کتاب زندگی (Kitab-e-Zindagi)

By
Maulana Wahiduddin Khan

کتاب زندگی

زندگی گزارنے کے رہنما اصول

 

مولانا وحیدالدین خاں

 

 

Contents

ديباچه

باب اول

صفحاتِ حکمت

پختہ انسان

برتر حل

تخلیقی صلاحیت

محنت کے ذریعہ

مقصدیت

بچ کر چلیے

حکیمانہ طریقہ

تعمیر شعور

کامیابی کیسے

ایک نصیحت

قیمت کا مسئلہ

ناکامی، کامیابی

کاروباری استقلال

عمل، نہ کہ ردّعمل

غصہ نہ دلاؤ

اختیار اور بے اختیاری

اپنی کمزوری

سارا خون

سبب اپنے اندر

اپنی غلطی

بچت سے اضافہ

فتح بغیر جنگ

حکمت کی بات

سادہ اصول

خطرہ نہیں

جوش بغیر ہوش

رواجی ذہن

کامیابی کی شرط

زندگی کا سفر

دشمن سے سیکھنا

بند ذہن

بلند پروازی

بے دانشی

ہارمان کر

کامیابی کا راز

مجرم کون

مشکل میں آسانی

دکان داری

موجودہ سماج

خواب میں

کامیاب سفر

ممکن اور ناممکن

ہر قسم کے مواقع

معذوری کے باوجود

کامیابی کا راز

کتنا فرق

مقصد کی اہمیت

اُلٹا کام

انصاف زندہ ہے

تخریب نہیں

لفظ یا حقیقت

عبرت ناک

بڑا اندیشہ

بعد از وقت

چرچل کا اقرار

کتنا مشکل کتنا آسان

اعتراف

حوصلہ

اپنے خلاف

بلند فکری

ضروری تیاری

تجارتی کامیابی

سادہ حل

زمانہ کے خلاف

زندہ یا مردہ

ایک خودکشی

زندگی کا راز

انسانی عظمت

الّو کا سبق

کھونے کے بعد بھی

کم سمجھنا

ذہنی ارتکاز

قدرت کا فیصلہ

بڑی ترقی

کامیابی کا ٹکٹ

دریافت

خدمت کا کرشمہ

ذہن کی تعمیر

ناگزیر مسئلہ

قدرت کی تعلیم

سفرِ حیات

فرضی وہم

ایک مثال

غصہ کا انجام

سبب کیا ہے

ایک میدان

تخریبی منصوبہ

بڑی اسٹوری

احساسِ اصلاح

بہتر حکومت

درست مشورہ

بڑا ظرف

فرق کیوں

اقدام، نتیجہ

جنگ، امن

ایک واقعہ دو انجام

قیمت ضروری

تعمیر کی طاقت

دو قسم کے رہنما

زندگی، موت

فطرت کی طرف

حکمت کا طریقہ

اخلاق کا پھل

محنت کا کرشمہ

دانش مندی

بے مسئلہ انسان

واحد راستہ

رکاوٹیں زینہ ہیں

ایک واقعہ

آسان طریقہ

زندگی کا راز

حکمت کی بات

مقصد کا تقاضا

باب دوم

اوراقِ حکمت

سوچ کا فرق

تدبیر نہ کہ ٹکرائو

دوسرا موقع

کامیابی کا ٹکٹ

مٹھاس کا اضافہ

مستقبل پر نظر

بیس سال بعد

چیلنج نہ کہ ظلم

غیر معمولی انسان

وقت کی اہمیت

شیر کا طریقہ

خون کے بجائے پانی

آسان حل

علم کی اہمیت

محرومی کے بعد بھی

مشتعل نہ کیجیے

دشمن میں دوست

ناکامی میں کامیابی

فاصلہ پر رہو

مقابلہ کی ہمت

ضمیر کی طاقت

دماغی اضافہ

تاریخ کا سبق

اتحاد کی طاقت

فطری ڈھال

مقصد کا شعور

غلط فہمی

نفع بخشی کی طاقت

یقینی حل

فتح بغیر جنگ

سلیقہ مندی

امید کا پیغام

کامیابی کا راز

تجربہ کی زبان سے

سبق آموز

برداشت کا مسئلہ

مواقع کا استعمال

زندگی کااصول

باب سوم

مضامینِ حکمت

طاقت کا خزانہ

امکان ختم نہیں ہوتا

خدمت کا کرشمہ

خدمت کی برکت

ٹالرنس: فطرت کا اصول

ایک غلطی فہمی

اتھاہ امکانات

نمونہ کی اقلیت

حل رخی پالیسی

حقیقت پسندی کی طرف

امریکہ اورروس

پرسترائیکا

نتیجۂ بحث

یہ اسلام نہیں

حقیقت پسندی

ایک تقابل

اعلیٰ کامیابی

اس میں سبق ہے

رازِ حیات

تعمیر کی طاقت

 

 

 

ديباچه

انسان کے سوا جو کائنات ہے وہ نہایت محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ کائنات کی ہرچیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ وہ ہمیشہ اسی ضابطہ کی پیروی کرتی ہے۔ ہر چیز اس ضابطہ پرعمل کرتے ہوئے اپنی تکمیل کے مرحلہ تک پہنچتی ہے۔

اسی طرح انسانی زندگی کے لیے بھی قدرت کا ایک مقرر کیا ہوا ضابطہ ہے۔ جو آدمی اس ضابطہ کی پیروی کرتا ہے وہ اس دنیا میںکامیاب ہوتا ہے۔ جو آدمی اس مقرر ضابطہ سے انحراف کرتاہے وہ یہاں ناکام و نامراد ہو کر رہ جاتا ہے۔

اس ضابطہ کی بنیادی دفعہ یہ ہے کہ انسانی دنیا کے نظام کو مقابلہ اور مسابقت کے اصول پرقائم کیا گیا ہے۔ یہاں ہر آدمی کو دوسرے آدمی کا لحاظ کرنا ہے۔ یہاں ہر آدمی کو دوسرے آدمیوں سے مقابلہ کرکے اپنا ضروری حق وصول کرنا ہے۔

اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جب بھی کسی شخص یا قوم کو کچھ ملتا ہے تو وہ اپنی صلاحیت کی بنا پر ملتا ہے اور اگر کسی سے کچھ چھنتا ہے تو اپنی کوتاہی کی بنا پر چھنتا ہے۔ اس لیے یہاں زندگی کی دوڑ میں اگر کوئی طبقہ محروم رہ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے خود اپنے اندر اس سبب کو تلاش کرے جس نے اسے محرومی میں ڈال دیا۔

زیرِ نظر مجموعہ مختلف پہلوئوں سے اسی اصولِ فطرت کی تشریح ہے۔ اس کی ترتیب سادہ طور پر کمیت کے قاعدہ پر کی گئی ہے۔ پہلے ایک صفحہ والے مضامین، اس کے بعد دو صفحہ والے مضامین۔ اس کے بعد کئی صفحہ والے مضامین۔ اسی نسبت سے اس کو حسب ذیل تین ابواب پر تقسیم کیا گیا  ہے— صفحاتِ حکمت، اوراقِ حکمت ، مضامینِ حکمت۔

وحید الدین

19 مارچ،1992

باب اول

صفحاتِ حکمت

پختہ انسان

این لینڈرس (Ann Landers) نے پختگی کے بارے میں ایک مضمون لکھا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہےپختگی یہ ہے کہ آدمی غصہ پر قابو پا لے، اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر حل کر سکے۔ پختگی برداشت کا نام ہے، یہ آمادگی کہ دیر طلب فائدہ کے لیے وقتی خوشی کو ترک کر دیا جائے۔ پختگی دراصل ثابت قدمی ہے، رکاوٹوں کے باوجود منصوبہ کی تکمیل کے لیے اپنی محنت جاری رکھنا۔ پختگی بے غرضی ہے، دوسروں کی ضرورتوں میں ان کے کام آنا۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ ناخوش گواری اور مایوسی کا سامنا کسی تلخی کے بغیر کیا جائے۔ پختگی انکساری ہے۔ ایک پختہ انسان یہ کہنے کے قابل ہوتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ اور جب وہ صحیح ثابت ہوتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ بات میں نے تمہیں بتا دی تھی۔ پختگی کا مطلب ہے قابل اعتماد اور ایمان دار ہونا، اپنے وعدہ کو ہر حال میں پورا کرنا۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ ہم ان چیزوں کے ساتھ پُرامن طور پر رہ سکیں جن کو ہم بدل نہیں سکتے:

Maturity is the ability to control anger, and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is perseverance, sweating out a project despite setbacks. Maturity is Unselfishness, responding to the needs of others. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, ''I was wrong.'' And when he is proved right, he does not have to say, ''I told you so.'' Maturity means dependability, integrity, Keeping one,s word. Maturity is the ability to live in peace with things we cannot change.

پختہ انسان وہ ہے جس میں مردانہ اوصاف پائے جائیں۔ جو حقیقتِ واقعہ کااعتراف کرے۔ جو ردعمل سے اوپر اٹھ کر معاملہ کرے۔ جو اپنے جذبات کو قابو میں رکھ سکے۔ جس کے اندر ناخوش گواری کو تحمل کے ساتھ عبور کرنے کی صلاحیت ہو۔ جو لوہے کی طرح قابل اعتماد کردار کا حامل ہو۔

یہی پختگی انسانیت کا کمال ہے۔ جس انسان کے اندر یہ خصوصیات ہوں، وہی کامل انسان ہے۔ وہی انسانیت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچا ہے۔ ایسے ہی افراد زندگی میں کوئی حقیقی کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ اور یہی افراد ہیں جو کسی قوم کو ترقی اور کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔

برتر حل

سوچنا (thinking) ہماری دنیاکا ایک ناقابل فہم حد تک عجیب عمل ہے۔ موجودہ زمانہ میں اس پرکثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان تحقیقات نے انسان کے علم میں اضافہ کرنے سے زیادہ انسان کی حیرانگی میں اضافہ کیا ہے۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں :

Dr Rapaport,  Toward a Theory of Thinking, 1951

W.E. Vinacke,  The Psychology of Thinking, 1952

F.C. Bartlett,  Thinking, 1958

Max Wertheimer, Italian Productive Thinking, 1959

ان تحقیقات کے ذریعہ بے شمار نئی معلومات سامنے آئی ہیں ۔ ایک بات یہ ہے کہ انسانی ذہن کے اندر ہمیشہ ایک نہایت اہم عمل جاری رہتا ہے۔ علماءِ نفسیات اس کو ذہنی طوفان سے تعبیرکرتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت پیدا ہوتاہے جب کہ ذہن کسی نئے چیلنج سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں وہ خود اپنی فطرت کے زور پر مسائل کے نئے حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ یہ عمل اس امکان کو بڑھا دیتا ہے۔ کہ پیش آمدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کچھ برتر حل آدمی کے سامنے آ جائیں:

A process called brainstorming has been offered as a method of  facilitating the production of new solution to problems-- These unrestricted suggestions increase the probability that at least some superior solutions will emerge (EB. 18/357).

یہ ریسرچ بتاتی ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی حالت سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے اندر چُھپی ہوئی فطری صلاحیت کے تحت اس کے اندر ذہنی طوفان (brainstorming) کی ایک کیفیت جاگ اٹھتی ہے۔ یہ طوفان اس کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ پیش آمدہ مسئلہ کا ایک برتر حل (Superior Solution) دریافت کر لے اور مسئلہ کا برتر حل معلوم ہو جانے کے بعد کامیابی اتنی ہی ممکن ہو جاتی ہے جتنا شام کے بعد صبح کا آنا۔

اللہ کا یہ معاملہ کیسا عجیب ہے کہ اس نے مشکلات کو ہماری ترقی کا زینہ بنا دیا۔

تخلیقی صلاحیت

یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک تعلیم یافتہ ہونے کی پہچان کیا ہے۔ پروفیسر نے جواب دیا— وہ شخص جو نہیں سے ہےکی تخلیق کر سکے:

The person who can create thing out of nothing.

یہ تعریف نہایت صحیح ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی آدمی کے تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کی سب سے زیادہ خاص پہچان یہی ہے کہ وہ کوئی نئی چیز دریافت کر سکے۔ بظاہر ’’نہیں‘‘ کے حالات میں وہ ’’ہے‘‘ کا واقعہ ظاہر کر سکے۔ اس خصوصیت کا تعلق زندگی کے ہر میدان سے ہے۔ خواہ علم کا میدان ہو یا تجارت کا۔ سماجی معاملات کی بات ہو یا قومی معاملات کی ۔ غرض زندگی کے ہر شعبہ میں وہی شخص بڑی ترقی حاصل کر سکتا ہے جو اس انسانی صلاحیت کا ثبوت د ے سکے۔

اس دنیا میں آدمی کو خام معلومات سے اعلیٰ معرفت کی دریافت تک پہنچنا ہے۔ اس کو ناموافق حالات میں موافق پہلو کو دریافت کرنا ہے۔ اس کو دشمنوں کے اندر اپنے دوست کا پتہ لگانا ہے۔ اس کو ناکامیوں کے طوفان میں کامیابی کا سفر طے کرنا ہے۔ اس کو یہ ثبوت دینا ہے کہ وہ زندگی کے کھنڈر سے اپنے لیے ایک نیا شاندار محل تعمیر کر سکتا ہے۔ جو لوگ اس تخلیقی صلاحیت کا ثبوت دیں وہی صحیح معنوں میں انسان کہے جانے کے مستحق ہیں۔ اور جو لوگ اس تخلیقی صلاحیت کا ثبوت نہ دے سکیں وہ باعتبار حقیقت حیوان ہیں خواہ بظاہر وہ انسانوں جیسا لباس پہنے ہوئے ہوں۔

یہ تخلیق (creativity) ہی کسی شخص یا قوم کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یہی چیز اس کو موجودہ  دنیا میں اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔ جو لوگ تخلیق کی صلاحیت کھو دیں، وہ کسی اور چیز کے ذریعہ یہاں اپنا مقام نہیں پا سکتے۔ خواہ وہ کتنا ہی شور و غل کریں۔ خواہ ان کے فریاد و احتجاج کے الفاظ سے تمام زمین و آسمان گونج اٹھیں۔ وہ لائوڈ سپیکروں کا شور تو برپا کر سکتے ہیں، مگر وہ استحکام کا خاموش قلعہ کبھی کھڑا نہیںکر سکتے۔

محنت کے ذریعہ

باپسی سدھوا (Bapsi Sidhwa, b. 1936) ایک پارسی خاتون ہیں۔ وہ پاکستان (لاہور) کی رہنے والی ہیں۔ آج کل وہ ٹکساس (امریکہ) کی یونیورسٹی آف ہائوسٹن میں استاد ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کی لکھی ہوئی کتابیں (ناولیں) انٹرنیشنل سطح کے پبلشنگ اداروں میں چھپتی ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باپسی سدھوا کی رسمی تعلیم بالکل نہیں ہوئی۔ وہ اپنے وطن لاہور کے ایک سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ ان کو پولیو کی بیماری ہو گئی۔ ان کے والدین نے ان کے لیے باضابطہ تعلیم کو ناممکن سمجھ کر ان کو سکول سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ ٹیوٹر کے ذریعہ اپنے گھر پر پڑھنے لگیں ۔ مگر ٹیوٹرکا سلسلہ بھی بہت زیادہ دن تک باقی نہیں رہا۔

اب باپسی سدھوا کا شوق ان کا رہنما تھا۔ وہ خود سے پڑھنے لگیں ۔ وہ ہروقت انگریزی کتابیں پڑھتی رہتیں ۔ اپنے الفاظ میں، وہ کبھی سیر نہ ہونے والی قاری (voracious reader) بن گئیں۔ آخر انہوں نے اپنی محنت سے یہ درجہ حاصل کر لیا کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں۔ مگردو سال تک یہ حال تھاکہ انہیں اپنے بھیجے ہوئے مضمون کے جواب میں صرف انکاری تحریریں (rejection slips) ملتی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب کا مسودہ آٹھ سال تک ان کی الماری میں پڑا ہوا گرد آلود ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان پرمایوسی کے دورے پڑنے لگے۔

آخر کار حالات بدلے۔ ان کے مضامین باہر کے میگزینوں میں چھپنے لگے۔ اب وہ عالمی سطح پر پڑھی جانے والی انگریزی رائٹر بن چکی ہیں۔ رسمی ڈگری نہ ہونے کے باوجود وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں تخلیقی تحریر (creative writing) کا مضمون پڑھا رہی ہیں (ٹائمس آف انڈیا 25 فروری 1990) ۔حقیقت یہ ہے کہ تمام علوم محنت کی درسگاہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ تمام ترقیاں محنت کی قیمت دے کر حاصل ہوتی ہیں۔ اور محنت وہ چیز ہے جو ہر آدمی کو حاصل رہتی ہے۔ حتیٰ کہ اس آدمی کو بھی جس کو بیماری نے معذور بنا دیا ہو، جو کالج اور یونیورسٹی کی ڈگری لینے میں ناکام ثابت ہوا ہو — محنت ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی کسی کے لیے ختم نہیں ہوتا۔

مقصدیت

دہلی میں ایک مسلم نوجوان تھا۔  وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ اس کی باقاعدہ تعلیم بھی نہ ہو سکی، تاہم وہ تندرست اور باصلاحیت تھا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس کو محسوس ہواکہ ماحول میں اس کے لیے کوئی باعزت کام یہیں ہے۔ آخر کار وہ داداگیری کی راہ پر لگ گیا۔ جھگڑا فساد اور لوٹ مار اس کا پیشہ بن گیا۔ لوگ اس کو دادا کہنے لگے۔

چند سالوں کے بعد ایک شخص کو اس سے ہمدردی ہوئی۔ اس نے اپنے پاس سے کچھ رقم بطور قرض دے کر اس کو دکانداری کرا دی۔ جب وہ دکان میں بیٹھا اور اس کو نفع ملنے لگا تو اس کی تمام دلچسپیاں دکان کی طرف مائل ہو گئیں۔اس نے داداگیری چھوڑ دی اور پوری طرح دکان کے کام میںمصروف ہو گیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کامعاملہ بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مقصدیت کھو دی ہے۔ جدید دنیا میں وہ ایک بے مقصد گروہ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس آج منفی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بن گئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوںپروہ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کی ہر نشست مجلس شکایت ہوتی ہے اور ان کا ہر جلسہ یوم احتجاج۔ اس صورت حال کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک بامقصد گروہ بنایا جائے اور یہ مقصد صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ دعوت ہے۔ مسلمانوں کے اندر اگر داعیانہ مقصد پیدا کر دیا جائے تو ان کی تمام کمزوریاں اپنے آپ دور ہو جائیں گی۔

وہ اپنے کرنے کا ایک اعلیٰ اور مثبت کام پا لیں گے۔ ان کی بے مقصدیت اپنے آپ مقصدیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس کے بعد ان کے اندر کردار بھی آئے گا اور صبر و برداشت بھی۔ وہ دوسروں سے نفرت کرنے کے بجائے محبت کرنے لگیں گے۔ اس کے بعد ان کو وہ نظر حاصل ہو جائے گی جو تاریکی میں روشنی کا پہلو دیکھ لیتی ہے۔ جو کھونے میں پانے کا راز دریافت کر لیتی ہے۔

مقصدیت ہر قسم کی اصلاح کی جڑ ہے۔ بے مقصد آدمی کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ آدمی کو بامقصد بنا دیجیے اور اس کے بعد اپنے آپ اس کی ہرچیز درست ہو جائے گی۔

بچ کر چلیے

ایک راستہ ہے۔ اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں۔ ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ اس راستہ میں گھس جاتاہے۔ اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں۔ کپڑا پھٹ جاتاہے۔ اپنی منزل پر پہنچنے میں اس کو تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔

اب وہ آدمی کیاکرے گا۔ کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرے گا۔ کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کرے گا۔ وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کر دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلہ سے دوچار نہ ہو۔

کوئی سنجیدہ اور باہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس وہ صرف یہ کرے گا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کرے گا۔ وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں تو تم نے کیوں ایسا نہ کیا کہ تم کانٹوں سے بچ کر چلتے۔ تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹے والے راستہ سے نکل جاتے۔ اس طرح تمہارا جسم بھی کانٹوںسے محفوظ رہتا اور تم کو اپنی منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی۔

اللہ تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی تاکہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت (نشانی) کو کسی نے نہیں پڑھا۔ خدا کے اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا۔ آج کی دنیا میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ اور جب کانٹے ان کے جسم سے لگ کر انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں تووہ ایک لمحہ سوچے بغیر خود کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی نادانی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔

ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیاسے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ، اسی طرح سماجی دنیا سے بھی کانٹے دار انسان کبھی ختم نہ ہوں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اس دنیا میں محفوظ اورکامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔

حکیمانہ طریقہ

زندگی میں بار بار ایسا ہوتاہے کہ آدمی کو یہ فیصلہ لینا پڑتا ہے کہ وہ کیاکرے اورکیانہ کرے۔ ایسے مواقع پر فیصلہ لینے کی دو بنیادیں ہیں۔ ایک یہ کہ کیادرست ہے، دوسری یہ کہ کیا ممکن ہے:

1. What is right.

2. what is possible

حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی یہ دیکھے کہ کیا درست ہے۔ اور جو طریقہ درست ہو اس کو اختیار کر لے۔ مگر اجتماعی معاملہ کے لیے صحیح بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ممکن کیا ہے، اور جو چیزممکن ہو اس کو اپنا لیا جائے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں سارا مسئلہ صرف اپنی ذات کا ہوتا ہے۔ آپ کو اپنی ذات پر پورا اختیار ہے۔ اپنی ذات کو آپ جس طرف چاہیں موڑیں اور اپنے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں۔ اس لیے آپ کو اپنی ذات کے معاملہ میں معیار پسند ہونا چاہیے اور حتی الامکان وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو مذہب اور اخلاق کی روسے مطلوب ہے۔

مگر اجتماعی معاملہ میں آپ کی ذات کے ساتھ ایک اور فریق شامل ہو جاتاہے۔ اس خارجی فریق پر آپ کو کوئی اختیار نہیں۔ آپ اس سے کہہ سکتے ہیں، مگر اس کو کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ایسی حالت میں عقل مندی کی بات یہ ہے کہ اجتماعی معاملہ میں ’’ممکن‘‘ کو دیکھاجائے۔ دو صورتوں میں سے جو صورت عملاً ممکن ہو اس پراپنے آپ کو راضی کر لیا جائے۔

ذاتی معاملہ میں ’’درست‘‘ پر چلنے سے زندگی کا سفر رکتا نہیں، وہ برابر جاری رہتاہے۔ مگر اجتماعی معاملہ میں ایسا کیاجائے تو فریق ثانی کی مخالفت فوراً آپ کے سفر کو روک دیتی ہے۔ اب سفر کو ملتوی کر کے ساری طاقت نزاع کے محاذ پر خرچ ہونے لگتی ہے۔ اس لیے مفید اورنتیجہ خیز طریقہ یہ ہے کہ فریق ثانی کے مطالبہ کی رعایت کرتے ہوئے عمل کی جو ممکن صورت مل رہی ہے، اس کو اختیار کر لیا جائے۔ حال کو مستقبل کے حوالہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھاجائے۔

یہی اس دنیا میں زندگی گزارنے کا حکیمانہ طریقہ ہے۔

تعمیر شعور

دوسری جنگ عظیم تک امریکہ ساری دنیا میں موٹر کار کا سب سے بڑا تاجر تھا۔ ہر آدمی کے ذہن پر رولس رائس کار کی عظمت چھائی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی ووکس ویگن کا زمانہ آیا۔ 1970ء تک 140 ملکوں میں 16 ملین سے زیادہ ووکس ویگن گاڑیاں فروخت ہو چکی تھیں۔ مگر اب جاپانی کاروں کا زمانہ ہے۔ آج ٹویوٹا (نہ کہ جنرل موٹر س) کاروں کی دنیا کا بادشاہ ہے۔ امریکہ کی سڑکوں پر آج جو کاریں دوڑتی ہیں ان میں 35 فیصد کاریں جاپان کی بنی ہوئی ہوتی ہیں۔

آج دنیا بھر میں استعمال ہونے والا الیکٹرانک سامان 80 فیصد جاپان کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ امریکہ کا اپالو دوم جب چاند پر گیا۔ تو اس کے اندر رکھنے کے لیے ایک بہت چھوٹے ٹیپ ریکارڈر (کیسٹ ریکارڈر) کی ضرورت تھی۔ اتنا چھوٹا اور بالکل صحیح کام کرنے والا ریکارڈر صرف جاپان فراہم کر سکتا تھا۔ چنانچہ اپالو دوم کے ساتھ جاپانی ساخت کا ریکارڈر رکھ کر اسے چاند پر روانہ کیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم تک جاپان کا یہ حال تھاکہ میڈ ان جاپان (Made in Japan) کا لفظ جس سامان پر لکھاہوا ہو،اس کے متعلق پیشگی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ سستا اور ناقابل اعتماد ہو گا۔ جاپانی سامان کی تصویر اتنی گھٹیا تھی کہ مغربی ملکوں کے تاجر جاپانی ساخت کاسامان اپنی دکان پررکھنا اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ پھر صرف 40 سال کے اندر جاپان نے کس طرح ایسی انقلابی ترقی حاصل کر لی۔ ایک امریکی عالم ولیم او یو چی (William O'uchi) کے الفاظ میں اس کا راز اپنے کارکنوں کے اندر داعیہ پیداکرنا (motivation of the employees) ہے۔

جاپانیوں نے اپنے یہاں ابتدائی تعلیم کا انتہائی اعلیٰ معیار قائم کیا۔ انہوں نے ابتدائی معلموں کو اعلیٰ تنخواہ اور پروفیسروں والااعزاز دینا شروع کیا اور اس طرح اعلیٰ ترین صلاحیت کے اساتذہ کو اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر لگا دیا۔ انہوں نے اپنے افراد میں نہایت گہرائی کے ساتھ یہ شعور پیداکیا کہ صنعت میں اصل چیز معیار (Quality) ہے۔ جدید جاپان میں ہرجگہ کوالٹی کنٹرول سرکل قائم ہیں۔ 1980ء تک ایک لاکھ کوالٹی کنٹرول رجسٹرڈ سرکل ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ ایک ملین غیر رجسٹرڈ کوالٹی سرکل بھی جاپان میں موجود ہیں۔

کامیابی کیسے

فروری 1992ء میں دہلی میں کتابوں کی نمائش (book fair) لگائی گئی۔ 7 فروری کو میں بھی اس کو دیکھنے کے لیے گیا۔ مختلف اسٹال دیکھتے ہوئے ایک جگہ پہنچا تو اس کے بورڈ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ بورڈ کے الفاظ تھےتھنک انکارپوریٹڈ (Think Incorporated) ۔ یہ اس بک فیرمیں ایک انوکھا اسٹال تھا۔ اس کا مقصد یہ تھاکہ لوگوں کو سوچنے کا آرٹ بتایا جائے۔ کیوں کہ غلط سوچ آدمی کو ناکامی کی طرف لے جاتی ہے اور صحیح سوچ کامیابی کی طرف۔یہاں مسٹر پرومودکمار بترا کی ایک خوبصورت چھپی ہوئی انگریزی کتاب تھی۔ اس کانام مینجمنٹ تھاٹس (Management Thoughts) تھا۔ اس کے 315 صفحات ہیں۔ اور اس میں 1360 مفید اقوال جمع کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قول یہ تھاکہ ہمارا ذہنی رویہ ہماری بلندی کا تعین کرتا ہے:

Our attitude determines our altitude.

اسی طرح اس اسٹال پر کئی تعمیری کتبے تھے۔ ایک کتبہ میں اوپر ماچس کی ایک تیلی دکھائی گئی تھی۔ اس کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ ماچس کی تیلی کا ایک سر ہوتاہے مگر اس میں دماغ نہیں ہوتا۔ اس لیے جب بھی کوئی رگڑ ہوتی ہے وہ فوراً جل اُٹھتی ہے۔ آئیے ہم ماچس کی ایک چھوٹی تیلی سے سبق لیں۔ ہم اور آپ سر رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ دماغ بھی۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اشتعال پر بھڑک نہ اٹھیں:

A matchstick has a head, but it does not have a brain. Therefore, whenever there is a friction, it flares up immediately. Let us Learn from this humble matchstick. You and we have heads as well as brains. Therefore, let us not react on impulse.        

ایک انسان وہ ہے جو بھڑکنے والی بات پر بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ فوری جذبہ کے تحت عمل کرنے کے لیے اٹھ کھڑاہوتاہے۔ ایسا آدمی ہمیشہ ناکام رہے گا۔ دوسراانسان وہ ہے جو بھڑکانے والی بات ہو تب بھی نہیں بھڑکتا۔ وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچتا ہے، پھر اپنا عمل کرتا ہے۔ ایسا آدمی ہمیشہ کامیاب رہے گا۔ دوسراانسان انسان ہے اور پہلا صرف ماچس کی ایک تیلی۔

ایک نصیحت

بنجمین فرینکلن (Benjamin Franklin) ایک امریکی مفکر تھا۔ وہ 1706ء میں پیدا ہوا، اور 1790ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کاایک قول ہے— نکاح سے پہلے اپنی آنکھیں خوب کھلی رکھو، مگر نکاح کے بعد اپنی آدھی آنکھ بند کر لو:

Keep your eyes open before marriage, half shut afterwards.

یعنی نکاح کرنے سے پہلے اپنے جوڑے کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرو۔ مگر جب نکاح ہو جائے تو اجمال پراکتفاء کرو۔ اسی بات کو کسی نے سادہ طور پر ان لفظوں میں کہاکہ نکاح سے پہلے جانچو، اور نکاح کے بعد نبھائو۔ کوئی مرد یا عورت پرفیکٹ نہیں۔ کوئی بھی کامل یا معیاری نہیں۔ اس لیے رشتہ سے پہلے تحقیق تو ضرور کرنا چاہیے۔ مگر رشتہ کے بعد یہ کرنا چاہیے کہ اپنے رفیق حیات کی خوبیوں کو دیکھا جائے، اور کمیوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے۔

معیار کا حصول موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کو ایک فریق معیاری سمجھے وہ دوسرے فریق کے نزدیک بھی معیاری ہو۔ اس بنا پر خواہ کوئی کتنا ہی زیادہ صحیح ہو وہ دوسرے کو آخری حد تک مطمئن نہیں کرسکے گا، دونوں فریق کو ایک دوسرے کے اندر کچھ نہ کچھ کوتاہیاں نظر آئیں گی۔

اب ایک شکل یہ ہے کہ دوسرے فریق کی کوتاہی سے لڑ کر اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے، مگر مشکل یہ ہے کہ ایک تعلق کی علیحدگی کے بعد دوسرا تعلق جو قائم کیا جائے گا۔ اس میں بھی جلد ہی وہی یا کوئی دوسری خامی ظاہر ہو جائے گی اور اگر دوسرے رشتہ کو ختم کر کے تیسرا یا چوتھا کیا جائے تو اس میں بھی۔ ایسی حالت میں موافقت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہر مرد یا عورت میں خوبی بھی ہوتی ہے اور کوتاہی بھی۔ ضرورت ہے کہ خوبی کو دیکھا جائے اور کوتاہی کو برداشت کیا جائے۔ عملی طور پر یہی ایک ممکن طریقہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی طریقہ اس دنیا میں قابل عمل نہیں۔

قیمت کا مسئلہ

مولانا فرید الوحیدی جدہ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے یکم نومبر 1991 کی ملاقات میں ایک بہت بامعنی مقولہ سنایا۔ انھوں نے کہا کہایک شخص جو مائونٹ ایورسٹ کو فتح کرناچاہتا ہو وہ کبھی جوتوں کی قیمت کی گنتی نہیں کرتا :

One who wants to conquer the mount Everest, never counts the cost of his shoes.

 اگر آپ کے سامنے چھوٹا مقصد ہو تو معمولی کوشش سے آپ اس کو حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کوئی بڑا مقصد اپنے لیے منتخب کریں تو آپ کو یہ بھی جاننا ہو گا کہ بڑا مقصد بڑی قیمت بھی مانگتا ہے جو شخص بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہو اس کو بڑی قیمت دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ بڑی کامیابی کسی کی اجارہ داری نہیں۔ ہر آدمی بڑی کامیابی تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیںکہ بہت کم لوگ بڑی کامیابی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بڑی کامیابی کی قیمت ادا نہیں کرتے۔ بازار میں کم قیمت پر کم چیز ملتی ہے اور زیادہ قیمت پر زیادہ چیز۔ یہی زندگی کا اصول بھی ہے۔ زندگی کا قانون ایک لفظ میں یہ ہے — جتنا دینا اتنا ہی پانا، نہ اس سے کم اورنہ اس سے زیادہ۔

قیمت کا مطلب لڑنا یا خون بہانا نہیں ہے۔ اس کا تعلق مال سے بھی نہیں ہے۔ اس کا تعلق سب سے زیادہ نفسیات سے ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑی قیمت وہ ہے جو نفسیات کی سطح پر دی جاتی ہے۔ نفسیاتی قیمت سے مراد ہےناگواریوں کو برداشت کرنا، اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونا۔ لوگوں کے ناروا سلوک کے باوجود اپنی طرف سے بدسلوکی نہ کرنا۔ مایوسی کے حالات میں بھی حوصلہ نہ کھونا۔ نقصان پیش آنے کے باوجود اپنی امید قائم رکھنا۔ تاریک حالات میں بھی روشنی کی کرن دیکھ لینا۔

سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آدمی کے سینہ میں غصہ اور انتقام کی آگ بھڑکے مگروہ سینہ کے اندر ہی اس کو بجھا دے۔ آدمی کو کسی سے تکلیف پہنچے پھر بھی وہ اس کے بارے میں بدگمان نہ ہو۔ آدمی کو منفی حالات سے سابقہ پیش آئے اس کے باوجود وہ مثبت نفسیات پر قائم رہے۔ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر جیے، نہ کہ حالات کے اندر۔

ناکامی، کامیابی

امریکہ کی ترقی کا راز ایک سادہ سے لفظ میں چھپا ہوا ہے، وہ لفظ ریسرچ (تحقیق) ہے۔ وہاں ہرچیز پر ریسرچ ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً بہت سے لوگوں نے اس پر ریسرچ کی ہے کہ کامیابی اور ناکامی کیا ہے، اور ناکامی کو کس طرح دوبارے کامیابی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں چند کتابوں کے نام یہ ہیں:

Carole Hyatt, When Smart People Fail Rabbi Harold Kushner, When Bad Things Happen to Good People Charles Garfield, Peak performers: The new Heroes of American Business Harvey Mackay, Swim with the Sharks Without Being Eaten Alive.

ان کتابوں میں اپنے موضوع پر قیمتی مواد جمع کیا گیا ہے۔ یہاں ہم صرف دو بات نقل کر رہے ہیں۔ ایک بات یہ کہ اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی آدمی ہمیشہ کے لیے ناکامی سے محفوظ (Failure-proof) زندگی حاصل کر سکے۔ یہاں بہرحال آدمی کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہر ناکامی کو اپنے لیے سبق کے طور پر استعمال کرے۔ اکثر کامیاب انسانوں کی کامیابی کا راز یہ ملتا ہے کہ جب وہ ناکام ہوئے تو انہوں نے اپنی ناکامی کو آخری لفظ نہیں سمجھا:

They learnt not to take failure as the last word

دوسری بات یہ کہ ناکامی کی طرح کامیابی بھی ایک مسئلہ ہے۔ مسلسل کامیابی آدمی کے اندر گھمنڈ (arrogance) پیدا کر دیتی ہے جو خود ناکامی کا ایک مہلک سبب ہے۔ ایک کامیاب تاجر گلن ارلی(Glen Early) نے کہا کہ میں کامیابی پر مغرور بننے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں ہمیشہ اپنی تجارت کو بڑھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں:

I Can't afford to get arrogant about success. So, I’m always trying to improve my business.              

کامیابی اور ناکامی کوئی پُراسرار چیز نہیں۔ دونوں معلوم اسباب کے تحت پیش آنے والے واقعات ہیں۔ ان اسباب کو جانیے اور اس کے بعد آپ کو کسی سے شکایت نہ ہو گی۔

کاروباری استقلال

خوش حال طبقہ ناشتہ میں یا چائے کے ساتھ اناج کی بنی ہوئی ہلکی چیزیں لینا پسند کرتا ہے۔ اسی کی ایک صورت وہ ہلکی خوراک ہے جس کو کارن فلیک (cornflakes) کہا جاتا ہے۔ اس کی مختلف قسمیں بازار میں فروخت ہوتی ہیں۔ بہت سی فرموں نے مختلف ناموں سے کارن فلیک بنائے۔ ان کے مزہ میں طرح طرح کا تنوع پیدا کیا۔ مگر ہندوستانی مارکیٹ میں وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ حالاں کہ انہوں نے اشتہار پر کافی رقمیں خرچ کیں۔

اس وقت ہندوستان کے بازار میں صرف دو فرموں کے بنائے ہوئے کارن فلیک زیادہ چل رہے ہیں۔ ایک ، ہندوستان ویجیٹیبلس آئلس کارپوریشن (HVOC) کا اور دوسرے موہن میکنس لمیٹڈ کا۔ یہ دونوں فرمیں سالانہ ایک ہزار ٹن کارن فلیک فروخت کرتی ہیں۔ جن کی قیمت تین کروڑ پچاس لاکھ ہوتی ہے۔ حالاں کہ یہ دونوں فرمیں اشتہار پر سرے سے کوئی رقم خرچ نہیں کرتیں۔ ان کا تیار کیا ہوا کارن فلیک بغیر کسی اشتہار کے فروخت ہوتا ہے (ٹائمس آف انڈیا 9 جون 1990ء)۔

اس فرق کی وجہ کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دوسری فرموں کی کوئی تاریخ نہیں۔ انہوں نے کسی نام سے کارن فلیک کی ایک قسم بنائی۔ وہ بازار میں نہیں چلی تو انہوں نے دوسری قسم بنا ڈالی یا سرے سے اس کو بنانے کا کام چھوڑ کر کوئی دوسرا کام شروع کردیا۔ اس کے برعکس مذکورہ دونوں کامیاب فرموں کی صنعت کے پیچھے 20 سال کی تاریخ ہے۔ وہ 20 سال سے متواتر ایک ہی قسم کا کارن فلیک بنا رہی ہیں۔ 20 سالہ تاریخ نے ان کو لوگوں کی نظر میں معلوم اور مسلّم بنا دیا ہے۔ کسی آدمی کو کارن فلیک لینا ہوتا ہے تو ان کے ذہن میں پہلے سے اس کا نام موجود ہوتا ہے اور وہ بازار جاکر اپنے اس معلوم کارن فلیک کو خرید لیتے ہیں۔

یہی کاروبار میں ترقی کا راز ہے۔ کاروبار میں استقلال کی حیثیت لازمی شرط کی ہے۔ آپ کاروبار کرکے اس کو چھوڑتے یا بدلتے رہیں تو آپ کبھی کاروبار میں کامیاب نہیں ہوں گے اور اگر آپ کاروبار کر کے اس پر جمے رہیں۔ کسی بھی دشواری کی وجہ سے اس کو نہ چھوڑیں تو ’’20 سال‘‘ گزرنے کے بعد آپ لازماً کامیابی کی اگلی منزل پر پہنچ چکے ہوں گے۔

عمل، نہ کہ ردّعمل

امریکہ کی کمپنی آئی بی ایم (IBM) کمپیوٹر کے میدان میں اتنی آگے تھی کہ اس کو کمپیوٹر دیو (computer giant) کہا جاتا تھا۔ چند سال پہلے اس کے افسروں نے جاپان کی کمپیوٹر بنانے والی کمپنیوںکا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ آئی بی ایم اگر چھینک دے تو جاپان کے کمپیوٹر بنانے والے ہوا میں اُڑ جائیں گے:

When IBM sneezes, Japanese computer makers are blown away.

اگر ہندوستان میں کوئی ہندو مسلمانوں کے خلاف ایسی بات کہہ دے تو مسلمانوں کے تمام سطحی لیڈر اوران کے تیسرے درجے کے اخبارات فوراً احتجاج کریں گے کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے جارہے ہیں، مگر ’’انتظامیہ‘‘ اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ مسلم عوام اس ’’اشتعال انگیزی‘‘ پر مشتعل ہو کر آمادۂ پیکار ہو جائیں گے اور اس کے بعد فرقہ وارانہ فساد ہو گا جس کے بعد اس ملک کے مسلمان کچھ اور پیچھے چلے جائیں گے۔

مگر جاپانی صنعت کاروںنے اس ’’اشتعال انگیزی‘‘ پر کسی غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ وہ ہمہ تن صرف اپنے کمپیوٹر کا معیار اونچا کرنے میں لگ گئے۔ یہاں تک کہ ٹائم( 17 ستمبر 1990 )کے مطابق،جاپان کمپیوٹر انڈسٹری میں ساری دنیا سے آگے بڑھ گیا۔ جاپان اس معاملہ میں آج اس پوزیشن میں ہے کہ جاپانی کمپنی فوجٹسی نے کہا کہ اس کے نئے زیادہ بڑے کمپیوٹرایک سیکنڈ میں 600 ملین ہدایات کی تعمیل کر سکتے ہیں، جب کہ امریکی کمپنی آئی بی ایم کا اچھے سے اچھا کمپیوٹر صرف 210 ملین فی سیکنڈ کی رفتار سے تعمیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:

Fujitsu said its largest new computer can perform up to 600 million instructions per second, compared with as many as 210 MIPS for IBM's Best. (p.47)

اشتعال انگیزی پر مشتعل ہو جانے کا نام ردعمل ہے، اور اشتعال انگیزی کو نظرانداز کر کے اپنے تعمیر و استحکام کے منصوبہ میں لگنے کا نام عمل۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ ’’عمل‘‘ کا ثبوت دینے والے لوگ ترقی کریں، اور ’’ردعمل‘‘ میں مصروف ہوئے لوگ برباد ہو کر رہ جائیں۔

غصہ نہ دلاؤ

29 مئی 1990ء کو دہلی کے اخبارات میں ایک سبق آموز خبر تھی۔ سدرشن پارک (موتی نگر) کی جھگیوں میں ایک شخص رہتاہے۔ اس کا نام اننت رام ہے۔ عمر35 سال ہے۔ وہ شراب کا عادی ہے۔ اس کے پاس شراب کے لیے پیسہ نہیں تھا ، اس نے اپنی بیوی سے پیسہ مانگا۔ بیوی نے شراب کے لیے پیسہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس پرمیاں اور بیوی میں تکرار ہوئی۔ اس کے بعد ٹائمس آف انڈیا (29 مئی 1990ء) کے الفاظ میں جو کچھ ہوا وہ یہ تھا:

The accused, a habitual drunkard, was enraged when his Wife refused to give him money he asked for. Giving way to his tantrums, he dashed his son against the floor, thus killing him then and there.

مجرم جو کہ شراب کا عادی ہے، اس وقت غصہ ہو گیا جب کہ اس کی بیوی نے اس کو وہ رقم نہ دی جو اس نے مانگی تھی۔ غصہ سے بے قابو ہو کر اس نے اپنے دو سال کے بچے (ارجن) کو لیا اور اس کو کئی بار اٹھا اٹھاکر زمین پر پٹکا۔ اس کے نتیجہ میں اس کا بچہ اسی وقت مر گیا۔

جب آدمی غصہ میں ہو تو اس وقت وہ شیطان کے قبضہ میں ہوتا ہے۔ اس وقت وہ کوئی بھی غیر انسانی حرکت کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ خود اپنے بیٹے کو بے رحمانہ طور پر ہلاک کر سکتا ہے۔

یہ ایک ایسی کمزوری ہے جو ہر آدمی کے اندر موجود ہے۔ ایسی حالت میں سماج کے اندر محفوظ اور کامیاب زندگی حاصل کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی دوسروںکو غصہ دلانے سے بچے۔ وہ خوش تدبیری کے ذریعہ اس بات کی کوشش کرے کہ وہ دوسرے کو اس جذباتی حالت تک نہ پہنچنے دے جب کہ وہ شیطان کا معمول بن جائے اور اُس مجنونانہ کارروائی پر اتر آئے جس کی ایک مثال اوپر کے واقعہ میں نظر آتی ہے۔ غصہ اور انتقام کی برائی کا تعلق کسی قوم سے نہیں۔ وہ ہر انسان کے مزاج میں شامل ہے، خواہ وہ کسی بھی قوم یا کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو۔ غصہ اور انتقام کو انسانی مسئلہ کے طور پر لینا چاہیے، نہ کہ فرقہ یا قوم کے مسئلہ کے طور پر۔

اختیار اور بے اختیاری

مشہور سائنس دان آئن سٹائن نے طبیعیاتی دنیا کے ایک اصول کو اس طرح بیان کیا ہے— توانائی نہ پیدا کی جا سکتی اورنہ ختم کی جاسکتی:

energy can neither be created nor destroyed.

یہ واقعہ خالق کی قدرت کاملہ کا ثبوت ہے۔ انسان موجودہ دنیا کو صرف استعمال کر سکتا ہے۔ وہ اس کو بدلنے یا اس کو مٹانے پر قادر نہیں۔ اسی سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے۔ انسان اس دنیامیں مالک کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ صرف تابع کی حیثیت سے ہے۔ اسی صورت حال کو مذہب کی اصطلاح میں امتحان کہا جاتاہے۔ انسان اس دنیا میں صرف اس لیے آتا ہے تاکہ وہ محدود مدت میں یہاں رہ کر اپنے امتحان کا پرچہ پورا کرے۔ اس کے بعد وہ یہاںسے چلا جائے گا۔ اس سے زیادہ کسی اور چیز کا اس کو مطلق اختیارنہیں۔

بعض انسان دنیا کے حالات سے مایوس ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے آپ کو ختم یا معدوم کر رہے ہیں، مگر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ جس طرح دنیاکی اس توانائی کو مٹایا نہیں جا سکتا جو مادہ کے روپ میں ظاہر ہوئی ہے۔ اسی طرح یہاں اس توانائی کو مٹانا بھی ممکن نہیں جو انسان کی صورت میں متشکل ہوتی ہے۔ انسان کے اختیار میں خودکشی ہے، مگر انسان کے اختیار میں معدومیت نہیں۔ یہ صورت حال علامتی طور پر بتاتی ہے کہ انسان کا معاملہ اس دنیا میں کیا ہے۔

انسان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ حقیقت واقعہ کا انکار کردے۔ مگر حقیقت واقعہ کو بدلنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ سرکشی کرے مگر سرکشی کے انجام سے اپنے آپ کو بچانا اس کے لیے ممکن نہیں۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ اخلاقی پابندی کو قبول نہ کرے مگر اخلاق کی مطلوبیت کو کائنات سے حذف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے مگر اس کو یہ اختیار نہیں کہ اپنے چاہنے ہی کو وہ اس معیاری اصول کی حیثیت دے دے جس کے مطابق بالآخر تمام انسانوں کا فیصلہ کیا جانے والا ہے— انسان اس دنیا میں آزاد ہے، مگر اس کی آزادی محدود ہے ، نہ کہ لامحدود۔

اپنی کمزوری

رابرٹ امیان (Robert Emmi yan) روس کا مشہور کھلاڑی ہے۔ وہ لمبی کو دکا چیمپین (Top Long-Jumper) سمجھا جاتاہے۔ وہ 15 فروری 1965ء کو پیدا ہوا اور عالمی مقابلوں میں گولڈ میڈل جیت کرغیر معمولی شہرت حاصل کی۔

ایک ہندوستانی جرنلسٹ مسٹر وی کرشنا سوامی نے رابرٹ امیان کامفصل انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹائمس آف انڈیا (5اپریل 1988ء) میں شائع ہوا ہے۔ مسٹر کرشنا سوامی نے روسی چیمپین سے پوچھا کہ بین الاقوامی کھیل میں جب آپ شرکت کرتے ہیںتو اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کیا کرتے ہیں۔ رابرٹ امیان نے جواب دیا:

The most important is to get rid of the defects which prevent me from improving my performance. My coach and I know that I have reserves which we must put to use.                                             

 سب سے اہم بات اپنی کمزوریوں کو دورکرنا ہے جو کہ میری کارکردگی کواچھا بنانے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ میرے استاد اور میں دونوں جانتے ہیں کہ میرے اندرمحفوظ صلاحیتیں ہیںجن کو ہمیں استعمال میں لانا ہے۔

رابرٹ امیان نے کھیل میں کامیابی کا جو راز بتایا ہے وہی وسیع تر زندگی میں بھی کامیابی کا راز ہے۔ زندگی کے مقابلہ میں جب بھی کوئی شخص ناکام ہوتا ہے تو وہ خود اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ناکام ہوتا ہے۔ اپنی داخلی کمزوریوں کو جاننا اور ان کو دور کرتے ہوئے زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ میدانِ عمل میں داخل ہونا، یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ موجودہ دنیامیں جو شخص بھی کامیاب ہوتا ہے وہ اسی شرط کو پورا کر کے کامیاب ہوتا ہے اور جو شخص ناکام ہوتا ہے وہ اسی لیے ناکام ہوتا ہے کہ وہ اس شرط کو پورا کرنے میں کوتاہ ثابت ہوا تھا— ناکام وہ ہے جو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال میں ناکام رہے، اور کامیاب وہ ہے جو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال میں کامیاب ثابت ہو۔

سارا خون

پروفیسر پال ڈیراک (Paul Dirac, 1902-1984) نے 82 سال کی عمرمیں فلوریڈا میں وفات پائی۔ وہ جدید دورمیں نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد سب سے زیادہ ممتاز سائنس دان سمجھے جاتے ہیں۔ ان کو نوبل انعام اوردوسرے بہت سے اعزازات حاصل ہوئے۔

پال ڈیراک کے نام کیساتھ کوانٹم میکانیکل تھیوری منسوب ہے۔ یہ سائنسی نظریہ ایٹم کے انتہائی چھوٹے ذرات سے بحث کرتاہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اینٹی میٹر کی پیشین گوئی کی جو بعد کو مزید تحقیقات سے ثابت ہو گیا۔ چنانچہ گارڈین (4 نومبر 1984ء) نے پال ڈیراک پرمضمون شائع کرتے ہوئے اس کی سرخی حسب ذیل الفاظ میں قائم کی ہے:

Prophet of the Anti-Universe

پال ڈیراک نے ایٹم میں پہلا اینٹی پارٹیکل دریافت کیا جس کو پازیٹران (Positron) کہاجاتاہے۔ اس دریافت نے نیوکلیئرفزکس میں ایک انقلاب برپاکر دیا ہے۔ لوگ جب پال ڈیراک سے پوچھتے کہ آپ نے تحت ایٹم مادہ کی نوعیت کے بارے میں اپنا چونکا دینے والا نظریہ کیسے دریافت کیا تو وہ بتاتے کہ وہ اپنے مطالعہ کے کمرہ میں اس طرح فرش پر لیٹ جاتے تھے کہ ان کا پائوں اوپر رہتا تاکہ خون ان کے دماغ کی طرف دوڑے:

When people asked him how he got his startling ideas about the nature of sub-atomic matter, he would patiently explain that he did so lying on his study floor with his feet up so that the blood ran to his head.

بظاہر یہ ایک لطیفہ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی بڑا فکری کام وہی شخص کر پاتا ہے جو اپنے سارے جسم کا خون اپنے دماغ میں سمیٹ دے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوت کو تقسیم کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک مرکز پر یکسو نہیں کرتے اسی لیے وہ ادھوری زندگی گزار کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ہر کام آدمی سے اس کی پوری قوت مانگتاہے۔ وہی شخص بڑی کامیابی حاصل کرتاہے جو اپنی پوری قوت کو ایک کام میں لگا دے۔

سبب اپنے اندر

مارٹن لوتھر کنگ (Martin Luther King, Jr., 1929-1968) کا قول ہے کہ کوئی شخص تمہاری پیٹھ پر سواری نہیں کر سکتا جب تک وہ جھکی ہوئی نہ ہو :

A man can't ride your back unless it's bent.

یہ قول تمثیل کی زبان میں زندگی کی ایک حقیقت بیان کر رہا ہے۔ آپ بالکل سیدھے کھڑے ہوئے ہوں تو کسی شخص کو یہ موقع نہیں ملے گا کہ وہ کود کر آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جائے۔ کسی شخص کو یہ موقع صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ آپ کی پیٹھ جھک جائے۔ جھکی ہوئی پیٹھ پر سواری ممکن ہے، نہ کہ سیدھی تنی ہوئی پیٹھ پر۔ یہی معاملہ زندگی کا ہے۔ اس دنیا میں مغلوبیت دراصل اپنی کمزوری کی قیمت ہے۔ کوئی شخص آپ پر قابو صرف اس وقت پاتا ہے جب کہ آپ کمزور ہو کر اس کو اپنے اوپر قابو پانے کا موقع دے دیں۔ اس لیے عقل اور حقیقت پسندی کا تقاضہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص آپ پر غالب ہوتا ہوا نظر آئے تو سب سے پہلے اپنے آپ میں غور کر کے اپنی اس کمزوری کو دور کیجیے جس نے دوسرے شخص کو یہ موقع دیاکہ وہ اس کو استعمال کر کے آپ کے اوپر غلبہ حاصل کر لے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اُحد کی جو لڑائی ہوئی، اس میں مسلمان ابتدء اً جیت رہے تھے۔ مگر ان کی جیت بعد کو ہار میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی وجہ خود مسلمانوںکے ایک گروہ کی غلطی تھی۔ چنانچہ قرآن میں جب اس واقعہ پر تبصرہ نازل ہوا تو فریق ثانی کے ظلم و سرکشی پر کچھ نہیںکہا گیا۔ قرآن (آل عمران، 3:152)کے تبصرہ میں ساری تنبیہ صرف مسلمانوںکو کی گئی تاکہ مسلمانوں کے اندر اپنی کوتاہی کا شدید احساس پیدا ہو۔ وہ اپنی کوتاہی کی اصلاح کے ذریعہ اس بات کو ناممکن بنا دیں کہ آئندہ کوئی شخص ان کے خلاف کارروائی کر کے ان کے اوپر کامیابی کی امید کر سکے۔ آدمی جب بھی کسی دوسرے کے مقابلہ میں ہارتاہے تو وہ اپنی ذاتی کمی کی بنا پر ہارتا ہے۔ اپنی ذاتی کمی کو جان کر اسے دور کیجیے اور اس کے بعد آپ کو نہ کسی کے خلاف فریاد کی ضرورت ہو گی اورنہ احتجاج کی۔

اپنی غلطی

ایک صاحب کا حال مجھے معلوم ہے۔ وہ نہایت تندرست تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا ذہن عطا کیا تھا۔ مگر وہ اپنی زندگی میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے جو کام بھی کیا وہ ناکامی پر ختم ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ اسی حال میں وہ ایک روز سڑک پر ایک جیپ سے ٹکرا گئے۔ اس حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔

ان کی ناکامی کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوںکو کامیابی کے راستہ میں استعمال نہیںکیا۔ اپنی ناکامی کا ذمہ دار وہ ہمیشہ دوسروں کو قراردیا کرتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی اپنی ذات کے سوا کوئی بھی شخص نہیں جس کو واقعی طور پر ان کی ناکامی کا ذمہ دار بتایا جا سکے۔

انہوںنے تعلیم کے لیے سکول میں داخلہ لیا۔ مگر وہ میٹرک تک پہنچے تھے کہ انہیں پولیٹکس سے دلچسپی ہو گئی۔ چنانچہ دسویں درجہ کے امتحان میں وہ فیل ہو گئے۔ اس کے بعد ان کی تعلیم آگے جاری نہ رہ سکی۔ انہوں نے ایک دکان شروع کی مگر اس کا کوئی مقرر وقت نہ تھا۔ جس وقت چاہتے وہ اپنی دکان کھولتے، اور جب چاہتے اس کو بند کر دیتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی دکان ختم ہو گئی۔ انہوں نے ایک ملازمت کی۔ وہ ملازمت ان کے مفروضہ معیار سے کم تھی۔ چنانچہ وہ مستقل جھنجھلاہٹ میں مبتلا رہتے اور اکثر اپنے مالک سے لڑ جاتے۔ آخر کار مالک نے عاجز آ کر انہیں ملازمت سے نکال دیا۔ وغیرہ

اسی طرح وہ مختلف کام کرتے رہے اور ہر کام بے انجامی پر ختم ہوتا رہا۔ وہ ہمیشہ دوسروںکی شکایت کرتے رہتے— فلاں متعصّب ہے، فلاں نے عناد کی وجہ سے میرے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے۔ فلاں مجھ کوترقی کرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔ اسی طرح وہ اپنی ہر ناکامی کو دوسروں کے اوپر ڈالتے رہے۔ وہ ساری زندگی دوسروں کو غلط ثابت کرتے رہے، مگر آخری نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود غلط ہو کر رہ گئے۔ دوسروں کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرانا بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ اس کی قیمت بہت مہنگی دینی پڑتی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کی بربادی ہمیشہ باقی رہے۔ اِس عالم اسباب میں وہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔

بچت سے اضافہ

کچھ مادے ایسے ہیں جو بجلی کی متحرک کرنٹ کو اپنے اندر سے گزرنے دیتے ہیں۔ ان کو کنڈکٹر (Conductor) کہا جاتا ہے۔ تانبہ، لوہا اور المونیم وغیرہ اسی قسم کے کنڈکٹر ہیں۔ چنانچہ بجلی کو پاور ہائوس سے دوسرے مقامات پر بھیجنے کے لیے انہیں مادوں کے تار بنائے جاتے ہیں۔ ان تاروں پر بجلی ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جاتی ہے۔

اس روانگی کے دوران یہ مادے گرم ہو کر بجلی کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں تقریباً پچاس فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ یعنی پاور ہائوس میں جتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے، عملاً اس کا صرف آدھا حصہ استعمال ہوتا ہے۔ بقیہ آدھا حصہ غیر استعمال شدہ طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔

ڈچ سائنس دان ایچ کے اونز (Heike Kamerlingh Onnes, 1853-1926) نے1911ء میں ایک تجربہ کے دوران پایا کہ بعض مادے ایسے ہیں جن میں یہ قدرتی صفت ہے کہ ایک خاص درجۂ حرارت پر پہنچنے کے بعدوہ مطلق صفر (Absolute Zero) کی سطح پر آ جاتے ہیں۔  اس طرح وہ اپنی قوت مدافعت مکمل طور پر ختم کر کے اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ بجلی کی روانی میں رکاوٹ ڈالے بغیر اس کی ترسیل کرسکیں۔ ایسے مادہ کوسپرکنڈکٹر اور اس طریقہ کوسپرکنڈکٹویٹی (Superconductivity) کا نام دیا گیا اور اس پر ریسرچ شروع کر دی گئی۔ اب تقریباً 80 برس بعد یہ تحقیق اپنی آخری منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ سپرکنڈکٹر مادے کو استعمال کرکے بجلی کی ترسیل کی جائے اور اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ بجلی کی صد فیصد مقدار استعمال ہو سکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں میں مزید اضافہ کیے بغیر قابل استعمال بجلی کی مقدار دگنی ہو جائے گی۔ اس نئی دریافت نے اس قدیم مقولہ کو واقعہ بنا دیا ہے کہ

Electricity saved is electricity generated

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ بچت بھی ایک قسم کی آمدنی ہے۔ آپ اگر اپنی آمدنی میں اضافہ نہ کر سکتے ہوں تو اپنے خرچ میں کمی کیجیے۔ اپنے خرچ میں کمی کر کے آپ اپنی آمدنی کو بڑھاسکتے ہیں۔ آمدنی بڑھانے کا یہ ایک ایسا نسخہ ہے جو ہر آدمی کے اختیار میں ہے۔

 فتح بغیر جنگ

امریکی ہفتہ وار ٹائم (4 جولائی 1988ء) کی کور اسٹوری جاپان سے متعلق ہے۔ اس کا عنوان بامعنی طور پر یہ ہے کہ کیا ایک اقتصادی دیو ایک عالمی طاقت بن سکتا ہے:

Super Japan: Can an economic giant become a global power?

1945ء میں امریکہ نے جاپان کے اوپر فتح کی خوشی منائی تھی۔ آج مفتوح جاپان خود امریکہ کے اوپر فتح حاصل کررہا ہے۔ ابتداء ًیہ فتح صرف اقتصادی معنی میں تھی، مگر اب وہ دوسرے دائروں میں وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ آج سب سے بڑا قرضدار ملک ہے جس کے اوپر 400 بلین ڈالر کا خارجی قرضہ ہے۔ اس کے برعکس جاپان سب سے بڑا قرض دینے والا ملک ہے، جس نے دنیا کو 240 بلین ڈالر قرض دے رکھا ہے۔

امریکہ میں آج کل کثرت سے ایسی کتابیں چھپ رہی ہیں اورایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جن میں بتایا جاتاہے کہ امریکہ تیزی سے زوال کی طرف جا رہا ہے اور اس کے مقابلہ میں جاپان تیزی سے ترقی کا سفر طے کررہاہے۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے :

Prof. Paul Kennedy, The Rise, and Fall of the Great Powers

ٹائم کے مذکورہ شمارہ کو پڑھنے کے بعد اس کے قارئین نے اس کو بہت سے خطوط لکھے۔ ان میں سے کچھ خط اس کی اگلی اشاعت (25 جولائی 1988ء) میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک خط پرنسٹن کے برائن مرسکی (Brian Mirsky) کا ہے۔ انہوںنے اپنے مختصر خط میں لکھا ہے کہ جاپان کی اقتصادی کامیابی پر آپ کا مضمون اس کو بالکل واضح کررہا ہے کہ اگرچہ امریکہ نے جنگ جیتی تھی مگر جاپان نے امن کوجیت لیا:

Your article on Japan's economic success makes it obvious that although the U.S won the war, Japan won the peace.                                         

جاپان کا یہ واقعہ بتاتاہے کہ خدا کی دنیا میں امکانات کا دائرہ کتنا زیادہ وسیع ہے۔ یہاںایک مفتوح اپنے فاتح کے اوپر غالب آ سکتا ہے، بغیر اس کے کہ اس نے فاتح سے جنگ کی ہو، بغیر اس کے کہ اس کا اپنے فاتح سے کبھی ٹکرائو پیش آیا ہو۔

حکمت کی بات

مشہور صنعت کار جی ڈی برلا آزادی کی تحریک میں سرگرمی کے ساتھ شریک تھے۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگرس کو مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زیادہ کی رقم دی۔ وہ مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ 1947ء سے پہلے برلا ہائوس (دہلی) کانگرسی لیڈروں کا مستقل مرکز بنا ہواتھا۔

15 اگست 1947ء کو ساڑھے دس بجے وائسرائے کی تقریر آنے والی تھی جس میں انہیں آزادیٔ ہند کے بارے میں اپنا آخری سرکاری اعلان نشر کرنا تھا۔ تمام بڑے بڑے کانگریسی لیڈر برلا ہائوس میں بیٹھے ہوئے گھڑی کی سوئی دیکھ رہے تھے کہ کب ساڑھے دس بجے اوروہ ریڈیو پروائسرائے کی تقریر سنیں۔ جی ڈی برلا بھی ان لیڈروں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ برلا کی عادت تھی کہ وہ ٹھیک آٹھ بجے سونے کے کمرہ میں چلے جاتے تھے۔ جیسے ہی ان کی گھڑی نے آٹھ بجائے وہ مجلس سے اٹھ گئے۔ انہوں نے کہااب تو میرا سونے کا وقت ہو گیا۔ وائسرائے کی تقریر میں کل صبح اخبار میں پڑھ لوں گا۔

یہی کامیاب زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ’’مسئلہ‘‘ اور مقصد‘‘ میں فرق کرے۔ وہ مسئلہ کی رعایت صرف اس وقت تک کرے جب تک اس کا مقصد سے ٹکرائو نہ پیش آیا ہو۔ جب مقصد اور مسئلہ میں ٹکرائو ہو جائے تو وہ مسئلہ کوحالات کے حوالہ کر کے مقصد کی طرف چلا جائے۔  بیشتر لوگ مسائل میں پریشان رہتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ ذہنی سکون کھو دیتے ہیں۔ اعلیٰ مشاغل میں وہ اپنا وقت نہیں دے پاتے۔ یہاں تک کہ ایک روزافسردگی کے ساتھ مرجاتے ہیں۔ مگر یہ عقل مندی کی بات نہیں۔ مسائل کو حل کرنے میں اپنی قوت صرف کیجیے، مگر اس کی ایک حد رکھیے۔ حد آتے ہی مسائل کو چھوڑ کر مقصد کو پکڑ لیجیے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل کے حل کے سلسلہ میں زیادہ فیصلہ کن چیز حالات ہیں۔ آدمی خواہ کتنا ہی زیادہ پریشان ہو، آخرکار وہی ہوتا ہے جو حالات کا تقاضا ہو۔ اس لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ ایک حد تک مسائل پر ذہن لگانے کے بعد ان کو حالات کے اوپر چھوڑ دیا جائے— گھڑی میں ’’آٹھ‘‘ بجنے تک مسئلہ پرتوجہ دیجیے۔ آٹھ بجنے کے بعد مسئلہ کوحالات کے حوالہ کرکے سونے کے لیے چلے جائیے۔ اس کے بعد اس پر راضی ہو جائیے کہ حالات کا جو فیصلہ ہو وہ مجھے منظور ہے۔

 سادہ اصول

میریاٹالچیف (Maria Tallchief, b. 1925) امریکا کی ایک خاتون آرٹسٹ ہے۔ اس نے کامیاب آرٹسٹ بننے کا ایک سادہ اصول بتایا ہے۔ تاہم یہ اصول صرف ایک آرٹسٹ کے لیے نہیں ہے، وہ ہر میدان میں کام کرنے والے آدمی کے لیے ہے۔ وہ اصول یہ ہے— زیادہ دیکھو اور زیادہ بن جاؤ:

see more, be more.

تجسس (curiosity) تمام ترقیوں کی جان ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ کچھ اور جاننے کی کوشش کرے۔ وہ زیادہ دیکھے، زیادہ سنے اور سوالات پیدا کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کرے۔ آدمی کی جتنی زیادہ معلومات ہوں، اتنی ہی زیادہ ترقی اس کے حصہ میں آتی ہے اور زیادہ معلومات اسی آدمی کو ملتی ہیں جو ہمیشہ زیادہ جاننے کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔

بیشتر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی لاعلمی سے بے خبر رہتے ہیں۔ وہ نہ جانتے ہوئے بھی یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ یہ ذہنیت کسی آدمی کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا آدمی جاہل ہوتا ہے مگر وہ اپنے کو عالم سمجھتا ہے۔ وہ نادان ہوتا ہے مگر یقین کر لیتا ہے کہ وہ ایک دانا انسان ہے ، ایسا انسان خود اپنے آپ کو خواہ کتنا ہی زیادہ قیمتی سمجھے۔ مگر خارجی دنیا کے اعتبار سے اس کی کوئی قیمت نہیں۔

سب سے بہتر بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو طالب علم سمجھے اور ہمیشہ طالب علم سمجھتا رہے۔ علم کی تلاش سے وہ کبھی نہ تھکتا ہو۔ اس کے لیے سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ وہ ہو جب کہ وہ کوئی نئی چیز دریافت کرے، جب کہ اس کے علم کے ذخیرہ میں کسی نئی بات کا اضافہ ہو جائے۔

جو شخص زیادہ جانے گا، وہ اس دنیا میں زیادہ بنے گا۔ فکری اضافہ آدمی کے عمل میں اضافہ کرتا ہے۔ فکری اضافہ آدمی کو معمولی انسان سے اٹھاکر غیر معمولی انسان بنادیتا ہے۔ اس دنیا میں معلومات کی کوئی حد نہیں، اس لیے معلومات میں اضافہ کی بھی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو نہ جاننے والا سمجھے تاکہ اس کی جاننے کی خواہش کبھی ختم نہ ہونے پائے۔

خطرہ نہیں

ایک مفکر کا قول ہے— واحد چیز جس سے ہمیں ڈرنا چاہیے وہ خود ڈر ہے:

The only thing we have to fear is fear itself.

زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیںجو بظاہر خطرہ والے ہوتے ہیں۔ جن کو دیکھ کر آدمی ڈر میں مبتلا ہو جاتاہے۔ مگر زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی خطرہ کو خطرہ نہ سمجھے بلکہ سادہ طور پر اس کو صرف ایک مسئلہ سمجھے۔ مسئلہ سمجھنے سے آدمی کا ذہن اس کا حل تلاش کرنے میں لگ جاتاہے۔ اس کے برعکس جب مسئلہ کو خطرہ سمجھ لیا جائے تو اس سے ڈر والی نفسیات پیدا ہوتی ہے، آدمی مایوس ہو کر بیٹھ جاتاہے۔ وہ جو کچھ کرسکتا تھا، اس کو کرنا بھی اس کے لیے مشکل ہو جاتاہے۔

جو شخص زندگی کی جدوجہدکے میدان میں داخل ہو اس کوسب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ وہ اس میدان میں اکیلانہیں ہے۔ یہاں اس کی مانند دوسرے لوگ بھی ہیںجو اپنے حوصلوں کے مطابق زندگی کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔ اس کے ساتھ فطرت کانظام ہے جو وسیع تر پیمانہ پر قائم ہے۔ اس نظام میں سردی بھی ہے اور گرمی بھی۔ خشکی بھی ہے اور پانی بھی۔ میدان بھی ہے اور پہاڑ بھی۔ یہاں پھول بھی ہے اور کانٹا بھی۔ ان دوطرفہ اسباب سے لازمی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے سامنے مختلف قسم کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ بار بار ایسا ہوتاہے کہ اس کی گاڑی رکتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ اس قسم کے واقعات ہر آدمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور وہ بہرحال پیش آئیں گے خواہ ہم ان کو چاہیں یا نہ چاہیں۔

مگر ہمارے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ دنیا کا نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں اگر مخالف انسان ہیں تو اسی کے ساتھ یہاں ہمارے موافق انسان بھی موجود ہیں۔ جہاں رکاوٹیں کھڑی ہوئی ہیں وہیں گنجائش کے دروازے بھی ہر طرف کھلے ہوئے ہیں۔ جو آدمی مخالفتوں یا رکاوٹوں میں الجھ جائے وہ اس دنیا میں اپنا سفر پور انہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس جو شخص ایسا کرے کہ وہ مخالفت یا رکاوٹ پیش آنے کی صورت میں اپنے ذہن کو تدبیر ڈھونڈنے کی طرف لگا دے، وہ لازماً اپنے لیے آگے بڑھنے کاراستہ پا لے گا۔ اس کو کوئی طاقت منزل پر پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔

جوش بغیر ہوش

میکی ٹامسن (Mickey Thompson, b. 1928) امریکہ میں پیدا ہوا۔ اس نے کار کی ریس میں عالمی شہرت حاصل کی۔ حتیٰ کہ وہ شاہِ رفتار (Speed King) کہاجانے لگا۔ مگر مارچ 1988 میں اس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ بوقت وفات اس کی عمر 59 سال تھی۔ میکی ٹامسن بے حد جرأت مند آدمی تھا۔ نومبر 1987ء میں اس نے اپنے دوستوں کو لاس اینجلیز میں بتایا تھاکہ کچھ بے ہودہ لوگ اس کو ٹیلی فون پرمار ڈالنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس کے دوست ارنی الوراڈو (Ernie Alvarado) نے کہاکہ میکی نے مجھ کو بتایا تھاکہ وہ جانتا ہے کہ کون شخص اس کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ دوست نے پوچھاکہ کیا تم نے اس کی اطلاع پولیس کو کی ہے۔ میکی نے جواب دیااس کی کوئی ضرورت نہیں۔

مگر میکی غلطی پر تھا، شروع مارچ 1988ء کی ایک صبح کو اپنی 41 سالہ بیوی ٹروڈی (Trudy) کے ساتھ وہ بریڈ بری (کیلی فورنیا) میں گھر سے اپنے آفس کے لیے جا رہا تھاکہ دو آدمی بائیسکل پر آئے اور اس پر بندوق سے حملہ کردیا۔ ٹروڈی مایوسانہ طور پر کہتی رہی— نہ مارو، نہ مارو (Don't shoot)  مگر گولیوں کی بوچھاڑ نے چندمنٹ کے اندر دونوں کا خاتمہ کردیا۔ میکی نے 1960ء میں 400 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کار چلاکر پہلے امریکی کا ٹائٹل حاصل کیا تھا۔ یہ سفر اس نے ایک خاص موٹر کار کے ذریعہ طے کیا تھا جس میں چارانجن لگے ہوئے تھے۔ ہفتہ وار ٹائم (28 مارچ 1988ء) نے اس حادثہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ خطرہ کی پروا نہ کرنا جس نے میکی ٹامسن کو تیز رفتاری کا بادشاہ بنایا خود وہی اس کے لیے موت کا ذریعہ بن گیا:

The disregard for danger that marked Thompson's driving. career may have led to his death in his own front yard. (p. 12)                  

بہادری اور بے خوفی بہت اچھی چیزہے۔ مگر انسان بہرحال کمزور ہے، وہ مطلق بہادری یا لامحدود بے خوفی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اس لیے بہادری اور بے خوفی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی محتاط ہو۔ وہ حکمت اور مصلحت کا لحاظ کرنا بھی جانے۔ غیر حکیمانہ چھلانگ بھی اتنا ہی غلط ہے، جتناکہ بزدلانہ پسپائی۔

رواجی ذہن

الیس ہووے (Elias Howe, 1819-1867) امریکہ کے مشہور شہر مساچوسٹس کا ایک معمولی کاریگر تھا۔ صرف 48 سال کی عمر میں اس کاانتقال ہو گیا۔ مگر اس نے دنیا کو ایک ایسی چیز دی جس نے کپڑے کی تیاری میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ یہ سلائی کی مشین تھی جو اس نے 1845ء میں ایجاد کی۔ الیس ہووے نے جو مشین بنائی اس کی سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لیے ابتداًء سوئی کی جڑ کی طرف چھید ہوتا تھا جیساکہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسان سوئی کی جڑ میں چھید کرتا آ رہا تھا۔ اس لیے الیس ہووے نے جب سلائی کی مشین تیار کی تو اس میں بھی عام رواج کے مطابق اس نے جڑ کی طرف چھید بنایا۔ اس کی وجہ سے اس کی مشین ٹھیک کام نہیں کرتی تھی۔ شروع میں وہ اپنی مشین سے صرف جوتا سی سکتا تھا۔ کپڑے کی سلائی اس مشین پر ممکن نہ تھی۔

الیس ہووے ایک عرصہ تک اسی ادھیڑ بن میں رہا مگر اس کی سمجھ میں اس کا کوئی حل نہیں آتا تھا۔ آخرکار اس نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ کسی وحشی قبیلہ کے آدمیوں نے اس کو پکڑ لیا ہے اور اس کو حکم دیا ہے کہ وہ 24 گھنٹہ کے اندر سلائی کی مشین بنا کر تیار کرے۔ ورنہ اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی مگر مقررہ مدت میں وہ مشین تیارنہ کر سکا۔ جب وقت پورا ہو گیا تو قبیلہ کے لوگ اس کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھ میں برچھا تھا۔ ہووے نے غور سے دیکھا تو ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ تھا۔ یہی دیکھتے ہوئے اس کی نیند کھل گئی۔ ہووے کو آغاز مل گیا۔ اس نے برچھے کی طرح اپنی سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بنایا اور اس میں دھاگا ڈالا۔ اب مسئلہ حل تھا۔ دھاگے کا چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی وہ نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی۔

ہووے کی مشکل یہ تھی کہ وہ رواجی ذہن سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جو چیز ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے وہی صحیح ہے۔ جب اس کے لاشعور نے اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا اس وقت وہ معاملہ کو سمجھا اور اس کو فوراً حل کر لیا۔ جب آدمی اپنے آپ کو ہمہ تن کسی کام میں لگا دے تو وہ اسی طرح اس کے رازوں کو پا لیتا ہے جس طرح مذکورہ شخص نے پا لیا۔

کامیابی کی شرط

جاپان آج متفقہ طور پر اقتصادی سپرپاور (Economic superpower) کی حیثیت رکھتاہے۔ روایتی طور پر فوجی طاقت کسی قوم کوسپر پاور بناتی تھی۔ مگر جاپان نے اپنی مثال سے ثابت کیاکہ اقتصادی ترقی کے ذریعہ بھی ایک قوم سپرپاور بن سکتی ہے۔ مزید یہ کہ فوجی طاقت کے بل پر سپرپاور بننے والی قوم ایک حد کے بعد اپنی طاقت کھو دیتی ہے جب کہ اقتصادی سپرپاور کے لیے اس قسم کی کوئی حد نہیں۔

جاپان اقتصادی سپرپاور کیسے بنا۔ وہ نعروںکی سیاست یا مطالبات کے ہنگاموں کے ذریعہ سپر پاور نہیں بنا بلکہ خاموش عمل کے ذریعہ سپرپاور بنا۔ اس خاموش عمل کا اہم ترین جزء یہ تھاکہ پہلے اس نے اپنے لیے چھوٹی حیثیت کوتسلیم کیا، اس کے بعد اس کو بڑی حیثیت ملی۔ ٹوکیو کے ایک مقیم صحافی مسٹر سبھاش چکرورتی کا ایک جائزہ ٹائمس آف انڈیا (27 اپریل 1990، صفحہ 8) میں شائع ہوا ہے۔ اس کاایک جزء یہاں قابل نقل ہے :

Japan, having long recognised the U.S. as the most important external actor in Asia, is seeking to share power and influence with it without compromising Japan's own self-interests or ambitions.

جاپان لمبی مدت تک امریکہ کی یہ حیثیت تسلیم کرتا رہا کہ وہ ایشیا میں سب سے زیادہ اہم خارجی عامل کی حیثیت رکھتاہے۔ اس کے بعد اب وہ وقت آیا ہے کہ جاپان اپنے مفادات یااپنے حوصلوں کے معاملہ میںمصالحت کیے بغیر امریکہ کے ساتھ طاقت اور اثر میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے ۔

یہی موجودہ دنیا میں ترقی کا اصول ہے۔ یہاں بڑا بننے کے لیے پہلے چھوٹا بننا پڑتاہے۔ غلبہ حاصل کرنے کے لیے پہلے مغلوبیت پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ یہاں آگے بڑھنا اس کے لیے مقدر ہے جو آگے بڑھنے سے پہلے پیچھے ہٹنے کے مرحلہ کو برداشت کرے— اس دنیامیںکھونا پہلے ہے اور پانااس کے بعد۔

زندگی کا سفر

انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی تربیت مصائب کی درس گاہ میں ہوتی ہے۔ اور دوسرے وہ جن کی تربیت آسانیوں کی درس گاہ میں ہوتی ہے۔ بظاہر آسانیوں میں پرورش پانا اچھی بات ہے۔ مگر وہ چیز جس کو انسان سازی کہتے ہیں، اس کی حقیقی جگہ صرف مصائب کی درسگاہ ہے ، نہ کہ آسانیوں کی درس گاہ۔ کسی کا یہ قول نہایت درست ہے کہ سہولت نہیں بلکہ جدوجہد ، آسانی نہیں بلکہ مشکل وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے:

It is not ease but effort, not facility but difficulty that makes men.

