مقصد حیات (Maqsad-e-Hayat)

By
Maulana Wahiduddin Khan

مقصدِ حیات

 

مولانا وحید الدین خاں

 

فہرست

تقدیر انسانی

زندگی کا مقصد

جنت اور انسان

تقدیر انسانی

(Human Destiny)

ایک انسان جس نے سیارۂ زمین کو نہ دیکھا ہو، وہ کسی تیز رفتار خلائی جہاز کے ذریعے پوری کائنات کا سفر کرے اور اس کے بعد وہ پہلی بار زمین پر اُترے تو وہ زمین کو دیکھ کر اچانک مبہوت ہوجائے گا۔ کیوں کہ انتہائی وسیع کائنات میں سیارۂ زمین اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک واحد استثنا ہے۔ وسیع کائنات میں یا تو ستارے ہیں، جہاں بھڑکتی ہوئی آگ کے سوا اور کچھ نہیں، یا سیارے (planets)  ہیں، جو خشک چٹان کی مانند خلا میں گھوم رہے  ہیں۔ یہ صرف سیارۂ زمین ہے، جہاں استثنائی طورپر انسان جیسی مخلوق کے لیے تمام زندگی بخش چیزیں موجود ہیں۔ یعنی وہ تمام موافقِ حیات اسباب جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system)کہا جاتا ہے۔

ہر انسان اِسی سیارۂ زمین پر پیدا ہوتا ہے اور اپنی پوری زندگی وہ اِسی کے اوپر گزارتا ہے، لیکن اُس کو زمین کی اِس استثنائی نوعیت کا تحیُّرخیز احساس نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ بچپن سے  روزانہ زمین کو دیکھتے دیکھتے، اس کا عادی (used to) ہوجاتا ہے۔ زمین کا استثنائی انوکھا پن اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہر صبح کو جب وہ زمین کو دیکھے تو وہ پکار اٹھے— اوہ، کتنی حسین اور کتنی مکمل زمین:

Oh, what a beautiful earth, what a perfect world!

سیارۂ زمین کی یہ حیات بخش حیثیت ہمیشہ سے تھی، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس کی دریافتوں نے اُس کی انوکھی نوعیت کو ہزاروں گنا زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے ایک معلوم واقعہ بنا دیا ہے۔ زمین میں لائف سپورٹ سسٹم کے انوکھے نظام کو آج کا انسان جتنا زیادہ جانتا ہے، اتنا زیادہ اِس سے پہلے کبھی اس کو کسی انسان نے نہیں جانا تھا۔

لائف سپورٹ سسٹم کیا ہے۔ وہ ایک انعام (gift) ہے۔ وہ کسی دینے والے (giver) کے ذریعے انسان کو ملا ہے۔ایسی حالت میں ضروری تھا کہ انسان اِس انعام میں اس کے مُنعِم کو پہچانے، وہ اِس انعام پر اس کے دینے والے کا اعتراف کرے، وہ اُس کے سامنے پورے دل و دماغ کے ساتھ جھُک جائے۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ دینے والے نے یہ انوکھا تحفہ اس کو کیوں دیا ہے، اور پھر دینے والے کی منشا کے مطابق، وہ اس کو استعمال کرے، وہ اس کی منشا کو جان کر اُس کے مطابق یہاں زندگی گزارے۔

مگر ایسا نہ ہوسکا۔ انسان اِس زمین پر زندگی گزارتا ہے۔ وہ یہاںاپنے لیے ایک تہذیب کی تشکیل کرتا ہے۔وہ یہاں اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے شان دار مستقبل بنانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کو کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ اِس بات کو جاننے کی کوشش کرے کہ لائف سپورٹ سسٹم کا یہ انوکھا نظام کس نے بنایا ہے، اور یہ بنانے والا اِس کے بدلے میں انسان سے کیا چاہتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں— اُس کا درست استعمال، اور اس کا نادرست استعمال۔ مثلاً پیدا کرنے والے نے زمین میں لوہا پیدا کیا۔ لوہے کا ایک استعمال یہ ہے کہ اس کے ذیعے مفید مشین بنائی جائے۔اور لوہے کا دوسرا استعمال یہ ہے کہ اس کے ذریعے تباہ کُن ہتھیار بنایا جائے۔ مشین بنانا، لوہے کا درست استعمال ہے، اور ہتھیار بنانا، لوہے کا نادرست استعمال ۔

یہی معاملہ لائف سپورٹ سسٹم کا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اُس کو صحیح زاویہ(right angle) سے دیکھا جائے، اور دوسرے یہ کہ اُس کو غلط زاویہ (wrong angle) سے دیکھا جائے۔ صحیح زاویے سے دیکھنے والا آدمی لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں اپنے صحیح اور مطلوب رویّے کو جان لے گا، اور جو شخص لائف سپورٹ سسٹم کو غلط زاویے سے دیکھے، اس کے بارے میں اس کا رویّہ بھی ہر اعتبار سے غلط رویّہ ہوجائے گا۔

لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں صحیح زاویے اور غلط زاویے کا تعیّن کیسے ہو۔ اِس کے تعین کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ خالق (Creator) کا اپنا مقرر کیا ہوا تخلیقی پلان (creation plan) کیا ہے۔ اِس تخلیقی پلان ہی کے ذریعے یہ معلوم ہوگا کہ زندگی، یا لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں ہمارا کون سا رویّہ درست تھا اور کون سا رویّہ نا درست۔

پیغمبروں کے ذریعے خالق نے زندگی کے بارے میں اپنا جو تخلیقی پلان بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ پیدا کرنے والے نے انسان کو ایک ابدی مخلوق کے طورپر پیدا کیا۔ پھر اُس کی عمر کے ایک مختصر حصے کو قبل از موت مرحلۂ حیات (pre-death period) میں رکھا اور اس کی عمر کے بقیہ طویل حصے کو بعد از موت مرحلہ ٔ حیات (post-death period)  میں رکھ دیا۔ قبل از موت مرحلۂ حیات، ٹسٹ (test)  کا مرحلہ ہے اور بعد از موت مرحلۂ  حیات، ٹسٹ کے مطابق بدلہ پانے کا مرحلہ۔ جب انسانی تاریخ کا خاتمہ ہو گا، اُس وقت وسیع پیمانے پر ایک روزِ جزا (day of judgement) واقع ہوگا۔ اُس وقت انسانوں کا خالق ظاہر ہوکر تمام لوگوں کو اُن کی زندگی کے موجودہ ریکارڈ کے مطابق، ان کو انعام یا سزا دے گا۔ انعام پانے والوں کے لیے ابدی جنت ہے اور سزا پانے والوں کے لیے ابدی جہنم ۔

خدا کے اِس تخلیقی پلان کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ زندگی، یا لائف سپورٹ سسٹم کے معاملے میں انسان کا رویّہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے۔ لائف سپورٹ سسٹم کے معاملے کو صحیح زاویے سے دیکھنا یہ ہے کہ اس کو خالق کی نظر سے دیکھا جائے، اور اس کو غلط زاویے سے دیکھنا یہ ہے کہ اس کو انسان کے اپنے ذاتی زاویے سے دیکھا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو اِس دنیا میں انسان کے رویّے کو یا تو درست بناتی ہے، یا وہ اس کو غلط بنا کر رکھ دیتی ہے۔

