الرسالہ 

(جنوری-فروری 2022)

 

 

 

 

مولانا وحید الدین خاں

انسان کی تخلیق

انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد انسان کو فطری ترقی کا موقع فراہم کرنا ہے۔ خالق جب زمین پر ایک درخت اگاتا ہے تو وہ درخت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ زمین کے مواقع کو اویل کرے تاکہ مسلسل طور پر اس کا گروتھ (growth)جاری رہے۔ اب جو درخت ان مواقع کو اویل کرے وہ سرسبز اور بڑا درخت بنے گا، اور جو ایسا نہ کرے، وہ مرجھا کر فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ۔تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (14:24-26)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمہ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک خراب درخت کی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے۔ اس کو کوئی ثبات نہ ہو۔

درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دسترخوان بناتا ہے ، وہ زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لیتا ہے، اور ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک تناور درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔

یہی فطری قانون اعلیٰ پیمانے پر انسان کے لیے جاری ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عام درخت اگر مادی وجود ہے تو انسان شعوری وجود۔ انسان کے لیے موجودہ دنیا میں نہ صرف مادی ترقی کا موقع ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کراس کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا موقع حاصل ہے۔ انسان سے اصل مطلوب یہی ذہنی ترقی یا ایمانی ترقی ہے۔ سنسیر (sincere) انسان ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے تو دوسری طرف " اوپر " سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔ وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتا ہے اور خالق سے بھی اس کی قربت برابر جاری رہتی ہے۔

اچھا درخت ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتا ہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بےزوری کی۔ ہر موقع پر ایک مومن کی زبان اور اس کا کردار وہی ردعمل ظاہر کرتا ہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔

  اہل ایمان کی اس خصوصیت کو ایک حدیث ِرسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999) ۔یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے، وہ شکر کرتا ہے تووہ اُس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔

اس حدیث میں مومن سے مراد مسلم گھر میں پیدا ہونے والا انسان نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ انسان ہے، جس کو ایمان ڈسکوری کی سطح پر حاصل ہوا ہو، جو تدبر(contemplation) اور تفکر (reflection) کی صفت کا حامل ہو۔ایسا انسان ہر چیز سے اپنے لیے معرفت کی غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ چیزوں کو خدائی تخلیق کے اعتبار سے دیکھتا ہے ۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ عسر میں یسر کو دریافت کرلیتا ہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھتا ہے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلاتا ہے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا ہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلاتی ہے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کرتی ہے۔

خدا کی حکومت

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا کی حکومت قائم کریں۔ مگر یہ خدا کے منصوبۂ تخلیق سے بے خبری کا اعلان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں ہر لمحہ خدا کی حکومت کامل طورپر قائم ہے اور مومن وہ ہے جو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا اعتراف کرکے اس کے آگے اختيارانه طورپر سرنڈر کر دے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس قائم شدہ حکومت کا متقیانہ شہری بنا لے۔ اسی اختیاری اطاعت کا دوسرا نام ایمان ہے۔

قرآن میں ارشاد ہوا ہے: أَفَغَيْرَ دِينِ اللّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ( 3:83)۔ یعنی کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالاں کہ اسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میںہے، خوشی سے یا ناخوشی سے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنا دین ساری کائنات میں جبراً قائم کررکھا ہے۔ انسان کو یہی دین اپنے ذاتی فیصلہ کے تحت اختیار کرنا ہے۔ اس اختیار کا تعلق اصلاً فرد سے ہے، نہ کہ مخصوص نظام کے قیام سے۔ اگر بالفرض کسی انسانی نظام کے اوپر اللہ کا دین قاہرانہ طاقت کے ذریعہ نافذ کردیا جائے تب بھی اللہ کا مطلوب پورا نہ ہوگا۔ کیوں کہ اللہ کے منصوبہ کے مطابق، جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ ہر فرد اپنے آزادانہ اختیار کے تحت اللہ کا مطیع بن جائے۔

قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ حق اور باطل کو واضح طورپر بیان کردیا ہے۔ اب جو شخص چاہے اُس کا مومن بنے اور جوشخص چاہے اُس کا انکار کردے (الکہف،18:29)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرے، پھر دیکھے کہ کون شخص اپنی آزادی کے ساتھاختیارانہ طور پر  اطاعت کا ثبوت دے کر انعام کا مستحق بنتا ہے، اور کون شخص آزادانہ نافرمانی میںمبتلا ہوکر ابدی ناکامی سے دو چار ہوتا ہے۔

خدا کی اطاعت کا بجبر نافذ کیا جانے والا نظام خدا کے تخلیقی منصوبہ کی نفی ہے۔ اس لیے وہ خدا کا مطلوب عمل نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس طرح قاہرانہ اطاعت کا نظام پوری انسانی تاریخ میں کبھی اس دنیا میں قائم نہیں ہوا، اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کا مطلوب ہی نہ تھا۔

نکاح خیر کا دروازہ

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَت:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3895)۔ یعنی عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آپ نے کہا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔

اصل یہ ہے کہ ایک مرد و عورت جب نکاح کے تعلق میں اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ ان کے لیے زندگی کا بھرپور تجربہ ہوتاہے۔ اس تعلق کے ذریعے ان کو ہر صبح و شام طرح طرح کے تجربے پیش آتے ہیں۔ کبھی اچھے اور کبھی بظاہر برے۔ اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ۔ کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات۔ کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے۔ کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے۔ کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں۔ کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔

  گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ کیوں کہ موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے، اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔

انسان کو چاہیے کہ وہ ان تجربات کو سبق کے خانے میں ڈالے۔ ان تجربات کے ذریعے وہ ہمیشہ خیر کا پہلو تلاش کرے۔ ان تجربات کو وہ ہمیشہ وسیع تر معنی میں لے۔ ایک گھریلو تجربے کو وسیع ترمعنی میں زندگی کے تجربے کے طو رپر دیکھے۔ وہ ہر تجربے میں خیر کا پہلو تلاش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو نکاح کا تجربہ اس کے لیے پوری زندگی کی اصلاح کا تجربہ بن جائے گا۔

 طلاق کا مسئلہ

طلاق (divorce) کیا ہے۔ طلاق کا مطلب یہ ہےکہ ایک بااختیار ادارہ کی طرف سے نکاح کے رشتے کو ختم کرنا:

The legal dissolution of a marriage by a court or other competent body.

نکاح صرف ایک مرد اور ایک عورت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ نکاح قانون فطرت کا معاملہ ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب نکاح کے ذریعہ آپس میں رشتہ قائم کرتے ہیں تو وہ فطرت کے ایک قانون کو اپنے اوپر منطبق (apply)کرتے ہیں۔ فطرت کے جو قوانین ہیں، وہ سب کے سب بلا استثنا زندگی کے محکم اصول پر قائم ہیں۔ نکاح کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت اورایک مرد باہمی طور پر ایک دوسرے کے پارٹنر بنیں، اور کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کی تکمیل کریں۔

اس اعتبار سے طلاق خالق کے نقشۂ تخلیق کا حصہ نہیں۔ وہ انسان کے غلط استعمال آزادی (misuse of freedom) کا حصہ ہے۔ طلاق کسی انسان کے لیے ایک جذباتی ظاہرہ (emotional phenomenon) ہے۔ وہ انسان کی حقیقی ضرورت (real need) کا حصہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کا ایک ٹائم باؤنڈ منضبط طریقہ (prescribed method) مقرر کیا گیا ہے، جو تین مہینہ کے پراسس میں مکمل ہوتا ہے۔ جذباتی ارادہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ اس لیے طلاق کا ایک طویل کورس بنادیا گیا ہے۔ تاکہ آدمی اپنے ارادے پر از سر نو غور (rethinking) کرے، اور جذباتی فیصلہ کے بجائے سوچے سمجھے فیصلہ کو اختیار کرے۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ طلاق کا ارادہ ایک جذباتی ارادہ ہے۔ آدمی کو اگر سوچنے کا وقفہ دیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظر ثانی کرے گا، اور نکاح کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔

میں ذاتی طور پر ایسے واقعات کو جانتا ہوں جب کہ ایک انسان نے نکاح کے بعد جذباتی طور پر طلاق کا ارادہ کیا۔ لیکن ایسے اسباب پیش آئے کہ وہ فور ی طور پر طلاق نہ دے سکا، بلکہ اپنے ارادے پر بالقصد یا حالات کے دباؤ کے تحت نظر ثانی کی۔ اس کے بعد اس کا ارادہ بدلا، اور اس نے منکوحہ عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ وہ یہ کہ مرد نے عور ت کی خصوصیات کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا، اور پھر ان خصوصیات کو استعمال (utilize) کیا۔ اس کے بعد دونوں کاگ وھیل (cogwheel) کی طرح مل کر کام کرنے لگے، اور انھوں نے غیر متوقع طور پر بڑی کامیابی حاصل کی۔

اصل یہ ہے کہ لوگ عام طور پر شادی شدہ عور ت کو اپنے لیے صرف ہوم پارٹنر (home partner) سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے لائف پارٹنرس ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے فطرت کی طرف سے دیے ہوئے انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں، اور دونوں مل کر ایک دوسرے کے لیے تکملہ (counterpart) بن جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک طرف قرآن میں طلاق کا ایک مقررہ طریقہ (prescribed course) ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ (2:229)۔ یعنی طلاق دو بار ہے، پھر یا تو قاعدہ کے مطابق رکھ لینا ہے یا خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردینا۔ دوسری طرف حدیث میں طلاق کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں:أبغض الحلال إلى الله الطلاق(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2018)۔ یعنی خالق کے نزدیک طلاق انتہائی حد تک ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص طلاق پر اصرار کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ مقرر کورس کے مطابقان تین مہینوں تک جذبات سے کام لینے کے بجائے خوب سوچے، اور پھر تیسرے مہینے میں عدت کے اختتام پر طلاق کی تکمیل کرے۔ ایساانسان کو یہ موقع دینے کے لیے کیا گیا کہ وہ آخری حد تک سوچے ، اور طلاق صرف اس وقت دے، جب کہ طلاق اس کے لیے سوچے سمجھےفیصلہ کے تحت ایک ناگزیر ضرورت بن جائے۔ فطرت کے مطابق ، نہ کہ خواہش کے مطابق، اس کے لیے کوئی دوسر ا آپشن سرے سے موجود ہی نہ ہو۔

موجودہ زمانے میں طلاق کو لے کر ایک نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہے تین طلاق کا مسئلہ۔ تین طلاق کا طریقہ بدعت کا طریقہ ہےجو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ ابتدائی دور کا مسلم معاشرہ اس مبتدعانہ طریقہ سے پاک تھا۔ تین طلاق کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں عبد اللہ ابن عباس کی ایک روایت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1472)۔ اس معاملے میں دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:وَكَانَ عُمَرُ إِذَا أُتِيَ بِرَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا أَوْجَعَ ظَهْرَهُ (سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 1073)۔ یعنی عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ طلاق کا معاملہ رسول اللہ کے عہد میں اور ابوبکر کے عہد میں اور عمر کے ابتدائی دو سالوں میں یہ تھا کہ تین طلاق ایک تھی۔ تو عمر بن الخطاب نے کہا کہ لوگ اس معاملہ میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں، جس میں ان کے لیے جلد بازی نہیں تھی، تومیں چاہتا ہوں کہ لوگوں کے لیے  ایک حکم جاری کر دوں۔ چنانچہ انھوں نےحکم جاری کیا۔ دوسری روایت کے مطابق، اس  حکم کا ایک جزءیہ بھی تھا کہ: عمر کے پاس جب ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی عورت کو (بیک وقت )تین طلاق دی ہو تو عمر اس کی پیٹھ پر کوڑے مارتے تھے۔

خلیفہ ثانی عمر فاروق نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین واقع کرنے کا جو عمل کیا، اس کی حیثیت حکم حاکم (executive order) کی تھی۔ اس کی حیثیت شریعت میں کسی تبدیلی کی نہ تھی۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حکم حاکم ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وہ محدود زمانے  کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اللہ کے حکم کی طرح قیامت تک کے لیے ایک ابدی حکم۔ لیکن بعد کے علما نے حاکم کے اجتہادی حکم کو عملاً امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ وہ خلیفہ عمر کے اسی عمل پر فتویٰ دینے لگے،جب کہ خلیفہ عمر کا ہرگز یہ منشا نہ تھا۔بعد کے علما کو یہ حق نہ تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو شرعی حکم کی طرح عام حکم کر دیں۔ اسی لیے عمر فاروق کے حکم کو عام کرنے کے باوجود ان کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ خطاکار کے پیٹھ پر کوڑے ماریں، اور اس کے بعد تین طلاق کو شرعی طور پر واقع کرنے کا فتوی دیں۔کیوں کہ کوڑا مارنے کا حق مسلمہ طور پر صرف حاکم کو ہے، کسی اور کو ہرگز نہیں۔جب علما کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خطاکار کو کوڑے ماریں تو ان کو یہ بھی حق نہیں تھا کہ وہ خلیفہ کے حکم کو عام کریں، اور عام کرکے تین طلاق کو واقع کرنے کا طریقہ اختیار کریں۔ بعد کے علما کا یہی وہ اجتہادی طریقہ ہے ، جس سے تین طلاق (triple talaq) کا موجودہ مسئلہ پیدا ہوا۔