زندگی کے سیلاب میں بے شمار لوگ مصیبتوں کی زد میں آتے ہیں۔ مگر مشاہدہ بتاتا ہے کہ عام طور پر لوگوں کا انجام دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ لوگ جو مصیبتوں کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں پاتے اور مایوسی اور دل شکستگی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ دوسرے وہ جو مضبوط اعصاب والے ثابت ہوتے ہیں۔ وہ مصائب کا مقابلہ کرتے ہیں اور آخر کار اپنے لیے ایک زندگی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

تاہم دوسرے گروہ کو یہ کامیابی ہمیشہ ایک محرومی کی قیمت پر ملتی ہے۔ مادی تجربات انہیں فکر کے اعتبار سے بھی مادی بنا دیتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ مادی چیزوں سے محرومی نے انہیں ماحول میں بے قیمت کر دیا تھا اور جب انہوں نے مادی چیزوں کو پا لیا تو اسی ماحول میں وہ دوبارہ قیمت والے ہو گئے۔ اس تجربہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سراسر مادہ پرست انسان بن جاتے ہیں۔ وہ مادی چیزوں کے کھونے کو کھونا سمجھنے لگتے ہیںاورمادی چیزوںکے پانے کو پانا۔

مصیبتوںمیں پڑنے کا اصل فائدہ سبق اور نصیحت ہے۔ مگر یہ فائدہ صرف اس وقت ملتاہے جب کہ آدمی مصیبتوں کی زد میں آئے مگر وہ ہلاک نہ ہو۔ وہ زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہو مگر وہ ان سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ مصیبتیں اور تلخیاں اس کے لیے تجربہ ثابت ہوں ، نہ کہ وہ اس کے ذہن کی معمار بن جائیں۔

دشمن سے سیکھنا

1949ء میں جاپانیوں نے اپنے یہاں ایک صنعتی سیمینار کیا۔ اس سیمینارمیں انہوں نے امریکہ کے ڈاکٹر ایڈورڈ ڈیمنگ (Dr Edward Deming) کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلایا۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میںاعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ یہ کوالٹی کنٹرول (quality control) کا نظریہ تھا۔ (ہندوستان ٹائمس 28 دسمبر 1986ء)

جاپان کے لیے امریکہ کے لوگ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کو بدترین شکست اور ذلت سے دوچار کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ جاپانیوں کے دل میں امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے۔ مگر جاپانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات سے اوپر اٹھا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن ہواکہ وہ امریکی پروفیسر کو اپنے سیمینار میں بلائیں اور اس کے بتائے ہوئے نسخہ پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اس کو دل و جان سے قبول کر لیں۔

جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح پکڑ لیا۔ انہوںنے اپنے پورے صنعتی نظام کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے صنعت کاروں کے سامنے بے نقص (zero-defect) کا نشانہ رکھا۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں لانا جس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص نہ پایا جائے۔ جاپانیوں کی سنجیدگی اور ان کا ڈیڈیکیشن (dedication) اس بات کا ضامن بن گیا کہ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہو۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوںکے کارخانے بے نقص سامان تیارکرنے لگے۔ یہاںتک کہ یہ حال ہوا کہ برطانیہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ جاپان سے اگر میں ایک ملین کی تعداد میںکوئی سامان منگائوں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہو گی۔ چنانچہ تمام دنیا میں جاپان کی پیداوار پر صد فیصد بھروسہ کیاجانے لگا۔ اب جاپان کی تجارت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ حتی کہ وہ خود امریکہ کے بازار پر چھا گیا جس کے ایک ماہر کی تحقیق سے اس نے کوالٹی کنٹرول کا مذکورہ نسخہ حاصل کیا تھا —اس دنیامیں بڑی کامیابی وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو ہر ایک سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ ان کا دوست ہو یا ان کا دشمن ۔

بند ذہن

یونانی فلسفی ارسطو (384-322 ق م) نے لکھا ہے کہ گول دائرہ معیاری دائرہ ہے، اور وہ جیومٹری کی کامل صورت ہے۔ اس مفروضہ کی بنیاد پر ارسطو نے کہا کہ فطرت (نیچر) کا ہر کام چوں کہ معیاری ہوتا ہے، اس لیے فطرت آسمانی اجرام کو جن دائروں میں گھما رہی ہے، وہ صرف گول دائرہ ہی ہو سکتا ہے۔ ارسطو کا یہ نظریہ قدیم زمانہ میں تمام لوگوں کے دماغوں پر چھایا ہوا تھا۔ قدیم زمانہ میں ہیئت کے جو نظام بنائے گئے، مثلاً بطلیموس کا نظام، کوپر نیکس کا نظام، ٹائیکوبرا ہے کا نظام، سب میں یہ فرض کیا گیا تھاکہ آسمانی اجرام (نظام شمسی کے سیارے) سب کے سب خلا کے اندر گول دائروں میں گھومتے ہیں۔

کپلر (Johannes Kepler, 1571-1630) غالباً پہلا شخص ہے جس نے اس کے خلاف سوچا۔ اس نے حساب لگا کر 1609ء میں بتایا کہ مریخ کی گردش سورج کے گرد گول دائرہ میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ بیضوی مدار (elliptical orbit) میں گھومتا ہے۔ اس نے پیشین گوئی کی کہ دوسرے تمام سیارے جو سورج کے گرد گھومتے ہیں، وہ بھی بیضوی شکل ہی میں گھومتے ہیں۔ کپلر کا یہ نظریہ آج ایک ثابت شدہ حقیقت بن گیا ہے۔

قدیم ہیئت دان دو ہزار سال تک گول دائرہ کے تصور میں گم رہے۔ وہ سیاروں کی گردش کے بارے میں دوسرے نہج پر سوچ نہ سکے۔ اس کی وجہ ارسطو کے نظریہ کی عظمت تھی۔ اس نظریہ کو انہوں نے بلابحث ایک مسلمہ حقیقت مان لیا۔ اس بنا پر ان کا ذہن کسی اور انداز میں کام نہیں کر پاتا تھا۔

یہ صرف قدیم زمانہ کی بات نہیں، یہ ہر دور کی بات ہے۔ ہر زمانہ میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض خیالات آدمی کے دماغ پر اتنا زیادہ چھا جاتے ہیں کہ ان سے نکل کر آزادانہ طور پر سوچنا آدمی کے لیے ناممکن ہو جاتاہے۔ یہ مذہبی دائرہ میں بھی ہوتا ہے اور غیر مذہبی دائرہ میں بھی۔ یہ بند ذہن ہر قسم کی ترقی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

 بلند پروازی

جاپان ائیر لائنز کا ایک جہاز (بوئنگ 747) 12 اگست 1985ء کو ٹوکیو سے اڑا۔ اسے ایک گھنٹہ میں اوساکا پہنچنا تھا۔ مگر اڑان کے صرف 10 منٹ بعد پائلٹ نے محسوس کیا کہ اس نے جہاز پر اپنا کنٹرول کھو دیا ہے۔ جہاز کو 24 ہزار فٹ کی بلندی پراڑنا تھا۔ مگر وہ اترتے اترتے 9800 فٹ کی بلندی پر آگیا اور بالآخر وہ پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس جہاز کے 520 مسافر مر گئے۔ ان مرنے والوں میں ہندوستان کے ایک انجینئر مسٹر کلیان مکرجی اور ان کی بیوی بھی تھے۔ مسٹر مکرجی کی عمر بوقت حادثہ 41 سال تھی۔ وہ ایک تجارتی مہم پر حال میں جاپان گئے تھے۔ جاپان سے انہوں نے اپنے لڑکے نرنجن مکرجی (13 سال) کے نام خط لکھاکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ 12 اگست کو ایک تفریحی سفر (pleasure trip) پر ٹوکیو سے اوساکا جا رہے ہیں۔ (ہندوستان ٹائمس 14 اگست 1985)

جہاز کو بلندی پر اڑانے کاایک مقصد یہ ہے کہ وہ پہاڑوں یا اونچی عمارتوں سے نہ ٹکرائے۔ مذکورہ جہاز کے لیے ’’24 ہزار فٹ‘‘ کی بلندی ایک محفوظ بلندی تھی۔ مگر جب اس کے انجن میں خرابی آ گئی تو وہ اس محفوظ بلندی پر قائم نہ رہ سکا۔ وہ اترتے اترتے ’’9800‘‘ فٹ کی بلندی پر آ گیا۔ اب وہ محفوظ بلندی کی سطح پر نہ رہا۔ چنانچہ وہ پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔

یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ ہماری زندگی کا سفر بے شمار انسانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے فکر و خیال کے اعتبار سے نچلی سطح پر سفر کریں تو بار بار دوسروں سے ٹکرائو ہوتا رہے گا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آدمی فکر و خیال کے اعتبار سے اپنے آپ کو اتنی بلندی پر پہنچا دے کہ دوسروں سے ٹکرائو کا امکان ہی اس کے لیے ختم ہو جائے۔ اعراض کا اسلامی اصول آدمی کو یہی بلندی عطا کرتا ہے۔ اعراض اپنی حقیقت کے اعتبار سے عین وہی چیز ہے جس کو بعض مفکرین نے زندگی کے مسئلہ کا برتر حل (superior solution) کہا ہے۔ برابر کی سطح پر سفر کرنے میں دوسروں سے ٹکرائو کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے دانش مند آدمی اپنے سفر کی سطح کو بلند کر لیتا ہے۔ تاکہ دوسروں کے ساتھ اس کا ٹکرائو نہ پیش آئے۔ اسی برتر حکمت کو اختیار کرنے کا نام اعراض ہے۔

 بے دانشی

ایک شخص کا قول ہے کہ بیشتر حالات میں آدمی کے لیے سیکنڈبیسٹ (second best) ممکن ہوتا ہے، مگر وہ فرسٹ بیسٹ (First best) کو حاصل کرنے کی طرف دوڑتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ناممکن کو حاصل کرنے کی حرص میں ممکن کو بھی کھو دیتا ہے۔

ایک صاحب نے ایک عربی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ سے فراغت کے بعد وہ گائوں کی مسجد میں معمولی تنخواہ پر امام ہو گئے۔ اس کے بعدان کی ملاقات ایک بڑے ادارہ کے ناظم صاحب سے ہوئی۔ ناظم صاحب نے محسوس کیا کہ ان کے اندر صلاحیت ہے۔ چنانچہ انہوں نے ’’امام صاحب‘‘ کو اپنے یہاں بلا لیا۔ جلد ہی انہیں مزید ترقی ہوئی اور وہ ناظم صاحب کے اسسٹنٹ مقرر ہو گئے۔

اب ادارہ کے وسیع احاطہ میں ان کو رہائش کے لیے ایک صاف ستھرامکان مل گیا ۔ ایک جیپ ان کے استعمال میں رہنے لگی۔ معقول تنخواہ اور دوسری سہولتیں اس کے علاوہ تھیں۔ امام صاحب کو چاہیے تھاکہ وہ اللہ کا شکر کر کے اس پر قانع رہتے۔ مگر اسسٹنٹ کا عہدہ انہیں سکنڈبیسٹ نظر آیا۔ انہوں نے چاہا کہ میں فرسٹ بیسٹ حاصل کروں، یعنی خود ناظم صاحب کی سیٹ پر قبضہ کر لوں۔

چنانچہ انہوں نے ناظم کے خلاف مختلف قسم کے تخریبی منصوبے بنائے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ خلاصہ یہ کہ جب ناظم صاحب کو ان کے تخریبی منصوبوں کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے اثرات سے کام لے کر انہیں ادارہ سے نکلوا دیا۔ ان کا سامان باہر سڑک پر پھینک دیا گیا۔ جیپ چھین لی گئی۔ مجبور ہو کر انہیں شہر چھوڑنا پڑا۔ اب وہ دوبارہ گائوں کی مسجد میں امام بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔ مزید یہ کہ مذکورہ معاملہ کی وجہ سے ان کی جو بدنامی ہوئی، اس کے بعد کوئی ادارہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس دنیا میں کامیابی کا راز قناعت اور شکر گزاری ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ قول میں ’’سکنڈ بیسٹ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سیکنڈ بیسٹ پر قناعت کرنا اپنے کو پیچھے ڈالنا نہیں ہے۔ یہ دراصل قابل عمل سے آغاز کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو آدمی پہلے مرحلہ میں سیکنڈ بیسٹ پر راضی ہو جائے وہ بعدکے مرحلہ میں فرسٹ بیسٹ تک پہنچ جاتا ہے اور جو شخص اس طرح راضی نہ ہو، وہ سیکنڈبیسٹ بھی کھو دیتا ہے اور فرسٹ بیسٹ بھی۔

ہارمان کر

دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو امریکہ کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد اپریل 1945ء میں امریکی فوجیں جاپان میں اتر گئیں۔ جنرل ڈگلس میک آرتھر (Douglas Mac Arthur) امریکہ کی طرف سے جاپان کے سپریم کمانڈر مقرر ہوئے۔ جو 1951ء تک وہاں رہے۔ اس کے بعد جنرل میک آرتھر کی مرضی کے مطابق جاپان کا نیا دستور بنایا گیاجو 3 نومبر 1946ء کو جاپانی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا۔ اس دستور کے تحت شہنشاہِ جاپان کی حیثیت گھٹا کر اس کو علامتی حکمراں (Symbol of the State) کا درجہ دے دیا گیا۔ دستور کی دفعہ 9 کے تحت جاپانی قوم نے عہد کیا کہ وہ کبھی بھی نہ زمینی، برّی یا ہوائی فوج رکھے گی اور نہ کسی قسم کی اور کوئی جنگی تیاری کرے گی:

Land, sea, and air forces, as well as other war potential, will never be maintained (10/87).

یہ دستور بظاہر جاپان کی مستقل قومی موت کے ہم معنی تھا۔ مگرجاپان کے لیڈروں نے دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے اس کو مکمل طور پرمنظور کر لیا۔ کیوں کہ انہوں نے دیکھاکہ یہ دستور اگرچہ فوجی اور سیاسی اعتبار سے جاپان کے لیے اقدام کا راستہ بندکر رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود ان کے لیے سائنس اور صنعت میں ا قدام کا راستہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ جاپان کی قوم جنگی اور سیاسی ٹکرائو کے میدان سے واپس آ کر علم اور صنعت کے میدان میں باقی ماندہ مواقع کو استعمال کرنے لگی۔ یہاں تک کہ صرف 40 سال بعد مورخ کوجاپان کے بارے میں یہ الفاظ لکھنے پڑے— 1945ء کی دوسری عالمی جنگ میں شکست کھایا ہوا جاپان، دوبارہ جنگ کے کھنڈروں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دنیا کی ایک عظیم اقتصادی طاقت بن گیا

Defeated in World War II (1945), Japan emerged from the ruins of war as one of the major economic powers in the world (V/519)

حال کو مان لینا آدمی کے لیے مستقبل کا راستہ کھولتا ہے۔ جو لوگ حال کو نہ مانیں، وہ مستقبل کے عظیم تر امکانات کو پانے سے بھی محروم محروم رہیں گے۔

 

کامیابی کا راز

ایک مغربی مفکرکا قول ہے کہ جو چیز مجھ کو نہیں مارتی وہ مجھ کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنا دیتی ہے:

That which does not kill me makes me stronger.

جب آدمی کسی سخت مشکل سے دوچار ہو اوراس سے دل شکستہ نہ ہو بلکہ غور و فکرکے ذریعہ اس کا حل تلاش کرے تو اس نے اپنے اندر ایک نئی طاقت پیدا کی۔ اس نے اپنے اندر اس صلاحیت کو جگایا کہ وہ ناموافق حالات کا مقابلہ کر سکے۔ وہ رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھتا رہے۔ مشکل نادان آدمی کو برباد کرتی ہے مگر مشکل دانش مند آدمی کے لیے ترقی کا زینہ بن جاتی ہے۔

زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے سب سے اہم چیز بلند فکری ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان سوالات سے اوپر اٹھ جائیں جو ماضی پر یا پیش آنے والے دکھ پر مبنی ہوتے ہیں۔ ’’ایسا کیوں کر میرے ساتھ پیش آیا۔ اس سوال کے بجائے آدمی کو ایسی باتوں پر سوچنا چاہیے جو مستقبل کے دروازے کھولنے والے ہوں— اب جب کہ یہ پیش آچکا ہے مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے‘‘:

''We need to get over the questions that focus on the past and on the pain—Why did this happen to me? —and ask instead the question which opens doors to the future. Now that this has happened, what shall I do about it?''  (Rabbi Haroid Kushner, When Bad Things Happen to Good People)

موجودہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں لازمی طور پر ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ آدمی بار بار مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں موجودہ دنیا میں کامیاب ز ندگی حاصل کرنے کا راز صرف ایک ہے۔ وہ ماضی کو بھول کر مستقبل کے بارے میں سوچے۔ وہ کھوئے ہوئے امکانات پر غم نہ کرے بلکہ اپنی ساری توجہ ان امکانات پر لگا دے جو اب بھی اسے حاصل ہیں، جو ابھی تک برباد نہیں ہوئے —حال کو ماننا آدمی کے لیے مستقبل کے دروازے کھولتا ہے، اور حال کو نہ ماننا آدمی کو حال سے بھی محروم کر دیتا ہے اور آنے والے مستقبل سے بھی۔

مجرم کون

ایک آدمی کو گلاب کا پھول توڑنا تھا۔ وہ شوق کے تحت تیزی سے لپک کر اس کے پاس پہنچا اور جھٹکے کے ساتھ ایک پھول توڑ لیا۔ پھول تو اس کے ہاتھ میں آ گیا، مگر تیزی کے نتیجہ میں کئی کانٹے اس کے ہاتھ میں چُبھ چکے تھے۔ اس کے ساتھی نے کہا کہ تم نے بڑی حماقت کی۔ تم کو چاہیے تھا کہ کانٹوں سے بچتے ہوئے احتیاط کے ساتھ پھول توڑو۔ تم نے احتیاط والا کام بے احتیاطی کے ساتھ کیا اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارا ہاتھ زخمی ہو گیا۔

اب پھول توڑنے والا غصہ ہو گیا۔ اس نے کہا کہ سارا قصورتو ان کانٹوں کا ہے۔ انہوں نے میری ہتھیلی کو اور میری انگلیوں کو خون آلود کیا، اور تم اُلٹا مجھ کو مجرم ٹھہرا رہے ہو۔ اس کا ساتھی بولامیرے دوست، یہ درخت کے کانٹوں کا معاملہ نہیں، یہ نظامِ قدرت کا معاملہ ہے۔ قدرت نے دنیا کانظام اسی طرح بنایا ہے کہ یہاں پھول کے ساتھ کانٹے ہوں۔ میری اور تمہاری چیخ پکار ایسا نہیں کرسکتی کہ اس نظام کو بدل دے۔ پھول کے ساتھ کانٹے کا یہ نظام تو بہرحال اسی طرح دنیا میں رہے گا۔ اب میری اور تمہاری کامیابی اس میں ہے کہ ہم اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تدبیر تلاش کریں۔ اور وہ تدبیر یہ ہے کہ کانٹوں سے بچ کر پھول کو حاصل کریں۔ کانٹوں میں نہ الجھتے ہوئے پھول تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

پھول کے ساتھ کانٹے کا ہونا کوئی سادہ بات نہیں، یہ فطرت کی زبان میں انسان کے لیے سبق ہے۔ یہ نباتاتی واقعہ کی زبان میں انسانی حقیقت کا اعلان ہے۔ یہ اس تخلیقی منصوبہ کا تعارف ہے۔ جس کے مطابق موجودہ دنیا کو بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں وہی اقدام کامیاب ہوتا ہے جو اعراض کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے بنایا گیا ہو۔

جہاں بچنے کی ضرورت ہو وہاں الجھنا، جہاں تدبیر کی ضرورت ہو وہاںایجی ٹیشن کرنا صرف اپنی نالائقی کا اعلان کرنا ہے۔ خدا نے جس موقع پر اعراض کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہو، وہاں اُلجھنے کا طریقہ اختیار کرنا خود اپنے آپ کو مجرم بنانا ہے، خواہ آدمی نے دوسروں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ڈکشنری کے تمام الفاظ دہرا ڈالے ہوں۔

 مشکل میں آسانی

روایتی طرز کے کولھو میں جب گنّا ڈالا جاتا ہے تو اس میں دبائو کم ہوتا ہے اور اس کے بیلن کے درمیان سے گنّا صرف ایک بار گزارا جاتا ہے۔ چنانچہ گنّے کا رس تقریباً 25 فیصد نکلے بغیر اس کے اندر رہ جاتا ہے۔ بجلی سے چلنے والے کرشر (Crusher) میں نسبتاً زیادہ دبائو ہوتا ہے اور گنّے کو بیلن کے درمیان سے دو بار گزارا جاتا ہے۔ تاہم یہاں بھی تقریباً 15 فیصد رس اس سے نکل نہیں پاتا۔ بڑی بڑی ملوں میں بہت زیادہ دبائو ہوتا ہے اور گنّے کو چار بار مشینی بیلن کے درمیان سے گزارا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گنّے کا تقریباً تمام رس اس سے باہر آ جاتا ہے۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’دبائو‘‘ کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو چیزیں پیدا کی ہیں، ان کے اندرتخلیقی طور پر بے حساب امکانات رکھ دیے ہیں۔ مگر کسی چیز کے اندر چھپا ہوا امکان صرف اس وقت نکل کر باہر آتا ہے جب کہ اس چیز پر دبائو پڑے۔ دبائو جتنا زیادہ شدید ہو گا اتنا ہی زیادہ اس کے اندرونی امکانات باہر آئیں گے۔

یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان کے اندر پیدائشی طور پر بے حساب امکانات موجود ہیں۔ ہر انسان امکانات کا ایک لامحدود خزانہ ہے معمول کے حالات میں یہ امکانات انسان کے اندر چھپے ہوئے پڑے رہتے ہیں۔ وہ صرف اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب کہ انسان دبائو کا شکار ہو۔ جب اس کی شخصیت کو نچوڑنے والے عمل سے گزارا جائے۔ تاریخ میں جن لوگوں نے بھی کوئی بڑی ترقی کی ہے وہ وہی لوگ تھے جو اپنے ماحول میں دبائو کے حالات سے دوچار ہوئے۔ جنہوں نے اِنّ مع العُسر یسراً کے تخلیقی راز کو جانا جنہوں نے زندگی کے میدان میں اس حوصلہ کے ساتھ قدم رکھاکہ وہ عُسر کی زمین سے یُسر کی فصل اگائیں گے۔

انسانی نگاہ مشکل کو مشکل کے روپ میں دیکھتی ہے۔ ربانی نگاہ وہ ہے جو مشکل کو آسانی کے روپ میں دیکھنے لگے۔

دکان داری

دکاندار وہ ہے جو دکاندار بننے کے ساتھ گاہک بھی بن جائے۔ جو صرف بیچنے والا نہ ہو ، بلکہ اسی کے ساتھ وہ خریدنے والا بھی ہو۔ وہ اپنے آپ کو بھی جانے اور اسی کے ساتھ اپنی دکان پر آنے والے متوقع خریدار کو بھی۔

دکاندار اور گاہک دونوں بالکل الگ الگ نوعیت کے انسان ہیں۔ دکاندار کا ذہن پیسہ کے رخ پر چلتا ہے، اور گاہک کا ذہن سامان کے رخ پر۔ دکاندار کی نظر گاہک کی جیب پر ہوتی ہے، اور گاہک کی نظر دکان دار کے سامان پر۔ مگر جو دکاندار صرف اتناہی جانتا ہو کہ اس کو گاہک کی جیب سے پیسہ نکالنا ہے، وہ کبھی بڑا دکان دار نہیں بن سکتا۔

کامیاب دکاندار وہ ہے جو گاہک کو ایک کتاب کی طرح پڑھے۔ جو گاہک کی ضرورت کو اپنی ضرورت بنائے۔ جو گاہک کے دل کی دھڑکن کو اپنے سینہ میں محسوس کرنے لگے۔ جو یہ جانے کہ گاہک اس سے کیا چاہتا ہے۔ جو یہ جانے کہ گاہک خود اپنی چاہت کے اعتبار سے کس چیز سے مطمئن ہو گا۔

ایک دکاندار وہ ہے جو سڑک پر دکان کھول کر بیٹھ جائے۔ کوئی گاہک آئے تو نرخ نامہ دیکھ کر اس کو دام بتا دے۔ گاہک اگر سامان طلب کرے تو سامان دے دے، اور اگر وہ سامان دیکھ کر رکھ دے تو دکاندار دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ یا اطمینان کے ساتھ اخبار پڑھنے لگے۔

دوسرا دکاندار وہ ہے جس کا جسم دکان میں ہو مگر اس کا دماغ سڑکوں اور بازاروں میں گھوم رہا ہو۔ ذہنی اعتبار سے وہ گاہک کے درمیان چلنے پھرنے لگے۔ گاہک کے بتانے سے پہلے وہ گاہک کی ضرورت اور اس کی طلب کو جانتا ہو۔ وہ گاہک کو یک طرفہ طور پر خوش کرنے کی کوشش کرے، خواہ گاہک نے اپنی کسی بات سے اس کو ناراض کر دیا ہو۔ وہ آخری حد تک گاہک کا ہمدرد بن جائے، خواہ گاہک اس کے یہاں پہلی بار آیا ہو، اور یہ بھی اندیشہ ہو کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔

موجودہ سماج

انڈین ایکسپریس (24 نومبر 1988) میرے سامنے ہے۔ اس کے صفحہ اول پر بتایا گیا ہے کہ دہلی کی ایک 26 سالہ عورت پرویش کو اس کی ساس برسارانی نے مار ڈالا۔ اس نے اپنی بہو کے اوپر مٹی کا تیل انڈیل دیا، اور پھر آگ لگا دی۔ صرف اس لیے کہ پرویش نے سسرال والوں کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے میکے سے دس ہزار روپیہ لا کر انہیں دے۔ اگلے دن دوبارہ انڈین ایکسپریس (25 نومبر 1988) کے صفحہ اول پر یہ سرخی ہے:

Another Dowry Victim

خبر کے مطابق دہلی کی 26 سالہ عورت اروین رانا کو اس کے سسرال والوںنے مار ڈالا۔ دوبارہ وجہ یہی تھی کہ سسرال والوںکے جہیز کے مطالبہ کو اس نے پورا نہیں کیا تھا۔ اس قسم کی خبریں ہر روزاخبارات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پولیس ان اموات کو جہیز کی موت (dowry death) کہتی ہے۔ جہیز کی خاطر موت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بنا پر راجیہ سبھا میں اس کی بابت سوال اٹھایا گیا۔ وزارت داخلہ کے منسٹر آف اسٹیٹ مسٹر پی چدمبرم نے ہندوستان ٹائمس (25 نومبر 1988) کے مطابق جو اعداد و شمار بتائے، وہ یہ ہیں:

سال                             موتیں

1985                         999

1986                         1319

1987                         1786

ہندوستان کا موجودہ سماج جس وحشت و بربریت کی سطح کو پہنچ چکا ہے، یہ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ آج ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں، وہ خونخوار بھیڑیوں کا سماج ہے، نہ کہ شریف انسانوں کا سماج۔ ایسی حالت میں فرقہ وارانہ فسادات پر چیخ پکار کرنا یا ان کے خلاف مذمت کے بیانات دینا، ایک ایسا فعل ہے جو احمقانہ ردعمل کے سوا کسی اور خانہ میں جانے والا نہیں۔ ایسی حالت میں کسی سمجھدار آدمی کے لیے بچائو کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ انسان نما حیوانوں کے ساتھ اعراض کرے۔ ان کی طرف سے اشتعال انگیزی کا واقعہ پیش آئے تب بھی وہ مشتعل نہ ہو۔ کوئی آدمی حیوان سے نہیں لڑتا۔ حیوان سے اعراض کیا جاتا ہے، نہ کہ جنگ۔

 

خواب میں

مسٹر رام رتن کپلا ریفریجریٹر اور ائر کنڈیشنر کا بزنس کرتے ہیں۔ ان کی فرم کا نام کیپسنس ہے۔ نئی دہلی میں آصف علی روڈ پر اس کا صدر دفتر ہے۔ مسٹر رام رتن کپلا کو اپنے فرم کے لیے ا یک سلوگن کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اخبار میں اعلان کیا کہ جو شخص کم لفظوں میں ایک اچھا سلوگن بنا کر دے گا اس کو معقول انعام دیا جائے گا۔ بار بار کے اعلان کے باوجودکوئی ایسا شخص نہ ملا جو انہیں اچھا سلوگن دے سکے۔ بعض لوگوں نے کچھ فقرے لکھ کر بھیجے مگر مسٹر کپلا کو وہ پسند نہ آئے۔ ’’سلوگن کو penetrating ہونا چاہیے۔ مگر یہ سلوگن penetrating نہ تھے‘‘ انہوں نے 4 دسمبر 1983ء کی ایک ملاقات میں کہا۔ مسٹر کپلا اسی ادھیڑ بن میں رات دن لگے رہے۔ وہ مسلسل ا س کے بارے میں سوچتے رہے۔ ان کا دماغ برابر سلوگن کی تلاش میں لگا ہوا تھامگر کامیابی نہیںہو رہی تھی۔  اسی فکر میں تقریباً چھ سال گزر گئے۔ اس کے بعد ا یسا ہوا کہ مسٹر کپلانے ایک روز رات کو ایک خواب دیکھا۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک باغ میں ہیں۔ نہایت سہانا موسم ہے۔ طرح طرح کی چڑیاں درختوں پر چہچہا رہی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے حد خوش ہو گئے۔ ان کی زبان سے نکلا:

ویدر (Weather) ہو تو ایسا

یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھ کھل گئی۔ اچانک انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے وہ سلوگن دریافت کر لیا جس کی تلاش میں وہ برسوں سے سرگرداں تھے۔ فوراً ان کے ذہن میں یہ انگریزی جملہ مرتب ہو گیا :

KAPSONS: the weather masters

خواب انسانی دماغ کی وہ سرگرمی ہے جس کو وہ نیند کی حالت میں جاری رکھتا ہے۔ اگر آپ اپنے ذہن کو سارے دن کسی چیز میں مشغول رکھیں تو رات کے وقت وہی چیز خواب میں آپ کے سامنے آئے گی۔ تاریخ کی بہت سی ایجادات خواب کے ذریعہ ظہور میں آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ موجد اپنی ایجاد میں اتنا مشغول ہوا کہ وہ سوتے میں بھی اسی کا خواب دیکھنے لگا۔ خواب دراصل کسی چیز میں کامل ذہنی وابستگی کا نتیجہ ہے۔ ایسے آدمی کے عمل کی مدت 12 گھنٹے کے بجائے 24 گھنٹے ہو جاتی ہے۔ یہی کسی مقصد میں کامیاب ہونے کا راز ہے۔ اس قسم کی گہری وابستگی کے بغیر کوئی بڑا کام نہیں کیا جا سکتا، نہ دنیا کا اور نہ آخرت کا۔

کامیاب سفر

20 جنوری 1984ء کی صبح کو تھائی ائیر ویز کا جہاز (Boeing 747) کراچی سے پچھم کی طرف اڑا۔ یہ 29 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑان کر رہا تھا۔ عین اسی وقت انڈین ائیر لائنز کا ایک جہاز بمبئی سے دہلی کی طرف جانے والا تھا۔ انڈین ائیر لائنزکے جہازکو بھی 29 ہزار فٹ کی بلند پر اڑنا تھا۔ اس کی روانگی ہونے ہی والی تھی کہ عین وقت پر معلوم ہوا کہ تھائی ائیر ویز کا جہاز اسی سمت میں آرہا ہے۔ اگر انڈین ائیر لائنز کا پائلٹ اپنے پروگرام کے مطابق اپنا جہاز اڑاتا تو منڈسور (مدھیہ پردیش) کے اوپر دونوں کا ٹکرائو ہو جاتا۔ تھائی ائیر ویز کا جہاز بھی اپنے تمام مسافروں کے ساتھ برباد ہو جاتا اور انڈین ائیر لائنز کا جہاز بھی (ٹائمس آف انڈیا 25 جنوری 1984ء)

ائیر ٹرافک کنٹرول کو بالکل آخری وقت میں اس کی اطلاع مل سکی۔ اس نے فوراً انڈین ائیر لائنزکے کیپٹن سے کہا کہ تم یا تھائی ائیر ویزکے جہاز سے نیچے (25 ہزار فٹ) کی بلندی پر اڑان کرو یا اگر تم 29 ہزار فٹ کی بلندی پر اپنا جہاز اڑانا چاہتے ہو تو پچیس منٹ دیر سے اڑان شروع کرو۔ انڈین ائیر لائنز کے کیپٹن نے دوسری تجویز کو پسند کیا اور پچیس منٹ کی دیر کے بعد اپنا جہاز اڑایا۔ اس طرح دو جہاز بین فضائی ٹکرائو (Mid-air collision) سے بچ گئے۔ انڈین ائیر لائنز کا جہاز اپنے ابتدائی پروگرام کے مطابق منڈسورکے اوپر سے صبح سات بجے گزرتا، مگر پروگرام کی تبدیلی کے بعد وہ منڈسور کے اوپر سے صبح ساڑھے سات بجے گزرا۔ انڈین ائیر لائنز کے ایک افسر نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک معجزہ تھا جس نے دونوں جہازوں کے مسافروںکو بچا لیا:

It was a miracle which saved passengers on both aircrafts.

یہی وسیع تر اعتبار سے زندگی کا معاملہ بھی ہے۔ اگر آپ ’’29 ہزار فٹ‘‘ کی بلندی پر اڑنا چاہتے ہیں تو اس کو نہ بھولیے کہ یہاں دوسرے لوگ بھی ہیں اور وہ بھی 29 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑان کر رہے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کے لیے دو ہی صورت ہے۔ یا تو دوسروں کا لحاظ کیے بغیر اپنی اڑان شروع کر دیں اور پھر تباہ ہو کر جھوٹی قربانی کی مثال قائم کریں۔ یا پھر یہ ’’معجزہ‘‘ دکھائیں کہ دوسرے سے نیچے اڑ کر آگے نکل جائیں یا ’’آدھ گھنٹہ‘‘ کی تاخیر سے اپنی اڑان شروع کریں۔ دونوں صورتوں میں آپ کامیاب رہیں گے اور حفاظت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچیں گے۔

ممکن اور ناممکن

سابق وزیر اعظم ہند لال بہادر شاستری جنوری 1966ء میں انتقال کر گئے۔ اس کے بعد کانگریس پارٹی نے مسز اندرا گاندھی کو وزیر اعظم بنایا۔ تاہم مرارجی ڈیسائی (1896-1995)سے ان کی کش مکش جاری رہی۔ کیوں کہ وہ خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔ 1967ء کے الیکشن کے بعد مرارجی ڈیسائی کو نائب وزیر اعظم بنایا گیا۔

مگر مرارجی ڈیسائی نائب وزیر اعظم کے عہدہ کو اپنے لیے کمتر سمجھتے تھے۔ چنانچہ کش مکش بدستور جاری رہی۔ سابق وزیر اطلاعات مسٹر اندر کمار گجرال نے لکھا ہے کہ 1969ء میں مسز اندرا گاندھی نے ان کے ذریعہ مرار جی ڈیسائی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو مزید اعزاز دے کر راشٹرپتی (پریذیڈنٹ) کا عہدہ دے دیا جائے۔ مسٹر گجرال کا بیان ہے کہ جب انہوںنے یہ پیشکش مرار جی ڈیسائی کے سامنے رکھی تو بلاتاخیر ان کا جواب یہ تھا:

Why not she herself?

اندرا گاندھی خود کیوں نہیں (ٹائمس آف انڈیا 12 جولائی 1987ء)۔یعنی اندرا گاندھی خود پریذیڈنٹ بن جائیں اور مجھے وزیر اعظم بنا دیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مرارجی ڈیسائی کانگریس سے الگ ہو گئے۔ انہوںنے وزیر اعظم بننے کے لیے سارے ملک کو اُلٹ پلٹ ڈالا۔ مارچ 1977ء کے الیکشن میں جنتا پارٹی کی جیت کے بعد وہ مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بن بھی گئے۔ مگر جلد ہی بعد وہ سیاسی زوال سے دوچار ہوئے اور پھر کبھی ابھر نہ سکے۔

مرارجی ڈیسائی کی سیاسی ناکامی کا اصل سبب یہ تھاکہ وہ ممکن کو چھوڑ کر ناممکن کی طرف دوڑے۔ اگر وہ اس راز کوجانتے کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے جو آخری ممکن چیز ہے وہ صدارت ہے ، نہ کہ وزارت عظمیٰ، تو یقیناً وہ ذلت اور ناکامی سے بچ جاتے۔ مگر ناممکن کے پیچھے دوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ممکن سے بھی محروم ہوکررہ گئے— ناممکن کے پیچھے دوڑنا، آدمی کو ممکن سے بھی محروم کر دیتا ہے۔ جب کہ ممکن پر قانع ہونے والا ممکن کو بھی پاتا ہے اور بالآخر ناممکن کو بھی۔

 

ہر قسم کے مواقع

26 فروری 1988ء کی صبح کو دہلی کے تمام اخبارات کے پہلے صفحہ کی نمایاں سرخی یہ تھیہندوستان کے پہلے میزائل کا کامیاب تجربہ۔ 25 فروری کو پارلیمنٹ میں تالیوں کی گونج کے درمیان وزیراعظم راجیو گاندھی نے اعلان کیا کہ ہندوستان نے زمین سے زمین پر مار کرنے والا میزائل (پرتھوی) تیار کر لیا ہے اور اس کا کامیاب تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔ یہ میزائل مکمل طور پر ہندوستانی ٹیکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے۔ وہ خالص دفاعی نوعیت کا ہے اور اس کا رینج 250 کلومیٹر ہے۔ اس طرح اب ہندوستان ان چار ملکوں (امریکہ، روس، فرانس، چین) میں شامل ہو گیا ہے جو خشکی پر مار کرنے والے میزائل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس میزائل کے بارے میں جو خبریں آئی ہیں، ان میں سے ا یک خبر ہندوستان ٹائمس (26 فروری 1988ء) کے مطابق یہ ہے کہ پرتھوی میزائل حیدر آباد کے دفاعی تحقیقی ادارہ (DRDO) کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ کام سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے انجام دیا ہے جو ڈاکٹر ابو الکلام کی ماتحتی میں کام کر رہی تھی:

The 'Prithvi' missile was fabricated at the Defence Research and Development Laboratory at Hyderabad under a team of scientists headed by Dr Abdul Kalam. 

دفاعی ریسرچ کا کام بے حد نازک کام ہے۔ اس شعبہ میں کام کرنے کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بیک وقت دو صلاحیتیں رکھتے ہوں۔ اعلیٰ فنی مہارت، اور قابل اعتماد شخصیت۔ اس قسم کے ایک ممتاز عہدہ کے لیے ’’ڈاکٹر ابوالکلام‘‘ کا انتخاب بہت بڑا سبق دیتاہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے ہر قسم کی ترقی کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے اندر لیاقت پیدا کریں تو وہ ملک کے انتہائی اعلیٰ شعبوں میں بھی اونچے مناصب حاصل کر سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اصل قیمت لیاقت کی ہے۔ لیاقت کا ثبوت دینے کے بعد آدمی ہر جگہ عزت پا لیتا ہے اور لیاقت کا ثبوت نہ دینے کی صورت میں ہرجگہ بے عزت ہو کر رہ جاتا ہے۔

معذوری کے باوجود

میں نے 1982ء میں اپنا پائوں کھو دیا تھا اور اسی وقت سے میں دنیا کے گرد سمندری سفر کرتا رہا ہوں۔ یہ بات ٹرسٹن جونز نے تھائی لینڈ کے معذور بچوں کے ایک گروپ سے بنکاک میں کہی۔ وہ ایک ملاح اور مصنف اور مہم جو ہیں۔ ان کا پیغام بہت واضح تھاآپ یہ انتظار نہ کریں کہ دوسرے لوگ آپ کی مدد کریں۔ آپ کو اپنی مدد آپ کرنے کا فن سیکھنا چاہیے اور خود اپنے طریقہ پر کام کرنا چاہیے، باریش کیپٹن نے کہا۔ 53 سالہ جونز 1952ء سے اپنے طریقہ پر غیر معمولی کام کرتے رہے ہیں جب کہ وہ برطانیہ کے شاہی بحریہ سے یہ کہہ کر الگ کر دیے گئے تھے کہ وہ جسمانی طور پر سمندر کے لیے غیر موزوں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی ڈیوٹی کرتے ہوئے ان کے ایک پائوں کو زخم لگا تھا۔ یہ حادثہ بالآخر انہیں معذور قرار دینے تک پہنچا اور 1982ء میں ان کا بایاں پائوں گھٹنے کے اوپر سے کاٹ دیا گیا۔ 1953ء سے مسٹر جونز دنیا کے سامنے یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ وہ کچھ اور ہو سکتے ہیں مگر وہ جسمانی طور پر سمندر کے لیے غیر موزوں ہر گز نہیں۔ پچھلے 34سالوں میں انہوں نے 6 لاکھ 40 ہزار کیلومیٹر کا بحری سفر کیا ہے۔ انہوں نے بیس بار اٹلانٹک سمندر کو پار کیا ہے اورکرہ ارض کے گرد تین بحری سفر مکمل کیے ہیں:

''I lost my leg in 1982 and have been sailing around the world ever since,'' Tristan Jones- sailor, author and adventurer-told a group of handicapped Thai children in Bangkok, reports DPA. The message was clear,'' You must not Wait for people to help you. You must learn to help Yourself and must do things your own way,'' the beard Welsh captain said. Jones, 53, has been doing extraordinary things his own way since 1952 when he was discharged from Britain’s Royal Navy for being ''physically unfit for sea.'' He had received a leg wound in active duty during World War II that eventually led to his invalid status and in 1982 resulted in the amputation of left leg, above the Knee. Since 1953 Jones has been proving to the world that he is anything but ''physically unfit for sea.''  In the past 34 years he has sailed 640,000 kms (all in craft under 40 feet), made 20 trans-Atlantic Ocean crossings (nine single-handed) and circumnavigated the world three times. (The Times of India, New Delhi, August 18,1987)                               

 

کامیابی کا راز

ڈاکٹر سی وی رمن(Sir Chandrasekhara Venkata Raman, 1888-1970)ہندوستان کے مشہور ترین سائنس دان ہیں۔1930 میںانہیں فزکس کا نوبل انعام ملا ہے۔سائنس کے میدان میں نوبل انعام حاصل کرنے والے وہ پہلے ایشیائی تھے۔ اس کے بعد وہ عالمی شہرت کے مالک ہو گئے۔ ان کی سائنسی دریافت رمن ایفکٹ (Raman Effect) آج سائنس کے مسلّمات میں شمار ہوتی ہے۔ رمن ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد دس روپیہ ماہوار پرا سکول ٹیچر تھے۔ انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں اپنی غیر معمولی محنت کے ذریعہ علم کی دنیا میں اپنا موجودہ مقام حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی کامیابی کے سفر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے— شکست، مایوسی، محنت اور ہر قسم کے دکھ کی ایک لمبی تاریخ:

A long history of frustration, disappointment, struggle, and every kind of tribulation.

ایک شخص نے رمن کی علمی کامیابی کو گھٹانے کے لیے کہا کہ آپ اپنی دریافت تک محض اتفاق کے ذریعہ پہنچے ہیں، جیسا کہ اکثر دوسرے سائنس دان بھی محض اتفاق کے ذریعہ اپنی دریافتوں تک پہنچے۔ رمن نے اس کو سن کر سنجیدگی کے ساتھ کہا:

The idea that a scientific discovery can be made by accident is ruled out by the fact that the accident, if it is one, never occurs except to the right man.

یہ تصور کہ سائنسی دریافت اتفاق کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے، اس حقیقت کی بنا پر خارج از بحث ہے کہ اتفاق، اگر واقعۃًپیش آئے، تو وہ کبھی ایک صحیح آدمی کے سوا کسی اور کے ساتھ پیش نہیں آتا۔ ڈاکٹر رمن نے اپنی ز ندگی کی آخری دریافت کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

The right man, right thinking, right instruments, and right results.

کتنا فرق

یکم ستمبر 1983ء کوکوریا کی ائیر لائنز کا ایک مسافر جہاز (Flight 007) نیویارک سے سیئول کے لیے روانہ ہوا۔ وہ کمچاٹکا (Kamchatka) کے اوپر اڑ رہا تھا کہ روسی فوج نے اس کو مارکر گرا دیا۔ اس جہاز پر عملہ سمیت 269 مسافر تھے جو سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد روسی حکومت نے بیان دیا کہ اس جہاز کو مسافر جہاز سمجھ کرنہیں مارا گیا۔ روسی فوج نے اس کو امریکہ کاجاسوسی جہاز (RC-135 spy plane)  سمجھا اور مدافعت میں اس پر وار کیا۔ تاہم امریکہ نے اس عذر کو قبول نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ مذکورہ جاسوسی جہاز اور مسافر جہاز (Boeing 747) میں اتنا زیادہ فرق تھاکہ راڈار سکرین کا مشاہدہ اس کو سمجھنے میں دھوکا نہیں کھا سکتا۔

3 جولائی 1988ء کو اسی قسم کا ایک اور واقعہ برعکس صورت میں پیش آیا۔ ایران ائیر کا ایک مسافر بردار جہاز (Airbus A-300) تہران سے دوبئی جا رہا تھا۔ وہ خلیج فارس کے اوپر اڑ رہا تھا کہ امریکی بحریہ کے جنگی جہاز ونسیز (USS Vincennes) نے اس کو مار کر گرا دیا۔ عملہ سمیت اس کے 290 مسافر ہلاک ہو گئے۔امریکہ کی طرف سے دوبارہ اس کی توجیہہ یہ کی گئی کہ امریکی بحریہ نے غلط فہمی میں ا یسا کیا۔ اس نے اس جہاز کو مسافر بردار نہیں سمجھا بلکہ اس کو جنگی جہاز (F-14 jet fighter) سمجھااور بچائو کے طور پر اس کو اپنے میزائل کا نشانہ بنایا۔

امریکہ کے مخالفین کے لیے یہ توجیہہ قابل قبول نہ ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ ائیر بس کے مقابلہ میں مذکورہ جیٹ فائٹر بہت چھوٹا ہوتا ہے، جب کہ جیٹ فائٹر کی رفتار ائیر بس کے مقابلہ میں تقریبا 250 کلومیٹر زیادہ ہوتی ہے۔ امریکہ کے بحری جہاز کے راڈار سکرین پر یہ فرق واضح طور پر دکھائی دے رہا ہو گا۔ اس لیے دونوں میں اشتباہ پیدا ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ (ٹائمس آف انڈیا، 5 جولائی 1988ء، صفحہ 12، ہندوستان ٹائمز، 5 جولائی 1988ء، صفحہ 13)

آدمی دوسرے کی غلطی کوجاننے کے لیے انتہائی ہوشیار ہے، مگر اپنی غلطی کو جاننے کے لیے وہ انتہائی بے وقوف بن جاتا ہے۔ یہی دہرا معیار خرابیوں کی جڑ ہے۔ اگر لوگ ایک معیار والے ہو جائیں تو تمام خرابیاں اپنے آپ ختم ہو جائیں۔

مقصد کی اہمیت

ضلع ہاسن (کرناٹک) میں ایک گائوں ہے، جس کا نام تھپرگھٹہ ہے۔ یہاںایک شخص لچھ نائک نامی تھا جو ایک جھونپڑے میں رہتا تھا، اور چوکیداری کاکام کرتا تھا۔ اس کے چار بچے تھے۔ اس نے طے کیاکہ وہ اپنی تین لڑکیوںکودیوی چمندیشوری پر بھینٹ چڑھا دے۔ 23 اپریل 1988ء کو وہ دیوی کی مورت لے کر آیا۔ اس کی پوجا کی اور اس کے بعد اپنی تین لڑکیوں (ڈیڑھ سال، تین سال، تیرہ سال) کو درانتی سے ذبح کر دیا۔ اس کے لڑکے راج کمار (8 سال) نے مزاحمت کرنی چاہی تو اس پر بھی حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں اس کا دایاں ہاتھ کٹ گیا۔ اس مجنونانہ حرکت کے بعد وہ بھاگ کر باہر چلا گیا۔ چار دن بعد ا س کی لاش آم کے ایک اکیلے درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئی۔

مذکورہ خبطی کی بیوی للی تَھمّا (35 سال) کو چیف منسٹر ریلیف فنڈ سے 5 ہزار روپیہ دیا گیا ہے۔ انڈین ریڈ کراس سوسائٹی نے اس کو ایک ہزار روپیہ دیا ہے۔ اب وہ اپنے لڑکے کے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کے بچے کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ وہ اس کے لیے تیار ہے کہ بیٹے کی تعلیم کے لیے اگر اس کو ساری زندگی کام کرنا پڑے تو وہ ساری زندگی اس کے لیے کام کرے گی۔ اس کو بیوہ کی حیثیت سے 50 روپیہ ماہوار پنشن ملنے کی امید ہے۔ تقریباً اتنی ہی ماہانہ رقم اس کے بیٹے کو معذوری کے وظیفہ کے طور پر ملے گی۔ راج کمار جس کے دائیں ہاتھ کی پانچوں انگلیاں کٹ چکی ہیں، اب اپنے بائیں ہاتھ سے لکھنا سیکھ رہا ہے۔ (ٹائمس آف انڈیا 28 اپریل 1988ء)

للی تھمّا کا سب کچھ لُٹ چکا تھا۔ اب بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ بھی خودکشی کر لے، یا اپنے بیٹے کو لے کر رونے اور ماتم کرنے میں مشغول ہو جائے۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے سب کچھ بھلاکر مثبت عمل کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنے معذور بیٹے کے مستقبل کی تعمیر کی صورت میں اس نے اپنے لیے ایک مقصد پا لیا۔

بامقصد آدمی کبھی محروم نہیں ہوتا، اس دنیا میں محروم وہ ہے جو مقصد سے محروم ہوجائے۔

اُلٹا کام

ایک شخص اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتا ہو اور اس سے کہے کہ تم پہلے بازار میں ایک دکان لے کر مطب کھول لو۔ اس کے بعد ڈاکٹری پڑھتے رہنا۔ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو اس قسم کا مشورہ دے تو لوگ اس کو پاگل یا کم از کم غیر سنجیدہ ا نسان سمجھیں گے۔ کیوں کہ ڈاکٹری پہلے سیکھی جاتی ہے اور مطب اس کے بعد کھولا جاتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ یہی الٹا کام ہمارے تمام لیڈر کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی انہیں غیر سنجیدہ نہیں کہتا۔ بلکہ انہیں مفکر اور رہنما کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔

موجودہ زمانہ میں جو مسلم لیڈر اٹھے وہ تقریباً سب کے سب قوم کو اسی قسم کی لاحاصل رہنمائی دیتے رہے— پہلے سیاسی آزادی حاصل کر لو، اس کے بعد قومی تعمیر کا کام کرنا۔ پہلے ایک زمینی خطہ حاصل کر لو، اس کے بعد وہاں اسلامی نظام  جاری کرانا۔ پہلے حکومت کا تختہ الٹ دو، اس کے بعد اصلاحِ معاشرہ کا کام انجام دینا، پہلے پارلیمنٹ سے قانون پاس کرا لو اس کے بعد لوگوں کی ذہنی اصلاح کرنا، وغیرہ۔

اس قسم کی تمام باتیں ا تنی ہی بے معنی ہیں جتنا ڈاکٹری سیکھنے سے پہلے ڈاکٹری دکان کھولنا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سو سال سے بھی زیادہ لمبی مدت تک ہنگامہ آرائی کرنے کے باوجود مسلمانوں کے حصہ میں بربادی اور ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آیا۔

انسان کوئی لوہا یا لکڑی نہیں ہے جس کو مرحلہ وار گڑھا جا سکے۔ انسان ایک ہی بار بنتا ہے اور پہلی بار جیسا بن جائے اسی پر وہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارجی انداز کی تحریکیں اپنے دوسرے مرحلہ کے منصوبہ میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔ خارجی نشانہ پورا کرنے کے بعد ان کے لیڈر افراد کی داخلی اصلاح پر تقریریں شروع کرتے ہیں مگر اس قسم کی تقریروں کا ایک فیصد بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کا تجربہ انسانی نفسیات سے بے خبری ہے اور بدقسمتی سے موجودہ زمانہ کے تمام مسلم لیڈر نفسیاتِ انسانی سے اسی بے خبری کی مثال بنے ہوئے ہیں۔

تعمیر قوم حقیقتہً تعمیر شعور کا دوسرا نام ہے۔ شعورکی تعمیر کے بعد ہرچیز اپنے آپ حاصل ہو جاتی ہے، شعورکی تعمیر کے بغیر کوئی بھی چیز حاصل نہیں ہوتی۔

انصاف زندہ ہے

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم مسز اندراگاندھی کو ان کی نئی دہلی کی رہائش گاہ میں 31اکتوبر 1984ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل میں چار آدمی ملوث تھے۔ حفاظتی دستہ کے بیانت سنگھ اور ستونت سنگھ۔ ان دونوں نے وزیراعظم پر گولیاں چلائیں۔ بیانت سنگھ کو حفاظتی پولیس نے اسی وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اور ستونت سنگھ گرفتار ہو گیا۔ دوسرے دو شخص کیہر سنگھ اور بلبیر سنگھ تھے جن کو قتل کی سازش کرنے اور اس کا منصوبہ بنانے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ان تینوں پر مقدمہ چلا۔ دہلی کے ایڈیشنل جج مہیش چندر نے 22 جنوری 1986ء کو اپنا فیصلہ سنایا جس میں ستونت سنگھ، کیہر سنگھ اور بلبیر سنگھ کو موت کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد مقدمہ ہائی کورٹ میں گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے 3دسمبر 1986ء کے فیصلہ میں تینوں کے لیے سزائے موت کی توثیق کر دی۔ اس کے بعد ملزمین اس مقدمہ کو سپریم کورٹ میں لے گئے۔ سپریم کورٹ نے 3 اگست 1988ء کو اپنا  متفقہ فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ مسٹر جسٹس جی ایل اوزا، مسٹر جسٹس سیٹی، مسٹر جسٹس بی سی رائے پر مشتمل ایک ڈویژنل بینچ نے سنایا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ستونت سنگھ اور کیہر سنگھ کی سزائے موت بحال رکھی۔ مگر بلبیر سنگھ کو اس نے مکمل طور پر بری قرار دیا۔ بلبیر سنگھ کے خلاف قتل میں ملوث ہونے کی براہِ راست شہادت نہیں ملی۔ مثلاً استغاثہ کی طرف سے ا یک بات یہ کہی گئی تھی کہ مسز اندرا گاندھی کا قتل اس لیے ہوا کہ آپریشن بلیو اسٹار کی وجہ سے سکھ ان سے بگڑ گئے اور خود بلبیر سنگھ کی زبان سے انتقام کی بات سنی گئی۔ ا س دلیل کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس اوزا نے لکھا ہے کہ اگر بلیو اسٹار آپریشن پر غصہ یا احتجاج کے اظہار کو ملزم کے خلاف شہادت یا قرینہ کے طور پر استعمال کیا جائے تو سکھ فرقہ کے تمام افراد جو بلیو اسٹار آپریشن پر برہم ہو گئے تھے، ان سب کو قتل کی سازش میں شریک کرنا پڑے گا۔ مسٹر جسٹس اوزا نے مزید کہا کہ بلبیر سنگھ کو چھوڑنے میں غلطی کرنا اس سے بہتر ہے کہ اس کو سزا دینے میں غلطی کی جائے

It is safer to err in acquitting than in convicting him.

اس واقعہ پر صرف وہ تبصرہ نقل کرنا کافی ہے جو بلبیر سنگھ نے کیا، اس نے کہا:مجھے انصاف کی ذرا بھی امید نہیں تھی۔ مگر اب مجھے یقین ہو گیا کہ اس ملک میں انصاف زندہ ہے۔

تخریب نہیں

کورین ائیر کی فلائٹ 858 نومبر 1987ء کی 29 تاریخ کو بغداد سے اڑی۔ اسے سی اول پہنچنا تھا۔ وہ بحر انڈمان کے اوپر 37ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہی تھی کہ اچانک دھماکا ہوا اور اس کے 115مسافر فضا ہی میں ہلاک ہو گئے۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ پائلٹ ائیر پورٹ کو سگنل (Distress signal) بھی نہ بھیج سکا۔ جب کہ اس کے لیے صرف ایک سیکنڈ کا وقت درکار تھا۔ جہاز کی تباہی کا یہ منصوبہ شمالی کوریا کی طرف سے بنایا گیا تھا۔ منصوبہ کے تحت شمالی کوریا کی ایک 24 سالہ عورت کو تربیت دے کر جہاز کا سفر کرایا گیا۔ وہ بغداد سے اس جہاز پر سوار ہوئی اور جہاز کے اوپر کے خانہ میں ٹرانسٹر بم رکھ کر ابوظہبی میں اتر گئی۔ یہ ا یک طاقتور ٹائم بم تھا۔ وہ اپنے وقت پر پھٹا اور پورا جہاز اچانک تباہ ہو گیا۔

اس منصوبہ کا مقصد اولمپک 1988ء کو ناکام بنانا تھا جو جنوبی کوریا کے دارالسلطنت سی اول میں ہو رہا تھا۔ شمالی کوریا کی اشتراکی حکومت کو جنوبی کوریا کا یہ اعزاز پسند نہ تھا۔ شمالی کوریا کے اسٹالینی ڈکٹیٹر کِم ال سنگ (Kim II Sung) نے اپنی خفیہ ایجنسی کو حکم دیا کہ جنوبی کوریا کے جہاز کو بم سے اڑا دو تاکہ جنوبی کوریا کا سفر لوگوں کو غیر محفوظ معلوم ہونے لگے اور لوگ اولمپک میں شرکت کا ارادہ چھوڑ دیں۔ اس تخریبی مقصد کے تحت مذکورہ جہاز کو برباد کیا گیا۔

جنوبی کوریا کے جہاز کو برباد کرنا نہایت بے ہودہ جرم تھا۔ مگر دہشت گردی کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ کوئی بھی ملک اس سے ڈر کر اولمپک کی شرکت سے نہیں رکا۔ اس کے برعکس، 161ملکوں نے اعلان کیا کہ وہ سب اس میں شریک ہوں گے۔ یہ تعداد کسی بھی پچھلے اولمپک سے زیادہ ہے:

The destruction of KAL 858 was a monstrous crime, but as an act of terrorism it proved to be monumental failure. No country was frightened away from the Olympics.On the country,161 countries have announced they will attend, more than at any previous Games. (Reader's Digest, August 1988)

کسی کے خلاف تخریب کاری خود اپنے خلاف تخریب کاری ہے۔ ایسا آدمی صرف اپنا نقصان کرتا ہے، وہ کسی دوسرے شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔

لفظ یا حقیقت

رابندر ناتھ ٹیگور (1941۔1861) کو حکومت برطانیہ نے 1915ء میں سر کا خطاب دیا تھا۔ 1919ء میں جب انگریزی حکومت نے امرت سر میں نہتے ہندوستانیوں پر بے رحمانہ گولی چلوائی تو ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا۔

ڈاکٹر محمد اقبال (1938۔1877ء) کو حکومت برطانیہ نے 1922ء میں سر کا خطاب عطا کیا۔ اقبال نے اس کو قبول کر لیا اور پھر کبھی اس کو واپس نہیں کیا۔

راقم الحروف ذاتی طور پر سر کا خطاب لینے کو غلط نہیں سمجھتا۔ مگر اقبال نے اپنی شاعری میں جس قسم کی باتیں کیں، اس کے لحاظ سے انگریزی حکومت کا دیا ہوا سر کا خطاب ان کے لیے بالکل غیرمناسب تھا۔ مثال کے طور پر ان کا شعر ہے

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر    تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال کے اپنے معیار کے مطابق، سر کا خطاب قصرِ سلطانی کے گنبد پر نشیمن بنانے کے ہم معنی تھا، مگر دوسروںکو تو وہ اس قسم کی نشیمن سازی سے باز رہنے کا اُپدیش دیتے رہے لیکن خود ان کا اپنا حال یہ تھاکہ وہ آخر وقت تک قصرِ سلطانی کے گنبد پر اپنا نشیمن بنائے رہے۔

یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان جو رہنمااٹھے ان کا حال کیا تھا۔ موجودہ زمانہ کے تقریباً تمام مسلم رہنما اصلاً یا تو شاعر تھے، مثلاً اقبال۔ یا خطیب تھے، مثلاً محمد علی۔ یا انشا پرداز تھے، مثلاً ابوالاعلیٰ مودودی۔ وہ مفکر اور بالغ نظر نہ تھے، جیساکہ ایک رہنما کو ہونا چاہیے۔ شاعری اور خطابت اور انشا پردازی دراصل لفاظی کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ یہ تمام رہنما لفظی بلند پروازی کے کرشمے دکھاتے رہے، حقائقِ حیات کے اعتبار سے وہ مسلمانوں کو ٹھوس رہنمائی نہ دے سکے۔

اس تخیلاتی رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ رہنما حضرات کی اپنی شخصیت تو بن گئی مگر ملّت کاتمام معاملہ برباد ہو کر رہ گیا۔ ہوائی کرشمے دکھانے والا ایک شخص بذات خود اخبار کی سرخیوں میں جگہ پا سکتا ہے، مگر ہوائی کرشمے دکھانے سے کسی قوم کے مستقبل کی تعمیر نہیں ہوتی۔

عبرت ناک

ٹائمس آف انڈیا (21 اپریل 1988ء) میں ایک خبر اورنگ آباد کے میونسپل کارپوریشن کے الیکشن (اپریل 1988) سے متعلق ہے جہاں شیو سینا نے 60سیٹوں میں سے 27 سیٹوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ شیوسینا تین سال پہلے ختم شدہ طاقت (spent force) کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ نیز یہ کہ اس سے پہلے وہ زیادہ تر بمبئی کی ایک جماعت سمجھی جاتی تھی۔ مگر اورنگ آباد کے الیکشن میں کامیابی نے ظاہر کیا ہے کہ وہ نہ صرف ازسر نو زندہ ہو گئی ہے بلکہ اس نے پورے مہاراشٹر میں اپنے اثرات پھیلا لیے ہیں۔ شیوسینا نے یہ کامیابی ہندو ایکتا کا نعرہ لگا کر حاصل کی ہے۔ اس کا ایک خاص نعرہ یہ تھا ’’گوروّ سے کہو ہم ہندو ہیں‘‘:

Be proud to say You are a Hindu.

اورنگ آباد میں 25 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ بعض حلقۂ انتخاب ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹ اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر شیو سینا نے ایک خالص مسلم حلقہ میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔ یہاں تین مسلم امیدوار تھے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بٹ گئے:

The Sena was also reported to have won a Muslim-dominated constituency because there were three Muslim candidates and (Muslim) votes were divided.

یہ واقعہ مسلمانوں کی دہری نادانی کو بتا رہا ہے۔ یہ درحقیقت مسلمان ہیں جنہوں نے شیوسینا کے خلاف شوروغل کر کے اس کوزندہ کیا۔ مسلمان اگر اس کے معاملہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرتے تو اب تک وہ اپنے آپ ختم ہو جاتی۔ مزید یہ کہ جس جماعت کو وہ اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ بتاتے ہیں، اس کے خلاف بھی وہ متحد نہیں ہو سکتے۔ حتیٰ کہ اپنے عدم اتحاد کی وجہ سے بالواسطہ طور پر اس کی کامیابی کا سبب بن جاتے ہیں۔

جن لوگوں کا یہ حال ہو، ان کے بارے میں کم سے کم جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ— سچا عمل تو درکنار، جھوٹا عمل کرنے کی صلاحیت بھی ان کے اندر باقی نہیں۔ بولنا تودرکنار، نہ بولنے کا فن بھی انہیں نہیں آتا۔

بڑا اندیشہ

ڈاکٹر ڈینس بریو (Dennis Breo) نے ان طبی ماہرین سے ملاقاتیں کیں اور ان کا انٹرویو لیا جو مشہور شخصیتوں کے معالج رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک کتاب شائع کی جس کانام ہے غیر معمولی احتیاط (Extra ordinary Care) اس کتاب میں مصنف نے بڑے عجیب انکشافات کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ مشہور شخصیتیں اکثر ناممکن مریض (Impossible patients) ثابت ہوتی ہیں مثلاً ہٹلر کو ایک جِلدی مرض تھا مگر اس نے اس بات کو اپنے لیے فروتر سمجھا کہ ڈاکٹر کے سامنے وہ اپنا کپڑا اتارے۔ چنانچہ صحیح طور پر اس کا علاج نہ ہو سکا۔ مشہور امریکی دولت مند ہوورڈ ہیوز (Howard Hughes) کادانت خراب تھا مگر اس نے کبھی ڈاکٹر کے سامنے اپنا منھ نہیں کھولا۔ اس نے اس کو پسندکیا کہ وہ شراب پی کر اپنی تکلیف بھلاتا رہے۔ وغیرہ

شاہِ ایران کے بارے میں مصنف نے بتایا ہے کہ وہ فساد خون کے مریض تھے۔ مگر انہوں نے ڈاکٹروں سے اس کا علاج کرانے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ انہوں نے محسوس کیاکہ یہ چیز انہیں سیاسی طور پرکمزور کردے گی:

The Shah of Iran refused to be treated for his Leukemia because he felt it would weaken him politically.

The Times of India, March 19, 1987, p.7          

شاہ ایران نے فساد خون کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھا۔ حالانکہ بعدکے واقعات نے بتایا کہ فساد سیاست ان کی حکومت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ تھا۔ ان کے اقتدار کو جس چیز نے ختم کیا وہ فساد خون کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ فساد سیاست کا مسئلہ تھا۔ وہ بڑے خطرے سے غافل رہے، اور اپنی ساری توجہ چھوٹے خطروں میں لگا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عین اس وقت ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا جب کہ اپنے نزدیک وہ اس کو بچانے کا پورا اہتمام کر چکے تھے۔

چھوٹے اندیشوں کی فکر کرنا اور بڑے اندیشوں سے غافل رہنا، یہی اکثر انسانوں کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے، خواہ وہ مشہور لوگ ہوں یا غیر مشہور لوگ۔

بعد از وقت

مسٹر بوکاسا (Jean Bedel Bokassa) 1921ء میں پیدا ہوئے۔ وہ سنٹرل افریقہ کی فوج میں جنرل تھے۔ وہ اپنے اس عہدہ پر قناعت نہ کر سکے، جنوری 1966ء میں انہوں نے فوجی بغاوت کر دی اور صدر ڈاکو (David Dacko) کو معزول کر کے خود سنٹرل افریقہ کے صدر بن گئے۔ جنرل بوکاسا صدر بوکاسا بننے پر بھی قانع نہیں ہوئے۔ کیوں کہ انہیں اندیشہ تھاکہ اگلے الیکشن میں وہ صدارت کھو دیں گے۔ چنانچہ 1976ء میں انہوں نے پارلیمنٹ کو ختم کر کے اپنے شہنشاہ (Emperor) ہونے کا اعلان کر دیا۔ اب انہوں نے تاج پہن لیا اور شہنشاہ بوکاسا کہے جانے لگے۔ تاہم مسئلہ اب بھی ختم نہیں ہوا۔ اب شہنشاہ بوکاسا کا سامنا اس چیز سے تھاجس کوانسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (3/1100) نے (Realities of French economic control) سے تعبیر کیا ہے۔ سنٹرل افریقہ کی قیمتی کانیں فرانس کے قبضہ میں تھیں۔ نئے سیاسی نظام میں فرانس کو اپنا اقتصادی مفاد خطرہ میں نظر آیا۔ چنانچہ فرانس کی مدد سے 1980ء میں ایک اور فوجی انقلاب ہوا اور مسٹر ڈیوڈ ڈاکو دوبارہ سنٹرل افریقہ کے صدر بنا دیے گئے۔ جون 1987ء میں بوکاسا کو پھانسی دے دی گئی۔

انقلاب کے بعد مسٹر بوکاسا ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ اکتوبر 1986ء میں دوبارہ سنٹرل افریقہ واپس آئے۔ ملک میں داخل ہوتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا (انڈین ایکسپریس /9 جون 1987)۔ ان کے اوپر بہت سے سنگین الزامات تھے۔ مثلاً 40 آدمیوں کو قتل کرانا، سرکاری خزانہ سے کروڑوں ڈالر رشوت دینا وغیرہ۔ اسٹیٹ پراسیکیورٹر مسٹر جبریل مبودو (Gabriel Mboudou) نے بینگوئی (Bangui) کی کریمنل عدالت سے کہا تھا کہ مسٹر بوکاسا نے اپنے 14 سالہ زمانۂ حکومت میں جو جرائم کیے ہیں، اس کے بعد ضروری ہے کہ انہیں موت کی سزا دی جائے۔ 8 جون 1987ء کو مسٹر بوکاسا کی پیشی عدالت میں ہوئی تو انہوں نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ آج میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ معمولی شہری کی حیثیت سے پُرامن زندگی گزاروں

Today, I only want to live in peace as a simple citizen.

آدمی اگر قناعت کا طریقہ اختیار کرے تو وہ کبھی ذلت اور ناکامی سے دوچارنہ ہو۔

چرچل کا اقرار

سرونسٹن چرچل (1874-1965) انگلستان کے انتہائی مشہور سیاستدان تھے۔ وہ 1940 سے 1945تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے متعلق مورخین مغرب یہ الفاظ لکھتے ہیں کہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کو شکست سے بچا کر فتح تک پہنچایا:

He lead Britain from near defeat to victory in World War II

چرچل جنگ کے رہنما تھے، وہ امن کے رہنمانہ تھے۔ برطانیہ کے لوگوں کا یہ سیاسی شعور قابلِ داد ہے کہ جنگ عظیم کے فوراً بعد برطانیہ میں عام الیکشن ہوا تو انہوں نے اپنے جنگی ہیرو کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ کیوں کہ جنگ کے بعد برطانیہ کی تعمیرنو کے لیے وہ چرچل کو موزوں نہیں سمجھتے تھے۔

چرچل کے اندر بڑی عجیب و غریب خصوصیات تھیں۔ ان کی ایک خصوصیت کا ذکر مسز وجے لکشمی پنڈت نے اپنی سوانح عمری میں اس طرح کیا ہے

ہندوستان کے مطالبہ آزادی کے جواب میں چرچل نے اعلان کیا تھاکہ وہ سلطنت برطانیہ کے وزیراعظم اس لیے نہیں بنے ہیں کہ وہ اس کے خاتمہ کی تقریب کی صدارت کریں۔ یہ بات قابل تعجب نہیں ہے کہ ہم لوگ ان سے محبت نہیں کرتے تھے ۔ جو چیز قابل تعجب ہے وہ یہ کہ آخر میں جب وہ میرے بھائی (جواہر لال نہرو) سے اس وقت ملے جب کہ عبوری حکومت بن چکی تھی تو دونوں نے ایک دوسرے کو چاہا اور دونوں میں آزادانہ گفتگو ہوئی۔ جب وہ جُدا ہوئے تو چرچل نے جواہرلال کو یہ کہہ کر مبارک باد دی کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے انسان کے دو سب سے بڑے دشمنوں پر فتح پائی ہے۔ وہ ہیں نفرت اور خوف :

He was the man who had announced that he had'not become His Majesty's first minister to preside over the liquidation of His Majesty's empire'. It was not surprising that we did not love him. What was surprising was that when he finally met by brother after the formation of the interim government, they liked each other and were able to talk freely. When they parted, Sir Winston paid Bhai a handsome tribute:'' I want to say that you have conquered two of man's greatest enemies---hate and fear.''

Vijai Lakshmi Pandit, The Scope of Happiness

کتنا مشکل کتنا آسان

ایک صاحب ملے۔ ان کے پاس یونیورسٹی کی ایک بڑی ڈگری ہے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’مولانا صاحب، آپ انگریزی رسالہ نکالتے ہیں۔ مگر آپ کے رسالہ کی انگریزی غلط ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ آپ زبان کی غلطی کی کوئی مثال دیجیے۔ ان کے ہاتھ میں اس وقت الرسالہ ماہ نمبر 1986ء تھا۔ اس شمارہ کے ٹائٹل کے آخری صفحہ پرایک مضمون انگریزی زبان میں شائع ہوا ہے۔ (یہ مضمون الرسالہ اردو اور انگریزی دونوں میں موجود ہے) یہ انگریزی مضمون حسب ذیل ہے:

To spread the word of God is the highest form of charity. It appeals to the mind, the heart, the soul. That being the earnest endeavour of this magazine, how noble- spirited it would be of you, dear readers, if you sent it on regularly to friends and relatives. Make a gift of it. Think of a whole year's subscription as being both a delightful present as well as a contribution to a worthy cause.              

مذکورہ بزرگ نے اس عبارت کی چوتھی سطر میں لفظ sent پر نشان لگاتے ہوئے کہا کہ دیکھیے یہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہاں if you send ہونا چاہیے، نہ کہ if you sent جیسا کہ آپ نے لکھاہے۔‘‘ مگر جو لوگ انگریزی زبان سے بخوبی واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اعتراض درست نہیں۔میں نے جواب دیا کہ معاف کیجیے، آپ نے یہ بات محض جوشِ اعتراض میں فرمائی ہے، نہ کہ بر بنائے واقفیت آپ ایساکہہ رہے ہیں۔ آپ نے اپنے اس اعتراض کی تحقیق کے لیے گرامر کا مطالعہ نہیں کیا، ورنہ آپ ہرگز ایسانہ فرماتے۔ میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پرنسپل کلاز میں چوں کہ لفظ would (سیکنڈ فارم) استعمال ہوا ہے ، اس بنا پر سب آرڈینیٹ کلاز میں بھی sent (سیکنڈ فارم) استعمال کیا جائے گا۔ یہی انگریزی گرامر کا اصول ہے:

The form 'sent' is grammatically necessitated by the use of the word ‘would' in the principal clause of the sentence. The other possible alternative would be 'could send' but not 'send'.

میرے اس جواب کے بعد مذکورہ بزرگ چپ ہو گئے۔ تاہم انہوں نے زبان سے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔ تم غلطی پر ہوکہنا کتنا زیادہ آسان ہے اور میں غلطی پر ہوں کہنا کتنا زیادہ مشکل۔

اعتراف

سید مشتاق علی کرکٹ کے انتہائی مشہور کھلاڑی ہیں۔ مسٹر شرد ور مانے ان سے انٹرویو لیا جو ہندوستان ٹائمس (15 مئی 1987) میں شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہماری کرکٹ کی تاریخ میں بہت کم افراد نے وہ غیر معمولی مقام حاصل کیا ہے، جو سید مشتاق علی نے حاصل کیا۔ تقریباً بیس سال تک وہ کرکٹ کے ہیرو بنے رہے۔ ان کے متعلق سرکارڈوس (Sir Neville Cardus) نے کہا تھاکہ مشتاق گویا کہ ایک بازیگر ہے، جو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ اسی طرح کیتھ ملر (Keith Miller) نے کہا کہ وہ ہمارے وقت کے ناقابل یقین حد تک اچھے کھلاڑی ہیں۔

سید مشتاق علی کی شہرت 1930ء میں شروع ہوئی جب کہ ان کی عمر صرف 16 سال تھی۔ وہ اگرچہ کم کھیلتے تھے۔ مگر جب کھیلتے تھے تو ان کا کھیل سب سے زیادہ ممتاز ہوتا تھا۔1945-46ء میں کلکتہ میں آسٹریلیا کی ٹیم اور ہندوستان کی ٹیم کا مقابلہ تھا۔ سید مشتاق علی کو ہندوستان کی ٹیم سے خارج کر دیا گیا۔ اس پر کلکتہ میں زبردست مظاہرے ہوئے اور ہر طرف یہ نعرہ گونج اٹھا

No Mushtaq, No Test

آخرکار منتظمین نے سید مشتاق علی کو ٹیم میں شامل کیا۔ اب سید مشتاق علی کی عمر 72 سال ہو چکی ہے۔ مسٹر شرد ورما سے اپنے حالات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بار انگلینڈ میں ہندوستانی اور انگریزی ٹیم کا مقابلہ تھا۔ انگریزی ٹیم کے کپتان ویلی ہیمنڈ (Wally Hammond) تھے۔ سید مشتاق علی نے رن بنانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ وہ نوّے سے آگے بڑھ گئے۔ ویلی ہیمنڈ اگرچہ مخالف ٹیم کے کپتان تھے، وہ اپنے جذبہ اعتراف کو روک نہ سکے۔ انہوں نے تیزی سے آ کر مشتاق علی کا کندھا تھپتھپایا اور کہا کہ جمے رہو، میرے بیٹے جمے رہو، اپنا سو پورا کرو

Steady, my boy, steady, get your hundred first.

مردہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت بے اعترافی ہے اور زندہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت اعتراف۔ زندہ انسان کے سامنے ایک حقیقت آئے یا وہ ایک خوبی کا مشاہدہ کرے تو وہ اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا، خواہ یہ اعتراف اپنی ہار ماننے کے ہم معنی کیوں نہ ہو۔

 

حوصلہ

دہلی کی ایک کالونی و سنت وہار ہے۔ یہاں ایک خاتون کملا دیوی اگروال اپنے بیٹے اور پوتے کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کی عمر 99 سال ہو چکی تھی۔ بڑھاپے کی وجہ سے وہ زیادہ تر اپنے بستر پر ہی رہتی تھیں۔

15 دسمبر 1988ء کو ایک حادثہ ہوا۔ ان کے گھر کے پچھلے دروازے کو کسی طرح کھول کر تین چور ان کے گھر میں گھس گئے۔ گھر کے لوگ بیدار ہو گئے اور چور اپنے مقصد میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکے تاہم وہ بوڑھی کملا دیوی کے کمرہ سے نقد اور سامان کی صورت میں دس ہزار کی چیز لے کر فرار ہو گئے۔

چوروں نے کملا دیوی اگروال کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ انہیں مارنے کی کوشش کی۔ تاہم صبح کو وہ مری ہوئی پائی گئیں۔ رپورٹ (ٹائمس آف انڈیا 16دسمبر 1988ء) کے مطابق ، انہوں نے چوروں کی طرف ایک نظر دیکھا اور اچانک صدمہ کی وجہ سے وہ فوراً مر گئیں:

She took one look at the robbers and died of shock

مذکورہ مکان میںکملا دیوی اگروال بھی تھیں اوران کے بیٹے اور پوتے بھی۔ مگر چورکو دیکھ کر بیٹے اور پوتے کی وفات نہیں ہوئی، البتہ بوڑھی کملادیوی اچانک ختم ہو گئیں۔ ان دونوں کے درمیان وہ کیا فرق تھا جس کی وجہ سے ان کے انجام کے درمیان فرق ہو گیا۔ وہ فرق ہمت کا تھا۔ بیٹے اور پوتے میں ہمت تھی وہ جھٹکے کو سہہ سکتے تھے۔ اس لیے وہ لوگ بچ گئے۔ مگر بوڑھی عورت اپنے اندر سہار کی طاقت کھو چکی تھی۔ وہ چوروں کو دیکھتے ہی جان بحق ہو گئی۔

یہ دنیا حادثات کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ناموافق حالات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں موجودہ دنیا میں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو ہمت والا ہو، جو ناخوش گوار حالات کے مقابلہ میں ٹھہر سکے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو اس کا وہی انجام ہو گا جو مذکورہ بوڑھی عورت کا ہوا۔ حوصلہ مندی کمزور آدمی کو طاقت ور بنا دیتی ہے، اور اگر حوصلہ نہ ہو تو طاقت ور آدمی بھی کمزور اور مغلوب ہو کر رہ جاتا ہے۔

اپنے خلاف

موجودہ سائنسی زمانہ میںجو نئے ہتھیار ایجاد ہوئے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ز ہریلی گیسوں کو جمع کر کے ان کے ’’بم‘‘ بنائے گئے تاکہ انہیں دشمن کے اوپر چھوڑ کر اس کو ہلاک کیا جا سکے۔ مگر اب اس قسم کی زہریلی گیسوں کے ذخیرے تباہ کیے جا رہے ہیں، کیوں کہ تجربہ سے معلوم ہوا کہ خود قابض ملک کے لیے بھی وہ زبردست خطرہ ہیں۔ امریکہ کی ایک خبر (ٹائمس آف انڈیا 24 جنوری 1989ء ) میں بتایا گیا ہے کہ سالوں کے مطالعہ کے بعد امریکی فوج نے طے کیا ہے کہ وہ اپنے 69453 زہریلی گیس سے بھرے ہوئے راکٹوں کو تباہ کر دے۔ اس کے لیے ذخیرہ کے مقام پر مخصوص قسم کی بھٹی تیار کی جائے گی۔ ایسے راکٹ امریکہ میں آٹھ مقامات پر موجود ہیں۔ یہ تمام راکٹ بھٹیوں میں ڈال کر تباہ کیے جائیں گے۔

زہریلی گیس کے ان مہلک ہتھیاروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ خود قابض ملک کے لیے بھی اتنا ہی خطرناک ہیں جتنا کسی دشمن کے لیے۔ یہ ہتھیار اگر ز یادہ دن تک ذخیرہ رہیں تو وہ اچانک پھٹ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے اندر سے کہر کی قسم کاایک مادہ نکل کر پھیل جائے گا جس کے اندر نہ کوئی بو ہو گی اور نہ وہ دکھائی دے گا۔ مگر اس کے راستہ میں جو چیز پڑے گی سب ہلاک ہو جائے گی

After years of study, the U.S. army has decided to destroy 69,453 ageing, sometimes leaking rockets filled with deadly nerve gas and which are now stored in Richmond, Kentucky. It will build a special furnace at the depot to destroy them. There are similar rockets in seven other depots. They too will be burnt in incinerators. These poison gas weapons are now acknowledged to be as much a threat to the possessor as to the potential enemy. If kept too long, they could ignite spontaneously, releasing an odourless, invisible mist that would kill everything in the path.                                                                        

یہ ایک نشانی ہے جو بتا رہی ہے کہ دوسرے کے خلاف تخریب کاری خود اپنے خلاف تخریب کاری ہے۔ کوئی شخص تخریب کاری کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد اس کے برے نتیجہ سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا، خواہ اس کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت حاصل ہو اور خواہ اس نے اپنا تخریبی منصوبہ اعلیٰ ترین سائنسی سطح پرکیوں نہ بنایا ہو۔

بلند فکری

ٹوکیو کے ایک اشاعتی ادارہ نے 160 صفحات کی ایک کتاب چھاپی ہے۔ یہ جاپانی سماج اورجاپانی انسان کے مزاج کا تعارف ہے۔ اس کا نام یہ ہے :

Chie Nakane, Japanese Society (1987)

اس کتاب کی مصنف ایک خاتون چی ناکین ہیں جو ٹوکیو یونیورسٹی میں سوشل اینتھراپالوجی کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے تفصیلی معلومات دے کر بتایا ہے کہ جاپانیوں کا ذہن (Mental make-up) کیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق، جاپانی انسان کی ذہنی ساخت کو مختصر طور پر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ— اس بات کی مسلسل خواہش کہ وہ اوسط سے اوپر اٹھ سکے:

The constant desire to rise a little higher than the average (p.155).