اِس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو زندگی اور لائف سپورٹ سسٹم کے بارے میں دو مختلف رویّے بنتے ہیں۔ خالق کے پلان کے مطابق جو رویہ بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ اِس نظام کو ٹسٹ سپورٹ سسٹم  (test support system) سمجھا جائے۔ اِس کے برعکس، انسان کے ذہن سے دیکھنے کی صورت میں وہ صرف ایک انجوائے سپورٹ سسٹم (enjoy support-system) بن کر رہ جاتا ہے۔ پہلی صورت میں زندگی ایک ذمّے داری (responsibility) کا معاملہ قرار پاتی ہے، اور دوسری صورت میں زندگی کا مقصد گھٹ کر صرف اِس حیوانی سطح پر آجاتا ہے کہ کھاؤ، پیو اور خوش رہو، اور اِسی حال میں مر جاؤ۔

موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے انسانی زندگی اور لائف سپورٹ سسٹم کی معنویت ہمیشہ سے زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت ہوئی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مقصدِ حیات کے بارے میں انسان اور زیادہ سنجیدہ ہوجائے، وہ انعام کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ سے زیادہ مُنعم کا اعتراف کرنے والا بن جائے، لیکن نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔انسان اِس حقیقت کو بھول گیا کہ لائف سپورٹ سسٹم دراصل ٹسٹ سپورٹ سسٹم ہے۔ اِس کے بجائے یہ ہوا کہ انسان نے لائف سپورٹ سسٹم کو صرف اِنجوائے سپورٹ سسٹم کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔ اور زندگی کا مقصد صرف یہ بن گیا کہ چیزوں کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حاصل کرو، تاکہ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ  پُرمسرت بنا سکو۔

یہاں مجھے اپنا ایک سبق آموز تجربہ یاد آتا ہے۔ یہ تجربہ موجودہ صورتِ حال کے لیے ایک نہایت عمدہ توضیحی مثال (illustration)کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً 1972 میں، میں راجستھان کے ایک علاقے میں گیا۔ اِس سفر میں میرے ساتھ مفتی محمد جمال الدین قاسمی اور دوسرے کچھ لوگ تھے۔ یہاں ایک غیر آباد پہاڑ تھا۔ وہاں اوپر جانے کے لیے سڑک بنی ہوئی تھی۔ ہم لوگ اِس پہاڑ کے اوپر چڑھے۔ یہ سفر جیپ کے ذریعے طے ہوا تھا۔ جب ہم لوگ پہاڑ کے اوپر پہنچے تو وہاں ناقابلِ قیاس طورپر ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ یہاں غیر آباد علاقے میں ایک ہال نُما بڑی بلڈنگ بنی ہوئی تھی۔ غالباً کسی راجہ نے یہ بلڈنگ بنائی تھی۔ یہ بلڈنگ ابھی تک بالکل درست حالت میں تھی، مگر وہاں ہم کو کوئی انسان نظر نہیں آیا۔اس کے برعکس، ہم نے دیکھا کہ اُس بلڈنگ کے اندر اور اس کے باہر ہر طرف ہزاروں کی تعداد میں بندر موجودہیں۔ وہ شور کررہے تھے اور ہر طرف بے معنیٰ اچھل کود کررہے تھے۔ بندر کی یہ انوکھی صفت ہے کہ وہ ایک غیر مستحق مقام پر قبضہ کرکے، وہاں بے معنیٰ قسم کی اچھل کود کرنے لگے۔اِس صورتِ حال کی بنا پر ہم لوگ بلڈنگ کے اندر نہ جاسکے، اُس کو صرف باہر سے دیکھ کر لوٹ آئے۔

میں وہاں کھڑا ہوا دیر تک اِس منظر کو دیکھتا رہا۔ میںنے سوچا کہ اِن قابض بندروں کو اِس کا کوئی دھیان نہیں کہ یہ بلڈنگ کس نے بنائی ہے اور کس کام کے لیے بنائی ہے، اور یہ کہ یہ بندر جو وہاں بے معنیٰ اچھل کود کررہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں، اِس کا کوئی تعلق بنانے والے کی منشا سے ہے یا نہیں۔ اِن سوالات سے مکمل طورپر بے خبر رہ کر وہ وہاں ایسے کام کررہے ہیں جو اِس بلڈنگ کا صرف ایک مجرمانہ استعمال ہے، وہ اِس بلڈنگ کا درست استعمال نہیں۔

پھر میں نے سوچا کہ کہ کیا بلڈنگ کا یہ مجرمانہ استعمال اِسی طرح ہمیشہ جاری رہے گا، یا بلڈنگ کا معمار ظاہر ہو کر اِن ’’بندروں‘‘ کو اُن کی اِس مجرمانہ روش کی سزا دے گا، اور پھر وہ اِس خوب صورت بلڈنگ کو ایسے لوگوں کے حوالے کردے گا جن کے لیے وہ بنائی گئی تھی۔اِس مثال پر غور کیجیے۔ بنانے والے نے یہ بلڈنگ کسی خاص مقصد کے تحت بنائی تھی۔ اِس بلڈنگ کا صحیح مَصرف یہ تھا کہ اُس کو اس کے مقصدِ تعمیر کے مطابق استعمال کیا جائے، لیکن اِس کے بجائے یہ ہواکہ اُس پر وحشی بندروں نے قبضہ کرلیا اور اِس عمارت کو وہ اپنی بے معنیٰ اچھل کود کے لیے استعمال کرنے لگے۔

یہ مثال زیادہ بڑے پیمانے پر آج کی پوری انسانی دنیا پر صادق آرہی ہے۔ موجودہ سیارۂ زمین گویا کہ زیادہ وسیع پیمانے پر مذکورہ بلڈنگ کے مانند ہوگئی ہے۔ تمام دنیا میں یہ حال ہے کہ عورتیں اور مرد انتہائی غیر ذمّے دارانہ انداز میں زمین کے اوپر پھیل گئے ہیں۔ وہ زمین کو صرف اِس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ یہاں اپنی خواہشیں کس طرح پوری کریں۔ وہ اِس حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے کہ یہ زمین کس نے بنائی ہے اور کس مقصد کے لیے بنائی ہے۔

ایسا کیوں ہوا۔ موجودہ زمانے میں جب سائنس نے لائف سپورٹ سسٹم کو زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت کیا تو عین اُسی وقت ایک اور واقعہ پیش آیا، وہ یہ کہ مختلف اسباب سے دنیا میں عالمی سطح پر ایک نیا کلچر وجود میں آگیا، جس کو انجوائے منٹ کلچر (enjoyment culture) کہاجاتاہے۔ اِس انجوائے منٹ کلچر کے ماحول میں لوگوں نے بطورِخود یہ سمجھ لیا کہ یہاںجو کچھ ہے، وہ سب اِس لیے ہے تاکہ انسان اُس سے انجوائے کرسکے۔ اِس طرح یہ ہوا کہ موجودہ ماحول کے اثر سے، نہ کہ کسی عقلی سبب سے، لائف سپورٹ سسٹم نے عملی طور پر انجوائے سپورٹ سسٹم کی حیثیت اختیار کرلی۔اور پھر ایسا ہوا کہ انسانی سماج، حیوانی سماج بن کر رہ گیا۔

انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ حیوان صرف اپنے ذاتی انٹرسٹ کو جانتا ہے۔ اور انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی انٹرسٹ کے ساتھ اپنی ذمّے داری کو بھی جانتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ مگر آج کی دنیا میں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرق مٹ گیا ہے۔آج کا انسانی کلچر بھی وہی ہے جو حیوانی کلچر ہے۔ ظاہری فرق کے سوا، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ واضح طور پر فطرت کے راستے سے ہٹنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اور فطرت کے راستے سے ہٹنا ہمیشہ دُگنا محرومی کا سبب بنتا ہے— قبل از موت مرحلۂ حیات میں بھی محرومی اور بعد ازموت مرحلۂ حیات میں بھی محرومی۔ انسان اِس دنیامیں اپنی آزادی کاغلط استعمال کرتے ہوئے، فطرت کے راستے سے انحراف تو کرسکتا ہے، لیکن وہ اِس پر قادر نہیں کہ وہ اِس انحراف کے مہلِک انجام سے اپنے آپ کو بچا سکے۔ یہی وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے آج کا انسان دو چار ہے۔

