے منیجر کا ٹیلی فون آیا۔وہ کہہ رہا تھا ’’ آپ فوراً یہاں آکر مجھ سے ملیے ‘‘ پریس کا مالک پہنچا تو ادارہ کا منیجر اس کے اوپر برس پڑا۔اس نے مطبوعہ کتاب کے چند نسخے دکھاتے ہوئے کہا ’’یہ دیکھیئے ، اس کی کٹنگ کتنی غلط ہوئی ہے ‘‘۔پریس کے مالک نے دیکھا تو واقعی کٹنگ ترچھی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ایک طرف کا کونا زیادہ نکلا ہوا تھا۔ پریس کے مالک نے دیکھا اور خاموش رہا۔دوسری طرف ادارہ کا منیجر مسلسل بگڑے چلا جا رہا تھا آخر جب وہ اپنے تمام الفاظ ختم کر چکا تو پریس کے مالک نے سنجیدگی کے ساتھ کہا :

’’ آپ کیوں اس قدر پریشان ہیں۔نقصان تو ہمارا ہوا ہے ، ہم کو پریشان ہونا چاہئے ‘‘۔

’’ کیا مطلب ، آپ کا نقصان کیسا ‘‘

’’ ظاہر ہے کہ اس حالت میں آپ کو کتاب نہیں دے سکتا۔ اس کو تو میں واپس لے جائوں گا اور دوبارہ آپ کو دوسری کتاب چھاپ کر دوں گا۔ یہ میری ذمہ داری ہے۔خواہ مجھے کتنا ہی نقصان ہو مگر مجھے آپ کو صحیح کام دینا ہے ‘‘

پریس کے مالک کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ ادارہ کے منیجر کا لہجہ یکایک بدل گیا۔ وہی شخص جو پہلے بگڑے ہوئے انداز میں بول رہا تھا اب اس کا رویہ ہمدردانہ ہو گیا۔ کیونکہ پریس والے نے اپنی غلطی تسلیم کر لی تھی۔ادارہ کے منیجر کو عام رواج کے مطابق اس کی امید نہیں تھی۔مگر جب اس نے دیکھا کہ وہ نہ صرف اپنی غلطی مان رہا ہے بلکہ اس کی پوری تلافی کرنے کے لیے تیار ہے تو اس کا متاثر ہونا بالکل فطری تھا۔

’’ نہیں آپ اتنا نقصان کیوں برداشت کریں ‘‘ اس نے اپنا انداز بدلتے ہوئے کہا۔جب پریس کے مالک نے دیکھا کہ منیجر کا دل نرم پڑ چکا ہے تو اس نے منیجر سے کہا ایک شکل سمجھ میں آتی ہے۔آپ مجھے چند کتابیں دے دیجئے۔میں کوشش کرتا ہوں۔اگر کامیابی ہو گئی تو دوبارہ چھپوانے کی ضرورت نہ ہو گی۔منیجر نے کہا ؛ بڑے شوق سے ، آپ ضرور کوشش کیجئے۔اس کے بعدپریس کا مالک کتاب کے دس نسخے لے کر واپس آگیا۔ اس نے اچھی مشین میں احتیاط سے کٹوا کر کتاب کے چاروں کو نے دوبارہ صحیح کرائے۔اب پریس کا مالک اس کو لے کر ادارہ کے منیجر کے پاس گیا۔ منیجر اس کو دیکھ کر خوش ہو گیا۔ اس نے کہا ، بالکل ٹھیک ہے ، اسی طرح آپ سب کتابیں درست کرا دیجئے۔

’’ گاہک کی نظر میں جو غلطی ایک انچ کی ہوتی ہے اس کو میں ایک فٹ کے برابر ماننے کے لیے تیار رہتا ہوں ‘‘ پریس کے مالک نے کہا ’’ یہ در حقیقت کسی کاروبار میں کامیابی کے لیے بے حد اہم ہے۔گاہک کو مطمئن کر کے آپ گاہک کو ہر چیز پر راضی کر سکتے ہیں۔’’ بلکہ میرا تو یہ حال ہے ‘‘ پریس کے مالک نے مزید کہا ’’کہ اگر میرے کام میں غلطی ہو گئی ہے اور وہ میری نظر میں آجاتی ہے تو میں خود ہی گاہک کو بتا دیتا ہوں کہ مجھ سے فلاں غلطی ہو گئی ہے۔اب تلافی کی جو شکل بتائو، میں اس کے لیے تیار ہوں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گاہک کو ہمدردی ہو جاتی ہے۔اور بغیر کسی ناخوش گواری کے معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔

 

سبب اپنے اندر

نئی دہلی میں پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں یہ قصہ سنایا گیا کہ صدر جمہوریہ ہندمسٹر گیانی ذیل سنگھ اپنے آپریشن کے لیے امریکہ گئے۔وہاں وہ ٹکساس کے ہسپتال میں تھے جس میں ان کے پیش رو سنجیواریڈی بھی زیر علاج رہ چکے تھے۔ جب وہ آپریشن تھیٹر میں لے جائے گئے تو چیف سر جن نے موصوف سے پوچھا:کیا آپ تیار ہیںAre you readyگیانی ذیل سنگھ نے اس کے جواب میں کہا :

No, I am not Reddy. I am Zail Singh.