صاحب کتاب کے نزدیک یہی جاپانیوں کا طریق زندگی ہے۔ وہ اس کو مذہبی تعلیم کی طرح مقدس مان کر ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  زندگی میں ٹھہرائو نہیں۔ آدمی یا تو نیچے گرے گا یا اوپر اٹھے گا۔ یہ اصول اتنا قطعی ہے کہ اگر اپنے آپ کو اوپر نہ اٹھائیں تو آپ خود بخود نیچے جانا شروع کر دیں گے۔ نیچے گرنے کے لیے کسی مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔

یہ اصول دین اور دنیا دونوں معاملہ میں یکساں طور پر درست ہے۔ حقیقی مومن وہ ہے جس کا ایمان مسلسل بڑھ رہا ہو۔ جس آدمی کے ا یمان میں اضافہ کا عمل رک جائے ، وہ ایمانی تنزّل کی طرف اپنا سفر شروع کر دے گا۔ یہاں کسی ایک حالت میں ٹھہرائو ممکن نہیں۔

یہی معاملہ دنیا کا ہے۔ دنیاکے معاملات میں بھی آدمی کو مسلسل ترقی کی طرف اپنا سفر جاری رکھنا ہے جو شخص ترقی کی طرف اپنا سفرجاری نہ رکھ سکے، وہ اولاً جمود کا شکار ہو جائے گا اور اس کے بعد دھیرے دھیرے ختم ہو جائے گا— ہمیشہ اپنے ارتقاء کے لیے فکر مند رہیے۔ ارتقاء کے لیے فکر مندنہ ہونا اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہے۔

ضروری تیاری

گاندھی جی کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی ہے جو ’’گاندھی‘‘ کے نام سے کافی مشہور ہو چکی ہے۔ اس فلم میں گاندھی جی کا کردار ایک برٹش ایکٹر کنگسلے (Kingslay) نے ادا کیا تھا۔

کنگسلے نے اپنے آپ کو گاندھی کے روپ میں ڈھالنے کے لیے غیر معمولی مشقت برداشت کی۔ کنگسلے کی حقیقی زندگی نہایت شاہانہ ہے۔ اس کے دسترخوان پر اس سے بھی زیادہ کھانے کا سامان ہوتا ہے جتنا پہلے زمانہ میں روایتی قسم کے راجہ یا نواب کے دسترخوان پر ہوتا تھا۔ مگر گاندھی کا کردار اداکرنے کے لیے اس نے عرصہ تک نیم فاقہ کشی کی زندگی اختیار کی۔

کنگسلے ایک موٹے جسم کا آدمی تھا۔ جب کہ گاندھی جی ایک دبلے پتلے آدمی تھے جو اپنے ہاتھ میں ایک لٹھیا لے کر چلا کرتے تھے۔ اداکاری کا تقاضا تھا کہ کنگسلے جب اسکرین پر آئے تو وہ لوگوں کو دبلا پتلا گاندھی کی مانند دکھائی دے۔ چنانچہ اس نے مسلسل بھوکا رہ کر اور بہت کم غذا کھا کر اپنے آپ کو دبلا کیا۔ یہاں تک کہ اس کا وزن سات کلوگرام کم ہو گیا۔ یہی پرمشقت عمل اس مراٹھی خاتون کو بھی کرنا پڑا جس نے اس فلم میں گاندھی کی بیوی کستوربا کا کردار ادا کیا ہے۔

فلم کی فرضی کہانی میں مصنوعی کردار اداکرنا جتنا مشکل ہے اس سے بہت زیادہ مشکل یہ ہے کہ کوئی شخص حقیقی زندگی میں کسی قوم کی رہنمائی کے لیے اپنا کردا ر ادا کرے ۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ قومی رہنمائی کے میدان میں لوگ اس طرح بلاتیاری کود پڑتے ہیں جیسے کہ یہاں کسی اہتمام کی ضرورت ہی نہیں۔

قوم کی رہنمائی بلاشبہ تمام کاموں سے زیادہ مشکل کام ہے۔ فلم میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کنگسلے کو اپنے جسم کو مارنا پڑا تھا، قوم کا رہنما بننے کے لیے آدمی کو اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے۔ پہلے کام میں اداکار کو اپنے جسم کا موٹاپا گھٹانا پڑا تھا۔ دوسرے کام کے قابل بننے کے لیے ایک رہنما کو اپنے نفس کا موٹاپا کم کرنا پڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

جو لوگ اس ضروری تیاری کے بغیر قوم کی رہنمائی کے میدان میں داخل ہوں وہ قوم کے مجرم ہیں، نہ کہ قوم کے رہنما۔

تجارتی کامیابی

امریکہ کے تاجر اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے ہر قابل قیاس اور ناقابل قیاس تدبیریں کرتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں ضرورت کی تمام چیزیں قسطوں پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ویکیوم کلینر ہو یا کئی ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی عالی شان عمارت، موٹر کار ہو یا جیٹ طیارہ، ہر چیز آسان قسطوں پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ امریکیوںکے درمیان یہ کہاوت عام ہو گئی ہے کہ اگر آپ کے اندر اقساط ادا کرنے کی استطاعت ہو تو آپ امریکہ کو بھی خرید سکتے ہیں بشرطیکہ وہ بک رہا ہو۔

امریکہ کے تجارتی ادارہ کی ایک اہم ترین خصوصیت وہ ہے جس کو گاہک نوازی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے بڑے بڑے تاجر ہمہ وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے گاہک کو خوش کریں اور انہیں اپنے بارے میں مطمئن کر سکیں۔

اسی گاہک نوازی کے اصول کا ایک مظاہرہ یہ ہے کہ کسی تجارتی ادارہ کی ایک شاخ سے خریدا ہوا مال، ناقص ہونے یا پسند نہ آنے کی صورت میں ادارے کی کسی بھی شاخ کو، کسی بھی شہر میں، یہ کہہ کر لوٹا یا جا سکتا ہے کہ خریدنے کے بعد پسند نہیں آیا۔ نہ جھنجھلاہٹ نہ استفسار۔ بس رسید پاس ہونی چاہیے۔ قیمت فی الفور لوٹا دی جاتی ہے۔ ’’خریدا ہوا مال واپس نہیں ہو گا‘‘ کا لفظ امریکی کاروباری لغت کے لیے اجنبی ہے۔

اگر ہندوستان میں کچھ لوگ ایسا کریںکہ وہ ایک لمیٹڈ کمپنی یا کواپریٹو سوسائٹی قائم کریں اور مشترکہ سرمایہ سے ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھولیں جہاں ہر طرح کا سامان بکتا ہو، اور یہ ضمانت دیں کہ کسی بھی اسٹور سے خریدا ہوا سامان کسی بھی اسٹور پر واپس کیاجا سکتا ہے تو ایسے کاروبار کی سارے ہندوستان میں دھوم مچ جائے گی۔ اور وہ یقینی طور پر زبردست کامیابی حاصل کرے گا۔

یہ تجارتی میدان اس ملک میں مکمل طور پر خالی ہے۔ یہاں کسی کے لیے اجارہ داری کی حد تک کامیابی کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ تاہم اس امکان سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کے اندر یہ ضروری صفات پائی جاتی ہوں— محنت، دیانت داری اور اشتراک عمل۔

سادہ حل

ایک صاحب نے اپنا واقعہ لکھا ہے۔ کسی قدر لفظی تصرف کے ساتھ واقعہ یہ ہے کہ وہ ایک صحرائی علاقہ میں گئے۔ وہ تانگہ پر سفر کر رہے تھے، اتنے میں آندھی کے آثار ظاہر ہوئے۔ تانگہ والے نے ا پنا تانگہ روک دیا۔ اس نے بتایا کہ اس علاقہ میں بڑی ہولناک قسم کی آندھی آتی ہے۔ وہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا لے جاتی ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ اس وقت اسی قسم کی آندھی آ رہی ہے۔ اس لیے آپ لوگ تانگہ سے اتر کر اپنے بچائو کی تدبیر کریں۔

آندھی قریب آ گئی تو ہم ایک درخت کی طرف بڑھے کہ اس کی آڑ میں پناہ لے سکیں۔ تانگہ والے نے ہمیں درخت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو وہ چیخ پڑا۔ اس نے کہا کہ درخت کے نیچے ہرگز نہ جائیے۔ اس آندھی میں بڑے بڑے درخت گِر جاتے ہیں۔ اس لیے اس موقع پر درخت کی پناہ لینا بہت خطرناک ہے۔ اس نے کہاکہ اس آندھی کے مقابلہ میں بچائو کی ایک ہی صورت ہے۔ وہ یہ کہ آپ لوگ کھلی زمین پراوندھے ہو کر لیٹ جائیں۔ ہم نے تانگہ والے کے کہنے پر عمل کیا اور زمین پر منھ نیچے کر کے لیٹ گئے۔ آندھی آئی اور بہت زور کے ساتھ آئی۔ وہ بہت سے درختوں اور ٹیلوں تک کو اڑا لے گئی۔ لیکن یہ سارا طوفان ہمارے اوپر سے گزرتا رہا۔ زمین کی سطح پر ہم محفوظ پڑے رہے۔ کچھ دیر کے بعد جب آندھی کا زور ختم ہوا تو ہم اٹھ گئے۔ ہم نے محسوس کیا کہ تانگہ والے کی بات بالکل درست تھی۔ (ذکریٰ، نومبر 1989)

آندھیاں اٹھتی ہیںتو ان کا زور ہمیشہ اوپر اوپر رہتا ہے۔ زمین کی نیچے کی سطح اس کی براہ راست زد سے محفوظ رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آندھی میں کھڑے ہوئے درخت تو اکھڑ جاتے ہیں، مگر زمین پر پھیلی ہوئی گھاس بدستور قائم رہتی ہے۔ ایسی حالت میں آندھی سے بچائو کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ اپنے آپ کو وقتی طور پرنیچا کر لیاجائے۔ یہ قدرت کا سبق ہے جو بتاتا ہے کہ زندگی کے طوفانوں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ جب آندھی اٹھے تو وقتی طور پر اپنا جھنڈا نیچا کر لو— کوئی شخص اشتعال انگیز بات کہے تو تم اس کی طرف سے اپنے کان بند کر لو۔ کوئی تمہاری دیوار پر کیچڑ پھینک دے تو اس کے اوپر پانی بہاکر اسے صاف کر دو۔ کوئی تمہارے خلاف نعرہ بازی کرے تو تم اس کے لیے دعاکرنے میں مصروف ہو جائو۔

زمانہ کے خلاف

ٹائمس آف انڈیا (6 جولائی 1989ء) میں مسٹر رمن ننداکے قلم سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جو وزیراعظم راجیو گاندھی کے صاحبزادہ راہول گاندھی سے متعلق ہے۔

راہول گاندھی نے نئی دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں ہسٹری (آنرز) کورس میں داخلہ لیا ہے۔ وہ اس مضمون کے لیے منتخب کیے جانے والے 76 طلبہ میں سے ا یک ہیں۔ راہول کے کالج جانے کے وقت کالج میں مسلسل پہرہ رہتاہے۔ وہ کمانڈوز (Black Cats) کے زبردست پہرہ کے اندر کالج جاتے ہیں اور واپس لوٹتے ہیں۔

کالج کے ایک استاد ڈاکٹر ایس سی بھارگوا (فزکس لیکچرر) کو ’’ایک طالب علم‘‘ کا ٹیلیفون ملا کہ وہ ان سے کچھ مشورہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اپنے مکان پر ملاقات کے لیے بلایا۔ ڈاکٹر بھارگوا جب وقت پر گھر پہنچے تو وہاں سیکورٹی کے لوگوں نے ان کے مکان کو گھیر رکھا تھا۔ ان کو مکان کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ انہیں صرف اس وقت داخلہ کی اجازت ملی جب کہ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ وہی ڈاکٹر بھارگوا ہیں جن سے ملنے کے لیے مذکورہ طالب علم یہاں آیا ہوا ہے۔

یہ وی وی آئی پی طالب علم وزیر اعظم راجیو گاندھی کا بیٹا راہول گاندھی تھا۔ رپورٹ میں بتایا ہے کہ راہول نے ڈاکٹر بھارگوا سے یہ مشورہ چاہا تھا کہ وہ اقتصادیات کا مضمون لے یا تاریخ کا مضمون۔ ڈاکٹر بھارگوانے اس کو بتایا کہ طالب علم کے نمبر کو دیکھتے ہوئے اقتصادیات کے کو رس میں اس کا داخلہ مشکل ہو گا، اس لیے اس کو اقتصادیات کے بجائے تاریخ کا مضمون لینا چاہیے۔

Rahul, who sought Dr. Bhargava's advice on whether he should take up economics or history, was told by the lecturer that considering his percentage, admission to the economics course may be difficult and he should instead opt for history (p.5).

جہاں تعلیمی مقابلہ کا یہ حال ہو کہ وزیر اعظم کے بیٹے کو بھی میرٹ کی بنیاد پر داخلہ ملے، وہاں رعایتی داخلہ کا مطالبہ کرنا عجیب بھی ہے، اور ناقابل حصول بھی۔

زندہ یا مردہ

گاڑی کے چلنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو ایک ڈرائیور چلائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے انجن کو چلا کر اس کو سڑک پر چھوڑ دیا جائے۔ بظاہر دونوں گاڑی چلتی ہوئی نظر آئے گی۔ مگر دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ ڈرائیور والی گاڑی چل کر اپنی منزل پر پہنچتی ہے۔ مگر بے ڈرائیور گاڑی کا انجام صرف یہ ہے کہ وہ کچھ دیر تک دوڑے اور اس کے بعد کسی چیز سے ٹکرا کر ختم ہو جائے۔

ایک باہوش ڈرائیور جب گاڑی کو چلاتا ہے تو راستہ کو دیکھتا ہوا گاڑی چلاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق وہ کبھی چلتا ہے اور کبھی رک جاتا ہے۔ کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ کبھی سیدھے چلتا ہے اور کبھی دائیں یا بائیں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہی وہ گاڑی ہے جو کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچتی ہے۔

اس کے برعکس، جو گاڑی ڈرائیور کے بغیر دوڑ رہی ہو وہ بس یک طرفہ طور پر دوڑتی رہے گی۔ اس گاڑی کے ساتھ عقل اور شعور شامل نہیں۔ وہ نہ رکے گی اور نہ پیچھے ہٹے گی۔ وہ نہ کہیں مڑے گی اور نہ کبھی سست ہو گی۔ وہ اندھا دھند بس آگے کی طرف دوڑتی رہے گی۔ ایسی گاڑی کا واحد انجام یہ ہے کہ وہ تھوڑی دور چلے اور اس کے بعد ٹکرا کر اپنا خاتمہ کر لے۔

اس مثال سے زندہ انسان اور مردہ انسان کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ ز ندہ انسان باہوش انسان ہے اور مردہ انسان بے ہوش اور بے عقل انسان۔ زندہ انسان اگر کسی وقت بولے گا تو حسب موقع چپ بھی ہو جائے گا۔ وہ اگر چلے گا تو کبھی رک بھی جائے گا۔ وہ اگر آگے بڑھے گا تو حالات کو دیکھ کر پیچھے بھی ہٹ جائے گا۔ وہ اگر تیز دوڑے گا تو کبھی اپنی رفتار سست بھی کر لے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ وہ اپنی کامیابی تک پہنچ جائے گا۔اس کے برعکس، مردہ انسان وہ ہے جو اس قسم کی سمجھ سے خالی ہو۔ جو بولنے کے بعد چپ نہ ہو سکے۔ جو چلنے کے بعد رکنا نہ جانے۔ جو صرف اپنی شرطوں کو منوانا جانتا ہو۔ فریق مخالف کی شرطوں پر راضی ہونا اس کے یہاں خارج از بحث ہو۔ ایسا انسان مردہ انسان ہے۔ خدا کی دنیامیں اس کے لیے صرف یہ مقدر ہے کہ وہ تباہی اور بربادی کا نشان بن کر رہ جائے۔

ایک خودکشی

مسز پدماڈیسائی مشہور صنعت کار راجہ رام کرلوسکر کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی سابق وزیر اعظم ہند مرار جی ڈیسائی کے صاحبزادے مسٹر کانتی لال ڈیسائی سے ہوئی۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ان کی معاشی حیثیت کیا تھی۔ مگر 16 نومبر 1984ء کو انہوں نے اپنے پانچویں منزل کے فلیٹ سے کود کر خودکشی کر لی۔ اس وقت ان کی عمر51 سال تھی۔ نیچے گرنے کے فوراً بعد وہ ہسپتال لے جائی گئیں۔ مگر ڈاکٹروں نے دیکھ کر بتایا کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے مر چکی ہیں۔

انہوںنے خودکشی کیوں کی، اس کی وجہ خبر میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:

Padma committed suicide after hearing that the family has lost a case in the Supreme Court to retain their flat.           

پدما نے یہ خبر سننے کے بعد خودکشی کر لی کہ ان کا خاندان اپنے فلیٹ کو قبضہ میں رکھنے کا کیس سپریم کورٹ میں ہار گیا ہے (ہندوستان ٹائمس، ٹائمس آف انڈیا 17 نومبر 1984)

1977ء میں جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد مرارجی ڈیسائی وزیر اعظم ہوئے۔ وزارت عظمیٰ کی ڈھائی سالہ مدت میں ا ن کے صاحبزادے کانتی لال ڈیسائی نے کئی معاملات کیے۔ ان میں سے ایک مذکورہ فلیٹ بھی تھا۔ میرین ڈرائیو (بمبئی) میں ایک بڑی بلڈنگ ہے جس کا نام اوشیانا (Oceana) ہے۔ اس کی پانچویں منزل پر یہ فلیٹ تھا۔ جنتا حکومت کے خاتمہ کے بعد عدالت میں یہ کیس چلاکہ مسٹر کانتی لال ڈیسائی نے یہ فلیٹ غیر قانونی طور پرحاصل کیا تھا۔ عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیا، مسز پدما ڈیسائی کو اس فیصلہ کی خبر بذریعہ ٹیلی فون ملی۔ اس کے بعد انہوں نے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔

خاتون نے سمجھاکہ وہ خودکشی کر کے ہمیشہ کے لیے عدالت کے فیصلہ سے نجات حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن اگر انہیں معلوم ہوتا کہ وہ خودکشی کر کے اپنے آپ کو ز یادہ بڑی عدالت میں پہنچا رہی ہیں جہاں اس قسم کے کسی اقدام کا موقع ان کے لیے باقی نہیں رہے گا، تو ان کا فیصلہ بالکل مختلف ہوتا۔

آدمی کی سب سے بڑی کمزوری عجلت پسندی ہے۔ وہ فوری طور پر ایک سخت اقدام کر بیٹھتا ہے۔ حالاں کہ اگر وہ سوچے تو کبھی ایسا نہ کرے۔

زندگی کا راز

بِل کازبی (Bill Cosby) ایک سیاہ فام امریکی ہے۔ وہ 1937ء میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا۔ ابتداًء وہ بمشکل ایک ہزار ڈالر سالانہ کماتا تھا۔ آج اس کی سالانہ آمدنی کئی ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سفید فام امریکہ میں ا یک سیاہ فام شخص کو یہ غیر معمولی کامیابی کیوں کر حاصل ہوئی۔ جواب یہ ہے کہ تعلیم اور دانش مندانہ جدوجہد کے ذریعہ۔ بل کازبی فلاڈالفیا کے ایک سکول میں پانچویں گریڈ میں تھا۔ وہ سکول میں اکثر تماشے کیا کرتا تھا اور پڑھائی پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ اس کی خاتون ٹیچر نیجل (Miss Nagle) نے ایک روز اس سے کہا کہ اگر تم جو کر بننا چاہتے ہو تب بھی تمہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ تعلیم کے بغیر تم کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کر سکتے (اسپان جنوری 1987ء)

بل کازبی نے اس نصیحت کو پکڑ لیا۔ اس نے پڑھنے میں محنت شروع کر دی۔ یہاں تک کہ اس نے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کر لیا۔ اس کے بعد اس نے تفریحی پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ آخرکار اس کو ٹیلی ویژن پروگرام ملنے لگے۔ آج وہ امریکہ کامشہور ترین کامیڈین (comedian) ہے۔ بل کازبی شو (Bill Cosby show) امریکی ٹیلی ویژن کا سب سے زیادہ مہنگا پروگرام ہے۔ دوسرے بہت سے سیاہ فام امریکیوں کے برعکس، اس نے نسلی امتیاز کی باتیں کرنے سے پرہیز کیا۔ اس نے اپنی کہانیاں عالمی واقعات کی بنیاد پر بنائیں جو تمام لوگوں کے لیے قابل فہم ہوسکیں:

Unlike many other black comedians, he avoided racial nuances and drew his stories from the kind of universal occurrences that could be understood by all. (Span, January 1987) 

امریکی عام طور پر سیاہ فام لوگوںکو پسند نہیںکرتے۔ مگر وہ بل کازبی کے پروگرام کو نہایت شوق کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ بل کازبی نے سفید فام لوگوں کی رعایت کی تو سفید فام لوگوں نے بھی بل کازبی کی رعایت کرنا شروع کر دیا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ میں دلچسپی لیں تو آپ بھی دوسروں میں دلچسپی لینا شروع کر دیجیے اور اس کے بعد آپ کو کسی سے شکایت نہ ہو گی۔

انسانی عظمت

مشہور نظریاتی سائنٹسٹ اسٹیفن ہاکنگ (1942-2018ء)کا واقعہ ہے۔ ایم ایس سی کرنے کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے ریسرچ کر رہا تھا کہ اس پر ایک خطرناک بیماری کا حملہ ہوا۔ اپنے حالات کے ذیل میں اس نے لکھا ہے کہ میں ریسرچ کا ایک طالب علم تھا۔ میں مایوسانہ طور پر ایک ایسے مسئلہ کے حل کا منتظر تھا جس کے ساتھ مجھے پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کرنا تھا۔ دو سال پہلے ڈاکٹروں نے تشخیص کیا تھاکہ مجھے ایک مہلک بیماری ہو چکی ہے۔ مجھےبتایا گیا تھا کہ میرے پاس اب زندہ رہنے کے لیے صرف ایک سال یا دو سال اور ہیں۔ ان حالات میں بظاہر میرے لیے پی ایچ ڈی پر کام کرنے کا زیادہ وقت نہیں تھا۔ کیوں کہ میں اتنی مدت تک زندہ رہنے کی امید نہیںکر سکتا۔ مگر دو سال گزرنے پر بھی میرا حال زیادہ خراب نہیں ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعات میرے لیے زیادہ بہتر ہوتے جا رہے تھے:

I was a research student desperately looking for a problem with which to complete my PhD thesis. Two years before I had been diagnosed as suffering from ALS, commonly known as Lou Gehrig's disease, or motor neuron disease, and given to understand that I had only one  or two more years to live .In these circumstances there had not seemed much point in working on my Ph.D. I did not expect to survive that long. Yet two years had gone by and I was not that much worse. In fact, things were going rather well for me. (Stephen W. Hawking, A Brief History of Times, P.53.)

ڈاکٹروں کے اندازہ کے خلاف اسٹیفن ہاکنگ زندہ رہا۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ اس نے اپنی محنت سے اتنی لیاقت پیداکی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ آئن اسٹائن کے بعد سب سے بڑا نظریاتی طبیعیات دان ہے۔ آج وہ کیمبرج یونیورسٹی میں میتھمیٹکس کا پروفیسر ہے۔ یہ وہ کرسی ہے جو اب تک صرف ممتاز سائنس دانوں کو دی جاتی رہی ہے۔ اس کی صرف ایک کتاب ،اے بریف ہسٹری آف ٹائم1988ء میں چھپی تو وہ اتنی مقبول ہوئی کہ پہلے ہی سال اس کے چودہ ایڈیشن شائع کیے گئے۔

انسان کی ذہنی صلاحیتیں اس کی ہر کمزوری کی تلافی ہیں۔ اس کا ارادہ ہر قسم کی رکاوٹوں پر غالب آتا ہے۔ وہ ہر ناکامی کے بعد ا پنے لیے کامیابی کا نیا راستہ نکال لیتا ہے۔

الّو کا سبق

الّو کو عام طور پر نحوست اور بیوقوفی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس کو بیکار سمجھ کر مارڈالتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی دنیا میں کوئی چیز بے فائدہ نہیں۔ الّو ہماری زراعت اور فصلوں کے لیے بے حد مفید ہے۔ کیوں کہ وہ فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کو شکار کرکے انہیں کھا جاتا ہے۔  الّو کی غذا نقصان پہنچانے والے کیڑے اور موذی جانور ہیں۔ اس ا عتبار سے الّو ان بہت سے انسانوں سے اچھا ہے جو محض اپنی حرص اور اپنے اقتدار کے لیے لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں جو کارآمد چیزوں کو برباد کرکے فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

الّو کی 130 قسمیں معلوم کی گئی ہیں۔ وہ چار اونس سے لیکر چھ پونڈ وزن تک کے ہوتے ہیں۔ اسی اعتبار سے ان کی غذا کی مقدار بھی مختلف ہے۔ چھوٹے الّو تقریباً سات اونس خوراک کھاتے ہیں اور بڑے الّو دو پونڈ سے ز یادہ تک کھا جاتے ہیں۔ الّو عام طور پر رات کے وقت شکارکرتے ہیں۔ وہ بڑے کیڑے، چوہے، چھپکلیاں، سانپ، چھوٹے خرگوش وغیرہ کو پکڑتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں وہ ہیں جو زراعت کو یا انسان کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔

الّو کے جسم کی بناوٹ شکار کے کام کے لیے نہایت موزوں ہے۔ مثلاً ایک ماہر طیور کے لفظوں میں، وہ رات کے وقت انتہائی خاموش پرواز (silent flight) کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ رات کی تاریکی میں کیڑوں یا جانوروںکی صرف آواز سے ان کے مقام کا پتہ لگا لیتا ہے اور تیزی اور خاموشی سے وہاں پہنچ کر اچانک ان کو پکڑ کر نگل جاتا ہے (ہندوستان ٹائمس9 ستمبر 1989)

خدا کی دنیا میں کوئی چیز بے فائدہ نہیں۔ یہاںکوئی چیز حکمت سے خالی نہیں۔ خدا کی دنیا میں الّو جیسی چیز بھی اس کا ایک مفید جزء ہے۔ ایسی حالت میں جو انسان دنیا میں اس طرح رہیں کہ انہوں نے دوسروں کے لیے اپنی افادیت کھو دی ہو جو دنیا کے مجموعی نظام میں ایک فائدہ بخش عنصر کی حیثیت نہ رکھتے ہوں۔ جو انسانی سماج میں مفید حصہ بننے کے بجائے مُضِر حصہ بن گئے ہوں۔ وہ بلاشبہ خدا کی نظر میں الّو سے بھی زیادہ بے قیمت ہیں۔ ایسے لوگوں کی ضرورت نہ خدا کو ہے اور نہ عام انسان کو۔

کھونے کے بعد بھی

اے پی (لندن) کی فراہم کردہ ایک خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے— مسٹر اسٹینلی جاکی ہنگری میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سیاہ پوش راہب، عیسائی عالم اور فزکس کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دس سال تک آواز سے محرومی ان کے لیے ان کی سائنس اور مذہب سے متعلق تحریروں پر دو لاکھ 20 ہزار ڈالر جیتنے کا ذریعہ بن گئی۔ 1953ء میں میرے گلے پر سرجری کے ایک حادثہ نے مجھے وقت دیا کہ میں لکھوں اور میں سوچوں، اور ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ بہت سے انتہائی مقبول کتابوں کے مصنف ایسے ہیں جو بالکل نہیں سوچتے، انہوں نے کہا۔ مسٹر جا کی جنہوں نے مذہب میں ترقی پر ٹمپلٹن انعام حاصل کیا ہے ، یقین رکھتے ہیں کہ عیسائیت نے وہ ذہنی فضا پیدا کی جس نے سائنس کو ترقی کا موقع دیا۔ وہ اس خیال کے سخت ناقد ہیں کہ سائنس اور خدا ایک دوسرے سے غیر متعلق چیزیں ہیں:

Mr Stanley L. Jaki, a Hungarian-born Benedictine monk, theologian and physics professor, says losing his voice for ten years helped him win a $220,000 prize for his writings on science and faith.'' A surgical mishap on my throat in 1953 gave me time to write and to think, and that's not always the case. Many writers of best-sellers don't think at all, ‘the scholar said. Mr Jaki who won the Templeton prize for progress in religion, holds that Christianity created the intellectual climate which allowed science to flourish. He is a stern critic of the view that science and God are unrelated. (The Times of India, New Delhi, May 14, 1987).

مسٹر جاکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ غلط آپریشن کی وجہ سے ان کی بولنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ مگر ان کے سوچنے اور پڑھنے کی صلاحیت بدستور باقی تھی۔ انہوں نے اس بچی ہوئی صلاحیت کو بھرپور طور پر استعمال کیا۔ دس سال کی خاموش محنت سے انہوں نے ا یک ایسی کتاب لکھی جس کا انعام سوا دو لاکھ ڈالر تھا۔ حادثہ کے بعد جو لوگ کھوئی ہوئی چیز کاغم کریں وہ صرف اپنی بربادی میں اضافہ کرتے ہیں جو لوگ حادثہ پیش آنے کے بعد بچی ہوئی چیز پر اپنی ساری توجہ لگا دیں وہ ازسرنو کامیابی کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔

کم سمجھنا

زندگی نام ہے ناخوش گواریوں کو خوش گواری کے ساتھ قبول کرنے کا۔ تھیوڈور روز ویلٹ (Theodore Roosevelt) نے اسی بات کو ان الفاظ میں کہا کہ زندگی کا سامنا کرنے کا سب سے زیادہ ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جائے:

The poorest way to face life is to face it with a sneer.

اصل یہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی شخص اکیلا نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ بھی یہاں زندگی کا موقع پائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے منصوبہ کے تحت ہر ایک کو اس کا سامانِ حیات دے رہا ہے۔ کسی کو ایک چیز، کسی کو دوسری چیز اور کسی کو تیسری چیز۔ ایسی حالت میں آدمی اگر دوسروںکو حقیر یا کم سمجھ لے تو وہ حقیقت پسندانہ نظر سے محروم ہو جائے گا۔ وہ نہ اپنے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکے گا اور نہ دوسروں کے بارے میں۔

 تاریخ انسانی میں جو سب سے بڑا جرم کیا گیا ہے وہ عدم اعتراف ہے۔ تاریخ کے ہر دورمیں خدا کے نیک بندے حق کا پیغام لے کر اٹھے، انہوں نے لوگوں کو سچائی کی طرف بلایا۔ مگر ہمیشہ ایسا ہوا کہ ان کے مخاطبین کی اکثریت نے ان کو نظرانداز کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے ان سچے انسانوںکو حقیر سمجھ لیا، صرف اس لیے کہ ان کے آس پاس انہیں دنیا کی رونقیں نظر نہ آئیں، وہ ان کو تخت عظمت پر بیٹھے ہوئے دکھائی نہیںدیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک چھوٹے آدمی کے سامنے کیوں اپنے آپ کو جھکائیں۔

یہی معاملہ قومی رویہ کا بھی ہے۔ اگر ہم ایک قوم کو حقیر سمجھ لیں تو اس کے بارے میں ہمارا پورا رویہ غلط ہو کر رہ جائے گا۔ ہم اس قوم کی اچھائیوں کو بھی برائی کے روپ میں دیکھنے لگیں گے، ہم اس قوم کی طاقت کا غلط اندازہ کریں گے اور اس سے ایسے مواقع پر غیر ضروری طور پر لڑ جائیں گے جہاں بہترین عقل مندی یہ تھی کہ اس سے اعراض کیا جائے۔

دوسروں کو کم سمجھنا باعتبار نتیجہ خود اپنے آپ کو کم سمجھنا ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھنے کا آخری انجام صرف یہ ہے کہ آدمی خود دوسروں کی نظر میں حقیر ہو کر رہ جائے۔

ذہنی ارتکاز

چارلس ڈارون (1882۔1809) موجودہ زمانہ کا مشہور ترین مفکر ہے۔ ا س کے نظریہ سے اگرچہ راقم الحروف کو اتفاق نہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید ا نسان کی فکری تشکیل میں جتنا ڈارون کا حصہ ہے اتنا شاید کسی دوسرے مفکر کا نہیں۔

ڈارون نے موجودہ دنیا میں یہ غیر معمولی مقام اپنی غیر معمولی محنت کے ذریعہ حاصل کیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے اس کے حالات بتاتے ہوئے لکھا ہے:

All his mental energy was focussed on his subject, and that was why poetry, pictures, and music ceased in his mature life to afford him the pleasure that they had given him in his earlier days (5/495).

ڈارون کی تمام ذہنی طاقت اس کے موضوع پر وقف ہو گئی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ شاعری، تصویر اورموسیقی اس کی بعد کی زندگی میں اس کو وہ خوشی نہ دے سکیں جو کہ اس کی ابتدائی زندگی میں انہوں نے اس کو دیا تھا۔

یہ ذہنی ارتکاز کسی کام میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی طور پر ضروری ہے، خواہ وہ صحیح کام ہو یاغلط کام ۔ آدمی جب تک اپنے مقصد میں اتنا زیادہ گم نہ ہو جائے کہ بقیہ تمام چیزیں اسے بھول جائیں۔ کسی اور چیز میں اس کے لیے لذت باقی نہ رہے، اس وقت تک وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیںکر سکتا۔ تمام بڑے لوگوں نے اسی طرح کام کیا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی بڑا کام کرنے کا طریقہ نہیں۔

جب ایک آدمی کسی کام میں ہمہ تن مشغول ہوتا ہے تو اس وقت اس پر اس کا م کے تمام چھپے ہوئے راز کُھلتے ہیں۔ اسی وقت وہ اس کام کے تمام ضروری پہلوئوں پر توجہ دینے کے قابل بنتا ہے۔ اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ اس کی تمام فطری صلاحیتیں اس کے مقصد کے حصول میں لگ جائیں۔ یکسوئی اور لگن کے بغیر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا کام نہیں کرتے۔ اسی لیے اکثر لوگ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔

قدرت کا فیصلہ

اگر آپ امریکہ جائیں اور وہاں سے کینیڈا کی طرف سفر کریں تو آپ دیکھیں گے کہ امریکہ اور کینیڈا کی سرحد (Border) پر دونوں ملکوں کے جھنڈے ایک ساتھ لہرا رہے ہیں۔ پاس ہی ایک بورڈ ہے جس کے اوپر بڑے بڑے حرفوں میں لکھا ہوا ہے— ایک ہی ماں کی اولادیں:

Children of a common mother

یہ بات جو امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پرکھلے بورڈ کے اوپر لکھی گئی ہے، یہی بات تمام دوسرے ملکوں کی سرحدوں پر چھپے بورڈوں میں نہ دکھائی دینے والے حرفوںمیں لکھی ہوئی ہے۔ یہ دوسرا بورڈ وہ ہے جو قدرت کی طرف سے لگایا گیا ہے۔ پہلا بورڈ انسانی ہاتھوں نے لکھا ہے دوسرا بورڈ خود خدا کے ہاتھوںنے۔ جدید تحقیقات جو مالیکیول حیاتیات (molecular biology) میں ہوئی ہیں، ان سے جیننی شہادت (genetic evidence) کے ذریعہ خالص سائنسی سطح پر یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام دنیا کے لوگ ایک ہی عظیم خاندان (great family) کا حصہ ہیں۔ سب ایک ہی مشترک ماں باپ (common ancestor) سے تعلق رکھتے ہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے تعمیر کی طرف، صفحہ 28-30)

ایسی حالت میں گویا حقیقت واقعہ وہی ہے جو مذکورہ بورڈ پر امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پرنصب کی گئی ہے۔ وہی معاملہ تمام قوموں کا ہے جس کا اعلان امریکہ اورکینیڈا نے اپنے یہاں کیا ہے۔ حیاتیاتی حقیقت کا تقاضا ہے کہ ہر قوم اپنے یہاں وہی الفاظ لکھے جو امریکہ اور کینیڈا نے اپنے یہاں لکھ رکھا ہے۔

یہی موجودہ دنیا میں انسان کاامتحان ہے۔ یہاں آدمی کو اپنے آزاد ارادے سے وہی کام کرنا ہے جو قدرت نے لازمی قانون کے تحت پیشگی طور پر مقدر کر دیا ہے جو چیز قدرت نے اپنے مخفی قلم سے لکھی ہے، اسے انسان کو اپنے ہاتھ سے اپنے صفحۂ حیات پر لکھنا ہے۔ قدرت کے اپنے منصوبہ کے تحت چیزوں کی جوا سکیم (Scheme of things) ہے، اس کے مطابق اپنے شعور اور عمل کو ڈھال لینا ہے —  قدرت کے نقشہ سے مطابقت کا نام تعمیر ہے اور قدرت کے نقشہ سے عدمِ مطابقت کا نام تخریب۔

بڑی ترقی

علم النفس کے ماہرین نے انسانی سوچ کی دو قسمیں کی ہیں— کنورجنٹ تھنکنگ (convergent thinking) اور ڈائورجنٹ تھنکنگ (divergent thinking) ۔کنورجنٹ تھنکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ ایک ہی نقطہ کی طرف مائل رہے۔ ایک چیز اس کے فکر کی گرفت میں آئے مگر دوسری چیز اس کے فکر کی گرفت میںنہ آ سکے ۔ یہ غیر تخلیقی فکر ہے۔

ڈائورجنٹ تھنکنگ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ڈائورجنٹ تھنکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ ایک رخ سے دوسرے رخ کی طرف مڑ جائے، وہ ایک چیز کو دیکھے اور اس کے بعد اس کا ذہن دوسری چیز کی طرف منتقل ہو جائے۔ اسی کا دوسرا نام تخلیقی فکر ہے۔ (24 جنوری 1989)

ایک شخص کسی بستی میں جوتا خریدنے گیا۔ وہاں کی آبادی کافی بڑی تھی۔ مگر وہاں جوتے کی دکان موجود نہ تھی۔ اب ایک شخص وہ ہے جو اس تجربہ سے صرف یہ جانے کہ مذکورہ بستی میں جوتے کی دکان نہیں ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے اندر صرف کنورجنٹ تھنکنگ ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جس پر یہ تجربہ گزرا تو اس کا ذہن اس طرف منتقل ہو گیا کہ اس بستی میں جوتے کے گاہک ہیں مگر جوتے کی دکان نہیں، اس لیے اگر یہاں جوتے کی دکان کھولی جائے تو وہ بہت کامیاب ہو گی اس نے فوراً وہاں جوتے کی ایک دکان کھول دی اور پھر زبردست نفع کمایا۔

یہ دوسرا شخص وہ ہے جس کے اندر ڈائورجنٹ تھنکنگ ہے۔ اس نے جوتے کی دکان میں ایک نئے کاروبار کی تصویر دیکھ لی۔ اس نے دکان کے نہ ہونے میں دکان کاہونا دیکھ لیا۔

ڈائورجنٹ تھنکنگ کی صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جن کے اندر تخلیقیت (creativity) کی صلاحیت ہو۔ یہی تخلیقیت تمام بڑی ترقیوں کی سب سے اہم شرط ہے۔ انہیں لوگوں نے بڑی بڑی سائنسی دریافتیں کی ہیں جن کے اندر تخلیقی ذہن ہو۔ انہیں لوگوں نے بڑے بڑے سیاسی کارنامے انجام دیے ہیں جو تخلیقی ذہن کے مالک ہو۔ وہی لوگ اعلیٰ تجارتی ترقیاں حاصل کرتے ہیں جو تخلیقی فکر کا ثبوت دے سکیں۔

اس دنیا میں پانے والا وہ ہے جس نے کھونے میں پانے کا راز دریافت کر لیا ہو۔

 کامیابی کا ٹکٹ

موجودہ زمانہ میں کامیابی حاصل کرنے کی سب سے زیادہ یقینی تدبیر تعلیم ہے۔ جن لوگوں نے اس راز کو جان لیا ہے وہ اس سے زبردست فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔

1۔ امریکہ میں ہر سال ایک تعلیمی مقابلہ ہوتا ہے جس میں پورے ملک کے طلبہ شریک ہوتے ہیں۔ اس میں امریکہ کے چھ ممتاز سائنسی طلبہ (Top 6 science students) کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ 1987ء میں جب اس قسم کے چھ ممتاز ترین امریکی طلبہ کا انتخاب کیا گیا تو اس میں ایک ہندوستانی لڑکی کیشانی بھوشن کا نام بھی شامل تھا۔ اس کو بالڈون کالج (Mary Baldwin College) سے ایک ہزار ڈالر ماہانہ کا وظیفہ دیا جائے گا (ہندوستان ٹائمس 30 اگست 1987)

2۔ دہلی کے 21مارچ1988 کے اخبارات میں ایک خبر تھی۔ انڈین ایکسپریس نے اس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا کہ ہندوستانی لڑکا امریکہ کے سائنسی مقابلہ میں ٹاپ کرتاہے

Indian boy tops in US science competition

3۔ امریکہ میں مختلف قسم کے سائنسی مقابلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک خاص مقابلہ وہ ہے جس کو ویسٹنگ ہائوس سائنسی صلاحیت جانچ (Westing house Science Talent Search) کہا جاتا ہے۔ 1988ء میں اس کا 47 واں سالانہ مقابلہ ہوا۔ اس مقابلہ میں جو طالب علم اول آیا وہ ایک ہندوستانی طالب علم تھا جس کا نام چیتن نائک ہے۔اس کو 20 ہزار ڈالر سالانہ تعلیمی وظیفہ دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی مزید تعلیم بحسن و خوبی جاری رکھ سکے۔ ماضی میں ویسٹنگ ہائوس مقابلہ میں کامیاب ہونے والے پانچ طالب علموں نے بعد کو نوبل انعام حاصل کیا۔

تعلیم موجودہ زمانہ میں کامیابی کا ٹکٹ (Ticket to success) ہے۔ تعلیم کے ڈگری والے نظام نے کامیابی کے اس زینہ کو ہر آدمی کے دروازہ تک پہنچا دیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ محنت ہے۔ آدمی اگر محنت اور دانش مندی کے ساتھ اس امکان کو استعمال کرے تو ہر جگہ وہ اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کر سکتا ہے، خواہ وہ امریکہ ہو یا ہندوستان یا اور کوئی ملک۔

 

دریافت

دریافت ایک انسانی کمال ہے۔ نئی چیز کی دریافت کسی آدمی کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں ایسے لوگوں کو خصوصی عزت اور احترام حاصل ہوا ہے جنہوں نے انسانی علم میں کسی نئی چیز کا اضافہ کیا ہو۔

دریافت کیا ہے اور کوئی شخص کس طرح ایک دریافت تک پہنچتا ہے، اس کے بارے میں البرٹ زنٹ گیورگی (Albert Szent-Györgyi, 1893-1986) کا ایک قول نہایت بامعنی ہے۔ اس کو طبیعیات میں ایک نئی چیز دریافت کرنے پر نوبل انعام ملا تھا۔ اس سلسلہ میں اس نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دریافت یہ ہے کہ آدمی اس چیز کو دیکھے جس کو ہر ایک نے دیکھا ہے مگر اس سے وہ ایک ایسے خیال تک پہنچ جائے جس کو کسی نے نہیں سوچا تھا:

Discovery consists of seeing what everybody has seen and thinking what nobody has thought.  

دریافت (discovery)کی اس تشریح کی ایک مشہور مثال نیوٹن کا واقعہ ہے۔ نیوٹن نے سیب کے درخت سے سیب کا ایک پھل نیچے گرتے ہوئے دیکھا۔ پھل کا درخت سے گرنا ایک ا نتہائی عام واقعہ ہے جس کو ہر شخص جانتا ہے اور ہر شخص نے اس کو دیکھا ہے۔ مگر نیوٹن نے جب اس واقعہ کو گہری نظر سے دیکھا تو اس کو اسی معمولی واقعہ میں ایک غیر معمولی چیز مل گئی۔ یعنی کششِ ثقل کے قوانین (laws of gravity) ۔وہ چیز جس کو ہر ایک نے دیکھا تھا اس میں اس نے وہ چیز پالی جو کسی نے نہیں پایا تھا۔

یہی دریافت تمام اعلیٰ کامیابیوں کا خزانہ ہے۔ وہی شخص بڑی ترقی تک پہنچتا ہے جو کوئی نئی چیز دریافت کرے۔ وہی قوم دوسروں کے مقابلہ میں برتر مقام حاصل کرتی ہے جو دوسروں کے مقابلہ میں کوئی نئی تدبیر ایجاد کر سکے۔ جو لوگ اس تخلیقی صلاحیت کا ثبوت نہ دیں، وہ صرف پچھلی صف میں جگہ پاتے ہیں، وہ کبھی اگلی صف میں جگہ پانے والے نہیں بنتے۔

خدمت کا کرشمہ

نئی دہلی کے انگریزی پندرہ روزہ انڈیا ٹو ڈے (15 اگست 1990ء) میں صفحہ 68 پر ایک سبق آموز واقعہ شائع ہوا ہے۔ محمد حنیف سلیمان (35 سال) لکھنؤ کے ایک مسلمان باربر ہیں۔ وہ پچھلے دس سال سے مسٹر ملائم سنگھ یادو کی حجامت بناتے رہے ہیں۔ مسٹر یادو پہلے صرف ایک نیتا تھے اب وہ یوپی کے چیف منسٹر ہیں۔ محمد حنیف سلیمان نے مسٹر یادو سے کہا کہ آپ ایک بڑے عہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ مجھے لکھنؤ کے بازار حضرت گنج میں ایک دکان دلا دیجیے۔

مسٹر یادو اس پر راضی ہو گئے۔ مگر وہ اس کے بعد ا پنے وعدہ کو بھول گئے۔ محمد حنیف سلیمان چند مہینے تک انتظار کرتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے چیف منسٹر کی رہائش گاہ پرجانا چھوڑ دیا۔ مسٹر یادو نے دریافت کرایا تو معلوم ہوا کہ محمد حنیف سلیمان ان کی وعدہ خلافی پر ناراض ہیں اور اس بنا پر ان کے یہاں جانا چھوڑ دیا ہے۔ مسٹر یادو کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنے افسروں کو حکم دیا کہ سلیمان کے لیے حضرت گنج میں ایک دکان تلاش کرو۔ افسروں نے حضرت گنج میں دوڑ دھوپ کی تو معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں کوئی بھی دکان خالی نہیں ہے۔

حضرت گنج میں لکھنؤ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاور ڈیپارٹمنٹ کاایک سرکاری دفتر موجود تھا۔ مسٹر یادو کے حکم پر یہ دفتر خالی کر کے سلیمان کو دے دیا گیا تاکہ وہ وہاں ا پنی دکان کھول سکیں۔ رپورٹر کے مطابق اس وقت 1250لوگ حضرت گنج میں دکان حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔ سلیمان نے ان سب پر چھلانگ لگا کر ایک دن میں لکھنؤ کی اہم ترین مارکیٹ میں ایک ایسی دکان حاصل کر لی، جس کی قیمت اس وقت پانچ لاکھ روپیہ ہے۔ اب محمد حنیف سلیمان نے اس دکان میں اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اس دکان کے اوپر اِس نام کا بورڈ لگا ہوا ہےبمبئی ہیر ڈریسرز (Bombay Hair Dressers) ۔رپورٹر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سلیمان نے جو کچھ کہا اس کو رپورٹرنے اپنی زبان میں اس طرح نقل کیا ہے کہ میں اپنی سیوا کی وجہ سے اس کا حقدار تھا :

I deserved this much for all my seva.

ذہن کی تعمیر

اقوام متحدہ کے اقتصادی اور ثقافتی ادارہ کے دستور میں جو باتیں درج ہیں، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے— جنگوں کی ابتدا چونکہ ذہن سے ہوتی ہیں اس لیے یہ دراصل لوگوں کے ذہن ہیںجہاں قیام امن کا مورچہ بنایاجائے:

since wars begin in the minds of men, it is in the minds of men that the defences of peace must be constructed.

(www.en.unesco.org/70years/building_peace [accessed on 01.06.21])

یہ نہایت صحیح بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواہ سڑک پر دو آدمیوںکا جھگڑا ہو یا میدانِ جنگ میں دو قوموںکا ٹکرائو، اس قسم کی تمام چیزیں ہمیشہ ذہن میں شروع ہوتی ہیں۔ کچھ آدمیوںکے ذہن میں غصہ، اشتعال، انتقام اور نفرت کے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی خیالات بھڑک کر جب عملی صورت اختیار کرتے ہیں تو اسی کا نام جھگڑا یا جنگ ہے، اس لیے اگر ذہن کی سطح پر امن قائم کیا جا سکے تو عمل کی سطح پر بھی امن قائم ہو جائے گا۔

آدمی کے ذہن میں منفی خیالات ہمیشہ ردعمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ کسی آدمی نے سخت بات کہہ دی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ کسی نے ناخوش گوار تجربہ ہوا تو آپ مشتعل ہو گئے۔ کسی نے آپ کے وقار کو مجروح کیا تو آپ کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔ یہی سب چیزیں جو ابتدا میں ذہن کے اندر پیدا ہوتی ہیں ، وہی باہر آ کر جنگ اور فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔

ایسی حالت میں انفرادی لڑائی اور قومی جنگ دونوں کو روکنے کا واحد موثر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہنوںکی تربیت کی جائے۔ لوگوںکے اندر وہ مزاج بنایا جائے جس کومذہب میں صبر کہا جاتا ہے۔  یہ مقصد اس طرح حاصل ہو گا جب کہ لوگوں کی منفی سوچ کو ختم کیا جائے اور ان کے اندر مثبت سوچ پیدا کی جائے۔ لوگوں کے اندر یہ مزاج بنایا جائے کہ وہ اشتعال کی باتوںپرمشتعل نہ ہوں۔ وہ ناخوش گوار چیزوں میں الجھنے کے بجائے ان سے اعراض کریں۔ وہ نفرت کے جواب میں محبت کرنا سیکھیں۔ وہ ٹھنڈی سوچ کے تحت فیصلہ کریں، نہ کہ جذباتی ابال کے تحت۔

ذہن کی اصلاح عمل کی اصلاح ہے اور ذہن کی تعمیر زندگی کی تعمیر۔

ناگزیر مسئلہ

اینی برانٹ (Anne Bronte) ایک خاتون ادیب ہیں۔ وہ انگلینڈ میں 1820ء میں پیدا ہوئیں اور 1849ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی تحریروں میں حقیقت پسندی کا سبق ملتا ہے۔ ان کاایک قول یہ ہے کہ اس غیر معیاری دنیا میں ہرچیز کے ساتھ ہمیشہ ایک مگر موجود رہتا ہے:

There is always a 'but' in this imperfect world.

یہ بلاشبہ ایک حکیمانہ قول ہے۔ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں معیار کی حالت کو پانا ممکن نہیں۔ یہاں مختلف قسم کی محدودیتیں ہیں۔ یہاں ہر انسان کو قول و فعل کی آزادی حاصل ہے۔ یہاں بار بار مفادات کا ٹکرائو ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہاں کسی کے لیے بھی ہموار زندگی کا حصول ممکن نہیں۔ یہاں آدمی کو ہمیشہ ایک ’’مگر‘‘ سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی کارروائیوں میں اس حقیقت کو سامنے رکھے۔ ورنہ وہ آخر کار ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

آپ آزاد ہیں کہ اپنی گاڑی سڑک پر پوری تیز رفتاری کے ساتھ دوڑائیں۔ مگر آپ کو اس پر قدرت نہیں کہ دوسری سمت سے آنے والی گاڑیوں کو روک کر سڑک کو صرف اپنے لیے خالی کر لیں۔ آپ ایک ناپسندیدہ جلوس کو روکنے کے لیے اس سے الجھائو کر سکتے ہیں مگر آپ کے بس میں یہ نہیں کہ اس کے بعد مسلح پولیس کو مداخلت کرنے سے باز رکھیں۔ آپ اپنے ایک قومی ایشو کے لیے جلسہ جلوس کا ہنگامہ کھڑا کر سکتے ہیں مگر آپ کے لیے یہ ناممکن ہے کہ آپ فریق ثانی کے اندر مخالفانہ ردعمل پیدا ہونے کو روک دیں۔ آپ اپنی حق تلفی کے نام پر احتجاج اور مطالبات کا طوفان برپا کر سکتے ہیں مگر آپ دنیا کے اس قانون کو نہیں بدل سکتے کہ آدمی کو اتنا ہی ملے جتنی استعداد اس نے اپنے اندر پیدا کی ہو۔

اس دنیا میں ہر طرف ایک ’’مگر‘‘ کی رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے۔ اس رکاوٹ کو جانیے اور اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنائیے۔ اگر آپ نے اس کو نظرانداز کر کے اپنا عمل شروع کر دیا تو آخر کار تباہی کے سوا کوئی اور چیز آپ کے حصہ میں آنے والی نہیں۔

قدرت کی تعلیم

ٹیک (teak) ایک عمارتی لکڑی ہے۔ ٹیک کا سب سے بڑا پیداواری ملک برما ہے۔ اس کے بعد ہندوستان، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور سری لنکا میں ٹیک کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہندوستان میں تقریباً دو ہزار سال سے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ٹیک کی سب سے اہم صفت، ایک ماہر کے الفاظ میں، اس کی غیر معمولی طویل عمر (extra ordinary durability) ہے۔ ہزار سال پرانی عمارتوں میں بھی ٹیک کی لکڑی کے بیم اچھی حالت میں پائے گئے ہیں۔ قدیم زمانہ میں کشتی اور پل وغیرہ اکثر اسی لکڑی کے بنائے جاتے تھے۔

ٹیک کی لکڑی کے دیرپا ہونے کا خاص سبب یہ ہے کہ عام لکڑیوں کی طرح، اس میں دیمک نہیں لگتا۔ دیمک لکڑی کا دشمن ہے، دیمک لگنے کے بعد کوئی لکڑی دیر تک صحیح حالت میں باقی نہیں رہتی۔ مگر ٹیک کے لیے دیمک کا خطرہ نہیں، اس لیے اس کی دیرپائی کو کوئی چیلنج کرنے والا بھی نہیں۔

ٹیک کی وہ کون سی صفت ہے جس کی بنا پر وہ دیمک کے خطرہ سے محفوظ رہتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ ٹیک کی لکڑی میں ایک قسم کا کڑوا ذائقہ ہوتا ہے۔ یہ ذائقہ دیمک کو پسندنہیں لکڑی ہی دیمک کی خوراک ہے۔ مگر ٹیک کی لکڑی استثنائی طور پر دیمک کے ذائقہ کے مطابق نہیں، اس لیے دیمک اس کو اپنی خوراک بھی نہیں بناتا۔  اس مثال سے قدرت کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ قدرت نے یہ چاہا کہ وہ ٹیک کو دیمک سے بچائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ٹیک کو شور و غل اور احتجاج کا طریقہ نہیں سکھایا۔ قدرت نے سادہ طور پر یہ کیا کہ خود ٹیک کے اندر ایک ایسی صفت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں دیمک اپنے آپ اس سے دور ہو جائے۔

اس دنیا میں جس طرح لکڑی کا دشمن دیمک ہے۔ اسی طرح یہاں ا نسانوں میں بھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اب انسان ان سے بچنے کے لیے کیا کرے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی صفت پیدا کر لے کہ اس کا دشمن اپنے آپ ہی اس سے دور رہے۔ وہ اس کے خلاف کارروائی کرنے سے خودبخود رک جائے۔

 

سفرِ حیات

جیومیٹری کے اصولوں میں سے ایک مشہور اصول یہ ہے کہ— دو نقطوں کے درمیان قریب ترین فاصلہ سیدھی لکیر کا ہوتا ہے:

A straight line is the shortest distance between two points.

یہ بات روشنی کے سفرکے لیے نہایت درست ہے۔ کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ روشنی ہمیشہ خط مستقیم (سیدھی لکیر) کے اصول پر سفرکرتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس اصول کو انسانی زندگی کے سفر کے لیے استعمال کرنے لگے تو اس کا سفر صرف بھٹکائو کے ہم معنی بن کر رہ جائے گا۔

اگر آپ اپنے گھر سے نکلیں اور یہ چاہیں کہ آخری منزل تک بالکل خط مستقیم پرسفر کریں تو ایسا کرنے کی صورت میں کہیں آپ کسی کھڈ میں جا گریں گے۔ کہیں کسی پہاڑ سے ٹکرا جائیں گے۔ کہیںدریا کی موجیں آپ کے سفر کو موت کاسفر بنادیں گی۔ اس لیے کوئی بھی آنکھ والا آدمی ایسا نہیں کرتا کہ وہ خط مستقیم کے اصول پر اپنا سفر جاری کر دے۔ ہر آنکھ والا آدمی مقامات سفر کی رعایت سے اپنے سفر کارخ متعین کرتا ہے۔ وہ جیومیٹری کے اصولوں کے تحت کبھی اپنے سفر کا راستہ نہیں بناتا۔

موجودہ زمانہ میں مسلمان ساری دنیا میں مفروضہ دشمنانِ اسلام کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سفر حیات کے لیے اٹھتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے راستے میں دریا اور پہاڑ کی مانند کچھ قومیں حائل ہیں۔ وہ فوراً ان قوموں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیتے ہیں۔

یہ طریقہ جو موجودہ زمانہ کے مسلمان ساری دنیامیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ گویا خط مستقیم میں سفرکرنے کی کوشش ہے۔ مگر ایسی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کی سرگرمیاں صرف موت کی سرگرمیاں ہیں۔ وہ ہرگز زندگی کی سرگرمیاں نہیں۔

زندگی کا سفر جیومیٹری کے اصولوں پر طے نہیں ہوتا۔ وہ حالات کی موافقت اورناموافقت کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ سفر حیات کا حقیقت پسندانہ منصوبہ وہی ہے اور وہی منصوبہ اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے جس میں خارجی حالات کی پوری رعایت شامل ہو۔

فرضی وہم

ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کو ہائپوکونڈریا (hypochondriasis) کہا جاتا ہے۔ جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو وہ خیالی طور پر اپنے کو بیمار سمجھنے لگتا ہے حالانکہ فی الواقع وہ بیمار نہیں ہوتا۔ اس مرض میں مبتلا ہونے والے لوگ یہ یقین کر سکتے ہیں کہ بیماریاں موجود ہیں، اگرچہ فی الواقع ایسا نہ ہو:

The hypochondriac may become convinced that diseases exit even thoug they are absent. (V/257)

28 جولائی 1992ء کی ملاقات میں پونہ کے جناب فرحات ہارون خاں صاحب نے بتایا کہ 1971ء میں ان کی ملاقات ایک 20 سالہ عرب طالب علم محمد عبدالغفار سے ہوئی۔ وہ بحرین کا رہنے والاتھااور پونہ میں تعلیم کے لیے آیاتھا۔ اس کو اپنے بارے میں یہ خیال ہو گیا کہ ہندوستانی غذائیں کھاتے کھاتے اس کی صحت تباہ ہو گئی ہے، وہ کسی مہلک مرض میں مبتلا ہے۔

اس نے فرحات ہارون صاحب سے کہا کہ مجھے کسی اچھے ڈاکٹرکے پاس لے چلیے۔ فرحات صاحب اس کو پونہ کے ڈاکٹر ایس ایم ایچ مودی کے یہاں لے گئے۔ ڈاکٹر مودی نے نوجوان کا معائنہ کیا۔ مختلف قسم کے ٹیسٹ لیے۔ چند دن کے بعد اس نے فرحات صاحب سے کہا کہ ان کو بتا دیجیے کہ ان کو کوئی بیماری نہیں، وہ گھوڑے کی طرح ٹھیک ہیں:

He is as fit as a horse.

ڈاکٹر مودی کا فیصلہ معلوم ہونے کے بعد اچانک عرب نوجوان کی ساری پریشانی ختم ہو گئی۔ وہ معتدل آدمی کی طرح رہنے لگا۔ اب وہ ایسا ہو گیا جیسے کہ وہ کبھی بیمار ہی نہ تھا۔

بیماری کی یہ قسم صرف افراد تک منحصر نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی قوم کو بھی یہی نفسیاتی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ اس کے رہنمائوں کی غلط رہنمائی اس کو اس بے بنیاد اندیشہ میں مبتلا کر دیتی ہے کہ ہر طرف سے اس کو خطرات نے گھیر رکھا ہے۔ ایسی قوم کی ترقی کا راز یہ ہے کہ اس کواس فرضی وہم سے نکال دیا جائے۔ اس کے بعدوہ آپ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگے گی۔

 ایک مثال

مالیگائوں کے فساد کے بارے میں دہلی کے ایک اردو ماہنامہ (افکار ملی ستمبر 1992ء) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا خلاصہ خود اسی کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتا ہے:

’’مالیگائوں میں 19 جولائی 1992ء کو فرقہ وارانہ فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس فساد میں تین کروڑ روپے کی مالیت لوٹی گئی یا اسے جلا دیا گیا۔ تین مسلمان جاں بحق ہو گئے۔ 135 سے زائد افراد زخمی ہوکر اہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ کاروبار بند ہونے کی باعث یہاں کی آبادیاں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، مایوسی اور افسردگی کی شکار نظر آتی ہیں۔ مزدور طبقہ بھوک مری کے اندیشہ میں مبتلا ہے اور تاجر پیشہ افراد اقتصادی مشکلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

19 جولائی کو بابری مسجد کے مسئلہ پر اپنے غم و غصہ کے اظہار کے لیے مسلمانوں نے اپنے کاروبار اور دکانیں بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ’’بابری مسجد بچائو‘‘ تحریک کے ضمن میں مقامی جنتادل کے ایم ایل اے جناب نہال احمد نے مسجد کے تحفظ کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل دینے کے بعد 18 جولائی کی شب میں قدوائی روڈ پرایک جلسۂ عام منعقد کیا اور 19 جولائی کو مالیگائوں بند رکھنے کے اعلان کے ساتھ احتجاجی جلوس کے اہتمام کا اعلان بھی کر دیا۔ عام طور پر مسلمانوں میں اس تجویز کا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ شہر میں موجودہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا نقطۂ آغاز یہی تھا۔

دوسرے دن 25-30 ہزار افراد پر مشتمل ایک مورچہ (احتجاجی جلوس) جناب نہال احمدکی قیادت میں قلعہ کے پاس سے نکلا۔ مگر یہ مورچہ موسم پل تک بھی نہیں پہنچا ہو گا کہ انتشار و اشتعال کا شکار ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک غیر مسلم فوٹوگرافر نے مورچہ میں شامل چند مسلمانوں کے منع کرنے کے باوجود تصویریں کھینچنے کا کام بند نہیں کیا تو اس سے کیمرہ چھیننے کی کوشش کی گئی۔ اس چھینا جھپٹی کے دوران پولیس کے آدمی وہاں پہنچ کر معاملہ کو رفع دفع کررہے تھے کہ جلوس کے کچھ افراد نے سنگ باری شروع کر دی اور پھر وہیں سے عمل اور ردعمل کا ہولناک سلسلہ شروع ہو گیا۔‘‘

برداشت والے لوگ اگر جلوس نکالیں تو اس کا نام مظاہرہ ہے، اور بے برداشت لوگ اگر جلوس نکالیں تو اس کا نام فساد۔

غصہ کا انجام

دہلی میں قرول باغ کے علاقہ میں اجمل خاں روڈ ہے۔ یہاں ایک ساتھ جوتے کی دو دکانیں تھیں۔ ایک دکان کے مالک کا نام سریندر کمار (35 سال) ہے اور دوسری دکان کے مالک کانام بلراج ارورا (45 سال)۔ ایک ہفتہ پہلے سریندر کمار کی دکان سے ایک شخص نے ایک جوڑا جوتا خریدا۔ دکاندار نے اس کی قیمت 180 روپے حاصل کی۔ گاہک باہرنکلا تو دوسرے دکاندار بلراج ارورا نے اس کو آواز دے کر بلایا۔ اس کا جوتا دیکھ کر پوچھا کہ اس کو تم نے کتنی قیمت میں خریدا۔ اس نے بتایا کہ 180 روپے میں۔ بلراج ارورا نے اسی قسم کا جوتا اپنی دکان سے نکال کر دکھایا اور کہا کہ دیکھو، یہ وہی جوتا ہے اور یہ میں تم کو صرف 135 روپے میں دے سکتا ہوں (دی پاینیر 14 اکتوبر 1992ء)

گاہک غصہ ہو گیا۔ وہ جوتا لے کر دوبارہ سریندر کمار کے یہاں آیا اور کہا کہ تم نے قیمت زیادہ لی ہے۔ مجھ کو 45 روپے واپس کرو۔ اس پر سریندر کمار بگڑ گیا اور پڑوس کی دکان پر جا کر بلراج ارورا کو ڈانٹنے لگا۔ کچھ لوگوں نے درمیان میں پڑ کر فوری طور پر دونوں کو اپنی اپنی دکان میں واپس بھیج دیا۔ مگر غصہ بدستور باقی رہا۔ یہاں تک کہ ایک ہفتہ بعد 13 اکتوبر 1992ء کو سریندر کمار نے بلراج ارورا سے تیز تیز  باتیںکیں، اور آخر کار جیب سے ریوالور (32 bore Smith and Wesson) نکالا اور ایک کے بعد ایک چھ گولیاں اس کے اوپر خالی کر دیں۔ بلراج ارورا کو فوراً لوہیا ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کو مُردہ قرار دیا۔

اب قاتل کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اب یا تو مقتول کی طرح قاتل کو بھی پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔ یا قاتل لاکھوں روپیہ خرچ کر کے مقدمہ کو اپنے موافق بنائے اور عدالت سے رہائی کا فیصلہ حاصل کر لے۔ایک صورت اگر قاتل کے لیے جسمانی موت ہے تو دوسری صورت اس کے لیے مالی موت۔

قاتل اگر غصہ اور انتقام سے مغلوب نہ ہوتاتو بہت آسانی کے ساتھ وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس کے لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ وہ مذکورہ گاہک کو 45 روپیہ ادا کر کے اسے رخصت کر دے اور پھر جہاں تک پڑوسی دکاندار کا مسئلہ ہے، اس کو تجارتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کرے۔

سبب کیا ہے

بارسلونا (اسپین) میں جولائی۔ اگست 1992ء کے درمیان اولمپکس کے مقابلے ہوئے۔ اس میں 171 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 64 ملکوں نے مختلف کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھا کر تمغے حاصل کیے۔

ہندوستان جو 86 کروڑ افراد کا ملک ہے وہ ایک بھی تمغہ حاصل نہ کر سکا۔ نہ گولڈ میں نہ سلور میں نہ برانز میں۔ حتیٰ کہ تیراندازی جو بھارت کی روایات میں شامل ہے اس میں بھی دوسرے ملکوں کے لوگ آگے نکل گئے۔ 64 جیتنے والے ملکوں کی فہرست میں ابتدائی دس ملکوں کے نام بالترتیب یہ ہیں— سی آئی ایس ، امریکہ، جرمنی ، چین، اسپین، ہنگری، سائوتھ کوریا، کیوبا، فرانس، آسٹریلیا۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ جو لوگ بیرونی دنیا کا سفر کرتے ہیں یا جن کی عالمی حالات پر نظر ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر آج ہندوستان کی کوئی اہمیت نہیں۔مثلاً بڑے صنعتی ممالک کی فہرست میں ہندوستان کانام آخری سطروں میں بھی نہیںملتا۔ جدید سائنسی ریسرچ میں ہندوستان سرے سے قابل تذکرہ نہیں سمجھا جاتا۔ ہندوستان کے تعلیمی ادارے اپنے معیار کے اعتبار سے سب سے کمتر ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں، وغیرہ۔

اس پچھڑے پن کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب وہی ہے جس کی طرف ایک مبصرنے ان الفاظ میں اشارہ کیا—  لوگوں کے دماغ ناقابل لحاظ چیزوں میںکھوئے ہوئے ہیں۔ وہ وقت کے اصل قابل لحاظ مسائل کی طرف متوجہ نہیں :

Men's minds are lost in trivialities, and not attune to the challenging issues of the time.

خواہ فردکامعاملہ ہو یا قوم کامعاملہ، اس دنیامیں اعلیٰ ترقی کا صرف ایک ہی راز ہے اوروہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کیا جائے، اور صرف ان باتوں پر سارا دھیان لگایا جائے جو مستقبل کوبنانے یا بگاڑنے میں حقیقی طور پر موثر ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے لوگ اس فرق کو نہیں جانتے۔ اسی لیے نصف صدی کے ہنگاموںکے باوجود وہ کوئی قابل ذکر ترقی نہ کر سکے۔

 ایک میدان

ونگ کمانڈر محمد یوسف خان (پیدائش 1943ء) پروفیشن کے اعتبار سے پائلٹ ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ انہیں صحافت کا ذوق بھی ہے، اور وہ انگریزی اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ ان کے انگریزی مضامین یہاں کے قومی روزناموں میں چھپتے رہے ہیں۔ 3 دسمبر 1992ء کو دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ کئی سبق آموز واقعات ان کی زبانی معلوم ہوئے۔ 

آج کل وہ انڈین میٹل کمپنی (Indian Metal & Ferro Alloys Ltd.) میں سینئر پائلٹ ہیں۔ اس کمپنی کا ہیڈ آفس بھوبنیشور (اڑیسہ) میں ہے۔ حال میں ان کاایک مضمون ہندوستان ٹائمز (18 اکتوبر 1992ء) میں چھپا۔ یہ مضمون بچوں کی تعلیم کے بارے میں تھا اور اس کا عنوان یہ تھا کیا آپ انہیں ٹیچروں پر چھوڑ دیں گے:

Can you leave them to the teacher?

ایک اور مضمون دہلی کے پانیر (4 اکتوبر 1992ء) میں چھپا۔ یہ ٹورزم (سیاحت) کے بارے میں تھا۔ اس کا عنوان یہ تھا:ایک ہفتہ اڑیسہ میں (A week in Orissa)

کمپنی والوں کے علم میں یہ مضامین آئے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ کمپنی کے ذمہ داروں نے ان مضامین کواپنے دفتر کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کیا اور ان کی فوٹو کاپی کر کے انہیں اپنی مختلف شاخوں کے نام روانہ کیا۔ ان مضامین کی اشاعت کے بعد کمپنی کے حلقوں میں یوسف خان صاحب کی عزت و وقعت بڑھ گئی۔ کمپنی میں ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ کے جنرل مینجر مسٹر پاشینے نے کہاکہ ہم کو فخر ہے کہ آپ اخبارات میں لکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام کارکن یہ جانیں کہ ہمارے یہاں اس صلاحیت کا ایک شخص ہے جو قومی روزناموں میں لکھتا ہے :

We are proud that you write for the news papers. We would like all our employees to know that we have a person of this calibre who writes for the national dailies. (Mr Pashine, General Manager, Human Resource Development)                                                                                                     

اگر آپ لوگوں کے درمیان عزت چاہتے ہیں تو لوگوں کے کام آئیے، حتیٰ کہ ان کے لیے فخر بن جائیے۔

تخریبی منصوبہ

انڈیا کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو مدراس میں 21 مئی 1991ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کرنے والے لنکا کے تامل ٹائیگرز (LTTE) تھے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے اتنی کامیاب منصوبہ بندی کی تھی کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کبھی پکڑے نہ جا سکیں گے۔ مگر آخرکار 20 اگست 1991ء کو پولیس بنگلور ٹھیک اس مکان تک پہنچ گئی، جہاں اس قتل کا اصل ذمہ دار (ماسٹر مائنڈ) 23 سالہ سیوارسن (Sivarasan) چھپا ہوا تھا۔ پولیس کی بھاری جمعیت کو دیکھ کر سیوارسن اور اس کے ساتھیوں نے سائنائڈ کھا کر خودکشی کر لی۔

سیوارسن کے اس طرح پکڑے جانے کی وجہ اس کی ایک ’’غلطی‘‘ تھی۔ 21 مئی کو جب سیوارسن اپنی ٹیم کے ساتھ اس جلسہ گاہ میں پہنچا جہاں اسے راجیو گاندھی کو قتل کرنا تھا تو اس نے اپنا حلیہ پریس رپورٹر جیسا بنایا تھا۔ اپنی اس تصویر کو مزید مکمل کرنے کے لیے اس نے ایک مقامی فوٹوگرافر ہری بابو کو ساتھ لے لیا۔

ہری بابو صرف ایک کرایہ کا آدمی تھا۔ مصلحت کی بنا پر اس کو اصل منصوبہ سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ ہری بابو نے حسب معمول مختلف رخ سے راجیو گاندھی کی تصویریں لیں۔ انہیں میں ایک تصویر ایسی تھی جس میں سیوارسن کی تصویر بھی آ گئی۔ جب وہ بم پھٹا جس نے راجیو گاندھی کو ہلاک کیا تھا تو اس کے بعد قریب کے جو لوگ مرے ان میں سے ایک مذکورہ ہری بابو بھی تھا۔ سیوارسن بچ کر بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا مگر اس کے ’’فوٹو گرافر‘‘ کا کیمرہ پولیس کے قبضہ میں آ گیا۔ پولیس نے اس کیمرہ کے اندر سے سیوارسن کا فوٹو حاصل کر کے اسے اخباروں میں چھاپ دیا اور اعلان کیا کہ جو شخص اس فوٹو والے کا پتہ دے گا اس کو دس لاکھ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ بنگلور کی ایک دودھ والی عورت جو سیوارسن کو روزانہ دودھ پہنچاتی تھی ، اس نے فوٹو کی مدد سے سیوارسن کو پہچان لیا۔ اس کی سراغ رسانی پر پولیس بنگلور کے مضافات میں مذکورہ مکان پر پہنچ گئی (ٹائمس آف انڈیا 21 اگست 1991ء) ۔

ایک تخریبی واقعہ کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے بے شمار عوامل کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ انسان اپنی محدودیت کی بنا پر ان کی رعایت نہیں کر پاتا۔ کوئی نہ کوئی رخنہ ہر تخریبی منصوبہ میں رہ جاتا ہے۔ یہی رخنہ تخریب کار کے منصوبہ کو ناکام بنا دیتا ہے۔

 بڑی اسٹوری

ٹائم انٹرنیشنل امریکہ سے نکلنے والا مشہور ہفتہ وار میگزین ہے۔ اس کے ہر شمارہ میں ایک خصوصی مضمون ہوتا ہے۔ اس مضمون کو صفحہ اول پر نمایاں کیا جاتا ہے، اس لیے اس کو کور اسٹوری (cover story) کہتے ہیں۔  ٹائم کے شمارہ 8 جون 1992ء کے صفحہ 2 پر اس کے مستقل عنوان (from the publisher) کے تحت آدھے صفحہ کاایک نوٹ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ٹائم میں کور اسٹوری لکھنا گویا بڑی اسٹوری لکھنا ہے اور بڑی اسٹوری لکھنا وہ چیز ہے جس کو لکھنے کا خواب ہر صحافی دیکھتا رہتا ہے :

Every journalist dream of working on the big story.