موت سے پہلے کے مرحلۂ حیا ت میں محروم ہوجانا کیا ہے، اِس کو ہر آدمی خود اپنے ذاتی تجربے سے جان سکتا ہے۔ ہر انسان کے سامنے اپنے لیے ایک خوش نما منزل ہوتی ہے، جہاں وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے سارے وقت اور ساری توانائی کو اِس مقصد کے حصول میں لگا دیتاہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آخر میں ہر ایک کے حصے میں صرف مایوسی آرہی ہے۔ اِس دنیا میں ہر انسان، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، جب اپنی عمر پوری کرکے مرتاہے تو ہر شخص مایوسی (despair) میں مرتا ہے، اس میں کسی بھی مرد یا عورت کا کوئی استثنا نہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی جس منزل کو پانا چاہتا ہے، اس کے اسباب اِس دنیا میں سرے سے موجود ہی نہیں۔چنانچہ یہ ہوتا ہے کہ ساری کوششیں صَرف کرنے کے بعد ہر آدمی کا خاتمہ صرف ایک انجام پر ہوتا ہے، وہ یہ کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی مطلوب منزل تک نہ پہنچ سکا۔وہ اپنے مقصود کو پانے میں ناکام رہا۔

انسان کے جسم میں خصوصی طورپرپانچ ممتاز صلاحیتیں (five faculties) پائی جاتی ہیں۔اِن صلاحیتوں کو حواسِ خمسہ (five senses)کہاجاتا ہے۔ وہ پانچ ممتاز صلاحیتیں یہ ہیں— دیکھنا، چھونا، چکھنا ، سونگھنا اور سُننا :

sight, touch, taste, smell, and hearing

یہ پانچ حواس، در اصل پانچ مقاماتِ لذت ہیں۔ اِن میں سے ہر ایک صلاحیت کے اندر خالق نے بے پناہ لذت رکھی ہے۔ انسان کے لیے دیکھنا بھی ایک انتہائی لذیذ تجربہ ہے، چھونا بھی ایک لذیذ تجربہ ہے، چکھنا بھی ایک لذیذ تجربہ ہے، سونگھنا بھی ایک لذیذ تجربہ ہے اور سننا بھی ایک لذیذ تجربہ۔ اِس کائنات میں کسی بھی دوسری مخلوق کے اندر، بہ شُمول حیوانات، اِن لذتوںسے انجوائے کرنے کی صلاحیت نہیں۔ یہ صرف انسان کی استثنائی صفت ہے کہ وہ کسی چیزسے انتہائی لطیف قسم کی محظوظیت (pleasure) حاصل کرسکتا ہے۔

اِسی کے ساتھ انسان کے اندر چھٹی حس (sixth sense) بھی موجود ہے۔ یہ چھٹی حس سوچنے کی صلاحیت (thinking capacity) ہے۔ یہ چھٹی حس، انسان کے لیے سب سے زیادہ اعلیٰ لذت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سوچنا، انسان کی ایک انوکھی صفت ہے۔ سوچنا، انسان کے لیے اتھاہ لذت کا خزانہ ہے۔ سوچنے کا فعل بظاہر دِکھائی نہیں دیتا، مگر وہ انسان کو ایسی سُپر لذت دیتا ہے جس کا حصول کسی بھی دوسری چیز کے ذریعے ممکن نہیں۔

اِسی کے ساتھ یہ ایک واقعہ ہے کہ انسان اِن لذتوں کو محسوس تو کرتا ہے ، لیکن وہ موجودہ دنیامیں اِن لذتوں کی تسکین کا سامان نہیںپاتا۔ ہر آدمی بے پناہ لذتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور پھر تھوڑی مدت کے بعد ہر عورت اور ہر مرد غیر تکمیل شدہ خواہشات (unfulfilled desires)کے ساتھ مرجاتے ہیں۔

اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِس دنیا میں آدمی کے پاس خواہشیں ہیں، لیکن یہاں اُس کے لیے خواہشات کی تکمیل کا سامان موجود نہیں۔ یہ حقیقت اِس بات کا حتمی اشارہ ہے کہ خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، اِن خواہشات کی تکمیل کا سامان، قبل از موت مرحلۂ حیات میں نہیں رکھا گیا، بلکہ وہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں رکھا گیا ہے۔ یہ خواہشیں انسان کو اِس لیے دی گئی ہیں کہ وہ حقیقتِ حیات کو سمجھے اور اُس کے مطابق، وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔

اِسی کے ساتھ اِس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ انسان کے اندر استثنائی طورپر کَل (tomorrow)  کا تصورپایا جاتا ہے۔حیوانات بظاہر زندہ مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن کسی بھی حیوان کے اندر ’کَل‘ کا تصور نہیں پایا جاتا۔ حیوانات کا محدود مائنڈ صرف حاضر (present)کو جانتا ہے، وہ مستقبل (future) کے تصور سے آشنا نہیں، جب کہ انسان کے اندرکل یا مستقبل کا تصور نہایت طاقت ور صورت میں موجود ہے۔ مگر  ہر انسان کا عملی تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ مطلوب مستقبل اُس کے لیے سرے سے قابلِ حصول نہیں۔

اس حقیقت کے اندر ایک اشارہ (clue) چھپا ہوا ہے۔ یہ اشارہ آدمی کو بتاتا ہے کہ وہ جس مطلوب مستقبل کو چاہتا ہے، وہ مطلوب مستقبل اس کی محدودیت کی بنا پر اس کے لیے موجودہ دنیا میں مقدر نہیں۔ اِس مطلوب مستقبل کو پانے کے لیے اُسے موجودہ دنیا میں ضروری تیاری کرنا چاہیے، تاکہ وہ موت کے بعد آنے والے مرحلۂ حیات میں وہ اپنے اِس مطلوب مستقبل کو پاسکے۔

موجودہ دنیا کا معاملہ ایک امتحان ہال جیسا ہے۔ امتحان ہال میں اسٹوڈنٹ کی ناگُزیرضرورتوں کا محدود انتظام تو ہوتا ہے، لیکن اس کی تمام خواہشوں کی تکمیل کا سامان وہاں نہیںہوتا۔اِس لیے جو اسٹوڈنٹ، امتحان ہال کو صرف امتحان ہال سمجھے، وہ مایوسی میں مبتلا نہیں ہوگا۔لیکن جو اسٹوڈنٹ، امتحان ہال کو اپنی خواہشوں کی تکمیل کا مقام سمجھ لے، اُس کو وہاں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔

خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، موجودہ دنیا ٹسٹ کے لیے بنی ہے۔ یہاں جو لائف سپورٹ سسٹم ہے، وہ صرف اتنا ہی ہے جتنا کہ ٹسٹ (امتحان) کے مقصد کے لیے ضروری ہے۔ اب جو لوگ اِس دنیا کو ٹسٹنگ گراؤنڈ (testing ground)سمجھیں اور اس کے مطابق زندگی گزاریں، ان کے اندرکبھی مایوسی کی نفسیات پیدا نہیں ہوگی۔لیکن جو لوگ موجودہ دنیا کو اپنی خواہشوں کی تکمیل کا مقام سمجھ لیں، اُن کو سخت مایوسی کا تجربہ ہوگا۔ کیوں کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے، اس کی تکمیل کا انتظام خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہاںکیا ہی نہیں گیا تھا۔