معروف عالم ابن تیمیہ( 661-728ھ) نے علما کی اس غلطی کو جانا اور انھوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ انھوں نے کہا : إن طلقها ثلاثا في طهر واحد بكلمة واحدة أو كلمات...أنه محرم ولا يلزم منه إلا طلقة واحدة... فإن كل طلاق شرعه الله في القرآن في المدخول بها إنما هو الطلاق الرجعي؛ لم يشرع الله لأحد أن يطلق الثلاث جميعا (مجموع الفتاوى، 33/8-9)۔ یعنی اگر کسی نے ایک طہر میں تین طلاق دی، ایک ہی کلمہ میں یا ایک سے زیادہ کلمات میں ... تو یہ حرام ہے، اور اس سے صرف ایک طلاق لازم آتی ہے... کیوں کہ ہر وہ طلاق جس کو اللہ نے قرآن میں مدخول بہا کے لیے مشروع کیا ہے، وہ طلاق رجعی ہے، اللہ نے کسی کے لیے ایک ساتھ تین طلاق کو مشروع نہیں کیا ۔

مگر ابن تیمیہ کے بعد سلفی علماکے سوا دوسرے علمانے ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کو عملاً تسلیم نہیں کیا۔ وہ بدستور اپنی سابق روش پر قائم رہے۔ اس معاملے میں بعد کےعلما کی روش ایک غلط فہمی پر قائم تھی۔ انھوں نے غلط طور پر قدیم علما کی روش کو اجماعِ امت کا مسئلہ بنا لیا۔ حالاں کہ ہرگز وہ اجماعِ امت کا مسئلہ نہ تھا۔ یہ بلاشبہ ایک غلط فہمی کا معاملہ تھا۔ خلیفہ عمر فاروق کے بعد آنے والے علما نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے حکم حاکم (executive order) کو امر شرعی کا درجہ دے دیا۔ مزید غلطی یہ ہوئی کہ غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت کا درجہ دے دیا گیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ تھا۔ یعنی پہلےمرحلہ میں حکم حاکم کو امر شرعی کا درجہ دینا، اور پھر غلط فہمی پر مبنی علما کے اس عمل کو اجماعِ امت سمجھ لینا۔  

اب سوال یہ ہے کہ اس معاملہ میں صحیح موقف کیا ہے۔ صحیح موقف یہ ہے کہ اس معاملے میں ماضی کی غلطی کی تصحیح کی جائے،اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ کے عمل کو حکم حاکم (executive order) کا درجہ دیا جائے، نہ کہ حکم شریعت کا درجہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعد کے علما نے جب خلیفہ عمر کے عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا شروع کردیا تو یہ فتویٰ ناقص فتویٰ کی حیثیت رکھتا تھا۔ کیوں کہ ان علما نے طلاقِ ثلاثہ کو واقع کرنے کا فتویٰ تو دیا، جب کہ اس کے لازمی جزء ،یعنی کوڑا مارنےکو چھوڑ دیا۔اس طرح اس مسلک کی کوئی بنیاد نہ تھی۔ یہ مسلک نہ تو ابتدائی دور پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے مسلک پر۔ اس کا جواز نہ تو دور اول کے عمل پر قائم تھا، اور نہ خلیفہ عمر کے حکم حاکم کے عمل پر۔ اب ضرورت ہے کہ امام ابن تیمیہ کے فتویٰ کو اس معاملے میں دوسرے علما بھی درست مسلک کے طور پر اختیار کرلیں، جس طرح سلفی علما نے اس کو اختیار کرلیا ہے۔ یعنی طلاقِ ثلاثہ کو غضب پر محمول کرنا، اور اس کو ایک طلاق کا درجہ دینا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــ

انسانی علم، خدائی علم

لاش نس (Loch Ness) اسکا ٹ لینڈ کی ایک بڑی جھیل ہے۔ 1975میں ایک امریکی قانون داں نے زمیں دوز کیمرے کے ذریعے اس جھیل کے اندرونی فوٹو لیے۔ ان فوٹوؤں میں جھیل کے اندر کے کچھ مناظر دکھائی دیتے تھے۔یہ مناظر بادل کے دھبوں کی شکل میں تھے۔ ان تصویری دھبوں کا مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان دھبوں پر قیاس کا اضافہ کرکے سمجھ لیاگیا کہ یہ زندہ جانوروں کی تصویریں ہیں۔ کہاگیا کہ اسکاٹ لینڈ کی اس جھیل کے اندر انتہائی قدیم زمانے کے بعض بہت بڑے بڑے جانور موجود ہیں، جو نظریۂ ارتقا کے مطابق قدیم زمانے میں افراط کے ساتھ زمین پر پائے جاتے تھے۔اس قیاس پر ماہرین کو اتنا یقین تھا کہ اس کا ایک مفروضہ نام پلی ساسور (Plesiosaurs) رکھ دیا گیا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط تھا۔ یہ دھبے چٹانوں کے تھے، نہ کہ زندہ جانوروں کے۔

انسانی علم میں ہمیشہ اس قسم کی غلطیوں کا انکشاف ہوتا رہا ہے، پہلے بھی اور آج بھی۔ مگر قرآن میںآج تک اس قسم کی کسی غلطی کا انکشاف نہ ہوسکا۔ حالاں کہ قرآن ہر قسم کے موضوعات کو ٹَچ (touch) کرتا ہے۔ یہی ایک واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، وہ کوئی انسانی کلام نہیں۔ اگر وہ انسانی کلام ہوتا تو یقیناً اس کے اندر بھی وہی کمیاں پائی جاتیں جو تمام انسانوں کے کلام میں بلا استثنا پائی جاتی رہی ہیں۔  (ڈائری 1985)

نظریۂ ارتقا

عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)جدید دنیا کے لیے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔ سائنس آف لائف کے مصنفین نے لکھا ہے کہ’’عضویاتی ارتقا کے حقیقت ہونے سے اب کسی کو انکار نہیں ہے۔ سوا ان لوگوں کے جو جاہل ہوں یا متعصب ہوں یا اوہام پرستی میں مبتلا ہوں۔‘‘ اس نظریہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ لل (R. S. Lull) کی سات سو صفحے کی کتاب میں زندگی کے تخلیقی تصور(special creation) پرصرف ایک صفحہ اور چند سطریں ہیں اور بقیہ تمام صفحات عضویاتی ارتقا کے بارے میں ہیں۔لل لکھتا ہے:

’’ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہ ہو سکتی ہے اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘

Organic Evolution, p.15

 ماڈرن پاکٹ لائبریری(نیویارک) نے(Man and the Universe) کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب میں ڈارون کی کتاب’’اصل الانواع‘‘ کو تاریخ ساز تصنیف قرار دیا ہے۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1958) میں تخلیق(creationism) کے  نظریہ کو چوتھائی صفحہ سے بھی کم جگہ دی گئی ہے۔

 اس کے مقابلہ میں عضویاتی ارتقا کے عنوان کے تحت جو مقالہ شامل کیا گیا ہے وہ باریک ٹائپ کے پورے چودہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقالے میں بھی حیوانات میں ارتقا کو بطور ایک حقیقت(fact) تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریہ کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں قبول عام(general acceptance) حاصل ہو چکا ہے۔ دورِ جدید کے اہلِ علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لی ہے۔

ارتقا کے دلائل

موجوده زمانه كے علمائے حياتيات عام طور پر نظريه ارتقا كو تسليم كرچكے هيں۔ان كا كهنا هے كه ارتقا محض ايك نظريه نهيں، وه ايك مسلمه سائنسي حقيقت هے۔ مگر جهاں تك دليل كا تعلق هے يه دعوي ابھي تك ثابت نه كيا جاسكا۔ نظريه ارتقا ء كے حق ميں تين قسم كي دليليں دي جاتي هيں:

1۔ ماں كے پيٹ ميں انسان كا جنين مچھلي، چھپكلي، سور اور بندر كے جيسي صورتوں سے گزر كر انسان كي صورت تك پهنچتا هے۔ ارتقا پسند علما كے نزديك يه مشاهده اس بات كا ثبوت هے كه انسان اپني تاريخ كے پچھلے دور ميں انھيں جانوروں جيسا تھا۔ ان كے نقطه نظركے مطابق ماں كا پيٹ نو مهينوں ميں انسان كي اس طويل حياتياتي تاريخ كو دهراتا هے جو پيٹ كے باهر اربوں سال كے اندر وقوع ميں آئي تھي۔

2۔ جانوروں اور انسان كے ڈھانچه ميں ايك ارتقائي مشابهت پائي جاتي هے۔ مچھلي سے لے كر انسان تك جانوروں كي جو مختلف قسميں هيں، ان كي هڈيوں كے ڈھانچه كا تقابلي مطالعه كيا جائے تو معلوم هوگا كه ان ميں بنيادي يكسانيت كے ساتھ ايك ارتقائي نسبت هے۔ اوپر كي سطح كے جانور نچلي سطح كے جانور كي ارتقا يافته صورتيں معلوم هوتے هيں۔ حتي كه انسان تك پهنچ كر يه عملِ ارتقا اپني كامل صورت اختيار كرليتا هے۔

3۔ چٹانوں كي تهوں ميں قديم جانداروں كي هڈياں متحجر حالت (fossilised state) ميں پائي گئي هیں۔ چٹانوں كا كيميائي مطالعه بتاتا هے كه ان كي تهيں ايك كے بعد ايك مختلف زمانوں ميں بني هيں۔ اس طرح يه چٹاني تهيں گويا كتابِ فطرت كے اوراق هيں جو ماضي بعيد كي داستان هم كو بتاتے هيں۔ چٹانوں كي مختلف تهوں ميں متحجر هڈيوں كے مطالعه سے دريافت هوا هے كه زمين كے اوپر جانداروں كي جو قسميں پائي جاتي هيں، وه سب كي سب اول روز سے موجود نه تھيں۔ بلكه ان كے ظهور ميں ايك ارتقائي ترتيب هے۔ قديم ترين تهوں ميں مچھلي كي قسم كے جانوروں كي متحجر هڈياں ملتي هيں، پھر چھپكلي كي قسم كے جانور، پھر دودھ پلانے والے جانور، پھر بندر، اور آخر ميں انسان۔

جواب

يه مشاهدات جن كے اوپر ارتقا كي استدلالي بنياد قائم كي گئي هے، وه مشاہدات بجائے خود واقعه هوسكتے هیں۔ مگر خالص علمي اعتبار سے ديكھا جائے تو ان كا كوئي بھي تعلق ارتقا كے مفروضه سے نهيں هے۔ ان كے ذريعه اس نظريه كے حق ميں دليل قائم نهيں هوتي۔

1۔يه بات بجائے خود ايك واقعه هے كه انسان كے بچه كا مشاهده جب ماں كے پيٹ ميں كيا جاتا هے تو ابتدائي ايام ميں اس كے اور جانور كے بچه ميں بهت كم ظاهري فرق هوتا هے۔ بظاهر ايسا معلوم هوتاهے كه وه مچھلي اور چوپائے كي شكلوں سے گزر كر انسان كي صورت اختيار كررها هے۔ مگر صرف اس مشاهده سے يه ثابت نهيں هوتا كه قدرت پانچ سو ملين سال كے عمل كو نو مهينوں ميں دهراتي هے۔ جس قدرت كو اس سے پهلے ايك انسان بنانے ميں پانچ سو ملين سال لگ گئے، وه اب صرف نو مهينوں ميں كروروں انسان كس طرح بنا رهي هے۔ اور اگر قدرت كے عمل كو مختصر كرنا ممكن هے تو ايك عالم حياتيات كے ليے يه ممكن هونا چاهيے كه وه ايك مچھلي كا انڈه لے اور اس كو اپني ليبوريٹري ميں ركھ كر نو مهينے يا نوسال كے اندر اس كو انسان كي صورت ميں تبديل كردے۔ جب كه هم جانتے هيں كه يه بالكل ناممكن هے۔

اس نظريه كے بے بنياد هونے كي اس سے بھي زياده بڑي دليل يه هے كه فرد كي تمام خصوصيات اول روز هي سے جين ميں موجود هوتي هيں۔ بڑا هو كر آدمي جن اوصاف كا حامل هوتاهے، وه سب اس كے اولين ڈھانچه ميں مكمل طورپر موجود رهتاهے۔ اس كا قد، اس كا رنگ، اس كا مزاج، اس كي ذهانت، سب كچھ اول دن هي سے اس كے اندر پايا جاتا هے۔بالفاظ ديگر، انسان كا بچه پهلے دن سے انسان كا بچه هوتا هے، وه كسي لمحه بھي مچھلي يا چھپكلي كا بچه نهيں هوتا۔ ايسي حالت ميں اس سے كوئي فرق نهيں پڑتا هے كه ماں كے پيٹ كے ابتدائي هفتوں ميں اور همارے مشاهدے كے پيمانه ميں وه كس صورت كا دكھائي دے رها هے۔

