حبِّ شدید

محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ جائز حدود میں آدمی کسی بھی چیز سے محبت کر سکتا ہے۔ مگر حبِّ شدید صرف ایک اللہ سے ہونا چاہیے،یعنی شدید قلبی تعلق۔ صرف اللہ کو یہ حق ہے کہ انسان اپنے جذباتِ محبت کو سب سے زیادہ اس سے وابستہ کرے، اس کی قلبی شیفتگی (strong affection) کا سب سے بڑا مرجع خدا وندذوالجلال ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے:

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمۡ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ ‌حُبًّا لِّلَّهِ (2:165)۔ یعنی، اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوادوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہیے۔

غیر اللہ کے ساتھ حبِّ شدید کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً غیر حقیقی خداؤں کے ساتھ بڑھا ہوا قلبی لگائو۔ اپنے اکابرسے بہت زیادہ عقیدت ،قوم کے ساتھ غیر معمولی محبت ،وغیرہ۔ آدمی کو جس چیز سے حبِّ شدید ہو اسی کی یاد میں وہ جینے لگتا ہے ، اسی کاتذکرہ اس کے لیے سب سے زیادہ محبوب بن جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسری چیزیں رسمی تعلق کے خانہ میں چلی جاتی ہیں۔

موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی خرابیوں کی جڑیہ ہے کہ ان کے اندر اللہ کے لیے حبِّ شدید نہیں۔ ذاتی مفاد، سیاسی اقتدار، قومی عزت، تاریخی عظمت، وغیرہ ان کے لیے عملاً حبِّ شدید کاموضوع بنی ہوئی ہیں، خداان کے لیے حبِّ شدید کاموضوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قسم کی چیزوں پران کے درمیان بڑی بڑی تحریکیں اٹھتی ہیں۔مگر محبت ِخداوندی کی بنیاد پر کوئی تحریک ان کے درمیان نہیں اٹھی۔

موجودہ زمانے میں جو علوم ِانسانی ظاہر ہوئے ان میں خدا کے وجود کویکسرحذف کردیا گیا مگرمسلم دنیا میں کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا جو اس پر تڑپے اور علوم جدیدہ سے واقفیت حاصل کرکے خدا کے وجود کو علمی حیثیت سے ثابت شدہ بنانے کے لیے محنت کرے۔ اللہ تعالیٰ کویہ مطلوب ہے کہ اقوام ِعالم کے اوپر ان کے فکر ی مستویٰ (intellectual level) کے مطابق خدا کے دین کی شہادت دی جائے، مگر ساری مسلم دنیا میں کوئی ایک بھی قابلِ ذکر شخص نہیں جو اس کے لیے بے چین ہواوراس کو جاری کرنے کے لیے اٹھ کھڑاہو۔

تو فیق بقدرِاستعداد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں6 ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس کاتذکرہ قرآن کی سورہ الفتح میں آیا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:

جب منکرین نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی، جاہلیت کی حمیت ، پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول اور ایمان والوں پر ۔ اور اللہ نے ان کو تقوی کے کلمہ پر جمائے رکھا، اور وہ اس کے حق دار اور اس کے اہل تھے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے(48:26)۔

اس آیت سے ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ آزمائش کی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے توفیق بقدرِ استعداد کا نظام قائم فرمایا ہے۔ گو یا کہ یہ ایک قسم کا دوطرفہ معاملہ ہے ۔ جس آدمی کے اندر قبولیت کی استعداد موجود ہو گی اسی آدمی تک خدا کی توفیق پہنچے گی۔ ضروری استعداد کے بغیر کسی کو خدا کی توفیق نہیں مل سکتی ۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر دو فریق تھے، ایک طرف قریش اور دوسری طرف مسلمان۔ قریش کے اندر سرکشی کامزاج تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کی جانے والی ہر معقول بات کا انھوں نے انکار کیا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ مسلمانوں کے اندر بھی جو ابی اشتعال پیدا ہوجائے اور معاہدۂ امن کے بجائے تشدد اور جنگ کی نوبت آجائے۔ مگر صحابہ کرام نے سرکشی کے جواب میں سرکشی نہیں دکھائی ۔ ا ن کے دل کاتقویٰ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ وہ جوابی اشتعال سے بچ جائیں۔ و ہ اللہ کے منصوبہ کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیں۔

خدا کی طرف سے حق ظاہر کیا جاتا ہے مگر اس کے اعتراف کی توفیق وہی لوگ پاتے ہیں جو اپنے آپ کو خود پسندی کی نفسیات سے پاک کر چکے ہوں۔ خدا کی طرف سے جنّتی عمل کرنے کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہوتی ہیں مگر ان صورتوں سے فائدہ اٹھانا صرف انھیں لوگوں کے لیے ممکن ہو تا ہے جو دنیا کی طلب کو اپنے دل سے نکال چکے ہوں ۔ خدا کی طرف سے دعوتی کام کے مواقع کھولے جاتے ہیں مگر ان مواقع کو استعمال کرنے کا کریڈٹ انھیں لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے سینہ کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کر چکے ہوں۔

حدیث کامطالعہ

 اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں میری رضاعی ماں میرے پاس مدینہ آئیں۔ اس وقت وہ شرک پرتھیں اور قریش کی حلیف تھیں۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور میں نے پوچھا:يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ:صِلِيهَا ( مسند احمد، حدیث نمبر 26994)۔یعنی، میں نے پو چھا کہ اے خدا کے رسول،میری مشرک ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ مجھ سے کچھ چاہتی ہے ۔ کیا میں انھیں صلہ رحمی کے طورپر کچھ دوں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، ان کودو۔

یہ حدیث بظاہر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ہے، خواہ ومشرک اور کافرہی کیوں نہ ہو۔ حدیث کی کتابوں میں وہ اسی طرح کے باب کے تحت لکھی ہوئی ملے گی ۔مگر کسی حدیث کو سمجھنے کے لیے صرف اس کے ’’ ترجمۂ باب‘‘ کو دیکھنا کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ حدیث کے متن پر گہرائی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی آدمی کے اوپر اس کے پورے معانی کھل سکتے ہیں۔

اس حدیث سے حقوقِ والدین کے مسئلہ کے علاوہ مزید یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس زمانہ کاواقعہ ہے جب کہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خاتمۂ جنگ کامعاہدہ ہو گیا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ مکہ کے مشرکین مدینہ آنے لگے اور مدینہ کے مسلمان مکہ جانے لگے۔

عقل عام یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اس آمدورفت میں صرف’’ صلہ ٔرحمی‘‘ کامسئلہ سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اسی کے ساتھ یہ ہوا کہ آپسی گفت و شنید بھی ہو نے لگی۔ آبائی مذہب اور پیغمبر انہ مذہب کاتقابل کیا جانے لگا۔ خودساختہ مذہب اور الہامی مذہب کافرق لوگوں پر واضح ہونے لگا۔

اس طرح یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ کی تدبیر نے جنگی ماحول کو پرامن دعوتی ماحول میں تبدیل کردیا۔ مکہ اور مدینہ میں جہاں اس سے پہلے تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی تھی، وہاں مذہبی انٹرایکشن ہونے لگا۔ اس انٹرایکشن کا جومثبت نتیجہ ظاہر ہوا، اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ 

تغییر منکر

حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4340)۔یعنی تم میں سے جو شخص منکرکودیکھے اور وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدلنے کی استطاعت رکھتا ہوتو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے۔اب ایک اورحدیث دیکھیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایاکہ قریش نے جب کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی تو انھوں نے اس کو ابراہیمی بنیاد سے گھٹاکربنایا۔حضرت عائشہ نے کہاکہ اے اللہ کے رسول!آپ اس کو ابراہیمی بنیاد کی طرف کیوں نہیں لوٹادیتے۔آپ نے فرمایاکہ اگر قریش ابھی نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے تو میں ایساکردیتا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584)۔

ان دونوں حدیثوں کا تقابلی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ تغییرمنکر کا حکم مطلق معنوں میں نہیں ہے بلکہ وہ ایک مقید حکم ہے ۔اگر وہ کوئی مطلق حکم ہوتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ایسا کرتے ۔ یعنی مشرکینِ مکہ نے کعبہ کی تعمیر ثانی میں جوتبدیلی کی تھی اس کو ختم کرکے دوبارہ اس کو حضرت ابراہیم کی تعمیری بنیاد پر کھڑاکرتے۔

اس تقابلی مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ تغییرمنکر میں صرف’’استطاعت‘‘ ہی کی شرط نہیں ہے بلکہ حکمت کی شرط بھی ہے ۔فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے حکمراں ہوچکے تھے۔ آپ کو یہ استطاعت حاصل ہوچکی تھی کہ آپ کعبہ کوڈھاکر اسے ابراہیمی بنیاد پرتعمیر کردیں۔مگر آپ نے استطاعت کے باوجود ایسانہیں کیا۔کیوںکہ حدیث کے مطابق ،ایساکرناحکمت کے خلاف تھا۔

تغییرمنکرکے حکم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی جب کسی منکرکودیکھے تو فوراً اس کے خلاف اقدام شروع کردے۔اجتماعی زندگی میں کوئی اقدام صرف برائی کو دیکھ کر نہیں کیاجاتابلکہ حالات کو دیکھ کر کیاجاتاہے۔مومن پر لازم ہے کہ جب وہ کسی منکرکو دیکھے تو اس کے خلاف اقدام سے پہلے یہ سوچے کہ میرے اندراس کی حقیقی استطاعت ہے یانہیں ،اوراگربظاہر استطاعت ہوتب بھی ایسا کرنا حکمت کے مطابق ہے یانہیں۔استطاعت اورحکمت کی دوگونہ شرط کالحاظ کیے بغیرتغییرِمنکر کے لیے اٹھنافساد ہے ،نہ کہ اسلامی حکم کی تعمیل۔

نظراندازکرنا

پیغمبراسلام مکہ میں 13سال رہے ۔اس مدت میں وہ تقریباًروزانہ کعبہ میں جاتے تھے۔ وہاں اس وقت 360بت رکھے ہوئے تھے۔یہ عربوں کے مختلف قبائل میں پوجے جانے والے بت تھے۔مکہ کی مرکزیت قائم کرنے کے لیے اہلِ مکہ کے سرداروں نے یہ تمام بت کعبہ میں اکٹھاکردیے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ان کو دیکھتے تھے مگر مکی دور میں کبھی آپ نے ان کو توڑنے یاپھینکنے کی کوشش نہیں کی۔

اس سے اسلام کا ایک اہم اصول معلوم ہوتاہے ۔وہ یہ کہ وقت سے پہلے کوئی کام نہ چھیڑاجائے ۔مکی دور میں آپ نے ان بتوں کو نظر انداز کیا۔مگر بعد کو جب مکہ فتح ہوگیاتو آپ نے فوراًان کو نکال کر کعبہ کو ان مشرکانہ علامتوں سے پاک کردیا۔

اسلام میں اقدام کرنابھی ہے ۔مگر اسی کے ساتھ اسلام میں نظر انداز کرنابھی ہے ۔اقدام کے وقت اقدام کرناضروری ہے ۔مگر اسی کے ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ جہاںاقدام کا موقع نہ ہو، وہاں سختی کے ساتھ نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے۔خواہ بظاہر وہ کتنا ہی سنگین یااشتعال انگیز معاملہ کیوں نہ ہو۔

حال میں کسی مسئلہ کو اعراض کے خانہ میں ڈالنامستقبل میں اس کے حل کا دروازہ کھولناہے ۔ اور بے وقت اقدام کرناحال اورمستقبل دونوں میں صرف نقصان کاباعث ہوتاہے ۔نظرانداز کرنے کی پالیسی دراصل انتظار کرنے کی پالیسی کادوسرانام ہے ۔

نظر انداز کرناایک دانش مندانہ پالیسی ہے ،نہ کہ کسی قسم کی بزدلی ۔نظرانداز کرنادوسرے لفظوں میں نظام ِ فطرت سے مطابقت ہے ۔اورنظرانداز نہ کرنا،نظام فطرت کے خلاف جنگ۔کوئی شخص یاگروہ اتناطاقتور نہیں کہ وہ فطرت سے لڑکرکامیاب ہوسکے۔اس دنیامیں ہرایک کے لیے صرف ایک راستہ ہے ۔اوروہ نظام ِفطرت سے مطابقت رکھناہے ۔اس کے بغیرموجودہ دنیامیں کسی کے لیے حقیقی کامیابی ممکن نہیں — نظر انداز کرنابے عملی نہیں،نظرانداز کرناباعمل انسان کاایک اصول ہے ۔

حالات کی رعایت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت ملی تو آپ کو خداکی طرف سے حکم دیاگیاکہ ایک خداکی عبادت کرواورخداکے پیغام کولوگوں تک پہنچائو۔مگر آپ نے ایسانہیں کیاکہ فوراًکھلے مقامات پر جائیں ،سب کے سامنے نماز پڑھیں یابلندآواز سے لوگوں کو خداکی طرف پکارناشروع کردیں۔ اس کے برعکس، آپ نے ابتدائی چند سال تک چھپ کر نماز پڑھی اورانفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ خفیہ انداز میں تبلیغ کی۔

یہ حالات کی رعایت تھی ۔حالات کی رعایت اسلام کا ایک اہم اصول ہے ۔قرآن وحدیث میں کوئی حکم مطلق انداز میں دیاگیاہوتب بھی یہ دیکھناہوگاکہ ہمارے حالات کے لحاظ سے اس کی تعمیل کا حکیمانہ طریقہ کیاہے ۔حالات کے اعتبار سے جوقابلِ عمل صورت ہو اسی کے مطابق حکم کی تعمیل کی جائے گی ۔حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے آزادانہ انداز اختیار کرنانہ اسلام کا طریقہ ہے اورنہ پیغمبراسلام کی سنت۔

اس طریقہ کودوسرے الفاظ میں فطری طریقہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس دنیامیں کسی بھی معاملہ میں نتیجہ خیز جدوجہد وہی ہوسکتی ہے جس میں حالات کی پوری رعایت شامل ہو۔حالات کی رعایت نہ کرنافطرت سے ٹکراناہے اورفطرت سے ٹکرانے کی تعلیم اسلام میں نہیں دی گئی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری 23سال کی پیغمبرانہ مدت میں اسی طرح حالات کی رعایت سے کام کیا۔آئندہ بھی آپ کے ماننے والوں کے لیے یہی صحیح طریقہ ہے کہ وہ جس ماحول میں ہوں اس کو سمجھیں اور اس کو بخوبی سمجھ کرحالات کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں ۔اس کے بغیرانھیں خداکی نصرت نہیں مل سکتی ۔

حالات کی رعایت ،دوسرے لفظوں میں فطرت کی رعایت ہے ۔اس دنیاکے خالق نے جس قانون کے تحت اپنی دنیاکوبنایاہے ،اس سے مطابقت کرنے کانام حالات کی رعایت ہے ۔یہ رعایت کسی مقصد میں کامیابی کے لیے لازمی طورپرضروری ہے ،خواہ وہ مقصددین سے تعلق رکھتا ہو یا دنیا سے ۔

راستہ تنگ نہیں

فتح مکہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ سے طائف جارہے تھے۔ درمیان میں ایک پہاڑی راستہ ملاجوبظاہرتنگ تھا۔وہاں پہنچ کر آپ نے لوگوں سے پوچھاکہ اس راستہ کانام کیاہے ،لوگوں نے بتایاکہ اس کو تنگ راستہ (الضّيْقَةُ) کہاجاتاہے ۔آپ نے فرمایاکہ نہیں ،بلکہ یہ آسان راستہ ہے (بَلْ هِيَ ‌الْيُسْرَى) مغازی الواقدی، جلد 3، صفحہ 925۔

اس کامطلب یہ تھاکہ یہ صحیح ہے کہ بطورِواقعہ یہ راستہ تنگ ہے ۔اگر ہم پھیل کراس میں جاناچاہیں تو ہم نہیں جاسکیں گے لیکن ہم اس طرح اس کو آسان بناسکتے ہیں کہ ہم سمٹ کرقطار کی صورت میں اس سے گزریں۔ایسی صورت میں راستہ کی تنگی ہمارے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی ۔

اس سے معلوم ہواکہ پیغمبر انہ نگاہ یہ ہے کہ تنگی کو بھی کشادگی کے روپ میں دیکھاجائے ۔تنگی میں بھی کشادگی کا راز دریافت کیاجائے۔منفی باتوں میں بھی مثبت پہلوتلاش کرلیے جائیں ۔

تنگی بذاتِ خودتنگی ہے ۔راستہ کی چٹان ہرحال میں چٹان ہی رہتی ہے ۔جوفرق ہے وہ خود تنگی یاچٹان میں نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ جب کوئی تنگ راستہ سامنے آجائے یاچٹان حائل ہوتو اس وقت طریقِ عمل کیااختیارکرناچاہیے۔

ایک طریقہ براہِ راست مقابلہ کا ہے اوردوسرا اعراض کا۔براہ ِ راست مقابلہ میں تنگی اورچٹان بدستور تنگی اورچٹان بنے رہتے ہیں مگر اعراض کاطریقہ ان کے وجود کو عملی طورپرغیر موثربنادیتاہے ۔

جب بھی ایساہوکہ آپ کے سفر میں کوئی رکاوٹ پیش آجائے تو اس سے ٹکرانے پر اپناذہن نہ لگائیے بلکہ یہ سوچئے کہ رکاوٹ کونظرانداز کرکے آپ کو ن سا ایساحل پاسکتے ہیں جس کے بعد رکاوٹ اپنی جگہ باقی رہتے ہوئے بھی آپ کے لیے ایک غیر موجود چیز بن جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہرراستہ تنگ ہی ہوتاہے ۔تنگی اورکشادگی دونوں اضافی چیزیں ہیں۔حقیقی چیز صرف ایک ہے اوروہ تدبیر ہے ۔اورتدبیر مکمل طورپراورہمیشہ انسان کے بس میں ہوتی ہے ۔

شکایت کے باجود

فتح مکہ کاواقعہ رمضان 8 ہجری میں پیش آیا۔ اس کے جلد ہی بعد شوال 8ھ میں غزوۂ حنین ہوا۔ فتح ِمکہ سے کچھ دنوں پہلے خالدبن الولیدنے مدینہ آکر اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں مہموں میں حضرت خالد کومسلم لشکر کے ایک حصہ کاسردار بنادیا۔

یہ بات انصار کے اوپر شاق تھی۔ کیوں کہ انصار بہت پہلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایمان لاکر ہر طرح کی قربانیاں دے رہے تھے۔ جب کہ حضرت خالد ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ آج کل کی زبان میں یہ گویاسینئر کے اوپر جونیر کوترجیح دینے کامعاملہ تھا۔ تا ہم اس شکایت کے باوجود تمام انصار رسول اللہ کے ساتھ رہے ،انھوں نے آپ کے ہر حکم کی اطاعت کی۔

خاتمۂ جنگ کے بعد عرب رواج کے مطابق شاعروں نے اس کے بارے میں اشعار کہے۔ ایک شاعر عباس بن مرد اس سلمی نے بھی اس موقع پر کچھ اشعار کہے ۔ اس میں ایک طرف انصار کے حوالے سےاس شکایت کا بھی تذکرہ تھا کہ آپ نے خالد کو ترجیح دی اور ان کو قوم کے اوپر امیر بنادیا (فَإِنْ تَكُ قَدْ أَمَّرْتَ ‌فِي ‌الْقَوْمِ ‌خَالِدًا)۔ مگر اسی کے ساتھ انصار کی ایمانی اسپرٹ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

وَقَالَ نَبِيُّ الْمُؤْمِنِينَ تَقَدَّمُوا    وَحُبَّ إلَيْنَا أَنْ نَكُونَ الْمُقَدَّمَا

اور مسلمانوں کے نبی نے کہا کہ تم لوگ آگے بڑھو، تو ہمارے لیے یہ محبوب بن گیا کہ ہم آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے والے ہوں (سیرت ا بن ہشام، جلد2 ،صفحہ470)۔

انصار کو اگر چہ ظاہری حالات کے مطابق شکایت تھی ۔ مگر اس شکایت کو انھوں نے اپنے عمل پر اثرانداز ہونے نہیں دیا۔ شکایت کے باوجود وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ پوری طرح جڑے رہے۔ شکایت کے باوجود وہ اسلام کے محاذ پر متحدہ طاقت بن کر کھڑے ہوگئے۔

موجودہ دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ باہم شکایتیں پیدا نہ ہوں۔ صحیح یاغلط اسباب کے تحت بہرحال ایک کو دوسرے سے شکایت پیداہوتی ہے ،حتی کہ رسول اور اصحاب رسول سے بھی۔مگر مومن شکایتوں سے بلند ہوتا ہے ، وہ شکایتوں سے اوپر اٹھ کر معاملہ کرتا ہے۔ اسی لیے مومنین کی جماعت میں کبھی ایسانہیں ہوتا کہ شکایت اور اختلاف ان کے اتحاد کو درہم و برہم کر دے۔