موجودہ سیارۂ زمین پر زندگی کا درست اور کامیاب طریقہ یہ ہے کہ آدمی، خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، اِس دنیا کو عیش کا مقام نہ سمجھے، بلکہ وہ اس کو ٹسٹ (امتحان) کا مقام سمجھے۔ ایسا آدمی، خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق یہاں زندگی گزارے گا اور اس کے نتیجے میں وہ ابدی کامیابی حاصل کرے گا۔

ٹسٹ کے مزاج کے تحت کسی انسان کی جو زندگی بنتی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو انجوائے منٹ کے مزاج کے تحت بنتی ہے۔ دونوں کا نقشہ ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ یہاں ہم د ونوں قسم کی کچھ مثالیں درج کریں گے جس سے دونوں کے درمیان فرق واضح ہوتا ہے۔

اِس معاملے میں بنیادی فرق سوچ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ ٹسٹ (امتحان) کا مزاج رکھنے والے انسان کے اندر، خالق رُخی سوچ (Creator-oriented thinking) پیدا ہوتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ خالق کے نقشے کے مطابق، اُس کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والے انسان کے اندر، خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو صرف اپنی مرضی کا پابند سمجھنے لگتا ہے، نہ کہ اپنے سوا کسی برتر ہستی کی مرضی کا پابند۔

ٹسٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی موت کے بعد کی دنیا کو بہتر بنانے کی فکر میں رہتا ہے، اور انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی صرف آج کی دنیا کو بہتر بنانے کی فکر میں لگا رہتاہے۔ مثلاً ٹسٹ کا مزاج رکھنے والے آدمی کے اندر دولت کے بارے میں قناعت کا مزاج ہوگا، وہ اِس معاملے میں بقدر ضرورت پر اکتفا کرنا پسند کرے گا۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی ہمیشہ اِس فکر میں رہے گا کہ زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹا کرے، اِس معاملے میں اس کی حرص کبھی ختم نہ ہوگی۔ٹسٹ کا مزاج رکھنے والے آدمی کے پاس ایک چھوٹی کار ہے۔ ایک شخص اُس سے کہتا ہے کہ تم بڑی کار خرید لو، تو وہ جواب دے گا کہ مجھے اپنا مواخذہ اور بڑھانا نہیں ہے۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی اِس کوشش میں رہے گا کہ اُس کے پاس نہ صرف ایک بڑی کار ہو، بلکہ اس کے پاس کئی اور کاریں ہوجائیں۔

ٹسٹ کامزاج رکھنے والا آدمی بے فائدہ تفریحات سے اپنے آپ کو دور رکھے گا، کیوں کہ وہ اس کو اپنے لیے ڈسٹریکشن (distraction) سمجھے گا۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی تفریحی چیزوں میں کود پڑے گا، خواہ اس میں اس کا وقت اور پیسہ کتنا ہی زیادہ برباد ہوجائے۔ ٹسٹ کا ذہن رکھنے والا آدمی ہر چیز میںاِسراف(waste) سے اپنے آپ کو بچائے گا۔ مثلاً خرچ میں اسراف، پانی میں اسراف، بولنے میںاسراف، وغیرہ۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والا آدمی اِسراف کو سِرے سے کوئی اہمیت ہی نہ دے گا۔ٹسٹ کا ذہن رکھنے والا آدمی ہر معاملے میں اپنے آپ کو اخلاقی قدروں کا پابند سمجھے گا۔ اِس کے برعکس، انجوائے منٹ کا مزاج رکھنے والے آدمی کے لیے ساری اہمیت اپنے ذاتی انٹرسٹ کی ہوگی، نہ کہ کسی برتر اخلاقی معیار کی۔

خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، اِس معاملے میں ساری اہمیت اِس بات کی ہے کہ مختلف اَحوال کے درمیان آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پرورش پارہی ہے— ربّانی شخصیت، یا غیر ربّانی شخصیت۔ موجودہ دنیا میںآدمی جس طرح اپنے جسمانی وجود کے لیے مادی غذا حاصل کرتا ہے، اِسی طرح اپنے روحانی وجود کے لیے بھی اس کو مسلسل روحانی غذا (spiritual food) درکار ہوتی ہے۔ یہی روحانی غذا اس کے اندر ربّانی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔

روحانی غذا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے جب سچائی آئے تو اس کا انکار کرنے کے بجائے وہ اس کا اعتراف کرے، خواہ سچائی کا پیش کرنے والا اُس کا اپنا آدمی ہو ، یا وہ اُس کا غیر ہو۔وہ حالات کے زیر اثر نہ سوچے، بلکہ حالات سے اوپر اُٹھ کر غیر متاثّر ذہن کے تحت اپنی رائے بنائے۔ اس کی زندگی شکر اور اعتراف کی زندگی ہو، نہ کہ ناشکری اور بے اعترافی کی زندگی۔ وہ منفی تجربے کا بھی مثبت انداز میں جواب دے، وہ اپنی ملی ہوئی آزادی کو خود عائد کردہ ڈسپلن کے تحت استعمال کرے۔ وہ ہر حال میں انصاف کی بات کہے، خواہ انصاف کی بات خود اُس کے اپنے خلاف کیوں نہ ہو۔ وہ دنیاکے وقتی فائدے کے بجائے، آخرت کے ابدی فائدے کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔ اُس کی سرگرمیوں کا نشانہ، آخرت کی ابدی کامیابی کا حصول ہو، نہ کہ صرف دنیا کی وقتی کامیابی کا حصول۔

جو لوگ موجودہ دنیا کو اپنے لیے ٹسٹنگ گراؤنڈ سمجھیں اور اُس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کریں، وہ آخرت میں خالق کے پڑوس میںابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔ اِس کے برعکس، جو لوگ دنیا کو صرف انجوائے منٹ کی جگہ سمجھیں، وہ آخر کار اِس بھیانک نتیجے سے دوچار ہوں گے کہ اُن کے لیے آخرت کی ابدی دنیا میں محرومی اور حسرت کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہ ہوگا۔

 

زندگی کا مقصد

11 مارچ 2006کا واقعہ ہے۔ شام کی فلائٹ سے میں حیدرآباد سے دہلی آرہا تھا۔ میرے ساتھ سی پی ایس ٹیم کے کئی اور افراد شامل تھے۔ اِس جہاز میں ایک خاتون نیہا بٹوارا (Neha Batwara) بھی سفر کررہی تھیں۔ ہماری ٹیم کے لوگ جہاز کے اندر مسافروں کے درمیان دعوہ ورک کررہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مز نیہا سے بھی بات کی اور انھیں دعوتی پمفلٹ دیے۔ یہ خاتون دہلی ائرپورٹ پر اُتر کر اپنے وطن اَلور(راجستھان) چلی گئیں۔ بعد کو حیدرآباد سے ان کا ایک خط مورخہ 28 مارچ بذریعے ای میل موصول ہوا۔ وہ خط حسب ذیل تھا:

Respected Maulana Wahiduddin Khan,

I am Neha, working in an MNC for some people, it cannot be better than to get a job in a top MNC just after graduation. But believe me, I am in search of a more purposeful life. That’s why I am writing to you.

I met Khalid Ansari and Sadia Khan on a flight to Delhi and could apparently see the difference your guidance has made to their lives.

Maulana, I know we have been created by God, and we all have a purpose here to fulfil on earth, which, if done, will be more satisfying than getting heaven after death.

The point where I am lacking is to know the purpose for which I have been sent here. I could not come to your class in Delhi, because my family was against going to some spiritual classes. You understand.

I will be grateful to you for the whole of my life if you could help me in any way. I am currently in Hyderabad.