اخبار یا میگزین میں بڑی اسٹوری لکھنا یا کسی بڑے واقعہ کی رپورٹنگ کرنا صحافی کا خواب ہے ۔ تاہم صحافی کا یہ خواب اس کی ذاتی خوشی کے لیے ہوتا ہے جس کو ٹائم کے ایک رپورٹر میگنوس (Ed Magnuson) نے حقیقی خوشی (real pleasure) سے تعبیر کیا ہے۔

مگر ایک اور طبقہ ہے جو بڑی اسٹوری ذاتی خوشی کے لیے نہیں بلکہ ذاتی نمائش کے لیے لکھتا ہے۔ وہ بڑی اسٹوری اس لیے لکھنا چاہتا ہے کہ اس کی ذات کو بڑائی حاصل ہو۔ اس کی شخصیت دوسروں کے مقابلہ میں نمایاں ہو جائے ، یہ لیڈروں کا طبقہ ہے۔ صحافی کا ذاتی خوشی کے لیے بڑی اسٹوری لکھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ مگر لیڈر کا ذاتی نمائش کے لیے بڑی اسٹوری لکھنا بلاشبہ جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔

 لیڈر قومی تعمیر کی زبان بولتا ہے مگر اس کا اصل مقصد اپنی ذات کو نمایاں کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے لیڈر ہمیشہ بڑی بڑی باتیں کرتا ہے تاکہ اس کا نام زیادہ سے زیادہ چھپے، اس کے گرد زیادہ سے زیادہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہو۔ مگر اس قسم کی لیڈری قومی تعمیر کے لیے زہر ہے۔ قومی تعمیر کا کام ہمیشہ ’’چھوٹی اسٹوری‘‘ لکھنے سے ہوتا ہے، اور لیڈر اپنے مزاج کی بنا پر صرف ’’ بڑی اسٹوری‘‘ لکھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لیڈرکی شخصیت تو چمک اٹھتی ہے مگر قوم کی تعمیر و ترقی کا کام نہیں ہوتا۔

احساسِ اصلاح

ایک مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ کتابت کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ مجھ کو الرسالہ بہت پسند ہے۔ مگر آپ کی ایک بات مجھے کھٹکتی ہے۔ آپ اکثر مسلمانوں کی کمیوں کا ذکر کرتے ہیں اس سے تو مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا ہو جائے گا۔

میں نے کہاکہ آپ ایک کاتب ہیں۔ فرض کیجیے کہ آپ حرف ’ج‘ اور ’ع‘ کا دائرہ صحیح نہ بناتے ہوں۔ اب اگر آپ کے استاد آپ کی اس کمی کو بتائیں تو کیا آپ کہیں گے کہ استاد صاحب میرے اندر احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ اسی ذاتی مثال سے آپ الرسالہ کے اُن مضامین کو سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مضامین کا مقصد مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ احساسِ اصلاح پیدا کرنا ہے اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ اپنی کمیوں کی اصلاح کیے بغیر کوئی شخص یا گروہ اس دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا۔

عربی کا ایک مثل ہے کہ جو شخص تم کو نصیحت کرے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہاری تعریف کرے (من ھو ناصحک خیر لک ممن ھو مادحک) ۔یہ مثل صد فیصد درست ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی کے ساتھ خیر خواہی رکھتا ہو، وہ یہی کرے گا کہ وہ اس کی کمیوں کی نشاندہی کرے گا اور اس کی کوتاہیوں پر اس کی فہمائش کرے گا۔ یہی سچے مصلح کا طریقہ ہے۔

قرآن میں گھاٹے (خُسر) سے بچنے کے لیے جو لازمی صفات بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک ضروری صفت تواصی الحق اور تواصی بالصبر ہے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو حق و صبر کی نصیحت کرتے رہنا۔ وہی گروہ اس دنیا میں نقصان اوربربادی سے بچ سکتا ہے جس کے افراد میں یہ روح زندہ ہو کہ جب وہ اپنے بھائی کو حق کے راستہ سے ہٹا ہوا پائے تو فوراً اس کو ٹوکے، اور جب بھی وہ اس کو بے صبری کی طرف جاتا ہوا دیکھے تو اس کو صبر کی اہمیت سے آگاہ کرے (سورہ العصر) ۔

صحابۂ کرام کے اندر نصیحت کرنے کا جذبہ بھی پوری طرح موجود تھا اور نصیحت سننے کا بھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک معاملہ میں ایک بار فیصلہ دیا۔ حضرت علی کو اس فیصلہ میں غلطی نظر آئی۔ انہوں نے اس پر ٹوکا۔ حضرت عمرؓ اگرچہ خلیفہ اور حاکم تھے، انہوں نے فوراً اس کو مان لیا اور کہااگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا(لولا عليّ لهلك عمر) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد3، صفحہ1103۔

 

بہتر حکومت

آزادی کے بعد آپ کی سب سے بڑی مشکل کیا رہی ہے— یہ ایک سوال ہے جس کو فرانسیسی مصنف اینڈرے مالراکس نے ایک بار جواہر لال نہرو سے پوچھا تھا۔ نہرو نے جواب دیا کہ ایک درست حکومت کو درست ذرائع سے وجود میں لانا:

What has been your greatest difficulty since Independence, is a question that Andre Malraux once asked Jawaharlal Nehru.'' Creating a just state by just means,'' Nehru replied.                 

جواہر لال نہرو کو ہندوستان میں کامل اقتدار حاصل تھا۔ اس کے باوجود بہتر نظامِ حکومت بنانے کے لیے وہ اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہتر نظامِ حکومت بنانے کا کام حکومت کی طاقت سے نہیں ہوتا۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو حکومت سے باہر رہ کر اس مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔ اصل یہ ہے کہ بہتر نظام حکومت بنانے کا کام بہتر افراد بنانے سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ لوگ خالص تعمیری انداز میں ذہن بنانے کے کام میں لگیں۔ وہ تقریر و تحریر اور دوسرے ممکن ذرائع سے ایک ایک شخص کے ذہن میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔

یہ کام خاموش اور پرامن انداز میں لمبی مدت تک جاری رہے۔ یہ گویا ایک قسم کا تعمیری لاوا پکانا ہے۔ جب افراد کی قابل لحاظ تعداد میں فکر کا لاوا پکتا ہے اور افراد کی زندگیوں میں انقلاب آ جاتا ہے تو اس کے بعد سماج میں بھی انقلاب آ جاتا ہے اور جب سماج کی اصلاح ہو جائے تو اس کے بعد اصلاح یافتہ حکومت بھی لازماً بن کر رہتی ہے۔

افراد میں انقلاب سماج میں انقلاب لانے کا باعث بنتا ہے اور سماج میں انقلاب حکومت میں انقلاب لے آتا ہے۔ کیوں کہ جمہوری نظام حکومت میں سماج کے اندر سے نکل کر ہی تشکیل پاتی ہے۔ تعمیری لاوا پکانا ایک انتہائی خاموشی کا کام ہے۔ اس میں آدمی کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اس کو کم کاکریڈٹ بھی نہیں ملتا۔ یہ قوم کا گنبدکھڑا کرنے خاطر اس کی بنیاد میں دفن ہو جانا ہے۔ اس کام کی یہی مشکل نوعیت ہے جس کی بنا پر لوگ اس میدان میں محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

درست مشورہ

وزیر اعظم نرسمہا رائو نے 46 ویں یوم آزادی کی تقریر میں ایک اہم بات کہی۔ اکثر اخباروں نے اسی کو اپنی سرخیوں میں نمایاں کیا ہے۔ ہندوستان ٹائمس (16 اگست 1992) نے اس تقریر کی جو رپورٹ چھاپی اس کی سرخی یہ تھی— وزیر اعظم کی اپیل کہ نزاعی امور کو تین سال کے لیے التوا میں ڈال دیں:

PM for three-year moratorium on contentious issues.

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے درمیان بہت سے اختلافات ہیں اور یہ ایک فطری بات ہے کہ اختلافات ہوں۔ مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آزادی کے تقریباً آدھی صدی بعد بھی ہم گمبھیر مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے یکسوئی کی ضرورت ہے۔ ہم کو چاہیے کہ کم از کم اگلے تین سال کے لیے ہم اپنی نزاعی بحثوں کو طاق پر رکھ دیں اور اپنی ساری طاقت ملک کو ترقی کے راستہ پر اٹھانے میں لگا دیں۔

یہی اصول دنیا میں ترقی اور کامیابی کا واحد اصول ہے۔ موجودہ دنیا میں لازماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اور دوسرے شخص، اسی طرح ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا ہو۔ اس دنیا میں بے اختلاف زندگی ممکن نہیں۔

اب اگر ہر شخص اور ہر گروہ اپنی اختلافی باتوں کو لے کر دوسروں سے الجھ جائے تو ترقی کا سفر ناممکن ہو جائے گا۔ اس لیے درست طریقہ یہ ہے کہ اختلافی یا نزاعی باتوں کو اعراض کے خانہ میں ڈال دیاجائے اور اپنی ساری طاقت عملی تعمیر کے کام میں لگائی جائے۔ اگر بالفرض مستقل اعراض ممکن نہ ہو تو کم از کم کچھ مدت کے لیے تو اعراض کے اصول کو اختیار کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔

انسان بیک وقت دو محاذ پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا۔ اگر وہ نزاع میں الجھے گا تو تعمیری کام رک جائیں گے۔ اور اگر تعمیری کاموں میں مصروف ہو گا تو نزاع کے میدان کو خالی چھوڑنا پڑے گا۔ ایسی حالت میں عقل مندی کیا ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ نزاع کو ترک یا ملتوی کر کے اپنی تمام ممکن قوت کو تعمیر و ترقی کی راہ میں لگا دیا جائے۔

 بڑا ظرف

لنڈن جانسن (Lyndonn B. Johnson) امریکہ کا 36 واں پریذیڈنٹ تھا۔ وہ 1908ء میں پیدا ہوا، 1973ء میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ امریکہ کو عظیم سماج (Great Society) بنائے۔ اس کے لیے اس نے مختلف اقدامات کیے۔ انہیں میں سے ایک ہجرت (Immigration) کے قانون میں تبدیلی بھی ہے۔

جانسن نے سب سے ز یادہ اہمیت علم اور تعلیم کو دی۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ کے مستقبل کے بارے میں ہماری جو امیدیں ہیں اس میں سب سے زیادہ بنیادی اہمیت علم کو ہے:

Learning is basic to our hopes for America.

امریکہ بیرونی دماغوں کا استقبال کرتا ہے۔ تاہم اس سلسلہ میں جانسن سے پہلے ایک رکاوٹ حائل تھی۔ امریکہ میں سفید فام ماہرین کے داخلہ کے لیے نرم قوانین تھے۔ مگر سیاہ فام ماہرین کے داخلہ کے سلسلہ میں سخت قسم کے قواعد و ضوابط تھے۔ اس کی وجہ سے امریکہ اپنے ترقیاتی عمل میں سیاہ فام ماہرین کو زیادہ استعمال نہیں کر پاتا تھا۔

لنڈن جانسن نے اقتدار میں آنے کے بعد 1965ء میں امریکہ کے قانون ہجرت میں تبدیلی کر دی۔ اس نے سیاہ فام کے داخلہ سے تمام قانونی پابندیاں اٹھا لیں۔ اس نے کہا کہ ہمیں لوگوں کی مہارت کی ضرورت ہے، ہمیں ان کے چمڑے کی ضرورت نہیں:

We need their skills and not their skins.

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں بڑی ترقی حاصل کرنے کے لیے آدمی کو کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی صلاحیت کو دیکھے اور بقیہ تمام پہلوئوں کو نظرانداز کر دے۔ جن کا ذہن دوسرے پہلوئوں میں الجھا رہے وہ کبھی لائق افراد کو اپنے گرد جمع نہیں کر سکتے۔

بڑی کامیابی کے لیے بڑا ظرف درکار ہوتا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی کااصول ایک لفظ میں یہ ہے کہ جتنا بڑا ظرف اتنی بڑی کامیابی۔

فرق کیوں

1971ء کا کا واقعہ ہے۔ ایک سفر کے دوران میں لاہور (پاکستان) میں ایک صاحب کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑا دو منزلہ مکان تھا۔ میرے میزبان ایک روز رات کے وقت مجھ کو چھت کے اوپر لے گئے۔ اس وقت پورا چاند آسمان پر چمک رہا تھااور کھلی فضا میں بہت خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔ ہم لوگ قدرت کے حسین منظر میںکھوئے ہوئے تھے۔ اچانک میرے میزبان نے کہا ’’یہی چاند تو آپ کے ملک میں بھی چمکتا ہو گا۔‘‘ ہم دونوں خاموش ہو گئے۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ کیسی عجیب بات ہے۔ چاند ہر ملک میں چاند ہے۔ مگر انسان ہر ملک میں انسان نہیں۔ ایک شخص اپنے ملک میں ’’وطنی‘‘ سمجھا جاتا ہے، مگر دوسرے ملک میں وہ ’’خارجی‘‘ بن جاتا ہے۔

چاند کو جس طرح ا یک ملک میں خوش آمدید کہا جاتا ہے، اسی طرح دوسرے ملک میں بھی۔ سورج ایک ملک کے لیے بھی محبوب ہے اور دوسرے ملک کے لیے بھی۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ ایک ملک کا مطلوب شخص دوسرے ملک میں پہنچ کر غیر مطلوب بن جاتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند اور سورج اپنی فطرت پر قائم ہیں۔ جب کہ انسان اپنی مقرر فطرت پر قائم نہیں۔

سورج چاند ایسا نہیں کرتے کہ ایک ملک میں اجالا پھیلائیں اور دوسرے ملک میں اندھیرا۔ مگر انسان ایک قوم کا دوست اوردوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے۔ پھول کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک کو خوشبو دے اور دوسرے کے لیے بدبو دار بن جائے۔ مگر انسان ایک کے لیے خیر خواہ ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے بدخواہ۔ ستارے اپنے اپنے مدار میں گھومتے ہیں۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارہ کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ مگر انسان کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے دائرے کو چھوڑ کر دوسرے کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے۔ درخت ایک ملک میں جس اصول پر اگتا ہے، دوسرے ملک میں بھی اُسی ا صول پراُگتا ہے۔ مگر انسان ایک کے ساتھ عدل کا معاملہ کرتا ہے اوردوسرے کے لیے وہ ظالم بن جاتا ہے۔

دوسری چیزوں کی محبوبیت کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت پر قائم ہیں۔ مگر انسان اپنی فطرت کو کھو دیتا ہے اور نتیجۃً غیر مطلوب بن جاتا ہے۔ ا گر انسان اپنی فطرت پر قائم رہے تو اس کو بھی ہر جگہ وہی استقبال ملے جو سورج اور چاند کو ملا ہوا ہے۔

 اقدام، نتیجہ

ٹائم میگزین (23 دسمبر 1991ء) کی کور اسٹوری سوویت یونین کے خاتمہ کے بارے میں تھی۔ اس میں سابق سوویت یونین کے سابق صدر گورباچیف کا ایک انٹرویو (exclusive interview) شامل تھا جس کا عنوان ایک آدمی بغیر ملک (A Man without a Country) تھا۔

ٹائم کے شمارہ 13 جنوری 1992ء میں اس کے بارے میں قارئین کے تاثرات چھپے ہیں۔ ٹائم کے ایک قاری نے لکھا ہے کہ گوربا چیف کی قبر پر تاریخ جوکتبہ لگائے اس کے الفاظ کچھ اس قسم کے ہوں گے— یہاں ایک عمدہ آدمی اور ایک آئیڈیلسٹ آرام کر رہا ہے جس نے سوویت یونین میں جبر اور تشدد کو ختم کیا، اس حقیقت کو نہ جانتے ہوئے کہ جبر اور تشدد ہی وہ سریش تھا جو اس ایمپائر کے مختلف حصوں کو باہم جوڑے ہوئے تھا:

The epitaph of history of Mikhail Gorbachev may someday read  Here lies a good man and an idealist who abolished repression and tyranny in the Soviet Union, not comprehending that they were the glue holding that empire together. (George Podzamsky, Berwyn, Illinois)

ٹائم کے قاری کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ اس میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ کسی ا قدام کا نتیجہ آدمی کی خواہش کی بنیاد پر نہیں نکلتا بلکہ خارجی حقائق کی بنیاد پر نکلتا ہے۔

گورباچیف کا اقدام فی الاصل کیا تھا، اس سے قطع نظر، اس کی یہ نصیحت بے حد اہم ہے۔ کوئی فرد ہو یا کوئی قوم، اگرو ہ کوئی عملی اقدام کرے تو اس کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جس طرح اقدام کرنا اس کے اپنے بس میں ہے اسی طرح نتیجہ اس کے اپنے بس میں نہیں۔ نتیجہ کا معاملہ دوسرے بہت سے خارجی اسباب سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر یہ خارجی اسباب موافقت کریں تو نتیجہ موافق نکلے گا اور اگر یہ اسباب موافقت نہ کریں تو اس کے بعد موافق نتیجہ بھی نکلنے والا نہیں۔

کسی اقدام کا نتیجہ اپنی خواہش کے مطابق نہ نکلنا بلکہ حقائقِ تاریخی کے مطابق نکلنا، یہ اتنا اہم قانون ہے کہ کوئی سپرپاور بھی اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ حقائقِ خارجی ہمیشہ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں، خواہ ہم اس کو پسند کریں یا ناپسند۔

جنگ، امن

الرسالہ کا شمارہ مئی 1991ء ’’خلیج ڈائری‘‘ کے طور پر شائع ہوا تھا۔ 2 فروری 1991ء کو میں نے اپنی ڈائری میں جو صفحہ لکھا تھا، اس میں یہ الفاظ تحریر کیے تھےاس جنگ میں فتح کا تمغہ خواہ جس فریق کو ملے، عام انسان کی مصیبتوں میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ اور یہ مصیبتیں عالمی ہوں گی، حتیٰ کہ ان مصیبتوںکا برا اثر اس ملک تک بھی پہنچ جائے گا جس نے جنگ کے بعد فتح کا تمغہ حاصل کیا ہے۔

اس تحریر کے ا یک ماہ بعد جنگ بندی ہوئی تو واقعۃً ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ جنگ ختم ہو گئی مگر مسائل ختم نہیں ہوئے۔ ٹائم میگزین (15 اپریل 1991ء) نے اس کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ خلیج میں فتح کے باوجود کس طرح نئے مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ ٹائم نے لکھا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اب ایک نئی مشکل سے دوچار ہو رہے ہیں:

America and its allies confront a new dilemma. (p.18)

ٹائم کے مذکورہ شمارہ کو پڑھنے کے بعد ٹائم کے کچھ قارئین نے اس کو خطوط لکھے ہیں۔ یہ خطوط میگزین کے شمارہ 6 مئی 1991ء میں چھپے ہیں۔ ایک امریکی مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر بش نے خلیج میں لڑائی جیت لی مگر وہ جنگ کو ہار گئے:

It Looks Like Bush has won the battle.... and lost the war in the Gulf. (Lloyed Ringuist,Marshfield, Wisconsin)

لڑائی صرف تخریب برپا کرتی ہے، وہ تعمیر کا واقعہ ظہور میں نہیں لا سکتی۔ لڑائی میدانِ جنگ میں جیتی جا سکتی ہے، مگر میدانِ جنگ کے باہر حقیقی زندگی میں وہ فتح کی خوشی نہیں دیتی۔ اس کے باوجود کیوں لوگ لڑائی کی طرف دوڑتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑائی لوگوں کو بڑی چیز معلوم ہوتی ہے۔ حالانکہ باعتبارِ حقیقت امن بڑی چیز ہے اور جنگ چھوٹی چیز۔ اگر لوگ اس حقیقت کو جان لیں تو ہر آدمی پُرامن تعمیر کی طرف دوڑے۔ اور جنگ کا میدان ہمیشہ کے لیے انسانوں سے خالی ہو جائے۔

جنگ ہیروازم ہے، مگر جنگ کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں۔ امن بظاہرزیرو ازم ہے، مگر تمام بہترین کامیابیاں ہمیشہ امن ہی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہیں۔

ایک واقعہ دو انجام

جمیل اختر خاں صاحب سعودی عرب کے ایک شہر میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خط مورخہ 24 جنوری 1992ء میں خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہوا ایک واقعہ لکھا ہے۔ یہ واقعہ ان کے اپنے الفاظ میں حسب ذیل ہے

’’جولائی 1991ء کی ایک شام ہے۔ مغرب کی اذان ہو چکی ہے۔ میں کمرہ سے نکل رہا ہوں۔ گیٹ کے باہر چند لڑکے راہ گیروں سے چھیڑخانی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کروہ لڑکے لپکے۔ ان کے ہاتھ میں خرگوش کے قسم کا کوئی جنگلی جانور ہے۔ مجھے ڈراتے رہے۔ایک نے چاہا سریا کندھے پر پھینک دیں اور پھرتماشہ دیکھیں۔ میں بھانپ گیا کہ اگر ان سے الجھا تو خیر نہیں۔ دل ہی دل میں سوچ لیاکہ یہ جو بھی بے ہودہ حرکت کریں ردعمل کااظہارنہیں کروں گا۔ میں تیزتیز قدموں سے مسجد کی طرف چلتا رہا۔ میری بے توجہی پر ان لڑکوں نے بھی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا یہاں تک کہ میں بے ضرر مسجد پہنچ گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد جب کمرہ میں واپس آ رہا ہوں تو ایک اور منظر سامنے ہے۔ دیکھا وہی لڑکے ایک پاکستانی مسلمان سے الجھے ہوئے ہیں۔ان لوگوں نے اس جانور کو اس کے بدن پر پھینک دیا۔ اس پر وہ غصہ ہو گیا۔ ایک لڑکے کو مار بیٹھا۔ بس یہیں سے کھیل شروع ہو گیا۔ نتیجۃً درجن بھر لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے۔ کوئی سر کی مالش کر رہا ہے، کوئی پیٹھ کو تختۂ مشق بنائے ہوئے ہے۔ ایک نے پیچھے سے دونوں بانہہ پکڑ لیے۔ دوسرے نے سینہ پر گھما گھمی شروع کر دی۔ کسی طرح ایک سے جان چھڑاتا تو دوسرا لپٹ جاتا۔ مار مار کر اس کا برا حال کر دیا۔ کون تھا جو اسے چھڑانے جاتااوراپنی شامت مول لیتا۔ یہاں تک کہ ا یک سعودی جو اس راہ سے گزر رہا تھا، رحم آیا۔ گاڑی روکی۔ دخل اندازی کر کے معاملہ رفع دفع کیا۔ ان صاحب کو معلوم نہیں کتنے دنوں تک چوٹ اور غم کے ساتھ بستر پکڑے رہنا پڑا ہو گا۔

ایک ہی معاملہ میں ا یک کی ’’نظر انداز کی پالیسی‘‘ نے اسے بے ضرر چھوڑ دیا دوسرے کو بے صبری کا بروقت تحفہ مل گیا۔ حالانکہ وہ صاحب اگر صرف اتنا کرتے کہ چند قدم لپکتے ہوئے چلتے تو کمرہ میں پہنچ جاتے۔ بعد میں کمرہ میں پہنچے مگر اس حال میں کہ چوٹ سے نڈھال تھے۔ میں نے سوچا انفرادی معاملہ میں بے صبری یہ رنگ لا سکتی ہے تو اجتماعی معاملہ میں وہ کتنا زیادہ سنگین ہو جائے گی۔‘‘

قیمت ضروری

ائیر پورٹ پر خود کار اسکیل (ترازو) رکھا ہوا تھا۔ اس میں ایک روپیہ ڈالنے کے بعد ایک ٹکٹ نکلتا تھاجس پر آدمی کا وزن چھپا ہوا ہوتا تھا۔

ایک بچہ اسکیل کے تختہ پر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک روپیہ کا سکہ تھا۔ اس نے یہ سکہ اسکیل کے مخصوص خانہ میں ڈالا۔ اس کے بعد کھٹ کھٹ کی سی آواز ہوئی اور پھرایک چھپا ہوا کارڈ سامنے آ گیا۔ اس پر بچہ کا وزن واضح حرفوں میں لکھا ہوا تھا۔

بچہ کو یہ چیز ایک کھیل سی معلوم ہوئی۔ اس نے اپنے والدین سے مزید سکے مانگے۔ وہ اس فعل کو بار بار دہراتا رہا۔ ہر بار جب وہ اپنا سکہ مشین میں ڈالتا تو چند سیکنڈ کے بعد ایک خوب صورت کارڈ باہر آ جاتا۔ آخر والدین کے سب سکے ختم ہو گئے۔ اب ان کے پاس روپیہ کے بجائے پچاس پیسہ کا سکہ تھا۔ بچہ نے پچاس پیسہ کا سکہ لے کر اس کو مشین میں ڈالا۔ اس کے بعد کھٹ کھٹ کی آواز تو سنائی دی مگر حسب سابق وزن کا کارڈ باہر نہیں آیا۔ مشین کی طرف سے رسپانس نہ ملنے پر بچہ رونے لگا۔

کم عمر بچہ اس واقعہ کی توجیہہ نہ کر سکا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ رونے کا نہیں بلکہ سبق لینے کا تھا۔ مشین نے اپنی خاموش زبان میں ایک ایسا سبق دیا جو بچہ کے لیے اور اس کے سرپرستوں کے لیے عظیم اہمیت رکھتا تھا۔ یہ سبق کہ یہاں ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ ا گر تم نے وہ قیمت ادا نہیں کی تو تم کو مطلوبہ چیز بھی نہیں ملے گی ، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ تم نے اصل قیمت سے کم قیمت ادا کی ہو۔

یہی قانون موجودہ دنیا کے لیے ہے اور یہی قانون آخرت کے لیے بھی۔ دونوں دنیائوں میں آدمی کسی چیز کو اسی وقت پا سکتا ہے جب کہ وہ حسب اصول اس کی پوری قیمت اداکرے۔ جو شخص قیمت ادا کرنے پر راضی نہ ہو، اس کو یہ امید بھی نہیں کرنا چاہیے کہ اس کی مطلوبہ چیز اس کے حصہ میں آ سکے گی۔

قیمت کا قانون ایک اٹل قانون ہے۔ نہ کسی کی خوش گمانیاں اس قانون کو بدل سکتیں ہیں اور نہ احتجاج اور شکایت کے ذریعہ اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

تعمیر کی طاقت

دوسری عالمی جنگ سے لے کر 1991ء تک کا زمانہ امریکہ اور سوویت یونین کی عظمت کا زمانہ ہے۔ ان دونوں سلطنتوں کو سپر پاور کہا جانے لگا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہی دو ملک تھے جن کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم تھے۔ ایٹم بموں کی ملکیت نے انہیں سپرپاور بنا دیا۔

مگر تحقیقات نے بتایا کہ ایٹم بم اپنی ساری فوجی طاقت کے باوجود قابل استعمال ہی نہیں ہیں۔ قدیم زمانہ کے ہتھیار (تلوار وغیرہ) کی تخریب کاری محدود ہوتی تھی۔ مگر ایٹم بم کی تخریب کاری لامحدود ہے۔ یہ بم اگر استعمال کیے جائیں تو ان سے عالمی تباہی پیدا ہو گی۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ مفتوح کے ساتھ خود فاتح بھی تباہ ہو چکا ہو گا۔ اس طرح کے مختلف حقائق نے ایٹم بم کے استعمال کوناممکن بنا دیا۔

ایٹم بم اور دوسرے جدید ہتھیاروں کی تیاری میں امریکہ اور سوویت یونین دونوں کی اقتصادیات کو غیر معمولی نقصان پہنچا تھا۔ امریکہ کی اقتصادیات کھوکھلی ہو گئی۔ مثال کے طور پر امریکہ کے اوپر اس وقت چالیس بلین ڈالر سے زیادہ جاپان کا قرض ہے۔ سوویت یونین کی اقتصادیات مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ حتیٰ کہ اس کا عظیم ایمپائر ٹوٹ کر ختم ہو گیا۔

1992ء سے جدید تاریخ کا نیا دور شروع ہوا۔ اس نئے دور کا نتیجہ امریکی میگزین ٹائم (10 فروری 1992ء) کے الفاظ میں یہ ہے کہ امریکہ میں اب عام طور پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ سردجنگ ختم ہو گئی اور جاپان جیت گیا۔ امریکہ کی عالمی فوجی سیادت کی معقولیت باقی نہیں رہی۔ امریکہ کو دنیا کی پیچیدہ اقتصادیات میں اب نئی جگہ تلاش کرنا ہو گا۔ امریکہ اگرچہ اب بھی بہت طاقتور اقتصادیات کا مالک ہے مگر وہ محسوس کرنے لگا ہے جیسے کہ اب وہ ایک تخفیف شدہ چیز ہے:

This is becoming a familiar line: ''The cold war is over, and Japan won.'' Much of the rationale for America's global military role is gone, and the U.S. must now find a new Place in a complex world economy...America, still the most powerful economy, nonetheless feels itself to be somehow the diminished thing. (p.9)

جنگ کے حالات میں وہ قوم دنیا کی قائد نظر آتی ہے جس کے پاس تخریب کی طاقت ہو۔ مگر امن کے حالات میں وہ قوم قیادت کرتی ہے جو دنیا کو امن کا تحفہ دے سکے۔

دو قسم کے رہنما

جی کے چسٹرٹن (G. K. Chesterton) ایک انگریز رائٹر تھا۔ وہ 1874ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ 1936ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا قول ہے کہ ایک بڑا آدمی وہ ہے جو ہر آدمی کو یہ احساس دلائے کہ تم مجھ سے چھوٹے ہو مگر حقیقی معنوں میں بڑا آدمی وہ ہے جو ہر آدمی کے اندر بڑائی کا احساس پیدا کر دے:

There is a great man who makes every man feel small. But the real great man is the man who makes every man feel great.

لیڈر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو بڑے بڑے ایشو لے کر اٹھتے ہیں۔ جن کے پاس بڑے بڑے نعرے ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہائی پروفائل میں بات کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر جگہ چھپتے ہیں۔ ہر طرف ان کاتذکرہ کیا جاتا ہے۔ ہر مقام پر ان کو استقبال ملتا ہے۔ اس طرح ان کی شخصیت نمایاں ہو جاتی ہے۔ وہ ہر آدمی کو اپنے سے بڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ وہ لیڈر ہیں جن کی اپنی شخصیتیں تو خوب نمایاں ہو جاتی ہیں مگر عوام کو ان سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ملتا۔

دوسرا لیڈر وہ ہے جو حقیقی معنوں میں عام انسان کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ ہر آدمی کا درد اپنے سینہ میں لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کا یہ مزاج اس کو ایسے کام کی طرف لے جاتا ہے جو ایک عام انسان کے لیے تو یقیناً بے حد مفید ہوتا ہے مگر وہ کہنے میں کوئی بڑا کام نظر نہیں آتا۔ وہ اخبار کے صفحہ اول کی سرخی نہیں بنتا۔ اس کی بنیاد پر اس کو تعریفی قصیدے نہیں ملتے۔

ایسے لیڈر کا عمل اس کو ذاتی شہرت تو نہیں دیتا۔ البتہ قوم کے ہر فرد کو وہ اونچا کردیتا ہے۔ وہ ہر آدمی کو اپنے دائرہ میں ہیرو بناتا ہے۔ وہ ہر آدمی کی شخصیت کو بلند کر دیتا ہے۔

عظمت پرست لوگ اگرچہ پہلی قسم کے لیڈروں ہی کی پوجا کرتے ہیں۔ مگر انسانیت کے حقیقی خیرخواہ صرف دوسری قسم کے لیڈر ہیں۔ وہ اپنے کو چھوٹا کر کے دوسروں کو بڑا بنا دیتے ہیں۔ وہ اپنے کو بنیاد میں دفن کر کے دوسروں کو اونچے مینار کی مانند کھڑا کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی نفی کر کے دوسروں کے لیے اثبات کے مواقع فراہم کردیتے ہیں۔

زندگی، موت

انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ وہ کسی کو عظمت کا مقام دے۔ یہ انسانی نفسیات کا تقاضا ہے۔ اب جو شخص اللہ کو عظیم سمجھے وہ موحّد ہے، اور جو آدمی کسی اور چیز کو عظیم سمجھ لے وہ مشرک۔  قرآن میں سابق اہلِ کتاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بعد کے زمانہ میں اپنے احبار اور اپنے رہبان کو اپنا رب بنا لیا (التوبہ، 9:31) یہ ایک مثال کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ دورِ زوال میں قوموں اور امتوں کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ توحید پرستی کے مقام سے گر کر اکابر پرستی کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔

قوم جب زندہ ہو تو وہ اقدار (values) کی پرستار ہوتی ہے اور جب وہ مُردہ ہو جائے تو اس کے قومی اکابر اس کی پرستاری کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہی ایک لفظ میں، زندہ اور مردہ قوم کا خلاصہ ہے۔ زندہ قوم مقاصد کو اہمیت دیتی ہے اور مردہ قوم رجال کو۔ زندہ قوم حال میں جیتی ہے اور مردہ قوم گزرے ہوئے ماضی میں۔ زندہ قوم تنقید کا استقبال کرتی ہے اور مردہ قوم تنقید پر بپھر اٹھتی ہے۔ زندہ قوم حقیقی ایشو پر کھڑی ہوتی ہے اور مردہ قوم فرضی ایشو پر زندہ قوم کو ہر ایک اپنا دوست نظر آتا ہے اور مردہ قوم کو ہر ایک اپنا دشمن ۔ زندہ قوم اپنا مستقبل آپ بناتی ہے اور مردہ قوم دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج میں مشغول رہتی ہے۔ زندہ قوم کی صفت تحمل اور برداشت ہے اور مردہ قوم کی صفت عدم تحمل اور عدم برداشت ۔

جب کسی قوم کے افراد میں وہ علامتیں ظاہر ہو جائیں جو مردہ قوم کی علامت ہوا کرتی ہیں تو اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ساری طاقت تربیت اور تیاری کے محاذ پر لگائی جائے۔ افراد میں ازسرنو زندگی کی سپرٹ پیدا کرنا ہی اس وقت کرنے کا اصل کام بن جاتا ہے۔  دورِ عروج کا قومی پروگرام پیش قدمی ہوتا ہے اور دورِ زوال کا قومی پروگرام تیاری۔ دورِ عروج میں آگے بڑھنے کا نام عمل ہوتا ہے اور دور زوال میں پیچھے ہٹنے کا نام عمل۔ دور عروج میں قوم اپنے اختتام میں ہوتی ہے اور دور زوال میں وہ دوبارہ اپنے آغاز میں پہنچ جاتی ہے۔

 

فطرت کی طرف

نفسیات کے ایک عالم نے کہا کہ تم ہر جگہ اپنے دوست پا سکتے ہو مگر تم ہر جگہ اپنے دشمن نہیں پا سکتے۔ دشمن تم کو خود بنانا پڑے گا

You can meet friends everywhere, but you cannot meet enemies everywhere- you have to make them.

یہ بات نہایت درست ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دوستی معمول کی حالت ہے، اور دشمنی ایک خلاف معمول حالت۔ دو آدمی سادہ طور پر ایک ساتھ رہیں تو ان کی فطرت انہیں دوستی ہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ دشمنی ہمیشہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب دونوں میں سے کوئی شخص ناگوار قول یا عمل کے ذریعہ دوسرے شخص کو بھڑکا دے۔

جب بھی کسی کے ساتھ آپ کی دشمنی قائم ہو جائے تو اس کو مستقل نہ سمجھ لیجیے۔ فطرت کے قانون کے مطابق دوستی کی حالت مستقل حالت ہے ، نہ کہ دشمنی کی حالت۔ آپ وقتی حالت کودوبارہ مستقل حالت کی طرف لے جانے کی کوشش کیجیے۔ آپ یقیناً کامیاب ہوں گے، بشرطیکہ آپ نے اس کے لیے حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ہو۔ دوستی کی حالت چونکہ مستقل انسانی حالت ہے، اس لیے جب کوئی شخص دشمنی سے دوستی کی طرف جانا چاہے تو فطرت کا پورانظام اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ا یسی کوشش میں وہ تنہانہیں ہوتا بلکہ اپنے باہر کی پوری دنیاکووہ اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے۔ اور جس آدمی کی ہم نوا پوری کائنات ہو جائے اس کے لیے ناکامی کا کوئی سوال نہیں۔

اس دنیا میں سب سے طاقت ور چیز فطرت ہے۔کسی چیز کی جو فطرت اس کے خالق نے لکھ دی ہے اس سے ہٹنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ جمادات، نباتات، حیوانات ، سب کے سب اپنی مقرر کی ہوئی فطرت پر چلتے ہیں، وہ کبھی اس سے نہیں ہٹتے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ انسان کے اندر بھی سب سے زیادہ طاقت ور چیز اس کی فطرت ہے۔ آپ اگر فطرت کا اسلوب اختیار کریں تو آپ سرکش ترین انسان کو بھی مسخر کر سکتے ہیں۔

حکمت کا طریقہ

اس دنیا میں بے نزاع زندگی ممکن نہیں۔ آپ خواہ اپنوں کے درمیان رہتے ہوں یا غیروں کے درمیان، بہرحال آپ کے اور دوسروں کے بیچ میں نزاع کی صورتیں پیدا ہوں گی۔ ان نزاعات کی پیدائش کو آپ روک نہیں سکتے۔ البتہ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ پہلے ہی مرحلہ میں نزاع کو ختم کر کے اس کے برے انجام سے اپنے آپ کو بچا لیں۔

کبھی نظر انداز کرنے کی پالیسی ہی نزاع کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ کوئی شخص آپ کے خلاف اشتعال انگیز کلمات کہتا ہے۔ اس کا کامیاب ترین جواب یہ ہے کہ آپ اس کی اشتعال انگیزی پر مشتعل نہ ہوں۔ اس طرح آپ پیدا شدہ نزاع کو پہلے ہی مرحلہ میں کچل دیں گے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نزاع پیدا کرنے والا آپ کی عزت کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ وہ آپ کے لیے وقار کا مسئلہ کھڑا کر دیتا ہے۔ یہاں بھی وقار کے تحفظ کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ اس کی کوئی تدبیر نہ کی جائے۔ آپ یہ سوچ کر خاموش ہو جائیں کہ عزت کو دینے والا بھی خدا ہے اور عزت کو چھین لینے والا بھی خدا ہے۔ پھراس کے لیے میں ایک انسان سے کیوں الجھوں ۔ آپ کا یہ رویہ نزاع کو ختم کرنے کے لیے کافی ہو جائے گا۔

کبھی نزاع کے ساتھ فائدہ اور نقصان کا پہلو وابستہ ہو جاتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے اگر صبر و اعتراض کی پالیسی اختیار کی گئی تو وہ مادی نقصان کا سبب بن جائے گی۔ مگر یہ سوچ درست نہیں۔ اس طرح کے معاملہ میں اصل انتخاب نقصان اور بے نقصان کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ کم نقصان اور زیادہ نقصان کے درمیان ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں نزاع کو پہلے مرحلہ میں ختم کرنا کم نقصان کا راستہ ہے اورنزاع کو بڑھانا زیادہ نقصان کا راستہ ۔ پھر کیوں نہ آدمی زیادہ نقصان کے راستہ کو چھوڑ کر کم نقصان والے راستہ کو اختیار کرے۔ ہم نزاع کی پیدائش کو روک نہیں سکتے۔ البتہ یہ یقینی طور پر ہمارے اختیار میں ہے کہ اعراض کا طریقہ اختیار کر کے اپنے آپ کو نزاع کے فتنہ سے بچا لیں۔ ہم زیادہ نقصان کے مقابلہ کم نقصان کو گوارا کر لیں۔

اخلاق کا پھل

بدرالدین احمد (پیدائش 1938) مراد آباد کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے مراد آباد کے فرقہ وارانہ فساد کے بارے میں کئی سبق آموز واقعات بتائے۔ یہ فساد 13 اگست 1980ء کو شروع ہوا تھا اور رک رک کر اگلے مہینہ تک جاری رہا۔  فساد کے دوران کرفیو لگا ہوا تھا۔ ہر طرف ابتر حالات تھے۔ لوگوں کے گھروں میں کھانے پینے کی چیزیں ختم ہو گئی تھیں۔ بدر الدین صاحب نے بتایا کہ اس زمانہ میں ہم لوگوں کو دودھ نہیں ملتا تھا۔ اس لیے ہم لوگ بغیر دودھ کی چائے گرم پانی کر کے پی لیا کرتے تھے۔

پولیس کے ایک افسر مسٹر شرما نے ایک دکان سے پیتل کے کچھ کھلونے (شوپیس) خریدے۔ اس کو ان کھلونوں پر پالش کروانا تھا۔ وہ پالش کے لیے بدر الدین احمد صاحب کے یہاں آیا۔ انہوں نے کھلونوں پر پالش کر دی۔ مگر اس کا کوئی پیسہ نہیں لیا۔ اس اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس افسر جب روزانہ رائونڈ پر نکلتا تو بدرالدین صاحب کے یہاں اپنی گاڑی روک کر اترتا اور حال پوچھتا کہ کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔ ہماری کوئی ضرورت ہو تو بتائیے۔ اس طرح وہ روزانہ کم از کم ایک بار آتا رہا۔

ایک روز مسٹر شرما آئے تو بدر الدین صاحب اپنے چھوٹے بچے (نجم الدین احمد) کو گود میں لیے ہوئے تھے۔ مسٹر شرما نے پوچھا کہ یہ بچہ تو ددھ پیتا ہو گا۔ بدرالدین صاحب نے کہا کہ ہاں۔ مسٹر شرما نے کہا کہ پھر آپ کو دودھ ملنے میں تو کوئی پریشانی نہیں۔ بدرالدین صاحب نے کہا کہ پریشانی تو ہے، اس لیے کہ کرفیو لگا ہوا ہے۔ اس کے بعد مسٹر شرما چلے گئے۔ اگلے دن آئے تو ان کے ساتھ گلیکسو مِلک کا دو ڈبہ بھی تھا۔ انہوں نے یہ دونوں ڈبہ بدرالدین صاحب کو دیتے ہوئے کہا ’’یہ آپ کے بچہ کے لیے میری طرف سے تحفہ ہے۔‘‘

اخلاق کے اندر تعالیٰ نے سب سے زیادہ تسخیری طاقت رکھی ہے۔ یہ طاقت اتنی زیادہ ہے کہ وہ بدنام پولیس کو بھی مسخر کر لیتی ہے۔ اخلاق ایک ایسا خاموش ہتھیار ہے جو ہر آدمی پر کارگر ثابت ہوتا ہے حتی کہ کٹر دشمن کے اوپر بھی۔

محنت کا کرشمہ

اختر حسین غازی خاں 1926ء میں غازی پور میں پیدا ہوئے۔ 1957ء سے وہ دہلی میں ہیں۔ وہ دہلی آئے تو اپنی معمولی تعلیم کی بنا پر وہ یہاں کوئی اچھا کام نہ پا سکے۔ سالہا سال تک ان کا یہ حال تھا کہ معمولی کاموں کے ذریعہ وہ کچھ پیسہ حاصل کرتے اور اس سے بالکل سادہ قسم کی زندگی گزارتے۔ اکثر ان کا اور ان کے بیوی بچوں کا کھانا چٹنی اورچاول یا چٹنی اور دال ہوتا تھا۔ مگر آج وہ نئی دہلی کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کا ٹیلی فون نمبر یہ ہے۔ 387899

1970ء میں وہ ایک مسجد کے حجرہ میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے چھ لڑکے ہو چکے تھے ۔ مگر حال یہ تھا کہ ان بچوں کے لیے نہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ کھانے پینے کا۔ ایک بار مہینوں تک چٹنی اور چاول اور وہ بھی آدھا پیٹ کھانا پڑا۔ ان کی بیوی گھبرا اٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ تم کہیں سے زہر لے آئو۔ ہم سب لوگ زہر کھا کر اپنا قصہ ختم کر لیں۔

بیوی کی اس بات نے اختر حسین صاحب کو تڑپا دیا۔ انہوں نے سوچا کہ میرا یہ حال اس لیے ہے کہ میں نے علم حاصل نہیں کیا اور اگر میرے بچے بھی علم سے محروم رہے تو ان کا بھی وہی حال ہو گا جو میرا ہے۔ ان کو وہ شعر یاد آیا جو انہوں نے اسماعیل میرٹھی کی کتاب میں پڑھا تھا :

جہاں تک دیکھیے تعلیم کی فرماں روائی ہے         جو سچ پوچھو تو نیچے علم ہے اوپر خدائی ہے

انہوں نے طے کیا کہ میں بچوں کو زہر نہیں دوں گا بلکہ انہیں تعلیم دلائوں گا۔ اب ان کے اندر ایک نیا جذبۂ عمل جاگ اٹھا۔ حالات کے دبائو نے انہیں ہیرو بنا دیا۔ وہ روزانہ 16-16 گھنٹے تک کام کرنے لگے۔ وہ رات دن پیسہ کمانے کے لیے دوڑتے رہتے تاکہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔ 26 جون 1991ء کی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ برسوں تک میرا یہ حال رہا کہ میں دہلی کی سڑکوں پر دیوانوں کی طرح دوڑتا رہتا تھا تاکہ محنت کر کے اتنا پیسہ حاصل کروں، جو میرے بچوں کی تعلیم کے لیے کافی ہو۔

جن حالات نے اختر حسین صاحب کو ہیرو بنا دیا تھا ان حالات نے ان کے بچوں کو بھی سراپا محنت بنا دیا۔ ان کا ہر بچہ انتہائی لگن کے ساتھ پڑھنے لگا۔ ہر بچہ اپنے کلاس میں فرسٹ آنے لگا۔ یہ جدوجہد تقریباً بیس سال تک جاری رہی۔ آج ان کا ہر بچہ اعلیٰ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔

دانش مندی

آج کا سماج کتنا زیادہ بگڑ گیا ہے، اس کا اندازہ کرنے کے لیے ایک واقعہ پڑھیے۔ انڈین ایکسپریس (24 جولائی 1987ء) صفحہ 3 پر نئی دہلی کی ایک خبر ہے جس کا عنوان ہے:

Son Kills Mother as She Refuses to Pay 500

خبر میں بتایا گیا ہے کہ 21 جولائی 1987ء کو دہلی کے ایک 23 سالہ نوجوان اشوک کمار نے اپنی ماں شیلا سے 500 روپے مانگے۔ ماں نے انکار کیا۔ جس کے نتیجہ میں اشوک کمار بگڑ گیا۔ گھر میں پتھر کی سِل تھی۔ اشوک کمار نے یہ پتھر کی سِل اٹھا کر اپنی ماں کے سر پرپٹک دی۔ ماں کا سر پھٹ گیا اور وہ مر گئی۔ اس کے بعد اشوک کمار نے اپنی ماں کی لاش لوہے کے ایک بکس میں بند کر کے اس میں تالا ڈال دیا اور خون کے دھبے دھو دیے۔ اس کے بھائی اور بہن شام کو آئے تو اس نے کہہ دیا کہ ماں پنجاب چلی گئی ہے کیونکہ وہاں سے باپ کی بیماری کی خبر آئی تھی۔ مگر اگلے دن جب بکس سے سخت بدبو آنے لگی تو بکس کھولا گیا۔ بکس کے اندر ماں کی سڑی ہوئی لاش موجود تھی۔ اشوک کمار نے قتل کا اقرار کیا اور اب وہ پولیس کی حراست میں ہے۔

جس ملک میں بیدردی اور بے راہ روی کا یہ عالم ہو وہاں مسلمان اگر ناخوش گوار باتوں سے اعراض نہ کریں اور ہر بات پر دوسروں سے لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار رہیں تو اس کا نتیجہ ذلّت اور بربادی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ ایسے ماحول میں جو لیڈر انہیں سکھاتے ہیں کہ ’’ڈٹ کر ظلم کا مقابلہ کرو‘‘ ،وہ یقیناً یا بدترین پاگل ہیں یا بدترین شاطر۔ کیوں کہ کوئی بھی سنجیدہ اور ہوش مند آدمی ایسے حالات میں لڑنے بھڑنے کا سبق نہیں د ے سکتا۔

نادان آدمی صرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اور دانش مند آدمی اپنے ساتھ دوسروں کو۔ اور انسانوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں وہی شخص کامیاب ہو گا جو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی دیکھے، اور اپنی سرگرمیوں میں ان کا لحاظ کرے۔ اس کے برعکس، جو شخص صرف اپنے آپ کو دیکھے وہ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کی زندگی کی گاڑی منزل تک نہیں پہنچے گی بلکہ راستہ ہی میں ٹکرا کر تباہ ہو جائے گی— یہ زندگی کی حقیقت ہے، اور یہ حقیقت کبھی بدلنے والی نہیں۔

 بے مسئلہ انسان

5 ستمبر 1986ء کو کراچی ائیر پورٹ پر ہائی جیکنگ کا واقعہ ہوا۔ یہ پان ایم کا جہاز تھا۔ اس حادثہ میں جو لوگ مارے گئے ان میں سے ایک 24 سالہ خاتون نیرجا بھانوت (Neerja Bhanot) بھی تھی۔ وہ اس امریکی ہوائی کمپنی میں سینئر فلائٹ پرسر (Senior Purser) تھی۔ اس حادثہ کے بعد اس کے باپ ہریش بھانوت نے ایک مفصل یادداشت لکھی جو ہندوستان ٹائمس (5 اکتوبر 1986ء) میں شائع ہوئی۔ اس یادداشت میں مسٹر ہریش بھانوت نے اپنی لڑکی کے بارے میں جو باتیں لکھی تھیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ نیرجا اوّل دن سے بے مسئلہ لڑکی تھی:

Neerja was a no-problem child, right from day one.

عام طور پر چھوٹے بچے گھر کے اندر مسئلہ بنے رہتے ہیں۔ وہ طرح طرح سے اپنے ماں باپ کو پریشان کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے بچہ کو بے مسئلہ بچہ (no problem child) کہا جاتا ہے جو ہرحال میں مطمئن رہے اور کسی بھی بات پر گھر والوں کے لیے مسئلہ پیدا نہ کرے۔  سب سے بہتر بچہ بے مسئلہ بچہ ہے۔ یہی بات بڑوں کے لیے بھی صحیح ہے۔ وہ آدمی سب سے زیادہ قیمتی ہے جو بے مسئلہ ہو۔ جو دوسروں کے لیے مسائل پیدا کیے بغیر دوسروں کے ساتھ رہ سکے۔ اس دنیا میں ذاتی شکایت کا پیدا ہونا لازمی ہے، اس لیے قابلِ عمل صورت صرف یہ ہے کہ آدمی خود اپنے آپ کو بے شکایت بنا لے۔

یہ انسانی خصوصیت عام زندگی کے لیے بھی نہایت ضروری ہے، اور تحریکوں کے لیے تو وہ لازمی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دنیا میں وہی تحریک کامیاب ہوتی ہے جو اپنے گرد ایسے افراد کو جمع کر سکے جو مسائل پیدا کرنے والے نہ ہوں۔ جو مسائل سے بھری ہوئی دنیا میں ایسے بن جائیں گویا دوسروں کی نسبت سے ان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔  جو شخص بے مسئلہ ہو وہی دوسروں کے مسائل کو حل کرتا ہے۔ جو لوگ خود مسائل میں مبتلا ہو جائیں وہ صرف دنیا کے مسائل میں اضافہ کریں گے، وہ کسی بھی درجہ میں دنیا کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔

واحد راستہ

سفر نامہ (الرسالہ مارچ 1988ء) میں ایک جاپانی انجینئر شوگوکٹا کورا (Shogo Katakura) کا ذکر آیا ہے جن سے میری ملاقات مالدیپ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جاپان کے جغرافی حالات نے جاپانیوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا ہے کہ وہ ہمیشہ نئے خیالات (new ideas) کی تلاش میں رہیں۔ وہاں بار بار موسم بدلتے ہیں، زلزلے اور طوفان سے بار بار نئے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جاپانیوں کو بار بار یہ سوچنا پڑتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات کامقابلہ کرنے کے لیے وہ کیا کریں۔

اس صورت حال نے نئے خیالات کی تلاش کوجاپانیوں کامستقل مزاج بنا دیا ہے۔ یہی مزاج ہے جو دوسری جنگ عظیم کی بربادی کے بعد جاپانیوں کے کام آیا۔ انہوں نے جنگ کے بعد بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں اپنے معاملہ پر ازسرِنو غور کیا۔ اور نئے حالات کے مطابق نیا منصوبہ بنا کر دوبارہ زیادہ بڑی کامیابی حاصل کی۔ جاپانیوں کی اسی خصوصیت کو ایک امریکی مصنف نے ان لفظوں میں ادا کیا ہے کہ وہ تبدیلی کے آقا بن گئے، بجائے اس کے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں:

They became the masters of change rather than the victims.

زندگی کا سفر کبھی ہموار راستہ پر طے نہیں ہوتا۔ زندگی حادثات اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ یہ حادثے اور مشکلیں افراد کو بھی پیش آتے ہیں اور قوموں کو بھی۔ یہ خود خالق کا قائم کیا ہوا نظام ہے، اس سے بچنا کسی بھی طرح ممکن نہیں۔

ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ مشکلات کے باوجود اپنے سفر کو جاری رکھے۔ وہ راستہ کے کانٹوں اورپتھروں کے باوجود منزل تک پہنچنے کا حوصلہ کر سکے۔

حالات کی تبدیلی کے بعد حالات کے خلاف شکایت نہ کیجیے، بلکہ نئے حالات کے مطابق اس کا نیا حل سوچیے، اور آپ ہمیشہ کامیاب رہیں گے۔

رکاوٹیں زینہ ہیں

26 مئی 1987ء کو دہلی کے اخبارات نے اپنے پہلے صفحہ پر جو خبریں نمایاں طور پر دیں ان میں سے ایک خبر وہ تھی جو دہلی سینیئر سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ امتحان سے متعلق تھی:

Delhi Senior Secondary School Certificate examination, Class XII, 1987.

اس امتحان میںجن طالب علموں نے ٹاپ کیا ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اخبارات کے نمائندوں نے ان ٹاپ کرنے والے طلبہ اور طالبات سے ملاقات کر کے ان کاانٹرویو لیا اور اس کو باتصویر خبر کے طور پر شائع کیا۔  ان ممتاز طالب علموں کے حالات میں ایک نہایت سبق کی بات تھی۔ اکثر ٹاپ کرنے والوں میں مشترک طور پر یہ بات پائی گئی کہ وہ خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نہ تھے۔ درحقیقت ان میں سے کچھ طالب علموں کو سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ غریب گھرانوںکا فرد ہونے کی وجہ سے ان کے پاس لکھنے پڑھنے کے لیے مناسب جگہ نہ تھی۔ کتابیں بہت کم تھیں۔ مزید یہ کہ شور و غل ان کے ذہن کو منتشر کرتا رہتا تھا۔ تاہم وہ ان عوامل کو پار کر گئے اور اپنے دلچسپی کے مضمون میں امتیازی نمبر حاصل کیے:

A common thread running the family background of most toppers is that they do not belong to  affluent families. In fact, quite a few faced stiff resistances. to their academic pursuits due to lack of space and books and noise disturbances. However, they overrode these factors and achieved distinction in their subjects of interest. (The Hindustan Times. New Delhi, May 26, 1987)

اسباب کی فراوانی آدمی کے اندر بے فکری پیدا کرتی ہے، اور اسباب کی کمی سے آدمی کے اندر فکر مندی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اسباب کی فراوانی آدمی کو بے عملی کی طرف لے جاتی ہے اور اسباب کی کمی عمل کی طرف۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو وہ شخص زیادہ خوش قسمت نظر آئے گا جو اسباب کی کمی کے مسئلہ سے دوچار ہو۔ رکاوٹیں آدمی کے لیے زینہ ہیں، بشرطیکہ وہ ان کو زینہ کے طور پر استعمال کر سکے۔

 ایک واقعہ

1940ء کا واقعہ ہے۔ مشرقی یوپی کا ایک زمیندار گائوں کے موچی پر غصّہ ہو گیا۔ موچی نے اس کے جوتے کی مرمت میں دیر کر دی تھی۔ موچی کو زمیندار کے مکان پر بلایا گیا۔ زمیندار ایک ڈنڈا لے کر کھڑا ہوا اور موچی کو حکم دیا کہ اپنا کرتا اتار دے۔ موچی نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ اس نے نہ صرف کرتا اتارا بلکہ اپنی پیٹھ زمیندار کی طرف کر کے خاموش بیٹھ گیا تاکہ زمیندار بہ آسانی اس کے اوپر ڈنڈا برسا سکے۔  اولاً جب موچی زمیندار کے سامنے آیا تو وہ اس کو دیکھتے ہی بے حد خفا ہو گیا تھا۔ مگر جب موچی نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے ننگی پیٹھ سامنے کر کے بیٹھ گیا تو زمیندار کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے اپنا ڈنڈا الگ رکھ دیا اورموچی کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ جائو،اب ایسی غلطی مت کرنا۔

1940ء کے زمانہ کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو موچی اس وقت مکمل طور پر بے بس تھا، اورزمیندار اس کے اوپر ہر قسم کا اختیار رکھتا تھا۔ پھرکیا چیز تھی جس نے ایک بااختیار کے ظلم سے ایک بے اختیار کو بچا لیا۔ یہ وہ ضمیر تھا جس کو قدرت نے ہر انسان کے اندر رکھ دیا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ موچی نے جب زمیندار کے آگے اپنے کو جھکا دیا تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اب اس کا ضمیرزندہ ہو کر کام کرنے لگا جس کے اوپر غصہ نے وقتی پردہ ڈال دیا تھا۔

اس کے برعکس، موچی اگرزمیندار سے تیز زبانی کرتا یا اس سے مزاحمت کرتاتو وہ زمیندار کے غصہ کو بڑھا کر اس کے ضمیر کو بالکل دبا دیتا اوراس طرح اپنے کو اس قیمتی مددگار سے محروم کر لیتا جو ہر ظالم کے دل میں آخری طور پر مظلوم کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ اس دنیا کے بنانے والے نے اس کا نظام بڑی عجیب حکمتوں کے ساتھ بنایا ہے۔ یہاں ایک شخص کے لیے اس وقت بھی کوئی نہ کوئی محفوظ سہارا موجود ہوتا ہے جب کہ بظاہر وہ بالکل بے سہارا ہو چکا ہو۔ بشرطیکہ وہ کوئی نادانی کر کے اپنے آپ کو اس آخری سہارے سے محروم نہ کر لے۔

زمیندار کے پاس اگر اپنی طاقت تھی تو موچی کے پاس خدا کی طاقت تھی۔ اور کون ہے جو خدا کی طاقت کے آگے ٹھہر سکے۔ ہر انسان کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر خدا کی عدالت ہے۔ آپ اپنا مقدمہ اس خدائی عدالت میں لے جائیے۔ اور پھر کبھی آپ کو کسی سے ظلم کی شکایت نہ ہو گی۔

 

آسان طریقہ

پروفیسر رشید احمد صدیقی (1977۔ 1892)جون پور میں پیدا ہوئے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے صدر تھے۔ ان کی شہرت زیادہ تر مزاح نگار کی حیثیت سے ہوئی۔ مزاحیہ نگاری میں وہ اردو کے ممتاز لکھنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ 

موصوف کے ایک رفیق آل احمد سرور نے ا یک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک دفعہ اپناایک مضمون مجھ سے لے کر کہیں اور شائع کر دیا ہے۔ میں اسے ماہنامہ اردو ادب میں دینا چاہتا تھا۔ میں نے اس پر احتجاج کیا تو انہوں نے نوٹس نہ لیا۔ پھر میں نے فریاد کی تو محرم کا مہینہ اسی زمانہ میں گزر چکا تھا۔ رشید صاحب نے لکھا کہ— محرم ختم ہو گیا، ماتم موقوف کیجیے۔‘‘ (قومی آواز 22 اپریل 1990)

جواب کا یہ طریقہ بعض اوقات نہایت مفید ہوتا ہے۔ علمی تبادلۂ خیال میں منطقی طریقہ ہی مناسب ہے۔ علمی گفتگو میں طنز و مزاح کے الفاظ بولنا ایک معیوب فعل سمجھا جاتا ہے، مگر دوسرے بہت سے مواقع ایسے ہیں جہاں مذکورہ قسم کا ہلکا انداززیادہ کارآمد ہے۔ خاص طور پر جب دو شخص یا دو گروہ میں تلخی کی صورت پیدا ہو جائے تو ایسے موقع پر سنجیدہ مزاح کا طریقہ ہی زیادہ مناسب ہے۔ تلخی اور کشیدگی کے وقت آدمی اس حالت میںنہیں ہوتا کہ وہ دلائل کی زبان کو سمجھے۔ ایسے وقت میں بہترین صورت یہی ہے کہ کوئی پُرلطف جملہ بول کر ذہن کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے۔

یہ ا صول گھریلو سطح پر بھی کارآمد ہے، اور جماعتی سطح پر بھی اور دو گروہوں کے باہمی نزاعات کے موقع پر بھی۔ آدمی اگر اپنے ہوش و حواس نہ کھوئے، اور جھنجھلاہٹ سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے تو وہ ہر ایسے موقع پر کوئی دلچسپ بات پا لے گا جس سے وہ لوگوں کی برہمی کو ٹھنڈا کر سکے۔

مزاح کو اگر عادت کے طور پر اختیار کیا جائے تو وہ ایک معیوب بات ہے۔ لیکن مزاح کو اگر تدبیر کے طور پر اختیار کیا جائے تو وہ ایک پسندیدہ چیز بن جائے گی۔ کیوں کہ بعض اوقات مزاحیہ کلام وہ کر دیتا ہے جو سنجیدہ کلام نہیں کر سکتا۔

زندگی کا راز

1947ء میں برصغیر ہند کو آزادی ملی تو ایک طرف اہل پاکستان تھے جن کی نمائندگی کرتے ہوئے مسٹر محمد جناح نے کہا کہ ہم کو کٹا پٹا اور کرم خوردہ پاکستان (truncated and moth-eaten Pakistan) ملا ہے۔ ان کے خوابوں کے پاکستان میں پنجاب اور بنگال کا پورا صوبہ شامل تھا۔ وہ پورے کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے موجودہ پاکستان انہیں اپنی امیدوں سے کم نظر آیا۔  دوسری طرف اہل ہند کا حال بھی یہی ہوا۔ یہاں کے لوگوں کے ذہن میں آزاد ہندوستان یا سوتنتر بھارت کا جو تصور تھا، موجودہ ملک اس سے کم تھا۔ چنانچہ آزادی کے بعد بھی کروڑوں لوگ اسی احساس کا شکار رہے کہ ان کا محبوب بھارت انہیں ٹکڑے ہو کر ملا ہے۔ انہوں نے جو کچھ چاہا تھا، اس سے بہت کم ہے وہ جو عملاً انہیں حاصل ہوا ہے۔

آزادی بظاہر پانے کے انجام پر ختم ہوئی تھی۔ مگر مذکورہ اسباب کی بنا پر اس نے نہ پانے کے احساس کی صورت اختیار کر لی۔ سرحد کے دونوں طرف سیاسی محرومی کا جذبہ بھڑک اٹھا۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کرایک دوسرے کی کاٹ میں لگ گئے۔ دونوں اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ یا تو ماضی کی سیاسی امنگوں کو دوبارہ واقعہ بنائیں یا کم از کم ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کر کے اپنے سینہ میں جلتی ہوئی احساس محرومی کی آگ کو ٹھنڈا کریں۔

اس سے مختلف مثال جاپان کی ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے اس کا جغرافی رقبہ بھی گھٹا دیا اور اس کی سیاسی اور فوجی آزادی بھی اس سے چھین لی۔ مگر اہل جاپان نے کھوئی ہوئی چیز کو بھلا دیا۔ اور جو چیز اب بھی انہیں حاصل تھی، اس پر قناعت کرتے ہوئے عملی جدوجہد شروع کر دی— چالیس سال بعد آج جاپان ترقی کی چوٹی پر پہنچ گیا ہے، اور ہندوستان اور پاکستان کے حصہ میں صرف یہ آیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے الفاظ کا جھوٹا طوفان برپا کرتے رہیں۔

زندگی کم تر پر راضی ہونے کا نام ہے۔ اس دنیا میں جو کم پر راضی ہو جائے وہ زیادہ پاتا ہے اور جو کم پر راضی نہ ہو، وہ کم سے بھی محروم رہتا ہے اور زیادہ سے بھی۔

 

حکمت کی بات

کانگرس کے صدر نرسمہارائو (P. V. Narasimha Rao) کا ایک انٹرویو ٹائمس آف انڈیا (یکم جون 1991) میں چھپا ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہندوستانی سماج مختلف قومیتوں کا مشترک سماج ہے، اور اس سماج کے ہر جزء کو آزادی اور برابری کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہندوستان میں رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ مل جل کر رہا جائے :

We have a plural society and all segments of the society should exist in freedom and equality. The only way to exist in India is to co-exist.

یہ نہایت صحیح اور درست بات ہے۔ مگر اس کا تعلق صرف ہندوستانی سماج سے نہیں ہے، بلکہ دنیا کے ہر سماج سے ہے۔ یہی طریقہ پاکستان اور افغانستان کے لیے بھی صحیح ہے اور یہی طریقہ یورپ اور امریکہ کے لیے بھی۔ چاہے ایک خاندان کا معاملہ ہو یا پوری زمین کا معاملہ، اس دنیا میں زندہ رہنے کی یہی واحد صورت ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ اگر برداشت اور رواداری (ٹالرنس) کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو اس زمین پرنہ ایک خاندان بن سکتا اور نہ ایک ملک۔

اس دنیا میں اختلاف کا موجود ہونا اتنا ہی فطری ہے جتنا خود انسان کا موجود ہونا۔ جہاں انسان ہوں گے وہاں اختلاف ہو گا، خواہ یہ انسان ایک مذہب اور کلچر کے ہوں یا کئی مذہب اورکلچر کے۔ ایسی حالت میں انسان کو دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے۔ یا تو وہ اختلاف کو برداشت کرے یا اختلاف کو برداشت نہ کر کے دوسروں سے ہمیشہ لڑتا جھگڑتا رہے۔

ہمارے لیے انتخاب کا موقع اختلاف اور بے اختلاف میں نہیں ہے بلکہ اختلاف کو برداشت کرنے یا اختلاف کو برداشت نہ کر کے مر جانے میں ہے۔ اگر ہم زندگی چاہتے ہیں تو وہ صرف اختلاف کو برداشت کرنے ہی میں مل سکتی ہے۔ اس کے بعد دوسرا جو امکان ہے وہ لڑ کر اپنے کو برباد کر لینے کا ہے۔ اس کے سوا کسی تیسرے انتخاب کا ہمارے لیے موقع نہیں۔

مقصد کا تقاضا

ٹائمس آف انڈیا(26 مارچ 1987)کے ساتھ ایک ضمیمہ (The Times Offspring) شائع ہوا ہے۔ اس ضمیمہ میں مشہور انگریزی صحافی مسٹر خوشونت سنگھ کاایک انٹرویو درج ہے۔ اس انٹرویو کا ایک سوال و جواب یہ ہے:

Q: You are a media man. How is it that you are so against television.as you once mentioned in your' Malice' column?

A: Well, I am aganist my viewing it. I had one set in Bombay at my residence.As a result I could not concentrate on anything else.I would simply switch on the T.V. and see the programme being trans-mitted,whatever nonsense it might be .So i told the television company to take it back, since i prefer to read and write.

سوال:آپ میڈیا کے ایک آدمی ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ آپ ٹیلی ویژن کے اس قدر مخالف ہیں جیسا کہ آپ نے ایک بار اپنے مستقل کالم میں لکھا تھا۔

جواب:جی ہاں، میں اپنے ٹیلی ویژن دیکھنے کے خلاف ہوں۔ بمبئی میں میرے مکان میں ایک ٹیلی ویژن سیٹ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں کسی بھی دوسری چیز پر اپنے ذہن کو لگا نہیں پاتا تھا۔ میں بس ٹی وی کا بٹن دبا دیتا اور جو کچھ اس پر آتا اس کو دیکھتا رہتا، خواہ وہ کتناہی بے معنی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ میں نے ٹیلی ویژن کمپنی سے کہا کہ وہ اس کوواپس لے جائے۔ کیوں کہ میں لکھنے پڑھنے کو زیادہ پسند کرتا تھا۔

مسٹر خوشونت سنگھ نے اس معاملہ میں جو کچھ کیا اس کو ہماری زبان میں ’’ترجیح‘‘ کہا جاتا ہے۔ ترجیح کا یہ اصول کسی بامقصد انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگر آپ کے سامنے ایک مقصد ہو تو آپ کو لازماً یہ کرنا پڑے گا کہ آپ اصل مقصد کے سوا دوسری تمام چیزوں میں اپنی دلچسپی ختم کر دیں۔ اپنی توجہ کو دوسری تمام سمتوں سے ہٹا کر صرف مقصد کے رُخ پر لگا دیں۔ یہ کامیابی کی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر موجودہ دنیا میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیزکو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چھوڑنے والی چیز کو نہ چھوڑیں تو اس دنیامیں آپ پانے والی چیز کو بھی نہیں پائیں گے۔

باب دوم

اوراقِ حکمت

 

سوچ کا فرق

فریڈرک لینگ برج (Frederick Langbridge) انگریزی کاایک شاعر ہے۔ وہ 1849ء میں پیدا ہوا۔ 1923ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک شعر ہے کہ رات کے وقت دو آدمی جنگلہ کے باہردیکھتے ہیں۔ ایک شخص کیچڑ دیکھتا ہے اوردسرا شخص ستارہ :

Two men look out through the same bars one sees the mud, and one the stars.

یہی بات ایک فارسی شاعر نے زیادہ بہتر طور پر اس طرح کہی ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو فرق ہے وہ سننے کا فرق ہے۔ ایک آواز آتی ہے۔ تم اس کو دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ دروازہ کھلنے کی آواز ہے:

تفاوت است میانِ شنیدن من وتو                تو غلقِ باب و منم فتح باب می شنوم

درخت میں کانٹے کے ساتھ پھول بھی ہوتاہے۔ یہی حال انسانی سماج کا ہے۔ سماجی حالات بظاہر خواہ کتنے غیر موافق ہوں، ہمیشہ اس کے اندر موافق پہلو بھی ساتھ ساتھ موجودرہتا ہے۔ ایک شخص جو چیزوں کو صرف ظاہری طور پر دیکھنے کی نگاہ رکھتا ہو، و ہ سطحی چیزوں کو دیکھے گا، اورزیادہ گہرے پہلوئوں کو دیکھنے میںناکام رہے گا۔ مگر جو شخص گہری نظر رکھتا ہو وہ زیادہ دور تک دیکھے گا اورناموافق پہلو کے ساتھ موافق پہلو کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

اس دنیامیں کیچڑ بھی ہے اور یہاں ستارے بھی ہیں۔ یہ دیکھنے کی بات ہے کہ کون شخص کس چیز کو دیکھتا ہے اور کون شخص کس چیز کو۔ ایک ہی آواز ہے، مگر نادان آدمی اس کو دیکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دروازہ بند ہو گیا اور دانش مند آدمی سمجھتا ہے کہ دروازہ اس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

تمام مسائل ہمیشہ ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور ذہن کے اندر ہی ان کو ختم کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ آدمی کے اندر صحیح سوچ کا مادہ پیدا ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عقل کا امتحان ہے، جو شخص اپنی عقل کو استعمال کرے گا وہ اپنے لیے راستہ پا لے گا، اور جو شخص عقل کو استعمال نہیں کرے گا اس کے لیے بربادی کے سوا کوئی انجام مقدر نہیں۔ 

سمندر میں موجوں کے تھپیڑے ہیں۔ جو شخص سمندر میں اپنی کشتی چلانا چاہے وہ مجبور ہے کہ موج اور طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی کشتی مطلوبہ منزل کی طرف لے جائے۔ جنگل میں جھاڑیاں اور درندے ہیں، جو جانور جنگل میں رہتے ہیں، ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیوں اور اپنے دشمن جانوروں کے درمیان اپنے لیے زندگی کا طریقہ نکالیں۔

ایسا ہی کچھ معاملہ انسانی سماج کا بھی ہے۔ انسانوں کے اندر بھی طرح طرح کے لوگ ہیں۔ ان کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ مختلف اسباب سے ایک اور دوسرے کے بیچ میں ناخوش گواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ اونچ نیچ اور یہ فرق سماجی زندگی میں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ باقی رہیں گے۔ کسی حال میں انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔  ایسی حالت میں انسان کے لیے زندگی اور کامیابی کا صرف ایک ہی ممکن راستہ ہے— وہ ’’باوجود‘‘ کے اصول کو اپنی پالیسی بنائے۔ وہ مخالفتوں کے باوجود لوگوں کو اپنا موافق بنانے کی کوشش کرے۔ وہ ناخوش گواریوں کے باوجود اپنے لیے خوشگوار زندگی کا راز دریافت کرے۔ اس کے خلاف عداوتیں اور سازشیں کی جائیں تب بھی وہ اس یقین کے ساتھ آگے بڑھے کہ وہ اپنے مثبت عمل سے تمام منفی باتوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

اس دنیا میں آدمی کو کانٹے کے باوجود پھول تک اپنا ہاتھ پہنچانا ہوتا ہے۔ یہاں بیماریوں کے بے شمار جراثیم کے باوجود اپنے آپ کو تندرست اور صحت مند بنانا پڑتا ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ناموافق حالات کودیکھ کر مایوس نہ ہو۔ اورنہ شکایت اور احتجاج میں اپنا وقت ضائع کرے۔ وہ ان حقائق سے موافقت کر کے جئے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔ وہ راستہ کے ان پتھروں سے کترا کر نکل جائے جو اس کے سفر میں حائل ہو رہے ہوں۔ لوگوں کی مخالفانہ باتوں پر مشتعل ہونے کے بجائے وہ تدبیری حکمت کے ذریعہ ان سے نپٹنے کی کوشش کرے۔ وہ کم ملنے پر راضی ہو تاکہ آئندہ اس کو زیادہ دیا جائے۔ وہ دشمنی پر صبر کرے تاکہ آج جو اس کے دشمن ہیں کل وہ اس کے دوست بن جائیں۔

تدبیر نہ کہ ٹکرائو

مولانا جلال الدین رومی (1207-1273) کا درجہ مسلمانوں میں بہت اونچاہے۔ تقریباً 26 ہزار اشعار پرمشتمل ان کی مثنوی معنوی مسلمانوں کے درمیان تقدس کی حد تک مقبول ہے۔ یہ مثنوی صدیوںتک ایک رہنما کتاب کی حیثیت سے علماء کے درمیان پڑھی جاتی رہی ہے۔

1258ء میں تاتاریوں نے بغدادکو تباہ کیااور عباسی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ انہوں نے مسلم دنیا پر اپنی ظالمانہ حکومت قائم کردی۔ اس وقت مولانا روم کی عمر تقریباً پچاس سال تھی۔ انہوں نے اپنی مثنوی کے ذریعہ مسلمانوں کو روحانی اور اخلاقی سبق دیا اورانہیں اوپر اٹھانے کی کوشش کی۔

اسی کے ساتھ انہوں نے وقت کے مسائل میں بھی مسلمانوں کو رہنمائی دی۔ انہوں نے اپنی فارسی مثنوی میں حکایت اورتمثیل کی زبان میں مسلمانوں کو بتایا کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک سبق آموز کہانی شیر اور خرگوش کی کہانی ہے جو مثنوی کے ’’دفتر اول‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ یہ ہے

جنگل میں ایک شیر تھا۔ وہ ہر روز اپنی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں پر حملہ کرتا تھا اور پکڑ کر انہیں اپنی خوراک بناتا تھا،اس کے نتیجہ میں تمام جانور مستقل طور پر دہشت اور خوف میں پڑے رہتے تھے۔ آخر انہوں نے اس کاایک حل نکالا ۔ انہوں نے شیر سے بات کر کے اس کو اس پر راضی کیاکہ وہ ان پر حملہ نہ کرے۔ وہ خود اپنی طرف سے ہر روزایک جانور اس کے پاس بھیج دیا کریں گے۔

اس تجویز پر عمل ہونے لگا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ ہر روز قرعہ کے ذریعہ یہ طے کیا جاتا کہ آج کون سا جانور شیر کی خوراک بنے گا۔ جس جانور کے نام قرعہ نکلتااس کو شیر کے پاس بھیج دیا جاتا۔ اس طرح تمام جانور امن کے ساتھ جنگل میں رہنے لگے۔ آخر کار قرعہ ایک خرگوش کے نام نکلا۔ یہ خرگوش پہلے سے سوچے ہوئے تھاکہ جب میرے نام قرعہ نکلے گا تو میں اپنے آپ کو شیر کی خوراک بننے نہیں دوں گا۔ بلکہ تدبیر کے ذریعہ خود شیر کو ہلاک کر دوں گا۔

سوچے سمجھے منصوبہ کے مطابق ، خرگوش ایک گھنٹہ کی تاخیر کے ساتھ شیر کے پاس پہنچا۔ شیر بہت بھوکا تھا وہ تاخیر کی بنا پر اس کے اوپر بگڑ گیا۔ نیز صرف ایک چھوٹا خرگوش دیکھ کر اس کو اور بھی زیادہ غصہ آیا۔  خرگوش نے نرمی اور لجاجت سے کہا کہ جناب ، بات یہ ہے کہ آپ کی سلطنت میں ایک ایسا اور شیر آ گیا ہے۔ جانوروں نے آپ کی آج کی خوراک کے لیے دو خرگوش بھیجے تھے، مگر دوسرا شیر ہمارے اوپر جھپٹا۔ ایک کوتو اس نے پکڑ لیا۔ میں کسی طرح بھاگ کر آپ کے پاس آیا ہوں۔

اب شیر کا غصہ دوسرے شیر کی طرف مڑ گیا۔ اس نے چلا کرکہا کہ دوسرا شیر کون ہے جس نے اس جنگل میں آنے کی جرأت کی ہے۔ مجھے اس کے پاس لے چلو۔ تاکہ میں اس کا قصہ تمام کر دوں۔ اب خرگوش کے ساتھ شیر روانہ ہوا۔ خرگوش نے شیر کو اِدھر اُدھر گھمایا اور آخر میں اس کو ایک کنویں کے کنارے لا کرکھڑا کردیا اور کہاکہ حضور، وہ شیر اس کے اندر موجود ہے، آپ خود اس کو دیکھ لیں۔ شیر نے کنویں کے اوپر سے جھانکا تو نیچے پانی میں اس کو اپنا عکس نظر آیا۔ اس نے سمجھا کہ خرگوش کا کہنا درست ہے اور واقعۃً اس کے اندر ایک اور شیر موجود ہے۔ شیر غرایا تو دوسرا شیر بھی غرا اٹھا۔ اپنی سلطنت میں اس طرح ایک اور شیر کا گھس آنا اس کو برداشت نہیں ہوا۔ وہ چھلانگ لگا کر مفروضہ شیرکے اوپر کود پڑا۔ اور پھر کنویں میں پھڑا پڑا مر گیا۔

اس طرح ایک خرگوش نے تدبیرکی طاقت سے شیر جیسے دشمن کا خاتمہ کردیا۔ مولانا روم آخر میں کہتے ہیں کہ اس کی تدبیرکا جال گویا شیرکا پھندا تھا۔ کیسا عجیب تھاوہ خرگوش جو ایک شیرکو اچک لے گیا:

دام مکراو کمندشیر بود                 طرفہ خرگوشے کہ شیرے را ربود

یہ حکایت کی زبان میں ایک رہنمائی تھی جو مولانا روم نے اپنے زمانہ کے مسلمانوں کو دی۔ مولانا روم نے مسلمانوںکو مجاہدانہ اقدام پر نہیں ابھارا۔ انہوں نے یہ نہیںکہا کہ جنگل کے تمام باسیوںکو چاہیے کہ وہ متحد ہوکر شیرکے اوپر حملہ کر دیں۔ اگر انہوں نے شیر کو مار ڈالا تو وہ غازی کا لقب پائیں گے۔ اوراگر شیر ان کو مارنے میں کامیاب ہو گیا تب بھی کوئی نقصان نہیں۔ کیوں کہ ایسی صورت میںوہ سب کے سب شہید قرار دیے جائیں گے۔ اورجس کو شہادت کا درجہ ملے اس کو بہت بڑا درجہ مل گیا۔  مولانا روم نے اس کے برعکس، مسلمانوں کو حکیمانہ تدبیر کی طرف رہنمائی دی۔ انہوں نے موت کے بجائے زندگی کا طریقہ بتایا۔ ان کی بتائی ہوئی حکیمانہ تدبیر میں انسان کو ابتداء ً چھوٹا بننا پڑتا ہے مگر آخری مرحلہ میں پہنچ کر وہ بڑائی اور فتح کے بلند مقام کو پا لیتا ہے۔

مولانا رو م کی یہ نصیحت حال کے لیے بھی اتنی ہی کارآمد ہے جتنی وہ ماضی کے لیے کارآمد تھی۔

 

دوسرا موقع

ریڈرز ڈائجسٹ فروری1987ء میں ایک مضمون شائع ہوا ہے، اس کا عنوان ہے:

Dare to Change Your Life

یعنی اپنی زندگی کو بدلنے کی جرأت کرو۔اس مضمون میں کئی ایسے واقعات دیے گئے ہیں جن میں ایک شخص کو ابتدا میں ناکامی پیش آئی۔ وہ نقصانات اور مشکلات سے دو چار ہوا۔ مگر اس نے حوصلہ نہیں کھویا ایک موقع کو کھونے کے باوجود اس کی نظر دوسرے موقع پر لگی رہی۔ یہ تدبیر کارگر ہوئی۔ ایک بار ناکام ہو کر اس نے دوسری بار کامیابی حاصل کرلی۔مضمون کے آخر میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ زندگی دوسرے مواقع سے بھری ہوئی ہے۔ دوسرے موقع کو استعمال کرنے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ صرف یہ صلاحیت ہے کہ آدمی اس کو پہچانے اور حوصلہ مندانہ طور پر اس پر عمل کرے:

Life is full of second chances. All we need for a second chance is the ability to recognize it and the courage to act.