بہترانسان

ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ایک مجلس کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا:أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِكُمْ مِنْ شَرِّكُمْ؟  فَقَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنَا بِخَيْرِنَا مِنْ شَرِّنَا، قَالَ:خَيْرُكُمْ مَنْ ‌يُرْجَى ‌خَيْرُهُ وَيُؤْمَنُ شَرُّهُ، وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا ‌يُرْجَى ‌خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2263)۔ یعنی، کیا میں تم کو تمہارے اندراچھے اور برے شخص کے بارے میں نہ بتائوں۔ آپ نے تین بار یہی بات کہی۔ پھر ایک شخص نے کہا ہاں اے خدا کے رسول، آپ ہم کو ہمارے اچھے اور برے کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: تم میں اچھا وہ شخص ہے جس سے اس کے خیر کی امید کی جائے اور جس کے شر سے لوگ سلامت ہوں۔ اورتم میں برا وہ شخص ہے جس سے خیر کی امید نہ کی جائے اور جس کے شر سے لوگ محفوظ نہ ہوں۔

یہ حدیث نہایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اچھا آدمی کون ہے اور براآدمی کون ہے۔ اچھا آدمی وہ ہے جس کے بارے میں پیشگی طور پر یقین کیاجاسکے کہ جب بھی اس سے کسی کاسابقہ پیش آئے گا تو اس کو اس آدمی سے خیر ہی کاتحفہ ملے گا۔ اس سے جن لوگوں کو بھی تجربہ ہوگا درست قول اور نیک عمل ہی کاتجربہ ہوگا۔ کوئی بھی چیز اس کو اس پرآمادہ نہیں کرے گی کہ وہ لوگوں کے ساتھ خیر کے بجائے شرکامعاملہ کرنے لگے۔

ایسے آدمی کے اندر بلا شبہ شربھی چھپا ہواہوتا ہے ۔کیوں کہ اس کو بھی دوسروں کی طرح خلافِ مزاج بات ناپسند ہوتی ہے۔ اشتعال انگیز بات پر اس کو بھی غصہ آتا ہے۔ اس کے اندر بھی نفرت اور عداوت کا طوفان جا گتا ہے ۔ اس کو بھی نقصان اور زیادتی کے مواقع پر تکلیف ہوتی ہے ۔ مگر ان سب کے باوجود وہ اپنی اصولی حیثیت پرقائم رہتا ہے۔

وہ نفسیاتی جھٹکوں کو اپنے اوپر سہتا ہے۔ وہ خود کڑواگھونٹ پی کردوسروں کو میٹھا گھونٹ پلاتا ہے۔ وہ زیادتی کے واقعات کو اللہ کے خانہ میں ڈال دیتا ہے تا کہ وہ ڈسٹریکشن کا شکارنہ ہو، اور کامل یکسوئی کے ساتھ مقصد ِاعلیٰ کے لیے اپنی سرگرمی کوجاری رکھ سکے۔

توہین کامسئلہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ توہین اسلام کا مسئلہ جانتے ہیں ،مگر وہ توہین مسلم کامسئلہ نہیں جانتے۔ اگر کوئی غیرمسلم اسلام کی توہین کردے تو تمام لوگ بھڑک اٹھیں گے اوراس کے خلاف پرجوش مہم شروع کردیں گے۔لیکن ایک مسلمان ہرروز دوسرے مسلمان کی توہین کرتاہے اوراس پرکوئی نہیں بھڑکتا،اس کو اس طرح نظر انداز کردیاجاتاہے جیسے کہ کچھ ہواہی نہیں ۔حالاں کہ شریعت کے مطابق،مومن کااکرام فرض ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2162)اور مومن کی توہین حرام(مسند احمد، حدیث نمبر 7727)۔

اس فرق کا سبب کیاہے ۔اس فرق کاسبب یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام کی توہین کرے تو ایساواقعہ نہایت آسانی کے ساتھ مسلمانوں کے لیے قومی غیرت اورقومی فخر کامسئلہ بن جاتاہے ۔وہ اپنے فخرکوقائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔اس کے مقابلہ میںمسلم کی توہین عملاًاحتساب خویش کامسئلہ ہے ،اوراحتساب خویش بلاشبہ ان لوگوں کے اوپربہت سخت ہے جو اپنے دل میں اللہ کاخوف نہیں رکھتے ۔اسلام اللہ کا آخری دین ہے ۔اللہ نے اس کے لیے ابدی عظمت کا فیصلہ کردیاہے ۔کسی شخص یاگروہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اسلام کو زیرکرسکے ۔اسلام کاابدی محافظ خود اللہ ہے ،اوراللہ سے بڑامحافظ اورکون ہوسکتاہے ۔

مگر جہاں تک توہین مسلم کامعاملہ ہے اس کی ذمہ داری خود مسلمانوں کے اوپر ہے۔ مسلمانوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ کسی مسلمان کی توہین نہ کریں ۔اورجب کوئی شخص ایک مسلمان کی توہین کرے تو اس کو ایساکرنے سے روک دیں ۔جومسلم معاشرہ اس روحِ احتساب سے خالی ہوجائے وہ اللہ کی رحمتوں سے بھی دورہوجائے گا۔

اغیار کی طرف سے قومی فخر پرزد پڑے تو اس پر بھڑک اٹھنااورجب کہ خود اپنی اصلاح یا احتساب کامسئلہ ہوتو اس پر بے حس بنے رہناایمان کے مردہ ہونے کی علامت ہے، نہ کہ ایمان کی زندگی کی علامت۔

ٹریفک کا سبق

صحابی رسول ابوذرغفاری(وفات 31 ھ) کہتے ہیں: وَمَا يُحَرِّكُ طَائِرٌ جَنَاحَيْهِ فِي السَّمَاءِ إِلَّا أَذْكَرَنَا مِنْهُ عِلْمًا(مسند احمد، حدیث نمبر21361)۔ یعنی ایک چڑیا بھی فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے۔دوسرے الفاظ میں، آپ ہمیں ہر چیز سے سبق سکھایا کرتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں انسان کے لیےلرننگ کے بے شمار آئٹم ہیں ، جن کے ذریعے انسان اپنے خالق کو پہچان سکتا ہے، اور اپنا انٹلکچول ڈیولپمنٹ کرسکتا ہے۔

مثلاًمولانا فرہاد احمد (پیدائش 1984)آج کل بائیک سے آفس آتے جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ٹریفک رول سے ہم زندگی کے لیے بہت سے سبق اخذ کرسکتے ہیں۔مثلاًجب آپ بائیک چلارہے ہوتے ہیں تو راستے میں اسپیڈ بریکر آتے ہیں، ریڈ سگنل ملتے ہیں،وغیرہ۔ یہ سب چیزیں آپ کو یاد دلاتی ہیں کہ یہ سڑک آپ کی نہیں ہے۔ یہاں آپ کو گورنمنٹ رول کو فالو کرنا ہے، رول کی خلاف ورزی کرنے پر آپ کو فائن لگ سکتا ہے ۔آپ کا یا کسی دوسرے کا ایکسیڈنٹ ہوسکتا ہے۔ اسی لیےراستے میںجگہ جگہ بورڈ لگا رہتا ہے: ساودھانی ہٹی درگھٹنا گھٹی۔

 یہی معاملہ زندگی کا بھی ہے، یہاں ہر دم کوئی نہ کوئی ’’اسپیڈ بریکر ‘‘ اور’’ریڈ لائٹ ‘‘ آتی ہے۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے۔ یہاںاپنی خواہش پر چلنے کے بجائے آپ کو خالق کا رول فالو کرنا ہے۔اور ہر وقت ساودھان یعنی الرٹ رہ کر زندگی گزارنا ہے۔ورنہ زندگی کے سفر میں طرح طرح کے ڈسٹریکشن آئیں گے، جو آپ کو صراطِ مستقیم سے دور کردیں گے۔

راستے پر گاڑی چلانے والے ایک ڈرائیورکا دھیان ہروقت اسٹریٹ لائٹ پر رہتا ہے۔ تاکہ جب ریڈ سگنل ہو تو وہ رک جائے اورگرین سگنل ہو تو وہ اپنی گاڑی آگے بڑھائے۔ ہم کواسی طرح زندگی کی گاڑی چلانی ہے۔ غفلت کی زندگی گزارنے سے ہر ممکن طور پر اپنے آپ کو بچانا ہے، اور مواقع کو اویل کرنے کے لیے صبرکا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب کہ آپ غفلت اور ڈسٹریکشن سے بچ کر زندگی گزاریں۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)

منصوبۂ تخلیق کو سمجھیے

اسپین(Span) ایک دوماہی (bimonthly) میگزین ہے، جس کو ہندستان کا امریکی سفارت خانہ انگریزی، ہندی اور اردو میں شائع کرتا ہے۔اس کے مئی- جون 2021 کے ٹائٹل پیج پر عنوان تھا— ماحولیاتی بحران کا مقابلہ کرنا۔

 میگزین کے اکثر مضامین کا تعلق ماحولیاتی مسائل سے تھا۔ مثلاً لمحۂ فکریہ: آپ کی عادتِ طعام کرۂ ارض پر اثر انداز ہوتی ہے، فضائی آلودگی پر قابو پانا، ماحول موافق طرز حیات، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی قوت پیدا کرنا۔

موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں۔صنعتی ترقی اپنے ساتھ صنعتی کثافت (industrial pollution) کا مسئلہ لائی ہے۔ اِس کثافت کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ (global warming) کا واقعہ پیش آیا ہے،یعنی موسم میں بگاڑ (Chaotic weather conditions) ، پانی کے ذخیروں(گلیشیرس) کا پگھلنا، نازک حیوانات (fragile animals) کا خاتمہ، سمندر کے پانی کا آلودہ ہوجانا اور لائف سپورٹ سسٹم کا بگڑ جانا، وغیرہ۔ فطرت میں اِن تمام خرابیوں کی جڑ گلوبل وارمنگ ہے۔

گلوبل وارمنگ کا اصل سبب لائف اسٹائل کا مسئلہ ہے۔ دنیا کے موجودہ ذرائع صرف یہ اجازت دیتے ہیں کہ انسان اپنی حقیقی ضرورت (real need) کے بقدر اس کو استعمال کرے، لیکن آج کے انسان کا نشانہ پُرتعیش لائف اسٹائل (luxurious life style) ہو گیا ہے۔ انسان کا یہی غیرحقیقی گول ہے جس نے موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کا سنگین مسئلہ پیدا کیا ہے۔ گلوبل وارمنگ گویا کہ فطرت کی طرف سے اشاراتی زبان میں یہ اعلان ہے کہ انسان کا نشانہ موجودہ دنیا میں پورا ہونے والا نہیں۔یہ فطرت کے خلاف ہے، اور جو منصوبہ فطرت کے خلاف ہو، اس کی تکمیل اِس دنیا میں ممکن نہیں۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)

تزکیۂ نفس

2001 میں الرسالہ مشن ایک نئے دور میں داخل ہو ا۔ ہوا یہ کہ میں نے جنوری 2001 میں اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر سنٹر فارپیس اینڈ اسپریچوالٹی انٹرنیشنل (CPS International) قائم کیا۔ اس ادارے کاخاص مقصدخدائی تعلیمات کے مطابق، امن اور اسپریچوالٹی کو فروغ دینا ہے۔  اس مقصد کے لیے تعلیم یافتہ افراد کو تیار کیا جارہا ہے تا کہ یہ تربیت یافتہ افراد سو سائٹی کے مختلف طبقات تک پہنچیں اور اس طرح کسی بڑے فکری انقلاب کا باعث بنیں۔ اس کے لیے CPS کے تحت دہلی میں اسپریچول کلاس قائم کیا گیا جو خداکے فضل سے غیرمتوقع حد تک کامیاب رہا ۔ اسپریچول کلاس کے دوران جو تجربات پیش آئے اس سے سمجھ میں آیا کہ تزکیہ کیا ہے۔

 جب لوگ اس ویکلی کلاس میں آئے تو مجھ سے گفتگو کے دوران یہ معلوم ہوا کہ ہر آدمی ایک کنڈیشنڈ مائنڈ( conditioned mind) ہے اور وہ اسی میں جی رہا ہے ۔ ہرآدمی اپنے گھر ، اپنے ماحول اور لوگوں سے میل جول کے دوران جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے اس سے مسلسل طور پر اس کا ذہن متاثر ہوتا رہتا ہے۔ جب انسان پیدا ہوتاہے تو وہ اپنی فطری حالت پر ہوتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے وہ ایک ایساانسان بن جاتا ہے جو مکمل طور پر ایک کنڈیشنڈ انسان ہو ۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر فکری ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کا عمل کیا جائے۔ تاکہ انسان دوبارہ اپنی فطری حالت کی طرف لوٹ سکے۔

تزکیہ دراصل اسی ذہنی ڈی کنڈیشننگ کا نام ہے۔ تزکیہ کے لفظی معنی ہیں: پاک کرنا (to purify) ۔ روایتی طور پر اس کو تزکیۂ قلب کے معنی میں لیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے مراد تزکیۂ ذہن ہے ۔ آدمی کاذہن ہی اس کے تمام افعال کامرکز ہے ۔ ذہنی سطح پر بگڑی ہوئی سوچ کو دوبارہ صحیح سوچ بنانا ، اسی کانام تزکیہ ہے اور اسی کے ذریعے فکری اور عملی اعتبار سے وہ شخصیت بنتی ہے جس کو روحانی شخصیت یاربانی شخصیت کہاجاتا ہے ۔

میرا تجربہ ہے کہ لوگ عام طور پر کنفیوژن (confusion)میں جیتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب ہماری اسپریچول کلاس میں آئے ۔ وہ ایک انٹرنیشنل امریکن کمپنی میں مینجر ہیں۔ یہاں ،امریکی اصول کے مطابق، ہایراینڈفائر(hire and fire) کا اصول رائج ہے ۔  انھوں نے کہا کہ میں مسلسل تنائو میں رہتا ہوں ۔ ہر وقت جاب کھونے کااندیشہ(fear of losing job) میرے دماغ پر چھایا  رہتا ہے۔ میں نے نصیحت کے طور پر ان کی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:

One can take away your  job. But no one  has the power to take away your destiny.

تزکیہ کو عام طور پر تزکیۂ قلب کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے اور روایتی تصور کے مطابق، تزکیۂ قلب کاذریعہ صوفیانہ اور ادووظائف ہیں۔ جب کوئی شخص ان اور ادووظائف میں زیادہ مشغول ہوتا ہے تو اس کے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے ، اسی کیفیت کو عام طور پر تزکیہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ ایک بے اصل بات ہے۔ یہ قلبی کیفیت جو پیدا ہوتی ہے وہ دراصل وجد(ecstacy) ہے ۔ اوروجد کاکوئی بھی تعلق تزکیۂ روحانی سے نہیں۔

اصل یہ ہے کہ اس معاملے میں انسانی فکر کے دودور ہیں:قبل سائنس دور، اور بعد سائنس دور۔ قبل سائنس دور میں یہ سمجھا جا تا تھا کہ قلب جذباتِ انسانی کامرکز ہے ۔اس لیے صوفیا نے تزکیۂ روحانی کے لیے قلب کومرکز بنایا ۔ اور سالکینِ طریقت کے لیے مبنی برقلب وظائف تجویز کیے۔ ان وظائف میں اشتغال سے چوں کہ سالکین کو وجد کی سی ایک کیفیت محسوس ہو تی تھی ۔ ان لوگوں نے اسی وجد کو غلط طو رپر معرفت سمجھ لیا، حالاں کہ معرفت ایک شعوری حالت ہے ، جب کہ وجدصرف ایک مجہول احساس کانام ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر سمجھ لیا گیا کہ یہ طریقہ حصولِ تزکیہ کے لیے مفید ہے ۔ مگر وجد کی کیفیت سرتا سرایک غیر متعلق کیفیت ہے جو ہندو طریقےپر میڈیٹیشن (meditation) کے ذریعے بھی حاصل ہو تی ہے۔

بعد سائنس دور میں یہ نظریہ متروک ہو چکاہے۔ اب انسان کے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ فکر وجذبات اور احساس کامرکز تمام ترذہن(mind) ہے۔ ا س لیے تزکیہ کاصحیح طریقہ یہ ہے کہ ذہن کی تفکیری اصلاح کی جائے ۔یہی تزکیہ کااصل طریقہ ہے ۔حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ کوئی چڑیابھی اگر فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے(وَمَا يُقَلِّبُ ‌طَائِرٌ ‌جَنَاحَيْهِ فِي السَّمَاءِ، إِلَّا ذَكَرْنَا مِنْهُ عِلْمًا) الزهد لوكيع بن الجراح، حدیث نمبر 522۔علم یعنی معرفت و حکمت کاکوئی سبق سکھاتے تھے۔

 اسپریچول کلاس میں اسی طریقِ تزکیہ کو اختیار کیا گیا ہے ۔ ایک صوفی سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ تصوف کامطلب تصور ہے ۔ میرے نزدیک، قرآن کے الفاظ میں، اس کاجواب یہ ہے کہ تصوف کامطلب توسم (الحجر، 15:75) ہے۔ تو سم کامطلب ہے— مادی تجربات کو معرفت میں ڈھال لینا:

converting material events into spiritual experience

روایتی طورپریہ سمجھا جاتا ہے کہ معرفت کاذریعہ صحبت ہے ۔یعنی کسی بزرگ کے پاس بیٹھنے سے پراسرار طور پر آدمی کے اندر ربانی معرفت پیدا ہوجاتی ہے ۔ گو یا کہ حصول معرفت کاذریعہ صرف کسی بزرگ کی صحبت ہے، نہ کہ تدبروتفکر اور ذاتی محنت ۔ یہ نظریہ مزاج اسلام کے خلاف ہے۔ اسلام کے مطابق، ہرآدمی اس دنیا میں حالتِ امتحان میں ہے۔ اس دنیا کے لیے خدائی قانون یہ ہے: لَّيۡسَ لِلۡإِنسَٰنِ إِلَّا ‌مَا ‌سَعَىٰ(53:39)۔ یعنی، انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا۔ ایسی حالت میں یہ ماننا کہ ذاتی عمل کے بغیر صرف کسی کی صحبت سے روحانیت یاربانیت حاصل ہو سکتی ہے، ایک متضادنظریہ ہے ۔ کیوں کہ یہ نظریہ اس حکمت کی نفی کررہا ہے جس کو امتحان کہا جاتا ہے ۔

قرآن (3:79)میں ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو، ربانی بنو(كُونُواْ ‌رَبَّٰنِيِّـۧنَ )۔ رِ بّی کے لفظی معنی ہیں: رب والا۔ ربّانی اسی کامبالغہ ہے ۔یعنی بہت زیادہ رب والا۔ رِبّی یاربانی کو دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد ہے: خدار خی سوچ(God-oriented thinking) یاخدا رخی زندگی(God-oriented life) ۔یعنی انسان کی وہ حالت جب کہ اس کی سوچ کامرکز خدابن جائے ، جب کہ اس کے جذبات واحساسات پر تمام ترخدا کاغلبہ ہوجائے، جب کہ خدا کی یاداس کی ہستی میں پوری طرح سماجائے۔

یہی وہ چیز ہے جس کو روحانیت(spirituality) کہا جاتا ہے۔ میں سمجھتاہوںکہ دوسرے اکثر شعبوں کی طرح، روحانیت کے دو دور ہیں۔ قبل سائنس دور(pre-scientific era) اور بعد سائنس دور(post-scientific era) ۔ قبل سائنس دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جذبات واحساسات کا مرکز قلب(heart) ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں روحانیت کے حصول کاذریعہ یہ سمجھا جاتا  تھا کہ قلب پر فوکس ڈال کر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ سادھوئوں کامیڈیٹیشن (meditation) اور صوفیوں کا مراقبہ اسی طرز فکر کانتیجہ ہے ۔

مگر بعد سائنس دور میں یہ نظریہ بے بنیاد ثابت ہو گیا ۔ اب متفقہ طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ قلب صرف گردش خون(circulation of blood) کاذریعہ ہے ۔ سوچ اور احساسات کا مرکز تمام تر انسان کادماغ ہے۔ سرجری کی ترقی کے بعد یہ کیا گیا کہ آپریشن کرکے انسان کے قلب کو اس کے سینے سے نکال لیا گیا اور اس کی جگہ مکمل مصنوعی قلب (total artificial heart ) لگادیا گیا جو اب اصل قلب کی جگہ پورے جسم کو خون پہنچانے کاکام کرتا ہے۔ مثلاً بی بی سی اردوکی ویب سائٹ پر 2 فروری 2018کو ایک رپورٹ شائع ہوئی ، جس میں برٹش شہری خاتون مزسلواحسین (Selwa Hussain) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جب مز سلوا حسین کا فطری قلب ایک نامعلوم بیماری کی وجہ سےقابل استعمال نہیں رہا تو ان کو2017 میں مکمل مصنوعی قلب لگایا گیا ہے۔ یعنی مشینی قلب، جو ایک بیک پیک (backpack) کے ذریعہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے۔ مشینی قلب کے ساتھ وہ شعوری اعتبار سے ایک نارمل زندگی گزار رہی ہیں (Link: shorturl.at/lqJ89)۔ اسی طرح میڈیکل ایکسپریس ڈاٹ کام پر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، امریکا میں ایک خاتون کا فطری قلب جب ناکارہ ہوگیا تو اس کی جگہ ایک مکمل مصنوعی قلب لگایا گیا ہے (Link: shorturl.at/bju35

