معرفتِ قرآن (Marifat-e-Quran)

By
Maulana Wahiduddin Khan

معرفت قرآن

قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں ، جن میں فطرت کے مظاہر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مثلا پہاڑ کا حوالہ، بارش کا حوالہ ، وغیرہ۔ ان حوالوں کو علمی زبان میں مظاہر فطرت (phenomena of nature) کہا جاتا ہے۔مگر یہ حوالے اشارے کی زبان میں ہیں ۔ ان کی تفصیلی واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کو انسان کی دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس حیثیت سے انسانی تحقیق کے ذریعہ ان فطری مظاہر پر جو دریافتیں ہوئی ہیں ، وہ دریافتیں قرآن کی تفسیر کے لیے عملی ضرورت کے اعتبار سےاسی طرح اہم ہیں ، جس طرح تفسیر قرآن کے دوسرے متفقہ مصادر ۔ مثلاً شان نزول کی روایتیں ، وغیرہ۔

اس سلسلے میں یہاں قرآن کی دو آیتیں قابل مطالعہ ہیں ۔وہ آیتیں یہ ہیں : وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (27:92-93)۔ یعنی اور یہ کہ میں قرآن کو سناؤں ۔ پھر جو شخص راہ پر آئے گا تو وہ اپنے لئے راہ پر آئے گا اور جو گمراہ ہوا تو کہہ دو کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں ۔ اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے، وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے، اور تمہارا رب اس سےبے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔

قرآن کے اس بیان پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں قرآن کی معرفت کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں ، جن میں فطرت کے مظاہر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ذکر اشاراتی زبان میں ہے۔ ان مظاہر فطرت میں جو معرفت کی بات موجود ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان اشارات کی تفصیل معلوم کی جائے۔ یہ تفصیل خود قرآن میں مذکور نہیں ، وہ فطرت کے خارجی علم کا سائنسی مطالعہ کرنےسے معلوم ہوتی ہے۔ گویا کہ فطرت کا علم ان آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کی سائنسی تفسیرکی حیثیت رکھتا ہے۔

 سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا میں ضمیر ھا کا مرجع آیا ت ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ تائیدی معلومات (supporting data) ہیں ، جو مستقبل میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ دریافت ہوں گی، اور قرآن کی آیت میں جو چیز اشارے کی زبان میں کہی گئی ہے، اس کو انسان تفصیل کی زبان میں جان لے گا۔ قرآن کی اس آیت میں سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ سے مراد قرآنی بیان کا وہ سپورٹنگ ڈیٹا (supporting data) ہے، جو بعد کو دریافت ہوگا، اور فَتَعْرِفُونَهَا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ نشانیوں سے معرفت کے درجے میں واقف ہوجانا۔

مثلاً اس سلسلۂ بیان میں اوپر کی آیت میں پہاڑ کے بارے میں یہ کہا گیاہے : اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں ، مگر وہ چل رہے ہیں جیسے بادل چلتے ہیں ۔ یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو محکم کیا ہے۔ بیشک وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (27:88)۔ یہ آیت قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں پہاڑوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بظاہر وہ پہاڑ زمین پر ساکن نظر آتے ہیں ، مگر حقیقت کے اعتبار سےوہ زمین کے ساتھ چل رہے ہیں ، جس طرح تم بادلوں کو چلتے ہوئےدیکھتے ہو۔ یہ ایک فطرت (nature) کا واقعہ ہے۔ لیکن ساتویں صدی میں انسان اس کو نہیں جانتا تھا۔ بعد کو فلکیاتی مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو زمین کی اپنے محور (axis)پر گردش کرنے سے پیش آتا ہے۔ گویا موجودہ زمانے کی یہ فلکیاتی دریافت قرآن کی آیت کو معرفت کے درجے میں قابل فہم بنا دیتی ہے۔

 

قرآن کی سائنسی تفسیر

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (94:1)میں علم تشریح الابدان (anatomy)کا حوالہ ہے۔اور فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (50:22)میں علم امراضِ چشم کا بیان ہے، وغیرہ۔

قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہرگز کوئی سائنسی کتاب نہیں ۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (21:30)۔ یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ یہ بات پچھلے دور کا قاریٔ قرآن بھی ابتدائی طور پر جانتا تھا، مگر موجودہ زمانے کا قاریٔ قرآن جب اِس آیت کو سائنس کی نئی دریافتوں کے ساتھ ملا کرپڑھتا ہے تو وہ اس کی مزید تفصیل جان لیتا ہے۔اِس بنا پر قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔

اِسی طرح سورہ یٰس میں یہ آیت ہے: وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ(36:40)۔ یعنی اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں ۔ اِس آیت میں اجرامِ سماوی کی گردش کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے، اُسے قدیم زمانے کا قاریٔ قرآن بھی سمجھ سکتا تھا، لیکن آج کا ایک قاریٔ قرآن جب جدید سائنسی دریافتوں کو لے کر اِس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ مزید اضافے کے ساتھ اِس آیت کو سمجھنے لگتاہے۔ اِس طرح قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔

قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے تو قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔

 

دورِ معرفت

حضرت ابوذرغفاري كهتے هيں كه كوئي چڑيابھي اگر فضا ميں اپنے پروں كو پھڑپھڑاتي تھي تو رسول الله صلي الله عليه وسلم اس سے هم كو ايك علم كي ياد دلاتے تھے:وما يقلب طائر جناحيه في السماء إلا ذكر لنا منه علما  (الطبقات الكبرى لابن سعد 2/354)۔

بلاشبه چڑيا كا فضا ميں اڑنا قدرت الهي كي ايك عظيم نشاني هے۔ قديم زمانه ميں قدرت الهي كي اس نشاني (sign) كو صرف پراسرار عقيده كے تحت سمجھا جاسكتا تھا، مگر آج اس كو ايك سائنسي حقيقت كے طورپرسمجھا جاسكتا هے۔ اب سائنسي دور ميں هم كهه سكتے هيں كه آج جب ايك هوائي جهازفضا ميں اڑکر ايك جگه سے دوسري جگه پهنچتا هے تو اس كے لئے هوائي جهاز سے باهر ايك بهت بڑا انفراسٹركچر دركار هوتا هے۔ ٹيك آف (take off) كے مقام پر بھي، اور لينڈنگ (landing)كے مقام پر بھي۔

اِس انفراسٹركچر كے بغير كوئي جهاز ايك مقام سے دوسرے مقام پر نهيں پهنچ سكتا۔ مگر چڑيا كو فضا ميں اڑنے كے لئے كسي خارجي انفراسٹركچر كي ضرورت نهيں ۔ وه اپنے آپ ايك جگه سے اڑتي هے اور فضا ميں تيرتي هوئي دوسري جگه اتر جاتي هے۔ يه بلاشبه رب العالمين كي ايك عظيم نشاني هے۔

موجوده زمانه ميں سائنسي ترقيوں نے ايك بهت بڑا كام انجام ديا هے۔ اس نے چيزو ں كي حقيقت كو سمجھنے كے لئے ايك نيا فريم ورك ديا هے۔ اِس سائنسي فريم ورك كي بنا پر يه ممكن هوگيا هے كه جو چيز پهلے صرف پراسرار طورپر ماني جاتي تھي، اس كو اب مسلّمه عقلي بنياد(rationally accepted base) پر سمجھا جاسكتا هے۔ اس زماني تبديلي نے معرفت اور يقين كے لئے ايك نيا لامتناهي ميدان كھول ديا هے۔

اس جديد سائنسي دور كي پيشين گوئي قرآن ميں ساتويں صدي عيسوي ميں ان الفاظ ميں كي گئي تھي: سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ (فصلت53:) يعني آئنده هم ان كو اپني نشانياں دكھائيں گے، آفا ق ميں بھي اور ان كے اپنے اندر بھي، يهاں تك كه ان پر ظاهر هوجائے كه يه حق هے۔

 

ایمان بالغیب

قرآن كي سوره البقره ميں ارشاد هوا هے: الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (2:3)۔ يعني هدايت ياب لوگ وه هيں جو غيب پرايمان ركھتے هیں ۔ غيب پر ايمان كا معامله ساده طورپر صرف عقيدے كا معامله نهيں هے، وه براهِ راست طورپر هدايت كے معاملے سے جڑا هوا هے۔ جس آدمي كے اندر ايمان بالغيب كي صفت هو، اُسي كو هدايت ملے گي۔ جو آدمي ايمان بالغيب كي صفت سے محروم هو، اس كو كبھي هدايت ملنے والي نهيں ۔ جب تمام حقيقتيں غيب ميں هو ں تو اعلي حقيقت كي دريافت كا معامله اس سلسلے ميں استثنا (exception) نهيں هوسكتا۔

غيب كا لفظ عربي زبان ميں صرف غير مشهود (unseen)كے معني ميں نهيں هے۔ غيب كا لفظ ايسي چيز كے ليے بولا جاتا هے جو اگرچه غير مشهود هو، مگر وه غير موجود نه هو، يعني جب ايك چيز موجود هوتے هوئے دكھائي نه دے تو اس كے ليے غيب كا لفظ بولا جائے گا۔ الله كا معامله يهي هے۔ الله اگر چه بظاهر غيب ميں هے، مگر به اعتبار حقيقت ، وه تمام موجود چيزوں سے زياده موجود هے۔ اِس آيت ميں ايمان بالغيب سے اصلاً ايمان بالله مراد هے، مگر تبعاً اِس ميں وه تمام متعلقاتِ ايمان شامل هيں جن پر ايك مومن كے ليے ايمان لانا ضروري هے۔ مثلاً وحي، ملائكه، جنت اور جهنم، وغيره۔

اصل يه هے كه هم چيزوں كو دو طريقوں سے جانتے هيں — ايك، مشاهده (observation)، اور دوسرا استنباط (inference)۔ سائنسي اعتبار سے، يه دونوں طريقے يكساں طورپر معتبر هيں ۔ اعتباريت (validity) كے لحاظ سے، دونوں كے درميان كوئي فرق نهيں

موجوده زمانے ميں سائنس كو علمي مطالعے كا ايك معتبر ذريعه سمجھا جاتا هے۔ سائنس كے دو حصے هيں — ايك هے، نظري سائنس (theoretical science) ، اور دوسرا هے، فني سائنس (technical science)۔ سائنسي مطالعے كے مطابق، فني سائنس كا دائره بهت محدود هے۔ فني سائنس كے ذريعے چيزوں كے صرف ظواهر (appearance)كو ديكھا جاسكتا هے، ليكن تمام چيزيں جو بظاهر دكھائي ديتي هيں ، وه اپنے آخري تجزيے ميں غير مرئي (unseen) هوجاتي هيں ۔ مثلاً آپ پھول كو ديكھ سكتے هيں ، ليكن پھول كي خوشبو كو آپ نهيں ديكھ سكتے۔ پھول كي خوشبو كو كسي بھي خورد بين (microscope) يا دور بين (telescope) كے ذريعے ديكھنا ممكن نهيں ۔ حالاں كه جس طرح پھول كا وجود هے، اِسي طرح پھول كي خوشبو كا بھي وجود هے۔

سائنسي مطالعے كے مطابق، تمام چيزيں آخر كار ايٹم كا مجموعه هيں ، اور ايٹم اپنے آخري تجزيے ميں اليكٹران (electron) كا مجموعه هے۔ ايك سائنس داں نےاِس حقيقت كا ذكر كرتے هوئے لكھا هے كه پوري كائنات ناقابلِ مشاهده اليكٹران كا مجنونانه رقص (mad dance of electrons) هے۔ ايك اور سائنس داں نے كائنات كي ا ِسي غير مرئي حيثيت كي بنا پر كائنات كو امكان كي لهروں (waves of probability) سے تعبير كيا هے۔

اِس اعتبار سے يه كهنا درست هوگاكه صرف بظاهر غير مشهود خالق (Creator) هي غيب ميں نهيں هے، بلكه بظاهر مشهود تخليق (creature) بھي حالتِ غيب ميں هے۔ برٹش سائنس داں سرآرتھر ايڈنگٹن (وفات 1944:) نے اِس موضوع پر ايك كتاب لكھي هے، اس كتاب كا نام يه هے:

Science and the Unseen World by A. S. Eddington, Macmillan, 1929, pages 91

حقيقت يه هے كه اِس دنيا ميں هم جن چيزوں كو ديكھتے هيں ، هم اُن كے صرف ظاهر كو ديكھتے هيں ، چيزوں كي اصل حقيقت همارے ليے پھر بھي غير مشهود رهتي هے۔ يهي معامله خدا كا هے۔ خدا اپني ذات كے اعتبار سے، بظاهر غير مشهود هے، ليكن اپني تخليق كے اعتبار سے، خدا همارے ليے مشهود بن جاتا هے۔ تخليق كا موجود هونااپنے آپ ميں خالق كے موجود هونے كا ثبوت هے۔ كائنات اتني زياده بامعني (meaningful) هے كه خالق كو مانے بغير اس كي توجيهه سرے سے ممكن هي نهيں ۔

الله رب العالمين كا حالتِ غيب ميں هونا ايك اعتبار سے امتحان (test) كي مصلحت كي بنا پر هے۔ الله اگر عياناً دكھائي دے تو امتحان كي مصلحت ختم هوجائے گي۔ الله غيب ميں هے، اِسي ليے اُس پر ايمان همارے ليے ايك امتحاني پرچه (test paper) هے۔ الله اگر شهود ميں هوتا تو اس پر ايمان لانا انسان كے ليے اس كے امتحان كا پرچه نه بنتا۔ الله كا اور اس سے متعلق ايمانيات كا غيب ميں هونا انسان كے ليے ايك عظيم نعمت كي حيثيت ركھتا هے، كيوں كه اسي كي وجه سے انسان كے ذهن ميں  غور وفكر كا عمل (process of thinking)جاري هوتا هے۔ اِسي كي بنا پر ايسا هے كه همارے ليے تدبر كا ايك كبھي نه ختم هونے والا ميدان موجود هے۔ اِسي بنا پر ايسا ممكن هوتا هے كه هم الله كو دريافت (discovery) كے درجے ميں پائيں ۔ اِسي بنا پر يه ممكن هے كه خدا كي معرفت همارے ليے ايك خود دريافت كرده حقيقت (self-discovered reality) هو، اور بلاشبه يه ايك واقعه هے كه خود دريافت كرده حقيقت سےزياده بڑي كوئي اور چيز اِس دنيا ميں نهيں ۔ الله كا اور اُس سے متعلق ايمانيات كا انسان كے ليے غيب ميں هونا، انسان كے ليے ذهني ارتقا (intellectual development) كا ايك لامتناهي ذريعه (endless source) كي حيثيت ركھتا هے۔

هدايت كے ليے ايمان بالغيب كي شرط كوئي تحكُّمي (arbitrary) شرط نهيں هے، بلكه وه انسان جيسي مخلوق كے ليے ايك نهايت معقول شرط هے۔ كسي بھي بڑي حقيقت كو سمجھنے كے ليے هميشه بيدار شعور (awakened mind) دركار هوتا هے۔ جس انسان كا شعور بيدار هو، وهي اِس قابل هوتا هے كه وه كسي بڑي حقيقت كو سمجھ سكے۔ خدا بلا شبه سب سے بڑي حقيقت هے، اِس ليے خدا پر ايمان يا خدا كي معرفت حقيقي طورپر صرف اُس انسان كو حاصل هوگي جو مطالعه اور غوروفكر كے ذريعے اپنے شعور كو بيدار كرچكا هو۔ جس انسان كا شعور بيدار نه هو، وه گويا ذهني اندھے پن (intellectual blindness)ميں مبتلا هے، اور بلا شبه ذهني اندھے پن كے ساتھ خداوند عالم كي معرفت كسي انسان كو نهيں مل سكتي۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

دنیا میں کامیابی فطرت کے مطابق عمل کا دوسرانام ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ناکامی یہ ہے کہ آدمی فطرت کے نظام سے مطابقت نہ کر سکے ۔  

 

کائناتی عبادت

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (45:13)۔ یعنی اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے ۔ بےشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔

یہاں یہ سوال ہے کہ اس کائناتی تسخیر کا مقصد کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے ، کائنات کی وسعت لامحدود حد تک زیادہ ہے۔ اتنی بڑی کائنات انسان کی رہائش گاہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ انسان اتنی بڑی کائنات کو اپنا رزق بنا ئے۔ پھر اس طرح کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔

قرآن کی دوسری آیتوں ، مثلاً سورہ آل عمران کی آخری رکوع کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے۔ یہ غور کرنا ، لُبّ (عقل ) کے ذریعے ہوتا ہے ، نہ کہ کسی جسمانی عمل کے ذریعے۔ قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نشانیاں (signs) اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ لامحدود کائناتی نشانیاں ہیں جن پر عقل سے تدبر کرکے انسان اپنے رب کی کائناتی عبادت کرتا ہے۔

یہ صرف انسان ہے جو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ کائناتی نشانیوں میں تدبر (contemplation) کرے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاسکتا تھا۔ اب تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اللہ سے حبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ آخرت کی ابدی جنت کو اپنے تصور میں لاتا ہے۔یہی تدبر ہے، اور اسی تدبر کو کائناتی عبادت کہا گیا ہے۔

 

سب سے بڑا المیہ

انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفت اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چناں چہ قدیم زمانے میں معرفت اعلیٰ تک پہنچنے کے لئے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔

موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ لیکن موجودہ زمانے میں جب یہ آفاقی یا سائنسی فریم ورک ظہور میں آیا تو عین اُسی وقت تمام دنیا کے مسلمان سیاسی رد عمل کے نتیجے میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ اس طرح وہ مثبت سوچ سے محروم رہے۔

قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اللہ کی معرفت اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقینا معرفت اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگیے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔

 

نیچر ورشپ

توحید کیا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (41:37)۔یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔

قدیم زمانے میں نیچر ورشپ (nature worship) کا رواج چھایا ہوا تھا۔نیچر ورشپ کے کلچر میں قدیم انسان اتنا زیادہ مسحور ہوگیا تھا کہ وہ پیغمبروں کی لمبی کوشش کے باوجود اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس منفی تجربے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق، پیغمبر ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی تربیت کے ذریعہ ایک نئی قوم بنا ئی جائے۔ جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔

وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں ، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں ۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔

 اس حقیقت کا ذکر پیغمبر ابراہیم کی دعا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ (14:35-36)۔ یعنی اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا۔ اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح ختم ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر (فطرت) کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں ۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔

 

کائنات پر کنٹرول

قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(1:2)۔یعنی ساری حمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ یہ دراصل وہ کلمہ ہے جو آدمی کی زبان سے اُس وقت بے اختیارانہ طورپر نکل پڑتا ہے، جب کہ وہ کائنات کا مشاہدہ کرے۔ دور بینی مشاہدہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابلِ قیاس حد تک وسیع اور عظیم ہے۔ دوسری طرف، خورد بینی مطالعہ بتاتاہے کہ ناقابلِ مشاہدہ کائنات بھی اتنا ہی زیادہ عظیم ہے جتنا کہ قابلِ مشاہدہ کائنات۔ ساری ترقیوں کے باوجود ابھی تک انسان نہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ کرسکا ہے اور نہ وہ کائنات کی عظمتوں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔

یہ وسیع اور عظیم کائنات مسلسل طورپر متحرک ہے۔ اس کے اندر ہر لمحہ انتہائی با معنی قسم کی سرگرمیاں (meaningful activities)جاری ہیں ۔ مطالعہ مزید بتاتاہے کہ یہ اتھاہ کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (faultless universe) ہے۔ بے نقص حالت میں کائنات کا اِس طرح قائم رہنا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اِس نظام میں کوئی ادنیٰ تغیّر (alteration) نہ آئے۔ کائنات کے اندر ایک ادنیٰ تغیر بھی اس کے پورے نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔

جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابل قیاس حد تک وسیع ہونے کے باوجود آخری حد تک ایک ہم آہنگ (harmonious)کائنات ہے۔ وہ مکمل طورپر ایک واحد فورس سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے کامل طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔

کائنات کی اِس عالمی ہم آہنگی پر تمام سائنس داں حیرت زدہ ہیں ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس غیر معمولی ہم آہنگی کی توجیہہ کس طرح کی جائے۔ کائنات کے اندر یہ بے پناہ نظم اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کائنات ایک قادرِ مطلق خدا کے زیرانتظام ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پوری کائنات ایک لمحے کے اندر منتشر ہو کر رہ جائے۔ کائنات کے اندر یہ کامل ہم آہنگی صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اُس کا ناظم اپنے اندر قدرتِ کاملہ کی صفت رکھتا ہو۔

 

انسان کی بے اختیاری

برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے ليے بنائی نہیں گئی تھی:

It appears that man has strayed in a world which was not made for him.

مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔

It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he, its controller.

اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں ۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں ۔

انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے ليے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔

انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ اختیار مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں ۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔

انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے ليے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔

مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے ہر معاملے پر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے ليے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں ۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے ليے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں ۔

جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، فطری طور پر اس کا رسپانس (response) وہی ہوگا، جس کا ذکر قرآن کے ابتدا میں ان الفاظ میں ا ٓیاہے:الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (1:2)۔ یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے ليے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میں مومن کہا گیا ہے۔

 

کاڈ پارٹکل

گاڈ پارٹكل (God Particle) كيا هے۔ گاڈ پارٹكل كا مطلب خدائي ذره نهيں ، گاڈ پارٹكل دراصل ايك سائنسي مسئلے كي سائنسي تشريح (scientific description) هے۔ گاڈ پارٹكل كا تصور دراصل خدا كا مشيني بدل (mechanical substitute of God) هے۔ گاڈ پارٹكل كي دريافت كا براهِ راست طورپر مذهبي عقيدے سے كوئي تعلق نهيں ۔

God Particle: The Standard Model of physics is used by scientists to explain the building blocks of the universe. According to this model the universe began with a big bang. The Big Bang theory is widely accepted within the scientific community. This theory states that 13.7 billion years ago the universe was in the shape of a very dense and compact cosmic ball. Then an explosion occurred in this compact ball, and all its constituents started flying apart with the speed of light. All the particles released from this cosmic ball were drifting apart from each other at the speed of light, which is the maximum speed of any object in the universe. Everything in the universe is made up of atoms. These atoms are in turn made up of electrons and protons. But, after the explosion of the Big Bang, electrons and protons were speeding away from each other. These particles could bind together to form atoms only if their speed was decreased. And their speed could be decreased only by being given mass. Therefore, the Higgs boson is so important. Higgs boson is a subatomic particle. Physicists say its job is to give mass to the particles that make up atoms. Atoms then combined to form molecules, then molecules combined to form compounds, and these compounds gave rise to all the constituents of the universe as it exists today. If the Higgs Boson were taken away, the particles which make up atoms, would have zipped through the cosmos at the speed of light, unable to join to form the atoms that make up everything in the universe, from planets to people. Then all creation would be unthinkable.

4 جولائي 2012 كو سائنس دانوں نے ايك دريافت كا اعلان كيا۔ اس كو نيرڈسكوري (near discovery)كهاجاتاهے۔ يه دراصل ايك سب ايٹمك پارٹكل (subatomic particle) كي دريافت هے جس كے بارے ميں پچھلے تقريباً 50 سال سے ریسرچ هورهي تھي۔ اِسي درميان 1993 ميں ايك امريكي سائنس داں ليان ليڈرمين (Leon Lederman) نے ايك كتاب تيار كي۔ اس كا ٹائٹل اس نے گاڈ ڈيم پارٹكل (Goddamn Particle)تجويز كيا۔اُس وقت تك يه پارٹكل ايك پراسرار پارٹكل بنا هوا تھا۔ليان ليڈر مين اپني كتاب ميں اِس پارٹكل كا كوئي واضح تصور نهيں دے سكا تھا۔ اس نے جھنجھلاهٹ ميں اپني اِس كتاب كا نام ’گاڈڈيمن پارٹكل‘ ركھ ديا۔’گاڈڈيمن‘ ايك بگڑا هوا نام هے۔ اردو ميں كهتے هيں خدا كي لعنت۔ خراب موسم هو تو كها جائے گا،گاڈ ڈيمن ويدر (Goddamn weather)۔ پبلشر كو كتاب كا يه نام پسند نهيں آيا۔ اس نے بطور خود ’ڈيمن‘ كا لفظ نكال ديا اور كتاب كو ’گاڈ پارٹكل‘ كے نام سے چھاپ ديا۔ اُس وقت سے عوامي طورپر اِس ذرے كو گاڈ پارٹكل كهاجانے لگا۔ تاهم سائنس دانوں كے نزديك اِس ذرّے كا نام هگس بوزان (Higgs Boson) هے۔

بوزان كا لفظ دراصل ’بوس‘ كے نام سے ليا گيا هے۔ ستيندرناتھ بوس (SN Bose) ايك انڈين سائنس داں تھے۔ ان كي وفات 1974ميں هوئي۔ انھوں نے 1924 ميں ’سب ايٹمك پارٹكل‘(behavior of subatomic particles) كے بارے ميں ايك پيپر تيار كيا تھا۔ اس پيپركو البرٹ آئن سٹائن (وفات 1955:) اور دوسرے سائنس دانوں نے بهت پسند كيا تھا۔ اُس وقت سے اِس پارٹكل كا نام بوزان (boson)پڑ گيا هے۔ اِس مخصوص پارٹكل كو ’بوزان‘ كا نام سب سے پهلے برٹش سائنس داں پال ڈيراك (Paul Dirac) نے ديا تھا۔ اسكاٹ لينڈ كے ايك سائنس داں پيٹر هگس (Peter Higgs) نے 1964 ميں اِس موضوع پر زياده واضح انداز ميں ايك مفصل پيپر تيار كيا ، جس كا ٹائٹل يه تھا:

Broken Symmetries and the Masses of Gauge Bosons

اس وقت سے زير ِ تلاش پارٹكل كو هگس بوزان كهاجانے لگا۔ سائنسي نقطه نظر سے هگس بوزان كي اهميت بهت زياده تھي، اِس ليے وه ساري دنيا كے سائنس دانوں كے ليے تلاش كا موضوع بن گيا۔ آخر كار 1998 ميں اِس موضوع كي تحقيق كے لئے ايك خصوصي سرنگ بنائي گئي۔ اِس سرنگ كو ايك يورپين اداره نے تيار كيا تھا۔ اس كا نام يه هے:

European Organization for Nuclear Research

اِس سرنگ كا نام يه ہے — لارج هيڈرون كولائڈر(Large Hadron Collider) ۔ اِس پروجيكٹ ميں دنيا كے ايك سو ملك شريك هوئے اور 10 هزار سائنس دانوں اور انجينئروں نے اِس ميں كام كيا۔ 4 جولائي 2012 كو اس پروجيكٹ كے نتيجه (result) كا اعلان كيا گيا۔ سائنس دانوں نے اعلان كيا كه اِس تحقيق ميں وه ’نير ڈسكوري‘ تك پهنچ گئے هيں ۔

هگس بوزان‘دراصل فزكس كے اسٹينڈرڈ ماڈل كا ايك گم شده پارٹكل هے جو اِس بات كي توجيهه كرتا هے كه ابتدائي انفجار كے بعد كائنات كيسے وجود ميں آئي۔ فزكس كے اسٹينڈر ماڈل كو سائنس داں كائنات كے بلڈنگ بلاك (building block) كي توجيهه كرنے كے ليے استعمال كرتے هيں ۔ اِس ماڈل كے مطابق، كائنات كا آغاز بگ بينگ سے هوا۔ بگ بينگ كا نظريه سائنس دانوں كے نزديك عمومي طورپر تسليم كرليا گيا هے۔ يه نظريه بتاتا هے كه 13 بلين سال پهلے كائنات ايك بهت بڑے كاسمك بال كي صورت ميں تھي۔ كائنات كے تمام پارٹكل اس كے اندر شدت سے باهم پيوست تھے۔ پھر اِس كاسمك بال ميں ايك انفجار هوا اور اس كے تمام اجزا چاروں طرف روشني كي رفتار سے سفر كرنے لگے۔ روشني كي رفتار معلوم طورپر سب سے زياده هے جو ايك لاكھ 86 هزار ميل في سكنڈ هوتي هے۔ كاسمك بال سے جو پارٹكل خارج هوئے، وه نهايت تيزي كے ساتھ ايك دوسرے سے دور بھاگ رهے تھے۔هر چيز جو اِس كائنات ميں هے، وه ايٹم سے بني هے۔ يه تمام ايٹم اليكٹران اور پروٹان كے ملنے سے بنتے هيں ۔ ضرورت تھي كه يه تمام پارٹكل باهم مليں ، ليكن بگ بينگ كے انفجار كے بعد اليكٹران اور پروٹان بھاگ رهے تھے، كيوں كه اُن ميں كميت (mass) نهيں تھي۔ يه ذرات باهم مل كر ايٹم كو صرف اُس وقت بنا سكتے تھے جب كه ان كي رفتار كم هو، اور ان كي رفتار صرف اُس وقت كم هوسكتي تھي جب كه ان كے اندر كميت پيدا هوجائے۔

هگس بوزان كي اهميت يه هےكه وه اِس سائنسي مسئلے كا جواب فراهم كرتاهے۔ هگس بوزان ايك سب ايٹمك پارٹكل كا نام هے۔ سائنس دانوں كے مطابق، هگس بوزان كا كام يه هے كه وه ايٹم كے پارٹكل كو كميت عطا كرے۔ اس كے بعد هي يه ممكن هوتا هے كه ايٹم مل كر مالي كيول (molecule) بنائيں اور پھر مالي كيول كے بننے سے كمپاؤنڈ بنے۔ پھر كمپاؤنڈ كے ملنے سے وه تمام چيزيں بنتي هيں جوكه اِس وقت كائنات ميں موجود هيں ۔اگر هگس بوزان نه هوتے تو پارٹكل ميں كميت پيدا نه هوتي جو كه باهم مل كر ايٹم بناتے هيں ۔ اِس كا نتيجه يه هوتا كه تمام پارٹكل روشني كي رفتار سے خلا ميں سفر كرنے لگتے، پھر يه ناممكن هوجاتا كه وه باهم مل كر ايٹم بنائيں اور اس كے بعد كائنات كي تمام چيزيں وجود ميں آئيں ، ستاروں سے لے كر سياروں تك اور غير ذي روح اشيا سے لے كر ذي روح اشيا تك۔

قرآن كي تصديق

قرآن کی ایک آیت هے:أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا(4:82)۔ يعني كيا يه لوگ قرآن پر غور نهيں كرتے، اگر يه (قرآن) الله كے سوا كسي اور كي طرف سے هوتا تو وه اُس ميں بهت زياده اختلاف پاتے۔

قرآن ساتويں صدي عيسوي كے ربع اول ميں اترا۔ يه سائنس كي دريافتوں سے بهت پهلے كا زمانه تھا۔ اِس قبل دريافت زمانے ميں قرآن كي اِس آيت كا اترنا گويا يه دعوي كرنا تھا كه بعد كي دريافت شده حقيقتيں قرآن كے عين مطابق هوں گي، قرآني بيانات اور دريافتوں كے درميان كبھي عدم مطابقت (inconsistency) نه هوگي۔ اِس طرح يه واقعه اِس بات كي تصديق هوگا كه قرآن عالم الغيب كي كتاب هے، كيوں كه عالم الغيب كے سوا كوئي بھي پيشگي طورپر اِن حقيقتوں كو نهيں بتا سكتا تھا۔

اِس اعتبار سے غور كيا جائے تو معلوم هوتا هے كه بگ بينگ كا تصور اور هگس بوزان كا تصور پيشگي طورپر قرآن ميں موجود تھا۔ اِس سلسلے ميں قرآن كي سوره الانبياء كي درج ذيل آيت كا مطالعه كيجئے: أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ (21:30)۔ يعني كيا انكار كرنےوالوں نے نهيں ديكھا كه آسمان اور زمين دونوں بند تھے، پھر هم نے اُن كو كھول ديا۔ اور هم نے پاني سے هر جان دار چيز كو بنايا۔ كيا پھر بھي يه لوگ ايمان نهيں لاتے۔

