سفرنامہ اسپین و فلسطین (Safarnama Spain wa Falsteen)

By
Maulana Wahiduddin Khan

سفرنامہ اسپین و فلسطین

 

مولانا وحید الدین خاں

 

تمہید

اس مجموعہ میں دو سفر نامے شامل کیے گئے ہیں— اسپین کا سفرنامہ اور فلسطین کا سفرنامہ۔ دونوں سفر دو الگ الگ وقت میں کیے گئے۔ تاہم دونوں میں بہت سی مشابہتیں ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ دونوں کو ایک ساتھ شائع کیا جائے۔ یہ سفرنامہ صرف سفرنامہ ہے، وہ اسپین یا فلسطین کی تاریخ نہیں۔ راقم الحروف کے لیے یہ دونوں سفر اکتشافی نوعیت کے تھے۔ اس نے اس سفر کے دوران اسپین اور فلسطین کو ازسرِنو دریافت کیا۔ ان سفرناموں میں اس کے اسی اکتشافی پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ جو لوگ ان ملکوں کی تاریخی تفصیلات جاننا چاہیں وہ متعلقہ کتابوں میں اسے دیکھ سکتے ہیں۔

اندلس یا مسلم اسپین کی تاریخ، دوسرے اکثر مسلم ملکوں کے مقابلہ میں، غالباً سب سے زیادہ پُر از واقعات ہے۔ اندلس میں ہر قسم کے واقعہ کی مثال موجود ہے۔ فتح کی مثالیں بھی اور شکست کی مثالیں بھی، ترقی کی بھی اور تنزلی کی بھی۔ مادیات کی بھی اور روحانیات کی بھی۔ علمی اور فکری بھی اور عملی اور انقلابی بھی۔ گرنے کی بھی اور گرنے کے بعد دوبارہ اٹھ جانے کی بھی۔

اسپین کا موجودہ سفرنامہ سادہ معنوں میں صرف ایک سفرنامہ نہیں ہے۔ وہ ملّت کی طویل تاریخ کے ایک نمائندہ صفحہ کا مطالعہ ہے اور اسی کے ساتھ ملت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مہمیز بھی۔ وہ ماضی کا مرقع اور حال کی رہنمائی ہونے کے ساتھ مستقبل کی نویدبھی ہے۔

اسپین میں مسلمانوں کا داخلہ بڑا عجیب تھا۔ وہاں انہوں نے جو ترقیاں کیں وہ بھی اپنے زمانہ کے لحاظ سے استثنائی حد تک عجیب تھیں۔ اس کے بعد وہاں سے مسلم اقتدار کا خاتمہ بھی عجیب انداز سے ہوا۔ مگر ان سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ غیر معمولی قسم کی مخالفانہ کارروائیوں کے باوجود اسلام وہاں موجود رہا اور آج بھی مزید اضافہ کے ساتھ وہاں موجود ہے۔

مسلم اسپین کا مطالعہ کوئی تاریخی المیہ کی صورت میں کرتا ہے اور کوئی فردوس گم گشتہ کی صورت میں۔ لیکن زیر نظر سفرنامہ میں مسلم اسپین کا مطالعہ سبق اور نصیحت کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔ بظاہر وہ سفرنامہ ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک مکمل نصیحت نامہ۔

یہی معاملہ فلسطین کا ہے۔ فلسطین میں اسلام کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنا کہ خود اسلام کی تاریخ طویل ہے۔ اسلام ابھی مکہ میں تھا کہ پیغمبرِ اسلام کا وہ واقعہ پیش آیا جس کو اسراء کہا جاتا ہے۔ یہ خدائی انتظام کے تحت ہونے والا ایک سفر تھا جس میں آپ مکہ سے روانہ ہو کر یروشلم پہنچے اور یہاں تمام نبیوں کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔

اس کے بعد خلیفۂ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں فلسطین اسلامی مملکت میں شامل ہوا۔ مختلف وجہوں سے یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر اب تک یہ علاقہ طرح طرح کے نشیب و فراز سے دوچار ہوتا رہا ہے۔ تاریخ کے بہت سے باب یہاں بند ہو گئے اور غالباً تاریخ کے بہت سے نئے باب یہاں کھلنے والے ہیں۔ اس سے تعلق رکھنے والی ماضی اور حال کی داستانیں بھی ہیں اور مستقبل کی بابت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں بھی۔

اس طرح زیرِ نظر یہ دو سفرنامے اسلام کی وسیع تاریخ کا دو اہم صفحہ ہیں۔ ان میں انفرادی پہلوئوں کے ساتھ باہم خاص مناسبت بھی ہے۔ اس لیے دونوں سفرناموں کو ایک ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔

وحید الدین

5 ستمبر 1997

سفرنامہ اسپین

 

سفرنامہ اسپین

ميڈرڈ (اسپین) کی مشہور الکلا یونیورسٹی (University of Alcalá) کے ریکٹر ڈاکٹر گالا (Mankel Gala) کے دستخط سے ان کا خط مورخہ 23 اگست 1994ء ملا۔ اس میں مجھے میڈرڈ کی تین روزہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ انٹرنیشنل کانفرنس 28-30 نومبر 1994ء کو تین سامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت، اسلام) کے اشتراک سے ہوئی۔ یہ کانفرنس امن عالم کے بارے میں تھی اور اس کا موضوع تھا:

Three Religions: A Commitment for Peace

اس دعوت نامہ میں مجھے خصوصی مہمان (special guest) کے طور پر مذکورہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے مطابق اسپین کا سفر ہوا۔

اس سفر کا پہلا سبق آموز تجربہ اس وقت ہوا جبکہ مجھے اس کا ’’کوپن‘‘ ملا۔ ہوائی سفر کا روایتی طریقہ یہ ہے کہ آدمی متعلقہ ایئر کمپنی سے ٹکٹ حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد ایئرپورٹ پر اسے بورڈنگ کارڈ دیا جاتا ہے۔ اس بار پی ٹی اے کی بنیاد پر ایئر فرانس سے ہمیں جو چیز دی گئی وہ معروف ٹکٹ نہ تھا۔ بلکہ چار کوپن جو گویا ٹکٹ بھی تھا اور بورڈنگ کارڈ بھی۔ مغربی ممالک اسی طرح اپنی ترقی کا سفر مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ مگر ہندوستان جیسے ملکوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔

27 نومبر کی صبح کو گھر سے ایئر پورٹ جانے کے لیے نکلا تو سورج کی روشنی پھیل چکی تھی۔ سڑک پر حسب معمول گاڑیاں دوڑتی ہوئی نظر آئیں۔ قدیم زمانہ کے ایک شاعر نے کہا تھا :

ہوئی صبح اور ادھر ہم کان پر رکھ کر قلم نکلے

موجودہ زمانہ کا آدمی شاید کہے گا کہ صبح ہوئی اور ہم اپنی گاڑی لے کر روانہ ہوئے۔ مشینی انقلاب نے قدیم و جدید میں جو فرق کیا ہے اس کی یہ ایک علامتی مثال ہے۔

دہلی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر داخل ہوا تو اندر کا وسیع ہال پلاسٹک کے بڑے بڑے بنڈلوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر ایک پر لکھا ہوا تھا باکو (Baku) ۔یہ سب ایئر ٹرانسپورٹ کے ذریعہ روس بھیجے جارہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ تمام بنڈل سِلے ہوئے لباس اور گرم کپڑے سے بھرے ہوئے ہیں۔ روس سے ہندوستان جنگی ہتھیار خرید رہا ہے۔ مگر ضرورت کی چیزوں کے لیے خود روس مجبور ہے کہ وہ ان کو ہندوستان اور دوسرے ملکوں سے خریدے۔ اشتراکی نظام کی یہ غیر متوازن ترقی بھی کیسی عجیب ہے۔

انتظار گاہ کے اندر دیوار پر دو شیروں کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ یہ شیر لکڑی کاٹ کر اور اس پر قدرتی رنگ دے کر بنائے گئے تھے۔ دور سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سچ مچ دو شیر کھڑے ہوئے ہیں۔ شیر فطرت کا ایک عجیب مظہر ہے۔ شیر تمام جانوروں میں سب سے زیادہ طاقتور جانور ہوتا ہے۔ مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ شیر سب سے زیادہ غیر جنگجو جانور ہے۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہونے کے ساتھ اعراض کا بادشاہ بھی ہے۔

ایئرپورٹ کی انتظار گاہ میں تھا کہ قریب کی خالی کرسیوں پر کچھ نوجوان مرد اور عورت آ کر بیٹھ گئے۔ یہ سب مغربی سیاح تھے اور انگریزی میں بات کر رہے تھے۔ میرا رخ الٹی طرف تھا مگر قریب ہونے کی وجہ سے ان کی آواز کانوں میں آ رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ تم نے دہلی میں کیا کیا دیکھا۔ بتانے والے نے جن چیزوں کے نام بتائے ان میں سے ایک ’’جامع مسجد‘‘ بھی تھی۔ میں نے سوچا کہ دہلی کی تاریخی جامع مسجد کو دیکھنے کے لیے ہر روز ملکی اور غیر ملکی لوگ کثرت سے آتے ہیں۔ گویا مدعو خود داعی کے پاس آ رہا ہے۔ دور جدید میں سیاحت کے فروغ کی بنا پر یہ ممکن ہوا ہے۔ جامع مسجد کے ساتھ اگر ایک دعوتی شعبہ ہوتا تو اس کے ذریعہ ملک میں اور ملک کے باہر زبردست دعوتی کام ہو سکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے بے فائدہ سیاسی شغف نے تمام دعوتی امکانات کو برباد کر رکھا ہے۔

دہلی سے ایئر فرانس کی فلائٹ نمبر 177 کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ راستہ میں ایئر فرانس کی فلائٹ میگزین اتلس (Atlas) دیکھا۔ مگر اس میں یا توفیشن والی چیزوں کے اشتہار تھے یاپھر سیاحوں کی دلچسپی کی باتیں تھیں۔ کوئی خاص مضمون قابل ذکر نہیں ملا۔

ڈیڑھ سو صفحہ کے اس خوبصورت میگزین میں ایک سادہ شیٹ لگی ہوئی تھی۔ یہ برائے تجاویز (suggestion) تھی۔ اس میں آٹھ زبانوں میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ پرواز کے دوران یا گرائونڈ پر ہماری سروس کے بارے میں آپ جو بھی تبصرے (comments) لکھنا چاہیں بلاتردد لکھ کر ہمیں یا تو دستی طور پر دے دیں یا بذریعہ ڈاک بھیج دیں۔ آٹھویں نمبر پر عربی عبارت تھی۔ اس کے الفاظ یہ تھے :

الرجاء تزویدنا بملا حظاتکم علی خدمتنا علی الأرض و اثناء السفر و ان تدونوا کذلک مقترحاتکم علی ھذہ البطاقة ثم ارسالھا بالبرید أو تسلیمھا الی طاقم الطائرۃ۔شکرا۔) الخطوط الجویۃ الفرنسیۃ(

ہوائی کمپنی ایک تجارتی ادارہ ہے۔ تاجر اپنے بارے میں لوگوں کا تبصرہ جاننے کا حریص ہوتا ہے۔ تاکہ وہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کر کے اپنی تجارت کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنائے۔ اسی طرح داعی بھی مدعو کی ہر بات کو نہایت دھیان کے ساتھ سنتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح اس کے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ مدعو کے مزاج کو سمجھ کر اپنی دعوت کو اس کے لیے زیادہ موثر اور قابل قبول بنا سکے۔

ہوائی جہاز کی سواری مجھ کو ایک خدائی نشانی نظر آتی ہے۔ ہوائی جہاز کی ایک عجیب صفت یہ ہے کہ وہ انسان کی اُس کمزوری (vulnerability) کو ممثل کرتا ہے جو زمین کے اوپر اسے حاصل ہے۔ زمین فٹ بال کی مانند ایک بڑا سا گولا ہے جو خلا میں تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ خلا میں گردش کرتے ہوئے اس کرہ پر انسان آباد ہے۔ زمین کی اس مسلسل خلائی پرواز میں اگر ذرا سا بھی خلل پڑ جائے تو ایک لمحہ میں پوری انسانی نسل کا خاتمہ ہو جائے۔

کرۂ زمین پر اپنی اس غیر محفوظیت کو انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتا، اس لیے وہ اس کو محسوس بھی نہیں کر پاتا۔ ہوائی جہاز آدمی کی اسی غیر محفوظ حالت کا محدود سطح پر ایک وقتی مظاہرہ ہے۔ ہوائی جہاز انسان کی حیثیتِ عجز کی گویا ایک مشینی یاد دہانی ہے۔

اس دنیا کی ہر چیز اس لیے ہے کہ آدمی اس سے روحانی تجربہ حاصل کرے۔ مگر یہ روحانی تجربہ صرف اس کے حصہ میں آتا ہے جو میٹر میں نان میٹر کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

راستہ میں وال اسٹریٹ جرنل (بروسیلز) کا شمارہ25-26،نومبر 1994ء دیکھا۔ اس میں سب کی سب تجارتی نوعیت کی خبریں تھیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ترکی کپڑے کے ایکسپورٹ میں فرانس اور اٹلی کے بعد یورپ میں تیسرے نمبر پر تھا۔ پچھلے سال اس نے چار بلین ڈالر سے زیادہ کے کپڑے ایکسپورٹ کیے۔ مگر اب مقابلہ کی وجہ سے ترکی کی یہ صنعت زوال کی طرف جا رہی ہے۔ ایک ترک ایکسپورٹر نے کہا :

Ours could soon be a dying industry. (p.4)

ایئر ہوسٹس مشروبات کی گاڑی لے آئی۔ میرے قریب کی سیٹ پر جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے وہسکی مانگی۔ میں نے آرنج جوس کے لیے کہا۔ میز پر جب دونوں گلاس رکھے گئے تو میں نے دیکھاکہ دونوں مشروب کا رنگ بالکل یکساں ہے۔ اگرچہ ایک شراب تھی اوردوسرا خالص آرنج کا رس۔

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ دنیا میں چیزیں مشابہ انداز میں پیدا کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ حق جس طرح عمدہ الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے، اسی طرح باطل بھی خوبصورت الفاظ میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ مشابہت برائے امتحان ہے، اس لیے آدمی کو موجودہ دنیا میں بے حد چوکنّا ہو کر رہنا ہے۔ ورنہ وہ ایک مشروب کو فروٹ جوس سمجھ کر پینے لگے گا۔ حالاں کہ بعد کا انجام بتائے گا کہ وہ پھل کے رس کے رنگ میں شراب تھی۔ جس کو وہ نادانی اور بے شعوری کے تحت پی گیا۔

جس ہمسفر نے شراب لی تھی، ان سے بات کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ شراب پینے سے آپ کو کیا فائدہ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر آپ کیوں شراب پیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنائو دور کرنے (relaxation) کے لیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی عمر 30 سال ہو چکی ہے۔ مگروہ کئی گھریلو مسائل سے دوچار ہیں، اب تک انہوں نے شادی بھی نہیں کی۔ اس لیے ذہن پر مستقل بوجھ رہتا ہے، اس بوجھ کو اتارنے کے لیے وہ شراب پیتے ہیں۔ اکثر شراب نوشوں کا یہی حال ہے۔

اس جہاز میں مدراس کے ایک ہندوستانی سے ملاقات ہوئی۔ وہ میکانیکل انجینئر ہیں اور ان کا نام آر وجے کمار ہے۔ وہ ایک شپنگ کمپنی (اینگلو ایسٹرن شپ مینجمنٹ لمیٹڈ) میں ملازم ہیں۔ وہ پانچ سال سے سمندری جہاز میں کام کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کہ سمندر میں جب طوفان آتا ہے تو اس وقت آپ لوگ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیاکہ اس وقت ہم انتظار کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہم نیچر کے خلاف نہیں جا سکتے :

We are supposed to wait. Because we cannot go against the nature.

انتظار بے عملی نہیں، اس دنیا میں انتظار بھی ایک عملی پالیسی ہے۔ مذکورہ مسافر کو میں نے ایک حدیث سنائی۔ اس حدیث کو سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیںأَفْضَلُ العِبَادَةِ انْتِظَارُ الفَرَجِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر3571)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرنا افضل عبادت ہے۔

ساڑھے نو گھنٹہ کی مسلسل پرواز کے بعد ہمارا جہاز فرانس کی راجدھانی پیرس میں اُتر گیا۔ پیرس کا ہوائی اڈہ غیر معمولی طور پر بڑا ہے۔ وہ خود ایک شہر ہے۔ میں یہاں کئی بار آچکا ہوں۔ مگر اب تک اس کا جغرافیہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ کائونٹر پر ایک خاتون ساڑی پہنے ہوئے تھیں۔ انہوں نے میرے حلیہ سے سمجھا کہ میں بھی ایک ہندوستانی ہوں۔ انہوں نے میرا ٹکٹ کمپیوٹر پر چیک کرنے کے بعد کہاپتاجی، آپ کی فلائٹ ’’ٹرمنل ون‘‘ سے ہے۔ وہاں تک آپ کو بس سے جانا ہو گا۔ آپ اس کرسی پر بیٹھ جائیں۔ میں ابھی آپ کو لے جا کر بس پر سوار کرا دیتی ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں ہوائی کمپنی کی بس میں تھا۔ یہ بس پیرس کے مختلف حصوں سے گزرتی رہی۔ یہاں تک کہ اس نے مجھے ٹرمنل ون پر پہنچا دیا۔

یہاں ایئر پورٹ پر مجھے باتھ روم جانا تھا ۔ میں اتفاق سے معذوروں کے باتھ روم میں چلا گیا۔ وہ غیر معمولی طور پر بڑا تھا۔ اس کے اندر ہر قسم کی سہولتیں موجود تھیں۔ حتیٰ کہ اس کے اندر انٹرکام بھی لگا ہوا تھا، تاکہ معذور شخص کو کوئی مشکل پیش آ جائے تو فوراً وہ انٹرکام پر بتا کر اپنی مدد کے لیے ایئر پورٹ کے آدمی کو بلا سکے۔ میں نے کہا کہ خدایا، میں بھی ایک معذور ہوں۔ دنیا میں معذور شخص کو خصوصی رعایت کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ کاش آخرت میں بھی مجھ کو معذور قرار دے کر میرے ساتھ خصوصی رعایت کا معاملہ کیا جائے۔

فرانس میں تقریباً 1500 چھوٹی بڑی مسجدیں ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں قطعی اعداد و شمار حاصل نہیں ۔ تاہم عام اندازہ یہ ہے کہ یہاں پانچ ملین مسلمان آباد ہیں۔ فرانسیسی مسلمانوں میں زیادہ تر مراکو، الجزائر اور تونس وغیرہ سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی تقریباً نوّے تنظیمیں پائی جاتی ہیں۔ حال میں ان کا ایک وفاق قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 1990ء میں پیرس میں ایک اسلامی کانفرنس ہوئی جس میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلمان شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا :

الحریات و حقوق الانسان فی الاسلام

فرانس کی آبادی میں تقریباً 80 فیصد کیتھولک عیسائی ہیں۔ پندرہ فیصد مسلمان ہیں اور پانچ فیصد میں پروٹسٹنٹ اور یہودی ہیں۔ آپ فرانس کے کسی بھی حصہ میں جائیں، آپ کی ملاقات کسی نہ کسی مسلمان سے ہو جائے گی۔ خواہ وہ ایئر پورٹ ہو یاکوئی کھیت۔

پیرس کے ایئر پورٹ پر ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ وہ انگریزی جانتے تھے اس لیے مشکل پیش نہیں آئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہاکہ فرانس ہمیشہ ’’اسلام دشمنی‘‘ میں امریکہ اور مغربی ملکوں کے ساتھ رہا ہے۔ لیکن آج اسی ملک میں زبردست اسلامی لہر آئی ہوئی ہے :

But now a severe Islamic wave is sweeping the same nation.

مگر سوالات کے دوران اندازہ ہوا کہ ’’اسلامی لہر‘‘ کا یہ نظریہ زیادہ تر خوش فہمی پر مبنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فرانس کے چالیس ہزار مسلم نوجوان مکمل طور پر اسلام کے زیر اثر ہیں۔ مگر جب میں نے مزید سوالات کیے تو معلوم ہوا کہ یہ وہی نوجوان ہیں جو بے روزگاری کا شکار ہیں یا اس احساس میں مبتلا ہیں کہ فرانس کی سوسائٹی میں انہیں باعزت مقام نہیں ملا۔ دوسرے لفظوں میں اس اسلامی لہر کے پیچھے اصل محرک مادی محرومی کا احساس ہے، نہ کہ آخرت کی جواب دہی کا احساس۔ یہ اسلام کا ایکسپلائٹیشن ہے اور اسلام کے اس قومی ایکسپلائٹیشن کا یہ الٹا نتیجہ نکلا ہے کہ مذکورہ فرانسیسی مسلمان کے اعتراف کے مطابق، یہاں کی رائے عامہ شدت سے مسلمانوں کے خلاف ہو گئی ہے :

Public opinion is extremely against Muslims.

ان انتہا پسند مسلمانوں نے اسلام کی نمائندگی اس طرح کی ہے کہ فرانسیسیوں کو نظر آتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو ان کے سسٹم سے ٹکراتا ہے۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے بہت سی غیر ضروری رکاوٹیں یہاں کے مسلمانوں کو پیش آ رہی ہیں۔ فرانس کے وزیر داخلہ چارلس پاسک (Charles Pasqua) نے شہر لیان (Lyon) کی مسجد کے افتتاح کے وقت اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں فرانس میں صرف اسلام نہیں چاہیے بلکہ ہمیں وہ اسلام چاہیے جو فرانس کا اسلام ہو :

We would not have just an Islam in France. There must be an Islam of France

فرانس کے مسلمانوں میں بہت تھوڑی تعداد کو چھوڑ کر سب کے سب نارتھ افریقہ کے مہاجرین ہیں۔ نو آبادیاتی دور میں فرانس نے 1830ء میں الجیریا کو فتح کیا ۔ 1909ء میں اس نے افریقی صحارا کے بڑے حصہ پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ تیونس کو اس نے 1881ء میں فتح کیا۔ اسی طرح 1905ء میں مراکو کو اپنی سیاسی ماتحتی میں لے لیا۔ اس وقت اسپین کو بھی مراکو کا ایک حصہ دے دیا گیا تھا۔ نارتھ افریقہ کے علاقہ پر اسی قبضہ کے زمانہ میں دونوں ملکوں میں آمدورفت بڑھی اور بڑی تعداد میں افریقہ کے مسلمان اپنے ملکوں سے نکل کر فرانس میں روزگار کے لیے آ گئے۔ ان لوگوں نے فرانس کو سستا مزدور فراہم کیا جس کی اس وقت فرانس کو سخت ضرورت تھی۔

اب یہی لوگ فرانس کے شہری بن کر یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اس طرح حالات نے مسلمانوں کو اپنے مدعو کے ملک میں پہنچا دیا تھا۔ اگر وہ معاشی حصول کے بعد صرف دعوت کو اپنا نشانہ بناتے تو یہاں ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ اس کی ایک انفرادی مثال ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ہیں۔ انہوں نے صرف علمی اور دعوتی دائرہ تک اپنے کو محدود رکھا۔ چنانچہ وہ فرانس میں ایک مقبول شخصیت بن گئے۔ مگر نام نہاد اسلام پسندوں نے کلچرل تشخص اور قومی حقوق کے نام پر فرانسیسیوں سے زور آزمائی شروع کر دی۔

اس غلط پالیسی کا یہ نتیجہ تو نہیں نکلا کہ فرانس میں ان مسلمانوں کے قومی مطالبات پورے ہوجائیں۔ البتہ یہ احتجاجی سیاست فرانس میں ان کے خلاف نفرت اور غصہ کی فصل اُگا رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں دعوت کے مواقع برباد ہو رہے ہیں۔

پیرس میں ایک لڑکی ملی۔ اس نے اپنا نام شاذیہ بتایا ۔ نام سے اس کی شخصیت واضح نہیں ہو رہی تھی۔ مزید دریافت پر معلوم ہوا کہ اس کا باپ ایک مصری مسلمان ہے۔ اس نے یہاں ایک عیسائی خاتون سے شادی کی۔ اس خاتون نے اپنا مذہب نہیں بدلا ۔ اس کے بعد ان کے یہاں مذکورہ لڑکی (شاذیہ) پیدا ہوئی۔ ایک عرصہ بعد مصری مسلمان اور اس کی عیسائی بیوی میں اختلاف ہو گیا۔ بڑھتے بڑھتے دونوں میں طلاق ہو گئی۔ اب یہ عورت اپنی لڑکی کے ساتھ علیحدہ مکان میں رہتی ہے۔

گفتگو سے میں نے اندازہ کیا کہ اصل مسئلہ غالباً یہ تھا کہ شاذیہ کا بوائے فرینڈ گھر میں آتا تھا۔ وہ ڈرنک بھی کرنے لگی۔ ان باتوں پر اس کی ماں کو اعتراض نہیں تھا۔ مگر مصری مسلمان سخت اعتراض کرتا تھا۔ فرانس چونکہ ایک مسیحی ملک ہے، بیوی کا پلّہ بھاری ثابت ہوا۔ آخرکار مصری مسلمان کی مرضی کے علی الرغم اس نے طلاق لے لی۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے مسلمان کس قسم کے نازک مسائل سے دوچار ہیں۔

فرانس کے مسلمانوں میں محدود تعداد نو مسلموں کی ہے۔ تاہم یہ نو مسلم مسلمانوں کی کسی تبلیغ سے اسلام کی طرف راغب نہیں ہوئے ہیں بلکہ زیادہ تر اپنے ذاتی مطالعہ سے اسلام کی طرف آئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دور جدید کے ’’حنفاء‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ انسان کے اندر فطری طور پر حق کی طلب موجود ہے۔ تاہم بعض افراد کے اندر یہ طلب زیادہ طاقتور صورت میں ہوتی ہے۔ یہ لوگ خود اپنے اندرونی تقاضے کے تحت اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اپنی روحانی طلب کا جواب پا کر اس کو قبول کر لیتے ہیں۔

ایک نومسلم خاتون (مسز زرینہ) نے ایک بڑا عجیب واقعہ بتایا۔ حال میں ایک فرانسیسی عیسائی نے اسلام قبول کیا ہے۔ قبولِ اسلام سے پہلے وہ صرف اسلامی لٹریچر سے آشنا ہوا تھا۔ قبول اسلام کے بعد اس کا ربط مسلمانوں سے ہوا۔ اس نے بعد کو اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں اسلام سے اس وقت واقف ہوا جب کہ میری ملاقات ابھی کسی ایک مسلمان سے بھی نہیں ہوئی تھی:

Thank God I was introduced to Islam before I was introduced to a single Muslim.

فرانس میں بڑی تعداد میں مستشرق پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی زبان سیکھی اور اسلامی علوم کا گہرا مطالعہ کیا۔ عام طور پر ہمارے یہاں استشراق کو اسلام کے خلاف ایک مغربی سازش سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم دانشور اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر ایسا کرتے ہیں کہ کسی کے یہاں اگر کوئی چیز خلاف مزاج یا خلاف حق دیکھتے ہیں تو بس اسی کو جنرلائز کرنے لگتے ہیں۔ وہ آدمی کی تمام مثبت باتوں کو بھلا کر چند اختلافی باتوں ہی کو اس کی کُل بات قرار دے دیتے ہیں۔

مستشرقین میں بہت سے ایسے افراد ہیں جنہوں نے اسلام کے گہرے مطالعہ کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ انہیں میں سے ایک فرانس کا مستشرق اتین دینیہ (Etienne Dinet) ہے۔ وہ 1861میں پیرس میں پیدا ہوا اور 1929ء میں پیرس ہی میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے 1927ء میں الجزائر میں اسلام قبول کر لیا۔ اس کے قبولِ اسلام کی تقریب میں عرب علماء کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس نے اپنا اسلامی نام ناصر الدین رکھا۔ اس کی اسلام پر کئی اعلیٰ تصنیفات ہیں۔ ان میں سے ایک فرانسیسی زبان میں لکھی ہوئی سیرت (Mohamet) ہے۔ اس کی مختلف اسلامی کتابوں میں سے ایک کتاب عربی میں أشعة خاصة بنور الإسلام کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ وفات کے بعد اس کی وصیت کے مطابق، اس کی تدفین الجزائر کے ایک گائوں بوسعادہ میں ہوئی۔

دکتور محمود المقداد کی کتاب تاریخ الدراسات العربیۃ فی فرنسا 1992میں کویت سے چھپی ہے۔ 300صفحات کی یہ کتاب فرانس میں عربی مطالعات کے موضوع پر ایک اچھی کتاب ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 1830ء میں جب فرانس نے الجزائر پر قبضہ کیا تو یہ فرانسیسیوں کے لیے عربی زبان اور عربی علوم کے مطالعہ کا نہایت طاقتور محرک بن گیا۔ اس کے بعد فرانس میں بڑے بڑے مستعرب (مستشرق) پیدا ہوئے۔ انہیں میں سے ایک اہم شخصیت ہنری ماسیہ (H. Masse) کی ہے جس نے خاص اس موضوع پر ایک تفصیلی مقالہ شائع کیا ہے (صفحہ 229)

عرب دنیا میں سیاسی نفوذ حاصل کرنے کے بعد فرانس نے عربوں کو فرانسیسی بنانے (فرنسۃ الشعب العربی) کی مہم چلائی تھی، مگر سیاسی اور فوجی بالادستی کے باوجود فرانس ناکام رہا۔" فرنسۃ الشعب العربی" کی مہم عملاً اسلمۃ الشعب الفرنسی (فرانسیوں کے اسلام لانے )کے ہم معنی بن گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظریہ کی طاقت ہر دوسری طاقت سے زیادہ عظیم ہے۔

بنگلہ دیش کی مصنفہ تسلیمہ نسرین، جو اپنے وطن سے بھاگ کرسویڈن میں مقیم ہے، آج کل فرانس کے دس روزہ دورے پر ہے۔ اس کو فرانس بلا کر انسانی حقوق کی مجاہدہ کا انعام دیا گیا ہے۔ یکم دسمبر 1994کو موصوفہ سے فرانس کے صدر متراں (Francois Mitterrand) نے ریلیزی پیلس میں ملاقات کی۔ تسلیمہ نسرین نے صدر فرانس کو بتایا کہ کس طرح وہ اپنی روشن خیالی کی بنا پر انتہا پسند مسلمانوں کے عتاب کا شکار ہو رہی ہے۔ 20منٹ کی یہ ملاقات خود پریذیڈنٹ متراں کی درخواست پر ہوئی۔ کیونکہ صدر موصوف یہ چاہتے تھے کہ وہ فرانس کی طرف سے موصوفہ کی قدردانی کا اظہار کریں۔

نام نہاد مسلم دانشور اس واقعہ پر صدر فرانس کو برا کہیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اعراض کے ایشو کو ہنگامہ آرائی کا ایشو بنایا اور اس طرح انتہائی غیر ضروری طور پر تسلیمہ نسرین کو ہیرو کا درجہ دے دیا۔

کسی طالب علم سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ غیر کمیونسٹوں کو رائٹسٹ اور کمیونسٹوں کو لفٹسٹ کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ذہانت کے زور پر جواب دیا— اس لیے کہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ وہ کبھی رائٹ (درست) نہیں ہوتے :

Because, the events in communist countries have proved that they might not be right.

مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ اصطلاح فرانس میں بنی۔ فرانسیسی ریولیوشن کے زمانہ میں نیشنل اسمبلی میں دو بڑے سیاسی گروپ تھے۔ کنزرویٹو گروپ بادشاہ کی حمایت کرتا تھا اور ریڈیکل گروپ سسٹم میں ڈراسٹک تبدیلیوں کی مانگ کر رہا تھا۔ اسمبلی ہال میں ان کی نشستیں اس طرح تھیں کہ کنزرویٹو (شاہ پسند) ممبران اسپیکر کے دائیں طرف بیٹھتے تھے اور انقلاب پسند اسپیکر کے بائیں طرف۔ اس وقت سے سیاسی اصطلاح میں انقلابی تبدیلی (radical change) چاہنے والوں کو لفٹسٹ کہا جانے لگا۔

پیرس آج کل ایک نئی تحریک کا مرکز بن رہا ہے جس کو اٹلانٹا پلس (Atlanta Plus) کہا جاتا ہے۔ ان کی مانگ ہے کہ1996میں اٹلانٹا میں ہونے والے اولمپک گیم میں عورتوں کو بھی برابر کی حیثیت سے شریک کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1992میں بار سلونا (اسپین) میں جو اولمپک کھیل ہوئے تھے، اس موقع پر یہ طے کیا گیا تھاکہ کھیلوں میں جنسی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔ مگر 34 مسلم ملک ابھی تک اس کے لیے راضی نہیں ہوئے ہیں۔ تحریک کی ایک پُرجوش حامی خاتون نے کہاکہ جنسی امتیاز بھی نسلی امتیاز ہی کی مانند ہے:

Sex discrimination is analogous to the racial discrimination.

میں نے ایک خاتون سے کہا کہ کیا آپ پسند کریں گی کہ اگلے اولمپک میں فرانس کی ایک خاتون افریقہ کے ایک مرد باکسر کا مقابلہ کرے۔ وہ اس پر راضی نہیں ہوئیں۔ میں نے کہا کہ خود آپ کی اسکیم کے مطابق، عورتوں کو عورتوں کے مقابلہ میں کھیلنا ہے، نہ کہ مردوں کے مقابلہ میں۔ یہ تو خود ایک جنسی امتیاز ہے، پھر آپ اس کو جنسی برابری کا نام کیوں دیتی ہیں۔

پیرس میں کچھ وقت گزارنے کے بعد وہاں سے میڈرڈ کے لیے روانگی ہوئی۔ یہ سفر آئبیرین ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر 3445کے ذریعہ طے ہوا۔ مقامی وقت کے لحاظ سے 27نومبر کی شام کو ساڑھے سات بجے جہاز روانہ ہوا۔ یہ ڈیڑھ گھنٹہ کا ایک خوش گوار سفر تھا۔ ہوائی جہاز آگے کی طرف جا رہا تھا اور میرا ذہن پیچھے کی طرف مڑ کر ’’فرانس میں اسلام‘‘ اور ’’اسپین میں اسلام‘‘ کی تاریخ کے صفحات الٹنے میں مصروف تھا۔

راستہ میں اسپینی ایئر لائنز (Iberia) کی فلائٹ میگزین رونڈا ایبریا کا شمارہ نمبر1994دیکھا۔ 130صفحہ کا یہ میگزین زیادہ تر سیاحوں کے نقطۂ نظر سے مرتب کیا گیا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ لمبا مضمون غرناطہ کے بارے میں تھا۔ رنگین تصویروں کے ساتھ یہ مضمون میگزین کے 20صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ بیک وقت اسپینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھا۔ اہل اسپین نے ایک عرصہ تک مسلم دور کو نظرانداز کیا۔ پھر انہیں معلوم ہوا کہ اسپین کی مسلم یادگاروں کی اہمیت ان کے لیے مزید اضافہ کے ساتھ وہی ہے جو ہندوستان میں تاج محل کی ہے۔ چنانچہ مضمون کا عنوان اس طرح قائم کیا گیا تھا —  غرناطہ، جنّت کی دوبارہ یافت :

Granada, Paradise Regained

یہ مضمون یہاں سے شروع کیا گیا تھا کہ یہ عمارتیں اور یہ باغات اس لیے بنائے گئے تھے کہ ہم اپنے تصور کی جنت کا ایک پیشگی نظارہ کر سکیں۔ یہاں زمینی ماحول کو ہماری تصوراتی جنت میں ڈھالا گیا تھا۔ اندلس کا مسلم غرناطہ زمین پر جنت بنانے کی ایسی ہی ایک مثال ہے۔

مضمون کی اگلی سطروں میں بتایا گیا تھا کہ ان مسلم بادشاہوں کو ان کے علامتی شہر غرناطہ سے اور ان کی بنائی ہوئی جنتِ عدن سے نکالے جانے کے پانچ سو سال بعد اب کچھ لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی کھوئی ہوئی جنت کو دوبارہ حاصل کر سکیں :

Now, five hundred years after they were expelled from Granada, their private Eden and their  most emblematic city, there are some who  are trying to regain that lost  paradise of theirs.(p.62)                                      

اسپین میں داخل ہونے کے بعد جب میں نے دیکھا کہ یہاں مسلمان آزاد ہیں اور یہاں اسلام کی سرگرمیاں جاری ہیں تو میں نے کہاہندوستان میں کچھ نادان لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو انڈیا کو دوسرا اسپین بنانا چاہتے ہیں۔ مگر ان کو زمانہ کے فرق کا علم نہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ پہلا اسپین بنانے کی کوشش ابھی کامیاب بھی نہیں ہوئی تھی کہ زمانہ نے عالمی حالات کو بدل کر ’’اسپین سازی‘‘ جیسے منصوبہ کا امکان ہی ختم کر دیا۔

اسپینی ایئر لائنز کی اس فلائٹ میگزین (Ronda Iberia) میں اسپین کے مسلم عہد کا نہایت شاندار باتصویر تعارف کرایا گیا تھا۔ اس کو سیاحوں کے لیے اسپین کے سب سے زیادہ پُرکشش مقام کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس ذیل میں اعتراف کیا گیا تھا کہ مسلم دور کے اسپین میں موجودہ اسپین سے بہتر حالات تھے۔ مزید یہ کہ الاندلس (مسلم اسپین)کی وراثت کبھی اسپین سے ختم نہیں ہوئی اور نہ وہ کبھی ملک بدر کی گئی۔ وہ مختلف صورتوں میں یہاں باقی رہی :

The people of today's Granada have now come up with an all-embracing scheme aimed at directing people's attention to the past which still  surrounds them in the present' helping them in this way to retrieve it. The project, christened The Legacy of  Al Andalus, is all set to become a reality next year, and it’s tempting selection of special tours, designed to rescue the history that lies down half-forgotten byways, is guaranteed to lure travellers on a fascinating journey through the past of these lands, back to times when there were better dreams than there are  now: dreams, back to time when  their where better dreams then there are now: dreams of openness and pluralism The legacy of Al Andalus never died,and was never conquered or expelled. It left with us architecture, its monument, its customs, its speech, its food, its sciences, its odours and its poems. The Granada of the Nasrids, the city of bliss in the midst of convulsions of the Middle Ages, now wants to raise its head.                   

 (Rondaiberia, November 1994, page 64)

میڈرڈ ایئر پورٹ پر زیادہ وقت نہیں لگا۔ کانفرنس کی طرف سے دو خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے ایک گاڑی میرے حوالے کی جس نے مجھے ہوٹل ایورو بلڈنگ (Hotel Euro building) پہنچا دیا۔ جہاں میرا قیام کمرہ نمبر 466میں تھا۔

ہماری گاڑی جب میڈرڈ کی سڑکوں سے گزر رہی تھی تو اس کو دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ میڈرڈ مغربی یورپ کے بڑے شہروں کے مقابلہ میں د وسرے درجہ کا شہر ہے۔ ابتدائی مرحلہ میں اسپین نے مغربی یورپ کو سائنسی ترقی کا راستہ دکھایا تھا۔ مگر آخری مرحلہ میں اسپین پیچھے ا ور مغربی یورپ آگے ہو گیا۔ اس کی وجہ یہاں کے مذہبی طبقہ کا غلط کردار ہے۔ انہوں نے اسپین کے مسلمانوں کے ترقیاتی پہلو کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ وہ غیر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ اس پہلو کو لے کر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف خوب نفرت پھیلائی اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے علم کے خلاف بھی۔ اس منفی روش نے اسپین میں علمی ترقی کے عمل کو کئی سو سال پیچھے کر دیا۔

انگریز مؤرخ لین پول (Lane - Pool) نے موجودہ صدی کے آغاز میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام اسپین کے مسلمان (Moors in Spain) تھا۔ اس کتاب میں مصنف نے اسپینی مسلمانوں کے علمی اور تمدنی کارناموں کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ پھر اس نے لکھا ہے کہ اسپین کی مسلم حکومت کا خاتمہ اور وہاںسے جبراً مسلمانوں کو نکالنے کا یہ نتیجہ ہوا کہ اسپین دوبارہ اسی غیر ترقی یافتہ حالت کی طرف لوٹ گیا جہاں وہ پہلے تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ مسلمان اسپین سے نکال دیے گئے۔ کچھ دیر کے لیے مسیحی اسپین چمکا تھا۔جس طرح چاند غیر کی روشنی سے چمک اٹھتا ہے۔ پھر گرہن آ گیا اور اسی تاریکی میں اسپین اب تک پڑا ہوا ہے:

The Moors were banished, for a while Christian Spain shone, Like the moon, with a borrowed light, then came the eclipse, and in that darkness Spain has grovelled ever since. (p.280)                                                    

مسلم اسپین کا تعارف سب سے پہلے مجھے مسدّس حالی کے ذریعہ ہوا۔ اس میں اسپین کے مسلم عہد کا ذکر بڑے جذباتی انداز میں کیا گیا ہے۔ مگر وہ منفی نوعیت کا تھا۔ مثلاً مسدس کے ایک بند کا دو مصرعہ اس طرح تھا:

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے

وہ اجڑا ہوا کرّوفر جا کے دیکھے

اس کے بعد میں نے عربی یا اُردو میں جتنے تذکرے پڑھے وہ تقریباً سب کے سب مرثیہ خوانی کے انداز میں تھے۔ مثلاً اقبال نے مسلم نوجوان کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا‘‘ اقبال احمد سہیل کی ایک نظم میں میں نے اس قسم کے اشعار پڑھے:

ہمیں چھائے ہوئے تھے شرق سے تاغرب دنیا میں

موافق جن دنوں تھی گردش دور زماں ہم سے

مسلم دانشور اور مسلم ادیب اس قسم کی مرثیہ خوانی میں کیوں مبتلا ہیں۔ اس کی وجہ بہت بعد کو مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب کہ اسلام کے وسیع مطالعہ کے بعد میں نے دوبارہ اسلام کو دریافت کیا۔ اب معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اسلام کی عظمت کو الحمراء اور لال قلعہ کی سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی عظمت کے سوا کسی اور عظمت کی انہیں خبر نہیں۔ اگر وہ صاحب بصیرت ہوتے تو وہ جانتے کہ اسلام کی نظریاتی عظمت تمام عظمتوں سے زیادہ بڑی ہے۔ مزید یہ کہ یہ نظریاتی عظمت اس وقت بھی پوری طرح باقی رہتی ہے جب کہ در و دیوار کی عظمتیں کھنڈر ہو کر گزری ہوئی تاریخ کا حصہ بن چکی ہوں۔

28 نومبر کی صبح کو اٹھا تو یہ سوچ کر عجیب احساس ہوا کہ کل میں ہندوستان میں سو کر اٹھا تھا۔ آج میں سو کر اٹھا ہوں تو میں ہزاروں میل دور اسپین میں ہوں۔ وضو کر کے فجر کی نماز ادا کی۔ نماز میں جب میں قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کر رہا تھا تو غیر معمولی طور پر میری آواز اونچی ہو گئی۔ یہ احساس کہ آپ ایک نئی جگہ اللہ کا نام بلند کر رہے ہیں، آپ کے جذبات میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ آپ زیادہ بڑھی ہوئی کیفیت کے ساتھ ذکر اور عبادت کا فعل انجام دینے لگتے ہیں۔

اسپین کے وقت میں اور انڈیا کے وقت میں ساڑھے چار گھنٹہ کا فرق ہے۔ ا س وقت جب کہ میں اپنے ہوٹل کے کمرہ میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ یہاں رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔ جب کہ اس وقت انڈیا کی گھڑیوں کی سوئی صبح چار بجے کا وقت بتا رہی ہے۔ وقت کے اسی فرق کی وجہ سے ایسا ہوا کہ میں27نومبر کی صبح کو دہلی سے روانہ ہوا اور اسی دن شام کو میڈرڈ پہنچ گیا۔ اگر مشارق و مغارب میں فرق نہ ہوتا اور دونوں ملکوں کی گھڑی ایک ہی ہوتی تو 27 نومبر کو روانہ ہونے کے بعد جب میں یہاں پہنچتا اس وقت کیلنڈر میں 28 نومبر کی تاریخ شروع ہو چکی ہوتی۔

27نومبر کی شام کو جب میں کمپیوٹر کارڈ کے ذریعہ تالا کھول کر اپنے کمرہ میں داخل ہوا تو پہلی نظر میں کمرہ بہت شاندار نظر آیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ میڈرڈ کا ایک ممتاز ہوٹل ہے لیکن اگلے ہی دن میری نظر میں اس کی جاذبیت ختم ہو چکی تھی۔ حتی کہ یہاں ٹھہرنے کا شوق کرنے کے بجائے اب میں واپسی کے دن گننے لگا۔ یہی دنیا کی تمام بظاہر عمدہ چیزوں کا حال ہے۔ دنیا کی ہر چیز ملنے کے پہلے دن اچھی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگلے ہی دن وہ ایک معمولی چیز دکھائی دینے لگتی ہے۔ دور سے دیکھنے والے جس زندگی کو عیش کی زندگی سمجھتے ہیں وہ خود صاحب عیش کے لیے صرف بورڈم کے ہم معنی ہوتی ہے۔ یہ صرف جنت کی خصوصیت ہے کہ اس کی جاذبیت کبھی ختم نہ ہو گی۔ بلکہ ہر دن اس کی لذت بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے عمل میں لذت رکھ دی ہے اور آخرت میں عمل کے انجام میں۔

شیخ اسحاق ادریس سکوتہ کا تعلق سوڈان سے ہے۔ صبح کے ناشتہ پر ملاقات ہوئی تو ان سے میں نے مہدی سوڈانی (1844-1885)کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا کہ وہ مجھے کچھ زیادہ سمجھدار آدمی معلوم نہیں ہوتے۔ خود یہ بھی ایک کم عقلی کی بات ہے کہ کوئی آدمی مہدی ہونے کا دعویٰ کرے، مگر عوام کی ایک بھیڑ ان کے گرد اکٹھا ہو گئی۔ انہوں نے ایسے اقدام کیے جن کو صرف ناپختہ اقدام ہی کہا جا سکتا ہے۔ شیخ سکوتہ نے جواب دیاکان یری رسول اللہ کثیراً۔ ولکن مشیئۃ اللہ فوق ذلک۔ یعنی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں بہت زیادہ دیکھتے تھے۔ مگر اللہ کی مشیئت اس سے اوپر ہے۔

خواب میں کسی کو دیکھنا یہ ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کی بنا پر مہدویت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس طرح کے خواب کی بنیاد پر کوئی قومی یا اجتماعی پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ قومی یا ملّی پالیسی کی بنیاد شوریٰ پر ہے۔ اس طرح کے نازک معاملات میں اہل علم کے مشورہ سے جو بات طے ہو گی وہ قابل عمل ہو گی نہ کہ کسی کا یہ کہنا کہ میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا ہے۔ یہ بھی کس قدر عجیب بات ہے کہ مہدی سوڈانی پر انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں تقریباً 220 سطر کا مضمون ہے ا ور خلیفہ دوم عمر بن خطاب پر صرف 9 سطر کا مضمون۔

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے کہ مہدویت دعویٰ کرنے کی چیز نہیں، وہ کر کے دکھا جانے کی چیز ہے۔ مگر یہ بات بھی صحیح نہیں۔ مَہدی کے معنی ہیں ہدایت یاب۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کوئی بڑا سیاسی یا قومی کارنامہ کرے جس کو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ مہدی کی اصل صرف یہ ہے کہ ایک ایسے زمانہ میں جب کہ اسلام کی حقیقت گم ہو چکی ہو گی، وہ اسلام کی معرفت حاصل کر لے گا۔ گویا مہدی اصلاً ہدایت کو پانے والا ہو گا، نہ کہ ہدایت کا خارجی نظام قائم کرنے والا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی شخص کا مَہدی ہونا یہ اللہ کے علم کی بات ہے، اس کا یقینی علم نہ خود مہدی کو ہو گا اور نہ اس کے معاصر لوگوں کو کیوں کہ ہدایت یا ب کون ہے، اس کا تعلق تمام تر عِلم الٰہی سے ہے۔

29نومبر کو دوپہر کے کھانے کی میز پر قاہرہ کے دکتور جمعہ (مصری بولی میں گمعہ) بھی موجود تھے۔ گفتگو کے دوران گائے (بقرہ) کا ذکر آ گیا۔ انہوں نے فوراً سورہ البقرہ کی آیتوں کی تلاوت شروع کر دی۔ سب لوگ خاموش ہو کر سننے لگے۔

مصری قاریوں کی قرأت تو مجھے پسند نہیں لیکن مصری علماء کی قرأت بہت پسند ہے۔ میں نہایت شوق کے ساتھ اس کو سنتا رہا۔ عام قاری جس طرح اشباع کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ تو مجھے بالکل غیرفطری معلوم ہوتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ صحابہ اس طرح قرآن کو پڑھتے ہوں گے۔ لیکن عرب علماء خاص طور پر حجاز کے علماء کی قرأت مجھے وجدانی طور پر صحابہ کے انداز قرأت کا تسلسل معلوم ہوتی ہے۔ اس کو سن کر تھوڑی دیر کے لیے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے زمانہ کا فاصلہ ختم ہو گیا ہے اور ہم ایک زندہ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ صحابہ کی تلاوت قرآن کو دوبارہ سن رہے ہیں۔

ایک مجلس میں کچھ عرب حضرات تھے۔ ایک صاحب نے اسپین میں مسلم سلطنت کے آخری زمانہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اندلس کے آخری مسلم سلطان ابو عبداللہ نے جب الحمراء کی کنجیاں عیسائی حکمراں کے حوالے کر دیں اور وہ روتا ہوا غرناطہ سے نکلا تو اس کی ماں نے اس کی تو بیخ کی اور کہا :

ابك مثل النساء ملكا ضائعا  لم تحافظ عليه مثل الرجال

اس کھوئے ہوئے ملک پر عورتوں کی طرح روؤ جس کو تم مردوں کی طرح نہ بچا سکے۔ میں نے کہا کہ ابو عبداللہ کی ماں کا یہ جملہ بہت زیادہ رائج ہے مگر وہ حقیقتِ حال کی صحیح ترجمانی نہیں۔ کیوں کہ ابو عبداللہ اور اس کی فوجیں آخری دور میں بھی نہایت بہادری کے ساتھ لڑی تھیں۔ مگر کوئی سلطان ایک فوج سے لڑ سکتا ہے وہ حقائق سے نہیں لڑ سکتا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ خود مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے، پھر وہ کیسے کامیاب ہوتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابو عبداللہ نے نہایت بہادرانہ مقابلہ کر کے عیسائی فوج کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ مگر اس کے بعد ابو عبداللہ کا چچا الزغل عیسائیوں کے ساتھ مل کر اس کا داخلی دشمن بن گیا۔ اس طرح فتح دوبارہ شکست میں تبدیل ہو گئی۔

تاہم الزغل کو اس بے وفائی کا کوئی معاوضہ مسیحی حکمرانوں کی طرف سے نہیں ملا۔ سلطنت غرناطہ پر اپنے قبضہ کی تکمیل کے فوراً بعد انہوں نے الزغل کو اسپین سے نکال دیا۔ وہ الجزائر میں تلمسان کے مقام پر چلا گیا اور وہاں گمنامی کی حالت میں مر گیا۔ جو آدمی اپنوں سے بے وفائی کرے اس کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ غیروں کی طرف سے اس کو وفاداری کا انعام دیا جائے گا۔

اسپین کی مسلم سلطنت اپنے آخری مرحلہ میں غرناطہ کے قصر الحمراء تک محدود ہو کر رہ گئی تھی، اسی طرح جیسے کہ ہندستان کی مغل سلطنت اپنے آخری مرحلہ میں دہلی کے لال قلعہ تک محدود ہو گئی تھی ۔ مگر آخری مسلم حکمراں ابو عبداللہ کے فوجی سردار موسیٰ بن ابی الغازان نہایت بہادر تھا۔ اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ اپنی موت تک بہادری کے ساتھ لڑتا رہا۔

تاہم حقیقت سے لڑنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ ابو عبداللہ نے 3جنوری1492ءکو عیسائی حکمراں کے ساتھ صلح کر لی اورغرناطہ کو اس کے لیے خالی کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی عمومی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ اس پکڑ دھکڑ میں شدت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ خلیفہ کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود مسلمانوں نے ابھی اس کو قبول نہیں کیا تھا۔ پہاڑی علاقوں میں بار بار انہوں نے بغاوت کا جھنڈا اٹھایا۔ مگر انہیں بری طرح شکست ہوئی اور آخرکار انہوں نے اس شرط پر جنگ بندی قبول کر لی کہ وہ اسپین کو چھوڑ کر مراکو، ترکی اور مصر چلے جائیں گے۔

تاتاری سردار ہلاکو خاں نے 1258ءمیں بغداد کی مسلم سلطنت کا خاتمہ کیا تھا۔ اسپینی بادشاہ فرڈنینڈ دوم نے 1492ءمیں غرناطہ کی مسلم سلطنت کو آخری طور پر ختم کر دیا۔ ایک صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:یہ اسلام دشمنوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔

میں نے کہا کہ اگر بغداد کی عباسی سلطنت کا خاتمہ اسلام دشمنوں کی سازش کی بنا پر ہوا تو اس کے صرف پچاس سال بعد انہیں دشمنوں کا خادمانِ اسلام بن جانا کس سازش کا نتیجہ تھا۔ میں نے کہا کہ سازش کے تصور کے تحت مسلم تاریخ کی توجیہ کرنا مسلم قوم کو مقہور اور غیر مسلم قوم کو قاہر کے مقام پر بٹھانا ہے۔ اس طرح کا تصورِ تاریخ سراسر قرآن کے خلاف ہے۔

میں نے کہا کہ امتِ محمدی کا مستقبل تمام تر دعوت کے اوپر منحصر ہے۔ مسلمانوں کے لیے مقدر ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کو ادا کر کے اٹھیں گے اور دعوت الی اللہ سے کوتاہی کر کے گریں گے۔ بغداد اور غرناطہ کی سلطنت کے زمانہ میں مسلمانوں نے علمی اور مادی اعتبار سے غیر معمولی ترقی کی۔ مگر یہ ترقیاں ان کے لیے حفاظت کا ذریعہ نہ بن سکیں۔

تاہم خود اسی المیہ میں یہ سبق بھی موجود ہ ہے کہ عباسی خلافت کے خاتمہ کے بعد جب مسلمانوں کے پاس سیاسی اور فوجی طاقت نہ رہی تو انہوں نے اسلام کی دعوتی طاقت کو استعمال کیا اور اس کے بعد تاریخ نے دیکھا کہ جہاں بظاہرکھنڈر تھا وہاں ایک شاندار قلعہ بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ تاریخ کا یہ واقعہ مسلمانوں کے لیے ایک ابدی نشانِ راہ ہے۔

ایک عرب دوست نے مجھے ایک کتاب ہدیہ میں پیش کی۔ 160 صفحہ کی یہ کتاب 1993ء میں مکتبہ اشبیلیہ (الریاض) سے چھپی ہے۔ اس کتاب کے مصنف عبدالرحمن عبدالوہاب ہیں اور اس کا نام ہےتصفیۃ الوجود الاسلامی ۔ یعنی اسلامی وجود کا خاتمہ۔ کتاب کے ایک حصہ میں بڑے جذباتی انداز میں سقوط غرناطہ کا ذکر ہے اور اس کے بعد کہا گیا ہے :

ھاھی الاندلس ضاعت واصبحت ذکری نبکی علی اطلالھا ونبکی تخاذلَ المسلمین و تفریطھم فیھا (صفحہ 10)۔یعنی یہ ہے وہ اندلس جو کھویا گیا اور محض ایک ایسی یاد بن کر رہ گیا جس کے کھنڈروں پر ہم روتے ہیں اور جس کی حفاظت کے سلسلہ میں مسلمانوں کی کوتاہی اور دستبرداری پر آنسو بہاتے ہیں۔

میں نے کہا کہ اس قسم کی مرثیہ خوانی اسلامی روح کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام امید اور اعتماد کا دین ہے۔ اسلام عسر میں یسر کا راز بتاتا ہے۔ اسلام کے لیے خدا نے حفاظت و نصرت کا ابدی وعدہ کیا ہے۔ ایسی حالت میں ہمیں چاہیے کہ ہم منفی پہلو میں بھی مثبت پہلو دریافت کریں۔ خود میڈرڈ کی موجودہ کانفرنس اس بات کی ایک علامت ہے کہ اسپین کے تاریخی کھنڈروں سے دوبارہ اسلام کاایک نیا مستقبل پیدا ہو رہا ہے۔

کانفرنس کے شرکاء کو میڈرڈ شہر کے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ لیکن کانفرنس کے اجلاس الکلا یونیورسٹی میں ہوئے جو شہر سے 30کلو میٹر دور ہے۔ لوگ روزانہ صبح کو سواریوں کے ذریعہ یونیورسٹی لے جائے جاتے۔ دن کے کھانے کا انتظام وہیں یونیورسٹی کے اندر ہوتا۔ شام کا کھانا اکثر کسی اور مقام پر کسی بڑے آدمی کی طرف سے ہوتا تھا۔ اس طرح صبح کو نکلنے کے بعد دوبارہ رات کو ہوٹل میں واپسی ہوتی۔

28نومبر کو صبح نو بجے ہم سب لوگ قافلہ کی صورت میں الکلا یونیورسٹی لے جائے گئے۔ یہ یونیورسٹی شہر سے دور ایک تاریخی ٹائون میں ہے۔ شہر اور اس کے بیرونی علاقہ کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے ہم لوگ پتھر کی بنی ہوئی ایک بہت بڑی عمارت کے سامنے اترے۔ اسی قدیم محل نما عمارت میں الکلا یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ اسی یونیورسٹی کے زیر اہتمام یہ کانفرنس ہو رہی ہے۔ کانفرنس کے اجلاس روزانہ اسی یونیورسٹی کے مختلف ہال میں ہوں گے۔

میڈرڈ اسپین کی راجدھانی ہے۔ جب میں میڈرڈ کے مختلف حصوں سے گزرتا تھا تو بار بار مجھے یہ خیال آتا تھا کہ یہاں کی تمام چیزیں بظاہر یورپ کے انداز پر بنائی گئی ہیں۔ مگر وہ یورپ کے زیادہ ترقی یافتہ شہروں کے معیار سے کم ہیں۔

یونیورسٹی کے بڑے ہال میں افتتاحی اجلاس ہوا۔ بتایا گیا کہ اس کانفرنس کا مقصد تینوں مذہبوں (یہودیت، عیسائیت، اسلام ) میں تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ اظہارِ خیال کی زبان اسپینی، انگریزی، فرانسیسی اور عربی تھی۔ ہیڈ فون کے ذریعہ ہر آدمی اپنی مطلوب زبان میں مقرر کی بات کو سن سکتا تھا۔

میڈرڈ کے میئر نے تقریر کی تو پہلے کہا سلام، شولوم ۔ پھر انہوں نے اپنی تقریر شروع کی ۔انہوں نے کہا کہ قدیم اسپین میں تینوں مذہب کے لوگوں نے مل کر ایک تاریخ بنائی تھی۔ اب پھر ضرورت ہے کہ تینوں مذہب کے لوگ مل کر یہاں نئی دنیا کی تعمیر کریں۔

ایک اسرائیلی مقرر نے کہا کہ اسرائیل اور عربوں کے درمیان اقتصادی تعاون (economic cooperation) ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ خدا کے نام کو ہائی جیک کرے:

No one has right to highjack the name of God

رات کو دوبارہ ہم لوگ اپنے ہوٹل میں واپس پہنچا دیے گئے۔

28نومبر کو افتتاحی اجلاس میں میڈرڈ کے میئر کے علاوہ ایک اسپینی یہودی اور ایک اسپینی عیسائی کی تقریر ہوئی۔ اس کے بعد ایک صاحب کھڑے ہوئے جن کا نام مسٹر تمارال بتایا گیا تھا۔ ان کے چہرے پر ہلکی داڑھی تھی اور بظاہر نہایت سنجیدہ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہا اور اس کے بعد اسپینی زبان میں اپنی تقریر کی۔

ان کی شخصیت کے بارے میں مجھے تجسس تھا۔ بعد کو ملا تو پتہ چلا کہ وہ ایک اسپینی مسلمان ہیں۔ وہ تھوڑی عربی اور تھوڑی انگریزی جانتے تھے، اس لیے ان سے گفتگو ممکن ہو سکی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا اصل خاندانی نام فضل اللہ ہے۔ موجودہ نام ان کے اصل عربی نام کا اسپینی ترجمہ ہے۔ انہوں نے اپنا مکمل پتہ دیا جو اس طرح ہے :

Julio Torralbo Tamaral, Psiccologia Clinia Escolar

Collegiado N. 1911 CPM, Madrid                          

(Tel. 96-5141433)                                                  

غرناطہ کی مسلم سلطنت کے خاتمہ کے بعد جب اسپینی مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور ان کو یہاں سے نکالا جانے لگا تو بہت سے لوگوں نے اپنے نام بدل لیے، تاکہ وہ یہاں رہ سکیں۔ اس طرح کے بہت سے خاندان ابھی تک اسپین میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ اس لیے ایسے مسلمان اب چھپ کرنہیں رہتے۔ بلکہ وہ اعلان کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال خود فضل اللہ صاحب ہیں۔ موجودہ کانفرنس جو ایک حکومتی ادارہ کی طرف سے کی گئی تھی، اس میں ان کو اسلام کے اسپینی نمائندہ کی حیثیت سے بولنے کا موقع دیا گیا۔

کانفرنس کے موقع پر میں نے انگریزی میں ایک پیپر پیش کیا۔ اس کا عنوان تھا ’’امن اسلام میں‘‘ (Peace in Islam) ۔یہ مضمون الرسالہ انگریزی مئی-جون 1996 میں شائع ہوچکا ہے۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے تصور پر مبنی ہیں۔ اسلام میں جنگ صرف ناگزیر دفاع کے لیے جائز ہے، کسی اور مقصد کے لیے اسلام میں جنگ کی اجازت نہیں۔

اس پیپر کے علاوہ مختلف مواقع پر میں نے اسلام کے امن اور رحمت اور انسانیت کے تصور کی وضاحت کی۔ اس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ میڈرڈ کے اسپینی اخبار الکلا (Diaria De Alcala) کا شمارہ 29 نومبر1994کانفرنس نمبر کے طور پر شائع کیا گیا تھا۔ اس نے نمایاں انداز میں صفحہ اول پر میری تنہا تصویر شائع کی۔ اخبار کا یہ شمارہ مجھے یروشلم کے آوی شاکیت (Avi Shoket) نے لا کر دیا تھا۔ یہ اور اس سلسلہ کے بعض دوسرے اسپینی اخبار اسلامی مرکز کے دفتر میں بطور ریکارڈ موجود ہیں۔

29نومبر کو میں نے اپنا جو پیپر پیش کیا تھا، اس کے ساتھ لوگوں نے نہایت دلچسپی کا اظہار کیا۔ کچھ لوگوں نے مجھ سے اس کی کاپیاں مانگیں۔ ایک خاتون ورکرنے مجھ سے میرا نسخہ لیا اور یونیورسٹی کے دفتر میں جاکر اس کی کئی فوٹو کاپی نکلوائی اور لوگوں کے درمیان تقسیم کر دی۔

28نومبر کی شام کو اجلاس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد تمام شرکاء یونیورسٹی سے واپس ہو کر اپنے ہوٹل کے کمروں میں آ گئے۔ اس کے بعد 9بجے رات کو دوبارہ کھانے کے لیے روانگی ہوئی۔ اس کا انتظام اسپین کے ایک وزیر کی طرف سے ایک خصوصی گارڈن میں کیا گیا تھا۔ یہاں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔

کھانے سے فراغت کے بعد واپسی ہوئی تو گاڑی میں ایک صاحب کا ساتھ ہو گیا۔ انہوں نے اپنا نام خواکین لومبا بتایا۔ وہ سرقسطہ (اسپین) کی یونیورسٹی میں مسلم فلاسفی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مشہور مسلم فلسفی ابن باجہ کے ہم وطن ہیں اور انہوں نے ابن باجہ پر ریسرچ کرکے ایک کتاب شائع کی ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے شعبہ میں کتنے طالب علم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً دو سو طلبہ ہیں۔ انہوں نے اپنا نام عربی میں لکھ کر مجھے دیا۔ ان کا پورا نام اور پتہ یہ ہے :

Joaqvin Lomba, Professor of Muslim Philosophy

university of Zaragoza                                           

50005-Zaragoza, Spain.                                     