ان دونوں میڈیکل خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن کے بعد انسان کاسینہ فطری قلب سے بالکل خالی ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود اس کی سوچ اور اس کے احساسات ٹھیک ویسے ہی باقی رہے جیسا کہ وہ اس وقت تھے جب کہ فطری قلب اس کے سینے میں موجو دتھا۔ اس طرح کے آپریشن کے بعد یہ ثابت ہوا کہ فکر اور احساس کا مرکز مکمل طور پر  دماغ ہے، نہ کہ قلب۔

اکثرلوگ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں بھی قلب کاذکر اس طرح کیا گیا ہے گو یا کہ دماغ کے علاوہ قلب بھی سوچ اور جذبات کامرکز ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ۔قرآن میں ایسے مواقع پرقلب کا ذکر اس کے ادبی استعمال کے اعتبار سے ہے، نہ کہ اس کے سائنسی مفہوم کے اعتبار سے ۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن میں سوچ کے عمل کے لیے صرف قلب کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے بلکہ عقل اور لب کاحوالہ بھی دیا گیا ہے ۔ یہ دونوں الفاظ قرآن میں تقریبا 65 باراستعمال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض الفاظ بھی استعمال ہو ئے ہیں جو بالواسطہ طور پر دماغی عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً توسم اور تفکر، وغیرہ۔ اس کے علاوہ قران میں جس مفہوم کے لیے قلب کالفظ آیا ہے ٹھیک اسی مفہوم کے لیے متعدد آیتوں میں سمع اور بصر کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ مثلاً:لَهُمۡ ‌قُلُوبٌ لَّا يَفۡقَهُونَ بِهَا وَلَهُمۡ أَعۡيُن لَّا يُبۡصِرُونَ بِهَا وَلَهُمۡ ءَاذَان لَّا يَسۡمَعُونَ بِهَآ(7:179) ۔ یعنی، ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔

اگر اس طرح کی آیتوں کی بنیاد پر یہ مانا جا ئے کہ سوچ کے عمل کاتعلق قلب سے ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آنکھ اور کان کا تعلق بھی سوچ سے ہے ۔کیوں کہ ان آیتوں میں دیکھنے اور سننے کے جس عمل کا ذکر ہے اس سے مراد سا دہ طور پر کیمرہ یا ٹیپ ریکارڈ کی طرح دیکھنا اور سننا نہیںہے بلکہ اس سے مرادوہ دیکھنا اور سنناہے جس میں سوچ بھی شامل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن میںجہاں عقل اورلب کاحوالہ ہے وہاں اس سے براہ راست دماغی عمل مراد ہے اور جہاں آنکھ، کان اور دل کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہ الفاظ اپنے معروف ادبی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح بعدسائنس دورمیں تصوف یا روحانیت کا علم پوری طرح بدل گیاہے ۔ا ب روحانیت کاتعلق قلبی وظائف سے نہیں بلکہ اس کاتعلق ذہنی ارتقا کے ایک خاص مرحلے سے ہے۔

اسپریچول کلاس میںمیں نے اسی اصول پر لوگوںکا تزکیہ کیا اور ان کے اندر روحانیت لانے کی کوشش کی۔ خدا کے فضل سے نتیجہ صدفی صد کا میاب رہا ۔ہمارے کلاس میں ایسے کئی افراد شریک ہوئے جنہوں نے بتایا کہ وہ برسہا برس تک ہندوگروئوں اور مسلم صوفیوں کے یہاں روحانیت کے حصول کی کوشش کرتے رہے مگر انہیں روحانیت نہیں ملی۔ جب کہ ہمارے کلاس میں ان کواپنی مطلوب روحانیت حاصل ہو گئی ۔

مطالعہ کے بغیر انسانی شخصیت کی تکمیل ممکن نہیں

(مولانا وحید الدین خاں صاحب کاایک انٹرویو)

سوال  :             انسانی زندگی میں آپ مطالعہ کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟

جواب :            انسانی زندگی میں مطالعہ کی اہمیت بے حد بنیادی ہے۔ غذا اگر جسمانی وجود کے لیے ضروری ہے تو مطالعہ ذہنی وجود کے لیے۔ مطالعہ کے بغیر انسانی شخصیت کی تکمیل ممکن نہیں۔

سوال  :      آپ کے اندر مطالعہ کا شوق کب اور کیسے پیدا ہوا؟

جواب :      میں جس خاندان میں پیدا ہوا وہاں مطالعہ، خاص طور پر ادبی مطالعہ کا رواج پہلے سے موجود تھا۔ اس لیے بچپن ہی سے میرے اندر مطالعہ کا شوق پیدا ہو گیا۔ تاہم باقاعدہ شعور کے طور پر میرے اندر مطالعہ کا ذوق اس وقت پیدا ہوا جب میں نے سرجیمز جینز (Sir James Jeans, 1877-1946)کی کتاب پڑھی۔ اس کتاب نے میرے سامنے مطالعہ کی نئی دنیا کھول دی۔

سوال  :      مطالعہ کی غرض کیا رہی ہے؟

جواب :      میرے مطالعہ کی غرض خاص طور پر دو رہی ہیں— اسلام کو اس کے اصل ماخذ اور قدیم علمائے اسلام کے ذریعہ سمجھنا، اور دوسرے، اسلام کے خلاف جدید فکری چیلنج کو براہِ راست ذرائع سے معلوم کرنا۔ پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اسلام کے تعارف پر اور جدید فکری چیلنج کے رد میں کتابیں تیار کرنا۔

سوال  :      آپ نے کس قسم کی کتابوں سے مطالعہ کا آغاز کیا؟

جواب: ابتداء ًمیں زیادہ تر ادبی کتابیں پڑھتا تھا۔ اس کے بعد مدرسہ کی تعلیم کے نتیجہ میں اسلامی کتابیں پڑھنے لگا۔ اور اس کے بعد جدید الحاد سے تعلق رکھنے والی کتابوں کو پڑھنا شروع کیا۔

سوال  :     آپ کے مطالعہ کی رفتار کیا ہے؟

جواب:             میرا مطالعہ اور تحریر دونوں ساتھ ساتھ جاری رہتے ہیں۔ اس لیے مطالعہ کی مقداری رفتار متعین کرنا مشکل ہے۔ میں رات دن بس پڑھتا ہی رہتا ہوں۔اور دورانِ مطالعہ جب کوئی مضمون ذہن میں آتا ہے تو اس کو لکھ لیتا ہوں۔

سوال  :      کن زبانوں کی کتابیں آپ کے مطالعہ میں رہتی ہیں؟

جواب: عام طور پر میں عربی، انگریزی اور اردو کتابیں پڑھتا ہوں۔ کبھی کبھی فارسی اور ہندی کتاب یا مضمون بھی پڑھتا ہوں۔

سوال  :      آپ کے مطالعہ کا وقت کیا ہوتا ہے؟

جواب:      میرے مطالعہ کا مقرر وقت نہیں۔ اپنے تمام وقت کو میں مطالعہ ہی میں صرف کرتا ہوں۔ مطالعہ میری ذہنی خوراک ہے۔

سوال  :      مطالعہ کے ابتدائی دور میں آپ کو کس قسم کی ذہنی و فکری کیفیت سے سابقہ پیش آیا ہے؟

جواب: مطالعہ ابتداءً میرے لیے ذہنی تفریح کے ہم معنی تھا۔ اس کے بعد وہ تلاشِ حق کا ہم معنی بنا۔ اب مطالعہ میرے لیے خدمتِ اسلام کا وسیلہ ہے۔

سوال  :      آپ کے اپنے موضوع یا موضوعات کی اول درجے کی کتابیں آپ کی نظر میں کون سی ہیں؟

جواب :     کسی موضوع کے تاریخی ماخذ کے طور پر تو مجھے بہت سی کتابیں اول درجہ کی نظر آئیں۔ مثلاً تفسیر میں محمد بن احمد بن ابو بكرالقرطبی (وفات1273 ء)کی الجامع لاحکام القرآن، علم حدیث میں ابن حجر عسقلانی (وفات 1449ء)کی فتح الباری، سیرت میں سیرۃ ابن کثیر، وغیرہ۔ اسی طرح جدید ذہن کو سمجھنے کے لیے برٹش فلاسفر برٹرینڈرسل  (Bertrand Russell, 1872-1970) کی کتاب ہیومن نالج (Human Knowledge)۔ مگر اسلام کو سائنٹفک اسلوب اور جدید فکری مستوی پر پیش کرنے کے لیے کوئی بھی کتاب مجھے اول درجہ کی نظر نہیں آئی۔

سوال  :     کیا کسی موضوع پر تقابلی مطالعہ کا بھی آپ کو موقع مل سکا ہے؟

جواب: تقابلی مطالعہ کے سلسلہ میں خاص طور پر میں نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔

سوال  :      تقابلی مطالعہ میں کن باتوں کو پیش نظر رکھنا آپ ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب:       تقابلی مطالعہ کو کامیاب بنانےکی دو لازمی شرطیں ہیں— گہرا مطالعہ، اور موضوعیت۔

سوال  :      ریسرچ اور تحقیق کے لیے مطالعہ میں کن باتوں کو پیش نظررکھنا ضروری خیال کرتے ہیں؟

جواب: علمی ریسرچ کے لیے ضروری ہے کہ جس موضوع کا مطالعہ پیش نظر ہے، اس کی براہِ راست کتابوں کو پڑھا جائے اور جو کچھ پڑھا جائے غیر جانبدارانہ ذہن کے تحت پڑھا جائے۔

سوال  :      تصنیف و تالیف کا کام کرنے والوں کو مطالعہ میں کن باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟

جواب :     کسی مصنف کی تصنیف کو اس کے مطالعہ کا نتیجہ ہونا چاہیے، نہ کہ تصنیف ہی مطالعہ کا محرک ہو۔

سوال  :       آپ کے مطالعہ کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟

جواب :     مجھے علم سے دلچسپی ہے۔ میں ہر اس کتاب کو پڑھتا ہوں جو علمی اسلوب میں لکھی گئی ہو۔

سوال  :     حاصل مطالعہ کو محفوظ رکھنے کے لیے آپ کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں؟

جواب :     حاصل مطالعہ کو محفوظ رکھنے کے لیے میں قَيِّدُوا ‌الْعِلْمَ بِالْكِتَابَةِ (علم کو لکھ کر محفوظ کرو) پر عمل کرتا ہوں۔ حافظہ خواہ کتنا ہی اچھا ہو وہ ہرگز کتاب کا بدل نہیں ہے۔

سوال  :      کیا آپ دوران مطالعہ کتاب کے اہم جملوں یا پیراگراف کو نشان زد بھی کرتے ہیں؟

جواب:      اگر ذاتی کتاب ہو تو مطالعہ کے دوران میں ضروری نشانات کرتا رہتا ہوں۔ مگر لائبریری کی کتابوں پر نشانات لگانا مجھے پسند نہیں۔

سوال  :      سفر میں آپ کس طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں؟

جواب:سفر میں زیادہ تر میں اخبار یا رسالہ جیسی ہلکی پھلکی چیزیں پڑھتا ہوں۔

سوال  :      کیا آپ مطالعہ برائے تفریح یا مطالعہ برائے وقت گزاری کو بھی روا رکھتے ہیں اور اگر روا رکھتے ہیں تو کس حد تک؟

جواب :     تفریح یا وقت گزاری کے لیے مطالعہ اس شخص کو روا ہے جو سنجیدہ مطالعہ نہ کر سکتا ہو۔

سوال  :      آپ کے پسندیدہ موضوعات کیا ہیں؟ ترجیحی ترتیب کے ساتھ۔

جواب :     میرے پسندیدہ موضوعات یہ ہیں: تمام اسلامی موضوعات، اور تمام مخالف ِاسلام موضوعات۔

سوال  :            ادب میں آپ کس نظریے کے حامی ہیں؟

جواب:      ادبی مطالعہ سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کو میں صرف ضیاعِ وقت سمجھتا ہوں۔

سوال  :            ایک ادیب یا شاعر کی زندگی میں آپ مطالعہ کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟

جواب :           ادیب یا شاعر کو صرف یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ ادب یا شاعری کو چھوڑ دے۔

سوال  :            وہ کون سی کتابیں ہیں، جنہیں آپ اپنی پسندیدہ کتابوں میں شمار کرتے ہیں اور اس کی پسندیدگی کے اسباب کیا ہیں؟

جواب :     تاریخی ماخذ کے طور پر مجھے بہت سی کتابیں پسند ہیں۔ مگر جدید علمی اسلوب میں اسلام کی ترجمانی کرنے کے لیے جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے کوئی کتاب مجھے پسند نہیں۔

سوال  :      آپ کے پسندیدہ مصنفین کون کون سے ہیں؟ وجہ پسندیدگی پر بھی روشنی ڈالیے؟

جواب :           دورِ جدید کے مسلم مصنفین میں سے کوئی مصنف مجھے پسند نہیں۔ ان میں سے کسی کی کتاب میرے نزدیک (جدید)علمی اسلوب پر نہیں ہے۔

سوال  :      آپ کو سب سے زیادہ کس مصنف نے متاثر کیا؟

جواب :     مجھے سب سے زیادہ میرے شعورِ فطرت نے متاثر کیا۔ میرے نزدیک سب سے بڑی کتاب فطرت کی کتاب ہے۔

سوال  :      آپ کے پسندیدہ ادیب و شاعر کون کون سے ہیں؟ انہیں دوسروں کے مقابلے میں آپ کیوں ترجیح دیتے ہیں؟

جواب :     مجھے کوئی ادیب یا شاعر پسند نہیں۔ ادب اور شاعری کو میں ایک فطری صلاحیت کا غلط استعمال سمجھتا ہوں۔

سوال  :      کیا آپ کو اجتماعی مطالعہ کا موقع میسر آتا ہے؟

جواب :     اجتماعی مطالعہ کا ذوق میرےاندر نہیں ہے۔

سوال  :      آپ کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں یا دوسروں کی کتابوں اور لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہیں؟

جواب :      میں حسب مقدور کتابیں خریدتا ہوں ، ورنہ دوسروں سے یا لائبریری سے مستعار لے کر پڑھتا ہوں۔

سوال  :     کیا آپ کی کوئی ذاتی لائبریری بھی ہے؟ اسے درست رکھنے کے لیے آپ کیا صورت اختیار کرتے ہیں؟

جواب :           میری ذاتی لائبریری ہے۔ اس کو درست رکھنے کے لیے میں یہ کرتا ہوں کہ ہر کتاب کو اس کی متعین جگہ پر رکھتا ہوں۔

سوال  :      مطالعہ کے تعلق سے اپنا کوئی خاص تجربہ؟

جواب :     مطالعہ کے سلسلہ میں میرا تجربہ یہ ہے کہ آدمی لکھنے سے زیادہ پڑھنے پر دھیان دے۔ ذاتی طور پر میری تحریر میرے مطالعہ کا حاصل (by-product) ہوتی ہے۔

سوال  :      مطالعہ کے شائقین کے لیے اگر کوئی تجویز یا مشورہ ہو تو پیش فرمائیں؟

جواب :            تمام بہترین کتابیں سنجیدہ اسلوب میں ہوتی ہیں۔ اس لیے مطالعہ کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سنجیدہ مطالعہ کا ذوق اپنے اندر پیدا کرے۔ سطحی چیزوں کا مطالعہ آدمی کے اندر سطحی مزاج پیدا کرتا ہے، اور گہری چیزوں کا مطالعہ اس کے اندر گہرے فکر کی پرورش کرتا ہے۔ مطالعہ کا مقصد صرف واقفیت میں اضافہ نہیں، بلکہ بصیرت میں اضافہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے : یک من علم را دہ من عقل می باید (ایک حصہ علم کے لیے دس حصہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے )۔ بصیرت کے بغیر علم سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ۔

(بحوالہ: میرا مطالعہ ، مرتب تابش مہدی،نئی دہلی، 1995، صفحات 209-212 )

جنت کا استحقاق

جنت بے حد عظیم نعمت ہے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2450)۔وہ بے حد مہنگی قیمت پر کسی کو ملے گی ۔بہت تھوڑے خوش نصیب لوگ ہوں گے جو جنت کی لطیف دنیامیں بسائے جانے کے قابل ٹھہریں ۔جنت میں داخلہ کا پہلاامتحان یہ ہے کہ آدمی معرفت کے درجہ میں اپنے رب کو پائے۔ افکار وخیالات کے جنگل میں وہ سچائی کو دریافت کرے۔ وہ نہ محسوس ہونے والی جنت کو محسوس کرے۔وہ ظاہری ہنگاموں سے گزر کرآخرت کی دنیاکامسافربن جائے۔

اسی طرح جنت میں داخلہ کی شرط یہ ہے کہ آدمی سرکشی کا اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کے آگے جھکادے ۔خود پرست بننے کے تمام محرکات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ سچاخداپرست بن جائے۔کشش اورجاذبیت کے بے شمار مراکز سے منہ موڑ کر وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجائے ۔

اسی طرح جنت میں داخلہ صرف اس شخص کے لیے ممکن ہوگاجو منفی حالات کے درمیان ہمیشہ مثبت ذہن پر قائم رہے ۔جو اپنے سینے میں اٹھنے والے حسد اورگھمنڈاورانتقام جیسے جذبات کو دفن کر کے یک طرفہ طورپرلوگوں کے لیے شفقت اورخیرخواہی کا پیکر بن جائے ۔جو ظلم اوربے انصافی کے مواقع کوپانے کے باوجود انہیں استعمال نہ کرے اورہرحال میں اپنے آپ کو عدل وانصاف کا پابند بنالے ۔

جنت ایک نفیس ترین خدائی کالونی ہے ۔اس نفیس کالونی میں صرف وہی روحیں داخل ہوں گی جنھوں نےدنیاکی زندگی میں اپنے اوپرتطہیر کا عمل کرلیاتھا،یعنی تزکیہ کا عمل۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت یہ ہے:جَنَّٰتُ عَدۡنٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَاۚ وَذَٰلِكَ جَزَآءُ مَن تَزَكَّىٰ (20:76)۔ یعنی، ان کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بدلہ ہے اس شخص کا جو اپنا تزکیہ کرے۔

موجودہ دنیاامتحان کی دنیاہے ۔یہاں ہر آدمی حالتِ امتحان میں پیداکیاجاتاہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرناہے کہ وہ اپنی ذات کی تطہیر کا ایک مسلسل عمل شروع کرے ۔یہاں تک کہ اس کی آلودہ شخصیت پاک وصاف ہوکر مزکیّ شخصیت میں بدل جائے ۔

جنتی انسان وہ انسان ہے جو کانٹوں کے درمیان پھول بن کر رہے ۔جو اندھیروں کے درمیان روشنی کا مینار بن سکے ۔جوزلزلوں اورطوفانوں کے درمیان سکون کا راز پالے ۔جو نفرتوں کے درمیان محبت کا ثبوت دے ۔جو لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود یک طرفہ طورپرانہیں معاف کردے۔ جو کھونے میں بھی پانے کا تجربہ کرے۔

جنتی انسان وہ ہے جو بظاہرخداسے دور ہوتے ہوئے بھی خداسے قریب ہوگیاہو۔جوسورج کی شعاعوں میں خدا کے نور کو دیکھے۔جو ہوائوں کے جھونکے میں لمسِ ربانی کا تجربہ کرے۔ جو پہاڑوں کی بلندی میں خداکی عظمت کاتعارف حاصل کرسکے ۔جو دریائوں کی روانی میں خداکی رحمت کا مشاہدہ کرے ۔جو مخلوقات کے آئینہ میں خالق کا جلوہ دیکھنے لگے۔

خدانے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ یہ بتادیاہے کہ جنتی انسان کی صفات کیاہوتی ہیں ۔جو لوگ دنیاکی زندگی میں اپنے اندرجنتی صفات پیداکریں ،وہ موت کے بعد جنت میں داخلہ کے مستحق قرار پائیں گے۔ جنت وہ معیاری دنیا (ideal world)ہے،جہاں پوری انسانی تاریخ کے مزکیّ افراد آباد کیے جائیں گے۔ یعنی وہ لوگ جو غفلت کی زندگی کو ترک کرکےشعور کی زندگی کو اختیار کریں۔جو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں۔ جواپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائیں جو تقوی اور انسانی خیرخواہی سے روکنے والی ہیں ۔مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر انداز کردیں۔نفس کی خواہش ابھرے تو وہ اس کو کچل دیں ۔ظلم اورگھمنڈ کی نفسیات جاگے تو وہ اس کو اپنے اندردفن کردیں۔