قرآن كي اِس آيت ميں تخليق كے تين مرحلوں كا ذكر هے — پهلے مرحلے كو ’رتق‘ كهاگيا هے۔ رتق كا مطلب هےمنضم الأجزاء يعني كائنات كے تمام پارٹكل كا باهم جڑاهوا هونا۔ اِس ميں كاسمك بال كي طرف اشاره ملتا هے۔ دوسرے مرحلے كو قرآن ميں ’فتق‘ سے تعبير كيا گياهے۔ فتق كا مطلب هے: الفصل بين المتصلين، يعني باهم ملي هوئي چيزوں كا ايك دوسرے سے الگ هوجانا۔ اس ميں بگ بينگ كے واقعے كي طرف اشاره هے۔ اِس كے بعد تيسرے مرحلے ميں پاني (الماء) كے بننے كا ذكر هے۔ يهاں پاني كا ذكر علامتي طورپر هے، يعني پاني اور دوسري تمام چيزيں ۔

پاني ايك جوهري ماده(substance) هے۔ اِس طرح كے بهت سے جوهري مادّے كائنات ميں پائے جاتے هيں ۔ پاني هائڈروجن كے دو ايٹم اور آكسيجن كے ايك ايٹم كے ملنے سے بنتا هے۔ يهي معامله دوسري تمام مادّي چيزوں كا هے۔ هر چيز ايٹم كے ملنے سے بني هے، اور ايٹم اُس وقت بنا جب كه اس كے پارٹكل ميں كميت (mass) پيدا هوئي۔ اِس طرح، اِس آيت ميں پاني كا ذكر كركے اِس نوعيت كي دوسري تمام مادي چيزوں كي طرف اشاره كردياگيا هے، يعني ’فتق‘كے واقعے كے بعد تمام پارٹكل ميں كميت كا پيداهونا اور پھر پارٹكل كا مجتمع هو كر تمام چيزوں كا وجود ميں آنا۔

قرآن، سائنس كي كتاب نهيں هے، البته قرآن ميں مظاهر فطرت كے بهت سے حوالے دئے گئے هيں جو كه سائنس كا موضوع تحقيق هيں ۔ قرآن كا مقصد صرف يه هے كه فطرت ميں موجود آيات (signs) كا حواله دے كر قرآن كي آئڈيالوجي كو علمي طورپر ثابت كرنا۔ اِس طرح قرآن ميں فطرت كے بهت سے مظاهر كے متفرق حوالے (fragmentary references)دئے گئے هيں ۔ اِن حوالوں كے بارے ميں قديم زمانے ميں كچھ معلوم نه تھا۔ گويا كه قرآن ميں يه حوالے مستقبل كي انساني نسلوں كو شامل كرتے هوئے دئے گئے تھے۔ اِس طرح انسان كے ليے يه ممكن هوگيا كه وه قرآن كے اِن حوالوں كا تقابل بعد كے حالات سے كركے قرآن كي صداقت كي تصديق حاصل كرے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

چودھویں صدی ہجری اسلام کی پو ری تاریخ میں پہلی صدی تھی جب کہ یہ امکان پیدا ہوا تھا کہ اسلام کی دعوت تو حید کی یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جائے جب کہ اس سے پہلے صرف عُسر (سختی) کے حالات ہی میں اس کو انجام دینا ممکن ہو تا تھا۔ اسی طرح یہ واقعہ بھی پہلی بار ہوا کہ خود انسان کے اپنے مسلّمات کے مطابق اسلام کا دیگر ادیان کے مقابلہ میں واحد معتبر دین ہو نا ثابت کیا جائے اوراس کو اعلیٰ ترین علمی شواہد سے اس طرح مد لّل کردیا جائے کہ کسی کے لئے انکار کا عذر باقی نہ رہے۔ نیز اس صدی میں پہلی بارتیز رفتار سواریاں اور تبلیغ کے جدید ذرائع انسان کے قبضہ میں آئے جن سے کام لے کر اسلام کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر پھیلایا جا سکتا تھا۔ مگر جو قومیں ان خدائی برکتوں کو ہماری طرف لارہی تھیں وہ اتفاقی حالات کے نتیجہ میں ہماری سیاسی حریف بن گئیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری مسلم دنیا مغرب کے بارے میں مخالفانہ نفسیات کاشکار ہو گئی، مغرب کی طرف سے آنے والے انقلاب کا افادی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ حالاں کہ خدا نے مسلمانوں کے لئے ایسا دروازہ کھولا تھا کہ خود مغرب کے پیدا کردہ حالات دعوتی مقاصد میں استعمال کر کے مغرب کو نظریاتی طور پر فتح کر سکتے تھے۔ اگر مسلمانوں نے بر وقت اس دانشمندی کا ثبوت دیا ہو تا تو چودھویں صدی ہجری میں وہ واقعہ دوبارہ نئے انداز سے پیش آتا جو آٹھویں صدی ہجر ی میں تاتاری فا تحین کے خادمان اسلام بن جا نے کی صورت میں پیش آچکاہے۔

 

خدا کی عظمت

خدا کی معرفت ایمان اور اسلام کی اساس (basis) ہے۔ جتنی اعلیٰ معرفت، اتنا ہی اعلیٰ ایمان۔ اِس معرفت کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آپ خدا کو اس کے کمالِ عظمت کے ساتھ دریافت کریں ۔ ایک بندہ جب خدا کو اس کی عظمتوں کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (8:2) ۔ یعنی خدا کی یاد سے اُن کے دل دہل اٹھتے ہیں ۔جدید فلکیاتی سائنس (modern astronomy) کا اِس معاملے میں ایک مثبت کنٹری بیوشن (contribution) یہ ہے کہ اس نے خالق کی ناقابلِ قیاس عظمت کا ادراک کرنے کے لیے ایک فریم ورک (framework) دے دیا ہے۔ اِس فریم ورک کی مدد سے انسان خدا وند ذوالجلال کی ناقابلِ بیان عظمت کا ایک تصور اپنے ذہن میں لاسکتا ہے۔

جدید سائنس کئی سوسال سے فلکیات کامطالعہ کررہی ہے۔ 1608ء میں دور بین (telescope) کی ایجاد ہوئی، اور 1609میں پہلی بار اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (Galileo) نے خلا کا دوربینی مشاہدہ کیا۔ یہ فلکیاتی مشاہدہ برابر بڑھتا رہا۔ پچھلے زمانے میں دور بینی رصد گاہ کسی پہاڑ پر نصب کی جاتی تھی۔ اب خلائی سائنس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب انسان نے خلائی رصد گاہ (space observatory) بنالی ہے۔ اِس کے ذریعے کائنات کا مشاہدہ اتنی زیادہ دور تک کرنا ممکن ہوگیاہے جس کی دوری کو صرف سالِ نور (light years) کی اصطلاح میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اِس طرح خدا کی عظمت کو تصور میں لانے کے لیے ایک نیا وسیع تر دائرہ انسان کے علم میں آگیا ہے۔

اس سلسلے میں ایک تازہ ترین فلکیاتی دریافت (discovery) سامنے آئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ خلا میں نصب الکٹرانک دور بینوں کے ذریعے ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت ہوا ہے۔ یہ بلیک ہول پورے نظامِ شمسی (solar system) کو نگل سکتا ہے۔ نظام شمسی کا دائرہ کتنا زیادہ بڑا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے اِس نظام کا بعید ترین سیارہ پلوٹو (Pluto) ہے جو سورج کے گرد بیضوی دائرے میں چکر لگا رہاہے۔ یہ دائرہ ساڑھے سات بلین میل پر مشتمل ہے۔

مذکورہ بلیک ہول اب تک کے دریافت کردہ تمام بلیک ہول سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کا حجم 6 بلین سورج سے بھی زیادہ ہے۔ اِس بلیک ہول کا نام M 87 رکھا گیاہے۔ یہ بلیک ہول ہماری کہکشاں (Milky Way)  سے 50 ملین سال نور کی دوری پر واقع ہے:

This black hole can eat the solar system: Astronomers have discovered what they say is the biggest ever black hole which weighs the same as 6.8 billion suns and could swallow our entire solar system. According to the scientists, the black hole, identified as M87, is as large as the orbit of Neptune and is by far the largest and most distant galaxy in the nearby universe. As a point of comparison, the black hole at the Centre of the Milky Way is 1,000 times smaller than this one which has been observed some 50 million light years away. (The Times of India, New Delhi, Tuesday, January 18, 2011, Page 19)

یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات معرفتِ الٰہی کے لیے عظیم خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہ واقعات خدا کی قدرت کو ناقابلِ قیاس حد تک عظیم بنادیتے ہیں ۔ جو آدمی اِن واقعات پر سوچے گا، اس کا دل خدا کی عظمت کے تصور سے دہل اٹھے گا، اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ واقعات ایک انسان کو اپنے بارے میں انتہائی عجز اور خدا کے بارے میں انتہائی قدرت کی یاد دلاتے ہیں ۔ اِن واقعات پر غور کرنا بلاشبہ اعلیٰ معرفت کے حصول کا کائناتی خزانہ ہے۔

معرفت یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنی محدودیت (limitation) کو جانے اور دوسری طرف وہ خدا کی لامحدودیت کو دریافت کرے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں جو کیفیت آدمی کے اندر پیداہوتی ہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔ یہ معرفت جس کو حاصل ہو جائے، اس کے لیے گویا دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کے دروازے کھل گئے۔ یہی وہ خوش قسمت انسان ہے جس کے بارے میں آخرت میں کہاجائے گا — تم جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہوجاؤ۔ آج کے بعد تمھارے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔

 

دو انتظامات

انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی عنایات کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ عنایتیں بنیادی طورپر دو قسم کی ہیں ۔ اُن میں سے ایک کو قرآن میں احسنِ تقویم (التین4:) کہاگیا ہے۔ اور دوسری عنایت کے لیے قرآن کی اِس آیت میں اشارہ ہے: وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (14:34) یعنی خدا نے تم کو وہ سب کچھ دیا جو تم نے اُس سے مانگا۔

احسنِ تقویم کو قرآن میں دوسری جگہ صورتِ احسن (الزمر64:) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہایت موزوں جسم دیاگیا ہے۔ انسانی جسم بہت سے آرگن (organs) یا نظامات کا مجموعہ ہے۔ مثلاً دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، سانس لینے کا نظام، بولنے کا نظام، ہضم کا نظام، گردشِ خون کا نظام، حرکت کا نظام، وغیرہ۔ انسان کی عمر جب بڑھتی ہے تو ایک ایک نظام معطّل ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ سارے نظام معطل ہوجاتے ہیں اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

دوسرا انتظام وہ ہے جو انسانی وجود کے باہر خارجی دنیامیں کیا گیا ہے۔ مثلاً روشنی اور حرارت کا نظام، ہوا کانظام، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، پانی اور بارش کا نظام، زراعت کا نظام، وغیرہ۔یہ خارجی نظامات انسانی زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں ۔ یہ نظامات اگر جزئی یا کلی طورپر معطل ہوجائیں تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔

مذکورہ تقسیم میں دوسرے نظام کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح پہلے نظام کو آرگن سپورٹ سسٹم (organ support system)کہا جاسکتا ہے۔ اِنھیں دونوں انتظامات پر انسان کی زندگی قائم ہے۔ اِن دونوں انتظامات کو گہرائی کے ساتھ جاننا، آدمی کے لیے معرفت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں شکر کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اِس سے آدمی کے اندر تمام مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں ۔ مثلاً تواضع، سنجیدگی، اعترافِ حق، وغیرہ۔

 

گرہن، خدائی معجزہ

گرہن (eclipse)ایک فلکیاتی ظاہرہ ہے۔ اکلپس (eclipse) کا لفظ قدیم یونانی زبان کے لفظ (ékleipsis) سے ماخوذ ہے۔ خلا میں گرہن کے مختلف واقعات ہوتے رہتے ہیں ، لیکن معروف طورپر دو قسم کے گرہن کو گرہن کہا جاتا ہے۔ ایک سورج گرہن (Solar eclipse) اور دوسرا چاند گرہن (Lunar eclipse) ۔ عام طورپر سورج گرہن سال میں دوبار یا تین بار ہوتاہے اور چاندگرہن سال میں دو بار واقع ہوتا ہے۔ چاند گرہن چند گھنٹوں تک رہتا ہے، جب کہ کامل سورج گرہن کچھ منٹ تک رہتا ہے:

A lunar eclipse lasts for a few hours, whereas a total solar eclipse lasts for only a few minutes at any given place.

گرہن کا یہ واقعہ محکم فلکیاتی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت پہلے ان کی قطعی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر 2010 میں 15جنوری کو سورج گرہن ہوا۔ علماءِ فلکیات (astronomer) کی پیشگی خبر کے مطابق، پہلے سے لوگوں کو اِس گرہن کا علم تھا۔

گرہن کیا ہے۔ گرہن دراصل سایہ پڑ جانے کا دوسرا نام ہے۔ گردش کے دوران جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان آجائے تو سورج اس آڑ کی بنا پر جزئی یا کلّی طورپر دکھائی نہیں دے گا۔ اِسی کا نام سورج گرہن ہے۔ اور جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان آجائے تو چاند پر جزئی یا کلی طورپر زمین کا سایہ پڑجائے گا۔ اِسی کا نام چاند گرہن ہے:

Eclipse: In astronomy, partial or complete obscuring of one celestial body by another as viewed from a fixed point. Solar eclipses occur when shadow of Moon falls on Earth, which happens two or three times per year. Lunar eclipses occur when shadow of Earth falls on Moon; at most two seen per year.

قدیم زمانے میں گرہن کے بارے میں عجیب قسم کے توہماتی عقائد قائم تھے۔ مثلاً کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آسمان میں ایک بہت بڑا اژدہا ہے، وہ کبھی غصہ ہو کر چاند کو نگل لیتاہے، اس وقت چاندگرہن پڑتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین پر جب کسی بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی کا نام سورج گرہن ہے، وغیرہ۔

اِس قسم کے توہماتی تصورات ہزاروں سال تک قوموں میں رائج تھے، یہاں تک کہ دور بین (telescope) ایجاد ہوئی۔ گلیلیو نے پہلی بار 1609 عیسوی میں دور بین کے ذریعہ سیاراتی نظام (planetary system) کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بین کو ترقی ہوئی اور مزید مشاہدات كیے گئے۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا تعلق مذکورہ قسم کے توہماتی تصورات سے نہیں ہے، یہ تمام تر ایک فلکیاتی مظہر ہے۔وہ صرف اس لئے واقع ہوتا ہے کہ گردش کے دوران دو خلائی اجسام (celestial bodies) کے درمیان تیسرا جسم آجاتا ہے۔ اس کی بنا پر وہاں ایک آڑ قائم ہوجاتی ہے۔ اسی آڑ کی بنا پر پیش آنے والے واقعہ کا نام گرہن ہے۔

قدیم زمانے میں گرہن صرف ایک توہماتی (superstitious)واقعہ بنا ہوا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی مشاہدہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ سادہ نوعیت کا ایک خلائی واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں کوئی پُراسراریت شامل نہیں ۔ گرہن کے موضوع پر موجودہ زمانے میں کثیر تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں :

Eclipses of the Sun and Moon (1937) by Sir F.W. Dyson

Eclipse Phenomena in Astronomy (1969) by F. Link

Eclipses in the Second Millennium BC (1954) by G. van Bergh

انسانی تاریخ میں گرہن کے تعلق سے تین دور ہیں ۔ گرہن کی تاریخ کا پہلا دور وہ ہے جب کہ اس معاملے میں توہماتی عقائد کا رواج تھا۔ گرہن کا دوسرا دور اسلام کے ذریعہ انسان کے علم میں آیا۔ گرہن کی تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جوموجودہ زمانے میں دور بین کی ایجاد (1608ء) کے بعد شروع ہوا۔

اسلام نے گرہن کے تعلق سے جو بات بتائی، اس کے مطابق، گرہن کا تعلق نہ توہمات سے ہے اور نہ وہ صرف ایک مادی نوعیت کا فلکیاتی واقعہ ہے، بلکہ وہ خالقِ کائنات کے باشعور تخلیقی نظام کا ایک حصہ ہے۔ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر ہے، وہ انسان کے لیے خداوند ِ عالم کا ایک تعارف ہے، گرہن خاموش زبان میں خدا کی حکیمانہ تخلیق کا اعلان کررہا ہے۔

ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10 ہجری 632)ء ( میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اتفاق سے اسی دن سور ج گرہن پڑا۔ قدیم توہماتی رواج کے مطابق، مدینہ کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ سورج گرہن پیغمبر کے بیٹے کی موت کی وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناپسند ہوئی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی۔ آپ نے فرمایا:إن الشمس والقمر لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتموها فصلوا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1042)۔یعنی سورج اورچاند میں کسی انسان کی موت سے گرہن نہیں لگتا، نہ ہی کسی کی زندگی سے۔ وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہے۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو۔

’’چاند گرہن اور سورج گرہن خدا کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں ‘‘— یہ کوئی سادہ بات نہیں ۔ یہ دراصل اس معاملے کے اصل معنوی پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن جس طرح ہوتا ہے، اس پر غور کیا جائے تو وہ آدمی کے لئے خدا کی دریافت کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سادہ طورپر فلکیاتی نشانی کے بجائے، زیادہ گہرے معنوں میں خدائی نشانی ثابت ہوگا۔

چاند گرہن یا سورج گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہے، اس کے پیچھے خالقِ کائنات کی معجزانہ صنّاعی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، گرہن اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ تین خلائی اجسام، زمین، چاند، سورج،گردش کرتے ہوئے ایک سیدھ میں آجائیں ۔ تینوں کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چاند کو اگر سرسوں کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اس کے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر ہوگی اور سورج ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔

یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والا ان کو یکساں سائز میں دیکھنے لگے۔ جب تینوں کے درمیان چاند ہو تو سورج گرہن واقع ہوگا۔ اور جب ان کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن واقع ہوگا۔ یہ وسیع خلا میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ کا معاملہ ہے:

It is a uniquely well-calculated positioning of three moving bodies, highly unequal in size, in the vast space.

