روزہ اور قرآن (Roza aur Quran)

By
Maulana Wahiduddin Khan

روزہ اور قرآن

(Leaflet)

مولانا وحید الدین خاں

 

قرآن کی سورہ نمبر 2  میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو رمضان کے مہینے میں اتارا (البقرۃ(185۔ اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اور رمضان کے مہینے میں خصوصی مناسبت ہے۔ رمضان کے مہینے میں روزہ کے عمل کے ذریعے رزقِ مادّی کی اہمیت کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر رزقِ مادّی کے بارے میں حقیقی شکر کا جذبہ پیدا ہو۔

قرآن ، انسان کے لیے رزقِ روحانی کا دستر خوان ہے (القرآن مأدُبۃ اللہ فی الأرض)۔ قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ انسان رزقِ روحانی کی اہمیت کو محسوس کرے اور قرآن سے دریافت کرکے اُس کو وہ اپنی زندگی میں شامل کرے، وہ زیادہ سے زیادہ قرآن میںتدبر کرکے اپنا ذہنی تزکیہ کرے۔

رمضان میں پورے مہینے روزہ رکھا جاتا ہے اور ذکر وعبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اِس طرح، رمضان کا مہینہ پورے معنوں میں ایک روحانی مہینہ بن جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں قرآن کی تلاوت کرنا، تراویح میں قرآن کو سننا، مختلف صورتوں میں قرآن کا چرچا کرنا، یہ چیزیں لوگوں کو یہ موقع دیتی ہیں کہ وہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ قرآن سے قریب ہوں، وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کو سمجھیں— رمضان کا مہینہ، تاریخی اعتبار سے، قرآن کے نزول کا مہینہ ہے، اور تربیت کے اعتبار سے وہ قرآن کو اپنے دل و دماغ میں اتارنے کا مہینہ۔

روزہ اور تراویح

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قراء ۃُ القرآن فی الصلاۃ أفضلُ من قراء ۃ القرآن فی غیر الصلاۃ)البیہقی ، رقم الحدیث (2243۔یعنی نماز کے بغیر قرآن پڑھنے کے مقابلے میں، نماز کی حالت میں قرآن پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

تراویح کیا ہے۔ تراویح یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں حالتِ نماز میںکھڑے ہوکر قرآن کو سنا جائے۔ یہی تراویح کی اصل حقیقت ہے۔

تراویح کے اِس عمومی رواج کا ایک مزید سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں حفاظتِ قرآن کی سرگرمیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔ لوگ بہت زیادہ قرآن کو یاد کرنے لگے۔ اِس ماحول میںفطری طورپر ایسا ہوا کہ رمضان کی راتوں میں تراویح کے دوران پورے قرآن کو پڑھنے اور سننے کا عمومی رواج ہوگیا۔اِس طرح ایسا ہوا کہ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے تراویح، قرآن کی حفاظت کا ایک موثر ذریعہ بنی رہی۔

تراویح میں یہ ہوتا ہے کہ ایک حافظِ قرآن، امام کی جگہ پر کھڑا ہو کر مختلف رکعتوں میں بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے۔ اور تمام مقتدی، امام کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ قرآن کو سنتے ہیں۔ قرآن کو سنتے ہوئے فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کا ذہن، قرآن کے معانی پر سوچنے لگتا ہے۔ اِس طرح، تراویح گویا کہ اجتماعی تدبر ِ قرآن کا ایک طریقہ ہے۔ تراویح کو اگر صرف ایک سالانہ رسم کے طورپر نہ ادا کیا جائے، بلکہ اُس کو قرآن پر اجتماعی غور وفکر کا موقع سمجھا جائے تو تراویح، امت کے اندر قرآنی فکر کی بیداری کا ایک انقلابی ذریعہ بن جائے۔

ختم قرآن، یا تدبّر ِقرآن

رمضان کے مہنیے میں ہر جگہ ختم قرآن کا اہتمام کیاجاتا ہے۔ اِس ختم قرآن کی آخری صورت وہ ہے جس کو ’شبینہ‘ کہاجاتا ہے، یعنی ایک رات میں تراویح کے دوران پورے قرآن کو ختم کرنا۔ اِس قسم کا ختم قرآن یقینی طورپر رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ اِس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ یہ صرف ایک بدعت ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔

حدیث سے ثابت ہے کہ بدعت کے ذریعے کبھی خیر کا ظہور نہیں ہوسکتا (مسند احمد، جلد  4 ، صفحہ 105) ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیامیں رمضان کے مہینے میں قرآن کو ختم کرنے کی دھوم ہوتی ہے، لیکن کہیں بھی اِس قسم کا ختم قرآن ، لوگوں کے اندر قرآنی اسپرٹ کو زندہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنتا۔ رمضان کا مہینہ، قرآن پر غور کرنے کا مہینہ ہے، نہ کہ صرف اس کے الفاظ کو تیز رفتاری کے ساتھ دہرا کر اُس کو ختم کرنے کا مہینہ۔ قرآن ، انسان کے لئے ایک ربانی غذا ہے، نہ کہ محض لسانی ورزش کا ذریعہ۔ یہ قرآن کی تصغیر (underestimation) ہے کہ اُس کو شبینہ جیسی خود ساختہ رسموں کا موضوع بنادیا جائے۔