جنت میں داخلہ نہ کسی سفارش کی بنیاد پر ہوگا،نہ کسی کے ساتھ نسبت کی بنیاد پر اورنہ کسی پُراسرار عملیات کی بنیاد پر۔جنت میں داخلہ پوری طرح معلوم حقیقت پر مبنی ہے ۔اوروہ یہ کہ جو آدمی موجودہ دنیامیں اپنے قول وعمل کے اعتبار سے جنتی انسان بن کررہے گا،وہ آخرت کی جنت میں داخلہ پائے گا۔

غلط فہمی

مفسر ابن کثیر (وفات 1373ء)نے سورہ بنی اسرائیل (آیت 110) کے تحت ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ: يَا رَحْمَنُ يَا رَحِيمُ، فَقَالَ: إِنَّهُ يَزْعُمُ ‌أَنَّهُ ‌يَدْعُو ‌وَاحِدًا ‌وَهُوَ ‌يَدْعُو اثْنَيْنِ (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ 117)۔ یعنی، مشرکین میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ سجدہ میں کہہ رہے تھے کہ اے رحمن، اے رحیم۔ مشرک شخص نے یہ سن کر کہا کہ یہ شخص سمجھتا ہے کہ وہ ایک خدا کی دعوت دینے والا ہے، حالاں کہ وہ دو خداؤں کو پکار رہا تھا۔

یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح بہت سی شکایتیں اور اعتراضات محض آدمی کی اپنی کم فہمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم ایک خدا کو اس کی کئی صفتوں کے ساتھ پکار رہے تھے۔ کیوں کہ خدا اگر چہ ایک ہے مگر اس کی صفتیں بے شمار ہیں ۔ مگر مذکورہ اعرابی نے صفات میں تعدد کو وجود میں تعدد کے ہم معنی سمجھ لیا اور اس طرح ایک موحد انسان کے بارے میں غلط طور پر یہ رائے قائم کر لی کہ وہ بھی اسی کی طرح مشرک ہے۔

انسان ایک بے حد پیچیدہ مخلوق ہے اس کی زندگی کے لاتعداد پہلو ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے بارے میں رائے قائم کرنا بے حد دشوار کام ہوتا ہے۔ اس میں 50 فی صدسے زیادہ غلط فہمی کا امکان ہے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ دوسرے شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے میں وہ نہایت محتاط ہو۔خوش گمانی قائم کرنے میں آدمی اگر غیر محتاط ہو تو کوئی حرج نہیں۔ مگربدگمانی قائم کرنا ہو تو آدمی کے لیے لازم ہے کہ وہ بے حد سنجیدہ ہو ، وہ آخری حد تک احتیاط سے کام لے۔

پیغمبر اسلام کی زندگی میں اس اصول کی ایک مثال یہ ہے کہ خلافت کے لیے آپ اپنے بعد حضرت ابوبکرصدیق کو سب سے زیادہ اہل سمجھتے تھے۔مگر آپ نے کبھی اپنی زبان سے اس کا صراحۃً اظہار نہیں فرمایا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھاکہ آپ کے بعد آپ کے اصحاب خود ہی اس مطلوب فیصلہ تک پہنچ جائیں گے ۔حضرت ابوبکرصدیق کی موجودگی میں وہ کسی اورکو اپناامیر یاخلیفہ نہیں بنائیں گے۔چنانچہ ایساہی ہوا۔پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد جب امارت کا سوال پیدا ہوا تو صحابہ نے تقریباً اتفاق رائے سے حضرت ابوبکرصدیق کو اپناخلیفہ چن لیا۔

مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس نظیر کے باوجود خلیفہ اول نے اس معاملہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ اپنے بعد خلیفۂ دوم کے معاملہ کو انھوں نے عمومی انتخاب کے اوپر نہیں چھوڑا۔بلکہ صراحت کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو اس منصب کے لیے نامزد فرمایا۔

اس کا سبب یہ تھا کہ لوگوں کو حضرت عمر فاروق کے بارے میں ایک سخت قسم کی غلط فہمی تھی۔ حضرت عمر فاروق کے مزاج میں شدت تھی ۔لوگ حضرت عمر فاروق کے اخلاص اورقربانی کے معترف تھے۔ مگران کویہ اندیشہ تھاکہ ایک ایساآدمی خلافت کے نازک منصب کے لیے موزوں نہیں جس کے اندرشدت اورتنقید کامزاج پایاجائے۔حضرت عمر فاروق کے بارے میں لوگوں کی اسی غلط فہمی کی بناپر خلیفۂ اول کو یہ اندیشہ تھاکہ اگرانہوں نے خود سے عمر فاروق کو نامزد نہیں کیاتو آپ کے بعد مسلمان شاید ان کو اپناامیر بنانے پر اتفاق نہ کرسکیں گے اوراس طرح عین وہی شخص مسلمانوں کا امیر بننے سے رہ جائے گا جو اپنی خصوصی اہلیت کی بناپر مسلمانوں کی پوری جماعت میں امیر یا خلیفہ بننے کا سب سے زیادہ اہل ہے ۔

مگر یہ غلط فہمی سراسر بے بنیاد تھی ۔اصل حقیقت برعکس طورپر یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ان انتہائی نادر انسانوں میں سے تھے جن کو تاریخ ساز انسان کہاجاتاہے ۔مگر اس غیر معمولی صفت کے باوجود بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتاتھاکہ خلیفۂ دوم کے منصب کے لیے لوگ ان کے نام پر متفق ہوجائیں گے ۔یہی اندیشہ تھاجس کی بناپر خلیفۂ اول کو اس معاملہ میں پیشگی نظیر کے باوجود اجتہاد کرناپڑا۔چنانچہ انھوں نے ذاتی مداخلت کرتے ہوئے عمرفاروق کو اپنے بعدخلافت کے لیے نامزد کردیا۔

خلافت کے تعلق سےحضرت عمر فاروق کے بارے میں لوگوں کی یہ رائےدرست نہ تھی۔حضرت عمر فاروق بے حد اصول پسند انسان تھے۔وہ حق کے معاملہ میں مصالحت کو گوارہ نہیں کرتے تھے۔اس چیز نے ان کے مزاج میں شدت پیداکردی تھی ۔وہ جب بھی کسی کو کوئی غلط بات کہتے ہوئے یاغلط کام کرتے ہوئے دیکھتے تو وہ اس پر سخت تنبیہ وتنقیدکرتے ۔وہ جس چیز کو حق سمجھتے اس کے اعلان میں وہ کبھی کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے ۔اس بناپر لوگ ان سے دوررہنے لگے۔حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خداعمر پررحم کرے،وہ حق کہتے ہیںاگرچہ وہ کڑوا ہو، ان کا سرمایہ حق ہے،اوران کا کوئی دوست نہیں (رَحِمَ اللهُ عُمَرَ، يَقُولُ الحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا، تَرَكَهُ الحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيقٌ) سنن الترمذی، حدیث نمبر 3714۔

مگرحضرت عمر فاروق کی شدت صرف ناحق کے خلاف ہوتی تھی، نہ کہ کسی انسان کے خلاف۔ وہ عین اس وقت بھی انسان کے خلاف نفرت سے خالی ہوتے جب کہ وہ اس کی تنبیہ کررہے ہوتے تھے۔ ان کے دل میں عین اس وقت بھی انسان کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہوتاتھاجب کہ بظاہر وہ اس کے خلاف غصہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ان کی ہرسختی میں ایک نرمی چھپی ہوتی تھی ۔ان کی ہر تنقید کے پیچھے محبت کاجذبہ کارفرماہوتاتھا۔

عام لوگ اس نازک فرق کو نہ سمجھ سکے ۔اس لیے انہیں حضرت عمر فاروق کے بارے میں سخت غلط فہمی پیداہوگئی ۔تاہم جولوگ زیادہ باشعور تھے وہ اس راز کو سمجھتے تھے۔چنانچہ جب حضرت ابوبکر نے حضرت عثمان سے حضرت عمر کے بارے میں پوچھا توحضرت عثمان نے ان کے بارے میں کہاکہ ان کا اندران کے باہر سے بہتر ہے ، اور ہمارے درمیان ان کے جیسا کوئی نہیں ہے (سَرِيرَتُهُ ‌خَيْرٌ ‌مِنْ ‌عَلانِيَتِهِ وَأَنَّهُ لَيْسَ فِينَا مِثْلَهُ) ۔اسی طرح حضرت ابوبکر نے لوگوں کی شکایات کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ عمر پر جب خلافت کی ذمہ داری آئے گی تو وہ اپنے آپ نرم ہوجائیں گے (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر،جلد2، صفحہ 425)۔

اس واقعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ غلط فہمی کتنی خطرناک چیز ہے ۔غلط فہمی کی بناپر آدمی ایک شخص کے بارے میں بالکل الٹی رائے قائم کرلیتاہے ۔حالاںکہ وہ شخص اس غلط رائے سے بالکل پاک ہوتاہے ۔اس قسم کی منفی رائے غلط فہمی میں مبتلاہونے والے کے اپنے دماغ میں ہوتی ہے۔ باہر کی دنیامیں سرے سے اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔یہ غلط فہمی بلاشبہ ایک سنگین قسم کا اخلاقی جرم ہے۔ ہر آدمی پر لازم ہے کہ اس جرم سے اپنے آپ کو بچائے ۔

غلط فہمی سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری تدبیر یہ ہے کہ آدمی محض سن کر کسی بات پر یقین نہ کرے۔سنی ہوئی بات اکثر غلط ہوتی ہے ۔کسی معاملہ کی صحیح رپورٹ دینابے حد مشکل کام ہے ۔ ایسے لوگ ہمیشہ بہت کم ہوتے ہیں جو کسی واقعہ کو ٹھیک ویساہی بیان کریں جیساکہ وہ ہے۔ اگر ایک آدمی کے دل میں دوسرے آدمی کے خلاف غلط فہمی پیداہوجائے تو فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ غلط فہمی میں مبتلاہونے والا شخص اس آدمی سے ملے اورخود صاحب ِمعاملہ سے تحقیق کرے۔براہِ راست تحقیق کے بغیر کسی کے بارے میں بری رائے قائم کرناسخت گناہ ہے ۔

جو آدمی غلط فہمی میں مبتلاہواس کے اوپر یہ فرض ہے کہ اس نے جس طرح کسی کے بارے میں ایک بری رائے قائم کی ہے اسی طرح وضاحت کے بعد وہ اس بری رائے کو اپنے دماغ سے نکالے اوراپنی غلطی کا کھلااعتراف کرتے ہوئے اپنے ذہن کی اصلاح کرلے ۔جس آدمی کے اندرغلطی کے اعتراف کامادہ نہ ہواس کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ کسی کے بارے میں غلط رائے کو اپنے ذہن میں جگہ دے ۔

تجربہ بتاتاہے کہ غلط فہمی اکثر حالات میں بے بنیاد ہوتی ہے ۔آدمی یک طرفہ رپورٹ یا ناقص معلومات کی بنیاد پر ایک بری رائے قائم کرلیتاہے ۔حالانکہ اگر کھلے ذہن کے ساتھ تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگاکہ وہاں سرے سے ایسی کوئی چیز موجود ہی نہ تھی ۔

آدمی کو چاہیے کہ وہ یاتو اتناباشعور بنے کہ وہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ لے ،اس کا ذہن اپنے آپ ہی غلط فہمی کو اپنے اندر جگہ دینے سے انکار کردے ۔اوراگر کوئی آدمی اتنازیادہ باشعور نہ ہوتو انسانیت کا دوسرادرجہ یہ ہے کہ وہ غلط فہمی میں پڑنے سے پہلے براہِ راست طورپر اس کی مکمل تحقیق کرے ۔وہ اس وقت تک ہرگز کسی بات کو نہ مانے جب تک وہ تحقیق کی تمام شرطوں کے ساتھ اس کا جائزہ نہ لے چکاہو۔

تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جوہر بری بات کو سنتے ہی اسے مان لیں ۔ایسے لوگ بلاشبہ اسلام سے دور ہیں ۔خواہ بطورخود وہ اپنے آپ کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر سمجھتے ہوں ۔

غلط فہمی دراصل ناقص معلومات کی بنیاد پر کامل رائے قائم کرنے کا دوسرا نام ہے ۔اکثر اوقات ایساہوتاہے کہ ایک آدمی کسی کے بارے میں ایک جزئی بات سنتاہے اوراس سے وہ اس آدمی کی کلی تصویر بنالیتاہے ۔کبھی کسی کا قول اس کے سیاق سے الگ ہوکرسامنے آتاہے اورپورے سیاق کی روشنی میں دیکھے بغیر ایک ایسی رائے قائم کرلی جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔کبھی کسی آدمی کے ایک ظاہری پہلوکو دیکھ کر اس کے باطن کے بارے میں ایک نظریہ بنالیاجاتاہے ۔کبھی کسی سنی ہوئی بات کو ٹھیک ویساہی مان لیاجاتاہے حالانکہ مختلف راویوں سے گزر کروہ بات آخر کار ایک ایسی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کا اصل واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔کبھی ایساہوتا ہے کہ آدمی کے علم میں ایک بات آتی ہے اوروہ خود ساختہ تعبیر کے ذریعہ اس کا ایک مفہوم متعین کرلیتاہے حالانکہ یہ تعبیر اصل حقیقت کے بالکل خلاف ہوتی ہے ۔

اس قسم کی مختلف صورتیں ہیں جو غلط فہمی کا سبب بنتی ہیں ۔غلط فہمی کا یہ معاملہ اتنازیادہ وسیع ہے کہ انتہائی صالح افراد بھی اس کی زد سے مستثنیٰ نہیں ۔اکثر ایساہواہے کہ لوگوں نے کسی کے خلاف انتہائی بھیانک قسم کی رائے قائم کرلی ۔حالانکہ اس کے پیچھے بے بنیاد غلط فہمی کے سوااورکچھ نہ تھا۔

ایسی حالت میں غلط فہمی کے گناہ سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ آدمی کسی کے خلاف رائے قائم کرنے میں سخت محتاط ہو۔وہ مکمل تحقیق کے بغیر کبھی ایسی کوئی رائے قائم نہ کرے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ یاتوسرے سے کسی کے بارے میں کوئی رائے ہی قائم نہ کرے اوراگر رائے قائم کرناضروری ہوتو اس کی تحقیق کا حق اداکرے۔رائے قائم نہ کرنے پر کسی کی کوئی پکڑنہیں ۔مگر رائے قائم کرتے ہی آدمی خداکی پکڑ کی زد میں آجاتاہے ۔رائے قائم نہ کرنے والا معذور قرار دیا جاسکتا ہے ۔ مگر مخالفانہ رائے قائم کرتے ہی اس کا عذر ختم ہوجاتاہے ۔اب اس کا معاملہ یہ ہوجاتاہے کہ یاتووہ دوسرے کے بارے میں اپنی مخالفانہ رائے کو دلیل سے ثابت کرے،یاخود اسی چیز کا مجرم بنے جس کا الزام وہ بے بنیاد طورپر دوسرے کو دیناچاہتاتھا۔

غلط فہمی یابدگمانی کوئی سادہ بات نہیں ۔یہ بے حد ذمہ داری کی بات ہے ۔اگر آپ کسی کے خلاف براگمان کرلیں تو آپ اپنے کو اس خطرہ میں مبتلاکررہے ہیں کہ اگر فریقِ ثانی برانہ ہوتو خدا کی نظرمیں آپ خود اسی برائی کے ذمہ دار قرار پائیں ،جس کا ذمہ دار آپ دوسرے کوسمجھے ہوئے تھے۔

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ ‌إِنْ ‌لَمْ ‌يَكُنْ ‌صَاحِبُهُ كَذَلِكَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6045)۔یعنی جب کوئی شخص کسی کے اوپرفسق کا الزام لگائے یااس کے اوپرکفر کاالزام لگائے تو اس کا الزام خود اسی کی طرف لوٹ آئے گااگر دوسرا شخص ویسانہ ہو۔

بے بنیاد غلط فہمی بھی بلاشبہ ایک الزام کی حیثیت رکھتی ہے ۔وہ کسی کے بارے میں ایک ایسی غلط فہمی میں مبتلا ہوناہے جو باعتبارِ واقعہ درست نہیں ۔ایسی حالت میں غلط فہمی یابد گمانی سے بچناخود اپنے فائدے کے لیے ضروری ہوجاتاہے ۔وہ آدمی کاخود اپنامسئلہ بن جاتاہے ۔کیونکہ فریقِ ثانی میں اگر وہ برائی نہ ہوتو خود بدگمانی کرنے والا اس کا مجرم قرار پائے گا۔

یہ حدیث ِرسول بے حد سنگین ہے ۔اس کا تقاضہ ہے کہ آدمی غلط فہمی یابدگمانی کے معاملہ میں آخر ی حد تک سنجیدہ ہوجائے۔غلط فہمی اگر سادہ نوعیت کی ہو،مثلاًآپ کسی کے بارے میں یہ رائے قائم کریں کہ وہ جلد غصہ میں آجاتاہے تو اس میں اس کے لیے کوئی بڑاخطرہ نہیں ۔لیکن اگر کسی کے بارے میں غلط فہمی کی بناپر ایسی سنگین رائے قائم کرلی جائے جو اخلاقی یاشرعی جرم کی حیثیت رکھتی ہوتو ایسی صورت میں معاملہ بے حدسنگین ہوجائے گا ۔ایسی سنگین غلط فہمی گویادو دھاری تلوار ہے ،وہ اگر فریقِ ثانی کو نہ کاٹے تو خود آپ کی ہلاکت کا سبب بن جائے گی ۔

ہر آدمی کو جاننا چاہیے کہ وہ جو کچھ رائے قائم کرتا ہے اپنی معلومات کے دائرہ میں کرتا ہے۔ اب چونکہ حقائق کا دائرہ کسی شخص کی ذاتی معلومات سے بہت زیادہ وسیع ہے، اس لیے ہر وقت یہ امکان ہے کہ اپنی معلومات کے دائرہ میں وہ ایک رائے کو صحیح سمجھ لے۔ حالانکہ وسیع تر حقائق کے اعتبار سے اس کی رائے صحیح نہ ہو ۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ جب دوسرے کے بارے میں رائے قائم کرنا ہو توخوش گمانی کے معاملہ میں وہ حد درجہ فیاض بن جائے اور بد گمانی کے معاملہ میں حد درجہ بخیل۔ یہی عقل کا تقاضا بھی ہے اور یہی خدا کے خوف کا تقاضا بھی ۔

کائناتی کلچر

میل ملاپ کوئی سادہ بات نہیں ۔وہ ہرقسم کی انسانی ترقی کازینہ ہے ۔جس سماج میں لوگوں کے درمیان ملناجلنانہ ہووہاں ہر ایک محدود ہوکر رہ جائے گا۔کوئی بھی شخص یاگروہ زیادہ آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔میل ملاپ فطرت کاقانون ہے ۔وہ ساری کائنات میں ہرطرف جاری ہے ۔درخت ایک دوسرے سے نہیں مل سکتے تو خدانے ان کے درمیان ہوائیں چلادیں جس کے ذریعہ وہ ایک دوسرے سے جڑجاتے ہیں ۔خلاکے ستارے ایک دوسرے سے بہت دورہیں ،ان کا آپس میں جسمانی طورپر ملناممکن نہیں،خدانے انھیں روشنی دے دی ۔چنانچہ وہ روشنی کے ذریعہ ایک دوسرے سے مربوط ہوجاتے ہیں ۔پہاڑ کی چوٹیوں سے جاری ہونے والے چشمے سمندرسے بہت دور تھے مگر خدانے ان کے لیے بہائوکی صورت پیداکردی ۔اس طرح یہ چشمے دریائوں میں بہتے ہوئے سمندر میں جاکر مل جاتے ہیں ۔

میل ملاپ ایک یونیورسل کلچرہے ۔یہی یونیورسل کلچرانسان کو بھی اختیار کرناہے ۔قرآن کے مطابق،بقیہ کائنات کانظام آپسی ٹکراؤ کے بغیردرست طورپر باہمی ہم آہنگی کے ذریعہ چل رہا ہے (یٰس،36:40)۔ٹھیک اسی طرح انسانی زندگی کا نظام بھی درست طورپراس وقت چل سکتاہے جب کہ انسان بھی اس کائناتی کلچرکواختیارکرے۔

دوانسان یازیادہ انسان جب باہم ملتے ہیں تو یہ پتھروں کا باہم ملنانہیں ہوتا۔بلکہ یہ ایسی مخلوق کا ملناہوتاہے جس کے اندرعقل اور جذبات کی صلاحیتیں موجود ہیں ۔اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسانوں کا آپس میں ملناجلنامختلف قسم کے عظیم فائدوں کاسبب بن جاتاہے ۔اس طرح باہمی محبت بڑھتی ہے۔ یہ عمل ذہنی ارتقاء میں مددگار بنتاہے ۔لوگ ایک دوسرے کے تجربات سے نئی نئی باتیں سیکھتے ہیں۔ ہرفرد انسانیت کے مجموعی خزانے میں حصہ دار بن جاتاہے ۔میل ملاپ صرف ایک سماجی سلوک نہیں ۔ وسیع ترمعنی میں،وہ زندگی کی ایک عظیم ترحکمت ہے ۔اس حقیقت کی طرف ایک حدیثِ رسول میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہےکہ وہ مومن جو لوگوں سےمیل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اجر میں اس سے زیادہ ہے جو ایسا نہیں کرتا(مسند احمد، حدیث نمبر 5022)۔

کرائٹیرین کا مسئلہ

 کرائٹیرین (criterion)کیا ہے— ایک اصول یا معیار یا جانچ جس کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہو یا فیصلہ کیا جاسکتا ہو:

A principle or standard or test by which something may be judged or decided.