2۔ ڈھانچه ميںارتقائي مشابهت سے بھي اصلاً جو بات ثابت هوتي هے وه صرف يه كه مختلف جاندار، اپنے بنيادي ڈھانچه كے اعتبار سے، ايك دوسرے سے بالكل الگ الگ نهيں هيں۔ بلكه ان ميں بعض پهلوؤں سے مشابهت پائي جاتي هے۔ مگر اس سے كسي بھي طرح يه بات ثابت نهيں هوتي كه ايك قسم كا جانور دوسري قسم كے جانور كے پيٹ سے نكلا هے۔ بيل گاڑي، گھوڑا گاڑي اور كار كے ڈھانچوں ميں بعض پهلوؤں سے مشابهت هے۔ مگر اس سے يه نتيجه نكالنا كس قدر عجيب هوگا كه بيل گاڑي كے بطن سے گھوڑا گاڑي نكلي هے اور گھوڑا گاڑي كے بطن سے كار نے جنم ليا هے۔ اور كار كے بطن سے هوائي جهاز بر آمد هوا هے۔

3۔ متحجرات (fossils)كے مشاهده ميں بھي مذكوره بالا نظريه كے ليے كوئي لازمي دليل نهيں  هے۔ اس سلسلے ميں طبقاتي ترتيب كو اگر بلا بحث مان ليا جائے تب بھي اس سے جو بات ثابت هوتي هے وه يه كه زمين كے اوپر حيوانات كي آباد كاري ميں ايك ترتيب هے۔ ايك قسم كے جانور ايك زمانه ميں وجود ميں آئے۔ دوسري قسم كے جانور دوسرے زمانه ميں ۔ مثلاً جس زمانه ميں بندر وجود میں آئے، ٹھیک اسی زمانے میں انسانی نسل شروع نہیں ہوئی۔ اسي طرح جس زمانه ميں مچھلياں یا چھپكلياں بنيں، اسی وقت بندر کی نسل کا آغاز نہیں ہوا، وغیرہ۔ یہاں بھی یقیناً وہی آرگمینٹ ہے  كه اس سے تخليق كي ترتيب ثابت هوتي هے، نه كه ارتقا كي ترتيب۔یعنی ايك كے پيٹ سے دوسرا، دوسرے كے پيٹ سے تيسرا نكلا۔ يه ايك عليحده مفروضه هے۔ مذكوره مشاهدات ميں اس كے ليے براه راست دليل موجود نهيں هے۔ متحجر هڈيوں كے مطالعه ميں خواه كتني هي احتياط برتي جائے، ان سے جو بات ثابت هوگي، وه صرف يهي هے كه كس قسم كے جانور كي هڈياں كتنے هزار سال سے زمين ميں دفن هيں، نه يه كه كون سا جانور كس كے بطن سے نكلا هے۔

موجوده ارتقائي تحقيقات سے اگر كوئي چيز ثابت هوتي هے تو صرف يه كه زمين پر جو مختلف قسم كے جاندار پائے جاتے هيں وه سب بيك وقت اول روز سے زمين پر موجود نهيں هوگئے هيں۔ بلكه ان كي تخليق ميں ايك زماني ترتیب هے۔ اب سوال يه ره جاتا هے كه هر جاندر اپنے وقت ميں مستقل طورپر پيدا كيا گيا يا ايسا هوا كه بطريق تناسل ايك جاندار كے بطن سے دوسرا جاندار نكلتا رها۔

جهاں تك دوسرے مفروضه كا تعلق هے اس كے حق ميں ابھي تك كوئي دليل يا مشاهده سامنے نهيں آيا ۔ دوسري طرف جاندار اول كي حدتك سائنسداں يه مانتے هيں كه وه پهلي بار مستقل طورپر وجود ميں آيا هے۔ پھر جو مفروضه پهلے جاندار كے ليے صحيح سمجھا گيا هے وهي دوسرے جاندار كے ليے بھي كيوں صحيح نهيں هوسكتا۔ جب كه تحقيقات نے يه بھي ثابت كرديا هے كه پهلا جاندار امیبا (Amoeba) اپنے جسماني نظام ميں بعض اعتبار سے وهي تمام پيچيدگياں ركھتا هے جو آخري جاندار (انسان) ميں پائي جاتي هيں۔ اگر پهلے پيچيده جاندار كو پهلي بار وجود ميں لانا قدرت كے ليے ممكن تھا تو دوسرے پيچيده جاندار كو پهلي بار وجود ميں لانا اس كے ليے كيوں ناممكن هوگيا۔

ایک مثال

 نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 ستمبر 2009) میں ایک خبر چھپی تھی۔ اِس خبر کاعنوان یہ تھا — خدا کا عقیدہ انسان کے دماغ میں پیوست ہے:

Belief in God hardwired in our brain.

خبر میں بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کی برسٹول یونی ورسٹی (Bristol University) میںایک رسرچ ہوئی ہے جس کا نتیجہ ٹائمس آن لائن (Times Online) میں چھپا ہے۔ اِس رسرچ میں بتایاگیاہے کہ— خدا کا عقیدہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتاہے۔ ارتقاکے دوران انسان کی اِس طرح پروگریمنگ ہوئی ہے کہ وہ خدا پر عقیدہ رکھے، کیوں کہ اِس سے اُنھیں زندہ رہنے کا زیادہ بہتر موقع ملتاہے:

We are born believers. Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance to survival. (p. 17)

اِس بیان میں عقیدہ خدا کا فطری ہونا تو رسرچ کا حصہ ہے، لیکن ارتقاء (evolution) والی بات رسرچ کرنے والوں کا اپنا اضافہ ہے— حقیقی مشاہدات میںاِسی قسم کے مفروضات کے اضافے سے حیاتیاتی ارتقا کا پورا نظریہ قائم کیاگیا ہے۔

فرق، نہ کہ تبدیلی

24-28ستمبر 1990کوایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے طرابلس (لیبیا) کا میرا ایک سفر ہوا۔اس سفر میں میری ملاقات ایک سیکولر تعلیم یافتہ صاحب سے ہوئی۔ ان سے ڈارون کے نظریہ ارتقا پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں ڈارونزم کو نہیں مانتا۔وہ حیرت کے ساتھ میرا چہرہ دیکھنے لگے۔انہوں نے کہا کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا تو ایک ثابت شدہ نظریہ ہے۔پھر کس طرح آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں؟

میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ثابت شدہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس نظریہ کے علما نے بندر سے لے کر انسان تک کے تمام ڈھانچے (skull) جمع کیے ہیں۔ان کو سلسلہ واررکھ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک تدریجی تبدیلی (gradual change) ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کو آپ ’’تبدیلی‘‘ کہتے ہیں، اس کو میں اگر ’’فرق‘‘ کہوں تو آپ کے پاس اس کی تردید کی کیا دلیل ہوگی؟

یہ صحیح ہے کہ حیوانات کے درمیان جسمانی بناوٹ کے اعتبار سے فرق کے ساتھ کچھ مشابہتیں بھی ہیں۔ مثلاً ہاتھی اور چوہا ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن دونوں ریڑھ کی ہڈی والے جانور ہیں۔ یہی معاملہ انسان اور حیوان کا ہے۔ انسان اور حیوان کے ڈھانچہ میں بھی کچھ مشابہتیں ہے۔ مگر جب تک تجرباتی طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایک نوع سے دوسری نوع نکلی ہے، اس وقت تک ڈھانچہ کی اس مشابہت کو ارتقائی تبدیلی کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ حالت میں یہ مشابہت صرف فرق کو بتا رہی ہے۔ یعنی ہر ڈھانچہ اپنی ایک مستقل نوع کو بتا رہا ہے، نہ یہ کہ ایک سے دوسرا نکلا۔ دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے انسان بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظریۂ ارتقا کی بنیاد صرف خود ساختہ توجیہات پر ہے، نہ کہ حقیقۃً مشاہدہ اور تجربہ پر۔

جو علماءِ سائنس حیاتیاتی ارتقا کو سائنسی حقیقت کہتے ہیں، ان کے نزدیک اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے مختلف انواع (species) کے جسمانی مظاہر کا معاملہ۔ اور دوسرا ہے ، قانونِ ارتقا کا مطالعہ، جو ارتقا پسند علماکے مطابق، انواع کی تبدیلیوں کے درمیان مخفی طور پر جاری رہتاہے، جس کی بنیاد پر ، ان علما کے مطابق، ایک نوع کے جانور سے دوسرے نوع کا جانور نکلتا ہے۔

ایک ارتقائی عالم جب انواع حیات کے جسمانی مظاہر کا مطالعہ کرتا ہے تو گویا کہ وہ ’’اشیا‘‘ کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب وہ ارتقائی قانون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے موضوع کے اس پہلو کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے جس کو قیاس یاآئڈیا کہا جاتا ہے۔

ہر ارتقائی عالم جانتا ہے کہ دونوں پہلوؤں کے درمیان نوعی فرق پایاجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جہاں تک اشیا (جس کی بنیاد پر شواہدِ ارتقااکٹھا کیے جاتے ہیں)کا تعلق ہے، اس کے براہ راست دلائل قابل حصول ہیں۔ مثال کےطور پر متحجرات (fossils) جو کھدائی کے ذریعہ زمین کی تہوں سے کثرت سے برآمد کیے گئے ہیں، ان کا مطالعہ مشاہداتی سطح پر ممکن ہے۔

اس کے برعکس، قانونِ ارتقا کے معاملہ میں موضوعی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے اس پر براہ راست استدلال ممکن نہیں۔مثلاً ارتقائی عمل کے دوران اشکال میں اچانک تبدیلیوں (mutations) کا نظریہ تمام ترقیاسات پر مبنی ہے، نہ کہ براہ راست مشاہدات پر۔ اس دوسرے معاملہ میں خارجی تغیرتو دکھائی دیتا ہے، مگر قانونِ تغیر بالکل نظر نہیں آتا۔ اسی لیے ہر ارتقا پسند عالم، ارتقاکے موضوع کے اس دوسرے پہلو میں بالواسطہ استدلال سے کام لیتا ہے جس کو علم منطق میں استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔

تبدیلی کا یہ نظریہ ارتقا (evolution)کی بنیاد ہے۔ تاہم اس معاملہ کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک جزء مشاہدہ میں آتا ہے،یعنی اشیا۔ مگر اس کا دوسرا جزء مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے۔ وہ صرف استنباط کے اصول سے کام لے کر فلسفہ ٔ ارتقا میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ ایک عام واقعہ ہے کہ انسان یا جانور سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ ان میں مختلف اعتبار سے کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اس حیاتیاتی مظہر کا سائنسی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ رحم مادر میں بچہ کے جینز کے اندر اچانک طور پر خود بخود تبدیلیاں (spontaneous  changes) پیدا ہوتی ہیں۔ یہی تبدیلیاں ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں میں فرق کا سبب ہیں۔

اولاد میں ایک دوسرے کے درمیان یہ فرق ایک مشاہداتی واقعہ ہے۔ مگر اس کے بعد اس مشاہدہ کی بنیاد پر ڈارون نے جو ارتقا کا فلسفہ بنایا ہے وہ مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے، وہ صرف قیاسی استنباط کے ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ گویا اشیااور ان کے ڈھانچے کےدرمیان بناوٹ کا فرق قابل مشاہدہ ہے، مگر ایک نوع سے دوسرے نوع کے نکلنے کامفروضہ ارتقائی قانون ناقابل مشاہدہ۔

یہاں ارتقاپسند عالم یہ کرتا ہے کہ ایک سرے پر وہ ایک بکری کو رکھتا ہے اور دوسرے سرے پر ایک زرافہ کو۔ اس کے بعد وہ فاصل کے کچھ درمیانی نمونوں کو لے کر یہ نظریہ بناتا ہے کہ ابتدائی بکری کے کئی بچوں میں سے ایک بچہ کی گردن اتفاقاً کچھ لمبی تھی۔ اس کے بعد اس لمبی گردن والی بکری کی اولاد ہوئی اس میں گردن کی لمبائی کچھ اور بڑھ گئی۔ اسی طرح کروروں سال کے دوران گردن کی یہ لمبائی نسل در نسل جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ ابتدائی بکری کی اگلی اولاد آخر کار زرافہ جیسا جانور بن گئی۔ اسی نظریہ کے تحت چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع (On the Origin of Species)میں لکھا ہے کہ مجھ کو یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ ایک معمولی کُھردار چوپایہ زرافہ جیسے جانور میں تبدیل ہو سکتا ہے:

...It seems to me almost certain that an ordinary hoofed quadruped might be converted into a giraffe. (p. 169)

اس معاملہ میں بکری کی اولاد میں فرق ہونا بذات خود ایک معلوم واقعہ ہے۔ مگر اس فرق کا کروروں سال تک نسل در نسل جمع ہوتے ہوئے اس کا زرافہ بن جانا، مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ اور ناقابل تجربہ ہے۔ ارتقا کا نظریہ ایک جانور اور دوسرے جانور کے درمیان نظر آنے والے فرق کی بنیاد پر استنباط کے ذریعہ اخذ کیا گیاہے، نہ کہ براہ راست طور پر خود مشاہدہ کے ذریعہ۔

ارتقا علم كي كسوٹي پر

حياتياتي ارتقا كے متعلق چارلس ڈارون كي كتاب 1859 ميں شائع هوئي تو مغربي اقوام كے درميان اس كو غير معمولي مقبوليت حاصل هوئي۔ اس كتاب ميں زندگي كي پيدائش كے بارے ميں جو نظريه پيش كيا گيا تھا وه اس كے نام سے ظاهر هے۔ اس كے پهلے ايڈيشن ميں ٹائٹل پر حسبِ ذيل نام درج تھا:

The Origin of Species of Natural Selection, or the Preservation of Favoured Species in the Struggle for Life.