میں ریڈی نہیں ہو ں۔میں ذیل سنگھ ہوں ( ہندوستان ٹائمس،4 دسمبر 1982)

عین ممکن ہے کہ یہ کوئی واقعہ نہ ہو بلکہ محض ایک لطیفہ ہو۔مگر سوال یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسا لطیفہ بنانے کی جرأت کیسے ہوئی۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گیانی ذیل سنگھ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ انگریزی زبان کم جانتے ہیں۔ٹکساس کے آپریشن ٹیبل پراگر رادھا کرشنن یا جواہر لال نہرو ہوتے تو کسی لطیفہ گو کو ایسا لطیفہ گھڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔

باہر کی دنیا آپ کو اتنا ہی جانتی ہے جتنا آپ نے اس کو بتایا ہے اور آپ کی جو تصویر اس کے ذہن میں ہے اسی کے مطابق وہ آپ کے ساتھ سلوک کرتی ہے۔اگر دوسروں سے آپ کو برے سلوک کا تجربہ ہو تو دوسروں کو برا سمجھنے کے بجائے خود اپنے اندر اس کے اسباب تلاش کیجئے۔کیونکہ اپنی کمی کو دور کر کے آپ زیادہ بہتر طور پر دوسروں کے برے سلوک سے بچ سکتے ہیں۔

یونان کے ایک آرٹسٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک آدمی کی تصویر بنائی جس کے ہاتھ میں انگور کا خوشہ تھا۔ اس نے تصویر کو بازار میں رکھ دیا۔ اس کے دوست نے اس کے بعد اسے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ تم نے انگور کی تصویر اتنی کامیاب بنائی ہے کہ چڑیاں اس کو واقعی سمجھ کر اس پر چونچ مارتی ہیں۔آرٹسٹ نے کہا:آدمی کی تصویر بنانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی۔ورنہ چڑیاں اس قسم کی جرأت ہی نہ کرتیں۔

اب آرٹسٹ نے دوسری تصویر بنائی۔ اس تصویر میں بھی ایک آدمی انگور کا خوشہ لیے ہوئے تھا۔ انگور کا خوشہ دوبارہ اس قدر مطابق فطرت تھا کہ چڑیاں اس کو دیکھ کر اس کے پاس آتیں۔مگر اب انھیں چونچ مارنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔کیونکہ جو آدمی انگور کا خوشہ لیے ہوئے تھا اس کی آنکھیں اس قدر غضب ناک تھیں کہ ان کو دیکھتے ہی چڑیاں واپس لوٹ جاتیں۔

 

اعتراف نہیں

نئی دہلی کے ایک خاندان کو ٹیلی گرام ملا۔اس کا مضمون یہ تھا  :

Nani expired

یعنی نانی کا انتقال ہو گیا۔ یہ ٹیلی گرام پڑھ کر گھر کے سب لوگ پریشان ہو گئے۔پورا خاندان فوری طور پر اس مقام کے لیے روانہ ہو گیا جہاں مذکورہ نانی رہتی تھیں اور جہاں سے ٹیلی گرام موصول ہوا تھا۔یہ لوگ جب گھبرائے ہوئے اور کافی پیسہ خرچ کر کے مذکورہ مقام پر پہنچے تو وہاں نانی صاحبہ زندہ سلامت موجود تھیں۔

معلوم ہوا کہ ٹیلی گرام کا اصل مضمون یہ تھا کہ نانی پہنچ گئیں (Nani reached) مگر وہ موصول کرنے والے کلرک کی غلطی سے نانی انتقال کر گئیں (Nani expired) بن گیا۔( ٹائمس آف انڈیا 6دسمبر 1983)

ٹیلی گراف آفس کو اس افسوسناک غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی۔مگر اس کا جو نتیجہ ہوا وہ اخبار کے الفاظ میں یہ تھا  :

 The P&T department has not yet accepted the charge of inefficiency, regrets only the inconvenience, if any.

The Times of India 7.12.1985

محکمہ ڈاک وتارنے اپنی غفلت تسلیم نہیں کی۔اس نے صرف یہ کہا کہ اگر اس کی وجہ سے کوئی زحمت ہو ئی ہو تو اس کو اس کا افسوس ہے۔

اوپر کی مثال صرف محکمہ تار کی مثال نہیں۔یہی موجودہ زمانہ میں تمام لوگوں کا حال ہے۔’’ میں نے غلطی کی ‘‘ صرف چار الفاظ کا ایک جملہ ہے۔مگر چار الفاظ کا یہ جملہ ادا کرنے والے چار انسان بھی مشکل سے آج کی دنیا میں ملیں گے۔لوگوں کی ڈکشنری میں صرف یہ الفاظ ہیں کہ ’’تم غلطی پر ہو ‘‘۔لوگوں کی ڈکشنری ان الفاظ سے خالی ہے کہ ’’ میں غلطی پر ہوں ‘‘۔آج کا انسان کسی قیمت پر اپنی غلطی کو نہیں مانتا، خواہ اس کی خاطر اسے حقیقت کو ذبح کرنا پڑے۔خواہ ایک غلطی کو نہ ماننے کی کوشش میں وہ مزید بےشمار غلطیاں کرتا چلا جائے۔

 

اعتراف

اردو زبان کے ایک استاد کلاس میں غزل پڑھا رہے تھے۔اس درمیان میں ایک مصرعہ آیا جو کتاب میں اس طرح چھپا ہوا تھا:

پنجۂ سل سے کھلیں گے عقدہ ٔگیسوئے دوست

استاد نے اس مصرعہ کی تشریح ان الفاظ میں کیپنجۂ سل کا مطلب ہے سل کا پنجہ۔ کِھلیں گے ، یعنی وا ہو جائیں گے۔عقدہ یعنی گرہ۔ گیسو ئے دوست، یعنی محبوب کے گیسو۔مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ محبوب کے گیسو پنجۂ سل سے کھل جائیں گے۔

طلبہ حیرانی میں تھے۔کیوں کہ استاد کی مذکورہ تشریح کے باوجود مصرعہ کا مطلب واضح نہیں ہوا تھا۔انھوں نے نظم کے الفاظ کو نثر میں دہرا دیا تھا۔اتنے میں کلاس کا ایک ذہین طالب علم اٹھا۔اس نے کہا  :