زندگی سیکنڈچانس (دوسرے موقع) کو استعمال کرنے کا نام ہے— یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو فرد کے لیے بھی اتنی ہی صحیح ہے جتنی قوم کے لیے۔ پوری تاریخ اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ دور اول میں اسلام کو مکہ میں موقع نہ مل سکا۔ اس کے بعد اسلام نے مدینہ کے موقع کو استعمال کرکے اپنی تاریخ بنائی۔ مغربی قومیں صلیبی جنگوں میں اپنے لیے موقع نہ پا سکیں تو انہوں نے علمی مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ کامیابی کا مقام حاصل کیا، وغیرہ۔

 موجودہ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی پہلے موقع کو کھو دیتا ہے۔ کبھی اپنے ناقص تجربہ کی وجہ سے اور کبھی دوسروں کی سرکشی کی وجہ سے۔ مگر پہلے موقع کو کھونے کا مطلب ایک موقع کو کھونا ہے ، نہ کہ سارے مواقع کو کھونا۔ پہلا موقع کھونے کے بعد اگر آدمی مایوس نہ ہو تو جلد ہی وہ دوسرا موقع پا لے گا جس کو استعمال کرکے وہ دوبارہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔

جن مواقع پر دوسرے لوگ قابض ہو چکے ان کو ان کے چھیننے کی کوشش کرنا عقل مندی نہیں۔ عقل مندی یہ ہے کہ جو مواقع ابھی باقی ہیں ان پر قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

 ٹائمس آف انڈیا13 اپریل1989( صفحہ4) میں نیویارک کی ڈیٹ لائن کے ساتھ ایک رپورٹ چھپی  ہے۔ اس کا عنوان ہے— سپر کمپیوٹر میں امریکہ سے آگے بڑھ جانے کے لیے جاپان کی کوشش:

Japan`s bid to excel the US in supercomputers

 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپر کمپیوٹر کے میدان میں امریکہ کا طویل مدت کا غلبہ اب مشتبہ ہوگیا ہے۔ امریکہ کی ایک کارپوریشن کے تجزیہ کاروں نے مطالعہ کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ جاپان کا بنایا ہوا ایک سپر کمپیوٹر1990ء میں مارکیٹ میں آ جائے گا۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ تیز کام کرنے والی مشین ہوگی۔ جاپانیوں نے اس نئے کمپیوٹر کا نام ایس ایکس۔ ایکس (SX-X) رکھا ہے۔ اس کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ وہ ایک سیکنڈمیں سائنٹفک قسم کے حساب کے20 بلین آپریشن کر سکتا ہے۔ یہ جاپانی کمپیوٹر امریکہ کے تیز ترین کمپیوٹر سے25 فیصد زیادہ تیز رفتار ہے۔ اسی کے ساتھ اس کی مزید خصوصیت یہ ہے کہ کامل صحت کارکردگی کے ساتھ نسبتاً وہ کم خرچ بھی ہے۔

 اس سپرکمپیوٹر کی اہمیت صرف سائنٹفک ریسرچ، تیل کی تلاش اور موسم کی پیشین گوئی جیسی چیزوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ وہ نیشنل سکیورٹی کے لیے بھی بے حد اہم سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ نیو کلیئر ہتھیاروں کی تیار میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ نئے جاپانی کمپیوٹر نے دنیا کو ایک نئے صنعتی دور میں پہنچادیا ہے۔ موجودہ کمپیوٹر جو کسی زمانہ میں’’جدید‘‘ سمجھے جاتے تھے، اب وہ روایتی اور تقلیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ جاپان کی اس ایجاد نے اس کو خود فوجی میدان میں بھی برتری عطا کر دی ہے۔

امریکہ نے ’’سپر بم‘‘ بنا کر1945ء میں جاپان کو تباہ کر دیا تھا۔ مگر وہ جاپان سے یہ امکان نہ چھین سکا کہ وہ’’سپر کمپیوٹر‘‘ بنا کر دوبارہ نئی زندگی حاصل کر لے اور صرف 45 سال کے اندر تاریخ کا رخ موڑ دے۔ تخریب،خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو، وہ تعمیر نو کے مواقع کو ختم نہیں کرتی، اور تعمیر کی طاقت، بہرحال تخریب کی طاقت سے زیادہ ہے۔

کامیابی کا ٹکٹ

امریکہ میں ایشیائی ملکوں سے آئے ہوئے جو لوگ آباد ہیں ان کو عام طور پر ایشیائی امریکی (Asian American) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر1965ء کے بعد یہاں آئے۔ امریکہ میں ان کی موجودہ تعداد تقریباً2 فیصد ہے۔ ان میں کچھ یہودی ہیں، کچھ بدھسٹ ہیں، کچھ کنفیوشش کو ماننے والے ہیں، اور اسی طرح بعض دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

امریکہ میں اپنے مستقبل کی تعمیر کا مطلب اگر وہ یہ سمجھتے کہ ان کے فرقہ کا آدمی صدر کے عہدہ پر پہنچ جائے تو انہیں امریکہ میں اپنے لیے ترقی کادروازہ بالکل بند نظر آتا۔ کیوں کہ صدر کے عہدہ کے لیے امریکہ کا پیدائشی شہری(natural-born citizen) ہونا ضروری ہے، اور ایشیائی لوگ اس تعریف میں نہیں آتے۔ صدارت کو اپنا نشانہ بنانے کی صورت میں ایشیائی مہاجرین یا تو مایوسی کا شکار ہوتے یا اس بات کی ناکام مہم چلاتے کہ امریکی دستور میں ترمیم کرکے صدارت کی اس شرط کو ختم کیا جائے تاکہ ان کا آدمی بھی صدر کے عہدہ کے لیے جائز امیدوار بن کر کھڑا ہو سکے۔

 مگر ایشیائی امریکیوں نے اس قسم کی حماقت نہیں کی۔ انہوں نے اپنے واقعی حالات کے اعتبار سے امریکہ کا جائزہ لیا تو انہیں نظر آیا کہ یہاں ان کے جیسی اقلیت کے لیے اگرچہ صدارتی عہدہ تک پہنچنے کے مواقع نہیں ہیں، مگر اعلیٰ تعلیمی عہدوں تک پہنچنے کے مواقع پوری طرح موجود ہیں۔ انہوں نے پایا کہ تعلیم ان کے لیے کامیابی کے ٹکٹ (ticket to success) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنی ساری طاقت تعلیم کے حصول میں لگا دی۔ چنانچہ انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ حتی کہ تعداد میں2 فیصد ہوتے ہوئے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں20 فیصد سیٹوں پر قابض ہوگئے۔

 یہی دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ اس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ مواقع آدمی کے لیے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ مواقع اس کے لیے کھلے ہوئے نہیں ہوتے۔ آدمی کی بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ کھلے ہوئے مواقع کو استعمال کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ اگر اس نے بند فاصلہ دروازوں سے سر ٹکرایا تو دروازہ تو نہیں کھلے گا، البتہ اس کاسر ضرور ٹوٹ جائے گا۔ خاص طور پر تعلیم آج کی دنیا میں کامیابی کا ٹکٹ ہے، اور اس ٹکٹ کو حاصل کرنے کے مواقع ہر آدمی کے لیے ہر جگہ کھلے ہوئے ہیں۔

یہ اصول جو افراد کی ترقی کا راز ہے، وہ ملکوں اور قوموں کی ترقی کا راز بھی ہے۔ اس سلسلہ میں جاپان ایک قابل تقلید مثال پیش کرتا ہے۔ جاپان کے بارے میں ایک امریکی مصنف کی ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہےجاپان نمبر ایک کی حیثیت سے۔ ڈھائی سو صفحہ کی اس کتاب میں مصنف نے دکھایا ہے کہ جاپان کس طرح دوسری جنگ عظیم میں مکمل شکست سے دو چار ہونے کے بعد دوبارہ اس طرح کھڑا ہوگیا کہ خود اپنے فاتح(امریکہ) کے لیے چیلنج بن گیا۔ مصنف کے الفاظ میں، جاپانی لوگ تبدیلی کے آقا بن گئے، بجائے اس کے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں۔ دوسرے ممالک کو بیرونی اثرات نے برباد کر دیا مگر جاپان نے اس سے طاقت پالی:

Thus they became the masters of change rather than the victims. Other countries were devastated by foreign influence, but japan was invigorated.

Ezra F. Vogel, Japan As Number One

Harward University Press, London 1979, p. 256

مصنف کے نزدیک جاپان کی اس غیر معمولی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس نے فوجی اور سیاسی میدان میں شکست کھانے کے بعد اپنے میدانِ عمل کو بدل دیا اور اپنی ساری توجہ علم کی راہ میں لگادی۔ اس کتاب کے تیسرے باب میں مصنف نے بتایا ہے کہ جاپان کی موجودہ کامیابی کا واحد عامل (single factor) اگر کسی چیز کو قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے جاپانی قوم میں علم(knowledge) کی تلاش کا لامتناہی جذبہ۔ اس سلسلہ میں منصف نے لکھا ہے:

When a foreign visitor comes to Japan, most Japanese almost instinctively think, ''What can I learn from him?'' And the three million japanese who now travel abroad each year look for little hints of new ideas they might apply at home. (p. 29)

جب باہر کا کوئی آدمی جاپان آتا ہے تو اکثر جاپانی تقریباً جبلی طور پر سوچتے ہیں ’’میں اس سے کیا بات سیکھ سکتا ہوں‘‘ اور تین ملین جاپانی جو آج کل ہر سال باہر کی دنیا کا سفر کرتے ہیں وہ جب باہر پہنچتے ہیں تو وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی نیا تصور ہاتھ آ جائے جس کو واپس جا کر وہ اپنے ملک میں استعمال کر سکیں۔

مٹھاس کا اضافہ

 ٹائمس آف انڈیا کے ضمیمہ(The Neighbourhood Star) بابت 18-24 مارچ 1989(صفحہ6) پر ایک سبق آموز واقعہ شائع ہوا ہے۔ ایران کے پارسی جب پہلی بار ہندوستان میں آئے تو وہ ہندوستان کے مغربی ساحل پر اترے۔ اس وقت یادو رانا گجرات کا راجہ تھا۔ پارسی جماعت کا پیشوا راجہ سے ملا۔ اور اس سے یہ درخواست کی کہ وہ ان لوگوں کو اپنی ریاست میں ٹھہرنے کی اجازت دے۔ راجہ نے اس کے جواب میں دودھ سے بھرا ہوا ایک گلاس پارسی پیشوا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری ریاست پہلے ہی سے آدمیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں مزید لوگوں کو ٹھہرانے کی گنجائش نہیں۔

پارسی پیشوا نے لفظوں میں اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے صرف یہ کیا کہ ایک چمچہ شکر لے کر دودھ میں ملایا اور گلاس کو راجہ کی طرف لوٹا دیا۔ یہ اشاراتی زبان میں اس بات کا اظہار تھا کہ ہم لوگ آپ کے دودھ پر قبضہ کرنے کے بجائے اس کو میٹھا بنائیں گے۔ ہم آپ کی ریاست کی زندگی میں شیرینی کا اضافہ کریں گے۔ اس کے بعد راجہ نے انہیں گجرات میں قیام کی اجازت دے دی۔

 اس واقعہ پر اب ایک ہزار سال کی مدت گزر چکی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پارسیوں کے رہنما نے جو بات کہی تھی اس کو پارسی قوم نے پورا کر دکھایا۔ پارسی اس ملک میں مطالبہ اور احتجاج اور ایجی ٹیشن کا جھنڈا لے کر کھڑے نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی خاموش محنت سے اس ملک کی ترقی میں اضافہ کیا۔ پارسیوں نے دوسروں سے زیادہ محنت کی۔ وہ تعلیم اور تجارت اور صنعت میں آگے بڑھے۔ انہوں نے ملک کی دولت اور ملک کی ترقی کو بڑھایا۔ اس ملک میں جہاں بہت سے لوگ لینے والے گروہ(taker group) کی حیثیت رکھتے ہیں، پارسیوں نے عمل کے ذریعہ اپنے لیے دینے والے گروہ(giver group) کا درجہ حاصل کیا ہے— یہی زندگی کا راز ہے۔ اس دنیا میں دینے والا پاتا ہے۔ یہاں اس آدمی کو باعزت جگہ ملتی ہے جو لوگوں کے ’’دودھ‘‘ میں اپنی طرف سے ’’مٹھاس‘‘ کا اضافہ کرے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے صرف کڑوا پن ہو، انہیں بھی اس دنیا میں وہی چیز ملتی ہے جو انہوں نے دوسروں کو دی ہے۔

اگر آپ کچھ پانا چاہتے ہیں تو دنیا میں ’’عطیہ کارڈ‘‘ لے کر نکلیے۔ اگر آپ’’مطالبہ کارڈ‘‘ لے کر نکلے تو یہاں آپ کو کچھ ملنے والا نہیں۔

24 اگست1988 کو مسٹر پی ڈی ملہوترا(پیدائش1935) سے ملاقات ہوئی۔ وہ ساہتیہ اکیڈمی(نئی دہلی) میں تقریباً30 سال سے پبلی کیشنز منیجر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک روز مجھے دفتر میں دیر ہوگئی۔ گھر جانے کے لیے باہر نکلا تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میں اپنے اسکوٹر پر چلتے ہوئے ایک سڑک پر پہنچا تو وہاں پولیس کے آدمی نے مجھے روک دیا۔ اس نے کہا کہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس دکھائو۔

مسٹر ملہوترا نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ڈرائیونگ کارڈ کے ساتھ ایک اور کارڈ نکل آیا اس نے اپنے ہاتھ میں دونوں کارڈ لیتے ہوئے پوچھا کہ یہ دوسرا کارڈ کیا ہے۔ یہ دراصل آنکھ کے عطیہ کا کارڈ(Eye Donor Card) تھا۔ اس کارڈ پر آدمی کے دستخط کے ساتھ اس کی طرف سے یہ الفاظ درج ہوتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھیں قوم کو عطیہ دی ہیں۔ براہ کرم میری موت پر سب سے قریب کے آنکھ کے ہسپتال کو فوراً اطلاع کر دیں۔ اور میری خواہش کو پورا کرنے میں ان کی مدد کریں۔ شکریہ:

I have gifted eyes to the nation. Kindly inform the nearest Eye Bank immediately on my demise and help them to fulfil my desire. Thanks.

پولیس کا آدمی پہلے بہت رُکھائی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ مگر آنکھ کے عطیہ کا کارڈ دیکھتے ہی اس کا لہجہ بدل گیا۔ اس نے مزید جانچ کیے بغیر کہا کہ’’جایئے، جایئے۔‘‘

آنکھ کا عطیہ موجودہ زمانہ میں ایک شریفانہ فعل سمجھا جاتا ہے۔ ٹی وی پر اس کی اپیل ان جذباتی لفظوں میں آتی ہے’’دنیا میں ایک ہی چیز ہے جو صرف آپ کسی کو دے سکتے ہیں۔‘‘ پولیس والے نے جب مسٹر ملہوترا کے پاس آنکھ کے عطیہ کا کارڈ دیکھا تو وہ سمجھا کہ یہ ایک شریف اور ہمدرد انسان ہیں۔ آنکھ کے عطیہ کا کارڈ مسٹر ملہوترا کے لیے اس بات کی پہچان بن گیا کہ وہ دوسروں کو دینے والے آدمی ہیں۔ اس چیز نے پولیس کے دل کو ان کے حق میں نرم کر دیا۔

اس دنیا میں دینے والے کو دیا جاتا ہے جو دوسروں کو دے وہ دوسروں سے پاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس وقت بھی پانے کا مستحق بن جاتا ہے جب کہ اس نے ابھی عملاً دیا نہ ہو، اس نے ابھی صرف دینے کا ارادہ کیا ہو۔

مستقبل پر نظر

پبلی لیس سائرس(Publius Syrus) ایک لاطینی مصنف ہے۔ اس کا زمانہ پہلی صدی قبل مسیح ہے۔ وہ رومی عہد میں شام کے علاقہ میں پیدا ہوا اور روم میں وفات پائی۔ اس کا ایک قول انگریزی ترجمہ میں اس طرح نقل کیا گیا ہے— عقل مند آدمی مستقبل کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جیسے کہ وہ حال ہو:

The wise man gurads against the future as if it were the present.

نادان آدمی کی نظر حال پر ہوتی ہے، عقل مند آدمی کی نظر مستقبل پر۔ نادان آدمی اپنے آج کے حالات میں ایک ناپسندیدہ چیز دیکھتا ہے۔ وہ اس سے لڑنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ عقلمند آدمی دور اندیشی سے کام لیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ہماری آج کی لڑائی کا انجام کل کس انداز میں نکلے گا۔ نادان آج کو دیکھ کر اقدام کرتا ہے، عقل مند وہ ہے جو مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔

ہر اقدام اپنے نتیجہ کے اعتبار سے مستقبل کا واقعہ ہے۔ اقدام آج کیا جاتا ہے، مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ آئندہ نکلتا ہے۔ اس لیے یہی درست بات ہے کہ عملی اقدام کو آئندہ کے معیار سے جانچا جائے۔ آج کی کارروائی کے ٹھیک یا بے ٹھیک ہونے کا فیصلہ اس اعتبار سے کیا جائے کہ کارروائی جب اپنے انجام پر پہنچے گی تو اس کا حاصل کس صورت میں ہمارے سامنے آئے گا۔

ایک شخص کو ایک بھِڑنے کاٹ لیا۔ اب وہ غصہ ہو کر ایسا کرے کہ بھِڑوں کو سزا دینے کے لیے بھڑکے چھتہّ میں اپنا ہاتھ ڈال دے۔ اگر کوئی آدمی ایسا کرے تو اس کے بعد اس کی یہ شکایت بے معنی ہوگی کہ پہلے تو صرف ایک بھِڑنے اس کو معمولی طریقہ پر کاٹا تھا۔ اب سینکڑوں بھِڑیں اس سے لپٹ گئیں اور اس کے سارے جسم کو ڈنک مار کر زخمی کر دیا۔

یہ دنیا دانش مندوں کے لیے ہے۔ نادانوں کے لیے یہاں اس کے سوا کوئی انجام نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے ایک اقدام کریں اور جب اس کا برا انجام سامنے آئے تو اس کے خلاف احتجاج کرنے بیٹھ جائیں۔

’’آج‘‘ کا صحیح مصرف آج کو قربان کرنا نہیں، بلکہ آج کو استعمال کرنا ہے۔ جو لوگ اس حکمت کو جانیں وہی اس دنیا میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ— اچھا سپاہی جنگ کے پہلے ہی دن لڑ کر مر نہیں جاتا، بلکہ وہ زندہ رہتا ہے تاکہ اگلے دن وہ دشمن سے لڑ سکے:

A good soldier lives to fight for the second day.

یہ قول صرف معروف قسم کی بڑی بڑی جنگوں کے لیے نہیں ہے۔ وہ روزانہ پیش آنے والے عام مقابلوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کسی کے ساتھ آپ کی اَن بَن ہو جائے اور آپ فوراً ہی اس سے آخری لڑائی لڑنے کے لیے کھڑے ہو جائیں تو آپ ایک ’’برے سپاہی‘‘ ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔

 اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر حالات میں آدمی’’پہلے دن‘‘ زیادہ موثر لڑائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو پہلے دن لڑائی کو اوائڈ کرے۔ وہ لڑائی کے میدان سے ہٹ کر اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوشش کرے۔ تاکہ یا تو اس کے مقابلے میں اس کا حریف اتنا کمزور ہو جائے کہ وہ لڑائی کے بغیر ہتھیار ڈال دے۔ یا وہ خود اتنا طاقت ور ہو جائے کہ وہ ہر معرکہ کو کامیابی کے ساتھ جیت سکے۔

اس اصول کی بہترین مثال اسلام کی تاریخ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ مدت کا نصف سے زیادہ حصہ مکہ میں گزارا۔ یہاں آپ کے مخالفین نے ہر قسم کا ظلم کیا۔ مگر آپ نے ان سے ٹکرائو نہیں کیا۔ آپ یک طرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔ مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب پھر انہوں نے ظلم کیا تو آپ نے اپنی فوج کو منظم کرکے ان سے جنگ کی۔ اس کے بعد دوبارہ حدیبیہ کے موقع پر جنگ سے رک گئے، اس کے بعد جلد ہی وہ وقت آیا کہ دشمن نے کسی لڑائی کے بغیر ہتھیار رکھ کر اپنی شکست مان لی۔

’’پہلے دن آپ نے دشمن کے خلاف صبر کیا۔‘‘ ’’دوسرے دن ‘‘ آپ نے دشمن سے مسلح مقابلہ کیا اور اس کے اوپر کامیابی حاصل کی۔ حدیبیہ کے’’دوسرے دن‘‘ تو مقابلہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ دشمن نے بلامقابلہ شکست مان کر اپنے ہتھیار رکھ دیے۔

بیس سال بعد

 ’’کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا‘‘—چھ لفظ کے اس جملہ کو آج ایک شخص چھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اپنی زبان سے ادا کر سکتا ہے۔ مگر اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس (Christopher Columbus) کو 20 پُرمشقت سال صرف کرنے پڑے۔

کرسٹوفر کولمبس 1451 میں اٹلی میں پیدا ہوا۔1506 میں اسپین میں اس کی وفات ہوئی۔ امریکہ کی دریافت حقیقۃً یورپ کے لیے مشرق کا سمندری راستہ دریافت کرنے کی کوشش کا ایک ضمنی حاصل(by-product) تھی۔ کولمبس نے 1484 میں پرتگال کے شاہ جان دوم(John II) سے درخواست کی کہ وہ اس بحری سفر کے لیے اس کی مدد کرے۔ مگر شاہ پرتگال نے اس کو بے فائدہ سمجھ کر مدد کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد کولمبس نے کیسٹلی(Castile) کی ملکہ ازبیلا(Isabella) سے مدد کی درخواست کی یہاں بھی اس کو مثبت جواب نہیں ملا۔ تاہم کولمبس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ یہاں تک کہ آٹھ سال کے بعد ملکہ نے اس کو کشتیاں اور ضروری سامان مہیا کر دیا۔ کولمبس نے تین کشتیوں کے ساتھ اپنا پہلا سفر3 اگست 1492 کو شروع کیا۔ تاہم اس سفر میں وہ امریکہ کے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ہر قسم کی مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود کولمبس اپنی کوشش میں لگا رہا۔

آخر کار چوتھے سفر کے بعد1504 میں وہ’’نئی دنیا‘‘ کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا (EB 10/691)۔ کولمبس سے پہلے دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ کولمبس کی دریافت نے (نئی اور پرانی) دونوں دنیائوں کو ملا کر ایک کر دیا۔ یہ بلاشبہ ایک عظیم دریافت تھی۔ مگر یہ دریافت صرف اس وقت ممکن ہو سکی جب کہ کولمبس اور اس کے ساتھی بے حوصلہ ہوئے بغیر 20 سال تک اس جان جوکھم منصوبہ کی تکمیل میں لگے رہے۔

 یہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے۔ اس دنیا میں ہر کامیابی’’20 سالہ‘‘ محنت مانگتی ہے۔ اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس دنیا میں ہر کامیابی لمبی جدوجہد کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ آدمی پہلے کم پر راضی ہوتا ہے، اس کے بعد وہ زیادہ تک پہنچتا ہے۔

نیل آرم اسٹرانگ پہلے شخص ہیں جنہوں نے چاند کا سفر کیا۔ 21 جولائی1969ء کو انہوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اتر کر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا۔ اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی ربط قائم تھا۔ چاند پر اترنے کے بعد انہوں نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے، مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے:

That`s one small step for man, but one giant leap for mankind.

آرم اسٹرانگ کا مطلب یہ تھا کہ میرا اس وقت چاند پر اترنا بظاہر صرف ایک شخص کا چاند پر اترنا ہے۔ مگر وہ ایک نئے کائناتی دور کا آغاز ہے۔ ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ انسان کے لیے چاند کا سفر ممکن ہے۔ یہ دریافت آئندہ آگے بڑھے گی۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا جب کہ عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارہ تک اسی طرح سفر کرنے لگیں جس طرح وہ موجودہ زمین کے اوپر کرتے ہیں۔

ہر بڑا کام موجودہ دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے۔ ابتداء ًایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح وہ انسانی سفر کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں۔ یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے۔ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکانے کے ہم معنی ہے۔ مگر جب یہ ابتدائی کام ہو جاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔ اب ایک ایسا کشادہ راستہ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے کہ انسانی قافلے بڑی تعداد میں اس پر سفر کر سکیں۔

کسان جب زمین میں ایک بیج ڈالتا ہے تو وہ گویا زراعت کی طرف ایک ’’چھوٹا قدم‘‘ ہوتا ہے تاہم اس چھوٹے قدم کے ساتھ ہی کسان کے زرعی سفر کا آغا ہو جاتا ہے۔ یہ سفر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے کہ اس کے کھیت میں ایک پوری فصل کھڑی ہوئی نظر آئے۔ یہی طریقہ تمام انسانی معاملات کے لیے درست ہے، خواہ وہ زراعت اور باغبانی کا معاملہ ہو یا اور کوئی معاملہ۔

چیلنج نہ کہ ظلم

ایڈمنڈبرک(Edmund Berke) کا قول ہے کہ جو شخص ہم سے لڑتا ہے وہ ہمارے اعصاب کو مضبوط کرتا ہے اور ہماری استعداد کو تیز بناتا ہے۔ ہمارا مخالف ہمارا مدد گار ہے:

He that wrestles with us, strengthens our nerves, and shapens our skill. Our antagonist is our helper.

یہ عین وہی بات ہے جو شیخ سعدی نے گلستاں کی ایک کہانی کے تحت تمثیلی طور پر اس طرح کہی ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ بلّی جب عاجز ہو جاتی ہے تو وہ اپنے چنگل سے شیر کی آنکھ نکال لیتی ہے:

نہ بینی کہ چوں گربہ عاجز شود            برآرد بہ چنگال چشم پلنگ

دوسروں کی طرف سے آپ کے خلاف کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کے ردعمل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اس کو ظلم سمجھیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اس کو چیلنج قرار دیں۔ ظلم سمجھنے کی صورت میں شکایت کا ذہن پیدا ہوتا ہے، اور چیلنج سمجھنے کی صورت میں مقابلہ کا۔

شکایتی ذہن کو اپنے کرنے کا کام صرف یہ نظر آتا ہے کہ وہ فریق ثانی کے خلاف چیخ پکار شروع کر دے۔ وہ اس کے خلاف اپنے تمام احتجاجی الفاظ استعمال کر ڈالے۔ اس کے برعکس، مقابلہ کا ذہن عمل کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ حالات کو سمجھ کر جوابی طریقہ تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے تاکہ حکمت اور تدبیر کے ذریعہ فریق ثانی کے مخالفانہ منصوبوں کو ناکام بنا دے۔

 شکایت اور احتجاج کا ذہن آدمی کو ایسے راستوں کی طرف لے جاتا ہے جہاں وہ اپنی بچی ہوئی قوت بھی بے فائدہ ہنگاموں میں ضائع کر دے۔ جب کہ چیلنج اور مقابلہ کا ذہن آدمی کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو جگاتا ہے، وہ اس کو نیا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ وہ اس کو اتنا عظیم بنا دیتا ہے کہ کمزور بھی طاقت ور پر غالب آ جائے، اور بلّی بھی شیر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے۔

 موجودہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے۔ یہاں شکایت کا ذہن آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے اور تدبیر کا ذہن تعمیر و ترقی کی طرف۔ آپ راستہ چل رہے ہیں۔ درمیان ایک جھاڑی کے کانٹے سے آپ کا دامن الجھ جاتا ہے۔ ایسے وقت میں آپ کیا کرتے ہیں۔ آپ ’’شکایت‘‘ کے بجائے ’’تدبیر‘‘ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ جھاڑی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے، بلکہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کون سی صورت اپنائیں جس سے مسئلہ حل ہو جائے۔

عقل مند آدمی جانتا ہے کہ یہی طریقہ اس کو انسان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا ہے۔ انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص سے ٹکرائو ہو جاتا ہے۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ کسی شخص کے متعلق ہمارا احساس ہوتا ہے کہ اس نے ہمارا حق ہم کو نہیں دیا۔ ایسے ہر موقع پر دوبارہ ہمیں شکایت کے بجائے تدبیر کا انداز اپنانا چاہیے۔

زندگی کا ہر مسئلہ ایک چیلنج ہے ، نہ کہ ایک شخص کے اوپر دوسرے شخص کی زیادتی۔ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آئے، اور آپ اس کو زیادتی سمجھیں تو اس سے شکایت اور احتجاج کا ذہن پیدا ہوگا۔ حتیٰ کہ یہ ذہن آپ کو یہاں تک لے جا سکتا ہے کہ آپ مایوسی کا شکار ہو جائیں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ موجودہ ماحول میں آپ کے لیے کچھ کرنا ممکن ہی نہیں۔ شکایت کا ذہن مایوسی تک لے جاتا ہے، اور مایوسی کا ذہن نفسیاتی خودکشی تک۔

اس کے برعکس، اگر آپ کا یہ حال ہو کہ جب کوئی مسئلہ پیش آئے تو آپ اس کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھیں، تو اس سے آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔ آپ کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ اول الذکر صورت میں آپ کا ذہن اگر منفی رخ پر چل رہا تھا تو اب آپ کا ذہن تمام تر مثبت رخ پر چل پڑے گا— یہی ایک لفظ میں، موجودہ دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا راز ہے۔ اس دنیا میں جو شخص مسائل سے شکایت اور احتجاج کی غذا لے، اس کے لیے یہاں بربادی کے سوا کوئی اور چیز مقدر نہیں۔ اس کے برعکس جس شخص کا حال یہ ہو کہ مسائل کا سامنا پیش آنے کے بعد اس کا ذہن تدبیر تلاش کرنے میں لگ جائے۔ وہ لازماً کامیاب ہو کر رہے گا، کیوں کہ اس دنیا میں ہر مسئلہ کا ایک حل ہے، اور ہر مشکل کی ایک تدبیر۔

غیر معمولی انسان

وان وورسٹ(Bruce van Voorst) ایک امریکی جرنلسٹ ہے۔ اس نے جنگی رپورٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ہے۔ ڈامی نیکن(Dominican Republic) کی جنگ، ایرانی انقلابیوں کی شاہ کے خلاف جنگ، عراق اور ایران کی جنگ اور خلیجی جنگ(1991ء) میں اس نے میدان جنگ میں پہنچ کر براہ راست رپورٹنگ کی ہے۔

ٹائم میگزین(4 فروری1991ء) میں وان وورسٹ کے کچھ تجربات شائع کیے گئے ہیں۔ اس نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک بات جنگ کے وقت فوجیوں کی صفت(Quality) اور سالمیت(Integrity) کے بارے میںتھی۔ اس نے کہا کہ جب جنگی مقابلہ جاری ہو تو فوجی حیرت انگیز طور پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ مشکلات سے بے پروا ہو کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جنگ میں یہ فوجی عام فوجی نہیں ہوتے، وہ سب کے سب غیر معمولی لوگ بن جاتے ہیں:

In battle there are no ordinary soldiers, they are all extraordinary. (p.4)

امریکی صحافی نے جو بات فوجیوں کے بارے میں کہی، وہ ہر انسان اور ہر مقابلہ کے لیے یکساں طور پر صحیح ہے۔ انسان کے اندر پیدائشی طور پر بے شمار صلاحیتیں ہیں۔ عام حالات میں یہ صلاحیتیں سوئی ہوئی رہتی ہیں۔ مگر جب کوئی خطرہ پیش آتا ہے، جب چیلنج کی صورت حال سامنے آتی ہے تو اچانک انسان کی تمام سوئی ہوئی صلاحیتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ اس سے پہلے اگر اس کے’’پاور ہائوس‘‘ کا صرف ایک بلب جل رہا تھا تو اب اس کے تمام بلب بیک وقت جل اٹھتے ہیں۔

اب اس کی عقل زیادہ گہری سوچ کا ثبوت دیتی ہے۔ اس کا جسم مزید طاقتوںکے ساتھ متحرک ہو جاتا ہے۔ اس کی پوری ہستی ایک ہیروانہ کردار کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ چیلنج کمزور انسان کو طاقتور انسان بنا دیتا ہے۔ وہ نادان آدمی کو ہوشیار آدمی بنا دیتا ہے۔ چیلنج بظاہر ایک رکاوٹ ہے، مگر اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ اعلیٰ ترین ترقی کا سب سے بڑا زینہ ہے— مقابلہ پیش آنے سے پہلے ہر انسان ایک معمولی انسان ہے، مگر مقابلہ پیش آنے کے بعد ہر انسان غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔

جہاں اسکوپ نہ ہو وہاں زیادہ اسکوپ ہوتا ہے۔ جہاں بظاہر مواقع نہ ہوں وہاں اور زیادہ بڑے مواقع آدمی کے لیے چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ایک مسلم نوجوان ہیں، ان کے کچھ رشتہ دار امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ امریکہ گئے۔ وہاں تعلیم حاصل کی۔ دو سال تک امریکہ میں ملازمت بھی کی۔ پھر انہیں خیال آیا کہ اپنے ملک میں آئیں اور یہاں اپنی زندگی کی تعمیر کریں چنانچہ وہ ہندستان واپس آگئے۔

ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان واپس آ کر ذہنی انتشار میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ یہاں جو میرے دوست اور رشتہ دار ہیں، وہ سب کہہ رہے ہیں کہ تم نے بہت نادانی کی کہ تم امریکہ چھوڑ کر ہندوستان آگئے۔ وہاں تم کو ترقی کے بڑے بڑے مواقع مل سکتے تھے۔ یہاں تو تمہارے لیے کوئی اسکوپ نہیں۔

  میں نے جواب دیا کہ آپ کے دوست اور رشتہ دار سب الٹی باتیں کر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہندوستان میں اسکوپ نہیں، اسی لیے تو یہاں اسکوپ ہے۔ ہندوستان میں آپ کے لیے ترقی کے وہ تمام مواقع ہیں جو امریکہ میں ہیں، بلکہ یہاں آپ امریکہ سے بھی زیادہ بڑی ترقی کر سکتے ہیں۔

اصل یہ ہے کہ ترقی کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ ایک، خارجی مواقع۔ دوسرے، اندرونی امکانات۔ خارجی مواقع سے مراد وہ مواقع ہیں جو آپ کے وجود کے باہر خارجی دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اندرونی امکانات سے مراد وہ فطری استعداد ہے جو آپ کے ذہن اور آپ کے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے۔

 عام طور پر لوگوں کی نگاہ دنیا کے خارجی مواقع پر ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں ملک میں مواقع ہیں اور فلاں ملک میں مواقع نہیں ہیں۔ مگر ترقی کے لیے اس سے بھی زیادہ اہمیت ان صلاحیتوں کی ہے جو فطرت سے ہر آدمی کو ملی ہوئی ہیں۔ کوئی بھی آدمی ان سے خالی نہیں۔

 جب زندگی کی مشکلیں آدمی کو چیلنج کرتی ہیں تو اس کی چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ حالات کا جھٹکا انہیں جگا کر متحرک کر دیتا ہے۔ یہ بیداری کسی انسان کی زندگی میں اس کی ترقی کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکہ میں یہ اسکوپ ہے کہ وہاں خارجی مواقع موجود ہیں۔ ہندستان میں یہ اسکوپ ہے کہ یہاں چیلنج کی صورت حال پائی جاتی ہے جو آدمی کی فطری صلاحیتوں کو آخری حد تک جگا دیتی ہے۔ اور پہلے اسکوپ کے مقابلے میں دوسرا اسکوپ بلاشبہ کہیں زیادہ قیمتی ہے۔

وقت کی اہمیت

لارڈ چسٹرفیلڈ(Lord Chesterfield)1694ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ اور 1773ء میں وہیں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اپنے لڑکے فلپ اسٹین ہوپ کے نام بہت سے خطوط لکھے تھے۔ ان خطوط میں زندگی کی کامیابی کا ’’آرٹ‘‘ بتایا گیا تھا۔ یہ خطوط اس کے بعد چھاپ دیے گئے ہیں۔

 ایک خط میں لارڈ چسٹر فیلڈ نے لکھا— میں نے تم سے کہا ہے کہ تم منٹوں کی حفاظت کرو، کیوں کہ گھنٹے اپنے آپ اپنی حفاظت کر لیں گے:

I recommended you take care of the minutes, for the hours will take care of themselves.

اگر آپ اپنے منٹ کو ضائع نہ کریں تو گھنٹہ اپنے آپ ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ کیوں کہ منٹ منٹ کے ملنے ہی سے گھنٹہ بنتا ہے۔ جس آدمی نے جزء کا خیال رکھا، اس نے گویا کُل کا بھی خیال رکھا۔ کیوں کہ جب بہت سا جزء اکٹھا ہوتا ہے تو وہی کل بن جاتا ہے۔

بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ زیادہ کی فکر میں کم کو بھولے رہتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن کو بہت کی طرف اتنا زیادہ لگاتے ہیں کہ تھوڑے کی طرف سے ان کی نگاہیں ہٹ جاتی ہیں۔ مگر آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں کچھ بھی نہیں ملتا۔ اپنے ملے ہوئے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیجیے۔ لمحوں کو استعمال کرکے آپ مہینوں اور سالوں کے مالک بن سکتے ہیں۔ اگر آپ نے لمحوں کو کھویا تو اس کے بعد آپ مہینوں اور سالوں کو بھی یقینی طور پر کھودیں گے۔

اگر آپ روزانہ اپنے ایک گھنٹہ کا صرف پانچ منٹ کھوتے ہوں تو رات دن کے درمیان آپ نے روزانہ2 گھنٹہ کھو دیا۔ مہینہ میں60 گھنٹہ اور سال میں720 گھنٹے آپ کے ضائع ہوگئے۔ اسی طرح ہر آدمی اپنے ملے ہوئے وقت کا بہت سا حصہ بیکار ضائع کر دیتا ہے۔80 سال کی عمر پانے والا آدمی اپنی عمر کے 40 سال بھی پوری طرح استعمال نہیں کر پاتا۔

وقت آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ وقت کو ضائع ہونے سے بچایئے۔

 ہر بڑی کامیابی چھوٹی کامیابی کے مجموعہ کا نام ہے۔ چھوٹی کامیابی پر راضی ہو جایئے۔ اس کے بعد آپ بڑی کامیابی بھی ضرور حاصل کر لیں گے۔

 مولوی لطف اللہ ایک معمولی ٹیوٹر تھے۔ وہ1802ء میں مالوہ کے قدیم شہر دھارا نگر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کسی انگریزی درس گاہ میں ایک دن بھی نہیں پڑھا۔ مگر ان کی خود نوشت انگریزی سوانح عمری1857ء میں لندن سے چھپی۔ لندن کے پبلشر اسمتھ ایلڈرا اینڈ کمپنی نے اس کانام یہ رکھا:

Autobiography of Lutfullah: A Mohammedan Gentleman

اس کتاب کے ساتھ ایک انگریز مسٹر ایسٹ ویک کا دیباچہ شامل ہے۔ انہوں نے دیباچہ میں مصنف کی صحیح انگریزی کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ایک ہندوستانی نے بدیسی زبان میں اتنی ضخیم کتاب کس طرح لکھی۔ مولوی لطف اللہ نے یہ صلاحیت کیسے پیدا کی کہ وہ انگریزی میں ایک ایسی کتاب لکھیں جو لندن سے چھپے اور انگریز ادیب اس کی زبان کی تعریف کرے، اس کا راز اردو کے اس مشہور مقولہ میں چھپا ہوا ہے تھوڑا تھوڑا بہت ہو جاتا ہے۔

 مولوی لطف اللہ نے انگریزی زبان صرف اپنی محنت سے سیکھی۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازموں کو ہندوستانی، فارسی اور مرہٹی زبانیں سکھاتے تھے۔ ان کے انگریز شاگردوں کی تعداد سو سے اوپر تھی۔ انگریزوں سے تعلق کے نتیجہ میں ان کے اندر انگریزی زبان سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے ذاتی مطالعہ سے انگریزی زبان پڑھنا شروع کیا۔ اور آٹھ سال کی لگاتار محنت کے نتیجہ میں اس پر پوری طرح قدرت حاصل کر لی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس آٹھ سال کی مدت میں’’کوئی ایک رات ایسی نہیں گزری جب کہ سونے سے پہلے میں نے انگریزی کے دس لفظ یاد نہ کیے ہوں اور ڈاکٹر گل کِرسٹ کی قواعد کی کتابوں کے چند صفحے توجہ سے پڑھ کر ذہن میں محفوظ نہ کیے ہوں۔‘‘’’دس لفظ‘‘ بظاہر بہت کم معلوم ہوتے ہیں۔ مگر دس لفظ روزانہ کی رفتار کو جب آٹھ سال تک پھیلا دیا جائے تو وہ ایک شخص کو غیر زبان کا ایسا ادیب بنا دیتے ہیں کہ اہل زبان بھی اس کی زبان دانی کا اعتراف کریں۔

شیر کا طریقہ

ٹائمس آف انڈیا(18 مارچ 1991ء) میں شیر کے بارے میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ شیر جنگل کی گھاس پر چلنا پسند نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کوئی کانٹا ان کے نرم پائوں میں نہ چبھ جائے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ کھلے راستوں پر یا سڑکوں پر چلتے ہیں:

Tigers hate to walk on the jungle grass for the fear of a thorn piercing their soft feet. Thus, they always walk on open paths and roads.

 شیر اور دوسرے تمام جانور فطرت کے مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ وہ ہمیشہ اس طریقہ پر چلتے ہیں جو ان کے خالق نے براہ راست طور پرانہیں بتایا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ شیر کا مذکورہ طریقہ فطرت کا پسندیدہ طریقہ ہے۔ شیر کے لیے یہ احتیاطی طریقہ اس کی طینت میں رکھ دیا گیا ہے۔ اور انسان کے لیے شریعت کی زبان میں یہی بات ان لفظوں میں کہی گئی کہ خُذُوا حِذْرَكُمْ (4:71)۔ یعنی، اپنے بچائو کا انتظام رکھو۔

اللہ تعالیٰ نے جس خاص مصلحت کے تحت موجودہ دنیا کو بنایا ہے، اس کی بنا پر یہاں صاف ستھرے راستے بھی ہیں، اور کانٹے دار جھاڑیاں بھی۔ یہ کانٹے دار جھاڑیاں لازماً اس دنیا میں رہیں گی، ان کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ اب یہاں جو کچھ کرنا ہے، وہ وہی ہے جو خدا کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق جنگل کا شیر کرتا ہے، یعنی کانٹے دار جھاڑیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور صاف اور کھلا ہوا راستہ تلاش کرکے اس پر اپنا سفر جاری کیا جائے۔

شیر جنگل کی گھاس سے اعراض کرتے ہوئے چلتا ہے، اسی طرح ہم کو انسانوں کے فتنہ سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفر حیات طے کرنا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے کسی عمل سے دوسروں کو غصہ نہ دلائیں۔ اور اگر دوسرے لوگ ہمارے اوپر غضب ناک ہو جائیں تو صبر کے ذریعہ ان کے غضب کو ٹھنڈا کریں۔ اور حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اپنے آپ کو ان کے غضب کا شکار ہونے سے بچائیں۔

’’جنگل کا بادشاہ ‘‘ جو کچھ کرتا ہے وہ بزدلی نہیں ہے، بلکہ عین بہادری ہے۔ اسی طرح ایک انسان اپنے سماج میں یہی طریقہ اختیار کرے تو وہ بزدلی نہیں ہوگا بلکہ عین بہادری ہوگا۔ اعراض کا طریقہ شیر کا طریقہ ہے، نہ کہ گیڈر کا طریقہ۔  خداوند عالم کا ایک ہی قانون ہے، جو انسانوں سے بھی مطلوب ہے ،اور غیر انسانوں سے بھی۔ اور وہ ہے ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔ گلاب کے پھولوں کا ایک باغ ہے۔ آپ اس میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی خوبصورت پتیاں اور اس کے خوشبودار پھول آپ کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے کانٹے آپ کو لگ جاتے ہیں۔ آپ کا ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے یا آپ کے کپڑے کانٹوں میں پھنس جاتے ہیں۔

اب ایک صورت یہ ہے کہ گلاب کے باغ میں کانٹوں کی موجودگی کو آپ باغبان کا فعل قرار دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ یہ جانیں کہ یہ کانٹے قدرت کے قانون کا نتیجہ ہیں۔ اگر آپ کانٹوں کی موجودگی کا سبب باغبان کو سمجھیں تو آپ کے اندر نفرت اور شکایت کا ذہن ابھرے گا، اور اگر آپ اس کو قانون قدرت کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کانٹوں کی موجودگی کو بطور حقیقت تسلیم کرتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ اس سے اعراض کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کریں۔ ایک تشخیص سے احتجاج کا ذہن ابھرے گا اور دوسری تشخیص سے تدبیر تلاش کرنے کا۔

ہندوستان میں اکثریتی فرقہ کی طرف سے جو قابل شکایت باتیں پیش آتی ہیں، ان کو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ احتجاج کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سراسر عبث ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گلاب کے کانٹوں کے خلاف شوروغل کیا جائے گا۔ گلاب کے درخت میں کانٹے بہرحال رہیں گے، اسی طرح انسانی سماج میں ایک سے دوسرے کو تلخ باتیں بھی ضرور پیش آئیں گی۔

ان تلخ اور قابل شکایت باتوں کا حل صرف ایک ہے۔ ان سے اعراض کرنا، ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفر حیات پر رواں دواں رہنا۔ اس قسم کے سماجی مسائل خود خدا کے تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہیں، اس لیے وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ البتہ ان کی موجودگی کو گوارا کرکے ہم اپنی زندگی کے سفر کو ضرور جاری رکھ سکتے ہیں۔

نادان آدمی ناموافق باتوں سے الجھتا ہے، دانش مند آدمی ناموافق باتوں سے دامن بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہی ایک لفظ میں، اس دنیا میں ناکامی اور کامیابی کا راز ہے۔ یہاں الجھنے کا انجام ناکامی ہے اور نظر انداز کرنے کا انجام کامیابی۔

خون کے بجائے پانی

محمد افضل لادی والا(35 سال) بمبئی کے رہنے والے ہیں۔24 فروری1991ء کی ملاقات میں انہوں نے اپنا ایک واقعہ بتایا۔22 جنوری1991 کو رنگ بھون(دھوبی تلائو) میں ایک کلچرل پروگرام تھا۔ افضل صاحب نے اس میں شرکت کی۔ ساڑھے گیارہ بجے رات کو یہ پروگرام ختم ہوا۔ اس سے فارغ ہو کر وہ بمبئی وی ٹی پر آئے اور ٹرین کے ذریعہ کرلا پہنچے۔ اس وقت تقریباً ساڑھے بارے بجے کا وقت ہو چکا تھا۔ اسٹیشن سے رہائش گاہ(ہلائو پل) تک تقریباً دو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ انہوں نے چاہا کہ تھری وھیلر کے ذریعہ گھر کے لیے روانہ ہوں۔ تھری وھیلر کے انتظار میں وہ سڑک پر کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں ایک تھری وھیلر آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس وقت ان کے منہ میں پان تھا۔ تھری وھیلر کو آواز دینے کے لیے انہوں نے جلدی میں پان کو تھوکا۔ اتفاق سے عین اسی وقت ایک مسافر سائڈ میں آگیا اور افضل صاحب کا پان پورا کا پورا اس کے پائوں پر جاگرا۔

مسافر فوراً آگ بگولا ہوگیا۔ طیش میں آ کر اس نے کہا کہ پان کھاتے ہو اور پان کھانے کی تمیز بھی نہیں۔ مگر افضل صاحب، جو الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، انہوں نے گرم الفاظ کا جواب ٹھنڈے الفاظ سے دیا۔ انہوں نے کہاکہ میں اپنی غلطی کا اقرار کرتا ہوں۔ پان کھانا بھی غلط، اور پان کھا کر میں نے جو کچھ کیا وہ بھی غلط۔ وہ آدمی تیز ہوتا گیا۔ مگر افضل صاحب نے اس کی اشتعال انگیز باتوں کا جواب دینے کے بجائے کہا کہ مجھے معاف کیجیے۔ اس نے کہا کہ یہ اچھا ہے کہ کسی کے ساتھ کچھ بھی کر دو، اس کے بعد کہو کہ معاف کر دو۔

افضل صاحب نے کہا کہ بھائی میں رسمی معافی نہیں مانگ رہا ہوں۔ میں دل سے معافی مانگ رہا ہوں۔ اب آپ مجھے اجازت دیجیے کہ میں آ پ کے پائوں دھوئوں۔ افضل صاحب نے جب پائوں دھونے کی بات کہی تو آدمی کچھ نرم پڑا۔ کچھ اور باتوں کے بعد آخر کار وہ راضی ہوا کہ افضل صاحب اس کا پائوں دھو دیں۔ قریب ہی ایک چائے وغیرہ کا ہوٹل تھا۔ افضل صاحب فوراً اس کے پاس گئے اور کہا کہ’’چچا، ایک گلاس پانی دینا‘‘ افضل صاحب گلاس لے کر آئے تو آدمی بالکل ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو دیجیے، میں خود اپنے ہاتھ سے دھو لیتا ہوں۔

آدمی نے اپنے ہاتھ میں گلاس لے کر دھویا۔ ایک گلاس سے پوری صفائی نہیں ہوئی تو افضل صاحب دوڑ کر گئے اور ایک گلاس مزید پانی لے آئے۔ یہاں تک کہ اس کا پائوں پوری طرح صاف ہوگیا۔ یہ واقعہ ریلوے اسٹیشن کے باہر پیش آیا۔ گفتگو کے دوران افضل صاحب نے اس آدمی سے کہابھائی صاحب، آپ تو’’میم‘‘ہیں، اگر آپ’’کاف‘‘ ہوتے تب بھی مجھے یہی کرنا تھا۔ کیوں کہ اسلام نے ہم کو ایسا ہی حکم دیا ہے۔ یہ سن کر وہ آدمی افضل صاحب سے لپٹ گیا۔ اس نے کہا کہ بھائی صاحب، میں کاف ہی ہوں۔ اور آپ جیسا مسلمان مجھے اپنی زندگی میں پہلی بار ملا ہے۔ اور اگر دوسرے مسلمان بھی آپ جیسے ہو جائیں تو سارا جھگڑا ختم ہو جائے۔

 اب وہ آدمی بالکل بدل گیا۔ پہلے اس کے اندر غصہ اور انتقام بھڑک اٹھا تھا۔ اب وہ شرمندہ ہو کر افضل صاحب سے کہنے لگا کہ بھائی مجھ کو معاف کرنا۔ آپ کو میں نے بڑی تکلیف دی۔ میری وجہ سے آپ کو پانی لانا پڑا۔ آپ کا تھری وھیلر بھی چھوٹ گیا۔ افضل صاحب نے کہا کہ مجھ کو شرمندہ نہ کیجیے۔ اس معاملہ میں اصل غلطی تو میری تھی، اور میں جو پانی لایا، وہ میرا فرض تھا جو میں نے کیا۔ واقعہ کے شروع میں جو آدمی دوسرے کو غلط بتا رہا تھا۔ واقعہ کے آخر میں وہ خود اپنی غلطی مان کر شرمندہ ہوگیا اور معافی مانگنے لگا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت بمبئی کے علاقہ جوگیشوری میں زبردست فرقہ وارانہ کشیدگی موجود تھی۔ یہ مقام کُرلا سے تقریباً15 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ان حالات میں اگر افضل صاحب اشتعال کے جواب میں اشتعال کا انداز اختیار کرتے تو وہی ہوتا جو اس طرح کے مواقع پر دوسری بہت سی جگہوں میں ہو چکا ہے۔ یعنی فرقہ وارانہ فساد اور جان و مال کی تباہی۔ اس کے بعد شاید ایسا ہوتا کہ افضل صاحب خدانخواستہ گھر پہنچنے کے بجائے ہسپتال لے جائے جاتے اور علاقہ میں ہندو مسلم فساد برپا ہو کر سیکڑوں خاندانوں کو برباد کر دیتا۔

افضل صاحب نے یہ واقعہ بتانے کے بعد کہا:اس وقت مجھے الرسالہ کی بات یاد آئی۔ یہ الرسالہ کے دیے ہوئے ذہن کا نتیجہ تھا کہ میں اشتعال کے موقع پر مشتعل ہونے سے بچ گیا، اور نتیجۃً اس کے برے انجام سے بھی۔ میرے گلاس بھر پانی نے سینکڑوں لوگوں کو اس بھیانک انجام سے بچا لیا کہ ان کا خون سڑکوں پر بہایا جائے۔ ایک قسم کے الفاظ بول کر آپ آدمی کے ذہن کو غصہ کا تنور بنا سکتے ہیں۔ اور دوسرے قسم کے الفاظ بول کر آدمی کے بھڑکتے ہوئے غصہ کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔ الفاظ آگ کا کام بھی کرتے ہیں اور برف کا کام بھی۔ یہ بولنے والے کے اپنے اوپر ہے کہ وہ دونوں میں سے کس چیز کا اپنے لیے انتخاب کرتا ہے۔

آسان حل

الطاف حسین حالی پانی پتی(1837-1914) ایک انقلابی ذہن کے آدمی تھے۔ انہوں نے اردو ادب میں اصلاح کی تحریک چلائی۔ انہوں نے قدیم اردو شاعری پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو شاعری مبالغہ اور عشق و عاشقی اور فرضی خیال آرائی کا مجموعہ ہے۔ اس کے بجائے اس کو بامقصد شاعری ہونا چاہیے۔ اس کا ایک نمونہ انہوں نے خود’’مسدس‘‘ کی صورت میں پیش کیا۔

حالی کی یہ تنقید ان لوگوں کو بہت بری لگی جو اردو شاعری پر ناز کرتے تھے اور اس کو اپنے لیے فخر بنائے ہوئے تھے۔ چنانچہ حالی کے خلاف نہایت نازیبا قسم کے مضامین شائع ہونا شروع ہوئے۔ لکھنؤ کا اخبار’’اودھ پنچ‘‘ اکثر نہایت برے انداز میں ان کے خلاف لکھتا  اور اس کا عنوان ان الفاظ میں قائم کرتا:

ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے           میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے

حالی نے ان بے ہودہ مخالفتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرتے رہے۔ آخر کار چند سال کے بعد وہ لوگ تھک کر چپ ہوگئے۔ کسی نے حالی سے سوال کیا کہ آپ کے مخالفین کیسے خاموش ہوگئے۔ اس کے جواب میں حالی نے کسی کا نام لیے بغیر یہ شعر کہا:

کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چپ

سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا

جھوٹی مخالفتوں کا سب سے زیادہ آسان اور کارگر جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔ جھوٹی مخالفت ہمیشہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ اس کے لیے مقدر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ ڈھ پڑے۔ ایسی مخالفت کا جواب دینا گویا اس کی مدّتِ عمر میں اضافہ کرنا ہے۔ اگر آدمی صبر کر لے تو بے جڑ درخت کی طرح ایک روز وہ اپنے آپ گر پڑے گی۔ وہ کبھی دیر تک خدا کی زمین پر قائم نہیں رہ سکتی۔

جھوٹ کا سب سے بڑا قاتل وقت ہے۔ آپ آنے والے وقت کا انتظار کیجیے۔ اور اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ وقت نے اس فتنہ کو زیادہ کامل طور پر ہلاک کر دیا ہے جس کو آپ صرف ناقص طور پر ہلاک کرنے کی تدبیر کر رہے تھے۔ اس تدبیر کا تعلق کسی ایک معاملہ سے نہیں۔ جس معاملہ میں بھی خاموش انتظار کی یہ تدبیر اختیار کی جائے گی، آخر کار وہ کار گر ثابت ہوگی۔

 کچھ عیسائیوں نے دہلی کے پُلوں اور دیواروں پر کالے رنگ سے انگریزی میں یہ فقرہ لکھ دیا کہ مسیح جلد آنے والے ہیں(Jesus is coming soon) اس کے بعد کچھ ہندو نوجوانوں میں جوابی جوش پیدا ہوا۔ انہوں نے مذکورہ فقرہ کے آگے ہر جگہ یہ الفاظ لکھ دیئے کہ ہندو بننے کے (To become Hindu) جملہ کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ پڑھے لکھے ہندوئوں کا فعل نہیں تھا۔ کیوں کہ انگریزی کے اعتبار سے صحیح جملہ یوں ہوگا:

To become a Hindu

اسی قسم کا واقعہ اگر کسی شہر میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آتا تو فوراً کچھ سطحی قسم کے لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے کہ یہ توہینِ رسول ہے۔ یہ مسلمانوں کی دل آزاری ہے، یہ ہماری ملّی غیرت کو چیلنج ہے۔ اس کے بعد کچھ مسلم نوجوان مشتعل ہو کر جوابی کارروائی کرتے اور پھر شہر کے اندر ہندو مسلم فساد ہو جاتا۔ اب نام نہاد مسلم لیڈر بیانات دے کر انتظامیہ کا نکما پن ثابت کرتے۔ ریلیف فنڈ کھول کر کچھ لوگ ملّی خدمات کا کریڈٹ لینا شروع کر دیتے۔ مسلمانوں کے اردو اخبارات میں گرما گرم سرخیاں چھپتیں جس کے نتیجہ میں ان کی اشاعت بڑھ جاتی۔ اور جہاں تک مسلم عوام کا تعلق ہے، ان کے حصہ میں اس کے سوا کچھ اور نہ آتا کہ ان کی بربادی میں مزید اضافہ ہو جائے۔ مگر عیسائیوں نے اس ’’اشتعال انگیز کارروائی‘‘ کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ واقعہ محض ایک بے واقعہ(non-event) بن کر رہ گیا۔

19فروری1990 کی صبح کو میں اوبرائے ہوٹل (نئی دہلی) کے پاس فلائی اور پرکھڑا ہوا اس کی دیواروں پر یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ پُل کے دونوں طرف کی کشادہ سڑک پر سواریاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ کسی کو بھی یہ فرصت نہ تھی کہ وہ ٹھہر کر پُل کے اوپر لکھے ہوئے ان الفاظ کو پڑھے۔ یہ الفاظ پُل کی دیواروں پر ناقابل التفات نشان کے طور پر صرف اس بات کے منتظر تھے کہ بارش کا پانی اور ہوائوں کا جھونکا ان کو مٹا دے، اس سے پہلے کہ کوئی ان کو پڑھے یا ان سے کوئی اثر قبول کرے۔

 جو’’اشتعال انگیزی‘‘ اتنی بے حقیقت ہو، اس پر جو لوگ مشتعل ہو کر فساد کے اسباب پیدا کرتے ہیں وہ بلاشبہ تمام نادانوں سے زیادہ نادان ہیں۔

علم کی اہمیت

جیفرسن(Thomas Jefferson) امریکہ کا تیسرا صدر تھا۔ وہ 1743 میں پیدا ہوا اور 1826 میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ 1801ء سے لے کر1809 تک امریکہ کا صدر رہا۔ جیفر سن نہایت قابل آدمی تھا۔ وہ انگریزی، لاطینی، یونانی، فرانسیسی، اسپینی، اطالوی اور اینگلو سیکسن زبانیں جانتا تھا۔ مؤرخین اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی غیر معمولی قسم کا صاحب علم آدمی تھا:

He was an extraordinary, learned man (EB 10/130).

اس نے اپنی طویل عمر میں فلسفہ اور سائنس سے لے کر مذہب تک تقریباً تمام علوم کا گہرا مطالعہ کیا۔ آخر عمر میں اس نے یہ کوشش کی کہ وہ انجیل کا تجزیہ کرے اور یہ معلوم کرے کہ حضرت مسیح نے واقعۃً کیا کہا تھا اور بیان کرنے والوں نے ان کے بارے میں کیا بیان کیا:

He attempted an analysis of the New Testament in order to discover what Jesus really said as distinguished from what he was reported to have said.

جیفرسن نے آخر عمر میں یہ وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر جوکتبہ لگایا جائے اس میں یہ نہ لکھا جائے کہ وہ امریکہ کا صدر تھا۔ بلکہ یہ لکھا جائے کہ وہ ورجینیا یونیورسٹی کا بانی تھا۔ چنانچہ اس کی وصیت کے مطابق اس کی قبر (Monticello) پر جو کتبہ لگا ہوا ہے اس میں یہ الفاظ درج ہیں:

Here was buried Thomas Jefferson....father of the University of Verginia (EB 10/131).

حقیقت یہ ہے کہ علم سب سے بڑی دولت ہے۔ جو لوگ علم کی اہمیت کو جان لیں، ان کو امریکہ کی صدارت بھی ہیچ معلوم ہوگی۔ علم سب سے بڑی دولت ہے۔ علم ہی وہ واحد چیز ہے جس سے آدمی کبھی نہیں اکتاتا، جس کی حد کبھی کسی کے لیے نہیں آتی۔ علم ہر معاملہ میں کارآمد ہے۔ وہ ہر میدان میں کامیابی کا زینہ ہے۔ علم سے آدمی کو وہ شعور ملتا ہے جس سے وہ دنیا کو جانے۔ جس سے وہ باتوں کو ان کی گہرائی تک سمجھ سکے۔ علم ایسا سکہ ہے جس سے آپ دنیا کی ہر چیز خرید سکتے ہیں۔ علم ہر قسم کی ترقی کا راز ہے، فرد کے لیے بھی اور قوم کے لیے بھی، جس کے پاس علم ہو اس کے پاس گویا ہر چیز موجود ہے۔

جناب عبدالرحمن انتولے(بیرسٹرایٹ لا، اور سابق چیف منسٹر مہاراشٹر) نے 5 فروری 1987ء کی ملاقات میں ایک واقعہ بتایا۔ غالباً1954ء کی بات ہے۔ اس وقت وہ لندن کی کونسل آف لیگل ایجوکیشن میں قانون کے طالب علم تھے۔ ایک لیکچر کے دوران ایک قانونی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے انگریز پروفیسر نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا۔

پروفیسر نے بتایا کہ ایک بڑا صنعتی کارخانہ چلتے چلتے ا چانک بند ہوگیا۔ کارخانہ کے انجینئر اس کو دوبارہ چلانے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ آخر ایک بڑے ایکسپرٹ کو بلایا گیا وہ آیا تو اس نے کارخانہ کا ایک رائونڈ لیا۔ اس نے اس کی مشینیں دیکھیں۔ اس کے بعد وہ ایک جگہ رک گیا۔ اس نے کہا کہ ایک ہتھوڑا لے آئو۔ ہتھوڑا لایا گیا تو اس نے ایک مقام پر ہتھوڑے سے مارا۔ اس کے بعد مشین حرکت میں آگئی اور کارخانہ چلنے لگا۔

مذکورہ ایکسپرٹ نے واپس جا کر ایک سو پونڈ کا بل بھیج دیا۔ کارخانہ کے منیجر کو یہ بل بہت زیادہ معلوم ہوا۔ اس نے ایکسپرٹ کے نام اپنے خط میں لکھا کہ آپ نے تو کوئی کام کیا نہیں، یہاں آکر آپ نے صرف ایک ہتھوڑا مار دیا۔ اس کے لیے ایک سو پونڈ کا بل ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ براہ کرم آپ ہمارے نمائندہ کو مزید اور زیادہ بہتر تفصیلات عطا فرمائیں:

Please furnish my client with further and better particulars.

اس کے جواب میں مذکورہ ایکسپرٹ نے لکھا کہ میں نے جو بل روانہ کیا تھا وہ بالکل صحیح ہے۔ اصل یہ ہے کہ 99 پونڈ اور 19شلنگ تو یہ جاننے کے لیے ہیں کہ مشین میں غلطی کیا ہے اور کہاں ہے، اور ایک شلنگ ہتھوڑا اٹھا کر مارنے کے لیے:

99.19 to diagnose the disease and one shilling to pick up the hammer and to strike at the right spot.

اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمت علم کی ہے۔ سو میں ایک اگر محنت کی قیمت ہو تو سو میں ننانوے علم کی قیمت قرار پائے گی۔

محرومی کے بعد بھی

سموئل بٹلر(Samuel Butler) انیسویں صدی کا مشہور انگریز مصنف ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ زندگی اس فن کا نام ہے کہ ناکافی مقدمات سے کافی نتائج اخذ کیے جائیں:

Life is the art of drawing sufficient conclusions from insufficient premises.

سموئل بٹلر نے یہ بات فطری تعقل کے تحت کہی ہے۔ مگر زندگی کے بارے میں شریعت نے جو تصور دیا ہے وہ بھی عین یہی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں خدا نے جو نظام بنایا ہے، اس میں آسانی کے ساتھ مشکل لگی ہوئی ہے(إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا)94:6۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ایک پہاڑی راستہ کو دیکھا جس کا نام لوگوں نے الضَّیْقَۃْ(دشوار) رکھ دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ اس کا نام تو الیُسریٰ(آسان) ہے (مغازی الواقدی، جلد3، صفحہ925)۔ گویا اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی عسر میں یسر کو دریافت کرے۔ وہ دشوار گزار راستہ کو آسان راستہ کے روپ میں دیکھ سکے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس تعلیم کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آپ کو سخت ترین مشکلات پیش آئیں، مگر آپ نے حکیمانہ تدبیر سے ان کو اپنے حق میں آسان بنا لیا۔ آپ نے ڈس ایڈوانٹج (disadvntage)کو ایڈوانٹج میں تبدیل کر لیا۔ ایک مستشرق مسٹر کیلٹ (E.E.Kellet) نے آپ کی اس صفت کمال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے مشکلات کا سامنا اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:

He faced adversity with the determination to wring success out of failure.

دنیا میں ایک طرف انسان ہے جو دوسرے انسان کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف خدا کا نظام ہے جس نے ہر مشکل کے ساتھ اس کا حل بھی رکھ دیا ہے۔ ایسی حالت میں انسانی مشکلات پر شور کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ آدمی نے انسان کے عمل کو دیکھا مگر وہ خدا کے عمل کو نہ دیکھ سکا۔ کیوں کہ اگر وہ خدا کے عمل کو دیکھتا تو شکایت کرنے کے بجائے وہ اس کو استعمال کرنے میں لگ جاتا۔ اس دنیا میں ہرناکامی کے بعد ایک نئی کامیابی کا امکان آدمی کے لیے باقی رہتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی اس امکان کو استعمال کرکے دوبارہ اپنے آپ کو کامیاب بنا لے۔

الرسالہ(دسمبر1988ء) میں کینڈا کھلاڑی بن جانسن(Ben Johnson) کا قصہ چھپ چکا ہے۔ اس کا عنوان ہے:مصنوعی کامیابی۔ دوڑ کے عالمی مقابلہ میں اس نے اول درجہ کی کامیابی حاصل کی۔ مگر اگلے ہی دن اس کا جیتا ہوا گولڈ میڈل اس سے چھین لیا گیا۔ مزید اس کے بارے میں یہ سخت فیصلہ کیا گیا کہ وہ اگلے دو سال تک کھیل کے مقابلوں میں حصہ نہ لے سکے گا۔ بن جانسن کے لیے یہ اس کی زندگی کا شدید ترین حادثہ تھا۔ تاہم اس نے ’’ظالم ججوں‘‘ کے خلاف احتجاج میں وقت ضائع نہیں کیا۔ اس نے ازسر نو اپنی تیاری کا منصوبہ بنایا۔

اٹلی کے ٹیلی وژن نیٹ ورک نے نومبر1988ء میں بن جانسن کا ایک باتصویر انٹرویو اس کی رہائش گاہ(ٹورانٹو) پر لیا جس کی تفصیل اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا(29 نومبر1988ء) کے مطابق ایک سو میٹر دوڑ کے عالمی چیمپئن بن جانسن نے ٹیلی وژن کیمرہ کے سامنے روتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر کھیل کے اصولوں کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ تاہم وہ اپنی تیاری جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ بار سلونہ(اسپین) میں1992ء میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں واپس آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا عالمی ریکارڈ ٹریک پر 13 سال کی مسلسل محنت کا نتیجہ تھا۔ بظاہر وہ بہت افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ سیول اولمپک کے بعد پیش آنے والے مشکل لمحات کا ذکر کرتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ انٹرویو لینے والے مسٹر گیانی منولی (Gianni Minoli) نے کہا کہ شوٹنگ کا کام پانچ منٹ تک روک دینا پڑا۔ کیوں کہ بن جانسن اپنی سسکیوں پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔ بن جانسن نے بتایا کہ ٹریک پر واپس آنے کے لیے وہ ہفتہ میں چھ دن چار گھنٹہ روزانہ ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا کام صرف دوڑنا ہے۔ بیٹھے رہنے کی بات میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ میں دوبارہ مقابلہ میں حصہ لوں۔ انہوں نے میرا سونے کا تمغہ مجھ سے لیا ہے، نہ کہ میری رفتار:

They have taken away my gold medal, not my speed.

چھیننے والا ہمیشہ آپ کی کوئی چیز چھینتا ہے، نہ کہ خود آپ کو۔ آپ کا وجود اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ پھر بھی آپ کو حاصل رہتا ہے۔ اس حاصل شدہ متاع کو استعمال کیجیے، اور پھر ہر محرومی کے بعد آپ اپنی ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں۔

مشتعل نہ کیجیے

ہندوستان میں سب سے زیادہ شیر گیر کے جنگل میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں ان کے لیے بہت بڑا کھلا پارک بنایا گیا ہے جس کوGir forest sanctuary کہا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں 20 سے بھی کم تعداد میں شیرپائے جاتے تھے۔ مگر مئی1990ء کی گنتی کے مطابق، اب وہاں280 شیر ہیں۔ ان شیروں کی وجہ سے انسانی زندگی کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا(22 اگست1990ء) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے دوبرسوں میں ان شیروں نے علاقہ کے 16 آدمی مار ڈالے اور 140 آدمیوں کو زخمی کیا۔

ان حادثات کے بعد مسٹر روی چیلم کی قیادت میں ایک ٹیم کو مقرر کیا گیا تاکہ وہ صورت حال کے بارے میں تحقیق کرے۔ انہوں نے تحقیق کے بعد یہ بتایا ہے کہ شیروں نے اگرچہ بہت سے انسانوں کو نقصان پہنچایا اور ان پر حملے کیے۔ مگر یہ حملے محض شیروں کی درندگی کی بنا پر نہ تھے۔ ریسرچ کرنے والوں نے انسان کے اوپر شیر کے اکثر حملوں کا سبب اشتعال انگیزی کو قرار دیا ہے:

The researchers have attributed most of the lion attacks on human to provocations of the animals.

شیر ایک خون خوار درندہ ہے۔ وہ انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مگر شیر اپنی ساری درندگی کے باوجود اپنی فطرت کے ماتحت رہتا ہے۔ اور اس کی فطرت یہ ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کے بغیر کسی انسان کے اوپر حملہ نہ کرے۔

یہ قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ ’’درندہ انسانوں‘‘ کے ظلم سے کس طرح بچا جائے۔ درندہ انسان کے ظلم سے بچنے کی واحد یقینی تدبیر یہ ہے کہ اس کو اس کی فطرت کی ماتحتی میں رہنے دیا جائے۔ اشتعال دلانے سے پہلے ہر انسان اپنی فطرت کے زیر حکم رہتا ہے۔ اور اشتعال دلانے کے بعد ہر آدمی اپنی فطرت کے حکم سے باہر آ جاتا ہے۔ گویا فطرت خود ہر آدمی کو ظلم و فساد سے روکے ہوئے ہے۔ ایسی حالت میں آپ کو جوابی کارروائی کرنے کی کیا ضرورت۔

 مشتعل ہونے سے پہلے شیر ایک بے ضرر حیوان ہے۔ مشتعل ہونے کے بعد شیر ایک مردم خور حیوان بن جاتا ہے۔ آپ شیر کو مشتعل نہ کیجیے، اور پھر آپ اس کے نقصان سے محفوظ رہیں گے۔

نرمی اور تحمل کوئی بزدلی کی بات نہیں، یہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے جو خود خالق فطرت نے تمام مخلوقات کو سکھایا ہے۔ عربی کا ایک مثل ہے:السَّمَاحُ رَبَاحٌ۔ یعنی معاملات میں نرمی اور وسعت ظرف کا طریقہ ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔ یہ مثل انسانی تجربات سے بنی ہے۔ انسان نے ہزاروں برس کے دوران دونوں قسم کا تجربہ کیا۔ نرم رویہ کا بھی اور سخت رویہ کا بھی۔ آخر کار تجربات سے ثابت ہوا کہ سخت رویہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے، اس کے مقابلہ میں نرم رویہ ایسا نتیجہ پیدا کرتا ہے جو آپ کے لیے مفید ہو۔

ریلوے اسٹیشن پر دو آدمی چل رہے تھے۔ ایک آدمی آگے تھا، دوسرا آدمی پیچھے، پیچھے والے کے ہاتھ میں ایک بڑا بکس تھا۔ تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے اس کا بکس اگلے آدمی کے پائوں سے ٹکرا گیا۔ وہ پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ پیچھے والا آدمی فوراً ٹھہر گیا اور شرمندگی کے ساتھ بولا کہ مجھے معاف کیجیے(excuse me) ۔آگے والے آدمی نے اس کو سنا تو وہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے کہا کوئی حرج نہیں(O.K) اور پھر دونوں اٹھ کر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔

 دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی ناخوش گوار صورت پیش آئے تو دونوں بگڑ جائیں۔ ایک کہے کہ تم اندھے ہو۔ دوسرا کہے کہ تم بدتمیز ہو، تم کو بولنا نہیں آتا، وغیرہ۔ اگر ایسے موقع پر دونوں اس قسم کی بولی بولنے لگیں تو بات بڑھے گی۔ یہاں تک کہ دونوں لڑ پڑیں گے۔ پہلے اگر ان کے جسم پر مٹی لگ گئی تھی تو اب ان کے جسم سے خون بہے گا۔ پہلے اگر ان کے کپڑے پھٹے تھے تو اب ان کی ہڈیاں توڑی جائیں گی۔ خواہ گھریلو زندگی کا معاملہ ہو یا گھر کے باہر کا معاملہ ہو۔ خواہ ایک قوم کے افراد کا جھگڑا ہو یا دو قوموں کے افراد کا جھگڑا۔ ہر جگہ نرم روی اور عالی ظرفی سے مسئلے ختم ہوتے ہیں اور اس کے برعکس رویہ اختیار کرنے سے مسئلے اور بڑھ جاتے ہیں۔

 نرم روی کا طریق گویا آگ پر پانی ڈالنا ہے، اور شدت کا طریقہ گویا آگ پر پٹرول ڈالنا۔ پہلا طریقہ آگ کو بجھاتا ہے اور دوسرا طریقہ آگ کو مزید بھڑکا دیتا ہے۔

دشمن میں دوست

ڈاکٹر سید عبداللطیف(1891-1971)کرنول(دکن) میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسری خدمات کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ وہ مقامی ہائی سکول میں اپنے والد کی اطلاع کے بغیر داخل ہوگئے تھے۔ والد کو انگریز اور انگریزی تعلیم سے سخت نفرت تھی۔ ان کو معلوم ہوا تو غصہ ہوگئے اور درشت لہجے میں پوچھا کہ انگریزی پڑھ کر کیا کرے گا۔ دبلے پتلے، پست قامت لڑکے نے جواب دیا:انگریزی پڑھ کر قرآن کا ترجمہ انگریزی زبان میں کروں گا۔1915ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔1920ء میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔1922ء میں ان کے لیے نیا تعلیمی موقع پیدا ہوا، جب کہ جامعہ عثمانیہ کے چار استادوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ بھیجنا طے پایا، اور ان کے لیے ریاست کی طرف سے 30 ہزار روپے کا بلاسودی قرض منظور کیا گیا۔ ان میں سے ایک سید عبداللطیف بھی تھے۔

 لندن پہنچ کر وہ وہاں بی اے (آنرز) میں داخلہ لینا چاہتے تھے۔ مگر کنگس کالج کے صدر شعبۂ انگریزی اور دوسری انگریز اساتذہ آپ کی صلاحیت سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ آپ کو بی اے اور ایم اے سے مستثنیٰ کرتے ہوئے براہ راست پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ کے مقالہ کا عنوان’’اردو ادب پر انگریزی ادب کے اثرات‘‘ طے پایا۔ مقالہ کی تیاری کی مدت تین سال مقرر کی گئی تھی۔ مگر آپ نے دو سال ہی میں پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تکمیل کر لی۔ کنگس کالج کے ذمہ داروں نے اس کو منظور کرتے ہوئے ڈاکٹریٹ کا مستحق قرار دیا۔ سید عبداللطیف مقررہ مدت سے ایک سال پہلے ڈاکٹر ہو کر حیدر آباد واپس آگئے۔ یہاں آپ کو فوراً جامعہ عثمانیہ کا پروفیسر بنا دیا گیا(انجمن، ازحسن الدین احمد آئی اے ایس)۔

1922ء انگریز کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ مگر اسی دشمن نے مسلمان طالب علم کے ساتھ فیاضی کا وہ معاملہ کیا جس کی مثال مسلم اداروں میں بھی مشکل سے ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’دشمن انسان‘‘ کے اندر بھی’’دوست انسان‘‘ موجود ہوتا ہے۔ مگر اس دوست انسان کو وہی لوگ پاتے ہیں جو دوستی اور دشمنی سے اوپر اٹھ کر انسانوں سے معاملہ کرنا جانتے ہوں۔

عام مزاج یہ ہے کہ لوگ اپنوں کو اپنا اور غیروں کا غیر سمجھتے ہیں۔ مگر کھلے دل والے انسان کے لیے ہر ایک اس کا اپنا ہے، کوئی اس کا غیر نہیں۔

 سوامی رام تیرتھ(1873-1906) نہایت قابل آدمی تھے۔ ان کا ایک بہت بامعنی قول ہےزندگی کے سب دروازوں پر لکھا ہوا ہوتا ہے’’کھینچو‘‘ مگر اکثر ہم اسے ’’دھکا‘‘ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ سوامی رام تیرتھ روانی کے ساتھ انگریزی بولتے تھے۔ وہ دھرم کے پرچار کے لیے 1903ء میں امریکہ گئے۔ ان کا جہاز سان فرانسسکو کے سمندری ساحل پہ لنگر انداز ہوا۔ وہ اترے تو ایک امریکی ازراہ تعارف ان کے قریب آیا۔ اس کے بعد جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی:

’’آپ کا سامان کہاں ہے ‘‘امریکی نے پوچھا۔

’’میرا سامان بس یہی ہے ‘‘سوامی رام تیرتھ نے جواب دیا۔

’’اپنا روپیہ پیسہ آپ کہاں رکھتے ہیں ‘‘

’’میرے پاس روپیہ پیسہ ہے ہی نہیں ‘‘

’’پھر آپ کا کام کیسے چلتا ہے ‘‘

’’میں سب سے پیار کرتا ہوں، بس اسی سے میرا سب کام چل جاتا ہے ‘‘

’’تو امریکہ میں آپ کا کوئی دوست ضرور ہوگا ‘‘

’’ہاں ایک دوست ہے اور وہ دوست یہ ہے ‘‘

سوامی رام تیرتھ نے یہ کہا اور اپنے دونوں بازو امریکی شخص کے گلے میں ڈال دیے۔ امریکی ان کی اس بات سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد وہ امریکی ان کا اتنا گہرا دوست بن گیا کہ وہ انہیں اپنے گھر لے گیا اور سوامی رام تیرتھ جب تک امریکہ میں رہے وہ برابر ان کے ساتھ رہا اور ان کی خدمت کرتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ ان کا شاگرد بن گیا۔

اس دنیا میں محبت سب سے بڑی طاقت ہے۔ محبت کے ذریعہ آپ اپنے مخالف کو جھکا سکتے ہیں اور ایک اجنبی شخص کو اپنا بنا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ کی محبت سچی محبت ہو، وہ دکھاوے اور نمائش کے لیے نہ ہو۔

ناکامی میں کامیابی

 موہن سنگھ اوبرائے15 اگست1900 کو جہلم کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ پشاور میں ٹھیکہ داری کا کام کرتے تھے۔ مگر مسٹر اوبرائے ابھی صرف چھ مہینے کے تھے کہ ان کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ باپ کے مرنے کے بعد مسٹر اوبرائے بے وسیلہ ہو کر رہ گئے۔ بڑی مشکلوں سے انہوں نے سرگودھا سے میٹرک کیا اور لاہور سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مالی دشواری کی بنا پر وہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔

 مسٹر اوبرائے نے اپنی زندگی کے حالات لکھے ہیں جو ٹائمس آف انڈیا کے سنڈے ایڈیشن (12 اگست1990ء) میں چھپے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انٹر میڈیٹ کے بعد جب میں نے دیکھا کہ اب میں مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تو یہ میری زندگی میں بڑی تشویش کا لمحہ تھا۔ کیوں کہ میں نے محسوس کیا کہ موجودہ تعلیمی لیاقت کے ذریعہ میں کوئی سروس حاصل نہیں کر سکتا:

This was a moment of anxiety in my life as I realised that my qualifications would not get me a job.