گرہن (eclipse)اُس وقت واقع ہوتا ہے جب کہ وسیع خلا کے تین اَجرام، زمین، چاند، سورج، انتہائی متناسب دوری کے ساتھ بالکل ایک سیدھ میں آجائیں ۔ یہ ایک انتہائی حیرت ناک ظاہرہ ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا بریٹانکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے — ایک انتہائی غیر معمولی توافق کی بنا پر سورج اور چاند کا سائز اور دوری ایسے ہو جاتے ہیں کہ زمین سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے گویا کہ دونوں بالکل برابر ہوں :

By a remarkable coincidence, the sizes and distances of the Sun and Moon are such that they appear as very nearly the same angular size as the earth. (EPB 6/189)

گرہن کے اِس عجیب واقعے کو مقالہ نگار نے محض اتفاق (coincidence) قرار دیا ہے۔ مگر یہ بالکل غیر منطقی بات ہے۔ اِس قسم کا نادر اتفاق اولاً تو ممکن نہیں اور بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو وہ بمشکل ایک بار ہوسکتا ہے، لیکن فلکیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ گرہن کا یہ واقعہ لاکھوں برس سے اِسی طرح پابندی (regularity)کے ساتھ ہر سال پیش آرہا ہے۔ اِس قسم کی کامل باضابطگی ہر گز اتفاقاً نہیں ہوسکتی۔ یقینی طورپر وہ ایک قادرِ مطلق ہستی کی مسلسل کار فرمائی کے باعث ہی ممکن ہے۔ اتفاق کا لفظ اِس حیرت ناک فلکیاتی ظاہرے کی توجیہہ کے لیے آخری حد تک ناکافی ہے۔

گرہن، خلا میں پیش آنے والے اُن بے شمار معجزاتی واقعات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں :ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (36:38)۔ یعنی یہ عزیز اور علیم خدا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے:

That is the disposition of the Almighty, the All Knowing.

وسیع خلا میں بے شمار اجزا ہیں ۔ یہ تمام اجزا مکمل طورپر خداوند ِ عالم کے کنٹرول میں ہیں ۔ سیاروں اور ستاروں کی گردش انتہائی حد تک خدا کے مقرر ضابطہ کی پابندی میں ہوتی ہے۔ شمسی نظام اِسی کا ایک نمونہ ہے جس کے اندر ہماری زمین واقع ہے۔ یہ نظام اپنی خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اِس کائنات کا ایک قادرِ مطلق خدا ہے جو وسیع خلا میں اُن پر کامل کنٹرول كیے ہوئے ہے۔

اِنھیں معجزاتی واقعات میں سے ایک گرہن کا واقعہ ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن ہمارے قریبی مشاہدے کی چیزیں ہیں ۔ لوگ اُس کو عجوبہ کے طورپر یا زیادہ سے زیادہ ایک فلکیاتی کورس کے طورپر دیکھتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں ، وہ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے۔ اِسی لیے اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب گرہن واقع ہو تو لوگ خدا کی عبادت کریں ۔ اِس عبادت کو صلاۃِ کُسوف اور صلاۃِ خُسوف کہاجاتا ہے۔ گرہن کے وقت خدا کی عبادت کرنا اِس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک خدائی ظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

 سائنس، سادہ طور پر ، عالم حقائق کے مطالعہ کا نام ہے۔ قرآن میں یہی صفت اہل ایمان کی بتائی گئی ہے۔ کہ وہ زمین و آسمان کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں (آل عمران191:)۔ اس اعتبار سے ایک سائنس داں وہی کام کرتا ہے جو ایک مومن کرتا ہے۔ تا ہم دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ سائنس داں کا عمل صرف تحقیق کے لئے ہوتا ہے اور مومن کا عمل عبرت کے لئے۔ سائنس داں کے پیش نظر علم برا ئے علم ہو تا ہے اور مومن کے پیش نظر علم برا ئے مقصد ۔ سائنس داں اضافۂ علم پر مطمئن ہو تا ہے اور مومن اضافۂ ایمان پر (اسلام پندرھویں صدی میں )۔

 

کشیٔ نوح کی دریافت

حضرت نوح ابتدائی دور کے پیغمبر ہیں ۔ وہ عراق کے علاقہ میسو پوٹامیہ (Mesopotamia) میں مبعوث ہوئے تھے۔ لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کے باوجود بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے، یہاں تک کہ ایک عظیم طوفان کے ذریعے پوری قوم کو تباہ کردیاگیا۔ اُس وقت اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح نے اِس کشتی میں اُس وقت کے تمام اہلِ ایمان کو بٹھایا۔ طوفان میں بہتی ہوئی یہ کشتی آخر کار مشرقی ترکی کے پہاڑ ارارات (Ararat) پر ٹھہر گئی۔ اس کے بعد اس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ کشتی سے نکل کر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔

یہ واقعہ پانچ ہزار سال پہلے کا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ یہ کشتی محفوظ رہے گی اور بعد کے زمانے میں دریافت ہو کر لوگوں کے لیے نشانی (sign) بن جائے گی۔ سورہ القمر میں حضرت نوح کے تذکرہ کے بعد یہ آیت آئی ہے:وَلَقَدْ تَرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ(54:15)۔ یعنی ہم نے اس ( کشتی ) کو نشانی کے لیے چھوڑ دیا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔ یہی بات سورہ العنکبوت میں اِن الفاظ میں آئی ہے:وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (29:15) ۔یعنی پھر ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔

انیسویں صدی کے آخر میں جب ہوائی پرواز کا زمانہ آیا تو کچھ لوگوں نے ارارات پہاڑ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے برف کے ذخائر (glacier)کے اندر چھپی ہوئی ایک کشتی کے آثار دیکھے۔ لیکن بار بار کوشش کے باوجود اِس معاملے میں کچھ زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں ۔ اکیسویں صدی میں جب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں برف کے ذخائر (glacier) پگھلنے لگے تو ہوائی پرواز کے دوران معلوم ہوا کہ کوہِ ارارات پر ایک پوری کشتی موجود ہے۔ اِس کے بعد وہاں چین اور ترکی کے مسیحیوں کا ایک گروپ پہنچا۔ انھوں نے جدید آلات کی مدد سے کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے مذکورہ کشتی کی عمر معلوم کی۔ اب معلوم ہوا کہ یہ کشتی عین اُسی زمانے کی ہے، جب کہ یہاں طوفانِ نوح آیا۔ اِس دریافت کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (28 اپریل2010)میں اِس کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے:

HONG KONG: A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah's Ark — four thousand meters up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the ark is said to have been afloat. “It’s not 100% that it is Noah’s Ark, but we think it is 99.9% that this is it,” Yeung Wing-Cheung, a Hong Kong documentary filmmaker and member of the 15-strong team from Noah’s Ark Ministries International said. The structure had several compartments, some with wooden beams, which were believed to house animals, he said. The group of archaeologists ruled out an established human settlement on the grounds that one had never been found above 3,500 meters in the vicinity.

قربِ قیامت کی نشانیوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ واضح نشانی ہے۔ انسان ہزاروں سال سے لکڑی کی کشتی بنا رہا ہے۔ قدیم زمانے کی کشتیوں میں سے اب کوئی بھی کشتی دنیا میں محفوظ نہیں ، کیوں کہ لکڑی کچھ دنوں کے بعد فطری طورپر بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ کشتیوں کی تاریخ میں حضرت نوح کی کشتی ایک exception ہے۔ اِس استثنا کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو تھا۔ صرف اللہ کو معلوم تھا کہ یہ کشتی طوفان میں بہتی ہوئی پہاڑ کے اوپر پہنچ جائے گی، پھر فطری عمل کے تحت وہ گلیشیر کے نیچے دب جائے گی اور اِس طرح وہ محفوظ رہے گی۔ یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بیسویں صدی کے آخر میں گلوبل وارمنگ کا معاملہ پیش آئے گا اور پہاڑ کے اوپر برف پگھلنا شروع ہوجائے گی، یہاں تک کہ کشتیٔ نوح صاف دکھائی دینے لگے گی۔ اکیسویں صدی میں کشتیٔ نوح کا سامنے آجانا اِس بات کی علامت ہے کہ جس طرح پانچ ہزار سال پہلے ایک بڑے طوفان کے ذریعے اُس وقت کی آبادی ختم ہوگئی تھی، اسی طرح اب ایک اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے جس میں تمام انسان ختم ہوجائیں گے، اور صرف وہ لوگ بچیں گے جن کو اللہ اپنی جنت میں آباد کرنے کے لیے منتخب کرے۔

 

نیک و بد کی تمیز

امریکا میں ایک انٹرنیشنل سائنسی ادارہ قائم ہے۔ اِس ادارے کا مقصد بچوں کے معاملات کی سائنسی تحقیق کرنا ہے۔ اس ادارے کا نام یہ ہے:

Infant Cognition Center, Yale University, Connecticut.

اِس ادارے کے تحت حال میں ایک ریسرچ ہوئی ہے۔ یہ ریسرچ نفسیات کے پروفیسر پال بلوم (Paul Bloom) کی رہنمائی میں ہوئی ہے۔ اِس ریسرچ کے نتائج اخبارات میں شائع ہوئے ہیں ۔ اِس کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اگلے صفحہ پر اِس ریسرچ کا وہ خلاصہ شائع کیا جارہا ہے جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (11 مئی 2010 ) میں چھپا ہے۔

قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آرہا تھا کہ انسان کی فطرت میں نیک اور بدکی تمیز موجود ہے۔یہ بات قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان ہوئی ہے:فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا(91:8)۔ موجودہ زمانے میں مغرب میں کچھ مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اِس کے برعکس نظریہ پیش کیا۔ مثال کے طورپر سگمنڈ فرائڈ (وفات1939 )، وغیرہ۔ اِن لوگوں نے اپنے خود ساختہ نفسیاتی مطالعہ کے حوالے سے بتایا کہ انسان کی فطرت پیدائشی طورپر ایک سادہ پلیٹ کی مانند ہوتی ہے۔ اس کے اندر کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا سمجھنے کا کوئی شعور موجود نہیں ہوتا۔ اِس قسم کاشعور تمام تر سماج کے اثر (social conditioning) سے پیدا ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں یہی نظریہ تعلیم یافتہ طبقے پر چھایا رہا۔

مگر اکیسویں صدی میں جو نفسیاتی تحقیقات ہوئی ہیں ،انھوں نے اِس نظریہ کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے۔ اِس تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ کیوں کہ جب وہ کوئی خلافِ عدل کام کرتا ہے تو وہ اپنے شعورِ فطرت سے انحراف کرکے ایسا کرتا ہے۔ انسان کا اخلاقی احساس اس کی داخلی فطرت پر مبنی ہے، وہ محض خارجی اثرات کا نتیجہ نہیں — اِس طرح اِس معاملے میں مذہبی نقطۂ نظر دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا ہے۔

Infants Can Make Value Judgments, Finds American Research: Contrary to the Freudian theory that humans start their lives with a moral “blank slate”, children may be born with the ability to tell good from bad, according to a new study. Newly born babies apparently start making moral judgments by the time they are six months old, claims a team of psychologists at the infant cognition Centre at Yale University in Connecticut. The scientists used the ability to tell helpful from unhelpful behavior as an indication of moral judgment. Infants can even act as judge and jury in the nursery. Researchers who asked one-year-old babies to take away treats from a “naughty” puppet found they were sometimes also leaning over and smacking the figure on the head. As part of the study, they conducted multiple tests on infants, less than a year old. Firstly, an animated film of simple geometric shapes was screened for the kids to watch. It showed a red ball, with eyes, trying to climb a hill. A yellow square helped, pushing it up, while a green triangle forced it back down. Later, the children were asked to “choose” between the “good guy” square, and the “bad guy” triangle. In 80% of cases the infants chose the square over the triangle. In a second study, the children were shown a toy dog trying to open a box. One teddy bear helped him, while another sat on it to stop him getting inside. The observers found that most babies opted for the friendly teddy bear. To further confirm that the babies were responding to niceness and naughtiness the scientists devised another test. A toy cat played with a ball while a cuddly rabbit puppet stood on either side. When the cat lost the ball, the rabbit on the right side returned it to him, while the rabbit on the left side picked it up and ran away with it. The children were asked to handle anyone one puppet. Most picked the naughty rabbit and smacked it on the head. Paul Bloom, professor of psychology who led the study, said the research counters theories of psychologists such as Sigmund Freud who believed humans began life as “amoral animals” and William James who described a baby’s mental life as “one great, blooming, buzzing confusion”. “There is a growing body of scientific evidence that supports the idea that perhaps some sense of good and evil is bred in the bone,” the Times quoted Bloom as saying. Kiley Hamlin, author of the team’s Infant Morality report, said: “We spend a lot of time worrying about teaching the difference between good guys and bad guys in the world, but this might be something that infants come to the world with.” Peter Willetts, a lecturer in psychology at Dundee University, said: “You cannot get inside the mind of the baby. You cannot ask them. You must go on what most attracts their attention.” “We now know that in the first six months babies learn things much quicker than we thought possible. What they are born with and what they learn is difficult to divide,” he added. (The Times of India, New Delhi, Page 17, May 11, 2010)

 

دورِ شرک، دورِ الحاد

مذهبي نقطه نظر سے تاريخ كے دو دور هيں — دورِ شرك، دورِ الحاد۔ پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كے ظهور سے پهلے هزاروں سال تك دنيا ميں شرك (polytheism) كا غلبه تھا۔ موجوده زمانه عمومي تقسيم كے اعتبار سے، الحاد (atheism) كا زمانه هے۔ تاهم الحاد انكارِ مذهب كا نظريه هے، جب كه سيكولرزم مذهب كے بارے ميں عملاً ناطرف داري كا نظريه۔

دورِ شرك اوردورِ الحاد كے درميان ايك چيز مشترك هے اور وهي چيز هے جس كو قرآن كي درج ذيل آيت ميں ’خَرص‘ كهاگيا هے : وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ ۭ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ (43:20) يعني وه كهتے هيں كه اگر رحمان چاهتا تو هم اُن كي عبادت نه كرتے۔ اُن كو اِس كا كوئي علم نهيں ، وه محض اٹكل سے بات كررهے هيں ۔

خرص‘كا لفظي مطلب هے اٹكل سے بات كرنا۔ اِس سے مراد دراصل چيزوں كي قياسي تعبير (speculative interpretation) هے۔ قديم زمانے ميں مشركين نے يهي غلطي كي تھي۔ انھوں نے يه كيا كه فطرت كا جو ظاهره اُن كو بڑا (great) نظر آيا، اس كو انھوں نے الٰه (god) كادرجه دے ديا۔ يهي چيز هے جس كي طرف قرآن ميں اِن الفاظ ميں اشاره كياگيا هے: هٰذَا رَبِّيْ هٰذَآ اَكْبَرُ(6:78)۔یعنی یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔

موجوده زمانے ميں سائنس كا سب سے بڑا كارنامه يه هے كه اُس نے اِس قديم متھ (myth) كو توڑ ديا۔ سائنس نے اپنے تجربات كے ذريعے ثابت كيا كه جن چيزوں كو انسان نے خدا سمجھ ليا تھا، اُن كے اندر كوئي خدائيت (divinity)نهيں هے۔ تمام چيزيں صرف فطرت (nature) كے اجزا هيں ۔ به الفاظ ديگر، كائنات كي تمام چيزيں صرف مخلوق هيں ، وه كسي بھي درجے ميں خالق نهيں ۔ مشركانه كلچر كے نظرياتي خاتمے كا آخري دن 20 جولائي 1969 تھا، جب كه امريكي ايسٹروناٹ نيل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong)چار روزه خلائي سفر طے كركے چاند تك پهنچا، اور چاند كي سطح پر اس نے اپنا قدم ركھ ديا۔

الحادكا دور

شرك كا مطلب هے— كسي غير خدا كو خدا كا شريك (partner) قرار دے كر اس كي تعظيم يا عبادت كرنا۔ موجوده زمانے ميں جب شرك كا دور ختم هوا تو اس كے بعد يه هونا چاهيے تھا كه دنيا ميں توحيد كا دور آجائے، ليكن اُس وقت اهلِ مغرب دنيا كے فكري قائد بنے هوئے تھے اور جيسا كه معلوم هے، قرونِ وسطي (middle ages) كے زمانے ميں مغرب كے اهلِ علم اور چرچ كے درميان شديد ٹكراؤ هوا۔ اِس ٹكراؤ كي تفصيل جان وليم ڈريپر (J. W. Draper) كي درج ذيل كتاب ميں ديكھي جاسكتي هے:

History of the Conflict Between Religion and Science (1874)

قرون وسطي كے بعد يورپ ميں انيسويں صدي ميں جديد الحادي فكر كادور آيا۔ يه دور كسي علمي تحقيق كا نتيجه نه تھا، بلكه وه تمام تر رد عمل (reaction) كے نتيجے ميں پيش آيا۔ اِس زمانے ميں علمي تحقيق كا معيار يه قرار پايا كه وه تمام تر سيكولرانداز ميں هو، يعني خدا كو حذف كركے واقعات كي توجيهه كرنا۔ اِس طرزِ فكر كے نتيجے ميں وه غير مذهبي فلسفه پيدا هوا جس كو الحاد (atheism) كهاجاتا هے۔

انسان اپني فطرت كے اعتبار سے، ايك توجيهه طلب حيوان (explanation-seeking animal) هے۔ قديم مشركانه دور ميں يه توجيهه قياسي بنياد پر كي جاتي تھي۔ موجوده ملحدانه دور ميں يه توجيهه علمي تحقيق كے نام پر كي جانے لگي۔ اِس نئے دور ميں مغربي دنيا ميں بهت سے مفكر پيدا هوئے جو خدا كو حذف كركے حيات اور كائنات كي توجيهه كرتے تھے۔

 اِس طريقِ تحقيق كے نتيجے ميں ايك نيا دور پيدا هوا۔ مزيد يه كه اِسي دور ميں پرنٹنگ پريس بھي وجود ميں آيا۔ پهلے كتابيں محدود طورپر هاتھ سے لكھي جاتي تھيں ، اب وه چھپ كر عمومي طورپر پھيلنے لگيں ۔ اِس طرح يه هوا كه جديد الحاد مطبوعه كتابوں ميں منتقل هو كر تمام دنيا كے فكر پر چھا گيا۔جديد ملحدانه دور ميں جو مفكرين پيدا هوئے، اور ان كے ذريعے جو غير مذهبي طرز فكر وجود ميں آيا، اس كے پيچھے بهت سے ذهن كارفرما تھے۔ تاهم علامتي طورپر چار افراد كو اِس معاملے ميں بنيادي اهميت حاصل هے۔ اِن چار افراد نے انساني تاريخ كو ايك نيا رخ يا الحادي رخ ديا۔ اُن كے نام يه هيں — آئزاك نيوٹن، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ،كارل ماركس:

1. Isaac Newton: from divine interpretation to mechanical interpretation

2. Charles Darwin: from Special Creation to Natural Selection.

3. Sigmund Freud: from harnessing desires to following desires.

4. Karl Marx: from duty-conscious society to right-conscious society.

1۔ بر ٹش سائنس داں آئزاك نيوٹن (وفات1727) اصلاً صرف ايك سائنس داں تھا۔ اس كا موضوع تھا مادي دنيا ميں حركت (motion) كي توجيهه كرنا۔ اس نے دريافت كيا كه مادي دنيا ميں حركت كا نظام ميكانكل قوانين (mechanical laws) كے تحت هوتا هے۔ مثلاً شمسي نظام ميں سياروں كي گردش كا قانون۔نيوٹن كي دريافت كا كوئي تعلق مذهبي عقائد سے نه تھا، ليكن ملحد مفكرين نے اِس دريافت كو الحاد كے حق ميں استعمال كيا۔ انھوں نے كها كه اگر واقعات فطري اسباب كے تحت پيش آتے هيں تو وه فوق الفطري سبب كے تحت نهيں هوسكتے:

If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.

يه استدلال بلا شبه ايك غير منطقي استدلال تھا، كيوں كه نيوٹن كي تشريح جس چيز كو بتارهي تھي، وه صرف ظاهري سبب تھا۔ اِس كے بعد بھي يه سوال تھاكه اسباب كے پيچھے مسبِّب (cause of the causes) كون هے۔ اِس معاملے ميں ملحدين كا استدلال تمام تر ايك مغالطے پر مبني تھا، وه كوئي سائنسي استدلال نه تھا۔ ليكن ملحد مفكرين كي يه توجيهه وقت كے ذوق كے مطابق تھي، اِس ليے وه عمومي طورپر پھيل گئي۔

2۔ چارلس ڈارون (وفات 1882) كا ارتقائي نظريه بنيادي طورپر انتخابِ طبيعي (natural selection) كے اصول پر مبني هے۔ ڈارون نے اور اس كے ساتھيوں نے اپني كتابوں كے ذريعے يه تاثر ديا كه ارتقا (evolution) كا يه نظريه ايك سائنسي نظريه هے۔ مگر علمي تعريف (definition) كے مطابق، ارتقا كا نظريه هرگز سائنسي نظريه (scientific theory) نه تھا، وه صرف ايك قياسي نظريه (speculative theory)كي حيثيت ركھتا تھا۔ مگر وقت كے عمومي ذوق كي بنا پر حياتياتي ارتقا كے اِس نظريے كو عام مقبوليت حاصل هوگئي۔ يه سمجھ ليا گيا كه حياتياتي مظاهر كي توجيه كے ليے اب خالق كو ماننے كي كوئي ضرورت نهيں ، خالق كے وجود كو مانے بغير تمام حياتياتي مظاهر كي توجيه ممكن ہے۔

مگر يه صرف ايك مغالطه تھا۔ سائنس كي مزيد دريافتوں نے يه ثابت كرديا كه ارتقا كا يه نظريه علمي اعتبار سے بالكل بے بنياد هے۔ سائنس كي جديد دريافت بتاتي هے كه فطرت ميں كامل درجے كي ذهين ڈزائن (intelligent design) هے۔ اِس دريافت نے علمي طورپر نظريه ارتقا كا خاتمه كرديا هے۔ كيوں كه ذهين ڈزائن ايك ذهين ڈزائنر (intelligent designer) كي موجودگي كو ثابت كرتي هے، وه بے شعور قسم كے انتخابِ طبيعي كا نتيجه نهيں هوسكتي۔

3۔ سگمنڈ فرائڈ (وفات1939) كا نظريه يه تھا كه انسان كي ذهني ترقي اِس طرح ممكن هے كه اس كو آزاد چھوڑ ديا جائے كه وه اپني خواهشوں كو بے روك ٹوك پورا كرسكے۔ فرائڈ كے اِس نظريے كا نتيجه يه هوا كه مذهبي تصور كے مطابق، حرام وحلال كي پابندياں ختم هوگئيں ۔ انسان آزاد هوگيا كه وه خود اپني خواهش كے تحت جو چاهے كرے اور جو چاهے نه كرے۔

ليكن بعد كي تحقيقات سے يه ثابت هوا كه فرائڈ كا يه نظريه ايك غير فطري نظريه هے۔ چناں چه وه انسان كي ذهني ترقي ميں مانع هے، نه كه مدد گار۔نفسيات كا جديد مطالعه بتاتا هے كه انسان كي ذهني ترقي چيلنج كے ذريعے هوتي هے، نه كه بے قيد آزادي كے ذريعے۔ مذهب كي عائد كرده اخلاقي پابندياں ايك چيلنج كي حيثيت ركھتي هيں ۔ اِس چيلنج كے ذريعے انسان كے اندر تخليقي فكر (creative thinking) پيدا هوتي هے۔ اِس طرح انسان اپني توانائي كے ضياع سے بچتے هوئے ذهني ترقي كے راستے پر سفر كرتا رهتا هے۔

4۔ كارل ماركس (وفات1883) نے زندگي كا جو فلسفه ديا، وه اپني عملي تدبير كے اعتبار سے يه تھا كه اقتصادي ذرائع كو انفرادي كنٹرول سے نكال كر سماجي كنٹرول ميں دے ديا جائے۔ ماركس كے نزديك انساني حقوق كے تحفظ كا يهي واحد راسته تھا۔ مگر عملي تجربے كے لحاظ سے اِس فلسفے كا مطلب يه تھا كه تمام اقتصادي ذرائع كو اسٹيٹ كے كنٹرول ميں دے ديا جائے۔ اِس نظريے كا مقصد بظاهر ايك غيرطبقاتي سماج (classless society)پيدا كرنا تھا، مگر عملاً اس كا نتيجه يه هوا كه دو شديد قسم كے متحارب طبقے پيدا هوگئے۔

اِس نظريے سے دو بڑي برائياں پيدا هوئيں — ايك، يه كه مسابقت (competition) كا ختم هوجانا، جو كه تمام ترقيوں كے ليے فطري محرك كي حيثيت ركھتا هے۔ دوسري برائي جو اشتراكي نظريے كےتحت پيدا هوئي، وه يه كه لوگ عمومي طورپر رائٹ كانشس (right-conscious) بن گئے، جب كه كسي سوسائٹي كي كاميابي كا راز يه هے كه اس كے افراد ڈيوٹي كانشس (duty-conscious) هوں ۔ يهاں پهنچ كر طبقاتي كشمكش نے ايك ايسي صورت اختيار كرلي جو كبھي ختم هونے والي نهيں ۔ كيوں كه زندگي ميں ڈيوٹي كا تعين هوسكتا هے، ليكن رائٹ كا كوئي تعين نهيں ۔

خلاصه كلام

قديم دورِ شرك كا بگاڑ يه تھا كه وه خدا اور بندے كے درميان تعلق كو صحيح بنياد پر قائم كرنے ميں مانع بن گيا۔ انسان كو يه كرنا تھا كه وه اپني سوچ كو اور محبت اور خوف كے جذبات كو مكمل طورپر خدا سے وابسته كرے۔ اِسي كا نام توحيد هے اور اِسي توحيد سے انسان كے اندر تمام اعلي صفات پيدا هوتي هيں ۔ ليكن مشركانه كلچر نے خدا كے شركا (partners) قرار دے كر انسان كو اس كے مركزِ اصلي سے هٹا ديا۔ نتيجه يه هوا كه انسان اپنے مطلوب ارتقا سے محروم هو كر ره گيا۔

انسان اپني فطرت كے اعتبار سے، ايك مركز ِ وابستگي چاهتا هے۔ انسان كي اِس فطري طلب كا مرجع صرف ايك هے، اور وه اس كا خالق هے۔ بندے كا خالق سے تعلق قائم هونا ايسا هي هے جيسے بجلي كے بلب كا پاور هاؤس سے تعلق قائم هونا۔ شرك كي برائي يه تھي كه اس نے انسان كي اِس طلب كے ليے اس كو ايك غير واقعي بدل (false substitute) دے ديا۔ اِس بنا پر ايسا هوا كه انسان كو اس كي فطري طلب كا مركز نهيں ملا اور نتيجةً انسان اپني شخصيت كے اُس ارتقا سے محروم هوگياجو اس كے ليے پيدائشي طور پر مقدر تھا۔

جديد الحاد كے دور ميں دوباره انسان ايك اور اعتبار سے اِسي محرومي كا شكار هوگيا۔ قرآن ميں بتايا گيا هے كه انسان كو علمِ قليل دياگيا هے (الاسراء85:)۔ انسان كے ليے آزادي بهت اچھي چيز هے، ليكن انسان اپني فطري ساخت كے اعتبار سے كامل آزادي كا تحمل نهيں كرسكتا۔ انسان كے ليے حقيقت پسندي يه هے كه وه اپني اِس محدوديت (limitation) كو جانے اور مقيّد آزادي (guided freedom) پر راضي هوجائے۔ جديد الحاد نے آزادي كو خير مطلق (summum bonum)قرار دے كر انسان كو اس كي فطرت كے راستے سے هٹا ديا۔ يهي وجه هے كه بظاهر هر قسم كي ترقيوں كے باوجود انسان اُس اهم ترين چيز سے محروم هوگيا جس كو ذهني سكون (peace of mind) كهاجاتا هے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

سائنس كے ميدان ميں مسلمانوں كے پچھڑے پن كي وجه اگر مختصر طورپر بتاني هو تو وه صرف ايك هوگي: مسلمانوں ميں سائنسي شعور نه هونا۔هندستان كا زمين دار طبقه جديد تجارت ميں پيچھے كيوں هوگيا۔اس كي وجه يه هے كه اس كے اندر تجارتي شعور موجود نه تھا۔ يهي واقعه سائنس كے سلسله ميں مسلمانوں كے ساتھ پيش آيا۔ ايك يا ايك سے زياده اسباب كي بنا پر مسلمانوں كے اندر جديد دور ميں سائنسي شعور پيدا نه هوسكا۔ يهي وجه هے كه انھوں نے سائنس كي تعليم كي طرف توجه نه دي اور اگر توجه دي بھي تو ادھوري شكل ميں ۔

 

دورِ مواصلات

قرآن كي سوره بني اسرائيل ميں ايك آيت آئي هے، اس كے الفاظ يه هيں : وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (17:70)۔ يعني هم نے آدم كي اولاد كو عزت دي، اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا ۔اس دنیا میں موجود تمام حيوان اپنے پيروں كے ذريعه سفر كرتے هيں ، چڑيا كا سفر اپنے پركے ذريعه هوتا هے۔ يه انسان كي ايك امتيازي خصوصيت هے كه وه خارجي سواري كے ذريعه اپنا سفر كرسكتا هے۔ موجوده زمانے ميں جديد مواصلات (modern communication) كي ايجاد نے سواري (transportation) كے تصور كو بهت بڑھاديا هے۔ آج كے انسان كے ليے يه ممكن هوگيا هے كه وه جسماني حمل ونقل (physical transportation)سے زياده تيز رفتاري كے ساتھ سفر كرے اور اِسي كے ساتھ افكار كے حمل ونقل (transportation of ideas)كو بھي نهايت سرعتِ رفتار سے انجام دے سكے۔

قرآن كي مذكوره آيت ميں براهِ راست طورپر صرف حيواني مواصلات كا ذكر هے، مگر بالواسطه طورپر اس ميں هر قسم كے مواصلات بشمول مواصلات بذريعه ٹكنالوجي كا اشاره موجود هے۔ آدمي اگر اس آيت كو اس كے توسيعي مفهوم (extended meaning) كے ساتھ پڑھے تو يه آيت اس كے ليے كائناتي معرفت كا ذريعه بن جائے گي۔ اِس آيت ميں وه الله كي كائناتي نعمت كو دريافت كرے گا۔ يه ايك آيت اس كے ليے بلين ٹريلين سے بھي زياده معاني كا خزانه بن جائے گي۔

قرآن معروف معنوں ميں كوئي معلوماتي كتاب نهيں ۔ ليكن قرآن كے اندر وه تمام معلومات موجود هيں ، جن كا تعلق معرفت سے هے۔ يه معلومات زياده تر اشارات كي صورت ميں هيں ۔ ان آيتوں پر غور كركے ان كے اندر چھپے هوئے معاني كو دريافت كيا جاسكتا هے۔ يهي وہ تدبر اور تفكر هے جس سے معرفت ميں اضافه هوتاهے۔ يهي وه چيزهے جو آدمي كے ايمان كو يقين كے درجے تك پهنچا ديتي هے۔ يهي وجه هے كه قرآن ميں تدبر كو نصيحت (ص29:)كا ذريعه بتايا گيا هے۔

 

پوشیدہ جنت

قرآن میں ہے کہ جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں ، ان کے لیے آخرت میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(32:17)۔ تو کسی کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ اس آیت میں اُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔

سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں ۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے (الذاریات 49:)۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں ۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے fulfillment نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔

 

زوج یاہیبیٹاٹ

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آٗئی ہے: وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (51:49)۔یعنی اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو :

We have created everything in pairs so that perhaps you may take heed.