’’ سر ، میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں ‘‘

’’ کہو ‘‘

’’ سر ، یہ شاید طباعت کی غلطی ہے۔میرے خیال سے یہ پنجۂ سل نہیں بلکہ پنجۂ شل ہے۔اور شل کے معنی ہیں بے جان۔کنگھا انسانی پنجہ کے مشابہ ہوتا ہے۔بے جان ہونے کی وجہ سے شاعر نے اس کو پنجۂ شل کہا۔ شاعر افسوس کر رہا ہے کہ ہماری جاندار انگلیاں تو محبوب کی زلف کو سنوار نہ سکیں۔اور کنگھا جس کی انگلیاں بے جان ہیں اور وہ گویا پنجۂ شل ہے ، اس کی خوش بختی دیکھو کہ اس نے زلف محبوب کے بل کھول کر اس کو سنوار دیا ‘‘

طالب علم کی اس وضاحت کے بعد کلاس کے تمام طلبہ خوش ہو گئے ۔ان کو محسوس ہوا کہ استاد کی تشریح کے باوجود جو مصرعہ بد ستور نا قابل فہم بنا ہوا تھا اس کو طالب علم کی تشریح نے قابل فہم بنا دیا ہے مگر استاد محترم اپنی ہار ماننے والے نہیں تھے۔انھوں نے فوراً کہا:

درست، درست۔ پنجۂ سل اور پنجۂ شل ایک ہی بات ہے۔

حقیقت کھل جانے کے بعد آدمی اگر اس کا اعتراف نہ کرے تو گویا وہ چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو بڑا اور حقیقت کو چھوٹا ثابت کرے۔مگر چوں کہ امر واقعہ اس کے خلاف ہے۔اس لیے عملاً صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی خودچھوٹا ہو کر رہ جاتا ہے۔

 

اعتراف

ایک نوجوان کھلاڑی کو ایک فٹ بال ٹیم میں شامل ہو کر میچ کھیلنا پڑا۔اتفاق سے اس کی ٹیم ہار گئی۔ ہارنے کے بعد نوجوان نے اپنے باپ کو خط لکھا :

ہمارے مخالفوں کو ہماری دفاعی لائن میں ایک زبردست شگاف مل گیا تھا۔ اور وہ شگاف میں ہی تھا۔

یہ اعتراف کسی آدمی کے لیے سب سے بڑی بہادری ہے اور یہی تمام اجتماعی ترقیوں کی جان بھی ہے۔ہر شکست ’’ دفاعی لائن میں کسی شگاف ‘‘ ہی کی وجہ سے پیش آتی ہے۔اور اس کا بہترین علاج اس کا اعتراف ہے۔اعتراف کے ذریعہ اصل مسئلہ بغیر کسی مزید خرابی کے حل ہو جاتا ہے۔اعتراف کرنے والا یا تو اپنی کمی کا احساس کرتے ہوئے اپنے آپ کو میدان سے ہٹا دیتا ہے۔اور اس طرح دوسرے بہتر لوگوں کو کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔یا وہ اپنی ہار کو وقتی معاملہ سمجھ کر مزید تیاریوں میں لگ جاتا ہے۔یہاں تک کہ بالآخر کامیاب ہو جاتا ہے۔

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اعتراف ہے۔ایمان ایک اعتراف ہے ۔کیونکہ ایمان لا کر آدمی اپنے مقابلہ میں خدا کی بڑائی کا اقرار کرتا ہے۔لوگوں کے حقوق کی ادائیگی اعتراف ہے۔کیونکہ ان پر عمل کر کے ایک شخص بین انسانی ذمہ داریوں کا اقرار کرتا ہے۔تو بہ ایک اعتراف ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے آدمی اس حقیقت کا اقرار کرتا ہے کہ صحیح وہ ہے جو خدا کے نزدیک صحیح ہے اور غلط وہ ہے جو خدا کے نزدیک غلط ہے۔زندگی کی ہر قسم کی اصلاح کا راز اعتراف میں چھپا ہوا ہے۔کیونکہ انسان ہمیشہ غلطی کرتا ہے۔اگر وہ اعتراف نہ کرے تو اس کی غلطیوں کی اصلاح کی دوسری کوئی صورت نہیں۔

اعتراف تمام ترقیوں کا دروازہ ہے۔مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اعتراف کے لیے آمادہ کر سکے۔جب بھی ایسا کوئی موقع آتاہے تو آدمی اس کو اپنی عزت کا سوال بنا لیتا ہے۔وہ اپنی غلطی ماننے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے۔حتیٰ کہ وہ وقت آجاتا ہے کہ جس غلطی کا صرف زبانی اقرار کر لینے سے کام بن رہا تھا اس غلطی کا اسے اپنی بربادی کی قیمت پر اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

 

دوسری غلطی نہیں

ایک شخص سرکاری ملازم تھا۔ شہر میں اس کے پاس ذاتی مکان تھا۔زندگی آرام سے گزر رہی تھی۔اس کے بعد اس کو اپنی لڑکی کی شادی کرنی پڑی۔شادی میں اس نے اپنے محکمہ سے ایک بڑا قرض لے لیا۔ لڑکی کی شادی دھوم سے ہو گئی۔مگر اس کے بعد ایک نیا مسئلہ سامنے آگیا۔اس کی تنخواہ میں سے قرض کی قسط کٹنے لگی۔اس کی وجہ سے اس کو ماہانہ ملنے والی رقم تقریباً آدھی ہو گئی۔ خرچ چلنا مشکل ہو گیا۔ میاں بیوی نے مشورہ کیا کہ گھر کا ایک حصہ کرایہ پر دے دیں اور کرایہ میں جو رقم آئے اس کو ملا کر گزار ہ کریں۔انھوں نے ایک بڑا کمرہ اور اس سے ملا ہوا غسل خانہ اپنے لیے رکھا اور باقی پورا مکان کرائے پر دے دیا۔