ڈارون كے نظريه كا خلاصه يه تھا كه كسي جاندار سے جب چند بچے پيدا هوتے هيں تو ان ميں تھوڑا تھوڑا فرق هوتا هے۔ ان ميں سے كسي كا فرق اس كو دوسرے هم جنسوں كے مقابله ميں زياده بهتر پوزيشن ميں كرديتاهے، اسي بنا پر وه زنده رهتا هے اور دوسرے ختم هوجاتے هيں۔ يه فرق توالد وتناسل كے ذريعه بڑھتا رهتا هے۔ يهاں تك كه لاكھوں سال ميں يه نوبت آتي هے كه ايك نوع كا جانور دوسري نوع ميں تبديل هوجاتا هے۔ مثلاً بكري كا گھوڑا بن جانا۔ اس طرح مختلف جاندار ارتقا كي سيڑھيوں پر چڑھتے رهتے هيں يهاں تك كه انسان وجود ميں آجاتا هے۔

بظاهر اس خوبصورت نظريه ميں بهت سے خلا تھے۔ مثلاً يه كه ارتقا اگر ايك مسلسل عمل هے تو كيوں ايسا هے كه زمين كے طبقات سے حاصل هونے والے متحجرات صرف كمال كے مرحله كو پهنچے هوئے انواع حيات كا نمونه پيش كرتے هيں۔كيوں نه ايسا هوا كه درمياني مرحله كي قسميں بھي كثير تعداد ميں موجود هوتيں۔ يعني ايسے جانور جو آدھا ايك جيسے هوں اور آدھا دوسرے جيسے:

If evolution has been a continuous process, why does the fossil record only show us apparently settled and established species. Why does it not include an abundance of intermediate forms.

ڈارون كا جواب يه تھا كه فاسلز كا ذخيره ابھي ناتمام هے۔ آئنده جب زياده فاسلز دستياب هوچكے هوں گے تو يه كمي دور هوجائے گي۔ ڈارون كے بعد مزيد بهت زياده فاسلز انسان كے علم ميں آئے۔ مگر مذكوره كمي اس كے باوجود بدستور باقي رهي۔

اس قسم كي كثير خاميوں كے باوجود ڈارونزم كو كيوں اتني زياده مقبوليت حاصل هوئي۔ اس كي وجه يه تھي كه يه نظريه 19ويں صدي كے مغربي انسان كي نوآبادياتي توسيع پسندي كے عين مطابق تھا۔ برٹرينڈرسل كے الفاظ ميں ’’يه آزاد اقتصاديات كے اصول كونباتات اور حيوانات كي دنيا تك وسيع كرنا تھا:

It was an extension to the animal and vegetable world of laissez-faire economics.

ــــــــــــــــــــــــــــ

 نظریہ ارتقا کے دلائل جس معیارِ استد لال پراترتے ہیں، وہ کون سا معیار ہے۔ یعنی نظریۂ ارتقا   کا براہ راست تجربہ نہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا، جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔ڈارونزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہیں کیا گیا ہے، یہ صرف ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ پھراس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اے ای مینڈر کے الفاظ میں یہ ہے:

1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ(consistent) ہے۔

2۔ اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی توجیہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جا سکتے۔

3۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔

Clearer Thinking, p. 112

یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لیے معیارِ استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے، یہی استدلال زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے، ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہراتا ہے۔

نظریۂ ارتقا پر شبہات

انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں 2003میں کسی قدیم انسان کا ایک متحجرڈھانچہ (fossilized skeleton)ملا۔ ماہرین کی ایک انٹرنیشنل ٹیم نے گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ اِس مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اُس سے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ 18 ہزار سال پرانا ہے۔ اِس مطالعے کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8مارچ 2010) میں چھپا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ— یہ دریافت اچانک انسانی ارتقا کے بارے میں سائنسی نظریات کے خلاف ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ انسانی ارتقا کا عمل اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے، جیسا کہ پہلے سمجھ لیا گیا تھا:

Almost overnight, the find threatened to change science's understanding of human evolution. It would mean contemplating the possibility that not all the answers to human evolution lie in Africa, and that human development was more complex than thought (p. 23)

حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دریافت نظریۂ ارتقا کے لیے بڑا چیلنج (big challenge) نہیں، بلکہ یہ نظریہ ارتقا کی ایک بڑی تردید ہے۔ اِس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا ء کا نظریہ اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ اس کو سمجھ لیا گیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا واقعہ اِس سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ نظریۂ ارتقا کے ذریعہ اس کی توجیہ ہوسکے:

Human development is complex enough to be explained by the evolution theory.

حقیقت یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ صرف ایک مفروضہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی علمی نظریہ۔ جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وہ صرف اِس لیے پھیل گیا کہ اُنھیں یہ نظر آیا کہ یہ اُن کے لیے ایک ورک ایبل (workable) نظریہ ہے۔ تاہم اِس نظریے کا ثابت شدہ واقعہ ہونا، ابھی تک اہلِ علم کے درمیان اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔

نینڈر تھل مین

نظريهٔ ارتقا كے حاميوں نے بهت سے ’’قديم انسان‘‘ دريافت كيے هيں۔ مثلاً پلٹ ڈاؤن مين، نينڈر تھل مين (neanderthal man)، پيكنگ مين، جاوا مين وغيره۔ قديم انسان كي يه تمام صورتيں فاسل كي بنياد پر بنائي گئي هيں جو زمين ميں كھدائي سے برآمد هوئي هيں۔ نظريهٔ ارتقا زندگي كي مختلف قسموں كے ليے جس عمل كو فرض كرتا هے اس كے مطابق درمياني انواعِ حيات (intermediate species) كا وجود بھي لازماً هونا چاهيے۔ مگر ايسي انواع ابھي تك گم شده كڑيوں كي حيثيت ركھتي هيں۔ ڈارون نے تسليم كيا تھا كه درمياني انواعِ حيات كے نمونے همارے پاس موجود نهيں هيں۔ تاهم ڈارون كے بعد قديم فاسلز كي بنياد پر بهت سي عجيب وغريب انساني شكليں بنائي گئي هيں۔ اور يه فرض كيا جاتا هے كه يه انساني سلسلهٔ حيات كي قديم ارتقائي كڑياں هيں۔

انھيں ميں سے ايك نينڈر تھل مين هے جو جرمني كي نينڈر نامي وادي كي طرف منسوب هے۔ اس قسم كي هڈياں اور ڈھانچے 1856سے 1908تك ايشيا ، يورپ، شمالي افريقه كے تقريباً 50 مقامات پر ملے۔پروفيسر بول (Marcellin Boule) نے ان ٹكڑوں كا مشاهده كركے ان كي جو تعبير كي، اس كو عام طور پر تسليم كرتے هوئے اس كو ابتدائي انساني سلسلے كي ايك كڑي مان ليا گيا— گم شده كڑيوں ميں سے ايك كڑي معلوم كرلي گئي۔

نينڈر تھل مين كي تصويريں كتابوں ميں چھپنے لگيں۔ حتى كه اس كے مجسمے بن گئے۔ مگر بعد كو علمائے حياتيات نے جو تحقيقات كيں، اس نے بتايا كه پروفيسر بول نے اندازه كرنے ميں كئي اهم غلطياں كي تھيں۔ 1955ميں وليم اسٹرابس (جانسن هاپكنس يونيورسٹي) اور اے۔جے۔ اي۔كيو (لندن) نے نينڈر تھل مين كے بنائے گئے ڈھانچه كا از سر نو جائزه ليا۔ يه رپورٹ مكمل طورپر كوارٹرلي ريويو ميں چھپ چكي هے:

Quarterly Review of Biology XXXIII (1957)

محققين لكھتے هيں كه نينڈر تھل مين كا ڈھانچه ،جو کہ 40-50سال كي عمر كے ايك آدمي كا ڈھانچہ لگتا هے، وه گٹھيا كي بيماري نے آدمي كے نچلے جبڑے اور اس كي گردن اور پورے ڈھانچه كو متاثر كيا۔ اس آدمي كے سركا آگے كي طرف جھكاؤ جو پروفيسر بول نے نوٹ كيا تھا، وه كم ازكم جزئي طورپر، اس كي بيماري كے سبب سے تھا۔ حقيقةً اس آدمي كا ڈھانچه ويسا هي تھا جيسا آج ايك اوسط فرانسيسي آدمي كا ڈھانچه۔ حتي كه جديد تحقيقات نے يه بھي بتايا هے كه نينڈر تھل كے دماغ (brain) كا سائز بھي تقريباً وهي تھا جو آج ايك اوسط يورپي شخص كا هوتا هے۔ اس كے بال درست كركے اور موجوده لباس پهنا كر كھڑا كرديا جائے تو آج كے مهذب انسان سے وه كچھ بھي مختلف معلوم نهيں هوگا۔ حال ميں نينڈرتھل مين كے جو مزيد فاسلز ملے هيں وه بھي ثابت كرتے هيں كه وه ابتدائي كڑي نهيں بلكه آج كے ايك انسان كي مانند تھا۔ نينڈر تھل انسان، لفظ انسان كے تمام مفهوم كے اعتبار سے مكمل انسان تھا۔

F. Clark Nowell, Early Man, New York, Time-Life Book, 1968, pp. 123-24

ـــــــــــــــــــــــــــــ

امریکاکے ایک کمپیوٹر اسپیشلسٹ مسٹر ڈیوڈ (David Coppedge) جو ناسا (NASA) میں ایک بڑی پوسٹ پر تھے، اُن کو سروس سے نکال دیاگیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ تخلیق کے بارے میں انٹیلی جنٹ ڈزائن (intelligent design) کے تصور کو مانتے تھے۔این بی سی نیوز (12 مارچ 2012) کے مطابق،ان کا خیال تھا کہ — تخلیق میں ضرور ایک بالاتر طاقت کا ہاتھ ہے کیوں کہ زندگی اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ وہ تنہا ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں نہیں آسکتی:

A higher power must have had a hand in creation because life is too complex to have developed through evolution alone.

www.nbcnews.com/id/wbna46701591 (accessed on 03.11.21)

ایک امریکی اسکالر جان ویسٹ (John West) نے اِس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیوڈ کا ریمارک ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مشتبہ ثابت کرتاہے، جب کہ ماڈرن طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف عملاً ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ڈارون سے اختلاف کرے۔

پدم وبھوشن ایوارڈ

Centre for Peace and Spirituality  (CPS International) is greatly thankful to the Government of India for conferring the second highest civilian award,Padma Vibhushan 2021 on our founder Maulana Wahiduddin Khan. With great humility we accept the prestigious award in recognition of his lifelong work in the area of Peace and Spirituality.

Dr. Saniyasnain Khan, his son received the award and conveyed his heartfelt thanks on behalf of his entire family and CPS members worldwide. He said that the award has instilled renewed enthusiasm and passion among all the followers of Maulana Sahab and that his work towards Global Peace, Spirituality, Interfaith Harmony and Nation Building will continue with greater vigour and teamwork than before.

Further, he added that the dream of Maulana Sahab to see India as a spiritual superpower will be one of the important tasks of the Centre.