قرآن کی اس آیت کا خطاب ان لوگوں سے ہے، جو تذکُّر کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یعنی غور وفکر کرنا اور نصیحت لینا۔ اس سے واضح ہے کہ اس آیت کا خطاب انسان سے ہے۔ وہ انسان سے کہہ رہی ہے کہ تم تخلیق پر غور کرو، اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔

 مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زوج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat) کہا جاتا ہے۔ اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ، سب کے لیے یہاں ان کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔ مثلاً گردش کرتے ہوئے ستاروں کے لیے وسیع خلا (vast space)، نباتات کے لیے موافق زمین (soil)، حیوانات کے لیے جنگل ، مچھلی کے لیے پانی، وغیرہ۔ اس طرح کائنات میں موجود ہر مخلوق کے لیے اس کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔

مگر یہاں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو ، اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ حاصل نہیں ۔ انسان کو ایسی دنیا ملی ہے، جہاں وہ زندہ رہ سکے، لیکن انسان کو ایسی دنیا حاصل نہیں جہاں اس کے لیے ہر اعتبار سے فل فِل مینٹ (fulfillment) کا سامان موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتا رہتا ہے۔ اس کو کبھی اپنے وجود کا زوج (habitat) حاصل نہیں ہوتا۔ انسان اس فرق پر غور کرے تو وہ جنت کو دریافت کرے گا، اور اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اس طرح کرے گا جو اس کو جنت کی منزل تک پہنچانے والا ہو۔ جنت کی دریافت تخلیق کی حکمت کی دریافت ہے۔یہی مطلب ہے: فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ کا(الذاریات 50یعنی، پس دوڑو اللہ کی طرف۔

 

کائنات کی معنویت

سائنس فطرت (nature) كے مطالعے كا نام هے۔ فطرت ميں وه تمام چيزيں شامل هيں جن كو هم كائنات كهتے هيں ۔ سائنسي مطالعے كا آغاز كچھ ابتدائي باتوں سے هوا، ليكن يه مطالعه جتنا زياده بڑھتا گيا، اتنا هي يه ظاهر هوتا گيا كه كائنات ايك بے حد بامعني كائنات هے۔ كائنات كي كوئي بھي ايسي تشريح جو كائنات كي معنويت كے اعتراف پر قائم نه هو، وه سائنسي تحقيقات سے مطابقت نهيں ركھتي۔مثلاً سائنسي مطالعے كے ذريعے معلوم هوا كه كائنات كے اندر ايك ذهين ڈيزائن (intelligent design) هے۔ اب اگر يه نه مانا جائے كه كائنات كا ايك ذهين ڈيزائنر (intelligent designer)هے تو كائنات كا نادر ظاهره ناقابلِ توجيه بن جاتاهے۔

اِسي طرح سائنس كے مطالعے نے بتايا كه هماري كائنات ايك كسٹم ميڈ (custom-made) كائنات هے، يعني وه انسان كی ضرورتوں كے عين مطابق هے۔ اب اگر ايك ايسے خالق كو نه مانا جائے جس نے دو الگ الگ چيزوں كے درميان اِس مطابقت كو قائم كيا، تو اِس ظاهرے كي كوئي قابلِ فهم توجيهه ممكن نهيں ۔ اِسي طرح مختلف شعبوں ميں سائنس كا مطالعه بتاتا هے كه كائنات كے مختلف اجزاء آپس ميں بے حد مربوط هيں ،اور ان كے درميان ايك انتهائي فائن ٹيوننگ (fine-tuning) پائي جاتي هے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاهرے كي ضروركوئي توجيهه ہونی چاہیے۔

سائنس كوئي مذهبي سبجيكٹ نهيں ، سائنس كا موضوع خالق كي دريافت نهيں ۔ سائنس كا موضوع تخليق (creation)كي دريافت هے، ليكن خالق (Creator) تخليق سے جدا نه تھا، اِس ليے تخليق كا مطالعه عملاً خالق كا مطالعه بن گيا۔ سائنس نے اپنے مطالعے كے ذريعے جو چيزيں دريافت كيں ، وه سب خدائي نشانيوں كا اظهار بن گئيں جن كو قرآن ميں ’آيات الله‘ (signs of God) كهاگيا هے۔ اِس اعتبار سے، يه كهنا درست هوگا كه تخليق كي معنويت كي دريافت خالق كي معنويت كي دريافت كے هم معني هے۔

 

زمین کی حفاظت

موجوده زمانے ميں جو آلات دريافت هوئےهيں ، ان كے ذريعے يه ممكن هوگيا هے كه خلائي واقعات كا نهايت صحت كے ساتھ مشاهده كيا جاسكے۔ اُنھيں ميں سے ايك واقعه يه هے كه 23 جولائي 2012 كو سورج كي سطح پر ايك مقناطيسي طوفان آيا تھا۔ يه طوفان زمين كے اوپر بهت بڑي تباهي (havoc)برپا كرسكتا تھا، مگر ايسا نهيں هوا۔ كيوں كه يه طوفان سورج كي ايك سمت ميں آيا تھا، جب كه زمين اپني گردش كے اعتبار سے اُس وقت سورج كے دوسري سمت ميں تھي۔اس طرح كے واقعات هماري دنيا ميں روزانه پيش آرهے هيں ۔ يه واقعات قرآن كي اُس آيت كي تفسير هيں جس ميں كهاگيا هے: قُلْ مَنْ يَّـكْلَـؤُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُّعْرِضُوْنَ(21:42)۔

كائنات ميں انسان كي حفاظت كا يه انتظام بتاتا هے كه الله كتنے زياده بڑے پيمانے پر انسان كے ساتھ رحمت كا معامله كررهاهے۔ انسان اپني غفلت كي بنا پر اِس حقيقت سے بے خبر رهتا هے۔ اگر انسان اِس حقيقت كو جانے تو بلا شبه اس كي زندگي ميں ايك رباني انقلاب آجائے۔

Massive solar storm almost hit Earth in 2012

London: A massive magnetic storm with a speed of 3,000 km per second enough to circle Earth five times in one minute and the likes of which has not been seen in the past 150 years almost hit the world in 2012. But as it tore through Earth’s orbit, releasing energy equivalent to that of about a billion hydrogen bombs, good fortune prevailed on the Blue Planet, which was placed on the other side of the sun at the time. Had the eruption come nine days earlier, it would have hit Earth, potentially destroying our electrical grid, disabling satellites and GPS, and disrupting our increasingly electronic lives, wreaking havoc, and causing fireworks. Experts confirmed on Wednesday that a fierce solar eruption known as coronal mass ejections blasted away from the sun and sent a pulse of magnetized plasma barreling into space and through Earth’s orbit.  (The Times of India, New Delhi, March 20, 2014, p. 19)

 

کائنات کی وسعت

جب سے خلا كے دور بيني مشاهدے كا دور آيا هے، نئي كهكشاؤں اور نئے ستاروں كا انكشاف هوتا رهتا هے۔ کچھ دنوں پہلےاِس قسم كا ايك خلائي انكشاف سامنے آيا هے۔ مغربي سائنس دانوں كي ايك ٹيم فرانس كي رصد گاه (Cote d’Azur Observatory) كے تحت خلائي مشاهده كررهي تھي۔ اُس ٹیم نے ايك ايسا نيا ستاره دريافت كيا هے، جو همارے سورج سے تيره سو گنا بڑا هے اور زمين سے باره هزار سال نور كے فاصلے پر واقع هے۔ وه سورج سے تقريباً ايك ميلين گنا زياده روشن هے۔

خورد بين اور دوربين جيسے آلات كي دريافت سے پهلے انسان كو دنيا كے عجائبات كے بارے ميں بهت كم معلوم تھا۔ بيسويں صدي كا زمانه معلوماتي انفجار (knowledge explosion) كا زمانه هے۔ اِس دور ميں كائنات كے بارے ميں بے شمار انوكھي باتيں دريافت هوئيں جن كا سلسله اب تك جاري هے۔

اب وه وقت آگيا هے كه انسان خالق كي معرفت كو زياده بڑے پيمانے پر دريافت كرے۔ وه خالق كي عظمتوں كا نيا برتر ادراك حاصل كرے۔ وه آيات الله (signs of God)، آلاء الله (wonders of God) كے نئے پهلوؤں كو دريافت كرے۔ وه عظمتِ خداوندي كے نئے احساس كے تحت كهه اٹھے—  الحمد لله رب العالمين۔

ايك حديث ميں قرآن كے بارے ميں آيا هے: لا تنقضي عجائبه (قرآن كے عجائب كبھي ختم نه هوں گے)سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906۔ يه عجائب كتاب كے عجائب نهيں ، بلكه وه صاحب كتاب كے عجائب هيں ۔ بعد كے زمانے كي تمام كائناتي دريافتيں اِسي پيشين گوئي كي تفصيل هيں ، وه خالق كي لا محدود عظمت كا بيان هيں ۔

اِس خلائي دريافت كا ايك اهم پهلو يه هے كه نيا دريافت شده ستاره اور سورج دونوں ايك هي فيملي سے تعلق ركھتے هيں ۔ نيا دريافت شده ستاره جس طرح ايك ستاره هے، اُسي طرح سورج بھي ايك ستاره هے۔ البته نيا دريافت شده ستاره سورج كے مقابلے ميں تيره سو گنا زياده بڑاهے۔ اگر ايسا هوتا كه نيا دريافت شده ستاره سورج كي جگه پر هوتا اور سورج نئے ستارے كي جگه پر، تو زمين پر اتني زياده گرمي هوتي كه زندگي كي كوئي بھي قسم يهاں موجود نه هوتي، نه پاني، نه نباتات، نہ حيوانات، نه انسان۔

ستاروں كي يه پوزيشن نهايت بامعني هے۔ قرآن ميں اِس خلائي حقيقت كو اِن الفاظ ميں بيان كيا گيا هے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ۔ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (56:75-76)۔ يعني پس نهيں ، ميں قسم كھاتاهوں ستاروں كے مواقع كي۔ اور اگر تم جانو يه بهت بڑي قسم هے۔

اِس آيت ميں قسم كا مطلب گواهي هے۔ اور مواقع كا مطلب وقوع (placement) هے، يعني وسيع خلا ميں ستاروں كو نهايت درست مقام پر ركھنا ايك عظيم شهادت هے جو خالق كي بے پناه قدرت اور بے پناه حكمت كو بتاتي هے۔ وسيع خلا ميں ستاروں كا وقوع اتفاقاً نهيں هوسكتا۔ يه بامعني وقوع(meaningful placement) گواهي دے رها هے كه اِس كائنات كا خالق ايك عظيم هستي هے اور اس نے عظيم قدرت كے ذريعے يه نظام قائم كيا هے۔ اِس عظيم كائناتي واقعے كي اِس كے سوا كوئي اور توجيهه ممكن نهيں ۔

Found: A yellow star that is 1,300 times bigger than Sun

The largest ever yellow star, measuring 1,300 times the size of our Sun, has been discovered nearly 12,000 light-years from Earth. The star, dubbed HR 5171 A, located in the constellation Centaurus is the largest known member of the family of yellow stars to which our Sun belongs. It is also one of the 10 largest stars found so far — 50% larger than the famous red supergiant Betelgeuse — and about one million times brighter than the Sun. The team led by Oliver Chesneau of the Cote d’Azur Observatory in Nice, France, found that the yellow hypergiant star is much bigger, measuring 1,300 times the diameter of the Sun.

(The Times of India, New Delhi, March 14, 2014, p. 19)

 

تسخیر کائنات

انسان كے ليے الله كي ايك نعمت وه هے جس كو تسخير كها گيا هے۔ اِس سلسلے ميں قرآن كي دو آيتيں يه هيں : اَللّٰهُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيْهِ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ، وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ (45:12-13) يعني الله هي هے جس نے تمھارے ليے سمندر كو مسخر كرديا، تاكه اس كے حكم سے اس ميں كشتياں چليں اور تاكه تم اس كا فضل تلاش كرو اور تاكه تم شكر كرو۔ اور الله نے آسمانوں اور زمين كي تمام چيزوں كو تمھارے ليے مسخر كرديا، سب كو اپني طرف سے۔ بے شك اِس ميں نشانياں هيں اُن لوگوں كے ليے جو غور كرتے هيں ۔

تسخير كا مطلب هے كسي چيز كو بزور قابلِ استعمال يا قابلِ انتفاع بنانا۔ الله جو پوري كائنات كا خالق هے، اس نے كائنات كے هر جزء كو قوانينِ فطرت (laws of nature) كا پابند بنا ركھا هے۔ اِس بنا پر يه ممكن هوگيا هے كه انسان مخلوقات كو اپنے مقصد كے ليے استعمال كرے۔ خدائي قوانين كے ذريعے كائنات اگر اِس طرح مسخر نه هوتي تو انسان كے ليے اس كو استعمال كرنا ناممكن هوجاتا۔

اِس كي ايك مثال سمندر كي هے۔ سمندروں كي شكل ميں پاني كے جو قدرتي ذخائر هيں ، وه زمین كے تقريباً تهائي حصه (71 %) پر پھيلے هوئے هيں ۔ زمين ايك گول كره هے جو مسلسل طور پر گردش كررها هے۔ جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ايك زبردست قانون فطرت پاني كے ان ذخائر كو زمين پر قائم كیے هوئے هے۔

ايك طرف زمين كي غير معمولي كشش زمين كے ذخائر كو اپني طرف كھينچے هوئے هے، اور دوسري طرف سمندر كے اوپر هوا كا تقريباً پانچ ميل موٹا غلاف هے جو سمندر كے اوپر دباؤ بنائے هوئے هے۔ اِن دوطرفه اسباب كي بنا پر ايسا هےكه سمندروں كي گهرائي ميں پاني مسلسل طور پر موجود هے، ورنه پورا ذخيرهٔ آب اڑ كر فضا ميں تحليل هوجاتا۔

يهي معامله سمندر ميں چلنے والي كشتيوں كا هے۔ يهاں بھي خدا كا مقرر كيا هوا ايك قانونِ فطرت كام كررها هے۔ يه ايك آبي قانون هے جس كو آج كل كي زبان ميں هائڈرواسٹيٹكس (hydrostatics) كهاجاتا هے جس كا ايك شعبه بائنسي (buoyancy) هے۔

 بائنسي (buoyancy) سے مراد پاني كا يه انوكھا قانون هے كه جب كوئي چيز پاني ميں ڈالي جاتي هے تو وه پاني كے اندر جتني جگه گھيرتي هے، اُسي كے بقدر وهاں اَپ ورڈ پريشر پيدا هوتا هے، جس كے نتيجے ميں كشتي پاني كي سطح پر تيرنے لگتي هے:

Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.