خواکین لومبا ابن باجہ کی بہت تعریف کرتے رہے۔ ابن باجہ (Avempace) اسپین کے شہر سرقسطہ (Zaragoza) میں1095ءمیں پیدا ہوا اور مراکو کے شہر فاس میں1139ءمیں اس کی وفات ہوئی ۔ وہ ابن طفیل اور ابن رشد کی طرح ایک عظیم فلسفی سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ اس کو ملحد قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر خواکین لومبا عربی بھی جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال نے لکھا ہے کہ بارہویں صدی کے بعد اسلامی فلسفہ کی ترقی رک گئی۔ اس کے بعد کوئی بڑا مسلم فلسفی پیدا نہیں ہوا۔ اس کا سبب آخر کیا ہے۔

میں نے کہا کہ جہاں تک میرا خیال ہے، یہ زمانی تبدیلی کا معاملہ ہے۔ قدیم معنی میں جس چیزکو اسلامی فلسفہ کہا جاتا ہے، اس کی تشکیل اس زمانہ میں ہوئی جب کہ دنیا میں یونان کی قیاسی منطق کا غلبہ تھا۔ مسلم فلسفیوں نے اس میں مہارت پیدا کی اور اس کی بنیاد پر اپنا فلسفہ مرتب کیا۔ مگر سائنسی انقلاب کے بعد یہ منطق ختم ہو گئی۔ اب سائنسی منطق کا دور آ گیا۔ مگر مسلم ذہن سائنسی منطق میں مہارت نہ پیدا کر سکے، اس لیے وہ جدید علم کی بنیاد پر اسلامی فلسفہ (جدید علم کلام) بھی تشکیل نہ دے سکے۔

میں نے کہا کہ دوراول میں جب مسلمانوں کا مقابلہ یونانی منطق سے پیش آیا تو وہ فاتح کی نفسیات میں جی رہے تھے۔ انہوں نے بڑھ کر یونانی منطق کو سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کی۔ اس طرح وہ اس قابل ہو گئے کہ یونانی منطق کو اسلامائز کریں اور اس کی بنیاد پر ایک طاقتور علم کلام پیدا کر سکیں۔

مگر موجودہ دور میں جب سائنسی منطق کا زمانہ آیا تو مسلمان دوسری قوموں کے مقابلہ میں مفتوح اور مغلوب بن چکے تھے۔ چنانچہ ان میں اقدام کے بجائے تحفظ کا مزاج پیدا ہو گیا تھا۔ اس شکست خوردہ نفسیات کی بنا پر مسلم دانشور نئے علوم کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے، وہ آگے بڑھ کر ان سے واقف ہونے اور ان کو استعمال کرنے کا حوصلہ نہ کر سکے۔

ایک مسلم اسکالر نے کہا کہ مسلم دور میں قرطبہ کی لائبریری میں چار لاکھ(400,000) کتابیں تھیں۔ جب کہ اس وقت سارے یورپ کی تمام لائبریریوں میں بھی اتنی کتابیں موجود نہیں تھیں۔ 

میں نے کہا کہ اس قسم کی باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ باتیں صرف جھوٹا فخر پیدا کرتی ہے۔ آج ضرورت یہ ہے کہ مسلمان وقت کو سمجھیں اور اپنے پچھڑے پن کو دور کرنے کے لیے محنت کریں۔ ہمیں ماضی کے علمی کارناموں پر فخر کرنے کے بجائے یہ کرنا چاہیے کہ ہم محنت کر کے آج کے علم انسانی میں اضافہ کریں۔

اسرائیل سے بہت سے یہودی نیز عیسائی افراد یہاں آئے تھے۔ ان لوگوں سے میں معلوماتی انداز کی گفتگو کرتا رہا۔ ان میں ایک آوی شاکیت (Avi Shoket) تھے۔ ان کا تعلق فارن افیئرس سے ہے۔ ان سے فلسطین کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ جب میں ان کو فلسطینیوں کے حق میں اپنے دلائل دے رہا تھاتو میں نے دیکھا کہ ہر دلیل کے جواب میں ایک متوازن دلیل ان کے پاس موجود ہے۔ میں نے سوچا کہ جب دونوں فریق یکساں طور پر اپنے آپ کو برحق سمجھ رہے ہوں تو آخر یہ مسئلہ کیوں کر حل ہو سکتا ہے۔

میں نے پوچھا کہ یاسر عرفات اور حکومت اسرائیل کے درمیان حال میں جو معاہدۂ امن ہوا ہے اس کے بارے میں اسرائیل کی اکثریت کی سوچ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں کی اکثریت خوف (fear) میں مبتلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کو خاموش مدد پہنچا رہے ہیں۔ ہم نے مختلف حکومتوں کو ابھارا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو مالی مدد دیں۔ حتیٰ کہ ہم بالواسطہ ذرائع سے کام لے کر خود بھی فلسطینیوں کو مالی مدد د ے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ فلسطینی جب تک معاشی اعتبار سے مطمئن نہ ہوں، اس علاقہ میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔

نادان آدمی اپنے حریف کو مار کر اسے ختم کرنا چاہتا ہے۔ دانش مند آدمی اپنے حریف کو خاموش کر کے اس کے اوپر فتح حاصل کر لیتا ہے۔

آوی شاکیت اسرائیلی حکومت میں اعلیٰ افسر ہیں۔ وہ شستہ انگریزی بول رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل عالمی برادری میں تنہائی (isolation) میں پڑ گیا تھا۔ اس تنہائی کا پہلا فائدہ ہم نے یہ اٹھایا کہ ہم یکسو ہو کر اپنی داخلی ترقی میں لگ گئے۔ مثلاً ہم نے اپنی بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے پر پوری توجہ لگا دی۔ اس خاموش جدوجہد کے نتیجہ میں ہم نے جو ترقی کی اس نے اب ہم کو اس پوزیشن تک پہنچا دیا ہے کہ ہم دنیا کی قوموں سے تعاون کر کے انہیں بہت کچھ دے سکیں۔

بنجر زمین کو کارآمد بنانے کے لیے ہمارے جو تجربات ہیں ان کی بنیادپر ہمارے یہاں ایک مستقل شعبہ (Arid Zone Institute) قائم ہے۔ اس شعبہ کے تحت ہم مختلف ملکوں کو اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ انہیں ملکوں میں سے ایک آپ کا ملک انڈیا بھی ہے۔ انڈیا میں گجرات اور راجستھان میں ہمارے تعاون کے تحت کئی پروجیکٹ چل رہے ہیں۔

یہاں یہودی اہل علم بڑی تعداد میں آئے ہیں۔ ان سے گفتگو کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ ان کی فکری سطح عام لوگوں سے اونچی ہے۔ یہی احساس مجھے ان کے بارے میں پہلے بھی کئی بار ہوا ہے۔ شیخ ادریس سکوتہ سے میں نے کہا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودی زیادہ ذکی ہوتے ہیں۔ میں نے بھی اپنے تجربہ میں ایسا ہی پایا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک امت کی مانند رہتے ہیں۔ ان کا ایک آدمی دوسرے کے لیے اضافۂ علم کا سبب بنتا ہے:

لانھم امۃ واحدۃ، یعلّم بعضھم بعضا

یہ ایک فطری حقیقت ہے جو حدیث میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:الْمَرْءُ كَثِيرٌ بِأَخِيهِ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 186)۔ یعنی انسان اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کثیر ہو جاتا ہے۔ جس انسانی گروہ میں اجتماعی اوصاف نہ پائے جائیں، ان میں ہر شخص تنہا ہو جائے گا اور جس انسانی گروہ میں اجتماعی اوصاف موجود ہوں، اس کا ہر فرد دوسروں کے لیے طاقت بنے گا اور خود دوسروں سے طاقت لیتا رہے گا۔

اسرائیل سے آئے ہوئے ایک صاحب نے کہاکہ اس وقت کئی مسلم ملکوں میں عورت حکمراں ہے— ترکی، بنگلہ دیش اور پاکستان۔ روایتی اسلام میں تو عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔ پھریہ نیا ظاہرہ کیا اسلام میں ریفارمیشن کی علامت ہے۔

میں نے کہا کہ اس کا جواب دینے سے پہلے میں آپ سے ایک سوال کروں گا۔ آپ کے یہاں مسز گولڈ امیر حکومت کے اعلیٰ عہدہ تک پہنچیں ۔ ان کے دور حکومت کے بارے میں آپ کا تجربہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت جذباتی تھیں۔ اگر وہ حقیقت پسند ہوتیں تو فلسطینیوں سے آج امن کا جو معاہدہ ہوا ہے، وہ گولڈ امیر کے زمانہ میں ہی ہو گیا ہوتا، جب کہ انور سادات زندہ تھے۔ اس طرح ہم بہت سے جانی اور مالی نقصان سے بچ جاتے۔

میں نے کہاکہ خود آپ کے تجربہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کو سیاسی حکمراں بنانا مفید نہیں۔ گویا کہ صحیح فطری اصول یہی ہے کہ عورت کو اقتدار اعلیٰ کے مقام پرنہ بٹھایا جائے۔ پھر جب یہ ایک صحیح فطری اصول ہے تو اس میں تبدیلی یا ریفارم کی کیا ضرورت ہے اور جہاں تک بعض ملکوں میں عورت کو حکمراں بنانے کا سوال ہے تو یہ اتفاقی نوعیت کے بعض سیاسی اسباب کی وجہ سے ہے، نہ کہ اسلام میں کسی ریفارمیشن کی تحریک کی وجہ سے۔

اسپین کی کانفرنس میں جو یہودی علماء آئے تھے، ان میں سے بعض کو میں نے دیکھا کہ وہ پرجوش طور پر اسپین کے ماضی کی ترقیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس کا راز مجھے کسی قدر بعد کو سمجھ میں آیا۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ یہ کوشش کررہے ہیں کہ ماضی میں اسپین کی ترقیوں کو یہودی تاریخ کے خانہ میں درج کر دیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اُس زمانہ میں سیاسی اقتدار اگرچہ مسلمانوں کے پاس تھا، مگر ترقیاتی کام زیادہ تر یہودی افراد نے انجام دیا۔ یہ یہودی اس زمانہ میں ایڈوائزر، ایکسپرٹ اور ماہرین فن کی صورت میں کام کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر ابن میمون (Maimonide) اور ابن جیبرول (Gabriel) وغیرہ۔ اس لیے یہ تاریخ اگر سیاسی اعتبار سے عرب تاریخ کا حصہ ہے تو عین اسی وقت وہ علمی اعتبار سے یہودی تاریخ کا حصہ ہے۔

اس معاملہ میں وہ اس حد تک گئے ہیں کہ ابن رشد کو بھی وہ یہودی عالم بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم سلطان منصور اسی لیے ابن رشد سے ناراض ہو گیا تھا اور اس کو قرطبہ سے نکال دیا تھا۔ اس کے بعد ابن رشد جا کر اسپین کے ایک گائوں الیسانہ میں رہنے لگا جہاں کی آبادی میں بیشتر تعداد یہودیوں کی تھی ۔ اس لیے ابن رشد یہودی تھا (فھو اِذن یھودی)۔چنانچہ یروشلم کی ہیبرویونیورسٹی میں مطالعاتِ رشدی کے نام سے ایک مستقل مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس مرکز کے تحت ابن رشد کی کتابیں عبرانی اور انگریزی زبان میں شائع کی جا رہی ہیں۔

میں نے کہا کہ اسپین کے ترقیاتی عمل میں خواہ کچھ یہودی افراد شریک ہوں، مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ترقیاتی عمل اسلام کے فکر انقلاب کے تحت وجود میں آیا۔ اسلا م نے اس دور کے توہماتی ذہن کو اگر نہ توڑا ہوتا تو سرے سے کوئی ترقیاتی عمل ہی ظہور میں نہ آتا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد اسپین میں بہت سے اہل علم اٹھے جنہوںنے زور و شورکے ساتھ یہ بات کہی کہ مسلم عہد کے اسپین کو نظراندازکر کے ہم نے خود اپنا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ یہ عہد پوری اسپینی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار عہد تھا۔ مزید یہ کہ اسپین کی یہی وہ علمی ترقیاں تھیں جنہوں نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بنیاد فراہم کی۔ اس تاریخ کو لینے کی صورت میں ہم جدید تہذیب کے معمار قرار پاتے ہیں اور اس تاریخ کو چھوڑ دینے کی صورت میں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں رہتی جس کو ہم فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ اس قسم کے اسپینی اہل علم کی فہرست بہت لمبی ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر گائینگوس، ڈاکٹر امریکو کاسترو، ڈاکٹر بدرو مارتینیز مونتابث وغیرہ۔

اسپین کے لوگوں کی اس کوشش کو عرب دانش وروں نے اَسبنۃ التاریخ الاسلامی فی الاندلس کا نام دیا ہے۔ یعنی اندلس کی اسلامی تاریخ کو اسپینی بنانا۔ مگر خود اسپینی اس کو اپنے بھولے ہوئے ماضی کی طرف واپسی قرار دیتے ہیں۔

28نومبر کی صبح کو میں ہوٹل میں ناشتہ کی میز پرتھا۔ اچانک کسی نے میرے اوپر اپنا ہاتھ رکھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو شیخ اسحاق ادریس سکوتہ (57سال) تھے۔ وہ ایک سوڈانی عالم ہیں اور آج کل رابطۂ عالم اسلامی کے تحت مکّہ میں مقیم ہیں۔ ان سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔

میں نے پوچھا کہ شیخ حسن البنا تو ابتدا میں ایک مذہبی واعظ تھے اور اس اعتبار سے وہ ایک اچھا کام کر رہے تھے۔ پھر وہ غیر ضروری طور پر سیاست اور انتخابات میں کیوں کود پڑے۔ آخر انہوں نے اس بات کو کیوں نہیں جانا کہ سیاست میں داخل ہو کر وہ صرف بگاڑ میں اضافہ کریں گے، حالات کے اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ اس طرح وہ ملک میں کوئی مثبت سیاسی نتیجہ پیدا کر سکیں۔

شیخ سکوتہ نے جواب دیا کہ وہ ایک صوفی آدمی تھے۔ وہ سیاست نہیں جانتے تھے۔ مگر ان کے وعظوں اور تقریروں سے جب مسلمانوں کی بھیڑ ان کے گرد اکٹھا ہونے لگی تو کچھ لوگوں نے انہیں استعمال کیا (کان الشیخ حسن البنارحمه اللہ لیس عارفا للسیاسۃ بل کان رجلاً صوفیاً، استعملہ الذین أرا دوا الحکم من خلالہ) ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سلفی رحجان رکھنے والے نوجوان یہ چاہتے تھے کہ اپنے انتہا پسندانہ خیالات کی تائید کے لیے وقت کی کسی مشہور و مقبول شخصیت کو اپنے نمائندہ یا ترجمان کے طور پر پیش کریں۔ اس کے لیے وہ محمد عبدہ اور رشید رضا وغیرہ کو استعمال کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں تک کہ حسن البنا ظاہر ہوئے جو بیک وقت اہل سنت و الجماعت سے بھی تعلق رکھتے تھے اور اسی کے ساتھ متصوفانہ حلقوں سے بھی ان کے گہرے روابط تھے۔ چنانچہ انتہا پسند نوجوانوں کے مذکورہ طبقہ نے ان کی طرف توجہ کی اور وہ ان کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

کچھ عرب حضرات کی ایک مجلس میں یہ ذکر تھاکہ مسلمان ساری دنیامیں غیر مسلموں کے عدوان کا شکار کیوں ہیں۔ ان لوگوں کی رائے یہ تھی کہ اسپین میں مسلم اقتدار کے خاتمہ سے لے کر اب تک جتنے مصائب پیش آ رہے ہیں وہ سب اعدائے اسلام کی عالمی سازشوں (مؤامرات) کا نتیجہ ہیں۔ اعدائے اسلام متحد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں، صدیوں سے پیش آنے والے تمام المناک واقعات اسی سازش کے مختلف مظاہر ہیں۔

میں نے کہاکہ موجودہ زمانہ کے مسلم دانشوروں کے پاس ان مخالفانہ واقعات کی توجیہ کے لیے ایک ہی لفظ ہے اور وہ مؤامرات اعداء ہے۔ مگر یہ توجیہ کتاب اللہ کی نفی کے ہم معنی ہے۔ قرآن میں بار بار مختلف الفاظ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ اہل اسلام کا ولی و کارساز ہے۔ دنیامیں ان کے معاملہ کو خدا نے اتنا زیادہ مستحکم کر دیا ہے کہ اب انہیں انسانوں سے نہیں ڈرنا ہے بلکہ صرف خدا سے ڈرنا ہے۔ مگر آپ لوگ اور مسلم دنیا کے دوسرے علماء جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاملاتِ دنیا کی باگ ڈور تمام تر صرف اعدائے اسلام کے ہاتھ میں ہے اور خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ تاریخ کا یہ تصور سراسر اسلام کے خلاف ہے۔

میں نے کہا کہ قرآن میں یہ بتایاگیاہے کہ اس دنیا میں انسان ایک دوسرے کے عدو (دشمن) رہیں گے۔ یہاں عداوت سے مراد تحدی ہے۔ یعنی انسان ایک دوسرے کے لیے چیلنج بنیں گے۔ تحدیات (چیلنج) کے زینوں کو طے کرتی ہوئی انسانی تاریخ اپنا ترقی کا سفر کرے گی۔ دنیا میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو آپ فطرت کے اسی قانون کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں ۔

میں نے کہا کہ مخالفانہ واقعات کے وجود سے مجھے انکار نہیں۔ مگر آپ کو چاہیے کہ ان واقعات کی توجیہ آپ مؤامرات (سازشوں) کے تصور سے نہ کریں، بلکہ تحدیات (چیلنج)کے تصور سے کریں۔ یہ تحدیات کسی مفروضہ دشمنِ اسلام کی گھڑی ہوئی نہیں ہیں بلکہ خود خالق کائنات کا مقرر کردہ نظام یہی ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ ہم ان تحدیات کاسامنا کریں۔ فریاد اور احتجاج سے ہمیں کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔

28نومبر کی شام کو کھانے کی میز پر ایک اسپینی نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ بارسیلونا کے رہنے والے تھے۔ ان کا نام و پتہ یہ ہے

Migule De Quadras Sans                            

Ronda General Thitre, 165-6                      

08022 Barcelona, Spain. (tel.34-3-4174160)

انہوں نے بتایا کہ میں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کیا ہے۔ انہوں نے ہندو سادھوئوں اورسنتوں اور ہندوئوں کی مذہبی تنظیموں کا ذکر اتنی تفصیل کے ساتھ کیاکہ میں سمجھاکہ شاید وہ ہندو یا بدھسٹ ہیں، مگر پوچھنے پر معلوم ہواکہ وہ ایک عیسائی ہیں۔ البتہ ہندو فلسفہ سے انہیں دلچسپی ہے۔ اسی سلسلہ میں وہ ہندوستان بھی گئے۔

اسی میز پرایک اور شخص بالکل عربوں کی طرح عربی زبان بول رہے تھے۔ میں سمجھا کہ وہ کوئی مسلمان ہیں، مگر بعد کو معلوم ہوا کہ وہ عیسائی تھے۔ اس طرح کے ہزاروں عیسائی مختلف مذاہب کے قریبی مطالعہ کے لیے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ہر مذہب کی زبان سیکھتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے مذہبی پیشوائوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں ایسے بھی ہیں جو کلچرل طور پر ان سے مماثلت اختیار کر لیتے ہیں۔

مسلمانوں میں ایسی لگن والے لوگ نظرنہیں آتے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کا مذہب ان کے لیے دنیوی انٹرسٹ بن چکا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہی چیز آخرت کے انٹرسٹ کی خاطر ہو سکتی تھی، مگر آخرت کے انٹرسٹ میں لوگوں کے لیے اتنی کشش نہیں کہ وہ اس درجہ لگن کے ساتھ اس کے لیے کام کر سکیں۔

ایک عرب عالم نے اپنی تقریرمیں شام و فلسطین کے تاریخی مقامات کا ذکر کیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کہاھذہ الاماکن ملیٔۃ بالرموزالمقدسۃ ۔ عام اُردو داں اس جملہ کو سنے تو شاید وہ سمجھے گا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدس مقامات اسرار سے بھرے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ یہ مقامات مقدس نشانیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ رمز (جمع رموز) کا لفظ عربی میں علامت یا نشانی کے لیے ہے، مگر اُردو میں اس کو رازکے معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک ہی لفظ عربی میں کچھ معنی میں ہے اور اردو میں کچھ معنی میں۔ زبانوں میں اس طرح کی توسیع عام ہے۔ ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں کبھی سابق مفہوم ہی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی بدلے ہوئے مفہوم میں۔

ایک مسیحی مقرر نے کہا کہ ہمارے اندر سیلف کرٹسزم کی جرأت ہونی چاہیے۔ لوگ سیلف کرٹسزم سے اس لیے گھبراتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم اپنی نفی کرنے لگیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم کو غیر یہودی اور غیر اسلامی اور غیر مسیحی بننا پڑے گا۔ تب صحیح ڈائیلاگ ہو گا :

If you want to start real dialogue, first you have to dejudise yourself, de Islamise yourself, de Chrischianise yourself.                                          

میں نے کہاکہ کرسٹزم تو ٹھیک ہے۔ مگر ریئل ڈائیلاگ کی یہ شرط صحیح نہیں کہ ہر آدمی پہلے اپنی حیثیت کا خاتمہ کرے۔ اس کی صحیح شرط یہ ہے کہ آدمی کے اندر سائنٹفک ذوق ہو۔ وہ کھلے ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کی بات کو سنے اور تعصب کے بجائے دلائل کی بنیاد پر اپنے رویہ کا فیصلہ کرے۔

اس کانفرنس میں بہت سے عرب شریک ہوئے۔ ان میں سے ایک، نومولود حکومت فلسطین کے سفیر نبیل معروف بھی تھے۔ گفتگو کے دوران میں نے کہاکہ آپ کامسئلہ پوری امت کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ امت کی طرف سے مدد کے منتظر ہیں (نحن منتظر و الغیث من الامۃ)۔میں نے ان کاپتہ لکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ اپنی حکومت کو دولتِ فلسطینیہ کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں، ہم اس وقت اسی کے راستہ میں ہیں (نحن علی الطریق)۔

وہ یہاں کی تقریروں سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ اس یہودی عالم کی تقریر سے بھی خوش نہیں تھے جس نے کہا تھاکہ عرب اور اسرائیل کے درمیان اقتصادی تعاون (economic co-operation)  کا بہت وسیع میدان ہے اور دونوں کو سیاسی ٹکرائو کو چھوڑ کر اقتصادی ترقی کے مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

اجلاس کے اختتام پر ہم لوگ باہر نکلے تو ایک آدمی شیخ ادریس سکوتہ سے بہت تپاک کے ساتھ ملا۔ دونوں بہت زیادہ بے تکلفی سے عربی میں بات کرنے لگے۔ میں سمجھاکہ وہ کوئی عرب مسلمان ہیں۔ اتنے میں ایک اخبار کا رپورٹر آ گیا۔ اس نے ہم تینوں کا تعارف جاننا چاہا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ صاحب اسرائیل کے ایک یہودی تھے۔

یہاں یہودی بڑی تعداد میں آئے تھے۔ یہودی آج کل بڑے پیمانہ پر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یہودیوں اور مسلمانوں کا جھگڑا ختم ہو جائے۔ دونوں اپنے اپنے ملے ہوئے حصے پرمطمئن ہو کر باہم اچھے تعلقات قائم کر لیں، مگر مجھ کو یہاں آئے ہوئے مسلمانوں میں سے کوئی بھی نہیں ملا جو دل سے اس نظریہ کا حامی ہو۔

دکتورہ بنت الشاطئی مصر کی مشہور خاتون ادیب ہیں۔ وہ بھی اس کانفرنس میں آئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ سراپااحتجاج بنی ہوئی ہیں۔ ایک موقع پر انہوںنے پرجوش انداز میں کہاکہ یہ ڈائیلاگ نہیں ہے، یہ سب کلنٹن کے اشارہ پر ہو رہا ہے۔ امریکہ نے ہم لوگوںکو مفلس بنا دیا ہے۔ انہوںنے اس پر بھی احتجاج کیا کہ تقریریں زیادہ ہو رہی ہیںمگر مناقشہ کا وقت کم دیا جا رہا ہے (تمرجلسۃ بعد جلسۃ بدون مناقشۃ، ماھذا)۔

وہ کبھی عربی میں بولتی تھیں اور کبھی انگریزی میں۔ ایک بار انہوں نے امریکہ کے خلاف جذباتی انداز میں بولتے ہوئے کہا کہ ہم غلام ہیں، ہم امریکہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے :

We are slave, we can’t live without America.

میں نے کہاکہ خاتون محترم ! اگر صورتحال بالفرض وہی ہے جو آپ بتاتی ہیں تب بھی یہاں لفظی احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں اپنی کمیوں کو دور کرناہے، اس کے بعد ہی ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم دوسری قوموں کی زیادتی سے محفوظ رہ سکیں۔

مسلمانوں کی ایک مجلس میں، میں نے کہا کہ اسلام میں جن باتوں کی تعلیم دی گئی ہے ان میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توبہ کہا جاتا ہے۔ یعنی غلطی کرنے کے بعد دوبارہ درست طریقہ کی طرف واپس آنا۔ یہ توبہ اسلامی زندگی کے لیے نہایت اہم ہے۔ جس آدمی کے اندر توبہ کا مزاج نہ ہو وہ کبھی ایمان و اسلام میں ترقی نہیں کر سکتا۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاح کا معاملہ توبہ کے ساتھ بندھا ہوا ہے (القصص، 28:67)۔ توبہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ جو آدمی غلطی کرنے کے بعد سچی توبہ کرے اور اس کی شرطوں کو پورا کرے تو اس نے توبہ سے پہلے جو برائی کی تھی اس کو بھی بھلائی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے (الفرقان، 25:70) ۔

میں نے کہا کہ مسلمان توبہ کے اس حکم کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو جانتے ہیں، مگر وہ بڑے بڑے معاملات میں اس کی اہمیت سے بے خبر ہیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان ساری دنیا میں جس سب سے بڑی غلطی میں مبتلا ہیں، وہ دوسری قوموں سے ٹکرائو کی پالیسی ہے۔ یہ ٹکرائو اللہ کی نظر میں جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹکرائو سے ایک طرفہ طور پر صرف مسلمانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔اس ٹکرائو سے مسلمانوں کو کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔

غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے لیے مدعو قوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان قوموں کے سلسلے میں مسلمانوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ انہیں خدا کی تعلیمات سے باخبر کیا جائے۔ ہر قسم کے بہترین ذرائع کو استعمال کر کے ان لوگوں تک دین حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ پیغام رسانی کے اس عمل کو معتدل انداز میں جاری رکھنے کے لیے یہ بھی مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ ان قوموں کی زیادتی کو برداشت کریں، وہ ان کی اشتعال انگیزی کے باوجود ان کے خیرخواہ بنے رہیں۔

مگر مسلم لیڈروں نے غیر مسلم قوموں کی بعض زیادتیوں پر بے برداشت ہو کر ان کے خلاف ٹکرائو شروع کر رکھا ہے۔ اس ٹکرائو کو وہ بطور خود سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جہاد نہیں ہے بلکہ سرکشی ہے۔ مسلم لیڈروں کو اس سرکشی سے توبہ کرنا ہے۔ انہیں ٹکرائو کا طریقہ چھوڑ کر نرمی اور محبت کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ یہ توبہ ہے اور وہ مسلم لیڈروں کے اوپر فرض کے درجہ میں ضروری ہے۔ اگر انہوں نے یہ توبہ نہ کی اور مدعو قوموں سے موجودہ ٹکرائو کی پالیسی کو انہوں نے جاری رکھاتو یقینی طور پر وہ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ(الحج، 22:11)۔يعني دنيا وآخرت ميں نقصان کا مصداق بن کر رہ جائیں گے اور ذلّت اور ناکامی کے سوا کچھ بھی انہیں حاصل نہ ہو گا۔

حسب معمول 29 نومبر کی صبح کو تمام لوگ گاڑیوں کے ذریعہ ہوٹل سے یونیورسٹی لے جائے گئے۔ راستہ میں مختلف قسم کے اسپینی مناظر سامنے آتے رہے۔ یہ علاقہ پہلے مسلم اسپین میں شامل تھا جس کو اب ایبیریا (Iberia) کہا جاتا ہے۔

یونیورسٹی میں ایک صاحب پرتپاک طور پر ملے۔ انہوں نے کہا السلام علیکم۔ وہ عربی زبان میں بول رہے تھے۔ انہوں نے اپنا نام فادر چیری بیکر بتایا۔ ان کے چہرے پر مسلمانوں جیسی سفید داڑھی تھی۔ وہ فرانس میں پیدا ہوئے۔ عرصہ سے وہ الجیریا میں مشنری کے طور پر کام کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ الجزائر کے مستقبل کے بارے میں آپ کا اندازہ کیا ہے۔ انہوںنے انگریزی میں جواب دیا کہ امن ابھی قریب نظر نہیں آتا :

Peace is not very near.

ایک یہودی جن کا نام موریس رومانی بتایا گیا تھا۔ انہوں نے صبح کے اجلاس میں بولتے ہوئے کہا کہ اسپین کی قدیم تاریخ مسلم، کرسچین، یہودی کے کوآرڈی نیشن کی شاندار مثال ہے۔ اسی کوآرڈی نیشن نے اسپین کا گولڈن ایج پیدا کیا تھا۔ اس زمانہ میں عربی زبان کا عام رواج تھا۔ اس زمانہ میں کرسچین، یہودی اور مسلمان آزادانہ طور پر آپس میں عربی میں بات کرتے تھے۔ اب ہم کو دوبارہ اسی کو آرڈی نیشن کی ضرور ت ہے۔

29 نومبر کی شام کو آخری اجلاس تھا۔ اس میں اسپین کے کنگ اور کوئن دونوں شریک ہوئے۔ ہال کے اندر دونوں بالکل سادہ انداز میں داخل ہوئے۔ دونوں معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اسٹیج پر ان کے لیے کوئی خصوصی کرسی بھی نہیں رکھی گئی۔ میری نشست ان کے بہت قریب تھی، اس لیے میں دونوں کو صاف طور پر دیکھ سکتا تھا۔ دونوں اتنے زیادہ سادہ اور متواضع معلوم ہو رہے تھے کہ یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس ملک کے بادشاہ ہیں۔

کنگ نے اپنی اسپینی تقریر میں خصوصیت کے ساتھ ٹالرنس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں یہودی آئے، عیسائی آئے، مسلمان آئے۔ سب مل جل کر ٹالرنس کے ساتھ یہاں رہے، سب نے ملک کی ترقی میں حصہ لیا۔ یہی ماحول ہم کو نئے اسپین میں بنانا ہے۔ یہی ہمارے لیے ترقی کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہمارے ملک میں ہر مذہب کو یکساں درجہ دیا گیا ہے۔ ہر مذہب کو اپنے اپنے دائرہ میں پوری آزادی حاصل ہے۔

شاہ اسپین کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ اس ملک کی جدید تاریخ میں افغانستان جیسے مسلم ملکوں کے لیے ایک بڑی سبق آموز مثال ہے۔ جنرل فرانکو (Francisco Franco) نے فوجی بغاوت کر کے یہاں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور1936میں اسپین کے مطلق حکمراں بن گئے۔ لیکن بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر 1973ء میں انہوں نے وزیر اعظم کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔

جنرل فرانکو کا ایک بیٹا تھا۔ مگر انہوں نے اپنے بیٹے کے بجائے جان کارلوز (Juan Carlos) کو 1969ء میں اپنا جانشین مقرر کر دیا جو قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے مطابق، 20نومبر 1975ء کو جب جنرل فرینکو کی موت ہوئی تو فوراً ہی جان کارلوز اسپین کے کنگ بن گئے EB 17/442-43) (

افغانستان میں روسی فوج کی واپسی (1986) یا ڈاکٹر نجیب اللہ خاں کے خاتمہ(1992) کے بعد اگر ایسا ہوتا کہ افغانی لیڈر ظاہر شاہ کو روم سے واپس بلا کر انہیں دوبارہ علامتی بادشاہ کے طور پر کابل کے شاہی محل میں رکھ دیتے اور ان کے رسمی اقتدار کے تحت الیکشن کر کے حکومت بناتے تو یہ افغانستان کے حق میں بے حد مفید ہوتا۔ اس کے بعد فوراً افغانستان کو اتحاد اور سیاسی استحکام حاصل ہو جاتا اور افغانیوں کی طاقت جو برسوں سے باہمی جنگ میں برباد ہو رہی ہے، وہ محفوظ رہ کر ملک کی تعمیر و ترقی میں استعمال ہونے لگتی، جیسا کہ آج اسپین میں ہے۔

جنرل فرانکو اگرچہ ایک ڈکٹیٹر آدمی تھا۔ مگر آخر عمر میں وہ معتدل ہو گیا تھا۔ اس نے حکومت کی پوری پالیسی میں سختی کے بجائے نرمی کا انداز اختیار کیا۔ استعماری دور کی باقیات کے طور پر افریقہ کے کئی علاقے اسپین کے قبضہ میں تھے۔ اسپین کی نئی حکومتی پالیسی کے تحت ان کو آزاد کر دیا گیا۔ افریقہ کے اسپینی صحارا کو مراکو اور موریطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ مراکو کے بعض ساحلی علاقے اسپین کے قبضہ میں تھے۔ مثلاً اِفنی (Ifni) اور سبتہ (Ceuta) ۔1970میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے تحت اِفنی مُراکو کو مل گیا اور سبطہ بدستور اسپین کے پاس باقی رہا (EB. 12/444) ۔

یہاں جنرل فرانکو (1892-1975) کی پانچ تصویریں دی جا رہی ہیں۔ یہ نوجوانی کی عمر سے لے کر بڑھاپے کی عمر تک کی ہیں۔ یہ تصویریں بڑی عبرت ناک ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح آدمی طاقت سے آغاز کر کے آخر کار ضعف کی حالت میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ تصویریں گویا قرآن کی اس آیت کی زندہ تفسیر ہیں کہ—  اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ (30:54)۔ یعنی اللہ ہی ہے جس نے تم کو ناتوانی سے پیدا کیا۔ پھر ناتوانی کے بعد قوت دی۔ پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا طاری کر دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ علیم و قدیر ہے:

Generalissimo Franciso Franco in uniforms he wore as a cadet infantry school at Toledo, Spain, around 1910. as a general in 1937 during the Spanish civil war, as head of Falange Party in 1945 and in 1962 when he celebrated his 70th birthday. He died in 1975.

میڈرڈ کی کانفرس میں میری ملاقات سبتہ کے ایک مسلمان سے ہوئی۔ ان کا نام محمد علی البھلولی (41سال) تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسپین اور مراکو کے درمیان مذکورہ معاہدہ کے بعد اسپین میں مسلمانوں کے حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ اب یہاں تعصب کے بجائے رواداری آ گئی ہے۔ ممکن ہے کہ اندر اندر کچھ تعصب موجود ہو، مگر ظاہری طور پر ہم لوگوں کو مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی مشکل کا سامنا پیش نہیں آ رہا۔

گویا سبتہ پر جزئی مفاہمت کرنے کی بنا پر پورے ملک اسپین میں مسلمانوںکو کلی مواقع حاصل ہو گئے۔

محمد علی البھلولی نے 29 نومبر کی ملاقات میں بتایا کہ وہ سبتہ میں پیداہوئے۔ وہ یہاں تجارت کرتے ہیں۔ انہوں نے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 1992میں اسپین کی مسلم تنظیموں اور حکومت اسپین کے درمیان معاہدہ ہوا۔ اس کے تحت اسپینی حکومت نے دین اسلام کو ملک کاایک مذہب تسلیم کر لیا:

تم الاعتراف بالدین الاسلامی من طرف الحکومۃ الاسبانیۃ بعد توقیع اتفاقیۃ بین اللجنۃ الاسلامیۃ الاسبانیۃ والحکومۃ۔

انہوںنے بتایاکہ اس وقت اسپین میں پانچ لاکھ (500,000) مسلمان موجود ہیں۔ سبتہ میں مسلمانوں کی تعداد پچیس ہزار ہے اور ملیلہ میں 35ہزار۔ سبتہ میں سولہ مسجدیں ہیں۔ اسپینی زبان پر ابھی تک عربی کے اثرات ہیں۔ عربی کے بہت سے الفاظ اسپینی زبان میں پائے جاتے ہیں مثلاً القنطرہ (Alcantara) القلعہ (Alcala) وغیرہ ۔

سبتہ اور جبل الطارق کے درمیان صرف23کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ پرتگالیوں نے سبتہ پر1415ءمیں قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے کئی بار سبتہ کو حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ یہاں تک کہ1480ءمیں اسپین نے پرتگالیوں کو شکست دے کر سبتہ اور بعض دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت سے سبتہ اور ملیلہ اسپین کے قبضہ میں ہے۔

ایک مجلس میں ایک صاحب نے سبتہ اور ملیلہ کا ذکر کیا۔ دوسرے نے کہا کہ ہمارا ان سے کیا تعلق، وہ دونوں تو اسپین کے شہر ہیں (ماشا ننا بھما، انھما مدینتان اسبانیتان)۔پہلے نے کہاکہ یہ کیسی عجیب بے خبری ہے کہ عرب یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ دونوں مراکو کے ساحلی شہر ہیں۔ انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ صرف مراکو کی نہیں بلکہ تمام دول عربیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں واپس لے۔ مگر یہ نہایت عجیب بات ہے کہ عربوں کی تمام چوٹی کانفرنسوں نے سبتہ اور ملیلہ پر کبھی سرے سے بحث ہی نہ کی (من الغریب ان کافۃ مؤتمرات القمۃ العربیۃ لم تنحدث مطلقاعن سبتۃ و ملیلۃ

میں نے کہا کہ اگر عرب سلطنتوں نے اس مسئلہ پر کوئی اقدام نہیں کیا تو آپ نے خود ہی ان کی آزادی کے لیے اقدام کر دیا ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ ایک شخص ایک ملک سے کیوں کر لڑ سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہی سوال عرب سلطنتوں کی راہ میں بھی حائل ہے۔ کیوں کہ اگر انہوں نے اس موضوع پر کوئی اقدام کیا تو پورا یورپ اور اقوام متحدہ ان کے مقابل میں آ جائیں گے، اس معاملہ میں جو عذر آپ کے لیے ہے وہی عذر ان کے لیے بھی ہے۔

جس طرح اسپین کے مقابلہ میں مراکو کے لیے سبتہ کا مسئلہ ہے، اسی طرح خود اسپین کے لیے برطانیہ کے مقابلہ میں جبرالٹر کا مسئلہ ہے۔ جبرالٹر جغرافی طور پر اسپین کا حصہ ہے، مگر ابھی تک اس کے اوپر برطانیہ کا قبضہ ہے۔

المجلۃ(جدہ)کے شمارہ 13-19نومبر1994(10-16جمادی الآخر1415ھ) میں مراکو کے الملک الحسن الثانی کا ایک انٹرویو چھپا ہے۔ اس سلسلہ میں مجلہ کے رئیس التحریر عبدالرحمن حمد الراشد نے ان سے ملاقات کی تھی۔ شاہ حسن نے عرب لیگ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا :

کیا ہم عرب لیگ کو قبر میں د فن کر دیں اور اس کا جنازہ کس طرح نکلے گا۔ شاہ نے اپنے آپ سے سوال کیا اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم صرف میثاق کی تبدیلی پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم نئی عرب لیگ کے بارے میں سوچیں۔ کیوں ۔ اس لیے کہ عرب لیگ اب تک عرب- اسرائیل اختلاف کی بنا پر قائم تھی۔ یہی اختلاف اس کو غذا پہنچاتا تھا اوراس کو آکسیجن دیتا تھا اور جب بھی وہ کمزور ہوتا تھا تو وہ اس کو طاقت کا انجکشن دیتا تھا۔ آج یہ عرب- اسرائیلی اختلاف کمزور ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ خدا نے چاہا تو وہ ختم ہونے والا ہے۔ اب ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اس گھر سے وابستہ رہیں جس کو ہم عرب لیگ کہتے ہیں تاکہ ہماری اجتماعیت قائم ہو سکے۔ شاہ نے اختصار کے ساتھ اس کو اس طرح کہاہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم عرب لیگ کے لیے ایک نئے فکرکو ظہور میں لائیں:

ھل سنقبر الجامۃ العربیۃ و کیف ستکون جناز تھا؟ سال الملک نفسہ واجاب بنفسہ قائلاً: ’’اقول یجب ان لانکتفی بتغیير المیثاق، یجب ان نفکر فی جامعۃ عربیۃ جدیدۃ، لماذا؟ لان الجامعۃ العربیۃ  الی حد الان کانت موجودۃ بسبب الخلاف العربی ۔ الاسرائیلي، وکان ذلک الخلاف یغذیھا و یعطیھا الاوکسجین ویعطیھا حقناً کلما ضعفت ۔ الیوم ھذا اخلاف اصبح یضعف ریثما ینتھی ان شاء اللہ ... علینا اذن ان نبقی متشبثین بھذا البیت الذی نسمیہ الجامعۃ العربیۃ لیجمع شملنا‘‘ ۔ قالھا باختصار، ’’علینا ان نبلور فکرۃ جدیدۃ للجامعة‘‘

ایک صاحب سے اس کا ذکر ہوا۔ میں نے کہا کہ عرب لیگ کی حیثیت صرف ایک رسمی مجلس کی تھی، نہ کہ حقیقی معنوں میں کسی موثر اتحاد کی۔ پھر جن عرب ملکوں کا حال یہ ہو کہ عرب لیگ جیسا رسمی اتحاد قائم کرنے کے لیے بھی انہیں ایک بیرونی قومی خطرہ کی ضرورت ہو، ان سے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اسپین کے مقابلہ میں کوئی بڑا اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔

میرے کمرہ میں ایک اچھا ٹی وی سیٹ رکھا ہوا تھا۔ مگر اپنے مزاج کے مطابق، میں نے کبھی اس کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ 29نومبر کی صبح کو وقت جاننے کے لیے اس کوکھولا تو اسپینی زبان میں خبریں آ رہی تھیں۔ خبریں تو سمجھ میں نہ آئیں۔ البتہ یہ سنا کہ انائونسر بار بار ’’مسلمان‘‘ کا لفظ بول رہا ہے۔ انائونسر نے بوسنیا کے بارے میں کوئی خبر بتائی۔ اسی کے دوران اس نے غالباً بوسنیا کے کسی مسلم لیڈر کا ایک قول انگریزی میں نقل کیا۔کہنے والے نے کہا تھاکہ بوسنیا کی صورت حال کے لیے میں اقوام متحدہ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ وہ ضروری کارروائی کرنے میں ناکام رہی :

I blame the U.N. for Bosnian situation. It failed to act.

یہ یقینی طور پر نادانی کا ایک جملہ تھا۔ اقوام متحدہ نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ قومی نزاعات پر ہتھیار نہ اٹھایا جائے، بلکہ صرف پرامن دائرہ میں رہتے ہوئے اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم لیڈروں کا حال یہ ہے کہ پہلے وہ اقوام متحدہ کے اصول کی خلاف ورزی کر کے گن اٹھائیں گے اور جب اس کا الٹا انجام سامنے آئے گا تو اقوام متحدہ سے امید کریں گے کہ وہ آئے اور ان کی مرضی کے مطابق ان کے مسئلہ کو حل کر دے ۔

29نومبر کو صبح 7بجے میرے کمرہ کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھایا تو تکرار کے ساتھ یہ آواز آنے لگی کہ صباح الخیر، یہ بیدار کرنے کی کال ہے :

Good morning. This is a wake-up call.

اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے حشر کا لمحہ آ گیا ہے اور موت کی نیند سونے والی روحوں کو پکارا جا رہا ہے کہ اٹھ جائو، اب آخری فیصلہ کا وقت آ گیا۔ یہ وقت آج علامتی صورت میں آیا ہے، مگر کل وہ حقیقی صورت میں آئے گا۔ عقل مند وہ ہے جو کل ہونے والے اعلان کو آج کی آواز میں سن لے۔

کھانے کی میز پر دو مصری نوجوان آ گئے۔ ایک کا نام عبدالمقصود تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیوزبری (انگلینڈ) میں تبلیغی جماعت کا اجتماع تھا۔ اس میں وہ بھی جزوی طور پر شریک ہوئے۔ اس اجتماع میں ہر ملک کے مسلمان آئے ہوئے تھے۔ ہر طرف السلام علیکم، السلام علیکم کی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہی منظر تھا جس کو قرآن میں  إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا(56:26) کہا گیا ہے۔ یعنی، صرف سلام سلام کا بول ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے آخری تقریر سنی، بہترین تقریر تھی۔ ایسی تقریر میں نے مصر میں کبھی نہیں سنی (کلام جمیل، لم اسمع مثلہ فی مصر

کھانے کی میز پر قاہرہ کے دکتور جمعہ بھی موجود تھے۔ وہ فقہ کے استاد ہیں۔ ایک مقامی مسلمان نے ان سے سوال کیا کہ اس ملک میں حلال گوشت کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پھر ہم لوگ کیا کریں۔ دکتور جمعہ نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کو دیکھو۔ یہ گوشت نہیں کھاتے۔ وہ غیر لحمی غذا پر گزارہ کرتے ہیں۔ لیکن ان کی صحت بہترین ہے۔ گوشت کے بغیر آدمی مر نہیں جاتا۔

گوشت کے بارے میں میرا یہ ذوق اختیاری نہیں ہے۔ میری والدہ کہتی تھیں کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا اس وقت بھی میرا یہ حال تھا کہ اگر وہ انڈا، مچھلی یا گوشت میرے منہ میں ڈالتی تھیں تو میں نکال دیتا تھا اور اس کو کھاتا نہیں تھا۔ گویا میں پیدائشی طور پر ’’سبزی خور‘‘ ہوں۔ میں نے دکتور جمعہ کی بات کی تکمیل کرتے ہوئے کہامیں بائی برتھ ویجیٹیرین ہوں، آپ حالات کے تقاضے کے تحت بائی چوائس ویجی ٹیرین بن جائیے۔

ایک تعلیم یافتہ عرب سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ جو عرب خود اپنے وطن میں کوئی بڑا علمی کارنامہ نہیں کرسکے تھے،انہوں نے اسپین میں کیسے اتنا بڑا علمی کارنامہ انجام دیا کہ وہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا جواب ایک مستشرق نے یہ دیا ہے کہ عرب ایک ایسے ملک میں تھے جہاں دریائوں کی روانی نہ تھی۔ وہاں سرسبز مناظر موجود نہ تھے۔ اس کے بجائے وہاں خشک پہاڑ اور تپتے ہوئے ریگستانوں کا ماحول تھا۔ اس کے بعد یہ عرب اپنے وطن سے نکل کر جب اسپین میں پہنچے تو یہاں قدرتی مناظر تھے۔ فطرت کا حسن تھا، نشاط انگیز آب و ہوا تھی۔ اس نے عربوں کے اندر ولولۂ کار اور جوش عمل ابھار دیا۔ ماحول کے اثر سے ان کی فطری صلاحیتیں جاگ اٹھیں۔

میں نے کہا کہ یہاں دوبارہ یہ سوال پپدا ہوتا ہے کہ ان نشاط انگیز مناظر نے خود اسپینیوں کے اندر یہی ولولہ کیوں نہیں ابھارا۔ اس فرق پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ولولۂ کار کو ابھارنے والی اصل چیز تبدیلی (change) ہے۔ عربوں کے لیے صحرا سے نکل کر چمنستان میں جانا تبدیلی کاایک ہیجان خیز معاملہ تھا۔ اس تجربہ نے ان کی شخصیت کو جگا دیا۔ مگر یہی عرب جب اسپین کے محل اور باغات کے عادی ہو گئے تو دوبارہ ان کی صلاحیتیں سو گئیں۔ علم کے قافلہ کو مزید آگے لے جانے کا کام مغربی یورپ نے کیا جس کو دو سو سالہ کروسیڈ کی ہارنے تبدیلی کے زلزلہ خیز تجربہ سے دوچار کر دیا تھا۔

ایک اسپینی اسکالر نے کہا کہ مسلمانوں نے جب ہمارے ملک پر حملہ کیا تو انہوں نے ہماری دولت کو لوٹا، یہاں کے باشندوں کو لونڈی اور غلام بنایا ۔ کیا آپ کا اسلام اسی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسپین میں تعلیم یافتہ لوگوں کا ایک طبقہ اسی انداز میں سوچتا ہے۔

جہاں تک اسپین میں مسلمانوں کی فوجی کارروائی کا تعلق ہے، اس کا معقول جواز موجود ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانہ میں وِسی گوتھ کا آخری بادشاہ وٹیزا (Witiza) اسپین کا حکمراں تھا۔ اس کا زمانۂ حکومت 700ء سے 710ء تک ہے۔ پادریوں نے وٹیزا کے خلاف سازش کر کے اس کو تخت سے ہٹا دیا اور اس کی جگہ ایک فوجی سردار لذریق (Roderick) کو اسپین کے تخت پر بٹھا دیا۔ وٹیزا چونکہ لذریق کو غاصب سمجھتا تھا۔ اس نے اس سے انتقام لینے کے لیے مسلمانوں کو اسپین پر حملہ کی دعوت دی۔ اس حملہ میں سبتہ (Ceuta) کے ناراض اسپینی حاکم (Count of Ceuta) نے بھی مدد کی جس کانام جولین (Julian) تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی جولین نے طارق کو چار بڑی کشتیاں دی تھیں جن کے ذریعہ طارق نے اپنے لشکر کو اسپین کے ساحل پر اتارا تھا۔

مورخین نے اعتراف کیا ہے کہ اسپین پر مسلمانوں کا حملہ اپنی طرف سے شروع نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ وہ خود اسپین کے وِسی گوتھ کی دعوت پر تھا :

The Muslim invasion of Spain was the result of Visigoth invitation rather than Muslim initiative. (17/414)

مگر اسی کے ساتھ خود مسلم مؤرخین یہ بتاتے ہیں کہ طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر نے جب اسپین میں فتوحات کیں تو وہاں انہوں نے بے شمار مقدار میں سونا اور چاندی اور ہیرے اور جواہر اور دوسرے اموال کو لوٹا اور کثیر تعداد میں عورتوں اور لڑکوں کو لونڈی اور غلام بنایا (83)۔ وہ ایک ایک شہر کو فتح کرتے رہے اور لونڈی اور غلام اور مال غنیمت اتنی زیادہ مقدار میں لے کر لوٹے جس کا شمار نہیں کیا جا سکتا (لا تحصى ولا تعد كثرة) البدایہ و النہایہ لابن کثیر، جلد 9، صفحہ 103۔

میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے اس طرح اسپین میں مال غنیمت لوٹنا اور لونڈی اورغلام بنانا صحیح نہ تھا۔ کیوں کہ مال غنیمت کا اسلامی قانون اس جنگ کے لیے ہے جو کسی قوم نے ایک طرفہ جارحیت کر کے مسلمانوں کے خلاف چھیڑی ہو۔ مگر اسپین کے لوگ اس معنی میں جارح نہ تھے۔ اس لیے فتح کے بعد ان کے اموال کو لوٹنا اور ان کو لونڈی اور غلام بنانا صحیح نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ مال غنیمت کا قانون بھی صرف میدان جنگ کے لیے ہے نہ کہ عام آبادی کے لیے۔

ایک اور صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ طارق بن زیاد یا بابر کے معاملہ کو عام طور پر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ’’طارق کا حملہ اسپین پر‘‘ یا ’’بابر کا حملہ ہندوستان پر‘‘۔ مگر یہ درست نہیں۔ یہ شاہی دور کے واقعہ کو جمہوری دور کی اصطلاح میں بیان کرنا ہے۔ آج قومی جمہوریت کا زمانہ ہے۔ آج ایک قوم یا ملک کا حملہ دوسری قوم یا ملک پر ہوتا ہے۔ مگر شاہی دور میں ایسا نہ تھا۔ اس زمانہ میں جو سیاسی ٹکرائو پیش آتا تھا وہ ایک بادشاہ سے ہوتا تھا نہ کہ ایک قوم کا دوسری قوم سے۔

اسپین میں طارق بن زیاد کے داخلہ کو اسی زمانی پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ معروف معنوں میں کوئی جارحانہ داخلہ نہ تھا بلکہ اس کی نوعیت یہ تھی کہ سابق حکمراں کے ظلم سے لوگ تنگ آ گئے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے سابق حکمراں کے خلاف نئے حکمراں کو دعوت دی اور اس کا استقبال کیا۔

29نومبر کو میڈرڈ کے اخبار (Puerta de Madrid) کی خاتون نمائندہ لوئیلا (Leoilla) نے انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں، میں نے کہا کہ اسلام کی تعلیمات فطرت پر مبنی ہیں اور فطرت ہمیشہ امن کو پسند کرتی ہے۔ اس لیے اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے، اسلام میں جارحانہ جنگ نہیں۔

اسی طرح ایک اور اسپینی اخبار (La Libre Belgique) کی خاتون نمائندہ پاسکل بورگا (Pascale Bourgaux) نے اپنے اخبار کے لیے انٹرویو لیا۔ ان کو میں نے اپنے پیپر ’’پیس ان اسلام‘‘ کی ایک کاپی دی۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں، میں نے کہا کہ موجودہ قسم کی کانفرنس کو صرف اس کے تین روزہ اجلاس کی روشنی میں نہیں جانچنا چاہیے بلکہ اس کو ایک عمل (process) کے روپ میں دیکھنا چاہیے۔ اسی وقت اس کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان سے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری آئے تھے۔ وہ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اسلام آباد) کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ پاکستان میں ایک بڑی تباہ کن سیاسی روایت جاری ہو گئی ہے، اور وہ یہ کہ جو پارٹی الیکشن میں ہارتی ہے وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتی۔ پولنگ بوتھ پر ناکامی کے بعد وہ دوبارہ سڑک کی سیاست پر آ جاتی ہے۔ وہ جلسہ جلوس، حتیٰ کہ توڑ پھوڑ کے ہنگامے جاری کر کے چاہتی ہے کہ جیتی ہوئی پارٹی کو میعاد سے پہلے اقتدار سے بے دخل کر دے۔ یہ سیاست نہیں ہے بلکہ سیاست کے نام پر داداگیری ہے۔

میں نے کہا کہ میرے مطالعہ کے مطابق، اس غلط سیاسی روایت کو پاکستان میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے شروع کیا۔ ان کو محمد ایوب خاں کے مقابلہ میں واضح انتخابی شکست ہوئی۔ مگر انہوں نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ایوب خاں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے دوبارہ نئے عنوان سے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی مہم شروع کر دی۔ اس کے بعد پاکستان میں یہی سیاسی روایت عام طور پر چل پڑی۔

ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے بطور واقعہ اس کو مانتے ہوئے کہا کہ اس کی جڑ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں سیاست ہی سب کچھ بن گئی ہے۔ سیاست کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے موجودہ زمانہ میں ہر جگہ اس قسم کی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری الہ آباد میں1932میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔ پھر باہر جا کر انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان سے میں نے پوچھاکہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک جملہ میں آپ کا مشورہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک لمحہ سوچااور پھر جواب دیاانہیں چاہیے کہ عقل سے کام لیں۔

پاکستان کے جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے نومبر 1989میں اسپین کا سفر کیا تھا۔ ان کے ساتھ ایک اور پاکستانی مسلمان جناب سعید احمد صاحب بھی تھے۔ انہوں نے اپنا سفرنامہ ’’اندلس میں چند روز‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ سفر کے آخری مرحلہ کا ایک واقعہ وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’میرے دوست اور رفیق سفر سعید صاحب اندلس کے ماضی و حال کے تصورات سے اس درجہ متاثر تھے کہ ایک مرحلہ پر بے ساختہ ان کے منہ سے نکلاکیا کبھی مسلمان اس خطہ کو دوبارہ ایمان سے منور کر سکیں گے۔ میں نے عرض کیااِس وقت تو مسلمان اپنے موجودہ خطوں کو ٹھیک سے سنبھال لیں اور اس بات کا انتظام کر لیں تو بہت ہے کہ وہاں اندلس کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔‘‘

میں نے اس کو پڑھا تو میں نے سوچا کہ ہندوستان میں کچھ مسلم رہنما یہ انکشاف کر رہے ہیں کہ یہاں اندلس کی تاریخ کو دہرانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ مگر عین اس وقت پاکستان کے رہنما بھی یہی اندیشہ محسوس کررہے ہیں کہ پاکستان کہیں دوسرا اندلس نہ بن جائے۔ کیسا عجیب ہے یہ انجام جو سو سال سے بھی زیادہ لمبی مدت کی ہنگامہ خیز سیاست کے بعد برصغیر ہند کے مسلمانوں کے حصہ میں آیا ہے۔

مسلم اسپین کے اثرات مختلف اعتبار سے ہندستان تک بھی پہنچے تھے۔ کینن ای سیل (Canon E. Sell) نے اپنی کتاب اسلام کے مذہبی سلسلے (The Religious Orders of Islam) میں لکھا ہے کہ قلندریہ سلسلہ کے بو علی قلندر (علی ابو یوسف قلندر) اسپین سے ہندوستان آئے تھے۔ وہ مسلم اسپین میں پیدا ہوئے۔ وہاں سے وہ دمشق گئے۔ پھر وہ ایران پہنچے۔ آخر میں وہ ہندوستان آئے اور آخری عمر تک یہیں رہے۔ 1323ءمیں پانی پت میں ان کا انتقال ہوا۔

یہ ایک خانہ بدوش صوفی سلسلہ تھا۔ وہ کماتے نہیں تھے بلکہ لوگوں کے عطیات پر زندگی گزارتے تھے۔ ان کی زندگی انتہائی حد تک سادہ ہوتی تھی۔ اقبال (وفات 1938)نے اس شعر میں غالباً انہیں کی طرف اشارہ ہے :

قلندر جز دو حرفِ لا الہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا                فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

میں 27نومبر1994کو اسپین پہنچا تھا۔ 28-29نومبر کو وہاں تین مذاہب کی انٹرنیشنل کانفرنس تھی۔ اس کے بعد 30نومبر کا دن خالی تھا۔ یہ دن صرف ملاقاتوں، معلومات اورمشاہدات کے لیے مخصوص تھا۔ میں نے اس موقع کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا۔ اس طرح جو باتیں دیکھیں یا جانیں ان کامختصر تذکرہ اگلے صفحات میں کیا جاتا ہے۔

1940کے لگ بھگ زمانہ میں، میں نے الطاف حسین حالی کی منظوم کتاب مسدّس پڑھی تھی جو مسدّس حالی کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں حالی نے اسپین کی عظمت رفتہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان کے یہ اشعار سادگی بیان اور تاثیرکی عجیب مثال ہیں۔ اس کا ایک شعر یہ ہے:

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے                   مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے

مجھے یقین نہیں تھاکہ اس کے 55 سال بعد مجھے اسپین جانے کا موقع ملے گا اور وہاں میں براہِ راست طور پر قرطبہ کی سرزمین کو دیکھوں گا۔

قرطبہ (Cordoba) اسپین کا ایک قدیم شہر ہے۔ مسلمانوں نے 711ءمیں اس کو فتح کیا اور 756ء میں اس کو اپنی راجدھانی بنایا۔ اس کے بعد سے گیارہویں صدی عیسوی تک وہ مسلم اسپین کی راجدھانی بنا رہا۔ دسویں صدی میں وہ یورپ کا سب سے بڑا شہر تھا اور اس کی حیثیت عالمی کلچرل سینٹر کی ہو گئی۔1236ء میں وہ مسیحی اسپین کا حصہ بن گیا۔

قرطبہ میں بہت سی مسلم یادگاریں ہیں۔ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کو اس کی پُر عظمت تعمیر کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ابتدا میں اس کو خلیفہ عبدالرحمٰن نے بنوایا۔ بعد کے سلاطین مزید اس کی تکمیل کرتے رہے۔ یہ مسجد بارہ ہزار مربع میٹر کے رقبہ میں ہے۔ یعنی اس کی لمبائی 740قدم ہے اور اس کی چوڑائی 440قدم۔ اس میں800ستون ہیں۔ اس کا ایک حصہ چرچ بنا دیا گیا ہے جس کو ملا کر بارہ سو ستون ہو جاتے ہیں۔ ستونوں کی کثرت کی بنا پر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بے شمار کھجوروں کے درخت کے اوپر ایک وسیع اور منقش چھت کھڑی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد قرطبہ کو دیکھ کر اقبال کی زبان پر یہ شعر آ گیا تھا :

تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار              شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل

مسجد قرطبہ پر اقبال کی نظم صاحب ’’نقوش اقبال‘‘ کے الفاظ میں ’’ان کے واحد شاہکار کا حکم رکھتی ہے (181) اقبال نے اس تاریخی اور تاریخ ساز مسجد کی ساخت میں بیکراں جذبات اور حسن کی یکتائی کا معائنہ کیا۔ اس منظر نے مومن شاعر کے نازک جذبات کے تار چھیڑ دیے جس کے نتیجہ میں وہ لافانی نغمہ دنیا نے سُنا جسے ہم مسجد قرطبہ والی نظم میں گونجتا ہوا پاتے ہیں‘‘ (168)

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کی عظیم تر نشانیاں جن کو قرآن میں ’’آلاء اللہ‘‘ (7:74)کہا گیا ہے۔ وہ اقبال کے نازک جذبات کے تار کو چھیڑنے میں ناکام رہیں۔ البتہ مسجد قرطبہ کے در و دیوار کو دیکھنا ان کے جذبات کے تاروں کو چھیڑنے کا سبب بن گیا۔ حالاں کہ حدیث میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ (مجھ کو بلند و بالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیا) اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد عبداللہ بن عباس نے کہا:لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى (تم بھی مسجدوں کو اسی طرح مزین کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے مزین کیا) سنن ابو داؤد، حدیث نمبر  448۔

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ لوگ (مسجدوں کی تعمیر پر) ایک دوسرے سے فخر کریں (لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ) سنن ابی دائود،حدیث نمبر 449۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر آدمی کے اندر بصیرت و معرفت موجود ہو تو زمین پر کھڑا ہوا ایک خدائی درخت اس سے زیادہ وجد کی کیفیت پیدا کردینے والا ہے جتنا کہ کوئی انسانی عمارت۔

آبنائے جبرالٹر شرق اور غرب کا سب سے قریبی نقطۂ اتصال ہے۔ چنانچہ اسلام اولاً یہیں سے مغربی دنیا میں داخل ہوا۔ اس راستہ سے مسلمانوں کا پہلا قافلہ 27ھ میں اندلس (اسپین) پہنچا۔ یہ حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ تھا۔ اس سےپہلے مسلم دستہ کے سربراہ عبداللہ بن نافع الفہری تھے۔

اس کے بعد دوسرا قابل ذکر مسلم دستہ 91ھ میں اسپین میں داخل ہوا۔ یہ موسیٰ بن نصیر کے ماتحت سردار طریف تھے جو پانچ سو آدمیوں کے ساتھ اسپین کے ساحل پر اترے۔ یہ کوئی فوجی مہم نہیں تھی بلکہ وہ صرف دریافت حال کے لیے اسپین کے علاقہ میں بھیجی گئی تھی۔

اس کے اگلے سال 92ھ میں طارق بن زیاد کی مہم روانہ ہوئی۔ ابتداءً اس کے ساتھ سات ہزار آدمیوں کا لشکر تھا۔ انہوں نے اس وقت کے اسپینی حکمراں لذریق (Roderick) کی فوجوں کو19جولائی 711ء کو شکست دے کر اسپین میں پہلی مسلم سلطنت قائم کی۔ یہ اسپین کی مسلم سلطنت کا ابتدائی دور تھا جس کو عرب امراء کا عہد (711-756 ء) کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد عباسیوں کی دار و گیر سے بھاگ کر ایک اموی شہزادہ عبدالرحمٰن الداخل اسپین پہنچا۔ اس نے مقامی امراء کو شکست دے کر756ءمیں امیر اندلس ہونے کااعلان کیا اور اسپین (اندلس) میں باقاعدہ اموی خلافت قائم کی۔

مسلسل باہمی اختلاف اور ٹکرائو کے باوجود اس زمانہ میں مسلمانوں نے اسپین کو بہت ترقی دی۔ یہاں تک کہ ترقیاتی قوتوں پر اختلافی قوتیں غالب آ گئیں۔ 1023ءکے بعد وہ دور شروع ہوا جس کو ملوک الطوائف کا دور کہا جاتا ہے۔ اب ہر علاقہ کے سرداروں نے خود مختاری کا اعلان کر کے اندلس میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کر لیں۔ یہاں تک کہ ان کی 20مختلف حکومتیں قائم ہو گئیں۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے باہمی اختلاف سے عیسائیوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔

طارق بن زیاد کے اسپین میں داخلہ کے بعد مسیحی فوج سے اس کا فیصلہ کن مقابلہ وادی لکّہ میں ہوا تھا۔ اس وقت طارق کے ساتھ (مزید کمک کو شامل کرتے ہوئے) بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر تھا اور مسیحی فوج کی تعداد ستّر ہزار سے زیادہ تھی۔ اس موقع پر طارق نے پُرجوش تقریر کی جو تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ اس کی تقریر کا ایک جملہ یہ تھا کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھانا تمہارے لیے ممکن ہے اگر تم اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دو ( وإن انتهاز الفرصة فيه لممكن لكم إن سمحتم بأنفسكم للموت)وفيات الأعيان لابن خلكان، جلد5، صفحہ321۔

ایک عرب اسکالر نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج مسلمانوں میں یہ اسپرٹ موجود نہیں، اسی لیے وہ ہر جگہ ذلیل ہو رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ موت کے منہ میں کود پڑیں تو آپ غالب آ جائیں گے۔ موجودہ زمانہ میں بار بار مسلمان موت کے منہ میں کودے ہیں۔

1857ء میں ہندوستانی علماء شاملی کے میدان میں موت کے منہ میں کود پڑے۔ سید احمد شہید بریلوی کا قافلہ بالا کوٹ میں موت کے منہ میں کود پڑا۔ اسی طرح فلسطین، کشمیر، چیچنیا، بوسنیا وغیرہ میں مسلمان موت کے منہ میں کودے ہوئے ہیں۔ مگر ان تمام اقدامات میں تباہی کے سوا کچھ اور مسلمانوں کے حصہ میں نہیں آیا۔ اس طرح کے مقابلوں میں کامیابی کے لیے موت کے منہ میں کودنا صرف ایک جزئی عامل (factor)ہوتا ہے، نہ کہ کلی عامل۔

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے پورے ملک اسپین پر اپنی حکومت قائم کر لی تھی۔ مثلاً ریاض کے مجلہ الفیصل شعبان 1415(جنوری1995ء) میں شائع شدہ ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں طارق بن زیاد المغرب کے راستہ سے اسپین میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ عربوں اور بربروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی فوج تھی۔ چار سال کی جنگی سرگرمیوں کے بعد اسلامی لشکر نے پورے اسپین پر غلبہ حاصل کر لیا(…الی اَن سیطرت الجیوش الا سلامیۃ علی کل اسبانیا) صفحہ 75۔

مگر یہ بات صحیح نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اسپین کے بڑے حصہ پر مسلمان غالب آ گئے تھے۔ تاہم ملک کا ایک حصہ پھر بھی عیسائیوں کے قبضہ میں رہا۔ 910ء میں مسلمان اپنی آخری حد پر پہنچ چکے تھے۔ مگر اس وقت بھی اسپین کے مغربی حصہ میں مسیحی ریاستیں قائم تھیں۔ مسیحیوں کا زیر قبضہ علاقہ پورے ملک کے رقبہ کا تقریباً چوتھائی حصہ تھا۔ مسلمانوں کے زیر قبضہ علاقہ کو اندلس کہا جاتا ہے (EB. 17/415) ۔

اسپین (اندلس) کے مسلم عہد کی آبادی کے بارے میں حتمی اعداد و شمار حاصل نہیں ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے داخلہ کے وقت اسپین کے باشندوں کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ (4,000,000 ) تھی۔ اس کے بعد جو عرب ہجرت کرکے وہاں گئے ان کی مجموعی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔

 بارسلونہ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر جان جینز (Juan Vernet Gines) نے لکھا ہے کہ قبضہ کی ابتدائی صدیوں میں قبول اسلام کی لہر کی وجہ سے مسلم آبادی برابر بڑھتی رہی۔ اس نے اسپین کے عیسائیوں کی تعدادمیں نمایاں کمی کر دی :

The Muslim masses continued to increase during the early centuries of the occupation, because of the wave of conversion that markedly reduced the number of Christians. (EB. 17/419)

توالد و تناسل یا قبول اسلام کے ذریعہ اسپین کی آبادی میں جو اضافہ ہوا، اس کی مجموعی تعداد قطعی طور پر معلوم نہیں۔ تاہم دسویں صدی کے آخر میں مسلم اسپین کے سات بڑے شہروں (قرطبہ، طلیطلہ، المیریا، غرناطہ، سرقسطہ، بلنسیہ، مالقہ) میں آبادی کا جو اندازہ کیا گیا ہے، وہ مجموعی طور پر تین لاکھ ستاسی ہزار (387,000) ہوتاہے۔

مسلم اسپین سیاسی اعتبار سے کسی ایک وحدت کا نام نہیں تھا۔ اس کے تین بڑے دور ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، طارق بن زیادہ نے 711ء میں جبرالٹر کے راستہ سے داخل ہوکر اسپین (اندلس) میں مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ پہلی اسپینی حکومت بغداد کی خلافت عباسی کے تحت تھی۔ اس حکومت کا پہلا امیر عبدالعزیز بن موسیٰ تھا۔ اس نے اشبیلیہ کو اپنی راجدھانی بنایا تھا۔ دوسرے امیر ایوب بن حبیب نے قرطبہ کو راجدھانی بنایا۔ اس کے بعد اموی شہزادہ عبدالرحمن الداخل عباسیوں کی گرفت سے بھاگ کر اسپین پہنچا۔ اس نے یہاں اپنی ایک فوج بنائی۔ اس نے عباسیوں کی ماتحت حکومت کو ختم کرکے باقاعدہ طور پر آزاد اموی حکومت قائم کی جس کی راجدھانی قرطبہ تھی۔ یہ حکومت 756ء سے لے کر1031ء تک باقی رہی۔