سی پی ایس انٹرنیشنل اپنے بانی مولانا وحید الدین خاں کو حکومت ہند کی جانب سےدوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم وبھوشن 2021 عطا کرنے پرحکومت ہندکا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔ امن اور اسپریچوالٹی کے شعبے میں مولانا كي تاحیات خدمات کے اعتراف میں دیے گئے اس باوقار ایوارڈ کو ہم انتہائی ادب  کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔

مولاناوحیدالدین خاں کے صاحبزادے ڈاکٹر ثانی اثنین خان نے 9 نومبر2021 کو صدرجمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کے ہاتھوں یہ ایوارڈ حاصل کیا، اور اپنے اہل خانہ اور دنیا بھر میں موجود سی پی ایس انٹرنیشنل کے اراکین کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کیا۔

اس موقع پرڈاکٹر ثانی اثنین خان نے کہا کہ اس ایوارڈ نے مولانا وحیدالدین خاں کے عالمی امن و روحانیت کے مشن ، اور ان کےتمام پیروکاروں میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا ہے۔ انھوں نے امیدظاہر کی کہ مولانا کے ذریعے جاری کردہ انٹرفیتھ ہارمنی اور قومی تعمیر کا کام پہلے سے زیادہ جوش وخروش اور ٹیم ورک کے ساتھ جاری رہے گا۔ ہندوستان کو روحانی سپر پاور کے طور پر دیکھنامولانا وحیدالدین خاں کا خواب تھا،اس سمت میں سی پی ایس انٹرنیشنل کام کرتا رہے گا۔

پلٹ ڈاؤن مین

نظريه ارتقا كا دعويٰ هے كه انسان اور حيوان دونوں ايك هي نسل سے هيں۔ انسان دوسرے حيوانات هي كي ترقي يافته نوع هے، نه كه كوئي علاحدہ نوع۔ اس دعويٰ كے سلسلے ميں جو سوالات پيدا هوتے هيں ان ميں سے ايك اهم سوال يه هے كه اگر يه واقعه هے تو بيچ كي وه انواع كهاں هيں جو مفروضه ارتقائي عمل كے مطابق ابھي موجوده انسان كے مقام تك نهيں پهنچي تھيں۔وه ابھي حيوان اور انسان كے درميان تدريجي ارتقا كے مراحل طے كررهي تھيں۔

اس نظريه كے حاميوں كے پاس اس كے جواب ميں قياس وگمان كے سوا اور كچھ نهيں هے۔ ڈارون نے اپني كتاب ميں بار بار ’’هم بخوبي قياس كرسكتے هيں (We may well suppose)‘‘كا جمله استعمال كيا هے۔ اس كا كهنا هے كه يقيناً ايسا هوا هے، اگرچه ابھي هميںاس كے تمام نمونے حاصل نهيں هوسكے هيں۔ اس فرضي يقين كي بنياد پر ايك پورا شجرهٔ نسب تيار كرليا گيا هے جو انسان كي نسل كو بندر كي نسل تك جا ملاتا هے۔ بندر اور انسان كے درميان كي يه كڑياں تمام كي تمام مفروضه كڑياں هيں مگر بالكل غلط طورپر ان كو گم شده كڑياں (missing links)كها جاتا هے۔

ان خيالي قسم كي گم شده كڑيوں كي تلاش پچھلے ايك سوسال سے جاري هے۔ بار بار دنيا كو يه يقين دلانے كي كوشش كي جاتي هے كه فلاں گم شده كڑي هاتھ آگئي هے۔ انھيں ميں سے ايك كڑي وه هے جس كو پلٹ ڈاؤن مين (Piltdown Man)كها جاتا هے۔

پلٹ ڈاؤن مين كو تقريباً آدھي صدي تك ’’عظيم دريافت‘‘ كها جاتا رها ۔ يه سمجھا جاتا رها كه يه ماقبل تاريخ كا وه انسان هے جو ايك طرف انساني اوصاف كا حامل تھا اور دوسري طرف وه بندر (چمپينزي) كي بھي كچھ خصوصيات اپنے اندر ركھتا تھا۔تاريخ كي كتابوں ميں باقاعده اس كے حوالے شامل هوگئے۔ وه كالجوں كے نصاب ميں پڑھايا جانے لگا۔ مثال كے طورپر آرايس لَل (R.S. Lull) كي مشهور كتاب عضوياتي ارتقا (Organic Evolution)سات سو صفحات پر مشتمل هے اور ٹكسٹ بك كي حيثيت سے رائج هے۔ اس ميں انسان اور حيوان كے درميان جن معلوم كڑيوں كا ذكر كيا گيا هے وه حسب ذيل چار هيں:

1 .   Ape-man of Jawa.

2Piltdown man

3Neanderthal Man

4Cro-magnon Man

مگر بعد كي تحقيقات سے ثابت هوا كه پلٹ ڈاؤن مين ايك مكمل فريب تھا۔ اس سلسله ميں سائنس دانوں كے تحقيقي نتائج مختلف كتابوں اور مقالات ميں شائع هوچكے هيں۔ اس كو جاننے كے ليے انسائيكلو پيڈيا برٹانيكا (1984) كا مقاله يا ’’پلٹ ڈاؤن فورجري‘‘ نامي كتاب كا مطالعه كافي هے۔ جس كو آكسفرڈ يونيورسٹي پريس نے شائع كيا هے۔ چند كتابوں كے نام يه هيں:

1 .    Bulletin of the British Museum (Natural History), Vol. 2, No. 3 and 6

2 .    J.S. Weiner, The Piltdown Forgery (1955)

3 .     Ronald Millar, The Piltdown Man (1972)

4 .    Reader's Digest, November 1956

5 .    Popular Science (Monthly) 1956

 چارلس ڈاسن (Charles Dawson) نامي ايك انگريز متحجر هڈيوں (Fossil Bones) كے جمع كرنے كا بهت شوقین تھا۔ 1912ء كا واقعه هے كه وه كچھ هڈيوں كو لے كر برٹش ميوزيم پهنچا اور يه خبر دي كه يه ٹكڑے اسے جنوبي انگلينڈ كے ايك مقام پلٹ ڈاؤن (Piltdown) ميں ايك كھوه كے اندر كنكريوں كے درميان پڑےهوئے ملے هيں۔ برٹش ميوزيم كے ايك نامور عالم ڈاكٹر آرتھر اسمتھ وڈورڈ (A.S. Woodward) نے اس ميں خصوصي دلچسپي لي اور بتائے هوئے مقام پر پهنچ كر كھدائي كے ذريعه مزيد ٹكڑے حاصل كیے۔ اس طرح بيس سے كچھ زياده هڈيوں اور دانت كے ٹكڑے جمع كركے ان كا مطالعه شروع كيا گيا۔

ان حاصل شده ٹكڑوں ميں سب سے زياده نماياں ايك جبڑے كا ٹوٹا هوا حصه تھا جو واضح طورپر ايك بندر كا جبڑا معلوم هوتا تھا۔ مگر اس ميں ايك خاص چيز بندر سے مختلف تھي۔ يه اس ميں لگے هوئے داڑھ كے دو دانت تھے جن كي اوپر كي سطح هموار (flat) تھي۔ جو كه صرف كسي انساني دانت هي ميں هو سكتي هے۔ چنانچه قياس كرليا گيا كه يه جبڑا كسي قديم انسان كا هے۔ اور اس كے بعد نهايت آساني سے اس كو ارتقا كي ايك گم شده كڑي قرار دے ديا گيا۔ تلاش كرنے والوں نے جلد هي پلٹ ڈاؤن كے آس پاس وه كھوپڑي بھي حاصل كرلي جو دورِ سابق كے اس انسان كے سر پر قدرت نے پيدا كي تھي۔

مذكوره بالا كھوه ميں ماقبل تاريخ كے زمانے كے كچھ جانوروں كے آثار ملے جن سے يه متعين هوگيا كه ’’پلٹ ڈاؤن مين‘‘ قديم برفاني دور كا انسان هے جو پانچ لاكھ سال پهلے زمين كے اوپر گزر چكا هے۔اس تحقيق نے دوسري معلوم كي هوئي گم شده كڑيوں كے مقابله ميں اس كو قديم ترين معلوم انسان كي حيثيت دے دي۔ چارلس ڈاسن عظيم اعزازات كا مستحق قرار دياگيا۔ كيوں كه اس نے سائنس كي ايك پيچيده گتھي كو حل كرنے ميں مدد دي تھي۔

پتھر ميں تبديل شده يه انساني هڈياں جو حاصل هوئي تھيں وه پورے انساني ڈھانچه كے صرف بعض اجزاء تھے۔ مگر ماهرين نے ان كي روشني ميں قوت تخیل (power of imagination) سے كام لے كر پانچ لاكھ سال پهلے كے انسان كا ايك پورا ڈھانچه تيار كرليا جو اپني بے ڈھنگي پيشاني اور بندر نما جبڑوں كے ساتھ چاليس سال تك سائنس دانوں كا مركز توجه بنا رها۔ مگر 1950ء ميں يكايك پلٹ ڈاؤن مين كي حيثيت كو سخت دھكا لگا۔ جب طبقات الارض كے ايك عالم ڈاكٹر كنتھ آكلے (Kenneth Oakley) نے ايك كيمياوي طريقے كو استعمال كركے اس كي تاريخ معلوم كي۔

يه ايك اصول هے كه كوئي هڈي جتنے دنوں تك زمين ميں دفن پڑي رهے گي وه اسي كے بقدر زياده مقدار ميں ايك مخصوص عنصر كو جذب كرتي هے جس كا نام فلورين (Fluorine)هے۔ ڈاكٹر آكلے كے تجربے سے معلوم هوا كه حاصل شده هڈيوں ميں جتني فلورين پائي جاتي هے، اس كے لحاظ سے اس كي عمر صرف پچاس هزار سال هوني چاهيے، نه كه پانچ لاكھ سال۔

بعد كي تحقيقات سے معلوم هوا كه پلٹ ڈاؤن مين كي كھوپڑي كے متعلق آكلے كا اندازه بالكل صحيح تھا۔ مگر اسي كي بنياد پر اس نے جبڑے كي عمر بھي جو اسي قدر فرض كر لي تھي، وه صحيح نهيں تھي۔ جبڑا درحقيقت موجوده زمانے كے ايك بندر كا تھا جو فرضي طورپر مذكوره كھوپڑي كے ساتھ جوڑ دياگيا تھا۔

آكلے كی مذكوره دريافت نے پلٹ ڈاؤن كو دوباره ايك معما بنا ديا كيوں كه پانچ لاكھ سال پهلے كے ايك ڈھانچے كو تو گم شده كڑي فرض كيا جاسكتا تھا مگر ايك ايسا جاندار جو صرف پچاس هزار سال پهلے موجود رها هو اس كا گم شده كڑي هونا بالكل ناقابل قياس تھا۔

اس كے بعد 1953ء كي ايك شام كو لندن كي ايك دعوت ميں آكلے كي ملاقات آكسفرڈ يونيورسٹي ميںانسانيات كے ايك پروفيسر ڈاكٹر وينر (J.S. Weiner)سے هوئي۔ ڈاكٹر وينر ڈاکٹر آكلے كي باتوں سے بهت متاثر هوا۔ اس كے بعد گھر آكر اس نے سوچنا شروع كيا كه آخر اس كي حقيقت كيا هے۔ سب سے زياده حيراني اس كو پلٹ ڈاؤن مين كے دانت كے بارے ميں تھي۔ ’’ايك بندر نما جبڑے ميں انساني دانت جو اس طرح هموار هيں جيسے كسي نے ريتي سے ....‘‘ يه سوچتے هوئے اچانك ايك نيا خيال اس كے ذهن ميں آيا‘ ’’ايسا تو نهيں هے كه كسي نے ريتي سے گھس كر ان دانتوں كو چكنا كرديا هو۔‘‘ اس كو ايسا محسوس هوا جيسے وه حقيقت كے قريب پهنچ گيا هے۔ اب وه اپنے سامنے تحقيق كا ايك نيا ميدان پا رها تھا۔

دينر نے اپنے ايك ساتھي سرولفر ڈلي گروز كلارك (Sir Wilfred Le Gros Clark) كي معيت ميں چمپينزي (بندر كي ايك قسم) كا ايك داڑھ كا دانت ليا، اس كو ريتی سے گھِس كر هموار كيا اور اس كے بعد اسے رنگ كر ديكھا تو وه پلٹ ڈاؤن كے دانت كے بالكل مشابه تھا۔ اس كے بعد وه دونوں برٹش ميوزيم گئے تاكه پلٹ ڈاؤن مين كے جبڑے حاصل كركے اس كے متعلق اپنے قياس كي تحقيق كريں۔ لوهے كا ايك مقفل بكس جو خاص طورپر فائر پروف بنايا گيا تھا، اس كے دروازے كھولے اور اس كے اندر سے پلٹ ڈاؤن كے ڈھانچے كے ’’مقدس‘‘ ٹكڑے نكالے گئے تاكه سائنسي طريقوں كے مطابق ان كا گهرا تجزيه كيا جائے۔ اكسرے مشين اور دوسرے جديد قسم كے آلات حركت ميں آگئے۔ ايك مخصوص قسم كا كيمياوي طريقه بھي استعمال كيا گيا جو نائٹروجن كي كمي كو معلوم كركے يه بتاتا هے كه اس پر كتنا وقت گزر چكا هے۔

وينر كا قياس صحيح تھا۔ ان مشاهدات سے معلوم هوا كه پلٹ ڈاؤن مين كے جبڑے كي هڈي كوئي پراني هڈي نهيں تھي بلكه عام قسم كے ايك بندر سے حاصل كي گئي تھي۔ هڈي كا قدرتي رنگ چونكه فاسلز (fossils) هونے كے بعد بدل جاتا هے، اس ليے فريب دهنده نے نهايت هوشياري سے اس كو مهوگني رنگ ميں رنگ ديا تھا۔ رنگ كو عين مطابق بنانے كے ليے چند مخصوص اجزاء استعمال كیے گئے تھے۔ گهرے مطالعه كے بعد معلوم هوا كه دانت كي سطح پر ايسے خراش موجود هيں جو بلا اشتباه اس بات كي خبر دے رهے هيں كه دانت مصنوعي طورپر رگڑا گيا هے۔ اس كے علاوه اس كے كناروں ميں غير فطري قسم كي تيزي بھي تھي جو كه صرف ريتي سے رگڑنے هي كي صورت ميں هوسكتي هے۔