Regards

Neha Batwara, Software Eng.. MIEL

Hyderabad, Ext. 3355, Tel. 040-23308090

یہ خط سادہ طورپر صرف ایک خاتون کا خط نہیں ہے، بلکہ وہ ہر رُوح کی پکار ہے۔ یہ خط گویا ہر عورت اور ہرمرد کے دل کی ترجمانی ہے۔ ہر انسان ایک بامقصد زندگی (purposeful life)کی تلاش میں ہے۔ یہ ہر انسان کی فطرت کی آواز ہے۔ لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہ بامقصد زندگی ان کو پوری طرح موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مل جائے۔ موت کے بعد کے دورِ حیات کا نہ اُن کو شعور ہے اور نہ وہ اس کا انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اِس سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آدمی اس بامقصد زندگی کو کہاں حاصل کرناچاہتا ہے۔ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں یا خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد اس کو خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ خود اپنی بنائی ہوئی دنیا اُس کے لیے سِرے سے موجود ہی نہیں۔

ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ آدمی سب سے پہلے یہ جانے کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کے قوانین کیا ہیں اور اس کے بنانے والے نے کس تخلیقی منصوبے کے تحت اس کو بنایا ہے۔ کیوں کہ اس کی مطابقت کے بغیر وہ کسی بھی حال میں اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔

اگر آپ کے پاس ایک اچھی کار ہو اور اس کو آپ سڑک پر دَوڑانا چاہیں توآپ کو سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک میں آپ اپنی گاڑی دوڑانا چاہتے ہیں وہاں لفٹ ہینڈ ڈرائیو (left-hand drive)کا اصول ہے یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو (right-hand drive)کا۔ کامیاب سفر کے لیے اِس بات کو جاننا ضروری ہے۔ اگر آپ ایسا کریں کہ لفٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی دائیں طرف دَوڑانے لگیں، یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی بائیں طرف دوڑانے لگیں تو دونوں حالتوں میں آپ کامیاب سفر سے محروم رہ جائیں گے۔

یہی معاملہ زندگی کے وسیع تر سفر کا بھی ہے۔ انسان اپنی زندگی کا وسیع تر سفر کسی خلا میں یا خود اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں کرتا۔ وہ اپنا یہ سفر خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں کرتا ہے۔ اِس لیے ہر عورت اور مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو سمجھے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو ناکامی سے نہیں بچا سکتا۔

خود انسان کا اپنا تجربہ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ہر انسان کا یہ مسئلہ ہے کہ اس کو پیاس لگتی ہے۔ وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ مگر یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر انسان اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ پانی کے سوا کسی اور چیز سے وہ اپنی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اِسی طرح انسان کو بھوک لگتی ہے۔ بھوک کے معاملے میں بھی انسان یہی کرتا ہے کہ وہ فطرت کی فراہم کردہ غذا کے ذریعے اپنی بھوک مٹائے۔ ہر انسان کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر انسان آکسیجن لینے کے لیے اُسی نظام کو استعمال کرتا ہے جو اس کے باہر فطرت نے قائم کیا ہے۔ یہی تمام دوسری ضرورتوں کا معاملہ ہے۔

ٹھیک یہی معاملہ مقصدِ حیات کا بھی ہے۔ مقصدِ حیات کے معاملے میں بھی انسان کو اپنے خالق کے تخلیقی پلان(creation  plan)کو جاننا ہے۔ اِس معاملے میں کوئی دوسرا متبادل، انسان کے لیے نہیں۔قرآن خالقِ فطرت کی کتاب ہے۔ قرآن میں اِس سوال کا جواب اس کی سورہ نمبر 103 میں دیاگیا ہے۔ قرآن کا یہ جواب اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ ہے:

History is a witness that man is in loss, except those who follow the course of life set by the Creator.

اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ خالق نے انسان کی زندگی کو دو دَوروں میںتقسیم کیا ہے— قبل از موت دَور، اور بعد از موت دَور۔ موت سے پہلے کا دَور عمل کرنے کا دَور ہے اور موت کے بعد کا دَور عمل کا انجام پانے کا دَور۔ جو کچھ موت کے بعد ملنے والا ہے وہ موت سے پہلے نہیں مل سکتا۔ جو کچھ موت سے پہلے کرنا ہے اس کو کرنے کا موقع موت کے بعد باقی نہیں رہے گا۔

انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان لامحدود خواہشوں (unlimited desires)کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈیزائر ہر ایک کو بہت محبوب ہوتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک شخص بھی اپنی اِن خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ مختلف انسانوں نے اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ساری عمر محنت کیا۔ بظاہر انھوں نے بڑی بڑی کامیابی حاصل کی۔ مگرہر ایک اِس حسرت کے ساتھ مرا کہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ آج کی دنیا میں وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا اس کو پانے میں وہ ناکام رہا۔

دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں جوڑا(pair) کا اصول قائم ہے۔ یہاں ہر چیز اپنا جوڑا رکھتی ہے۔ ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ اصول عالمی سطح پر قائم ہے۔ زمین سے لے کر اسپیس تک ہر جگہ یہی نظام رائج ہے— نگیٹیو پارٹکل کا جوڑا پازیٹیو پارٹکل، نباتات میں میل سیکس اور فی میل سیکس، حیوانات میں مؤنث حیوان اور مذکر حیوان، انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔

جوڑا یا زَوجین کا نظام تمام مخلوق میں عالمی سطح پر قائم ہے۔ اِس وسیع اور کامل نظام میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ انسانی خواہشات کا ہے۔ ہر انسان خواہشات کا گہرا احساس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی اِن خواہشات کی تکمیل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ دنیا میں خواہش ہے مگر اس کا جوڑا، تکمیلِ خواہش یہاں موجود نہیں۔

یہ سوال اس دنیا میں آنے والے ہر عورت اور مرد کا سوال ہے۔ ہر پیدا ہونے والا اِس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے سوال کا تشفی بخش جوا ب پائے، وہ حسرت کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔

امریکی مشنری بلی گرہم(Billy Graham) نے لکھا ہے کہ ایک بار اس کے پاس امریکا کے ایک عمر رسیدہ دولت مند کاارجنٹ مسیج آیا۔ بلی گراہم اپنے پروگرام کو ملتوی کرکے فوراً روانہ ہوگئے۔ وہ امریکی دولت مند کے گھر پہنچا تو اس کو ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں اس کی ملاقات امریکی دولت مند سے ہوئی۔ امریکی دولت مند نے کسی تمہید کے بغیر کہا

You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am going to take a fateful leap into the unknown. Young man can you give me a ray of hope.