اس کے بعد تیسرا دور آیا جب کہ اندلس میں طوائف الملوکی آ گئی۔ ہر علاقہ کے امیر نے مرکزسے بغاوت کرکے اپنی خودمختار حکومت قائم کر لی۔ اس طرح اندلس میں تقریباً بیس حکومتیں بن گئیں۔ ان چھوٹی چھوٹی حکومتوں کو عیسائی ایک ایک کرکے ختم کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آخر میں غرناطہ کی محدود حکومت اسی طرح باقی رہ گئی جس طرح انیسویں صدی کے وسط میں دہلی میں مغل بادشاہ کی حکومت باقی رہی تھی۔ یہ آخری حکومت بھی1492ء میں عیسائیوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔

مسلم اسپین میں جب سیاسی انتشار کی حالت پیدا ہوئی تو اس کو وقتی طور پر افریقہ کے حکمراں یوسف بن تاشفین نے ختم کیا تھا۔ وہ 1086ء میں اسپین میں داخل ہوا۔ اس نے عیسائی حکمراں الفانسو ششم (Alfanso VI) کو شکست دی۔ باغی مسلم امراء کو زیر کیا۔ اس طرح اسپین میں ایک نیا مسلم دور شروع ہوا جو1269ء تک چلا۔

تاہم یہاں کے مسلمان باہمی اختلافات کے نتیجہ میں مسلسل اندرونی اور بیرونی زیادتیوں کا شکار رہے۔ آخری دورمیں مسلم اسپین کی علامت سلطنت غرناطہ(1492-1232)تھی۔ اس کے حکمرانوں نے وَلا غالبَ اِلاّ اللہ کو اپنا شعار بنایا۔ وہ اپنی عمارتوں وغیرہ پر کثرت سے اس لفظ کو تحریر کرتے تھے۔ یہ گویا اسلامی مزاج کا ایک اظہار ہے۔ مسلمان خواہ کسی بھی حالت میں ہوں، وہ ہمیشہ خدا ہی کو اپنا بڑا بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف غیر حاکمانہ حیثیت میں بلکہ حاکمانہ حیثیت میں بھی خدا ہی کو غالب و قاہر سمجھتے ہیں۔ کبھی اور کسی حال میں یہ حقیقت ان کے ذہن سے محو نہیں ہوتی۔

میڈرڈ میں ایک عرب مسلمان سے اس موضوع پرگفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ لوگوں نے اسپین سے مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کے خاتمہ کو اسپین سے اسلام کے خاتمہ کے ہم معنی سمجھ لیا۔ حالاں کہ بطور واقعہ یہ درست نہ تھا۔ اگر لوگ قرآن (3:140)میں بیان کردہ اللہ کی سنت تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں) کے ذہن سے سوچتے تو وہ اسپین میں سیاسی اقتدار کے خاتمہ کے باوجود اسلام کے دینی وجود کو زندہ رکھ سکتے تھے۔ مگر کئی صدیاں صرف فریاد و ماتم میں گزر گئیں۔ یہاں تک کہ خود تاریخ کی طاقتوں نے ظاہر ہو کراسپین میں اسلام کے احیاء نو کا کام شروع کر دیا۔

نئے تقاضوں کے تحت اسپین میں مستقل طور پر ایک عمل جاری ہو گیا ہے جس کو عرب دانشور اَسبنۃ التاریخ الاسلامی فی الاندلس کہتے ہیں۔ یعنی اندلس کی اسلامی تاریخ کو اسپینی بنانا۔

اس نئے رحجان کے تحت اسپین میں بہت سے کام کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً قرطبہ میں آپ دیکھیں گے کہ وہاں کئی سڑکوں پر مسلم شخصیتوں کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً شارع ابن رشد، شارع ابن الولید، شارع المنصور، شارع الزھراوی وغیرہ۔ اسی طرح آپ قرطبہ جائیں تو وہاں کی سڑکوں کے کنارے آپ دیکھیں گے کہ عرب دور کے اہل علم کے مجسمے جگہ جگہ نصب کیے گئے ہیں۔ مثلاً ابن رشد جس کا مجسمہ 1967ء میں لگایا گیا۔ علی بن حزم کا مجسمہ 1963ءمیں، حکیم العیون محمد بن قسوم کا مجسمہ 1965ء میں اور اسی طرح دوسرے بہت سے مجسمے۔ حتیٰ کہ غرناطہ کے قریب ایک ساحلی مقام المونیکر (Almunecar) پر عبدالرحمٰن الداخل کا بہت بڑا مجسمہ لگایا گیا ہے۔

 یہ وہ مقام ہے جہاں سمندری سفر طے کر کے اموی شہزادہ عبدالرحمٰن اسپین کی سرزمین پر اترا تھا۔ یہ مجسمہ پانچ میٹر بلند ایک چوٹی کے اوپر ہے۔ وہ اپنی تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے فاتحانہ انداز میں کھڑا ہوا ہے۔

اس طرح کے بہت سے واقعات جدید اسپین میں ہو رہے ہیں جس کا ذکر اس مختصر سفرنامہ میں ممکن نہیں۔1986ءمیں قرطبہ میں ایک بہت بڑی کانفرنس ہوئی۔ اس میں اسپین کے علاوہ بیرونی ملکوں کے 150علماء شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا موضوع ’’اندلس میں اسلام‘‘ تھا۔ اس میں نہایت کھل کر اس موضوع پر تقریریں اور مباحثے ہوئے۔ عام طور پر اسپینی پریس نے اس کا خیرمقدم کیا تھا۔ ایک انتہا پسند اسپینی مجلہ کامبیو نے اپنے شمارہ9فروری1987میں ایک رپورٹ شائع کی۔ اس کا عنوان تھااسلام ہمارے ملک میں داخل ہوتا ہے:

El Islam Nis Penetra (Cambio)

ایک عرب عالم نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسیحیوں کی دشمنی اور ظلم و زیادتی کے باوجود خدا کے فضل سے اسلام سرزمین اسپین میں بخیرو عافیت موجود ہے (رغم کل ھذا الحقد الصلیبی و رغم التنکیل فلا یزال الاسلام بخیر فی ارض الاندلس)۔

ایک اسپینی مسلمان سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہاکہ تاریخ کے بارے میں کسی ایک کتاب کو پڑھ کر رائے قائم کرنا صحیح نہیں۔ تاریخ بظاہر واقعات کا ریکارڈ ہے۔ مگر تقریباً تمام تاریخی کتابیں اپنے اپنے ذوق کے مطابق منتخب واقعات کاریکارڈ کرتی ہیں۔

مثلاً اسپین کے بارے میں مسلمانوں نے جو تاریخیں لکھی ہیں، ان کا انداز یہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کی صرف اچھی باتوں کو لیا گیا ہے اور مسیحیوں کی زیادہ تر بری باتوں کو۔اسی طرح مسیحی حضرات نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں مسیحیوں کی اچھی باتوں کو نمایاں کیا گیا ہے اور مسلمانوں کی صرف بری باتوں کو۔ یہی وجہ ہے کہ اسپین کی قدیم تاریخ کے بارے میں مروّجہ واقعہ پڑھ کر صحیح ذہن نہیں بنتا۔ مسلمان اور مسیحی دونوں زیادہ تر اپنے اپنے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں۔ اس لیے قدیم اسپینی تاریخ کی صحیح تصویر نہ مسلمانوں کے ذہن میں ہے اور نہ مسیحیوں کے ذہن میں۔ اِلا ما شاء اللہ

عرب جنرل طارق بن زیاد سات ہزار کی فوج کے ساتھ 711ء میں اسپین میں داخل ہوا تھا۔ وہ خشکی کے راستہ سے مراکو کے ساحل پر پہنچا۔ پھر سمندری پٹی کو پار کر کے اس مقام پر اُترا جس کو جبرالٹر کہا جاتا ہے۔ اس نے شاہ لذریق (شاہ اسپین) کو شکست دے کر قرطبہ اور دوسرے شہروں کو فتح کیا۔

طارق نے اپنا یہ سفر گھوڑوں اور کشتیوں کے ذریعے طے کیا تھا اور اس کو اس سفر میں مہینوں لگ گئے۔ میں 27نومبر کی صبح کو دہلی سے روانہ ہوا اور اسی دن اسپین کی سرزمین پر پہنچ گیا۔ یہ فرق ٹیکنیکل ترقی کا کرشمہ ہے۔ قدیم زمانہ کا انسان حیوانی حرکت کی رفتار سے سفر کرتا تھا۔ آج کا سفر اس رفتار کے ذریعہ طے ہوتا ہے جس کو مشینی حرکت (Powered motion) کہا جاتا ہے۔

مشینی حرکت پہلے دخانی انجن کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ پھر پٹرول سے چلنے والی کاریں بنائی گئیں۔ اب انسان ہوائی جہاز کی تیز رفتاری کے ساتھ اپنا سفر طے کرتا ہے۔ ہوائی جہاز بھی اچانک نہیں بن گیا۔ بہت سی منزلیں طے کرنے کے بعد وہ موجودہ ترقی یافتہ صورت تک پہنچا ہے۔

اسپین میں مسلمان صرف سیاسی فاتح کی حیثیت سے نہیں آئے بلکہ وہاں وہ تعمیر نو کے نقیب بن کر داخل ہوئے۔ اسپین کے شہروں (بلنسیہ، قرطبہ، طلیطلہ، غرناطہ) میں انہوں نے بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کئے جہاںاسپین کے علاوہ دوسرے یورپی ملکوں کے طلبہ آ کر علم حاصل کرتے تھے۔ انہوں نے اسپین کی زرخیز زمین میں ہر قسم کی زراعت اور صنعت قائم کر کے اس کو قابل استعمال بنایا۔ انہوں نے اسپین کی آبادیوں کو زیادہ بہتر شہری انتظام دیا۔

مسلمانوں نے اپنے دور حکومت (711ء تا1492ء) میں یہاں کی زندگی پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ آج تک اس کے اثرات ختم نہ ہو سکے۔ مثلاً اسپینی اور پرتگالی زبان میں چار ہزار ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن کی اصل عربی ہے۔ اسپینی ڈکشنری اور پرتگالی ڈکشنری میں یہ الفاظ باقاعدہ طور پر داخل کر لیے گئے ہیں۔ یہاں کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی جدید کاروں کے پیچھے جگہ جگہ مسلم طرز تعمیر کے نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ وغیرہ

طارق بن زیاد (فاتح اسپین) موسیٰ بن نصیر کا ماتحت اور ان کا آزاد کردہ غلام تھا۔ ابن کثیر نے الذہبی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ طارق بن زیاد طنجہ (افریقہ) کا امیر تھا۔ وہ وہاں موسیٰ بن نصیر کے نائب کے طور پر تھا پھر جزیرۂ خضراء کے مسیحی حاکم نے اس سے اپنے دشمن کے خلاف مدد مانگی۔ اس کے بعد طارق سبتہ کے راستہ سے اندلس میں داخل ہوا۔ اس نے فرنگیوں کی باہمی لڑائی سے فائدہ اٹھایا اور اندلس میں داخل ہو کر قرطبہ کو فتح کیا اور اس کے بادشاہ کو قتل کردیا۔ پھر اس نے موسیٰ بن نصیر کو فتح کی خبر بھیجی :

فَحَسَدَهُ مُوسَى عَلَى الانْفِرَادِ بِهَذَا الْفَتْحِ الْعَظِيمِ، وَكَتَبَ إِلَى الْوَلِيدِ يُبَشِّرُهُ بِالْفَتْحِ وَيَنْسِبُهُ إِلَى نَفْسِهِ(البدایہ والنھایہ، جلد، 9، صفحہ 99)۔ یعنی، طارق بن زیاد کے تنہا فاتح بننے پر موسی بن نصیر نے اس سے حسد کیا اور خلیفہ ولید کو فتح کی خوشخبری بھیجتے ہوئے اس فتح کو اپنی طرف منسوب کیا۔

مگر اس طرح کے فیصلے تاریخ کرتی ہے نہ کہ کسی کے لکھے ہوئے یا بولے ہوئے الفاظ۔ چنانچہ موسی بن نصیر کی اس تحریر کے باوجود تاریخ میں طارق بن زیاد ہی کو فاتح اسپین لکھا گیا اوراسپین کے ساحل پر وہ جس پہاڑی کے پاس اترا تھاوہ پہاڑی اسی کی طرف منسوب ہو کر جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام سے مشہور ہوئی:

Its name is derived from the Arabic Jabal Tariq (Mr. Tarik), honouring Tarik ibn  Ziyad, who captured the peninsula in AD 711. (EB. 8/156)

711ء میں اسپینی پہاڑی کا نام ایک مسلمان طارق بن زیاد کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کے 1140سال بعد ہندستان کے پہاڑ کانام ایورسٹ انگریز کے نام پر رکھا گیا جس کا نام سرجان ایورسٹ تھا۔ وہ انڈیا میں تیرہ سال تک سرویر جنرل رہا۔ اسی نے پہلی بار1852ءمیں یہ دریافت کیا کہ ایورسٹ سطح زمین پرسب سے اونچی چوٹی ہے۔

اس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے ایک صاحب سے کہاکہ یہ دونوں واقعہ علامتی طور پر بتاتا ہے کہ انیسویں صدی کے مسلمانوں کے مقابلہ میں آٹھویں صدی کے مسلمانوں میں کیا فرق تھا۔ پہلے زمانہ کے مسلمان اعلیٰ عزم و حوصلہ کے مالک تھے۔ اس لیے ان کا نام پہاڑوں کی چوٹیوں پر لکھا گیا۔ اس کے بعد انیسویں صدی میں دوسری قومیں عزم و حوصلہ میں آگے بڑھ گئیں، اس لیے اب ان کانام پہاڑوں کی چوٹیوں پر لکھا جانے لگا۔ یہ انسانی اوصاف میں فرق کا معاملہ ہے نہ کہ کسی تعصب اور سازش کا معاملہ۔

کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ (1939-45) تک یورپ کے چھوٹے بڑے آٹھ سامراجی ممالک دنیا پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے تھے۔ مگر دوسری عالمی جنگ کے بھونچال نے ان سب کا خاتمہ کر دیا ۔ یہ تھے— برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی، پرتگال اور اسپین۔

امریکہ کو دریافت کرنے والا کرسٹوفر کولمبس اٹلی میں پیدا ہوا۔ مگر اس کی وفات اسپین میں ہوئی۔ کولمبس کو اپنی سمندری مہم میں اسپین کی کوئن ازابیلا (Isabella I) سے خصوصی مدد لینی پڑی۔ جس نے اس مہم کی سرپرستی قبول کر لی تھی۔ (9/907, 10/691)

واشنگٹن کی نیشنل گیلری آف آرٹ میں لکڑی کے تختہ پر پینٹنگ کے ذریعہ کولمبس کی مہم کا نقشہ آرٹسٹ کے تخیل کے مطابق بنایا گیا ہے ۔

امریکہ کے جنوب مشرقی علاقہ میں ایک ریاست ٹینسیسی(Tennessee) ہے، وہ 1796ء میں سولہویں اسٹیٹ کی حیثیت سے یو ایس اے میں شامل کی گئی۔ اس ریاست کے پہاڑی علاقہ میں ایک قوم بستی ہے جس کو میلنجین (Melungeon) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ سیاہ فام ہوتے ہیں۔ ان کی موجودہ تعداد ایک ملین سے زیادہ ہے۔ ان کا بھی ایک آدمی کانفرنس میں شریک تھا۔

شکاگو میں 2-5ستمبر 1994کو چار مسلم تنظیموں کا ایک مشترک اجتماع ہوا۔ اس میں تقریباً سولہ ہزار ڈیلی گیٹ شریک ہوئے۔ اس میں ایک ڈاکٹر کینڈی (Dr. N. Brent Kennedy) تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ میں نے اپنے آباو اجداد اور میلنجین لوگوں کے بارے میں ریسرچ کی ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے آباو اجداد اسپینی مسلمان (Spanish Muslims) تھے۔ جو داروگیر (Persecution) کے زمانہ میں وہاں سے بھاگ کر امریکہ آگئے۔ انہوں نے بتایا کہ میں اپنی قوم کی اس تاریخ پر ایک فلم بنا رہا ہوں۔

اسپین میں جو مسلمان داخل ہوئے وہ محض لینے والے بن کر وہاں نہیں گئے بلکہ دینے والے بن کر گئے۔ یہ عرب اس وقت ایک تازہ دم قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوںنے صحرائی دنیا سے نکل کرایک سرسبز و شاداب دنیا کو دریافت کیا تھا۔ اس دریافت نے ان کے اندر نیا ولولہ پیدا کیا۔ اسپین جیسے زرخیز ملک میں ان کو ہر قسم کے مواقع ملے۔ چنانچہ انہوں نے اس ملک کی امکانیات کو استعمال کر کے اس کو وقت کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بنا دیا۔ اس کی تفصیل بہت سی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جو لوگ صرف ایک کتاب پڑھنا چاہیں وہ درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں :

Philip K. Hitti, History of the Arabs

برٹرینڈرسل نے اپنی کتاب (A History of Western Philosophy)میں لکھا ہے کہ اسپین میں عرب اقتصادیات کی ایک بہترین خصوصیت ان کی زراعت تھی۔ خاص طورپر آبپاشی کا ماہرانہ استعمال جس کو انہوں نے کم پانی کے علاقہ میں رہ کر سیکھا تھا۔ آج بھی اسپینی زراعت عربوں کے آبپاشی نظام سے فائدہ اٹھا رہی ہے :

One of the best features of the Arab economy was agriculture, particularly the skilful use of irrigation, which they learnt from living where water is scarce. To this day Spanish agriculture profits by Arab irrigation works. (p.416)

یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ ان مسلمانوں نے عرب کے ریگستانوں میں آبپاشی کا نیا نظام سیکھا تھا۔ اصل یہ ہے کہ وہ زندگی کے عزائم سے بھرے ہوئے تھے اور جو قوم زندگی کے عزائم سے بھری ہوئی ہو وہ اسی طرح بڑے بڑے کارنامے انجام دیتی ہے۔

جے ایم رابرٹس ایک منصف مزاج مورخ سمجھا جاتا ہے۔ اس نے تاریخ کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ انہیں میں سے ایک 1050 صفحہ کی کتاب دنیا کی تاریخ ہے :

J.M. Roberts, The Pelican History of the World.

اس کتاب میں مصنف نے کھلے طور پر اس کا اعتراف کیا ہے کہ عربی اسپین (Arab Spain) ہی یورپ کی نشاۃ ثانیہ کاسبب تھا۔ حتیٰ کہ انڈیا، چین اور یونان کی علمی وراثت بھی اسپینی مسلمانوں ہی کے ذریعہ یورپ تک پہنچی۔ اسطرلاب ابتدائی طور پر اگرچہ ایک یونانی ایجاد تھی لیکن یہ عرب ہی تھے جو اس کو مغرب تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ جب چاسر (Chaucer) نے اسطرلاب کے استعمال پر اپنا رسالہ لکھا تو اس نے ایک عرب رسالہ کو بطور ماڈل اپنے سامنے رکھا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرون وسطیٰ میں یورپ کسی بھی دوسری تہذیب کا اتنا احسان مند نہیں جتناکہ اسلام کا :

To no other civilization did Europe owe so much in the Middle Ages as to Islam. (p.511)

ایک صاحب کو عالمی نقشہ دکھاتے ہوئے میں نے کہا کہ اس کو دیکھیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یورپ اسپین کے مقام پر آگے بڑھ کر افریقہ کی مسلم دنیا سے مل رہاہے۔ یہ ملاقات عملاً پیش آئی۔ مگروہ زیادہ تر سیاسی اور علمی سطح پر باقی رہی۔ دعوت کی سطح پر دونوں کے درمیان زیادہ تعلق قائم نہ ہو سکا۔

چودہویں اور پندرہویں صدی کے درمیان یورپ میں ترقی کا وہ واقعہ ہوا جس کو نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کہا جاتا ہے۔ مغربی مورخین عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ یہ یونانی اور رومی تہذیب کا احیاء تھا جو پہلے اٹلی میں ہوا اور پھردوسرے یورپی ملکوں تک پہنچا۔ مگر یہاں ایک درمیانی کڑی کو حذف کردیا گیا ہے اور وہ اسپین ہے۔ اصل یہ ہے کہ مسلمانوںنے اسپین میں قدیم تہذیبی سرمایہ کو لے کر اس میںاضافے کیے۔ اس طرح اسپین میں ایک اعلیٰ تہذیب وجود میں آئی۔ پھر یہ تہذیب اٹلی میں داخل ہوکر بقیہ یورپی ملکوںتک پہنچی۔

ترقی کے اس عمل میں اسپین کی کڑی حذف ہونے کی ذمہ داری خود اسپین پر ہے۔ پندرہویں صدی میں اسپینیوں نے مسیحی چرچ کے زیر اثر یہ مجنونانہ کام کیا کہ علم و فن کے مسلم ماہرین کو ملک سے نکلنے پر مجبورکر دیا چونکہ مسلمان ہی اس تہذیبی عمل کو اسپین میں جاری کیے ہوئے تھے۔ اس لیے اس جبری انخلاء کا نتیجہ یہ ہواکہ اسپین کی کڑی ٹوٹ گئی اور اٹلی ہی کی کڑی عملاً اہل یورپ کے لیے باقی رہی۔

اس مسئلہ پر ایک اسپینی اسکالر سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہاکہ واقعات کی فطری رفتار میں جب بھی تشدد کے ذریعہ تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے گی، ہمیشہ اسی قسم کا منفی نتیجہ نکلے گا۔ اس دنیا میں تدریجی تبدیلی ہی قابل عمل ہے۔ ریڈیکل تبدیلی صرف ایک لفظ ہے۔ اس کے نتیجہ میں عملاً جو چیز ظہور میں آتی ہے وہ صرف تخریب ہے نہ کہ تبدیلی۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی اور نویں صدی عیسوی کے درمیان یورپ میں بت اور مذہبی تصویروں کے خلاف جو مہم اٹھی اس کو بھی مسلم اسپین ہی سے تحریک ملی تھی ( أن الدعوة إلى نبذ الصور والتماثيل كانت متأثرة بالإسلام)۔

کلودیس (Claudius)کو 828ء میں تورین کا اسقف مقررکیا گیا۔ وہ مذہبی تصویروںکو غیر مقدس قرار دینے میں اتنا شدید تھا کہ وہ اس قسم کی تصویروں اور صلیبوں کو جلا دیا کرتا تھا اور اپنے چرچ میں اس کی عبادت کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ کلو دیس اندلس میں پیدا ہوا اوروہیں اس کی پرورش ہوئی (ولد وربي في الأندلس الإسلامي) ماذا خسرالعالم بانحطاط المسلمین، صفحہ 116۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ1492ءمیں غرناطہ کی مسلم سلطنت پر قبضہ کرنے کے بعد عیسائی حکمرانوں نے یک طرفہ طور پرمسلمانوں کو مارنا اور بھگانا شروع کر دیا، مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس وقت مسلمان اسپینیوں کے لیے بہترین مزدور اور بہترین کاریگر کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے ان کے صنعت و حرفت اور زراعت و باغبانی کے نظام کو ترقی دی تھی اور اس کو سنبھالے ہوئے تھے۔ اس لیے اسپینیوں کو عام مسلمانوں سے وہ نفرت نہیں ہو سکتی تھی جو ان کو سیاسی حکمرانوں سے تھی۔

مگر مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد ان مسلمانوں نے عیسائی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ بار بار ان کے خلاف بغاوت کرتے رہے۔ اگرچہ ناکافی تیاری کی بنا پر وہ ہر بار کچلے جاتے تھے۔ مزید یہ کہ اسپین کی مذہبی مخالفت کا تعلق صرف مسلمانوں سے نہیں تھا بلکہ وہ تمام غیر عیسائی مذاہب سے تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ اسپینی یہودی بھی یکساں عتاب کا نشانہ بنے۔

غرناطہ کی موجودہ آبادی ڈھائی لاکھ ہے۔ اس میں تقریباً ایک ہزار اسپینی مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کو حکومت وقت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں۔ وہ اپنی شخصیت کو چھپائے بغیر آزادی کے ساتھ شہر میں رہتے ہیں۔ 1993میں غرناطہ کے مسلمانوں نے عیدالفطر کی نماز الحمراء میں ادا کی۔

ایک صاحب نے بتایا کہ اسپین کے ٹی وی سسٹم نے اس نماز کی مکمل فلم بندی کی تھی۔ اس کو ٹی وی کے نیشنل پروگرام کے تحت براڈ کاسٹ کیا گیا جس کو پورے ملک میں نہایت شوق کے ساتھ دیکھا گیا۔

کچھ لوگ اسپین کی تصویراس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کہ سارا اسپین مسلمانوں کا دشمن بن گیا تھا۔ مگر یہ واقعہ کے خلاف ہے اور فطرت کے خلاف بھی۔ اصل یہ ہے کہ وہاں تین طبقے تھے۔ ایک  مذہبی طبقہ، دوسرا حکمراں طبقہ، تیسرا عوامی طبقہ۔

یہ صحیح ہے کہ مذہبی طبقہ (مسیحی چرچ) مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کا دشمن بن گیا تھا اور چونکہ اس زمانہ میں وہاں مذہبی طبقہ کا بہت اثر تھا، اس لیے انہوں نے دونوں فرقوں پر کافی ظلم بھی کیا۔ مگر حکمراں طبقہ کے دل میں مسلمانوں کے لیے وہ نفرت نہ تھی۔ کیوں کہ مسلمان ان کے ملک کی ترقی کا سبب بنے ہوئے تھے۔

مثال کے طور پر تاریخ بتاتی ہے کہ چرچ کے لوگوں نے مسجد قرطبہ کے کچھ ستونوں کو گرایا اور اس کے ایک حصہ میں چرچ بنا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے چارلس پنجم (1500-1558ء) کو اس چرچ کے افتتاح کے لیے بلایا۔ مگر شاہ اسپین جب وہاں آیا اور مسجد کے بقیہ حصہ کو دیکھاتو وہ بہت غضب ناک ہوا۔ اس نے کہا میں نہیں سمجھتا تھاکہ یہ مسجد اتنی خوب صورت اور اتنی عالی شان ہے۔ اگر میں جانتا تو تم کو ہرگز اسے توڑنے کی اجازت نہ دیتا۔ کیوں کہ اس کے ایک حصہ کو توڑ کر تم نے جو چرچ بنایا ہے وہ تم دوسری جگہ بھی بنا سکتے تھے۔ مگر یہ مسجد تو ایک ایسی نادر عمارت ہے جس کی دوسری مثال سارے عالم میں موجود نہیں۔

چارلس پنجم نے اہل کلیسا کے زیر اثر 1525ء میں بلنسیہ اور اراغون کے مسلمانوں کے نام یہ حکم جاری کیا کہ وہ اپنی زبان، مذہب، لباس، عادات کو ترک کر کے مکمل طور پر عیسائی ہو جائیں، ورنہ ان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کے بعد 1528 میں بلنسیہ کے بارہ افراد کا ایک وفد بادشاہ سے ملا اور اس سے درخواست کی کہ اس حکم کو واپس لے لیا جائے۔ چنانچہ بادشاہ نے اس حکم کا نفاذ روک دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مسلمان اپنی محنت اور اپنی مہارت کی بنا پر وہاں کے زمینداروں اور جاگیرداروں کے لیے قیمتی سرمایہ تھے۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر مسلمانوں کو نکال دیا گیا تو ان کے کھیت اور باغ ویران ہو جائیں گے اور ان کی اقتصادیات پر اس کا نہایت مضر اثر پڑے گا۔

مسلم اقتدار کے خاتمہ کے بعد مسجد قرطبہ کے ایک حصہ کو عیسائیوں نے چرچ میں تبدیل کر دیا۔ مگر اس کا سبب عیسائیوں کے ظلم کے ساتھ خود مسلمانوں کی نادانی بھی تھی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں ایک مسیحی پیشوا سینٹ ونسنٹ (Saint Vincent Ferrer) گزرا ہے۔ مسیحیوں نے اس کے نام پر قرطبہ میں دریا کے کنارے ایک چرچ تعمیر کیا تھا۔ اس علاقہ پر سیاسی قبضہ کے بعد مسلمانوں نے عین اسی چرچ کی جگہ اپنی مسجد بنا دی۔ اس طرح اس مسجد کے ساتھ غیر ضروری طور پر نزاع کی حالت قائم ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بعد کو786ءمیں سلطان عبدالرحمٰن الداخل نے عیسائیوں کو راضی کر کے اس جگہ کو خرید لیا اور وہاں مزید توسیع کے ساتھ عظیم مسجد قرطبہ کی تعمیر کی۔ اس تعمیر پر دو سال میں80ہزار دینار خرچ ہوئے۔ عیسائیوں کو جب دوبارہ سیاسی غلبہ ملا تو انہوں نے مسجد کے توسیعی حصہ کو تو چھوڑ دیا، مگر سینٹ ونسنٹ چرچ کی ابتدائی جگہ کو دوبارہ انہوں نے گرجا میں تبدیل کر دیا۔

اسپین میں مسلم سلطنت کے خاتمہ کے بعد مسیحیوں نے بہت سی مسجدوں کو چرچ بنا دیا تھا۔ اس کا دفاع کرتے ہوئے بعض مغربی مصنفین نے لکھا ہے کہ یہ مسیحیوں کی طرف سے جوابی کارروائی تھی۔ مسلمانوں نے اپنے زمانۂ حکومت میں کثیر تعداد میں چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ چنانچہ مسیحیوں کو جب غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے دوبارہ ان مسجدوں کی جگہ پراپنے چرچ بنا دئیے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

’’اسلام میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگرکوئی علاقہ مسلمانوں نے صلح سے نہیں بلکہ بزور شمشیر جنگ کے ذریعہ فتح کیا ہو تو وہاں کی زمینوں اور عمارتوں پر انہیں شرعاً مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس اختیار میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ غیر مسلموں کی کسی عبادت گاہ کو ضرورۃً ختم کر دیں، یا مسجد میں تبدیل کر لیں۔ اس کے باوجود مسلمان فاتحین نے اس شرعی اختیار کو بہت کم استعمال کیا۔ بعض مقامات پر کسی ضرورت یا مصلحت کے تحت کلیسا کو مسجد بنایا گیا۔ ‘‘ اندلس میں چند روز، صفحہ21

یہ بات صحیح نہیں۔ ’’بزور شمشیر فتح‘‘ کا مذکورہ حکم صرف اس وقت ہے جب کہ فریق ثانی خود جارحیت کرے اور اس کے نتیجہ میں جنگ پیش آئے۔ جب کہ معلوم ہے کہ اسپین نے اس قسم کا کوئی جارحانہ اقدام نہیں کیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جارحیت کی صورت میں بھی مذکورہ شرعی مسئلہ کا تعلق صرف زمینوں اور عمارتوں سے ہے،اس میں عبادت خانہ شامل نہیں ہے۔ کسی قوم کے عبادت خانہ کو توڑنا صرف اس وقت جائز ہے جب کہ اس کو بنانے والے سب کے سب اسلام قبول کر کے نمازی بن گئے ہوں۔

تیسری بات یہ ہے کہ جس طرح ایک انسان کو ناحق مارنا گویا تمام انسانوں کو مارنا ہے،اسی طرح کسی ایک عبادت گاہ کو ڈھانا گویا تمام عبادت گاہوں کو ڈھانا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کمیت قابل لحاظ نہیں ہوتی۔

اسپین سے مسلمانوں کا کلی انخلاء نہ کبھی ہوا اور نہ ہو سکتا تھا۔ مسلم حکمرانوں نے اپنے زیر قبضہ اسپین میں غیر مسلموں سے انتہائی رواداری اور انصاف کا معاملہ کیا تھا۔ مسلمانوں کی علمی ترقیوں سے مقامی آبادی اتنا زیادہ متاثر تھی کہ لوگ اسی طرح عربی لکھنے اور بولنے کو فخر سمجھتے تھے جس طرح برٹش حکومت کے دور میں ہندوستان کے لوگ انگریزی لکھنے اور بولنے کو فخر سمجھنے لگے تھے۔ اسپینیوں کی ایک بڑی تعداد مستعرب (Mozarab) بن گئی تھی۔ یہ تقریباً اسی قسم کے لوگ تھے جیسے مغل دور میں ہندوستان کے کائستھ۔ مسلمان۔ اسپین کی زراعت اور صناعت کے لیے بہترین کاریگر اور ماہرین فراہم کر رہے تھے۔ اسپینیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ خود اسپین کے مسیحی حکمرانوں میں کئی حکمراں ایسے تھے جو مسلمانوں کے حق میں اپنے دل کے اندر نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اس طرح کے مختلف طاقتور اسباب اس میں مانع تھے کہ مسلمانوں کو مکمل طور پر اسپین سے باہر نکال دیا جائے۔

تقریباً تین لاکھ 300,000) )مورسکو (Moriscos) جو اسپین سے نکالے گئے، وہ بھی قانون فطرت کے مطابق، عسر میں یسر کی مثال بن گئے۔ یہ لوگ اسپین سے نکل کر زیادہ تر الجیریا، تیونس اور مراکو میں بسے تھے۔ ان کا یہ آنا ان ملکوں میں اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بن گیا۔ پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے تحقیق کر کے بتایا ہے کہ ان افریقی ملکوں میں تبلیغ اسلام کے لیے یہاں قادریہ سلسلۂ تصوف کی ایک خانقاہ ساقیۃ الحمراء کے نام سے قائم تھی، مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ مسلم مذہب کو ان افریقیوں کے اندر داخل کرنے کا کارنامہ ان اسپینی مسلمانوں نے انجام دیا جو 1492ء میں غرناطہ کی حکومت کے خاتمہ کے بعد اسپین سے نکال دیے گئے تھے:

But the honour of winning an entrance among them for the Muslim faith was reserved for a number of Andalusian Moors who were driven out of Spain after the taking of Granada in 1492. (p.129)

اقبال کو دوبارہ اسپین کے علاقہ میں جانے کا موقع ملا۔ پہلی بار1908ء میں جب یورپ کے ایک سفر کے دوران وہ اسپین کے ساحل (سسلی) سے گزرے۔ اس پر انہوں نے ایک تاثراتی نظم بھی لکھی تھی جو ان کے مجموعہ میں شامل ہے۔

اسپین کے لیے اقبال کا دوسرا سفر جنوری 1933ء میں ہوا۔ اس وقت تیسری گول کانفرنس لندن میں ہوئی تھی۔ اس میں شرکت کے لیے جو لوگ ہندوستان سے گئے، ان میں سے ایک اقبال بھی تھے۔ کانفرنس سے فراغت کے بعد وہ پیرس ہوتے ہوئے غالباً 5 جنوری کو اسپین میں داخل ہوئے اور اپنے تین ہفتہ کے قیام میں میڈرڈ اور غرناطہ اور قرطبہ کودیکھا۔

اقبال کو اسپین کے علاوہ دوسرے کئی ملکوں کے سفر کا موقع ملا۔ چنانچہ وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں:بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے (بال جبریل)۔ مگر صرف کسی ملک کاسفر کرنا یا اس کو دیکھنا اس ملک کو جاننے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ایک سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ وہ انجینئر تھے اور یورپ کی ایک شپنگ کمپنی میں 20 سال سے ملازم تھے۔ انہوں نے دنیاکے اکثر ملکوں کاسفر کیاتھا۔ مگر جب میں نے گفتگو کی تو اندازہ ہواکہ عالمی زندگی کے کسی بھی پہلو پروہ کوئی گہری واقفیت نہیں رکھتے۔

اصل یہ ہے کہ ایک سائنس داں کے الفاظ میں، آدمی کو پیشگی طور پر ایک تیار ذہن (Prepared mind)  ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہی وہ کسی چیز کو حقیقی طور پر سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ تاریخ اور دوسرے علوم کے گہرے مطالعہ سے آدمی ذہنی طور پر پوری طرح تیار ہو چکا ہو۔ اس کے بعد ہی وہ کسی ملک کو گہرائی کے ساتھ جان سکتا ہے یا وہاں کے سفر سے کوئی حقیقی بات دریافت کرسکتا ہے۔

1908میں اقبال نے اسپین کے ساحل کودیکھ کرکہا تھا:

رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننا بہ بار

وہ نظرآتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

یہ محض ایک شاعرانہ تخیل ہے، نہ کہ واقعی معنوں میں کوئی تاریخی واقعہ۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ اسپین کبھی بھی ’’تہذیب حجازی‘‘ کا مزار نہیں بنا۔ وہاں سے بعض مسلم خاندانوں کا سیاسی اقتدار ضرور ختم ہوا، مگر جہاں تک حجازی تہذیب یا اسلام کا معاملہ ہے اس کا وجود خاندانی اقتدار کے خاتمہ کے بعد بھی اسپین میں باقی تھا اور آج بھی وہ وہاں موجود ہے۔

اقبال نے فاتح اسپین طارق بن زیاد کے بارے میں لکھا ہے کہ طارق نے جب اندلس کے ساحل پر اپنی کشتی کوجلا دیا تو لوگوں نے کہا کہ عقل کی نظر میں یہ تم نے غلط کام کیا :

طارق چوبر کنارۂ اندلس سفینہ سوخت

گفتند کارِ تو بہ نگاہ خرد خطاست

حالانکہ کشتیوں کو جلانے کا یہ افسانہ بالکل بے بنیاد ہے اور وہ کسی بھی قابل اعتماد تاریخی کتاب میں موجود نہیں۔)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوالرسالہ مئی 1989ء(

اسی طرح اقبال اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:

آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی

ابن بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی

یہ بھی اقبال کی ایک تاریخی بھول ہے۔ کسی ابن بدرون نے کبھی غرناطہ کا مرثیہ نہیں لکھا۔ اصل یہ ہے کہ ابن عبدون الفہری (م529ھ) ایک اسپینی شاعر تھا۔ اس کا تعلق بطلیوس (Badajoz) کے مسلم حکمراں متوکل بن المظفر سے تھا جو ملوک الطوائف میں سے ایک تھا ۔ ابن عبدون اسی متوکل کا وزیر تھا اور شاعر بھی تھا۔ متوکل بن المظفر کو یوسف بن تاشقین نے اس کے دو بیٹوں سمیت مروا دیا تھا۔ اس المیہ پر ابن عبدون نے عربی میں ایک مرثیہ لکھا۔ اس مرثیہ کاتعلق سقوط بطلیوس سے تھا، نہ کہ سقوط غرناطہ سے۔

ابن عبدون کے اس مرثیہ کی شرح ایک صاحب نے کی، جو شاعر نہیں تھے بلکہ صرف عالم تھے۔ ان کا نام ابن بدرون (عبدالملک بن عبداللہ بن بدرون) تھا۔ انہوں نے 608ھ میں وفات پائی۔

مسجد قرطبہ پر اقبال کی طویل نظم کا ایک مصرعہ یہ ہے :

کافرِ ہندی ہوں میں دیکھ مِرا ذوق و شوق

اس طرح کے بہت سے اشعار اقبال کے یہاں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنے بارے میں کہا :

مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی                   برہمن زادۂ دانائے رمز روم و تبریزاست

اسی طرح وہ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔‘‘ حتیٰ کہ ان کی ایک تعریفی نظم رام کے بارے میں بھی ہے جس کا ایک شعر یہ ہے :

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز

اہلِ وطن سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند

اقبال کے اس قسم کے اشعار کو اُس زمانہ میں برا نہیں مانا گیا، لیکن اس طرح کی بات اگر آج کوئی لکھے تو خود اقبال کے پرستار یہ کہیں گے کہ دیکھو اس شخص کو، یہ ہندو کا آلۂ کار بن گیا ہے۔ یہ مسلمانوں کا تشخص مٹانا چاہتا ہے۔

عبدالمجید بن عبداللہ بن عبدون الفہری (م529ھ) اندلس کے ایک ممتاز عالم اور ادیب ہیں۔ ان کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں۔ ابو مروان عبدالملک ایک وزیر تھے۔ ان کے لڑکے ابوبکر ایک کاتب سے ’’کتاب الاغانی‘‘ کی کتابت کروا رہے تھے۔ درمیان میں ایک روز انہیں کتابت شدہ حصہ کو اصل نسخہ سے ملا کر اس کی تصحیح کرنا تھا۔ اس وقت کتابت کا اصل نسخہ موجود نہ تھا۔ انہوں نے کسی آدمی کو اصل نسخہ لانے کے لیے باہر بھیجا تھا۔

اس درمیان میں ایک بوڑھا آدمی وہاں آ گیا جو بظاہر غیر اہم تھا۔ بات چیت کے دوران اس کو معلوم ہوا کہ ابوبکرکے ہاتھ میں کتاب الاغانی ہے اور وہ مقابلہ کر کے اس کی تصحیح کرنے کے لیے اصل نسخہ کا انتظار کررہے ہیں۔ بوڑھے آدمی نے کہا کہ میں بولتا ہوں، تم اپنی کتاب کھول کر ملا لو۔ ابوبکر نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کتاب ہے۔ بوڑھے آدمی نے کہاکہ کتاب تو نہیں ہے، البتہ یہ کتاب مجھ کو یاد ہے۔ اس کے بعد بوڑھے آدمی نے اپنے حافظہ سے کتاب پڑھنا شروع کیا اور ابوبکر اپنے کتابت شدہ نسخہ کو کھول کر اس سے ملانے لگے۔ ابوبکر کو سخت حیرت ہوئی جب انہوںنے دیکھاکہ ایک لفظ کے فرق کے بغیر بوڑھا آدمی کتاب کو دہرائے چلا جا رہا ہے۔

ابوبکر حیرانی کے عالم میں گھرکے اندر گئے اور اپنے باپ کو پورا قصہ سنایا۔ ان کے باپ ابومروان عبدالملک ننگے پائوں بھاگ کر باہر آئے۔ انہوں نے اس بوڑھے آدمی کو گلے سے لگایا۔ ان کی ضیافت کی اور پھر اعزاز کے ساتھ سواری دے کرانہیں رخصت کیا۔ اس کے جانے کے بعد بیٹے نے پوچھا کہ یہ بوڑھا آدمی کون تھا۔ باپ نے جواب دیا کہ تمہارا برا ہو، یہ اندلس کے ادیب اور علم وادب میں اس کے سردار ابن عبدون ہیں (وَيْحَك! هَذَا أَديبُ الأَنْدَلُس وإمامها وسيدها في علم الآداب، هذا أبو محمد عبد المجيد بن عبدون)  المعجب في تلخيص أخبار المغرب، صفحہ 70۔

اسپین کے مسلم عہد میں جو بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں ان میں سے ایک ابن حزم ہیں۔ وہ قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا زمانہ 384ھ اور456ھ کے درمیان ہے۔ یہ زمانہ مسلم اسپین کا انتہائی اختلاف کا زمانہ تھا۔ ا س زمانہ کے اندلس میں مالکی فقہاء کا غلبہ تھا جو قیاس سے کام لینے میں حد سے تجاوزکرگئے تھے۔

ابن حزم نے سمجھا کہ فقہ میں قیاس کو داخل کرنا بس یہی اختلاف اور بگاڑ کا اصل سبب ہے ۔ چنانچہ وہ قیاس کے منکر ہو گئے اور صرف ظاہر پر زور دینا شروع کر دیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب کا نام ہے:

إبطال القياس والرأي والاستحسان والتقليد والتعليل

ابن حزم نے لکھاکہ اِن اللہ تعالیٰ یقول:وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللّهِ (42:10)ولم یقل سبحانہ و تعالی فحکمہ الی الرایٔ والقیاس (الاحکام فی اصول الاحکام، جلد7، صفحہ53)۔یعنی، اللہ تعالی کا فرمان ہے’’اور جس کسی بات میں تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ اللہ ہی کے سپرد ہے۔‘‘یہاں اللہ نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس کا فیصلہ رائے اور قیاس کی بنیاد پر ہو۔

اس ظاہری مسلک کی بنا پر ابن حزم بہت زیادہ نزاعی شخصیت بن گئے۔ وہ کئی بار قید کیے گئے۔ ان کی تکفیر و تضلیل کی گئی۔ ان کی کتابیں جلا دی گئیں۔ حتیٰ کہ ان کی لکھی ہوئیںچار سو کتابوں میں سے اب بمشکل چالیس کتابیں دنیا میں باقی ہیں۔

اس موضوع پر ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ابن حزم کا کیس دراصل انتہا پسندی کا کیس ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اُس زمانہ کے فقہاء کثرت سے قیاس کا غلط استعمال (سوء استخدام) کر رہے تھے۔ لیکن اگر تمام فقہی کتابیں جلا دی جائیں اور صرف قرآن و حدیث دنیا میں رہ جائے تب بھی غلط استعمال کی برائی باقی رہے گی۔ کیونکہ غلط استعمال کا سبب متن میں نہیں ہوتا بلکہ آدمی کے اپنے ذہن میں ہوتا ہے۔

میں نے مزید کہا کہ فقہاء اسلام نے چار چیزوں کو مصادر شریعت قرار دیا ہے— قرآن، سنت، اجماع، قیاس۔ میں سمجھتا ہوں کہ حدیث کے الفاظ کی اتباع کی جائے تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ مصادر شریعت تین ہیں:قرآن، سنت اور اجتہاد ۔ اجتہاد سے مراد آزادانہ رائے نہیں ہے، بلکہ وہ رائے ہے جو قرآن و سنت کی بنیاد پر مخلصانہ طور پر قائم کی گئی ہو۔ اجتہاد کے مختلف درجے ہیں۔ انہیں درجات کا نام قیاس اور اجماع ہے۔

قاضی مُنذِر بن سعید قرطبہ کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ 366ھ میں قُرطبہ میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ علم اور زہد دونوں میں ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ اپنے زمانہ کے اندلس میں وہ قاضی القضاۃ کے عہدہ پر مقرر ہوئے اور آخر تک اس عہدہ پر قائم رہے۔

ابن الاثیر نے اپنی کتاب الکامل فی التاریخ میں 366ھ کے حالات کے تحت لکھا ہے کہ سلطان عبدالرحمٰن الناصر نے جب الزھراء کا محل تعمیر کر لیا تو ایک دن وہ اپنے سونے کے تخت پر بیٹھا۔ دربار میں بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ سلطان نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم نے سنا ہے کہ کبھی کسی نے ایسا عالی شان محل بنایا ہو۔ حاضرین نے کہا کہ ہم نے نہ ایسا دیکھا اور نہ ایسا سنا (لم نر، ولم نسمع بمثله)۔لوگوں نے خوب تعریف کی مگر قاضی منذر سر جھکائے بیٹھے رہے۔

آخر میں سلطان نے قاضی منذر سے بولنے کے لیے کہا۔ قاضی منذر رو پڑے اور ان کے آنسو ان کی داڑھی تک آ گئے۔ انہوں نے کہاخدا کی قسم، میرا یہ گمان نہیں تھاکہ شیطان تمہارے اوپر اتنا زیادہ قابو پا جائے گا کہ وہ تم کو کافروں کے درجہ تک پہنچا دے۔ سلطان نے کہا کہ دیکھیے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کیسے آپ مجھے کافروں کے درجہ تک پہنچا رہے ہیں۔ اس کے بعد قاضی منذر نے قرآن سے سورہ الزخرف کی آیات33-35 پڑھیں۔ ان آیتوں کو سن کر سلطان عبدالرحمٰن سخت غمگین ہوا اور رونے لگا۔ اس نے کہا کہ اللہ آپ کو بہتر جزا عطا فرمائے اور مسلمانوںمیں آپ جیسے بہت لوگ پیدا کرے۔

اسی طرح ایک بار اندلس میں قحط پڑا۔ سلطان عبدالرحمٰن نے ایک آدمی کو قاضی منذر کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ قاضی صاحب بارش کے لیے دعا کریں۔ قاضی منذر نے قاصد سے پوچھا کہ سلطان خود کیا کر رہے ہیں۔ قاصد نے کہا کہ میں ان کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ انہوں نے شاہی لباس اتار کر معمولی کپڑے پہن لیے تھے اور زمین پر سر رکھ کر یہ کہہ رہے تھے کہ خدایا، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، کیا تو میری وجہ سے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا (هذه ناصيتي بيدك، أتراك تعذب هذا الخلق لأجلي؟)۔

قاضی منذر نے شاہی قاصد سے کہا کہ تم بارش لے کر جائو۔ کیوں کہ جب زمین کا بادشاہ عاجزی اختیار کرتا ہے تو آسمان کا بادشاہ رحم فرماتا ہے(إذا خشع جبّار الأرض رحم جبّار السماء)۔ اس کے بعد قاضی منذر باہر نکلے اور استسقاء کی نماز پڑھی۔ پھرمنبر پرکھڑے ہو کرتقریر کی۔ لوگ تقریر سن کر رونے لگے جب وہ گھر لوٹے تو بارش شروع ہو چکی تھی (الکامل فی التاریخ لابن اثیر، جلد 8، صفحہ 673-74)۔

اس موضوع پر ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ بعد کے دور میں علماء کے درمیان یہ غلط روایت چل پڑی کہ لوگوں نے حکومت میں عہدہ لینے کو کمتر سمجھ کر اسے چھوڑ دیا۔ یہ عالم کے مفاخر میں شمار ہونے لگا کہ اس کو حکومت نے عہدہ کی پیش کش کی اور اس نے اسے ٹھکرا دیا۔ حالاں کہ یہ پیغمبرانہ سنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مشرک بادشاہ کے یہاں عہدہ قبول کیا۔

میں نے کہا کہ یہ روش اسلامی مزاج کے مطابق نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء، صالحین اور حکمرانوں کے بیچ میں دوری قائم ہو گئی۔ اس دوری کے نتیجہ میں بہت سے اعلیٰ مواقع استعمال ہونے سے رہ گئے۔ اسلام کی بعد کی تاریخ کا یہ ایک افسوس ناک باب ہے کہ رجاء بن حَیوہ اور قاضی ابو یوسف اور قاضی منذر اور شیخ احمد سرہندی جیسی مثالیں اس میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔

اسپین کے مسلم عہد میں جو بڑے بڑے دماغ اٹھے ان میں سے ایک ممتاز نام ابن الطفیل کا ہے۔ وہ 1100ء میں اندلس میں وادی آش (Guadix) میں پیدا ہوا۔1185ءمیں مراکش میں اس کی وفات ہوئی۔ الموحدین کا سلطان، ابو یوسف المنصور اس کے جنازہ میں شریک ہوا۔ ابن الطفیل ایک فلسفی اور طبیب تھا۔ اس کی تعلیم غرناطہ میں ہوئی۔ وہ ایک اوریجنل فکر رکھنے والا فلسفی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے حالات پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں سے فرانسیسی مصنف لیون غوثیہ (Leon Gauthier) کی کتاب بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔

اس کی ایک نسبتاً مختصر کتاب حیّ بن یقظان کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ اس کا مطلب ہے —  زندہ ابن بیدار (The living one, son of the vigilant) یہ ایک فلسفیانہ کہانی ہے۔ ایک انسان بچپن سے لے کر بڑی عمر تک خالص فطرت کے ماحول میں رہتا ہے۔ اس کا کسی انسان سے سابقہ پیش نہیں آتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی فطرت اور کائنات کے بے آمیز مطالعہ کے ذریعہ خدا کو پا لیتا ہے۔ ابن طفیل اس دلچسپ کہانی کے ذریعہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ خدا ایک حقیقت ہے اور عین عقل انسانی کا تقاضا ہے۔

حیّ بن یقظان ہی کے نمونہ پر بعد کو رابن سن کروسو (Robinson Crusoe) لکھی گئی۔ ابن طفیل کی اس کتاب کا ترجمہ تقریباً ستر زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ڈچ زبان میں اس کا ترجمہ 1672ءمیں ہوا۔ روسی زبان میں1920میں، اسپینی زبان میں1934میں۔ اس عربی کتاب کا پہلا ترجمہ لاطینی زبان میں 1671ء میں ہوا۔ یہ ترجمہ ایڈورڈ پوکوک (Edward Pococke) نے کیا تھا۔

مسلم اسپین میں ادب و شاعری کو بہت فروغ ہوا۔ چنانچہ کثیر تعداد میں شعراء پیدا ہوئے۔ خود اسپین کا پہلا اموی حکمراں عبدالرحمٰن الداخل بھی شاعر تھا۔ خلیفہ عبدالرحمن الناصر (الثالث) کے دربار کا ایک شاعر ابن عبد ربه (وفات940ء) اس کے دور کی تعریف میں کہتا ہے کہ اللہ نے اسلام کا راستہ واضح کر دیا اور لوگ دین میں جوق در جوق داخل ہو گئے :

قدْ أوضحَ اللهُ للإسلامِ منهاجاً                                     وَالنَّاسُ قَدْ دَخَلُوا في الدِّينِ أَفْواجا

دوسرا شاعر مسلم سلطنت کے خاتمہ کے بعد کہتا ہے کہ کیا یہ شہر دین اسلام کا محفوظ قلعہ نہ تھا۔ مگر خدا نے اس کو ذلیل کر دیا:

ألم تك معقلا للدين صعبا                  فذلله كما شاء القدير

ایک اور شاعر کے مرثیہ کا ایک شعر یہ ہے کہ ہر چیز جب مکمل ہو جاتی ہے تو اس میں نقص کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کو خوش گوار زندگی سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے :

لِكُلِّ شَيْءٍ إِذَا مَا تَمَّ نُقْصَانُ                   فَلا  يُغِرُّ بِطِيب العيش إنسان

یہ تین اشعار نہ صرف اسپین کے مسلم دور کی تصویریں ہیں بلکہ اس میں پوری دنیا میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔

اندلس میں دوسری ترقیوں کے ساتھ فن موسیقی اور آلات موسیقی کی بھی کافی ترقی ہوئی۔ اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ میں نے عبدالعزیز بن عبدالجلیل کی کتاب الموسیقا الاندلسیۃ المغربیۃ دیکھی۔ یہ کتاب1988ء میں کویت سے چھپی ہے۔ وہ 270 صفحات پرمشتمل ہے۔ تاہم اس موضوع سے ناآشنا ہونے کی بنا پروہ میری سمجھ میں زیادہ نہ آ سکی۔

اسپین کی مسلم سلطنت کے زوال کے بعد جب ان حکمرانوں کی بنائی ہوئی عمارتیں کھنڈر یا غیر آباد ہو چکی تھیں۔ ان کے محلوں اور باغوں میں انسانوں کے بجائے جانور رہنے لگے تھے۔ اس زمانہ میں 435ھ میں ابو الحزم جهور بن محمد کا گزر مدینۃ الزھراء سے ہوا۔ اس نے جب شاہی دور کی اس برباد عمارتوں کو دیکھا تو اس پر ایک عجیب حیرت طاری ہو گئی۔ اس نے اپنے تاثر کا اظہار ان اشعار میں کیا ہے:

قلت يوماً لدار قوم تفانوا

أين سكانك الكرام علينا

فأجابت هنا أقاموا قليلاً

ثم ساروا وليست أعلم أينا

یعنی وہ قوم جو فنا ہو گئی، میں نے ایک دن اس کے مسکن سے پوچھاتمہارے وہ مکین کہاں گئے جو ہم کو بہت عزیز تھے۔ اس نے جواب دیاکہ تھوڑے دن وہ یہاں ٹھہرے تھے۔ پھروہ چلے گئے اورمجھ کونہیں معلوم کہ وہ کدھر گئے (جذوة المقتبس، صفحہ 189)

یہ صرف مدینۃ الزھراء کے باشندوں کی کہانی نہیں، یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ اس دنیا میں جو بھی آتاہے، تھوڑی مدت کے بعد وہ اس طرح یہاں سے چلا جاتا ہے کہ اس کے چھوڑے ہوئے کھنڈروں کے سوا کوئی اورنشان اس کا یہاں باقی نہیں رہتا۔

اسپینی زبان میں ابھی تک ایک مثل ہے جس کا ترجمہ عربی میں ایک شخص نے اس طرح کیا:کل مَن احبَّہ اللہُ رزَقہ منزلاً فی اشبیلیہ (جس آدمی سے خدا محبت کرتا ہے، اس کو اشبیلیہ میں ایک مکان دے دیتا ہے)۔

یہ مثل اس وقت بنی جب اشبیلیہ (اور دوسرے اندلسی شہروں میں) مسلم تمدن کا غلبہ تھا۔ اس وقت یہ شہر عمدہ مکانات، سڑکیں، باغات اور صاف ستھری زندگی کے لیے ایک عالمی نمونہ بنے ہوئے تھے۔

المعتمد بن عباد اسی اشبیلیہ کا حکمراں تھا۔ یہاں ابھی تک ایک قدیم عمارت الکازار کے نام سے ہے۔ جو القصر کی اسپینی صورت ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عرب نے فخر کے ساتھ اس واقعہ کو دہرایا کہ ملوک الطوائف کے زمانہ میں جب عیسائیوں کے حوصلے بڑھ گئے اور المعتمد بن عباد نے افریقہ کے حکمراں یوسف بن تاشفین کو مدد کے لیے بلایا۔ اس وقت ایک مسلمان نے اس کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ جب یوسف بن تاشفین یہاں اپنی فوجوں کو لیکر آئے گا تو وہ تم کو بے دخل کرکے خود تمہاری سلطنت پر قبضہ کر لے گا۔ المعتمد نے جواب دیا:رعْي الْجِمال خيرٌ من رعي الخنازير (تاریخ الاسلام للذہبی، جلد32، صفحہ25)۔یعنی اگر میں ایک عرب بادشاہ کا قیدی بن کر اس کا اونٹ چرائوں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ میں ایک فرنگی بادشاہ کا قیدی بن کر اس کی خنزیروں کو چرائوں۔

ایک صاحب نے فخر کے ساتھ اس قول کو دہرایا۔ میں نے کہا کہ انسانوں کو ’’اونٹ‘‘ اور ’’خنزیر‘‘ میں بانٹنا یہ خالص قومی مزاج ہے۔ مومن کا مزاج داعیانہ مزاج ہوتا ہے۔ وہ تمام انسانوں کو اللہ کے بندوں کے روپ میں دیکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی غیر داعیانہ مزاج اندلسی مسلمانوں کی تباہی کا سبب بنا۔ عیسائیوں کو ’’خنزیر‘‘ سمجھنے کے بجائے اگر وہ ان کو ’’مدعو‘‘ سمجھتے تو شاید اسپین کی تاریخ دوسری ہوتی۔

ایک عرب سیاح نے اپنے اسپینی سفر کے تاثرات بتاتے ہوئے کہاکہ جب میں نے قرطبہ کی تاریخی یادگاریں دیکھیں جو ابھی تک اپنی عظمت کی داستان سنا رہی ہیں تو بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت حالت یہ تھی کہ سیاحوں کے قافلے میرے پاس سے گزر رہے تھے اور وہ میری حالت کو دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ یہ ایک عربی ہے جو اپنے اسلاف کی عظمت پر رو رہا ہے:

تمرُّ بی قوافل السیّاح فیعرفون انی عربی ابکی مجد اجدادی

میں نے کہاکہ اس قسم کی عمارتوں کو دیکھ کر مجھے بھی رونا آتا ہے۔ مگر میرا رونا اسلاف کی عظمت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس پر ہوتا ہے کہ انسان کتنا زیادہ نادان ہے کہ ایسی چیزوں کے اوپر اپنی عظمت کا محل کھڑا کرتا ہے جو آخر کار کھنڈر ہو جانے والی ہیں۔

غرناطہ کے قصر الحمراء میں ایک جگہ ایک بورڈ لگا ہوا ہے جس میں بڑی عبرت ہے۔ اس دیواری کتبہ میں اسپینی زبان میں لکھا ہوا ہے کہ میکسیکو کا ایک سیاح آری ایکاسا الحمراء کو دیکھنے کے لیے آیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی تھی۔ جب وہ دونوںمحوِ حیرت ہو کر اس تاریخی محل کو دیکھ رہے تھے تو عین اسی وقت ایک سائل وہاں آ گیا جو کہ اندھا تھا۔ سیاح نے سائل کو دیکھ کر اپنی بیوی سے کہااے خاتون، اس کو زیادہ صدقہ دے دو کیوں کہ کسی آدمی کی اس سے بڑی کوئی بدبختی نہیں ہو سکتی کہ وہ غرناطہ کے قصر کے سامنے کھڑا ہو مگر وہ اس کو دیکھنے کے لیے اندھا ہو۔

میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اس سے بھی زیادہ بدقسمت وہ آنکھوں والا انسان ہے جو فطرت کی حسین تر دنیا کے سامنے ہو مگر وہ اس میں خدا کا جلوہ دیکھنے سے محروم رہے۔

قصر الحمراء کے ایک کمرہ کے سامنے ایک تختی لگی ہوئی ہے۔ اس پر لکھا ہوا ہے کہ یہاں واشنگٹن ارونگ نے قیام کیا تھا۔

ارونگ (Washington Irving) ایک امریکی ادیب تھا۔ ایک امریکی ادارہ نے 1826ء میں اس کو اسپین بھیجا۔ یہاں آ کر جب اس نے غرناطہ کو دیکھا تو اس کی خوبصورتی پر وہ اتنا گرویدہ ہوا کہ وہ یہیں مقیم ہو گیا اور غرناطہ اور الحمراء کے بارے میں اپنی دو کتابیں لکھیں :

Irving had become absorbed in the legends of the Moorish past, and wrote his Conquest of Granada and Tales of the Alhambra. (EB. V/435)

واشنگٹن ارونگ 1783میں نیو یارک میں پیدا ہوا اور وہیں1859میں اس کا انتقال ہوا۔

الحمراء قلعہ اور محل دونوں تھا جس طرح دہلی کا لال قلعہ دونوں ہے۔ یہ اندلس کے مسلم حکمرانوں نے غرناطہ میں بنایا تھا۔ یہ قصر بنیادی طور پر1238ء اور1358ءکے درمیان بنایا گیا۔ 1492ءمیں جب اندلس میں مسلمانوں کی حکومت آخری طور پر ختم ہوئی تو یہ قصر بھی زد میں آیا۔ اس کے بعد کئی بار اس عمارت کو نقصان پہنچا۔ تاہم 1828ء میں اس کی مرمت کر کے اس کو دوبارہ دلکش بنانے کی کوشش کی گئی۔

موجودہ الحمراء میں کچھ حصہ مسلمانوں کا بنایا ہوا ہے اور کچھ حصہ بعد کے عیسائی حکمرانوں کا۔

الحمراء کے ایک خاص حصہ میں سفید سنگ مرمر سے بنے ہوئے بارہ شیر ہیں۔ یہ گویا طاقت اور ہمت کی علامت ہیں۔ قصر کے اس حصہ کے مختلف نام ہیں— فناء السباع، دیوان الاسد، مأسدۃ بیت الاسُود۔

الحمراء صرف ایک محل نہیں، وہ نہایت وسیع باغات کے درمیان بیرون شہر گویا ایک شاہی اقامت گاہ تھی۔ اس کی تعمیر پر بہت زیادہ دولت خرچ کی گئی۔ تاہم اس کا تعمیری سامان زیادہ مضبوط نہ تھا۔ اپنے عظیم حسن کے باوجود وہ غیر مستحکم تعمیراتی سامان کے ذریعہ بنی ہوئی ایک عمارت کہی جائے گی۔

الحمراء کے محلات اس وقت بنائے گئے جب کہ یہاں کی مسلم حکومت سمٹ کر صرف غرناطہ تک محدود ہو گئی تھی۔ اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ لال قلعہ کے حکمراں کی طرح وہ باہر سے مضبوط پتھر بڑی مقدار میں منگا سکے، وہ زیادہ مستحکم عمارت کھڑی نہیں کر سکتے تھے، اس لیے شاید اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے انہوں نے زیادہ خوب صورت عمارتیں کھڑی کر دیں۔

قصر الحمراء 2200 مربع میٹر کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ہر حصہ میں آیتیں، حدیثیں، دعائیں، اشعار اور دوسری عربی عبارتیں لکھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ خاص طور پر بنوالاحمر کا خاندانی شعار وَلاغالبَ اِلااللہاس کے ہر حصہ میں نقش کیا ہوا نظر آتا ہے۔

آخری دور کی سلطنت غرناطہ(1232-1492ء)کا بانی محمد بن یوسف الاحمر تھا۔ وہ ارجونہ کا قلعہ دار تھا۔ اس نے بغاوت کر کے غرناطہ پر قبضہ کر لیا اور اپنا لقب الغالب باللہ اختیار کیا۔ اسی سلطنت کے زمانہ میں غرناطہ کا مشہور قصر الحمراء تعمیر ہوا۔ اس خاندان (بنو احمر) کے حکمرانوں نے اسی لفظ کو اپنا شعار بنا لیا۔ وہ عمارتوں وغیرہ پر کثرت سے وَلاغالبَ الااللہ لکھا کرتے تھے۔

اقبال 1933ء میں اندلس گئے تھے۔ واپسی کے بعد انہوں نے مختلف مواقع پر اپنے سفر کے تاثرات بتائے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہامیں الحمراء کے ایوانوں میں جابجا گھومتا پھرا۔ مگر (انسانوں سے خالی اس قصر میں) جدھر نظر اٹھتی، دیوار پر ھوالغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں تو ہر طرف خدا غالب ہے۔ کہیں انسان نظر آئے تو بات بھی ہو (اقبال یورپ میں، از سعید اختر درّانی) ۔

یہ احساس بڑا عجیب ہے۔ میرا اپنا حال تو یہ ہے کہ مجھے انسانوں کی بھیڑ میں بھی خدا ہی دکھائی دیتا ہے اور وہاں بھی میرے اندر يُنَاجِي رَبَّهُکی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مگر اقبال خدا کے ذکر کے ہجوم میں کسی انسان کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ اس سے وہ ہم کلام ہو سکیں۔

پچھلے چودہ سو سال میں مسلم دنیا میں جو اہل دماغ پیدا ہوئے اس کی فہرست میں ابن خلدون کا نام ممتاز طور پر شامل ہے۔ اس کا اسلوب تحریر اور اس کا طرزِ فکر دونوں انتہائی حد تک اوریجنل تھا۔ وہ ان چند مسلم اہل علم میں سے ہے جنہوں نے اپنے افکار کی آفاقیت کی بنا پر عالمی سطح پر اپنا اعتراف حاصل کیا، اگرچہ یہ عالمی اعتراف اس کو پانچ سو سال بعد مل سکا۔

ابن خلدون تیونس میں 1332ء میں پیدا ہوا اور 1406ء میں قاہرہ میں اس کی وفات ہوئی۔ تاہم اس کی زندگی کا ایک قابل لحاظ حصہ اندلس میں گزرا اور اگر اس کے حاسدین اور مخالفین نے اس کو اندلس چھوڑنے پر مجبورنہ کیا ہوتا تو اس کی قبر شاید قاہرہ کے بجائے قرطبہ غرناطہ میں ہوتی۔

پروفیسر چارلس اساوی (Charles Issawi) نے لکھا ہے کہ1860ء میں مقدمہ کا مکمل ترجمہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ہی ایسا ہوا کہ ابن خلدون کو اپنی عظیم حیثیت کے مطابق عالمی مقام ملے :

But it was only after the 1860s, when a complete French translation of The Muqaddima appeared, that Ibn Khaldun found the worldwide audience his incomparable genius deserved. (EB. 9149)

ایک مستشرق نے اپنا ایک مقالہ دکھایا۔ اس کا ایک حصہ ابن خلدون کے بارے میں تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ عباسی خلافت کے بعد اسلامی حکومت کا آرتھوڈاکس پولیٹیکل نظریہ ایک بحران کا شکار ہو گیا۔ ابن خلدون نے سیاسی ڈھانچہ کے مقابلہ میں سماجی اور طبیعیاتی طاقتوں کی اہمیت پر زور دیا۔ اس نے عباسی خلافت کے تحت کلاسیکل سیاسی اتحاد کے تصور کو رد کر دیا۔ البتہ اس نے تمام مسلمانوں کے روحانی اتحاد کا اقرار کیا :

He rejected the classical political unity under the Abbasid Caliph but admitted the spiritual unity of all Muslims.