1953ء ميں مندرجه بالا تينوں محققين (آكلے، وينر، كلارك) نے اعلان كيا كه جبڑا اور دانت بالكل فرضي هيں — اس كے بعد وينر نے يه معلوم كرنے كي كوشش كي كه اتنا بڑا فريب جو گھڑا گيا اس كا مصنف كون تھا۔ اس نے تمام ممكن تفصيلات جمع كرنا شروع كيں، ملك بھر كے سفر كیے تاكه پلٹ ڈاؤن كے واقعه سے متعلق جو افراد هيںان سے گفتگو كرے، جو لوگ مرچكے تھے وه ان كے عزيزوں اور دوستوں سے ملا۔ اخبار كے قديم فائلوں سے اس سلسلے كي تمام رپورٹيں پڑھ ڈاليں۔

اس گهرے مطالعه كے بعد پلٹ ڈاؤن كے واقعه سے تمام افراد بالكل بري نظر آئے۔ مگر ايك شخص (چارلس ڈاسن) اس سے مستثنيٰ تھا۔ جو اس واقعه كا هيرو تھا۔ تمام معلومات اشاره كررهي تھيں كه اس بے بنياد بات كا اصل مصنف ڈاسن هي هے۔

چارلس ڈاسن ايك كامياب قانون داں تھا۔ وه انگلينڈ كے اس مخصوص خطے كا باشنده تھا جهاں متحجرات (fossils) كثرت سے پائے جاتے هيں۔ ڈاسن كو متحجرات سے بهت دل چسپي پيدا هوگئي اس كا يهي مشغله بن گيا كه وه متحجر هڈياں جمع كيا كرتا تھا۔ پلٹ ڈاؤن مين كے واقعه سے پهلے وه دور قديم كے متعدد جانوروں كے ڈھانچے حاصل كركے لندن كے عجائب خانے ميں بھيج چكا تھا۔

بعد كو ڈاسن كو وه مذاق سوجھا جس نے 40 سال سے زياده مدت تك اهل علم كو فريب ميں مبتلا ركھا۔ ڈاسن كے ايك ملاقاتي نے بتايا كه ايك مرتبه وه آواز دئے بغير ڈاسن كے كمرے ميں چلا گيا۔ اس نے ديكھا كه ڈاسن كچھ تجربات ميں مشغول هے۔ وه مختلف برتنوں ميں كھاري اجزاء اور رنگين عرق ڈال كر هڈيوں كو اس ميں ڈبوئے هوئے تھا۔ ڈاسن نے اس كو ديكھ كر گھبرائے هوئے انداز ميں وضاحت كي كه وه متحجر هڈيوں كو رنگ رها تھا تاكه يه معلوم كرے كه قدرتي طورپر ان كا جو رنگ هے وه كيسے بنتا هے۔ اس قسم كے اور واقعات معلوم هوئے جنھوں نے اس خيال كي تصديق كردي كه اس گھڑے هوئے فريب كا مصنف ڈاسن هے۔ مگر يه سب كچھ اس وقت هوا جب كه اس سے بهت پهلے ڈاسن 1916 ميں 52 برس كي عمر ميں عين اپني شهرت كے وقت مرچكا تھا۔

ڈاسن نے اپنے جھوٹ كو مكمل كرنے كے ليے ايك اور تدبير كي۔ اس نے پتھر كے كچھ اوزار پيش كیے اور بتايا كه يه اسے پلٹ ڈاؤن كے مقام پر ملے هيں۔ چنانچه يه تسليم كرليا گيا كه يه پتھر كے وه اوزار هيں جن سے پانچ لاكھ سال پهلے كا ناقص انسان كام ليا كرتا تھا۔ مگر بعد كي تحقيقات نے ان كو بھي بالكل جعلي ثابت كرديا۔ ڈاسن نے اسي قسم كا ايك پتھر كا اوزار هيري موريز (Harry Morris)كو ديا تھا۔ موريز ايك بينك كلرك تھا اور پتھر كے پرانے نمونے جمع كرنے كا شائق تھا۔ بعد كو موريز اپني تحقيق سے اس نتيجه پر پهنچا كه يه پتھر كا اوزار بالكل جعلي هے۔ موريز نے اس پتھر كو اپني مخصوص الماري ميں دوسرے نمونوں كے ساتھ ركھ چھوڑا تھا۔ جب وينر كو اس كي اطلاع ملي تو اس كا شوق بڑھا مگر اس سے بهت پهلے موريز كا انتقال هوچكا تھا۔

وه پتھر كهاں هے؟ وينر كو يه سوال پريشان كرنے لگا۔ موريز كے مرنے كے بعد اس كي الماري د و هاتھوں ميں منتقل هوچكي تھي۔ تاهم وينر نے اسے ڈھونڈ نكالا۔ الماري كھولنے پر معلوم هوا كه اس كے اندر باره خانے هيں جن ميں بهت سے نمونے ليبل لگے هوئے ركھے هيں۔ آخري خانے ميں پلٹ ڈاؤن كا پتھر كا اوزار تھا اس پر موريز كے اپنے هاتھ سے لكھے هوئے يه الفاظ درج تھے:

‘‘Stained by C. Dawson with intent to defraud”.

يعني اس كو ڈاسن نے بالكل جعلي طورپر خود اپنے هاتھ سے رنگا تھا تاكه دنيا كو دھوكا دے كه يه بهت پرانے زمانے كا اوزار هے۔ ايك نوٹ ميں موريز نے يه بھي بتايا تھا كه هائيڈروكلورك ايسڈ پتھر كے بھورے رنگ كو ختم كركے اس كو معمولي سفيد رنگ كے پتھر ميں تبديل كرديتا هے۔

تبصره

يه واقعه بتارها هے كه دور قديم كي هڈيوں كے ٹكڑے جمع كركے ان كي بنياد پر جو قياسي ڈھانچے كھڑے كیے گئے هيں ان كي حقيقت كيا هے۔ بے شك دور قديم ميں كوئي ڈاسن موجود نهيں تھا جو هم كو دھوكا دينے كے ليے ان هڈيوں كا حليه بگاڑ ديتا۔ مگر لاكھوں اور كروروں برس تك آندھي، طوفان اور زلزلے زمين كے اوپر جو الٹ پلٹ كررهے تھے ان كي وجه سے هڈيوں كے مقام اور ان كي هيئت ميں وه ساري تبديلياں هونا ممكن هيں جن كا آج هم نے ’’ڈاسن مين‘‘ كي صورت ميں تجربه كيا هے۔ پھر ارتقا كے حاميوں كے پاس وه كون سا علم يقين هے جس كي بنياد پر وه نامعلوم ماضي كے بارے ميں اتني قطعيت كے ساتھ اپنا دعوي پيش كررے هيں۔

اس موضوع پر اپنے مضمون كو ختم كرتے هوئے ماهنامه پاپولر سائنس (Popular Science) كا مضمون نگار آخر ميں لكھتا هے:

پلٹ ڈاؤن كي خيالي داستان اب هميشه كے ليے ختم هوچكي هے۔ مگر ايك معمه ابھي تك حل نه هوسكا۔ وه كيا مقصد تھا جس كے ليے ڈاسن نے اتنا بڑا جھوٹ تيار كيا؟ اس كو اس كام سے كوئي مالي فائده حاصل نهيں هوا۔ برٹش ميوزيم كو اس نے جو هڈيا ں فراهم كي تھيں وه اس نے محض تحفه كے طورپر پيش كي تھيں۔ اس نے ان كي كوئي قيمت وصول نهيں كي۔ پھر كيا شهرت اس كا مقصد تھا۔ كيا اس زبردست فريب كے ذريعه وه محض ايك مذاق كرنا چاهتا تھا۔ اس انگريزجعل ساز كو آخر كس چيز نے اس كا م پر آماده كيا۔اس كا معلوم كرنا كيمياوي اور طبيعي تجربوں كي دسترس سے باهر هے۔ اور شايد وه هميشه ايك راز هي رهے گا۔‘‘

يه فقره درحقيقت اس بات كا اعتراف هے كه تجربي علم (Tested Knowledge)اپني محدوديتوں كي وجه سے كائنات كي توجيه نهيں كرسكتا۔ وه هماري دنيا كے صرف بعض واقعات كا تجزيه كرسكتا هے، جب كه هميں ايك ايسے علم كي ضرورت هے جو تمام واقعات كا تجزيه كرے۔ جو تمام حقيقتوں كو هم پر آشكارا كرسكے۔ ايسا كامل علم صرف وحي كا علم هے، اس كے سوا كوئي اور علم اس ضرورت كو پورا نهيں كرسكتا۔

ارتقا كا مفروضه قافله

كائنات كي معلوم شاهراهوں ميں اپنا راسته نه پاسكا

ڈارون (1809-1882) كو يقين تھا كه زندگي ايك ارتقائي عمل كا نتيجه هے۔ كيڑے مكوڑے اپنے اعضا ميں ترقياتي تبديلياں كرتے كرتے بكري بن گئے اور بكري نے ترقي كركے زرافه كي صورت اختيار كرلي۔ پچھلے سو برس كے دوران يه ايك مسلمه سائنسي عقيده بن گيا تھا۔ مگر حاليه مطالعه نے اس عقيده كو علمي حيثيت سے متزلزل كرديا هے۔ مثال كے طورپر معلوم هوا هے كه زمين كي عمر اس اندازه سے بهت كم هے جو ارتقائي طورپر زندگي كي انواع كو وجود ميں لانے كے ليے ضروري هے۔

اب علمائے حياتيات كا قياس يه هورها هے كه زمين سے باهر كائنات كے كسي مقام پر انسان جيسي تهذيب موجود هے اور اس نے بالقصد زندگي كا جرثومه(bacterium) اوپر سے زمين پر بھيجا هے۔ مگر يهاں بھي ايك ركاوٹ درپيش هے۔ كائناتي وقت اتنا كافي نهيں كه اس كے اندر دو تهذيبيں ايك كے بعد ايك ترقي كرسكيں۔ ايك زمين پر۔ دوسري كسي اور سياره ميں — گويا انساني علم وهاں پهنچ گيا هے جهاں اس كے ليے اس كے سوا چاره نهيں كه وه ايك قادر مطلق كے وجود كو تسليم كرلے۔

زمين پر زندگي كيسے شروع هوئي، اس كے بارے ميں حال هي ميں ايك چونكا دينے والا نظريه سامنے آيا هے۔ اس نظريه كو پيش كرنے والے دو ممتاز مالے كيولر بيالوجسٹ هيں۔ ايك، نوبل انعام يافته فرانسس كريك (Francis Crick) دوسرے لزلي آرگل (Leslie Orgel)۔اس نظريه كے مطابق زمين پر زندگي كا آغاز نه تو خود بخود هوا اور نه اس طرح كي كچھ ملين سال پهلے ايك ابتدائي ماده سے ايك جسم حيواني (organism)بنا اور اس سے تدريجي ارتقا كے ذريعے زندگي كي انواع وجود ميں آئيں۔ بلكه زندگي ايك ايسے تجربے كا نتيجه تھي جو كچھ غير ارضي هستيوں (Extraterrestrial Beings)نے کروروں سال پہلے پلان كيا تھا۔

كريك اور آرگل يه فرض كرتے ہیں کہ همارے كهكشاني نظام كے دوسرے سياروں ميں ترقي يافته تهذيبيں موجود هيں۔ انقیاس کے مطابق، اسي قسم كے كسي سياره كے باشندوں نے كچھ هزار ملين سال پهلے طے كيا كه وه اس بات كا تجربه كريں كه كيا ان كے پڑوسي سياروں ميں زندگي اپنے ليے نيا ماحول پيدا كرسكتي هے۔ چنانچه انھوں نے هماري كهكشاں كے كچھ سياروں پر زندگي كے جراثيم ڈالے۔ اسي قديم تجربه كا نتيجه هماري موجوده تهذيب هے۔

انيسويں صدي ميں ڈارون كے نظريه كے بعد اهل مذاهب كا مخصوص تخليق كا نظريه علمائے سائنس كے درميان ختم هوگيا تھا۔ اس كے بعد سائنس داں اس سوال كا جواب معلوم كرنے ميں سرگرداں تھے كه زندگي شروع كس طرح هوئي۔ اس بحث كے دوران سويڈن كے كيمسٹ ارے نيس (Arrhenius) نے انيسويں صدي كے آخر ميں يه تخيل پيش كيا كه كچھ بيكٹيريائي اجزاء كسي ايسے سياره سے زمين پر آگئے، جهاں پهلے سے زندگي موجود تھي، اور پھر تدريجي ارتقا كے ذريعه اقسام حياتيات كو وجود ميں لانے كا سبب بنے۔ ارے نيس نے اس طريق عمل كو ’’پينس پرميا‘‘ كا نام ديا۔ اس نظريه كو اس تنقيد كا سامنا كرنا پڑا كه بيكٹيريا بين سياراتي سفر ميں خطرناك ريڈی ايشن (radiation)كے مقابله ميں زنده نهيں ره سكتا، لارڈ كلوين (Kelvin) نے اس كا جواب ديتے هوئے كها ’’هوسكتا هے كه بيكٹيريا كسي شهابئے سے چپك گيا هو اور اس پر سوار هو كر زمين پر آيا هو۔‘‘

اگر چه يه ممكن هے كه بيكٹيريائي اجزاء شهابئے پر سوار هو كرایک سيارہ سے دوسرے سیارے کا سفر كريں، تاهم پينس پرميا كا نظريه كبھي سائنس دانوں كے ليے قابل قبول نه هوسكا تھا۔ اس نظريه كا اساسي مقدمه يه هے كه زندگي اس سے پهلے كهيں موجود تھي، جب كه اس نظريه ميں اس كا جواب نهيں ملتا كه دوسرے سياره پر زندگي كيسے وجود ميں آئي۔