اس طرح پانچ سال گزر گئے۔اس کے بعد کرایہ دار کی نیت بگڑی۔اس نے چاہا کہ پورے مکان پر قبضہ کر لے۔اس نے شادی کا بہانہ بنا کر مالک مکان سے کہا کہ آپ دو ہفتے کے لیے اپنا کمرہ ہم کو دیدیں تاکہ ہم اپنے مہمانوں کو ٹھہرا سکیں۔دو مہینہ کے بعد ہم آپ کا کمرہ خالی کر دیں گے۔کرایہ دار نے وقتی طور پر ان کے لیے جگہ کا بھی انتظام کر دیا۔ مالک مکان اس کے کہنے میں آگئے اور کمرہ چھوڑ کر چلے گئے۔بعد کو کرایہ دار نے ان کا تمام سامان ان کے پاس بھجوا دیا۔ دو ہفتہ گزرنے کے بعد مالک مکان نے اپنے گھر میں آنا چاہا تو کرایہ دار نے ان کو بھگا دیا اور کہا کہ یہ پورا مکان میرا ہے اب اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں۔

اب مالک مکان کیا کریں۔ان کے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اگر تم مکان خالی کرانے کے لیے مقدمہ کرو تو اس کے فیصلہ میں دس سال لگ جائیں گے۔تم ایسا کرو کہ کچھ آدمی جمع کرو اور مکان میں گھس کر زبردستی کرایہ دار کو نکال دو اور اس پر قبضہ کر لو۔مالک مکان نے ایسا ہی کیا۔مگر کرایہ دار بھی ہوشیار تھا۔جب مالک مکان نے ’’ حملہ ‘‘ کیا تو اس نے فوراً پولیس کو رپورٹ کر دی۔پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ اور مالک مکان پر فوجداری مقدمہ قائم ہو گیا۔ مقدمہ تقریباً دس سال تک چلتا رہا اور ایک کے بعد ایک کئی مقدمے بنتے چلےگئے۔مکان کا مسئلہ اپنی جگہ قائم رہا اور فوجداری مقدمات کی پیروی میں مالک مکان برباد ہو کر رہ گئے۔مزید یہ کہ فوجداری جرم کی وجہ سے ان کی سرکاری ملازمت بھی ختم ہو گئی۔

ایک غلطی کے بعد دوسرے غلطی نہ کیجئے۔اگر آپ نے غلطی کر کے ایک چیز کھو دی ہے تو ایسا کبھی نہ کیجئے کہ آپ دوبارہ غلطی کریں اور اس کے نتیجہ میں آپ اپنی بقیہ چیز بھی کھو دیں۔

 

پیغامِ حیات

زندگی ایک امتحان ہے۔یہ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔اور اسی حقیقت کو سمجھنے میں ہماری تمام کامیابیوں کا راز چھپا ہوا ہے ، خواہ وہ دنیا کی کامیابی ہو یا آخرت کی کامیابی۔

آخرت کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو دنیا میں جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور آزمائش ہے نہ کہ بطور استحقاق۔آدمی کو چاہیے کہ اس کو وہ اپنی ذاتی چیز نہ سمجھے بلکہ اس کو خدا کی چیز سمجھے۔یہ چیزیں صرف اس وقت تک آدمی کے قبضہ میں ہیں جب تک اس کی مدت امتحان پوری نہ ہو۔ مدت پوری ہوتے ہی سب کچھ اس سے چھین لیا جائے گا۔اس کے بعد آدمی کے پاس جو کچھ بچے گا وہ صرف اس کے اپنے اعمال ہوں گے نہ کہ وہ سازو سامان جن کے درمیان آج وہ اپنے آپ کو پاتا ہے۔

دنیا کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میںجس طرح ایک شخص کو آزادی حاصل ہے اسی طرح یہاں دوسرے شخص کو بھی پوری آزادی حاصل ہے۔اس صورت حال کی وجہ سے یہ دنیا اس چیز کا ایک میدان بن گئی ہے جس کو مقابلہ (Competitioin)کہا جاتا ہے۔یہاں ہر آدمی آزاد ہے، اس لیے یہاں ہر ایک شخص اور دوسرے شخص یا ہر ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان کھلا مقابلہ جاری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر کامیابی دوسروں کے بالمقابل اپنے ا ٓپ کو کامیاب بنانے کا نام ہے۔یہاں وہی شخص جیتتا ہے جو زندگی کی دوڑمیں دوسروں سے بازی لے جائے ۔یہاں اسی شخص کو ملتا ہے جو دوسروں سے آگے بڑھ کر لے لینے کا حوصلہ کر سکے۔

جن لوگوں کے پاس غیر اللہ کے سہارے ہوں وہ آخرت کی دنیا میں اپنے آپ کو بے قیمت پائیں گے ۔اسی طرح جو لوگ صرف تعصب اور امتیاز کی اصطلاحوں میں سوچنا جانتے ہوں وہ موجودہ دنیا میں بے جگہ ہو کر رہ جائیں گے ، وہ مقابلہ کی اس دنیامیں اپنے لیے کوئی حقیقی مقام حاصل نہیں کر سکتے۔

رازِ حیات

 