مذکورہ فرانسیسی مستشرق نے پوچھا کہ ابن خلدون کے اس نظریہ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں مزید اضافہ کے ساتھ اس کو صحیح مانتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح یورپی نو آبادیات کے زمانہ میں سفید فام کی ذمہ داری (White man's burden) کا نظریہ اس کی تبریر کے لیے گھڑا گیا، اسی طرح عباسی دور میں عالمی خلافت کا نظریہ اس کی مذہبی حمایت کے لیے وضع کیا گیا۔ قرآن و سنت میں وہ سراسر اجنبی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق،روحانی ترقی اور روحانی اتحاد مسلمانوں کی مستقل ذمہ داری ہے اور سیاسی اقتدار صرف ایک عارضی خدائی انعام۔

میں نے کہا کہ اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آج مسلم دنیا قتل و خوں ریزی کا کارخانہ بنی ہوئی ہے۔ مصر اور الجزائر سے لے کر بوسنیا اور کشمیر تک اسی بے بنیاد سیاسی نظریہ کے تحت بے فائدہ جنگ جوئی کا عمل جاری ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو ہر جگہ مذہبی، روحانی اور دعوتی مواقع حاصل ہیں مگر وہ اس کو استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ وہ بس سیاست کی چٹان پر اپنا سر پٹک رہے ہیں، کیونکہ اپنی غلط سوچ کی بنا پر انہیں اس کے سوا کوئی اور کام دکھائی نہیں دیتا۔

میری پسندیدہ تفسیروںمیںسے ایک خاص تفسیر الجامع لاحکام القرآن ہے۔ یہ تفسیر اسپین (قرطبہ) میں لکھی گئی۔ اس کے مولف ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح الانصاری ہیں۔ وہ قرطبہ کے ایک بڑے عالم تھے۔ اسی لیے وہ القرطبی کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے 671ھ میں وفات پائی۔

القرطبی کا فقہی مسلک مالکی تھا۔ مگر اپنی بے تعصبی کی بنا پر انہوں نے کئی جگہ امام مالک کے مسلک سے اختلاف کیا ہے۔ مثال کے طور پر امام مالک نماز میں بچہ کی امامت کو ناجائز بتاتے ہیں۔ مگر القرطبی اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بچہ کا نماز میں امام بننا جائز ہے جب کہ وہ قرآن کی قرأت کرنا جانتا ہو ( إِمَامَةُ الصَّغِيرِ جَائِزَةٌ إِذَا كَانَ قَارِئًا)تفسیر القرطبی، جلد 1، صفحہ353۔

اسی طرح امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ رمضان میں روزہ رکھنے والا ایک شخص اگر بھول کر کھا لے تو اس کو قضا کا روزہ رکھنا ہو گا۔ مگر القرطبی اس رائے کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام مالک کے سوا دوسرے فقہاء کے نزدیک بھول کر کھانے والے کے اوپر روزہ کی قضا نہیں ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہی مسلک صحیح ہے:قُلْتُ: وَهُوَ الصَّحِيحُ) تفسیر القرطبی، جلد 2، صفحہ322(۔

موجودہ زمانہ میں علمی ذوق اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آدمی یا تو کلی موافق ہو سکتا ہے یا کلی مخالف۔ اگر کوئی شخص، مثال کے طورپر، ایک جماعت کو مفید جماعت بتائے مگر اس کے بعض طریقوں سے وہ اختلاف کرے تو کہا جائے گا کہ یہ شخص مصلحت پرست ہے۔ اصل میں تو وہ اس جماعت کا مخالف ہے، مگر مفاد کی بنا پر وہ اس کی تعریف کر رہا ہے۔

مسلم اسپین میں پیدا ہونے والی علمی شخصیتوں میں سے ایک ممتاز شخصیت ابو القاسم الزہراوی (Abulcasis) کی ہے۔ اس کی کتاب التصریف لاطینی زبان میں 1497ء میں شائع ہوئی اور اس کے بعد یورپ کی تمام اہم زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب تقریباً 500 سال تک اہل یورپ کے لیے طب اور سرجری میں مرجع بنی رہی۔ ہٹی کے الفاظ میں، اس نے یورپ میں جراحی کی بنیاد قائم کرنے میں مدد دی :

It helped lay the foundation of surgery in Europe. (p.577)

زہراوی سے پہلے سرجری (جراحی) کا کام پچنہ لگانے والے کیا کرتے تھے۔ وہ اصول طب اور علم تشریح الاعضاء کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض اپنے خاندانی رواج کے تحت جراحی کا کام کرتے تھے اور اکثر مریضوں کو سخت نقصان پہنچاتے تھے۔ زہراوی نے جراحی (آپریشن) کو علم تشریح الاعضاء کی بنیاد پر قائم کیا۔ اس نے انسانی جسم کا گہرا مطالعہ کر کے اس کے اصول مقرر کیے۔ وہ اپنے شاگردوں سے کہا کرتا تھا کہ پہلے تم انسانی جسم کا تشریحی مطالعہ کرو اور یہ جانو کہ وریدیں اور شریانیں اور اعصاب کہاں واقع ہیں، اس کے بعد جراحی کا کام کرو۔ اس نے مشاہدہ اور تجربہ کو جراحی کا لازمی حصہ قرار دیا۔ زہراوی نے فن جراحت میں بہت سی نئی نئی باتیں دریافت کیں۔

مسلم اسپین کی تاریخ میں ہر قسم کی سبق آموز مثالیں موجود ہیں۔ یہاں کے مسلم حکمرانوں میں سے ایک نامور حکمراں سلطان عبدالرحمٰن الثالث ہے۔ وہ 300ھ میں قرطبہ کے تخت پر بیٹھا اور پچاس سال تک حکومت کی۔ اس کا زمانۂ سلطنت ہر اعتبار سے نہایت ممتاز سمجھا جاتا ہے۔ یہی سلطان ہے جس نے مشہور قصر الزہراء تعمیر کرایا تھا، جو اپنے زمانہ میں دنیا کا سب سے زیادہ عالی شان محل سمجھا جاتا تھا۔ مگر زمانہ نے اس محل کو اس طرح مٹایا کہ آج آپ قرطبہ جائیں تو وہاں آپ کو اس کے صرف کھنڈر دکھائی دیں گے۔

قصر الزہراء میں آرام و عیش اور شان و شوکت کی تمام ممکن چیزیں اکٹھا کی گئی تھیں۔ 350ھ میں اسی قصر شاہی میں عبدالرحمٰن الثالث کا انتقال ہوا۔ اس کی وفات کے بعد اس کی چھوڑی ہوئی چیزوں میں ایک کاغذ ملا۔ اس میں سلطان نے اپنے ان دنوں کا حال خود اپنے قلم سے لکھا تھا جو غم سے خالی تھے۔ مگر پچاس سالہ دور حکومت میں ایسے بے فکری کے ایام کی تعداد صرف چودہ دن تھی۔

سلطان کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ا بن عبدالرحمن قرطبہ کے تخت پر بیٹھا۔ قصر الزہراء جو اس کے باپ نے بے پناہ محنت اور لاتعداد دولت کے ذریعہ بنایا تھا اس کو وراثت میں مل گیا۔ اس نے اپنا شاہی لقب المستنصر باللہ اختیار کیا۔

الحکم نے پندرہ سال تک نہایت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی۔ مگر اس کے بھی آخری ایام مایوسی کے ایام تھے۔ کیوں کہ آخری زمانہ میں وہ مفلوج ہو گیا اور فالج کی حالت ہی میں 366ھ میں قرطبہ میں اس کا انتقال ہو گیا (توفي بقرطبة مفلوجاً) الاعلام للزرکلی، جلد 2، صفحہ 267۔

قصر الزہراء نہایت خوبصورت ہونے کے ساتھ بہت بڑا تھا۔ اسی لیے اس کو مدینتۃ الزھراء کہا جاتا تھا ۔ اس میں تفریح اور عیش کے تمام اسباب اکٹھا کیے گئے تھے۔ وہ چالیس سال میں بن کر تیار ہوا تھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس کے جلد ہی بعد زوال شروع ہوا اور تعمیر کے بعد چالیس سال سے بھی کم مدت میں وہ کھنڈر ہو کر رہ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ قاضی منذر نے اس کی بابت یہ شعر کہے تھے کہ اے زہراء کو بنانے والے جو اپنے وقت کو اس میں غرق کیے ہوئے ہے، کیا تم ٹھہر کر غور نہیں کرتے۔ وہ کتنا زیادہ خوبصورت ہے، بشرطیکہ اس کی رونق پژمردہ نہ ہوتی:

لَوْ لَمْ  تكُنْ زهْرَتُها تَذْبُلُ                       أوقاتَهُ  فيها   أما   تُمْهِلُ

للهِ  ما أحسنَها  رَوْنَقاً                               لَوْ لَمْ تكُنْ زهْرَتُها تَذْبُلُ

اندلس میں عربوں نے جو سیاسی نظام قائم کیا وہ اس طرح تھا کہ ایک ان کا مرکزی سلطان یا خلیفہ ہوتا تھا اور مختلف علاقائی حصوں میں ماتحت امیر ہوا کرتے تھے جن کو آج کل کی زبان میں گورنر کہا جا سکتا ہے۔ ابتداءًکئی سو سال تک عربوں میں سے امراء مقرر کیے جاتے تھے۔ کیوں کہ یہ خیال تھاکہ وہ ہم نسل ہونے کی بنا پر زیادہ قابل اعتماد ثابت ہوں گے۔

مگر اس دنیا میں ہمیشہ ہر دوسری چیز پر انٹرسٹ فائق ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ سیاسی انٹرسٹ نے ان امراء کے اندر بغاوت کا رجحان پیدا کیا۔ ہر عرب اپنے علاقہ کو مرکز سے الگ کر کے خودمختاری کا خواب دیکھنے لگا ۔ اس کے نتیجہ میں مرکزی سلطان اور امراء کے درمیان لڑائیاں جاری ہو گئیں۔

عبدالرحمٰن الثالث نے اس پالیسی کو بدلا۔ اس نے عرب امراء کا زور توڑنے کے لیے بربر قبائل میں سے امیر اور وزیر مقرر کرنا شروع کیا۔ ابتداء میں یہ لوگ بہت وفادار رہے۔ کیوں کہ امیر اور وزیر کے عہدے ان کی توقعات سے بہت زیادہ تھے۔ مگر دھیرے دھیرے جب وہ دولت اور اقتدار سے آشنا ہو گئے تو ان کے ذہن میں بھی بغاوت کے خیالات پرورش پانے لگے۔ عبدالرحمٰن الثالث کی زندگی تک تو یہ لوگ دبے رہے۔ مگر اس کی موت کے بعد وہ سب کے سب سرکش بن کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے راجدھانی قرطبہ پر حملے کئے۔ قصر الزہراء کو تباہ کر ڈ الا۔

ہر شہر اور ہر علاقہ کا امیر مرکز کا باغی ہو گیا۔ حتیٰ کہ اندلس میں تقریباً دو درجن چھوٹی چھوٹی سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ جن کو الگ الگ فتح کرنا عیسائیوں کے لیے آسان ہو گیا۔

سرکشی اور بغاوت کا تعلق عرب اور غیر عرب سے نہیں ہے، اس کا تمام تر تعلق انٹرسٹ سے ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی اپنے انٹرسٹ کی طرف دوڑتا ہے۔ اسی سے انتشار اور بغاوت کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے روکنے والی چیز صرف تقویٰ ہے اور ایسا تقویٰ کسی بہت خوش نصیب آدمی ہی کو ملتا ہے جو انٹرسٹ کے خلاف اس کے لیے چیک بن جائے۔

روایت کو توڑنے سے کتنی بڑی خرابی آتی ہے، اس کی بہت سی مثالیں اسپین کی مسلم تاریخ میں موجود ہیں۔ مثلاً سلطنت غرناطہ کا تیسرا حکمراں محمد مخلوع تھا۔ اس کو اس کے بھائی نصر بن محمد نے 710ھ میں قتل کرا دیاتاکہ اس کا کوئی سیاسی رقیب باقی نہ رہے۔ مگر یہ جان کے احترام کی روایت کوتوڑنا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد حکمرانوں کے قتل کا لمبا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس کے بعد سلطان ابو الولید کو اس کے بھتیجے نے 725ھ میں قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد سلطان محمد غرناطہ کے تخت پر بیٹھا۔ اس کو بھی اس کے رشتہ داروں نے 733ھ میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد سلطان یوسف کو حاکم بنایا گیا۔ مگر وہ بھی 755ھ میں نیزہ مار کر ہلاک کردیا گیا۔ پھر سلطان اسماعیل تخت نشین ہوا۔ مگر 761ھ میں خود اس کے بھائی نے اس کو قتل کر ڈالا۔ وغیرہ

کسی سماج میں یہ روایت قائم کرنا ہو کہ انسانی جان کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس کو کسی حال میں قتل نہیں کرنا چاہیے، تو یہ روایت ایک لمبی تاریخ کے بعد بنے گی۔ مگر اس روایت کو توڑنے کے لیے کسی مدت کی ضرورت نہیں اور جب کوئی روایت ایک بار توڑ دی جائے تو پھر اس کو ازسرِنو قائم کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ روایت شکنی کے اسی خطرہ سے حدیث میں اس طرح آگاہ کیا گیا تھا:إِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2202)۔ یعنی، میری امت میں جب تلوار باہر آ جائے گی تو وہ اس سے قیامت تک اٹھائی نہیں جائے گی۔

سقوط اندلس پر بہت سے شاعروں نے مرثیے لکھے ہیں۔ ان میں زیادہ تر فریاد و ماتم کا انداز ہے۔ تاہم مجھے ابو علی الحسن بن رشیق کے دو شعر بہت پسند ہیں۔ اس نے کہا کہ اندلس کی سرزمین میں جو چیز مجھے بے لطف کرتی ہے ان میں سے معتمد (جس پر اعتماد کیا جائے) اور معتضد (نہایت مضبوط) جیسے القاب ہیں۔ یہ شاہانہ القاب اسی طرح غیرحقیقی ہیں جیسے کوئی بلّی نتھنے پھلا کر شیر کی صورت کی نقل کرنے لگے:

مِمّا یُزَ ھِّدُنی فی ارضِ اَندَلُس

اسماءُ مُعْتمَد فیہا وَ مُعتَضِدِ

القابُ مملکۃٍ فی غیرِ موضِعِہا

کَالْہِرِّ یَحکِی انتفاخاً صورَۃَ الاسَدِ

یہ دونوں شعرابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں خلافت کی بحث کے تحت نقل کیے ہیں (صفحہ 229) ۔

ایک حاکم کو جب سادہ طور پر امیر المومنین کہا جائے تو اس کے نہ رہنے سے لوگوں میں صرف یہ احساس پیدا ہو گا کہ ہمارا سیاسی خاکہ نہ رہا۔ لیکن اگر اس کو جہاں پناہ اور محافظ اسلام جیسے القاب سے یاد کیا جانے لگے تو اس کے ہٹنے کے بعد لوگوں کو ایسا محسوس ہو گا کہ وہ آخری طور پر لٹ گئے ۔ اب ان کے پاس قیام حیات کے لیے کچھ باقی نہیں رہا۔

مسلم اسپین صرف تمدنی ترقی ہی کی مثال نہیں تھا۔ اسی کے ساتھ وہ رواداری کی بھی نہایت اعلیٰ مثال تھا۔ عرب اپنے مزاج کے اعتبار سے نہایت فیاض اور روادار واقع ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ وہاں کے کام کی نوعیت یہ تھی کہ مسلم اہل علم کے ساتھ یہودی اور عیسائی اہل علم اور فن کار بھی مساوی طور پر شریک رہتے تھے۔ اس طرح اشتراک عمل کے ماحول نے باہمی رواداری کا ماحول بھی اپنے آپ پیدا کر دیا تھا۔

فرانسیسی مستشرق رینان (Renan) نے ابن رشد پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سائنس اور لٹریچر کے ذوق نے دسویں صدی میں دنیا کے اس خصوصی گوشہ میں رواداری کا ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ موجودہ زمانہ میں مشکل سے کہیں مل سکتا ہے۔ مسیحی، یہودی اور مسلمان ایک ہی زبان (عربی) بولتے تھے ۔ ایک ہی گیت گاتے تھے۔ ایک ہی طرح ادبی اور علمی مطالعہ میں حصہ لیتے تھے۔ وہ تمام رکاوٹیں جو لوگوں کو الگ الگ کرنے والی ہیں، وہ سب وہاں ختم کردی گئی تھیں۔ تمام کے تمام لوگ ایک مشترک تہذیب کے لیے مل کر کام کرتے تھے :

The taste for science and Literature had, by the tenth century, established, in this privileged corner of the world, a toleration of which modern times hardly offer us an example.

اب سوال یہ ہے کہ جب مسلم اسپین میں اتنا زیادہ رواداری کاماحول تھا، پھر کیوں ایسا ہوا کہ وہاں کے مسیحی باشندے مسلمانوں کے دشمن ہو گئے اور ان کو وحشیانہ طور پراپنے ملک سے نکالنا شروع کر دیا۔ اس کا سبب جو اس سفر کے بعد میرے علم میں آیا وہ یہاں کے مذہبی طبقہ کا جنون تھا۔

اصل یہ ہے کہ مسلم اسپین کے روادارانہ ماحول کا یہ نتیجہ ہوا کہ اسپین کے مسیحی باشندے خودبخود کثرت سے مسلمان ہونے لگے۔ بہت سے لوگ جنہوں نے اپنا مذہب نہیں بدلا، انہوں نے مسلمانوں کی تہذیب اختیار کر لی۔ چنانچہ ان کو مستعرب (Mozarab) کہا جانے لگا۔

مسیحی چرچ کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ مسلمانوں کے ذریعہ اسپین میں علوم کے دروازے کھلنا، زراعت، صنعت، تعمیرات اور دوسرے شعبوں میں غیر معمولی ترقی، سماجی زندگی میں انصاف اور رواداری کا آنا، اس قسم کی تمام مثبت چیزیں ان کے لیے غیر اہم بن گئیں ۔ ان کو صرف یہ یاد رہا کہ ان کے ہم مذہبی تیزی سے غیر مسیحی تہذیب کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

چنانچہ انہوں نے اسپین کے مسیحیوں کو مسلمانوں سے روکنا شروع کیا۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے مسلمانوں اور مسیحیوں میں دوری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ آخر میں انہوں نے وہ مجنونانہ تدبیر اختیار کی جس کو عام طور پر رضاکارانہ شہادت (voluntary martyrdom) کہا جاتا ہے (ہسٹری آف دی عربس، ایڈیشن 1970، صفحہ 516)۔

انہوں نے مسلمانوں کی نفسیات کا مطالعہ کر کے یہ نکالا کہ مسلمان اپنے پیغمبر کے خلاف باتوں کو سن کر بگڑ جاتے ہیں اور ایسے آدمی کو قتل کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے سڑکوں پر نکل کر علی الاعلان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی اور بدگوئی شروع کر دی۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان مشتعل ہو کر انہیں قتل کر ڈالیں اور اس طرح مسلمانوں کو بدنام کرکے مسیحیوں کو اسلام اور مسلمانوں سے متنفر کردیا جائے۔

اس انوکھی تدبیر کا چیمپئن اسپین کا بشپ ایولو جیس (Eulogius) تھا۔ اس نے قرطبہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بار بار علی الاعلان سب و شتم کیا۔ اس کے بعد علماء کے فیصلہ کے مطابق، سلطان عبدالرحمٰن دوم نے 11 مارچ 859ء کو اسے برسرعام قتل کرا دیا۔

اس طرح ایک کے بعد ایک مسیحی چرچ کے افراد عوامی مواقع پر آ کر شتم رسول کا فعل کرتے رہے   اور اس کے نتیجہ میں مسلم تلوار سے قتل کیے جاتے رہے۔ یہ واقعہ نویں صدی عیسوی میں قرطبہ میں پیش آیا جو اس وقت مسلم اسپین کا مرکز تھا۔ یہ عقوبت جس کے اسباب خود مسیحی لوگوں نے پیدا کیے تھے، آخر کار 53 مسیحیوں کے قتل تک جا پہنچی :

This persecution, provoked by the Christians themselves, took a tool of 53 victims. (EB. 17/415)

اس قسم کے مجنونانہ واقعات نے اسپین کے مسیحیوں، خاص طور پر وہاں کے مذہبی طبقہ کے دل میں مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت پیدا کر دی۔ یہاں تک کہ چرچ کے لیے آسان ہو گیا کہ وہ اسپین سے مسلمانوں کے اخراج عام کا فتویٰ جاری کر سکے۔

حکیم احمد شجاع صاحب کا خیال تھاکہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں علوم عصریہ کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے علامہ اقبال کو خط لکھا۔ اقبال نے انہیں جواب دیا کہ ان مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو۔ اگر یہ ملاّ نہ رہے تو ہندوستانی مسلمانوں کا وہی حال ہو گا جو اندلس میں آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود وہاں کے مسلمانوں کا ہوا (الفرقان، لکھنؤ، نومبر ۔دسمبر 1994، صفحہ 23) ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اقبال نے یہ بالکل الٹی بات کہی۔ اندلس جیسا حال کسی مسلم قوم کا اس وقت ہوتاہے جب کہ اس کے علماء اجتہاد کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں اور اجتہاد کی صلاحیت سے محرومی اس وقت آتی ہے جب کہ وہ وقت کے تقاضوں سے بے خبر ہو گئے ہوں۔

اندلس کے اصحاب چرچ نے جب ’’رضاکارانہ شہادت‘‘ کا فتنہ کھڑا کیا، اس وقت وہاں کے علماء اگر اجتہادی صلاحیت کے حامل ہوتے اور مسیحی دنیا کے حالات سے پوری طرح باخبر ہوتے تو وہ فتویٰ دیتے کہ یہ چرچ کی ایک نہایت گہری سازش ہے۔ اگر ہم ان کو قتل کریں تو ہم خود ان کے مقصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اس لیے ہم کو انہیں قتل نہیں کرنا ہے بلکہ حکمت کے ساتھ ان کو ناکام بنا دینا ہے اور پھر وہ چرچ کی سازش کا توڑ اس طرح کرتے کہ اس کے جواب میں وہ تعارف اسلام کی پرامن مہم زور و شور کے ساتھ چلا دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مسیحی عوام چرچ سے متنفر ہو کر تعلیمات محمدی کی طرف مائل ہو جاتے اور اتنی تیزی سے اسلام قبول کرتے کہ چرچ کی سازش برعکس طور پر اندلس میں مسلمانوں کی مزید تقویت اور استحکام کا سبب بن جاتی۔

علماء کی حکیمانہ تدبیر چرچ کے پادریوں کو عوام کی نظرمیں دیوانہ کا درجہ دے دیتی۔ مگر ان کی ناقص رہنمائی نے ان پادریوں کو اندلس کے مسیحیوں کی نظر میں شہید اور ہیرو کامقام عطا کر دیا اور پھر وہ کچھ پیش آیا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

ایک یورپی اسکالر (مستشرق) نے اسپین میں مسلم سلطنت کے زوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اسپین میں داخل ہوئے تو ابتدائی مرحلہ میں طارق اور نصیر نے بغداد کی مدد سے یہاں کی مسیحی فوجوں پر فتح حاصل کی تھی۔ مگر آخری مرحلہ میں مسیحی قوتوں کے مقابلہ میں وہ اپنے مرکز کی مدد سے محروم رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اندلس میں قائم ہونے والی مسلم خلافت بغداد کی خلافت کی حریف بن گئی تھی۔ اس نے کبھی بھی بغداد کی مرکزی خلافت سے مصالحت کی کوشش نہیں کی :

Raval caliphate of Cordova never reconciled itself to the central caliphate of Baghdad.

یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ عبدالرحمن بن معاویہ اموی جب عباسیوں کی دار و گیر سے بھاگ کر اندلس پہنچا تو اس وقت کے امیرانِ اندلس خطبۂ جمعہ میں بغداد کے خلیفہ کا نام لیتے تھے۔ عبدالرحمن نے ابتدامیں ایسا ہی کیا۔ مگر بعد کو اس نے خطبہ میں بغداد کے عباسی خلیفہ کا نام لینا بند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا اس نے خاندان بنو امیہ کے ایک شخص عبدالملک بن عمرنے اندلس میں اپنی حکومت قائم کرنے کے سلسلہ میں عبدالرحمٰن کی مدد کی تھی

وَهَذَا عَبْدُ الْمَلِكِ هُوَ الَّذِي أَلْزَمَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بِقَطْعِ خُطْبَةِ الْمَنْصُورِ وَقَالَ لَهُتَقْطَعُهَا وَإِلَّا قَتَلْتُ نَفْسِي! وَكَانَ قَدْ خَطَبَ لَهُ عَشَرَةَ أَشْهُرٍ، فَقَطَعَهَا (الکامل فی التاریخ، جلد 5، صفحہ 188)۔یعنی عبدالملک ہی نے عبدالرحمٰن کو مجبور کیاکہ وہ خلیفہ منصور کا نام خطبہ میں لینا بند کر دے۔ عبدالملک نے کہاکہ تم اس کو بند کرو ورنہ میں اپنے آپ کو ہلاک کر لوں گا۔ چنانچہ عبدالرحمٰن نے اس کا خطبہ پڑھنا بند کر دیا حالاں کہ دس مہینہ تک اس نے خلیفہ بغداد ہی کا خطبہ پڑھا تھا۔

خلیفہ المنصور کو یہ خبر پہنچی تو وہ سخت غضب ناک ہوا۔ اس نے اندلس پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد سے آخر تک بغداد کی خلافت اور اندلس کی مسلم ریاست کے درمیان معاونت کے بجائے رقابت کارشتہ قائم ہو گیا۔ یہ رقابت صرف اس وقت ختم ہوئی جب کہ خود اندلس کی مسلم سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

دکتور حسین مونس کا سفرنامہ حدیث الفردوس الموعودرحلة الأندلس  کے نام سے 1963ء میں جدہ سے چھپا تھا۔ وہ ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ادبی اور جذباتی انداز میں ہے۔ چنانچہ وہ خود لکھتے ہیںلان موضوعہ یمس عاطفۃ المسلم و وجدان العربی (صفحہ 9)۔ کیوں کہ اندلس کا موضوع مسلمانوں بطور خاص عربوں کے جذبات و احساسات سے جڑا ہوا ہے۔

مصنف نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اہل اسپین ہم سے ایک بالشت زمین بھی سخت معرکہ اور دوطرفہ اموات کے بغیر حاصل نہیں کر سکے۔ پھر کیسے یہ کہا جاتا ہے کہ عرب اس زمانہ میں کمزور ہو گئے تھے۔ ان پر عیش پسندی چھا گئی تھی۔ پھر جواب دیتے ہیں کہ جو ہوا وہ یہ تھا کہ قسمت نے اندلس میں ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ڈھائی صدیوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں اٹھا جو قیادت اور سیاست اور تدبیر کا جامع ہو (الذی حدث ھو ان الحظ خاننا  فی  الاندلس ۔ خلال ھٰذین القرنین و نصف القرن لم یظہر رجل واحد جامع لصفات الزعامۃ والقیادۃ والسیاسۃ والتدبیر) صفحہ 166۔

اس جواب کے بعد دوبارہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرڈھائی سو سال میں کیوں قائدانہ اوصاف کے لوگ پیدا نہیں ہوئے، جب کہ اس سے پہلے بار بار ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ کا تعلق دور زوال سے تھا نہ کہ افراد کی عدم پیدائش سے۔ یہ زوال ہر سلطنت اور ہر قوم پر آتا ہے۔ اِس دنیا میں کوئی بھی اس قانون فطرت سے مستثنیٰ نہیں۔

لکھنؤ کے عربی جریدہ الرائد (10-26 رمضان 1412ھ) میں الاستاذ انور الجندی کا ایک مضمون نقل کیا گیا تھا جس کا عنوان تھاھذا  واجبنا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہم مسلمانوں کی آج شدید ترین ضرورت ہے کہ ہم اندلس کے المیہ کا مطالعہ کریں، کیوں کہ ہم پچھلے چالیس سال سے پھر اندلس کے مشابہ بحران میں مبتلا ہو گئے ہیں (ونحن المسلمین الیوم      فی اشد الحاجۃ الی دراسۃ مأساۃ الاندلس لاننا منذ اربعین سنۃ قد وقعنا فی ازمۃ قریبۃ الشبہ بہا)۔

اس کے بعد مضمون میں کہا گیا تھا کہ آج دوبارہ ایسے حالات درپیش ہیں جو ہم کو اندلس جیسے المیہ میں مبتلا کر دیں۔ کیوں کہ عالمی صہیونیت ہم کو وہیں دھکیل دینے کے لیے سرگرم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو مقدس جہاد کے لیے تیار کریں (لابد ان یقف المسلمون موقف الاستعداد و ان یدر بوا الاجیال علی الجہاد المقدس) ۔

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے معاملہ کو جہاد و قتال کا مسئلہ بتاناسراسر نادانی کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فقدانِ جہاد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ فقدانِ تقویٰ کا مسئلہ ہے۔ قرآن میں بار بار بتایا گیا ہے کہ خدا متقیوں کے ساتھ ہے(التوبہ، 9:36) ۔اگر تمہارے اندر تقویٰ ہو تو مخالفین کی سازشیں تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائیں گی (آل عمران، 3:120) ۔گویا کہ تقویٰ دفاع کے لیے ایک موثر مددگار ہے۔

تقویٰ کا دفاعی قوت ہونا کوئی پراسرار بات نہیں، یہ ایک سادہ فطری حقیقت ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تقویٰ آدمی کے اندر یہ صفت پیدا کرتا ہے کہ کسی کے ساتھ دشمنی ہو تب بھی وہ اس کے بارے میں منصفانہ انداز میں سوچے، تب بھی وہ انصاف ہی کی بات کہے (المائدہ، 5:8)۔ حریف کے بارے میں درست رائے قائم کرنا ہی اس کے مقابلہ میں درست اور کارگر منصوبہ بندی کی واحد ضمانت ہے۔ اس طرح تقویٰ کا تعلق براہ راست طور پر دفاعی تدابیر سے جڑ جاتا ہے۔

اس سلسلہ میں انڈیا کے ہندوئوں کی مثال لیجیے۔ ذاتی طور پر میں ہندوئوں کو مسلمانوں کا حریف نہیں سمجھتا بلکہ ہندوئوں کو مسلمانوں کا ہم قوم سمجھتا ہوں۔ تاہم بہت سے مسلم رہنما اور مسلم دانشور ہندوئوں کو اپنا حریف سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف دفاعی کوشش میں مصروف ہیں۔ مگر ان کی کوششیں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقدانِ تقویٰ کی وجہ سے وہ ہندو مسئلہ کا صحیح اندازہ کرنے میں ناکام رہے۔

موجودہ زمانہ میں تقریباً تمام مسلم پریس بغیر استثناء ہندوئوں کو ظالم اور متعصب کے روپ میں دکھانے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر مکہ کے ہفت روزہ اخبار العالم الاسلامی کے شمارہ 17 رجب 1415ھ (19 دسمبر 1994ء) میں ہندستانی مسلمانوں کی فراہم کردہ ایک رپورٹ چھپی ہے۔

اس کا عنوان ہے کہ انڈیا کے ہندوئوں کا یہ منصوبہ ہے کہ وہ دہلی کی مسجدوں کو کھیل کود کے میدان میں تبدیل کر دیں :

مخطط ہندوسی لتحویل مساجد  دلھی اِلی ملاعب

اس رپورٹ میں دوسری مذموم کوششوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندستان کی ہندو حکومت یہ ارادہ رکھتی ہے کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر روک لگانے کے لیے مردوں کو جبری طور پر بانجھ بنا دے (اِن حکومۃ الھند ۔ الہند وکیۃ۔ تعمد من اجل الحد من زیادۃ عددالمسلمین فی الھند الی التعقیم الاجباری للرجال)۔

یہ بات سراسر لغو اور بے بنیاد ہے ۔ مگر آج تمام مسلم دانشور اور رہنما ہندوئوں کے بارے میں اسی قسم کے غیر واقعی اندازہ کا شکار ہیں اور جو لوگ اپنے ’’حریف‘‘ کے بارے میں غیر واقعی اندازہ کا شکار ہو جائیں وہ ان کے مقابلہ میں کامیاب منصوبہ بھی کبھی نہیں کرسکتے۔

اس کانفرنس میں مسلمان بھی قابلِ لحاظ تعداد میں تھے۔ انڈیا اور پاکستان سے ایک ایک آدمی تھے۔ اس کے علاوہ مراکو، تیونس، مصر، سوڈان، سعودی عرب، فلسطین، ترکی وغیرہ سے کافی لوگ آئے تھے۔ بہت سے پہلوئوں سے ان میں کافی فرق تھا۔ مگر ایک بات میں تقریباً سب کی سوچ ایک تھی۔ ہر ایک کے نزدیک موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا کیس مظلومیت کا کیس تھا۔ ہر ایک کے نزدیک وہ غیر مسلم قوموں کی سازش اور زیادتی کا شکار ہو رہے تھے۔

ایک صاحب سے میں نے کہاکہ میں حیران ہوں کہ آپ لوگ کیوں کر اس انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ تو خود دین اسلام کی تردید ہے۔ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس دین کی اور اس کے حاملوں کی حفاظت فرمائے گا۔ پھر یہ تو ہمارے عقیدہ کے خلاف ہو گا کہ ہم یہ خیال کریں کہ خدا نے کسی صلیبی یا صہیونی یا استعماری طاقت کو اس بات کاکھلا موقع دے دیا ہے کہ وہ ہم کو تباہ کر ڈالیں۔

آپ لوگوں کو اس کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ کچھ متعصبین نے اندلس میں مسلمانوں کا خاتمہ کرنا چاہا تھا مگر وہ ان کا خاتمہ نہ کر سکے۔ اسلام دوبارہ یہاں نئی طاقت کے ساتھ زندہ ہو گیا۔ اسی طرح ساری دنیا میں مخالفین کی سازشیں ناکام ہو کر رہ جائیں گی۔

میں نے کہا اندلس کے تجربہ کے ذریعہ خدا ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اے پیروان محمد، تم لوگ عزم اور ہمت کے ساتھ توحید کے مشن کو دنیا میں پھیلائو۔ میں لوگوں کے مقابلہ میں تمہاری یقینی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں ( وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ)5:67 ۔ یعنی، اللہ تم کو لوگوں سے بچائے گا۔

غرناطہ اسلام کی توسیع کی تاریخ میں ایک علامتی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریز مورخ ٹامس کار لائل نے اپنے لیکچر (8 مئی 1840ء) میں پیغمبر اسلام کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ گویا ایک چنگاری اوپر سے گری، ایک ایسے ملک میں جو بظاہر تاریک اور ناقابل لحاظ تھا، مگر دیکھو، یہ ریت اس طرح جل اٹھی کہ دہلی سے غرناطہ تک سب روشن ہو گیا :

It is not as if a spark had fallen, one spark, on a world of what seemed black unnoticeable sand; but lo, the sand proves explosive powder, blazes heaven-high from Delhi to Grenada. (p. 71)

اس ’’روشنی‘‘ کو جو لوگ سیاسی اقتدار کے معنی میں لیتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ روشنی ایک مدت تک جلنے کے بعد بجھ گئی اور صدیوں سے وہ جزئی یا کلی طور پر بجھی ہوئی ہے، مگر یہ معیار درست نہیں۔ میں اس روشنی کو فکری اور روحانی معنی میں لیتا ہوں۔ اس لیے مجھ کو آج بھی یہ روشنی جلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، نہ صرف دہلی سے غرناطہ تک، بلکہ زمین کے اِس سرے سے اُس سرے تک۔

جو لوگ جدید حالات کے پس منظر میں اندلس کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس موضوع پر 1991ء میں عربی میں ایک معلوماتی کتاب چھپی ہے۔ 160 صفحہ کی اس کتاب کا نام و پتہ یہ ہے:

الصحوۃ الاسلامیۃ فی الاندلس الیوم، تالیف د ۔ علی المنتصر الکتانی مرکز البحوث والمعلومات، ص ب 893، الدوحۃ، قطر

مصنف جو اسپین کے پڑوسی ملک المغرب سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کافی تلاش و تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ہر قسم کے ناموافق حالات کے باوجود اسپین سے مسلمان کبھی ختم نہیں ہوئے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بڑے عجیب واقعات لکھے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ الغرناطی نام کے ایک شخص سے میری ملاقات کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں 5 نومبر 1973ء کو ہوئی۔ اس کی پیدائش برشلونہ میں ہوئی تھی۔ پھر اس نے پاکستان میں 1969ء میں اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے بتایا کہ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو میری دادی نے اپنی موت کے وقت مجھے اپنے قریب بلایا اور سرگوشی کے انداز میں میرے کان میں کہا کہ عیسائی دین ہمارا دین نہیں ہے اور وہ سچا دین بھی نہیں ۔ جب تم بڑے ہو جائو تو اپنے دین کو جاننے کی کوشش کرنا (ان الدین النصرانی لیس دیننا ولیس ھوالدین الحق۔ عند ماتکبر حاول ان تعرف دینک)  صفحہ 88۔

الغرناطی نے بڑے ہونے کے بعد اسپین کی تاریخ کا مطالعہ کیا اور پھر وہ اپنی دادی کی بات کو سمجھ گیا۔ اب اس نے دین اسلام کو جان لیا اور اس پر مطمئن ہو گیا اور پاکستان جاکر اپنے اسلام کااعلان کر دیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اسپین کے بہت سے لوگوں نے اس طرح دوبارہ اپنے اسلام کا اعلان کیا ہے۔

مسلم دانشوروں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ بلاتحقیق بڑی بڑی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ ان کے اس مزاج کا اظہار اسپین کے معاملہ میں بھی بار بار ہوتا رہاہے۔ مثلاً بمبئی کے ماہنامہ البلاغ (فروری 1995ء) میں ایک صاحب اسپین کے تذکرہ کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’ یہ بھی تاریخ کاایک المیہ ہے کہ جس اسپین پر مسلمانوں نے باضابطہ طور پر 1492ء تک حکومت کی، وہاں آج ایک مسلمان نہیں‘‘ (صفحہ 53)۔ مگر جیسا کہ اوپر معلوم ہوا، یہ سراسر بے بنیاد بات ہے۔

اس قسم کی خلاف حقیقت باتیں مختلف عنوانات کے تحت اتنی زیادہ چھپی ہیں کہ اس نے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو غیر ضروری طور پر بے ہمتی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ اس قسم کی منفی باتوں کی مسلسل تکرار نے موجودہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ بٹھا دیا ہے کہ ساری دنیا ان کی دشمن ہے۔ ہر طرف ان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ ہر قوم ان کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

قوموں کی اس وہمی تصویر نے مسلمانوں سے ان کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ان سے چھین لیا ہے اور وہ دنیا کی قوموں کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ ہے۔ دعوت مسلمان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ مگر دعوت کا عمل انجام دینے کے لیے مدعو کے حق میں خیر خواہی درکار ہے، مسلمانوں کے دل میں دوسری قوموں کے لیے خیر خواہی نہیں، اس لیے ان کے یہاں اسلام کی داعیانہ طاقت کا استعمال بھی نہیں۔

عجیب بات ہے کہ اسپین کے سفر سے کچھ پہلے ہندستان کے ایک مشہور عالم اور بزرگ کا خط (4 اکتوبر 1994ء) مجھ کو ملا۔ موصوف نے اس میں مجھ کو کچھ مشورے دیے تھے اور آخر میں اپنے مشورہ کی اہمیت و ضرورت کو بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’....اس لیے کہ اس ملک کو اندلس ثانی بنانے کی بڑی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘

ہندستان اور اندلس دونوں سے تفصیلی واقفیت کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات دہرانا غلط فہمی پر مبنی ہے۔ جہاں تک اندلس کا تعلق ہے، وہاں ہر قسم کی جارحیت کے باوجود کبھی بھی اسلام یا مسلمانوں کا وجود ختم نہیں کیا جا سکا تھا اور اب تو وہاں دوبارہ اسلام اس شان کے ساتھ آ رہا ہے کہ الصحوۃ الاسلامیۃ فی الاندلس الیوم جیسے ٹائٹل کے ساتھ کتابیں چھپ رہی ہیں۔ پھر جب خود اندلس اول نہیں بن سکا تو اندلس ثانی آخر کیوں کر بن جائے گا۔

جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے تو یہاں مسلمانوں کو یقیناً کچھ مسائل کا سامنا ہے مگر یہ مسائل کسی نہ کسی صورت میں ہر جگہ ہیں، حتی کہ مسلم ممالک میں بھی۔ اصل یہ ہے کہ مسائل زندگی کا جزء ہیں، جو کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مسائل کو چیلنج کے روپ میں لیں۔ نہ یہ کہ ’’اندلس ثانی‘‘ کا فرضی خطرہ بتا کر مسلمانوں کو پست حوصلہ کریں۔

دور اول میں مسلمانوں کو پہلے غزوۂ بدر میں فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد غزوۂ احد میں ان کو شکست ہو گئی۔ اس پر لوگوں کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ عسکری یا سیاسی فتح کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں ہے۔ وہ مختلف مصالح کے تحت مختلف قوموں کو باری باری دی جاتی ہے :

 إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (3:140)۔ یعنی، اگر تم کو زخم پہنچا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے اور (فتح و شکست کے) یہ دن ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔

اسپین کی سیاسی شکست کے معاملہ میں اور موجودہ زمانہ میں اس قسم کی دوسری شکستوں کے معاملہ میں ہمارے علماء اور دانشور جس طرح تبصرہ کرتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امت کے اہل علم کا پورا طبقہ اس آیت کو بھول گیا ہے۔ ہمارے تقریباً تمام لکھنے اور بولنے والے اس طرح کی سیاسی شکستوں کو اعدائے اسلام کی سازش کے خانہ میں ڈالے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ قرآن کے مطابق، ایسے تمام واقعات خود خدا کے فیصلہ کے تحت پیش آتے ہیں۔ وہ ایام الاعداء نہیں ہیں بلکہ وہ ایام اللہ ہیں۔

طرزفکر کا یہ فرق بے حد فیصلہ کن ہے۔ سیاسی فتح و شکست کے واقعات کو اگر ایام الاعداء سمجھا جائے تو اس سے فریاد اور احتجاج کا ذہن بنتا ہے۔ جو صرف مزید نقصان کا باعث ہے۔ اس کے برعکس اگر ان واقعات کو ایام اللہ سمجھا جائے تو قوانین فطرت پرغور کرنے کا مزاج بنے گا۔ پیش آنے والے مسئلہ کو ظلم کے بجائے چیلنج کے روپ میں لیا جائے گا۔لوگوں کی ساری توجہ اپنی کمیوں کو دور کرنے اور ازسرِنو زیادہ موثر منصوبہ بندی میں لگ جائے گی۔ یہاں تک کہ ہاری ہوئی بازی دوبارہ نئی شان کے ساتھ جیت لی جائے گی۔ یہی مطلب ہے  وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (3:139) کا۔ یعنی تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

اُردن کے عربی میگزین الاجنحۃ (مارچ 1990ء) میں ایک بار میں نے ایک مصری خاتون لیمانبیل کا مضمون پڑھا۔ انہوں نے اسپین کا سفر کیا تھا اور وہاں عرب دورکے پر عظمت آثار دیکھے تھے۔ انہوں نے لکھا تھاکہ یہاںمیں نے تاریخ النصر العربی کو بھی دیکھا اور تاریخ الذل العربی کو بھی۔ مضمون کے مطابق، انہوں نے روکر اپنے آپ سے کہاکہ عرب کی یہ تاریک رات آخر کب تک باقی رہے گی (الیٰ متی سیستمر ھذا اللیل العربی)۔

اس کے برعکس راقم الحروف نے جب اسپین کا سفر کیا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اسپین میں مسلم رات ختم ہو گئی اور وہاں صبح کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہر واقعہ میں تاریک رخ بھی ہوتا ہے اور روشن رخ بھی۔ آپ کے اندر منفی طرز فکر ہو تو آپ تاریک رخ کو دیکھیں گے اور مثبت طرز فکر ہو تو روشن رخ کو۔

1976ء کے موسم خریف میں حکومتِ اسپین کے زیر انتظام ایک پانچ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس کا عنوان تھا:المؤ تمر الأول لتاریخ اسبانیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسپین کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی اس پہلی عالمی کانفرنس کے ایجنڈا میں جن شہروں کو خصوصی بحث و تحقیق کاموضوع بنایا گیا، ان میں نہ میڈرڈ کا نام تھا، جو موجودہ اسپین کا سیاسی مرکز ہے، نہ برشلونہ شامل تھاجو اسپین کے ثقافتی مرکز کی حیثیت رکھتاہے بلکہ صرف ان شہروں کے تاریخی و تہذیبی پہلوئوں کو نمایاں کیا گیا جن کا تعلق مسلم اسپین سے ہے یعنی اشبیلیہ، قرطبہ، غرناطہ اورمالقہ وغیرہ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود حکومت اسپین کی نظرمیں اپنے ملک کی تاریخ بے معنی اور بے وقعت ہو جاتی ہے اگر اس سے اسلامی دور کو حذف کردیا جائے۔

مذکورہ کانفرنس میں ایک بڑا عبرت انگیز واقعہ پیش آیا، اس کو ایک عرب دکتور مصطفی الشکعتہ نے بیان کیاہے، جو اس میں شریک تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شکاگو یونیورسٹی کے نمائندہ ڈاکٹر اسمتھ (Dr Smith) نے کانفرنس میں جو مقابلہ پیش کیا وہ اول سے لے کر آخر تک اسلام اور مسلمانوں کے اوپر جارحانہ حملہ تھا۔ حتیٰ کہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے انہوں نے پرجوش طور پر کہا کہ اسپین کے باشندوں نے جو سب سے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے یہاں سے عربوں اور مسلمانوں کو باہر نکال دیا (اعظم عملٍ قام بہ الا سبان ھوطرد العرب والمسلمین من إسبانیا) مناہج المستشرقین، الریاض 1985،2276

اس کے بعد میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مونتایث کھڑے ہوئے اور نہایت پرزور الفاظ میں امریکی مستشرق کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ تاریخ کو پڑھا ہے اور نہ اس کو سمجھا ہے۔ اگر وہ آٹھ سو سال نہ ہوتے جو اسپین نے اسلام اور اسلامی تہذیب کے سایہ میں گزارے ہیں، تو ہمارا ملک کبھی تہذیبی تاریخ کے دورمیں نہ داخل ہوتا۔ انہیں آٹھ صدیوں کی بدولت اسپین اس قابل ہوا کہ اپنے پڑوس کے یورپی ملکوں میں علم و ثقافت کی روشنی پھیلائے جو اُس وقت جہالت، ناخواندگی اور پسماندگی کے اندھیرے میں بھٹک رہے تھے :

إنہ لم یقرأ التاریخ ولم یفہمہ …إسبانیا ماکان لہا أن تدخل التاریخ الحضاری لولاالقرون الثمانیۃ التی عاشتہا فی ظلّ الاسلام و حضارتہ، وکانت بذلک باعثۃ  النور والثقافۃ إلی الاقطار الأ وروبیۃ المجاورۃ المتخبطۃ آنذاک فی ظلمات الجہل والاْ میۃ والتخلف (کتاب مذکور صفحہ 277)۔

ڈاکٹر مونتایث مشہور اسپینی مستشرق فرانسیسکو کو ڈیرا زیڈین (Francisco Codera Zaydin) کے شاگرد ہیں۔ کوڈیرا کا سال پیدائش 1836ء اور سال وفات 1917ء ہے۔ وہ قدیم اسلامی تہذیب و روایات اور عربوں کی محبت سے سرشار تھا (لقد اُشرب کودیرا حبَّ العرب) کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق ایسے خانوادہ سے تھا جو اصلاً عرب تھا۔ جیسا کہ اسپین کے اکثر گھرانوں کا حال ہے۔ عربی زبان سے اس کو اتنا شغف تھا کہ وہ اپنے نام کا تلفظ عربی لہجہ میں اس طرح کرتا تھاالشیخ فرنسیشکو قدارۃ زَیْدِین۔ امیر شکیب ارسلان اس کو کوڈیرا کے بجائے قدیرۃکہتے تھے۔

کوڈیرا نے اپنی عمر کا بڑا حصہ میڈرڈ یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے گزارا۔ وہ نہایت ذی علم، اعلیٰ ادبی ذوق اور انصاف پسند طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے اپنے زیر تربیت نوجوانوں میں اسپین کی مسلم تاریخ کے مطالعہ کا شوق پیدا کیا۔ خود اس نے اس موضوع پر درجنوں ضخیم کتابیں اسپینی اور انگریزی زبانوں میں لکھی اور اپنے بعض طلبہ کے تعاون سے بہت سے قیمتی عربی مخطوطات کی تحقیق کر کے ان کو جدید معیار کے مطابق (Bibliofico Arabico Hispana)کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کی ذہنی وسعت اور انصاف پسندی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ایک بار اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط ہو گا کہ اسپین کو یورپی بنانے کی کوشش کی جائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ یورپ کو عربی بنایا جائے (إن من الخطأ العمل علی ’’اَوْرَبۃ‘‘ إسبانیا، بل الواجب ھو ’’تعریب‘‘ أوروبا

کوڈیرا کے زیر اثر اسپین میں اسکالروں کاایک بڑا گروہ تیار ہوا۔ عربوں اور مسلمانوں کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر حد درجہ انصاف پسندی اور قدر دانی پر مبنی ہے۔ یہ لوگ اپنے استاد کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’بنی کوڈیرا‘‘ کہتے ہیں۔ جس سے عربی زبان کے ساتھ ان کے شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔

میڈرڈ کے شمال مغرب میں ایک شہر اِل اِسکوریال (El Escorial) ہے۔ یہاں سولہویں صدی کا ایک پرانا چرچ اور ایک تاریخی محل ہے۔ تاہم اس کی عالمی شہرت کا بڑا سبب اس کی وہ عظیم شاہی لائبریری (مکتبۃ الاٍ سکوریال الملکیۃ)ہے، جس کا شماردنیا کے قدیم اور مالدار ترین کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ اس لائبریری میں نادر عربی مخطوطات کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ حتیٰ کہ یہاں پر بعض ایسے عربی مخطوطات محفوظ ہیں جو دنیا کے کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی کتب خانے میں موجود نہیں۔ مثال کے طور پر اسپینی فقیہ اور شاعر ابو اسحاق الالبیری کا دیوان صرف اسکوریال میں ہے۔ جس کا کیٹلاگ نمبر 404 ہے۔ یہاں کے عربی مخطوطات کی کئی ببلوگرافیاں تیار کی گئی ہیں۔ ان میں سے مندرجہ ذیل دو زیادہ معروف ہیں:

1. Bibliotheca Arabic- Hespana Escurialens by Miguel Casiri (Spanish)   

2. Les manuscrits arabes de  I' Escurial by H. Derenbong (French)     

عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ جب عربوں اور مسلمانوں کو اسپین سے نکالا گیا تو ان کی تمام کتابوں کو یا تو جلا دیا گیا یا دریا میں بہا دیا گیا۔ مگر اسکوریال کے کتب خانہ میں قدیم عربی مخطوطات کی موجودگی اس کی کھلی ہوئی تردید ہے۔

اسکوریال سے اسپینی زبان میں ایک مجلہ نکلتا ہے۔ اس کا نام الاسکوریال میگزین ہے۔ اس میں اکثر کسی نادر عربی مخطوطہ کی تحقیق ہوتی ہے یا اندلس کے عرب سلاطین، وزراء، اطباء، شعراء، ادبا ء، فلاسفر اور سائنس دانوں کے بارے میں اسپینی اہل علم اور ریسرچ اسکالرس کے تحقیقی مقالات شائع کیے جاتے ہیں۔

مسجد قرطبہ ایک دریا کے کنارے واقع ہے جس کو وادی الکبیر (Guadalquivir) کہا جاتا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں اس کے حوالے سے دو شعر کہے تھے جو یہاں قابل نقل ہیں:

آب روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

 

دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا

گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا

اقبال کا یہ خواب موجودہ زمانہ میں واقعہ بن رہا ہے۔ اب اسپین میں نئی اسلامی تاریخ بننا شروع ہو گئی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں جس عمل کا آغاز ہو جائے وہ آخرکار اپنی انتہا تک پہنچ کر رہتا ہے۔

اسپین کے سفر پر روانگی سے چند دن پہلے ڈاک سے مجھے ایک کتاب ملی۔ 485 صفحہ کی یہ انگریزی کتاب بمبئی (ہندو ویویک کیندر) سے چھپی ہے۔ اس کا نام ہے اسلام کا خطرہ :

B. N. Jog. Threat of Islam: Indian Dimension,   

I, Purvanchal. Navghar Marg. Bombay 400081

اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ کیونکہ وہ دوسرے مذہب اور کلچر کے ساتھ پرامن طور پر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اسلام کے مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، یعنی اسلام کامکمل خاتمہ۔ اس معاملہ میں ساری دنیا کو اسپین کے نمونہ کو اختیار کرنا ہے۔ اسپین نے اسلام اور مسلمانوں کو مکمل طور پر اپنے یہاں سے خارج کر دیا۔ اسی طرح ہندستان اور دوسرے ملکوں کو چاہیے کہ وہ ان کو اپنے یہاں سے خارج کر دیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔

یہ بات اس مفروضہ پر کہی گئی ہے کہ اسپین سے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے خارج کر دیا گیا ہے۔ حالاں کہ یہ بات واقعہ کے مطابق نہیں۔ پھر جو اسپین خود اسپین میں نہیں بنا وہ دوسرے کسی مقام پر کیسے بن جائے گا۔

مصنف نے بالواسطہ انداز میں اعتراف کیا ہے کہ 1925ء میں آر ایس ایس کی تنظیم اسی خاص مقصد کے لیے بنائی گئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ 70 سال کی لمبی مدت میں آرایس ایس نے کیا کیا۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ 1925ء میں سارے برصغیر ہند میں مسلمانوں کی جو مجموعی تعداد تھی اس سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی آج صرف منقسم انڈیا میں ہے۔ گویا آر ایس ایس کی ساری کوششوں کے باوجود اسلام کا قافلہ برعکس سمت میں سفر کررہا ہے۔

اب بیسویں صدی کے آخر میں جو لوگ اس قسم کی کتابیں چھاپ رہے ہیں وہ صرف نادانی کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اب زمانہ مزید سفر کر کے ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے کہ انسان کو صرف دو قسم کی کتابیں پڑھنے سے دلچسپی ہے— کیریر بنانے والی کتابیں یا تفریحی کتابیں۔ اور مذکورہ بالا کتاب یقینی طور پر ان دونوں میں سے کسی قسم میں نہیں آتی۔

یکم دسمبر کو یہاں سے واپسی کا دن تھا۔ صبح کو فجر کی نماز میڈرڈ کے ہوٹل میں پڑھی۔ مسلم عہد میں میڈرڈ کا علاقہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا۔ میں نے سوچا اگرچہ ہوٹل کے اس کمرہ میں نہیں، مگر جہاں یہ ہوٹل کھڑا ہے، عین ممکن ہے کہ اس زمین پر اللہ کے کسی بندہ نے سجدہ کیا ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہاں کی فضائیں کسی مومن کی آہوں اور آنسوئوں کی امین ہوں۔

مسلم دور حکومت میں میڈرڈ کا نام مجریت (Majrit) تھا۔ یہی لفظ بدل کر اب میڈرڈ بن گیا ہے۔ مسلم عہد کے ایک عالم فلکیات ابو القاسم مَسلَمہ (وفات1007ء) میڈرڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کو المجریتی کہا جاتا ہے۔

دور قدیم میں یہاں مسلمانوں کاایک چھوٹا قلعہ تھا۔ یہ قلعہ اب میڈرڈ میں موجود نہیں۔ مگر آج وہاں اس سے زیادہ شاندار ایک اسلامک سینٹر کھڑا ہوا ہے جو سعودی عرب کے مالی تعاون سے بنایا گیا ہے۔ یہ موجودہ یورپ کا سب سے بڑا اسلامک سینٹر ہے۔ اس کی تعمیر پر 20 ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ وہ 20 ہزار اسکوائر میٹر رقبہ میں واقع ہے۔

قدرتی طور پر میری خواہش تھی کہ میں میڈرڈ کے اس اسلامی مرکزمیں جائوں اور اس کی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھوں۔ مگر چاہنے کے باوجود میں وہاں جا نہ سکا۔ یکم دسمبر کومیڈرڈ سے روانگی کا دن تھا۔ مجھ کو اور کئی دوسرے لوگوں کو صبح کے وقت ایئر پورٹ جانا تھا۔ منتظمین کانفرنس نے ہمارے لیے مشترک سواری کا انتظام کیا تھا۔ مگر میں مشترک سواری میں نہیں بیٹھا۔ اس کے بجائے میں نے یہ کیا کہ کچھ سویرے میں نے ہوٹل چھوڑ دیا اور ایک ٹیکسی لے کر روانہ ہوا۔

ٹیکسی والے سے میں نے کہاکہ تم مجھ کو سیدھے ایئر پورٹ نہ لے جائو،بلکہ اسلامک سینٹر کی طرف سے گزارتے ہوئے ایئر پورٹ لے چلو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ میڈرڈ کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے آخر کار میں وہاں پہنچا جہاں خوبصورت اور عالی شان اسلامی مرکز اسپین کی سرزمین پر کھڑا ہوا ہے۔اس کودیکھ کر عجیب احساس ہوا۔ میں نے سوچا کہ ہندستان میں کچھ مسلم دانشور مسلمانوں کو ڈرا رہے ہیں کہ تمہارے دشمن ہندستان کو تمہارے لیے دوسرا اسپین بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے بجائے ان مسلم دانشوروں کو یہ کہنا چاہیے کہ اے مسلمانو! مطمئن رہو۔ جس دنیامیں پہلا اسپین بھی نہ بن سکا وہاں دوسرا اسپین آخر کیسے بنے گا۔

میڈرڈ کے اسلامی مرکز کے ڈائریکٹر اس وقت ڈاکٹر عبدالعزیز السرحان ہیں۔ انہوں نے رابطۂ عالم اسلامی کے تعاون سے 1995-96ء کے لیے دو سالہ منصوبہ بنایا ہے۔ اس دوران اساتذہ کی تربیت، عربی زبان کی تعلیم، اسلامی مسیحی ڈائیلاگ وغیرہ پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 1999ء میں امام ابن حزم کی یاد میں ایک بڑی کانفرنس کی جائے گی۔

میڈرڈ کے ا س اسلامک سینٹر کا افتتاح 24 ربیع الاول 1413ھ (ستمبر 1991ء) میں ہوا۔ اسپین کے بادشاہ جان کارلوز (King Juan Carlos) نے اس کا افتتاح کیا۔ اس افتتاحی تقریب کی باتصویر رپورٹ المجلۃ(13 اکتوبر 1992ء) میں چھپی تھی۔ المجلہ نے اس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا کہ اسلام کا منارۂ اذان پانچ سو سال کے بعد پھر اسپین میں واپس آتا ہے (المئذنة الاسلامیۃ تعود الی اسبانیا بعد 500 عام)۔

ریاض کے اخبار العالم الاسلامی (4 اکتوبر 1992) نے یہ خبر اس عنوان کے ساتھ شائع کی تھی کہ میڈرڈ میں اسلامی ثقافتی مرکز کا افتتاح اسپین اور مسلمانوں کے لیے فخر کی بات ہے (افتتاح المرکز الثقافی الاسلامی فی مدرید مفخرۃ لاسبانیا و المسلمین)۔ اس سینٹر میں مسجد، ہال، کالج، لائبریری قائم کیے گئے ہیں۔ نیز یہاں سے اسپینی زبان میں لٹریچر اور میگزین شائع کیا جاتا ہے۔ اس کے ہال میں بیک وقت عربی، اسپینی، انگریزی زبانوں میں فوری ترجمہ کا انتظام ہے۔

شاہ اسپین نے (المجلہ کی رپورٹ کے مطابق) اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ اسپین اپنے مسلم ماضی پر فخر محسوس کرتا ہے (اسبانیا تشعر بالفخر بما ضیھا)۔

ہندستان میں کچھ لکھنے اور بولنے والے مسلمان یہ انکشاف کرنے میں مشغول ہیں کہ 1947ء سے پہلے کچھ ہندو لیڈر اسپین گئے۔ اس سفر کا مقصد یہ جاننا تھاکہ اسپین سے کس طرح مسلمانوں کا خاتمہ کردیا گیا،تاکہ آزادی ملنے کے بعد اسی عمل کو دہرا کر ہندستان کو دوسرا اسپین بنایا جاسکے۔

اسپین کی سڑکوں پر چلتے ہوئے مجھے یہ بات مضحکہ خیز حد تک بے معنیٰ نظر آئی۔ ظاہر ہے کہ اسپین سے مسلمانوں کا استیصال کوئی جاری عمل نہیں ہے جس کو کوئی شخص وہاں جا کر دیکھے۔ مسلمانوں کے خلاف جو کچھ بھی ہوا، وہ ماضی کا واقعہ ہے نہ کہ حال کا واقعہ۔ آج کے اسپین میں کہیں بھی کوئی شخص یہ نہیں دیکھ سکتا کہ مسلمانوں کے مفروضہ خاتمہ کے لیے وہاں کیا کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ آج صرف لائبریریوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کو اسپین کے محلوں اور شہروں میں ہوتا ہوا نہیں دیکھا جا سکتا۔

مزید یہ کہ آج کے اسپین میں جو شخص گھومے گا وہ بالکل برعکس تاثر لے کرواپس ہو گا۔ کیوں کہ آج وہ وہاں دیکھے گا کہ عبدالرحمٰن الداخل کو خود اہل اسپین نے دوبارہ تلوار بدست اپنی سرزمین پر کھڑا کر دیا ہے۔ وہ پائے گا کہ آج خود اسپین کی راجدھانی میں نہایت شاندار طور پر نئی مسجد اور نیا اسلامی مرکز بنایا گیا ہے۔ اس طرح آج وہاں جانے والا آدمی جگہ جگہ ایسے واقعات سے دوچار ہو گا جو اس کو بتائیں گے کہ اسپین کی پچھلی نسل نے اگر مسلمانوں کے خلاف زیادتی کی تھی تو اسپین کی موجودہ نسل اس قدیم پالیسی کو چھوڑ کر آج مسلمانوں کا استقبال کر رہی ہے۔ چنانچہ آج اسپین میں مسلمان قابلِ لحاظ تعداد میں موجود ہیں اور آزادانہ طور پر وہاں پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔

صبح 7 بجے ہوٹل سے نکلا۔ میڈرڈ کے مختلف حصوں سے گزرتی ہوئی آخرکار ہماری گاڑی ایئر پورٹ پہنچ گئی۔ میڈرڈ کا ایئر پورٹ دوسرے ترقی یافتہ شہروں کے ایئر پورٹ کے مقابلہ میں کم منظم دکھائی دیا۔ مثلاً یہاں مجھ کو جو بورڈنگ کارڈ دیا گیا اس پر گیٹ کا نمبر لکھا ہوا نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گیٹ نمبر عین بورڈنگ کے وقت مائک پر انائونس کیا جاتا ہے یا مخصوص بورڈ پر لکھ دیا جاتا ہے۔

میڈرڈ سے فرینکفرٹ کے لیے ایبیریا کی فلائٹ نمبر 3508 کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ جہاز میں مطالعہ کے لیے صرف اسپینی زبان کے اخبارات تھے۔ اس لیے میں خلاف معمول دورانِ پرواز کسی اخبار کو نہ پڑھ سکا۔ جہاز مسافروں کو لیے ہوئے تیزی سے فضا میں اڑ رہا ہے اور مجھ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا جو اب اپنی تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ اسپین جانے کا شوق تو یقیناً مجھے تھا مگر مجھ کو یقین نہیں تھاکہ میں کبھی اسپین کا سفرکر سکوں گا۔ بظاہر یہ ایک نہ ہونے والی بات نظر آتی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ میرے اسفار کا یہ خانہ بھی پورا ہو جائے۔ چنانچہ اچانک ایک روز ڈاک سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ اس کے بعد لمبا وقفہ پڑا اور وہاں سے مزید کوئی اطلاع نہیں ملی۔ دوبارہ اچانک آغاز سفر کے صرف دو دن پہلے ٹیلی فون پر وہاں سے بتایا گیا کہ میرے سفری کاغذات بھیج دیے گئے ہیں۔ اس کو ایئر فرانس سے حاصل کر لیں۔

جہاز فرینکفرٹ کے قریب پہنچا تو پائلٹ نے مائیک پر اعلان کیا کہ فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر ٹریفک کی وجہ سے ہم تقریباً پندرہ منٹ تاخیر کے ساتھ لینڈ کر سکیں گے۔ ریلوے میں اگر اگلے اسٹیشن کی پٹری خالی نہ ہو تو ٹرین پچھلے اسٹیشن پر ٹھہرا دی جاتی ہے۔ ہوائی جہاز کے لیے فضا میں ٹھہرنا ممکن نہیں۔ اس لیے ہمارا جہاز فرینکفرٹ کے اوپر اس طرح منڈلانے لگا جس طرح چیل بعض اوقات فضا میں منڈلاتی ہے۔ کچھ دیر تک اسی طرح منڈلانے کے بعد کسی قدر تاخیر کے ساتھ جہاز ہوائی اڈہ پر اُترا۔

یہ ’’فرق‘‘ زندگی کا ایک اصول ہے۔ ہوائی جہاز کا پائلٹ اگر اس فرق کو نہ جانے اور اگلے ایئر پورٹ کی طرف سے میسج ملنے کے بعد وہ جہاز کو فضا میں ٹھہرا دے یا ٹرین کے ڈرائیور کو جب اگلے اسٹیشن کی طرف سے سگنل نہ ملے تو وہ گول دائرہ میں ٹرین کو گھمانے کا فیصلہ کرے تو یہ دونوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔ ایسے جہاز کا پائلٹ بھی اپنے جہاز کو تباہ کر دے گا اور ایسی ٹرین کا ڈرائیور بھی اپنی ٹرین کو۔

فرینکفرٹ دنیا کے چند اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر نہایت مہنگا ہے، مگر یہاں ہر قسم کی اعلیٰ سہولتیں موجود ہیں۔ فرینکفرٹ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ عالمی نمائشوں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بہت بڑا نمائشی میدان ہے اور اس میں سال بھر مختلف قسم کی نمائش لگتی رہتی ہے۔

5 اکتوبر سے 10 اکتوبر 1994ء تک یہاں عالمی بُک فیئر لگی تھی۔ اس میں عالمی اداروں نے اپنی مطبوعات برائے نمائش رکھی تھیں۔ یہ نمائش عام شہریوں کے لیے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں کے لیے تھی جو بُک ٹریڈ میں ہیں۔ چنانچہ دنیا بھر سے پبلشر، ڈسٹری بیوٹر اور بُک سیلر یہاں آئے تھے۔

ایک صاحب کے تعاون سے فرینکفرٹ کی اس نمائش میں الرسالہ بک سینٹر کا بھی ایک اسٹال رکھا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر ثانی اثنین نے دہلی سے فرینکفرٹ کا سفر کیا تھا۔ الرسالہ کے اسٹال پر مختلف ملکوں کے بہت سے لوگ آئے اور لٹریچر کو پسند کیا۔ خاص طور پر انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ ہندستان میں ایسی معیاری کتابیں چھپ رہی ہیں۔ کافی لوگوں نے لٹریچر طلب کیا۔ انسائیکلو پیڈیا آف قرآن کے لیے خاص طور پر بڑی بڑی فرمائش نوٹ کرائیں۔

فرینکفرٹ جرمنی کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ جرمنی کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہاں بہت سے بڑے بڑے مستشرق پیدا ہوئے۔ استشراق دراصل نو آبادیاتی دور کے ایک مظہر کے طور پر پیدا ہوا۔ چنانچہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں بڑے بڑے مستشرق پیدا ہوئے۔ مگر بیسویں صدی میں اس قسم کے مستشرق نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب زیادہ اعلیٰ ذہن دوسرے علمی میدانوں میں چلے جاتے ہیں جہاں انہیں اپنی صلاحیتوں کی زیادہ قیمت مل سکتی ہے، وہ استشراق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔

انیسویں صدی عیسوی میں جرمنی میں بھی بہت سے بڑے بڑے مستشرق پیدا ہوئے۔ تاریخ طبری کے متعلق عام خیال یہ تھاکہ وہ ضائع ہو چکی ہے لیکن جرمن مستشرق گڈ فریڈ سکارٹن نے اس کا مخطوطہ حاصل کیا اور برسوں کی محنت کے بعد اس کو درست کر کے شائع کیا۔ اسی طرح ایک اور جرمن مستشرق پروفیسر ساخو (Eduard Sachau, 1845-1930)جس نے طبقات ابن سعد پر غیر معمولی محنت کر کے اس کو مکمل شائع کیا، وغیرہ۔

مستشرقین نے قدیم عربی کتابوں کو ایڈٹ کر کے شائع کرنے میں انتہائی دیانتداری سے کام لیا ہے۔ تاہم جہاں تک خود ان کی اپنی تحریروں کا تعلق ہے، اپنے علم کی وسعت کے باوجود انہوں نے سخت غلطیاں کی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ذہنی پس منظر اسلام کے مطابق نہیں۔

مثلاً پروفیسر ہیملٹن گپ (1895-1971ء) جو نسبتاً جدید مستشرق ہیں، وہ اچھی عربی جانتے تھے۔ انہوں نے حدیث میں پڑھا کہ بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ (مسند احمد، حدیث نمبر 22291)۔  اس کے بعد انہوں نے اپنی کتاب محمڈن ازم میں لکھ دیا کہ محمد نے اپنے مذہب کو پہلے حنیفہ کہا تھا۔ بعد کو انہوں نے اس کا نام اسلام رکھا۔ اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ پروفیسر گب کا ذہنی سانچہ ارتقائی تصور کے تحت بنا تھا،نہ کہ اسلام کے تصور وحی کے تحت۔

اسپین میں مسلمانوں نے جس زمانہ میں شاندار تہذیب بنائی،اس زمانہ میں مواصلاتی ذرائع بہت محدود تھے۔ تاہم اس کی امتیازی خصوصیت کی بنا پر اس کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ جرمنی کی ایک خاتون شاعرہ رازوتھا (Hrosvitha)، جونن بھی تھی۔ وہ گیند رشیم (Gandershsheim) میں 935ء میں پیداء ہوئی، 1000ء میں اس نے انتقال کیا۔ اس جرمن شاعرہ نے غالباً اسپین کا سفر نہیں کیا تھا۔ مگر قرطبہ کے بارے میں اس نے بہت کچھ سُنا تھا۔ اس کی ایک لاتینی نظم میں قرطبہ کے بارے میں یہ الفاظ تھے کہ دنیا کا سب سے زیادہ شان و شوکت والا شہر :

Cordova, the brightest splendour of the world.