کرائٹیرین کامسئلہ بے حد اہم مسئلہ ہے ۔بیشترفکری گمراہیاں صرف اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں کرائٹیرین واضح نہیں ہوتا۔اکثرایساہوتاہے کہ آدمی اپنے آپ کو صحیح سمجھ رہا ہوتا ہے، حالاں کہ جس کرائٹیرین سے وہ اپنی بات کوجانچتا ہے، وہ غلط کرائٹیرین ہوتاہے ۔ اگر وہ اپنی بات کودرست کرائٹیرین پر جانچے تو وہ جان لے گا کہ اس کی سوچ صد فی صد غلط ہے ۔

مثال کے طورپرخلیفۂ اول حضرت ابوبکر نے جب حضرت عمر فاروق کو امیر المومنین مقررکیاتو بیشترصحابہ اس رائے سے اتفاق نہ کرسکے ۔ان کاکہنایہ تھا کہ عمر ایک سخت گیر انسان ہیں اورسخت گیر انسان کو امیر المومنین نہیں ہوناچاہیے۔حضرت ابوبکر نے اس کاجواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ صحیح ہے کہ وہ سخت گیر ہیں،مگران کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا۔ میں تم لوگوں کا خلیفہ اس شخص کو بنا رہا ہوں جو خلافت کے لیے سب سے اہل ہے (الکامل فی التاریخ، جلد 2، صفحہ 266-67)۔ 

اس سے معلوم ہواکہ جولوگ عمر فاروق کی امارت کے مخالف تھے وہ اپنی رائے کے حق میں غلط کرائٹیرین استعمال کررہے تھے۔امیر کے لیے اصل کرائٹیرین یہ نہیں ہے کہ وہ سخت ہے یانرم۔اس کے بجائے اصل کرائٹیرین یہ ہے کہ وہ مدبر انسان ہو۔وہ خداسے ڈرنے والاہو۔وہ کمزور شخصیت کا مالک نہ ہو۔وہ حق اورناحق میں فرق کرناجانتاہو۔

صحیح کرائٹیرین کے اعتبار سے دیکھاجائے تو معلوم ہوگاکہ خلافت کے لیے حضرت عمر فاروق کا انتخاب نہایت درست تھا۔اس کے برعکس، اگر اس معاملے کو غلط کرائٹیرین سے دیکھاجائے تو ایک شخص کہے گا کہ خلافت کے لیے عمر فاروق کا انتخاب درست نہ تھا۔کیوںکہ ان کے مزاج میں بہت زیادہ شدت تھی ۔حالانکہ یہ کرائٹیرین ہی اس معاملے میں بجائے خود درست نہیں — جیساکام ہوویسی ہی اہلیت درکار ہوتی ہے ۔

حقیقت پسندی

اگر آپ میدان میں ہوں اور بارش آجائے تو آپ بھاگ کر سایہ کے نیچے چلے جاتے ہیں ۔یہ پسپائی نہیں ہے بلکہ حقیقت پسندی ہے۔ اسی طرح اگرزلزلہ آجائے تو آپ گھر سے نکل کر کھلے میدان میں آجاتے ہیں۔یہ بھی پسپائی نہیں ہے بلکہ ایک فطری حقیقت کا اعتراف ہے۔ جہاں انسان کا اور فطرت کا معاملہ ہو وہاں مسئلہ کا حل صرف اعتراف ہوتا ہے، نہ کہ ٹکرائو۔

بارش اور زلزلہ کانظام جو خالق فطرت نے دنیا میں رکھ دیا ہے۔ انسان اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ انسان صرف یہ کر سکتا ہے کہ اپنے آپ کو اس کے نقصان سے بچانے کی تدبیر کرے۔ اور اس کے نقصان سے بچنے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ اعراض کا اصول اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کی زد سے ہٹا دیا جائے۔ اسی لیے آپ بارش کے وقت سایہ میں آجاتے ہیں اور زلزلہ کے وقت میدان میں ۔

ٹھیک یہی معاملہ صبر اور اعراض کے اصول کابھی ہے۔ صبر اور اعراض کارویہ کسی قسم کی بزدلی یا پسپائی نہیں ہے۔ وہ سادہ طور پر صرف حقیقت پسندی ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ خالقِ فطرت نے انسان کو امتحان کی غرض سے آزادی عطا کی ہے۔ انسان اپنی آزادی کا استعمال کبھی صحیح کرتا ہے او رکبھی غلط ۔ اب آپ کیاکریں۔ اگر آپ ہر انسان سے لڑنے لگیں تو لوگوں سے آپ ان کی آزادی چھین نہیں سکتے۔ کیوں کہ یہ آزادی ان کو خود مالک ِکائنات نے دے رکھی ہے، لوگوں کی آزادی چھیننے کی بے فائدہ کوشش کانتیجہ صرف یہ ہوگا کہ آپ اپنے نقصان میں اضافہ کرلیں گے۔

ایسی حالت میں صرف ایک ہی ممکن رویہ ہے ۔ اور وہ وہی ہے جس کو صبر (patience) کہاجاتا ہے۔یعنی لوگوں کی طرف سے اگر کبھی تلخی اور ناگواری پیش آجائے تو اس سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفرِ حیات جاری رکھا جائے۔

صبر واعراض دوسروں کامسئلہ نہیں ، وہ خود اپنا مسئلہ ہے۔ بے صبری آدمی کے سفر کو روک دیتی ہے۔ اور صبر اس بات کوممکن بناتا ہے کہ آدمی کی زندگی کاسفر کامیابی کے ساتھ جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے۔

نظامِ فطرت

ایک شاعر کا قطعہ ہے ۔ اپنے ان شعروں میں اس نے نہایت سادہ طور پر زندگی کی حقیقت بتادی ہے ۔ وہ قطعہ یہ ہے:

کہا: کیا اونٹ پر بیٹھوں کہا: ہاں اونٹ پر بیٹھو

کہا :کوہان کاڈر ہے         کہا :کوہان تو ہو گا

کہا: دریا میں کیا اتروں کہا: دریا میں ہاں اترو

کہا :طوفان کاڈرہے   کہا :طوفان تو ہو گا

کہا: کیا پھول کو توڑوں کہا: ہاں پھول کو توڑو

کہا: پَر خار کاڈرہے          کہا: پَر خار تو ہوگا

یہی موجودہ دنیا میں زندگی کی حقیقت ہے۔ یہاں اونٹ ہے تو کوہان بھی ہے۔ یہاں ہموار پیٹھ والا کوئی اونٹ موجود نہیں۔ یہاں دریا میں طوفان کا مسئلہ بھی ہے، یہاں کوئی ایسا دریانہیں پایا جاتا جس میں سکون ہی سکون ہو، تموج(waves) نام کی کوئی چیزوہاں موجود نہ ہو۔ اسی طرح یہاں خدا کے اگائے ہوئے باغ میں اگر خوب صورت پھول ہیں تو اسی کے ساتھ خار (نوک دار کانٹے) بھی ۔

اس کامطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو آدمی کوئی چیز حاصل کرنے کا خواہش مند ہوا س کو پیشگی طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ یہاں ترقی کا سفر کبھی ہموار راستوں سے طے نہیں ہوتا۔ یہاں مسائل پر قابو پانے کے بعد ہی کسی آدمی کے لیے کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں۔ جو آدمی مسائل ومشکلات کو عبور کرنے کا حوصلہ نہ رکھتا ہو، اس کو خدا کی اس دنیا میں کسی قسم کی کامیابی کی امید بھی نہ رکھنا چاہیے۔

خدا کی دنیا ویسی ہی رہے گی جیسا کہ اس کو بنا یا گیا ہے۔ اس کو بدلنا یقینی طور پر ہمارے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے یہاں زندگی اور کامیابی کی صرف ایک صورت ہے —  دنیا میں قائم شدہ نظامِ فطرت سے وہ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلے۔ اس کے سوا ہر دوسری صورت آدمی کی ناکامی میں اضافہ کرنے والی ہے، نہ کہ اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچا نے والی۔

نئے سال کا پیغام

مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنی ڈائری میں ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں لکھا ہے— "صبح ہر ایک کے لیے آتی ہے۔ مگر روشن صبح کوصرف وہ شخص دیکھتا ہے جو صبح کے وقت اپنی آنکھ کھلی رکھے۔جو آدمی اپنی آنکھیں بند کر لے اس کے لیے کوئی صبح صبح نہیں۔" یہ اصول موجودہ دنیا کے ہرانسان کے لیے ہے، اور ہر ایک فیلڈ کے لیے ۔ صبح کودیکھنے کا مطلب ہے مواقع کو پاکر اس کو اویل (avail)کرنا۔ نیا سال گویاخدا کی طرف سے 365 دنوں کا نیا موقع ہے۔ مگر جس طرح دوسری چیزوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، اسی طرح خدا کے دیے ہوئے مواقع کو اویل کرنے کی بھی ایک قیمت (price) ہے۔ وہ قیمت کیا ہے؟ مختصر الفاظ میں یہ قیمت ہےاپنے آپ کو ایک سنسیر (sincere)انسان بنانا، زندگی کے حکیمانہ اصولوں کو اپنانا اور غیر حکیمانہ روش کو ترک کرنا۔ اس کی وضاحت کے لیے ذیل میں مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کچھ تحریریں پیش کی جارہی ہیں(فرہاد احمد)۔

انسان کی خصوصیت

انسان ایک ذی حیات مخلوق ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، موجودہ دنیا میں اندازہ کے مطابق، تقریباًایک ٹریلین (one trillion) کی تعداد میں ذی حیات اشیاء (living things) پائی جاتی ہیں۔ان تمام ذی حیات چیزوں میں انسان ایک خصوصی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ تمام اشیاء کامل طور پر قانون فطرت (law of nature) کی پابند ہیں۔ پوری دنیا میں انسان ایک واحد مخلوق ہے، جس کو کامل آزادی ملی ہوئی ہے۔ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے عمل کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی امتیازی صفت کو قرآن میں خلافت (2:30) اور امانت (33:72)کہا گیاہے۔

اسی صفت خاص کی بنا پر انسان کے لیے اگلے دورِ حیات میں ابدی جنت کا انعام ہے۔ دوسری ذی حیات اشیاء کے برعکس، انسان کو اپنی زندگی میں ایک امتیازی عمل کا نمونہ پیش کرنا ہے۔ اس کو خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہوناہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت صحیح راستہ پر چلنا ہے، اس کو خود اپنے ارادے کے تحت سیلف کنٹرول (self control) کی زندگی گزارنا ہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت اطاعت کی زندگی اختیار کرنا ہے۔یہی انسان کا امتیاز ہے۔ مگر ہر عطیہ کے ساتھ ہمیشہ ایک ذمہ داری شامل رہتی ہے۔ چنانچہ انسان کے اس امتیاز کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو امتحان (test) کہا جاتا ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکادے۔ آزادی کے باوجود وہ اللہ کا فرمانبردار بن جائے۔ آزادی کے باوجود وہ اپنے آپ کو سرکشی اور بے راہ روی سے بچائے۔ وہ خود دریافت کردہ سچائی پر کھڑا ہو، اور خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا طریقہ اختیار کرے۔ اسی خود انضباطی کی روش کو قرآن اور حدیث میں لوجہ اللہ اور لاجل اللہ کہا گیا ہے۔ یہ عمل جو انسان سے مقصود ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر خالق نے سب سے بڑا انعام مقدر کیا ہے۔ ایک ایسا انعام جو کسی بھی دوسری مخلوق کو ملنےوالا نہیں، یعنی ابدی جنت ۔

اپنی تعمیر آپ

ہندستان ٹائمس (2جنوری 1993)میں صفحہ 11 پرمسٹر جے ایس یا دو کا مضمون ہے ۔ اس کی سرخی مجھے پسند آئی۔ اس کے الفاظ یہ ہیں — مصیبت کو مواقع میں تبدیل کرلینا:

. Turning adversity into an opportunity

یہی زندگی کی حقیقت ہے۔ اس دنیا میں مصیبتیں اور دشواریاں بہرحال پیش آتی ہیں۔ ان مصیبتوں اور دشواریوں کے خلاف احتجاج کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ،کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ مصیبتوں کو مواقع کار میں تبدیل کرلیا جائے۔

مصیبت کو مواقع میں کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟انسانی سماج کے اعتبار سے اس کا رہنمایانہ اصول قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:وَاِنْ ‌تَصۡبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لَا يَضُرُّكُمۡ كَيۡدُهُمۡ شَيۡـًٔا (3:120)۔ یعنی اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو دوسروں کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔

قرآن کی یہ آیت فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں سازش (conspiracy)کا ہونا، اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کا نہ ہوناہے۔ جن لوگوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو، اُن کے لیے دوسروں کی سازش اور دشمنی غیر موثر ہو کر رہ جائے گی، وہ اُن کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔

صبر کوئی انفعالی صفت (inaction)نہیں۔ صبر کا مطلب وہ اعلیٰ انسانی صفت ہے جس کو سیلف کنٹرول (self control) کہاجاتا ہے، یعنی دوسروں کے پیدا کردہ مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور خود اپنی مثبت سوچ کے تحت اپنی زندگی کا منصوبہ بنانا۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی سوچ خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) نہ ہو، بلکہ وہ خدا رُخی سوچ (God-oriented thinking)  ہو۔ سماج کے اندر اُس کا سلوک خدا کی تعلیمات کے مطابق ہو، نہ کہ اپنی خواہشات اور جذبات کے مطابق۔ جو لوگ صبر اور تقویٰ کی اِس روش کو اختیار کریں، اُن کے خلاف دوسروں کی منفی کارروائیاں اپنے آپ بے اثر ہوجائیں گی۔ کیوں کہ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی غیر مطلوب واقعہ ہمیشہ دو طرفہ کارروائی کے نتیجے میں پیش آتا ہے، نہ کہ صرف یک طرفہ کارروائی کے نتیجے میں۔

یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ کوئی شخص یا گروہ معتدل ذہن کے تحت کسی کے خلاف کوئی مخالفانہ کارروائی نہیں کرتا۔ ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے کے خلاف کوئی منفی کارروائی صرف اُس وقت کرتاہے، جب کہ اُس کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ ہر منفی کارروائی کسی اشتعال انگیز کارروائی کے نتیجے میں جوابی طورپر پیش آتی ہے۔ صبر اور تقوی آدمی کو اِس سے روکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صبر اور تقویٰ کسی شخص یا گروہ کے لیے حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔ ایسا شخص یا گروہ کسی بھی حال میں دوسرے کو مشتعل کرنے والا کام نہیں کرے گا، اِس لیے فطری طور پر وہ دوسرے کی طرف سے پیش آنے والی جوابی کارروائی سے بھی محفوظ رہے گا۔

یہ فطرت کا قانون ہے جس کو خود خالقِ فطرت نے مقرر کیا ہے۔ ایسی حالت میں سازش کے خلاف چیخ و پکار کرنا ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو داخلی طورپر مستحکم بنایا جائے، خود اپنے اندر زیادہ سے زیادہ صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔ اِس کے بعد شکایت کے اسباب اِس طرح ختم ہوجائیں گے، جیسے کہ وہ تھے ہی نہیں۔

خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God)  کے مطابق، زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع (opportunities)۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ، اسلام کے مطابق، یہ ہے کہ — مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے:

Ignore the problems, avail the opportunities

مسائل سے الجھنا، صرف اُس وقت کو ضائع کرنا ہے جو اِس دنیا میں ہم کو زندگی کی مثبت تعمیر کے لیے ملا ہوا ہے۔ یہی دانش مندی ہے اور یہی اسلام کا طریقہ بھی۔

مواقع کی دنیا

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (14 ستمبر 2007) میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اِس رپورٹ کا ایک جزء یہاں درج کیا جارہا ہے۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ایک مسلمان عظیم ہاشم پریم جی (پیدائش 1945)اِس وقت(2007 میں) پوری دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند مسلمان ہیں۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ "انڈیا" میں ہوا، جہاں کے بارے میں عام طورپر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

Premji richest Muslim tycoon: New York: India’s software czar Azim Premji now has a new nomenclature  - the world’s richest Muslim entrepreneur  - as he holds more wealth than any other Muslim outside the Persian Gulf royalty, a US media report said.   (The Times of India, New Delhi, September 14, 2007, p. 25)

عظیم ہاشم پریم جی کے اِس واقعے پر غور کیجیے تو اِس سے ایک بہت بڑی حقیقت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ انفرادی واقعہ ایک عالمی قانون کو بتا رہا ہے۔ وہ یہ کہ یہ دنیا مواقع (opportunities) کی دنیا ہے۔ اِس دنیا میں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ختم نہیں ہوتے(الانشراح، 94:5-6)۔ کو ئی بھی شخص یا گروہ اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو بدل سکے، یا وہ اس قانون کو منسوخ کردے۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ وہ قرآن کی آیت،لَا ‌تَبۡدِيلَ لِكَلِمَٰتِ ٱللَّهِ(10:64) کے عمومی حکم میں شامل ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہے:

The Word of God shall never change.

مقابلے کی دنیا

ایک ہندستانی نوجوان بزنس کے لیے باہر کے ایک ملک میں گئے۔ یہ بیرونِ ملک کے لیے ان کا پہلا سفر تھا۔ دو ہفتے کے بعد وہ اپنے سفر سے واپس آئے۔ میںنے پوچھا کہ آپ نے اپنے اِس بیرونی سفر میں سب سے بڑا تجربہ کیا حاصل کیا۔ انھوں نے ایک لمحہ سوچا اور اس کے بعد کہا— یہ کہ آج کی دنیا میں انا کے لیے کوئی جگہ نہیں:

Ego has no place in today's world.