دینے کے بعد پانا

انگریزی کا مقولہ ہے کہ ہم دیتے ہیں تبھی ہم پاتے ہیں(In giving that we receive) اس کی ایک مثال اکتوبر 1986 میں برطانیہ کی ملکہ کا چین کا دورہ ہے۔ یہ چین کے لیے برطانیہ کے کسی شاہی فرد کا پہلا تاریخی دورہ تھا۔ چین اور برطانیہ ایک سو سال سے ایک دوسرے کے روایتی رقیب بنے ہوئے تھے۔ اس دورہ سے برطانیہ کو یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ چین کے ساتھ اس کا ایک بلین ڈالر سے زیادہ $ 1.5 billion))سالانہ تجارت کا معاہدہ یقینی ہو گیا۔

پانے کا یہ معاملہ دینے کے بعد ہوا۔ ٹائم میگزین (17 اکتوبر1986)نے اس دورہ کی رپورٹ دیتے ہوئے یہ بامعنی الفاظ لکھے ہیں:

Her Majesty Queen Elizabeth II had long voiced a desire to visit the People's Republic of China. But as long as Britain ruled a piece of Chinese territory, the crown colony of Hong Kong, such a journey was impossible. The 1984 Sino-British agreement returning Hong Kong to China in 1997 provided the price of admission. (p.22)

ملکہ الزبتھ بہت عرصہ سے اس خواہش کا اظہار کر رہی تھیں کہ وہ چین جانا چاہتی ہیں۔ مگر جب تک برطانیہ چین کے ایک حصّہ (ہانگ کانگ) کا حکمران تھا اس قسم کا سفر ناممکن بنا رہا۔ 1984 میں چین۔برطانیہ معاہدہ ہوا جس کے مطابق برطانیہ 1997میںہانگ کانگ کو واپس کر دے گا۔ اس معاہدہ نے ملکہ برطانیہ کے چین میں داخلہ کی قیمت ادا کر دی۔

برطانیہ نے ہانگ کانگ کے معاملہ میں چین کے مطالبہ کو مان لیا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ اس کے لیے چین میں تجارت کا وسیع دروازہ کھلے۔ اگرچہ ہانگ کانگ کو دوبارہ چین کے حوالے کرنا ایک بے حد سخت معاملہ تھا۔ ٹائم کے الفاظ میں، اس کا مطلب یہ تھا کہ برطانیہ کا ایک ہیرا اس کے تاج سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے۔۔۔ یہی موجودہ دنیا کا قانون ہے۔ یہاں دوسروں سے لینے کے لیے دوسروں کو دینا پڑتا ہے۔جو لوگ دئیے بغیر یک طرفہ طور پر دوسروں سے لینا چاہتے ہوں، ان کے لیے موجودہ دنیا میں کچھ بھی پانا مقدر نہیں۔

 

تخلیقی اقلیت

آرنلڈ ٹائن بی (1983۔1852) ایک انگریز مورخ ہے۔1954 میںاس نےاپنی مشہور کتاب تاریخ کا مطالعہ (A Study of History)چھاپی۔یہ کتاب بارہ جلدوں میں ہےاور اس میں 21 تہذیبوں کا فلسفیانہ مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں ٹائن بی نے دکھایا ہے کہ کسی قوم کا ابھرنا اس پر منحصر نہیں ہوتا کہ وہ کسی اعلیٰ نسل سے ہے یا زیادہ بہتر جغرافی حالات اسے حاصل ہو گئے ہیں۔ بلکہ اس کا انحصار کسی قوم کی اس صلاحیت پر ہے کہ پیش آمدہ چیلنج کا جواب وہ کس طرح دیتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیا میں ہمیشہ وہ قومیں ابھرتی ہیں جو خصوصی مشکلات پیدا ہونے کے وقت خصوصی جدوجہد کر سکیں۔ تہذیبوں کے ابھرنے کے بارے میں ٹائن بی کی توجیہات اس نظریہ پر قائم ہیں کہ جو چیز لوگوں کو تہذیبی کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے وہ مشکل حالات ہیںنہ کہ آسان حالات:

The rise of a civilization was not the result of such factors as superior racial qualities or geographical environment but rather as a people's response to a challenge in a situation of special difficulty that rouses them to make an unprecedented effort. Difficult rather than easy conditions prompted men to cultural achievement (4/659)

ٹائن بی کا کہنا ہے کہ تہذیب ہمیشہ کوئی تخلیقی اقلیت (Creative Minority)پیدا کرتی ہے۔ یہ دراصل چیلنج کا جواب دینے کا عمل (Challenge-response mechanism) ہے جو کسی قوم کو ابھارتا ہے اور اس کو دنیا کا امام بناتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس دنیا میں محروم ہونا کوئی ناپسندیدہ بات نہیں۔ کیوں کہ محرومی آدمی کے اندر پانے کا جذبہ ابھارتی ہے اور اِس طرح اُس کو زیادہ باعمل بنا کر اس کے لیے زیادہ بڑی کامیابی کا امکان پیدا کر دیتی ہے۔ مشکل حالات میں گھری ہوئی ایک قوم اگر ردعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو تو وہ اپنے حالات سے صرف فریاد و احتجاج کی غذا لے گی۔ اور اگر وہ حالات سے اوپر اٹھ کر مثبت طور پر سوچے تو اس کو نظر آئے گا کہ اس کے مشکل حالات اس کو نئی شاندار تر کامیابی کا زینہ فراہم کر رہے ہیں۔

 

معلومات نہیں ذہنی رجحان

نوبل انعام کا حصول،سائنس کی دنیا میں ، اعلیٰ ترین کارکردگی کا ایک مسلمہ معیار سمجھا جاتا ہے۔ یہ انعام کسی کو کیسے حاصل ہوتا ہے۔ کیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ ایچ۔اے۔کرئیبز(H.A. Krebs)نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سائنس دان بننے کے لیے اعلیٰ سازو سامان والی لیبارٹریوں اور جدید ترین لٹریچر پر مشتمل لائبریریوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ کچھ مدت کے لیے کسی بڑی سائنسی شخصیت کی صحبت و رفاقت میسر آجائے۔’’اگر مجھے اپنی جوانی کے ابتدائی چار سال ‘‘ وہ لکھتا ہے ’’آٹوواربرگ (Otto Warburg)جیسے سائنس دان کی رفاقت میسر نہ آتی تو میرے اندر سائنس کا صحیح ذوق پیدا ہونا محال تھا۔‘‘