فرانس کی جانب جرمنی کی سرحد پر ایک تاریخی شہر ہے جس کا نام لارین (Lorraine) ہے۔ یہ شہر 925ء میں جرمنی کے قبضہ میں آیا۔ اس کے بعد کئی صدیوں تک وہ جرمنی کے قبضہ میں رہا۔ آج کل وہ فرانس میں شامل ہے۔

مسلم اسپین کے اثرات فرانس کے راستہ سے لارین تک پہنچے تھے۔ فلپ ہٹی نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھا ہے کہ دسویں صدی عیسوی میں عربی سائنس لارین پہنچی۔ اس کے اثر سے یہ علاقہ دو صدیوں تک ایک سائنٹفک سینٹر بنا رہا۔ قریب کے دوسرے علاقے بھی عرب علم کو قبول کرنے کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوئے۔ لارین سے یہ علم جرمنی کے دوسرے حصوں تک پہنچ گیا۔ جرمن بادشاہوں کے سفیر اسپین کے مسلم حکمرانوں کے دربار میں جانے لگے۔ 953ء میں عظیم جرمن بادشاہ آٹو اول (Otto I) نے جان نامی ایک شخص کو قرطبہ بھیجا۔ وہ وہاں تقریباً تین سال تک رہا۔ غالباً اس نے عربی زبان سیکھی اور واپسی میں اپنے ساتھ عربی کی سائنسی کتابیں لے آیا۔ اس طرح اسپین کا عرب علم پورے مغربی یورپ میں پھیل گیا (صفحہ589-90)۔

ایک اور مستشرق نے لکھا ہے کہ لیان یا نواری یا بارسلونہ کے مسیحی حکمرانوں کو جب بھی ایک سرجن یا آرکیٹیکٹ یا ماسٹر سنگر یا ڈریس میکر کی ضرورت ہوتی تو وہ قرطبہ سے اس کی درخواست کرتے تھے۔ مسلم راجدھانی کی شہرت جرمنی تک پہنچ گئی تھی جہاں ایک جرمن نن نے اس کو دنیاکا ہیرا (Jewel of the World) قرار دیا۔ (صفحہ 527)

رِلکے (Rainer Maria Rilke) مشہور جرمن شاعر ہے۔ وہ 1875ء میں پیدا ہوا اور 1926ء میں اس کی وفات ہوئی۔ جرمن مستشرقین نے جن عربی کتابوں کے ترجمے جرمن زبان میں کئے تھے اور اسلام پر جو کتابیں لکھی تھیں، ان میں سے کچھ کتابوں کو رِلکے نے پڑھا۔ اس نے اگرچہ اسلام قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا مگر وہ اسلام سے متاثر تھا۔

دکتور عبدالرحمٰن بدوی نے رِلکے پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ اس میں رِلکے کے ایک خط کا عربی ترجمہ دیا گیا ہے۔ یہ ایک مفصل خط ہے۔ اس میں اس نے لکھا تھا کہ جب سے میں نے قرطبہ کا سفر کیا ہے، مجھ کو مسیحیت سے سخت بیزاری ہو گئی ہے۔ میں قرآن کو پڑھتا ہوں۔ اس کے بہت سے مواقع پر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز میرے دل کو چھو رہی ہے۔ محمدنے براہ راست خدائے واحد کی طرف راستہ کھولا۔ یہاں انسان خدا سے بات کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسیحیت کی مثال ایسی ہے کہ انسان ہیلو، ہیلو کرتا رہے اور دوسری طرف سے کوئی آواز نہ آئے۔ اس طویل خط کے آخر میں مصنف لکھتے ہیں:

فی ھذا النص الثمین یقرر رِلکہ بعدائہ للمسیحیۃ وإعجابہ بالاسلام (صفحہ 127)

جرمنی سے جدید مسلم تاریخ کے بہت سے واقعات وابستہ ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی عالمی جنگ (1913-18ء) کے وقت دو عالمی محاذ بن گئے تھے۔ ایک الائیڈ پاورس کا محاذ جس کی قیادت برطانیہ کر رہا تھا۔ دوسرا اَیکسس پاورس (Axis powers)کا محاذ جس کی قیادت جرمنی کر رہا تھا۔

اس وقت ترکی میں عثمانی خلافت قائم تھی۔ اب سوال یہ تھا کہ ترکی دونوں محاذوں میں سے کس کا ساتھ دے۔ اس نازک موقع پر مولانا محمد علی جوہر نے رات دن جاگ کرایک لمبا مضمون لکھا جو ان کے انگریزی ہفت روزہ کامریڈ میں چھپا۔ اس میں انہوں نے ترکی کو مشورہ دیا تھا کہ اس جنگ میں وہ برطانیہ کے مقابلہ میں جرمنی کا ساتھ دیں۔ اس کا عنوان تھا ترکوں کا انتخاب :

The Choice of the Turks

مولانا محمد علی کا یہ طویل مضمون الفاظ کا ایک جنگل تھا جو تدبیر اور دوراندیشی سے یکسر خالی تھا۔ تاہم اس مضمون کی بنا پر نہیں بلکہ ترکی کے جذباتی وزیر جنگ انور پاشا کے جلد بازانہ اندازہ (hasty calculation) کی وجہ سے ترکی جرمنوں کی حمایت میں جنگ میں کود پڑا۔ اگرچہ ترک کیبنٹ کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ترکی کو اس معاملہ میں غیر جانبدار (neutral) رہنا چاہیے۔

حالات کے عین فطری تقاضے کے تحت اس جنگ میں برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کو فتح حاصل ہوئی اور جرمنی اور اس کے ساتھیوں کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے قدرتی نتیجہ کے طور پر بعدازجنگ سودا بازی (Postwar bargaining) شروع ہوئی۔ فاتح طاقتوں نے ترکی کی عثمانی خلافت کو تقسیم کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

مثلاً روس نے درۂ دانیال پر قبضہ کر لیا۔ فرانس نے شام پر اپنی بالادستی قائم کر لی۔ برطانیہ نے مصر کو اپنے سیاسی دائرہ میں شامل کر لیا۔ فلسطین کو ایک انٹرنیشنل علاقہ قرار دے دیا گیا۔ 2 نومبر 1918ء کو بالفورڈ کلریشن (Balfour Declaration) جاری ہوا جس میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک نیشنل ہوم بنانے کا وعدہ کیا گیا۔ وغیرہ۔(EB. 13/790)

عثمانی خلافت کا خاتمہ اور فلسطین کے محاذ پر پسپائی جیسے حادثات جن کو نادان لوگ کمال اتاترک اور یاسر عرفات کے خانہ میں ڈالے ہوئے ہیں، وہ حقیقتاًانور پاشااور محمد علی جیسے لیڈروں کے حصہ میں جاتا ہے جن کے پاس جذبات کا سرمایہ تو ضرورت سے زیادہ تھا مگر بصیرت کا سرمایہ ضرورت سے بہت کم۔

دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی جذباتی قیادت کے نتیجہ میں دوبارہ جرمنی کو شکست ہوئی۔ فاتح قوموں (برطانیہ، امریکہ، روس) نے جرمنی کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ ایک کو ایسٹ جرمنی کہا گیا اور دوسرے کو ویسٹ جرمنی ۔ یہ تقسیم یہاں تک پہنچی کہ دونوں حصوں کے درمیان 1961ء میں عظیم برلن وال کھڑی کر دی گئی۔ مگر جیسے ہی سوویت یونین کمزور پڑا خود جرمنوں نے نومبر 1989ء میں اس دیوار کو توڑ کر گرا دیا اور دونوں حصے مل کر دوبارہ ایک ملک بن گئے۔

ایک بار میں نے پاکستان کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے کہاکہ اسی طرح انڈیا اور پاکستان کو بھی دوبارہ مل جانا چاہیے۔ موجودہ مصنوعی حد بندی کو اگر ختم کر دیا جائے تو اس میں دونوں کا فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں تو دونوں حصوں کے لوگ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں مذہبی اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ مگر یہاں کا معاملہ یہ ہے کہ دونوں کا مذہب الگ الگ ہے۔ مزید یہ کہ ہندو فرقہ اکثریت میں ہے۔ اگر ایسا غیر مساوی اتحاد کیا گیا تو ہندو اپنی اکثریت کے زور پر ہم کو نگل جائے گا۔

میں نے کہاکہ یہ ایک لغو بات ہے۔ یہ اسلام کی نظریاتی طاقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ خود پاکستان کی تاریخ اس اندیشہ کی تردید کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کا علاقہ ہمیشہ سے مسلم علاقہ نہیں تھا۔ آج وہاں ایک سوملین سے زیادہ مسلمان پائے جاتے ہیں۔ جب کہ ہندوئوں کی تعداد بمشکل صرف 10 لاکھ ہے۔ مگر شروع میں جب مسلمان اس علاقہ میں آئے تو وہاں آبادی کا تناسب اس کے بالکل برعکس تھا۔ پھر ماضی کے اس تجربہ کے باوجود مستقبل کے لیے آپ لوگ اس قدر خوف اور مایوسی میں کیوں مبتلا ہیں۔ آپ لوگ کیسے مسلمان ہیں کہ آپ کی نگاہ ہندو کی عددی برتری پر تو ہے مگر آپ کی نگاہ اسلام کی نظریاتی برتری پر نہیں۔

جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً چار فیصد ہے۔ یہاں تقریباً چالیس اسلامی تنظیمیں ہیں۔ پہلی عالمی جنگ میں ترکی جرمنوں کے ساتھ تھا۔ اس طرح جنگ کے دوران فوجی خدمت کے تحت ترکی اور یوگوسلاویہ کے حامی مسلمان پہنچے۔ انہوں نے یہاں پہلی مسجد بنائی۔ اب یہاں کے تقریباً ہر شہر میں بڑی تعداد میں مسجدیں اور اسلامی مراکز ہیں۔ ان کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں۔ ان اداروں میں دس ہزار سے زیادہ مسلم بچے قرآن اور دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

جرمنی کے ایک شہر ہائیڈلبرگ میں 1991ء میں ایک بڑی اسلامی مؤتمر ہوئی۔ اس کا شعار تھاأَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ(2:214)۔ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اس شعار میں قومیت کی بو محسوس ہوتی ہے۔ یہ گویا قومی مقصد کے لیے قرآن کا استعمال ہے۔ اس کے بجائے زیادہ بہتر یہ تھا کہ کسی دعوتی آیت کو شعار بنایا جائے۔ راقم الحروف نے تقریباً چالیس سال پہلے اعظم گڑھ کی نمائش میں ایک اسلامی اسٹال لگایا تھا۔ اس میں عمودی (vertical) انداز میں ایک بہت اونچا بورڈ نصب کیا تھا جس پر یہ آیت مع ترجمہ لکھی ہوئی تھیوَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ (10:25)۔یعنی، اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔

22 اکتوبر 1994ء کو بون (جرمنی) میں سبھاش چندر بوس پر ایک سیمینار ہوا۔ اس کو یہاں کے ہندستانی سفارت خانہ نے اسپانسر کیا تھا۔ سبھاش چندر بوس 1941-43ءجرمنی میں رہے تھے۔ان کے جرمنی آنے کا مقصد یہ تھا کہ برٹش راج ختم کرنے کے لیے جرمنی سے مدد حاصل کی جائے۔ اس وقت جرمنی میں نازی پارٹی کی حکومت تھی۔

لوئی فشر نے اپنی کتاب لائف آف مہاتما گاندھی میں لکھا ہے کہ سبھاش چندر بوس ایک طوفانی آدمی تھے جن کاکہنا تھاکہ مجھ کو خون دو اور میں تم سے آزادی کا وعدہ کرتا ہوں۔ اس نعرہ کی وجہ سے ان کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی (صفحہ 256) ۔

سبھاش چندر بوس (اور جواہر لال نہرو) اس زمانہ میں نوجوانوں کے مقبول رہنما بنے ہوئے تھے وہ دونوں فوراً آزادی چاہتے تھے اور اس کے لیے باقاعدہ لڑائی چھیڑنے کے لیے تیار تھے۔ دونوں مہاتما گاندھی کے مصالحانہ رویہ پر نہایت سخت احتجاج کررہے تھے (صفحہ 261)۔ ان کے اثر سے گاندھی جی کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ 31 دسمبر 1929ء تک انڈیا کو آزاد کر دیا جائے، ورنہ میں یک طرفہ طور پر آزادی کا اعلان کر دوں گا اور اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالوں گا (صفحہ 257)۔

سبھاش چندر بوس مہاتما گاندھی کے سخت مخالف تھے (صفحہ269)۔ گاندھی جی کا نظریہ پرامن جدوجہد کا تھا، جب کہ سبھاش چندر بوس کھلے طور پر تشدد کی بات کرتے تھے اور برطانیہ کے خلاف مسلح بغاوت (armed revolt) کے وکیل تھے (342) لوئی فشر نے 25 جون 1946ء کو نئی دہلی میں گاندھی جی سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے گاندھی جی سے کہا تھا کہ سبھاش چندر بوس 1944ء میں جرمنی گئے۔ اگر ان کا خیال تھاکہ وہ جرمنی سے مدد لے کر انڈیا کو بچا سکتے ہیںتو وہ ایک بیوقوف آدمی تھے اور سیاسی لیڈر بے وقوفی کا تحمل نہیں کر سکتا :

Bose went to Germany. If he believed that India would be saved by Germany, he was stupid, and statemen cannot afford to be stupid. (p.442)

نیتاجی سبھاش چندر بوس نے انڈین نیشنل آرمی کے نام سے ایک آزاد فوج بنائی تھی۔ اس کے ایک کیپٹن ڈاکٹر رتن چند (سری گنگا نگر) تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشت شائع کی ہے جس کا عنوان ہےایک شام نیتا جی کے ساتھ۔ اس میں وہ 20 دسمبر 1944ء کی ایک میٹنگ کا حال بیان کرتے ہیں جب کہ نیتا جی برما کے باتوپہاٹ آفیسرز ٹریننگ اسکول کی سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کاسلسلہ شروع ہوا۔ دو سوال و جواب یہ تھے :

سوال:آپ کہتے ہیں کہ ہتھیار بند انقلاب کے بغیر ہندستان آزاد نہیں ہو سکتا۔ تو سوال یہ ہے کہ ہتھیاروں کا انتظام کیسے ہو گا؟

جواب:ہندستان میں بہت سے ہتھیار پہلے ہی سے موجود ہیں۔ آپ لوگوں کاکام ان کو چھیننا اور ان کو اپنے استعمال میں لانا ہے۔ مثال کے طور پر میں چٹاگانگ کے اسلحہ خانہ کی ڈکیتی کا ذکر کرتا ہوں۔ جس طرح وہاں سے ہتھیار چھینے گئے تھے، اسی طرح اگر ہندستانی کوشش اور ہمت کریں تو باہرسے ہتھیار لانے کی ضرورت نہ رہے گی۔

سوال:جاپانیوں نے ہماری سرکار کو تسلیم کیا ہے۔ ہمیں ہر طرح کی مدد بھی دے رہے ہیں۔ مگر وہ ہماری عزت نہیں کرتے۔ ان کے سپاہی ہمارے افسروں کو سلوٹ تک نہیں کرتے۔ پورٹ ڈکسن میں جب ہم جاپانیوں سے ٹریننگ لینے گئے تھے تو ہم نے اپنے جاپانی انسٹرکٹر سے کہا کہ آپ ہمیں ایک آزاد حکومت کے افراد تسلیم کرتے ہوئے بھی ہمارے افسروں کی عزت نہیں کرتے۔ جاپانی انسٹرکٹر نے جواب دیاکہ آپ کی آزاد حکومت آخر بنائی ہوئی کس کی ہے؟

جواب:چند ایک افراد کے غلط رویہ اور بددماغی کے کارن ہم سب جاپانیوںکو برا نہیں کہہ سکتے (ہندو سماچار، جالندھر ۔ 23 جنوری 1995ء)۔

فرینکفرٹ سے دہلی کے لیے لفتھانسا کی فلائٹ نمبر 760 کے ذریعہ روانگی ہوئی۔ جہاز چلنا شروع ہواتو اعلان کرنے والی خاتون نے خالص ہندی لہجہ میں یہ الفاظ کہے:لفتھانساکی اس اڑان پر ہم آپ کا ہاردک سواگت کرتے ہیں۔ لفتھانسا ایک جرمن کمپنی ہے ۔ مگر اس کی موجودہ پرواز میں زیادہ تر ہندستانی مسافر ہیں۔ اس لیے مسافروں کی رعایت سے انہوںنے کلام کا یہ انداز اختیار کیا۔

تاجر کو جو تعلق اپنے گاہک سے ہوتا ہے، داعی کو وہی تعلق اپنے مدعو سے ہوتا ہے۔ لوگوں میں اگر دعوتی جذبہ آ جائے تو وہ اپنے مدعو کی رعایت کریں گے۔ وہ اپنے جذبات سے زیادہ مدعو کے جذبات کا لحاظ کریں گے۔ تاجر اگر اپنے گاہک کی رعایت نہ کرے تو وہ اپنے گاہک کوکھو دے گا، اسی طرح داعی اگر اپنے مدعو کی رعایت نہ کرے تو وہ مدعو کو دور کرنے کا سبب بن جائے گا۔

30 نومبر کی رات کو لفتھانسا کی فلائٹ میں میرے لیے جو کھانا آیا،اس کی پیکنگ پر جرمن میں میرا نام چھپا ہوا تھا۔ اسی کے ساتھ جرمن اور انگریزی میں لکھا ہوا تھاکہ اپنی پسند کے کھانے کا لطف اٹھائیے :

Enjoy your meal

دہلی میں ریزرویشن کے وقت یہ لکھوا دیا گیا تھا کہ مجھے سفر میں انڈین ویجیٹیرین میل چاہیے۔ حسب قاعدہ یہ ہدایت ہرجگہ کے کمپیوٹر پر ریکارڈ ہو گئی۔ چنانچہ اس سفر میں آتے اور جاتے ہوئے میں نے چار جہاز استعمال کیے جو تین مختلف کمپنیوں سے تعلق رکھتے تھے اور ہر ایک میں خود بخود ’’اسپیشل میل‘‘ کے لیبل کے ساتھ میرا مطلوب کھانا میرے لیے آتا رہا۔ موجودہ جہاز جس میں میں نے فرینکفرٹ سے دہلی کاسفر کیا، اس میں تقریباً ساڑھے چار سو سیٹیں تھیں۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ موجودہ زمانہ میں کمپیوٹر اور انڈسٹریل تہذیب نے کیسا نظام بنایا ہے اور کس طرح وہ عالمی سطح پر نہایت صحت مندی کے ساتھ کام کررہا ہے۔

یہ فرینکفرٹ سے دہلی کے لیے نان اسٹاپ فلائٹ تھی۔ ساڑھے سات گھنٹہ کی مسلسل پرواز کے بعد رات کو ڈیڑھ بجے ہمارا جہاز دہلی کے ہوائی اڈہ پر اُتر گیا۔ یہاں جہاز سے نکل کر باہر جانے کے لیے آدمی ایک لمبی گیلری سے گزرتا ہے۔ ایک طرف یہ گیلری ہے اور دوسری طرف وسیع انتظار گاہ ہے۔ دونوں کے درمیان شیشہ کی دیوار حائل ہے۔ اس طرح دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ جس وقت میں گیلری سے دوسرے ہم سفر لوگوں کے ساتھ باہر کی طرف جا رہا تھا۔ اس وقت بہت سے لوگ انتظار گاہ میں بیٹھے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ یہاں اس انتظار میں تھے کہ آگے جانے والے جہاز سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو سکیں۔

اس دنیا میں ہر اسٹیشن اور ہر ایئر پورٹ پر یہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہر وقت لوگ آتے ہیں اور کچھ لوگ واپس چلے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت کے اعتبار سے ہے۔ کچھ لوگ پیدا ہو کر دنیا میں آ رہے ہیں۔اور کچھ لوگ اپنی مدتِ قیام پوری کرکے آخرت کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ آنا اور جانا اسی طرح جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے اور دو دنیائوں کے نظام کو ختم کر کے صرف ایک دنیا کانظام ابدی طور پر قائم کر دیا جائے۔

سفر نامہ فلسطین

 

سفر نامہ فلسطین

روم کی مسیحی تنظیم(The Community of S. Egidio) کی طرف سے یروشلم میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے نمائندے اکٹھا ہوئے۔ اس کی دعوت پر فلسطین کا سفر ہوا۔ ذیل میں اس سفر کی روداد درج کی جاتی ہے۔

26 ستمبر1995 کی شام کو سفر پر روانگی ہوئی۔ ایئر پورٹ کے راستہ میں مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا۔ یہاں کنٹونمنٹ ایریا میں ایک مسجد ہے۔ اس کے چاروں طرف دور تک سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ گاڑی سڑک کے کنارے روک کر مسجد میں پہنچا۔ جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ امام صاحب نے سورہ الکوثر تلاوت کرتے ہوئے کہا:فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ۔ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (108:2-3)۔ یعنی،  پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بیشک تمہارا دشمن ہی بےنام و نشان ہے۔ دل سے دعا نکلی کی خدایا، تیرے حکم کے مطابق میں نے نماز ادا کر لی۔ اب تو إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ کے وعدہ کو میرے لیے پورا فرما۔ امام صاحب نے بتایا کہ اس مسجد کا نام الحبیبیہ مسجد ہے۔

 اس مخصوص علاقہ میں ایک خوب صورت مسجد کو دیکھ کر خیال آیا کہ کچھ مسلم لیڈروں کی نادانی سے اس ملک کے مسلمانوں نے اگرچہ بہت کچھ کھو دیا ہے۔ مگر اب بھی یہاں ملک کے طول و عرض میں تقریباً چار لاکھ ایسی مسجدیں موجودہیں جو اہل توحید کے لیے امید اور اعتماد کا نشان ہیں۔فیضی کا یہ شعر مسلمانوں کے لیے مزید اضافہ کے ساتھ سچا ثابت ہوا ہے:

گفتہ گرشد زکفم شکر کہ ناگفتہ بجا است

از دو صد گنج یکے مشت گہر باختہ ام

دہلی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر میں فلائٹ کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔ کچھ لوگ خوش پوش اور خوش باش چہرہ کے ساتھ چلتے ہوئے نظر آئے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم کامیاب ہیں۔ ہماری جیب میں پیسے ہیں۔ ہم اپنی پسند کی کوئی بھی چیز دنیا کے بازار سے خرید سکتے ہیں۔ ہم اپنی راحت اور خوشی کی کوئی بھی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔

میرے دل نے کہاکہ کیسا جھوٹااحساس کامیابی ہے جس میں لوگ جی رہے ہیں۔ کاش انہیں اصل حقیقت سے آگاہ کیا جا سکے۔ کاش وہ اس جھوٹے بھرم سے باہر نکل سکیں۔

میرے سفر کا راستہ یہ تھادہلی، بمبئی، تل ابیب، دہلی۔ ایئر انڈیا کی فلائٹ311 کے بعد دہلی سے روانگی ہوئی۔ جہاں کا مقررہ وقت 9 بجے شام تھا۔ مگر جہاز ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر سے روانہ ہوا۔ دہلی سے بمبئی کی دوری1170 کلو میٹر ہے جو پونے دو گھنٹہ میں پوری ہوئی۔

 دوران پرواز ایئر انڈیا کی فلائٹ میگزین نمسکار(جولائی۔ اگست1995ء) دیکھا۔ اس کے ایک صفحہ پر اوپر کے درجے کے مسافروں سے کہا گیا تھاکہ فرسٹ کلاس اور ایگزیکٹیو کلاس کے مسافروں کے لیے دوران سفر میں بلاانقطاع تفریح(non-stop entertainment) کا انتظام کیا گیا ہے۔ میری سیٹ کے ساتھ ایئر فون رکھا ہوا تھا مگر میں نے اس کو استعمال نہیں کیا۔

 اس قسم کی تفریحات نے انسان سے یہ موقع چھین لیا ہے کہ وہ کائنات میں بکھری ہوئی خدا کی تجلیات پر غور کرے اور ان سے اپنی روح کے لیے ربانی غذا حاصل کرے۔ کائنات میں ہر طرف خدائی نغمے بلند ہو رہے ہیں مگر انسان نے’’ہیڈ فون‘‘ لگا کراپنے آپ کو اس سے محروم کر لیا ہے کہ وہ زیادہ اعلیٰ نغمات خدا وندی کو سن سکے۔

بمبئی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترا تو یہاں بہت زیادہ بھیڑ نظر آئی۔ مسلمان اور عرب بھی کافی تعداد میں تھے۔ ایئر پورٹ پر لمبی مسافت طے کرکے ایل آل کے کائونٹر پر پہنچا۔ یہاں ایک خاتون نے کہاکہ میں ایل آل کی طرف سے سکیورٹی چیک کے لیے ہوں اور میں آپ سے سوالات کروں گی۔ یہ خاتون آدھا گھنٹہ تک مجھ سے طرح طرح کے بے معنی سوالات کرتی رہیآپ کہاں سے آئے ہیں۔ کہاں جا رہے ہیں۔ آپ کا ٹکٹ کس نے خریدا ہے۔ آپ کو کسی نے کوئی گفٹ دیا ہے۔ آپ کے بیگ میں کیا کیا چیزیں ہیں۔ آپ کا یہ پاسپورٹ نیا ہے پھر پچھلا پاسپورٹ کہاں ہے۔ اس بیگ میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے۔ اگر سب سامان نکال دیا جائے تو بیگ کس کا ہے۔ آپ دہلی میں رہتے ہیں تو دہلی سے کیوں نہیںگئے، بمبئی سے کیوں جا رہے ہیں۔ تقریباً آدھا گھنٹہ تک وہ اس قسم کے سوالات کرتی رہی۔ میں پہلے تو معتدل انداز میں اس کا جواب دیتا رہا۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ اس کے سوالات ختم ہی نہیں ہو رہے ہیں تو مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا:

Who are you foolish girl to ask me such silly questions.

میں نے کہاکہ میں تل ابیب نہیں جائوں گا۔ میرے کاغذات مجھے لوٹا دو۔ میں اب دہلی واپس جارہا ہوں۔ پھر میں نے کہاکہ تم اپنا نام بتائو۔ میں تمہاری کمپلینٹ کروں گا اور پھر تم کو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ اب وہ گھبرا گئی اور نام بتانے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ آخر میںایک مرد آیا۔ اس نے کہا کہ تم ان کو مت روکو اور اپنا نام لکھ کردے دو۔ اس کے بعد اس نے اپنا نام سوسن جیکب(Ms Susan Jacob) لکھااور فوراً میرا بورڈنگ کارڈمجھے دے دیا۔ اس کے بعد ایک اور مرد مسٹر نیویل مستری(Naville Mistry) کو میرے ساتھ کر دیا۔ وہ پہلے مجھے ریستوران میں لے گیا۔ اس کے بعد مجھے گیٹ نمبر8 تک پہنچایا جہاں سے مجھے آگے کا جہاز لینا تھا۔

 ہندستان میں ساڑھے چھ ہزار یہودی ہیں۔ ان میں سے ساڑھے پانچ ہزار بمبئی میں آباد ہیں۔ بمبئی کی سموئیل اسٹریٹ پر یہودیوں کی ایک عبادت گاہ(Synagogue) ہے جو 1796ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہندستان میں یہودی دو ہزار سال پہلے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے برصغیر ہند میں ان کی تعداد ساٹھ ہزار تھی۔ بمبئی میں مجموعی طور پر یہودیوں کے نوسینیگاگ موجود ہیں۔ تاہم یہودیوں کی دلچسپی اپنے مذہب سے اتنی کم ہے کہ سموئیل اسٹریٹ کے دو سو سالہ قدیم سینیگاگ میں سنیچر (سبت) کے دن بمشکل دس یہودی اپنی ہفتہ وار عبادت کے لیے آتے ہیں(آفٹرنون، بمبئی،3 ستمبر1995)۔

بمبئی کے ابو البقا صاحب(عمر64سال) نے 29 اکتوبر1995ء کی ایک ملاقات میں بتایا کہ بمبئی میں ایران سے آیا ہوا ایک یہودی تھا۔ اس کا نام مسٹر کلاٹی (A.A.Kelaty) تھا۔ اس کی تجارتی فرم کا نام یہ تھا:

Kelaty Trading Company

وہ شیپ کیسنگ(Sheep casing)کی سپلائی کا کام کرتا تھا۔1971ء میں اس کے ساتھ ابوالبقا صاحب کی پارٹنر شپ ہوئی۔ کئی سال تک اس کے ساتھ پارٹنر شپ بہت اچھی طرح چلتی رہی۔ اس کے بعد وہ بمبئی چھوڑ کر اسرائیل گیا اور وہاں سے پھرامریکہ چلا گیا۔

جب دونوں میں پارٹنر شپ کی بات ہوئی تو مسٹر کلاٹی نے کہاکہ دیکھیے، آپ مسلمان ہیں، میں ایک یہودی ہوں۔عرب اور اسرائیل کی نزاع میں میرا آپ کا اختلاف واضح ہے، اس کے باوجود ہمیں اپنی مشترک تجارت کو کامیابی کے ساتھ چلانا ہے۔اور اس کی صورت یہ ہے کہ ہم اورآپ کبھی عرب اور اسرائیل کے مسئلہ پر بات نہ کریں۔ چنانچہ دونوں اس پر قائم رہے۔ ان کی پارٹنر شپ آخر وقت تک کامیابی کے ساتھ چلتی رہی۔

اسرائیلی ایئر لائن کا نام ایل آل(El Al) ہے۔ اس کی فلائٹ نمبر82(LY-082) کے ذریعہ بمبئی سے روانگی ہوئی۔ جہاز اپنے وقت پر صبح چار بجے روانہ ہوا۔ جب کہ کیلنڈر میں27 اگست کی تاریخ ہو چکی تھی۔ یہ سات گھنٹہ کی مسلسل پرواز تھی۔ راستہ میں بار بار نیند آتی رہی۔ اس طرح راستہ آسانی کے ساتھ طے ہوگیا۔

جہاز میں ایک شخص نے میرے چہرہ پر داڑھی اور سر پر پگڑی دیکھ کر کہاکہ کیا آپ سکھ ہیں:

Are you a Sikh?

میں نے کہا میں مسلم ہوں۔ اگر وہ زیادہ غور کرتا تو ایسا سوال نہ کرتا۔ کیوں کہ میری داڑھی سکھوں کی داڑھی سے مختلف تھی۔ اسی طرح میری سفید پگڑی سوڈانیوں کی پگڑی سے مشابہ تھی، نہ کہ سکھوں کی پگڑی سے۔ فرق یہ ہے کہ سوڈانیوں کی پگڑی کافی بڑی ہوتی ہے اور میری نسبتاً چھوٹی۔

جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو نیچے بادلوں کامنظر تھا جس کے اوپر جہاز رینگتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہی منظر ہر جہاز میں اور ہر ملک میں سفرکرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل کے سفر میں جومنظر مشاہدہ میں آ رہا ہے وہی غیر اسرائیل کے سفر میں بھی نظر آتا ہے۔ مگر انسان کا مزاج عجیب ہے۔ وہ مشابہتوں پر دھیان نہیں دیتا اور اختلافات کی طرف زیادہ دوڑتا ہے۔

جہاز اور اس کی سروس دوسرے ملکوں کے جہازوں کے مقابلہ میں معمولی تھی۔ حتیٰ کہ ایئر انڈیا کے مقابلہ میں بھی۔ رات کومسافروں کی تفریح کے لیے جو فلم دکھائی گئی وہ زیادہ تر مار دھاڑ کی فلم تھی۔ کچھ نوجوان گولی مارتے ہوئے اور بم مارتے ہوئے دکھائے گئے جس سے ماحول میں تباہی پھیل گئی۔ میں نے سوچاکہ اسرائیل کی اقتصادیات(War-based economy) ہے۔ یہاں کے تمام بہترین وسائل جنگی تیاریوں اور متشددانہ کارروائیوں پر صرف ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل سنگاپور اور جاپان کی طرح ترقی نہ کر سکا۔

صبح کو کھڑکی کھولی تو سورج کی سنہری روشنی کھڑکی کے راستہ سے اندر داخل ہوئی اور جہاز کے اندر ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ میں نے سوچا کہ سورج اسرائیلی جہاز اور غیر اسرائیلی جہاز میں فرق نہیں کرتا۔ اس کی نفع رسانی ہر ایک کے لیے یکساں طور پرجاری ہے۔ یہ خدائی اخلاقیات ہے جس کو گویا سورج کے ذریعہ معلوم و مشہور بنایا جا رہاہے۔

بمبئی(ممبئی) اور تل ابیب کے درمیان پرواز کرتے ہوئے ایک انگریزی میگزین ایکشن ایشیا (Action Asia)کا شمارہ اگست- ستمبر1995ء دیکھا۔ یہ میگزین امریکہ سے شائع ہوتا ہے۔ یہ دو ماہی میگزین ہر اعتبار سے نہایت عمدہ تھا۔ امریکہ موجودہ زمانہ میں غیر امریکی ملکوں کا بھی چیمپئن بنا ہوا ہے۔

اس میںایک مضمون کامیاب لوگوں(Achievers) کے بارے میں تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ نیپال کے کچھ دریائوں میں پانی نہایت طغیانی کے ساتھ بہتا ہے۔ ان میں کشتی چلانا بہت جوکھم کا کام ہے۔ معذور لوگوں کی ایک ٹیم نے طے کیا کہ وہ ان دریائوں میں عین طغیانی کے زمانہ میں کشتی چلائیں۔ انہوں نے سوچا کہ ہم جسم کے اعتبار سے معذور ہیں مگر ہمارا دماغ معذور نہیں:

We are disabled only in body, not in mind.

نومبر1994ء میں چھ معذور افراد نے ہر قسم کے ضروری سامان سے لیس ہوکر اپنی کشتی دریا میں ڈال دی۔ انہوں نے ہمت سے کام لے کر کامیابی حاصل کی اور یہ ثابت کیاکہ اعلیٰ کارکردگی کے لیے واحد رکاوٹ صرف وہ ہے جوآدمی خود اپنے اوپر ڈال لے:

A group of disabled adventurers took on the wild white water of Nepal, and proved the only limits to performance are those we impose on ourselves.

بمبئی کے تجربہ کی بنا پر مجھے اندیشہ تھا کہ شاید اسرائیلی ایئر پورٹ پر پہنچ کر وہاں بھی اسی قسم کا سخت تر معاملہ پیش آئے۔ تاہم یہ سوچ کر مطمئن تھا کہ وہاں ایئر پورٹ پرکانفرنس کے منتظمین موجود ہوںگے اور وہ میرے لیے کافی ہو جائیں گے۔ مگر جہاز سے باہر آنے کے بعد وہاں کوئی دکھائی نہیں دیا۔ چنانچہ میں دوسرے مسافروں کے ساتھ لائن میں لگ گیا۔ یہاں بھی اتفاق سے کھڑکی کے پیچھے ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ مگراس نے چند معمولی سوال پوچھ کر فوراً ہی میرے پاسپورٹ پر اسٹیمپ ڈال دی اور مجھے رخصت کر دیا۔

باہر آیا تو ڈاکٹر لیونارڈو مل گئے جو میری رہنمائی کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کچھ دیر کے لیے وی آئی پی لائونج میں بیٹھا۔ پھر بذریعہ کار یروشلم کے لیے روانگی ہوئی۔ یروشلم یہاں سے تقریباً چالیس کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ جس اسرائیلی ایئر پورٹ پر ہمارا جہاز اترا اس کا نام بن گوریان انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے وہ لُد(Lod) کے علاقہ میں واقع ہے۔ لُد کے وسیع ایئر پورٹ پر جہاں ہمارا جہاز اترا عین اسی مقام پر سفید رنگ کا ایک اونچا مینار تھا۔ یہ مینار اپنی بلندی کی وجہ سے دور سے دکھائی دیتا ہے۔

 حدیث میں ہے کہ مسیح ابن مریم جب نازل ہوں گے تووہ دجال کا پیچھا کریں گے۔ یہاں تک کہ وہ لُد کے دروازہ پراس کو پکڑیں گے اور اس کو قتل کر دیں گے(فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ، فَيَقْتُلُهُ) صحیح مسلم، حدیث نمبر 2937۔

اس مقام کا قدیم نام لُد ہے۔ انگریزی میں اس کولِڈہ(Lydda) کہتے ہیں۔ حدیث میں جس مقام کا ذکر ہے، ممکن ہے کہ وہ یہی مقام ہو۔ اس کا نام بائبل میں کئی بار آیا ہے۔ اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947ء کو فلسطین کی تقسیم کا جو ریزولیوشن پاس کیا تھا اس کے تحت یہ مقام عربوں کو دیا گیا تھا۔مگر12 جولائی 1948ء کو اسرائیلی فوجوں نے حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت سے وہ اسرائیل کا ایک حصہ ہے۔ لد کا یہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسرائیل کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے۔

 دور آخر میں حضرت مسیح کے نزول کے بارے میں بعض حضرات نے مختلف رائیں پیش کی ہیں۔ مثلاً علامہ اقبال اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہیں           یامجدد، جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات

ایئر پورٹ سے یروشلم کا سفر بذریعہ کار طے ہوا۔ سڑک نہایت عمدہ تھی۔ دونوں طرف درخت کی قطاریں کھڑی ہوئی تھیں۔ مگر درختوں پروہ ہریالی نہ تھی جو ایک ہفتہ پہلے ہریانہ کے سفر میں سڑک کے دونوں طرف میں نے دیکھی تھی۔ اس کی وجہ یہاں بارش کی کمی ہے۔ موسم کافی گرم تھا۔

راستہ میں سڑک کے دونوں طرف بستیاں دکھائی دیں۔ وہ سب کریم کلر کے پتھروں سے بنائی گئی تھیں۔ یروشلم میں داخل ہوا تو تمام عمارتیں اسی قسم کے پتھروں کی نظر آئیں۔ میرے ساتھی نے بتایا کہ عمارتوں کو پتھر سے بنانے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ اس کی قدیم وضع کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم تمام عمارتیں جدید فن تعمیر کے مطابق بنائی گئی تھیں اور خوبصورت تھیں۔ یروشلم کاعر ب سیکٹر جغرافی اعتبار سے یہاں کے سب سے بہتر اور خوبصورت علاقہ میںواقع ہے۔

یروشلم کی سڑکوں پر چلتے ہوئے مختلف قسم کے مناظر سامنے آئے۔ دکانوںکے سائن بورڈ میں انگریزی اورعبرانی کے ساتھ عربی زبان کے اندراجات بھی دکھائی دیے۔مثلاً ٹیلی فون کے ساتھ تلفون وغیرہ۔

سڑک سے گزرتے ہوئے ہم ایک علاقہ میں پہنچے تو میرے گائڈ نے کہا، یہ جیوش ایریا ہے۔ جیوش علاقہ واضح طورپر زیادہ صاف اور کشادہ تھا۔ ایک فرق یہ نظر آیا کہ عرب ایریا میں دکانوں کے آگے لوگ فٹ پاتھ پر کرسیاں بچھائے ہوئے باہر بیٹھے ہیں۔ تجارتی سامان بھی باہر رکھا ہوا تھا۔ مگر یہودی ایریا میں دکانوں کے سامنے نہ کرسی دکھائی دی نہ دکان کے باہر کوئی سامان رکھا ہوا نظر آیا۔ اسی طرح عرب ایریا میں دکانوں سے عربی گیت کی آواز سنائی دے رہی تھی جب کہ یہودی ایریا میں خاموشی کا منظر تھا۔

اسی خوب صورت عرب سیکٹر کے ایک سر سبز رقبہ میں ہوٹل واقع ہے جس میں میرے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس ہوٹل کا نام(Hotel 7 Arches) ہے۔ اس کے کمرہ نمبر602 میں میرا قیام تھا۔  میں اس کمرہ کے اندرداخل ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی خواب دیکھ رہاہوں۔ کمرہ کے ایک طرف کی لمبی دیوار جو پوری کی پوری شیشہ کی تھی۔ اس کے اوپر حسب قاعدہ پردہ پڑا ہوا تھا۔ میں نے پردہ ہٹایا تو سامنے کھلی دھوپ میں بیت المقدس کا سنہری رنگ کا گنبد چمک رہا تھا۔ وہ اس ہوٹل سے بہت قریب ہے اور میرے کمرہ کے شیشہ سے بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میرے دل کی عجیب کیفیت ہوئی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیاکہ اس نے یروشلم میں میرے لیے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے عین پڑوس میں قیام کا انتظام فرمایا۔

میں دیر تک بیت المقدس اوراس کے اردگرد علاقہ کو دیکھتا رہا۔ یہی وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ (17:1)کہا گیا ہے، یعنی اس کے ارد گرد کو ہم نے بابرکت بنایا ہے۔یہ سوچتے ہوئے اس کی پوری تاریخ مجسم ہو کر میرےسامنے کھڑی ہوئی نظر آئی۔ خلیفہ ثانی عمر فاروق نے آ کر اسی مقام پر نماز ادا کی تھی اور پھر وہاں مسجد بنائی گئی تھی۔1982ء میں جب میں حج کو گیا تو اکثر بیت اللہ میں داخل ہو کر کعبہ کو دیکھتا رہتا تھا۔ یہاں میں خود اپنے ہوٹل کے کمرہ سے بیت المقدس کو دیکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ سعادت بھی مقدر فرمائی تھی۔

دہلی میں میری رہائش ایک ایسے مکان میں ہے جو گویا نئی دہلی اور پرانی دہلی کے درمیان ہے۔ موجودہ ہوٹل کی نوعیت بھی یہی ہے۔ اس ہوٹل کے ایک طرف جدید یروشلم کی عمارتیں دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف قدیم یروشلم ہے جس میں عرب سیکٹر واقع ہے۔ ظہر کا وقت ہوا تو مختلف مسجدوں سے اذان کی آوازیں آنے لگیں۔ معلوم ہواکہ ہندستان کے شہروں کی طرح یہاں بھی عرب علاقہ کی مسجدوں میں اور خود بیت المقدس میں لائوڈ اسپیکر لگے ہوئے ہیں اور پانچوں وقت ان سے اذان کی آوازیں فضا میں بلند ہوتی ہیں۔ مجھے تعجب انگیز خوشی ہوئی کہ پچاس سالہ یہود و عرب کے خونیں نزاعات کے باوجود آج بھی یہاں یہ مواقع موجود ہیں کہ مسلمان لائوڈ اسپیکر پر پانچوں وقت اذان بلند کریں اور مسجدوں میں جمع ہوکر باقاعدہ نماز ادا کریں۔

 فلسطین تین بڑے ابراہیمی مذاہب کا مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہود کا اس لیے کہ ان کے خیال کے مطابق وہ براہ راست خدا کی طرف سے انہیں دیا گیا ہے۔ وہ ان کے لیے ارض موعود (Promised Land) ہے، جس کا فیصلہ براہ راست خدا کی طرف سے کیا گیا ہے۔ عیسائیوں کا اس لیے کہ حضرت مسیح یہاں پیدا ہوئے اور اسی سرزمین میں انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کی۔ مسلمانوں کا اس لیے کہ پیغمبر اسلام معراج کے سفر میں یہاں آئے اور ہجرت کے بعد ایک سال سے زیادہ مدت تک بیت المقدس کو اپنی عبادت کا قبلہ بنایا۔

فلسطین کا اہم ترین شہر یروشلم ہے۔ اسی کے علاقہ میں تینوں مذاہب کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ اس کی تاریخ 14ویں صدی قبل مسیح تک جاتی ہے جب کہ اس علاقہ پر مصریوں کی حکومت تھی۔ اس کے بعد بار بار اس علاقہ کی حکومت بدلتی رہی۔ اس زمانہ کی تقریباً تمام قومیں ایک کے بعد ایک اس پر حکومت کرتی رہیں یہاں تک کہ ایک ہزار قبل مسیح میں حضرت دائو دعلیہ السلام کی حکومت فلسطین و شام کے علاقہ میں قائم ہوئی۔ جو مزید اضافہ کے ساتھ ان کے صاحب زادہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ تک جاری رہی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یروشلم کی توسیع کی اور قدیم یہودی عبادت خانہ(ہیکل) تعمیر کیا۔ جس کا اب صرف ایک حصہ دیوار گریہ(مغربی دیوار) کی صورت میں موجود ہے۔ حضرت سلیمان کے بعد مختلف حکمراں یروشلم کو اور معبد کو تباہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ سلیمانی ہیکل ایک کھنڈر کی صورت میں باقی رہ گیا۔

638 میں جب کہ اس علاقہ میں رومیوں کی حکومت تھی، عربوں نے رومیوں کو شکست دے کر فلسطین پر اپنا قبضہ قائم کیا۔ خلیفہ دوم عمر فاروق فاتحانہ طور پر مدینہ سے یروشلم پہنچے۔ ان کے اس سفر کی یادگار مسجد عمر کی شکل میں آج بھی یروشلم میں کنیسۂ قیامہ کے پاس موجود ہے۔ بنوامیہ کی سلطنت کے زمانہ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مقدس صخرہ کے اوپر ایک گنبد تعمیر کیا جو بیت المقدس (قبۃ الصَخرۃ) کے نام سے مشہور ہے۔

خلیفہ عمر فاروقؓنے اہل فلسطین کے ساتھ نہایت رواداری کا معاملہ فرمایا۔ بحیثیت فاتح وہاں انہوں نے جو تقریر کی تھی اس میں یہ اعلان کیا کہ اے اہل فلسطین! تم کو بھی وہی تمام حقوق حاصل ہوں گے جو اسلامی قانون کے تحت مسلمانوں کو حاصل ہیں(یا اھل ایلیاء لكم مالنا وعليكم ما علينا)۔

مسلم سلطنتوں کے زمانہ میں خلافت راشدہ کے بعد بھی رواداری کی یہی پالیسی جاری رہی۔ مورخین یہ اعتراف کرتے ہیں کہ نبوامیہ اور بنوعباس دونوں نے یہودی اور عیسائی باشندوں کے حق میں فراخدلی کی پالیسی اختیار کی:

Both the Umayyads and their successors, the Abbasids, pursued a liberal policy towards Christians and Jews. (10:140)

عباسی سلطنت کے بعد یہ پالیسی پوری طرح باقی نہ رہ سکی۔ کہا جاتا ہے کہ مصر کے فاطمی خلیفہ نے 1515 میں عیسائیوں کے مقدس مقامات کو توڑنے کی دھمکی دی۔

عیسائی اپنی سابق روایت کے مطابق مختلف مقامات سے جوق درجوق اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ اس سلسلہ میں مقامی طور پر غالباً کچھ ناخوش گوار واقعات ہوئے۔ سلجوقی سلطنت کے زمانہ میں 1071میں عیسائی زائرین کے راستے بند کر دیے گئے۔ اس سے عیسائیوں کا مذہبی طبقہ بہت زیادہ برانگیختہ ہوگیا۔ اس نے یورپ کے مسیحی حکمرانوں کو غیرت دلائی۔ اس کے نتیجہ میں قدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کے لیے وہ طویل جنگ شروع ہوئی جو کروسیڈس کے نام سے مشہور ہے۔

ان صلیبی جنگوں کے نتیجہ میں مسیحی حکمراں عارضی طور پر یروشلم پر قابض ہوگئے۔ ان کا یہ قبضہ 1099ء سے 1187ء تک باقی رہا۔ اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے ایک فیصلہ کن جنگ میں مسیحی قبضہ کو ختم کرکے دوبارہ قدس پر مسلم سلطنت قائم کی۔

 اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفہ کے لیے چند انقلابات پیش آئے اور آخر میں 1517ء میں عثمانی سلطان سلیم اول نے یہاں ترک حکومت قائم کی جو مسلسل چار سو سال تک باقی رہی۔1917ء میں برطانیہ نے لیگ مینڈیٹ کے تحت یروشلم پر سیاسی بالادستی حاصل کرلی۔ 1948ء سے فلسطین کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد یروشلم کا نیا دور آیا تو ابتدا میں شہر 1948ء سے 1967ء تک دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک کو اردنی سیکٹر اور دوسرے کو اسرائیلی سیکٹر کہا جاتا تھا۔ جون1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے بقیہ نصف پر قبضہ کرکے پورے یروشلم پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ مصر کے سابق حکمراں جمال عبدالناصر، جو الاخوان المسلمون کی مکمل تائید سے حکومت میں آئے تھے، انہوں نے احمقانہ جوش کے تحت جولائی1956ء میں نہر سوئز کے پٹہ کو قبل از وقت منسوخ کر دیا اور اس کو سرکاری قبضہ میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد حالات میں جو زبردست تبدیلی ہوئی اسی کا نتیجہ تھا کہ یروشلم پورا کا پورا اسرائیلی قبضہ میں چلا گیا۔ بیشتر انسانی تباہیاں ہمیشہ نادانی کے اقدام کے نتیجہ میں پیش آتی ہیں(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، الرسالہ نومبر1992ء، صفحہ28)۔

یروشلم میں پہلی عبادت گاہ (ہیکل) حضرت سلیمان نے اپنی بادشاہت کے زمانہ میں بنائی۔ یہ ہیکل 957 ق م میں بن کر تیار ہوا۔ اس عبادت گاہ کو بابل(عراق) کے حکمراں نبو خذنصر (Nebuchadrezzar II) نے لوٹا اور 586 ق م میں اس کو مکمل طورپر ڈھا دیا۔ ایک عرصہ کے بعد یہودیوں نے یہ عبادت گاہ دوبارہ بنائی۔ اس دوسری عبادت گاہ (ہیکل) کو بھی رومیوں نے 70ء میں ڈھاکر کھنڈر کر دیا۔ اس عمارت کی صرف ایک دیوار باقی رہ گئی ہے جس کو دیوار گریہ (Wailing Wall) یا مغربی دیوارکہا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یروشلم کی وہ کون سی ’’مسجد اقصیٰ‘‘ تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء اور معراج کے وقت622ء میں تمام انبیاء کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ تاریخی شہادت کے مطابق اس وقت وہاں صرف کھنڈر تھا، اس وقت وہاں کوئی’’مسجد‘‘ موجود نہ تھی۔ مگر صحیح بخاری کی روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب اپنے اس واقعہ کا اعلان فرمایا تو قریش نے اس پر یقین نہیں کیا۔ اس وقت مکہ میں کچھ ایسے افراد تھے جنہوں نے یروشلم کا سفر کیا تھا اور مسجد کو دیکھا تھا۔ انہوں نے کہاکہ کیا آپ مسجدکا نقشہ بتا سکتے ہیں۔ رسول اللہ نے نقشہ بتانا شروع کیا تو اس کی بعض چیزوں کے بارے میں آپ مشتبہ ہوگئے۔ اسی وقت مسجد لا کر آپ کے سامنے رکھ دی گئی اور آپ نے دیکھ کر اس کا پورانقشہ بیان کر دیا۔ قریش نے کہاکہ جہاں تک بیان کرنے کا تعلق ہے انہوں نے ٹھیک بیان کیا(أَمَّا النَّعْتُ فَقَدْ أَصَابَ) اخبار مكة  للفاکہی، حدیث نمبر 2100 ۔

بخاری کی روایت کے مطابق،622ء میں وہاں باقاعدہ’’مسجد‘‘ کی عمارت ہونی چاہیے۔ مگر موجودہ تاریخی شہادتوں سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ یہ مسئلہ اس قابل ہے کہ ازسرِنو اس کی تحقیق کی جائے۔

ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اہل کتاب کی روایت کے مطابق، حضرت یعقوب علیہ السلام جن کو یہودی اسرائیل کہتے ہیں، انہوں نے مسجد اقصیٰ کی بنا ڈالی۔ یہ فلسطین(ایلیا) کی مسجد ہے جس کو بیت المقدس کہا جاتا ہے(البدایہ والنھایہ، جلد1، صفحہ162)۔

اصل یہ ہے کہ حضرت یعقوب نے جس مقام پر یہودی معبد کی بنیاد رکھی تھی، اسی مقام پر بعد کو ہیکل سلیمانی کی تعمیرکی گئی۔ اس ہیکل کو ایک سے زیادہ بار تباہ کر دیا گیا۔ معراج کے وقت یہاں زیادہ تر کھنڈر تھا۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا ہے کہ قرآن میں(المسجد الاقصیٰ) سے مراد جگہ ہے، نہ کہ کوئی عمارت:

(Masjid) properly denotes the site, not the building of a mosque. (3/2)

مسجد اقصیٰ بظاہر ہیکل سلیمانی کے کھنڈر پر بنائی گئی اور بیت المقدس کی تعمیرصخرہ(چٹان) کے اوپر ہوئی۔ یہاں دیکھ کر معلوم ہواکہ مسجد اقصی ایک بہت بڑے ہال کی مانند ہے اور وہ پورے معنوں میں ایک مسجد ہے۔ مگر بیت المقدس معروف معنوں میں کوئی مسجد نہیں ہے۔ اس کی تعمیر مقبرہ جیسی ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں قبر کے اوپرگنبد بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح صخرہ کے اوپر گنبد بنایا گیا ہے۔ اس کے اندر باجماعت نماز نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے یہاں کسی موقع پر نماز ہوتی ہے تو قبہّ کے باہر میدان میں صفیں قائم کی جاتی ہیں۔

صخرہ کے متعلق یہود کی روایت ہے کہ یہاں ان کے ستر نبی قتل کیے گئے۔ ان میں حضرت یحییٰ بن زکریا بھی تھے۔ یہود کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی بھی اس صخرہ پر کی تھی۔ ان کے نزدیک یہ حضرت اسحاق تھے۔ کیونکہ وہ لوگ حضرت اسحاق علیہ السلام ہی کو ذبیح مانتے ہیں (البدایہ والنهایہ، جلد2، صفحہ55)۔

کویت کے میگزین المجتمع (یکم اگست1995) میں سعودیہ کے سعود محمد الزعبی نے لکھا تھا کہ 80 فیصد مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قبۃ الصخرة ہي المسجد الأقصی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اصل تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ غالباً99 فیصد لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور یہ غلط فہمی بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔

ابن ہشام نے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا اور وہ بیت المقدس ہے(ثُمَّ أُسْرِيَ  بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَهُوَ بَيْتُ الْمَقْدِسِ ) سیرۃ ابن ہشام، جلد1، صفحہ 396۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر قرآن میں لکھا کہ" إِلَى الْمَسْجِد الْأَقْصَى " وَهُوَ بَيْت الْمَقْدِس (تفسیر ابن کثیر، جلد3، صفحہ2)۔ یہی بات قرطبی نے بھی لکھی ہے کہ:أُسْرِيَ بِهِ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَهُوَ بَيْتُ الْمَقْدِسِ (تفسیر القرطبی، جلد10، صفحہ210 )۔

اسی طرح مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنی تفسیر قرآن میں لکھا ہے کہ یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ(بیت المقدس) واقع ہے (صفحہ365)۔ مولاناابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:مسجد حرام یعنی بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک(تفہیم القرآن، جلد2، صفحہ588)۔

مسجد اقصیٰ کامسئلہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے نزدیک ان کا سب سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں ساری دنیا کے مسلم پریس میں مسلسل مضامین اور رپورٹوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کی اصل نوعیت کے بارے میں لوگوں کی معلومات بے حد کم ہیں۔ ہر ایک بس جذباتی انداز کی تحریریں شائع کر رہا ہے۔ مثلاً مسجد اقصیٰ کی بازیابی پر ایک مضمون چھپے گا اور اس کے ساتھ جو تصویر شامل کی جائے گی وہ بیت المقدس کی ہوگی۔ حالانکہ دونوں واضح طورپر دو الگ الگ عمارتیں ہیں اور دونوں کی نوعیت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔مثلاً بمبئی کے ایک ماہنامہ میں اس مسئلہ پر ایک نہایت جذباتی تحریر شائع ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی تصویر ہے اور اس تصویر کے نیچے لکھا ہوا ہے’’مسجد اقصیٰ کو یہودی تولیت سے آزاد کرائو۔‘‘اصل مضمون جو نہایت جذباتی انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس کے چند جملے یہ ہیں

’’جہاں تک مسجد اقصیٰ کا تعلق ہے اس پر پورے عالم اسلام کا حق ہے اور اس پر یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کو عالم اسلام کبھی برداشت نہیں کر سکتا اور جب تک یہودی اس پر قابض ہیں دنیا کا ایک ایک مسلمان اس کی آزادی کے لیے جہاد کرتا رہے گا اور عالم اسلام میں اس وقت تک امن و چین کا ماحول پیدا نہیں ہوگا جب تک مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور پیغمبر اسلام کے معراج کی پہلی منزل یہودیوں سے آزاد نہیں ہو جاتی۔ اس لیے مسجد اقصیٰ اور عالم اسلام کے دوسرے مقامات مقدس کی بابت یہودیوں سے سازباز اور ان سے سیاسی سودے بازی کو مسلمان کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ اور اس سلسلہ میں مصری علماء اور شیخ الازہر کے کسی فتوے کو دنیا کے مسلمان تسلیم نہیں کر سکتے۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کی :

امانت ہے اس پر تولیت کا حق صرف مسلمانوں کا ہے‘‘(ماہنامہ البلاغ، دسمبر1995ء)۔

اس طرح کے مضامین پڑھ کر اکثر میری زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ اس سے زیادہ عجیب بات شاید اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ مسجد اقصیٰ کو جانتے بھی نہیں اور اس کے حقوق کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔

مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعد کے دور میں مسلمانوں نے ’’قبلہ اول‘‘ کے لفظ کو جذباتی طور پر تو بہت استعمال کیا مگر مسجد اقصیٰ کی زیارت کا رواج ان کے درمیان نہیں پڑا۔ آمدورفت کی اس کمی کا یہ نتیجہ ہوا کہ لوگوں کے ذہن میں واضح تصویر نہیں بنی کہ بیت المقدس کیا ہے اور مسجد اقصیٰ کیا ہے۔

یہاں قریب سے دیکھنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس کا ایک سبب غالباً دونوں کا جغرافی فرق بھی ہے۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ بیت المقدس(قبۃ الصخرۃ) ایک اونچی چٹان پر ہے۔ اس کے مقابلہ میں مسجد اقصیٰ اس سے الگ نسبتاً نشیبی زمین پر ہے۔ اس بنا پر جب کوئی فوٹو لینے والا فوٹو لیتا ہے تو دونوں عمارتیں بیک وقت فوکس میں نہیں آتیں۔ اِلایہ کہ کسی بڑے کیمرےکے ذریعہ کافی دور سے اس کا فوکس لیا جائے۔ تاہم دور سے فوکس لینے کی شکل میں بھی یہ صورت بدستور قائم رہتی ہے کہ اسی جغرافی فرق کی بنا پر تصویر میں بیت المقدس(قبۃ الصخرۃ) نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے اور مسجداقصیٰ اس کے پیچھے صرف غیر نمایاں انداز میں نظر آتی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے بعد جس زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایا، اس وقت وہاں موجودہ گنبد نہ تھا، اس وقت صرف سنگ خارا کی ایک چوکور چٹان تھی۔ یہی چٹان یہودیوں کا قبلہ بھی تھا اور عارضی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ بھی۔ گویا قبلۂ یہود یا قبلۂ اول دونوں ہی ’’صخرہ‘‘ ہیں، نہ کہ وہ’’سنہرا گنبد‘‘ جس کو بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ گنبد اس وقت سرے سے موجود ہی نہ تھا۔

ابو جعفر محمد بن جریر الطبری(م310ھ)نے اپنی تفسیر قرآن میں قبلۂ اول کے مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی مدینہ کے مسلمان (انصار) بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 622ء میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے بھی اسی کے مطابق عمل فرمایا۔ اس کی وجہ اہل کتاب کی تالیف قالب تھی( فَاخْتَارَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ لِكَيْ يَتَأَلَّفَ أَهْلُ الْكِتَابِ) تفسیر الطبری، جلد2، صفحہ623۔

بیت المقدس کتنے عرصہ تک قبلہ رہا، اس میںاختلاف ہے۔ بعض روایتوں کے مطابق 16 ماہ، بعض کے مطابق سترہ ماہ اور بعض کے مطابق انیس ماہ۔ غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جن راویوں نے انصار کے زمانہ کو شامل کرکے بتایا انہوں نے زیادہ مدت بتائی اور جنہوں نے صرف رسول اللہؐ کی مدت کو بتانا چاہا انہوں نے کم مدت بیان کی۔

اس وقت بیت المقدس کی موجودہ عمارت(قبہّ) موجود نہ تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل صخرہ (چٹان) کو قبلہ بنایا تھا، جس کو یہود مقدس سمجھتے تھے اور وہی یہود کا قبلہ تھا(كَانَ يَسْتَقْبِلُ صَخْرَةَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَهِيَ قِبْلَةُ الْيَهُودِ) تفسیر الطبری، جلد 2، صفحہ 622۔

ابن کثیر نے حضرت عمرکے سفر کے بارے میں ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مدینہ سے گھوڑے پر بیٹھ کر روانہ ہوئے تاکہ سفر تیزی سے طے ہو سکے اور مدینہ میں حضرت علی کواپنا قائم مقام مقرر کیا۔ اس طرح چلتے ہوئے وہ جابیہ(سرحد فلسطین) پر پہنچے(البدایہ و النهایہ، جلد7، صفحہ56)۔

دوسری روایت کے مطابق، آپ کا سفر اونٹ کے ذریعے طے ہوا۔ اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ سفر کس طرح طے ہوا۔ ایک روایت کے مطابق، آپ اور آپ کا غلام دونوں اونٹ پر باری باری بیٹھتے تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق، تین باری تھی۔ ایک بار آپ اور ایک بار غلام سوار ہوتا تھا اور تیسری بار اونٹ کو خالی رکھا جاتا تھا تاکہ وہ آرام کر لے۔

 خلیفہ ثانی عمر فاروق 638ء میں فاتحانہ طور پر یروشلم میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے فلسطین مسلسل مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔ بارہویں صدی عیسوی میں مسیحیوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا جو 88 سال تک جاری رہا۔ اس قبضہ کو صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں ختم کیا۔ ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہاکہ بظاہر صلاح الدین ایوبی نے یہ کامیابی صرف ایک دن (4جولائی1187) کی جنگ حطین میں حاصل کی تھی۔ مگر یہ کامیابی جوش کا نہیں بلکہ تیاری کا نتیجہ تھی۔ اس ایک دن کی فتح کے لیے صلاح الدین نے کئی سال تک غیر معمولی تیاریاں کی تھیں، یہاں تک کہ اس کی فوجی طاقت لاطینی صلیبیوں کے برابر ہوگئی۔

مورخین نے اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں نے جب یروشلم کو فرینک (Franks) کے قبضہ سے واپس لیا تو انہوں نے وہاں کے باشندوں سے انتہائی شرافت کا معاملہ کیا۔ مسیحیوں نے جب یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے وحشیانہ طور پر وہاں کے باشندوں کو قتل کیا تھا اور آزادانہ طورپر لوگوں کا خون بہایا تھا۔ اس کے بالکل برعکس، مسلمانوں کی دوبارہ فتح ممتاز طور پر شائستگی کا انداز لیے ہوئے تھی۔ صلاح الدین اور اس کے فوجیوں نے لوگوں سے نہایت فیاضانہ سلوک کیا:

In stark contrast to the city`s conquest by the Christians, when blood flowed freely during the barbaric slaughter of its inhabitants, the Muslim reconquest was marked by the civilized good faith and courteous behaviour of Saladin and his troops.(EB. 16/177)

صلاح الدین ایوبی نے 583ھ میں یروشلم(قدس) کو فتح کیا تھا۔ اس وقت یہ ایک حصار بند شہر تھا اور نہایت مشکل کے ساتھ اس کی فتح ممکن ہو سکی۔ فتح کے بعد جب مسلمان اندر داخل ہوئے تو مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ میں کثرت سے صلیب اور تماثیل وغیرہ رکھی ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ وہاں خنزیر بھی موجود تھے۔ مسلمانوں نے ان مقدس مقامات کی پوری صفائی کی اور اس کو پھر سے پاک کرکے اس کو عبادت کے قابل بنایا(البدایہ و النهایہ، جلد12، صفحہ324)۔

جاک بیرک ایک فرانسیسی تھا۔ وہ1910ء میں الجزائر میں پیدا ہوا۔ اس وقت الجزائر پر فرانس کا قبضہ تھا۔ جاک بیرک کے فرانسیسی والدین ایک استعماری ادارہ میں کام کرنے کے لیے الجزائر آئے تھے۔ جولائی 1995ء میں اس کا انتقال ہوگیا۔

جاک بیرک نے الجزائر میں عربی زبان سیکھی اور اس میں کمال حاصل کر لیا۔ وہ اسلامی موضوعات پر ایک عالم کی طرح کلام کرتا تھا۔ اسلامی لٹریچر کے مطالعہ سے وہ اسلام سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوگیا۔ حتیٰ کہ وہ اسلام کی حمایت و مدافعت کرنے لگا۔ اس کی کئی کتابیں اس موضوع پر ہیں۔ مثلاً العرب امس والیوم(1960ء)۔ اس نے قرآن کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی کیا جو ایک عمدہ ترجمہ شمار کیا جاتا ہے، وغیرہ۔

ایک عرب نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہاأحب جان بیرک العربیۃ والا سلام حتی لتحسبہ عربیا مسلما۔ وقد خسرالعلم بموتہ خسارۃ یصعب ان تعوض۔ وخسر العرب والمسلمون صدیقامن طراز نادر (جان بیرک عربی اور اسلام سے محبت کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ اس کو ایک عرب مسلمان سمجھتے، اس کی موت سے علم کا ایسا خسارہ ہوا، جس کا بدل ملنا مشکل ہے، اور عرب اور مسلمان نے اپنے ایک انوکھے ہمدرد کو کھودیا)۔

میں نے کہا کہ استعماری دور میں اس طرح کے بہت سے یورپی پیدا ہوئے جو یا تو اسلام دوست بن گئے یا انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس میں ہمارے لیے ایک بہت بڑا سبق چھپا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ جب ’’استعمار‘‘ جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ کوئی غیر قوم آپ کے اوپر سیاسی غلبہ حاصل کرلیتی ہے۔ مگر اس کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس عمل کے دوران اہل اسلام اور غیر اہل اسلام کے درمیان اختلاط پیش آتا ہے۔ بالفاظ دیگر مدعو خود چل کر داعی کے پاس آ جاتا ہے۔ لوگ عام طور پر پہلے رخ کو دیکھتے ہیں، وہ اس واقعہ کا دوسرا پہلو نہیں دیکھتے، اس لیے وہ اس کو استعمال بھی نہیں کر پاتے۔ اگر اس دوسرے پہلو کو منظم طور پر استعمال کیا جائے تو جاک بیرک جیسے ہزاروں لوگ پیدا ہو جائیں۔ حتیٰ کہ خود اسرائیلیوں میں بھی، جن کو اب تک آپ صرف دشمن اور مخالف اسلام کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

یروشلم میں میں نے مختلف لوگوں سے پوچھا کہ کہا جاتا ہے کہ یہودی موجودہ مسجد اقصیٰ کوڈھا کر وہاں دوبارہ ہیکل سلیمانی بنانا چاہتے ہیں۔ مگر لوگوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ ایک بے وقوفی کی بات ہوگی کہ ہزار سال کی تاریخ کو رد کرکے نئی تاریخ لکھنے کی کوشش کی جائے۔

ایک عیسائی انجینئر جو روم میں رہتے ہیں اور بار بار یروشلم آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے کبھی نہیں سنا کہ یہودیوں میں کوئی سنجیدہ خواہش اس بات کی ہے کہ ہیکل سلیمانی کو دوبارہ اسی جگہ بنایا جائے۔ بعض انتہا پسند افراد ایسا کہتے ہوں گے مگر نہ وہ یہودی قوم کی بات ہے اور نہ حکومت اسرائیل کی بات:

I have never heard that there is a serious intention to rebuild the temple of Israel on the same area where it was before its last destruction. (Antonello Paba)

مجھے جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اس کا انگریزی نام(Hotel 7-arches) ہے، اور اس کا عربی نام فندق الاقواس ہے۔ جائے وقوع کے اعتبار سے یہ یروشلم کا نمبر ایک ہوٹل ہے۔ اس کے چاروں طرف قدرتی مناظر اور تاریخی نشانیوں کے سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔

ہوٹل میں یہودی اور مسلمان بالکل معتدل فضا میں ملتے ہوئے نظرآئے۔ اکثر صباح الخیر، السلام علیکم، حیاک اللہ جیسے عربی الفاظ سنائی دیتے ہیں۔ ہوٹل کی دیواروں پر شیشہ کے فریم میں جو خوب صورت تصویریں لگی ہوئی ہیں، ان میں متعدد خالص عربوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً ایک بڑے فریم میں بہت سی رنگین تصویریں ہیں۔ اس کے اوپر عربی میں لکھا ہوا ہےلمحۃ عن الحیاۃ البدویۃ۔ اس میں تصویروں کے ذریعہ بدوی علاقہ کے فلسطینیوں کی زندگی کے مختلف مناظر دکھائے گئے ہیں۔اس طرح ایک اور فریم دیوار پر نظر سے گزرا۔ اس کے اوپر لکھا ہوا تھاالتراث الفلسطینی۔ اس میں فلسطینیوں کی بعض تاریخی چیزیں خوب صورت تصویروں کے ذریعہ دکھائی گئی تھیں۔

27 اگست کو دوپہر بعد میں اپنے ساتھی کے ہمراہ نکلا۔ گاڑی ہم نے ایک جگہ پارک کر دی اورعرب سیکٹر کے بہت بڑے علاقہ میں پیدل گھومتے رہے۔ گھنٹوں اِدھر سے اُدھر گئے۔ فلسطینی بچے، نوجوان اور بڑی عمر کے لوگ بالکل معتدل انداز میں اپناکام کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر غم یا خوف و ہراس نظر نہیں آیا۔ پورے علاقہ میں صرف ایک جگہ تین اسرائیلی فوجی گن لیے ہوئے بیٹھے تھے۔ وہ آپس میں غالباً عبرانی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔

27 اگست کی صبح کو میں نیچے اترا تو ریسپشن ڈیسک کے پیچھے کھڑے ہوئے خوش پوش نوجوان نے کہا کہ آج آپ کیسے ہیں(How are you today) ۔میں نے کہا کہ فائن۔ اس نے دوبارہ کہاالحمدللہ۔ ایک نئی بات یہ نظر آئی کہ یہاں ہوٹل کی خدمات میں عام قاعدہ کے مطابق، لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ سارا کام مرد کرتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ میں مجھے کوئی خاتون نظر نہیں آئی۔

 27 اگست کی شام کو چار بجے مسٹر اینٹی نیو(Mr. Antonello Paba) کے ساتھ مقامات مقدسہ دیکھنے کے لیے نکلا۔ کئی کلو میٹر کے دائرہ میں پھیلا ہوا ایک وسیع احاطہ ہے جس کے اندر یہودیوں اور عیسائیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات واقع ہیں۔ راستہ میںہر جگہ سیاح مردوں اور عورتوں کی بھیڑ نظر آئی۔

طویل راستہ طے کرنے کے بعد ہم لوگ مسجد اقصیٰ پہنچے۔ یہ ایک ہی بڑا احاطہ ہے جس کے اندرایک طرف مسجد اقصی ہے اور دوسری طرف سو قدم کی دوری پر بیت المقدس(قبۃ الصخرہ) واقع ہے۔ سب سے پہلے میں مسجداقصیٰ میں داخل ہوا۔ یہ بہت بڑی اور بلند و بالا مسجد ہے۔ اس کا اندرونی حصہ ایک طرف سے110 قدم اور دوسری طرف85 قدم ہے۔ یہاں میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور دعائیںکیں، کئی آدمی بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے نظر آئے۔

اس کے بعد بیت المقدس میں گیا۔ اس کو قبۃ الصخرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے نیچے درمیان میں پتھر کی ایک چٹان ہے۔ یہ چٹان تقریباً کمر تک اونچی ہے۔ چٹان کے چاروں طرف لکڑی کا کٹہرا بنا دیا گیا ہے۔ کٹہرا اور گنبد کی دیوار کے درمیان گول دائرہ میں ایک گیلری ہے۔ میں نے اس گیلری میں چل کر دیکھا تو وہ دو سو قدم تھی۔ اس گیلری میں میں نے دو رکعت نماز ادا کی اور دعائیں مانگیں۔ قبۃ الصخرہ مسجد نہیں ہے بلکہ چٹان کے اوپر قبہ ہے، اور اس کے باہر کشادہ صحن۔

 اس کے بعد میں مسجد عمر بن الخطاب گیا۔ یہ مسجد چھوٹی ہے۔25 قدم چوڑی اور 25 قدم لمبی۔ اس کی چھت بھی زیادہ اونچی نہیں۔ یہاں بھی میں نے دو رکعت نماز ادا کی۔ مسجد کے بیرونی حصہ میں جدید طرز کے وضو خانے اور غسل خانے بنے ہوئے ہیں۔ مسجد کے پاس ہی کنیسۃ القیامہ (Church of Resurrection) ہے جو کافی بڑا ہے۔

اس وقت مجھ پر ایک تحیر کی کیفیت طاری تھی۔ ان مقدس مقامات کی زیارت اور ان میں نماز ادا کرنا مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں خواب دیکھ رہاہوں۔ کیونکہ زندگی میں کبھی میں یہ سوچ بھی نہیں سکا تھا کہ میں قدس جائوں گا اور وہاں ایسی جگہ سجدہ کروں گا جہاں پیغمبروں نے اور اصحاب پیغمبر نے سجدے کیے ہیں۔

28 اگست کو صبح کا وقت ہے۔ سورج کی چمک دار روشنی باہر کے پورے ماحول کو منور کیے ہوئے ہے۔ میرے کمرہ کے ’’قددیوار‘‘ شیشوں کے باہر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں۔

 مسجد اقصیٰ کے اندر آپ داخل ہوں تو وہ نہایت عظیم اور پر ہیبت دکھائی دیتی ہے۔ میں نے اتنی پر ہیبت مسجد کوئی اور نہیں دیکھی۔ بیت المقدس کا نقشہ دوسرا ہے۔ اس کا طرز مقبرہ جیسا ہے۔ یعنی درمیان میں بڑا سا پتھر، اس کے اوپر اونچا گنبد، اور پتھر کے گرد گول دائرہ میں ایک گیلری۔

کمرہ سے ان تاریخی مناظر کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں قرآن کی یہ آیت آئی: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (17:1)۔یعنی، پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

ان قرآنی الفاظ پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیاکہ  بَارَكْنَا حَوْلَهُ   ( جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے) سے مراد غالباً اس مقام کا یہ سرزمین نبوت ہے۔ اور لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا   (تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں)سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو چشم زدن میں مکہ سے 800 کلو میٹر دور یروشلم میں لا کر اس نے آنے والے دور کا تعارف کرایا، جس کو دور مواصلات (age of communication) کہا جاتا ہے۔

اس غیر معمولی سفر کے ذریعہ اس بات کا ایک مظاہرہ کیا گیا کہ خدا کا دین اب قومی نبوت کے دور سے گزر کر بین الاقوامی نبوت کے دور میں داخل ہوگیا ہے۔اب وہ مقامی پیغام رسانی کی محدودیت سے نکل کرعالمی پیغام رسانی کے وسیع تر دائرہ میں پہنچ گیا ہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى(17:1)—یہ فقرہ اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے ذات نبوت کے بارے میں ہے مگر اسی کے ساتھ اس کا ایک وسیع ترمفہوم بھی ہے جس کا تعلق پوری امت محمدی سے ہے۔ پیغمبر اسلام کو ایک لمحے میں 800 کلو میٹر کا دو طرفہ سفر کرانا گویا کہ علامتی طور پر پوری امت کو یہ بتانا تھا کہ اس دین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تیز رفتار سفر کا دور شروع کر دیا ہے۔ پیغمبر اسلام کو عالمی پیغمبر بنانے کے ساتھ ہی یہ امکان بھی کھول دیا گیا ہے کہ آپ کے امتی بہ سہولت آپ کے دین کی عالمی پیغام رسانی کر سکیں۔

سفر اسراء میں اس بات کا اشارہ تھاکہ اس نئے دور کا سب سے اہم پہلو کمیونی کیشن ہوگا، نہ کہ سیاسی اقتدار۔ مگر موجودہ زمانہ میں جب یہ دور اپنے عظیم امکانات کے ساتھ ظاہر ہوا تو تمام دنیاکے مسلمان سیاسی اقتدار کے مسئلہ میں الجھ گئے۔ وہ دین خدا وندی کی دعوت کو عام کرنے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال نہ کر سکے۔

اس ناکامی کا اصل سبب حکمت نبوت سے محرومی ہے۔موجودہ زمانہ میں ہمارے علماء اور دانشور،اس حکمت نبوی سے بالکل بے خبر ہیں جس کی ممتاز مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر اسراء میں پائی جاتی ہے۔ جس وقت آپ کا یہ سفر ہوا، اس وقت یروشلم پر ایک مشرک بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔اس کے باوجودآپ بجسدہ الشریف وہاں گئے اور تمام نبیوں کے ساتھ مسجد اقصیٰ میںایک خدا کی عبادت کی۔ اس سے معلوم ہواکہ آپ کی ایک سنت الفصل بین القضیتین ہے، یعنی سیاسی ایشو کوالگ کرکے دینی مواقع کو استعمال کرنا۔ مگر اس حکمت سے بے خبر ہونے کی بنا پر ہمارے تمام رہنما سیاسی مسائل میں الجھ گئے اور نئے دینی امکانات کو استعمال کرنے میں ناکام رہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،الرسالہ نومبر1995)۔

28 اگست کا دن خالی تھا۔ اس لیے آج تفصیل کے ساتھ یروشلم کے مختلف حصوں کو دیکھا۔ مجھے خاص دلچسپی اس حصہ سے تھی جسے عرب سیکٹر کہا جاتا ہے اور جس میں تمام مقامات مقدسہ واقع ہیں۔ اس علاقہ میں کثرت سے تنگ گلیاں ہیں۔ اس لیے ہم نے گاڑی چھوڑ دی تاکہ اس کے ہر حصہ میں داخل ہو کر اس کو دیکھا جا سکے۔ ایک چیز بڑی عجیب تھی کہ اس علاقہ کی دیواروں پر کثرت سے عربی زبان میں نعرے لکھے ہوئے تھے۔ یہ تقریباً ویسا ہی منظر تھا جو پرانی دہلی کی دیواروں پر پوسٹر کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ تمام کے تمام جنگ جویانہ نعرے تھے۔ مزید یہ کہ وہ ہاتھ سے بدخط انداز میں لکھے ہوئے تھے اور بمشکل پڑھے جاتے تھے۔ ان راستوں سے مسلسل مرد اور عورت گزر رہے تھے مگر میں نے اپنے سوا کسی کو بھی نہیں پایا جس کوان نعروں سے کوئی دلچسپی ہو یا وہ ان کو پڑھنے کے لیے ایک لمحہ وہاں رکنا پسند کریں۔ چند نعرے یہ تھے:

قاتلو اعداء اللہ

الارض لنا والقدس لنا

التحیۃ کل التحیۃ لشھداء الخلیل

العیدُ لمن مات شھیداً

تحیۃ لکل قطرۃ دم سالت دفاعا

تحیۃ الی المتعلقین الابطال— فتح

یہ پورا علاقہ تاریخی علاقہ ہے۔ یہاں قدم قدم پر عمارتوں کے اوپر ایسے بورڈ نظر آتے ہیں جواس کی تاریخی حیثیت کی یاد دلاتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ ایک عمارت کے گیٹ پر عربی میں لکھا ہوا نظر آیامکان مقدس، ھنابدأ           یسوع آلاماً۔ ایک پھاٹک پر عبرانی اور انگریزی میں لکھا ہوا تھا:

Tomb of the Prophets, Haggai and Meleachi

ایک جگہ لکھا ہوا تھاBirthplace of Virgin Marry ایک جگہ لکھا ہوا تھا:ساحۃ النبی دائود (En-Nabi Dawoud Squire)۔مسلم نوعیت کے بورڈ بھی جگہ جگہ دکھائی دیے۔ مثلاً ایک عمارت کے دروازہ پر لکھا ہوا تھا:ادارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیۃ(مدیر اوقاف القدس)۔ ایک جگہ لکھا ہوا تھا:جامع الزاویۃ ا  لنقشبندیۃ۔ اس علاقہ میں زیادہ تر دکانیں فلسطینیوں کی ہیں۔ ایک دکان کے آگے بنیان کے اوپر یہ الفاظ چھپے ہوئے تھے:بحبك یافلسطین(اے فلسطین میں تجھ سے پیارکرتا ہوں)۔

28 اگست کو دوبارہ میں اپنے ساتھی کے ہمراہ تاریخی مقامات دیکھنے کے لیے نکلا۔ ہم نے اپنی گاڑی چھوڑ دی تاکہ ہم گلیوں اور تنگ راستوں میں بھی جا سکیں اور زیادہ سے زیادہ مقامات کو دیکھیں۔ ہم ایک ڈھلوان راستہ پر چل رہے تھے کہ سامنے سے ایک فلسطینی مسلمان آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا جس کی عمر غالباً دس سال ہوگی۔ بچہ اپنے ہاتھ میں زیتون کی شاخیں لیے ہوئے تھا۔ اس نے ایک شاخ مجھ کو اور ایک شاخ میرے ساتھی کو پیش کی۔ میرے ساتھی نے بتایاکہ زیتون کی شاخ امن کی علامت ہے اور وہ اپنی امن پسندی کے اظہار کے لیے یہ شاخ ہمیں دے رہا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ انسان کی نمائندگی کررہا ہو اور پوری انسانیت کی طرف سے کہہ رہا ہو کہ ان بے فائدہ جھگڑوں کو بند کرو اور ہمیں امن کے ساتھ رہنے دو۔

28 اگست کی دوپہر کو ایک اطالوی مسیحی کے ہمراہ کنیسۃ القیامہ (Church of Resurrection) دیکھا۔ یہ بہت بڑا ہے اور مسجد عمر سے ملا ہوا ہے۔ اسی کے اندر وہ جگہ ہے جس کے متعلق عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہاں حضرت مسیح کو سولی دی گئی تھی۔ اس کو مقدس سیپلکر (Holy Sepulchre) کہا جاتا ہے۔ یہاں عجیب و غریب منظر ہے۔ دیوار سے ملا ہوا حضرت مسیح کا قد آدم مجسمہ ہے۔ اس کے پیچھے صلیب کی لکڑی ہے۔ اس لکڑی کے ساتھ آپ کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں میں کیل ٹھونکی ہوئی ہے جس سے خون نکل رہا ہے۔ گردن میں پھانسی کی رسی ہے۔ آپ کا جسم مردہ کی مانند لٹک رہا ہے۔

اسی کے ساتھ چرچ میں کئی اور مقدس مقامات ہیں۔ وہ مقام جہاں مسیحی عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح کے جسم کوصلیب سے اتار کر رکھا گیا تھا۔ یہاں ایک چبوترہ ہے جس کوعورتیں چومتی ہوئی نظر آئیں۔ ایک اور مقام ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تین دن کے بعد حضرت مسیح دوبارہ زندہ ہوکر یہاں نمودار ہوگئے۔ اور یہاں سے پھر آسمان میں چلے گئے۔

28 اگست کی شام کو دیوار گریہ (Wailing wall) دیکھی۔ یہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے احاطہ کی دیوار سے ملی ہوئی ہے۔ دیوار کے ساتھ ملا ہوا وسیع میدان ہے جس میں ایک رسی تان کر عورت اور مرد کا علاقہ الگ کر دیا گیا ہے۔ بہت سے یہودی مرد اور عورت دیوار کے پاس کھڑے ہوکر پیشانی کے ساتھ دیوار سے چمٹے ہوئے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔

 لاطینی زبان میں قبر کے لیے سیپلکر(sepulchre)کا لفظ ہے۔ یروشلم میں مسیحی عقیدہ کے مطابق، حضرت مسیح کی جو قبر ہے، اس کو مقدس مزار(Holy Sepulchre) کہا جاتا ہے۔ ایسٹر سے پہلے آنے والے جمعہ کو مسیحی حضرات گڈ فرائڈے کہتے ہیں اور اس کو حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کی یاد گار کے طور پر مناتے ہیں۔ ہر سال گڈ فرائڈے کو یروشلم کے ’’مقدس مزار‘‘ پر بڑی تعداد میں مسیحی لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس میں جو تقریبات کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ صلیب کی صورت میں پھانسی کی لکڑی کھڑی کی جاتی ہے۔ اور ایک آدمی اس پر چڑھ کر ڈرامائی انداز میں اپنے آپ کو مصلوب کرتا ہے۔

28 اگست کو شام کا کھانا ہوٹل’’امریکن کالونی ‘‘ میں تھا۔ یہ ایک تاریخی ہوٹل ہے۔ اس کے بیشتر کارکن فلسطینی ہیں۔ اس میںایک لمبی گیلری ہے جس میں فلسطین کی پچھلی تاریخ کو تصویروں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ ترکی عہد کی بہت سی تصویریں یہاں خوب صورت فریم میں لگی ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ نمایاں تصویر فلسطین کے ترک حاکم جمال پاشا کی تھی۔ وہ ایک شاندار گھوڑے پربیٹھے ہیں۔میں دیر تک اس کو دیکھتا رہا، گھوڑا اللہ تعالیٰ کی ایک عجیب نعمت ہے۔ جو شان گھوڑے کی سواری میں ہے وہ کسی بھی دوسری سواری میں نہیں۔

 ہم لوگ کھانا کھا چکے توشیشہ کے گلاس نما برتن میں آئس کریم لا کر سب کے سامنے رکھی گئی۔ میں چمچہ اٹھا کر کھانا چاہتا تھا کہ ہوٹل کا ایک نوجوان کارکن اچانک آیا، اس نے میری آئس کریم اور چمچہ تیزی سے اٹھا لیا اور پھر دوسری آئس کریم اور دوسرا چمچہ لا کر رکھ دیا۔ فوری طور پر میں اس کا راز سمجھ نہ سکا۔ بعد کو معلوم ہواکہ آئس کریم میں الکحل کی آمیزش تھی۔ نوجوان نے میری صورت سے سمجھا کہ یہ مسلمان ہیں۔ چنانچہ فوری طورپر اس نے الکحل کے بغیر دوسری آئس کریم تیار کی اور جلدی سے لاکراس کو میرے سامنے رکھ دیا اور پچھلی آئس کریم کھانے سے مجھ کو بچا لیا۔

اس نوجوان سے مل کر میں نے اس کے بارے میںدریافت کیا۔ معلوم ہواکہ وہ فلسطینی مسلمان ہے اور اس کا نام بہجت ہے۔ میں نے اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ وہ عربی بولتا تھا اور بظاہر نہایت ذہین اور مستعد نوجوان تھا۔

یورپ کے ایک تعلیم یافتہ مسیحی جو اکثر یروشلم آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میری معلومات کے مطابق بہت تھوڑے یہودی ہیں جو مسجد اقصیٰ کو توڑ کر اس کی جگہ سلیمانی ہیکل دوبارہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ بیشتر یہودی اس کے مخالف ہیں۔ مذہبی یہودیوں کے نزدیک دو ہزار سال پہلے جب رومن اس میں داخل ہوئے اور اس کو ڈھا دیا تواب یہ جگہ ناپاک ہو چکی ہے۔ مسیح جب آئیں گے تو وہی دوبارہ اس کو پاک کریں گے۔ دوسرے یہ کہ یہودیوں کے یہاں عبادت گاہ کا خاص مقصد سو ختنی قربانی پیش کرنا ہوتا ہے۔ تعلیم یافتہ یہودی اس قسم کی قربانی کو غیر مہذب سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ کبھی نہیں چاہتے کہ ہیکل دوبارہ تعمیر ہو۔ اور وہاں اس قسم کے غیر مہذب کام دوبارہ کیے جانے لگیں۔

 عرب علاقہ میں چلتے ہوئے ایک جگہ کچھ فلسطینی بچے نظر آئے۔ قریب پہنچ کر معلوم ہواکہ وہ کورس(chorus) کی صورت میںایک پرجوش ترانہ(اُنشودة حماسیّۃ) گا رہے ہیں۔ یہ شعر کی اصطلاح میں ایک ترجیع تھا جس میں ہر چند مصرعوں کے بعد اس شعر کی تکرار ہوتی تھی کہ آئو ہم جنگ کریں، آو ہم جنگ کریں۔کیوں کہ جنگ ہی رشد و فلاح کا راستہ ہے:

هلموا نقاتل ھلموا نقاتل    فان القتال سبیل الرشاد

یہ ترانہ شریعت کے خلاف بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب8ھ میں دس ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف مارچ کیا تو ایک سردارکی زبان سے نکلا:الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ (آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے) آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ آج رحمت کا دن ہے(الْيَوْم يَوْم الْمَرْحَمَة)الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد2، صفحہ 597۔

وہ عقل کے خلاف اس لیے ہے کہ موجودہ زمانہ کی تبدیلیوں نے جنگی اقدامات کے بجائے پرامن جدوجہد کو طاقت کا سرچشمہ بنا دیا ہے۔ میں نے سوچا کہ فلسطینی قیادت، اگر حدیث (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)کے الفاظ میں اپنے زمانہ سے باخبر( بَصِيرًا بِزَمَانِهِ) ہوتی تو وہ اپنی نئی نسل کو جنگ کے بجائے امن کا سبق دیتی۔ اور آج برعکس طور پر، ہر فلسطینی بچہ کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے:

هلموا نسالم ھلموا  نسالم فان السلام سبیل الرشاد

(آو  امن کی روش اختیار کریں آو امن کی روش اختیار کریں۔ کیونکہ امن ہی رشد وکامیابی کا راستہ ہے)

ایک عرب عالم سے جہاد(بمعنی قتال) کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ قرآن میں جنگ کا حکم اسلام کی اشاعت کے لیے دیا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ قرآن میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ جنگ کرکے اسلام کی اشاعت کرو۔ قرآن میں صرف یہ ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ان سے جنگ کرو( 2:193)۔

اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر(religious persecution) ہے۔ جب مذہبی جبر ختم ہو جائے تو جنگ کا حکم اپنے آپ ساقط ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نماز کے لیے تیمم کی اجازت دی جائے جب کہ پانی نہ ہو۔ پھر جب پانی آ جائے تو اپنے آپ تیمم کی اجازت ختم ہو جائے گی— آب آید تیمم برخاست۔

میں نے کہا کہ بخاری میں یہ روایت ہے کہ فتنۂ ابن الزبیر کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے اپنی اس جنگ کے لیے قتال برائے ختم فتنہ کی آیت کو استعمال کیا تو اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کی تردید کی۔ انہوں نے کہاکہ فتنہ کو اصحاب رسول نے جنگ کرکے ختم کر دیا(قَدْ فَعَلْنَا) اور جب فتنہ ختم ہوگیا تو اب جنگ کس لیے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4650)۔

میں نے کہا حضرت عبداللہ بن عمر کے اس قول کے مطابق خلافت راشدہ کے بعد ہی اس فتنہ(مذہبی جبر) کا خاتمہ ہوگیا جس کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا تھااور جب مذہبی جبر ختم ہو جائے تواس کے بعد پرامن دعوت اسلام کا زمانہ آ جاتا ہے نہ کہ غیر ضروری طور پر متشددانہ جنگ کا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو لڑائیاں کی ہیں وہ ملک گیری کی لڑائیاں تھیں، نہ کہ حقیقتاً معنوں میں جہاد فی سبیل اللہ۔

29 اگست 1995ء کی صبح کو دوبارہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسجد الاقصیٰ اور بیت المقدس کی زیارت کے لیے روانہ ہوا۔ میرے ساتھ ایک مسلمان اور دو مسیحی تھے۔ ہم لوگ ایک گیٹ پر پہنچے۔ وہاں اسرائیلی پولیس کے دوآدمی تھے۔ انہوں نے عربی اخلاق کے مطابق گفتگو کی۔ مرحبا، صاحب الخیر، اھلاً وسھلاً جیسے کلمات سے ہمارا استقبال کیا۔ مگر انہوں نے کہاکہ اس گیٹ سے صرف مسلم جا سکتے ہیں۔ آپ کے مسیحی دوست کو سیاحوں والے گیٹ سے داخلہ ملے گا۔ ہم لوگ چلتے ہوئے دوسرے گیٹ پر پہنچے تو وہاں بھی پولیس کے دو آدمی تھے اور انہوں نے بھی دوبارہ یہی جواب دیا۔ پھر ہم لوگ روانہ ہو کر تیسرے گیٹ پر پہنچے وہاں بھی ہم کو یہی جواب دیا گیا۔ آخر کار ہم چوتھے دروازے پر(دیوار گریہ کے قریب) پہنچے۔ وہاں سب کو بیک وقت داخلہ دیا گیا۔ دکتور محمد امین السماعیلی (ا لمغرب) نے کہاالقضیۃ کلھا مادیۃ۔ چونکہ مسلمانوں کے لیے داخلہ فری ہے۔ مگر غیرمسلم سیاحوں کو داخلہ کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے، اس لیے ان کے داخلہ کے لیے ایک گیٹ مخصوص کر دیا گیا ہے۔ جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے، وہ کسی بھی دروازہ سے بغیر ٹکٹ داخل ہوسکتے ہیں۔

آج میں دوسری بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ اس وقت اسرائیل کے اعتبار سے9 بجے صبح کا وقت تھا اور ہندستان کے لحاظ سے ساڑھے گیارہ بجے کا۔ نماز پڑھتے ہوئے دل بھر آیا۔ سجدہ میں روتے ہوئے دعا کے یہ الفاظ نکلے کہ خدایا!زمانہ کا فرق تیرے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ تو میرے لیے زمانی دوری کو ختم کر دے۔ مجھ کواس مقدس جماعت کی صفوں میں شریک کر دے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں امامت کر رہے تھے اوران کے پیچھے انبیاء صف باندھ کر نماز ادا کر رہے تھے۔

اس کے بعد ہم لوگ بیت المقدس(قبۃ الصخرہ) میں داخل ہوئے۔ اس کا سنہری گنبد اس وقت سورج کی روشنی میں نہایت شان کے ساتھ چمک رہا تھا۔وہاں بھی دورکعت نماز ادا کی اور اپنے لیے اور دوسرے لوگوں کے لیے دعائیں کیں۔

 شیخ الازہر جادالحق علی جادالحق نے اپنی ایک تقریر میںکہا تھاکہ میں نے کبھی بھی قدس جانے کے لیے نہیں سوچا جب کہ وہ اسرائیلی قبضہ کے تحت ہو۔ اللہ کے حکم سے میں اس کی آزادی کے بعد وہاں جائوں گا(لم افکرابدًا فی زیارۃ القدس وھی تحت الاحتلال الاسرائیلی۔وسوف ازورھاباِذن اللہ بعد تحریرھا)الدعوۃ، الریاض، العدد1477ھ،26 جنوری1995، صفحہ25

مگر شیخ جادالحق علی جادالحق79 سال کی عمر میں15مارچ1996ء کو قاہرہ میںانتقال کرگئے۔ اور وہ قدس کی زیارت نہ کر سکے۔اس سفر کے دوران میں نے جب مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور وہاں غیرمعمولی کیفیات کا تجربہ کیا جو کسی بھی دوسرے مقام پرممکن نہیں، تو میں نے سوچا کہ شیخ الازہر کا فیصلہ کوئی صحیح فیصلہ نہیں تھا۔ دینی رزق کے حصول میں سیاسی قبضہ کومانع بنانا سنت رسول کے خلاف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی جب کہ وہ مشرکین کے قبضہ میں تھا۔ اسی طرح آپؐ نے سفر معراج میں مسجداقصیٰ میں نماز ادا کیا۔ حالانکہ اس وقت اس پر ایران کے مشرک بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ شاید لوگوں کو روحانی یافت کی قیمت نہیں معلوم، اس لیے وہ سیاسی قضیوں کو غلو آمیز اہمیت دے کر اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم کیے ہوئے ہیں۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،فکر اسلامی کا باب، الفصل بین القضیتین)۔

موجودہ زمانہ میں بین الاقوامی طور پر مسلمہ قانون کے تحت ہر آدمی کو یہ آزادی ہے کہ وہ جہاں چاہے جائے مگر مذکورہ غلط پالیسی کی بنا پرساری دنیا کے مسلمانوں نے یروشلم کا سفر ترک کر رکھا ہے۔ اس کا بھیانک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کو یروشلم اور اسرائیل کے حقیقی حالات کا سرے سے پتہ ہی نہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان ایک ایسے دشمن کے خلاف لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں جس کے بارے میں خود ساختہ پروپیگنڈوں کے سوا انہیں کچھ اور نہیں معلوم۔ حتیٰ کہ آمدورفت نہ ہونے کے نتیجہ میں انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ قدس کیا ہے اور مسجد اقصی کیا ہے۔ دنیا کے تقریباً99فیصد مسلمان قدس ہی کو مسجد اقصیٰ سمجھتے ہیں۔ جب کہ دونوں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے الگ ہیں بلکہ ان کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہے۔

ایک فلسطینی نوجوان نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کے لیے تطھیر القدس من اَبناء القردۃ و الخنازیر کے الفاظ استعمال کیے۔ یعنی قدس کو بندروں اورسوروں کی اولاد سے پاک کرنا۔ میں نے کہاکہ خدا کے فیصلہ کے تحت رسول اور اصحاب رسول نے یہود و نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکالا۔ مگر اس کے لیے انہوں نے آپ جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ رسول اللہ نے سادہ طور پر فرمایاأَخْرِجُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ( مسند البزار، حدیث نمبر 230)۔ اور آپ لوگ رسول کی اتباع کے نام پر اس قسم کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کر رہے ہیں۔

حیدر آباد کے ایک صاحب مرزا مشکور بیگ اپنے کسی کام کے تحت اسرائیل میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنے کچھ تاثرات حیدر آباد کے روزنامہ سیاست(5نومبر1995ء) میں چھپوائے ہیں۔ اس کا ایک جزیہ ہے:اسرائیل کے ہرباشندہ کو 18 سال کی عمر ہوتے ہی ریوالور رکھنے کی اجازت ہو جاتی ہے۔ جس طرح ہمارے حیدر آباد میں ہرگلی میں ایک’’شیر‘‘ ہوتا ہے جو گلے کے بٹن کھلے رکھ کر سینہ تان کر صرف کمزوروں کو دباتا ہے جس کو حیدر آبادی زبان میں’’ابو شیر‘‘ کہتے ہیں۔وہ یہاں نہیں ہے کیوں کہ ہرایک مسلح ہے۔کمزور بھی اور طاقت ور بھی۔ اور دونوں ایک دوسرے سے ڈرے ہوئے ہیں۔

یہ صحیح ہے کہ اسرائیل میں ہر یہودی کو قانونی طورپر ریوالور رکھنے کی عام اجازت ہے مگر یہ لوگ اس کو صرف غیروں پر استعمال کرتے ہیں،نہ کہ اپنے لوگوں پر۔ لیکن مذکورہ بیان کے مطابق، اس چیک کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کے پاس ہتھیار ہے۔ اگر ہر ایک کے پاس ہتھیار ہونا چیک بن جاتا ہو تو کراچی اور افغانسان میں واقعہ کیوں نہیںپیش آیا، جہاں ہر ایک کے پاس ہتھیار ہونا باہمی خانہ جنگی کا سبب بن گیا۔ اصل یہ ہے کہ یہودی ایک تعلیم یافتہ اور باشعور قوم ہیں۔ ان کی یہی صفت اس بات کے لیے روک بن گئی ہے کہ ایک یہودی اپنا ہتھیار دوسرے یہودی کے خلاف استعمال نہ کرے۔

یہاں کا ایک قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ 1969ء میں ساری دنیاکے یہودیوں نے چندہ جمع کیا تھا تاکہ یروشلم میں ایک بہت بڑا سنگاگ تعمیر کیا جائے۔ یہ رقم ایک بلین امریکی ڈالر پر مشتمل تھی۔ یہ پوری رقم چیف ربائی کی خدمت میں پیش کی گئی۔ لیکن چیف ربائی نے عبادت کی تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا:خدا ساری دنیاکا مالک ہے۔ ساری شان و شوکت اسی کے لیے ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں اس کے لیے ایک بلین ڈالر کی رقم کا محل تعمیر کرنے والے۔ اس کی بندگی توہر جگہ سوتے جاگتے کی جا سکتی ہے۔ خدا کو جاننے کے لیے علم ضروری ہے۔ جائو اس رقم سے ایک تعلیمی ٹرسٹ بنائو تاکہ کوئی یہودی بے علم نہ رہے۔ اس طرح دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ٹرسٹ1970ء میں اسرائیل میں وجود میں آیا۔

اسرائیل میں یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کے بعد سب سے بڑا درجہ تعلیم کا ہے۔یہاں تعلیم کو ہوا اور پانی کی طرح فری کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر فرد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔

یروشلم موجودہ زمانہ میں یہودیوں کا مرکز ہے۔ یہاں بہت سے یہودیوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے باتیں ہوئیں۔ میرا احساس یہ تھا کہ یہودی کوئی غیر انسانی مخلوق نہیں ہیں۔ وہ بھی اسی طرح انسان ہیں جس طرح دوسرے بہت سے انسان ہیں۔ وہ بھی اپنے اندرایک فطرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ اختلافی زمانہ میں بھی بہت سے یہودی مسلمان ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک تازہ مثال پاکستان کے مشہور کھلاڑی عمران خان(پيدائش 1952ء) کی بیوی جمائما (پيدائش 1974ء) کی ہے۔ وہ لندن کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ مگر اسلام کی تعلیمات نے انہیں متاثر کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس وقت وہ پاکستان میں رہ رہی ہیں۔ اور اب ان کا لباس قمیص اور شلوار اور دوپٹہ ہے۔

یہودیوں سے گفتگو کے دوران محسوس ہوا کہ ان کے بھی مفادات ہیں، جس طرح ہمارے مفادات ہیں۔ تاہم وہ بھی اسی طرح عقلی دلائل کے آگے جھکتے ہیں جس طرح دوسرے انسان عقلی دلائل سن کر جھک جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سلسلہ میں ہم کو زیادہ فطری نقطۂ نظر اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی ہم انہیں’’دشمن‘‘ کے روپ میں دیکھنے کے بجائے’’مدعو‘‘ کے روپ میں دیکھیں اور فطرت کے اسلوب میں انہیں دین حق کا مخاطب بنائیں۔

یروشلم کے چند روزہ قیام کے دوران بہت سے ادارے اور عبادت خانے دیکھنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کے بھی اور غیر مسلموں کے بھی۔ میں نے پایا کہ عیسائی حضرات کے یروشلم میں کثیر تعداد میں بہت بڑے بڑے چرچ ہیں، یہاں ان کے شاندار ادارے ہیں۔ انہوں نے جلسوں اور میٹنگوں کے لیے نہایت عمدہ قسم کے ہال بنا رکھے ہیں۔ مگر جہاں تک میں معلوم کر سکا تو فلسطینی مسلمانوں کے یہاں اس طرح جدید معیار کے اعلیٰ ادارے موجود نہیں۔ اس کی وجہ غالباً دونوں کے مزاج کا فرق ہے۔ عیسائی حضرات تعمیری شعبوں میں اپنے کو مستحکم بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس، مسلمانوں کے ذہن سیاست اور اقتدار سے اتنا زیادہ مائوف ہیں کہ وہ یہ سوچ ہی نہیں پاتے کہ یہاں کوئی اور بھی کام ہے جس میں انہیں مشغول ہونا چاہیے۔

 یہ دراصل فکری پس ماندگی کی علامت ہے۔ قدیم زمانہ میں سیاسی ادارہ ہی واحد سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں سیاسی ادارہ نے ثانوی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ باشعور قوموں نے اس تبدیلی کو جان کر اس کے مطابق اپنی تعمیر کرلی۔ مگر مسلم رہنمااور دانشور سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے سیاست کی چٹان سے اپنا سر ٹکرا رہے ہیں۔ بے شمار قربانیوں کے باوجود وہ کوئی بھی حقیقی چیز حاصل نہ کر سکے۔

 مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ اکثر جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ:من للقدس؟ یعنی کون ہے جو قدس کے لیے کچھ کرے۔ یہ جملہ بظاہر یہ تاثر دیتا ہے جیسے کہ قدس کامیدان خالی پڑا ہوا ہے اور وہاں کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات صد فیصد بے بنیاد ہے۔

1948ء میں شیخ حسن البنا نے قاہرہ میں جلوس نکالا جس میںایک لاکھ مصری شریک تھے۔ اس کانعرہ تھالبیک یافلسطین(اے فلسطین ہم حاضر ہیں)۔پھر کئی بار باقاعدہ مسلم فوجوں نے اسرائیل سے جنگ کی۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں کی عسکری تنظیمیں ہرروز قربانی دے کر اس محاذ پر لڑائی لڑ رہی ہیں۔ اس کی آخری حد یہ ہے کہ پرجوش فلسطینی اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر اسرائیلی آبادی میں گھس جاتے ہیں۔ یہ خودکش بمبار خود بھی ہلاک ہوتے ہیں اور بہت سے اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ وغیرہ

ایسی حالت میں مَن لِلقدس کا جذباتی نعرہ سراسر بے معنی ہے۔ اس قسم کے دانشوروں کی غلطی یہ ہے کہ وہ فلسطینی جدوجہد کا نتیجہ نہیں دیکھ رہے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس محاذ پر جدوجہد بھی نہیں ہو رہی ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جدوجہد تو سرفروشانہ حد تک جاری ہے۔ مگر عملاً وہ سب کی سب بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یا یہ قرآنی الفاظ میں، حبطِ اعمال کا شکار ہو رہی ہیں۔گویا کہ جوچیز مفقود ہے وہ جدوجہد کا نتیجہ ہے، نہ کہ خود جدوجہد۔

ہندستان اور اسرائیل کے وقت میںڈھائی گھنٹہ کا فرق ہے۔29 اگست کی صبح کو مقامی وقت کے اعتبار سے آٹھ بجے ہیں۔ میری گھڑی ہندستان کے اعتبار سے ساڑھے دس بجے کا وقت بتا رہی ہے۔ سورج میلوں تک کے پورے ماحول کو آخری حد تک روشن کیے ہوئے ہے۔ میں اپنے کمرہ میں لگے ہوئے’’قدِدیوار‘‘ شیشوں کے پیچھے کھڑا ہوا باہر شہر قدس کا منظر دیکھ رہا ہوں۔ یہ حضرت داود کے محل کے کھنڈر ہیں۔ یہاں حضرت سلیمان کے محل کا کھنڈر تھا۔ یہ بیت المقدس ہے جس کو عبدالملک بن مروان اموی نے بنوایا تھا۔ یہ وہ رومی عدالت ہے جہاں حضرت مسیح کے خلاف فیصلہ سنایا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت مریم کی پیدائش ہوئی۔ یہ مسجد اقصی ہے جہاں پیغمبر اسلام نے تمام نبیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی۔ یہ مسجد عمر ہے جہاں فتح فلسطین کے بعد حضرت عمر فاروق نے نماز ادا فرمائی۔ اسی طرح پورے علاقوں میں جگہ جگہ نبیوں کے نام کی تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ سبھی مذہبی فرقے ان نبیوں اور بزرگوں کا احترام کرتے ہیں، مگر یہی فرقے آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 فلسطین کا مسئلہ پچھلے پچاس سال سے پوری مسلم دنیا، خصوصاً عرب دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس دور کا عرب لٹریچر فلسطین کی باتوں سے پر ہے۔ لکھنے اور بولنے والوں نے نہایت جذباتی انداز میں اس پر طبع آزمائی کی ہے۔ ایک عرب شاعر الزرکلی نے کہا کہ صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے درمیان لائو اور حطین جیسا معرکہ دوبارہ تازہ کرو:

هَاتِ صلاحَ الدينِ ثانيةً فينا                                    وجَدِّدِي حِطِّينَ أو شِبْهَ حِطِّينَا

ایک اورعرب شاعر احمد مطار جو آج کل لندن میں رہتے ہیں، ان کی نظم کے دو شعریہ ہیں:

القـــدس للدنیا     قمر                            في القدس قد نطق الحجر

لا مؤتمـــرلا مؤتمـر                          أنا لا أريــد ســـوى عمــر

(قدس دنیا کے لیے چاند ہے۔ قدس میں پتھر بھی بول پڑا۔ مجھے کانفرنس نہیں چاہیے۔ میں تو صرف عمر کو چاہتا ہوں)

مگر عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو فلسطین کے محاذ پر اب تک کچھ بھی حاصل نہ کیا جا سکا۔

موجودہ زمانہ میں ساری دنیا کے مسلمان امریکہ سے نفرت کرتے ہیںاور اس کو اسلام کا دشمن نمبر ایک کہتے ہیں۔ اس کا سبب، ایک فلسطینی نوجوان کے الفاظ میں یہ ہے کہ امریکی مدد ہی اسرائیل کے وجود و بقاء کا واحد راز ہے(الدعم الأمریکی ھو سراستمرار اسرائیل و بقاء ھا)۔

عجیب بات ہے کہ عین اسی وقت ساری دنیا کے مسلمان امریکہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کوئی براہ راست طور پر اور کوئی بالواسطہ طور پر۔ آج بھی ایک مسلمان یہ کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے کہ میں نے امریکہ کا سفر کیا، یا میرا بیٹا امریکہ میں سٹل ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ جو مسلمان امریکہ میں باقاعدہ بس گئے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ ان کی نئی نسل امریکی شہری ہونے پر فخر کرتی ہے۔ مکہ سے نکلنے والے العالم الاسلامی کی (6 ذوالقعدہ1416ھ) رپورٹ کے مطابق، امریکہ کے ایک مسلم نوجوان نے کہا کہ مجھے اس پر فخر ہے کہ میںایک امریکی مسلمان ہوں:

I am proud to be an American Muslim

یہی دو عملی موجودہ دنیا کے مسلمانوں کی اصل کمزوری ہے۔ جس روش کو اصلی طور پر وہ ماننے کے لیے تیار نہیں، اسی روش کو نہایت اطمینان کے ساتھ ان کے تمام چھوٹے اور بڑے عملاً اختیار کیے ہوئے ہیں۔

عرب علاقہ میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک جگہ کچھ عرب نوجوان آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ وہاں کھڑے ہو کر ہم لوگ انہیں دیکھنے لگے۔ پھر میں ایک نوجوان کے قریب گیا۔ گفتگو کے دوران اس نے جو باتیں کہیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ صہیونی مقبوضہ فلسطین کو ایک عظیم قیدخانہ میں تبدیل کر رہے ہیں(الصھاینۃ یحولون فلسطین المحتلۃ الی سجن کبیر

میں نے کہا کہ آپ لوگ یہود کی طاقت کو جانتے ہیں مگر فطرت کی طاقت سے آپ لوگ بے خبر ہیں۔ اگر کوئی یہودی کہے کہ’’ہم پورے فلسطین کو ایک قید خانہ بنا دیں گے‘‘ تو آپ کو اس کے جواب میں کہنا چاہیے کہ ایک پورے ملک کو قید خانہ بناناکوئی سادہ بات نہیں، یہ خدا کے مقرر کیے ہوئے نظام فطرت سے لڑنا ہے۔ اور نظام فطرت سے لڑنا نہ کسی مِنی پاور کے لیے ممکن ہے اور نہ کسی سپرپاور کے لیے۔

دنیا کے کسی بھی حصہ میں کسی بھی مسلمان سے بات کی جائے تو وہ فلسطینی عربوں کے اوپر اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کی بات کرے گا۔ بطور واقعہ یہ بات صحیح ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس شکایت اور احتجاج کا کوئی نتیجہ ہے۔ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ فلسطینی عربوں کا موقف اپنی جگہ پر درست ہے، مگر جب وہ جنگ کی طاقت نہیں رکھتے تو وہ اپنی تحریک متشددانہ انداز پر کیوں چلاتے ہیں۔ جب کہ بار بار کے تجربہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ ایک اسرائیلی بس پر بم مارتے ہیں تو اسرائیل پوری عرب بستی پر بمباری کرکے اس کو تباہ کر دیتا ہے۔

 سائوتھ افریقہ کے پریسیڈنٹ نیلسن منڈیلا(Nelson Mandela) نے فلسطینیوں کی حمایت میں ایک بیان دیا اور حماس کے نمائندوں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو تمام عرب خوش ہوگئے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ نیلسن منڈیلا کے ان الفاظ سے زیادہ کار آمد خود ان کا عملی نمونہ ہے۔ ان کو بھی اپنے ملک میں فلسطین جیسے حالات کا سامنا تھا۔ مگر انہوں نے اپنی پوری تحریک پرامن انداز میں چلائی۔ یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینیوں کو نیلسن کے اس تجربہ سے سبق لینا چاہیے۔

ایک بار میں نے ایک عرب اسکالر کو بتایا کہ میں ایک انٹرنیشنل پیس کانفرنس میں جانے والا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ یہ پیس کانفرنسیں بالکل بے کار ہیں۔ یہ لوگ انصاف کے سوال کو نظر انداز کرکے امن قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔ مگر یہ ایک غیر حقیقی بات ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امن کا تعلق انصاف سے نہیں ہے۔ امن کا مقصد انصاف حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد صرف مواقع عمل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے حدیبیہ معاہدہ کے ذریعہ امن حاصل کیا۔ حالانکہ وہ واضح طور پرانصاف کے خلاف تھا۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد انصار نے ’’مِنَّا ‌أَمِيرٌ ‌وَمِنْكُمْ ‌أَمِيرٌ‘‘ (ایک امیر ہمارا ہو، اور ایک امیر تمھارا)کا مطالبہ واپس لے کر امن حاصل کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 37044)۔ حالانکہ وہ انصاف کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں جب بھی امن حاصل کیا گیا ہے، انصاف کے سوال کو نظر انداز کرکے حاصل کیا گیا ہے۔ انصاف تواس جدوجہد کا ثمرہ ہے جو امن کے بعد جاری کی جاتی ہے۔ وہ خود امن کے اندر براہ راست طور پر شامل نہیں ہوتا۔

سفر کے دوران ایک فلسطینی عرب سے گفتگو ہوئی۔ میں نے امن کی اہمیت پر زور دیا اور تشدد کو بے فائدہ بتایا۔ انہوں نے کہاکہ ہم تشدد کے خلاف ہیں۔ مگر ہم وہ امن چاہتے ہیں جو عدل کے ساتھ ہو(نحن ننبذ العنف و لکننانرید سلاماً عادلاً

یہی موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا نظریہ ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی زبان میں یہی بولی بول رہا ہے۔ مثال کے طور پرایک مسلم انگریزی میگزین (ریڈینس24-30 مارچ 1996) نے اس موضوع پر ایک پرجوش آرٹیکل شائع کیا ہے۔ اس کا خلاصہ مذکورہ میگزین نے اپنے ٹائٹل کے اوپر اس طرح جلی حرفوں میں نمایاں کیا ہے—امن بغیر انصاف، دور کا خواب ہے:

Peace Sans Justice — Distant Dream

یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں مگر عملی اعتبار سے وہ سراسر بے معنی ہیں۔ کیونکہ موجودہ دنیا میں امن کبھی بھی نظری انصاف کی بنیاد پر نہیں ملتا، حتیٰ کہ پیغمبرکو بھی نہیں۔ امن یہاں جب بھی کسی کو ملتا ہے صورت موجودہ پر راضی ہونے کی بنیاد پر ملتا ہے نہ کہ بوقت صلح غیر حاصل شدہ انصاف کو حاصل کرنے کی بنیاد پر۔ پیغمبر کی زندگی میں اس کی ایک واضح مثال حدیبیہ کا معاہدۂ امن ہے۔ اس کا حصول صرف اس وقت ممکن ہو سکا جب کہ پیغمبر نے صورت موجودہ(اسٹیٹس کو) پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔

1917ء میں برٹش امپائر نے فلسطین کی تقسیم کا ایک فارمولا بنایا جو عام طور پر بالفور ڈیکلریشن کے نام سے مشہور ہے۔ اس تقسیم میں فلسطین کا صرف ایک تہائی حصہ اسرائیل کو دیا گیا تھا اور دو حصہ عربوں کےلیے خاص کیا گیا تھا جس میں پورا کا پورا یروشلم بھی شامل تھا مگر اس وقت کی مسلم قیادت نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک عرب عالم نے اس کو قبول کر لینے کی بات کہی تواس پرعرب مفاد سے غداری کا الزام لگایا گیا چنانچہ وہ شخص یہ شعر کہہ کر مر گیا—عنقریب میری قوم جان لے گی کہ میں نے اس کو دھوکا نہیں دیا ہے۔ اور رات خواہ کتنی ہی لمبی ہو جائے صبح بہرحال آ کر رہتی ہے:

سَيَعلَمُ قَومي أَنَّني لا أَغشَهُم

وَمَهما اِستَطالَ اللَيلُ فَالصُبحُ واصِلُه

اس وقت کی مسلم قیادت نے اگر اسٹیٹس کو(حالت موجودہ) کو قبول کر لیا ہوتا تو فلسطینیوں کی حالت آج سوگنا بہتر ہوتی۔ مزید یہ کہ وہ اس ناقابل بیان تباہی سے بچ جاتے جو پچھلے پچاس سال سے جاری ہے اور ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ نزاعی مسائل کو حل کرنے کا واحد ممکن فارمولا یہی ہے۔ دسمبر1996ء میں میری ملاقات اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار سے ہوئی۔ انہوں نے ذاتی ملاقات میں مجھ سے پوچھا کہ اجودھیا اور کشمیر کے مسئلہ کا حل کیا ہے۔ میں نے کہا، دونوں کے لیے واحد نکاتی فارمولا صرف ایک ہے— حالت موجودہ کو قبول کر لیجیے:

I have one-point formula for both — accept the status quo.

فلسطینیوں نے یاسر عرفات کی قیادت میں اسرائیل کے یہودیوں سے جو صلح ستمبر1995ء میں کی ہے اس پر مسلم دنیا میں مختلف رائیں ظاہر کی گئی ہیں۔ سعودی عرب کے مشہور عالم شیخ ابن باز نے اس کو درست قرار دیاہے۔ اس پرکچھ لوگوں نے اعتراض کیا اور کہاکہ قرآن کے مطابق یہودیوں سے مودت اور موالات جائز نہیں۔اس کاجواب دیتے ہوئے شیخ عبدالعزیزبن عبداللہ ابن باز نے کہا کہ یہودیوں اور دوسرے کافروں سے صلح ان کے ساتھ مودت اور موالات کو لازم نہیں کرتی (الصلح مع الیھود او مع غیرھم من الکفرۃ لایلزم مودتھم ولاموالاتھم )۔ الدعوہ، ریاض، 25 شعبان 1415ھ/ جنوری1995ء۔

شیخ ابن باز کے اس فتوے سے اسلام کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کوئی گروہ خواہ بظاہر وہ دشمن اسلام کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ معاہدہ ان کے ساتھ مودت کو مستلزم نہیں ہوگا۔ دو چیزوں میں فرق کرتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ دیکھنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم سنت ہے اور اس پر آپ نے بار بار عمل فرمایا ہے۔ مزید یہ کہ ایک حکمت حیات ہےاور اس حکمت کی رعایت کیے بغیر اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکتی۔

پی ایل او جس کو تقریباً450 فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم بتایا جاتا ہے، وہ 1964 میں قائم کی گئی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد اس کے ابتدائی چارٹر کے مطابق یہ تھا— اسرائیل کا استیصال اور صہیونی تحریک کا مکمل خاتمہ۔

مگر عملاً بالکل برعکس صورت پیش آئی۔ یہاں تک کہ یہ تحریک اپنے اعلان کردہ مقصد میں اس حد تک ناکام ہوئی کہ تقریباً35 سال بعد24 اپریل1996 کو فلسطین نیشنل کونسل کی میٹنگ غازہ پٹی میں ہوئی۔ اس میں اتفاق رائے سے قدیم چارٹر کی اس دفعہ کو سرے سے حذف کر دیا گیا۔

مسلم پریس نے عام طور پریاسر عرفات کے زیر قیادت فلسطینی تنظیم کے اس فیصلہ کی مذمت کی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ٹھیک یہی قابل مذمت فعل ان دوسرے مسلم رہنمائوں نے بھی عملاً کر رکھا ہے، جو ابھی تک مسلم پریس میں قابل تعریف سمجھے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے تقریباً تمام مسلم رہنمائوں نے یہی کیا ہے کہ ابتدا میں ’’باطل کی کامل تخریب‘‘ کے پرشور نعروں کے ساتھ اٹھے اور اب انہیں لوگوں نے ہر جگہ اس باطل کے ساتھ موافقت کا انداز اختیار کر رکھا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فلسطینی قیادت نے پسپائی کا یہ فیصلہ اعلان کے ساتھ کیا، جبکہ بقیہ مسلم رہنما بلااعلان اسی مصالحانہ روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔

 پاکستانی اخبار نوائے وقت کے شمارہ16مارچ1996ء میں ایک خبر جلی سرخیوں کے ساتھ نظر سے گزری۔ انسداد دہشت گردی کی عالمی کانفرنس کے خاتمہ پر حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ایک اعلان کیا گیا جو مذکورہ اخبار میں اس سرخی کے ساتھ چھاپا گیا— یہودیوں کو سکون کی نیند نہیں سونے دیں گے۔

 میں نے اس خبر کو پڑھا تو میرے دل نے کہاکہ یہ اعلان ادھورا ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس کا اعلان مکمل طور پر ان الفاظ میں ہونا چاہیے— یہودیوں کو سکون کی نیند نہیں سونے دیں گے، خواہ ہم کو وہ موت کی نیند سلادیں۔

 ایک صاحب کو مجھ سے کافی عقیدت ہے۔ کانفرنسوں میں کئی بار ان سے ملاقات ہو چکی ہے۔ اس بار ملاقات ہوئی تو انہوں نے جلدی سے میرا ہاتھ چوم لیا۔ اس کو دیکھ کر ایک بزرگ نے فرمایاکیا یہ اسلام میں جائز ہے۔ میں نے کہاکہ اس قسم کی چیزیں ہمیشہ وقتی جذبہ کے تحت ہوتی ہیں۔ ان کا جائز اور ناجائز سے کوئی تعلق نہیں۔

 ابن کثیر نے باب ’’‌فَتْحُ ‌بيت ‌المقدس ‌على ‌يَدَيْ ‌عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ عمرجب شام پہنچے تو ابو عبیدہ اور دوسرے سردار ان سے ملے۔مثلاً خالد بن ولید، یزید بن ابی سفیان۔ پر ابو عبیدہ سواری سے اتر کر پیدل چلے اورعمر بھی سواری سے اترکر پیدل چلے، پھر ابوعبیدہ نے اشارہ کیا تاکہ عمر کا ہاتھ چومیں، توعمر نے چاہا کہ ابو عبیدہ کا پائوں چوم لیں۔ چنانچہ ابو عبیدہ رک گئے اور عمر بھی رک گئے(فَأَشَارَ أَبُو عُبَيْدَةَ لِيُقَبِّلَ يَدَ عُمَرَ فَهَمَّ عُمَرُ بِتَقْبِيلِ رِجْلِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَكَفَّ أَبُو عُبَيْدَةَ فَكَفَّ عُمَرُ)البدایہ و النہایہ، جلد7، صفحہ55۔

29 اگست1995ء کی صبح کو افتتاحی اجلاس تھا۔ وہ یروشلم کے نوٹر ڈیم(Notre Dame) ہال میں ہوا۔ اسٹیج کے پیچھے حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے تھے:

Community of St. Egidio

International Meetings: People and Religions

Together in Jerusalem: Jews, Christians and Moslems

معاً فی القدس:یھوداہ و مسیحین و مسلمین

تقریروں کا خلاصہ یہ تھا کہ تینوں مذاہب(یہودیت، مسیحیت، اسلام) کو پرامن طور پر مل کررہنا چاہیے۔ کیوں کہ ہم ایک وسیع انسانی برادری کے افراد ہیں:

We are all members of one large human family

یہودی مقرر نے کہا کہ ہم روزانہ اپنی تین وقت کی عبادت میں اور دوسرے مواقع پر’’شلوم‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب امن ہے۔ اس نے کہا کہ امن یہودیت کا بنیادی اصول ہے۔ امن ہے تو سب کچھ ہے، امن نہیں تو کچھ بھی نہیں:

With peace everything, without peace noting.

شیخ عبدالسلام مدیر اوقاف القدس نے اپنی تقریر میں اسٹیج کو منبرالحب کہا۔ ان کا عربی لہجہ بہت اچھا معلوم ہو رہا تھا۔ انہوں نے موضوع سے متعلق قرآن کی مختلف آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ انہوں نے کہا کہ قدس کا نام ہی بتاتا ہے کہ اس علاقہ کو ہر قسم کی اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ آیتلَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (2:124)کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جو عہد پر قائم رہے اس کے لیے خدا کا وعدہ ہے جو عہد سے نکل جائے وہ اس سے نکل گیا۔’’شرع من قبلناشرع لنا، مالم ینسخ‘‘(پچھلی شریعت بھی ہماری شریعت ہے، جب تک وہ منسوخ نہ ہو)۔ جہاد کے معنی کوشش (بذل الجھد) کے ہیں۔ اگر قولی دعوت کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو تو قتال نہیں ہے۔ لیکن غیر مسلم کی طرف سے قتال کیا جائے تو داعی بھی دفاع کرے گا۔ ان کا پورا انداز پرجوش مجاہدانہ تھا۔ صدر اجلاس نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا پیس، شلوم، سلام۔

29 اگست کو دوپہر کے سیشن میں کئی تقریریں تھیں۔ ربی ڈیوڈ روزن(David Rosen) نے اپنی پرجوش انگریزی تقریر میں یروشلم کی زبردست تعریف بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں جو حسن اتارا گیا اس کا دس میں سے نو حصہ یروشلم کو دیا گیا اور باقی ایک حصہ ساری دنیا میں تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے یہودیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں صرف رہنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے ہیں کہ ہم یروشلم سے محبت کریں:

We are here not just to live in Jerusalem, but to love Jerusalem.

آج کے سیشن میں میں نے آدھا گھنٹہ کا ایک پیپر پیش کیا۔ اس انگریزی پیپر کا خلاصہ یہ تھا کہ یروشلم میں تین مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے درمیان جو نزاع پیدا ہوگئی ہے، اس کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت پر عمل کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے۔وہ ہے میرے لفظوں میں— الفصل بین القضیتین یا عدم الخلط بین الشیئین ہے۔ معراج کے موقع پر پیغمبر اسلام خدائی انتظام کے تحت مکہ سے یروشلم آئے اور یہاں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی۔ اس وقت یروشلم پر مشرک ایرانیوں کی حکومت تھی۔ آپ نے سیاسی ایشو کو مذہب سے الگ رکھا۔ اگر آپ ایسا نہ کرتے تو اس وقت آپ ایک ایسی مسجد میں نماز نہ ادا کرتے جو عملاً غیر مسلموں کے سیاسی اقتدار کے تحت تھی۔ (یہ مقالہ پوری شکل میں الرسالہ نومبر1995 میں دیکھا جا سکتا ہے)۔

یہودی علماء اور دانشوروں کی باتوں اور ان کی تقریروں کو سن کر مجھے احساس ہوا کہ ان کے اندروہ نفسیات مزید اضافہ کے ساتھ موجود ہے جو موجودہ مسلمانوں میں ہے۔ یعنی’’فخر کے ساتھ کہو ہم یہودی ہیں‘‘ میں نے سوچا کہ اس کا راز کیا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ اس کا راز یہ ہے کہ بائبل میں دورِ اول کے یہودیوں کے بارے میں جو باتیں ہیں، اس کو وہ اپنے اوپر چسپاں کر رہے ہیں اور بعد کے زوال یافتہ یہودیوں کے بارے میں جو باتیں ہیں اس کو انہوں نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ ٹھیک ایسا ہی خود مسلمان بھی کر رہے ہیں۔ قرآن و حدیث میں دورِ اول کے اہلِ ایمان کے بارے میں جو باتیں ہیں موجودہ مسلمانوں نے اپنے آپ کو اس کا مصداق بنا رکھا ہے اور اس میں جو باتیں بعد کے زوال یافتہ مسلمانوں کے بارے میں کہی گئی ہے، اس سے اس طرح چشم پوشی اختیار کر لی ہے جیسے کہ وہ کسی اور گروہ کے بارے میں ہوں۔

ایک یہودی دانشور جو آج کل امریکہ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی تجویز تو بڑی اچھی ہے، مگر کیا یہ ممکن بھی ہے۔ میں نے کہا کہ یقینی طور پر ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ آپ فلسطینی عربوں کو وہی شہری حقوق اور وہی مذہبی آزادی دینے کے لیے تیار ہو جائیں، جو آپ خود امریکہ میں حاصل کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہاں آ پ کو یکساں شہری حقوق ملے ہوئے ہیں۔ یہی آپ دل سے فلسطینیوں کو دے دیں۔ اس کے بعد یہ تجویز سراسر قابل عمل ہوجائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ صرف تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جو سیاسی آرزوئیں اپنے سینہ میں لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ بیشتر لوگوں کی دلچسپی صرف اس سے ہوتی ہے کہ انہیں یکساں شہری حقوق حاصل ہوں۔ وہ آزادانہ طور پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی جی سکیں۔ ان کے لیے تعلیمی اور اقتصادی ترقی کے مواقع کھلے ہوئے ہوں۔ ان کو اپنے ماحول میں عزت و احترام ملا ہوا ہو۔ اگر کوئی حکومت عام شہریوں کو یہ چیزیں دے دے، جیسا کہ امریکہ اپنے شہریوں کو دیے ہوئے ہے تو سیاسی شورشیں اپنے آپ ختم ہو جائیں گی۔

 میں نے سنا تھا کہ اسرائیل میں خوف و ہراس کا ماحول ہونے کی وجہ سے وہاں ہارٹ اٹیک کے واقعات بہت ہوتے ہیں۔ اس کی ایک تصدیق غالباً یہ تھی کہ میں نے ایک اشتہار دیکھا اس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل میں ایک نئی ہارٹ لائن ٹیکنالوجی ڈیولپ کی گئی ہے۔ اس کے مطابق آدمی کے ٹیلی فون سے جیبی سائز کا ایک ٹرانسمیٹر وابستہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ ممکن ہو جاتا ہے کہ بوقت ضرورت آدمی فی الفور میڈیکل سینٹر سے رابطہ قائم کر سکے اور ذاتی طور پر میڈیکل سینٹر پہنچے بغیر اس کی ای سی جی جانچ ہو جائے اور فوری طور پر وہ طبی مشورہ حاصل کر سکے۔ اس اشتہار کے چند الفاظ یہ تھے:

Heart attacks are still today`s No. 1 killer, But Heartline can help in saving lives.