بلی گرہم کے پاس اِس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہ تھا۔ دولت مندامریکی ، جو ایک بڑا سیاست داں بھی تھا، اسي احساسِ محرومی كے ساتھ اس دنيا سے رخصت هوگیا۔ خود بلی گرہم کا یہ حال ہوا کہ  بہت دنوں تک عوامي زندگي سے دور رہنے کے بعد2018میں اس کی وفات ہوگئی۔

یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر عورت اور ہرمرد کا ہے۔ ہر ایک اپنی زندگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے۔ ہر ایک، ایک پُر مسرت زندگی کی تلاش میں ہے۔ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کو ایسی زندگی ملے جس میں اس کو پوری طرح فُل فل مینٹ(fulfilment)حاصل ہو۔ مگر ہر ایک کا انجام صرف ناکامی پر ختم ہورہا ہے۔واقعات بتاتے ہیںکہ ہر عورت اور مرد نے یہ سمجھا کہ دنیا کے مادّی سازوسامان ہی اصل ہیں۔ ہر ایک نے مادی سازوسامان اکھٹا کرکے اس کے ذریعے فل فل مینٹ کی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر کسی استثنا کے بغیر ایک شخص کو بھی مطلوب فل فل مینٹ حاصل نہ ہوسکا۔

ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اِسی ناکام تجربے کو دہرایا جاتا رہے۔ اب اِس معاملے میں اصل مسئلہ نظرثانی (reassessment) کا ہے۔ اب اصل کام یہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچا جائے کہ دنیا کی قابلِ حصول مادّی چیزوں میں تو ثابت شدہ طورپر فُل فِل مینٹ کا سامان موجود نہیں۔ ایسی حالت میں پھر یہ سامان کہاں ہے۔ جب انسانی خواہش کا تسلسل جاری ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ ایک حقیقی چیز ہے، اور جب وہ ایک حقیقی چیز ہے تو یقینا اس کی تکمیل کا سامان بھی کائنات میں ہونا چاہیے۔

اِس معاملے کو سفر کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کوئی شخص جب سفر کرتا ہے، خواہ وہ ٹرین سے سفر کرے یا ہوائی جہاز سے، اس کے سفر کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ ایک ، وہ جب کہ وہ حالتِ سفر میں ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جب کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ مسافر دونوں حالتوں کے فرق کو سمجھے۔ جو مسافر اِس فرق کو نہ جانے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجائے گا اور غیر ضروری پریشانی میں مبتلا ہوکر اپنی عقل کھو بیٹھے گا۔

عقل مندمسافر وہ ہے جو سفر کو سفر سمجھے، وہ سفر کو منزل کی حیثیت نہ دے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ سفر کے دَوران وہ سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں جو منزل پر پہنچ کر حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن ہر مسافر اِس کو گوارا کرتا ہے۔ کیوںکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ سفر کی حالت ایک وقتی حالت ہے۔ آخر کار اس کا سفر ختم ہوگا اور وہ اپنی مطلوب منزل پر پہنچ جائے گا۔ منزل پر پہنچنے کے بعد اس کو وہ سب کچھ مل جائے گا جس کو وہ چاہتا تھا لیکن سفر کے دَوران وہ اُن کو حاصل نہ کرسکا۔

ہماری موجودہ زندگی بے حد مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مختصر مدت کے لیے ہونا خود اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دَورانِ سفر کی حالت ہے، وہ منزل پر پہنچنے سے پہلے کا لمحہ ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن نہیں کہ موجودہ مختصر زندگی میں ہم وہ تمام چیزیں پالیں جن کو ہم پانا چاہتے ہیں۔ یہ چیزیں بلا شبہہ ہم کو ملیں گی لیکن وہ منزل پر پہنچ کر ملیں گی، سفر کے درمیانی مرحلے میں وہ ہرگز ہم کو ملنے والی نہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے، ہماری زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے— موت سے پہلے کا مرحلہ اور موت کے بعد کا مرحلہ۔ موت سے پہلے کا مرحلہ گویا حالتِ سفر کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلہ گویا منزل پر پہنچنے کا مرحلہ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر انسان کی زندگی کو بامعنیٰ بناتی ہے، جو ہر عورت اور مرد کو اُس مقصد سے متعارف کرتی ہے جو اس کی زندگی کو پوری طرح بامعنیٰ بنادے جو اس کو اطمینان کا سرمایہ عطا کرے۔

زندگی کی یہ توجیہہ اِس سوال سے جُڑی ہوئی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ انسان زندہ ہوتا ہے۔ کیا موت کے بعد بھی اسی طرح زندگی ہے جس طرح موت سے پہلے ہم زندگی کا تجربہ کررہے ہیں۔  اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اِس سوال کا جواب ہم عین اُسی سائنسی طریقے کے ذریعے جان سکتے ہیں جس سائنسی طریقے سے دوسری حقیقتوں کو جانا جاتا ہے۔

حقیقتوں کو جاننے کے معاملے میں سائنٹفک متھڈ کیا ہے۔ وہ یہ نہیں ہے کہ جس بات کو جاننا ہے وہ اپنی کامل صورت میں سائنس داں کے سامنے آجائے۔ اگر یہ شرط ہوتوساری حقیقتیں سائنسی طورپر غیر معلوم رہ جائیں ۔ علم کی ترقی رُک جائے۔ حقائق کی نسبت سے انسان ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں پڑا رہے۔ کیوں کہ کوئی بھی حقیقت اِس طرح علم میں نہیں آتی کہ وہ پہاڑ کی طرح مشہود چیز کے طور پر سامنے آجائے۔

اِس کے بجائے جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مطالعے کہ دَوران سائنس داں کے سامنے ایک سُراغ (clue) آتا ہے۔ اِس سُراغ پر غور کرکے وہ ایک ایسی حقیقت تک پہنچتا ہے جو پہلے اس کو معلوم نہ تھی۔ اِس دنیا میں ہر حقیقت سراغ کی سطح پر دریافت ہوتی ہے۔ اِس دنیا میں سراغ ہی تمام حقیقتوں کی دریافت کی کنجی ہے۔

مثلاً سائنس میں اِس کو بطور حقیقت مان لیا گیا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے بِگ بینگ کا واقعہ پیش آیا۔ اِسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ زمین پر حیاتیاتی ارتقا کا واقعہ ہوا۔ اسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے، وغیرہ۔

اِس قسم کی حقیقتیں جو آج مسلّم حقیقت بن چکی ہیں وہ اِس طرح حقیقت نہیں بنیں کہ انسان نے اس کو مشاہداتی سطح پر دیکھ لیا۔ اِس کے بجائے جو کچھ ہوا وہ صرف یہ تھا کہ ایک سراغ انسان کے علم میںآیا۔ پھر اِس سراغ پر غور کرکے انسانی علم ایک بڑی حقیقت تک پہنچا۔ یہ بڑی حقیقت اگر چہ دکھائی نہیں دے رہی تھی مگر وہ موجود تھی۔ اس کی موجودگی کو بطور ایک واقعہ کے تسلیم کرلیا گیا۔ اگر چہ اِس سلسلے میں سُراغ کے سوا کوئی اور چیز انسان کے مشاہدے میں نہیں آئی تھی۔

یہی معاملہ موت کے بعد زندگی کا یا اگلے دَورِ حیات کا ہے۔ اگلے دَور حیات کے بارے میں بھی واضح سُراغ (clue) موجود ہیں۔ سراغ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ ہمیں اِس یقین تک پہنچاتے ہیں کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے۔ موت کے بعد بھی اِسی طرح ایک اور مرحلۂ حیات ہے جو لازمی طورپر ہر ایک کے سامنے پیش آئے گا۔

وہ سر اغ کیا ہے۔ مثلاً انسان کا جسم بے شمار خلیوں(cells) پر مبنی ہے۔ یہ خلیّے ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا نظامِ ہضم یہ کام کرتا ہے کہ جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہ خلیّوں کی صورت اختیارکر لیتا ہے۔ ہمارا نظام ہضم گویا خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ اِس نظام کے تحت یہ ہوتا ہے کہ عملاً تقریباً ہر دس سال میں ہمار ا پورا جسم بدل جاتا ہے۔ نیے خلیوں کے ساتھ مکمل طورپر ایک نیا جسم وجود میں آجاتا ہے۔

گویا کہ ہمارے جسم پر بار بار ’’موت‘‘ طاری ہوتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ذہنی وجود نہیںمرا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ذہنی وجود ہی انسان کا اصل وجود ہے۔ یہ ذہنی وجود بظاہر جسمانی موت کے باوجود یکساں طورپر باقی رہتا ہے۔ یہ ایک سراغ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے۔ اس کے ابدی وجود کا تھوڑا سا حصہ قبل ازموت مرحلۂ حیات میں ہے، اور اس کا بقیہ پورا حصہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں۔