یہ بے حد اہم بات ہے۔ ایک آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر کے ماحول میں لاڈ پیار (pampering) کے ماحول میں رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ گھر کے اندر اس کی شخصیت ہی مرکزی شخصیت ہے۔ دوسرے لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہے۔ گھر کے ماحول میں اس کی انا (ego) ہی مرکزی شخصیت کا درجہ رکھتی ہے۔

لیکن جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بالکل مختلف ماحول ہے۔ یہاں مکمل طورپر مقابلہ اور مسابقت (competition) کا ماحول ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے، وہ اُس کے ذاتی جوہر (merit) کی بنیاد پر ملتا ہے۔ انسان کے ذاتی جوہر کے سوا، کسی اور چیز کی یہاںکوئی قیمت نہیں۔ باہر کی دنیا مکمل طورپر اِس اصول پر قائم ہے— مقابلہ کرکے جیو، یا مر جاؤ:

Compete, or perish

یہ زندگی کی ایک سنگین حقیقت ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کو اِس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ماں باپ کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اِس امتحان کے لیے تیار کریں۔ اِس معاملے میںکوئی بھی دوسری چیز ذاتی تیاری (self-preparation) کا بدل نہیں بن سکتی۔ ذاتی تیاری ہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو مقابلے کی اِس دنیا میں کامیاب بنا سکتی ہے۔ موجودہ دنیا حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی غیر حقیقی بنیاد پر کامیابی کا حصول اِس دنیا میں ممکن نہیں۔

والدین کی ذمہ داری

اولاد کی تربیت نہ صرف افراد سازی کا عمل ہے، بلکہ یہ سماج کی ترقی کا سب سے بنیادی قدم ہے۔ تربیتِ اولاد کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہے:أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَھُمْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)۔یعنی اپنی اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔

اس حدیث میں ادبِ حَسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کے لیے بوجھ (liability)نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔

والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلاً بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو گے تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنی ہوگی۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش (duty conscious) بنائیں، نہ کہ رائٹ کانشش (right conscious

دریافت، دریافت، دریافت

جاپان کی ایک مثل ہے کہ — ہر دن کوئی نئی بات دریافت (discover) کرو، خواہ سوئی میں دھاگہ ڈالنے کا نیا طریقہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ مثل مادّی دریافتوں کے بارے میں ہے۔یہی اصول زیادہ بڑے پیمانے پر معرفت (realization)اور روحانیت (spirituality) کے معاملے پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ روحانیت اور معرفت کوئی جامد چیز نہیں۔ وہ درخت کی مانند ایک مسلسل ترقی پذیرچیز (growing entity)ہے۔

اصل یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ انسانی دماغ کے باہر جو حقائق کی دنیا (universe of facts) ہے، وہ بھی لامحدود ہے۔ایسی حالت میں جو آدمی اپنے ذہن کو مسلسل طورپر بیدار رکھے ا ور یکسوئی کے ساتھ غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر دن بلکہ ہر لمحہ نئی حقیقتوں کو دریافت کرتا رہے گا۔ اس کے لیے دریافتوں کا خزانہ کبھی ختم نہ ہوگا۔جس طرح مادی خوراک جسم کی غذا ہے، اُسی طرح روحانی دریافتیں معرفت کی غذا ہیں۔ مسلسل مادی خوراک جسم کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اِس طرح مسلسل روحانی دریافتیں کسی انسان کے لیے معرفت اور روحانیت کی زندگی اور ارتقا کی ضمانت ہیں۔

یہ دریافت گویا کہ ایک فکری پراسس (intellectual process) ہے۔ اِس پراسس کو مسلسل طورپر جاری رکھنے کی شرطیں صرف دو ہیں — غور وفکر کرنا، اور اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچانا۔جس آدمی کے اندر یہ دو چیزیں پائی جائیں، وہ ضرور دریافتوں والا انسان بن جائے گا۔ اس کے بعد کوئی بھی چیز اس کو نئی نئی دریافتوں تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔

دریافت روح کی زندگی ہے، دریافت ذہن کے لیے ذریعۂ ارتقا ہے۔ دریافت کسی انسان کو مکمل انسان بناتی ہے۔ دریافت کے بغیر کوئی انسان ایسا ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔

مسئلہ نہیںحل

ایک بار کا واقعہ ہے۔ ایک سفر میں میں ایک فیکٹری کو دیکھنے کے لیے گیا۔میں اس کے مینیجر کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اِس اثنا میں فیکٹر ی کا ایک کارکن کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے کہا: سر، پانی کی سپلائی رک گئی ہے۔ ہمارا کام بند ہوگیا ہے۔ مینیجر نے یہ بات سنی تو اس نے تقریباً چیخ کر کہا: پرابلم مت لاؤ، سلوشن لاؤ۔ کارکن واپس گیا اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ واپس آیا۔ اس نے کہا کہ میں نے ساتھیوں سے مشورہ کیا، سب کا کہنا یہ ہے کہ کارپوریشن کے واٹر سپلائی کے بجائے، یہاں بورِنگ کرکے خود اپنے پانی کا انتظام ہونا چاہیے۔ اِس کے بعدمینیجر نے ٹیلی فون اٹھایا اور کسی ٹھیکے دار سے کہا کہ ہماری فیکٹری میں بورنگ کی ضرورت ہے۔ آپ آج ہی اُس کا کام شروع کردیں۔ اگلے دن فیکٹری میں پانی کا ذاتی انتظام ہوچکا تھا۔

یہی کام کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں، یا آپ کسی کمپنی میں کام کررہے ہیں تو آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کا کام شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ آپ ذمے داروں کے پاس نہ شکایت لے جائیے اور نہ احتجاج۔ آپ ان کو بتائیے کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے۔ اور پھر آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جائیں گے۔

اگر آپ کسی ادارے سے وابستہ ہیں اور آپ وہاں کسی بات کو لے کر شکایت کرتے ہیں، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں ایک غیر جانب دار شخص بن کر رہ رہے ہیں۔ لیکن جب آپ مسئلے کا حل بیان کریں، تو آپ ادارے کے ایک مطلوب شخص بن جاتے ہیں۔ اب ادارہ آپ کو غیر کی نظر سے نہیں دیکھے گا، بلکہ اپنی تنظیم کے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھے گا۔ یہی زندگی کا صحیح طریقہ ہے۔ اِسی طریقے میںآپ کی اپنی کامیابی بھی ہے، اور ادارے کی کامیابی بھی۔

کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنادے۔ وہ دوسروں کے لیے سرمایہ (asset) بن جائے، نہ کہ بوجھ (liability) ۔ یہی اِس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ اِس کے سوا اِس دنیا میں کامیابی کا کوئی اور طریقہ نہیں۔

بااصول زندگی

دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust)کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد(mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option)  کسی کے لیے ممکن نہیں۔

اِس معاملے میں، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے۔ البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے یہ ایڈجسٹ مینٹ صرف مفاد(interest) کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ صابرانہ روش کی بنا پر ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔

اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ (adjustment)ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔ مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیرمسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر پُر امن انداز میں جاری رہے۔ محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میںاجر ِ عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔

مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception)  نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency)  کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔

اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میں اخلاص کا کوئی درجہ نہیں۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ، اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔

یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں۔

مسلمان کی اصل حیثیت

اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے، مسلمان داعی ہیں اور دوسری تمام اقوام اُن کی مدعو، یعنی مسلمان دین ِ خداوندی کے امین ہیں اور اُن کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اِس امانت کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اِسی فرض کی ادائیگی میںاُن کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک خدائی ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ مسلمان اپنی اِس ذمے داری کو صرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس کو اپنی زندگی میں بھر پور طور پر استعمال کریں۔ داعی کی ذمّے داری صرف داعیانہ کردار کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے، داعیانہ کردا ر کے بغیر دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی عورت کے لیے مادرانہ شفقت کے بغیر ماں کی ذمّے داری کو ادا کرنا۔

قرآن کے الفاظ میں، دعوت کا آغازنُصح (الاعراف،7:68) سے ہوتا ہے، یعنی مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی۔ دعوتی اخلاق کا تقاضا ہے کہ داعی کے دل میں اپنے مدعو کے لیے صرف مثبت جذبات ہوں، منفی جذبات سے اُس کا دل مکمل طورپر خالی رہے۔ اِسی کا نام یک طرفہ خیر خواہی ہے۔ اِس قسم کی یک طرفہ خیرخواہی کے بغیر داعی اپنی داعیانہ ذمّہ داری کو ادا نہیں کرسکتا۔

موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے ناخوش گوار تجربات پیش آتے رہتے ہیں، ایک کی کوئی بات دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام کو بدلنا ہرگز کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں، داعی کے اندر اپنے مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ صرف اُس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کے اصول پر قائم ہو۔ لوگوں کے ساتھ اُس کی روش دوسروں کے عمل کے زیر اثر نہ بنے، بلکہ وہ اُس کے اپنے سوچے سمجھے اصول کے تحت بنی ہو۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔

مسلمان داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں۔ داعیانہ شریعت میں، شکایت اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان جس قوم کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں گے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مدعو قوم ہوگی۔ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مدعو قوم کے ساتھ حریف قوم جیسا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کوہر حال میں اور ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق کو برقرار رکھنا ہے، کیوں کہ معتدل تعلقات کے ماحول ہی میں دعوت الی اللہ کا کام ہوسکتا ہے۔ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا کام انجام دینا ممکن ہی نہیں۔

قرآن کی سورہ الاحزاب میںایک حکم اِن الفاظ میںآیا ہے:وَدَعۡ ‌أَذَىٰهُمۡ وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ (33:48 )۔ یعنی اُن کی ایذاؤں کو نظر انداز کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے نہ مانگ کر اللہ سے مانگو، مطالباتی طریقہ چھوڑ کر دعا کا طریقہ اختیار کرو۔ اِسی لیے ہر پیغمبر نے اپنی مدعو قوم سے کہا :لَآ أَسۡـَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ ‌مَالًا(11:29) ۔یعنی میں تم سے کسی مادّی فائدے کا  طالب نہیں ہوں۔ میں صرف دینے والا ہوں، نہ کہ تم سے کوئی چیز لینے والا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مدعو قوم کے مقابلے میں، حقوق (rights)کے نام پر مطالباتی مہم چلانا، پیغمبرانہ سنت کے مطابق، سرے سے جائز ہی نہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ مگر جوچیز ختم ہوئی، وہ نبوت ہے، نہ کہ کارِ نبوت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبرکے دعوتی مشن کی بات ہے، وہ ہمیشہ اور ہر قوم کے درمیان جاری رہے گا۔ اِس اعتبار سے، مسلمان ختمِ نبوت کے بعد مقامِ نبوت پر ہیں، یعنی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر کے دعوتی مشن میں، بقدر استطاعت، اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتی عمل ہر فردِ مسلم کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے  (البقرہ2:143) ۔ جو لوگ اِس فرض کو ادا نہ کریں، اُن کے لیے سخت اندیشہ ہے کہ خدا کے نزدیک، وہ پیغمبرآخر الزماں کے امتی ہونے کا حق اپنے لیے کھو دیں۔

زندگی کا فارمولا

انسان کے لیے زندگی کا کامیاب فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے — آخرت کے لیے غم، اور دنیا کے لیے بے غم۔ یہی انسان کے تمام معاملات کا خلاصہ ہے۔ یہی واحد طریقِ زندگی (way of life) ہے جس میں انسان اپنے لیے سکون پاسکتاہے۔

انسان کے اندر پیدائشی طورپر طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انسان اپنی پوری ساخت کے اعتبار سے چاہتا ہے کہ کوئی چیز ہو جس کو وہ اپنا اصل کنسرن (sole concern) بنائے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی (energy)صرف کرے۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اور کوئی بھی شخص اِس فطری تقاضے سے خالی نہیں۔

انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش ایک مادّی دنیا (material world)پھیلی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اِس مادّی دنیا کے حصول کو اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہے۔ وہ اُس کے حصول کے لیے رات دن کوشش کررہا ہے۔ اِس ماحول میں ہر پیدا ہونے والا آدمی وہی کرنے لگتا ہے جو دوسرے عورت اور مرد کررہے ہیں۔

مگر اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ ہر آدمی ساری جدوجہد کے باوجود اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرپاتا اور مایوسی (despair) کے احساس میں مرجاتا ہے۔ اِس دنیا میںبیماری، حادثہ ، بڑھاپا، نقصانات اورموت، فیصلہ کُن طورپر اِس راہ میں رکاوٹ ہیں کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی طلب کی تکمیل کرسکے۔

یہ عمومی نتیجہ ہر عورت اور مرد کے لیے ایک رہ نما واقعہ ہے۔ یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ فطرت کی طلب کی تکمیل (fulfillment) موجودہ دنیا میں ممکن نہیں، اس کے حصول کا مقام آخرت ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا فارمولا صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنائے، اور موجودہ دنیا کے معاملے میں وہ بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے— دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجانا، اور آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنا لینا، یہی اِس دنیا میں کامیاب زندگی کا فارمولا ہے۔

اقوالِ حکمت

01

اللہ سے ڈرنے والے انسان کے لیےدلیل سب سے زیادہ قابلِ لحاظ چیز ہوتی ہے۔ مگر جو دل اللہ  کے ڈر سے خالی ہو ، اس کے لیے دلیل سب سے زیادہ ناقابلِ لحاظ چیز بن جائے گی۔

02

اللہ کے لیے عبادت ہے اور انسان کے لیے خدمت۔ عبادت کی حقیقت خدا کے آگے مکمل سپردگی ہے اور خدمت کی حقیقت انسان کی کامل خیرخواہی۔

03

بے پیسہ والا آدمی پیسہ کی طرف دوڑ رہا ہے اور جس کے پاس پیسہ آ جائے وہ سرکشی کی طرف۔

04

 ہوشیار آدمی موت کے بارے میں سوچتا ہے اور غافل آدمی صرف زندگی کے بارے میں۔

05

موجودہ دنیا امکاناتِ جنت کا تعارف ہے ۔ وہ تعمیرِ جنت کا مقام نہیں۔

06

جو چیز آدمی کے لیے کل مقدر کی گئی ہو اس کو آپ کسی بھی تدبیر کے ذریعہ آج حاصل نہیں کر سکتے۔

07

لوگ جس چیز کو موت کے اِس پار ڈھونڈ رہے ہیں، اس کو قدرت نے موت کے اُس پار رکھ دیا ہے۔

08

مسلّمہ شخصیتوں کی سطح پر لوگ دادِ اعتراف دے رہے ہیں، حالانکہ اعتراف وہ ہے جس کا ثبوت غیر مسلّمہ شخصیت کی سطح پر دیا جائے۔

ख़ुदा की मर्ज़ी

क़ुरआन में है: कितनी ही छोटी जमाअतें अल्लाह के हुक्म से बड़ी-जमाअतों पर ग़ालिब आती हैं (2:249)। यह मौजूदा दुनिया के लिए अल्लाह का क़ानून है। इसका मतलब यह है कि यहां इज़्ज़त और बरतरी सिर्फ उन्हीं लोगों का मक़्सद नहीं है जो तादाद और वसायल (साधनों) में ज़्यादा हों। यहां कम तादाद और कम वसायल वाला गिरोह भी इज़्ज़त और बुलंदी हासिल कर सकता है। बशर्ते कि वह इज़्निल्लाह (अल्लाह की मर्ज़ी व हुक्म) पर चले।

यह इज़्निल्लाह या ख़ुदाई क़ानून क्या है? वह क़ुरआन के मुताबिक़, यह है कि जो चीज़ लोगों को नफ़ा पहुंचाने वाली है वह ज़मीन में ठहराव और पायदारी (स्थायित्व) हासिल करती है (13:17)। यही बात हदीस में इस तरह बयान गई है कि ऊपर का हाथ नीचे के हाथ से बेहतर है। यानी जो हाथ दूसरों को देता है, वह उससे बेहतर है जो दूसरों से लेने वाला है। इसको एक लफ्ज़ में इस तरह कह सकते हैं कि समाज में हमेशा दो क़िस्म के गिरोह होते हैं। एक देने वाला गिरोह (giver group) और दूसरा लेने वाला गिरोह (taker group) । ज़िन्दगी का यह अबदी (शाश्वत) क़ानून है कि जो गिरोह लेने वाला हो उसको इस दुनिया में पस्ती और मग़लूबियत (पराभवता) की सतह पर जगह मिले। और जो गिरोह देने वाला गिरोह बने उसको दूसरों के ऊपर इज़्ज़त, बरतरी और बढ़ाई का दर्ज़ा हासिल हो।

मौजूदा ज़माने में मुस्लिम रहनुमाओं ने मिल्लत को उठाने व बुलन्द करने के नाम से जो तहरीकें उठाई, वे ज़िन्दगी के इस शुऊर (चेतना) से सिरे से ख़ाली थीं। ये लोग इस बात को न जान सके कि मुसलमानों की कामयाबी का राज़ यह है कि उन्हें तख़लीक़ी या रचनात्मक गिरोह की हैसियत से उठाया जाए। इसके बजाय उन्होंने मुसलमानों को लेने वाला गिरोह (taker group) के तौर पर उठाने की कोशिश की। 1947 से पहले इस का इज़हार जुग़राफ़ियाई तक़सीम (भौगोलिक बंटबारे) की शक्ल में हुआ और 1947 के बाद मिल्ली तशख़्खुस (सामाजिक-सांस्कृतिक पहचान) की हिफ़ाज़त की सूरत में हो रहा है।

मुसलमानों की तरक्क़ी का राज़ इंसानों से दूर रहने में नहीं बल्कि इंसानों के लिए उपयोगी होने में है। उन्हें तख़लीक़ी (creative) गिरोह बनना है, न कि जामिद यानी रचनाविहीन गिरोह। उन्हें अपनी पहचान दिखावटी तौर पर नहीं, बल्कि हक़ीक़ी और अर्थपूर्ण ढंग से बनानी है। क़ुरान के मुताबिक़ उन्हें लाभदायक बनना है तभी वे तरक़्क़ी कर सकते हैं, न कि अधिकार मांगने की ज़मीन पर । (13:17)

हसरत का दिन

क़ुरआन में क़ियामत के दिन को नदामत, पछतावा और हसरत का दिन कहा गया है (19:39)। क़ियामत के दिन जब तमाम हक़ीकतें खुलेंगी तो आदमी अचानक महसूस करेगा कि दुनिया में कैसे-कैसे क़ीमती मौक़े थे जबकि वह ख़ुदापरस्ती का सबूत देकर आख़िरत में उसका इनाम पा सकता था। मगर उस वक़्त उसने मौक़े खो दिए और अब ये मौक़े कभी उसके लिए आने वाले नहीं। मौक़े को खो देने का एहसास बेशक सबसे बड़ी नफ़्सियाती (मनौवैज्ञानिक) सज़ा होगी, जो हमेशा-हमेशा आदमी को तड़पाती रहेगी। दूसरी जगह क़ुरआन में कहा गया है:

और बेशक यह याददिहानी है डरने वालों के लिए और हम जानते हैं कि तुम में इसके झुठलाने वाले हैं, और वह मुंकिरों के लिए पछतावा है। (69: 48-50)

दुनिया में बार-बार आदमी के सामने ऐसे मौक़े आते जबकि वह कोई अमल (काम) करके आख़िरत का इनाम हासिल कर सके। मगर आदमी, क़ुरआन के मुताबिक़, ज़ुल्म और घंमड (27: 14) की बिना पर मतलूबा (वांछित) अमल नहीं करता। ऐसे लोग जब दुनिया से निकल कर आख़िरत में पहुंचेंगे तो अचानक वह महसूस करेंगे कि यहां उनके लिए हसरत और पशेमानी के सिवा और कुछ नहीं ।

अब एक-एक करके उन्हें वे गुज़रे हुए लम्हे याद आएंगे जबकि उनके सामने आख़िरत के लिए अमल करने का एक मौक़ा आया, पर उन्होंने इस मौक़े को बेदर्दी से खो दिया ।

उस वक़्त आदमी कहेगा कि आह मेरे सामने हक़ बात ज़ाहिर हुई, जिसका साथ देकर मैं हक़ (सच्चाई) का मानने वाला बन सकता था। मुझे मौक़ा मिला कि मैं हक़ को उसके हक़दार के हवाले कर दूं। मुझे यह मौक़ा मिला कि मैं हक़ की गवाही देने वाला बनूं। मुझे यह मौक़ा मिला कि मैं दुरुस्त बात कहूं चाहे वह मेरे मुवाफ़िक हो या मेरे ख़िलाफ़। मुझे मौक़ा मिला कि मैं उन लोगों में से बनूं जो ख़ुदा के ख़ौफ़ से अपनी ज़बान बंद कर लेते हैं, पर उन मौक़ों को मैंने खो दिया। मैं अपने आपको ख़ुदा के चाहे हुए बंदों में शामिल नहीं कर सका। मैंने दुनिया में नेकी के मौक़े को खोया था, इसीलिए आख़िरत में इनाम के मौक़े में भी अब मेरा कोई हिस्सा नहीं

अल्लाह वाले वो हैं जो क़ुरआन वाले हैं

अनस रज़िअल्लाहु अन्हु से रिवायत है कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया, “लोगों में कुछ अल्लाह वाले होते हैं।” पूछा गया कि ऐ ख़ुदा के रसूल, वे कौन लोग है? फ़रमाया, “वो क़ुरआन वाले हैं।” (मुसनद अहमद, 12278) यानि क़ुरान समझकर पढ़ने वाले

अमल का रुख़

लन्दन की लज्नतुल-अक़ल्लियातिल-इस्लामिया ने बताया है कि विभिन्न मुल्कों में जो मुस्लिम अल्पसंख्यक आबाद हैं उनकी कुल तादाद 40 करोड़ है। इस तरह सारी दुनिया की कुल मुस्लिम आबादी का 40 फ़ीसद हिस्सा मुस्लिम अल्पसंख्यकों का है (पेज 2)।

जामिआ अज़हर काहिरा (मिस्र) में एक इस्लामी कान्फ्रेंस हुई । इस मौक़े पर तक़रीर करने वालों में डा. अब्दुस्सुबूर मरज़ूक भी थे। उन्होंने अपनी तक़रीर में बताया कि मुस्लिम अल्पसंख्यकों के मुल्कों के मुसलमान अपने मुल्क के बहुसंख्यक वर्गों की ज़्यादतियों का शिकार हो रहे हैं। यहां तक कि उनके हाथों मौत से दो-चार होने वाले मुसलमानों की तादाद तीन करोड़ तक पहुंच चुकी है। उन्होंने मुस्लिम मुल्कों के विदेश मंत्रियों से अपील की कि वे मुस्लिम अल्पसंख्यकों के मसलों को हल करने की कोशिश करें (अख़बार अल-आलामुल इस्लामी, 6 मार्च 1989, पेज 1)।

यह किसी एक शख़्स की बात नहीं है। मौजूदा ज़माने के तमाम मुस्लिम रहनुमा एक या दूसरी शक्ल में इसी बात को दोहरा रहे हैं। मगर इस मामले में हमारे रहनुमा अब तक जो कुछ करते रहे हैं वह सिर्फ़ यह है – बहुसंख्यक वर्ग या ग़ैर-मुस्लिम हुकूमत के ख़िलाफ़ फ़रयाद या विरोध करना। मगर यह मामला इससे ज़्यादा संगीन है। यह हमको गै़र-मुस्लिम ताक़त के ख़िलाफ़ विरोध प्रकट करने से ज़्यादा अल्लाह की तरफ़ रूजू करने की दावत देता है, यानी अल्लाह की तरफ़ झुकने और उससे लौ लगाने पर उभारता है।