اسرائیل کے شہری مسلسل طور پر اپنے کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کو تحفظ دینے کے لیے اسرائیلی ریاست ہر سال اپنے بجٹ کا بہت بڑا حصہ خرچ کرتی ہے۔ اسرائیلی حکومت کو یہ مہنگا خرچ منظور ہے مگر اس کو یہ منظور نہیں کہ وہ فلسطینیوں کوان کا جائز حق دے دے اور اس طرح فلسطین میں عدم تحفظ کی صورت حال کا خاتمہ کر دے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ والا مسئلہ صرف خرچ کا مسئلہ ہے، جب کہ حقوق دینے کا مسئلہ ان کے لیے قومی وقار کا مسئلہ ہے۔ اور تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ قومیں اپنے وقار کا جھنڈا کسی حال میں نیچے اتارنے پر راضی نہیں ہوتیں خواہ اس کے نتیجہ میں انہیں سوگنا زیادہ بڑے نقصان کو برداشت کرنا پڑے۔

 اطالوی مسیحی تنظیم(Community of St. Egidio) کی طرف سے یروشلم میں جو انٹرنیشنل کانفرنس (29۔30 اگست1995ء) منعقد کی گئی، اس کا شعاریہ تھا:

Together in Jerusalem: Jews, Christians, and Moslems

اس کانفرنس میں 30 اگست کی صبح کو ’’راونڈٹیبل‘‘ کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک پولیٹیکل ڈائیلاگ تھا۔ اس میں فلسطینیوں کی طرف سے مسٹر فیصل حسینی شریک تھے جو سابق مفتی اعظم فلسطین کے صاحبزادے ہیں۔ اسرائیل کے نمائندہ کی حیثیت سے اس کے اکنامی اور پلاننگ شعبہ کے منسٹر مسٹر یوسی بیلن موجود تھے۔ درمیانی مددگار کی حیثیت سے اٹلی کے سینئر جرنلسٹ مسٹر اریگولیوی تھے۔

30 اگست کی صبح کو میں یروشلم کے نوٹر ڈیم سینٹر (Notre Dame Centre) پہنچا تو وہاں کے وسیع ہال میں ایک طرف سامعین کی کرسیاں مکمل طور پر بھری ہوئی تھیں۔ دوسری طرف اسٹیج پر ایک لمبی میز تھی جس پر تین کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک فلسطینی نمائندہ کے لیے، دوسری اسرائیلی نمائندہ کے لیے، اور تیسری درمیانی کرسی اطالوی صدر کے لیے۔ میز پر نامور کی تختیاں حسب ذیل ترتیب کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں:

Yossi Beilin — Arrigo Levi — Feisal Husseini

ٹھیک دس بجے تینوں صاحبان پیچھے کے دروازہ سے ہال میں داخل ہوئے۔ میری نشست اگلی کرسی پر عین اسٹیج کے سامنے تھی، اس لیے میں ان کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ پر شوق سامعین کے ہجوم اور ویڈیو کیمروں کی ہماہمی کے درمیان دونوں کی سیاسی گفتگو شروع ہوئی۔

پہلے صدر جلسہ نے کچھ ابتدائی باتیں کیں۔ اس کے بعد دونوں نمائندوں کے درمیان گفتگو ہوئی۔ اس کا خلاصہ یہ تھاکہ اسرائیلی نمائندہ کا یہ کہنا تھاکہ فلسطین کے سیاسی جغرافیہ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔اب اس کو قبول کرکے آپ یہاں اپنی زندگی کی تشکیل کیجیے۔ فلسطینی نمائندہ کا مطالبہ تھا کہ یروشلم کے معاملہ پر نظرثانی کی جائے۔اس کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور یہاں فلسطینیوں اور یہودیوں کی دوگونہ راجدھانی قائم کی جائے:

One open city with two capitals.

مگر دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ میٹنگ کا مقرر وقت ختم ہوگیا۔

گفتگو کے دوران واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ اسرائیلی نمائندہ زیادہ ذہین اور ماہر ہے۔ اس کے مقابلہ میں فلسطینی نمائندہ ہر اعتبار سے کمتر ثابت ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پراسرائیلی نمائندہ نے بتایاکہ میں نے پچھلے ہفتے اریحا جا کر مسٹر یاسر عرفات سے ملاقات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ایک طرف ہم سے امن معاہدہ کیا ہےاور دوسری طرف فلسطینی مسئلہ پر آپ جہاد کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ یہ تضاد کیوں۔ فلسطینی نمائندہ نے اس کے جواب میں کہاکہ اسلام میں جہاد کا مطلب صرف قتال نہیں ہے۔ انہوں نے حدیث (رَجَعْنَا مِنَ ‌الْجِهَادِ ‌الْأَصْغَرِ إِلَى ‌الْجِهَادِ ‌الْأَكْبَرِ) سنا کر کہا کہ اسلام میں زیادہ بڑا جہاد تو نفس کا جہاد ہے اور جہاد بالسیف چھوٹا جہاد ہے۔ انہوں نے جہاداکبر کا انگریزی ترجمہ(bigger jihad) کیا اور جہاں اصغرکاترجمہ(smaller jihad) ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ جواب بھی نادرست تھا اور یہ ترجمہ بھی نادرست۔

 پچھلے دن کے اجلاس میں میں نے اپنا پیپر پیش کیا تھا جس میں کہا تھا کہ اس خطہ میں امن قائم کرنے کے لیے پولیٹکل ایشو اور مذہبی ایشو کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے۔ جلسہ کے اطالوی صدر نے آخر میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہی اس نازک مسئلہ کا حل ہے۔ میرے پاس اپنے پیپر کی ایک نقل موجود تھی۔ میں نے فوراً اٹھ کر صدر جلسہ کووہ نقل دے دی۔ انہوں نے فوراً ہی اس کی مزید فوٹو کاپی کروائی۔ ایک اپنے پاس رکھی اور بقیہ فلسطینی اوراسرائیلی نمائندوں کو دی۔

فلسطین کے موجودہ مسئلہ کا آغاز برطانی گورنمنٹ کے بالفور ڈیکلریشن(1917ء) سے ہوتا ہے۔ یہ ڈیکلریشن سربالفور(Arthur James Balfour) کی طرف منسوب ہے جو اس وقت برطانی گورنمنٹ میں فارن سیکرٹری تھا۔ اس وقت برطانیہ کے سامنے ایک ہی نوعیت کے دو مسئلے تھے۔ ایک یہ کہ آئر لینڈ کے لوگ ہوم رول مانگ رہے تھے۔ دوسری طرف برطانیہ(اور دوسرے ملکوں کے یہودی) یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ فلسطین کو یہودیوں کا ہوم لینڈ بنا دیا جائے۔

بالفور نے آئر لینڈ کے قوم پرستوں کے لیے جو پالیسی بنائی وہ تھیہوم رول کو نرمی سے ختم کرنا (killing home rule by kindness)۔ مگر فلسطین کے لیے اس کی پالیسی یہ تھی کہ یہودی تنظیم کے مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کر دیا جائے۔ چنانچہ 2 نومبر1917ء کو حکومت برطانیہ کی طرف سے بالفور ڈیکلریشن کی صورت میں اعلان کیا گیا کہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک نیشنل ہوم(قومی وطن) قائم کیا جائے گا۔

 تاہم یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ برطانیہ کا یہ اقدام کسی اسلام دشمنی کی بنا پر تھا۔ یہ تمام تر اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا گیا۔1917ء میں جب روس میں اشتراکی انقلاب آیا تو چونکہ اس کی قیادت میں زیادہ تریہودی شامل تھے،برطانیہ کے سیاست دانوں نے یہ سمجھا کہ وہ یقیناً یہودی تحریک (Zionism) کی حمایت کرے گی۔ روس کو اپنے موافق بنانے کے لیے انہوں نے ضروری سمجھا کہ وہ یہودی مطالبہ کو مان لیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح انہیں عالمی سطح پر یہودیوں کی ہمدردی بھی حاصل ہو جائے گی۔ اس طرح کے اور بھی کئی اسباب تھے جس کی بنا پر برطانی سیاست دانوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہودی مطالبہ کو مان لینا ان کے ایمپائر کے حق میں مفید ہوگا۔ اگرچہ یہ رائے سطحی تاثر کے تحت تھی، نہ کہ کسی گہرے تدبر کے تحت۔

کچھ لوگوں نے یہ رائے دی ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی شکل یہ ہے کہ یروشلم کو ایک کھلا شہر(Open City) قرار دے دیا جائے۔ یعنی یروشلم پر کسی بھی فریق کا کامل سیاسی اقتدار نہ ہو۔ بلکہ اقوام متحدہ کی ماتحتی میں اس کا انتظام چلایا جائے۔ اس انتظام کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس طرح ہر مذہب کے لوگوں کو وہاں آزادانہ داخلہ(free access) کی اجازت مل جائے گی۔ خاص طور پر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو، جن کے مقدس مذہبی مقامات یروشلم میں واقع ہیں۔

یہ تجویز خواہ نظریاتی طور پر کتنی ہی خوبصورت ہو مگر عملاً وہ ممکن نہیں۔ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اصل مقصود مذہبی مقصد کے لیے آزادانہ داخلہ ہے اور وہ بالفعل ہر ایک کو یروشلم میں حاصل ہے۔ یہ آزادی اسرائیل کی کسی عنایت کی بنا پر نہیںہے بلکہ زمانی تبدیلی کی بنا پر ہے۔ موجودہ زمانہ میں مذہبی آزادی کا جو انقلاب آیا ہے اور جس کی ضمانت خود اقوام متحدہ نے دے رکھی ہے، اس نے ناقابل تنسیخ انداز میں اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ ہر شخص ہر جگہ جا سکے۔ شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ وہ جہاں بھی جائے ہر جگہ وہ امن کی روش پر قائم رہے۔

30 اگست کی شام کو سی این این(CNN) کے نمائندہ جیروڈکیسل(Jerrold Kessel) اور ان کی ٹیم نے ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ابتدامیں انہوں نے صرف پانچ منٹ کے انٹرویو کے لیے کہا تھا۔ مگر جب انٹرویو شروع ہوا تو وہ آدھا گھنٹہ تک مسلسل بات کرتے رہے۔ انہوں نے آخر میں کہاکہ آپ کا انٹرویو بہت دلچسپ رہا۔

تمام سوالات اسلام کے بارے میں تھے۔ ان کے سوالات کسی قدر جارحانہ ہوتے تھے۔ مگر میں خدا کے فضل سے نہایت معتدل انداز میں ان کا جواب دیتا رہا۔ ایک سوال یہ تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اپنا رول ختم کر چکا ہے۔ میں نے کہا کہ میرا تو خیال یہ ہے کہ اسلام ازسرنو اپنا رول ادا کرنے کے لیے ابھر رہا ہے۔ کچھ سال پہلے تک لوگ کمیونسٹ آئیڈیالوجی پر اعتماد کیے ہوئے تھے۔ مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعداب ساری دنیا میں ایک قسم کا نظریاتی خلا(ideological vacuum) پیدا ہوگیا ہے۔اس خلا کو صرف اسلام ہی پر کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر تو اسلام اس خلا کو پر کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے کہاکہ مجھے تو اس کے برعکس یہ نظر آ رہا ہے کہ آج اسلام ساری دنیا کا مرکز توجہ بن گیا ہے۔ آپ کے ملک میں ہیوی ویٹ چیمپئن(ٹائسن) نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ برطانیہ میں ایک بہت اونچے خاندان کی لڑکی(جمائما) اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگئی ہے۔ فرانس میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص(گارودی) نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا ہے، وغیرہ۔

کناڈاکی ٹی وی کمپنی(Villagers Communication) کے نمائندہ اسٹیوڈیمی (Steve Dawn Deme) اور ان کی پارٹی نے ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سولات زیادہ تر مسلمانوں کی موجودہ حالت کے بارے میں تھے۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہاکہ آپ کو چاہیے کہ مسلمانوں کو اسلام کی روشنی میں دیکھیں، نہ کہ مسلمانوں کی روشنی میں اسلام کو:

You must judge Muslims by Islam, and not vice versa.

تیسرا انٹرویو بی بی سی(ٹی وی) کی خاتون نمائندہ جانا بیرس(Jana Beris) کا تھا۔ مگر وقت کی کمی کے باعث وہ بہت مختصر رہا۔

مسلمانوں میں روایتی طور پریہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودی بحیثیت قوم ہمیشہ کے لیے محتاج اور ذلیل کر دیے گئے ہیں۔ قتادہ نے کہاکہ تم کسی بھی ملک میں کسی یہودی سے ملو تو تم پائو گے کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ ذلیل ہے(لا تلقي يهودياً فى بلد إلا وقد ‌وجدته ‌من ‌أذل ‌الناس) تفسیر النسفی، جلد1، صفحہ292۔

موجودہ زمانہ میں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں یہودی لوگوں کے درمیان کم ازکم ظاہری طور پر باعزت جگہ پائے ہوئے ہیں اور مسلمان عملاً ہر جگہ بے قیمت ہورہے ہیں۔ حتیٰ کہ اقبال نے کہا:

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ممکن ہے کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ (2:61) سے مراد یہودیوں کی وہ نسل ہو جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی معاصر تھی اور مسلمان اس شعر کے مصداق ہوں:

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہو کر              اور تم خوارہوئے تارک قرآں ہو کر

اسحاق نافون(Yitzhak Rachamim Navon, 1921-2015) پہلااسرائیلی صدر ہے جس نے ستمبر1980ء میں مصر کا دورہ کیا۔ اس کو قاہرہ کے قصر عابدین میں ٹھہرایا گیا تھا۔ اسرائیلی صدر نے قاہرہ کے استقبالیہ جلسہ میں فصیح عربی میں تقریر کی۔ اس میں اس نے مصریوں کودعوت دی کہ وہ اسرائیل آئیں اور وہاں آزادانہ طور پر لوگوں سے ملیں— اگر آپ ہم کو دوست سمجھیں تو دوست دوست سے ملتا ہے۔اور اگر آپ ہم کو دشمن سمجھیں تو عربی مثل ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانو:

اذاکنتم تعتبروننا اصدقاء فالصدیق یزور صدیقہ و اذاکنتم تعتبروننا اعداءنا لمثل العربی یقولاعرف عدوك۔

مسلم اخباروں میں اکثر ایسی تصویریں چھپتی ہیں جن میں کچھ اسرائیلی سپاہی فلسطینی کو مارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس تصویر کے اوپر یہ عنوان ہوتا ہے:اسرائیلی پولیس کی بربریت۔

لیکن اگر آپ دوسرے اخبارات کو دیکھیں تو یہی پولیس خود اسرائیلیوں کے خلاف ایسی ہی ’’بربریت‘‘ کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی پولیس کی ’’بربریت‘‘ کسی فلسطینی پر محض فلسطینی ہونے کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ اسکے مخالفانہ رویہ کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو فلسطینی صرف اپنے کام سے کام رکھنا چاہتے ہیں، وہ آج بھی اسرائیل میں پرامن طور پر رہ رہے ہیں۔ مگرجو فلسطینی سیاسی حریف بنتے ہیں یا تشدد کا فعل کرتے ہیں ان کے اوپر پولیس بھی کارروائی کرتی ہے۔ پولیس یہی کارروائی خود یہودیوں پر بھی اس وقت کرتی ہے جب کہ وہ سیاسی ہنگامہ کریں یا تشدد اور تخریب کاری کریں۔

موجودہ زمانہ میں مسلم صحافت نے ہر جگہ ایک مجرمانہ رول ادا کیا ہے۔ ہر سماج میں اور ہر زمانہ میں عُسر اور یُسر ساتھ ساتھ موجود رہتے ہیں۔ یعنی منفی واقعات بھی اور مثبت واقعات بھی۔ موجودہ زمانہ کے مسلم اخبارات نے یہ کیا کہ انہوں نے ہر جگہ صرف منفی پہلوئوں کی رپورٹنگ کی اور مثبت پہلوئوں کوسرے سے بیان ہی نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر جگہ کے مسلمان اپنے ملک اوراپنے سماج کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار ہوگئے۔وہ یہ سمجھنے لگے کہ دنیا کی قومیں ان کی دشمن ہیں اور ان کے خلاف سازش کرنے میں مشغول ہیں۔ چنانچہ وہ تمام قوموں کے خلاف نفرت اور عداوت کی نفسیات میں مبتلا ہوگئے۔ اسی نفسیات کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر ملک میں، بشمول فلسطین میںمسلمانوںکے لیے بہترین مواقع موجود ہیں مگر وہ عین مواقع کے درمیان ان کو استعمال کرنے سے محروم ہیں۔

 ایک مسلم دانشور جنہوں نے فلسطین کے مسئلہ پر کئی کتابیں لکھی ہیں، ان سے میں نے کہاکہ اسرائیلی حکومت لوگوں کو ویزا دینے میں بڑی فراخ دل ہے۔اس کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں جواب دیااس کا سبب توواضح ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ان کے یہاں جائیں اور ان کی ترقی کو دیکھیں۔

اس کی ایک مثال ہندستان کے مشہور قانون داں مسٹر نانی پالکھی والا ہیں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اسرائیل کا پانچ روزہ(12-16 جون1994ء) دورہ کیا۔ اس سفر کے بعد مسٹر پالکھی والا نے ایک آرٹیکل لکھا جونیوز فرام اسرائیل(News from Israel) کے شمارہ جولائی- اگست1994ء میں شائع ہوا ہے۔ یہ پرچہ بمبئی میں واقع اسرائیلی قونصل(Consulate of Israel) کی طرف سے شائع کیاجاتا ہے۔

 اس آرٹیکل کو پڑھنے کے بعد میں نے ایک صاحب سے کہاکہ جو مسلمان اس طرح کی باتوں پر غصہ ہوتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ مسلم ملکوں کو آمادہ کریں کہ وہ بھی اپنے یہاں ایسے واقعات رونما کریں جس کو لوگ آ کر دیکھیں اور پھر واپس جا کر اس کی تعریف میں مضامین شائع کریں۔ جیساکہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھا۔ اس وقت دنیا بھر کے لوگ بغداد اور قرطبہ اورغرناطہ کو دیکھنے کے لیے آتے تھے اور پھر واپس جا کر اپنے ہم وطنوں سے اس کا شاندار تذکرہ کرتے تھے۔

 حدیث میں آیا ہے کہ خَالِفُوا ‌الْيَهُودَ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 652)۔ یعنی، یہود کے خلاف عمل کرو۔ اس کا مطلب اس سفر میں میری سمجھ میں آیا۔ یہاں ’’یہود‘‘ کا لفظ علامتی معنی میں ہے۔یہ حدیث یہود کی گروہی مخالفت کے معنی میں نہیں ہے۔ وہ دراصل ظاہر پرستی والے دین کے خلاف ہے جو دور زوال میں یہود کے اندر بہت زیادہ آگئی تھی۔

حدیث میں ہے کہ یہود جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھتے، اس لیے تم اس کے خلاف کرو۔ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتا پہن کر نماز پڑھی (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 652-53)۔ اسی طرح آپ نے افطار میں تعجیل کرنے کی ہدایت فرمائی اوراس کی وجہ یہ بتائی کہ یہودی افطار میں تاخیر کرتے ہیں(فَإِنَّ ‌الْيَهُودَ ‌يُؤَخِّرُونَ)سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1698۔

اس کی حکمت یہ ہے کہ یہود کے یہاں دین کی داخلی روح ختم ہوگئی تھی، البتہ وہ ظواہر کا خوب اہتمام کرتے تھے۔ مثلاً ان کا کہنا تھا کہ جوتا اتار کر عبادت کرنا افضل ہے اور جوتا پہن کر عبادت کرنا غیر افضل۔ اسی طرح یہودی اس کو متقیانہ احتیاط بتاتے تھے کہ روزہ افطار کرنے میں دیر کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت کی بات دراصل اسی ظاہرپرستی کو توڑنے کے لیے فرمائی۔ آپ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم یہود کی طرح نہ ہو جائو جو ظواہر کے اہتمام کو دین سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے تم داخلی روح کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرو، کیونکہ وہی اصل مطلوب ہے۔

ابو عبیدہ بن الجراح کی قیادت میں شام فتح ہوا تھا۔ اس کے بعدابو عبیدہ نے عمرو بن العاص کی سرداری میں ایک لشکر فلسطین بھیجا۔ یہاں اس وقت رومی(بازنطینی) سلطنت تھی۔ رومی لشکر کا سردار ارطبون تھا۔ مقابلہ میں رومی لشکر کوشکست ہوئی۔ اس کے بعد وہ بیت المقدس (یروشلم) میں قلعہ بند ہوگیا۔ عمرو بن العاص نے اس کا محاصرہ کر لیا۔ آخر کاروہ لوگ مجبورہوگئے اور صلح کی پیش کش کی۔ البتہ یہ شرط رکھی کہ خلیفہ خود مدینہ سے یروشلم آئے۔

حضرت عمر فاروق مدینہ سے روانہ ہو کر جابیہ پہنچے۔ پھر وہاں سے یروشلم گئے۔ جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت ہوئی۔ اس معاہدہ کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس کی دفعات میں سے ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ ان کے عبادت خانے ڈھائے نہیں جائیں گے اور نہ ان میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ ان کے دین کے معاملہ میں ان پر کوئی جبرکیا جائے گا(لا تسكن كنائسهم ولا تهدم، ولا ينتقص منها ... ‌ولا ‌يكرهون ‌على ‌دينهم)تاریخ الطبری، جلد3، صفحہ609۔

حضرت عمر فاروق یروشلم کے کنیسۃ القیامہ میں داخل ہوئے۔ عصر کی نماز کا وقت آگیا تو آپ نے نماز پڑھنا چاہا۔ پادری نے کہاکہ یہیں پڑھ لیجیے۔ مگر حضرت عمرنے اندر نماز نہیں پڑھی۔ بلکہ باہر نکل کرچبوترہ پراکیلے نماز پڑھی۔ یہ دیکھ کر پادری نے کہا کہ اگر آپ چرچ کے اندر نماز پڑھ لیتے تو مسلمان اس کو نظیر بنا لیتے اور کہتے کہ یہاں خلیفہ عمرنے نماز پڑھی ہے۔

جنرل وایزمان اسرائیل کی کیبنٹ کا ایک منسٹر تھا۔ وہ مصر سے دوستی کی باتیں کرتا تھا۔ ایک صاحب نے اس کا قول عربی میں اس طرح نقل کیا کہ اعتماد باہمی مفاہمت کی کنجی ہے اور وہ تمام مشکلات کے حل کا راستہ ہے(الثقۃ ھی مفتاح التفاھم والوصول الی حلول للمشاکل

یہودیوں کا ایک گروہ اس کی ’’مصر دوستی‘‘ کی بنا پر اس سے ناراض تھا۔ ان لوگوں نے وایزمان کا لقب مسٹر ایجپٹ(Mr. Egypt) رکھ دیا تھا۔ اب اس کا تقابل مسلمان، خاص طور پر برصغیر کے مسلمانوں سے کیجیے۔ سر سید نے انگریزوں سے مفاہمت کی بات کی تو یہاں کے مسلمانوں نے ان کو مسٹر انگلینڈ نہیں کہا، بلکہ ان کو انگریزوں کا نمک خوار اور دشمنوں کا ایجنٹ کہا۔ اسی طرح مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابو الکلام آزاد نے ہندوئوں سے مفاہمت کی بات کی تو ان کو بھی مسٹر انڈیا کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ہندوئوں کا ایجنٹ اور ملت فروش بتایا گیا، وغیرہ۔

یہ بھی شاید ایک پہلو ہے اس حدیث کا جس میں آپ نے یہ خبر دی — پچھلی قومیں 72 فرقوں میں بٹ گئیں، اور تم ان سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاو گے(مسند احمد، حدیث نمبر 16937)۔

میری سمجھ میں آیا کہ ہر جگہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جو تباہ کن جھگڑے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف باہر والوں کی شرکت سے پیدا ہوتے ہیں۔ جھگڑا پیدا ہونے کے بعد اگر معاملہ صرف مقامی لوگوں تک محدود رہے تو دونوں فریق فطرت کی رہنمائی میں کام کرتے ہیں اور مل جل کر مسئلہ کو حل کر لیتے ہیں۔ مگر جب جھگڑا باہر کے ’’لیڈروں‘‘ کے ہاتھ میں چلا جائے تو بات بگڑ جاتی ہے اور معمولی نزاع ناقابل حل مسئلہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

فلسطین کے مقامی مسئلہ کو سب سے پہلے افواہوں نے عالمی مسئلہ بنایا۔1948ء میں شیخ حسن البنا نے جذباتی نعرے، تقریریں کرکے قاہرہ میں ایک لاکھ مصریوں کو جمع کیا اور قاہرہ کی سڑکوں پر لبیک یا فلسطین لگاتے ہوئے جلوس نکالا۔ یہ بیرونی دخل اندازی بڑھتی رہی۔ مگر اس کے نتیجہ میں عملاً جو ہوا وہ صرف یہ کہ ذلت اور ناکامی میں ناقابل تلافی حد تک اضافہ ہوگیا۔

 ترکی خلافت کے لیے ہندستان میں دھواں دھار تحریک چلانا، پاکستان کے لیے ان علاقوں میں ہنگامہ کھڑا کرنا جہاں پاکستان بننے والا نہ تھا، بابری مسجد کو اجودھیا کے دائرہ سے نکال کر سارے انڈیا بلکہ سارے دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ بنانا، بوسنیا کے سوال کو مقامی مسلمانوں اور مقامی عیسائیوں سے بڑھا کر سارے عالم کے مسلمانوں کا سوال بنا دینا، یہ قیادت نہیں ہے بلکہ صرف نادانی ہے۔ اور اس نادانی نے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

یروشلم میں ایک اسلامک آرٹ میوزیم ہے۔ اس میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے ’’اسلامک آرٹ‘‘ رکھے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ اسلامی علوم کی ایک لائبریری بھی ہے جس میں قیمتی کتابیں جمع کی گئی ہیں۔

اس میں ایک قیمتی تصویر ہے۔ اس تصویر میں مغل حکمراں شاہ جہاں کو اپنے تخت پر بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کو اوپر اٹھا کر خدا سے دعا کر رہا ہے۔ تصویر زبان حال سے کہہ رہی ہے__ میں اگرچہ بادشاہ ہوں۔ مگر خدا کے آگے میں بھی عام انسانوں کی طرح ایک محتاج انسان ہوں۔

اسی طرح اس میں کلیلہ و دمنہ کا ایک فارسی نسخہ ہے۔ اس میں کلیلہ و دمنہ کے واقعات کو رنگین تصویروں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ وغیرہ۔

کویت کے عرب ہفت روزہ المجتمع(4 ربیع الاول1416ھ، یکم اگست1995) میں المحامی خالد سیف(کردستان، العراق) کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس میں انہوں نے قبۃ الصخرۃ اور المسجد الاقصیٰ کی تصویریں چھاپی ہیں اور لکھا ہے کہ دونوں واضح طور پر الگ الگ عمارتیں ہیں۔ مگر80فیصد مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ایک ہیں اور جو قبۃ الصخرہ ہے وہی مسجد اقصیٰ ہے(ان80% من المسلمین یعتقدون بان مسجد قبۃ الصخرۃ ھوالمسجد الاقصیٰ)۔

عجیب بات یہ ہے کہ خود مذکورہ مضمون نگار نے بھی قبۃ الصخرۃ کو’’مسجد قبۃ الصخرۃ‘‘ لکھا ہے، حالانکہ وہ سرے سے مسجد ہے ہی نہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جب بھی مسجد اقصیٰ یا فلسطین کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن فوراً سنہری رنگ کے قبۃ الصخرۃ کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ جب بھی فلسطین کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیشہ وہ قبۃ الصخرۃ کی تصویر دکھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ خود فلسطینی بھی اپنے جلسوں میں جو لوح لگاتے ہیں اس پر بھی قبۃ الصخرۃ(بیت المقدس) کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں فلسطین کے موضوع پر ایسی کتابیں چھپی ہیں جن کے ٹائٹل پر قبۃ الصخرۃ (بیت المقدس) کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اور اس کے نیچے لکھا ہوا ہے:وا  أقصاہ۔

 مضمون نگار نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ایسا یہودی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ عربی کا مثل ہے کہ آنکھ سے دور تو دل سے بھی دور(البعید عن العین بعید عن القلب

یہودی یہ چاہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کی آنکھ سے دور کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے دل سے بھی دور ہو جائے گی۔ اور یہی یہودی جب اس کو ڈھائیں گے تو مسلمانوں کو خبر بھی نہیں ہوگی کہ مسجد اقصیٰ ڈھا دی گئی ہے۔

اس قسم کی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ80 فیصد کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ مضمون نگار سمیت تمام ہی مسلمان اس مسئلہ کی حقیقی نوعیت سے بے خبر ہیں۔

یروشلم میں یہودیوں کی سب سے زیادہ مقدس چیز دیوار گریہ ہے اور مسلمانوں کی سب سے زیادہ مقدس چیز مسجد اقصیٰ۔ عجیب بات ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل متصل ہیں۔ ذیل کی تصویر مسجد اقصیٰ کا خارجی منظر پیش کرتی ہے۔ اوپر کے حصہ میں مسجد کا گنبد اور اس کی بلند دیوار ہے۔ اور نیچے اس سے بالکل ملی ہوئی دیوار گریہ ہے جس کا ایک جزو تصویر میں دکھائی دے رہا ہے

دیوار گریہ(wailing wall) کا دوسرا نام مغربی دیوار(Western Wall) ہے۔ رومیوں نے اس کو 70ء میں تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس کی صرف ایک دیوار کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا جو ابھی تک موجود ہے۔ اس سے ملی ہوئی اور اس کے اوپر وہ اونچی فصیل تعمیر کی گئی ہے جو مسجد اقصیٰ کا احاطہ کیے ہوئے ہے:

The wall now forms part of a larger wall that surrounds the Muslim Dome of the Rock and  Al-Aqsa mosque. (EB. 10/627)

اس دیوار کی لمبائی20 میٹر ہے اور وہ20 میٹر اونچی ہے۔ یہود کا عقیدہ ہے کہ خدا کی رحمت کبھی بھی مغربی دیوار سے جدا نہیں ہوتی۔ یہودی بڑی تعداد میں یہاں دعا مانگنے کے لیے آتے ہیں۔

 مصری لطیفہ بنانے میں بہت مشہور ہیں۔ انہوں نے ایک لطیفہ بنایا کہ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر جب یروشلم گئے تو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم مناہم بگن (Menachem Begin) ان کو لیکر دیوار گریہ کے پاس گئے۔ یہودیوں کی نظر میں یہ ان کی سب سے زیادہ مقدس جگہ ہے۔ وہاں پہنچ کر جمی کارٹر نے دعا کی۔ انہوں نے اپنی دعا میں کہاکہ اے خدا! عربوں کو اور اسرائیل کوامن تک پہنچنے میں مدد دے۔ بگن جو پاس ہی کھڑے تھے، انہوں نے فوراً کہا آمین۔ اس کے بعد جمی کارٹر نے کہا کہ خدایا! مصر کو اور اسرائیل کو پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی توفیق دے۔ بگن نے کہا آمین۔ اس کے بعد جمی کارٹر نے کہاکہ خدایا! اسرائیلیوں کو بتا دے کہ وہ عربوں کو وہ تمام علاقے واپس کر دیں جن پر انہوں نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا ہے۔ یہ سنتے ہی بگن کا لہجہ بدل گیا۔ انہوں نے کہا کہ جناب صدر، میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ ایک دیوار سے بات کررہے ہیں۔

یہ لطیفہ خود عربوں کا مرثیہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ1967ء تک جو علاقے انہیں حاصل تھے، ان کو انہوں نے کیوں کر کھو دیا۔ یہ صرف اپنی پرجوش حماقت سے۔ مصر کی عرب قیادت نے اولاً سوئز کو قبل از وقت قومی ملکیت میںلینے کا احمقانہ اقدام کرکے سارے یورپ کو اپنا مخالف بنا لیا۔ اس کے بعد صحرائے سینا سے اقوام متحدہ کے مشاہدین کوواپس کرکے اسرائیل کے لیے اقدام کے دروازے کھول دیے۔ اس طرح کی کچھ اور نادانیوں نے اسرائیل کو موقع دیاکہ وہ یورپ کی مدد سے مصر پرحملہ کرے اور اس کی فوجی طاقت کو توڑ دے— اگر نااہل عرب قیادت احمقانہ غلطی نہ کرتی تو یہ علاقے تو اسے ازخود حاصل تھے۔

مسلمان عام طور پر قدس کے مسئلہ کو قبلۂ اول کی بازیابی کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ مگر یہ بات کسی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں13 سال تک کعبہ کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے رہے۔ اس لیے ’’قبلہ ٔاول‘‘ کا لفظ اگر کسی کے لیے بولا جا سکتا ہے تو وہ خود کعبہ ہے۔ ہجرت کے بعد تقریباً17 مہینہ تک آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ اس کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آیا اور ہمیشہ کے لیے کعبہ مسلمانوں کا قبلۂ عبادت بن گیا۔ اس تاریخ کے مطابق، بیت المقدس قبلۂ درمیانی ہے، نہ کہ قبلۂ اول۔

دوسری اہم تر بات یہ ہے کہ قدس میں جو اصل اسلامی سبق ہے، وہ قومی یا سیاسی یا جغرافی نوعیت کا نہیں ہے۔ وہ ان جھگڑوں سے مکمل طور پر الگ ایک اور سبق ہے۔ اور وہ مدعو کی تالیف قلب ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد بیت المقدس کو قبلہ کیوں بنایا۔ اس کی وجہ مسلمہ طورپریہود کی تالیف قلب تھی جو رسول اللہ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ کے لیے دو صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ سابق کی طرح کعبہ کوقبلہ بنائیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ مدینہ کے یہود کی پیروی کریں جو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے تھے۔ آپ نے قدس کا انتخاب فرمایا اس طمع میں کہ یہود آپ کی طرف مائل ہوں گے اور ایمان لائیں گے(فَاخْتَارَ الْقُدْسَ طَمَعًا فِي إِيمَانِ الْيَهُودِ وَاسْتِمَالَتِهِمْ)۔الجامع لاحکام القرآن للقرطبی،جلد2،صفحہ150۔

گویا قدس کا اصل سبق یہ ہے کہ مدعو کی رعایت یہاں تک کرو کہ ان کے قبلہ کواپنا قبلہ بنا لو۔ آج اگرچہ ہمیں قبلہ بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم بہت سے دوسرے معاملات ہیں جن میں مدعو قوموں کی رعایت کرکے انہیں اسلام کے قریب لایا جا سکتا ہے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمان اس سنت رسول سے مکمل طورپر بے خبر ہیں، خواہ وہ فلسطین کے مسلمان ہوں یا دوسرے ملکوں کے مسلمان۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان غیر مسلم قوموں سے ہر جگہ رقابت قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہ قدس اسپرٹ کے سراسر خلاف ہے۔

ایک یہودی عالم جو اچھی عربی جانتا تھا۔ اس نے کہاکہ قدس کو ہم اپنا حق اس لیے کہتے ہیں کہ ہماری کتابوں ہی میں نہیں بلکہ خود آپ کی مقدس کتاب قرآن میں بھی اس کو ہمارا حق بتایا گیا ہے۔ جب کہ قرآن میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ قدس مسلمانوں کو دے دیا گیا۔

اس نے کہا کہ آپ لوگ قدس کو قبلۂ اول کہتے ہیں مگر وہ قبلۂ اول کہاں ہے وہ تو قبلۂ عارضی تھا۔ آپ کے پیغمبر پہلے کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔پھر وقتی طور پر کچھ دنوں بیت المقدس کو قبلہ بنایا اور اس کے بعد پھر کعبہ کو قبلہ بنا لیا۔ آپ کے عقیدہ کے مطابق، آ پ کے پیغمبر نے یروشلم آ کر یہاں نماز پڑھی۔ اس وقت یہاں غیر مسلموں کی سیاسی حکومت قائم تھی۔ آپ بھی ہماری سیاسی حکمرانی کے تحت یہاں آ کر نماز پڑھیے۔ ہم آپ کو نہیں روکتے۔

میں نے جواب دیا کہ اس مسئلہ پر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان سنجیدہ انداز میں ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔

پاکستان میں اگر آپ جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں ہر چیز کو اسلامائز کر لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایک فلم کمپنی اپنی کسی فلم کو ریلیز کرنے والی ہوگی تواس کا اشتہار ان الفاظ میں شائع کیا جائے گا — اِن شاء اللہ، اگلے جمعہ کو ہماری نئی فلم ریلیز کی جائے گی۔

یہی معاملہ اسرائیل کا ہے۔ وہاں ہر چیز کو یہودی رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ مثلاً یروشلم کی ایک جدید کالونی کا نام قریہ داود(David`s Village) ہے۔ ایک اورکالونی کا اشتہار میں نے دیکھا۔ اس کے اوپر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھاکہ ارض موعود میں آپ کا اپارٹمنٹ:

Your own apartment in the promised land

ایک اخبار میں ایک اسرائیلی کمپنی کا اشتہار دیکھا۔ جس کا کام تل ابیب میں نجی جائیدادوں کا انتظام(Property management) کرنا ہے۔ اشتہار میں گھر کی دیکھ بھال اور اس کے انتظام کے سلسلہ میں جن باتوں کاذکر تھا، ان میں سے ایک یہ بھی تھاکہ —  ہم حفاظت کا انتظام کرتے ہیں:

We arrange security

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل میں کس طرح عام لوگ غیر محفوظ حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔یہودی جانتے ہیں کہ وہ صرف اسرائیل(فلسطین) کے اوپر زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہیں ساری دنیا سے اپنی زندگی کی خوراک حاصل کرناہے۔ ایک یہودی تاجر نے کہا — عالمی تجارت ہمارا مستقبل ہے:

Global business is our future.

قدیم زمانہ میں کوئی ملک زیادہ تر اپنے مقامی ذرائع پر انحصار کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں جدید کمیونی کیشن کے ظہور میں آنے کے بعد صورت حال بالکل بدل گئی ہے۔ آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ آپ ایک چھوٹے سے خطۂ زمین پر بیٹھ کر ساری دنیا میں اپنے کاروبار کو پھیلائیں اور ساری دنیا سے اپنے لیے رزق کا سامان حاصل کریں۔

ادارے چلانے کا روایتی طریقہ یہ ہے کہ اس کے ممبران کی ایک جگہ میٹنگ ہو۔ اس میں تبادلۂ خیال کے بعد زیر بحث مسئلہ میں کوئی بات طے کی جائے اور پھر اس پر عمل درآمد کیا جائے۔اب یہ طریقہ دیر طلب قرار پاچکا ہے۔

یہودیوں نے موجودہ زمانہ میں ایسے عالمی ادارے قائم کیے ہیں جس کے ممبرصرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہایت باشعور ہوں۔ یہ لوگ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ مگر دوری کے باوجود ان کے اجتماعی فیصلہ میں ایک یا دو دن سے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ معجزہ جدید کمیونی کیشن کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔

مثلاً عالمی پریس میں ایک چیز چھپتی ہے جو یہودی مفاد سے ٹکراتی ہے۔اب یہ ادارہ یہ کرتا ہے کہ فوراً بذریعہ فیکس اس کی نقل تمام ممبروں کے نام ساری دنیا میں بھیج دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے تبصرے دوبارہ فوری طورپر بذریعہ فیکس ادارے کو بھیج دیتے ہیں۔ اب یہ تمام کاغذات ایک اکسپرٹ شخص کو پہنچا دیے جاتے ہیں۔ وہ ان کا مطالعہ کرکے فوری طور پراپنا تحریری ردعمل ادارہ کو دے دیتا ہے۔ ادارہ اس تحریر کو دوبارہ تمام ممبران کے نام فیکس کر دیتا ہے۔ چندگھنٹوں میں تمام ممبران کی رائیں دوبارہ بذریعہ فیکس ادارہ کے صدر دفتر میں وصول ہوجاتی ہیں۔ ان کو سامنے رکھ کر مذکورہ اکسپرٹ اپنی تحریر کو دوبارہ تیارکرتاہے۔ وہ فوراً ہی عالمی پریس کے نام سے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح صرف ایک یادو دن میں یہودی نقطۂ نظر عالمی پریس میں آجاتا ہے۔

میری تمنا ہے کہ میں بھی دعوتی مقصد کے تحت اس قسم کا ایک انٹرنیشنل ادارہ قائم کروں۔ یہ ادارہ جدید کمیونی کیشن کو استعمال کرکے ان شاء اللہ عالمی اسٹیج پردعوت کی منصوبہ بندی کرے گا اور اس سلسلہ کی ضروری کام انجام دے گا اور یہ سب کچھ رسمی میٹنگ کے بجائے ٹیلی فون، فیکس، انٹرنیٹ کے ذریعہ انجام پائے گا۔ وماذلک علی اللہ بعزیز۔

یروشلم میں مخصوص انداز کی ایک یادگار تعمیرکی گئی ہے۔ اس کا انگریزی نام (Homage to Jerusalem) ہے۔ اس کو تین مذہبوں کا یروشلم کہا جاتا ہے:

Jerusalem: The Three Religion

اس میں تینوں سامی مذہب کے علامتی تقدس بنائے گئے ہیں۔ ان کو بتاتے ہوئے ایک یہودی نے کہا:

It represents elements that Judaism, Islam and Christianity have in common.

ایک صاحب سے مہدی سوڈانی کا تذکرہ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ مہدی سوڈانی نے اگرچہ عوام کی بھیڑ اپنے گرد اکٹھا کر لی تھی، مگر وہ کوئی معتدل آدمی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مصر کے حکمراں محمد علی پاشا نے 1835ء میں سوڈان پر حملہ کیا تھا۔ مہدی سوڈانی کو اس کی خبر ملی اور یہ بھی معلوم ہواکہ وہ دریائے نیل کے راستہ سے سوڈان پہنچنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مریدوں کی مجالس میں کہا کہ وہ دریائی راستہ سے سوڈان  پہنچنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ کیونکہ خدا کی قسم، میں دریا کا سارا پانی پی کر اس کو خشک کر دوں گا(تااللہِ اشرب البحر…)

فلسطین(اسرائیل) کا ایک شہر حیفہ ہے۔ یہاں پانچ مذہب کے لوگ رہتے ہیں اور ہر ایک کی عبادت گاہیں اور مذہبی ادارے وہاں موجود ہیں — یہودی، مسلمان، عیسائی، دروزی اور بہائی۔ عرب مسلمانوں کی تعداد10 فیصد سے سے کچھ اوپر ہے۔ایک یہودی نے اس کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھیے، یہ سب لوگ کس طرح روا داری کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں:

...they share a unique spirit of tolerance.

بہائی فرقہ دنیا میں پانچ ملین ہے۔ حیفہ میں ماؤنٹ کارمل کے اوپر اس کا مرکز ہے جس کا سنہرا گنبد دور سے دکھائی دیتا ہے۔ بہائی مذہب ایران میں1844ء میں وضع کیا گیا۔ اس کے بانی کا نام باب اللہ تھا۔ حکومت ایران سے ان کا اختلاف ہوا۔ حکومت نے ان کے 20 ہزار آدمیوں کو قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس مذہب کو ماننے والے دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد1948ء میں انہوں نے یہاں اپنا مرکزی دفتر قائم کیا۔1953ء میں موجودہ عمارت بن کر مکمل ہوئی۔ایک بہائی نے کہا:

Our relation with the Israelis are proper and friendly.

اسرائیل میں بہائیوں کی تعداد ایک سو سے کچھ زیادہ ہے۔ تاہم ان کے افراد بڑی تعداد میں یہاں ’’زیارت‘‘ کے لیے آتے رہتے ہیں۔ بہائی اپنے مذہب کو یونیورسل مذہب کہتے ہیں۔ ان کے یہاں شادی بیاہ پرکوئی پابندی نہیں۔ وہ وحدت ادیان کی وکالت کرتے ہیں۔ ایک بہائی نے کہا:

It doesn`t matter what you believe, the scientific fact is that we are all brothers inhabiting the same world. We believe that all religions have validity, and we accept them.

اسرائیل کے زمانہ قیام میں کئی بار میں نے دیکھا کہ یہودی کس طرح یہاں ایک شاندار زندگی گزاررہے ہیں۔’’کیا یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے‘‘۔ میں نے سوچا میری سمجھ میں آیا کہ لعنت کاکوئی لازمی تعلق خوش حالی یا بدحالی سے نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی فرد یا قوم خدا کے نزدیک لعنت زدہ ہو مگر موجودہ دنیا میں وقتی طورپر وہ شاندار قسم کی مادی زندگی حاصل کر لے۔

جہاں تک میں سمجھتا ہوں، ملعون ہونے کا مطلب رحمت الٰہی سے محروم ہونا ہے۔ جن فرد یا گروہ پرخدا کی لعنت ہو وہ بے حسی کا شکارہو جائے گا۔ خدا کی نظر میں اس کا ہر عمل بے قیمت ہو جائے گا، خواہ بظاہر وہ کوئی درست عمل کیوں نہ دکھائی دیتا ہو۔

یہودی نفسیات فخر کی نفسیات ہے۔ ان کی ہر بات میں فخر کا احساس جھلکتا ہے۔ یہودی میوزیم ڈائسپورا(Diaspora)کے ناظم نے اپنے ادارہ کا تعارف کرتے ہوئے فخریہ انداز میں کہاکہ دلائی لاما تک اسرائیل آئے تاکہ یہ دیکھیں کہ یہودیوں نے وہ کون سا طریقہ نکالا جس کے ذریعہ وہ اتنی لمبی مدت تک اپنی قومی شناخت کو برقرار رکھ سکیں:

Even the Dalai Lama visited Israel to see what technique the Jews developed to survive and maintain their identity.

میں خود اریحا(Jericho) نہ جا سکا۔ ایک کرسچین سیاح جواریحا(مسلم علاقہ) میں گیا تھا۔ اس نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ سرحد پر زبردست پہرہ ہوگا۔ لیکن مجھے تعجب ہوا جب میں نے دیکھاکہ وہاں  ایک گارڈ ہے جس کو ہماری جانچ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس نے شلوم کہہ کر ہمارا استقبال کیا:

Expecting the border to be heavily guarded, I was surprised to see a disinterested guard, who upon seeing us welcomed us with a shalom.

فلسطین کا ایک حصہ صحرا ہے۔ یہ صحرا ہزاروں سال سے یوں ہی پڑا ہوا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ معلوم ہوا کہ پانی سے محرومی کسی زمین کو ریگستان بناتی ہے۔اگر پانی فراہم کیا جا سکے تو ریگستان کو سرسبز علاقہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہودی نے اس نئی دریافت سے فائدہ اٹھایا اور فلسطین کے صحرائی علاقہ کے بڑے حصہ کو کھیت اور باغ میں تبدیل کر دیا۔ ایک اسرائیلی نے اپنے مضمون میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فخرکے ساتھ لکھا تھا کہ ہم نے ڈرپ آبپاشی کے طریقہ کو ترقی دے کر ریگستان کو سر سبز و شاداب بنا دیا:

That a country can be transformed from barren desert to a lush wonderland, can be attributed to the miracle of drip irrigation.

ایک سیاح جس نے فلسطین کے صحرائی علاقہ کو دیکھا تھا، اس نے کہاکہ ہم یہاں آئے تھے کہ صحرا کودیکھیں مگر یہاں ہمیں سبزہ دیکھنے کو ملا:

We had come here to see desert, but instead, we found greenery.

یہاں ایک ہوٹل الحمرا ریستوراں(Alhambra Restaurant) کے نام سے ہے۔ وہ جافا اور تل ابیب اور یروشلم میں قائم ہے۔ میں اس نام کا سبب معلوم نہ کر سکا۔ تاہم اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فلسطین(اسرائیل) پر مسلم تہذیب کا اثر کتنا زیادہ ہے۔

اسرائیل اور اردن کے درمیان ایک انوکھی جھیل ہے جس کو البحرالمیت(Dead Sea) کہتے ہیں۔ وہ سطح سمندر سے 401 میٹر نشیب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ405 مربع میل ہے۔ اس کے پانی میں نمک اور معدنیات کی آمیزش عام سمندروں سے چار گناہ زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ آدمی اس کے اندر داخل ہو تووہ غرق نہیں ہوتا۔ و سپاسین(Vespasian)رومی سلطنت کاحکمراں تھا۔ وہ 67-68ء میں فاتحانہ طورپر فلسطین میں داخل ہوا۔ اس کو بتایا گیا کہ بحرمردار کا پانی اتنا گاڑھا ہے کہ اس میں داخل ہونے والا آدمی اوپر ہی اوپر تیرتا رہتا ہے، اس نے تجربہ کے لیے کچھ یہودی قیدیوں کو اس کے اندر پھنکوا دیا:

When the Roman Emperor Vespasian heard of this, he had some Jewish prisoners thrown into the water to see if they could float.

جغرافیہ کے علماء بحرمردار جیسی انوکھی جھیل(سمندر) کو سطح زمین کی قدیم تبدیلیوں کے عہد (holocene epoch) کی ایک یاد گار سمجھتے ہیں۔ مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ تبدیلیوں کے اس دور میں، جو کہ پچھلے دس ہزار سال کی ارضی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے، اس میں صرف بحر مردار ہی استثنائی طورپرایسی وسیع جھیل کی صورت میں کیوں تبدیل ہوگیا۔ جب کہ اس کا بھی ثبوت ملا ہے کہ ایک عرصہ پہلے تک وہ عام جھیل کی مانند تھا۔

اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں یہاں قوم لوط آباد تھی۔ اس کے اندر برائیاں پیدا ہوئیں تو حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام ان کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے۔ مگر قوم سرکش ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ دو ہزار سال قبل مسیح میں ایک شدید زلزلہ آیا۔ زمین کے اندرونی آتش گیر اجزاء بھڑک کر جل اٹھے۔ پورا علاقہ تباہ ہو کر رہ گیا۔

ہندستان ٹائمز(18 ستمبر) کے درمیانی صفحہ پر مسٹر این سی منن(مقیم واشنگٹن) کا مضمون فلسطین کے مسئلہ پر تھا۔ اس کا عنوان تھا — اور امن کا وقت:

And a time of peace

مضمون نگار13 ستمبر1993ء کو واشنگٹن(وہائٹ ہائوس) کی اس تقریب میں موجود تھے جہاں فلسطینی لیڈر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم یتزک رابن کے درمیان ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا معاہدہ ہوا۔ مضمون نگار اس معاہدہ امن کو بے نظیر مفاہمت(unprecedented accommodation) سے تعبیر کیا ہے۔

 مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اس قسم کا نسبتاً کم اہم معاہدہ 1979 میں سابق مصری صدر انورسادات اور سابق اسرائیلی وزیراعظم مناہم بیجن کے درمیان ہوا تھا۔ اس وقت یاسر عرفات نے انور سادات کو غدار(traitor) بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس قابل ہیں کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ مگر آج خود یاسر عرفات، سادات کی اسی سنت پر زیادہ بڑے پیمانہ پر عمل کر رہے ہیں۔

 یاسر عرفات اب اگر امن کی پالیسی کو ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے لیے اپنی اس رائے پر عمل کرنا کوئی غلط بات نہیں۔ مگر ایسی صورت میں انہیں یہ اعلان بھی کرنا چاہیے کہ اس سے پہلے انہوں نے فلسطین کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی وہ درست نہ تھی اور انورسادات کو برا بتانا بھی ایک سنگین غلطی تھی۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنا ان کے لیے خود سب سے بڑی غلطی ہوگی۔

ابن عساکر(527-600ھ) مشہور محدث اور مورخ ہیں۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کا نام ہےالجامع المستقصى في فضائل المسجد الأقصى۔ یہ غالباً اس موضوع پر سب سے زیادہ جامع کتاب ہے۔

قبطی چرچ کے پوپ نے 4 جولائی1995 کو ایک بیان میں کہا کہ یہودی اب شعب مختار(Chosen people) کی حیثیت نہیں رکھتے۔ مسیحیت کے ظہور کے بعد اب ان کی یہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ میں نے ایک عیسائی اسکالر سے کہا کہ یہ بات جزئی طور پر صحیح ہے۔ کیوں کہ پیغمبر اسلام کے ظہور کے بعد خود مسیحیت کی حیثیت بھی ختم ہو چکی۔ اور اب خدا کا مختار گروہ وہ ہے جو دین محمدی کو اختیار کرے۔ اس نے توجہ کے ساتھ میری بات سنی اور پھر کہامگر کیا محمد عربی ایک عالمی پیغمبر تھے۔

ایک صاحب سے جہاد (بمعنی قتال) کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ اسلام میں جہاد صرف دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ مگر دونوں میں کوئی فرق نہیں— ماہرین جنگ کا تو کہنا ہے کہ اقدام خود بہترین دفاع ہے:

Offence is the best defence.

میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو صرف پرانے زمانہ کی باتیں معلوم ہیں۔ نئے زمانہ کی آپ کو کچھ خبر نہیں۔ یہ سب مقولے اس زمانہ کے ہیں جب کہ جنگ صرف دو فوجوں کے درمیان ہوتی تھی۔ عام شہری اس کے نقصان سے بچے رہتے تھے۔ مگر آج کی جنگ پورے ملک میں تباہی برپا کرتی ہے۔ اب نہ اقدامی جنگ کا کوئی نتیجہ ہے اور نہ دفاعی جنگ کا۔ اب تو صرف تدبیر کا راستہ انسان کے لیے باقی رہ جاتا ہے۔

میں نے کہا کہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے جنیوا سے اس سلسلہ میں ایک جائزہ رپورٹ(World Disasters Report 1995) چھاپی ہے۔ اس کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد56 جنگوں میں جو لوگ شدید طور پر اس سے متاثر ہوئے ان میں 95 فیصد تعداد غیر فوجی شہریوں سے تعلق رکھتی تھی:

Ninety-five percent of the victims were civilians.

ایسی حالت میں جنگ دو طرفہ تباہی کے ہم معنی بن کر رہ گئی ہے۔

اگست1969ء میں یروشلم کی مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد ساری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔اس سلسلے میں29 اگست کی شام کو دہلی کے آسمان نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ یہ مسلمانوں کے دو جلسے تھے جو ایک ہی تاریخ کو ایک ہی مقصد کے تحت مگر دو الگ الگ شامیانوں کے نیچے کیے گئے۔ دونوں کا مقام جامع مسجد دہلی کے قریب کا آزاد پارک تھا۔ ایک جلسہ شام کو 5 بجے ہوا اور دوسرا ساڑھے نو بجے شب میں۔

دونوں جلسوں کا مقصد ایک تھامسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے خلاف یوم احتجاج منانا۔ دونوں جلسوں میں اپنے اپنے حلقہ کے لوگ اکٹھا ہوئے۔ میں دونوں ہی میں شریک تھا۔ میں نے سنا کہ دونوں جلسوں میں اسرائیل کے خلاف پرجوش تقریریں ہو رہی ہیں۔ ان تقریروں کا خلاصہ یہ تھا کہ اے عربو! متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کرو۔

آخری جلسہ سے فارغ ہو کر جب میں رات کے وقت اپنی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوا تھاتو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھےہم متحد ہو کر مشورہ بھی نہیں دے سکتے اور وہ متحد ہو کر مقابلہ کریں(الجمعیۃ ویکلی12ستمبر1969)۔

حال میں فلسطین کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں ایک کتاب ایک برطانی مصنف نے شائع کی ہے۔ اس انگریزی کتاب کے مصنف کا نام گراہم اشر ہے:

Palestine in Crisis: The Struggle For Peace and Political Independence After Oslo:  Pluto Press  (1995), pp. 146.

یہ کتاب ان فلسطینیوں یا ان عربوں میں پسند کی جا رہی ہے جو یاسر عرفات کی کوششوں سے زیادہ اتفاق نہیں کرتے۔ اس کتاب میں برطانی مصنف نے لکھا ہے کہ یاسر عرفات کی پالیسیوں کے نتیجہ میں فلسطین کو جوامن حاصل ہوا ہے، وہ وقتی اور مصنوعی ہے اور وہ امریکہ اور اسرائیل کی شرطوں پر قائم ہوا ہے، نہ کہ عربوں کی شرطوں پر۔

میں نے ایک صاحب سے کہا کہ گراہم اشر کی یہ بات کوئی زیادہ اہم بات نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے جو معاہدہ کیا تھا وہ بھی وقتی تھا اور وہ تمام تر فریق مخالف کی شرطوں پر کیا گیا تھا۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے وہ مسلمانوں کے حق میں فتح مبین بن گیا۔ اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلہ کی جگہ ہے، یہاں اصل اہمیت صلح کی دفعات کی نہیں ہے،بلکہ اصل اہمیت یہ ہے کہ صلح کے بعد مستقبل کی تعمیر کے لیے آپ کتنی اہلیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ کسی بھی صلح کو مستقبل کے نتائج کے اعتبار سے دیکھنا چاہیے نہ کہ حال کی لفظی دفعات کے اعتبار سے۔ میں نے کہاکہ الفاظ ہمیشہ تاریخ کے تابع ہوتے ہیں، تاریخ کبھی الفاظ کے تابع نہیں ہوتی۔

مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ ساری دنیا میں یہ غلطی کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کو قول سدید(الاحزاب،33:70) کی زبان میں پیش نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ ان کو جذباتی بلکہ غیر واقعی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملی یا قومی مسئلہ میں مسلمانوں کے درمیان حقیقت پسند رائے نہیں بنتی۔ ساری دنیا کے مسلمان ذہنی اعتبار سے غیر واقعی دنیا میں جیتے ہیں اور جو لوگ غیر واقعی فضا میں جیتے ہوں وہ کبھی اپنے معاملات کی صحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکتے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی اسی ذہنیت کا شکار ہوا ہے۔

کویت سے ایک عربی ہفتہ وار نکلتا ہے جس کا نام المجتمع ہے۔ اس کو جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی نے 1970 میں جاری کیا تھا۔ اس کے شمارہ30 مئی1995ء کے صفحہ اول پر ایک نمایاں تصویر شائع کی گئی ہے۔ یہ بیت المقدس کی تصویر ہے۔ اس کے ایک طرف اسرائیلی جھنڈا گڑا ہوا ہے اور دوسری طرف ایک اسرائیلی فوجی گن لٹکائے ہوئے کھڑا ہے۔ یہ تصویر واضح طور پر مصنوعی ہے۔ جھنڈا اور فوجی کی تصویر الگ سے کاٹ کر یہاں چپکائی گئی ہے۔ بیت المقدس کے پاس ایسی کوئی چیز حقیقتاًموجود نہیں۔

عربی اخبارات و رسائل میں مسلسل’’القدس‘‘ کے بارے میں مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر وہ زیادہ تر جذباتی انداز میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لکھنے والوںکو قدس کے حقیقی مسئلہ کی خبر نہیں۔ مثال کے طور پر مکہ سے نکلنے والے ماہنامہ الرابطۃ کے شمارہ373 میں ایک مضمون چھپا ہے جس کا عنوان ہےحول قضیۃ القدس۔ یعنی بیت المقدس کے مسئلہ کے بارے میں۔ اس مضمون کے ساتھ ایک تصویر نمایاں طور پر چھاپی گئی ہے ۔ یہ تصویر واضح طور پر قبۃ الصخرۃکی ہے۔ مگر اس کے نیچے لکھا ہوا ہےمسجد اقصیٰ کوعرب سیادت کے تحت واپس لانا بالکل ضروری ہے(لا بد ان يعود الاقصى للسيادة العربية)۔

جب میں دہلی سے یروشلم کے لیے روانہ ہوا تو میرے ذہن میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی واضح تصویر نہ تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ شایددونوں ایک ہی ہیں۔ چنانچہ وہاں کی کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے میںنے جو پیپر تیار کیا اس میں بھی میں نے مسجد اقصیٰ لکھ کر اس کے آگے بریکٹ میں بیت المقدس لکھ دیا تھا۔ گویاکہ دونوں ایک ہی ہیں۔

یہ غلط فہمی کوئی انفرادی نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ 99فیصد مسلمان اس معاملہ میں اسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ وہ دونوں کے بارے میں کوئی واضح شعور نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ یہ غلط فہمی بہت پہلے سے چلی آ رہی ہے۔

صحیح بخاری کی ایک روایت (نمبر 7312)میں ہے کہ اس امت کا معاملہ مستقیم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ دوسری کتب حدیث میں بھی یہ روایت الفاظ کے فرق کے ساتھ آئی ہے۔ المعجم الاوسط للطبرانی (حدیث نمبر 47)میں یہ الفاظ ہیں:يُقَاتِلُونَ...عَلَى أَبْوَابِ ‌بَيْتِ ‌الْمَقْدِسِ وَمَا حَوْلَهُ، لَا يَضُرُّهُمْ خِذْلَانُ مَنْ خَذَلَهُمْ، ظَاهِرِينَ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ(  امت کے یہ اہل حق بیت المقدس کے دروازوں پر اور اس کے آس پاس قتال کریں گے۔ ان کا کوئی حریف انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے)۔ ایک اور روایت میں ہے:لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَمْرِ اللهِ، ‌قَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ، ‌لَا ‌يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1924)۔ یعنی میری امت کا ایک گروہ اللہ کے معاملے میں قتال کرے گا، اور وہ اپنے دشمن پر غالب رہے گا، ان کے مخالفین ان کو نقصان نہیں پہنچاسکیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے، اور وہ اسی پر رہیں گے۔

ان روایات میں قتال سے مراد جنگ نہیں ہے،بلکہ غیر حربی کوشش ہے(فتح الباری، جلد13، صفحہ 295)۔

اس سے معلوم ہوا کہ بیت المقدس کے علاقہ میں ابدی طور پر مسلمانوں کا غلبہ مقدر کردیا گیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق حکومت اسرائیل کے قیام کے باوجوداس غلبہ کو قائم رہناچاہیے۔

قرآن میں دو جگہ یہود کے ایک مخصوص گروہ(نہ کہ تمام یہودی نسل) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مسلسل سرکشی اور نافرمانی کی پاداش میں ان پر لعنت کی اوران کو ذلیل و خوار بندر بنا دیا(سورہ البقرہ آیت65، سورہ الاعراف آیت166)۔سورۃ المائدہ کی آیت60 میں یہ اضافہ ہے کہ اس گروہ کو بیک وقت بندر اور خنزیر بنا دیا گیا۔ البتہ اس سلسلہ میں ابتداء سے مفسرین کے یہاں اختلاف پایا جاتاہے کہ بندر اور خنزیر بنا دینے سے کیا مراد ہے۔ بعض اس کو حقیقی جسمانی تبدیلی (physical transformation) کے معنی میں لیتے ہیں اور بعض اس کو مجازی طور پر صرف فکری اور مزاجی تغیر(moral metamorphosis) قرار دیتے ہیں۔

مشہور تابعی مجاہد کا قول ہے کہ اصلاً ان کے دل مسخ کیے گئے،نہ کہ خود ان کو(جسمانی اعتبار سے) بندر بنا دیا گیا۔ یہ عین اسی طرح کی ایک تمثیل ہے جیسی تمثیل یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (سورہ الجمعہ آیت5) میں بیان کی ہے کہ وہ’’اس گدھے کی مانند ہیں جو اپنے اوپر کتابوں کا بوجھ لادے ہوئے ہو۔‘‘(مُسِخَتْ قُلُوبُهُمْ، وَلَمْ يُمْسَخُوا قِرَدَةً....، وَإِنَّمَا هُوَ مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللهُ لَهُمْ، مِثْلَ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا) تفسیر ابن ابی حاتم، اثر نمبر 672 ۔

جرمن نو مسلم محمداسد نے مجاہد کے اسی قول کو سامنے رکھتے ہوئے بقرۃ اور اعراف کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں كُونُواْ قِرَدَةً خَٰسِـِٔينَ (2:65)کا ترجمہ(Be as apes despicable) کیا ہے۔ یعنی ہو جائو بندروں کی مانند ذلیل و خوار۔ اس کے علاوہ حاشیہ میں مجاہد کے قول کو انگریزی میں اس طرح نقل کیا ہے:

Only their hearts were transformed, that is, they were not really transformed into apes: this is but a metaphor(mathal) coined by God with regard to them, similar to the metaphor of "the ass carrying books."