اِسی طرح اِس معاملے کا ایک سُراغ یہ ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طورپر عدل (justice) کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان اپنے فطری ذہن کے تحت، یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عدل قائم ہو۔ یعنی اچھا عمل کرنے والوں کو اچھا انجام ملے اور بُرا عمل کرنے والوں کو بُرا انجام ملے۔ اِس سرغ کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو انسانی ذہن اِس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ موجودہ مرحلۂ حیات چوں کہ اپنی مدت کے اعتبار سے نہایت ناکافی ہے ،اس لیے بعد کے مرحلۂ حیات میںعدل کے تقاضے کی تکمیل ہو۔ بعد کے مرحلۂ حیات میں ہر انسان کو اس کے کیے کے مطابق، جزا یا سزا ملے۔

اِسی طرح اِس معاملے کا ایک سراغ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپر معیاری دنیا (perfect world) چاہتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا کی محدودیت (limitations)کی بنا پر یہاں مطلوب معیاری دنیا بن نہیں پاتی۔ اِس سراغ پر غور کرتے ہوئے انسانی ذہن اِس دریافت تک پہنچتا ہے کہ جو معیاری دنیا قبل ازموت مرحلۂ حیات میں محدود حالات کی بنا پر حاصل نہ ہوسکی وہ بعد از موت مرحلۂ حیات میں اپنی مطلو ب معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔

اِسی طرح اِس معاملے میں ایک سراغ یہ ہے کہ انسان استثنائی طورپر ایک ایسی مخلوق ہے جو کَل (tomorrow)کا تصور رکھتا ہے۔ کسی بھی دوسرے حیوان یا غیر حیوان کے اندر کل کا تصور موجود نہیں۔ اِس سراغ کو لے کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ موجودہ محدود حالات میں آدمی اپنی جس مطلوب دنیا کو نہیں پاتا اس کو وہ موت کے بعد آنے والے لا محدود مرحلۂ حیات میں پالے گا۔ یہ دنیا وہ ہوگی جہاں آدمی اپنے لیے پوری طرح فُل فل مینٹ کا تجربہ کرسکے گا۔

موت کے بعد معیاری دنیا بننا ویسا ہی ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جیسا کہ دوسرے ثابت شدہ واقعات۔ تاہم مستقبل کی اِس معیاری دنیا میں ہر ایک کو خود بخود جگہ نہیں مل جائے گی بلکہ صرف وہ عورت اور مرد اِس معیاری دنیا میں جگہ پائیں گے جو موت کے پہلے کی اِس دنیا میں اس کا استحقاق ثابت کرسکیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر انعام مستحقین کو ملتا ہے۔ غیر مستحقین کے لیے کبھی کوئی بڑا انعام مقدر نہیں ہوتا۔سوال یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو اس معیاری دنیا کا مستحق بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے روح کا تزکیہ (purification of soul) ۔

جو آدمی مستقبل کی اس معیاری دنیا میں اپنے لیے جگہ حاصل کرنا چاہتا ہو اس کو آج کی اِس دنیا میں یہ ثبوت دینا ہے کہ اس نے دکھائی دینے والی دنیا (seen world) میں نہ دکھائی دینے والی دنیا (unseen world) کو اپنی بصیرت سے جانا۔ اس نے کنفیوژن کے جنگل میں سچائی کو دریافت کیا۔ اس نے منفی تجربات کے ماحول میں اپنے آپ کو مثبت رویّے پر قائم رکھا۔ اس نے اپنے آپ کو حیوانی سطح سے اوپر اٹھایا اور انسانیت کی اعلیٰ سطح پر کھڑا کیا۔ اس نے اپنے آپ کو بے اعترافی، بددیانتی، سرکشی، خود غرضی، خواہش پرستی اور انانیت جیسی پست صفات سے بچایا۔ جو پورے دل اور جان کے ساتھ جنت کا طالب بنا۔ خلاصہ یہ کہ جس نے خدا رُخی زندگی (God-oriented life) کو پوری طرح اختیار کیا۔

یہ صفات رکھنے والے عورت اور مرد خلاصۂ انسانیت ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جومستقبل کی معیاری دنیا میںبسائے جانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔ جو لوگ اس معیارپر پورے نہ اتریں ان کو رد کرکے کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گذاریں گے۔ وہ کبھی اِس ذلّت اور حسرت کی زندگی سے نجات نہ پاسکیں گے۔

 

جنت اور انسان

غالباً 1998 کی بات ہے، ڈاکٹر مہیش چندر شرما نے مجھے دہلی کے ایک سینئر اسکالر سے ملایا۔ یہ پروفیسر نونہال سنگھ (پیدائش 1923) تھے۔ امریکا سے رٹائر ہو کر آنے کے بعد انڈیا میں ان کو راجیہ سبھا کا ممبر (1992-1998)بنادیا گیا تھا۔ اُن کا گھر ایک کتب خانہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس میں ہر طرف لکھنے پڑھنے کا ماحول تھا۔ وہ پورے معنوں میں ایک اسکالر دکھائی دیتے تھے۔

ملاقات کے وقت انھوں نے بتایا کہ پولٹکل سائنس میں انھوں نے ایم اے کیا تھا۔ اِس کے بعد انھوں نے انٹرنیشنل رلیشنس (international relations) کے سبجیکٹ پر ڈاکٹریٹ کیا۔ اُس زمانے میں امریکا کی ایک یونی ورسٹی کو اپنے لیے اِس موضوع پر ایک پروفیسر کی ضرورت تھی۔ اُس کا اشتہار دیکھ کر پروفیسر سنگھ نے اس کے لیے اپنی درخواست بھیج دی۔ جلد ہی انھیں یونی ورسٹی کی طرف سے ایک لیٹر ملا، اِس میں انھیں انٹرویو کے لیے امریکا بلایا گیا تھا۔

وہ امریکا پہنچے تو ائر پورٹ پر ایک صاحب اُن سے ملے۔ اُنھوں نے کہا کہ میں یونی ورسٹی کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، تاکہ یہاں میں آپ کو گائڈ کروں۔ اِس کے بعد اُس آدمی نے پروفیسر سنگھ کو اپنی گاڑی پر بٹھایا اور اُن کو لے کر یونی ورسٹی پہنچا۔ یونی ورسٹی میں پروفیسر سنگھ کو وہاں کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھیرایا گیا۔

اِس کے بعد وہ آدمی روزانہ پروفیسر سنگھ کے پاس آتا اور ان کو لے کر صبح سے شام تک یونی ورسٹی کے وسیع کیمپس میں گھماتا رہتا۔ اِس طرح وہ آدمی پروفیسر سنگھ کو یونی ورسٹی کے ہر شعبے میں لے گیا اور وہاں کی ہر سرگرمی میںانھیں شامل کیا۔ مثلاً لائبریری، ڈائننگ ہال، کلاس روم ، ٹیچرس کلب، اسٹوڈنٹس میٹنگ، یونی ورسٹی ورکرس، وغیرہ۔

اِس طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔ پروفیسر سنگھ کو تشویش ہوئی۔ انھوں نے اپنے ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین سے کہا کہ میں ایک ہفتے سے یہاں ہوں۔ مجھے انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن اب تک میرا انٹرویو نہیں ہوا۔ چیئر مین نے کہا کہ آپ کا انٹرویو ہوچکا ہے۔ ہم نے آپ کا سلیکشن کرلیا ہے، اور اب آپ کل سے ہمارے یہاں جوائن کرلیجیے۔ اِس کے بعد چیئر مین نے بتایا کہ ائر پورٹ پر ہمارا جو آدمی آپ سے ملا تھا، وہ یہاں کا سینئر پروفیسر تھا، اور وہی آپ کا انٹرویور بھی تھا۔