كريك اور آرگل، يه مانتے هوئے كه بيكٹيريائي اجزاء كي اتفاقي هجرت ناممكن هے۔ وہ كهتے هيں كه اس وقت يه قابلِ قياس هو جاتا هے جب كه يه مانا جائے كه بالقصد كسي نے زندگي كے جراثيم كو زمين پر بھيجا هو۔ وه اس عمل كو معين پنسپرميا (Directed Panspermia)كا نام ديتے هيں۔

اس نئے نظريه كے ثبوت ميں كريك اور آرگل دو حياتياتي مسئلوں كا حواله ديتے هيں۔ ان ميں سے ايك جينيٹك كوڈ هے۔ هر ايك موجوده زمانه ميں تسليم كرتا هے كه زمين پر زندگي كي تمام قسموں كے ليے صرف ايك كوڈ هے۔كوئي حياتياتي عالم اس عالمگيريت كي توجيه نهيں كرسكتا كه سب كے ليے ايك هي كوڈ كيوں هے۔ آرگل اور كريك كهتے هيں كه اس كي وجه يه هے كه حياتيات كا ايك هي بيج تھا، جس سے زندگي شروع هوئي، اس ليے فطري طورپر اس بيج كا جينٹك كوڈ، جو کروروں سال پهلے كسي دوسرے سيارے كے باشندوں نے زمين پر بھيجا تھا، اپنا اعاده ايك هي جينيٹك كوڈ كي شكل ميں كرتا رها۔

دوسري چيز مولب ڈينم (Molybdenum) نامي دھات كا وه رول هے جو حياتياتي نظام ميں پايا جاتا هے۔ اكثر انزائم سسٹم اپني كاركردگي كے ليے اس كے اور صرف اس كے محتاج هوتے هيں۔مولب ڈينم اتنا غير معمولي طور پر اهم هونے كے باوجود زمين ميں پائي جانے والي كل دھاتوں كا صرف 0.02في صد (دس هزار ميں دو) هے۔ دوسري طرف بعض زياده مقدار ميں پائي جانے والي دھاتيں مثلاً كروميم اور نكل، جو كه اپني خاصيت ميں مولب ڈينم سے بهت مشابه هوتي هے اور زميني دھاتوں كا 0.2 في اور 3.16 في صد هيں، حياتياتي نظام ميں بالكل هي كوئي اهميت نهيں ركھتيں۔ كريك ا ور آرگل كهتے هيں كه زمين كي جو كيميائي تركيب هے وه زمين پر وجود ميں آنے والي زندگيوں كي بناوٹ ميں منعكس هوني چاهيے تھي۔ اور چونكه ايسا نهيں هے اس ليے ماننا پڑے گا كه زندگي كچھ ملين سال پهلے زمين پر باهر سے بھيجي گئي۔

اگر معين پينس پرميا كا نظريه مان ليا جائے تو اس سے دو سوالات پيداهوتے هيں۔ (1) کیا كائناتي وقت اتنا كافي هے كه اس كے اندر دو تهذيبيں ايك كے بعد ايك ترقي كرسكيں، ايك زمين پر اور دوسري كسي اور سياره ميں۔ (2) كيا حياتياتي جرثومه بين سياراتي فاصلوں كو عبور كركے ايك جگه سے دوسري جگه زنده حالت ميں پهنچايا جاسكتا هے۔

كريك اور آرگل كا خيال هے كه ان كا نظريه قبوليت حاصل كرلے گا، اگر يه ثابت هوسكے كه وه عناصر جو زميني زندگي كے اجزائے تركيبي هيں، وه وهي هيں جو بعض قسم كے ستاروں ميں، ان كے قياس كے مطابق كثرت سے پائے جاتے هيں۔

ڈارونزم

دورِ جدید کے فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقا (organic evolution) کہاجاتا ہے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی (simple life forms)سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلیکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔

 چارلس ڈارون (وفات 1882ء) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے۔ ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے۔ مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن ہے۔

یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔

 مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا۔ سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے۔ سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کا ذہین ڈزائن (intelligent design) ہے۔ اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے۔ کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔

اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر زندگی کے آغاز ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتابیں: مذہب اور سائنس، اور علم جدید کا چیلنج)۔

زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقا کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔

تدريجي ارتقا كا ثبوت نهيں

حاليه تحقيقات نے ارتقا كے مفروضه كو علمي طورپر بے بنياد ثابت كرديا هے۔ مثلاً متحجرات (fossils) كے مطالعه سے يه معلوم هوا هے كه نظريه ارتقا كا يه مفروضه مشاهدات كے مطابق نهيں هے كه زندگي كي ايك نوع كروروں سال ميں هلكي هلكي تبديلي سے دوسري نوع كي صورت اختيار كرليتي هے۔ مثلاً ڈارونزم ميں يه فرض كياگيا تھا كه لومڑي كي نسلوں ميں رفته رفته تبديلياں هوئيں جس كے نتيجه ميں ساٹھ ملين سال كے بعد لومڑي نے گھوڑے كي صورت اختيار كرلي۔ مگر تازه دريافتيں بتاتي هيں كه زندگي كي انواع ميں تبديلي (اگر اس كو تبديلي كا نام ديا جائے) بالكل اچانك هوتي هے۔ يعني ’’لومڑي‘‘ بالكل اچانك ايك هي نسل ميں گھوڑا بن جاتي هے۔ زمين كي تهوں ميں قديم زمانه كے حياتياتي آثار جو پتھريلي هڈيوں يا ڈھانچوں كي صورت ميں دفن هيں وه قديم مفروضه كي مطلق تصديق نهيں كرتے۔

هارورڈ يونيورسٹي (امريكا) كے پروفيسر اسٹيفن جے گولڈ(Stephen Jay Gould)نے جديد شواهد كا حواله ديتے هوئے لكھا هےكه متحجرات كے ريكارڈ كے مطابق انواع حيات كروروں سال تك بغير بدلے هوئے ايك حالت پر باقي رهتي هيں اور پھر اچانك ايك نوع غائب هو كر دوسري نوع سامنے آجاتي هے جو بنيادي طورپر پهلي سے مختلف مگر واضح طور پر پهلي كے مشابه هوتي هے:

For millions of years species remain unchanged in the fossil record, and then they abruptly disappear to be replaced.  (The Sunday Times, London, 8 March, 1981)

فاسلز كے مطالعه ميں ايك نوع كروروں سال تك بالكل يكساں حالت ميں نظر آتي هے۔ اس كے بعد ايسے فاسلز ملتے هيں جو بتاتے هيں كه اچانك ايك نوع سامنے آگئي۔ اس طرح تدريجي تبديلي كا نظريه سراسر باطل ثابت هوجاتاهے۔ تاهم فاسلز كے مطالعه سے جو بات معلوم هوتي هے وه صرف ايك قسم كے جاندار كے متحجر ڈھانچه كے بعد اچانك دوسري قسم كے جاندار كے متحجر ڈھانچه كا ملنا۔ يه سوال ابھي بدستور حل طلب هے كه نئي نوع پچھلي نوع كے بطن سے نكلي يا آزادانه طورپر وجود ميں آئي جس طرح زمين كا پهلا جاندار آزادانه طورپر وجود ميں آيا تھا۔

ارتقا كے حاميوں كا خيال تھا كه پهلے جاندار كےمتعلق اگر يه مان لياجائےكه وه اچانك پيداهوگيا تو دوسري تمام قسم كے جانداروں كي پيدائش ارتقائي طورپر ثابت هوجاتي هے۔ مگر اب حقائق يه ماننے پر مجبور كررهے هيں كه جس طرح پهلا جاندار ’’اچانك‘‘ پيداهوا اسي طرح جانداروں كي دوسري تمام قسميں بھي ’’اچانك‘‘ پيدا هوئي هيں۔ ارتقا كا نظريه جس طرح پهلے جاندار كي تشريح ميں ناكام تھا اسي طرح وه بعد كے جانداروں كي تشريح ميں بھي ناكام هو رها هے۔

ـــــــــــــــــــــــــــ

نظریۂ ارتقا کی صداقت پرموجودہ زمانے کے ’’سائنسداں‘‘ متفق ہوچکے ہیں۔ارتقا کاتصور ایک طرف تمام علمی شعبوں پرچھاتاجارہاہے،ہروہ مسئلہ جس کوسمجھنے کے لیے خداکی ضرورت تھی،اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کاایک خوبصورت بت بناکررکھ دیاگیاہے، مگردوسری طرف عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)کانظریہ ،جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کیے گئے ہیں، اب تک بے دلیل ہے ،حتیٰ کہ بعض علما نے صاف طورپرکہہ دیاہے کہ اس تصورکوہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کاکوئی بدل ہمارے پاس موجودنہیں ہے ۔ سرآرتھرکیتھ (Sir Arthur Keith, 1866-1955)نے1953ء میں کہاتھا:

"Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable."  (Islamic Thought, Dec. 1961(

یعنی ارتقا ایک غیرثابت شدہ نظریہ ہے،اوروہ ثابت بھی نہیں کیاجاسکتا،ہم اس پرصرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کاواحدبدل تخلیق کاعقیدہ ہے جوسائنسی طورپر ناقابلِ فہم ہے ، گویا سائنسدان ارتقا کے نظریے کی صداقت پرصرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگروہ چھوڑدیں تولازمی طورپرانھیں خداکے تصورپرایمان لاناپڑے گا۔

تکمیلِ دین کی طرف

امت کا سفر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں اپنی امت کو ایک جامع نصیحت ان الفاظ میں کی تھی: تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا:كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّه(مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے امت کو جو طریقہ بتایا تھا ، وہ یہ تھا کہ امت مسائل میں الجھنے سے بچے، اور معرفت اور دعوت پر فوکس کرے۔اسی میں امت کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہے۔ انسان مسائل میں الجھنے سے منفی سوچ کا شکار ہوتا ہے، جو کہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ نصیحت کی تھی:إِذَا أُصِيبَ أَحَدُكُمْ بِمُصِيبَةٍ فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي فلِيُعَزِّهِ ذَلِكَ عَنْ مُصِيبَتِهِ(مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر 6700)۔ یعنی جب تم میں سے کسی پر  مصیبت آئے تو اپنی مصیبت کے ساتھ وہ میری مصیبت کو یاد کرے۔وہ اس کو اس کی مصیبت کے موقع پر تسلی دے گی۔ یہ سادہ الفاظ میں صرف پیغمبر اسلام کی مصیبت کو یاد کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ سبق حاصل کرنا ہے کہ پیغمبر اسلام نے جس طرح مصیبت (مسائل) کو اگنور کرکے معرفت اور دعوت کا مشن انجام دیا، اسی طرح آج بھی معرفت اور دعوت کا مشن انجام دینا ہے۔  

موجودہ زمانے میں معرفت اور دعوت کے ذرائع کا انفجار ہوچکا ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں بطور پیشین گوئی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اسی طرح قرآن میں ایک دوسرے مقام پر یہ آیا ہے: وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا (27:93)۔ یعنی اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ عنقریب تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔ 

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کا مقصد آئڈیالاجیکل مواقع کا انفجار تھا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد ایک نئے پراسس کا آغاز  تھا۔ یعنی آفاق و انفس کی آیات کے ذریعے دینِ حق کا اظہار۔ لیکن بعد کے مسلم اہل علم، سارے کے سارے، مواقع کو فکری اعتبار سے اویل کرنے کے بجائے سیاسی تحفظ اور جہادبمعنی قتال جیسی باتوں میں لگ گئے۔ اس معاملے میں کسی عالم کا استثنا نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبا ن کا سیاسی ظہور اسی سوچ کا ایک ظاہرہ ہے۔ یہ سب لوگ جہاد اور سیاست کی لائن سے سوچ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل اراءۃ آیات (نشانیوں کے ظہور)کی پیشین گوئی جو قرآن میں کی گئی تھی(فصلت، 41:53) ، اس پہلو سے وہ سوچ نہ سکے۔ 

تزئین یا ڈسٹریکشن

ایسا کیوں ہوا کہ امت کا فوکس اصل پہلو سے ہٹ گیا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ابلیس کے کیس کو سمجھنا ہوگا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جب پہلے انسان ، آدم کو پیدا کیا ، اور اس وقت کی موجود مخلوق فرشتے اور ابلیس کے سامنے اس کو پیش کیا تو شیطان نے ناراضگی کے ساتھ کہا تھا : رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (15:39)۔ یعنی ابلیس نے کہا، اے میرے رب، جیسا تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اسی طرح میں زمین میں ان کے لیے تزیین کروں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا۔