سروس سے محرومی انہیں بزنس کے میدان میں لے گئی۔ یہ کاروباری جدوجہد کی ایک لمبی کہانی ہے جس کو مذکورہ اخبار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ 1924ء میں وہ معمولی طور پر ایک ہوٹل کے کام میں شریک ہوئے۔1939ء میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو وہ کلکتہ میں اپنا ایک ہوٹل شروع کر چکے تھے۔ ان کا کام بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ آج وہ ایک ’’ہوٹل ایمپائر‘‘ کے مالک ہیں۔ ہندوستان کے اکثر بڑے شہروں میں ان کے ہوٹل’’اوبرائے‘‘ کے نام سے قائم ہیں۔ اس کے علاوہ سنگاپور، سعودی عرب، سری لنکا، نیپال، خلیج، مصر اور افریقہ میں ان کے بڑے بڑے ہوٹل کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مسٹر اوبرائے کو سروس کے میدان میں جگہ نہیں ملی تو انہوں نے بزنس کے میدان میں اس سے زیادہ بڑی جگہ اپنے لیے حاصل کرلی۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ یہاں کامیاب وہ ہوتا ہے جو گرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کی صلاحیت کا ثبوت دے سکے۔

اگر ایک میدان میں آپ کو مواقع نہ ملیں تو دوسرے میدان میں محنت شروع کر دیجیے۔ عین ممکن ہے کہ آپ دوسرے میدان میں وہ سب کچھ پالیں جس کی امید آپ پہلے میدان میں کیے ہوئے تھے۔

 ڈاکٹر سالم علی(1987۔1896) کو علم طیور(Ornithology) میں غیر معمولی مقام ملا۔ ہندوستان نے ان کو پدما بھوشن کا خطاب دیا۔ برطانیہ نے ان کو گولڈ میڈل سے نوازا۔ ہالینڈ نے ان کو گولڈن آرک عطا کیا۔ عالمی ادارہ وائلڈ لائف نے ان کو انعام کے طور پر 50 ہزار ڈالر دیے۔ ہندوستان کی تین یونیورسٹیوں نے اعزازی طور پر ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ وہ راجیہ سبھا کے ممبر بنائے گئے، وغیرہ۔ ڈاکٹر سالم علی کو یہ غیر معمولی کامیابی ایک غیر معمولی ناکامی کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ وہ بمبئی کے ایک گنجان علاقہ کھیت واڑی میں پیدا ہوئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں روزگار کی ضرورت ہوئی۔ مگر جب وہ روزگار کی تلاش میں نکلے تو ان کے الفاظ میں ’’ہر ادارے اور ہر دفتر میں ان کے لیے جگہ نہیں(no vacancy) کا بورڈ لگا ہوا تھا۔‘‘ اس ناکامی نے ان کے لیے نئی کامیابی کے راستے کھول دیے۔

ایک روز انہوں نے ایک چھوٹی چڑیا پکڑی۔ اس کو دیکھا تو اس میں ایک غیر معمولی خصوصیت نظر آئی۔ اس کی گردن پیلے رنگ کی تھی۔ انہوں نے اس کی تحقیق شروع کر دی۔ انہوں نے علم طیور کے موضوع پر بہت سی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ان کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک دستی دور بین حاصل کی۔ اب ان کا کام یہ ہوگیا کہ ادھر ادھر جا کر چڑیوں کا مشاہدہ کریں اور ان کے حالات اپنی ڈائری میں لکھیں۔ آخر کار انہوں نے علم طیور میں اتنی مہارت پیدا کی کہ خود اس فن کو نئی جہتوں اور نئی وسعتوں سے آشنا کیا۔ ان کی دو کتابیں بہت مشہور ہیں۔ ایک کتاب میں انہوں نے برصغیر ہند کی1200 چڑیوں کے حالات لکھے ہیں۔ ان کی دوسری کتاب طیور ہند(The Book of Indian Birds) ہے جو گیارہ بار چھپ چکی ہے، اور عالمی سطح پر پڑھی جاتی ہے۔

 ڈاکٹر سالم علی کو زمینی ادارہ میں جگہ نہیں ملی تھی، انہوں نے آسمانی مشاہدہ میں اپنے لیے زیادہ بہتر کام تلاش کر لیا۔ ان کو ملکی ملازمت میں نہیں لیا گیا تھا، مگر اپنی اعلیٰ کارکردگی کے ذریعہ وہ عالمی اعزاز کے مستحق قرار پائے۔

فاصلہ پر رہو

سڑک پر بیک وقت بہت سی سواریاں دوڑتی ہیں۔ آگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے۔ اس لیے سڑک کے سفر کو محفوظ حالت میں باقی رکھنے کے لیے بہت سے قاعدے بنائے گئے ہیں۔ یہ سڑک کے قاعدے (traffic rules) سڑک کے کنارے ہر جگہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ سڑک سے گزرنے والے لوگ انہیں پڑھیں اور ان کی رہنمائی میں اپنا سفر طے کریں۔

 دہلی کی ایک سڑک سے گزرتے ہوئے اسی قسم کا ایک قاعدہ بورڈ پر لکھا ہوا نظر سے گزرا۔ اس کے الفاظ یہ تھے— فاصلہ برقرار رکھو:

Keep Distance

میں نے اس کو پڑھا تو میں نے سوچا کہ ان دو لفظوں میں نہایت دانائی کی بات کہی گئی ہے۔ یہ ایک مکمل حکمت ہے۔ اس کا تعلق سڑک کے سفر سے بھی ہے اور زندگی کے عام سفر سے بھی۔

 موجودہ دنیا میں کوئی آدمی اکیلا نہیں ہے۔ ہر آدمی کو دوسرے بہت سے انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر آدمی کے سامنے اس کا ذاتی انٹرسٹ ہے۔ ہر آدمی اپنے اندر ایک انالیے ہوئے ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو پیچھے کرکے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔

 یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ہم زندگی کے سفر میں’’فاصلہ پر رہو‘‘ کے اصول کو ہمیشہ پکڑے رہیں۔ ہم دوسرے سے اتنی دوری پر رہیں کہ اس سے ٹکرائو کا خطرہ مول لیے بغیر ہم اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ اسی حکمت کو قرآن میں اعراض کہا گیا ہے۔ اگر آپ اعراض کی اس حکمت کو ملحوظ نہ رکھیں تو کہیں آپ کا فائدہ دوسرے کے فائدہ سے ٹکرا جائے گا۔ کہیں آپ کا ایک سخت لفظ دوسرے کو مشتعل کرنے کا سبب بن جائے گا۔ کہیں آپ کی بے احتیاطی آپ کو غیر ضروری طور پر دوسروں سے الجھا دے گی۔

 اس کے بعد وہی ہوگا جو سڑک پر ہوتا ہے۔ یعنی سڑک ایکسیڈنٹ آدمی کے سفر کو روک دیتا ہے۔ بعض اوقات خود مسافر کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح زندگی میں مذکورہ اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی ترقی کا سفر رک جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود اپنی زندگی سے محروم ہو جائیں۔ آپ تاریخ کے صفحہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جائیں۔ ماضی میں اور حال میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ جب بھی کسی شخص نے اپنی مقررہ حد کو پار کیا، وہ لازمی طور پر برے انجام کا شکار ہوا۔

 نیتین والیا ایک 3 سالہ بچہ ہے۔ وہ اپنے والدین(وجے پال والیا اور سونیتا) کے ساتھ شاہدرہ میں رہتا ہے۔ بچہ کو چڑیا گھر دیکھنے کا شوق تھا۔ اس کے والدین اس کو دہلی کا چڑیا گھر دکھانے کے لیے لے گئے۔ مختلف جانوروں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ وہاں پہنچے جہاں سفید شیر کا پنجرہ ہے۔ وہ شیر اور اس کے بچے کو دیکھنے کے لیے رکے۔ یہاں نیتین ریلنگ کے اندر داخل ہوگیا اور پنجرہ میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ شیرنی(نیما) نے جھپٹ کر اس کا ہاتھ اپنے منہ میں لے لیا۔ لوگوں نے اس کو لکڑی سے مار کر ہٹایا، مگر اس دوران وہ بچے کا ہاتھ کندھے تک چبا چکی تھی۔ آپریشن کے بعد بچہ زندہ ہے مگر وہ ساری عمر کے لیے اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہو چکا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا(21 مارچ1988ء) کے رپورٹر کے مطابق، بچہ کے والدین نے اس حادثہ کی ذمہ داری چڑیا گھر کے کارکنوں پر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجرہ کے پاس کوئی چوکیدار موجود نہ تھا:

The parents claim that there were no guards around.

اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً اپنے سے باہر کسی کو تلاش کرتے ہیں جس پر حادثہ کی ذمہ داری ڈال سکیں۔ مگر موجودہ دنیا میں اس قسم کی کوشش سراسر بے فائدہ ہے۔ یہاں حادثات سے صرف وہ شخص بچ سکتا ہے جو اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ جو شخص خود بے قابو ہو جائے وہ لازماً حادثہ سے دو چار ہوگا، خواہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے اس نے ڈکشنری کے تمام الفاظ دہرا ڈالے ہوں۔

 چڑیا گھر میں خونخوار جانور کے کٹہرے سے چار فٹ کے فاصلہ پر ریلنگ(railing) لگی ہوئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جانور کے مقابلہ میں آدمی کو ایک محفوظ فاصلہ پر رکھا جائے۔ اسی طرح زندگی کے ہر موڑ پر ایک ریلنگ کھڑی ہوتی ہے۔ جو شخص ریلنگ کو حد سمجھ کر وہاں ٹھہر جائے وہ محفوظ رہے گا۔ اور جو شخص ریلنگ کو پار کر جائے، وہ اپنے آپ کو حادثات سے نہیں بچا سکتا، نہ چڑیا گھر کے اندر اور نہ چڑیا گھر کے باہر۔

مقابلہ کی ہمت

جے آر ڈی ٹاٹا(J. R. D. Tata, b. 1904) ہندوستان کے چند انتہائی بڑے صنعت کاروں میں سے ہیں۔ بوقت تحریر ان کی عمر85 سال کی ہے۔ اب بھی وہ ہوائی جہاز چلاتے ہیں، اور برف پر اسکیئنگ(skiing) کرتے ہیں۔ اتنی بڑی عمر میں اس کی اس صحت کا راز کیا ہے، اس کے جواب میں انہوں نے کہا— جو چیزیں مجھ کو برابر جوان رکھتی ہیں ان میں سے ایک یہ حقیقت ہے کہ میں خطرات میں جینے کے لیے تیار رہتا ہوں۔ زندگی کا کارآمد بنانے کی خاطر آپ کو رسک لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بزنس، کھیل، شادی، ہر چیز میں رسک:

one of the thing that keep me young is the fact that I am prepared to live dangerously. You must be prepared to take risk in business, sport, marriage, everything, to make life worthwhile. (Hindustan Times, 13 July 1991, p.4)

انگریزی کا مثل ہے کہ رسک نہیں تو کامیابی بھی نہیں (no risk no gain)۔ یہاں سوال یہ ہے کہ رسک اور خطرات کیوں آدمی کو کامیابی اور ترقی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسک آدمی کی قوتوں کو جگاتا ہے، وہ ایک معمولی انسان کو غیر معمولی انسان بنا دیتا ہے۔

آدمی اگر خطرات کا سامنا نہ کرے، وہ رسک کی صورتوں سے دور رہے تو وہ سست اور کاہل انسان بن جائے گا۔ اس کی فطری صلاحیتیں خوابیدگی کی حالت میں پڑی رہیں گی۔ وہ ایسا بیج ہوگا جو پھٹا نہیں کہ درخت بنے، وہ ایسا ذخیرہ آب ہوگا جس میں موجیں نہیں اٹھیں، جو طوفان کی صورت اختیار کرے۔

 مگر جب آدمی کو خطرات پیش آتے ہیں، جب اس کی زندگی رسک کی حالت سے دو چار ہوتی ہے تو اس کی شخصیت کے اندر چھپی ہوئی فطری استعداد جاگ اٹھتی ہے۔ حالات کا دبائو اس کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ متحرک ہو جائے، وہ اپنی ساری طاقت اپنے کام میں لگا دے۔ ہر آدمی کے اندر اتھاہ صلاحیتیں ہیں۔ مگر یہ صلاحیتیں ابتدائی طور پر سوئی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ کبھی جگائے بغیر نہیں جاگتیں۔ ان صلاحیتوں کو جگانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ انہیں چیلنج سے سابقہ پیش آئے۔ انہیں خطرات کا سامنا کرنا پڑے۔ عافیت کی زندگی بظاہر سکون کی زندگی ہے۔ مگر عافیت کی زندگی کی یہ مہنگی قیمت دینی پڑتی ہے کہ آدمی کی شخصیت ادھوری رہ جائے۔ وہ اپنی امکانی ترقی کے درجہ تک نہ پہنچ سکے۔

6 جنوری1990ء کے اخبارات جو خبریں لائے، ان میں سے ایک خبر یہ تھی کہ اظہر الدین کو اتفاق رائے سے قومی ٹیم کا کیپٹن مقرر کیا گیا ہے۔ وہ نیوزی لینڈ جانے والی انڈین کرکٹ ٹیم کے لیڈر ہوں گے۔ یہ بات کرکٹ حلقوں کے لیے انتہائی تعجب خیز تھی۔ کیوں کہ عام خیال تھا کہ یہ عہدہ سری کانت کو دیا جائے گا جو شارجہ کپ، نہرو کپ اور پاکستان کے دورہ پر جانے والی حالیہ ٹیم کے کپتان رہے ہیں۔27 سالہ اظہر الدین حیدر آبادی کو کرکٹ میں ان کی مہارت کی وجہ سے ونڈر بوائے(wonder boy) کہا جاتا ہے۔ اظہر الدین ہندوستانی کرکٹ کے دوسرے کم عمر کپتان ہیں۔ ان سے قبل منصور علی خان پٹودی21 سال کی عمر میں قومی ٹیم کے کپتان بنائے گئے تھے۔

 اظہر الدین کو جس چیز نے اس اعلیٰ عہدے پر پہنچایا، وہ ان کی یہ صلاحیت ہے کہ چیلنج پیش آنے پر وہ بے ہمت نہیں ہوتے، بلکہ مزید طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ دسمبر1989ء میں دورہ پاکستان کے آغاز میں اظہر الدین کا ٹیسٹ کیریر خطرہ میں پڑ گیا تھا۔ کیوں کہ فیصل آباد ٹیسٹ کی پہلی باری میں وہ کوئی خاص اسکور نہ کر سکے تھے، بلکہ صفر پر ہی آئوٹ ہوگئے تھے۔ لیکن دوسری باری میں شاندار سنچری بنا کر انہوں نے اپنا ٹیسٹ کیریر تباہ ہونے سے بچالیا۔

 ٹائمس آف انڈیا(6جنوری1990ء) کی رپورٹ کے مطابق، سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین مسٹر راج سنگھ دونگرپور نے کہا کہ اظہر الدین کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کو محبوب رکھتے ہیں، جیسا کہ پاکستان کے دورہ میں دیکھا گیا جہاں وہ پہلے ٹیسٹ میں چنے نہ جانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اور یہ قیادت کی نہایت اہم خصوصیت ہے:

He loves getting out of challenging situations, as was seen on the tour of pakistan where he was on the verge of being dropped from the first Test, and that`s an important ingredient in leadership.

یہ دنیا چیلنج کی دنیا ہے۔ یہاں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو چیلنج کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ یہ صفت کسی آدمی کے اندر جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی زیادہ بڑی کامیابی وہ اس دنیا میں حاصل کرے گا۔

ضمیر کی طاقت

ابوالبرکات علوی(63سال) نظام پور ضلع اعظم گڑھ(یوپی) کے رہنے والے ہیں۔29 اگست 1989ء کی ملاقات میں انہوں نے اپنے علاقہ کا ایک واقعہ بتایا جس میں بہت بڑا سبق ہے۔ اعظم گڑھ کے شمال مغرب میں ایک گائوں رَیدا ہے جو مجھوئی ندی کے کنارے فیض آباد کی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں چار گھر مسلمانوں کے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہندوئوں کے دو سو گھر آباد ہیں۔ نومبر1987ء میں ایسا ہواکہ باہر سے ایک نیل گائے آیا اور گنے کے کھیت میں داخل ہوگیا۔ ایک مقامی مسلمان جھنوّ درزی نے چاہا کہ اس کا شکار کیا جائے۔ انہوں نے پڑوس کے گائوں مخدوم پور میں ایک مسلمان کو اس کی خبر کی جس کے پاس بندوق ہے۔ وہ اپنی بندوق لے کر آئے اور نیل گائے پر فائر کیا۔

 اگر نیل گائے موقع پر مر گیا ہوتا تو کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ مگر نشانہ صحیح نہیں لگا۔ نیل گائے زخمی ہوگیا اور خون بہاتا ہوا بھاگا۔ ہندوئوں نے جب جابجا خون دیکھا تو مشتعل ہوگئے۔ ان کو معلوم ہوا کہ جھنوّ درزی نے مخبری کرکے نیل گائے پر گولی چلوائی ہے تو انہوں نے گائوں میں پنجایت کی اور جھنوّ کو بلا کر اس کو یہ سزا سنائی کہ تم نے جو قصور کیا ہے اس کے بدلے تمہارے اوپر ایک ہزار روپیہ جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔

 اس گائوں میں کوئی سطحی لیڈر جھنو ّدرزی کو بہکانے کے لیے موجود نہ تھا اور نہ مسلمانوں کا وہاں کوئی زور تھا جو جھنوّ درزی کو چھوٹے بھر م میں مبتلا کرے۔ چنانچہ فطرت نے جھنو ّدرزی کی رہنمائی کی۔ وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا:پنچوں کا فیصلہ مجھ کو منظور ہے۔ میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس نقد روپیہ موجود نہیں۔ مگر میں اپنے گھر کا سامان بیچ کر اس کو ادا کروں گا۔

 تین دن گزرے تھے کہ ہندوئوں کا ضمیر جاگ اٹھا۔ انہوں نے دوبارہ اپنے لوگوں کی پنچایت بلائی۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ یہاں مسلمان بہت تھوڑے اور کمزور ہیں۔ باہر کے لوگ جب سنیں گے کہ ہم نے ان سے جرمانہ وصول کیا ہے تو وہ ہم لوگوں کو بہت گرا ہوا سمجھیں گے اور ہمارے بے عزتی ہوگی کہ ہم نے مسلمانوں کو کمزور پا کر انہیں دبا لیا۔ اتفاق رائے سے یہ طے ہوا کہ جھنوّ درزی سے جرمانہ نہ لیا جائے۔ چنانچہ اس متفقہ فیصلہ کے مطابق جھنوّ درزی کا جرمانہ معاف کر دیا گیا۔

ہر انسان کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر فریق ثانی کے اندر آپ کا نمائندہ ہے۔ اس فطری نمائندہ کو استعمال کیجیے اور پھر آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔ سی ایف ڈول(C. F. Dole) نے کہا ہے کہ— مہربانی کا برتائو دنیا میں سب سے بڑی عملی طاقت ہے:

Goodwill is the mightiest force in the universe.

یہ محض ایک شخص کا قول نہیں، یہ ایک فطری حقیقت ہے۔ انسان کے پیدا کرنے والے نے انسان کو جن خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے، ان میں سے اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ کسی آدمی کے ساتھ برا سلوک کیا جائے تو وہ بپھر اٹھتا ہے، اور اگر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو وہ احسان مندی کے احساس کے تحت سلوک کرنے والے کے آگے بچھ جاتا ہے۔

اس عام فطری اصول میں کسی بھی شخص کا کوئی استثناء نہیں۔ حتی کہ دوست اور دشمن کا بھی نہیں۔ آپ اپنے ایک دوست سے کڑوا بول بولیے۔ اس کو بے عزت کیجیے۔ اس کو تکلیف پہنچایئے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کے بعد فوراً وہ ساری دوستی کو بھول گیا ہے۔ اس کے اندر اچانک انتقامی جذبہ جاگ اٹھے گا۔ وہی شخص جو اس سے پہلے آپ کے ا وپر پھول برسا رہا تھا، اب وہ آپ کے اوپر کانٹا اور آگ برسانے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔

اس کے برعکس، ایک شخص جس کو آپ اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اس سے میٹھا بول بولیے۔ اس کی کوئی ضرورت پوری کر دیجیے۔ اس کی کسی مشکل کے وقت اس کے کام آ جایئے۔ حتیٰ کہ پیاس کے وقت اس کو ایک گلاس ٹھنڈا پانی پلا دیجیے۔ اچانک آپ دیکھیں گے کہ اس کا پورا مزاج بدل گیا ہے۔ جو شخص اس سے پہلے آپ کا کھلا دشمن دکھائی دے رہا تھا، وہ آپ کا دوست اور خیر خواہ بن جائے گا۔

 خدا نے انسان کی فطرت میں یہ مزاج رکھ کر ہماری عظیم الشان مدد کی ہے۔ اس فطرت نے ایک نہتے آدمی کو بھی سب سے بڑا تسخیری ہتھیار دے دیا ہے۔ اس دنیا میں شیر اور بھیڑیے کو مارنے کے لیے گولی کی طاقت چاہیے، مگر انسان کو زیر کرنے کے لیے کسی گولی کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے حسن سلوک کی ایک پھوار کافی ہے۔ کتنا آسان ہے انسان کو اپنے قابو میں لانا۔ مگر نادان لوگ اس آسان ترین کام کو اپنے لیے مشکل ترین کام بنا لیتے ہیں۔

دماغی اضافہ

سر سی وی رمن(1970۔1888ء) ہندوستان کے مشہور سائنس دان تھے۔ وہ تروچراپلی میں پیدا ہوئے اور بنگلور میں ان کی وفات ہوئی۔ آخر وقت میں وہ رمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے۔ اس کے علاوہ وہ بہت سے علمی عہدوں پر فائز رہے۔1930ء میں ان کو فزکس کا نوبل پرائز دیا گیا۔ رمن کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون سنڈے ریویو(17مارچ1991ء) میں چھپا ہے۔ اس کا ایک اقتباس یہ ہے—رمن کا یقین تھا کہ سائنس دماغ سے آتی ہے، نہ کہ سازوسامان سے۔ ان کے ایک شاگرد نے ایک بار شکایت کی کہ اس کے پاس ریسرچ کا کام کرنے کے لیے صرف ایک کلوواٹ کا لیمپ ہے، جب کہ بیرونی ملکوں میں اس کے برابر کے ایک طالب علم کے پاس 10 کلو واٹ کا لیمپ ہوتا ہے۔ رمن نے اس طالب علم کو جواب دیا کہ تردد نہ کرو، تم اپنے مسئلہ کی تحقیق میں10 کلو واٹ کا دماغ رکھ لو:

Raman believed that science came from the brain and not from equipment. When one of his pupils in spectroscopy complained that he had only a 1kw lamp whereas his competitor abroad had a 10 KW lamp, Raman told him "Don`t worry. Put a 10M KW brain to the problem."

یہ بات نہایت درست ہے۔ اس دنیا میں ہر کام کا تعلق دماغ سے ہے۔ سامان کی کمی کو دماغ سے پورا کیا جا سکتا ہے، مگر دماغ کی کمی کو سامان سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ دو سو سال اور تین سو سال پہلے مغرب میں جو سائنس دان پیدا ہوئے، ان میں سے کسی کے پاس وہ اعلیٰ سامان نہیں تھا جو آج کسی یونیورسٹی میں ایک ریسرچ طالب علم کے پاس ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے کم سامان کے ساتھ کام کیا۔ مثلاً نیوٹن نے کروسین کے لیمپ کے ذریعہ کام کیا، کیوں کہ اس وقت بجلی کا استعمال ہی شروع نہ ہوا تھا۔ وغیرہ۔ مگر یہی سائنس دان تھے جنہوں نے جدید مغربی سائنس کی بنیادیں قائم کیں۔ اس اصول کا تعلق ہر انسان سے ہے۔ جب بھی کسی شخص کو محسوس ہو کہ اس کے پاس سرمایہ یا وسائل یا سازو سامان کی کمی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دماغی محنت کو بڑھا لے۔ اس کی دماغی محنت اس کے لیے ہر دوسری کمی کی تلافی بن جائے گی۔

فطرت نے دماغ کی صورت میں انسان کو حیرت انگیز طاقت دی ہے۔ دماغ کو استعمال کرکے آدمی اپنی ہر کمی کی تلافی کر سکتا ہے۔ مسٹر کمال علیگ(پیدائش1958) نے یکم فروری 1989 کی ملاقات میں اپنا ایک واقعہ بتایا۔ وہ پہلے سگریٹ پیتے تھے۔1984 سے انہوں نے مکمل طور پر سگریٹ کو چھوڑ دیا ہے۔1976ء سے 1981ء تک وہ تعلیم کے سلسلہ میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تھے۔ اس زمانہ میں وہ’’چین اسموکر‘‘ تھے۔ ایک روزکا واقعہ ہے۔ امتحان کا زمانہ قریب تھا۔ وہ رات کو دیر تک پڑھنے میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ رات کو ایک بجے کا وقت ہوگیا۔ اس وقت انہیں سگریٹ کی طلب ہوئی۔ دیکھا تو دیا سلائی ختم ہو چکی تھی۔ ہیٹر بھی بگڑا ہوا تھا۔ ایک طرف اندر سے سگریٹ کی سخت طلب اٹھ رہی تھی، دوسری طرف کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جس سے سگریٹ کو جلایا جا سکے۔

 تقریباً آدھ گھنٹہ تک ان کے دماغ پر یہ سوال چھایا رہا۔ وہ اس سوچ میں پڑے رہے کہ سگریٹ کو کس طرح جلایا جائے۔ آخر ایک تدبیر ان کے ذہن میں آئی۔ ان کے کمرہ میں بجلی کا سو واٹ کا بلب لٹک رہا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ اس جلتے ہوئے بلب میں اگر کوئی ہلکی چیز لپیٹ دی جائے تو کچھ دیر کے بعد گرم ہو کر وہ جل اٹھے گی۔ انہوں نے ایک پرانا کپڑا لیا اور اس کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلتے ہوئے بلب کے اوپر لپیٹ دیا۔ تقریباً 5 منٹ گزرے ہوں گے کہ کپڑا جل اٹھا۔ کمال صاحب نے فوراً اس سے اپنا سگریٹ سلگایا اور اس کے کش لینے لگے۔

اسی کا نام’’دماغی محنت‘‘ ہے۔ عام لوگ محنت کے نام سے صرف جسمانی محنت کو جانتے ہیں۔ مگر محنت کی زیادہ بڑی قسم وہ ہے جس کا نام دماغی محنت ہے۔ دنیا کی تمام بڑی بڑی ترقیاں وہی ہیں جو دماغی محنت کے ذریعہ حاصل کی گئی ہیں۔ جسمانی محنت پھاوڑا چلانے یا ہتھوڑا مارنے کا کام انجام دے سکتی ہے۔ مگر ایک سائنٹفک فارم یا جدید طرز کا ایک کارخانہ بنانے کا کام صرف دماغی محنت کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ جسمانی محنت اگر آپ کو ایک روپیہ فائدہ دے سکتی ہو تو آپ دماغی محنت کے ذریعہ ایک کروڑ روپیہ کما سکتے ہیں۔ جسمانی محنت صرف یہ کر سکتی ہے کہ وہ دوڑ کر بازار جائے اور ایک دیا سلائی خرید کر لائے اور اس کے ذریعہ سے اپنی سگریٹ سلگائے۔ مگر دماغی محنت ایسی حیرت انگیز طاقت ہے جو دیا سلائی کے بغیر آپ کے سگریٹ کو سلگا دے، جو ظاہری آگ کے بغیر آپ کے گھر کو روشن کردے۔

تاریخ کا سبق

سرٹامس رو(Sir Thomas Roe, 1581-1644) سترھویں صدی عیسوی کے شروع میں لندن سے ہندوستان آیا اور یہاں تین سال(1615-1618) تک رہا۔ اس نے مغل حکمران جہانگیر سے تعلق پیدا کیا۔ دوسری اعلیٰ صفات کے ساتھ اس کی ایک صفت یہ تھی کہ وہ ترکی زبان جانتا تھا اور جہانگیر سے براہ راست گفتگو کر سکتا تھا۔ سرٹامس روجب ہندوستان آیا، اس وقت جہانگیر اجمیر میں تھا۔ ٹامس رو اجمیر پہنچا اور تین سال تک یہاں رہا۔ جہانگیر کبھی کبھی اس کو اپنے دربار میں بلاتا اور اس سے ادھر ادھر کی گفتگو کرتا۔ ٹامس رونے اندازہ کیا کہ جہانگیر کو فن مصوری سے بہت دلچسپی ہے۔ اس نے ایک روز جہانگیر کی خدمت میں ایک تصویر پیش کی۔ جہانگیر کو یہ تصویر بہت پسند آئی۔

 ٹامس رونے محسوس کیا کہ وہ جس وقت کا منتظر تھا، وہ وقت اب اس کے لیے آگیا ہے۔ اس نے بادشاہ سے ایک ایسی چیز مانگی جو بظاہر بہت معمولی تھی۔ یہ چیز تھی، ہندوستان کے ساحلی شہر سورت میں فیکٹری(تجارتی ادارہ) قائم کرنے کی اجازت۔ بادشاہ نے ایک فرمان لکھ دیا۔ جس کے مطابق انگریز(ایسٹ انڈیا کمپنی) کو سورت میں اپنا تجارتی ادارہ قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔

ہندوستان کے ایک شہر میں تجارتی ادارہ کھولنے کی اجازت بظاہر بہت معمولی چیز تھی۔ کیونکہ اس کے باوجود ہندوستان کا وسیع ملک مغل حکمران ہی کے حصہ میں تھا۔ عظمت و شان اور قوت و طاقت کے تمام مظاہر پر دوسروں کا قبضہ بدستور باقی تھا۔ مگر سورت میں تجارتی ادارہ قائم کرنا انگریز کو وہ سِرا دے رہا تھا جو بالآخر اس کو تمام دوسری چیزوں پر قبضہ دلا دے۔ چنانچہ انگریز نے اس کمتر چیز کو قبول کر لیا اور اس کے بعد تاریخ نے بتایا کہ جو کم تر پر راضی ہو جائے وہ آخر کار برتر پر بھی قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے، مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس تاریخ سے سبق حاصل کریں۔

اس دنیا میں اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کو معاملہ کا ابتدائی سِرا مل جائے۔ ابتدائی سِرا جس کے ہاتھ میں آ جائے وہ آخر کار انتہائی سرے تک پہنچ کر رہے گا۔

ہندوستان کی آزادی کی تحریک1799ء میں شروع ہوئی جب کہ سلطان ٹیپو انگریزوں سے جنگ کرتے ہوئے مارے گئے۔ اس کے بعد انگریزوں سے لڑنا، انگریز شخصیتوں پر بم مارنا، ان پر حملہ کرنے کے لیے بیرونی حکومتوں کو ابھارنا، جیسے ہنگامے سو سال سے زیادہ مدت تک جاری رہے۔

 اس قسم کی تدبیریں اپنی نوعیت میں پر شور تھیں۔ چنانچہ ان کا نام آتے ہی انگریز فوراً چوکنا ہو جاتا تھا اور ان کو پوری طاقت سے کچل دیتا تھا۔ اس کے بعد گاندھی میدان سیاست میں آئے تو اچانک صورت حال بدل گئی۔ پچھلے لوگ ہنِسا کے ذریعہ آزادی کا مطالبہ کرتے تھے، گاندھی نے اس کے برعکس اَہنِسا کے طریقہ کو اختیار کیا۔ انہوں نے آزادی کی تحریک کو ایسی بنیاد پر چلانے کا اعلان کیا جو انگریزوں کو ناقابل لحاظ دکھائی دے۔

گاندھی کے اسی طریقہ کا ایک جزء وہ ہے جس کو ڈانڈی مارچ کہا جاتا ہے۔ گجرات کے ساحل پر قدیم زمانہ سے نمک بنایا جاتا تھا۔ انگریزی حکومت نے گجرات میں نمک بنانے کی صنعت کو سرکاری قبضہ میں لے لیا۔ گاندھی اس قانون کی پرامن خلاف ورزی کے لیے سابرمتی سے پیدل روانہ ہوئے اور 24دن میں240 میل کا سفر طے کرکے ڈانڈی کے ساحل پر پہنچے اور نمک کا ایک ٹکڑا اپنے ہاتھ میں لے کر سرکاری قانون کی خلاف ورزی کی۔

 گاندھی نے جب اپنے منصوبہ کا اعلان کیا تو انگریز عہدیداروں کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر ایک انگریز افسر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو اپنا نمک بنانے دو۔ مسٹر گاندھی کو چٹکی بھر نمک سے بہت زیادہ بڑی چیز درکار ہوگی کہ وہ برطانوی شہنشاہیت کو زیر کر سکیں:

Let him make his salt. Mr Gandhi will have to find great deal more than a pinch of salt to bring down the British Empire.

موجودہ دنیا میں کامیاب اقدام وہ ہے، جو دیکھنے میں ناقابل لحاظ دکھائی دے۔ مگر حقیقۃً وہ ناقابلِ تسخیر ہو۔ جو حریف کو بظاہروہ’’چٹکی بھر نمک‘‘ نظر آئے، مگر انجام کو پہنچے تو وہ’’پہاڑ بھر نمک‘‘ بن جائے۔

اتحاد کی طاقت

ٹائیکوبراہے(Tycho Brahe, 1546-1601) اسکانیا (ڈنمارک) میں پیدا ہوا، اورپراگ میں اس کی وفات ہوئی۔ جوہانس کپلر(Johannes Kepler, 1571-1630) جرمنی کے ورٹمبرگ میں پیدا ہوا، اور ریزمبرگ میں اس کی وفات ہوئی۔ دونوں فلکیات کے شعبہ میں تحقیق کر رہے تھے۔ مگر دونوں میں سے کوئی بھی اس حیثیت میں نہ تھا کہ وہ عالم افلاک میں کوئی بڑی حقیقت دریافت کر سکے۔

ٹائیکوبراہے اور کپلر دونوں ہم عصر تھے۔ مگر ایک چیز دونوں کے لیے کسی بڑی فلکیاتی دریافت میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے موضوع کے ہر گوشہ پر مہارت نہ رکھتا تھا۔ ٹائیکوبراہے نے کثرت سے فلکیات کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ اپنے مشاہدات کو قلم بند کرتا رہتا تھا، فلکیاتی مشاہدات کے بارے میں یہ تحریری ذخیرہ اس کے پاس کافی مقدار میں جمع ہوگیا تھا۔ مگر علم الافلاک کا دوسرا پہلو ریاضی سے تعلق رکھتا ہے، اور ٹائیکوربراہے ریاضی میں کمزور تھا۔ اس بنا پر اس کو یہ قدرت حاصل نہ تھی کہ اپنے مشاہدات کو ریاضی کی کلیات میں مربوط کر سکے۔

دوسری طرف کپلر کا معاملہ تھا کہ وہ فلکیاتی مشاہدہ میں کوئی مہارت نہ رکھتا تھا۔ وہ بہت کم مشاہدہ کرتا تھا۔ اس کے زمانہ میں اگرچہ دوربین دریافت ہو چکی تھی، مگر عملاً وہ دوربین سے کام نہ لے سکا تھا۔ اس کی خصوصیت صرف یہ تھی کہ وہ ریاضیات کا ماہر تھا اور حسابی طور پر اس نے فلکیات کے بارے میں بہت سے قیمتی نظریات وضع کیے تھے۔

 یہاں ٹائیکوبراہے کی فراخ دلی نے کام کیا۔ ٹائیکوبراہے اور کپلر میں اگرچہ ذاتی اختلافات تھے۔ حتی کہ کپلر نے اپنے ایک خط میں ٹائیکوبراہے پر منافقت کا الزام لگایا تھا اور اس کو بہت برا بھلا کہا تھا، مگر ٹائیکوبراہے، اپنی تیز مزاجی کے باوجود، کپلر پر غصہ نہیں ہوا۔ آخر وقت میں اس نے سوچا کہ میرے علمی ذخیرہ کا سب سے بہتروارث کپلر ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے کپلر کی گستاخیوں کو بھلاتے ہوئے اس کو اپنے پاس بلایا اور 1601 میں اپنی موت سے پہلے اپنا پورا تحریری ذخیرہ بلامعاوضہ کپلر کے حوالہ کر دیا۔

 جب ٹائیکوبراہے کے مشاہدات کا سارا سرمایہ کپلر کے پاس آگیا تو کپلر کی کمی کی تلافی ہوگئی۔ اب اس نے اپنے دماغ کی تمام ریاضیاتی قوت کو ان مشاہدات کے ساتھ مربوط کرنے میں لگا دیا۔ اس کا نتیجہ ان تین کلیات کی صورت میں نکلا جو کپلر کے سہ گانہ قوانین حرکت (Kepler`s laws of planetary motion) کے نام سے مشہور ہیں۔ ان قوانین کو استعمال کرتے ہوئے بعد کو سرآئزک نیوٹن(1643-1727) نے قوت کشش(gravitational force) کے بارے میں اپنی دریافت مکمل کی۔

یہی موجودہ دنیا میں کسی بڑی کامیابی کا راز ہے۔ ہر آدمی کی اپنی محدودیت ہوتی ہے۔ اس بنا پر کوئی بھی شخص تنہا کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ کوئی کام اس وقت انجام پاتا ہے جب کہ کئی لوگ اپنی صلاحیتوں اور اپنی کوششوں کو ایک رخ پر لگانے کے لیے راضی ہو جائیں۔ متحدہ کوشش کے بغیر اس دنیا میں کسی بڑے واقعہ کو ظہور میں لانا ممکن نہیں۔

مگر متحدہ کوشش کی ایک قیمت ہے۔ اور وہ قیمت ہے— اختلاف کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اتحاد کی بات پر ایک دوسرے سے جڑنا۔ اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ متحد ہو جانا۔ انسان کے اندر اختلاف کا پایا جانا لازمی ہے۔ اس دنیا میں اخلاص کے باوجود لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ اختلاف سے بچنا کسی طرح ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں عملی بات صرف یہ ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا حوصلہ پیدا کریں۔ اجتماعی مفاد کے لیے انفرادی پہلوئوں کو بھلا دیں۔ بڑی چیز کی خاطر چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کر دیں۔ مقصد کے تقاضے کے لیے اپنی ذات کے تقاضوں کو دفن کر دیں۔

 اسی کا نام بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی ہے۔ اور اس بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی کے بغیر اس دنیا میں کسی بڑے منصوبہ کو تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں۔

فطری ڈھال

1973ء میں ہندوستان کے جنگلوں میں تقریباً1800 شیر تھے۔ اس کے بعد شیر کی نسل بڑھانے کے لیے شیر منصوبہ(Project Tiger) شروع کیا گیا۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ چنانچہ اب شیروں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ تاہم شیر کی تعداد بڑھنے سے خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ یوپی کی ترائی میں دُوھوا نیشنل پارک ہے۔ اسی طرح ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سندر بن ہے۔ یہاں شیر اکثر باہر آ کر گائوں والوں کے مویشی مار ڈالتے ہیں۔

 تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ شیر انسان کے اوپر حملہ کرے۔ شیر اگر انسان کے اوپر حملہ بھی کرتا ہے تو پیچھے کی طرف سے کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیر انسان کے چہرے سے ڈرتا ہے۔ ایک رپورٹ(ٹائمس آف انڈیا،11دسمبر1988) میں بتایا گیا ہے کہ سندر بن کے جنگل میں جو لوگ ضرورت کے تحت شیر کے مخصوص علاقہ میں داخل ہوتے ہیں، وہ اپنے سر کے پیچھے کی طرف مکھوٹاڈال لیتے ہیں۔ تاکہ سامنے کی طرح ان کے پیچھے بھی انسانی چہرہ دکھائی دے۔ اس تدبیر کی وجہ یہ ہے کہ شیر بہت کم ایسا کرتا ہے کہ وہ سامنے سے انسان کے اوپر حملہ کرے:

Those that do enter the buffer zone of the Sundarbans wear masks on the back of their heads because a tiger seldom attacks a man from tht front.

انسان کے چہرے میں فطری طور پر رعب کی صفت ہے۔ یہ رعب جس طرح جانوروں کے مقابلہ میں ایک روک ہے، اسی طرح وہ انسانوں کے مقابلہ کے لیے بھی روک ہے۔ شیر انسانی چہرہ سے مرعوب ہو کر اس پر حملہ کی جرأت نہیں کرتا۔ شیر انسان کے اوپر صرف اس وقت حملہ کرتا ہے جب کہ انسان نے اپنی ناکافی کارروائی سے شیر پر یہ ظاہر کر دیا ہو کہ وہ اس کے مقابلہ میں کمزور ہے۔ یہی معاملہ انسان کے مقابلہ میں انسان کا بھی ہے۔ فطری حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کے چہرے سے ہیبت زدہ رہتا ہے۔ یہ ہیبت صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جو فطری حالت کو توڑنے کا سبب بن جائے۔

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا(خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کا چہرہ ساری معلوم کائنات میں سب سے زیادہ پر شوکت چیز ہے۔ وہ اپنے اندر ایک برتر عظمت لیے ہوئے ہے۔

 خدا نے آپ کے چہرہ اور آپ کی شخصیت کو آپ کے لیے ایک غیر مفتوح ڈھال بنایا ہے۔ آپ ہر ضرورت کے موقع پر اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر اس معاملہ میں آپ کی کامیابی سارا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ نے دوسروں کی نظر میں اپنی کیا تصویر بنائی ہے۔

 اگر آپ نے اپنے ماحول میں اپنی یہ تصویر بنائی ہو کہ آپ ایک سطحی اور بے قیمت انسان ہیں، آپ صرف جھوٹی لڑائی لڑنا جانتے ہیں۔ آپ اقدام کا نعرہ لگاتے ہیں اور دھمکی سن کر اقدام ملتوی کر دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں جب آپ دوسروں کے سامنے آئیں گے تو آپ کا آنا ایک بے وزن انسان کا آنا ہوگا۔ اس وقت آپ گویا ایک ٹوٹی ہوئی ڈھال ہوں گے جس کے اندر لوگوں کے لیے کوئی زور نہیں۔

اس کے برعکس، اگر آپ نے اپنے آس پاس اپنی یہ تصویر بنائی ہے کہ آپ ایک بھاری بھر کم انسان ہیں۔ آپ کے اعلیٰ اخلاق نے لوگوں کو آپ کا معترف بنا رکھا ہو۔ ایسی حالت میں آپ کے سامنے آتے ہی لوگوں کی نظریں آپ کے لیے جھک جائیں گی۔ آ پ کا آنا’’وہ آیا، اس نے دیکھا، اس نے فتح کرلیا‘‘ کا ہم معنی بن جائے گا:

He came, he saw, he conquered.

آپ کا انسانی چہرہ آپ کے حق میں ایک مرعوب کن ڈھال ہے۔ کوئی انسان آپ کے اوپر صرف اس وقت وار کرنے کی ہمت کرتا ہے جب کہ آپ اپنی کسی نادانی سے اس پر یہ ظاہر کر دیں کہ اس سے کمزور ہیں۔ دانش مندی کے ذریعہ اپنے رعبِ انسانی کو قائم رکھیے، اور پھر کوئی شخص آپ کے اوپر وار کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔

مقصد کا شعور

جاپان نے 1931ء میں چین کے شمال مشرقی حصہ(منچوریا) پر قبضہ کر لیا۔ اور وہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کر دی۔ اس کے بعد چین اور جاپان کے تعلقات خراب ہوگئے۔7 جولائی1937ء کو بیجنگ(پیکنگ) کے پاس مارکو پولو برج کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ نے دبے ہوئے جذبات کو بھڑکا دیا۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان فوجی ٹکرائو شروع ہوگیا جو بالآخر دوسری جنگ عظیم تک جا پہنچا۔

 اس وقت سے چین اور جاپان کے درمیان نفرت اور کشیدگی پائی جاتی تھی۔ چند سال پہلے جاپان اور چین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس کے مطابق جاپان کو چین میں ایک اسٹیل مل قائم کرنا تھا مگر معاہدہ کی تکمیل کے بعد چینی حکومت نے اچانک اس کو منسوخ کر دیا۔

 چین کے نئے وزیراعظم ڈینگ زاپنگ(Deng Xiaoping) نے حال میں اشتراکی انتہاپسندی کو ختم کیا اور کھلے دروازہ(Open Door) کی پالیسی اختیار کی تو جاپان کے لیے دوبارہ موقع مل گیا۔ چنانچہ آج کل جاپان نے چین میں زبردست یورش کر رکھی ہے۔ آپ اگر جاپان سے چین جانا چاہیں تو آپ کو ہوائی جہاز میں اپنی سیٹ تین ماہ پیشگی بک کرانی ہوگی۔ جاپان سے چین جانے والے ہر جہاز کی ایک ایک سیٹ بھری ہوئی ہے۔

چین میں تجارت کے زبردست امکانات ہیں۔ جاپان چاہتا ہے کہ ان تجارتی امکانات کو بھرپور استعمال کرے۔ اس مقصد کے لیے جاپان نے یک لخت طور پر ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دیا۔ ایک سیاح کے الفاظ میں جاپان نے طے کر لیا کہ وہ چین کی طرف سے پیش آنے والی ہر ایذا رسانی (Pinpricks) کو یک طرفہ طور پر برداشت کرے گا۔

مذکورہ سیاح نے لکھا ہے کہ میرے قیام ٹوکیو(جون1985ء) کے زمانہ میں ریڈیو بیجنگ نے اعلان کیا کہ چین ایک میوزیم بنائے گا جس میں تصویروں کے ذریعہ یہ دکھایا جائے گا کہ جاپانیوں نے چینیوں کے اوپر ماضی میں کیا کیا مظالم کیے ہیں۔ اس میوزیم کا افتتاح1987ء میں ہوگا جبکہ مارکوپولو کے حادثہ کو 50 سال پورے ہو جائیں گے۔ جاپانیوں سے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ جب زیادہ زور دیا گیا تو انہوں نے جواب دیا— آپ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے چینی دوستوں کا مہمیزلگانے کا طریقہ ہے۔ وہ ہمارے ضمیر کو متوجہ کر رہے ہیں :

You know our Chinese friends have a way of twisting our tails and appealing to our conscience. (The Times of India, 13 June 1985)

جاپان کے سامنے ایک مقصد تھا، یعنی اپنی تجارت کو فروغ دینا۔ اس مقصد نے جاپان کے اندر کردار پیدا کیا۔ اس کے مقصد نے اس کو حکمت، برداشت، اعراض کرنا اور صرف بقدر ضرورت بولنا سکھایا۔ اس کے مقصد نے اس کو بتایا کہ کس طرح وہ ماضی کو بھلا دے اور تمام جھگڑوں اور شکایتوں کو یک طرفہ طور پر دفن کر دے تاکہ اس کے لیے مقصد تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو سکے۔

بامقصد گروہ کی نفسیات ہمیشہ یہی ہوتی ہے۔ خواہ اس کے سامنے تجارتی مقصد ہو یا کوئی دوسرا مقصد۔ اور جب کوئی گروہ یہ صفات کھودے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس گروہ نے مقصدیت کھودی ہے۔ اس کے سامنے چوں کہ کوئی مقصد نہیں اس لیے اس کے افراد کاکوئی کردار بھی نہیں۔

موجودہ زمانہ میں ہماری قوم کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بے کرداری ہے۔ جس میدان میں بھی تجربہ کیجیے آپ فوراً دیکھیں گے کہ لوگوں نے اپنا کردار کھو دیا ہے۔ ان کے اوپر کسی ٹھوس منصوبہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ جہاں بھی انہیں استعمال کیا جائے وہ دیوار کی کچی اینٹ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ دیوار کی پختہ اینٹ ہونے کا ثبوت نہیں دیتے۔

اس کمزوری کی اصل وجہ یہی ہے کہ آج ہماری قوم نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے۔ وہ ایک بے مقصد گروہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے سامنے نہ دنیا کی تعمیر کا نشانہ ہے اور نہ آخرت کی تعمیر کا نشانہ۔ یہی ان کی اصل کمزوری ہے۔ اگر لوگوں میں دوبارہ مقصد کا شعور زندہ کر دیا جائے تو دوبارہ وہ ایک جاندار قوم نظر آئیں گے۔ وہ دوبارہ ایک باکردار گروہ بن جائیں گے جس طرح وہ اس سے پہلے ایک باکردار گروہ بنے ہوئے تھے—  قوم کے افراد کے اندر مقصد کا شعور پیدا کرنا ان کے اندر سب کچھ پیدا کرنا ہے۔مقصد آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے، وہ اس کو نیا انسان بنا دیتا ہے۔

غلط فہمی

گرم علاقوں میں ایک خاص قسم کا پتنگا پایا جاتا ہے۔ اس کو عام طور پر عبادت گزار مینٹس (Praying mantis) کہا جاتا ہے۔ زیادہ صحیح طور پر اس کا نام شکاری مینٹس(Preying mantis) ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ کیڑوں مکوڑوں کا شکار کرکے ان سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔

مینٹس کی دنیا بھر میں ایک ہزار قسمیں دریافت کی گئیں ہیں۔ وہ ایک انچ سے سات انچ تک لمبا  ہوتا ہے۔ اپنے ماحول کے اعتبار سے اس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً بھورا، لال اور ہرا۔

ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص  نے اپنے گھر کے پاس کھلی زمین میں اپنا کچن گارڈن (kitchen garden) بنایا۔ چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں دھنیا، مرچ، بینگن، ٹماٹر وغیرہ کی کاشت کی۔ جب پودے بڑھے اور خوب سرسبز ہوگئے تو ایک روز اس نے دیکھا کہ اس کی کیاری کے اندر بڑے بڑے دوہرے رنگ کے کیڑے موجود ہیں۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ یہ میری سبزیوں کو کھائیں گے اور ان کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس نے فوراً ان دونوں کیڑوں کو پکڑا اور انہیں مار ڈالا۔

شام کو اس کا ایک دوست اس سے ملنے کے لیے آیا۔ وہ مقامی کالج میں علم نباتات(botany) کا استاد تھا۔ اس نے اپنے دوست سے فاتحانہ انداز میں کہا کہ آج میرے کچن گارڈن میں دو بڑے کیڑے آگئے۔ وہ میری سبزیوں کو کھانا چاہتے تھے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ میری سبزیوں کو نقصان پہنچائیں، میں نے انہیں مار کر ختم کر دیا۔

اس واقعہ کو اس نے کچھ ایسے انداز سے بیان کیا کہ دوست کو خیال آیا کہ وہ نئے کیڑے کون سے تھے۔ اس نے پوچھا کہ وہ مرے ہوئے کیڑے کیا اب بھی موجود ہیں کہ میں انہیں دیکھوں۔ اس کے بعد آدمی نے اپنے دوست کو دونوں کیڑے دکھائے۔ دوست نے کہا کہ تم نے تو بڑی نادانی کی۔ تم جانتے نہیں، یہ تومینٹس ہے، اور مینٹس سبزی خور کیڑا(herbivorous) نہیں، وہ تو مسلّمہ طور پر ایک گوشت خور کیڑا(carnivorous) ہے۔ وہ یہاں قدرت کی طرف سے تمہاری مدد کے لیے آیا تھا۔ اس کی فطرت کے خلاف تھا کہ وہ کسی سبزی کو کھائے۔ وہ تمہاری سبزیوں کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچاتا۔ وہ صرف ان کیڑوں کو کھاتا جو سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور جن کو ختم کرنا تمہارے لیے سخت مشکل ہے۔ تم بھی کیسے نادان نکلے کہ تم اپنے فائدہ اور نقصان کو نہ سمجھ سکے۔ تم نے اپنے ایک قیمتی چوکیدار کو مار ڈالا۔

دوست کی زبان سے یہ الفاظ سنتے ہی آدمی کی زبان بند ہوگئی۔ اس کو اپنے کیے پر بے حد افسوس ہوا۔ یہاں تک کہ وہ بیمار پڑ گیا اور کئی دن تک کام کرنے کے قابل نہ رہا۔

 یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلط فہمی کسی آدمی کو کتنی بڑی بڑی کوتاہیوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص شدید غلط فہمی میں پڑ کر دوسرے شخص کی جان مار ڈالے، حالانکہ یہ دوسرا شخص بالکل بے قصور ہو۔ وہ ایک آدمی کو بے عزت کرنے پر تل جائے، حالاں کہ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے وہ ایسا آدمی ہو کہ اس کے ساتھ نہایت عزت و احترام کا سلوک کیا جائے۔

 اسی لیے شریعت میں یہ حکم ہے کہ رائے قائم کرنے یا کسی کے خلاف اقدام کرنے سے پہلے اس کے معاملہ کی پوری تحقیق کرو۔ ایسا ہر گز مت کرو کہ کسی کے خلاف ایک خبر سنو اور فوراً اس کو مان لو، اور اس کے خلاف ایک بُرا اقدام کر بیٹھو۔ عین ممکن ہے کہ تحقیق کے بعد تم کو معلوم ہو کہ جو خبر تم کو پہنچی تھی، وہ خبر سراسر غلط اور بے بنیاد تھی:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس ایک خبر لائے تو تم اس خبر کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے(49:6)۔

غلط خبر کو سن کر اس کے انجام سے بچنے کی تدبیر نہایت آسان ہے— وہ یہ کہ کسی بات کو سننے کے بعد اس وقت تک اسے نہ مانا جائے جب تک براہ راست ذرائع سے اس کی تحقیق نہ کرلی جائے۔

نفع بخشی کی طاقت

ہندوستان ٹائمس(20 جولائی1990ء) کے نمائندہ مقیم ماسکو مسٹر بھابنی سین گپتا نے سوویت یونین کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، اس کا عنوان ہے— ایک نیا روس ابھر رہا ہے:

A new USSR is emerging.

اس رپورٹ میں سوویت روس میں ہونے والی تبدیلیوں کاذکر کرتے ہوئے وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات کے ایک ممتاز روسی ماہر نے ماسکو میں مجھے بتایا کہ سوویت روس کا پہلا محبوب امریکہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا پہلا محبوب متحدہ یورپ ہوگا۔ اور پھر جاپان، اس کے بعد امریکہ اور چین۔ میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا، اور انڈیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ روسی عالم نے پُراطمینان لہجہ میں کہا کہ انڈیا کا معاملہ ایک مخصوص معاملہ ہے۔ انڈیا ہمارا پہلا یا دوسرا یا تیسرا محبوب نہیں۔ انڈیا ہمارا دائمی محبوب ہے:

An outstanding Soviet specialist in international affairs told me, "The United States will not be the first love of the U.S.S.R. The first love will be united Europe. And then Japan, the U.S. and Canada.'' ''What about India?'' I asked with mixture of surprise and amusement. ‘India is special'', the academician replied placidly. ''India is not our first or second or third love. It is our love-for-ever''. (p. 1)

پچھلے چالیس سال سے ہماری حکومت ہم کو یقین دلا رہی تھی کہ سوویت روس ہمارا سب سے بڑا دوست ہے۔ مگر روسی عالم کا مذکورہ جواب بتاتا ہے کہ اب سوویت روس نے انڈیا کو رسمی تعلق کے خانے میں ڈال دیا ہے۔ اس فرق کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ پہلے روس کو ہماری ضرورت تھی، اب روس کو ہماری ضرورت نہیں رہی۔ سرد جنگ کی سیاست میں روس ہم کو امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اب روس اور امریکہ میں صلح ہو جانے کے بعد یہ حریفانہ سیاست مر گئی، اس لیے روس کی نظر میں ہماری اہمیت بھی ختم ہوگئی۔ اب روس کے لیے اہمیت صرف ان ملکوں کی ہے جو جدید اقتصادی تنظیم میں اس کے مدد گار بن سکیں۔ اور یہاں یورپ اور جاپان اس کے لیے مدد گار ہیں، نہ کہ انڈیا۔ کسی فرد یا قوم کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی ضرورت بنا دے۔ اس کے سوا دوسری ہر بنیاد فرضی ہے جو ہوا کے پہلے ہی جھونکے میں زمیں بوس ہو جاتی ہے۔

ہندوستان ٹائمس(28 دسمبر1990ء) نے ایک ہندوستانی صحافی مقیم واشنگٹن مسٹر این سی منن کی رپورٹ چھاپی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ عام طور پر لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ جب روسی صدر میخائل گوربا چیف نے راجیو گاندھی کی حکومت کے زمانہ میں انڈیا کا دورہ کیا۔ اس وقت سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے انڈیا، چین اور سوویت یونین کے درمیان قریبی تعاون کی تجویز پیش کی تھی تاکہ امریکی دیو(اور شاید یورپ کے ابھرتے ہوئے اتحاد) کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوستانہ دھڑا قائم کیا جا سکے۔ صدر گوربا چیف نے بے رحمانہ صاف گوئی کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ نئی ٹیکنالوجی ہے، اور نئی ٹیکنالوجی ہم کو نہ چین دے سکتا ہے، اور نہ انڈیا:

It is not generally known that when Soviet President Mikhail Gorbachev visited India, then Prime Minister Rajiv Gandhi had suggested closer cooperation among India, China and the Soviet Union as a friendly counterpoise to the US giant (and perhaps to the emerging European conglomerate). President Gorbachev responded with brutal frankness that what we need desperately is new tecnology, and neither China nor India can give us that. (p.13)

پچھلے چالیس سال سے روس نے’’سرمایہ دار مغرب‘‘ کو اپنا دشمن سمجھ رکھا تھا۔ اور’’سوشلسٹ انڈیا‘‘ کو اپنا دوست بنائے ہوئے تھا۔ مگر لمبے تجربے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ انڈیا سے اس کو کوئی فائدہ نہیں، جب کہ سرمایہ دار مغرب اس کی ترقی میں نہایت اہم مدد گار بن سکتا ہے۔ اس نے انڈیا کو چھوڑ دیا اور اختلاف اور شکایت کو نظر انداز کرتے ہوئے سرمایہ دار مغرب سے دوستی قائم کر لی۔

’’سرمایہ دار ملک‘‘ نے اپنی نفع بخشی کی صلاحیت کے ذریعہ اپنے سب سے بڑے دشمن کو جیت لیا، اور سوشلسٹ انڈیا کی غیر نفع بخشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو اپنے سب سے بڑے دوست سے محروم ہو جانا پڑا— یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا اصل راز ہے۔ اس دنیا میں کامیابی نفع بخشی کی بنیاد پر ملتی ہے ، نہ کہ الفاظ کا گنبد کھڑا کرنے سے۔

یقینی حل

الرسالہ اکتوبر1986 کو پڑھ کر ایک صاحب نے طویل خط(7اکتوبر1986) لکھا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے، آپ کا سفر نامہ نہ صرف معلوماتی ہوتا ہے بلکہ انداز بیان کے لحاظ سے بھی منفرد۔ اس بار بھی بمبئی کا سفر نامہ ایسا ہی ہے۔ اس سفر نامہ میں ہیرا لال ڈرائیور سے آپ کی ملاقات اور ایکسیڈنٹ سے بچے رہنے کی تدبیر کے بارے میں پوچھے گئے آپ کے سوال کا جواب پڑھنے کو ملا۔ اور مجھے اس سے ملتا جلتا ایک قصہ یاد آگیا۔

ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی 55 سالہ زندگی میں ایک بھی ایکسیڈنٹ نہیں کیا۔ ایک بار وہ محفوظ ڈرائیونگ پر لیکچر دیتے ہوئے بولا:مجھے یہ بتانے میں ایک منٹ کا وقت بھی نہیں لگے گا کہ محفوظ ڈرائیونگ کس طرح کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ بہت آسان ہے۔ ڈرائیونگ کے وقت بس یہ بات ذہن میں رکھیے کہ آپ کے سوا دنیا کا ہر ڈرائیور پاگل ہے۔(محی الدین محمد۔ حیدر آباد)

پاگل‘اس شخص کا نام ہے جو مرفوع القلم ہو۔ جس سے کسی قسم کی توقع نہ کی جا سکے۔ اور جہاں فریق ثانی کی طرف سے کوئی توقع نہ ہو وہاں دوطرفہ بنیاد پر سوچنا بالکل بے معنی ہے۔ ایسے مواقع پر آدمی ہمیشہ یک طرفہ سوچتا ہے۔ اور یک طرفہ طور پر مسئلہ کا حل تلاش کرتا ہے۔ چنانچہ ہر آدمی جانتا ہے کہ پاگل سے لڑنا نہیں ہے بلکہ پاگل سے بچنا ہے۔ پاگل کے مسئلہ کا حل اس سے اعراض کرنا ہے ، نہ کہ اس سے ٹکرائو کرنا۔ جو ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو پاگل سمجھ لے وہ دوسروں کی شکایت نہیں کرے گا۔ وہ ساری توجہ خود اپنی طرف لگا دے گا۔ وہ کہیں اپنی گاڑی کو روک لے گا۔ کہیں وہ پیچھے ہٹ جائے گا اور کنارے کی طرف سے اپنا راستہ نکالے گا۔ سڑک کا جو مسافر اس طرح یک طرفہ طور پر ذمہ داری اپنے آپ پر ڈال لے وہ کبھی سڑک کے حادثہ سے دو چار نہیں ہو سکتا۔

مذکورہ ڈرائیور نے ایک لفظ میں زندگی کا راز بتا دیا ہے۔ اس کی مراد دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ— آپ دوسروں سے کچھ امید نہ رکھیے۔ ساری ذمہ داری یک طرفہ طورپر خود قبول کیجیے اور اس کے بعد آپ یقینی طور پر ایکسیڈنٹ سے دو چار نہیں ہوں گے۔

 ڈرائیور نے جو بات سڑک پر حادثات سے بچنے کے بارے میں کہی۔ وہی وسیع تر زندگی میں حادثات سے بچنے کے بارے میں بھی درست ہے۔ آپ اپنی زندگی میں یقینی طور پر سماجی حادثات سے بچ سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ آپ یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار بنا لیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں مسائل کا سب سے زیادہ یقینی حل وہی ہے جس پر مذکورہ ڈرائیور نے عمل کیا اور اپنی ڈرائیونگ کی طویل زندگی میں حادثات سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔

خالص طبی معنوں میں پاگل انسانوں کی تعداد ساری دنیا میں بمشکل ایک فیصد ہوگی۔ مگر دوسرے اعتبار سے دنیا کے 99 فیصد انسان امکانی طور پر پاگل ہیں۔ عام حالات میں بظاہر لوگ بالکل ٹھیک نظر آتے ہیں۔ مگر جب آدمی کے ذاتی مفاد کا معاملہ آ جائے، جب اس کی انا کو ٹھیس لگے۔ جب فریق ثانی کی کسی بات پر اس کے اندر غصہ بھڑک اٹھے۔ جب اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس سے اس کی اَن بَن ہوگئی ہو، تو اس وقت شریف آدمی بھی غیر شریف بن جاتا ہے۔ صحیح دماغ کا انسان بھی پاگل پن پر اتر آتا ہے۔

 ایک بار حیدر آباد سے محبوب نگر جاتے ہوئے خود میرے ساتھ ایک سبق آموز واقعہ پیش آیا۔ ہماری گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی کہ اچانک ایک بیل سڑک پر آگیا۔ جو صاحب کار کو چلا رہے تھے انہوں نے یہ نہیں کیا کہ بیل کے خلاف احتجاج کریں یا بدستور اپنی گاڑی دواڑتے رہیں۔ انہوں نے فوراً بریک لگا کرگاڑی کو روکا، اور ایک لمحہ رک کر اندازہ کیا کہ بیل کدھر جا رہا ہے۔ بیل نے جب سڑک کے آدھے سے زیادہ حصہ پار کر لیا، اور یہ واضح ہوگیا کہ وہ مشرق کی طرف جا رہا ہے تو انہوں نے اپنی گاڑی مغرب کی طرف گھمائی اور بیل کے کنارے کی طرف سے راستہ نکال کر آگے کے لیے روانہ ہوگئے— زندگی کے مسائل ہمیشہ یک طرفہ کارروائی کے ذریعے حل ہوتے ہیں۔ جو لوگ دوطرفہ بنیاد پر مسئلہ کو حل کرنا چاہیں، موجودہ دنیا میں ان کے لیے اس کے سوا کچھ اور مقدر نہیں کہ وہ بے فائدہ احتجاج کرتے رہیں اور اسی حال میں دنیا سے چلے جائیں۔

فتح بغیر جنگ

مسٹر رچرڈنکسن1968ء سے1974ء تک امریکہ کے پریذیڈنٹ تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے—1999ء، جنگ کے بغیر فتح:

Richard Nixon,1999: Victory Without War

اس کتاب میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان میں سے ایک بات امریکہ اور جاپان کے باہمی تعلق کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں مسٹر نکسن نے جو باتیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک بات مختصر طور پر یہ ہے:

The Americans decimated Japan in 1945, and after World War II, rebuilt it with enormous economic backing as a model country to disprove the communist ideology that poverty cannot be removed through the process of capitalism. Democracy was planted on its territory in place of ancient monarchy. Its constitution was written by the Americans. Its defence was controlled from Washington DC. After 35 years of this experiment, bitter economic disagreements have clouded In US-Japan relations in recent years. There is a terrific trade imbalance. In 1986 Japan sold goods to the US to the value of $60 billion in excess of the goods purchased from the States, contributing to the total American trade deficit of $170 billion. Indigenous rice production costs Japan $2,000 a ton, yet she is not prepared to buy rice from her benefactor, the US, offered at $180 a ton with a view ''to protect Japanese farmers''. The US is sore that the ''Japanese have closed their markets to American goods''(p.2)

امریکیوں نے 1945ء میں جاپان پر ایٹم بم سے حملہ کرکے اس کے بڑے حصہ کو تباہ کر دیا۔ پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے زبردست اقتصادی امداد کے ذریعہ جاپان کی دوبارہ تعمیر کی۔ جاپان کے ساتھ یہ معاملہ انہوں نے اپنے ذاتی مقصد کے لیے، ایک نمونہ کے ملک کے طور پر کیا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس اشتراکی نظریہ کو غلط ثابت کر سکیں کہ غریبی کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔

چنانچہ جاپان میں قدیم بادشاہت کی جگہ جمہوریت لائی گئی۔ امریکیوں نے خود وہاں کا دستور لکھ کر تیار کیا۔ اس کا دفاع مکمل طور پر واشنگٹن کے تحت کر دیا گیا۔

اس تجربہ کے 35 سال بعد تلخ اقتصادی اختلافات کے بادل امریکہ اور جاپان کے تعلقات پر چھا گئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی توازن ہولناک حد تک بگڑ گیا۔1986ء میں امریکہ نے جتنا سامان جاپان کے ہاتھ بیچا، اس کے مقابلہ میں جاپان نے ساٹھ بلین ڈالر کے بقدر زیادہ سامان امریکہ کے ہاتھ فروخت کیا۔ واضح ہو کہ اس سال امریکہ کا کل تجارتی خسارہ170 بلین ڈالر تھا۔ جاپان اس پوزیشن میں ہو چکا ہے کہ اس نے امریکی چاول کی خریداری کے لیے 180 ڈالر فی ٹن کی پیش کش کو رد کر دیا جب کہ اسے اپنے ملک میں چاول پیدا کرنے کے لیے2000 ڈالر فی ٹن خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اب امریکہ کو یہ شکایت ہے کہ جاپانیوں نے امریکی سامان کے لیے اپنی مارکیٹ کو بند کر دیا ہے۔(ٹائمس آف انڈیا2 اپریل 1989ء)

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی حیثیت فاتح اور غالب کی تھی، اور جاپان کی حیثیت مفتوح اور مغلوب کی۔ مگر فاتح نے جو اقدامات اپنے مفاد کے لیے کیے، اس کو مفتوح نے اپنے مفاد میں تبدیل کر لیا۔ یہی موجودہ دنیا کا امتحان ہے۔ اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو دشمن کے مخالفانہ منصوبوں میں اپنے لیے موافق پہلو تلاش کر لیں جو دشمن کی تدبیروں کو اپنے لیے زینہ بنا کر آگے بڑھ جائیں۔

اس دنیا میں شکست بھی فتح کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہاں جنگ کے بغیر بھی کامیاب مقابلہ کیا جاتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ دانش مندوں کے لیے ہے۔ نادانوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں کوئی بھی حقیقی کامیابی مقدر نہیں۔ ان کے لیے فتح بھی شکست  ہے، اور شکست بھی شکست۔

سلیقہ مندی

کمانا مشکل ہے مگر خرچ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ جو شخص صحیح طور پر خرچ کرنا جانے، وہ کم آمدنی میں بھی زیادہ آمدنی والی زندگی گزار سکتا ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی صحیح طور پر خرچ کرنا نہ جانے، وہ زیادہ آمدنی میں بھی کم آمدنی والے مسائل میں مبتلا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص سلیقہ اور کفایت کے ساتھ خرچ کرنا جانے، اس کو گویا اپنی آمدنی کو بڑھانے کا ہنر معلوم ہوگیا۔ اس نے اپنی آمدنی میں مزید کمائے بغیر اضافہ کر لیا۔ خرچ کرنے سے پہلے سوچیے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح آپ کمانے سے پہلے سوچتے ہیں۔ جو کچھ کیجیے منصوبہ بند انداز میں کیجیے، اور پھر آپ کبھی معاشی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں گے۔

فضول خرچی کا دوسرا نام معاشی تنگی ہے۔ اور کفایت شعاری کا دوسرا نام معاشی فارغ البالی۔ اس حقیقت کی وضاحت کے لیے یہاں دو واقعہ نقل کیا جاتا ہے۔ مجھے ایک صاحب کا واقعہ معلوم ہے۔ انہوں نے ایم ایس سی کیا۔ اس کے بعد ان کو 400 روپیہ ماہوار کی سروس ملی۔ انہوں نے طے کیا کہ اس رقم میں سے صرف دو سو روپیہ کو میں اپنی آمدنی سمجھوں گا اور بقیہ دو سو کو سیونگ اکائونٹ میں جمع کروں گا۔ ان کی تنخواہ بڑھتی رہی— ایک ہزار،2 ہزار، 3 ہزار،4 ہزار،5 ہزار۔ مگر انہوں نے ہمیشہ کل تنخواہ کے نصف کو اپنی آمدنی سمجھا اور بقیہ نصف کو ہر ماہ بینک میں جمع کرتے رہے۔

اس طرح کی دس سالہ زندگی گزارنے کے بعد انہوں نے اپنا اکائونٹ دیکھا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے اکائونٹ میں ایک بڑی رقم جمع ہو چکی ہے۔  اب انہوں نے سروس چھوڑ کر بزنس شروع کر دیا۔ آج وہ اپنے بزنس میں کافی ترقی کر چکے ہیں۔ مگر زندگی کا جو طریقہ انہوں نے ابتدا میں اختیار کیا تھا اسی پر وہ آج بھی قائم ہیں۔ وہ نہایت کامیابی کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

 اب اس کے برعکس مثال لیجیے۔ ایک صاحب کو وراثتی تقسیم میں یک مشت ایک لاکھ روپیہ ملا۔ انہوں نے اس کے ذریعہ سے کپڑے کی ایک دکان کھولی۔ دکان بہت جلد کامیابی کے ساتھ چلنے لگی۔ مگر چند سال کے بعد ان کی دکان ختم ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آمدنی اور لاگت کے فرق کو نہیں سمجھا۔ مثلاً ان کی دکان پر اگر 5 ہزار روپیہ کا کپڑا بکے تو اس میں ساڑھے چار ہزار روپیہ لاگت کا ہوتا تھا اور500 روپیہ آمدنی کا۔ مگر وہ دکان میں آئی ہوئی رقم کو اس طرح خرچ کرنے لگے جیسے کہ5 ہزار کی پوری رقم آمدنی کی رقم ہو۔

ظاہر ہے کہ یہ فضول خرچی کی بدترین شکل تھی۔ چنانچہ چند سال میں وہ دیوالیہ ہو کر ختم ہوگئے۔

اس دنیا میں سلیقہ مند زندگی کا نام خوش حالی ہے اور بے سلیقہ زندگی کا نام بدحالی۔

٭ ٭ ٭ ٭٭٭٭٭٭

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إِنَّ مِنْ السَّرَفِ أَنْ تَأْكُلَ كُلَّ مَا اشْتَهَيْتَ (سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر 3352)۔ یعنی یہ اِسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کے کھانے کو تمھارا دل چاہے۔ یہی بات حضرت عمر فاروق نے اِن الفاظ میں کہی:كَفَى بِالْمَرْءِ سَرَفًا أَنْ يَأْكُلَ كُلَّ مَا اشْتَهَى(الزھد و الرقائق لابن المبارک، اثر نمبر769)۔ یعنی آدمی کے فضول خرچ ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو کھائے جواس کا اس کا دل چاہے۔

سرف اور اِسراف کے لفظی معنی فضول خرچی (waste) کے ہیں، یعنی اپنے مال کو ایسی چیزمیں خرچ کرنا جو آدمی کے لیے ضروری نہ ہو، وہ اس کی صرف ایک خواہش (desire) ہو، نہ کہ اس کی حقیقی ضرورت (need)۔ ہر آدمی دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے— ضرورت ، اور خواہش۔اپنے مال کو ضرورت کے بقدر خرچ کرنا، بلاشبہ ایک جائز فعل ہے۔ لیکن خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنا، ایک ایسا فعل ہے جس کے لیے انسان کو آخرت کی عدالت میں جواب دینا پڑے گا۔

امید کا پیغام

قرآن میں بعض انسانی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کی ناموافق صورت پیش آئے تو صبر اور توکل کا انداز اختیار کرو۔ اللہ تمہارا نگہبان ہے، وہ تمہارے لیے مشکل کے بعد آسانی پیدا کر دے گا(سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا )65:7۔

 جس طرح ہماری زمین مسلسل گردش کر رہی ہے، اسی طرح انسان کے حالات بھی برابر بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں مایوس نہ ہو، وہ ہمیشہ ناامیدی پر امید کے پہلو کو غالب رکھے۔ حال کی بنیاد پر وہ کبھی مستقبل کے بارے میں اپنے یقین کو نہ کھوئے۔

رات کے آنے کو اگر’’آج‘‘ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ اندھیرے کا آنا معلوم ہوگا، مگر’’کل‘‘ کے لحاظ سے دیکھیے تو وہ روشن صبح کے آنے کی تمہید بن جاتا ہے۔ خزاں کا موسم بظاہر پت جھڑ کا موسم دکھائی دیتا ہے۔ مگر مستقبل کی نظر سے دیکھیے تو وہ بہار کے سرسبزوشاداب موسم کی خبر دینے لگے گا۔

یہ قدرت کا اٹل قانون ہے۔ یہ قانون عام مادی دنیا کے لیے بھی ہے، اور اسی طرح انسانوں کی زندہ دنیا کے لیے بھی۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ جب دنیا کی تخلیق اس ڈھنگ پر ہوئی ہے تو کوئی انسان اس دنیا میں مایوس کیوں ہو۔ جب یہاں ہر تاریکی آخر کار روشنی بننے والی ہے تو وقتی حالات سے گھبرانے کی کیا ضرورت۔ آدمی اگر یہاں کسی مشکل میں پھنس جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ صبر اور حکمت کے ساتھ اس سے نکلنے کی جدوجہد کرے۔ اگر بالفرض اس کے پاس جدوجہد کرنے کی طاقت نہ ہو تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے آنے والے کل کا انتظار کرے۔

اس دنیا میں جس طرح محنت ایک عمل ہے، اسی طرح انتظار بھی ایک عمل ہے۔ جو شخص عمل کا ثبوت نہ دے سکے، اس کو چاہیے کہ وہ انتظار کا ثبوت دے۔ اگر اس نے سچا انتظار کیا تو عین ممکن ہے کہ وہ انتظار کے ذریعہ بھی اسی چیز کو پا لے جس کو دوسرے لوگ محنت کے راستہ سے تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قدرت کا نظام خود اپنے آخری فیصلہ کو ظہور میں لانے کے لیے سرگرم ہے، بشرطیکہ آدمی مقرر وقت تک اس کا انتظار کر سکے۔

عربی کا ایک مقولہ ہے:رُبَّ ضارَّةٍ نافعة(بہت سی نقصان والی چیزیں نفع دینے والی ہوتی ہیں)۔ یہ قول نہایت بامعنی ہے۔ وہ زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتاتا ہے۔ یہ کہ اس دنیا میں کوئی نقصان صرف نقصان نہیں۔ یہاں ہر عسر کے ساتھ یسر ہے۔ یہاں ہر نقصان کے ساتھ ایک فائدہ کا پہلو لگا ہوا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس کو نقصان پیش آئے تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ نہ جائے، بلکہ اپنے ذہن کو سوچ کے رخ پرلگائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ایسا امکان دریافت کر لے جو نہ صرف اس کے نقصان کی تلافی کرے بلکہ اس کو مزید اضافہ کے ساتھ کامیاب بنا دے۔

 ایک شخص دیہات میں ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوا۔1925ء میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا جب کہ اس کی عمر صرف 6 سال تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد خاندان والوں نے جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ اس کو ایک معمولی مکان کے سوا کوئی اور چیز نہیں ملی۔ مجبور ہو کر دس سال کی عمر میں وہ کمانے کے لیے نکلا۔ وہ دیہات سے نکل کر شہر میں چلا گیا۔ عرصہ تک وہ محنت مزدوری کرتا رہا۔ حالات نے اس کو دستکاری کے ایک کام میں لگا دیا۔ اپنی محنت سے وہ ترقی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک کارخانہ کھول لیا۔ اس کی ترقی جاری رہی۔70 سال کی عمر میں جب وہ مرا تو وہ ایک بڑا صنعت کار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے کروڑوں روپیہ کی جائیداد چھوڑی۔

اس آدمی کے ساتھ اگر عُسر کی حالت پیش نہ آتی۔ دیہات میں اس کے تمام کھیت اس کو مل جاتے تو وہ اسی میں لگ جاتا۔ وہ ایک کسان کی حیثیت سے جیتا اور کسان کی حیثیت سے مرتا۔ مگر عُسر اور نقصان نے اس کو اوپر اٹھایا۔ اس کے تلخ تجربات نے اس کو زرعی دور سے نکال کر صنعتی دور میں پہنچا دیا۔