چیئرمین نے کہا کہ آپ کے بھیجے ہوئے کاغذات کو دیکھنے کے بعد ہم نے جان لیا تھا کہ جہاں تک تعلیمی لیاقت کا تعلق ہے، آپ اس کے پوری طرح اہل ہیں۔ اب ہم کو یہ جاننا تھا کہ آپ ہمارے یونی ورسٹی کلچر کے معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ آپ کا مذکورہ انٹرویور یہی کام کررہا تھا۔ وہ آپ کو یونی ورسٹی کے ہر شعبے میں لے گیا۔ اس نے یہاں کی تمام ایکٹوٹیز (activities)سے آپ کو متعارف کرایا۔ اس نے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرس دونوں کے ساتھ آپ کے سلوک کو دیکھا۔ اِس دوران وہ آپ کی ہر بات کا دقّتِ نظر کے ساتھ معائنہ کرتا رہا۔ انٹرویور کی رپورٹ آپ کے بارے میں پوری طرح مثبت ہے۔ چنانچہ آپ کے ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد ہم نے آپ کا انتخاب کرلیا ہے۔ آپ کل سے یہاں اپنا کام شروع کردیں۔

یہ واقعہ ایک حقیقی مثال کی صورت میں، جنت اور انسان کے معاملے کو بتاتا ہے۔ خدا نے ایک وسیع دنیا بنائی، جنت کی دنیا۔ یہ دنیا پورے معنوں میںایک کامل دنیا تھی۔ یہاں ہر چیز اعلیٰ معیار کے مطابق تھی۔ خدا نے چاہا کہ اِس کامل دنیا میں وہ ایسے لوگوں کو بسائے جو اپنے کردار کے اعتبار سے اُس کے لیے پوری طرح اہل ہوں، جو اِس معیاری دنیا میں معیاری انسان کی حیثیت سے رہ سکیں۔

اب خدا نے اِس دنیا کے تعارفی نمونے کے طورپر موجودہ زمینی سیّارہ بنایا۔ یہاں وہ ساری چیزیں پائی جاتی ہیں جو جنتی دنیا کے اندر موجود ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جنتی دنیا، معیاری دنیا (perfect world) ہے اور موجودہ زمینی دنیا، غیر معیاری دنیا (imperfect world)۔ جنتی دنیا کامل ہے اور موجودہ زمینی دنیا غیر کامل۔ جنتی دنیا ابدی ہے اور موجودہ زمینی دنیا غیر ابدی۔ جنتی دنیا ہر قسم کے خوف اور حُزن سے خالی ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ خوف اور حزن سے بھری ہوئی ہے۔ جنتی دنیا انعام(reward) کی دنیا ہے اور موجودہ دنیا آزمائش (test)کی دنیا۔

اِس منصوبے کے تحت، خدا نے انسان کو پیدا کرکے اس کو موجودہ زمینی دنیا میں بسایا۔ خدا نے انسان کو کامل آزادی دے دی۔ اُس نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ یہاں کسی پابندی کے بغیر رہے۔ اُس کو اختیار ہے کہ وہ اپنی آزادی کو چاہے تو غلط طور پر استعمال کرے اور چاہے تو درست طورپر استعمال کرے۔ ہر انسان جو زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کے ساتھ خدا کے دو غیر مَرئی (invisible) فرشتے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ وہ انسان کے ہر قول اور عمل کا مکمل ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔اِسی ریکارڈ کی بنیاد پر اس کے لیے اگلی دنیا میں جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔

جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔

ہر انسان کے ساتھ خدا کے غیر مرئی فرشتے لگے ہوئے ہیں اور وہ ہر لمحہ اس کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔ یہی انسان کا ٹسٹ ہے، اور اِسی ٹسٹ کے نتیجے کی بنیاد پر ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ وہ ٹسٹ یہ ہے کہ آدمی ہر موقع پر خدائی کی بڑائی کا اعتراف کرے، یعنی آدمی کے ضمیر نے جب اس کو ٹوکا تو اس نے ضمیر کی آواز کو مانا، یا اس کو نظر انداز کردیا۔ جب اس کے سامنے دلیل کے ساتھ ایک سچائی آئی تو وہ اس کے آگے جھک گیا، یا اس نے اس کے خلاف سرکشی دکھائی۔ جب اپنی انا اور سچائی کا مقابلہ ہوا تووہ اپنی انا کے پیچھے چلا، یا اُس نے سچائی کا اعتراف کیا۔

اِسی طرح لوگوں سے معاملہ کرتے ہوئے وہ انصاف پر قائم رہا، یا اپنے انٹرسٹ کی خاطر بے انصافی کرنے لگا۔ وہ صرف لوگوں کے سامنے اچھا بنا رہا، یا اپنی پرائیویٹ زندگی میں بھی وہ اچھائی پر قائم رہا۔ اس نے حق کو اپنا سپریم کنسرن بنایا، یا حق کے سوا کسی اور چیز کو وہ اپنا کنسرن بنائے رہا۔ اسی طرح یہ کہ جب اس کو اقتدار ملا تو وہ بگاڑ کا شکار ہوگیا،یا اقتدار کے باوجود اس نے اپنے آپ کو انصاف پر قائم رکھا۔ جب اس کو دولت حاصل ہوئی یا اس کو غریبی کا تجربہ ہوا تو دونوں حالتوں میں یکساں طورپر اس نے اعتدال کا ثبوت دیا، یا وہ اعتدال کے راستے سے ہٹ گیا۔ سماجی زندگی میں جب اس کو آگے کی سیٹ ملی، اس وقت وہ کیسا تھا، اور جب اس کو پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنا پڑا تب اس کا رویہ کیا تھا۔ اس نے اپنے جذبات اور اپنی خواہشوں کو اصول کا پابند رکھا، یا اصول سے ہٹ کر وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے لگا۔اِسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہر عورت اور مرد کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

موجودہ زمینی دنیا ایک محدود مدت کے لیے بنائی گئی ہے۔ اِس مدت کے پورا ہونے کے بعد یہاں پیدا ہونے والے تمام انسان، خدا کے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔ خدا، فرشتوں کے تیار کیے ہوئے ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ جس عورت یا مرد کا ریکارڈ بتائے گا کہ وہ زمینی دنیا میں جنتی کردار کے ساتھ رہا، اُس نے اپنی آزادی کو خدا کے مقرر کیے ہوئے دائرے کے اندر استعمال کیا، اور اِس طرح یہ ثابت کیا کہ وہ جنتی دنیا کے ماحول میں بسائے جانے کے قابل ہے، ایسے لوگوں کو جنت کے باغوں میں رہنے کے لیے منتخب کرلیا جائے گا۔ اور وہ تمام لوگ جو جنتی کردار کا ثبوت نہ دے سکے، اُن کو رد کر کے کائنات کے ابدی کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے گا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے مایوسی اور حسرت کی زندگی گزارتے رہیں اور کبھی اُس سے چھٹکارا نہ پاسکیں۔

انسان ایک ابدی مخلوق ہے، لیکن اُس کی زندگی دو دَوروں میں بٹی ہوئی ہے— موت سے پہلے کا دورِ حیات، اور موت کے بعد کا دورِ حیات۔ موت سے پہلے کا دور، تیاری کا دور (preparatory period) ہے، اور موت کے بعد کا دور، تیاری کے مطابق، اُس کا انجام پانے کا دور۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اِس حقیقت کو سمجھے، کیوں کہ اِسی کے اوپر اُس کے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