کریبز مختلف بڑے سائنس دانوں کے اقوال پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اعلیٰ سائنس دانوں کی صحبت جو سب سے بڑی چیز کسی کو دیتی ہے وہ سائنسی حقائق اور سائنسی طریقوں کے بارے میں معلومات کا انبار نہیں ہے۔یہ دونوں چیزیں تو ہر جگہ سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جو بات حقیقی فرق پیدا کرتی ہے، وہ دراصل فیضان نظر ہے جسے استاد اپنے شاگرد کو منتقل کرتا ہے۔ یہی فیضان نظر، جس کو وہ عمومی سائنسی روح(General Scientific Spirit)کا نام دیتا ہے، کسی شخص کو سچا سکالر بناتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ایک عظیم استاد یا سائنس دان اپنے شاگرد کے ذہن میں حقائق کے بارے میں معلومات سے کہیں زیادہ ایک ذہنی رویہ(Attitude)منتقل کرتا ہےاس ذہنی رویہ میں دو باتیں بالخصوص بہت اہم ہیں۔ ایک عجز(Humility) دوسرا شوق (Enthusiasm)‘‘

عجز اور شوق دو سب سے بڑے زینے ہیں جن سے گزر کر آدمی اونچی ترقی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ شوق آدمی کو اکساتا ہے کہ وہ کہیں رکے بغیر اپنا سفر جاری رکھے۔ شوق آدمی کے اندر تجسس کا جذبہ ابھارتا ہے جس کی وجہ سے وہ چیزوں کی حقیقت جاننے کی کرید میں رہتا ہے۔ تا ہم جستجو کا شوق ہی کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ عجز بھی انتہائی طور پر ضروری ہے۔ عجز کا مطلب ہے اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ سے کم سمجھنا۔ ایسا آدمی غلطی معلوم ہوتے ہی فوراً اس کا اعتراف کر لیتا ہے۔ وہ کسی بات کو ماننے سے کبھی اس لیے نہیں رکتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وقار کم ہو جائے گا۔ وہ حق کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے نہ کہ کسی اور چیز کو۔

 

ایک کے بعد دوسرا

مسافر اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹرین جا چکی ہے۔ اس کی گھڑی صحیح نہ تھی اس لیے وہ دس منٹ لیٹ ہو گیا۔ اتنی دیر میں ٹرین آکر چلی گئی۔ ’’بابوجی، فکرنہ کیجئے‘‘ قلی نے کہا’’دو گھنٹے بعد ایک اور گاڑی آ رہی ہے، اس سے آپ چلے جائیں۔ اتنی دیر پلیٹ فارم پر آرام کر لیجئے‘‘۔ مسافر نے قلی کا مشورہ مان لیا اور دو گھنٹہ انتظار کے بعد اگلی ٹرین پر سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

ہر مسافر جانتا ہے کہ ایک ٹرین چھوٹ جائےتو جلدبعد ہی دوسری ٹرین مل جاتی ہے جس سے وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ یہ پلیٹ فارم کا سبق ہے۔ مگر اکثر لوگ اس معلوم سبق کو اس وقت بھول جاتے ہیں جب کہ زندگی کی دوڑ میں ایک موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔ پہلی بار ناکامی سے دو چار ہونے کے بعد وہ مایوس ہو جاتے ہیں یا احتجاج و فریاد کے مشغلہ میں لگ جاتے ہیں۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لیے نیا منصوبہ بنائیں، وہ ’’اگلی ٹرین‘‘سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔

ایک شخص جس سے آپ کی مخالفت ہو گئی ہو اور ٹکرائو کا طریقہ جس کو ’’درست‘‘ کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو، آپ اس کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیجئے۔ اس کو نرمی کے طریقہ سے متاثر کرنے کی کوشش کیجئے۔ عین ممکن ہے کہ پرانے طریقے نے جس کو آپ کا دشمن بنا رکھا تھا، نئے طریقہ کے بعد وہ آپ کا ایک کارآمد دوست ثابت ہو۔ آپ کہیں ملازم ہیں اور وہاں آپ کی ملازمت ختم کر دی جاتی ہے۔ آپ اس کے پیچھے نہ پڑئیے بلکہ دوسرے کسی میدان میں اپنے لیے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہو سکتا ہے کہ نیا کام آپ کے لیےپہلے سے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔ کوئی آپ کا حق نہیں دیتا۔ اس سے آپ کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں اور آپ اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اس کا خیال چھوڑ دیجئے اور اپنی محنت پر بھروسہ کیجئے۔ بہت ممکن ہے کہ اپنی محنت کو کام میں لا کر آپ خود وہ چیز حاصل کر لیں جس کو آپ دوسروں سے مانگ کر پانا چاہتے تھے۔

زندگی کے بیشتر مسائل تنگ نظری کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آدمی اپنے ذہن میں وسعت پیدا کر لے تو اس کو معلوم ہو کہ یہاں سفر کے لیے ایک سے زیادہ ’’گاڑیاں‘‘ موجود ہیں۔۔۔ جو چیز وہ مقابلہ آرائی کے ذریعہ حاصل نہ کر سکا اس کو وہ باہمی جوڑ کے ذریعہ حاصل کر سکتا تھا۔ جہاں حقوق طلبی کا طریقہ مقصد تک پہنچانے میں ناکام رہا وہاں وہ محنت کا طریقہ اختیار کر کے اپنی منزل تک پہنچ سکتا تھا۔ جن لوگوں کی باتوں پر مشتعل ہو کر وہ ان پر قابو نہ پا سکا، وہ ان کی باتوں پر صبر کر کے انھیں جیت سکتا تھا۔