زندگی کے امکانات کی کوئی حد نہیں۔ ہر بار جب ایک امکان ختم ہوتا ہے تو وہیں زیادہ بڑا امکان آدمی کے لیے موجود رہتاہے۔ پھر کوئی شخص مایوس کیوں ہو۔ پھر آدمی نقصان پر فریاد و احتجاج کیوں کرے۔ کیوں نہ وہ نئے امکان کو استعمال کرے جو اس کی شام کو دوبارہ ایک روشن صبح میں تبدیل کر دینے والا ہے۔

 آدمی کو چاہیے کہ جب ایک امکان کا سرا اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو وہ کھوئی ہوئی چیز کا ماتم کرنے میں وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ نئے امکان کو دریافت کرکے اس کا استعمال شروع کر دے۔ عین ممکن ہے کہ اس تدبیر کے ذریعہ وہ پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی اپنے لیے حاصل کر لے۔

کامیابی کا راز

ٹاٹا خاندان نے صنعت کے میدان میں ہندوستان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ان کا صنعتی پھیلائو اتنا زیادہ ہے کہ اس کو ٹاٹا انڈسٹریل ا یمپائر کہا جاتا ہے۔ یہ ترقی انہیں اتفاقاً حاصل نہیں ہوگئی۔ بلکہ اس کے معلوم اسباب ہیں۔ ان اسباب میں نمایاں ترین وہ اخلاقی اوصاف ہیں جس کا ثبوت وہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے دے رہے ہیں۔

1۔ صنعتی کامیابی کی یہ کہانی گجرات کے ایک پارسی جمشید جی نوشیرواں جی ٹاٹا (1839-1904)سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے 1868ء میں بمبئی میں21 ہزار روپیہ کی لاگت سے ایک تجارتی کمپنی شروع کی۔ جمشید جی ٹاٹا کے بعد اس کے بڑے صاحبزادےدواربجی ٹاٹا نے اس کمپنی کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے اسٹیل کا کارخانہ ٹاٹا اسٹیل وغیرہ قائم کیا۔ یہ ابتدا ترقی کرتے کرتے آج ایک انڈسٹریل ایمپائر بن چکی ہے۔ مگر ٹاٹا گروپ پورے استقلال اور اتحاد کے ساتھ اپنی مہم میں لگا ہوا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کے استقلال اور اتحاد کو توڑنے والی نہ بن سکی۔

2۔ دورابجی ٹاٹا کے بعد جے آر ڈی ٹاٹا نے 1938 میں اس کاروبار کو بہت زیادہ ترقی دی ہے۔ ان کو بجا طور پر عظیم بصیرت والا انسان (great visionary) کہا جاتا ہے۔ ان کی بصیرت اور دوراندیشی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ہندوستان میں ہوا بازی کی اہمیت کو سمجھا۔ وہ پہلے ہندوستانی پائلٹ ہیں جن کو مارچ1929ء میں ہوائی جہاز چلانے کا لائسنس دیا گیا۔ 1932 میں پہلی ہوائی کمپنی ٹاٹا ائیرویز کے نام سے قائم کی گئی تھی ۔آزادی کے بعد1947 میں ہندوستانی حکومت نے ٹاٹا ائیرویز میں بڑا حصہ خرید کر اس کو اپنے کنٹرول لے لیا۔ پھر اس کا نام ائیر انڈیا رکھ دیا گیا۔

3۔ جہانگیر رتن جی دادا بھائی ٹاٹا(JRD Tata, 1904-1993) غیر معمولی وسعت ظرف کے مالک ہیں۔1930 میں آغا خاں نے اعلان کیا کہ انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان جو شخص سب سے کم وقت میں جہاز اڑا کر لے جائے گا اس کو وہ بہت بڑا انعام دیں گے۔ اس پر جے آر ڈی ٹاٹا نے کراچی سے اپنا جہازا اڑایا۔ ایک اور شخص لندن سے روانہ ہوا۔ درمیان میں دونوں تیل لینے کے لیے قاہرہ میں اترے۔

 اس وقت ٹاٹا کو معلوم ہوا کہ ان کے حریف کو ایک پرزہ کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اس کو اس وقت تک قاہرہ ائیرپورٹ پر انتظار کرنا پڑے گا جب تک انگلینڈ سے وہ پرزہ نہ آ جائے۔ ٹاٹا کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بلا مقابلہ کامیابی حاصل کر لیں۔ مگر انہوں نے وسعت ظرف سے کام لیتے ہوئے وہ پرزہ اپنے پاس سے اپنے حریف کو دے دیا۔ اس فیاضی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا حریف مقابلہ جیت گیا۔ مگر ٹاٹا نے کبھی اس کے بارے میں کسی قسم کے ملال کا اظہار نہیں کیا۔

4۔ انسانی احترام کے بارے میں جے آر ڈی ٹاٹا بے حد حساس ہیں۔ اختیارات کے باوجود وہ اپنی رائے دوسروں کے اوپر نہیں تھوپتے۔ بلکہ ہمیشہ دوسروں کو متاثر کرنے کا طریقہ (Dersuasion therapy) استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار ان کی کمپنی کے ایک ڈائریکٹر نے ایک لفٹ پر یہ نوٹس لگا دی کہ اس لفٹ کو صرف ڈائریکٹر حضرات ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹاٹا کو معلوم ہوا تو وہ تیزی سے مذکورہ مقام پر پہنچے اور خود اپنے ہاتھ سے اس نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا(ہندستان ٹائمس3 فروری1992)۔

اس دنیا میں کامیابی کا راز، ایک لفظ میں، بااصول ہونا ہے۔ یہاں اصول کے مطابق زندگی گزارنے والا آدمی کامیاب ہوتا ہے اور اصول سے انحراف کرنے والا آدمی ناکام۔

 اصول کیا ہے۔ اصول دراصل حقائق سے مطابقت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ حقائق اگر استقلال کا تقاضا کریں تو آدمی غیر مستقل مزاجی کے ساتھ یہاں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حقائق اگردوراندیش آدمی کا ساتھ دیتے ہوں تو دور اندیشی کے خلاف رویہ کا ثبوت دے کر یہاں کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ حقائق کا مطالبہ اگر یہ ہو کہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص لوگوں کے مزاج کے خلاف چلے اور اس کے باوجود وہ کامیاب ہو۔

نیز یہ کہ اصول کو مفادات سے بلند ہو کر اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ایسا کرے کہ جہاں بظاہر فائدہ نظر آئے وہاں وہ اصول پسند بن جائے اور جہاں فائدہ دکھائی نہ دے وہاں وہ اصول کو چھوڑ دے تو ایسے شخص کو بااصول نہیں کہا جا سکتا۔

جو شخص اصول کو مفادات کے تابع رکھے وہ اس دنیا میں چھوٹی کامیابی تو حاصل کر سکتا ہے۔ مگر یہاں بڑی کامیابی صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو اصول کو اصول کے لیے اختیار کرے، جو مفادات کی پروا کیے بغیر اصول پر قائم رہنے والا ہو۔

تجربہ کی زبان سے

ایک پاکستان مسلمان اپنے ہندوستانی عزیزوں سے ملنے کے لیے ہندوستان آتے رہتے ہیں۔ ان کا ہندوستان کا پتہ یہ ہے:آغا غیاث الرحمن انجم، جان سنز کارپٹ مینوفیکچررز، کمرشل اسٹریٹ، بنگلور۔ موصوف کا تفصیلی خط ہمیں موصول ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے تین واقعات درج کیے ہیں۔ ان کے خط کا ابتدائی حصہ خود انہیں کے اپنے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے۔

 میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ اپنے عزیزوں سے ملنے میں اکثر بنگلور آتا رہتا ہوں۔ اب کے بار انڈیا آیا تو الرسالہ کا شمارہ جنوری1992ء دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں ایک واقعہ افضل صاحب کا’’خون کے بجائے پانی‘‘ کے عنوان سے پڑھا تو میرے ذہن میں انڈیا کے تعلق سے تین ذاتی واقعات آگئے۔ جو اختصار کے ساتھ سپرد قلم کر رہا ہوں۔ ان واقعات سے میرا یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ دل میں اگر تنگی اور نفرت کے بجائے دوسروں کے لیے محبت اور کشادگی ہو۔ رویے میں سختی کی بجائے نرمی اور زبان پر تلخی کے بجائے مٹھاس ہو تو پوری دنیا امن و آشتی سے مالا مال ہو سکتی ہے۔

 پہلا واقعہ1982ء میں پیش آیا۔ میں، میری بیوی، بیٹی اور نوعمر بیٹا بذریعہ ٹرین دہلی سے بنگلور جا رہے تھے جس بوگی میں ہمیں جگہ ملی وہ چھوٹی سی تھی، اور اس میں تقریباً پندرہ مسافر اور تھے جن کا تعلق بھارت اور ہندو مت کے ساتھ تھا۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے جو بنگلور کے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، اور چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس آرہے تھے۔ ہماری روایتی سادگی اور بے تکلفی کے سبب یہ نوجوان بہت جلد ہم سے گھل مل گئے۔ میرے داڑھی اور میرے پریوار کی نمازوں کی پابندی دیکھ کر ہمارے بارے میں ان کا تاثر یہ تھا کہ ہم مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا ادھر ادھر کی باتوں کے علاوہ دنیا کے موسم و حالات اور علاقائی سیاست سے چلتے چلتے مذہبی معاملات پر بھی ہونے لگی۔ ان میں ایک ہندو نوجوان بات کرنے میں پیش پیش تھا۔ اس کی گفتگو سے معلوم ہو رہا تھا کہ ذہین نوجوان ہے اور اپنے مذہب کے بارے میں وسیع معلومات رکھتا ہے۔ بہت سے سوالات اور جوابات کے بعد مذکورہ نوجوان نے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب پر بوگی کی پوری فضا یکسر بدل گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم سب مختلف نہیں بلکہ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اور ہمارے یہاں دوری اور دوئی نام کی کوئی شے نہیں ہے۔

سوال یہ تھا کہ’’ہمارے کرشن جی مہاراج کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو ایک اصول بتاتا ہوں۔ قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق’’کسی مسلمان کو نہ حق ہے اور نہ اجازت ہے کہ وہ کسی مذہب کے پیشوائوں اور قائدوں کو برا بھلا کہیں۔‘‘ بلکہ حکم ہے کہ ہم ہر عقیدے اور دھرم کے پیشوائوں کا اور بزرگوں کا احترام کریں۔ لہٰذا اس قانون کی رو سے ہم اس بات کے پابند ہیںکہ شری کرشن جی مہاراج اور دیگر مذاہب کے تمام پیشوائوں کا احترام کریں اور ان کی تعظیم کریں۔‘‘

یہ سننا تھا کہ نوجوان نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا’’اگر دنیا کے تمام مذہبی لوگ ا یسے ہو جائیں جیسے آپ ہیں تو یہ لڑائی جھگڑے، قتل و غارت گری اور آئے دن کے فسادات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔‘‘

میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ اگر یہ بات ہے تو آپ سب میرے ساتھ وعدہ کریں کہ تم اپنی پوری زندگی میں لوگوں کے دلوں سے کدورتیں اور دشمنیاں مٹائو گے۔ اور ان کے دلوں میں باہمی صلح و محبت اور افہام و تفہیم کے بیج بوئو گے۔ تمام نوجوانوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا۔

 اس طویل سفرکے دوران ساری گفتگو کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ہم کو بنگلور کینٹ کے اسٹیشن پر اترنا تھا اور ان کو بنگلور سٹی کے اسٹیشن پر۔ لہٰذا ہماری منزل پہلے آگئی۔ جوں ہی گاڑی اسٹیشن پر رکی تو ان نوجوانوں نے نہ تو کسی قلی کو ہمارے سامان کے قریب آنے دیا، اور نہ ہمیں ہمارے سامان کو ہاتھ لگانے دیا۔ بلکہ ہر نوجوان نے آگے بڑھ کر ازخود قلیوں کی طرح ہمارا سامان اپنے ہاتھوں اور کندھوں پر اٹھایا، اورچند لمحوں میں پورا سامان پلیٹ فارم پررکھ دیا۔ جب گاڑی چلی تو ایک ایک نوجوان نے ہم کو سلام کیا، معانقہ کیا، ہمارے عزیزوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے گاڑی پر سوار ہوئے۔ اور اس سفر کی خوشگوار یادیں ہمارے دلوں میں چھوڑ کر جانب منزل روانہ ہوگئے۔

سبق آموز

امریکی میگزین ٹائم(10 فروری1992) کی کور اسٹوری کا موضوع ہے— امریکہ کے بارے میں جاپان کا ذہن، اور جاپان کے بارے میں امریکہ کا ذہن:

America in the mind of Japan,

Japan in the mind of America.

 اس رپورٹ کا خلاصہ، میگزین کے الفاظ میں، یہ ہے کہ امریکہ اور جاپان کی بظاہر نااتفاقی ایک زیادہ گہری سچائی کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ یہ کہ دونوں قومیں ایک دوسرے کو اپنی ضرورت سمجھتی ہیں:

Friction between the U.S. and Japan masks a deeper truth: the two nations need each other. (p.8)

 میگزین نے لکھا ہے کہ امریکہ اگرچہ اب بھی بہت طاقت ور اقتصادیات کا مالک ہے مگر اب وہ اپنے بارے میں محسوس کرتا ہے کہ وہ ایک تخفیف شدہ چیز ہے۔ پرانا دشمن، سوویت یونین، اب ختم ہوگیا ہے۔ جاپان کے مقابلہ میں امریکہ41 بلین ڈالر کے بقدر تجارتی خسارہ میں ہے۔ اس اعتبار سے کچھ امریکی جاپان کو اپنا نیا دشمن سمجھتے ہیں:

America, still the most powerful economy, nonetheless feels itself to be somehow the diminished thing. The old enemy, the Soviet Union, has vanished. With the U.S running a $41 billion trade deficit with Japan, the once deferential partner begins to look to some Americans like the new enemy. (p. 9)

 دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو امریکہ کی حیثیت غالب کی تھی اور جاپان کی حیثیت مغلوب کی۔ مگر آج یہ ترتیب الٹ گئی ہے۔ اس کی وجہ تمام تر اخلاقی ہے۔ امریکہ نے ہتھیار کے اعتبار سے جاپان کے اوپر غلبہ حاصل کیا تھا۔ مگر آخر کار کردار کی طاقت نے اپنا کام کیا۔ جاپان زیادہ بہتر کردار سے مسلح ہو کر امریکہ کے اوپر غالب آگیا۔

میگزین کے مطابق، اکثر جاپانی اور اسی طرح بہت سے امریکی بھی، امریکہ کے اقتصادی مسائل کی ذمہ داری خود امریکہ کے اوپر ڈالتے ہیں۔ مساوکونی ہیرو(Masao Kunihiro) جو ایک جاپانی اینتھرا پولوجسٹ ہیں، انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ایمرسن کے قدیم عقیدہ کا کیا ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر تم ایک اچھا چوہے دان بنائو گے تو دنیا خود چل کر تمہارے دروازہ پر پہنچ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہی وہ چیز تھی جس نے امریکہ کو اس اقتصادی اور صنعتی طاقت تک پہنچایا جیسا کہ وہ آج ہے۔ مگر ہم میں سے اکثر لوگ، صحیح یا غلط طورپر، یہ خیال رکھتے ہیں کہ امریکہ اب ایسے چوہے دان نہیں دے رہا ہے جو جاپانی چوہے دان سے اچھا ہو۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب امریکہ میں کارکردگی کا معیار گھٹ گیا ہے:

Whatever happened to the good old Emersonian credo that if you build a better mousetrap, the world will beat a path to your door. That is what made America what it is today, economically and industrially powerful. But many of us, rightly or wrongly, now feel that the U.S. is no longer turning out mousetraps which are better than ours. (p. 14)

ایک اور جاپانی مبصر یوشیو ساکوراچی(Yoshio Sakurauchi) نے امریکہ کی کمی کے بارے میں عام جاپانی تاثر کو بتاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے تجارتی مسئلہ کی جڑ امریکی کارکن کی کارکردگی کا ناقص معیار ہے:

The root of America`s trade problem lies in the inferior quality of American labor. (p. 14)

دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے خلاف جو ظالمانہ سلوک کیا تھا، اگر جاپان یہ کرتا کہ وہ اپنے زبان و قلم کو امریکہ کے ظلم اور اس کی سازش کے خلاف پروپیگنڈے میں لگا دیتاتوجاپان کچھ بھی حاصل نہ کرتا۔ بلکہ جنگ کے بعد جو کچھ اس کے پاس بچا تھا اس کو بھی وہ لفظی احتجاج کی مہم میں کھو دیتا۔ جاپان نے امریکہ کے سلوک پر’’صبر‘‘ کر لیا۔ اس نے امریکہ کے خلاف شوروغل کرنے کے بجائے خود تعمیری کو اپنا مشن بنایا۔ اس کا نتیجہ نہایت شاندار نکلا۔ صرف چالیس سال کی مدت میں تاریخ بدل گئی۔ جو پیچھے تھا وہ آگے ہوگیا، اور جس نے آگے کی سیٹ پر قبضہ کر رکھا تھا اس کو مجبور ہو کر پچھلی سیٹ پر واپس جانا پڑا۔

 

برداشت کا مسئلہ

 نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ دی پانیر(24 جون1992) نے جل دیپ لاہری کے حوالے سے ایک رپورٹ چھاپی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک بہت بڑا سبق چھپا ہوا ہے۔ یہ سبق کہ بعض ناخوشگوار باتیں صرف اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کو برداشت کر لیا جائے۔ ایسی باتوں کو برداشت نہ کرنا صرف ان کی مقدار میں اضافہ کرنے کے ہم معنی ہے۔

 یہ 22 جون1992 کی شام کا واقعہ ہے، راجدھانی ایکسپریس دہلی سے ہوڑہ کے لیے روانہ ہوئی۔ ٹرین آگے بڑھی تو اس کی ایک کوچ(C-4) کے مسافروں کو محسوس ہوا کہ ان کی کوچ کا اے سی یونٹ کام نہیں کر رہا ہے۔ کوچ کے 70 مسافر اس پر برہم ہوگئے۔ انہوں نے انجام پر زیادہ غور نہیں کیا۔ بس زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روکا اور اس کو پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا ٹرین واپس ہو کر پہلے اسٹیشن(تلک برج) پر کھڑی ہوگئی۔ ٹرین کے مسافر پلیٹ فارم پر اتر آئے۔ ان میں اور ٹرین کے ذمہ داروں میں تکرار شروع ہوگئی۔ مسافروں کی مانگ یہ تھی کہ مذکورہ ناقص کوچ کو نکال دیا جائے اور اس کی جگہ صحیح کوچ لگائی جائے دوسری طرف ریلوے کے ذمہ داروں کا کہنا تھا کہ اس وقت فوری طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ قریب میں اس کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

یہ بحث بے نتیجہ رہی۔ آخر کار ٹرین اپنی اسی ناقص کوچ کے ساتھ دوبارہ آگے کے لیے روانہ ہوئی۔ البتہ اس بحث و تکرار میں غیر ضروری طور پر راجدھانی ایکسپریس پانچ گھنٹہ کے لیے لیٹ ہوگئی۔ مزید یہ کہ اس کی وجہ سے تلک برج اور نئی دہلی اسٹیشن کے درمیان’’ریل جام‘‘ کا مسئلہ پیدا ہوگیا، اور پانچ آنے اور جانے والی ٹرینیں بھی کافی تاخیر سے روانہ ہو سکیں۔ راجدھانی ایکسپریس کے دو مسافر جن کو وقت پر کلکتہ پہنچنا تھا، وہ اس صورت حال سے اتنا پریشان ہوئے کہ ٹرین کو چھوڑ کر پالم ایئرپورٹ کی طرف بھاگے۔ تاکہ شام کا ہوائی جہاز پکڑ کر وقت پر اپنی منزل پر پہنچ سکیں۔

یہ معاملہ ذہن کی پختگی اور ناپختگی کا معاملہ ہے۔ ذہن کی ناپختگی نے سارا مسئلہ پیدا کیا۔ اگر مذکورہ کوچ کے مسافر پختہ ذہن کے لوگ ہوتے تو نہ یہ مسئلہ پیدا ہوتا اور نہ سینکڑوں مسافروں کو یہ غیرضروری مصیبت اٹھانی پڑتی۔

 ذہن کی پختگی کیا ہے۔ ذہن کی پختگی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ آدمی ایسی حقیقت کو قبول کر لے جس کو وہ بدل نہیں سکتا۔ ناپختہ ذہن کے لوگ ایسی صورت حال پیش آنے پر چیخ اٹھتے ہیں، اور پختہ ذہن کے لوگوں کو ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو وہ اس سے موافقت کر لیتے ہیں، تاکہ ان کا سفر حیات کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔

 مذکورہ70 مسافروں کے واقعہ پر غور کیجیے تو معلوم ہوا کہ وہ ذہنی پختگی کے اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اگر وہ لوگ ایسا کرتے کہ وقتی طور پر ائیرکنڈیشنر کی محرومی پر صبر کر لیں تو ان کا مسئلہ صرف ایک مسئلہ رہتا ہے۔ یعنی وقتی طور پر تھوڑی سی گرمی کو برداشت کر لینا۔ مگر جب انہوں نے صبر نہیں کیا تو ان کا مسئلہ مزید بڑھ کر کئی مسئلہ بن گیا۔

 موجودہ دنیا میں سب کچھ کسی کی مرضی کے مطابق ہونا ممکن نہیں۔ یہاں زندگی نقصان پر راضی ہونے کا نام ہے۔ جو آدمی ایک نقصان پر راضی نہ ہو اس کو آخر کار کئی نقصان پر راضی ہونا پڑے گا۔ نقصان کے وقت رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، وہی چیز ہے، جس کو مذہب کی زبان میں صبر کہا گیا ہے۔

صبرکامیاب زندگی کی لازمی ضرورت ہے۔ صبر کے بغیر کوئی شخص کامیابی کے راستے پر قائم نہیں رہ سکتا— نفس کی خواہشوں کے مقابلے میں صبر، لوگوں کی ایذاؤں کے مقابلے میں صبر، جان ومال کے نقصان کے مقابلے میں صبر، ناخوش گوار تجربات کے مقابلے میں صبر، محرومی کے واقعات پر صبر، مصیبتوں کے مقابلے میں صبر، وغیرہ۔

موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔  صبر ایک انسان کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود پازیٹو سوچ پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔

مواقع کا استعمال

اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ اجتماعی حکمت کی ایک عظیم الشان مثال ہے۔ مکہ کے قریش نے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی سخت مخالفت کی۔ مگر شروع ہی سے ان کے درمیان ایک عنصر موجود تھا جو یہ چاہتا تھا کہ ہم محمد سے براہ راست نہ ٹکرائیں۔ بلکہ ان کا رخ دوسرے عرب قبائل کی طرف پھیر دیں۔ پیغمبر اسلام نے اس ذہن کو اپنے حق میں استعمال کیا۔

 مکہ کے سرداروں میں ایک ممتاز سردار عُتبہ بن ربیعہ تھا۔ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے کہ قریش نے ایک بار عُتبہ کو اپنا نمائندہ بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس ملاقات کا تفصیلی بیان سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ عُتبہ جب آپ سے گفتگو کے بعد واپس آیا تو اس نے قریش سے کہا

 يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَطِيعُونِي وَاجْعَلُوهَا بِي، وَخَلُّوا بَيْنَ هَذَا الرَّجُلِ وَبَيْنَ مَا هُوَ فِيهِ فَاعْتَزِلُوهُ... فَإِنْ تُصِبْهُ الْعَرَبُ فَقَدْ كُفِيتُمُوهُ بِغَيْرِكُمْ، وَإِنْ يَظْهَرْ عَلَى الْعَرَبِ فَمُلْكُهُ مُلْكُكُمْ، وَعِزُّهُ عِزُّكُم(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ294)۔ یعنی اے قریش کے لوگو، میری بات مانو اور اس آدمی کے درمیان اور جس میں وہ ہے اس کے درمیان حائل نہ ہو۔ اور اسے چھوڑ دو... اگر عرب اس سے نمٹ لیں تو وہ تمہارے لیے کافی ہوگا، اور اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہے اور اس کی عزت تمہاری عزت ہے۔

اسی طرح ہجرت کے بعد جب قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ بدر چھیڑنے کے لیے نکلے تو راستہ میں آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ اس وقت عتبہ نے قریش کے ایک گروہ کی نمائندگی کرتے ہوئے مکہ والوں سے کہا: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إنَّكُمْ وَاَللَّهِ مَا تَصْنَعُونَ بِأَنْ تَلَقَّوْا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ شَيْئًا، وَاَللَّهِ لَئِنْ أَصَبْتُمُوهُ لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَنْظُرُ فِي وَجْهِ رَجُلٍ يَكْرَهُ النَّظَرَ إلَيْهِ، قَتَلَ ابْنَ عَمِّهِ أَوْ ابْنَ خَالِهِ، أَوْ رَجُلًا مِنْ عَشِيرَتِهِ، فَارْجِعُوا وَخَلُّوا بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَبَيْنَ سَائِرِ الْعَرَبِ، فَإِنْ أَصَابُوهُ فَذَاكَ الَّذِي أَرَدْتُمْ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذَلِكَ أَلْفَاكُمْ وَلَمْ تَعَرَّضُوا مِنْهُ مَا تُرِيدُونَ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ623)۔ یعنی اے قریش کے لوگو، خدا کی قسم محمد اور ان کے اصحاب سے ٹکرا کر تم کچھ بھی حاصل نہ کر سکو گے۔ خدا کی قسم اگر ان سے تمہاری مڈبھیڑ ہوئی تو ہمارے ہر آدمی کے سامنے کسی ا یسے آدمی کا چہرہ ہوگا جس کو قتل کرنا اسے پسند نہ ہو، یعنی چچا کا لڑکا، ماموں کا لڑکا یا اپنے قبیلہ کا کوئی آدمی۔ اس لیے تم لوٹ چلو اور محمد اور عرب قبائل کے درمیان سے ہٹ جائو۔ اگر اہل عرب محمد پر غالب آگئے تو یہ وہی ہوگا جو تم چاہتے ہو۔ اور اگر محمد عرب قبائل پر غالب آگئے تو محمد تم کو اس حال میں پائیں گے کہ تم نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ہوگی۔

موجودہ دنیا امتحان اور مقابلہ کی دنیا ہے۔ یہاں یہ ممکن نہیں کہ فریق ثانی کو عین اپنی پسند کی شرطوں پر راضی کیا جا سکے۔ بیشتر حالات میں خود اپنے آپ کو فریق ثانی کی شرطوں پر راضی کرنا پڑتا ہے۔ یہ راضی ہونا سرینڈر نہیں بلکہ حکمت ہے جس سے آدمی اپنے لیے نقطہ آغاز پا لیتا ہے۔

یہی آدمی کی حکمت اور تدبیر کا امتحان ہے۔ یہاں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ فریق ثانی کی شرطوں میں کہاں وہ گنجائش ہے، جس کو مان کر ہم اپنے لیے مستقبل کی تعمیر کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر یہی کیا۔ آپ نے کمال دانش مندی کے ساتھ قریش کے مذکورہ ذہن کو سمجھا اور اس کو انتہائی حکمت کے ساتھ استعمال کیا۔ چنانچہ حدبیبہ کے مقام پر جب قریش نے آپ کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اس وقت آپ نے قریش کو جو پیغام بھیجا اس میں یہ الفاظ بھی شامل تھے:

إِنَّا لَمْ نَجِئْ لِقِتَالِ أَحَدٍ وَلَكِنَّا جِئْنَا مُعْتَمِرِينَ وَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ نَهِكَتْهُم الْحَرْبُ وَأَضَرَّتْ بِهِمِ فَإنْ شَاءُوا مَادَدْتُهُمْ مُدَّةً وَيُخَلُّوا بَينِي وَبَيْنَ النَّاسِ فَإنْ أَظْهَرْ فَإنْ شَاءُوا أنْ يَدْخُلُوا فِيمَا دَخَلَ فِيهِ النَّاسُ فَعَلُوا وَإِلَّا فَقَدْ جَمُّوا (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد3، صفحہ330)۔ یعنی ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ بلکہ ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ اور جنگ نے قریش کا برا حال کر رکھا ہے اور ان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اگر وہ چاہیں تو میں ان کے لیے ایک مدت(صلح کی) مقرر کر دوں اور وہ میرے اور دوسرے عرب قبائل کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اگر میں غالب رہا تو وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہو جائیں گے جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں۔ اور اگر میں غالب نہ ہوا تو ان کا مدعا حاصل ہے۔

زندگی کااصول

ایک شخص موٹر کار کس لیے خریدتا ہے۔ تیز رفتار سفر کے لیے۔ کار کا مقصد چلنے کی رفتار کو دوڑنے کی رفتار بنانا ہے۔ مگر وہی کار کار ہے جو دوڑنے کے ساتھ رکنا بھی جانتی ہو۔ ایک کار بظاہر نہایت عمدہ ہو۔ مگر اس کے اندر روکنے کا نظام(بریک) نہ ہو تو کوئی بھی شخص ایسی کار کی خریداری قبول نہیں کر سکتا۔سڑک کے سفر کا جو اصول ہے، وہی زندگی کے سفر کا اصول بھی ہے۔ زندگی کا وسیع تر سفر کامیابی کے ساتھ وہی لوگ طے کر سکتے ہیں جو چلنے کے ساتھ رکنا بھی جانتے ہوں۔ جو لوگ صرف چلنے اور اقدام کرنے کی اصطلاحوں میں سوچنا جانیں، رکنے اور ٹھہرنے کا لفظ جن کی لغت میں موجود نہ ہو، وہ گویا ایسی موٹر کار کی مانند ہیں جس کے اندر بریک نہیں۔ اور جس کار کے اندر بریک کا نظام نہ ہو وہ ہمیشہ کھڈ میں جا کر گرتی ہے، ایسی کار کے لیے منزل پر پہنچنا مقدر نہیں۔

 اگر آپ کا یہ مزاج ہو کہ کوئی شخص آپ کے خلاف کوئی بات بول دے تو آپ اس سے لڑ جائیں۔ کوئی شخص آپ کی امیدوں کو پورا نہ کر رہا ہو تو آپ اس کو اپنا حریف سمجھ کر اس سے مقابلہ آرائی شروع کر دیں تو گویا آپ بغیر بریک کی کار ہیں۔ آپ کا حال یہ ہے کہ جہاں چپ رہنا چاہیے وہاں بولتے ہیں، جہاں اپنے قدموں کو روک لینا چاہیے وہاں آپ تیز رفتاری کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے ہیں ایسے آدمی کا انجام اس دنیا میں صرف بربادی ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔

عقل مند آدمی وہ ہے جو اپنی طاقت کو منفی کارروائیوں میں برباد ہونے سے بچائے۔ جو راہ کے کانٹوں سے الجھے بغیر اپنا سفر جاری رکھے۔ شریعت کی زبان میں اسی کو اعراض کہا جاتاہے۔ اور اعراض بلاشبہ زندگی کا ایک ناگزیر اصول ہے۔ جس شخص کا ایک سوچا سمجھا مقصد ہو، جو اپنے طے کیے ہوئے منصوبہ کی تکمیل میں لگا ہوا ہو، وہ لازماً اعراض کا طریقہ اختیار کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مقصد کو اپنے سامنے رکھے گا۔ البتہ جن لوگوں کے سامنے کوئی متعین مقصد نہ ہو وہ اعراض کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے، وہ معمولی معمولی باتوں پر دوسروں سے لڑ جائیں گے۔ وہ سمجھیں گے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، حالانکہ وہ وہ صرف اپنی قوتوں کو ضائع کر رہے ہوں گے۔

باب سوم

مضامینِ حکمت

 

طاقت کا خزانہ

انسانی دماغ (mind)ایک ناقابلِ یقین نظام ہے۔ اس کی جسامت ایک سنگترہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ مگر وہ ایک سکنڈ میں800 یادداشتیں ریکارڈ کر لیتا ہے۔ وہ اوسطاً75 سال تک برابر یہ کام جاری رکھ سکتا ہے۔

 جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے۔یعنی انسانی دماغ میں جو بات بھی پڑتی ہے، وہ پوری طرح اس کو محفوظ کر لیتا ہے، اور پھر کبھی اس کے کسی جزء کو فراموش نہیں کرتا۔ خواہ ہم ان تمام معلومات کو شعوری طور پر یاد میں نہ لاسکیں۔ تاہم ہمارے دماغ کے مستقل فائل میں ہر چیز ہر وقت موجود رہتی ہے۔

اگر ایک ایسا کمپیوٹر بنایا جائے جس کے امکانات انسانی دماغ کے برابر ہوں تو اس کا انفراسٹرکچر اتنا زیادہ ہوگا کہ وہ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ جیسی عمارت کو گھیر لے گا۔ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ نیویارک میں ہے اس کی 102 منزلیں ہیں اور اس کی اونچی1250 فٹ ہے۔ ایسا سپر کمپیوٹر اگر بنایا جا سکے تو اس کو چلانے کے لیے ایک ارب واٹ بجلی کی توانائی درکار ہوگی۔ اس کی لاگت اتنی زیادہ ہوگی جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے:

The brain is a fabulous mechanism. About the size of half a grapefruit, it can record 800 memories a second for the average 75 years many of us live, without exhausting itself. The human brain retains everything it takes in and never forgets anything. Even though we don`t recall all the information received, everything is on permanent file in our brain. If a computer to match the brain`s potential was built, it would occupy space comparable to the size of the Empire State Building (1,250 feet tall) and need 1,000,000,000 watts of electrical power to run. The cost would be equally immense. The mind is one of God`s most amazing gifts to man. Yet most people use only a small fraction of their mental ability. For many, the power remains largely untapped. (The plain Truth, October 1988, p.29)

یہ دماغ انسان کے لیے اللہ کا ایک انتہائی حیرت ناک تحفہ ہے۔ تاہم بڑے سے بڑا سائنس دان بھی اس کو صرف جزئی طور پر استعمال کر پاتا ہے۔ دماغ کے تمام اعلیٰ امکانات ابھی تک غیر استعمال شدہ حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔

امریکی میگزین اسپان(Span) کے شمارہ ستمبر1989 میں ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے— ہمارا حیرت ناک دماغ:

Our Amazing Mind

 اس مضمون کے مرتب یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے سینیئر ایڈیٹر مسٹرولیم ایف آل مین(William F. Allman) ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ دماغی تحقیق کا کام موجودہ زمانہ میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب اس کی ایک علیٰحدہ علمی شاخ وجود میں آ چکی ہے جس کو دماغ کی سائنس (Brain science) کہا جاتا ہے۔ اس سائنس کے تحت جو بے شمار نئی معلومات سامنے آئی ہیں وہ ایک قسم کے انفجار کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ایک سائنس دان نے دماغ کو فکری انجن(thinking engine) سے تعبیر کیا ہے۔ حالانکہ یہ تعبیر بے حد ناقص ہے۔ کیونکہ دماغ کے ایک لاکھ ملین نیوران(100,000 million neurons) جس طرح متحدہ طورپر کام کرتے ہیں، اور ایک لمحہ کے اندر اشیاء کے مابین تمیز کر لیتے ہیں، وہ کوئی بڑی سے بڑی امکانی مشین بھی نہیں کر سکتی۔ اپنی حیرت ناک کارکردگی کے اعتبار سے ایک فرد واحد کا دماغ دنیا کی تمام مشینوں اور تمام کمپیوٹروں پر بھاری ہے:

An explosion of recent findings in brain science — aided by new computer programs that can simulate brain cells in action — is now revealing that the brain is for more intricate than any mechanical device imaginable. (p.24)

اس سلسلہ میں جدید تحقیقات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے آخر میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اگرچہ  بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے اس بات کی کافی کوشش کی کہ وہ ایسی مشینیں بنائیں جو انسانی دماغ جیسا کام کر سکیں۔ مگر انتہائی طاقتور قسم کا سپر کمپیوٹر بھی ابھی تک انسانی دماغ سے بہت پیچھے ہے:

Though 20th-century scientists have tried to make machines that mimic the brain`s functioning, even the most powerful supercomputer falls for short of the real thing. (p.28)

انسانی دماغ طاقت کا اتھاہ خزانہ ہے۔ یہ خزانہ ہر آدمی کو پیدائشی طور پر حاصل ہے۔ وہ کسب اور کوشش کے بغیر ہر آدمی کو اپنے آپ ملا ہوا ہے۔ دماغ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی شخص مفلس نہیں، کوئی بھی شخص دوسروں سے کمزور نہیں، خواہ ظاہری سامان کے اعتبار سے وہ کتنا ہی زیادہ مفلس اور کمزور دکھائی دیتا ہو۔

 دماغ کی صورت میں سب سے زیادہ طاقت ور مشین آپ کے پاس موجود ہے، ایسی مشین جس کے مثل کوئی دوسری چیز ساری معلوم کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ اس طاقت ور مشینی خزانہ کو استعمال کیجیے، اس کے اندر چھپے ہوئے امکانات کوبر وئے کار لانے کی کوشش کیجیے۔ اور پھر کبھی آپ کو ناکامیابی کی شکایت نہ ہوگی۔

 دنیا میں کسی بھی شخص نے جو بھی ترقی یا کامیابی حاصل کی ہے، وہ اسی دماغ کی طاقت کو استعمال کرکے حاصل کی ہے۔ فطرت کی دی ہوئی یہی عظیم طاقت آپ کے پاس بھی موجود ہے۔ امکانی طور پر آپ بھی عین اسی ترقی کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں جہاں کوئی بھی شخص کبھی پہنچا ہے۔ پھر مایوسی کیوں اور شکایت کس لیے۔ اپنے امکان کو واقعہ بنایئے۔ کامیابی کی ہر بلندی اس انتظار میں ہے کہ آپ وہاں پہنچیں اور اپنے آپ کو اس کے اوپر کھڑا کر دیں۔

امکان ختم نہیں ہوتا

 ایک امریکی نوجوان ڈیوٹ ویلس(Dewitt Wallace, 1889-1981) نے ارادہ کیا کہ وہ ایک ماہانہ ڈائجسٹ نکالے۔ اپنے والد سے اس نے ابتدائی سرمایہ کے طور پر300 ڈالر مانگا۔ مگر والد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ڈیوٹ پیسہ کو استعمال کرنا نہیں جانتا، وہ اسے ضائع کر دے گا۔ بمشکل اس نے اپنے بھائی سے کچھ رقم حاصل کی اور جنوری1920ء میں نمونہ کا شمارہ چھاپا جو چند سو نسخوں سے زیادہ نہ تھا۔

اب ڈیوٹ کے سامنے دوسرا مسئلہ تھا۔ اس نے اپنا میگزین نیویارک کے پبلشنگ اداروں کو دیکھایا اور کہا کہ اس کو فروخت کرنے میں وہ اس کا تعاون کریں۔ مگر تمام اداروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میگزین بہت زیادہ سنجیدہ(too serious) ہے اور اتنے زیادہ سنجیدہ پرچہ کے لیے مارکیٹ موجود نہیں۔

یہ بڑا نازک مسئلہ تھا۔ کیوں کہ اخبارات ورسائل پبلشنگ اداروں ہی کے ذریعہ عوام تک پہنچتے ہیں، اور پبلشنگ اداروں نے ڈیوٹ کو تعاون دینے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ایک امکان بدستور ابھی ڈیوٹ کے لیے باقی تھا۔ وہ یہ کہ وہ خریداروں تک براہ راست پہنچے۔ اس نے بہت سے پتے حاصل کرکے لوگوں کو براہ راست خطوط لکھے۔ اسی کے ساتھ اس نے اخبارات میں اشتہار شائع کیا۔ عام حالات میں ایک نئے اور غیر معروف میگزین کے لیے اس طرح خریدار حاصل کرنا بظاہر ناممکن تھا۔ مگر ڈیوٹ کی ایک تدبیر نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اس نے اپنے خطوط اور اپنے اشتہارات میں جو باتیں لکھیں۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی:

The subscription could be cancelled, and all money refunded if the reader wasn`t satisfied. (p.163)

قاری اگر میگزین کو پڑھنے کے بعد اس سے مطمئن نہ ہو تو خریداری ختم کر دی جائے گی اور اس کی پوری رقم اسے واپس کر دی جائے گی۔

اس پیش کش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈیوٹ کے پاس خریداری کی فرمائش اور منی آرڈر آنا شروع ہوگئے۔ پہلے ہی مرحلہ میں اس نے اتنی رقم حاصل کر لی جس سے دو ماہ کا شمارہ بہ آسانی چھاپا جا سکے۔

 ڈیوٹ کا منصوبہ کامیاب رہا۔ کسی ایک شخص نے بھی اپنی خریداری ختم نہیں کی۔ کسی نے بھی رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس نے عام خریداروں تک پہنچنے کی کوشش کو تیز تر کر دیا فروری1922 میں اس کا میگزین ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ برابر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1987 میں وہ 28 ملین سے زیادہ تعداد میں دنیا کی پندرہ زبانوں میں139یڈیشن شائع کر رہا ہے۔یہ وہی ماہانہ میگزین ہے جو آج ساری دنیا میں ریڈرز ڈائجسٹ(Reader`s Digest) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب وہ دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا میگزین بن چکا ہے۔1980 میں ڈیوٹ اور اس کی بیوی پچاس ہزار ملین ڈالر کے مالک تھے۔

 ڈیوٹ نے اپنے میگزین کے لیے اس طرح خریدار فراہم کیے کہ اس نے اپنے میگزین کو خریداروں کے لیے ’’مفت‘‘ بنا دیا۔ ہرآدمی پیسہ ڈوب جانے کے اندیشہ کے بغیر اس کا خریدار بن سکتا تھا۔ تاہم خود اس تدبیر کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے ایک اور تدبیر ضرور تھی۔ اگر یہ دوسری تدبیر موجود نہ ہوتی تو صرف پہلی تدبیر اس کی ناکامی میں اضافہ کے سوا اسے کچھ اور دینے والی ثابت نہ ہوتی۔

 یہ دوسری تدبیر وہی تھی جس کو اعلیٰ معیار کہا جاتا ہے۔ یعنی میگزین کو معیار کے اعتبار سے ایسا بنا دینا کہ پڑھنے کے بعد قاری کو وہ واقعۃً پڑھنے کی چیز نظر آئے۔ وہ اس کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھے کہ اس کی خریداری کے لیے جو رقم اس نے بھیجی ہے وہ صحیح بھیجی ہے، اور اس کو اپنی خریداری جاری رکھنا چاہیے۔

 اپنے میگزین میں یہ دوسری صفت پیدا کرنے کے لیے ڈیوٹ کو غیر معمولی محنت کرنی پڑی۔ اس کا ماہنامہ ایک ڈائجسٹ تھا۔ یعنی مختلف مطبوعہ مضامین کا انتخاب۔ ڈیوٹ یہ منتخب مضامین حاصل کرنے کے لیے روزانہ چالیس سے زیادہ میگزین پڑھتا تھا۔ کچھ خرید کر اور کچھ مختلف لائبریریوں میں جا کر۔ اس پُر مشقت عمل کے لیے ڈیوٹ کو طعن و طنز بھی سننے پڑتے تھے۔ مثلاً بہت سے لوگ اس کو محض قینچی ایڈیٹر(Scissors-and-paste editor) کہنے لگے۔ مگر ہر مخالف بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے اپنا کام جاری رکھا۔

 ڈیوٹ ویلس کے سوانح نگار نے اس کی کامیابی کا راز ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

What made him supernormal was his intense, sustained curiosity, plus and unequalled capacity for work. (p. 182)

 جس چیز نے اس کو غیر معمولی بنایا وہ اس کا گہرا اور دائمی تجسس تھا، مزید یہ کہ وہ کام کرنے کی بے پناہ طاقت رکھتا تھا۔ ڈیوٹ ویلس کے ایک دوست نے اس کے بارے میں کہا کہ جتنا وہ بولتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ سنتا ہے:

He listens far more than he talks.

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں مواقع اور امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جب بھی ایک امکان ختم ہو تو آدمی کو فوراً دوسرے امکان کی تلاش میں لگ جانا چاہیے۔ آدمی اگر ایسا کرے تو وہ پائے گا کہ جہاں حالات نے بظاہر اس کی ناکامی کا فیصلہ کر دیا تھا، وہیں اس کے لیے ایک نیا شاندار تر امکان موجود تھا جس کو استعمال کرکے دوبارہ وہ اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے۔

خدمت کا کرشمہ

 ریڈرز ڈائجسٹ(جون1989) میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے ایک ہندوستانی جرنلسٹ مسٹر اشوک مہا دیون ہیں۔ وہ ہندوستان سے کراچی گئے اور وہاں قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنی مفصل رپورٹ مرتب کی جو مذکورہ ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہوئی ہے۔

یہ کراچی کے ایک شخص کی کہانی ہے۔ اس کا نام عبدالستار ایدھی ہے۔ اس نے اپنی 40 سالہ خدمات کے نتیجہ میں اپنے ماحول کے اندر غیر معمولی عزت اور گرویدگی حاصل کی ہے۔ مسٹر مہادیون کے الفاظ میں، کراچی کے مجرم لوگ بھی ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں۔ ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ کراچی کے مضافات میں پولیس اور ڈاکوئوں کے گروہ کے درمیان گولی چل رہی ہے۔ وہ فوراً ایک ایمبولنس لے کر مقام واردات کی طرف روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی وہ وہاںپہنچے، ڈاکوئوں نے ان کو دیکھ کر فائرنگ روک دی۔ ایدھی اس میں کامیاب ہوگئے کہ وہ ایک سب انسپکٹر کی لاش کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھ سکیں۔ ڈاکو اس دوران بے تابی کے ساتھ ایدھی کے جانے کا انتظار کرتے رہے اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں واپس جانے کے لیے کہتے رہے۔ جیسے ہی وہ وہاں سے روانہ ہوئے، ڈاکوئوں نے دوبارہ پولیس کے اوپر فائرنگ شروع کر دی:

Such feelings are shared even by Karachi`s criminals. Once, hearing that the police and a gang of dacoits were engaged in shoot-out in a city suhurb, Edhi drove to the scene in an ambulance. As soon as he arrived, the dacoits stopped firing, and Edhi was able to carry the body of a dead inspector into his vehicle. The dacoits then impatiently waved Edhi away, and as he left, began shooting at the police again (pp. 116-17)

 ایک شخص کو یہ درجہ کیسے ملا کہ اس کو دیکھ کر ڈاکو بھی اپنی بندوقیں نیچی کر لیں۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ اس کا نام عبدالستار ہے۔ اور نہ اس کا سبب احتجاج اور مطالبہ یا جلسہ اورتقریر کے ہنگامے تھے۔ اس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ انسانی خدمت ہے۔ عبدالستار نے اپنے 40 سالہ بے لوث خدمت سے یہ مقام پیدا کیا کہ ڈاکو بھی اس کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جائیں۔

عبدالستار ایدھی(عمر55 سال) ایک پاکستانی مہاجر ہیں۔1947 میں وہ گجرات کو چھوڑ کر کراچی چلے گئے۔ ابتداء ًانہوں نے کپڑے اور دوا کی دکان پر ملازمت کی۔ ان پر کئی ایسے تجربے گزرے جب کہ ایک مریض یا حادثہ کا شکار آدمی کو ہسپتال پہنچانے کے لیے فوری طور پر ایمبولنس کار کی ضرورت تھی۔ مگر وقت پر ایمبولنس نہ پہنچنے کی وجہ سے آدمی تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ ان کے دل میں آیا کہ وہ ایمبولنس سروس کا ایک رفاہی ادارہ قائم کریں گے۔

1950 میں انہوں نے عطیات کی رقم سے ایک سکینڈ ہینڈ ٹرک خریدا اور اس کو ایک معمولی قسم کے ایمبولنس میں تبدیل کرکے مریضوں اور زخمیوں کی خدمت شروع کی۔ یہ کام بڑھا۔ یہاں تک کہ اب ان کے پاس245 ایمبولنس کا دستہ ہے۔ وہ کراچی کے اندر اور کراچی کے باہر غریبوں اور معذوروں کی مفت خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کا سماجی خدمت کا ادارہ ہر روز ہزاروں پاکستانیوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایمبولنس کے دستہ کے علاوہ ان کے تحت زچہ خانے، بلڈ بینک، ایکسرے کلینک، لیبارٹری، نرسنگ سکول، یتیم خانے، معذور خانے وغیرہ چل رہے ہیں۔ انہوں نے ایتھیوپیا(53ہزار ڈالر) فلسطین(66 ہزار ڈالر) بنگلہ دیش(10ہزار ڈالر) اور اسی طرح بعض دوسرے ملکوں کے مصیبت زدگان کی خدمت کی ہے۔ اب وہ ائیر ایمبولنس سروس اور دوسرے بڑے بڑے ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً جدید طرز کاہسپتال، حیوانات کا ہسپتال، وغیرہ۔

ان کا سالانہ بجٹ تقریباً10 کروڑ روپیہ ہے۔ اور یہ سب عوامی چندوں سے حاصل ہوتا ہے۔ سابق صدر ضیاء الحق نے ایک بار انہیں پانچ لاکھ روپیہ کا چیک بھیجا۔ مگر عبدالستار ایدھی نے اس کو واپس کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام عوام کے لیے ہے اور عوام ہی کو اس کی قیمت دینا چاہیے۔ وہ نہایت سادہ طور پر دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ لوگوں کو ان کے اوپر اتنا زیادہ اعتماد ہے کہ بغیر طلب انہیں بڑی بڑی رقم دیتے رہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے جو رقم ان کو دی جائے گی وہ ضرور صحیح طور پر استعمال ہوگی۔

1986ء میں ان کو خدمت خلق (Public Service) کے لیے(Ramon Magsaysay Award)  دیا گیا ہے۔ عبدالستار ایدھی اس سے پہلے ایک مقامی شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس انعام نے انھیں بین الاقوامی حیثیت دے دی۔ اس طرح  وہ انسانی خدمت کی اس ممتاز فہرست میں آگئے جس میں اب تک صرف مدر ٹریسا کو شہرت حاصل تھی۔ اگرچہ مدرٹریسا کا کام بہت بڑا ہے۔ ان کو نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ تاہم عبدالستار ایدھی غالباً مسلمانوں میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس میدان میں نمایاں خدمت کا ایسا ثبوت دیا ہے کہ عالمی سطح پر ان کا اعتراف کیا گیا۔

اس طرح کا کام پیشہ ورانہ طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے خدا کی خلقت سے گہری شفقت کا تعلق ہونا ضروری ہے۔ اور یہ چیز مدرٹریسا اور عبدالستار ایدھی میں مشترک ہے۔ مدرٹریسا کا کہنا ہے کہ میں ہر انسان کے اندر خدا کو دیکھتی ہوں:

I see God in every human being.

یہی معاملہ عبدالستار ایدھی کا ہے۔ چنانچہ مسٹر اشوک مہادیون کے ایک سوال کے جواب میں عبدالستار ایدھی نے کہا کہ میں ان کے اندر خدا کو دیکھتا ہوں:

I see God in them. (p. 119)

خدمت کی برکت

 انسان کی خدمت کا معاوضہ انسان کی محبت ہے۔ یہ اصول کسی ایک ملک کے لیے نہیں ہے، بلکہ ساری دنیا کے لیے ہے۔ جو لوگ انسانوں کی خدمت کریں، ان کو اس سے ایک طرف بے پناہ قلبی سکون ملتا ہے۔ اسی کے ساتھ دوسروں کے اندر انہیں عزت اور محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ ان کے دشمن بھی ان کے دوست بن جائیں۔ خطرناک ڈاکو بھی ان کو دیکھ کر اپنے ہتھیاروں کا استعمال ترک کر دیں۔

ٹالرنس: فطرت کا اصول

ٹالرنس(رواداری، برداشت) فطرت کا ایک عالمی اصول ہے۔ شیر اور ہاتھی دونوں انتہائی بڑے جانور ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے حریف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر بھی دونوں ایک ساتھ جنگل میں رہتے ہیں یہ صرف ٹالرنس کے ذریعہ ممکن ہوتا ہے۔ چنانچہ جنگلوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف سے ہاتھی آ رہا ہو اور دوسری طرف سے شیر چل رہا ہو تو دونوں ایک دوسرے سے الجھے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے راستہ پر گزر جاتے ہیں۔ اگر دونوں اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ٹالرنس کا معاملہ نہ کریں تو دونوں آپس میں لڑنے لگیں، یہاں تک کہ دونوں لڑلڑ کر تباہ ہو جائیں۔

 شیر اور ہاتھی کو یہ طریقہ فطرت نے سکھایا ہے۔ اسی طرح انسان کے جسم میں فطرت نے ٹالرنس کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ میڈیکل سائنس میں اس کو حیاتیاتی ٹالرنس(biological tolerance) کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایک جسم حیوانی کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک چیز سے بُرا اثر لیے بغیر اس سے ربط کو یا جسم میں اس چیز کے داخل کیے جانے کو برداشت کرے:

In biology, the ability of an organism to endure contact with a substance, or its introduction into the body, without ill effects. (EB. X/31)

 جسم کی اسی صلاحیت پر امراض کے علاج کا پورا نظام قائم ہے۔ بیماری کے وقت جسم کے اندر ایسی دوائیں ڈالی جاتی ہیں، جو مجموعی حیثیت سے جسم کے لیے مضر ہیں۔ مگر جسم خارجی چیزوں کے معاملہ میں اپنی ساری حساسیت کے باوجود، ایسی دوائوں کو برداشت کرتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ ٹالرنس کا معاملہ کرتا ہے۔ اسی’’حیاتیاتی ٹالرنس‘‘ کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ یہ دوائیں جسم میں داخل ہو کر اپنا اثر دکھائیں۔ وہ جسم کے دوسرے اعضاء پر بُرا اثر ڈالے بغیر اس کے بیمار عضو پر عمل کرکے اس کو اچھا کر سکیں۔

ٹالرنس کا یہی طریقہ انسانی سماج میں بھی مطلوب ہے۔ جنگل کے جانور جو کچھ اپنی جبلت (instinct) کے تحت کرتے ہیں اور انسانی جسم جو کچھ اپنی فطرت کے تحت کرتا ہے وہی عمل انسان کو اپنے شعور کے تحت کرنا ہے۔ اس کو اپنے سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت ٹالرنس کا طریقہ اختیار کرکے دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔

 جب بھی زیادہ لوگ ساتھ مل کر زندگی گزاریں گے تو ان کے درمیان شکایت اور اختلاف کے واقعات بھی ضرور پیدا ہوں گے۔ ایسا ایک گھر کے اندر ہوگا۔ سماج کے اندر ہوگا، پورے ملک میں ہوگا، اور اسی طرح بین الاقوامی زندگی میں بھی ہوگا۔ انسان خواہ جس سطح پر بھی ایک دوسرے سے ملیں اور تعلقات قائم کریں، ان کے درمیان ناخوش گوار واقعات کا پیش آنا بالکل لازمی ہے۔

ایسی حالت میں کیا کیا جائے،ٹالرنس اسی سوال کا جواب ہے۔ ایسی حالت میں ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ رواداری اور برداشت کا معاملہ کرے۔ مل جل کر زندگی گزارنے اور مل جل کر ترقی کرنے کی یہی واحد قابل عمل صورت ہے۔ اس اسپرٹ کے بغیر انسانی تمدن کی تعمیر اور اس کی ترقی ممکن نہیں۔

ٹالرنس کوئی انفعالی رویہ نہیں، وہ عین حقیقت پسندی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کے لیے زیادہ بہتر چوائس(choice) لینے کا موقع تھا اور اس نے پست ہمتی کی بنا پر ایک کمتر چوائس کو اختیار کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کے سوا کوئی اور چوائس ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔ ٹالرنس ہماری ایک عملی ضرورت ہے، نہ کہ کسی قسم کی اخلاقی کمزوری۔

 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک صورت حال کو اپنے لیے ناخوش گوار پا کر اس سے لڑنے لگتا ہے۔ اور بالآخر تباہی سے دو چار ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی نے اپنی کوتاہ نظری کی بنا پر یہ سمجھا کہ اس کے لیے انتخاب خوش گوار اور ناخوش گوار کے درمیان ہے۔ وہ ناخوش گوار سے لڑ گیا تاکہ خوش گوار کو حاصل کر سکے۔

حالانکہ نتیجہ نے بتایا کہ اس کے لیے انتخاب خوش گوار اور ناخوش گوار کے درمیان نہیں تھا۔ بلکہ اس کے لیے انتخاب ناخوش گوار اور تباہی کے درمیان تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے لیے انتخاب خوش گوار اور ناخوش گوار کے درمیان ہو۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے لیے انتخاب کم ناخوش گوار اور زیادہ ناخوش گوار میں ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں عقل مندی یہی ہے کہ آدمی زیادہ ناخوش گوار سے بچنے کے لیے کم ناخوش گوار پر راضی ہو جائے۔

بیشتر انسان اسی غلط فہمی کا شکار ہو کر اپنے کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایک اقدام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا اقدام ناپسندیدہ صورت حال کو ہٹا کر پسندیدہ صورت حال کو لانے کے لیے ہے۔ مگر جب موجودہ صورت حال ختم ہو جاتی ہے تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ نئی صورت حال میں وہی ناخوشگواری زیادہ بڑی مقدار میں موجود ہے جس کی کم مقدار کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنا اقدام کیا تھا۔

 ٹالرنس اسی حکمت کا نام ہے۔ اس دنیا میں برداشت کرنا آدمی کو زندگی کی طر ف لے جاتا ہے اور بے برداشت ہو جانا صرف موت کی طرف۔

 ٹالرنس کا طریقہ ہم کو فرصتِ عمل دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہم ناموافق حالات سے ایڈجسٹ کرکے اپنے لیے وہ موقع حاصل کر لیں جب کہ ہم اپنی زندگی کا سفر معتدل طور پر جاری رکھ سکیں۔ اس کے برعکس، اگر ہم ٹالرنس کو چھوڑ دیں اور جو چیز بھی ہم کوناموافق نظر آئے اس سے لڑنے لگیں تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ہم ایک چیز کو’’بُرائی‘‘ کے نام سے ختم کریں گے، صرف اس لیے کہ اس کے بعد ایک اور شدید تر بُرائی میں اپنے آپ کو مبتلا کر لیں۔

شیر اور ہاتھی اگر ایک دوسرے کو گوارا نہ کریں تو دونوں اپنی موت کو دعوت دیں گے۔ مگر جب وہ ایک دوسرے کو گوارا کرتے ہیں تو دونوں اپنے لیے زندگی کا موقع پا لیتے ہیں۔ یہ ٹالرنس کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ٹالرنس آپ کو فرصت عمل دیتا ہے۔ وہ آپ کو کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اور اس دنیا میں بلاشبہ سب سے بڑی چیز فرصت عمل ہے۔ فرصت عمل سے محرومی ہی کا نام بربادی ہے، اور فرصت عمل کو پا کر اس کو استعمال کرنے ہی کا نام کامیابی۔

ایک غلطی فہمی

ایک بار میں ایک دیہات میں گیا ہوا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے نیم کا درخت کاٹا اور اس کے بعد اس کے تنے کا چھلکا اتارنے لگا۔

’’آپ اس کا چھلکا کیوں اتار رہے ہیں ‘‘ میں نے دیہات کے اس آدمی سے پوچھا۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا’’اگر چھلکا نہ اتارا جائے تواس کے اندر کیڑے لگ جائیں گے اور لکڑی کو خراب کر دیں گے۔‘‘

 یہ1965ء کی بات ہے۔ اگست1975ء میں دوبارہ مجھے ایک اور دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں میں نے دیکھا کہ نیم کا ایک کٹا ہوا تنہ پڑا ہے۔ ایک شخص نے اپنے گھر کے پاس نیم کا ایک درخت کاٹ دیا تھا مگر اس کا چھلکا نہیں اتارا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے دس سال پہلے والی بات یاد آئی۔ میں نے سوچا کہ تجربہ کرکے دیکھوں کہ اس کی بات صحیح تھی یا نہیں۔ میں نے اس کے گھر کے ایک آدمی سے کہا کہ کوئی اوزار لائو اور اس کا چھلکا اتارو۔ جب اس نے چھلکا اتارا تو میں نے دیکھا کے چھلکے کے نیچے ایک انچ کے موٹے موٹے کیڑے ہیں۔ یہ کیڑے نہایت نرم تھے مگر انہوں نے تنہ کی سطح کو جگہ جگہ اس طرح کاٹ ڈالا تھا جیسے اس کے اوپر نالیاں بنائی گئی ہوں۔

یہ قدرت کا نظام ہے۔ قدرت اس طرح سبق دیتی ے کہ اس دنیا میں تم کو نہایت محتاط رہ کر زندگی گزارنا ہے۔ کیوں کہ دنیا کا نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں ایک غلطی تمہاری ساری خوبیوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ ایک غفلت تمہارے سارے امکانات کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔ قدرت یہ کر سکتی تھی کہ چھلکا اتارے بغیر نیم کے تنا کو محفوظ رکھتی۔ مگر اس نے یہ قانون بنا دیا کہ اس کا مالک اس کا چھلکا اتارے۔ اس کے بعد ہی اس کا تنااس دنیا میں محفوظ رہ سکے گا۔

 اس قانون قدرت کا انطباق اب انسانی زندگی میں دیکھیے۔ کیوں کہ انسان کی دنیا میں بھی وہی قانون رائج ہے جو فطرت کی دنیا میں پایا جاتا ہے۔

1944 ء میں جون پور (یو پی) کے دو آدمیوں نے مل کر کاروبار شروع کیا۔ ابتدائی سرمایہ ان لوگوں کے پاس چند سو سے زیادہ نہیں تھا۔ مگر ان کے مشترکہ کاروبار میں خدا نے برکت دی اور چھ سال میں ان کے کاروبار کی حیثیت30 ہزار تک پہنچ گئی۔ اب دونوں میں اختلاف شروع ہوگیا اور نتیجہ علیحدگی تک پہنچا۔ ایک ثالث کے مشورہ سے طے ہوا کہ کاروبار تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ اس کی مالیت کا اندازہ کرکے اس طرح بٹوارہ ہو کہ ایک شخص نصف کے بقدر رقم لے لے اور دوسرے کو اثاثہ سونپ دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہواور ایک شخص کو مال و اسباب اور دوسرے کو نقد پندرہ ہزار روپے دے دیے گئے۔

1949ء میں پندرہ ہزار روپے آج کی قیمت کے لحاظ سے کئی لاکھ روپے کے برابر تھے۔ جس شخص نے نقد رقم لی تھی، اس نے جون پور کے ایک بازار میں کپڑے کی دکان کھول لی۔ انہیں شروع ہی سے بڑا اچھا میدان ملا اور ایک سال میں ان کا سرمایہ دگنا ہوگیا۔ اپنے کاروبار کے دوسرے سال میں وہ اس طرح داخل ہوئے کہ ان  کے سامنے ترقی اور کامیابی کا ایک نہایت وسیع دروازہ کھلا ہوا تھا۔

 مگر اب ایک کمزوری نہایت آہستگی سے ان کے اندر داخل ہوگئی۔ وہ خرچ کے بارے میں لاپروا ہوگئے۔ اپنی ذات پر، بیوی بچوں اور دوستوں پر ان کا خرچ بے حساب بڑھ گیا۔ وہ بھول گئے کہ دن بھر کی بکری سے ایک ہزار روپے جو ان کے گلہ میں آئے ہیں، ان میں سے صرف 10فیصد ان کا ہے۔ باقی 90 فیصد مہاجن کا ہے۔ وہ اپنے گلہ کی رقم اس طرح خرچ کرنے لگے گویا یہ سارا روپیہ ان کی آمدنی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے وکیل کی جیب میں فیس کی جو رقم آتی ہے وہ سب اس کی آمدنی ہوتی ہے۔

 دکان داری کے ساتھ اس قسم کی شاہ خرچی نہیں چل سکتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند سال میں وہ دیوالیہ ہوگئے۔ ان کے پاس پندرہ ہزار میں سے ایک روپیہ بھی باقی نہ رہا۔

 اس واقعہ کے بعد وہ تقریباً پندرہ سال تک زندہ رہے۔ مگر دوبارہ کوئی کام نہ کر سکے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ تم ایک’’چلہ‘‘ دے دو تو تمہارا کام بن جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کیا۔ مگر قانون قدرت کی خلاف ورزی کی تلافی چلہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان کی حالت بگڑتی رہی۔ یہاں تک کہ پریشانی کے عالم میں وہ 1971ء میں ایک جیپ سے ٹکرا گئے اور سڑک ہی پر ان کا انتقال ہوگیا۔

 زندگی میں ایک غلطی بھی سارے امکان کو برباد کر دیتی ہے اور آدمی کوناکامی کے آخری کنارے پہنچا دیتی ہے۔

 یہی قاعدہ زندگی کے تمام معاملات کا ہے۔ یہاں ہر’’نیم‘‘ کے ساتھ ایک کیڑا ہے۔ یہاں ہر معاملہ کے ساتھ اس کی ایک کمزوری لگی ہوئی ہے۔ آدمی کو ان کمزوریوں سے آخری حد تک محتاط رہنا ہے۔ وہ جس معاملہ میں بھی غفلت برتے گا، اس کی کمزوری اپنا کام کرے گی اور اس کے سارے معاملہ کو بگاڑ کررکھ دے گی۔

 نیم کے درخت کا مالک اگر کیڑے کے خلاف احتجاج کرے تو کبھی ایسا ہونے والا نہیں کہ نیم کے تنا میں کیڑے نہ لگیں۔ اس کیڑے کا وجود قانون قدرت کے اذن کے تحت ہے۔ اور جس چیز کے پیچھے قانون قدرت کا اذن شامل ہو، اس کو ختم کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں۔

 اسی طرح انسانی زندگی کے معاملات میں جو’’کیڑے‘‘ لگتے ہیں، وہ بھی قانون قدرت کی بنا پر ہیں۔ وہ بہرحال باقی رہیں گے۔ ان کے خلاف احتجاج اور شکایت کا طوفان برپا کرنا سراسر لاحاصل ہے۔ ان کے مقابلہ میں ہم کو بچائو کی تدبیر تلاش کرنا ہے ، نہ کہ ان کے خلاف احتجاجی نعرے لگانا۔

 بچائو یا تحفظ اس دنیا کا ایک مستقل اصول ہے۔ اس دنیا میں وہی لوگ زندہ رہ سکتے ہیں جو اپنے بچائو کا اہتمام کرتے ہوں۔ جو لوگ اپنے بچائو کی طرف سے غافل ہو جائیں، ان کے لیے خدا کی اس دنیا میں ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں۔

اتھاہ امکانات

افغانستان کے سفر(اکتوبر1988) میں ایک دلچسپ چیز دیکھنے کو ملی جو اس سے پہلے میں نے نہیں دیکھی تھی۔ اس کو عام زبان میں فش(fish) کہا جاتا ہے۔ یہ امریکی ساخت کے اس خطرناک ہتھیار کا توڑ ہے، جس کو اسٹنگر(stinger) کا نام دیا گیا ہے۔ فش کا حربہ استعمال کرنے کو فشنگ(fishing) کہتے ہیں۔

 افغانستان میں روسی فوجوں کے داخلہ(دسمبر1979) کے بعد روسیوں اور افغان مجاہدین کے درمیان مستقل جنگ شروع ہوگئی ۔ افغان مجاہدین صرف زمینی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔ جب کہ روسیوں کا حال یہ تھا کہ وہ ہیلی کاپٹر پر اڑ کر ان کے ٹھکانوں کو اپنے بم کا نشانہ بناتے تھے۔

 یہ بے حد نازک صورت حال تھی۔ افغانی مجاہدین اگرچہ گن کے ذریعے جہازوں کو مارنے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر گن سے نکلی ہوئی گولی بالکل سیدھی جاتی ہے۔ اس لیے ایک ایسی چیز جو تیز رفتاری کے ساتھ فضا میں متحرک ہو، اس کو گولی کا نشانہ بنانا بے حد دشوار ہے۔ چنانچہ افغانی مجاہدین کوشش کے باوجود، روس کے بمبار جہازوں کو مار گرانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔

اس وقت امریکہ نے افغانی مجاہدین کو جدید قسم کا اینٹی ائیرکرافٹ میزائل سپلائی کیا، جس کو اسٹنگر(stinger) کہا جاتا ہے۔ اب افغانی مجاہدین کو روس کے بمبار جہازوں پر واضح بالادستی حاصل ہوگئی۔ وہ جب بھی فضا میں روسی جہاز دیکھتے تو اس پر اسٹنگر داغ دیتے، اور اسٹنگر پیچھا کرکے جہاز کو مارتا۔ کیوں کہ اسٹنگر عام گولے کی طرح بالکل سیدھا نہیں جاتا۔ وہ جہاز کے رخ پر اپنا رخ بدلتا ہوا جاتا ہے اور اس کو بہرحال مار کر رہتا ہے۔

 پہلے اگر افغانی مجاہدین دفاعی حیثیت میں تھے تو اب روسی فضائیہ دفاعی حیثیت میں آگیا۔ مگر اس دنیا میں امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی ایجاد اگلی زیادہ بڑی ایجاد کے امکان کو ختم نہیں کرتی۔ چنانچہ روسیوں نے بہت جلد اسٹنگر کا توڑ دریافت کر لیا۔ اسی توڑ کا نام’’فش‘‘ ہے۔ روسیوں نے معلوم کیا کہ اسٹنگر کی ٹکنیک یہ ہے کہ وہ گرمی کی طرف بھاگتا ہے۔ چونکہ اس وقت فضا میں سب سے زیادہ گرم چیز ہوائی جہاز کا انجن ہوتا ہے اس لیے وہ اس کا پیچھا کرکے انجن سے ٹکرا جاتا ہے، اس طرح وہ جہاز کو برباد کر دیتا ہے۔

 روسیوں نے اسٹنگر کے توڑ میں’’فش‘‘ کو دریافت کیا۔ یہ خاص قسم کا کیمیائی مادہ ہے جو ہوائی جہاز سے باہر آتے ہی جل اٹھتا ہے، اور تیز شعلہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس شعلہ کی گرمی ہوائی جہاز کے انجن کی گرمی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ہوائی جہاز کی طرف چلایا ہوا اسٹنگر ہوائی جہاز سے ٹکرانے کے بجائے شعلہ(فش) کی طرف جا کر اس سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس طرح ہوائی جہاز اس کی زد سے بچ جاتا ہے۔

اس واقعہ میں ایک بے حد اہم نکتہ ہے، اور وہ ہے فریق ثانی کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا۔ مقابلہ کی اس دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو فریق ثانی کی کمزوری کی دریافت کر سکیں اور اس سے فائدہ اٹھانے والی اہلیت کا ثبوت دیں۔

 روسیوں نے اس معاملہ میں اسی اہلیت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے اسٹنگر کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا کہ وہ اپنے اندر انسانی عقل نہیں رکھتا۔ اس کی ضرب شعوری ضرب نہیں ہے، وہ ایک میکانکی ضرب ہے۔ وہ ایک مادی چیز ہونے کی وجہ سے ہوائی جہاز کو نہیں جانتا۔ وہ ’’گرمی‘‘ کو نشانہ بنانا جانتا ہے ، نہ کہ’’ہوائی جہاز‘‘ کو۔ روسیوں نے جیسے ہی اس راز کو دریافت کیا، انہوں نے گویا آدھی جنگ جیت لی۔ اسٹنکر کے مقابلہ میں فش کا استعمال اسی تدبیر کی ایک کامیاب مثال ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا توڑ ہے۔ یہاں خطرات کے مقابلہ میں ہمیشہ امکانات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ بشرطیکہ مسائل پیش آنے کے بعد آدمی اپنی ہمت کو نہ کھوئے۔ وہ خدا کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے خطرہ کا توڑ دریافت کر سکے۔

یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہےلَنْ يَغْلِبَ عُسْرٌ يُسْرَيْنِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 9541)۔ یعنی ایک مشکل دو آسانی پر ہر گز غالب نہیں آ سکتی۔ دوسرے الفاظ میں، اس دنیا میں اگر عسر(مشکل) ایک ہے، تو اس کے مقابلہ میں یُسر(آسانی) کی مقدار اس کا دگنا ہے۔ یہاں اگر ایک راستہ میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے تو وہیں دوسرا راستہ آگے بڑھنے کے لیے کھلا ہوا ہوتا ہے۔

ایسی حالت میں فریاد اور احتجاج نہ صرف بے فائدہ ہے، بلکہ وہ خود خدا کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ یہ خدا کی خدائی کی تصغیر ہے۔ فریاد واحتجاج کرنے والا شخص بیک وقت دو نقصان کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی ناکامی کو دوبارہ کامیابی بنانے کے امکان کو استعمال کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی نظر میں اس بات کا مجرم قرار پاتا ہے کہ اس نے ایک کامل دنیاکو ناقص دنیا بتانے کی جسارت کی۔

 حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا اتھاہ امکانات کی دنیا ہے۔ ماضی کی کوئی کوتاہی مستقبل کے مواقع کو برباد نہیں کرتی۔ دشمن کی کوئی کارروائی ایک نئی برترکاروائی کے امکان کو ختم نہیں کرتی۔ ہر نقصان کے بعد یہ موقع بدستور باقی رہتا ہے کہ آدمی ازسرنو کوشش کرکے دوبارہ اپنے آپ کو کامیاب بنا لے۔

آدمی کو چاہیے کہ وہ پیچھے کی طرف دیکھنے کے بجائے آگے کی طرف دیکھے۔ وہ ہر کھونے کے بعد دوبارہ پانے کی کوشش کرے۔ وہ ہاری ہوئی بازی کو محنت اور عمل کے ذریعے ازسر نو جیت لے۔

نمونہ کی اقلیت

ایشیائی ملکوں کے جو لوگ امریکہ میں ہیں ان کو ایشیائی امریکی (Asian Americans) کہا جاتا  ہے۔ یہ لوگ 1965ء سے آ کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ وہ زیادہ تر چین ، کوریا ، انڈو چائنا وغیرہ ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ جب یہاں آئے تو ان کا حال یہ تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ انگریزی میں معمولی گفتگو بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج وہ، ریڈرس ڈائجسٹ کی رپورٹ کے مطابق ، امریکہ کے بہترین انگلش اسکولوں میں اعلیٰ طالب علم (super students) کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان کی تعداد اگرچہ مجموعی آبادی میں صرف 2 فیصد ہے ، مگر مختلف امریکی اداروں میں انہوں نے 20 فیصد تک جگہ لینے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ وہ ہر جگہ زیادہ لائق (overqualified) ثابت ہو رہے ہیں۔

اس صورت حال نے امریکی دماغوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ اس پر باقاعدہ ریسرچ کی گئی۔ اس ریسرچ کی رپورٹ مختلف امریکی اور غیر امریکی جرائد میں شائع ہوئی ہے۔ چند حوالے یہ ہیں:

1. New York Times, New York, August 3, 1986

2. Why Asian Americans are doing so well

Times Magazine, New York, August 31,1987

3. Why Asian American students excel

Reader's Digest, August 1987

4. Why Asian succeed in America

Span monthly, December 1987

5. Among the top 6 science students of the United States

The Hindustan Times, New Delhi, August 30, 1987.

عام امریکی نوجوانوں کے مقابلہ میں ایشیائی امریکی تعلیم کے ہر شعبہ میں آگے کیوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کوشش کی مقدار امریکی نوجوانوں سے بڑھی ہوئی ہے۔ ہاروڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیروم کاگن سے پوچھا گیا کہ کیا سبب ہے کہ ایشیائی امریکی طلبہ اصل امریکی طلبہ کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہیں۔ ٹائم کی رپورٹ کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ زیادہ محنت کرتے ہیں:

To put it plainly, they work harder.

یہ لوگ تعلیم کو اپنے لیے کامیابی کا ٹکٹ (ticket to success) سمجھتے ہیں اور واقعی امریکہ کا تعلیمی نظام ان کے لیے کامیابی کا یقینی ٹکٹ ثابت ہوا ہے۔ اس ٹکٹ کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جو قیمت ادا کی ہے وہ ایک لفظ میں امتیاز (excellence) ہے۔

اپنے اس عمل سے انہوں نے امریکہ میں نمونہ کی اقلیت (model minority) کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ تاہم امریکہ میں ان کے لیے راستہ بالکل کھلا ہوانہیں تھا۔ ان کو نسلی امتیاز اور حقارت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی نوجوان ان کامذاق اڑاتے اور ان کو زرد خطرہ (yellow peril) کہتے۔ حتیٰ کہ جسمانی طور پر مارنے پیٹنے کے واقعات بھی ہوتے رہے۔ مگر ایشیائی امریکنوں نے اس کے مقابلہ میں کسی بھی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ وہ شکایت اور احتجاج کے طریقہ سے مکمل پرہیز کرتے رہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ تھاکہ انہوں نے اپنی محنت کی مقدار بڑھا دی۔ ان کے والدین نے ان کے جذبات کو جوابی اشتعال سے بچایا اور اس کو جوابی محنت کے رخ پر ڈال دیا۔ ایشیائی خاندانوں میں تعلیم ایک قسم کا کابوس (obsession) بن کر چھا گئی۔ ایشیائی امریکیوں کے گھروں کی فضا یہ ہو گئی کہ اگر ان کا لڑکا 80فیصد نمبر لائے تو وہ کہیں گے کہ 85فیصد کیوں نہیں اوراگر لڑکا 85فیصد نمبر لائے تو اس کا باپ کہے گا کہ تم 90فیصد بھی تو لا سکتے تھے۔

کسی گروہ کو مسائل کا سامنا ہو تو اس کے لیے اپنے مسئلہ کو حل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک وہ جس کا نمونہ ہم کو ہندوستان میں نظر آتا ہے، یعنی مطالبہ اور احتجاج۔ اس طریق کار پر چلنے میں بیک وقت دو نقصانات ہیں۔ ایک یہ کہ اصل مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس دنیا میں ہرچیز عمل کے ذریعہ ملتی ہے، نہ کہ مطالبہ کے ذریعہ۔ اور جو چیز عمل کے ذریعہ ملتی ہو اس کو مطالبہ کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کو دور سے دور تر کر دینا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ایسا گروہ دوسروں کی نظر میں بے عزت ہو جاتا ہے۔ مطالبہ اور احتجاج کا مطلب اپنے مسائل کا بوجھ دوسروں کے اوپر ڈالنا ہے اور کون ہے جو اپنے مسائل کا بوجھ دوسروں کے اوپر ڈالنے کے بعد دوسروں کی نظر میں حقیر اور بے عزت نہ ہو جائے۔

اس کے برعکس، مثال امریکہ کے ایشیائی امریکی گروہ کی ہے۔ انہوں نے اپنے مسئلہ کا حل یہ دریافت کیا کہ وہ اس کی ساری ذمہ داری خود قبول کریں۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں اور آخری حد تک پرامن رہتے ہوئے دوسروں سے زیادہ محنت کریں۔ ان کاتجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح عمل کرنے کے نتیجہ میں ان کا مسئلہ مکمل طور پرحل ہو گیا ، بلکہ انہوںنے اپنے عددی تناسب سے زیادہ بڑا حصہ اپنے لیے پا لیا۔

منفی رویہ اختیار کرنا گویا اپنے مسئلہ کا بوجھ دوسروں کے سر پر ڈالنا ہے اور مثبت رویہ کا مطلب اپنے مسئلہ کی ذمہ داری خود قبول کرنا۔ اس لیے مثبت رویہ اختیار کرنے کامزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ سماج میں کوئی پیچیدگی پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے۔ چنانچہ ایشیائی امریکنوں نے جب مثبت انداز سے اپنے مسئلہ کوحل کرنے کی راہ نکالی تو وہ امریکی سماج میں مزید فائدوں کو ظہور میں لانے کا ذریعہ بن گئے۔

اول یہ کہ انہوں نے امریکی نوجوانوں کے درمیان مقابلہ و مسابقت کی فضا پیدا کی۔ وہ امریکی نوجوان جو اپنے کو محفوظ سمجھ کر محنت میں کمی کرنے لگے تھے ، ان کے اندر یہ جذبہ ابھر آیا کہ اگر انہیں زندہ رہناہے اور ترقی کرنا ہے تو ان کو بھی ایشیائیوں کی طرح زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔

ٹائم کی رپورٹ کے مطابق ، خود امریکی دانشوروں کو اعتراف کرنا پڑا کہ ایشیائی امریکیوں نے ہمارے نوجوانوں کی سستی کو ختم کر کے ان کو ازسرِ نو چست بنا دیا ہے۔ ہمارے سماج میں ان کی موجودگی ہمارے لیے ایک عظیم رحمت ہے:

Their Presence is going to be great blessing for society (p. 53)

اسپان (دسمبر 1987) کی رپورٹ کے مطابق ، نیو یارک کے ایک درمیانی عمر کے آدمی نے کہا کہ ایشیائی امریکنوں کے لیے خداکا شکریہ ، وہ ہمارے اسکولوںمیں دوبارہ معیار کو واپس لا رہے ہیں:

Thank God for the Asians. They bringing back standards to our schools (p.32).