تسخير كا دوسرا واقعه وه هے جس كا تعلق بالائي خلا سے هے۔ زمين كے اوپر جو وسيع خلا هے، وه بهت بڑے بڑے نهايت گرم ستاروں سے بھرا هوا هے، اِس ليے اس كو ستاروں كي دنيا (starry universe) كهاجاتا هے۔ يه تمام ستارے هماري زمين سے ايك مقرر دوري پر واقع هيں ۔ يه مقرر دوري اگر قائم نه رهے تو هماري پوري زمين جل كر راكھ هوجائے۔

زمين كي سطح سے رات كے وقت جب كھلے آسمان كو ديكھا جائے تو اوپر كي فضا ميں بهت سے چھوٹے چھوٹے ستارے نظر آتے هيں ۔ يه ستارے بهت بڑے بڑے ستارے هيں ، ليكن دوري كي وجه سے وه چھوٹے نظر آتے هيں ۔ آنكھ سے ديكھنے ميں تقريباً دس هزار ستارے دكھائي ديتے هيں ۔ يه ستارے وه هيں جو هماري قريبي كهكشاں (Milky Way) سے تعلق ركھتے هيں ۔

اِس كے علاوه، وسيع خلا ميں بے شمار بڑے بڑے ستارے هيں جو مسلسل حركت كررهے هيں ۔ ايك سو بلين سے زياده كهكشائيں (galaxies) هيں اور هر كهكشاں ميں تقريباً ايك سو بلين ستارے پائے جاتے هيں ۔

 اِس وسيع عالمِ نجوم كو انسان اپني فطري آنكھ سے نهيں ديكھ سكتا تھا۔ الله تعالي نے هماري دنيا ميں ايسے مادي اسباب ركھ دئے جن كو انسان دريافت كرے اور ان كو ترقي دے كر طاقت ور دوربين (telescope) بنائے۔ چناں چه موجوده زمانے ميں خلائي دور بين كو استعمال كركے انسان بے شمار ستاروں اور كهكشاؤں كو ديكھتا هے۔

سمندروں (اور حيوانات) كے معاملے ميں تسخير كا مطلب يه تھا كه انسان قانونِ فطرت كو جانے اور اس كي مدد سے اِن چيزوں كو اپني ضرورت كے ليے استعمال كرے۔ عالمِ نجوم كے معاملے ميں تسخير كا مطلب اُن كو اپني ضرورت كے ليے استعمال كرنا نهيں هے، بلكه اِس كا مطلب يه هے كه وسيع عالمِ نجوم كو انسان آلات كي مدد سے ديكھے، وه ان پر غور وفكر كرے۔ وه غور وفكر كے ذريعے عالمِ نجوم كو اعلي معرفت كے حصول كا ذريعه بنائے۔

سمندروں اور حيوانات كي تسخير انسان كي خدمت كے ليے هے۔ اور عالمِ نجوم كي تسخير اِس ليے هے كه ان كے ذريعے سے آدمي خالق كي عظمت كو دريافت كرے۔وه اُن ميں غوروفكر كركے اپنے ليے معرفتِ اعلي كا رزق حاصل كرے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭

ایک سائنسداں نے کہا:میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گزار ہوگیا ہوں :

سائنس داں جب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے جس نے اتنی بامعنی کائنات بنائی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ در اصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طور پر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طور پر اقرارِ خدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں  (ڈائری،1985 ) ۔

 

تاریخ انسانی کا خاتمہ

12 اگست 2012 كو امريكا كي ايك خبر تمام اخباروں ميں نماياں طورپر شائع هوئي۔ وه خبر يه تھي كه ايك امريكي صحافي كو نظرياتي سرقه (plagiarism) كا مرتكب پايا گيا اور اِس بنا پر اس كو اس كے صحافتي جاب سے فوري طورپر معطل كردياگيا۔ اس خبر كي سرخي يه تھي:

American journalist suspended for plagiarism.

نظرياتي سرقه كياهے، وه دراصل كسي شخص كي فكري پراپرٹي (intellectual property) كا سرقه كرنے كا نام هے۔ نظرياتي سرقه يه هے كه كسي شخص كے آئڈيا كو اصل مصنف كے حوالے كے بغير اپنا بنا كر نقل كيا جائے:

Plagiarism: Copying someone's idea without crediting the original author. (Merriam-Webster Dictionary)

يه معامله امريكا كے مشهور صحافي مسٹر فريد زكريا كا هے۔وه امريكي ميگزين ٹائم (Time) كے ايڈيٹر تھے۔ انھوں نے ٹائم كے شماره 20 اگست 2012 ميں اپنا ايك مضمون گن كلچر كے موضوع پر شائع كيا۔ اِس كا عنوان يه تھاThe Case for Gun Control:

اِس مضمون ميں انھوں نے ايك پيراگراف شامل كيا تھا جو پورا كا پورا، ايك اور شائع شده مضمون سے ليا گيا تھا۔ يه دوسرا مضمون امريكا كي ايل (Yale) يوني ورسٹي كي ايك خاتون پروفيسر جل ليپور (Jill Lepore) كا تھا، جس كو مسٹر فريد زكريا نے بلا حواله اپنے مضمون ميں شامل كرليا تھا۔ يه مضمون امريكا كے ايك اخبار نيوياركر (The New Yorker) كے شماره 22اپريل 2012 ميں اس عنوان كے تحت چھپا تھا Battleground America:

نظرياتي سرقه كا يه واقعه جو عالمي ميڈيا ميں آيا هے، وه كوئي ساده واقعه نهيں ۔ وه دراصل اِس قسم كے ايك زياده بڑے سرقه (super plagiarism) كے ليے ايك ياددهاني (reminder)كي حيثيت ركھتا هے۔ وه ايك انسان كي برخاستگي كے حوالے سے يه ياد دلا رها هے كه شايد وه وقت آگيا هے جب كه كائنات كا مالك پوري تهذيب كو برخاست كردے۔

سترھويں صدي عيسوي سے پهلے دنيا ميں روايتي دور قائم تھا۔ اس كے بعد دنيا ميں سائنٹفك دور كا آغاز هوا۔ سائنٹفك دور سے مراد وه دور هے جب كه انسان نے نيچر (nature)پر آزادانه غور وفكر شروع كيا۔ اِس غور وفكر كے بعد يه هوا كه نيچر ميں چھپے قوانين ايك كے بعد ايك دريافت هونے لگے۔ مثلاً پاني ميں اسٹيم پاور كي دريافت، اور مادّه (matter) ميں بجلي (electricity)كي دريافت، وغيره۔جديد دنيا، خاص طور پر مغربي دنيا ميں كئي سو سال تك اِس موضوع پر رسرچ جاري رهي، يهاں تك كه فطرت ميں چھپے هوئے هزاروں قوانين دريافت هوگئے۔ اِن كے ذريعے ايك نئي ٹكنالوجي بني اور بهت سے نئے فني علوم وجود ميں آئے۔ وه ظاهره جس كو جديد مغربي تهذيب كها جاتا هے، اس كي تشكيل تمام تر انھيں دريافت كرده قوانين فطرت پر مبني هے۔

يه قوانين جو موجوده زمانے ميں معمارانِ تهذيب نے دريافت كيے، اُن كو سائنسي قوانين (scientific laws) كهاجاتا هے۔ مگر اپني حقيقت كے اعتبار سے، يه سائنسي قوانين نهيں هيں ، بلكه وه خدائي قوانين(divine laws) هيں ۔ خدائي قوانين كو نظامِ فطرت سے لينا اور اُن كو سائنسي قوانين كے نام پر اپنا بناكر پيش كرنا، يه بلاشبه ايك سپر سرقه(super plagiarism) كا كيس هے۔ تهذيب جديد كے معمار وں كا يه واقعه بھي بلاشبہ اِسي قسم كا ايك سرقه هے۔ امريكي صحافي كا سرقه اگر جرنلسٹك سرقه (journalistic plagiarism) تھا تو معمارانِ تهذيب كا سرقه سائنٹفك سرقه(scientific plagiarism) هے۔ امريكي صحافي نے تو صرف اپنے ايك آرٹكل ميں نظرياتي سرقه كا ارتكاب كيا تھا، جب كه مغربي تهذيب كا پورا كا پورا ڈيولپمنٹ اِسي قسم كے عظيم تر نظرياتي سرقه كي بنا پر هوا هے۔ امريكي جرنلسٹ كا سرقه اگر صرف ايك انفرادي سرقه تھا تو مغربي تهذيب كا سرقه اس كے مقابلے ميں ايك عالمي سرقه (global plagiarism) كي حيثيت ركھتا هے۔

دنيا سے انسان كے بے دخلي

تهذيب كي ترقي كے نام پر مذكوره سائنسي سرقه كئي سو سال سے بڑے پيمانے پر ساري دنيا ميں جاري هے، مگر اِس مدت ميں اهلِ تهذيب كے درميان كوئي شخص نهيں اٹھا جو يه اعلان كرے كه يه تمام تهذيبي ترقياں خدائي قوانين (divine laws)كي بنا پر ممكن هوئي هيں ۔ هم كو چاهيے كه هم كھلے طورپر اِس حقيقت كا اعتراف كرليں ۔ بے اعترافي كا يه معامله اب اپني آخري حد پر پهنچ چكا هے۔ اب آخري طورپر وه وقت آگيا هے، جب كه كائنات كا خالق انسان كو زمين كے چارج سے بے د خل كردے اور زمين كا اور پوري دنيا كا نظام حقيقتِ واقعه كي بنياد پر قائم كرے۔

دنيا كا يه انجام پيشگي طورپر مقدر تھا۔ خدا نے پيشگي طورپر يه اعلان كرديا تھا كه ايك وقت آئے گا جب كه انسان كو زمين كے چارج سے بے دخل كرديا جائے اور دنيا كا نيا نظام بنايا جائے۔ اِس سلسلے ميں قرآن كا ايك بيان يه هے:وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (39:67)۔

اِس آيت ميں ’قدر‘ كا لفظ استعمال هوا هے۔ قدر كا مطلب هے اندازه كرنا، يعني انسان جو كچھ دنيا ميں كررها هے، وه اِس ليے كررها هے كه اس نے خالق كا كم تر اندازه (under-estimation) كرركھا هے۔ يه كم تر اندازه كيا هے، اِس كم تر اندازه كو قرآن كي ايك آيت ميں اِس طرح بيان كياگياهے: أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ(23:115) يعني كيا تم يه خيال كرتے هو كه هم نے تم كو بے مقصد پيدا كيا هے اور تم همارے پاس نهيں لائے جاؤگے۔

اس سلسلے ميں حديث كي كتابوں ميں ايك روايت آئي هے۔ يه روايت قرآن كي مذكوره آيت (وما قدروا الله حق قدره) كي مزيد تشريح كرتي هے۔ روايت كے الفاظ يه هيں : عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ هذه الآية ذات يوم على المنبر: {وما قدروا الله حق قدره والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سبحانه وتعالى عما يشركون} ، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول هكذا بيده، ويحركها، يقبل بها ويدبر يمجد الرب نفسه :”أنا الجبار، أنا المتكبر، أنا الملك، أنا العزيز، أنا الكريم“ فرجف برسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر حتى قلنا: ليخرن به (مسند احمد، حدیث نمبر 5414)۔ يعني عبد الله بن عمر بيان كرتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے ايك دن ممبر كے اوپر قرآن كي مذكوره آيت پڑھي۔ اُس وقت رسول الله صلي الله عليه وسلم نے اپنے هاتھوں كو حركت ديتے هوئے كها كه الله اپني تمجيد خود كرے گا (اور كهے گا ) ميں هوں جبار، ميں هوں متكبر، ميں هوں بادشاه، ميں هوں زبردست، ميں هوں كريم۔ يه كهتے هوئے رسول الله صلي الله عليه وسلم پر لرزه طاري هوا، يهاں تك كه هم نے كها كه شايد آپ گر پڑيں ۔ بعض روایتوں میں ہےکہ اللہ کہے گا: أنا الملك، أين ملوك الأرض(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4812)۔ یعنی میں ہوں بادشاہ، كهاں هيں زمين كے بادشاه ۔ أين الجبارون، أين المتكبرون (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2788)۔ كهاں هيں جبار، كهاں هيں متكبر۔

بظاهر ايسا معلوم هوتا هے كه وه وقت آگيا هے جب كه خالقِ كائنات ظاهر هو اور براهِ راست طورپر دنيا كا چارج لے لے۔ اسباب كے اعتبار سے، يه كهنا درست هوگاكه قرآن ميں جس آنے والے وقت كي پيشين گوئي كي گئي تھي، وه وقت بالفعل آچكا هے، اُس وقت كے آنے ميں اب كوئي دير نهيں ۔

لائف سپورٹ سسٹم كي تباهي

دنيا ميں زندگي گزارنے كے ليے انسان كو بهت سي چيزوں كي ضرورت هے۔ مثلاً پاني، روشني، آكسيجن، نباتات، وغيره۔ اِن چيزوں كے مجموعے كو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) كهاجاتا هے، يعني معاونِ حيات نظام۔ سائنس كي تحقيقات بتاتي هيں كه زمين پر يه معاونِ حيات نظام خطرناك حد تك بگڑ گياهے، سائنس داں برابر يه انتباه دے رهے هيں كه زمين پر انسان كي آبادكاري بهت جلد ناممكن هوجائے گي، يهاں تك كه مشهور برٹش سائنس داں اسٹفن هاكنگ نے اِس صورت حال كي نشان دهي كرتےهوئے كها هے كه هم كو اب خلائي بستياں (space colonies) بنانا چاهيے، حالاں كه اسٹفن هاكنگ اور دوسرے تمام لوگ جانتے هيں كه يه تجويز عملاً ممكن نهيں ۔

زمين كا وه حصه جس كو آركٹك (Arctic) كهاجاتا هے، يه برف كے بهت بڑے پهاڑ كي مانند هے جو كئي هزار مربع ميٹر كے رقبے ميں پھيلا هوا هے۔ يه برفاني پهاڑ زمين پر موسم كے توازن كو قائم ركھنے كے ليے بهت زياده اهميت كا حامل هے۔ آركٹك (قطب شمالي) كا يه منطقه مختلف پهلوؤں سے زمين پر انسان كي آبادي كے ليے بے حد اهميت ركھتا هے۔ مگر بيسويں صدي كے ربع آخر ميں ، جب سے گلوبل وارمنگ كے ظاهرے نے شدت اختيار كي هے، قطب شمالي كي يه برف بهت تيزي سے پگھل رهي هے۔ سائنس دانوں كے اندازے كے مطابق، شايدانديشه هے كه اگلے 10 برسوں ميں يه پورا برفاني پهاڑ پگھل كر سمندروں ميں چلا جائے۔ اِس كي بنا پر مختلف قسم كے خطرناك نتائج پيدا هوں گے جو زمين كو انسان كے ليے ناقابلِ رهائش بنا ديں گے۔اس سائنسي تحقيق كا خلاصه نئي دهلي كے انگريزي اخبار ٹائمس آف انڈيا ( 14اگست 2012) ميں حسب ذيل عنوان كے تحت شائع هوا هے:

Arctic Sea Ice May Vanish in 10 Years (p. 19)

خلاصه كلام

اوپر جو كچھ لكھا گيا، اس كا خلاصه يه هے كه انسان نے اُس نوعيت كا ايك بهت بڑا واقعه كيا هے جس كو نظرياتي سرقه كهاجاتا هے۔ وه چيز جس كو جديد تهذيب كها جاتا هے، وه پوري كي پوري اِسي جرم كے نتيجے ميں پيدا هوئي هے۔ اِس جرم ميں موجوده زمانے كي پوري آبادي شريك هے۔ جن لوگوں نے اِس تهذيب كو وجود ديا، وه اِس جرم ميں براهِ راست طورپر شريك هيں ، اور بقيه لوگ جو تهذيب كے اِس جرم پر نكير (denial) كيے بغير اُس سے فائده اٹھا رهے هيں ، وه بالواسطه طورپر اِس جرم ميں شريك هيں ۔

اِس نظرياتي سرقه (plagiarism)كے خلاف خالق كي كارروائي اب مستقبل بعيد كي چيز نهيں رهي۔ يه كارروائي اب عملاً شروع هوچكي هے۔ اِس كارروائي كو ايك لفظ ميں اِس طرح كها جاسكتا هے كه خالق نے يه فيصله كرديا هے كه انسان كو مذكوره جرم كي بنا پر زمين سے بے دخل كرديا جائے۔ خالق كا يه فيصله لائف سپورٹ سسٹم كے خاتمے كي صورت ميں بتدريج ظاهر هورها هے۔ بظاهر وه وقت بهت قريب آچكا هے جس كي پيشين گوئي قرآن كي مختلف آيتوں ميں كي جاچكي تھي۔

 

معرفت کی تاریخ

کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ یہ بلاشبہ سنجیدہ مطالعے کا ایک موضوع ہے۔ اس کا تعلق ہر فرد سے بھی ہےاور پوری انسانی تاریخ سے بھی۔ اس معاملے میں متعلق لٹریچر (relevant literature)کے گہرے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے۔ علمی مطالعہ کے مطابق، اللہ رب العالمین نے موجودہ کائنات کا آغاز تقریباً تیرہ بلین سال پہلے کیا۔ اس مدت میں منصوبہ بند اندازمیں تدریجی (gradually) طور پر پوری کائنات وجود میں آئی ۔ اس مدت کو توسیعی تقسیم (broad division)کے مطابق چھ بڑے ادوار (periods) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1 - اس سلسلے میں معلوم طور پر، پہلا واقعہ جو اس کائنات میں پیش آیا، وہ یہ تھا کہ خالق نے تقریبا 13 بلین سال پہلے خلا (space) میں ایک عظیم دھماکہ مینج (manage) کیا۔ اس دھماکہ کو انگلش عالم فلکیات (astronomer) فریڈ ہائل (Fred Hoyle)نے 1949 میں بگ بینگ (Big Bang) نام دیا ۔یہ بگ بینگ اب سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact)بن چکا ہے۔ اس دھماکہ سے موجودہ کائنات کا آغاز ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (21:30) ۔یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔

اس کا مطلب سائنسی معلومات کی روشنی میں یہ ہے کہ ابتدا میں ایک عظیم گولا(super atom) تھا، جس کے اندر کائنات کے تمام پارٹیکل موجود تھے۔ اس دھماکے کے بعد بگ بینگ کے پارٹیکل (particles)وسیع خلا میں تیزی سے پھیل گیے۔ اور پھر ایک حکیمانہ منصوبہ کے تحت مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ان ذرات(particles) کے مجموعے سےموجودہ کائنات وجود میں آئی۔

2 - مذکورہ تدریجی عمل کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہے جس کو سولر بینگ (Solar Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد لمبے عمل (process)کے تحت شمسی نظام اپنے تمام سیاروں (planets) کے ساتھ وجود میں آیا۔ اس کائناتی واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ یَسْبَحُونَ (21:33)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے۔ سب ایک ایک مدار (orbit)میں تیر رہے ہیں ۔

یہ شمسی نظام ایک عظیم کہکشاں (galaxy) کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے، جس کو ملکی وے (Milky Way) کہا جاتا ہے۔ اس طرح شمسی نظام کو کائنات میں ایک محفوظ علاقہ (area) مل گیا۔اس حقیقت کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیاہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ، وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (56:75-76) ۔یعنی میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی۔ اور اگر تم جانو تو بیشک یہ بہت بڑی قسم ہے ۔یہاں مواقع سے مراد محل وقوع ہے۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ شمسی نظام کو نہایت بامعنی طور پرعظیم ملکی وے کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے۔ اس محل وقوع کی بنا پر شمسی نظام کو ایک محفوظ علاقہ (safe area) مل گیا ، جو انسان جیسی مخلوق کی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

3 - کائنات میں تیسرا واقعہ وہ ہے جس کو واٹر بینگ (water bang) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی سیارۂ ارض کا ٹھنڈا ہونا اور پھر زمین کے اوپر پانی کے ذخائر کا وجود میں آنا، اور پھر پانی کی وجہ سے ہر قسم کی زندگیوں کا پیدا ہونا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (21:30)۔یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔تمام زندہ چیزوں کے وجود کا بڑا حصہ پانی ہوتا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے ،انسان کا جسم تقریبا 60 پرسنٹ پانی پر مشتمل ہے۔

Water is of major importance to all living things, in some organisms, up to 90% of their body weight comes from water. Up to 60% of the human adult body is water.

4 - چوتھا بڑا واقعہ جو زمین پر پیش آیا وہ دنیائے نباتات کا وجود میں آنا تھا۔ اس کو پلانٹ بینگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد زمین جو پہلے خشک کرہ کی مانند تھی، اب سر سبز سیارہ (Green Planet) کی صورت اختیار کرگئی۔اس واقعہ کا اشارہ قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصراتِ مَاءً ثَجَّاجًا ، لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا، وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا(78:14-16)یعنی اور ہم نے پانی بھرے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔ تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے اگائیں غلہ اور سبزی۔ اور گھنے باغ۔

5 - اس سلسلہ کا پانچواں دور وہ ہے جب کہ زمین پر مختلف قسم کی جاندار چیزیں وجود میں آئیں ، کیڑے مکوڑوں سے لے کر ہاتھی اور شیر تک۔ تخلیق کے اس پانچویں فیز (phase)کو انیمل بینگ (animal bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مختلف قسم کے بیشمار جاندار اشیاء (species) پیدا ہوئیں ، جن کی واقعی تعداد اب تک نامعلوم ہے:

Eight million seven hundred thousand is the latest estimated total number of species on Earth and the most precise calculation ever offered, according to a study co-authored by a researcher with the United Nations Environment Program (UNEP). Around 6.5 million species are found on land and 2.2 million (about 25 percent of the total) dwells in the ocean depths. The report also shows that 86% of all species on land and 91% of those in the seas have yet to be discovered, described, or catalogued.

6 - اس سلسلہ میں چھٹا بینگ وہ تھا جس کو ہیومن بینگ (Human Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس آخری دور میں انسان کو پیدا کیا گیا ، اور نسل درنسل پھیلتا ہوااس زمین (planet earth)پر آباد ہو گیا۔ بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا 13 بلین سال کے دوران تمام تخلیقی واقعات منصوبہ بند انداز میں پیش آئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار انسان کو پیدا کرکے اس کو زمین پر آباد کیا جائے۔ اور پھر انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ کوشش سے اس چیز کو وجود میں لائے جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے۔تہذیب گویا محدود معنی میں کلمات اللہ (31:27, 18:109) کی جزئی اَن فولڈنگ (unfolding)تھی۔ فطرت کے اس طریقِ عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ انسان کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی عقل کو اعلیٰ ارتقائی درجہ (high level of development) تک پہنچا سکے۔

موجودہ کائنات کے دو حصے ہیں ، انسانی دنیا (human world)اور دوسرے غیر انسانی دنیا(non-human world) ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر انسانی دنیا خارجی طور پر مینج کی جانے والی دنیا (externally managed world) ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی دنیا خود مینج کی جانے والی دنیا (self-managed world) ہے۔ اب تاریخ ایک ایسےاعلی ترقی یافتہ دور (super developed world)کی طرف جارہی ہے جہاں ماضی کے ریکارڈ کے مطابق غیر مطلوب انسانوں کو چھانٹ دیا جائے، اور مطلوب انسانوں کو الگ کرکے یہ موقع دیا جائے کہ وہ آئیڈیل ورلڈ میں ابدی راحت کی زندگی گزاریں ۔یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیاهے —  صادقین زمین کے وارث ہوں ، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے:

The righteous will inherit the land, and dwell in it permanently.  (Psalm: 37:29)

بائبل میں مذکور اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (21:105)۔یعنی اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔

یہ دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل دورِ ماضی کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ یہاں پوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities)کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔ یعنی یہ اہل جنت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔

انسان کائنات کا ہیرو ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوریج (average) عمر تقریباً 70 سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملاً ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں ۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔

یہاں انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار(deserving candidate) قرار پائے۔

اس تخلیقی مقصد کی بنا پر ایسا ہوا کہ خالق نے پوری کائنات کو کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) بنایا۔ اس واقعہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (45:13)۔ یعنی خدا نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔آیت میں جمیعا منہ کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ تسخیر کا یہ معاملہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا، بلکہ وہ خالق کے باقاعدہ منصوبہ (well-considered plan) کے تحت ہوا ہے۔

انسان اس پوری کائنات میں ایک خصوصی تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان کو اس کے خالق نے دماغ (mind) دیا، جو کسی بھی دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔ انسا ن کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتیں دی ہیں ۔ مزید یہ کہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو امانت الٰہی (الاحزاب 72:) سے سرفراز کیا گیا۔ انسان واحد مخلوق ہے جس کو کامل آزادی (total freedom) دی گئی ہے۔ انسان کے لیے یہ مقدر کیا گیا ہے کہ اگر وہ آزادی پاکر اس کا غلط استعمال (misuse) نہ کرے، بلکہ آزادی کو وسیع تر تخلیقی نقشہ (Creation plan of God)کےمطابق استعمال کرے تو اس کے لیے ابدی جنت (eternal Paradise) کا انعام (reward)ہے۔

مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے سوا جو دوسری مخلوقات ہیں ، مادیات، نباتات، حیوانات، وہ سب کی سب فطرت کے قانون (law of nature) کے ماتحت ہیں ۔ حتی کہ حیوانات بھی مکمل طور پر اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت کام کرتے ہیں ۔ یہ صرف انسان ہے جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ذاتی ارادے کے تحت سوچے اورکامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔

اس میں شک نہیں کہ انسان مکمل طور پر ایک آزاد مخلوق ہے۔ لیکن یہ آزادی صرف ذاتی عمل کے اعتبار سے ہے۔ یعنی انسان آزاد ہے کہ وہ وسیع تر نقشۂ تخلیق کے مطابق عمل کرے یا اس کا باغی بن جائے۔ لیکن جہاں تک عمل کے نتیجہ کا تعلق ہے، اس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ۔ یہاں خالق نے مقدرکیا ہے کہ انسان اگر خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے ابدی جنت ہے۔ اور اگر وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کی خلاف ورزی کرے تو اس کے لیے ابدی جہنم ہے۔

رب العالمین کے اس تخلیقی نقشہ کو قرآن میں اشارات کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مادی کائنات کی تخلیق کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا ، اور اس کو زمین پر خلیفہ (البقرۃ30:) کی حیثیت سے آباد کیا گیا۔خلیفہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو انسانی زبان میں  انچارج کہا جاتا ہے۔فرشتے خدا کے حکم کے مطابق، کائنات کا نظام اس طرح چلا رہے ہیں کہ ہمیشہ انسان کے لیے وہ ایک موافق دنیا بنی رہے۔ اس کے بعد انسان نے جب نیچر کے خفیہ رازوں کو دریافت کرنا شروع کیا اور ٹکنالوجی پر مبنی تہذیب کی تشکیل کی تو اس معاملے میں بھی انسان کو مسلسل طور پر فرشتوں کی مدد حاصل رہی۔ اس کا اشارہ پیغمبر نوح کی کشتی سازی کے ذکر میں اس طرح کیا گیا ہے:وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا (11:37)۔اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہی واقعہ جدیدتہذیب (modern civilization) کی تشکیل کے معاملہ میں پیش آرہا ہے۔ گویا خالق نے انسان سے یہ کہہ دیا کہ اصنع الحضارۃ باعیننا و وحینا۔ یعنی تہذیب بناؤ ہماری آنکھوں کے سامنے، اور ہماری وحی کے مطابق۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر سائنسی دریافتیں کسی نہ کسی اتفاق (chance)کے ذریعہ وجود میں آئیں ۔تفصیل کے لیے وکی پیڈیا پر یہ مضمون دیکھا جاسکتا ہے:

"Role of Chance in Scientific Discoveries".

یہ اتفاقات محض اتفاقات نہیں ہیں ، بلکہ وہ فرشتوں کے تعاون کی مثالیں ہیں ، جو غیر مرئی مدد کے طور پر سائنسدانوں کو حاصل ہوتی ہیں ۔ اس قسم کے اتفاق کے لیے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس کو سرنڈیپیٹی (Serendipity)کہا جاتا ہے:

Serendipity is a happy and unexpected event that apparently occurs due to chance and often appears when we are searching for something else. Serendipity...happens in our daily lives and has been responsible for many innovations and important advances in science and technology.

تاریخ انسانی کے دوسرے دور میں ایک نئی دنیا بنائی جائے گی۔ یہ دنیا، اسی زمین و آسمان کے اندر ہوگی۔ لیکن اس وقت زمین و آسمان ایک بدلے ہوئے زمین و آسمان ہوں گے(ابراہیم48:)۔ اسی بدلی ہوئی کائنات میں جنت واقع ہوگی۔ اس جنت کا کیمپس اتنا بڑا ہوگا جتنے بڑے موجودہ زمین و آسمان (آل عمران 143:)ہیں ۔ اس اعلی جنت کا انتظام دوبارہ فرشتے کریں گے۔ انسان کے لیے اس جنت میں ہر قسم کی مطلوب چیزیں موجود رہیں گی(فصلت31:) ۔ جنت کی یہی وہ معیاری دنیا ہے جو منتخب لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بائبل میں ان کے لیے صادقین (righteous) کا لفظ آیا ہے، اور قرآن میں اسی کا ہم معنی صالحین کا لفظ استعمال ہواہے۔ یہاں وہ اعلی معرفت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔

انسان کےساتھ تخلیق کا یہ معاملہ بیحد نازک معاملہ تھا۔ یہاں ضروری تھا کہ انسان کو صحیح رہنمائی (right guidance) ملے، جو انسان کو خالق کے تخلیقی نقشہ سے باخبر کرے۔ اور یہ بتائے کہ انسان کے لیے اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا درست لائحہ عمل کیا ہے۔

انسان کی یہی ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے انبیاء (prophets) بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ انبیاء مکمل طور پر انسان تھے۔ البتہ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ خالق نے تقریباً 40 سال کی عمر تک ان کا جائزہ لینےکے بعد یہ پایا کہ وہ کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے لائق (competent) فرد ہیں ۔ اس طرح ہر نبی کی انفرادی خصوصیت کی بنا پر اس کا انتخاب کیا گیا۔ اور فرشتہ جبرئیل کے ذریعہ خالق نے ان کو اپنی رہنمائی، وحی (revelation) کے ذریعہ بھیجی، اور ان پر کتاب نازل کی تاکہ وہ خالق کے نمائندہ (representative) کی حیثیت سے انسان کو درست رہنمائی (right guidance) دیں ۔ اور پھر انسان ان کی رہنمائی کے مقابلے میں جو رسپانس (response) دے ، اس کے ریکارڈ کو دیکھ کر ہر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔

اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔

انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔

پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں :

 (1) نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)

(2) طریقِ کار (Method)

 پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں ۔

پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے۔ انھوں نے انسا ن کو بتایا کہ یہ زمین تمھارے لیے ابدی قیام گاہ (eternal habitat) نہیں ہے، بلکہ یہ تمھارے لیے ایک عارضی قیام گاہ (temporary abode) ہے۔ یہاں تمھیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ تم اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق (deserving candidate) بناؤ، اور تاریخِ انسانی کے خاتمہ پر جنت کی شکل میں اپنے مطلوب ابدی ہیبیٹاٹ (habitat) میں جگہ پاؤ۔ ساتویں صدی عیسوی میں محمد عربی کے ظہور کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ مگر خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان پھر بھی پیدا ہوکر زمین پر آباد ہورہے تھے۔ اب یہ سوال تھا کہ بعد کو پیدا ہونے والے انسانوں تک خدائی رہنمائی کی نمائندگی کون کرے۔

ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف68:) بن کر اس کو انسانوں تک پہنچایا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 عیسوی میں مدینہ میں ہوئی۔ آپ اللہ کے آخری رسول تھے۔ آپ نے اپنے بعد ہدایت کے دو مستند ذریعے (authentic sources)چھوڑے، ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول۔ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور جاری ہے۔پہلے انبیاء کی حیثیت امت وسط کی ہوتی تھی، اب پیغمبر آخرالزماں کے متبعین کی حیثیت امت وسط کی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (2:143) ۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔

امت وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle community) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین سب کے سب امت محمدی ہیں ۔ ان کی حیثیت دوبارہ امت وسط کی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر، خدا اور انسان کے درمیان امت وسط ہوتے تھے۔ اب پیغمبر آخرالزمان کے متبعین ، محمد بن عبد اللہ اور اقوام عالم کے درمیان امت وسط کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ پیغمبر آخرالزمان کی رہنمائی کو جاننےکا ذریعہ قرآن اور سنت رسول ہے۔ امت کو یہ کرنا ہے کہ خالص موضوعی (objective) انداز میں وہ قرآن اور سنت رسول کا مطالعہ کرے، اوراس کی تعلیمات کو کسی آمیزش کے بغیر پر امن انداز میں ہر دور کے انسانوں تک پہنچاتی رہے۔ یہ کام اس کو تمام اقوام کی قابل فہم زبان میں کرنا ہے۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم(14:4)۔ اس کی پرکٹیکل صورت یہ ہے کہ قرآن کے تراجم تیار کرکے ان کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے۔ یہاں تک کہ حدیث (مسند احمد، حدیث نمبر23814)کے مطابق، وہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے۔ یہی امت محمدی کا ابدی مشن ہے۔

خلاصہ یہ کہ امت محمدی کی حیثیت سے مسلمانوں کا ایک ہی مشن ہے۔ اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور غیر قومی (non-communal) انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ60:) کہا گیا ہے۔ تالیف قلب ایک ابدی اصول ہے۔ وہ کبھی اور کسی حال میں منسوخ ہونے والا نہیں ۔