(The Message of the Qur` an, translated and Explained by Muhammad Asad, Dar al-Andalus, Gibralter. p.228)

تاہم اس لفظی بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر مسخ کو حقیقی جسمانی تبدیلی کے معنی میں لیا جائے تب بھی اس ضمن میں دو باتیں تمام مفسرین کے یہاں متفق علیہ ہیں۔ ایک یہ کہ صحیح حدیث کے مطابق نہ یہود بندراور خنزیر کی نسل سے ہیں، نہ یہ جانور یہود کی نسل سے، بلکہ دونوںاللہ تعالیٰ کی مستقل مخلوق ہیں۔

علامہ ابن کثیر نے ابو دائودالطیالسی کے واسطہ سے عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا بندر اور خنزیر مسخ شدہ یہود کی نسل ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہواکہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو لعنت زدہ ٹھہرا کر اسے مسخ کیا ہواور پھر اس سے کوئی نسل چلی ہو۔ بلکہ یہ تو ایک مستقل مخلوق ہے جو واقعہ مسخ کے پہلے سے موجود تھی۔ چنانچہ جب یہود پر خدا کا غضب نازل ہوا اور ان کو مسخ کر دیاتو ان کوانہیں کے جیسا بنا دیا(سَأَلْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ ‌الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ أَهُمْ مِنْ ‌نَسْلِ ‌الْيَهُودِ؟ فَقَالَ:لَا، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَلْعَنْ قَوْمًا قَطُّ فَمَسَخَهُمْ فَيَكُونُ لَهُمْ نَسْلٌ وَلَكِنْ هَذَا خَلْقٌ كَانَ، فَلَمَّا غَضِبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْيَهُودِ فَمَسَخَهُمْ جَعَلَهُمْ مِثْلَهُمْ)مسند ابوداؤد الطیالسی، حدیث نمبر 305؛ مسند احمد، حدیث نمبر 3747۔

دوسرے یہ کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ و تابعین سے صراحتاًمنقول ہے کہ کوئی مسخ شدہ قوم تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہی، نہ اس نے کچھ کھایا، نہ کچھ پیا اور نہ اس سے توالدو تناسل کا کوئی سلسلہ جاری ہوا(وَلَمْ يَعِشْ مَسْخٌ قَطُّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَلَمْ يَأْكُلْ وَلَمْ ‌يَشْرَبْ وَلَمْ ‌يَنْسَلْ) تفسیر ابن کثیر، جلد1، صفحہ289۔

مسجد اقصیٰ کے گردوپیش میں جو آبادی ہے وہاں زبان کو مستثنیٰ کرکے بڑی حد تک پرانی دہلی کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ بھیڑ، گندگی، بدنظمی، شور وغل، بچوں کی اچھل کود، دیواروں پر حکومت کے خلاف احتجاجی نعرے وغیرہ۔ آزادیٔ فلسطین کے لیے وہاں جو تنظیمیں زیادہ سرگرم ہیں ان میں ایک حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ ہے جس کا مختصر نام(short form) حماس ہے۔ یہ ایک جذباتی اور انتہا پسند تنظيم ہے۔ اسی کے زیر قیادت7 دسمبر1987ء کو ایک مخصوص حادثہ(المقطورۃ) کے بعد وہ پرشور تحریک وجود میں آئی جو اخبارات میں الانتفاضۃ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کے تحت فلسطینی لڑکوں اور نوجوانوں کو اکسایا گیا کہ وہ جہاں کہیں بھی کسی یہودی کو دیکھیں پتھر مار کر اس کا چہرہ زخمی کر دیں۔ جن لڑکوں نے اس تحریک میں حصہ لیا انہیں پرفخرطور پر اولاد الحجارۃ  کہا جاتا ہے۔

جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ایک طاقتور فوج کے مقابلہ میں’’پتھر‘‘ اٹھانا بلاشبہ ایک مجنونانہ حرکت ہے۔ مگر اپنے اس طریق کار پر حماس کو اتنا یقین ہے کہ اس کے بقول عربوں کے تمام ٹینک اور میزائل بھی وہ کارنامہ انجام نہ دے سکے جو ان کے پتھر نے کر دکھایا، وہ پتھر جو’’غاصب‘‘ کے چہرہ کو لہولہاں کر دیتا ہے(کل الدباّبات و کل صواریخ العرب، ماساوت حجراً، حجراً یُرمی وجہَ المحتلّ)۔

اس علاقہ میں جس طرف سے بھی گزر ہوا اکثر دیواریں حماس کی طرف سے لکھے گئے جذباتی نعروں(شعارات) سے رنگین نظر آئیں۔ مثلاً— نعم لِلحَجر، لاَ لِلمؤتمَر( پتھر کے لیے ہاں، کانفرنس کے لیے نہیں)۔یعنی ہمارا مسئلہ صرف پتھر کے ذریعہ لڑکر حل ہو سکتا ہے، نہ کہ امن کانفرنسوں میں بات چیت کے ذریعہ۔

بالقرۃ و بالقوہ فقط تُحرّرُ ارضُ فلسطین (طاقت اور صرف طاقت کے ذریعہ ہی سرزمین فلسطین کو آزاد کرایا جا سکتا ہے) ۔

جندحماس للأقصٰی حراس (حماس کی فوج اقصیٰ کی محافظ) ۔

صراعُنا مع الیھود صراعُ وجودٍ لا حدود (یہود کے ساتھ ہماری کشمکش ہمارے(قومی) وجود کی کشمکش ہے، نہ کہ(جغرافیائی) حدود کی کشمکش) ۔

ان الجھاد فی سبیل اللہ… ھوالحل الراجح والأسلوب الفعال فی التفاھم مع أحفاد القِردۃ والخنازیر… وماالحلول والمبادرات السلمیۃ الاغثاء کغثاء السَّیل (بندروں اور خنزیروں کی اولاد کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہی قابل ترجیح حل اور موثر ترین طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ پرامن نوعیت کے سارے حل اور پیش قدمیاں سیلاب کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں)۔

حماس کے یہ نعرے ایک طرف اس کے مزاج اور طریق کار اور دوسری طرف عصر حاضر کے تقاضوں سے اس کی المناک بے خبری کا پتہ دیتے ہیں۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ عرب اخبارات میں عام طور پر یہودیوں کو از راہِ تحقیر احفاد القردۃ و الخنازیر (بندروں اور خنزیروں کی اولاد )کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر حماس کے ایک نعرہ میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں۔ مگر ایسا کہنا حد درجہ سرکشی اور جہالت کی بات ہے۔ کیوں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے مسلک کے بالکل برعکس ہے۔

ایک حدیث میں مومن کو نرم پودے(‌كَمَثَلِ ‌خَامَةِ ‌الزَّرْعِ) سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جب ہوا چلتی ہے تو وہ اس سے ہم آہنگ ہو کر دائیں یا بائیں طرف جھک جاتا ہے اور ہوا کا زور گھٹنے کے بعد بدستور اپنی جگہ سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس منافق سخت تنے کی مانند ہوتا ہے جو ہوا کے ایک ہی جھٹکے میں اپنی جگہ سے اکھڑ کر گر جاتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7466)۔ دوسری طرف قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہارے مخالفین صلح پر آمادہ ہوں تو تم بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کے لیے آمادہ ہو جائو۔ اگر مخالفین مصالحت کے بہانے تمہیں دھوکا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تب بھی اللہ تمہارے لیے کافی ہو جائے گا(الانفال،8:61-62)۔

مذکورہ حدیث اور آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے قائدین نے، خصوصاً مسئلۂ فلسطین کے معاملہ میں، نہ تو حقیقی دانش مندی کا ثبوت دیا نہ حقیقی توکل کا۔ دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ جب ساری دنیا میں امن کا چرچا ہو رہا ہو اور قومی و بین الاقوامی نزاعات کو پرامن بات چیت کے ذریعہ حل کرنا تہذیب و شائستگی کا مسلمہ معیار بن چکا ہو، تو وہ جنگ وقتال جیسی خلاف زمانہ باتوں سے مکمل احتراز کرتے۔ وہ ’’معرکۂ حطین‘‘ کی تجدید کے بجائے’’معاہدۂ حدیبیہ‘‘ کی تجدید کو اپنی پالیسی بناتے۔ دوسری طرف توکل علی اللہ کا تقاضا یہ تھا کہ عہد شکنی کے امکانی خطرہ کے باوجود’’اغیار‘‘ کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو فوراً قبول کر لیتے۔ مگر چوں کہ بروقت ان دونوں میں سے کوئی ایک بات بھی متحقق نہ ہو سکی، اس لیے جان ومال کی بے پناہ قربانیوں کے علی الرغم آج تک ہمارے تمام مسائل، بشمول مسئلۂ فلسطین، غیر حل شدہ پڑے ہوئے ہیں، بلکہ وہ مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔

فلسطین کے ایک اخوانی نوجوان نے کہا کہ اسلام صرف عبادت نہیں ہے، وہ دین بھی ہے اور ریاست بھی۔ اس لیے اس دین کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس حکومت ہو جو اسلامی قوانین کونافذ کرے اور دشمنان خدا کے معاملہ میں مسلمانوں کی حمایت کرے اور دشمنوں کی سازشوں سے انہیں بچائے یہ ایک فریضہ ہے مگر اکثر مسلمان اس فرض سے غافل ہیں۔ الاخوان المسلمون مسلمانوں کواسی کی طرف بلاتی ہے کہ وہ اس فریضہ کو ادا کریں اور اسلامی قوانین کو پوری طرح نافذ کریں

الاسلام لیس عبادۃ فقط ولکنہ دین ودولۃ۔ وھذ الدین لا بدّ لہ من دولۃ تطبق الاسلام و تحمی المسلمین من اعداء اللہ و تردکید الاعداء عنھم۔ فھذا واجب لکن کثیرا من المسلمین غافلون عن ھذا الواجب۔ والاخوان یدعونھم لتحقیق ھذا الواجب والعمل علی تطبیق الشریعۃ والحکم بالا سلام۔

میں نے کہا کہ یہ پورا نظریہ ایک غلط تفسیر دین پر قائم ہے۔ الاسلام دین ودولۃ اسلام کی ایک مبتدعانہ تفسیر ہے۔ زیادہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ الاسلام دین ودعوۃ۔ یعنی ذاتی زندگی میں دین دار بننے کے بعد مسلمان پر جو دوسری ذمہ داری ہے وہ دعوت ہے نہ کہ حکومت۔ عبادت اور دعوت ذمہ داری ہے اور حکومت اللہ تعالیٰ کاایک عطیہ۔ حکومت واقتدار اسلامی عمل کا ہدف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی حاصل ہوتا ہے اور کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ میں نے کہاکہ اس معاملہ کی پوری تفصیل میں نے اپنی کتاب دین کامل میں کی ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ الدین الکامل کے نام سے قاہرہ سے چھپ چکا ہے۔

ایک فلسطینی نوجوان نے کویت کی دستوری تحریک کا حوالہ دیا کہ اس نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ٹررزم میں اور قبضہ کے خلاف مقاومت میں فرق کیا جائے جو کہ قوموں کا جائز حق ہے(الحرکۃ الدستوریۃ الاسلامیۃ فی الکویت طالبت بالتفریق بین الارھاب و حق الشعوب فی مقاومۃ الاحتلال

میں نے کہا کہ اس قسم کے فرق دماغوں میں ہوتے ہیں وہ عملی زندگی میں نہیں ہوتے اور جب دو فریق کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اسلام اور عقل دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت ذہنی معیار کو پس پشت ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ عملی صورت حال کے مطابق کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں۔

 میں نے کہاکہ عملی بنیاد پر مذکورہ فیصلہ کو میں درست سمجھتا ہوں، آپ اگر ذہنی معیار پر اصرار کریں گے تو آپ وہ تو نہیں پائیں گے جو آپ پانا چاہتے ہیں۔ البتہ جو کچھ آپ کو ملا ہوا ہے اس کو بھی آپ کھو دیں گے۔

عرب اخبارات و رسائل اس قسم کے عنوانات سے بھرے رہتے ہیں:

 بقاء القدس فی ید اسرائیل یعنی ان الاستعمار الصھیونی قائم ) قدس کا اسرائیل کے ہاتھ میں باقی رہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ صہیونی استعمار قائم ہے(

مدینۃ القدس الشریف تنادیکم (قدس آپ کو پکار رہا ہے)

ان العرب سیر مون اسرائیل فی البحر(عرب اسرائیل کو سمندر میں پھینک دیں گے)

القدس الشریف:بین موامرۃ التھوید وطمس ھویتھاالاسلامیۃ)قدس یہودی سازش اور اس کے اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش کے درمیان(

یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے قریب ڈیڑھ ایکڑ کے رقبہ میں ایک مسجد اور مرکز ہے۔ اس کا نام زاویۃ الفریدیةہے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر منقسم ہندستان کے ایک صوفی بابا فرید گنج شکر چار سو سال پہلے یہاں زیارت کے لیے آئے تھے۔ اس وقت فلسطین میں عثمانی ترکوں کی حکومت تھی۔ ترک گورنر نے بابا فرید کو مسجد کے دو کمرے دے دیے۔ بعد کو ہندستانی نوابوں کے تعاون سے کچھ اور عمارتیں یہاں بنائی گئیں۔

سہارن پور کے خواجہ نذیر حسن انصاری کو اس وقت کی ہندستانی حکومت نے 1922ء میں یہاں سے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھیجا تھا۔ 1953ء میں ان کی وفات ہو گئی۔ اب ان کے پوتے نذر حسن انجینئر اس وقت کے ٹرسٹی ہیں۔  انڈیا سے اس ٹرسٹ کو چھ ہزار روپے سالانہ کی امداد دی جاتی ہے۔

یروشلم کی موتمر کا دعوت نامہ مجھے مل چکا تھا کہ اس کے بعد فروری 1994ء میں میرا ایک سفر رباط (المغرب) کے لیے ہوا۔ وہاں الجزائر کے ڈاکٹر محمد السلیمانی سے ملاقات ہوئی۔ ان سے ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو یروشلم کی موتمر کا دعوت نامہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کیوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا وہاں جانا اسرائیل کی تصدیق کے ہم معنی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ میری تمنا تھی کہ میں قدس میں داخل ہو کر اللہ کے لیے سجدہ کروں جہاں پیغمبروں نے سجدہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی نیت کچھ بھی ہو مگر عملاً تو وہ اسرائیل کی تصدیق بن جائے گا۔

میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا یہ طرزِ فکر سراسر ایک غیر مسنون طرزِ فکر ہے۔ قدیم مکہ میں تقریباً وہی صورت پیش آئی جو موجودہ زمانہ میں فلسطین میں پیش آئی ہے۔ قریش نے رسول اور اصحابِ رسول پر سخت مظالم کیے، یہاں تک کہ ان کو وطن سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور پھر مکہ کے اوپر اپنا مجرمانہ اقتدار قائم کر لیا۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا کہ مکہ میں دشمنانِ اسلام کا اقتدار باقی رہتے ہوئے رسول اور اصحاب رسول نے عمرہ کے لیے مکہ کا سفر کیا۔ پہلی بار اہل مکہ نے داخل نہیں ہونے دیا تو اگلے سال دوبارہ سفر کیا اور مکہ میں داخل ہو کر کعبہ کا طواف کیا جس میں اب 360 بت رکھے ہوئے تھے اور پھر کسی احتجاج یا ٹکرائو کے بغیر مدینہ واپس گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ وہ ہوتی جو آپ حضرات کی سوچ ہے، یعنی کہ میں داخلہ کو آپ دشمن کے اعتراف کے ہم معنی سمجھتے تو آپ کبھی بھی مکہ میں داخل نہ ہوتے۔ اس واقعہ سے رسول اللہ کی ایک خاص سنت اخذ ہوتی ہے۔ اور وہ ہے دو چیزوں کو ایک دوسرے میں نہ ملانا۔ پس یہ بھی رسول اللہ کی ایک سنت ہے کہ دو مختلف چیزوں کو ایک دوسرے سے مختلط نہ کیا جائے (عدم الخلط بین الشیئین ھو سنۃ من سنن الرسول

میں نے کہا کہ آپ جیسے لوگوں کی سوچ منفی سوچ ہے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے معنوںمیں مثبت اندازمیں سوچتے تھے (طریقتکم فی التفکیر سلبیۃ والرسول کان یفکرّ بطریقۃ ایجابیۃ بکل معنی الکلمۃ

ایک زمانہ تھا کہ عرب دنیا میں الاخوان المسلمون کے سیاسی فکر کی دھوم تھی۔ مگر اب اس فکر کی سطحیت لوگوں پرواضح ہونے لگی ہے۔ چنانچہ اہل علم میں اس کے ناقدین پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک صاحب نے مصر کے دکتور عبدالصبورمر زوق (پیدائش 1925) کا قول سنایا کہ کیا یہ بے معنی نہیں ہے کہ ہم اسلامی حکومت کا مطالبہ کریں اور حال یہ ہے کہ مسلمانوں کا ہاتھ نیچے کا ہاتھ بنا ہوا ہے۔ وہ خوراک اور ہتھیار اور کپڑے اغیار سے مانگتا ہے۔ ہم ہر معاملہ میں دوسروں کے محتاج ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اپنی گاڑیاں ہمیں نہ دیں اور ہم دوبارہ گدھے اور خچر کی سواری کی طرف لوٹ جائیں :

ا لیس من العبث ان نطالب بدولۃ اسلامیۃ و ید المسلمین السفلیٰ تطلب من غیرھا الطعام و السلاح والملابس و نظل عالۃ علی غیر ناولو شاءو احبسوا عناالسیارات مثلا ورجعناللبغال والحمیر۔

میں نے کہا کہ یہ درست ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان علم سے لے کر کردار تک ایک پچھڑی ہوئی قوم بن چکے ہیں۔ مفت کے پٹرو ڈالر سے حاصل کی ہوئی ظاہری چمک دمک کو ہٹا دیجیے تو اندر سے وہ ہر اعتبار سے کھوکھلے نظر آئیں گے۔ ایسی حالت میں حکومت اور خلافت کی باتیں کرنا وقت کا ضیاع ہے، نہ کہ کوئی حقیقی کام۔

ایک سنجیدہ قسم کے عرب عالم سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے موجودہ زمانہ کے مسلم رہنمائوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا:ھم یَحُلّون العقدۃ بطریقۃٍ تجعل العقدۃ الواحدۃ عُقدَتَین (وہ گِرہ کو اس طرح کھولنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک گِرہ کو دو گِرہ بنا دیتی ہے)۔

میں نے کہا کہ یہی بات برصغیر ہند کے تمام مسلم رہنمائوں پر صادق آتی ہے۔ ہر ملّی گِرہ جس کو کھولنے کے نام پر وہ اٹھے اس نے ایک گِرہ کو کئی گِرہ بنا دیا۔ تقسیم کی تحریک، شاہ بانو تحریک، بابری مسجد تحریک، اس کی قریبی مثالیں ہیں۔

یروشلم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے روم سے بار بار ٹیلی فون آئے۔ میں وہاں جانے کے لیے صرف اس لیے تیار ہوا تھا کہ اس طرح مجھ کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا موقع ملے گا۔ تاہم ایک خدشہ بھی لگا ہوا تھا۔ عرب اخبارات مسلسل اس کی جو تصویر پیش کر رہے تھے، اس سے میں نے سمجھا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے چاروں طرف اسرائیل کی بہت بڑی فوج کھڑی ہوئی ہو گی اور عین ممکن ہے کہ وہ مجھے داخل ہونے کی اجازت ہی نہ دیں اور میں نامراد ہو کر وہاں سے لوٹ آوں۔

عرب اخبارات نے اس معاملہ میں اتنا غلو کیا ہے کہ انہوں نے فرضی تصویریں چھاپ کر پورے معاملہ کو غلط رنگ میں پیش کیا (اس کی کچھ تفصیل اِس سفرنامہ میں موجود ہے) ۔

جہاں تک میں نے سمجھا ہے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی دشمنی اصلاًسیاسی دشمنی ہے، نہ کہ دینی دشمنی۔ مگر فلسطینیوں نے اور عربوں نے انتقامی جذبہ کے تحت دونوں میں فرق نہیں کیا۔ انہوں نے اسرائیل کو اپنا سیاسی دشمن بتانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا شروع کیا کہ وہ مذہبی اعتبار سے خود اسلام کا دشمن ہے۔ ان حضرات کے یہ بیانات قرآن کے اس حکم کے خلاف ہیں کہ دشمنی کے وقت بھی انصاف کی روش پر قائم رہو (المائدہ، 5:8)۔

یروشلم کی کانفرنس میں شرکت پر مجھ کو کئی سخت تبصرے سننے پڑے۔ ایک صاحب نے کہا— آپ بھی آ خرکاریہودی سازش کا شکار ہو گئے:

You too at last fell victim to Zionist Conspiracy.

میں نے کہا کہ آپ لوگ کتنی آسانی سے اس طرح کے جملے کسی کے بارے میں بول دیتے ہیں۔ حالاں کہ وہ اسلام میں جائز ہی نہیں۔ اس طرح کے تبصرے محض ظن و قیاس ہیں نہ کہ دلیل۔ ظن کی بنیاد پر آپ کسی کے بارے میں اچھی رائے تو ظاہر کر سکتے ہیں، مگر ظن کی بنیاد پر بری رائے ظاہر کرنا یقینی طور پر حرام ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کے بارے میں اس طرح کا جملہ نہیں کہا۔

عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم دانشوروں پر یہودی سازش کا تصور اس طرح غالب ہے کہ وہ ہر واقعہ میں یہودی سازش کو کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ موجودہ صدی کے آغاز میں ترکی کی عثمانی خلافت یہودیوں کی سازش سے ختم ہوئی۔ اقبال کا شعر ہے:

چاک کر دی ترک نادان نے خلافت کی قبا

سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

حیرت ہے کہ یہ بات وہ لوگ بھی کہتے ہیں جو حکمتِ قرآن (Quranic Wisdom) کے علمبردار ہیں۔ حالاں کہ یہ بات قرآن کی تردید کے ہم معنی ہے۔ قرآن میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ اگر تم تقویٰ اور صبر کرو تو دشمنوں کی سازش تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گی (آل عمران، 3:120) ۔ اس قرآنی ارشاد کی روشنی میں ہمیں ملّی مصائب کے بارے میں کہنا چاہیے کہ وہ ہمارے اندر تقویٰ اور صبر کے فقدان کا نتیجہ تھانہ کہ حقیقتاً کسی کے سازشی منصوبہ کا نتیجہ۔

ایک عرب عالم سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ مسلمان کیوں ایسا کر رہے ہیں کہ ہر جگہ حکومتوں سے متشددانہ ٹکرائو کر کے اپنے آپ کو مروا رہے ہیں۔ اس قسم کی ہلاکت خیز پالیسی نہ توعقل کے مطابق ہے اور نہ اسلام کے مطابق۔

انہوں نے کہاکہ جب اہل حق سے ان کا حق چھینا جائے گا تو لازم ہے کہ وہ اس کو واپس حاصل کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ لوگ جب ہر قسم کا علاج کر چکے ہوتے ہیں تو آخر میں وہ داغنے والے طریقِ علاج کو استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک غیر پسندیدہ علاج ہے۔ ہم نے موجودہ طریقہ کو اسی وقت اختیار کیا جب کہ ہم مجبور ہو گئے۔ مشکل کو وہی اختیار کرتا ہے جو مضطر ہو:

اذا سُلبَ اھل الحق حقہم فلا بد ان یستعیدوہ ۔ و اذا اضطر الناس الی استنفاد کل وسائل العلاج فاِن آخر العلاج الکی، ولو انہ علاج غیر مستحب۔ ولن نلجأ الیہ  اِلا اِذا اضطررنا، فلایرکب الصعب  اِلاالمضطر۔

میں نے کہا کہ موجودہ حالت میں تشدد کا طریقہ علاج نہیں ہے بلکہ وہ خودکشی ہے اور عملاً آج یہی ہو رہا ہے۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیاکہ پھر یہ مسلمان کیاکریں۔ میں نے کہا کہ انہیں دو میں سے ایک کام کرنا چاہیے۔ یا تو وہ سیاسی اقتدار کے مسئلہ کو علیٰ حالہ چھوڑ کر دوسرے غیر سیاسی میدانوں میں تعمیر و ترقی کی جدوجہد کریں جس کا میدان ہر ملک میں پوری طرح موجود ہے۔

اور اگر بالفرض وہ سیاسی جدوجہد ہی کو ضروری سمجھتے ہیں تو بم اور گن سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے خالص پُرامن انداز میں اپنی تحریک چلائیں۔ جیسے انڈیا میں مہاتما گاندھی نے اور سائوتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے کیا۔ مسلمان پُرتشدد جدوجہد کا طریقہ چھوڑ کر پُرامن جدوجہد کا طریقہ اختیار کر لیں۔ میں نے کہاکہ موجودہ مسلمانوں کا کیس اضطرار کا کیس نہیں ہے، وہ غلط چوائس لینے کا کیس ہے۔ ان کے لیے ایسر کو اختیار کرنے کا موقع پوری طرح موجود تھا۔ مگر انہوں نے ناقابل فہم نادانی کے تحت اعسر کو اپنے لیے اختیار کر لیا۔ حالانکہ وہ واضح طور پر سنّتِ رسول کے خلاف ہے۔

اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہ جہاں کو 1658ء میں گرفتار کر لیا اور آگرہ کے قلعہ میں اس کو قید کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار شاہ جہاں نے پریشانی کا خط لکھ کر اورنگ زیب کے پاس بھجوایا۔ اورنگ زیب نے اس کے جواب میں فارسی کا ایک مصرعہ لکھ کر بھیج دیا— زخمی چڑیا جب جال میں پھنس جائے تو اس کو برداشت سے کام لینا چاہیے:

مرغ بسمل چوں بہ دام افتد تحمل بایدش

اس کا مطلب، دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ حقیقت پسندی سے کام لیجیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کا معاملہ جو اتنا زیادہ بگڑ گیا اس کا سبب یہی تھا کہ اس معاملہ میں مسلم رہنمائوں نے حقیقت پسندی سے کام نہیں لیا۔ حسن البنا سے لے کر یاسر عرفات تک بلااستثنا ہر عالم اور ہر قائد اس معاملہ میں غیر حقیقت پسندانہ رہنمائی دیتا رہا۔ یہاں تک کہ مسلمان ذلّت اور تباہی کی آخری حد پر پہنچ گئے۔

1948ء میں اقوام متحدہ نے جو تقسیم کی تھی اس میں فلسطین کا نصف سے زیادہ حصہ عربوں کے پاس تھا۔ اسی کے ساتھ پورا یروشلم بھی انہیں حاصل تھا۔ مگر مسلم قیادت نے پرجوش طور پر اس تقسیم کو نامنظور کر دیا۔ اس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان لامتناہی جنگ چھڑ گئی جس کا سارا فائدہ یہودیوں کو ملا اور سارا نقصان مسلمانوں کے حصہ میں آیا۔

اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جاتا تو کرنے کا کام یہ تھاکہ فلسطین کے ملے ہوئے حصہ میں عربوں کی حکومت قائم کی جائے اور اس کے یہودی حصہ میں مسلمان سیکولر شہری بن کر اسی طرح تعمیر و ترقی کے کام میں سرگرم ہو جائیں جس طرح لاکھوں عرب آج بھی غیر مسلم ملکوں میں تعمیر و ترقی کے عمل میں مصروف ہیں۔

ایک وقت تھا کہ مصر کے فوجی صدر جمال عبدالناصر اور دوسرے لوگ یہ کہتے تھے کہ عرب اسرائیل کو سمندر میں پھینک دیں گے(ان العرب سیرمون اسرائیل فی البحر)۔لیبیا کے کرنل معمر القذافی اتنے جوش میں تھے کہ انہوں نے اپنے ساتھی مسٹر جلود کو یہ کہہ کر اسپیشل جہاز سے چین بھیج دیا کہ وہاں سے ایٹم بم خرید کر لائو تاکہ اس کو اسرائیل کے اوپر گرا کر ہمیشہ کے لیے اس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یاسر عرفات اور دوسرے تمام لیڈر اسی قسم کی پرجوش بولی بول رہے تھے۔

مگر آج صورت بدل چکی ہے۔ یاسر عرفات پچھلی سیٹ پر چلے گئے۔ یہاں لیبیا سے قریبی واقفیت رکھنے والے ایک صاحب نے کہا کہ کل کے معمر قذافی کے مقابلہ میں آج کے قذافی مکمل طور پر بدل چکے ہیں (القذافی الیوم یختلف تماماً عن قذافی الامس)۔

یہ بات خود قذافی کی طرف سے پریس میں آ چکی ہے۔ المجلہ کے نمائندے عبدالرحمٰن الراشد اور عبداللطیف المناوی نے لیبیا جا کر معمر قذافی کا ایک انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں قذافی نے کہا کہ پہلے ہم آزادیٔ فلسطین کے بارے میں جنگ کی باتیں کیا کرتے تھے لیکن انقلابات کی صورت حال نے ثابت کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں۔ جس چیز کو بدلنا ہے وہ خود ہمارا طریق کار ہے۔ (یعنی بات چیت کا طریقہ)۔ جہاں تک جنگِ فلسطین کا معاملہ ہے تو اس سلسلہ میں جنوبی افریقہ کو دیکھئے۔ جہاں جنگ کے بغیر اسی نوعیت کا مسئلہ حل کر لیا گیا۔ آزادیٔ فلسطین کے لیے بھی ضروری نہیں کہ ہم جنگ چھیڑیں ۔ اگر فلسطینی لوگ اپنی سرزمین میں واپس آ جائیں اور ان کی 5 یا 6 ملین تعداد یہودیوں کے ساتھ ایک جمہوری نظام حکومت میں شرکت پر راضی ہو جائے تو آخرکار ان کا مسئلہ مکمل طور پر حل ہو جائے گا (الرسالہ مئی 1995) ۔

اس سے پہلے قذافی مسلح جدوجہد کے زبردست حامی تھے ۔حتیٰ کہ انہوں نے اپنی قوم کو یہ گانا سکھایا کہ اِحنا شرَّابون دم۔مگر ہلاکت خیز تجربے کے بعد اب نہ صرف قذافی بلکہ فلسطین کے یاسر عرفات سے لے کر فلپائن کے نور مسواری تک ہرایک مسلح جدوجہد کی بولی چھوڑ کر پرامن جدوجہد کی بولی بول رہا ہے۔

زیادہ اہم مسئلہ

ریحاوم زیوی (Rehavam Zeevi) اسرائیل کی فوج میں ایک آرمی جنرل تھے۔ ان کی عمر اب 63 سال ہے۔ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ پالیٹکس میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس وقت وہ اسرائیل کی پارلیمنٹ (Knesset) کے ممبر ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اسرائیل میں پروٹرانسفر (protransfer) کہا جاتا ہے۔ یعنی اس نظریہ کے حامی کہ عربوں کو فلسطین سے نکال کر انہیں دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے۔

 امریکی میگزین نیوز ویک (News Week) کے نمائندہ اسٹینگر (Theodor Stanger) نے ان سے اسرائیلی پارلیمنٹ کے دفتر میں ملاقات کر کے ان کا انٹرویو لیا۔ایک سوال و جواب یہ تھا:

س:     کیا آپ فلسطین کے ساتھ امن چاہتے ہیں؟

ج:     فلسطینی لوگوں کے لیے واحد حل یہودیوں سے علیحدگی ہے۔ ہر قوم اپنے باپ دادا کی زمین کی طرف لوٹنے کاحق رکھتی ہے۔ ہم یہودی اپنے باپ دادا کی زمین کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ فلسطینیوں کے باپ دادا یہاں سعودی عرب، سوڈان اور لیبیا سے آئے تھے (اس لیے وہ دوبارہ وہاں لوٹ جائیں) ۔

س:   کیا آپ دس لاکھ سے اوپران فلسطینیوں کو زبردستی بسوں اور ٹرکوں میں بھریں گے اور انہیں لے جا کر باہرڈال دیں گے؟

ج:     مسٹر زیوی نے جواب دیا کہ نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عرب ممالک انہیں اپنے یہاں بلا لیں یا فلسطینی خود ایسا کریں کہ وہ ڈیڑھ لاکھ، دو لاکھ سالانہ کی تعداد میں یہاں سے جانا شروع کریں۔ چند سال کے بعد یہاں کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔

In a few years, there would be no problem. (News Week, 12 Nov 1990, p. 56)

یہ ایک انتہا پسند یہودی کی بات ہے۔ اس طرح کے انتہا پسند افراد ہر قوم میں ہوتے ہیں۔ نہ صرف دوسری قوموں میں بلکہ خود مسلمانوں میں بھی ایسے انتہا پسند افراد مل سکتے ہیں۔ مگر ایسے انتہا پسند افراد کبھی کسی قوم میں قبولِ عام حاصل نہیں کرتے ۔ ان کے لیے صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ چند سال تک اس قسم کے سخت الفاظ بولیں اور اس کے بعد مر کر تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو جائیں۔

کتّے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتارہتا ہے — یہ مثل ایسے ہی مسائل کے لیے بنائی گئی ہے اور بلاشبہ ایسے مسائل کا اس سے بہتر کوئی حل نہیں۔

1978ء کے اواخر میں مصر کے مقتول صدر انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے پیش قدمی کی۔ جس کے نتیجہ میں بالآخر فریقین نے اس معاہدہ پر دستخط کیے جو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس سلسلہ میں مصر اور اسرائیل کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کی سرپرستی سابق امریکی صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے کی تھی۔ نیز انہیں کے حسب منشاء معاہدہ کا آخری مسودہ تیار کیا گیا، جس کا پورا نام یہ تھا:

A Framework for Peace in the Middle East Agreed at Camp David

اس معاہدہ کی دفعہ نمبر 2 کی شق (C) مغربی کنارہ اورغازہ پٹی میں فلسطینیوں کی حکومتِ خوداختیاری (Self-governing authority) کے بارے میں تھی، مگر اس کی عبارت نہایت مبہم اور بالواسطہ انداز میں (باسلوبِ غامضٍ و غیر مباشرٍ) لکھی گئی تھی۔ اس وقت محمد ابراہیم کامل مصر کے وزیر خارجہ تھے۔ اسی کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران وہ سادات کے خصوصی ایڈوائزر بھی تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اس پہلو پر توجہ دلاتے ہوئے سادات سے کہاکہ معاہدہ میں یہ بات بالکل واضح اور براہِ راست الفاظ میں درج ہونی چاہیے کہ فلسطینی مقررہ حدود کے اندر اپنی آزاد اور خودمختار حکومت کی تشکیل کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں سادات نے کہاکہ خود مجھے اس کا احساس ہے اور اس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے میں نے جمی کارٹر سے بات چیت بھی کی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ اسے یوں ہی رہنے دیا جائے کیونکہ اس کو بدلنے کی صورت میں مجھے اس کی قیمت اپنی کرسیٔ صدارت سے ادا کرنی پڑے گی:

'It would cost me my chair.'

السلام الصنائع في اتفاقيات كامب ديفير – محمد إبراهيم كامل وزير خارجية مصر الأسبق – مطبوعات ادارة الشرق الاوسط، صفحہ 603

آج انسان کھلے طور پر ایک حق کا اعتراف اس لیے نہیں کرتا کہ اس کے نتیجہ میں وہ دنیاکے وقتی اور محدود اقتدار کی کرسی سے محروم ہو جائے گا۔ حالاں کہ مرنے کے بعد جب انسان یہ دیکھے گا کہ مقتدرِ اعلیٰ کے دربار میں سچائی کی کرسی (مقعد صدقٍ) پر صرف وہی لوگ بٹھائے گئے ہیں، جنہوں نے دنیا میں اعلانِ حق کی خاطر اپنی ’’کرسی‘‘ کھو دی تھی۔ تو وہاں وہ اپنی کرسی اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جائے گا۔ مگر اس وقت اس کے حصہ میں حسرت و افسوس کے سوا کچھ نہیں آئے گا کیوں کہ آخرت کی کامیابی کے لیے وہی قربانی مطلوب ہے جو دنیا میں پیش کی گئی ہو۔ آخرت کے لیے آخرت میں قربانی کی پیش کش خود اپنے خلاف حجت قائم کرنا ہے۔ یہ انسان کو عذاب کا مستحق بناتا ہے، نہ کہ انعام و اکرام کا۔

ایک عرب اسکالر نے گفتگو کے دوران بتایا کہ مختلف ملکوں کے بارے میں عالمی سطح پر جو تازہ اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، ان میں تمام عرب ممالک کو بلااستثناء علمی اعتبار سے فاقہ زدہ (الدُّوَل الجائعۃ علمیّاً) قرار  دیا گیا ہے۔جب کہ ان کے مقابلہ میں اسرائیل کو جدید ٹکنالوجی کا حریص ملک (دولۃ نَھمۃ تکنولوجیّاً)بتایا گیا ہے۔ یہی فرق ایک لفظ میں عربوں کی ہر محاذ پر مسلسل شکست کا واحد سبب ہے۔ قدیم زمانے میں کہا جاتا تھا— جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آج ’’لاٹھی‘‘ کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانہ میں ’’بھینس‘‘ پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ اسی کا ہوتا ہے جس کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت ہے۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ میں سائنس کو طاقت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایسی حالت میں سائنس میں پسماندہ قوم کا برتر قوم سے جنگ کرنا صرف خودکشی ہے نہ کہ جہاد فی سبیل اللہ۔

ایک یہودی سے گفتگو ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور عرب زبان اچھی جانتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ پورے علاقہ پر اسرائیلی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں مدینہ اور خیبر بھی شامل ہے۔ اس نے کہا کہ یہ اسرائیل کی کوئی قومی پالیسی نہیں۔ کچھ یہودی انفرادی طور پر اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔

پھر اس نے کہا کہ بالفرض یہودی کا ایسا ہی خیال ہو تب بھی آپ لوگ اس کو اتنا  زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں۔ ہم کو دیکھیے۔ ہم جانتے ہیں کہ الاخوان المسلمون کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا نشانہ ساری دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا ہے (ھدف الاخوان ھو اقامۃ دولۃ الاسلام العالميۃ)۔ اس کے مطابق، نہ صرف اسرائیل کو اسلامی حکومت کا جزیہ گزار بننا ہے بلکہ ہم دنیا کے جس حصہ میں بھی ہوں ہر جگہ ہمیں اسلامی حکومت کا ماتحت بننا پڑے گا۔ مگر ہمیں اس قسم کی باتوں پر کوئی پریشانی نہیں۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے پریشان نہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ الاخوان المسلمون مصر میں 1928ء میں قائم ہوئی۔ اس طرح اس کے قیام کو تقریباً ستر سال ہو رہے ہیں۔ ستر سال کے عرصہ میں وہ خود اپنے ملک مصر میں بھی اپنے تصور کی اسلامی حکومت قائم نہ کر سکی۔ پھر اس رفتار سے پوری دنیا کو اسلام کا سیاسی ماتحت بنانے کے لیے تو سات ہزار سال بھی ناکافی ہیں۔ ایسی حالت میں ہم ابھی سے اس کے لیے کیوں پریشان ہوں۔

قرآن میں واقعہ اسراء کے ذکر کے تحت ارشاد ہوا ہے:سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا (17:1)۔ یعنی پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔

  اس آیت میں ا یک سوال یہ ہے کہ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا (تاکہ رسول کو ہم اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں) سے کیا مراد ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کو بَارَكْنَاسے جوڑا ہے ۔ یعنی قدس کے آس پاس کی برکتیں دکھائیں۔ لیکن زیادہ صحیح رائے ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس کو  أَسْرَى سے جوڑا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد آپ کو ایک رات میں  مکہ سے مسجد اقصیٰ لے جانا ہے جو ایک مہینہ کی مسافت پر واقع ہے (وَإِسْرَاؤُهُ ‌مِنْ ‌مَكَّةَ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى فِي لَيْلَةٍ وَهُوَ مَسِيرَةُ شَهْرٍ)۔تفسیرالقرطبی، جلد 10، صفحہ212۔

میں نے ایک صاحب سے کہا کہ اِس آیت میں ایک اہم سبق تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم دانش وروں نے اور مسلم علماء نے نہ اس کو سمجھا اور نہ وہ اس کو استعمال کر سکے۔

یہ اسراء دراصل فطرت کے اس عظیم امکان کو دکھانا تھا جس کو ہم تیز رفتار کمیونی کیشن کہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس نئے دور کے سرے پر پیدا کیے گئے۔ اس لیے آپ کو مخصوص اہتمام کے تحت اس فطری طاقت کو پیشگی طور پر دکھا دیا گیا تاکہ آپ کی امت اس  سے آشنا ہو جائے اور جب یہ امکان اپنی پوری شکل میں ظاہر ہو تو اس کو دین کی خدمت میں استعمال کر سکے۔

مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنمائوں اور مسلم دانش وروں نے قدس کے سیاسی پہلو کو دیکھا، مگر اس سے وابستہ وسیع تر اور عظیم تر پہلو (جدید کمیونی کیشن) کی حقیقت کو وہ سمجھ نہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست کی چٹان سے تو وہ نصف صدی سے ٹکرا رہے ہیں مگر کمیونی کیشن کی جدید طاقت کو دین حق کے لیے استعمال کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو سکا۔

پاکستان کے لوگ پاکستان کو ملک خداداد کہتے ہیں۔ مثلاً لاہور کے ایک اسلامی ماہنامہ (اپریل 1996ء) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قیام اللہ کی ایک آیت اور معجزہ ہے۔ اس کی پشت پر اکابرینِ ملّت کی چار سو برس کی کوششیں ہیں۔ پاکستان خدائی تدبیرکے تحت وجود میں آیا۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ پاکستان جو اسلام کے لیے بنا تھا وہ اسلام کو چھوڑ کر سیکولرزم کی طرف بگٹُٹ رواں دواں ہے۔ اسی رسالہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان مکمل طور پر یہودی نرغہ میں ہے۔ یہودی سازشوں نے اس کا رخ اسلام کے بجائے سیکولرزم کی طرف کر دیا ہے۔ حالاں کہ اس کے بعد پاکستان کے علیحدہ ملکی وجود کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا۔

یہ رسالہ قرآنک وزڈم کا علم بردار ہے۔ مگر مذکورہ بات کا قرآنک وزڈم سے کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں تو یہ تصور دیا گیا ہے کہ خدا کی تدبیر ہر مخالف تدبیر پر بالا ثابت ہوتی ہے— وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (3:54)۔  اور انھوں نے خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

مگر پاکستان کے قرآنی دانشور یہ خبر دے رہے ہیں کہ پاکستان میں نعوذ باللہ خدائی تدبیر پر یہودی تدبیر غالب آ گئی ۔

کہنے والے ایسی عجیب بات کیوں کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا سبب خود تشکیلِ پاکستان میں ہو سکتا ہے اور جب آدمی ایک غلطی کو نہ مانے تو اپنی غلطی کو درست کرنے کے لیے وہ مزید ایسی غلطیاں کرتا ہے جو پہلے سے بھی زیادہ غیر معقول ہوتی ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کی قبر یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے قریب ہے۔ مولانا محمد علی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ بیمار تھے۔ چنانچہ لندن کے ایک ہوٹل میں 4 جنوری 1931ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ہالی ڈے پارک (محمد علی پارک) میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پھر سمندری جہاز کے ذریعے ان کی میت لندن سے یروشلم لائی گئی جو کہ ایک تابوت میں بند تھی۔ جب ان کی میت پورٹ سعید پہنچی تو مصر کے وزیر اعظم آئے اور میت کو مسجد عباس میں لے گئے۔ وہاں دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ شہزادہ محمد علی نے غلافِ کعبہ کا ایک ٹکڑا تابوت پر رکھا۔ اس کے بعد جب میت یروشلم پہنچی تو جنازہ میں تقریباً دو لاکھ آدمی شریک تھے۔ مفتی اعظم آگے آگے چل رہے تھے۔ مسجد اقصیٰ پہنچ کر جنازہ کی آخری نماز ادا کی گئی۔ مولانا محمد علی کی سوانح عمری میں یہ الفاظ درج ہیں ’’اولین قبلۂ اسلام کا سینہ پھٹ گیا اور وہ اس میں سما گیا۔ ان کے جسد خاکی کی آخری آرام گاہ وہ ارض قدس ہوئی جس کو قرآن نے الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ کہا ہے۔ ‘‘ اس تدفین پر اقبال نے کہا :

سوے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گذشت

قرآن میں ہے کہ لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ (21:10)۔یعنی، ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہارا ذکر ہے۔ اس کی تشریح سہل بن عبداللہ نے یہ کی ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر قرآن اتارا۔ اس میں وہ عمل بتایا گیا ہے جس میں تمہارے لیے زندگی ہے (الْعَمَلُ بِمَا فِيهِ حَيَاتُكُمْ)۔ تفسیرالقرطبی، جلد 11، صفحہ273۔

ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اس آیت کے مطابق یقیناً فلسطین کے مسئلہ کا حل بھی قرآن میں مذکور ہونا چاہیے۔ پھر میں نے کہا کہ اس معاملہ میں واضح رہنمائی قرآن میں موجود ہے، اور وہ یہ آیت ہے:إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( 3:140)۔یعنی، اگر تم کو کوئی زخم پہنچے تو دشمن کو بھی ویسا ہی زخم پہنچا ہے، اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں۔

اس آیت میں اسلامی تاریخ کے اس واقعہ کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اور اصحابِ رسول کو بدر کے دن مشرکوں کے اوپر غالب کیا۔ اس کے بعد احد کے دن اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان کے اوپر غلبہ دے دیا (اظھرﷲ عزوجل نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ علی المشرکین یوم بدر و اظھر علیھم عدوھم یوم احد) تفسیر الطبری، جلد 4، صفحہ105۔

اس وقت مسلمانوں میں غم اور مایوسی کے جذبات پیدا ہوئے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ آخرت کی نعمتیں تو صرف اہل ایمان کے لیے ہیں۔ مگر دنیا کانظام امتحان اور آزمائش کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ اس لیے یہاں غلبہ اور مغلوبیت کا تجربہ باری باری ہر ایک کو کرایا جائے گا، تاکہ ہر ایک کی ہر پہلو سے آزمائش ہو سکے — وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا (3:140)۔ یعنی اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جان لے۔

یہی بات ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں کہی ہے — دانش مند چڑیا جب جال میں پھنس جائے تو اس کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے:

مرغ زیرک چوں بدام افتد تحمل بایدش

تحمل کا مطلب سپراندازی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جذباتی ردعمل سے بچ کر صابرانہ منصوبہ بندی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

موجودہ زمانہ میں تمام مسلم دانشور اور رہنما فلسطین کی بازیابی کے مسئلہ کو ملت مسلمہ کا مسئلہ نمبر ایک بتاتے ہیں۔ مگر عین اسی وقت تمام دنیا کے مسلمان باہمی لڑائیوں میں اپنی بہترین طاقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس میں متشددانہ جنگ اور غیر متشددانہ جنگ دونوں شامل ہیں۔ مزید ستم یہ ہے کہ ہر ایک اپنے کو خادمِ دین اور مجاہدِ اسلام سمجھ رہا ہے۔

ایران اور عراق دونوں مسلسل فلسطین کے خلاف پرشور بیان دیتے رہتے ہیں۔ مگر دونوں آٹھ سال (1980-1988ء) تک خوں ریز قسم کی باہمی لڑائی لڑتے رہے۔ اس جنگ کے زمانہ کے ایرانی لیڈر آیت اللہ خمینی کے حامی کہا کرتے تھے کہ قدس کا راستہ بغداد ہو کر جاتا ہے (الطریق الی القدس یمرُّ ببغداد)۔عین اسی وقت عراقی لیڈر صدام حسین کے حامی بلند بانگ طور پر یہ کہتے تھے کہ قدس کا راستہ تہران ہو کر جاتا ہے (الطریق الیٰ القدس یمُّر بطھران)۔ دوبارہ صدام حسین نے 1990ء میں کویت پر فوج کشی کر دی۔ اب صدام حسین کے حامی یہ کہنے لگے کہ قدس کا راستہ کویت ہو کر جاتا ہے(الطریق الی القدس یمرّ بالکویت

اس قسم کے الفاظ فلسطین کے مسئلہ سے دلچسپی کا ثبوت نہیں ہیں، بلکہ صرف مسلم رہنمائوں کی استحصالی ذہنیت کا ثبوت ہیں۔ یہ صرف ان کے جرم میں اضافہ کرتے ہیں، وہ ان کو کسی انعام کا مستحق نہیں بناتے۔

31 اگست 1995ء کی شام کو واپسی ہوئی۔ یروشلم سے تل ابیب تک کا راستہ بذریعہ کار طے ہوا۔ تل ابیب سے ال آل کی فلائٹ 81 کے ذریعہ روانگی ہوئی۔

تل ابیب پہنچ کر پہلے ہم لوگ شہرمیں گئے۔ میں چاہتا تھا کہ تل ابیب پر ایک طائرانہ نظر ڈال لوں۔ یہ ایک ماڈرن شہر ہے۔ یہ میڈیٹرینن کے کنارے واقع ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا شہری مرکز ہے۔ یہ ایک قدیم بستی کو ترقی دے کر 1950ء میں بسایا گیا ہے۔ تل ابیب اور حیفہ اور یروشلم میں اسرائیلی آبادی کا تقریباً 55 فیصد حصہ رہتا ہے۔

ال آل کی ایئرہاسٹس اخبارات لے آئی۔ یہ انگریزی اور عبرانی کے اخبارات تھے۔ میرے قریب بیٹھے ہوئے اسرائیلی تاجر نے عبرانی اخبار لیا۔ اس تقریب سے ان سے عبرانی زبان کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیل میں سب سے بڑا عبرانی اخبار ایودت(Y`edio) ہے۔ اس کے معنی ہیں تازہ خبریں۔ اس کے بعد نمبر 2کا اخبار ماریو (Maariv) ہے۔ عبرانی زبان دائیں سے بائیں کی طرف لکھی جاتی ہے۔ اس کے طرزِ تحریر کا ایک نمونہ یہ ہے

مذکورہ تاجر سے میں نے پوچھا کہ عبرانی تو ایک مردہ زبان تھی۔ پھر اتنی کم مدت میں وہ اسرائیل کی ایک زندہ قومی زبان کس طرح بن گئی۔ اس نے کہا کہ عبرانی اگرچہ ہمارے یہاں عام استعمال میں نہیں تھی۔ مگر عام طور پر لوگ عبرانی کو سمجھتے تھے۔ کیوں کہ دعا اور عبادت میں وہ اس کو روزانہ استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ جب اس کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو آسانی سے عبرانی زبان قومی زبان کے طور پر رائج ہو گئی اور یہ صرف ایک شخص کی کوششوں سے ہوا۔

پاکستان میں کچھ رہنمائوں نے چاہا کہ عربی زبان وہاں کی قومی زبان بن جائے ۔ مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ حالاں کہ پاکستان میں بھی تمام مسلمان عربی کو دعا اور عبادت کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ یہودیوں کو صرف عبرانی کے الفاظ نہیں رٹائے جاتے تھے بلکہ اس کا مطلب بھی انہیں پڑھایا گیا تھا۔ پاکستان کے مسلمانوں کو صرف عربی کے الفاظ یاد کرائے گئے تھے، اس کے مفہوم سے وہ ناآشنا تھے۔

دوران پرواز اسرائیلی ایئر لائنز (EI  AI)کا میگزین بابت جولائی- اگست 1995ء دیکھا۔ اس میں کثرت سے مکانات کے اشتہار تھے۔ مختلف کمپنیوں کے بنائے ہوئے مکانات کی خوب صورت تصویریں اور ان کے نیچے اس طرح کے خوش کن الفاظ لکھے ہوئے تھے:

Your dream home in Israel

یا یہ کہ اس خوبصورت کامپلکس میں اپنے لیے ایک اپارٹمنٹ حاصل کیجیے اور دنیا کی جنت میں رہنے کا لطف اٹھائیے۔ میں نے ایک اسرائیلی مسافر کو یہ اشتہارات دکھا کر اس کا تاثر پوچھا۔ اس نے کہا کہ ہم نے خوبصورت قسم کے رہائشی مکانات تو ضرور بنا لیے ہیں، مگر ایک نامعلوم خوف ہر یہودی کے دماغ میں ہوتا ہے کہ کیا معلوم، کب کہاں ایک بم پھٹ جائے۔

میں نے سوچا کہ موجودہ دنیا میں پرمسرت زندگی ممکن ہی نہیں۔ یہاں ہر حال میں کوئی نہ کوئی حزن لگا رہتا ہے۔ اس لیے حقیقی معنوں میں پرمسرت زندگی صرف آخرت کی جنت ہی میں ممکن ہے جہاں خدا اپنی برتر طاقت سے حزن کو حذف کر دے گا — أَذْهَبَ عَنَّا ٱلْحَزَنَ ( 35:34)۔

بمبئی ایئر پورٹ پر مسز سوزن جیکب (Ms Susan Jacob) نے پریشان کیاتھا۔ اس کے بعد اسرائیلی کمپنی کا ایک نوجوان آیا۔ اس نے اپنا نام نیویل مستری (Naville Mistry) بتایا۔ اس نے مزید بتایا کہ اس کا باپ پارسی ہے اور اس کی ماں کیتھولک عیسائی ہے، ماں کے اثر سے لڑکا بھی عیسائی ہو گیا ہے۔ اس نوجوان نے ایئر پورٹ پر میری رہنمائی کی۔ اس نے میرا بیگ اصرار کر کے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مجھ کو آخری گیٹ تک پہنچایا۔

سفر سے واپسی کے بعد مولانا انیس لقمان ندوی کا خط (8 جولائی 1996ء) ملا۔ وہ آج کل ابوظہبی میں مقیم ہیں۔ یہ خط فلسطین کے مسئلہ سے متعلق ہے، اس لیے اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے

ابوظہبی میں قیام کے دوران پچھلے چھ مہینوں میں سو سے زیادہ عربوں سے ملاقات ہوئی۔ جن میں مقامی باشندوں کے علاوہ مصر، فلسطین، شام اور دیگر ملکوں سے آئے ہوئے (وافدین) بھی شامل ہیں۔ ان کے ساتھ جن موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی ان میں مسئلہ فلسطین سرِفہرست ہے۔ جس شخص نے بھی عربی جرائد و مجلات اور عالم عرب میں چھپنے والی جدید کتابوں کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ فلسطین پر یہود کا قبضہ عرب دنیا کا واحد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

اب تک میرا احساس یہ تھا کہ قبلۂ اول (بیت المقدس) کو اسلام میں جو مقام حاصل ہے اس نے فلسطین کو اتنا زیادہ اہم اور سنگین مسئلہ بنا دیا ہے۔ بلکہ فلسطین کے مسئلہ پر بولنے اور لکھنے والا ہر شخص خواہ وہ عرب ہو یا غیر عرب عام طور پر یہی سمجھتا ہے کہ آزادیٔ فلسطین کے لیے عربوں کے مجاہدانہ جوش و خروش کا اصل محرک دینی اور اسلامی ہے۔ مگر عربوں کے ساتھ رہنے اور قریب سے ان کی نفسیات اور مزاج کا تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ’’جہاد فلسطین‘‘ کا حقیقی محرک دینی حمیت یا اسلامی غیرت سے زیادہ عربوں کی قومی نخوت اور نسلی تفاخر ہے۔

مسئلۂ فلسطین غالباً واحد مسئلہ ہے جس کے بارے میں عرب دنیا کا تقریباً ہر شخص حساس ہے۔ بلکہ یہی ایک معاملہ ایسا ہے جس میں وہاں کا سیکولر اور اسلام پسند طبقہ دونوں ایک دوسرے کا ہمنوا ہے۔ حالاں کہ دوسرے تمام معاملات میں ان کا حال یہ ہے کہ پہلا گروہ دوسرے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا الزام دیتا ہے تو دوسرا گروہ پہلے کو کافر اور ملحد قرار دیتا ہے۔ اگر آزادیٔ فلسطین کا اصل محرک اسلامی غیرت و حمیت کو قرار دیا جائے تو پھر اس واقعہ کی توجیہ ناممکن ہو جاتی ہے کہ کیوں ایسے لوگ ہی اس ’’جہاد‘‘ میں اسلام پسندوں کے شانہ بشانہ شریک ہیں جنہیں یہ کافر اور ملحد سمجھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن البناء اور شاہ فیصل کی طرح عرب حکام اور عوام دونوں کے درمیان ایک تعداد ایسے افراد کی پائی جاتی ہے جن کے لیے فلسطین پر یہودی قبضہ ان کی دینی غیرت کو چیلنج ہے اور فلسطین کی بازیابی کے لیے کوشش کرنا ایک اسلامی ذمہ داری۔ مگر عربوں کی اکثریت کے لیے یہ حقیقتاً عرب قومیت (العروبۃ) کو چیلنج کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ بات ان کے لیے حد درجہ ناقابل برداشت ہے کہ یہود، جو تعداد میں انتہائی قلیل ہیں اور سینکڑوں برس تک ان کے محکوم رہے ہیں، وہ ان کے اپنے ایک ملک پر اس طرح قابض ہو جائیں کہ بقیہ ممالک کے لیے ان کا وجود خطرہ بن جائے۔ عربوں کی قومی نخوت اس کا تحمل نہیں کر سکتی کہ وہ یہودی کے مقابلہ میں پست ثابت ہوں یا یہود ان کے پڑوس میں ان کے ہم سطح اور ہمسر کی حیثیت سے آزادانہ زندگی گزاریں۔ ایک لفظ میں یہ کہ اصل مسئلہ یہودی نسل پرستی (صہیونیت) کے بالمقابل عرب قومیت (العروبۃ)کی بالادستی کے درمیان کشمکش کا مسئلہ ہے۔

چونکہ تقریباً ڈیڑھ ہزار برس تک یہود کے اوپر عرب کا غلبہ اور تسلط رہا ہے۔ اس صدی کے نصف اول تک عرب دنیا میں یہود کی حالت کم و بیش وہی تھی جو قرآن کے ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ ’’حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ‘‘ ( 9:29) ۔یعنی، یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

مگر جب حالات بدلے اور نئے دور میں طاقت اور غلبہ کے جدید وسائل کو بروقت استعمال کر کے یہود نے داخلی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کر لیا۔ جب کہ عرب دنیا ایسا کرنے میں ناکام رہی اور بالآخر یہود فلسطین کے اوپر قابض ہو کر عربوں کے لیے مستقل خطرہ بن گئے تو نہایت شدت کے ساتھ ان کے قومی جذبات بھڑک اٹھے۔ ذہنی اورنفسیاتی طور پر وہ سخت تنائو اور جھنجلاہٹ اور احساس کمتری کا شکار ہو گئے۔ اسی جھنجلاہٹ اور احساس کمتری کو دورکرنے کے لیے وہ ایک طرف اپنے عظیم ماضی کا تذکرہ کرتے ہیں اور دوسری طرف یہود کو احفاد القردۃ والخنازیر(بندر اور خنزیر کی اولاد)اور اسی طرح کے دوسرے حقارت آمیز ناموں سے پکارتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ یہود کو اپنے ماضی کے آئینہ میں دیکھ کر یہ جھوٹی تسکین حاصل کرتے ہیںکہ ہمیں ان کے اوپر برتری اور بالادستی حاصل رہی ہے۔ مگر وہ اپنے حال کا تقابل یہود کے حال سے نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسا کرنے میں ان کے اندر جھنجلاہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ ان کی قومی نخوت اس واقعہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی غفلت اور دوسروں کی زمانہ شناسی کے نتیجہ میں احفادالقردۃ و الخنازیرکہیںبراہ راست ان کے اوپر غالب ہیں اور کہیں بالواسطہ طور پر مسلّط ہیں۔

آج کل عرب دنیا کی اسلامی تنظیموں خصوصاً آزادیٔ فلسطین کے لیے سرگرم تنظیم حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ(حماس)میں ایک نیا رجحان ابھر رہا ہے۔ وہ یہ کہ اس تنظیم کے افراد اپنے جسم پر بم باندھ کر دشمن کے کسی ٹھکانے یا کسی اہم سرکاری یا عسکری اہمیت کے حامل دفتر میں کود پڑتے ہیں، ان کے جسم سے بندھا بم جب پھٹتا ہے تو وہ خود تو ہلاک ہوتے ہی ہیں مگر اپنے ساتھ دشمن کے بھی بہت سے افراد اور املاک کوتباہ کر دیتے ہیں۔ عام آدمی اگر ایسا عمل کرے تو اسے خودکشی کہا جائے گا۔ مگر بعض مسلم علماء حماس کے اس عمل کو خودکشی(عملیۃ انتحاریۃ)کے بجائے شہادت طلبی(عملیۃ استشھادیۃ)کہہ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں دکتور یوسف القرضاوی کا ایک مفصل مقالہ کویت کے ہفت روزہ المجتمع (18 جون 1996ء، صفحات34-35) میں چھپا ہے۔

مذکورہ مقالہ میں یوسف القرضاوی نے مختلف دلائل کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حماس کے نوجوانوں کا یہ اقدام شہادت طلبی کا عمل ہے، نہ کہ خودکشی کا۔ کیوں کہ وہ دشمن کو خوف زدہ کرنے (ارھاب العدو)کی ایک جدید اور موثر تکنیک ہے۔ دوسرے یہ کہ ان نوجوانوں کا مقصد محض خدا کی رضا جوئی ہے اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف کسی کارروائی پر اگر کوئی اس طرح اپنے کو ہلاک کرتا ہے تو یہ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ( 2:195) کا مصداق ہلاکت نہیں، بلکہ شہادت ہے۔ جس طرح صحابہ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ مختلف غزوات میں انہوں نے اپنے آپ کو دشمن کے نرغہ میں ڈال دیا اور بالآخر شہید ہو گئے۔

اس سلسلہ میں دو باتیں ملحوظ رکھنی چاہئیں۔ اولاً یہ کہ صحابہ وغیرہ نے بعض غزوات میں جو یہ کیا کہ میدانِ جنگ میں دیوانہ وار کود پڑے اور لڑتے ہوئے شہید ہو گئے، انہوں نے ایسا میدان جنگ میں کیا جہاں عملاً جنگ برپا تھی، نہ کہ ایسی جگہ جہاں دشمن کے علاوہ بھی بہت سے غیر متعلق لوگ موجود ہیں۔

دوسرے یہ کہ صحابہ نے اگرچہ شہادت کے شوق میں جاں بازی دکھائی، مگر اس جاں بازی میں جتنا ان کا لڑ کر مر جانے کا امکان تھا اتنا ہی امکان اس بات کا بھی تھا کہ وہ لڑ کر دشمن کو ماریں گے اور فتح یاب ہو کر لوٹیں گے۔ قرآن کے الفاظ میں وہ جب قتال کرتے تھے تو یا دشمن کو قتل کرتے تھے یا دشمن کے ہاتھوں قتل ہوتے تھے (‌فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ)۔ گویا صحابہ کے اقدام میں احتمالی طور پر دو بہتر نتائج (إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ)پوشیدہ تھے۔ یعنی وہاں فتح اور شہادت دونوں کا پچاس پچاس فیصد امکان رہتا تھا۔ مگر اس کے برعکس، حماس وغیرہ کے موجودہ اقدام کانتیجہ یقینی موت ہے۔ ایسی صورت میں اس کو صحابہ کے جاں بازانہ اقدام کے مشابہ قرار دینا قیاس مع الفارق (far-fetched analogy)ہے۔ قرآن و حدیث اور آثار صحابہ میں اس بات کے حق میں کوئی دلیل موجود نہیں کہ جہاں پیشگی طور پر صد فیصد موت یقینی ہو ایسے موقع پر اقدام درست ہے۔

دوسری بات یہ کہ اسلام کا ایک متفقہ اصول یہ ہے کہ جہاد کے معاملہ میں مسلمانوں کی داخلی قوت اصل معیار ہے۔ اگر داخلی اعتبار سے مسلمان مستحکم ہیں تو جہاد کا اقدام کیا جائے گا، اگر داخلی استحکام مطلوبہ معیار سے کم ہے تو اسی تناسب سے جہاد کے حکم میں تخفیف ہو جائے گی۔ ابتداءً اہلِ اسلام اپنے ایمان اور اللہ و رسول کے ساتھ محبت و وفاداری میں بہت بڑھے ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے سے دس گنی طاقت کے مقابلہ میں جہاد کا حکم دیا۔ مگر جب اس پہلو سے اہل اسلام کی صفوں میں کمزوری آ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف کر دی اور صرف اپنے سے دوگنی قوت کے مقابلہ میں اقدام کی اجازت دی۔ یہ تخفیف اس گروہ کے لیے کی گئی جن کو صحابہ کہا جاتا ہے اور جو نبی آخر الزماں کے ساتھ تھا۔ آج کوئی قائد یا گروہ یہ دعویٰ کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا کہ وہ کسی بھی اعتبار سے پیغمبر یا آپ کے اصحاب سے زیادہ مستحکم اور طاقتور ہے۔ چنانچہ آج مسلمانوں کے اوپر تخفیف کا اصول بدرجۂ اولیٰ منطبق (apply)ہوتا ہے ۔ اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:ٱلـٰٔنَ خَفَّفَ ٱللهُ عَنكُم ...(8:66)۔ یعنی، اب اللہ نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔

3 جون کو مغرب کی نماز کے بعد دو عرب طالب علموں سے ملاقات ہوئی۔ ایک کا نام محمد دائود تھا جو فلسطین کے رہنے والے ہیں اور ابوظہبی کے مدرسہ بن درید میں اول ثانوی میں پڑھتے ہیں۔ فون (459025)دوسرے کا نام عمّار مصطفی تھا جو مدرسہ ربعی بن عامر، ابوظہبی میں زیر تعلیم ہیں۔ فون (458752)گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ابھی ابھی اپنا سالانہ امتحان دے کر فارغ ہوئے ہیں اور اب ان کی گرمی کی چھٹیاں شروع ہوئی ہیں۔

میں نے کہاکہ اسکول کا امتحان تو معمولی امتحان ہوتا ہے اس کو چند ہفتوں یا مہینوں کی محنت کے ذریعہ پاس کیا جا سکتا ہے۔ مگر ایک بہت بڑے امتحان میں پوری عرب دنیا پچھلے پچاس برس سے مبتلا ہے لیکن ابھی تک وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ امتحان فلسطین کو یہودی قبضہ سے آزاد کرانے کا مسئلہ ہے۔

پھر میں نے کہاکہ آپ لوگوں کاتعلق اس نسل سے ہے جسے اکیسویں صدی میں میدانِ عمل میں اترنا ہے۔ شاید آپ لوگ اس امتحان میں کامیاب ہو جائیں جس میں پچھلی تین نسلیں مسلسل ناکام ہوتی رہی ہیں۔ میں نے ان سے سوال کیاکہ فلسطین کو آزاد کرانے کے سلسلہ میں آپ لوگوں کا کیا خیال ہے۔ اسے طاقت کے ذریعہ آزاد کرایا جا سکتا ہے یا دعوت کے ذریعہ (تُری، کیف یُمْکِنُ اَن تُحرَّرِ ارضُ فِلَسْطِین، بالقُوَّۃ اَم بالدّعوۃ؟)۔

یہ سوال میں نے ایک کاغذپر لکھ کر دونوں نوجوانوں کو دیا اورکہاکہ اس پر کم از کم تین دن غور کرکے مجھے بذریعہ ڈاک تحریری یا بذریعہ ٹیلی فون زبانی اپنے جواب سے مطلع کرو اور ہو سکے تو اس معاملہ میں اپنے والدین سے بھی مشورہ کر لو۔

تین دن بعد میں نے خود ان کے گھر فون کیا۔ دائود کے والد نے کہا کہ اپنے لڑکے کو میں نے امتحان کے زمانے میں بھی اتنا سنجیدہ غور و فکر اورمطالعہ میں غرق نہیں پایا جتنا وہ پچھلے تین روز سے آپ کے سوال کا جواب تیار کرنے میں محو ہیں۔ انہوں نے بڑا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ چھٹیوں میں ہم اپنے بچوں کو کوئی بامعنیٰ سرگرمی یاکام نہیں دے پاتے۔ آپ نے بڑا اچھا کیاکہ ان کے خالی اوقات کو ایک بامعنی سرگرمی سے پر کردیا (لقد اَحسَنتَ اِذمَلأتَ فَراَغھَم بِنشَاطٍ ھادِف

اس کے بعد دائود سے براہِ راست گفتگو ہوئی۔ وہ اپنا اوراپنے ساتھی عمار کا مشترک جواب مجھے فون پر پڑھ کر سنارہے تھے۔ ان کے تفصیلی جواب کا خلاصہ یہ تھاکہ سرزمینِ فلسطین کو یہود کے جابرانہ قبضہ سے طاقت کے سوا کسی اور ذریعہ سے آزاد نہیں کرایا جا سکتا۔ ہم نہیں سمجھتے کہ دعوت طاقت کی متبادل یا قائم مقام ہو سکتی ہے (لایُمکنُ تحریرُ ارضِ فلسطین مِن الاحتِلاَل الیَھُودِی الغاشم الا بالقوۃ ولا نظن ان الدعوۃ یمکن ان تکون بدیلاً عن القوۃ او ان تَحِلَّ مَحَلَّھا

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان ابھی تک دعوت کی تسخیری طاقت کا راز دریافت نہیںکرسکے ہیں۔ حالاں کہ تاریخ میں اسلام کی تمام عظیم فتوحات کا دروازہ دعوت ہی کے ذریعہ کھلا ہے۔ اگر اکیسویں صدی میں فلسطین اور اس جیسے دوسرے ملّی اور عالمی مسائل کو حل کرنا ہے تو جدید مسلم نسل میں صحیح دعوتی شعور پیدا کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر ہمارے مسائل آئندہ کئی صدیوں میں بھی غیر حل شدہ پڑے رہیں گے۔