2۔     ایشیائی امریکی گروہ کودوسر فائدہ یہ ملا کہ جب انہوں نے معاشی عزت حاصل کی تو ان کی تہذیب بھی لوگوں کی نظر میں باعزت بن گئی۔ ان کی قومی روایات امریکیوں کی نظرمیں محترم بن گئیں۔ یہ ایشیائی امریکی لوگ کنفیوشش کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ جب ایشیائی امریکیوں کی ایک قابل تعریف خصوصیت امریکہ والوں کے سامنے آئی تو انہوں نے ان کی اس خصوصیت کو ان کے قومی بزرگ (کنفیوشش) سے جوڑ دیا۔ ایشیائی امریکیوں کے ممتاز عمل نے امریکیوں کی نظرمیں ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کو قابلِ توجہ بنادیا۔ اسپان کی رپورٹ کے مطابق ، نیو یارک یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ نے کہاکہ جب میں اپنے ایشیائی طلبہ کو دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ ان کی کامیابی زیادہ تو کنفیوشش کی تعلیمات کا نتیجہ ہے

When I look at our Asian-American students, I am certain that much of their success is due to Confucianism. (p.32)

ایشیائی مہاجرین کا مقابلہ جہاں عام امریکیوں سے پیش آتا ہے، وہ ان کے مقابلہ میں زیادہ لائق (overqualified) ثابت ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ عام امریکیوںکے لیے ایک مہمیز یا چیلنج بن گئے ہیں۔وہ امریکی نوجوانوںمیں محنت کانیا جذبہ ابھارنے کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایشیائی مہاجرین نے مثبت طور پراپناذاتی مسئلہ حل کیا تھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی سماج کااپنا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔

ایشیائی مہاجرین نے امریکہ میں صرف ایک نسل کے اندر وہ کامیابی حاصل کی ہے جس کو عام طور پر لوگ تین نسلوں میں حاصل کرتے ہیں۔ ان کی اس غیرمعمولی کامیابی نے امریکہ میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو ایشیائی اخلاقیاتِ عمل (Asian work ethics) کہا جاتا ہے۔ اب وہاںکہا جانے لگا ہے کہ اگر اعلیٰ ترقی حاصل کرنا ہے تو ایشیائی اخلاقیاتِ عملی کو اختیار کرو۔

یہی دروازہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر کھلا ہوا ہے۔ مسلمان اگر ان قومی جھگڑوں کو چھوڑ دیں جن میں ان کے سطحی لیڈروں نے انہیں بے فائدہ طور پر اُلجھارکھاہے ، اور وہ اسلام کے دیے ہوئے ابدی اصولوں پر اپنی زندگی کی مثبت تعمیر شروع کر دیں تو اس ملک میں وہ ایک نئے انقلاب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس طرح مسلمان نہ صرف اپنا مسئلہ حل کریں گے بلکہ وہ اس ملک کو ایک نیا معیار دیں گے جس کو ایک لفظ میں مسلم اخلاقیات عمل (Muslim work ethics) کہا جا سکتا ہے اور جب ایسا ہو گا تو مسلمان اس ملک میں سرمایہ بن جائیں گے جو کہ اس وقت ملک کے لیے صرف ایک بوجھ (liability) بنے ہوئے ہیں۔

ہندوستان کے مسلمان ابھی تک تہذیبی تشخص (cultural identity) حاصل کرنے کے لیے مطالباتی تحریکیں چلانے میں مشغول رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس قسم کی تمام کوششیں سراسر بے فائدہ ہیں۔ کیوں کہ تہذیبی تشخص اپنی داخلی قوت سے قائم ہوتا ہے، وہ مطالبہ کر کے حاصل نہیںکیاجاتا۔

زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان اخلاقی تشخص کو اپنانشانہ بنائیں۔ وہ اسلامی اخلاق اختیار کرنے کو اپنا نشان امتیاز قرار دیں۔ مسلمان اگر اخلاقی حیثیت سے اپنا تشخص قائم کر سکیں تووہ تہذیبی حیثیت سے بھی اپنے آپ اپناتشخص پا لیں گے جس کے لیے وہ بے فائدہ طور پر مطالباتی مہم چلانے میں مشغول ہیں۔

Ticket to Success

NO matter what their route young Asian Americans, largely those with Chinese, Korean and Indochinese backgrounds, are setting the educational pace for the rest of America and cutting a  dazzling figure at the country's finest schools.

Trying to explain why so many Asian-American students are superachievers, Harvard Psychology Professor jerome Kagan comes up with this simple answere: ''To put it Plainly, they work harder.' 'Even with the problems (of restriction and discriminination), many Asian-American students are making the U.S. education system work better for them than it has for any other immigrant group since the arrival of East European jews began in the 1880s. Like the Asians, the Jews veiwed education as the ticket to success. Both groups ''feelan  obligation to excel intellectually,'' says News York University Mathematician sylvain Cappell, who as a Jewish immigrant feels a kinship with his Asian-American students. The two groups share a powerful belief  in the value of hard work and a zealous regard for the role of the family. such achievements are  reflected in the nation'sbest universities, where match, science and engineering departments have taken on a decidely Asian character. At the University of Washington 20% of all engineering students are of Asian descent; at Berkeley the figure is 40%. To win these places Asian-American students make the SAT seem as easy as taking a driving test. The average math score of Asian American high school seniors in 1985 was 518 (of a possible 800), 43 points higher than the general average.

A telling measure of parental attention is homework. A 1984 study of San Francisco-area schools by Stanford Sociologist Sanford Dornbusch found that Asian-American students put in an average of eleven hours a week, compared with seven hours by other students. Some Asian Americans may be pushing their children too hard. Says a Chinese-American high schools in New York City; ''When you get an 80, they say, 'Why not an 85? If you get an 85, it's 'Why not a 90?' ''Years ago,'' complains Virginia Kee, a high school teacher in New York's Chinatown, ''they used to think you were Fu Manchu or Charlie Chan. Then they thought you must own a laundry or restaurant. Now they think all we Know how to do is sit in front of a computer.'' The image of Asian Americans is as relentless book-worms. ''If you are weak in math or science and find yourself assigned to a class with a majority of Asian Kids, the only thing to do is transfer to a different section,'' says a white Yale sophomore.

The performance of Asian Americans also triggers resentment and tension, ''Anti-Asian activity in the form of violence, vandalism, harassment and intimidation continues to occur across the nation,'' the U.S. Civil Rights Commission declared last year. Young immigrant Asians complain that they are constantly threatened. To some Asian Americans being only ''very good'' is tantamount to failure. ''It seems to me that having people like this renews our own striving for excellence,'' observes Emmy Werner professor of humasn development at the University of California at Davis. ''We shouldn't be threatened but challenged.'' Mathematician Cappell is thrilled by the new inheritors. ''Their presence.'' he says, ''is going to be a great blessing for society.''

 

حل رخی پالیسی

موجودہ سال کا غالباً سب سے زیادہ اہم واقعہ سوویت روس اور امریکہ کی وہ مفاہمت ہے جس کو ٹائم (30مئی 1988) نے بجا طور پر عظیم اتحاد (grand compromise) کا نام دیا ہے۔ سوویت روس اور امریکہ دونوں دنیا کی سب سے بڑی طاقت (superpowers) شمار ہوتے ہیں۔ پچھلے 70 سال سے دونوں کے درمیان سخت رقابت جاری تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف ٹکرائو کی پالیسی پر قائم تھے۔ دونوں ملکوں کے پریس اورمیڈیا کا کام یہ تھاکہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں اور ایک دوسرے کی مذمت کرتے رہیں۔ مگر لمبے تجربہ کے بعد ، اب دونوں ٹکرائو کے بجائے صلح کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ ہتھیاروں کی دوڑ کے بجائے بات چیت کی دوڑ پراپنی توجہ لگائے ہوئے ہیں۔ وہ رقابت کے طریقہ کو چھوڑ کر مفاہمت کے طریقہ کو اپنارہے ہیں۔

سوویت روس کے ایک ذمہ دار نے اس نئی پالیسی کو حل رُخی (solution-oriented) پالیسی کا نام دیا ہے۔ اس سے پہلے دونوں کی تمام توجہ اگر اس پر جمی ہوئی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو غلط ثابت کریں تو اب انہوں نے اس قسم کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ اس پر لگا دی ہے کہ مسئلہ کا حل کیا ہے۔ یہ واقعہ جو سوویت روس اور امریکہ کے درمیان پیش آیا ہے ، اس میں دوسری قوموں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ موجودہ زمانہ میں اختلاف اور ٹکرائو کی پالیسی اتنا مہنگا سودا بن چکی ہے کہ بڑی طاقت بھی اس کا تحمل نہ کر سکیں۔ پھر چھوٹی قومیں کیوں کراس تباہ کن مشغلہ کا تحمل کر سکتی ہیں۔

حقیقت پسندی کی طرف

نکیتا خروشچوف 1958ء سے 1964ء تک سوویت روس کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے سرمایہ دار دنیا کو خطاب کرتے ہوئے اپنا مشہور جملہ (ہندوستان ٹائمس 28 جون 1988ء ) کہا تھاکہ ہم تم کودفن کردیں گے:

We will bury you.

اسی طرح امریکہ کے پریذیڈنٹ رونالڈ ریگن نے 1983ء میں سوویت روس کوشیطانی سلطنت (the evil empire) قرار دیاتھا۔ امریکی افسروں کاکہنا تھاکہ ہم اشتراکی روس کو سمندر میں دھکیل دیں گے ۔ مگر اشتراکی انقلاب کے ستر سال بعد 1988ء میں آخرکار دونوں ملکوں کو اپنا ذہن بدلنا پڑا۔ روس کے لیڈروں نے گفت و شنید کے لیے امریکہ جانا شروع کیا۔ رونالڈ ریگن نے خود ماسکو کادورہ(28 جون تا 2 جولائی 1988ء) کیا جس کووہ اس سے پہلے خارج ازامکان سمجھتے تھے۔ دورے سے پہلے واشنگٹن (ہندوستان ٹائمس 26 مئی 1988ء) میں انہوں نے کہاکہ ماسکو کے ساتھ امریکہ کا تعلق حقیقت پسندی کے تحت قائم ہونا چاہیے:

U.S. relations with Moscow must be guided by realism.

چالیس سال سے دونوں ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ (arms race) جاری تھی۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو برباد کرنے کے لیے تاریخ کے خطرناک ترین ہتھیار بنانے میں مشغول تھے ، مگر آج وہ اپنے بنائے ہوئے ہتھیاروں پر خود ہی پابندی لگا رہے ہیں ، حتیٰ کہ اس کو ضائع کررہے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (3 اگست 1988ء) سیکشن 2 صفحہ 1 پر ایک خبر ہے جس کی سرخی یہ ہے:

USSR destroys 4 missiles

(سوویت روس اپنے چار میزائل کو برباد کرتاہے)۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ 2 اگست 1988ء کو سوویت روس نے سریوزیک (Saryozek) میں چار چھوٹی رینج کے میزائل (OTR-22) برباد کر دیے۔ یہ واقعہ مختلف ملکوں کے مشاہدین کی موجودگی میں ہوا جن میں ہندوستان اور امریکہ کے مشاہدین بھی شامل تھے۔ میزائل کے خاتمہ کا یہ عمل اس معاہدہ کے تحت کیا گیا ہے جو ریگن اور گورباچوف کے درمیان ہوا ہے۔

معاہدہ کے تحت سوویت روس اگلے تین سال میں اپنے 1752 میزائل کو ضائع کرے گا جن کا رینج 500 کلومیٹر سے لے کر 5500 کلومیٹر تک ہے۔ امریکہ ، حسب معاہدہ اپنے اسی قسم کے 859 میزائل کو ضائع کرے گا۔

روس اور امریکہ کی پالیسی میں اس ڈرامائی تبدیلی کا راز یہ ہے کہ ہتھیار سازی اور عسکری فوقیت حاصل کرنے کی کوشش میں دونوں ملکوں کی ترقی رک گئی۔ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کی دوڑ (arms race) اور ایک دوسرے کے خلاف مذمت رخی (blame-oriented) پالیسی میں نصف صدی کی مدت گزارنے کے بعد ان پرکھلا کہ اس منفی طریق کار سے وہ کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے۔ جب کہ دوسرے کی کاٹ کی کوشش میں دونوں نے خود اپنے آپ کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا۔ چنانچہ اب انہوں نے سابقہ پالیسی کو ترک کر کے حل رخی (solution-oriented) پالیسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکہ اورروس

امریکہ نے اپنی ساری طاقت جنگی مشین تیار کرنے میں لگا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اقتصادی میدان میں خود اپنے مفتوحہ ملک جاپان سے بھی پیچھے ہو گیا۔ امریکہ آج سب سے بڑا قرض دار ملک ہے۔اس کے اوپر 400 بلین ڈالر کا خارجی قرضہ ہے ، جب کہ جاپان آج سب سے بڑا دائن ملک ہے۔ اُس نے دنیاکو 240 بلین ڈالر قرض دے رکھا ہے۔ امریکی ڈالر جو پچھلی نصف صدی سے اقتصادی دنیاکا شہنشاہ بنا ہواتھا ، اس کی یہ حیثیت بری طرح مجروح ہو گئی۔ حتیٰ کہ یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیاامریکہ اپنی بڑی طاقت کی حیثیت (Super power status) کو برقرار رکھ سکتا ہے (تفصیل کے لیےٹائم 4 جولائی 1988ء)

ڈاکٹر ہنری کسنجر نے ایک انٹرویو (ٹائمس آف انڈیا 9اگست 1988ء) میں کہا کہ نئی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پرکچھ نئی طاقتیں ابھری ہیں۔ مثلاً چین اور ہندوستان۔ جاپان دن بدن زیادہ سے زیادہ طاقت ور ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی حالت میں امریکہ کو دوسرے ملکوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کو چھوڑنا پڑے گا۔ امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئے طاقتی مراکزکے ساتھ موافقت کرے:

US will have to adjust with new centres.

19 ویں آل سوویت پارٹی کانفرنس جون 1988ء کے آخری ہفتہ میں ماسکو میں ہوئی جس میں پورے ملک سے پانچ ہزار ڈیلی گیٹ شریک ہوئے۔ اس موقع پر روسی وزیر اعظم گوربا چوف نے ساڑھے تین گھنٹہ کی تقریرکی۔ اس طویل تقریر میں انہوں نے نہایت شدت کے ساتھ خود تنقیدی (self-criticism) کی وکالت کی۔ان کی اس تقریر کاملخص متن ٹائمس آف انڈیا (29 جون 1988ء) صفحہ 11 پر دیکھا جاسکتا ہے۔

مسٹر کوئٹن پیل (Quentin Peel) ایک اخبار نویس کی حیثیت سے خود ماسکو کی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ انہوں نے روسی لیڈروں کی تقریریں سنیں اور ان سے ملاقاتیں کیں۔  انہوں نے روسی وزیر اعظم مسٹر گوربا چوف کی ساڑھے تین گھنٹہ کی تقریر کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

The message seemed plain enough: the party would have to renounce its stifling role in the administration and economy of the country. Power and privilege would have to be curbed, science and initiative given their head, if the Soviet Union were to complete with the rest of the world, let alone be a superpower.                                     

پیغام بظاہر بالکل سادہ تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کو انتظامیہ اور اقتصادیات اورملک کے اوپر اپنے سخت کنٹرول کو چھوڑنا ہو گا۔ طاقت اور استحقاق پر پابندی لگانی ہو گی۔ سائنس اور محرک کو آگے بڑھانا ہو گا ، اگر سوویت یونین کو بقیہ دنیا کامقابلہ کرناہے ، سپرپاورکی حیثیت کو باقی رکھناتودرکنار۔

پرسترائیکا

ان حالات نے روسی وزیر اعظم مسٹر میخائل گورباچوف کو مجبور کیا کہ وہ حقیقت کا اعتراف کریں۔ انہوں نے اشتراکی برتری کامزاج ترک کرتے ہوئے روس میں تبدیلیاں لانے کی ایک نئی مہم شروع کر دی جس کووہ دو لفظ میں بیان کرتے ہیں۔ ایک گلاس ناسٹ (glasnost) یہ ایک روسی لفظ ہے جس کے معنی کشادگی(openness) کے ہیں۔ دوسرے، پراسترائیکا (Perestroika) اس کا مطلب روسی زبان میں تنظیم نو (re-structuring) ہوتا ہے۔ پرسترائیکا کے نام سے مسٹر گورباچوف کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ جس کانام انگریزی میں اس طرح ہے:

Perestroika: New Thinking for our Country and the World.

اس تحریک کے تحت روس کے سابق اشتراکی ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ اس میں مذہبی آزادی سے لے کر اپنے روایتی دشمن امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات تک شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں نہایت سبق آموز رپورٹیںاخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک رپورٹ وہ ہے جو لاس اینجلس اور واشنگٹن پوسٹ نیوز سروس کے تحت اخبارات میں آئی ہے۔ ہندوستان ٹائمس (16 جنوری 1988ء) نے اس کو مسٹررائے گٹ مین (Roy Gutman) کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان حسب ذیل ہے:

Kremlin, White House now realistic. (p. 20)

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد روس اور امریکہ کے تعلقات میں ایک تاریخی تغیر (Historic shift) آیا ہے۔ دونوں ملکوں میں نئی سوچ (New thinking) پیدا ہوئی ہے۔ کریملن اوروہائٹ ہائوس دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں حقیقت پسند بن رہے ہیں ۔ یہ رپورٹ ہم یہاں علیحدہ صفحہ پرنقل کررہے ہیں۔

روس کے ڈپٹی وزیر خارجہ (Alexander Bessmertnykh) جو اپنے ملک کے سفیرکی حیثیت سے 12 سال تک امریکہ میں رہ چکے ہیں۔ انہوںنے نیوز ڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ملکوں میں نئی سوچ (new thinking) پیدا ہوئی ہے۔ دونوں کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی (dramatic change) اور تاریخی فرق (historic shift) آ رہاہے۔ امریکی ذمہ دار اس سے پہلے کہاکرتے تھے کہ ہم کمیونزم کے پھیلائو کوروک دیں گے ، ہم ان کو سمندر میں غرق کر دیں گے۔ مگر اب انہوں نے جان لیا ہے کہ یہ ناممکن ہے۔ اس سے پہلے دونوں ملک ایک دوسرے کی مذمت کرنے اور ایک دوسرے کی کاٹ کرنے میں لگے رہتے تھے۔ مگر یہ پالیسی سراسر بے فائدہ رہی۔ اب دونوں طرف کے لوگ حقیقت پسند بن رہے ہیں۔ اب ہماری ٹیم اور ان کی ٹیم دونوں حل رخی ذہن رکھنے والے ہیں:

That team and our team are solution-oriented.

پرستروئیکا کے مقاصد اور نشانے کیا ہیں ، اس کی وضاحت مسٹر گوربا چوف نے مخصوص اشتراکی زبان میں اس طرح کی ہے’’اور زیادہ جمہوریت اور زیادہ سوشلزم، محنت کش انسان کے لیے اور زیادہ بہتر زندگی ، قوم کے لیے اور زیادہ عظمت درفعت اور ثروت۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’پرستروئیکا‘‘ سوشلزم سے واپسی ہے ، نہ کہ سوشلزم کی طرف ’’اگلا قدم‘‘۔ کیوں کہ مارکس اور لینن کی تشریح کے مطابق ، سوشلزم کی ترقی سرمایہ داری کی موت پر ہونے والی تھی۔ سوشلزم کی ہر پیش قدمی سرمایہ دارانہ نظام کی پسپائی کے ہم معنی تھی۔ مگر آج سوویت روس ، گوربا چوف کی قیادت میں ، سرمایہ دارانہ نظام سے مفاہمت کر رہا ہے ، بلکہ وہ اس کی قدروں کو اپنے یہاں رائج کرنے میں ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھ رہا ہے۔

پرستروئیکا سوشلزم کے اصولوں کی صداقت کا ثبوت نہیں ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دنیا میں کامیابی حقیقتوں کے اعتراف کے بغیر ممکن نہیں۔ ریگن کے الفاظ میں ، اس زمین پر ہمیں تمام اچھے اور برے لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔ حقیقت پسندی اور مفاہمت ہی اس دنیا میں ترقی اور کامیابی کا راز ہے۔

نتیجۂ بحث

روس اور امریکہ کے تعلقات میں یہ تبدیلی بلاشبہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے۔ جدید تاریخ کے اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹکرائو کی پالیسی آخری حد تک اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ اپنے حریف پر الزام لگانا، اس کی کاٹ میں لگے رہنا ، اس کے ساتھ مقابلہ آرائی کرنا ، روس اور امریکہ جیسی طاقتوں کے لیے بھی سراسر بے فائدہ ہے ، کجا کہ دوسری کمزور قومیں اس قسم کی منفی پالیسی اختیار کر کے کسی واقعی نتیجہ کی امید کر سکیں۔

خواہ فرد کا معاملہ ہو یا قوم کا معاملہ ، دونوں کے لیے مسئلہ کا حل اسی طریق کار میں ہے۔ اس دنیا میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی دوسرے کی تخریب کرنے کے بجائے اپنی تعمیر میں لگ جائے۔ مسئلہ کو لے کر اس کے نام پر چیخ پکار کرنا یا حریف کے مقابلہ میں لڑائی چھیڑنا ، صرف اپنے وقت اور قوت کو ضائع کرنا ہے۔ اس کے سوا اس کا اور کوئی انجام نہیں۔ ایک لفظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی اور کامیابی کا راز حل رُخی پالیسی میں ہے ، نہ کہ مذمت رخی (blame-oriented) پالیسی میں۔

Kremlin, White House Now Realistic

BY Roy Gutman

MOSCOW  A high Soviet official, ascribing a dramatic change in approach to the Reagan Administration, says US policy-makers now constitute a Pragmatic ''team'' that is ''solution-oriented'' and can work well with Mr. Mikhail S. Gorbachev's new foreigen policy.

''you have realistically-minded people on both sides at the moments, in the Kremlin and in the White House, That team and our team... are solution-oriented,'' said Mr. Bessmertnykh, who oversees Soviet relations with the United States.

Mr. Bessmertnykh, a veteran diplomat who served 12 years in the United States and is Known as a leading exponent of pragmatism, emphasised that the summit affirmed a historic shift in Us-Soviet relation.

He asserted that an agreement on a treaty sharply cutting offensive nuclear arms is still possible this year, despite a number of unresolved issues.

Mr Bessmertnykh also claimed that Mr Gorbachev's new offer on conventional forces was ''the most pratical offer ever made.''Under the offer, NATO and the Warsaw Pact would exchange data on each over's forces,verify the data on-site and reduce deployments where one side had superiority. He said Mr give the idea serious consideration.

Mr Bessmertnykh said changed attitudes on both sides had facilitated progress toward setting , regional disputes where the United States and Soviet Union had been an influence.These disputes where the involve such places as Afghanistan, the Middle East , the Persian Gulf, Southern Africa and Kampuchea. In the Soviet Union, the attitude change encompasses Mr Gorbachev's ''new thinking'' in foreign policy, which calls for political solutions based on a '' balance of interests''of all the involved parties, and in the United States, a readiness by the Reagan Administration to discuss issues on this basis.

When Mr Reagan came to office, the administration used phrases such as ''we shall draw the line, we shall go to the source, we shall stop the advance of communism...''

But eight years later, ''look at the situation'', he said, ''the fleet was concentrated in the Persian Gulf. What was the result?'' Mr Bessmertnykh said, ''Practical minded people'' in the administration ''realise the world has changed. You can't do it any more that way.''It's impossible.''

Just three years ago, when Mr reagan and Mr. Gorbachev met in Geneva at their first summit, the US aim in the Middle East was '' Pushing the Soviet Union into the sea from the Middle East,'' he said. The Administration has dropped this'' arrogant but very unrealistic policy, ''Bessmertnykh said.

    (The Los Angeles Times Washington Post News Service)

یہ اسلام نہیں

ایک مقام پر رمضان کے زمانہ میں فساد ہو گیا۔ وہاں کے ایک صاحب سے 25 دسمبر 1987ء کو میری ملاقات ہوئی۔ میں نے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ رات کا وقت تھا۔ مسلمان مسجد میں تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں سڑک سے شور و غل سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ دوسری قوم کے لوگوں کی شادی پارٹی گزر رہی ہے اور جگہ جگہ رک کر گاتی بجاتی ہے۔ اس وقت مسجد سے نکل کر کچھ مسلمان سڑک پر آئے اور جلوس والوں سے کہا کہ آپ لوگ یہاں شور نہ کریں۔ کیوں کہ مسجد کے اندر ہماری نماز ہو رہی ہے۔ مگر وہ لوگ نہیں مانے۔ اس پر تکرار ہوئی یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے فساد ہو گیا۔

میں نے کہاکہ یہ تو آپ لوگوں کا طریقہ ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں مکہ پر اور بیت اللہ پر مشرکین کا قبضہ تھا۔ وہ لوگ رسول اللہ کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستاتے تھے۔ اسی میں سے ایک یہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب جب بیت اللہ میں جاتے تو وہ لوگ وہاں آ کر شور و غل کرتے۔ وہ سیٹی بجاتے اور تالیاں پیٹتے اور کہتے کہ یہ ہمارا عبادت کا طریقہ ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے:

 وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (8:35)۔ یعنی اور بیت اللہ کے پاس ان کی نماز اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ سیٹی بجانا اور تالی پیٹنا۔ تو اب عذاب چکھو اپنے انکار کی وجہ سے۔

اس آیت کی تشریح کے سلسلے میں چند تفسیروں کے حوالے یہ ہیں:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَيْضًا أَنَّهُ قَالَ:كَانُوا يَضَعُونَ خُدُودَهُمْ عَلَى الْأَرْضِ ويُصَفِّقُون ويُصَفِّرُون. قَالَ مُجَاهِدٌ:وَإِنَّمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ذَلِكَ لِيَخْلِطُوا بِذَلِكَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِلَاتَهُ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ:يَسْتَهْزِئُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ(تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ52)۔ یعنی صحابیٔ رسول ا بن عمر نے کہاکہ مکہ کے مشرکین اپنے رخسار زمین پر رکھتے اور تالی بجاتے اور سیٹی بجاتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو گڈ مڈ کر دیں اور زُھری نے کہا کہ وہ مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے ایساکرتے تھے۔

وذَلِكَ أنَّهم كانُوا يَطُوفُونَ بِالبَيْتِ عُراةً، وهم مُشَبِّكُونَ بَيْنَ أصابِعِهِمْ، يُصَفِّرُونَ فِيها، ويُصَفِّقُونَ. وكانُوا يَفْعَلُونَ نَحْوَ ذَلِكَ إذا قَرَأ رَسُولُ اللهِ ﷺ في صِلاتِهِ، يُخَلِّطُونَ عَلَيْهِ(تفسیر النسفی، جلد1، صفحہ644)۔ یعنی وہ بیت اللہ کاننگے طواف کرتے اور وہ انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر اس میں سیٹی بجاتے اور تالیاں بجاتے۔ وہ ایسا اس وقت کرتے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآن پڑھتے ، وہ گڈ مڈ کرنا چاہتے تھے۔

أي ما كانت عبادة المشركين وصلاتهم عند البيت الحرام إِلا تصفيراً وتصفيقاً، وكانوا يفعلونهما إِذا صلى المسلمون ليخلطوا عليهم صلاتهم(صفوۃ التفاسیر، جلد1، صفحہ467)۔ یعنی بیت اللہ الحرام میں مشرکین کی عبادت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ سیٹی بجاتے اور تالیاں بجاتے۔ اور یہ دونوں کام وہ اس وقت کرتے جب کہ مسلمان نماز پڑھتے تاکہ ان کی نماز کو گڑبڑ کر دیں۔

عن سعيد قال كانت قريش يعارضون النبي صلى الله عليه وسلّم في الطواف يستهزؤن به يصفرون ويصفقون  ...وقال مقاتل كان النبي صلى الله عليه وسلّم إذا صلى في المسجد قام رجلان عن يمينه فيصفران ورجلان عن يساره فيصفقان ليخلطوا على النبي صلى الله عليه وسلّم صلوته (التفسیر المظہری، جلد4، صفحہ63)۔ یعنی  حضرت سعیدنے کہاکہ قریش طواف کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے۔ وہ آپ کا مذاق اڑاتے، وہ سیٹی بجاتے اور تالی بجاتے... اور مقاتل نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد حرام میں نماز پڑھتے تو آپ کے دائیں طرف دو آدمی کھڑے ہو جاتے اور دونوں سیٹی بجاتے اور دو آدمی آپ کے بائیں طرف کھڑے ہو جاتے اور تالیاں بجاتے تاکہ رسول اللہ پر آپ کی نماز کو گڈ مڈ کر دیں۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں 13 سال تک رہے۔ وہاں مسلسل آپ کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا رہا، جس کا ذکر اوپر کے اقتباسات میں آیا ہے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ اس کے خلاف کوئی احتجاج یا کوئی جوابی کارروائی کریں۔ آپ اس قسم کی تمام باتوں پر یک طرفہ طور پر صبر کرتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس زمانہ میں اہل ایمان کی ایک تعداد جمع ہو گئی تھی۔ یہ لوگ نہایت بہادر اور جان نثار تھے۔ مگر ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر مشرکوں پر ہجوم کریں یا ان کو شور و غل سے روکنے کے لیے کوئی جوابی عملی کارروائی کریں۔

مشرکوں کے شور و غل پر آپ کا چپ رہنا خوف کے تحت نہیں تھا بلکہ منصوبہ کے تحت تھا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ایک کام کو کرنے کے لیے دوسرے کام کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ آپ خدا کے پیغام کی پیغام رسانی کرنا چاہتے تھے ، اس لیے آپ نے ضروری سمجھا کہ جھگڑے اور ٹکرائو والی باتوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی ان تمام باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف دعوت و تبلیغ کی محنت میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حالات میں تبدیلی فرمائی۔ اس کے بعد مشرکین کے شور کا بھی خاتمہ ہو گیا اور خود مشرکین کا بھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد کے اندر گھس کر شور و غل کیا جاتا تھا۔ تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے اس کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ مسجد کے قریب کی سڑک پر کوئی جلوس شور کرتا ہوا گزرے تو وہ اس سے لڑنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر اسلام وہ ہے جو رسول اللہ نے کیا تو مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ اسلام نہیں اور اگر اسلام وہ ہے جو موجودہ زمانہ کے مسلمان کر رہے ہیں تو رسول اللہ نے جو کچھ کیا وہ اسلام نہیں تھا۔ اب مسلمانوں کو اختیار ہے کہ وہ دونوں میں سے جس بات کو چاہیں اپنے لیے پسند کر لیں۔

 

New Spirit of Cooperation

UNITED NATIONS, December 6, 1988.

NIKTA KHRUSHCHEV, the last Soviet communist party leader to address the general assembly, pounded a shore on his desk and assured Americans that ''we will bury you.'' Mr Mikhail Gorbachov's arrival 28years later starkly underscores the transformation in the U.S. Soviet relations since he took control of the party. In diplomatic circles today, the talk is of cooperation, mutual interests, and multilateral diplomacy. Confrontation between the capitalist and socialist systems has taken a back seat. U.S. tycoons woo Mr Gorbachov and his staff hints at a visit to Wall Street, the antithesis of Soviet ideology. In 1960, Khrushchev was enraged over the then UN secretary-general, Mr Dag Hammarskjold's action in sending U.S. peacekeeping troops to the Congo, then a key Soviet client state. ''The general assembly of 1960 was the greatest circus in the history of the United Nations,'' recalls Mr Brian Urquhart, who then was under secretary-geeral in charge of peacekeeping operations. Sometimes crude, profane and easily angered, Khrushchev created the most memorable scene in the history of U.N. debate when he interrupted a delegate's remarks by pounding a shoe on the Soviet delegation's desk for a point of order. ''Khurushchev got so abusive that the Irish president of the assembly, Mr Frenddie Boland, broke the gavel in calling him to order, and head of the gavel flew off into the general assembly,'' said Mr Urquhart. Mr Gorbachov is likely to provide no melodramatic fireworks. Unlike Khrushchev, Mr Gorbachov has rejected the idea that capitalism and socialism are mutually exclusive. This stress on cooperation in areas of mutual interest has been spilling over for some time into the UN.

The Soviet Union has in recent years relinquished its practice of vetoing many security council actions,  and has negotiated consensus positions with the US, China, Britain and France. This new spirit of cooperation has led to the political settlement in Afghanistan and the cease-fire in the Iran-Iraq war, both of which would have been unlikely under the confrontative Soviet style of Khruschev or Mr Leonid I. Brezhnev. Under Mr Gorbachov, the Soviets have been promoting an aggressive though hazy new plan for comprehensive international security, in which the Un would play a key role in monitoring, verification and peacekeeping. be made binding on U.N. member nations, especially security council members. In his speech to the world body, Mr Gorbachov may expand upon previous Soviet proposals, which have included the establishment of a world space organisation, having all nations earmark troops for a standing army of U.N. peacekeepers, establishing a U.N. navy to escort commercial shipping in danger zones, and UN. monitoring of disarmament and international arms sales. The US and other Western allies have lauded parts of the Soviet security proposals, but feel the whole package is too vague to endorse. A U.N. visit by a Soviet leader is a rarity--- the foreign minister usually delivers the annual address to the general assembly. Between Khrushchev and Mr Gorbachov, the only other top-ranking Soviet visitor was premier Alexei N. Kosygin, who came the UN in 1967 to support Arab complaints against Israel. Mr Kosygin held a summit with the U.S. president, Mr Lyndon B. Johnson.

The thaw in East-West relations since Mr Gorbachov's ascension to power is all the more striking when compared with the tension that prevailed at the UN only five years ago after the Soviet downing of Korean airline flight 007, with the loss of 269 lives. The Soviet foreign minister, Mr Andrei Gromyko, planned to come to the UN to explain his country's actions, but the governors of New York and New jersey denied permission for his plane to land at their commercial airports, and the state department insisted on a landing at a military base.Mr Gromyko cancelled his visit. In the meantime, homeless activists angered by Gorbachov's plans to visit New York city's opulent Trump Tower are inviting the Soviet president to a homeless shelter and food line to get ''a more balanced and realistic view of our nation.''

The Times of India, December 7, 1988.

 

حقیقت پسندی

ٹائم میگزین (13 فروری 1989) کے سرورق پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہےدوبارہ ساتھی (comrades again) جیسا کہ معلوم ہے ، چین اور روس دونوں اگرچہ کمیونسٹ ملک ہیں ، مگر ان کے درمیان کم از کم 30 سال سے باہمی عداوت چلی آ رہی تھی۔ اب دونوں ملک ایک دوسرے سے قریب آ رہے ہیں۔ ٹائم کے مذکورہ شمارہ میں اسی کو کور اسٹوری بنایا گیا ہے۔ اندر مضمون کے اوپر اس کی سرخی یہ ہے کہ ایک شگاف کی مرمت ، عداوت کا دور ختم ہو رہا ہے:

To mend a rift — An era of hostility is coming to an end.

چین اور روس کے درمیان 4500 میل کی مشترک سرحد ہے۔ مگر پچھلے تین دہائیوں سے دونوں کے درمیان تعلقات خراب تھے۔ سابق روسی وزیر اعظم نکیتا خروشچیف نے 1959ء میں امریکہ سے واپس آتے ہوئے چین میں مختصر قیام کیا تھا اور ماوزے تنگ سے ملاقات کی تھی جو ناخوش گواری پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کا کوئی ذمہ دار شخص ایک ملک سے دوسرے ملک میں نہیں گیا۔ شدید دشمنی کے لمبے وقفہ کے بعد فروری 1989ء میں پہلی بار سوویت روس کے وزیر خارجہ (Eduard Shevardnadze) نے چینی راجدھانی بیجنگ کا سفر کیا۔ اس سفر کا مقصد امن اور ترقی (peace and development) بتایا گیا تھا۔ اس سفر میں جو باتیں طے ہوئیں ، ان میں سے ایک یہ تھی کہ روسی وزیر اعظم میخائل گوربا چوف جلد ہی چین کا دورہ کریں گے (ٹائم 13 فروری 1989ء) ۔

دو حریف ملکوں میں اس خلافِ توقع تبدیلی کے بارہ میں ایک چینی افسر نے کہاکہ بیجنگ اور ماسکو کو اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے ، اس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے:

The difficulties that Beijing and Mascow now confront have brought us closer to one another. (p. 7)             

ایک روسی افسر نے یہی بات زیادہ کھل کر ان لفظوں میں کہی کہ ہم اس مشترک سوچ کے بہت قریب آ چکے ہیں کہ کس طرح دونوں ملکوں میں نئے تعلقات قائم کیے جائیں۔ ہم دونوں ہی نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں:

We are very close to understanding how new relations should develop. We have both made mistakes in the past. (p. 6)          

چین اورروس نے جب دیکھا کہ ان کی باہمی دشمنی ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہی ہے تو دونوں نے طے کیا کہ وہ بے فائدہ دشمنی کو ختم کرکے آپس میں دوستانہ تعلقات قائم کر لیں۔ اس نئے فیصلہ تک پہنچنے کے لیے انہیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف اپنے مطالبات کو چھوڑ دینے پر راضی ہوئے۔ انہوں نے ایک ناقابل برداشت چیز کو برداشت کیا۔ تاکہ اپنے لیے زیادہ بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔ اسی کا نام حقیقت پسندی ہے۔ اس حقیقت پسندی کے بغیر موجودہ دنیا میں کامیابی تک پہنچنا ممکن نہیں۔

امریکہ اور روس اور چین موجودہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ور قومیں ہیں۔ جب طاقت ور قوموں کا حال یہ ہے کہ حقیقت پسندی اور مفاہمت کے سوا ان کے لیے زندگی کاکوئی اور طریقہ نہیں ، تو کمزور قومیں کیوں کر ٹکرائو کی پالیسی اختیار کر کے زندہ رہ سکتی ہیں۔ ایسی حالت میں کمزور قوموں کے لیے حقیقت پسندی اور مفاہمت کا طریقہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جتنا طاقت ور قوموں کے لیے۔

ایک تقابل

لارڈمیکالے (T. B. Macaulay) 1834ء میں ہندوستان آیا۔ سپریم کونسل آف انڈیا کے ایک اہم ممبر کی حیثیت سے اس نے وہ تعلیمی نظام شروع کیا جو بالآخر ’’انگریزی نظام تعلیم‘‘ کے نام سے پورے ملک میں رائج ہو گیا۔ اس نظامِ تعلیم کا مقصد ، میکالے کے الفاظ میں یہ تھاکہ ، اس کے ذریعہ سے ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو پیدائش کے اعتبار سے ہندوستانی مگر خیالات کے اعتبار سے انگریز ہو:

So that a generation may arise which will be Indian in birth and English in thought.

مسلمانوں کے تمام بے ریش اور باریش لیڈر (سرسیّد کے واحد استثناء کو چھوڑ کر) اس نظام تعلیم کے خلاف ہو گئے۔ وہ اس کی مخالفت میں تقریر کرنے لگے۔ کسی نے اس کو ’’قتل گاہ‘‘ کہا۔ کسی نے اسکے اوپر یہ شعر چسپاں کیا:

بچوں کے کبھی قتل سے بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

بیشتر لوگوں نے اس تعلیمی نظام میں شرکت نہیں کی۔ جو لوگ اس میں داخل ہو گئے تھے وہ درمیان ہی میں اس کو چھوڑ کر اس سے الگ ہو گئے۔ اس مخالفانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں سے کم ازکم دو سو سال پیچھے ہو گئے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ان کی یہی پسماندگی ہے۔ کیوں کہ تعلیم سے محرومی آدمی کو بے شعور بناتی ہے اور جو لوگ بے شعور ہوں ، اس دنیا میں ان کے لیے بربادی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔

اب ایک اورتصویر دیکھیے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 1945ء میں جاپان کو کے مقابلہ میں شکست ہو گئی۔ اس کے بعد امریکہ سیاسی ، فوجی ، انتظامی ، ہر اعتبار سے جاپان پر قابض ہو گیا۔ اس شکست کے بعد جاپان نے اپنے آپ کو مکمل طور پر امریکہ کی ماتحتی میں پایا۔ امریکہ نے اس کے بعد جبری طور پر جاپان کو غیر مسلح کر دیا۔ جاپان کے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں۔ دسمبر 1945ء میں امریکی جنرل میکارتھر نے تعلیمی انتظام کے متعلق وہ بنیادی ہدایات جاری کیں جن کا خاص مقصد جاپان میں عسکریت کو اور جاپانی عوام کے قوم پرستانہ مزاج کو ختم کرنا تھا۔

جنگ کے زمانہ کے بہت سے ٹیچر ملازمت سے سبکدوش کردیے گئے۔ مذہب اور سیاست کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا۔ شنٹو تعلیمات کو نصاب سے خارج قرار دیا گیا۔ ان تبدیلیوں کا مقصد یہ تھا کہ جاپان کی جدید نسل کو امریکہ کی پسند کے مطابق بنایا جائے۔ 1946ء میں امریکہ کے تعلیمی ماہرین کی ایک ٹیم باقاعدہ منصوبہ کے تحت جاپان پہنچی۔ اس امریکی ٹیم نے ایک رپورٹ تیار کی جس کا نام حسب ذیل تھا:

Report of the United States Education Mission to Japan.

یہ رپورٹ گویا ان ہدایات کی عملی تفصیل تھی جن کو جنرل میکارتھر نے جاپان کی وزارت تعلیم کے نام جاپان کے مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت سے جاری کیا تھا۔ 1947ء میں جاپان کا بنیادی تعلیمی قانون اور اسکولی تعلیم کا قانون اسی کی مطابقت میں وضع کیا گیا۔ 1948ء میں جاپان کاتعلیمی بورڈ بنایا گیا جس کا کام گویا اس بات کی نگرانی کرناتھاکہ جاپان کا تعلیمی نظام امریکہ کی پسندکے مطابق جاری رہے۔ اس طرح جاپان میں اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطحوں پر جو تعلیمی نظام رائج ہواوہ مکمل طور پر اس نظام کی نقل تھی جو امریکہ میں پہلے سے چل رہا تھا۔

جاپانیوں نے ہندوستان کے مسلم رہنمائوں کے برعکس، امریکہ کے اس منصوبہ کو ’’تعلیمی استعمار‘‘ بتا کر اس کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کی تحریک نہیں چلائی۔ انہوں نے ایک دن ضائع کیے بغیر اپنی پوری نسل کو اس ’’امریکی تعلیمی نظام‘‘ میں داخل کر دیا۔

اب اس واقعہ پر تقریباً نصف صدی پوری ہو رہی ہے۔ اس کا جو نتیجہ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس تعلیمی نظام میں پڑھ کر جو لوگ نکلے ، وہ پورے معنوں میں ’’جاپانی‘‘ تھے۔ وہ کسی بھی اعتبار سے ’’امریکی‘‘ نہ بن سکے۔ جیسا کہ امریکہ انہیں بنانا چاہتا تھا۔ حتیٰ کہ انہوں نے امریکہ کی تمام امیدوں کے خلاف ، جاپان میں ایک نیا انقلاب برپا کردیا۔ انہوں نے جاپان کی ایک نئی تاریخ پیدا کر دی۔ انہوںنے ترقی کا ایک ایسا سیلاب جاری کیا جس کے بہائو میں خود امریکہ بھی ٹھہر نہ سکا۔ انہوں نے جاپان کو دنیا کی قوموں کے درمیان اعلیٰ ترین صف میں کھڑا کر دیا۔

یہی موجودہ دنیا میں ترقی کا راز ہے۔ یہاں کامیابی اور ترقی اس کے لیے ہے جو ناموافق صورت حال کو موافق صورت حال میں تبدیل کر سکے۔ جو دشمن کے مخالفانہ منصوبوں کو اپنے لیے مفید خوراک بنا لے جو اپنے ’’نہیں‘‘ کو اپنے ’’ہے‘‘ میں تبدیل کرنے کی اہلیت کا ثبوت دے۔ جو لوگ اس برتر صلاحیت کے حامل ہوں وہی مقابلہ کی اس دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جو لوگ اس امتحان میں ناکام ہو جائیں۔ ان کے لیے اس کے سوا اور کچھ مقدر نہیںکہ تاریخ کے کوڑا خانہ میں پڑے ہوئے دوسروں کے خلاف احتجاج کرتے رہیں ، ایسا احتجاج جس کو سننے کے لیے کوئی دوسرا وہاں موجود بھی نہ ہو۔

اس معاملہ میں جس طرح ہمارے ملک کا سیکولر طبقہ ناکام ثابت ہوا ہے ، اسی طرح اسلام پسند طبقہ بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اکبر الٰہ آبادی اور ابو الاعلیٰ مودودی جیسے لوگوںنے انگریزی دور کی تعلیم گاہوں کو قتل گاہ بتایااور ایک پوری نسل کو اس سے روکنے کی کوشش کی۔

یہ احمقانہ حد تک بے معنی بات تھی۔ اسلام پسند رہنمائوں کے کرنے کااصل کام یہ تھاکہ وہ مسلم نوجوانوںمیں یہ شعور پیداکریں کہ وہ انگریزی تعلیم گاہوں سے تعلیم کو لیں اور اس کی انگریزیت کو چھوڑ دیں۔ مگر اپنے سطحی فکر کی بنا پر انہوں نے منفی انداز اختیار کیا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک پوری نسل تعلیمی اعتبار سے برباد ہو کر رہ گئی۔ اس معاملہ میں جاپان کے اہل کفر ہندوستان کے اہل ایمان سے زیادہ عقل مند ثابت ہوئے۔

 

اعلیٰ کامیابی

1986-87 کے سول سروس کے امتحانات میں ابتدائی جانچ (Preliminary test) میں پورے ملک سے تقریباً94 ہزار امیدوارشریک ہوئے۔ ان میں سے صرف دس ہزار امیدواروں کو تحریری امتحان(Main examination) میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا گیا۔ اس مرحلہ کے بعد سترہ سو امیدواروں کو انٹرویو کے لیے چنا گیا۔ انٹرویو کے بعد جن امیدواروں کو آخری طور پر اعلیٰ ملکی ملازمتوں کا اہل قرار دیا گیا، ان کی تعداد855 تھی۔

ان امتحانات کے آخری نتیجہ کا اعلان8 جون1987ء کے اخبارات میں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ کامیاب ہونے والوں کی فہرست بھی شامل تھی۔ اس وقت لوگوں نے دیکھا کہ اتنی لمبی فہرست اور اتنی طویل جانچ کے بعد سارے ملک سے جو لوگ سول سروسز کے اہل قرار دیے گئے ہیں ان میں سب سے پہلا نام’’عامر سبحانی‘‘ کا ہے۔ اس اعلیٰ ملکی امتحان میں عامر سبحانی نے ٹاپ کا درجہ حاصل کیا تھا۔ یہ تنہا واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ترین کامیابی کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ کوئی تعصب یا کوئی جانبداری ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔

ہندوستان کی کل آبادی میں مسلمان تقریباً12 فیصد ہیں۔ اس نسبت سے 855 کی فہرست میں کم ازکم ایک سو مسلمانوں کا نام ہونا چاہیے تھا۔ مگر عملاً صرف گیارہ مسلمان کامیاب ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکے ہیں۔ عام طور پر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ تعصب ہے۔ مگر سول سروس کے امتحانات کے طریقہ پر غور کیجیے تو یہ بات بالکل بے بنیاد معلوم ہوگی۔

سول سروس کے تحریری امتحانات میں جواب کی کاپیوں پر امیدواروں کے نام لکھے ہوئے نہیں ہوتے۔ بلکہ صرف کوڈ نمبر درج ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ممتحن کے لیے یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں کہ امیدوار کا تعلق کس فرقہ سے ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ انٹرویو کا ہے۔ انٹرویو بورڈ پانچ سے سات ممبران پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر ممبر اپنے مضمون کا ایکسپرٹ ہوتا ہے۔ اگر یہ ممبران متعصب اور تنگ نظر ہوں تو کوئی مسلمان نہ آئی اے ایس میں چنا جائے اور نہ ٹاپ کر سکے۔ تاہم اگر بالفرض ان میں کسی درجہ میں تعصب کا وجود فرض کیا جائے تب بھی ان کا تعصب اس معاملہ میں فیصلہ کن نہیں بن سکتا۔

اس کی وجہ ان امتحانات کا نظام ہے۔ تحریری امتحانات پورے 1800 نمبر کے ہوتے ہیں۔ جب کہ انٹرویو میں صرف250 نمبر ہوتے ہیں۔ اب اگر بالفرض تعصب کی بنیاد پر انٹرویو میں کسی امیدوار کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو محض انٹرویو میں اچھا نمبر حاصل نہ کرنے کی وجہ سے اس کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا بشرطیکہ تحریری امتحان کے پرچوں میں اس نے اچھے نمبر حاصل کیے ہوں۔ کیوں کہ جب کامیاب امیدواروں کی آخری فہرست بنائی جاتی ہے تو تحریری امتحانات اور انٹرویو دونوں میں حاصل کردہ نمبروں کو یکجا کرکے شمار کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ صرف انٹرویو میں حاصل کردہ نمبر کی بنیاد پر فیصلہ کر دیا جائے۔

اس سلسلے میں ایک سبق آموز بات یہ ہے کہ عامر سبحانی صاحب نے تحریری امتحانات میں مجموعی طور پر 64 فیصد نمبر حاصل کیے ہیں، جب کہ انٹرویو میں ان کو 74 فیصد نمبر ملے ہیں۔ یعنی انٹرویو میں 10 فیصد زیادہ۔ مسٹر سبحانی سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سول سروس کے امتحان کے لیے کس طرح تیاری کی تھی۔ اس کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چھ مہینہ تک وہ روزانہ12 سے 14 گھنٹہ تک مطالعہ میں صرف کرتے تھے۔ اس سے پہلے بھی انہیں آدھی رات تک پڑھنے کی عادت تھی۔ وہ نصابی کتابوں کے علاوہ انڈین اینڈ فارن ریویو، یوجنا اور انڈیا ٹو ڈے کا برابر مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے علاوہ وہ دہلی سے نکلنے والے کئی انگریزی اخبارات کو روزانہ پوری طرح پڑھتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسٹر عامر سبحانی کی غیر معمولی کامیابی کا راز غیر معمولی محنت ہے۔ وہ اپنی محنت کی وجہ سے میٹرک سے لے کر ایم اے تک ہمیشہ امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوتے رہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے تجربہ کی روشنی میں آئی اے ایس کے امتحان میں شریک ہونے والے نوجوانوں کو کیا مشورہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاسخت محنت اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی پوری جدوجہد۔

8) جون1987 کے انگریزی اخبارات، نئی دنیا30 جون1987، بلٹز15 اگست1987(

ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے عمل کے دو میدان ہیں۔ ایک مطالبہ اور احتجاج کا میدان اور دوسرا محنت اور جدوجہد کا میدان۔ ہمارے لیڈر پہلے میدان میں سرگرمی کی علامت ہیں۔ اور عامر سبحانی جیسے افراد دوسرے میدان میں سرگرمی کی علامت۔ ہمارے تمام لیڈر پچھلی نصف صدی سے ٹکرائو کے راستے پر چل رہے ہیں۔ وہ فریق ثانی کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس کے خلاف لامتناہی احتجاج کی مہم جاری کیے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہماری قوم میں عامر سبحانی جیسے افراد بھی ہیں جنہوں نے فریق ثانی کی طرف سے نظریں ہٹا کر اپنی محنت پر بھروسہ کیا، وہ اپنے ذاتی امکانات کو برروئے کار لانے میں منہمک ہوگئے۔

اب عملی نتیجہ کے اعتبار سے دیکھیے تو لیڈر صاحبان کا طریقہ مسلم امت کے لیے سراسر بے نتیجہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس راستہ سے ملت کو ایک فیصد بھی کوئی مثبت فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس، جو لوگ عامر سبحانی والے راستہ پر چلے وہ ہمیشہ کامیاب رہے۔ ان کی کوششوں سے ہمیشہ مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔

یہ دو قسم کی مثالیں واضح طورپر بتا رہی ہیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں کیا کرنا چاہیے۔ انہیں لیڈروں کے بتائے ہوئے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دینا چاہیے اور ’’عامر سبحانی‘‘ والے طریقہ کو مکمل طور پر اختیار کر لینا چاہیے۔ یہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر مسلمان کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔

 

اس میں سبق ہے

مولانا اکرام الدین قاسمی(پیدائش1938)ڈمراواں(ضلع بھاگل پور) کے رہنے والے۔ 7 فروری1990ء کی ملاقات میں انہوں نے اپنے کچھ واقعات بتائے جن میں بہت بڑا سبق ہے۔

1966ء کا واقعہ ہے۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے گنگا کو اسٹیمر سے پار کیا۔ وہ براری ریلوے اسٹیشن پر بھاگل پور جانے والی پسنجر ٹرین پر سوار ہوگئے۔ ٹرین میں بھیڑ تھی۔ ایک جگہ سیٹ پر ڈالڈہ کا ڈبہ رکھا ہوا تھا۔ وہ ڈبہ کو کھسکا کر وہاں بیٹھ گئے۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک ہندو نوجوان آیا یہ ڈبہ اسی کا تھا۔ وہ اس کو سیٹ پر رکھ کر باہر چلا گیا تھا جب اس کو اندازہ ہوا کہ ڈبہ اپنی جگہ سے ہٹایا گیا ہے تو اس نے پوچھا کہ اس کو کس نے ہٹایا ہے۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے کہا کہ میں نے ہٹایا ہے یہ سنتے ہی وہ سخت غصہ ہوگیا۔ کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق ایک مسلمان نے اس کو چھو کر اس کو گندہ کر دیا تھا۔ اس نے کہا کہ اس ڈبہ میں گنگا جل تھا۔ اس کو لے کر میں دیو گھر جا رہا تھا۔ اس کو تم نے اپوتر (ناپاک)کر دیا۔ اب وہ لے جانے کے قابل نہیں رہا۔وہ غصہ میں آپے سے باہر تھا۔ اور نہایت گرم اور اشتعال انگیز لہجہ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ تم نے میرے گنگا جل کو اپوتر کر دیا۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے ان باتوں کا کوئی اثرنہیں لیا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور سیٹ نوجوان کے لیے خالی کر دی۔ انہوں نے کہا میں نہیں جانتا تھا کہ اس ڈبہ میں گنگا جل ہے اور وہ میرے چھونے سے اپوتر ہو جائے گا۔ مجھ سے غلطی ہوگئی، مجھے معاف کر دو۔

ہندو نوجوان ان کے خلاف برستا رہا اور وہ خاموشی سے کسی ردعمل کے بغیر اس کو سنتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر ڈبہ کے تمام ہندو اس نوجوان کے خلاف ہوگئے اور مولانا اکرام الدین صاحب کی حمایت کرنے لگے۔ انہوں نے نوجوان سے کہا کہ مولانا جب چپ ہیں اور اپنی غلطی مان رہے ہیں تو تم کیوں ان کے خلاف اتنا زیادہ چیخ رہے ہو۔ انہوں نے مولانا اکرام الدین صاحب سے کہا کہ آپ بالکل مطمئن رہیے۔ یہ آپ کا کچھ نہیں کر سکتا۔

آخر کار ہندو نوجوان چپ ہوگیا۔ مولانا اکرام الدین صاحب اپنی جگہ برابر کھڑے رہے۔ کچھ دیر کے بعد نوجوان نے بے رخی کے ساتھ مولانا اکرام الدین صاحب سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آرہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھڑک بازار سے (اس وقت مولانا اسی مقام پر رہتے تھے) نوجوان نے کہاکہ کھڑک بازار میں ایک مولانا اکرام الدین ہیں، کیا آپ ان کو جانتے ہیں۔ وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میری ماں ان کے پاس گئی تھی اور ان سے تعویذ لائی تھی۔ اس تعویذ سے بہت فائدہ ہوا۔ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔

مولانا اکرام الدین صاحب نے مسکراتے ہوئے کہاکہ ابھی تو وہ سفر میں ہیں۔ کل تک وہ وہاں پہنچ جائیں گے۔ اس وقت ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ ہندو نوجوان نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم کہ وہ سفر میں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس مسافر سے تم بات کر رہے ہو وہی مولانا اکرام الدین ہیں۔

یہ سنتے ہی ہندو نوجوان نے مولانا اکرام الدین کے پائوں پکڑ لیے۔ اس نے کہا کہ مجھے چھما کر دیے۔ مجھ سے بہت بھاری غلطی ہوگئی۔ اس غلطی پر جی چاہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو مار لوں۔ وہ نوجوان اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور اصرار کرکے مولانا اکرام الدین صاحب کو اپنی جگہ بٹھا دیا۔ اس کے بعد وہ آخری اسٹیشن تک برابر کھڑا رہا۔ اگلے اسٹیشن پر جب دونوں اترے تو نوجوان نے اصرار کرکے مولانا کو ناشتہ کرایا۔ مولانا اکرام الدین صاحب نے اس طرح کے اور کئی واقعات سنائے اور کہاکہ ہندوئوں میں ہم نے جو اخلاق پایا وہ اخلاق ہم نے موجودہ مسلمانوں میں نہیں پایا۔

اسی طرح انہوں نے بتایا کہ 1982ء میں میں تراویح سنانے کے لیے بنگلور گیا ہوا تھا۔ ایک روز میں ہگنور سے کورم ہلّی بذریعہ اسکوٹر جا رہا تھا۔ راستہ میں میرے اسکوٹر کا پٹرول ختم ہوگیا۔ کچھ دور تک میں اسکوٹر کو دھکیل کر لے گیا۔ پھر سڑک کے کنارے ناریل کا ایک باغ دکھائی دیا۔ اس کے اندر ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ میں باغ کے اندر گیا۔ وہاں ایک ہندو بیٹھا ہوا تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس نے اپنے آدمی سے کہا کہ ایک کرسی لے آئو۔ مجھ کو کرسی پر بٹھا کر پوچھا کہ حضرت کیا کام ہے۔ میں نے کہا کہ میری گاڑی میں پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ یہاں سے آٹھ کلو میٹر دور جانے پر مجھے پٹرول مل سکے گا۔ میں کار دیکھ کر یہاں آگیا کہ شاید یہاں سے مجھے پٹرول مل جائے۔

مذکورہ ہندو نے فوراً اپنے ڈرائیور سے کہا کہ دیکھو اگر باہر پٹرول ہو تو اس کو حضرت کی گاڑی میں ڈال دو اور اگر باہر نہ ہو تو اپنی گاڑی میں سے نکال کر ان کو پٹرول دے دو۔ پٹرول لینے کے بعد میں نے اپنی جیب سے بیس روپیہ کا نوٹ نکالا تاکہ پٹرول کی قیمت ادا کروں۔ اب ہندو فوراً ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا کہ ہم کو معاف کیجیے۔ پیسہ کی ضرورت نہیں۔ ہم کو بس آپ کی دعا چاہیے۔

انسان کو غصہ نہ کیجیے اور اگر کسی وجہ سے وہ غصہ ہو جائے تو جوابی غصہ نہ کرکے اس کو ٹھنڈا کر دیجیے۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ جس کو آپ اپنا دشمن سمجھ رہے تھے، وہ وہ آپ کے لیے ایسا ہوگیا ہے جیسے کہ وہ آپ کا قریبی دوست ہو۔

ہر آدمی خدا کا بنایا ہوا ہے۔ اس دنیا میں کوئی آدمی نہیں جس کو خدا کے علاوہ کسی اور نے پیدا کیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر وہی فطرت ہے جو کسی دوسرے کے اندر ہے۔ ہر آدمی کے اندر اچھے اور برے کی وہی تمیز موجود ہے جو کسی دوسرے کے اندر پائی جاتی ہے۔

تاہم اسی کے ساتھ ہر آدمی کے اندر انا(ego) بھی موجود ہے۔ یہی ’’انا‘‘ ساری خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے ہر آدمی کی انانیت کو اس کے سینہ کے اندر سلا رکھا ہے۔ ہر آدمی کی انا ابتدائی طور پر حالت خواب میں ہے۔ آپ کی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی کی اس انا کو سویا رہنے دیں، اس کو کبھی بیدار نہ کریں۔

جب آدمی کی انا سو رہی ہو تو وہ اپنی حالت فطری پر ہوتا ہے۔ اس وقت وہ وہی کرتا ہے جو سچی انسانیت کا تقاضا ہے۔ کوئی آدمی صرف اس وقت برا بنتا ہے جب کہ اس کی انانیت کو جگا دیا جائے۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی انا کو جگانے سے آخری حد تک پرہیز کرے، اور بالفرض اگر کسی کی انا جاگ اٹھے تو پہلی فرصت میں اپنے حکیمانہ رویہ سے اس آگ کو بجھا دے۔

جو لوگ عقل مندی کی اس روش کو اختیار کرلیں، ان کو کبھی دوسروں کی طرف سے شکایت نہ ہوگی، خواہ وہ ایک ملک میں رہتے ہوں یا کسی دوسرے ملک میں۔

رازِ حیات

 جاپان کے لوگ اپنے آپ کو سورج کی اولاد سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی نسل دوسری نسلوں سے برتر ہے۔ انہیں حق ہے کہ وہ دوسری قوموں پر بالا تری حاصل کریں۔ اس ذہن نے ان کے یہاں اس نعرے کی صورت اختیار کی کہ مشرقی ایشیا جاپان کے لیے

East Asia for japan

جاپانی قوم کا یہ ذہن اس کی قدیم تاریخ میں اس کو متشدد بنائے ہوئے تھا۔ خاص طور پر 1937ء س لے کر1945ء تک وہ اپنے اس خود ساختہ حق کے لیے دوسری قوموں سے لڑتے رہے۔ ابتدائی طور پر اس جنگ میںجاپان کو کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ مثلاً1942ء میں انہوں نے منیلا پر قبضہ کرلیا اسی طرح سنگاپور، ندر لینڈ اور رنگون ان کے قبضہ میں آگیا۔ مگر آخر کار انہیں زبردست شکست ہوئی۔ مزید پانے کی کوشش میں انہوں نے ملے ہوئے کو بھی کھو دیا۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور جاپان ایک دوسرے کے حریف تھے۔ جاپان کے پاس سادہ بم تھے۔ امریکہ نے اس کے مقابلہ میں جوہری بم تیار کر لیا۔ اب دونوں کے درمیان طاقت کا توازن ٹوٹ گیا۔ جولائی1945ء میں امریکہ نے جاپان کے اوپر دو ایٹم بم گرائے۔ جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہوگئی۔ امریکہ کو جیت ہوئی اور جاپان کے لیے اس کے سوا کوئی صورت باقی نہ رہی کہ وہ اپنے لیے اس حیثیت کو قبول کر لے جس کو ایک مبصر نے ذلت آمیز ہتھیار ڈالنے(humiliating surrender) سے تعبیر کیا ہے(ٹائم13 اپریل1987، صفحہ15)۔

اب جاپان نے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا۔14 اگست 1945ء کو شان جاپان ہیرو ہیٹونے قوم کے نام ایک ریڈیائی پیغام نشر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ہم نے طے کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے عظیم امن کی بنیاد رکھیں اور اس مقصد کے لیے ناقابل برداشت کو برداشت کریں اور اس چیز کو سہیں جو سہنے کے قابل نہیں۔

We have resolved to pave the way for a grand peace for all the generations to come by enduring the unendurable and suffering what is unsufferable.

اس فیصلہ کے مطابق جاپان نے 2 ستمبر1945ء کو اپنی شکست کے کاغذات پر دستخط کر دیئے۔ اس نے جاپان کے اوپر امریکہ کی بالادستی تسلیم کر لی۔

جاپان کے لیے یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ جاپانی قوم اب تک ذاتی برتری کے احساس پر کھڑی ہوئی تھی۔ اب اس کو حقیقت پسندی کے احساس پر کھڑا ہونا تھا۔ اب تک وہ بیرونی مخالف جذبات(Anti-foreign sentiments) میں جی رہی تھی اب اس کو خود احتسابی کے جذبات میں اپنے لیے زندگی کا راز دریافت کرنا تھا۔ اس وقت جاپان کی صورت حال یہ تھی کہ اس کی صنعتیں برباد ہو چکی تھیں۔’’جنگی مجرم‘‘ جنرل میکارتھر کو معاہدہ کے خلاف جاپان کے اوپر مسلط کر دیا گیا تھا۔ کوریا، برما، سنگاپور، تائیوان اور دوسرے بیرونی مقبوضات کے علاوہ خود اپنے ملک کے کئی علاقے اس نے کھو دیے تھے۔ مثلاً جزیرہ کرافوٹو، اوکی ناوا وغیرہ۔1946ء میں’’میکارتھر کانسٹی ٹیوشن‘‘ جاپان میں نافذ کیا گیا جو’’بیرونی طاقت کی طرف سے ایک مفتوح قوم کو مکمل طور پر اپنے قبضہ میں‘‘ رکھنے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔

یہ سب چیزیں بلاشبہ ناقابل برداشت کو برداشت کرنے کے ہم معنی تھیں۔ چنانچہ جاپان کے بہت سے لوگ اس کو برداشت نہ کر سکے اور اس غم میں انہوں نے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا(1984) کے مقالہ نگار نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ فوجی انتہا پسندوں نے اس بات کی کوشش کی کہ قوم کے نام شاہ جاپان کے ریڈیائی پیغام کو نشر نہ ہونے دیں، اور جب وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو متعدد قوم پرستوں اور فوجی افسروں نے بے عزتی کے احساس کے تحت خودکشی کرلی:

There were a number of suicides among the military officers and nationalists who felt themselves dishonoured. (10/86)

جاپان نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیارکرتے ہوئے اپنے لیے نمبر2 کی حیثیت کو قبول کر لیا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے دوسری حیثیت پر راضی ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ طاقتور فریق سے ٹکرائو نہ کرتے ہوئے اپنے لیے تعمیرنو کا وقفہ حاصل کرنا ہے۔ اس پالیسی کے تحت جاپان نے یہ کیا کہ اس نے سیاسی اور معاشی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی کو تسلیم کر لیا اور اپنی تمام توجہات سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں موڑ دیں۔ یہ عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ تیس سال میں تاریخ بدل گئی۔ فوجی اعتبار سے زیردست جاپان نے اقتصادی اعتبار سے بالادست جاپان کی حیثیت حاصل کر لی۔ جاپان نے الیکٹرانکس اور دوسرے شعبوں میں اتنی اعلیٰ درجہ کی مصنوعات تیار کیں کہ خود امریکہ کے لوگ اپنے ملک کی چیزیں چھوڑ کر جاپان کی چیزیں خریدنے لگے۔ کیوں کہ وہ کوالٹی میں امریکہ سے بہتر تھیں اور قیمت میں امریکہ سے کم۔ اس صورت حال نے امریکی مدبرین کو سخت پریشان کر دیا ہے۔ امریکہ کے ایک سیاسی مدبر مسٹر پیٹی ولسن(Pete Wilson) نے کہاکہ جاپان کے الیکٹرانک سامان ٹوکیو کے سوا ہر ایک کو برباد کر رہے ہیں:

The Japanese semiconductor Godzilla is now destroying everything but Tokyo.

دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان امریکہ کا مقروض ہوگیا تھا۔ اب خود امریکہ جاپان کا مقروض بننے لگا۔1986ء میں امریکہ کا جو سامان جاپان میں آیا ان کی قیمت26 بلین ڈالر تھی۔ اس کے مقابلے میں جاپان کا سامان جو امریکہ گیا ان کی قیمت85 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح امریکہ اور جاپان کے درمیان تجارتی توازن ٹوٹ گیا۔1986ء میں امریکہ کے مقابلہ میں جاپان کا ٹریڈ سرپلس85 بلین ڈالر سے زیادہ تک پہنچ گیا۔ امریکہ آج دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور جاپان دنیا کا سب سے بڑا مہاجن ملک( ٹائم 13 اپریل،27 اپریل1987)۔

اس صورت حال پر آج کل کثرت سے کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے جاپان نمبر ایک(JAPAN-Number One) ۔یہ کتاب اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بنی ہوئی ہے۔1945ء میں جاپان نے امریکہ کے مقابلہ میں نمبر2 کی حیثیت منظور کر لی تھی۔40 سال بعد خود امریکہ کو اعتراف کرنا پڑا کہ جاپان دوبارہ نمبر ایک کا مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

جاپانیوں نے اپنے ہاتھ سے ’’جاپان نمبر2‘‘ کی کتاب لکھی۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ دوسرے لوگ ان کے بارہ میں ایسی کتاب لکھیں جس کا نام’’جاپان نمبر ایک‘‘ ہو۔ یہی موجودہ دنیا کا قانون ہے۔ یہاں جو لوگ ہار مان لیں وہی جیتتے ہیں۔ یہاں جو لوگ پیچھے ہٹنے پر راضی ہو جائیں۔ وہی دوبارہ اگلی صف میں جگہ پاتے ہیں۔ اس راز کو چودہ سو سال پہلے مسلمانوں نے’’صلح حدیبیہ‘‘ کی صورت میں دریافت کیا تھا، موجودہ زمانہ میں جاپانیوں نے اسی کو اپنے حالات کے لحاظ سے اپنی زندگی میں دہرایا ہے۔

اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مقابلہ اور مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک دوڑ رہا ہے، یہاں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔ یہی مقابلہ انسانی ترقیوں کا زینہ ہے۔ تاریخ کی تمام ترقیاں اسی مقابلہ آرائی کے بطن سے ظاہر ہوئی ہیں۔ امریکہ کی قیادتی کوشش کے ذریعہ انسان جوہری طاقت تک پہنچا۔ جاپان کے دوبارہ اٹھنے کی کوشش نے الیکٹرانک دور پیدا کر دیا، وغیرہ۔

اس دوڑ یا مقابلہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بار بار ایک قوم دوسری قوم سے پچھڑ جاتی ہے۔ بار بار کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور کوئی پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں پیچھے رہ جانے والا اگر شکایت اور احتجاج میں لگ جائے تو وہ صرف اپنا وقت ضائع کرے گا۔ اس کے لیے واحد راستہ صرف یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرے کہ دوسرے اس سے آگے بڑھ گئے اور وہ دوسروں سے پیچھے رہ گیا۔

یہ اعتراف اس کی کوششوں کو صحیح رُخ پر لگا دے گا۔ وہ اس کو موقع دے گا کہ آگے بڑھنے والے سے بے فائدہ ٹکرائو کیے بغیر وہ اپنی تعمیر ثانی کا کام شروع کر دے۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ آئے جب کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے۔

اپنے پیچھے ہونے کا احساس آدمی کو دوبارہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والا شخص اگر اپنے پیچھے ہونے کا اقرار نہ کرے تو وہ ہمیشہ پیچھے ہی پڑا رہے گا، دوبارہ آگے بڑھنا اس کے لیے مقدر نہیں۔

تعمیر کی طاقت

مئی1990ء کا واقعہ ہے۔ کراچی کی ایک سڑک پر دونوں طرف سے گولیاں چل رہی ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ زخمی ہو رہے ہیں۔ لاشیں زمین پر پڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کلاشنکوف (Kalashnikov) کے ذریعہ مہاجروں اور سندھیوں میں فائرنگ کے تبادلے ہو رہے ہیں۔ پولس کے افراد بھی خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

اتنے میں سائرن کی آواز آتی ہے۔ جلد ہی ایک ایمبولنس گاڑی سڑک پر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ جیسے ہی ایمبولنس سامنے آتی ہے، دونوں طرف کے لوگ اپنی اپنی فائرنگ روک دیتے ہیں۔ ایمبولنس کھڑی ہوتی ہے، اس کے آدمی مردہ لاشوں کو اور زخمیوں کو اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھتے ہیں۔ اس پوری کارروائی کے دوران لڑائی بند رہتی ہے۔ جب ایمبولنس چلی جاتی ہے تو دوبارہ وہی لوگ اس طرح لڑنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کہ وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوں۔

یہ کراچی کے عبدالستار ایدھی(پیدائش1928) ہیں۔ انہوں نے اپنی 30 سال کی بے غرضانہ خدمت سے لوگوں کے اندر اتنا احترام پیدا کیا ہے کہ جہاں وہ پہنچ جائیں، وہاں لوگوں کے سر ان کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، خواہ وہ فسادی اور دہشت گرد کیوں نہ ہوں۔

عبدالستار ایدھی کی تعلیم صرف چھٹے درجہ تک ہو سکی تھی۔1947ء میں وہ جونا گڑھ سے نقل وطن کرکے پاکستان چلے گئے۔ وہاں وہ حصول معاش کے لیے معمولی کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ پاکستان میں ایمبولنس سروس بہت کمزور ہے۔ ان کے اندر خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوا۔ انہوں نے قرض اور چندہ کی مدد سے ایک پرانا ٹرک خریدا اور اس کے اوپر پردہ لگا کر اس کو ایمبولنس گاڑی کے طور پر استعمال کرنے لگے۔

زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا، لاوارث لاش کو قبرستان پہنچانا، اس قسم کے رفاہی کاموں میں سرگرم ہوگئے۔ ان کے خلوص اور محنت کو دیکھ کر لوگوں نے تعاون کرنا شروع کیا۔ انہوں نے مزید ایمبولنس گاڑیاں خریدیں۔ یہاں تک کہ اب ان کے پاس350 گاڑیوں کا دستہ ہے جو سب کی سب سائرن، وائرلیس، گیس سلنڈر وغیرہ سے لیس ہیں۔ ان کے علاوہ انہوں نے دو ہیلی کاپٹر خریدے ہیں تاکہ دور تک کے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر سکیں۔

اسی کے ساتھ انہوں نے ہسپتال، زچہ گھر، یتیم خانے اور مختلف قسم کے رفاہی مراکز قائم کر رکھے ہیں، اب انہوں نے گیارہ ایکڑ کی ایک زمین حاصل کی ہے۔ یہاں وہ اپنے تمام شعبے قائم کریں گے۔ اسی کے ساتھ اس کے اندرہیلی کاپٹر کو ٹھہرانے اور اتارنے کا میدان بھی بنایا جائے گا۔

30 سال پہلے عبدالستار ایدھی کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ان کی ماں بیمار ہوئی تو نہ ان کے پاس دوا لانے کے پیسے تھے اور نہ ماں کو ہسپتال لے جانے کا سادھن۔ ان کی ماں نہایت تکلیف کی حالت میں مر گئی۔ مگر ماں کی موت نے ان کو ایک نئی زندگی دے دی۔ اس سے ان کو سخت جھٹکا لگا۔ انہوں نے سوچا کہ اسی طرح کتنے غریب ہوں گے جو تکلیف میں تڑپتے ہوں گے، مگر کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔

انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے خدمت خلق کا ایک ادارہ قائم کریں گے۔30 سال پہلے یہ ادارہ انہوں نے نہایت معمولی حالت سے شروع کیا تھا۔ آج وہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا سالانہ بجٹ بارہ کروڑ روپیہ ہے۔ جس شخص کا حال یہ تھا کہ مرض الموت میں مبتلا اپنی ماں کی دوا خریدنے کے لیے اس کے پاس پیسے نہ تھے، وہ آج اپنے مرکز میں7500 آدمیوں کے لیے کھانا اور کپڑا فراہم کر رہا ہے۔

عبدالستار ایدھی کو عالمی انعام(Magsaysay Award) دیا گیا ہے۔ امریکہ کے کثیر الاشاعت ماہنامہ ریڈرس ڈائجسٹ(جون1989ء) نے ان کے بارہ میں ایک تعریفی مضمون شائع کیا تھا جس کا خلاصہ الرسالہ(فروری1990ء) میں آ چکا ہے۔ نئی دہلی کے انڈیا ٹو ڈے (30 جون1990ء) نے سات صفحہ کی ایک باتصویر رپورٹ شائع کی ہے۔ ان کا عنوان یہ ہے___ پاکستان کا فادر ٹریسا:

Pakistan`s Father Teresa

تعمیر کام اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ اگر آپ واقعی معنوں میں کسی تعمیری کام کا نمونہ پیش کر دیں تو تمام لوگ آپ کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، حتی کہ آپ کے کٹر مخالفین بھی۔

عبدالستار ایدھی کے لیے ایک نمونہ وہ تھا جو سطحی لیڈروں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ پیش کیا ہے۔ یعنی’’نظام‘‘ کے خلا ف نعرہ اور جھنڈا کی سیاست لے کر کھڑا ہو جانا۔ وہ تیسرے درجہ کا ایک اخبار نکالتے اور موٹی موٹی سرخیوں کے ساتھ عوام کی مصیبت کی داستانیں چھاپنا شروع کر دیتے۔ وہ حکومتی اداروں سے مطالبات کی مہم چلاتے۔ وہ غصہ میں بھرے ہوئے نوجوانوں کی ایک بھیڑ جمع کرتے جو احتجاج کے نام پر بسیں جلاتا اور ہسپتالوں میں آگ لگاتا۔

اسی طرح عبدالستار ایدھی کے لیے ایک نمونہ وہ تھا، جو نام نہاد اسلام پسندوں نے پیش کیا ہے۔ وہ ’’اسلامی نظام قائم کرو‘‘ کے نعرہ کے ساتھ سڑکوں پر نکل پڑتے۔ وہ عوام اور حکومت کے درمیان وہی نفرت اور کشاکش کا ماحول بناتے جو موجودہ اسلام پسندوں نے مجرمانہ طور پر ہر جگہ بنا رکھا ہے۔

عبدالستار ایدھی اگر اس قسم کے طریقے اختیار کرتے تو وہ اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے کے نام پر صرف اس کے مسائل میں اضافہ کرتے۔ اس کے برعکس، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود اس مسئلہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ ان کا کام خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو، مگر وہ خود اپنے آپ سے عمل کا آغاز کریں گے۔

عبدالستار ایدھی کے اس فیصلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ 40 برس بعد انہوں نے پاکستان میں ایک ایسی تعمیری تاریخ بنائی جس کا ہندوستان سے لے کر امریکہ تک اعتراف کیا جا رہا ہے۔ جب کہ اسی مدت میں اسی ملک کے دوسرے رہنما بربادی اور تخریب کے سواکوئی اور تاریخ نہ بنا سکے۔