 

ایک تجارتی راز

محلہ میں کئی مسلم ہوٹل ہیں۔ میں دس سال سے ان کو دیکھ رہا ہوں۔ مگر ان میں صرف ایک ہوٹل ایسا ہے جو اس مدت میں مسلسل ترقی کرتا رہا ہے۔ باقی تمام ہوٹل جہاں دس سال پہلے تھے وہیں آج بھی پڑے ہوئے ہیں۔ ترقی کرنے والے ہوٹل کے مالک سے میں نےایک روز پوچھا کہ آپ کی ترقی کا راز کیا ہے۔ ـ’’بالکل سادہ‘‘انھوں نے جواب دیا’’جو چیز دوسرے ہوٹل والے کلو میں خریدتے ہیں اس کو ہم بوروں میں خریدتے ہیں۔ ہر خریداری کے وقت ہم پورے بازار کو دیکھتے ہیں اور جو چیز جہاں کفایت سے ملتی ہے اس کو وہاں سے لیتے ہیں۔ زیادہ مقدار اور نقد خریداری کی وجہ سے چیز ہم کو اور بھی سستی پڑ جاتی ہے‘‘ اس کے بعد انھوں نے ہنس کر کہا ’’ گاہک سے نہیں کمایا جاتا، بازار سے کمایا جاتا ہے‘‘

عام طور پر دکان داروں کا یہ حال ہے کہ جو گاہک سامنے آجائے بس اس کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکال لینے کو دکان داری سمجھتے ہیں۔ یہ دکان داری نہیں لوٹ ہے اور جس دکان دار کے بارے میں مشہور ہو جائے کہ وہ ’’لوٹتا ہے‘‘ اس کے یہاں کون خریداری کے لیے جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے دکان دار زیادہ ترقی نہیں کر پاتے۔ دکان داری کا زیادہ اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ مال کی خریداری کے وقت آپ کوشش کریں کہ آپ کو کم قیمت میں مال ملے تا کہ عام نرخ سے گاہک کو دینے کے بعد بھی آپ کو زیادہ فائدہ حاصل ہو۔

یہ اصول ہر قسم کے کاروبار کے لیے صحیح ہے۔ ہر کاروبار میں ایسا ہوتا ہے کہ دکان دار اپنے گاہک کے ہاتھ جو چیز بیچتا ہے اس کو وہ خود کہیںسے خرید کر لاتا ہے۔ یہ خریداری خواہ ایک مرحلہ میں ہو یا کئی مرحلوں میں۔ اس کی ہمیشہ کئی صورتیں ہیں۔ اکثر دکان دار مشقت اور دوڑ بھاگ سے بچنے کے لیے کسی آسان یا قریبی ذریعہ سے اپنی ضرورت کا سامان حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر دوڑ بھاگ کی جائے اور محنت سے کام لیا جائے تو وہ چیز نسبتاً کم قیمت میں حاصل کی جا سکتی ہے جس کو دوسرا شخص محنت سے بچنے کی خاطر زیادہ قیمت میں حاصل کر رہا ہے۔

عام دکان دار ہمیشہ اپنی محنت کی کمی کو گاہک کی جیب سے زیادہ وصول کر کے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس قسم کی تجارت کبھی آدمی کو بڑی ترقی تک نہیں پہنچاتی۔ بہترین تجارتی گُر یہ ہے کہ گاہک کو ممکن حد تک مناسب نرخ پر چیزیںفراہم کی جائیں اور گاہک کے ہاتھ تک پہنچنے سے پہلے کا جو مرحلہ ہے اس میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کی جائے۔ زیادہ کمائی بازار سے کی جائے نہ کہ گاہک سے۔(17 اگست 1980)

 

برتر کامیابی

موجودہ دنیا میں اعلیٰ درجہ کا کام انجام دینے والا (Super achiever)بننے کےلیے کسی طلسماتی صلاحیت کی ضرورت نہیں۔ ایک اوسط درجہ کا آدمی بھی انتہائی اعلیٰ درجہ کی کارکردگی کا ثبوت دے سکتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی زندگی کی سادہ حقیقتوں کو جانے اور ان کو استعمال کرے۔(ریڈرز ڈائجسٹ، اکتوبر 1986)

ایک امریکی مصنف نے باقاعدہ طور پر اس کی تحقیق کی۔ اس کا کہنا ہے کہ تجارت، سیاست، سپورٹس اور آرٹ کے میدان میں اس نے 90 ممتاز افراد سے رابطہ کیا۔ ان کی اکثریت نے ناکامی کو ’’غلط آغاز‘‘کا نتیجہ قرار دیا۔ مایوسیاں ان کے لیے زیادہ طاقتور ارادہ کا سبب بن گئیں۔ حالات خواہ کتنے ہی خراب ہوں، اعلیٰ درجے کا کام انجام دینے والے ہمیشہ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کچھ نئے گوشے ہیں جن کو وہ دریافت کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس ہمیشہ کوئی نیا تصور ہوتا ہےجس کا وہ دوبارہ تجربہ کریں:

In a study of 90 leaders in business, politics, sports and the arts, many spoke of "false starts" but never of "failure". Disappointment super greater resolve. No matter how rough things get, super-achievers always feel there are other avenues they can explore. They always have another idea to test.