क़ुरआन में बताया गया है कि एक छोटी जमाअत भी बड़ी जमाअत पर ग़ालिब आ जाती है, अल्लाह के इज़्न (मर्ज़ी) से, और अल्लाह सब्र करने वालों के साथ है (2:249) । यह आयत बताती है कि मुसलमानों के किसी गिरोह को अगर अपने माहौल में ज़ोर हासिल न हो तो उन्हें यह समझना चाहिए कि वह इज़्नुल्लाह से महरूम हो गए हैं। ऐसी हालत में उन्हें क़ुरान के अल्फ़ाज़ में ‘अल्लाह की तरफ़ दौड़ने’ (51:50) के हुक्म पर अमल करना चाहिए। उन्हें अल्लाह की तरफ़ दौड़ना चाहिए, न कि वे ग़ैर-मुस्लिम जमाअतों या ग़ैर-मुस्लिम हुक्मरानों के खिलाफ़ विरोध प्रकट करने के काम में फंस कर बेफ़ायदा तौर पर अपना वक़्त और अपनी ताक़त बरबाद करें।

कायनात मशीन नहीं

मौजूदा ज़माने में मशीनी इन्सान बनाए गए हैं, जिनको आम तौर पर रोबोट (Robot) कहा जाता है। रोबोट देखने में आदमी की शक्ल का होता है। वह चलता है। वह बोलता है। वह काम करता है। मगर हक़ीक़त में वह एक मशीन होता है न कि कोई शऊर या चैतन्य। वह उसी तरह मैकानिकी अन्दाज़ में अमल करता है, जैसे इन्सान की बनाई हुई दूसरी तमाम मशीनें।

लन्दन के एक दफ़्तर में एक रोबोट रखा गया था, ताकि वह चपरासी (office boy) के तौर पर काम कर सके। यह रोबोट जब तैयार होकर दफ़्तर में आया तो दफ़्तर की सेक्रेटरी मिस जैनी सेफ़ ने उसको अज़माइशी हरकत (trial run ) देनी चाही। वह रोबोट की बैटरी जांच रही थीं कि रोबोट हरकत में आ गया। वह सेक्रेटरी के पीछे चलने लगा। अब यह हालत हुई कि सेक्रेटरी आगे-आगे भाग रही हैं और मशीन उनको पीछे से दौड़ा रही है। रोबोट इस तरह चल रहा था जैसे उसने कंट्रोल क़बूल करने से इन्कार कर दिया है। इस भाग दौड़ में एक नया टाइपराइटर टकरा कर ज़मीन पर गिर पड़ा और टूट गया। आख़िरकार बड़ी मुश्किल से रोबोट को क़ाबू में लाया गया (हिन्दुस्तान टाइम्स, 30 जून 1981)।

मौजूदा ज़माने में जो लोग ख़ुदा को नहीं मानते उनका कहना है कि कायनात इसके सिवा कुछ नहीं कि वह बहुत बड़ी मशीन है। वह बस उसी तरह चल रही है जिस तरह कोई ‘रोबोट’ मैकानिकी तौर पर चलता है। मगर कायनात या ब्रह्माण्ड का खरबों साल से बेहद संगठित तौर पर एक सी हालत में चलना इस मान्यता का खंडन कर रहा है। अगर कायनात महज़ एक मैकानिकी मशीन होती, जैसे रोबोट, तो यक़ीनन उसमें बार-बार उसी क़िस्म के टकराव होते जैसा कि लन्दन के आफ़िस में ऊपर वाली घटना में हुआ।

क़ुरआन में है: और सूरज अपने एक तयशुदा मदार पर चक्कर लगाता है। यह ज़बरदस्त बुद्धीमान हस्ती का तय किया हुआ अन्दाज़ा है। और चांद के लिए हमने मंज़िलें ठहरा दी हैं। यहां तक कि वह फिर खजूर की सूखी शाख़ की तरह रह जाता है। न सूरज के बस में है कि वह चांद को जा पकड़े और न रात दिन से आगे बढ़ सकती है। हरेक अपने ख़ास दायरे में चक्कर लगाता है (36:38-40)। क़ुरआन का यह बयान मौजूदा ज़माने में एक साबितशुदा इन्सानी गवाही बन चुका है और यही सच्चाई इस बात के सबूत के लिए काफ़ी है कि यहां एक बाशऊर हस्ती है जो कायनात को कंट्रोल कर रही है। उसके बग़ैर कायनात के अन्दर यह व्यवस्था और यह बाक़ायदगी इतने सिद्ध व सफल रूप में मुमकिन न होती।

कम बोलना

क़ुरआन में है कि कान और आंख और दिल, हर चीज़ के बारे में इन्सान से पूछ होगी (17:36)। हदीस में आया है कि तुम में जो शख़्स फ़तवा देने में ज़्यादा जरी (दुस्साहसी) है वह जहन्नम के ऊपर ज़्यादा जरी है । (सुनन अल-दारमी, 159)

इसलिए फ़त्वा देने के मामले में सहाबी बेहद एहतियात बरतते थे । हज़रत अब्दुल्लाह बिन मसऊद के बारे में हदीस में आया है कि अब्दुल्लाह तराज़ू में उहुद पहाड़ से भी ज़्यादा वज़नी हैं । इसके बावजूद उनका यह हाल था कि वह कूफ़ा में थे । उन से एक मामले में पूछा गया तो उन्होंने जवाब नहीं दिया । लोग उनसे महीने भर पूछते रहे । यहां तक कहा कि अगर आप ही फ़त्वा न देंगे तो हम किस से पूछें? फिर भी उन्होंने कोई जवाब नहीं दिया ।

हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर हमेशा फ़त्वा देने से परहेज़ करते थे । लोग जब ज़ोर डालते तो कहते कि हमारी पीठ को जहन्नम के लिए सवारी न बनाओ । (अल-मारिफ़ा व अल-तारीख़, 1/490)

इन रिवायतों में फ़त्वे से मुराद कोई महदूद और सीमित फ़त्वा नहीं है । इसका तअल्लुक़ उन तमाम बातों से है जो मुसलमानों के साथ होती हैं और जिनमें वे अपने आलिमों और अपने रहनुमाओं से राय पूछते हैं । ऐसे मामलों में आलिमों और रहनुमाओं का फ़र्ज़ है कि वे बोलने से ज़्यादा सोचें । वे उस वक़्त तक कोई बयान न दें जब तक इस मामले में मश्वरा, और ग़ौरो-फ़िक्र की तमाम शर्तों को आख़िरी हद तक पूरा न कर चुके हों। ऐसे मामलों में न बोलना इससे बेहतर है कि आदमी ग़ैरज़िम्मेदाराना तौर पर बोलने लगे ।

सामूहिक मामलों में राय देना बेहद नाज़ुक ज़िम्मेदारी है, क्योंकि अगर राय ग़लत हो तो लोगों को नामालूम मुद्दत तक उसका नुक़सान भुगतना पड़ता है । इसलिए आदमी को चाहिए कि अगर वह बोलना चाहता है तो पहले उसकी तमाम शर्तों को पूरा करे, उसके बाद अपनी राय ज़ाहिर करे ।

 

वह नेकी नेकी नहीं जिससे फ़ख़्र और बढ़ाई का जज़्बा पैदा हो

इब्ने अताउल्लाह सिकंदरी ने अपनी किताब ‘अलहिकम ’ में कहा है ऐसा गुनाह जिससे पस्ती और अज्ज़ (क्षुद्रता और विनम्रता) पैदा हो वह उस नेकी से बेहतर है जिससे फ़ख़्र और घमंड पैदा हो ।

ईमान

क़ुरआन में सातवें पारे के शुरू में उन लोगों का ज़िक्र है जो नजरान से आए थे। उन्होंने रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से क़ुरआन का कुछ हिस्सा सुना। उन पर खुल गया कि यह सच्चा दीन है। वह उसी वक़्त ईमान लाए और रोते हुए सज्दे में गिर पड़े (5:83)।

इस आयत में ईमान को मारिफ़त (बोध) कहा गया है। यानी सच को पहचान लेना। जिस चीज़ की पहचान हो, उसी के लिहाज़ से आदमी के अन्दर भाव पैदा होते हैं। ख़ुदा चूंकि सबसे बड़ी ताक़त है इसलिए ख़ुदा की पहचान से आदमी के अन्दर विनम्रता और छोटेपन का भाव पैदा होता है। इसलिए नजरान के लोगों में जब ख़ुदा की मारिफ़त पैदा हुई, जब उन पर ख़ुदा की अज़्मत और बड़ाई खुल गई तो उनका सीना फट गया। उनकी आँखों से आंसू बहने लगे और वे बेइख़्तियार होकर सज्दे में गिर पड़े।

इसी तरह सहीह मुस्लिम में एक रिवायत है, जो हज़रत उस्मान बिन अफ़्फ़ान के वास्ते से नक़्ल हुई है। वह कहते हैं कि रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः “जो शख़्स इस हाल में मरा कि वह जानता था कि अल्लाह के सिवा कोई माबूद नहीं वह जन्नत में दाख़िल होगा। (सहीह मुस्लिम, 26)

इस हदीस में ईमान को इल्म कहा गया है। यानी जानना, आगाह होना। इससे मालूम होता है कि ईमान जानने का एक वाक़िआ है। वह एक चेतनामय खोज है।

हक़ीक़त यह है कि ईमान उसी क़िस्म का एक गहरा तजुर्बा है, जिसको मौजूदा ज़माने में डिस्कवरी कहते हैं। ईमान एक डिस्कवरी है। ईमान एक ऐसी हस्ती की मौजूदगी को पा लेना है, जो ज़ाहिरी तौर हमारे सामने मौजूद नहीं। ईमान उस गहरे ‘बोध’ का नाम है, जबकि आदमी के लिए परोक्ष का पर्दा फट जाता है और वह ख़ुदा को न देखते हुए भी उसे देखने लगता है।

ईमान बन्दे और ख़ुदा के बीच उस ताल्लुक़ का क़ायम होना है, जिसकी एक भौतिक मिसाल बल्ब और पावर हाऊस के ताल्लुक़ में दिखाई देती है। बल्ब का ताल्लुक़ जब पावर हाउस से क़ायम होता है तो वह अचानक चमक उठता है। वह एक नया इंसान बन जाता है। उसका अंधेरा उजाले में तब्दील हो जाता है। उसी तरह एक बन्दा जब अपने रब को सच्चे मायने में पाता है तो उसकी हस्ती ख़ुदा के नूर से जगमगा उठती है। उसके अन्दर ऐसी ख़ूबियां पैदा होती हैं जो उसको कहीं से कहीं पहुंचा देती हैं।

पैग़म्बरे इस्लाम के सहाबियों के लिए ईमान का मतलब यही था। सहाबियों का ईमान उनके लिए एक ज़िन्दगी से निकल कर दूसरी ज़िन्दगी में दाख़िल होना था। यह उनके लिए अंधेरे के मुक़ाबले में रोशनी की खोज थी। हज़रत हुज़ैफ़ा एक बार रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से सवाल कर रहे थे तो उनकी ज़ुबान से ये अल्फ़ाज़ निकलेः ऐ अल्लाह के रसूल, हम जाहिलियत और बुराई में पड़े थे, यहां तक कि अल्लाह तआला इस ख़ैर (भलाई) को ले आया।

इस तरह जो ईमान मिलता है, वह उससे बिल्कुल अलग होता है जो परम्परा या अनुकरण से आदमी को मिल जाए। परम्परा या अनुकरण वाला ईमान आदमी को अन्दर से नहीं हिलाता, उसे बदलता नहीं है, जबकि ‘मारिफ़त’ वाला ईमान आदमी को हमेशा हमेशा के लिए हिला देता है, उसे बदल देता है। अनुकरण वाले ईमान से आदमी के अन्दर कोई अपनी निगाह पैदा नहीं होती, जबकि ‘मारिफ़त’ वाला ईमान आदमी के अन्दर अपनी निगाह पैदा कर देता है, जिससे वह चीज़ों को देखे और अपने आंतरिक बोध और अपनी निगाह से फ़ैसला कर सके।

अनुकरण वाले ईमान से सिर्फ़ जड़ और बेजान अक़ीदा पैदा होता है। जबकि ‘मारिफ़त’ वाला ईमान आदमी के अन्दर इन्क़िलाब बन कर दाख़िल होता है। वह आदमी की सोच और अमल की दुनिया में एक तूफ़ान, एक खलबली पैदा कर देता है। अनुकरण वाले ईमान से बेजान लोग पैदा होते हैं, जबकि ‘मारिफ़त’ वाले ईमान से जानदार लोग जन्म लेते हैं। और जानदार लोग ही वे लोग हैं जो इतिहास बनाते हैं, जो इन्सानियत के लिए कोई नया भविष्य बनाते हैं।

अनुकरण वाला ईमान आदमी को अपनी क़ौम से मिलता है और ‘मारिफ़त’ वाला ईमान सीधे अल्लाह तआला से।

आख़िर वक़्त तक अल्लाह पर यक़ीन

रमूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम हिजरत के लिए मक्का से निकले तो पहले तीन दिन तक ग़ारे-सौर में ठहरे। क़ुरैश के लोग आपको तलाश करते हुए इस ग़ार (गुफा) तक पहुंच गए। अबू बक्र रज़िअल्लाहु अन्हु ने रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से कहाः ऐ ख़ुदा के रसूल, दुश्मन इतने क़रीब आ चुका है कि उनमें से कोई अगर अपने पैरों की तरफ़ नज़र डाले तो वह हमको अपने क़दमों के नीचे देख लेगा। आपने फ़रमाया: ऐ अबूबक्र, तुम्हारा उन दो के बारे में क्या ख़्याल है, जिनके साथ तीसरा अल्लाह हो। (सहीह अल-बुख़ारी: 3653)

इन्सान की ज़िम्मेदारी

क़ुरआन में कहा गया है कि ईमान लाने वालों से कहो कि उन लोगों को माफ़ कर दें जो ख़ुदा के दिनों की उम्मीद नहीं रखते ताकि अल्लाह क़ौमों को उसका बदला दे जो वे कर रहे थे। (45:14)

यानी जो लोग अल्लाह की पकड़ से नहीं डरते जब वे ख़ुदा से बेख़ौफ़ होकर इस्लाम वालों के ख़िलाफ़ ज़ुल्म की कार्रवाई करें तो इस्लाम वालों को ऐसा नहीं करना चाहिए कि वे उनके ख़िलाफ़ जवाबी कार्रवाई करने या उनसे इन्तिक़ाम लेने के लिए खड़े हो जाएं। इस काम को उन्हें ख़ुदा के ऊपर छोड़ देना चाहिए। ख़ुदा से बेख़ौफ़ होकर जो लोग ज़ुल्म करें, उनको सिर्फ़ ख़ुदा ही ज़रुरी सज़ा दे सकता है। ऐसे मामलों में मुसलमानों के ऊपर सब्र है और अल्लाह के ऊपर जुर्म के मुताबिक़ मुजरिम की सज़ा।

इस का मतलब निष्क्रियता और परभाव क़ुबूल करना नहीं है और न इसका मतलब यह है कि ज़ालिम के मुक़ाबले में समर्पण का तरीक़ा इख़्तियार किया जाए। यह अमल के रुख़ को निश्चित करना है। यानी ऐसे मौक़े पर ईमान वालों को रिएक्शन का तरीक़ा इख़्तियार करने के बजाए पोज़िटिव रूख़ पर अमल करने की कोशिश करनी चाहिए।

इन्सान का काम अपनी ज़िम्मेदारी को अदा करना है। ख़ुदा का काम यह है कि वह लोगों के अमल के मुताबिक़ उन्हें उसका बदला दे। एक शख़्स ख़ुदा के दीन की दावत लेकर उठे, और कुछ लोग उसके साथ बुरा सुलूक करें, तो उस वक़्त दाअी यानी दीन की तरफ़ बुलाने वाला दो चीज़ों के दरमियान खड़ा हो जाता है। एक यह कि वह लोगों के हमले को बर्दाश्त करते हुए अपनी दावती ज़िम्मेदारी को बदस्तूर जारी रखे, दूसरे यह कि वह दावती अमल को भूल कर लोगों को सज़ा देने या उनसे इन्तिक़ाम लेने के लिए दौड़ पड़े। पहला तरीक़ा ख़ुदा के हुक्म के मुताबिक़ है और दूसरा तरीक़ा ख़ुदा के हुक्म के के ख़िलाफ़। पहला तरीक़ा इख़्तियार करने की सूरत में यह होता है कि दूसरे काम के लिए ख़ुदा उनकी तरफ़ से काफ़ी हो जाता है। लेकिन अगर मुसलमान दूसरे क़िस्म का तरीक़ा इख़्तियार करें तो वे दोहरे मुजरिम बन जाते हैं । उन्होंने ख़ुदा के काम को अपने हाथ में लिया और दूसरे यह कि उनके अपने लिए करने का जो अस्ल काम था उसको उन्होंने छोड़ दिया ।

मोमिन के अमल का रूख़ हमेशा ख़ुदा की तरफ़ होता है और ग़ैरमोमिन के अमल का रुख़ हमेशा इन्सान की तरफ़ ।

तज़्किया

क़ुरआन में पैग़म्बर के दो ख़ास काम बताए गए हैं - तालीमे-किताब और तज़्किया (2:129) । तालिमे-किताब का मतलब क़ुरआन की तालीम है । यानी ख़ुदाई कलाम को फ़रिश्ते से लेकर इन्सानों तक पहुंचाना। दूसरी चीज़ तज़्कियाहै। तज़्किया से मतलब वही चीज़ है जिसको मौजूदा ज़माने में एजुकेटकरना या जागरूक बनाना कहा जाता है। यानी लोगों की सोच को रब्बानी सोच बनाना। उनका रूहानी सुधार करके उन्हें इस क़ाबिल बनाना कि वे उस तरह सोचें जिस तरह ख़ुदा चाहता है कि सोचा जाए। और इस तरह फ़ैसला करें जिस तरह ख़ुदा चाहता है कि फ़ैसला किया जाए

मौजूदा ज़माने में जो मुस्लिम सुधारक उठे, उनमें आम तौर पर यह बुनियादी ख़ामी पाई जाती है कि उन्होंने तज़्कियासे अपने काम का आग़ाज़ नहीं किया । लगभग सभी का यह हाल हुआ कि मुसलमानों के कुछ हालात उसके सामने आए और उनको देखकर वे पुरजोश तौर पर उठ खड़े हुए। ज़ेहन बनाए बग़ैर उन्होंने अमली काम शुरू कर दिया — किसी ने अंग्रेज़ी साम्राज्य से बिगड़ कर आज़ादी के जिहाद का नारा लगाया; कोई पश्चिमी सभ्यता का ज़ोर देख कर मैदान में कूदा; किसी को ‘श्रद्धानन्दके क़त्ल के बाद पैदा होने वाले हालात ने मुजाहिदे-इस्लाम बना दिया; कोई शुद्धि-संगठन के आन्दोलन से बेचैन होकर सरगर्म हो गया; किसी को मुस्लिम ख़िलाफ़त के पतन ने जान देने पर आमादा कर दिया, वग़ैरह।

यह सब काम करने का ग़ैर-पैग़म्बराना तरीक़ा है। काम का पैग़म्बराना तरीक़ा यह है कि उसको तज़्कियासे शुरू किया जाए, न कि आख़िरी क़दम उठा लिया जाए।

तज़्किया का एक मतलब यह है कि लोगों को दीन का सही इल्म हासिल हो जाए। वे सही दीनी अन्दाज़ में सोचना जान लें। उनके अन्दर यह सलाहियत पैदा हो जाए कि वे ग़ैर-इस्लामी नज़रिए के मुक़ाबले में इस्लामी नज़रिए को पहचान सकें। वह मुख़्तलिफ़ क़िस्म के हालात में यह फ़ैसला कर सकें कि किस वक़्त उन्हें क्या करना है और किस वक़्त उन्हें क्या नहीं करना।

तज़्कियाका दूसरा पहलू है कि लोगों के अन्दर ज़माने को परखने-पहचानने की सलाहियत पैदा हो जाए। वे जान लें कि दुनिया के हालात क्या हैं और इन हालात में दीन को किस तरह चरितार्थ किया जा सकता है।

सोच का फ़र्क़

कुरआन की सूरह हूद में हज़रत शुऐब अलैहिस्सलाम का ज़िक्र है । वह हज़रत इब्राहीम की नस्ल से थे और हज़रत इब्राहीम से क़रीब सौ साल बाद पैदा हुए । उनके मुख़ातिब (सम्बोधित) मदयत के लोग थे । कहा जाता है कि मदयन वाले पुराने ज़माने में अहमर सागर के अरब वाले किनारे पर आबाद थे। पैग़म्बर का इन्कार करने के बाद वे एक भयानक भूकंप में तबाह कर दिए गए।

क़ुरआन में बताया गया है कि हज़रत शुऐब ने जब अपनी क़ौम को ख़ुदा के दीन की दावत दी तो उन्होंने कहा कि ऐ शुऐब जो कुछ तुम कह रहे हो उसका बहुत-सा हिस्सा हमारी समझ में नहीं आता (11:91)। हज़रत शुऐब अलैहिस्सलाम को हदीस में ख़तीबुल-अम्बिया यानी पैग़म्बरों में बेहतरीन बोलने वाला कहा गया है (तफसीर अल-तबरी 1/327) । आप साफ़ और असरदार अन्दाज़ में बात कहने की ख़ास सलाहियत रखते थे। फिर यह कि आपकी क़ौम के लोग हज़रत इब्राहीम को मानते थे । उनकी वंश-परम्परा का सिलसिला चौथी पीढ़ी में हज़रत इब्राहीम से मिल जाता था । इसके बावजूद क्यों ऐसा हुआ कि हज़रत शुऐब ने जब तौहीद (एकेश्वरवाद) के दीन की बात उनके सामने पेश की तो उन्होंने कह दिया कि तुम्हारी बात हमारी समझ में नहीं आती ।

इसकी वजह यह थी कि कई नस्ल गुज़रने के बाद वे हज़रत इब्राहीम की असली तालीम से दूर हो चुके थे । उनकी सोच वह न रही थी जो ख़ुदा के पैग़म्बरों की सोच होती है । इस तरह हज़रत शुऐब और मदयन वालों के बीच एक क़िस्म का ज़ेहनी फ़ासला (intellectual gap) पैदा हो चुका था । यही चीज़ थी जो उनके लिए पैग़म्बर की बात को समझने में रुकावट बन गई ।

जो लोग अल्लाह के अलावा की बड़ाई में जी रहे हों वे अल्लाह की बड़ाई वाली बातों में अपनी ज़ेहनी ख़ुराक नहीं पाते । जो लोग दुनिया के फ़ायदों में खोए हुए हों उन्हें आख़िरत के फ़ायदे की बात बिल्कुल अजनबी मालूम होती है । जो लोग सिर्फ़ अपनी अक़्ल से सोचना जानते हों वे वह्य की रहनुमाई को समझ नहीं सकते। जो लोग क़रीब की सिर्फ़ छोटी मसलेहतों को देख पाते हों वे उन बड़ी मसलेहतों को नहीं देख पाते जो भविष्य के पर्दे में छुपी हुई हों ।

इसी तरह जो लोग नफ़रत की मानसिकता में जीते हों वे मुहब्बत के पैग़ाम को समझ नहीं सकते । जो लोग सिर्फ़ लड़ाई और टकराव की भाषा जानते हों उनके लिए सब्र और नज़रअंदाज़ करने की हिकमत तक पहुंचना मुमकिन न होगा । ख़ुलासा यह कि जो लोग सिर्फ़ इन्सानी अक़्ल से सोचना और राय क़ायम करना जानते हों वे उन बातों को जान और समझ नहीं सकते जिनका जानना और समझना ख़ुदाई अक़्ल के बग़ैर मुमकिन नहीं।

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ईमान की हक़ीक़त यह है कि आदमी ग़ैबी हक़ीक़तों को देखने लगे

हज़रत मालिक बिन अनस कहते हैं कि हज़रत मुआज़ बिन जबल रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आए । आपने पूछा कि ऐ मुआज़, तुमने कैसे सुबह की? उन्होंने कहा कि मैंने अल्लाह पर ईमान के साथ सुबह की । आपने फ़रमाया कि हर बात का एक मिस्दाक़ होता है और हर बात की एक हक़ीक़त होती है । फिर जो कुछ तुम कहते हो उसका मिस्दाक़ (चरितार्थ) क्या है । उन्होंने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, मैंने कभी कोई ऐसी सुबह नहीं की, जिसमें मुझे यह ख़याल न लगा हुआ हो कि अब मैं शाम न कर सकूंगा । और मैंने कोई क़दम ऐसा नहीं उठाया जिसमें मुझे यह ख़याल न हो कि मैं दूसरा क़दम न उठा सकूंगा । और गोया कि मैं घुटनों के बल गिरी हुई उन तमाम उम्मतों को देख रहा हूं, जिनको अपने आमालनामे (कर्मपत्र) की तरफ़ बुलाया जा रहा है और उनके साथ उनका पैग़म्बर है । और उनके साथ वे बुत भी हैं जिनको वे ख़ुदा के सिवा पूजती थीं । और जैसे मैं दोज़ख़ वालों की सज़ा को और जन्नत वालों के सवाब को देख रहा हूं । यह सुन कर रसूलुल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमायाः तुम मग़फ़िरत को पहुंच गए । अब इसी पर जमे रहो । (हिलयत-उल-औलिया , 1/242)

अल्लाह की याद सबसे बड़ी इबादत

अब्दुल्लाह बिन अब्बास ने कहा, “रात में थोड़ी देर इल्म की चर्चा करना मुझे इससे ज़्यादा पसंद है कि मैं सारी रात इबादत करूं।” (मुसन्नफ़ अब्दुर रज़्ज़ाक़, 21543)

क़ुरआन का पैग़ाम

क़ुरआन ख़ुदा की किताब है । इसका ऊंचा अदब व साहित्य, इसके बुलन्द मज़मून, इसकी शाश्वत शिक्षाएं, इसका विरोधाभास से ख़ाली होना साबित करता है कि यह ख़ुदाई ज़ेहन से निकला हुआ कलाम है । क़ुरआन में हिदायत का सामान है । वह इन्सान की उस तलाश का जवाब है कि वह ज़िन्दगी का अर्थ समझ सके । उसकी प्रकृति जिस रहनुमाई को मांग रही है, क़ुरआन में वह उसको साफ़ और मुकम्मल तौर पर पा लेता है । क़ुरआन उसके तमाम अन्दरूनी सवालों का जवाब देता है । मगर यह हिदायत किसी को अपने आप नहीं मिल जाती । इसको वही शख़्स पाता है जिसके अन्दर सच्ची तलब हो, जो यह आग्रह न करे कि वह आंख से देख कर ही किसी बात को मानेगा । बल्कि वह अपने अन्दर के बोध से समझ में आने वाली बातों पर यक़ीन करने के लिए तैयार हो, जो सबसे बड़ी सच्चाई (ख़ुदा) के आगे झुक कर उस बात का सबूत दे कि वह झूठी ख़ुदापरस्ती से पाक है, जो अपनी कमाई में दूसरे का हिस्सा लगा कर यह ज़ाहिर करे कि उसकी अपनी ज़ात से बाहर पाए जाने वाले तक़ाज़ों को मानने के लिए उसका सीना खुला हुआ है, जो इन्सानी सीमाओं को मानते हुए बाहरी हिदायत की ज़रूरत को स्वीकार करता हो, जो इस सवाल को अहम्मियत दे कि मौजूदा दुनिया का अधूरा व नामुकम्मल होना एक ज़्यादा मुकम्मल दुनिया के होने का तक़ाज़ा करता है । यह सच्ची तलब के लक्षण हैं । क़ुरआन में कहा गया है कि ऐसे ही लोगों के हिस्से में हिदायत आती है और वे ही इस कायनात में कामयाबी की मंज़िल तक पहुंच सकते हैं (2:1-5) ।

इस्लामी ज़िन्दगी की शुरुआत ईमान से होती है । एक शख़्स को जब इस बात की पहचान हो जाए कि इस कायनात को बनाने वाला, इसका मालिक, इसे पालने वाला यानी इसका रब अल्लाह है; वह उसको इस तरह अपनी चेतना का हिस्सा बना ले कि अल्लाह ही उसका सब कुछ बन जाए; वह उसी पर भरोसा करे; उसी से उम्मीद रखे; उसी से ख़ौफ़ खाएं; अपनी ज़िन्दगी को पूरी तरह उसी के रुख़ पर डाल देने का फ़ैसला करे तो इसी का नाम ईमान है ।

ईमान के बाद चार इबादतों को इस्लाम में ‘अरकान’ (स्तंभ) का दर्जा हासिल है - नमाज़, रोज़ा, ज़कात और हज । ये चारों इबादतें इस्लाम के अरकान भी हैं और इस्लाम के मतलूब औसाफ़ (वांछित गुणों) के लक्षण भी । नमाज़ अल्लाह की निकटता तलाश करने की कोशिश है । रोज़ा सब्र की तरबियत (ट्रैनिंग) है । ज़कात यह पैग़ाम देती है कि बन्दों के सच्चे ख़ैरख़्वाह बन कर रहो । हज स्पिरिचुअल एकता व इत्तिहाद का आलिमी (सार्वभौमिक) सबक़ है । यही चार चीज़ें इस्लाम का ख़ुलासा हैं । मोमिन बन्दे से अव्वल तो यह उम्मीद की जाती है कि वह अपने रब की याद में डूबा रहे । वह ज़िन्दगी के किसी मोड़ पर उसके ख़याल से ख़ाली न हो । फिर जिस दुनिया में आदमी को दीनदार बन कर रहना है, वहां बहुत से दूसरे लोग हैं । उनकी तरफ़ से बार-बार तकलीफ़ की बातें सामने आती रहती हैं । अगर आदमी अपने सिवा दूसरों को सहने का मिज़ाज न रखता हो; अगर वह दूसरों को बर्दाश्त करते हुए दूसरों के साथ मिलकर चलने के लिए तैयार न हो तो मौजूदा दुनिया में वह सच्चाई के सफ़र को कामयाबी के साथ तय नहीं कर सकता ।

यह ईमान और यह इबादत अगर सच्चे तौर पर आदमी के अन्दर पैदा हो जाए तो उसके अन्दर वह ख़ुदापरस्ताना ज़िन्दगी उभरती है, जो कायनात का मालिक अपने बन्दों से चाहता है । दुनिया में उसकी हस्ती का होना हक़, सच्चाई और इंसाफ़ का होना बन जाता है । उसकी सोच, उसका अख़्लाक़, ,उसका बरताव, उसके मामलात, सब अल्लाह के रंग में रंग जाते हैं । यही दीने इस्लाम है और यही वह चीज़ है, जिसको सिखाने के लिए क़ुरआन उतारा गया ।

क़ुरआन को क़लम के ज़रिए किताब की सूरत में लिखवाकर इन्सान के हवाले किया गया है । यह इस बात की पूरी व्यवस्था थी कि वह किसी भी तब्दीली के बग़ैर अगली नस्लों तक पहुंच सके । क़ुरआन आज मुकम्मल तौर पर ‘महफ़ूज़’ व पूरी तरह सुरक्षित हालत में मौजूद है । इसके मानने वाले भी बेशुमार तादाद में दुनिया भर में पाए जाते हैं । मगर क़ुरआन वाली ज़िन्दगी अमली तौर पर कहीं नज़र नहीं आती । क़ुरआनी संभावनाएं उसी तरह बन्द हालत में पड़ी हुई हैं, जिस तरह चन्द सौ साल पहले भाप और बिजली की ताक़तें बन्द पड़ी हुई थीं । ऐसा क्यों है? इस सवाल के जवाब को उस वक़्त तक समझा नहीं जा सकता, जब तक ख़ुदा की सुन्नते - इम्तिहान को सामने न रखा जाए । मौजूदा दुनिया इम्तिहान की जगह है । यहां क़ुरआन को मानने वाले और क़ुरआन को न मानने वाले दोनों अपना-अपना इम्तिहान दे रहे हैं । दोनों क़िस्म के लोगों को एक जैसी आज़ादी हासिल है । कोई शख़्स क़ुरआन का इन्कार करके गुमराह होना चाहे तो उसको भी पूरी आज़ादी है । और कोई क़ुरआन को मान कर अमली तौर पर क़ुरआन के ख़िलाफ़ चलना चाहे तो उसके लिए भी रास्ता खुला हुआ है । क़ुरआन को न मानना किसी के बचाव के लिए बहाना नहीं बन सकता । इसी तरह क़ुरआन को मान लेने से किसी को इम्तिहान की हालत से छूट नहीं मिल सकती । मौजूदा दुनिया में जिस तरह क़ुरआन को मानने या न मानने की आज़ादी है, उसी तरह उसको मान कर उसकी तालीमात पर चलने या न चलने की आज़ादी भी हर इंसान को मिली हुई है । एक गिरोह क़ुरआन का इन्कार करके जिस तरह अपनी गुमराहियों के लिए आज़ाद है, दूसरे गिरोह को उसी तरह क़ुरआन का नाम लेते हुए क़ुरआन के ख़िलाफ़ अमल करने की छूट मिली हुई है । मुस्लिम कौम भी ख़ुदा की अदालत में जांच की ठीक उसी सतह पर खड़ी हुई है, जहां दूसरी ग़ैर-मुस्लिम क़ौमें खड़ी हुई हैं:

जो लोग मुसलमान हुए और जो लोग यहूदी हुए और नसारा (ईसाई) और साबी, इनमें से जो शख़्स ईमान लाया अल्लाह पर और आख़िरत के दिन पर और उसने नेक काम किया तो उसके लिए उसके रब के पास अज्र (प्रतिफल) है। और उनके लिए न कोई डर है और न वे ग़मगीन होंगे। (2:62)

जब तक अल्लाह की यह सुन्नत (तरीक़ा) बाक़ी है, यह संभावना भी बाक़ी रहेगी कि कोई अगर क़ुरआन और इस्लाम का नाम ले और अमली तौर पर इस तरह रहे जैसे क़ुरआन और इस्लाम से उसका कोई ताल्लुक़ नहीं, यहां तक कि हदीस से मालूम होता है कि यह आज़ादी यहां तक है कि एक शख़्स क़ुरआन के आलिम और मुफ़स्सिर की हैसियत से नुमायां हो, दुनिया की ज़िन्दगी में वह ख़ुदा के दीन का चैम्पियन बने, मगर हक़ीक़त में उसकी कोई दीनी क़ीमत न हो, वह आख़िरत में उन लोगों के साथ धकेल दिया जाए जिन्होंने क़ुरआन को सिरे से माना ही न था, जिनका दीन-इस्लाम से कोई ताल्लुक़ न था ।

क़ुरआन नसीहत के लिए है, न कि केवल तिलावत के लिए

इमाम अहमद ने हज़रत आयशा की रिवायत नक़्ल की है कि उनको बताया गया कि कुछ लोग रात को क़ुरआन पढ़ते हैं और रात भर में सारा क़ुरआन एक बार या दो बार में पढ़ लेते हैं। उन्होंने कहा कि उन लोगों ने पढ़ा और उन्होंने नहीं पढ़ा। मैं रसूलुल्लाहु सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ सारी रात खड़ी रहती। आप सूरह बक़रह, सूरह आल इमरान और सूरह अल-निसा पढ़ते। जब भी आप किसी ऐसी आयत से गुज़रते जिसमें अल्लाह से डराया गया है तो आप ज़रूर अल्लाह से दुआ करते और पनाह मांगते। और जब भी आप किसी ऐसी आयत से गुज़रते जिसमें ख़ुशख़बरी हो तो आप ज़रूर अल्लाह से दुआ करते और उसका शौक़ ज़ाहिर करते। (मुसनद अहमद, 24609)

कारण क्या है

क़ुरआन में अलग-अलग अन्दाज़ में यह बात कही गई है कि बहुत से इन्सान ऐसे हैं जिनका हाल यह होता है कि उनके सामने सच्चाई को हर क़िस्म की दलीलों के साथ बयान कर दिया जाए, तब भी वे उसको क़बूल नहीं करेंगे। मसलन हज़रत सालेह अलैहिस्सलाम का ज़िक्र करते हुए बताया गया है कि उन्होंने अपनी क़ौम के सामने सच्चाई को पूरी तरह खोल कर रख दिया, इसके बावजूद वे लोग मानने के लिए तैयार नहीं हुए। आख़िर में वे अपनी क़ौम से निकल गए और कहा कि ऐ मेरी क़ौम, मैंने तुमको अपने रब का पैग़ाम पहुंचा दिया और मैंने तुम्हारा भला चाहा। पर तुम भला चाहने वालों को पसन्द नहीं करते (7:79)।

दूसरी जगह अल्लाह तआला ने फ़रमाया कि मैं अपनी निशानियों से उन लोगों को फेर दूंगा जो ज़मीन में नाहक़ घमंड करते हैं। और वे हर क़िस्म की निशानियां देख लें तब भी वे उन पर ईमान न लाएं (उनका हाल यह है कि) अगर वे हिदायत का रास्ता देख लें तो उसको वे नहीं अपनाएंगे। और अगर वे गुमराही का रास्ता देखें तो उसको वे अपना लेंगे। इसकी वजह यह है कि उन्होंने हमारी निशानियों को झुठलाया और उनको अनदेखा किया (7:146)।

इन दोनों आयतों में ऐसे गिरोहों का ज़िक्र है जिनको ख़ुदा के पैग़म्बर के ज़रिए बेहतरीन शक्ल में दावत पहुंची। उसके बावजूद उन्होंने हक़ की दावत को क़बूल नहीं किया। इस की वजह क्या थी। इसकी वजह उनकी बिगड़ी हुई मानसिकता थी। मानसिकता का यह बिगाड़ अक्सर हालात में घमंड की बुनियाद पर होता है। इसलिए उपरोक्त दोनों आयतों में घमंड सबब बताया गया है (7: 75, 146)।

नसीहत हर इन्सान के लिए नापसन्दीदा चीज़ है। और ख़ास तौर पर घमंडी इन्सान तो नसीहत को बिल्कुल नापसन्द करता है। जो लोग घमंड की मानसिकता रखते हैं वे कभी अपने ख़िलाफ़ किसी नसीहत को सुनने पर राज़ी नहीं होते। ऐसी कोई सच्चाई उनके लिए आख़िरी हद तक अस्वीकार्य होती है, जिसमें उन्हें अपनी शख़्सियत का निषेध दिखाई दे रहा हो।

जो लोग अपने आपको ऊंचे मुक़ाम पर बैठा हुआ मान लें वे किसी ऐसी दावत को क़बूल करने के लिए तैयार नहीं होते जिसमें उन्हें महसूस हो कि उसको क़बूल करने की हालत में उन्हें अपने ऊंचे मुक़ाम से नीचे उतरना पड़ेगा। जो लोग फ़ख़्र और घमंड की मानसिकता रखते हों उनकी यह मानसिकता उनके लिए किसी ऐसी बात को मानने की राह में रुकावट बन जाती है जिसमें उनका फ़ख़्र और घमंड उन्हें टूटता हुआ नजर आए।

जो लोग क़ौम की जांच पड़ताल करने के काम को अपना जीवन-लक्ष्य समझ बैठे हों वे अपने मिज़ाज की वजह से ऐसी किसी पुकार को नज़र अन्दाज़ कर देते हैं, जिसमें ख़ुद अपनी ही जांच पड़ताल करने पर सबसे ज़्यादा ज़ोर दिया गया हो। जो लोग आरज़ुओं और ख़ुशख़यालियों की दुनिया में जी रहे हों वे किसी ऐसे पैग़ाम को अपने लिए अजनबी महसूस करते हैं जिसमें यथार्थ और मौजूदा सच्चाई से तालमेल करके ज़िन्दगी के निर्माण का सबक़ दिया गया हो। जिन लोगों की निगाह अपनी ज़िम्मेदारियों के बजाय अपने अधिकारों पर हो, वे ऐसी किसी दावत को ग़ैरज़रूरी समझ कर रद्द कर देते हैं जिसमें उन्हें उनकी ज़िम्मेदारियां याद दिलाई जाएं।

जो लोग अपने बारे में यह समझ लें कि वे माफ़ किये हुए लोग हैं वे ऐसे पैग़ाम की सार्थकता को समझ नहीं पाते, जिसमें अपनी मौजूदा हालत के तहत उन्हें अपनी माफ़ी संदिग्ध दिखाई पड़ती हो। जिन लोगों ने ख़्यालों की रंगीन दुनिया में अपने क़िले बना रखे हों वे किसी ऐसे पैग़ाम को अहमियत देने में नाकाम रहते हैं, जिसको मानने की हालत में उन्हें दिखाई दे कि वे किसी सुरक्षित क़िले में नहीं बल्कि रेगिस्तान में खड़े हुए हैं। जिन लोगों ने यह आस्था बना रखी हो कि किसी अमल के बिना उनके लिए पहले से ही जन्नत के महल रिज़र्व हो चुके हैं वे किसी ऐसी तहरीक में हिस्सा लेना ग़ैरज़रूरी समझते हैं जिसमें अमल की बुनियाद पर जन्नत में दाख़िले का राज़ बताया गया हो।

सच को क़बूल करने में सबसे बड़ी रुकावट बिगड़ा हुआ मिज़ाज है। जो लोग बिगड़े हुए मिज़ाज वाले हों, उनको सिर्फ़ अपने मिज़ाज के मुताबिक़ बात ही अपील करती है। दूसरी कोई बात, चाहे वह कितनी ही दलीलों के साथ बयान कर दी जाए वह किसी तरह उन्हें अपील नहीं करती। अपने ख़ास मिज़ाज के ख़िलाफ़ किसी बात को मानना उनके लिए उतना ही कठिन हो जाता है, जितना कि बकरी के लिए गोश्त खाना और शेर के लिए घास चरना।

वह नेकी नेकी नहीं जिससे फ़ख़्र और बड़ाई का जज़्बा पैदा हो

इब्ने अताउल्लाह सिकंदरी ने अपनी किताब अलहिकम’ में कहा है कि ऐसा गुनाह जिससे पस्ती और इज्ज़ (विनम्रता) पैदा हो वह उस नेकी से बेहतर है जिससे फ़ख़्र और घमंड पैदा हो ।

Author
Maulana Wahiduddin Khan
Author Image
Language
Urdu
Maulana book images