اگر آپ ناکامی سے دوچار ہوں اور اس ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیں تو آپ کے اندر عمل کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ آپ صرف دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت میں مشغول رہیں گے اور خود کچھ نہ کر سکیں گے۔ لیکن اگر آپ اپنی ناکامی کو خود اپنی غلط کارکردگی کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کا ذہن نئی زیادہ بہتر تدبیر سوچنے میں لگ جائے گا۔ آپ سُست پڑنے کے بجائے مزید پہلے سے زیادہ متحرک ہو جائیں گے۔ آپ از سرِ نو جدوجہد کر کے ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ شاندار تر شکل میں جیتنے میںکامیاب ہو جائیں گے۔

ناکامی کی ذمہ داری خود قبول کیجئے۔ ایک تدبیر کارگر نہ ہو رہی ہو تو دوسری تدبیر کا تجربہ کیجئے۔ آپ یقیناً اعلیٰ کامیابی تک پہنچ جائیں گے۔

 

شکایت

شکایت ایک ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ نہ صرف عام انسان بلکہ پیغمبروں کے بارہ میں بھی بڑی بڑی شکایتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ نعوذ باللہ خود خدا بھی شکایتوں سے مستثنیٰ نہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو اپنی مصیبتوں کے لیے خدا کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ فلسفہ میں ایک مستقل بحث ہے جس کو بگاڑ کا مسئلہ (Problem of evil) کہا جاتا ہے۔ اس کے دعویدار کہتے ہیں کہ یا تو خدا کا وجود نہیں ہے اور اگر خدا ہے تو وہ کامل معیار والا نہیں ہے۔ خدا اگر کامل معیار والا ہوتا تو دنیا میں بگاڑ کیو ں ہوتا۔

شکایت کبھی واقعہ ہوتی ہے اور کبھی محض شکایت کرنے والے شخص کے اپنے ذہن کا نتیجہ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کسی کے خلاف کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کرو(الحجرات 6) تحقیق سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بات صحیح تھی یا صحیح نہ تھی۔

شکایت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان میں سب سے بری قسم وہ ہے جو احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص اپنے کو بطور خود بڑا سمجھ لیتا ہے۔اب اگر اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس کوخدا نے اس سے اوپر کر دیا ہو تو یہ اول الذکر شخص کے لیے بڑا سخت لمحہ ہوتا ہے۔ عام طور پر وہ تسلیم نہیں کر پاتا کہ دوسرا شخص بڑا ہے اور وہ چھوٹا۔وہ اپنی بڑائی کے ٹوٹنے کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کی شخصیت پھٹ جاتی ہے وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے۔

وہ اس پر جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کی تحقیر کرتا ہے تا کہ اپنے جذبہ برتری کی تسکین حاصل کرے۔ وہ اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے تا کہ اس کو بے عزت کر کے اپنی متکبرانہ نفسیات کو غذا فراہم کرے۔ وہ خود ساختہ طور پر طرح طرح کی باتیں نکال کر اس کو چھوٹا ظاہر کرتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے یہ اطمینان حاصل کر سکے کہ وہ بڑا ہے ہی نہیں۔ آدمی اگر حقیقت واقعہ کے اعتراف کے لیے تیار رہے تو تمام شکایتوں کی جڑ کٹ جائے۔ آدمی چوں کہ حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا، اس لیے وہ اپنے آپ کو شکایت سے اوپر اٹھانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتا۔

 

چوٹی کے لوگ

امریکہ سے 1986میں ایک کتاب چھپی ہے۔اس کتاب کا نام چوٹی کے عمل کرنے والے (Peak Performers) ہے۔ اس کتاب میں جدید امریکہ کے ان لوگوں کا مطالعہ کیا گیا ہے جنہوں نے زندگی کے میدان میں ہیرووانہ کردار ادا کیا۔ اس سلسلہ میں مصنف نے جو باتیں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ طاقتور مشن (Powerful mission)وہ چیز ہے جو آدمی کے اندر کوشش (Superior effort) کا جذبہ ابھارتا ہے اور اس کو خصوصی کامیابی (Exceptional achievement) کے درجہ تک پہنچاتا ہے۔

1967 میں امریکہ نے پہلا انسان بردار راکٹ چاند پر بھیجا تھا۔ راکٹ کی روانگی سے پہلے جو ماہرین اس منصوبہ کی تکمیل میں مشغول تھے، ان میں سے ایک شخص کا بیان ہے جو اس ٹیم میں کمپیوٹر پروگرامر کے طور پر شامل تھا۔ اس نے دیکھا کہ عمل کے دوران کچھ غیر معمولی بات پیدا ہو گئی۔ ہزاروں عورتیں اور مرد جو اس منصوبہ میں کام کر رہے تھے، وہ سب کے سب اچانک اعلیٰ انجام دینے والے (Super-achievers) بن گئے۔ وہ اتنا عمدہ کام کرنے لگے جو اس سے پہلے انھوں نے ساری عمر میں نہیں کیا تھا۔

18 مہینے میں حیرت انگیز تیزی کے ساتھ کام مکمل ہو گیا۔ میں نے جاننا چاہا کہ ہم سب لوگ اتنا عمدہ کام کیوں کر رہے ہیں۔ میں نے مینجر کے سامنے یہ سوال رکھا تو اس نے مشرقی جانب چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ہزاروں سال سے وہاں جانے کا خواب دیکھتے رہے ہیں اور اب ہم اس کو واقعہ بنانے جا رہے ہیں:

People have been dreaming about going there

for thousands of years. And we're going to do it.

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو سب سے جو چیز متحرک کرتی ہے وہ یہ کہ اس کے سامنے کوئی بڑا مقصد آجائے۔ بڑا مقصد آدمی کی اندرونی صلاحیتوں کو جگاتا ہے۔ وہ آدمی کو ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ کرتا ہے۔ وہ ایک عام آدمی کو چوٹی کا آدمی بنا دیتا ہے۔