تزیین شیطان کی سب سے خطرناک چال ہے۔اس آیت میں تزیین کا مطلب کچھ مفسرین نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: لأشغلنهم بزينة الدنيا عن فعل الطاعة(تفسیر الماوردی، جلد3، صفحہ 160)۔ یعنی میں ضرور ان کو اطاعت کے عمل سے ہٹا کر دنیا کے فریب میں مشغول کردوں گا۔ لأزيِّننَّ لهم الباطلَ حتى يقعوا فيه (زاد المسیرلابن الجوزی، جلد،2، صفحہ534)۔ یعنی میں ان کے لیے بے نتیجہ باتوں کو مزین کروں گا، یہاں تک کہ وہ اس کا شکار ہوجائیں گے۔ ان تفسیری اقوال کی روشنی میں شیطان کا کام کیا ہوسکتا ہے۔شیطان کی چالوں میں ایک چال ہے تصغیر العظیم اورتکبیر الصغیر( بڑے کو چھوٹا کرنا، اور چھوٹے کو بڑا) ۔غیر حقیقی باتوں کو حقیقی بنا کر پیش کرنا۔غیرمتعلق باتوں کو متعلق اور امپارٹنٹ بناکر پیش کرنا، اور متعلق یا امپارٹنٹ باتوں کو غیر متعلق بنا کر پیش کرنا، وغیرہ۔ 

نیا دور مواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا دور ہے۔ لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، اس دور میں بھی وہی کامیاب ہوسکتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنے کی حکیمانہ پلاننگ کرے۔مسائل کو اگنور نہ کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ شکایتی ذہن کے ساتھ زندگی گزاریں— مغربی قوم سے شکایت، ہندوؤں سے شکایت، پڑوسیوں سے شکایت، آفس کے ساتھیوں سے شکایت، ان زمانی تبدیلیوں سے شکایت جو آپ کی سماجی روایت کے خلاف ہوں، وغیرہ۔

اس کے برعکس، مواقع کو اویل کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ مسائل کے باوجود یہ دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسا موقع ہے، جس کو اویل کرکے کامیابی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔ اس کا عملی نمونہ حضرت عمر کے یہاں ملتا ہے۔ایک مرتبہ صحابیٔ رسول حذیفہ نےخلیفہ ثانی عمر فاروق سے کہا:إِنَّك تستعين بِالرجلِ الَّذِي فِيهِ وَبَعْضهمْ يرويهِ:بِالرجلِ الْفَاجِر فَقَالَ عمر:إِنِّي أستعمله لأستعين بقوّته ثمَّ أكون على قَفّانه (غریب الحدیث للقاسم بن سلاّم، جلد3، صفحہ 239)۔یعنی تم ایسے آدمی سے مدد طلب کرتے ہو، جو فاجر ہے ۔ عمر نے کہا: میں اس کو عامل بناتا ہوں تاکہ اس کی قوت سے مدد حاصل کروں، پھر میں اس کی نگرانی کر رہا ہوں(تاکہ وہ کوئی غلطی نہ کریں) ۔

یہی ہے مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا۔ یعنی ایک انسان کے اندر برائی ہے، اس کے ساتھ اس میں انتظامی صلاحیت بھی ہے تو حضرت عمر نے ایسے انسان کی برائی کو نظر انداز کیا، اور اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ایسا رسول اللہ کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ آپ نے بھی ہجرتِ مدینہ کے موقع پر ایک مشرک عبد اللہ بن اریقط کو اپنا رہنما بنایا تھا(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 488)۔   

مگرموجودہ زمانےکے مسلمان اَن اویلڈ اپارچنٹی (unavailed opportunity)کا کیس بن گئے ہیں۔موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے جو سائنسی ڈسکوری کی ہے، اس سے نہ صرف فیزیکل ( جیسے پرنٹنگ پریس، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کی) سطح پر خدا کے دین کو مدد ملی ہے۔ بلکہ معنوی سطح پر بھی معرفت کی لامحدود دنیا ڈسکور ہوگئی ہے۔جیسے کائنات کی وسعت، انسانی جسم کی بناوٹ کا مطالعہ، کوانٹم فزکس، وغیرہ۔ یہ ڈسکوریز لامحدود سطح پر انسان کے لیے معرفت کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مادی سطح پر انسان کو مدد ملی، بلکہ معنوی سطح پر بھی انسان کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا سامان فراہم ہوا ہے۔ 

یہ سائنسی ڈسکوری مغربی اقوام کے ذریعے ظہور میں آئی۔ لیکن موجودہ دور کے تمام مسلم لیڈر سیاسی میدان میں مغلوبیت کی وجہ سے ان سے دشمنی کرنے لگے۔ حالاں کہ سیاسی میدان ایک محدود میدان تھا، جب کہ خدا کی معرفت اور دین کی تائید کا میدان ایک لامحدود میدان تھا۔ لیکن شیطان نے بذریعہ تزئین یہ کیا کہ مسلم لیڈروں کے سامنے سیاسی معاملے کو عظیم بنا کر پیش کیا، اور خدا کی معرفت اور دعوت کے میدان کو غیر حقیقی بنا کر پیش کیا۔ چنانچہ مسلم دنیا سترھویں صدی سے لے کر اب تک اسی تزئین میں پھنسی ہوئی ہے، اور اس سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ 

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی فاجر انسان کے ذریعے اس دین کی تائید کرے گا۔ایک اور روایت میں اس کو’’غیر اہل دین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ھُمْ مِنْ أَھْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی  اس دین کی تائید ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو غیر اہل دین ہوں گے۔

یہ بہت اہم پیشین گوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں ، جب کہ اسلام اجنبی بن جائے گا،اس وقت یہی بے دین اور غیر اہل دین، خدائی دین کے مددگار ثابت ہوں گے، خواہ بالواسطہ انداز میں ہو یا بلاواسطہ انداز میں۔ یہی لوگ ہوں گےجن کے ذریعے اسلام کا کلمہ روئے زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوگا۔ غالباًاسی حقیقت کی طرف رسول اللہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:  قَوَامُ أُمَّتِي بِشِرَارِهَا (مسند احمد، حدیث نمبر 21985)۔ یعنی میری امت کا معاملہ اس کے برے لوگوں کے ذریعے درست رہے گا۔

ان تمام آیات و احادیث کو آج کے ریفرنس میں دیکھا جائے تو موجودہ دور کے اعتبار سے ان کا مطلب ایک جملے میں یہ ہوگا کہ سیاسی مسائل کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو اویل کرو:

Ignore the political problems, avail the opportunities.

 قدیم زمانے کی طرح موجودہ زمانے میں بھی مسائل ہیں۔کوئی زمانہ مسائل سے خالی نہیں ہوتا ہے، خواہ وہ ماضی ہو یا حال یا مستقبل۔یہ قانونِ فطرت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں بھی مسائل تھے۔ مگر آپ نے مسائل سے ٹکراکر اسٹیٹس کو (status quo) کو بدلنے کے بجائے مسائل کے درمیان موجودمواقع کو دعوتی مشن کے لیے اویل کیا۔ کیوں کہ اسٹیٹس کو کو بدلنا گریٹر ایول (greater evil) ہے، اسٹیٹس کو کو اگنور کرکے اپنا مشن شروع کرنا لیسر ایول (lesser evil) ہے۔پیغمبر اسلام نے یہی کیا۔ مثلاً یہ کہ جب آپ نے دعوتی کام شروع کیا تو کعبہ میں بت تھے، مگر آپ نے ان کو نظر انداز کیا، اور بت کے لیے آنے والوں کوپرامن انداز میں توحید کاپیغام پہنچایا۔ چنانچہ یہی لوگ شرک کوچھوڑ کر ایک دن آپ کے ساتھی بن گئے۔یہی تاریخ آج بھی دہرائی جاسکتی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــ

فرد، سماج

اِس دنیا میں معیاری فرد کا بننا ممکن ہے، لیکن معیاری سماج کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔ کوئی آدمی اپنے ذاتی فیصلے کے تحت، اپنی شخصیت کی تعمیر کرتاہے۔ ایک انسان کے بننے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کے اندر انفرادی قوتِ ارادی(will power) پیدا ہوجائے، لیکن پورے سماج کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوںکہ قوتِ ارادی ایک فرد کے اندر ہوتی ہے، پورے سماج کے اندر اجتماعی قوتِ ارادی (collective will) صرف ایک خیالی تصور ہے، عملی طورپر اس کا کوئی وجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میںبار بار ایسے افراد پیدا ہوئے جو اپنی ذات کے اعتبار سے معیاری کردار کے حامل تھے، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پورا سماج، یا پورا اجتماعی نظام اپنے کردار کے اعتبار سے، معیاری سماج یا معیاری نظام بن جائے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔

 قیامت کی طرف

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو زندگی گزارنے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً پانی اورروشنی اور آکسیجن، وغیرہ۔ اِس طرح کے بے شمار آئٹم ہیں جو انسان کی بقاءِ حیات کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ سامانِ حیات ہماری دنیامیں وافر طورپر بغیر مانگے ہوئےموجود ہے۔ اسبابِ حیات کے اِس مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم (life-support system) کہا جاسکتا ہے۔یہ لائف سپورٹ سسٹم اتنا مکمل ہے کہ وہ انسان کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو نہایت اعلیٰ صورت میں پورا کررہا ہے۔ زمین سے لے کر سورج تک پوری دنیا استثنائی طورپر انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اس کی کوئی قیمت ادا کرنی نہیں پڑتی ہے۔

مگراکیسویں صدی کےآغاز میں ایک ناپسندیدہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ گلوبل وارمنگ دوسرے الفاظ میں، زمین کے لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمہ کی شروعات ہے۔ انڈسٹریل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے پلوشن نے سیارۂ زمین پر ایسے حالات پیدا کیے، جب کہ یہ دنیا انسان کے لیے قابلِ رہائش (habitable)  ہی نہیں رہے گی۔موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے بارے میں مسلسل خبریں آرہی ہیں جو قیامت کی پیشین گوئی (prediction)کی تصدیق کرنے والی ہیں۔ستمبر 2021میں،بی بی سی انگریزی میں مسلسل ایک نیوز آرہی ہے، ایک دن یہ نیوز حسب ذیل عنوان سے نقل کی گئی تھی:

Volcano on Canary Island La Palma erupts, spewing ash and lava into national park.

دوسری نیوز ویب سائٹس نے ان الفاظ میں لا پالما کی تباہی کی خبر دی ہے:

La Palma Volcano Reaches Atlantic Ocean, Leaves Trail of Destruction Behind. (News18)

Bright lava flows, smoke pour from La Palma volcano eruption. (Sky News)

ان تمام نیوز کا خلاصہ یہ ہے کہ اسپین کے جزیرہ لا پالما میںکمبری ویجا ( the Cumbre Vieja) نامی آتش فشاںسے راکھ، دھوئیں اور لاوے کے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے۔انتہائی گرم لاوے نے مکانات اور جنگلاتی علاقے کو جلا ڈالا ہے۔ اندازے کے مطابق، لاوا کے راستے میں آنے والے 1200سے زیادہ گھر تباہ ہوچکے ہیں، اور 6 ہزار سے زیادہ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ لا پالما میں آتش فشاں سے لاوے (volcanic lava)کا اخراج 19 ستمبر سےشروع ہوا تھا۔ دھماکے سے قبل 4.2 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ ہزاروں چھوٹے زلزلے کے ایک ہفتے کے بعد کمبری ویجا ا ٓتش فشاں پہاڑ سے سیاہ اور سفید دھواں کے بڑے بڑے بادل نکلے۔اس سے اب تک180 ہیکٹرز کا علاقہ جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ کئی علاقوں پر سیاہ راکھ کی موٹی تہیں جم چکی ہیں۔پگھلے ہوئے لاوا کا تقریباَ 6 میٹر (20 فٹ) اونچا نہ رکنے والا بہاؤ سمندر کی طرف جا رہاہے ۔ماہرین نےیہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر سترہ سے بیس ملین کیوبک میٹر لاوا سمندر تک پہنچے گا۔ جب لاوا سمندر میں گرے گا تو پانی کے ملاپ سے شور بلند ہونے کے ساتھ ساتھ فضا میں انتہائی زہریلی اور تیزابی گیسیں بلند ہوں گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے زمین میں مزید نئی دراڑیں ابھر سکتی ہیں ۔

 اس قسم کی صورتِ حالزمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں (ecology)کے لیے سنگین خطرہ پیدا کرتی جارہی ہے۔ تمام انسانی کوششوں کے باوجودکوئی بھی انسانی تدبیر گلوبل وارمنگ کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہی ہے۔ زمین کے ایکولوجیکل سسٹم کی صورتِ حال دن بدن پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، فضائی آلودگی سے ہونے والے نقصان کا جو اندازہ ماضی میں کیا گیا تھا، اب اس سے کہیں زیادہ نقصان کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔چنانچہ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ رہا ہے۔

میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ تمام دنیا کے سائنس دانوں نے گہری ریسرچ کے بعد یہ پایا ہے کہ ہماری زمین میں موسمیاتی تبدیلی (climatic change) اِس خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب وہ ناقابلِ تبدیل (irreversible)  ہوچکی ہے۔ ایکولوجی کا معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں کو روک بھی دیں تب بھی صرف قدرتی عمل(natural processes)سے ہوا میں کافی زیادہ قدرتی کاربونک ایروسول (carbonic aerosol) یعنی مائیکرواسکوپک لیکوئڈ ڈراپ لیٹس (Microscopic Liquid Droplets) بنتی ہیں، جن سے انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

 گلوبل وارمنگ اور اس کے متعلق پہلوؤں پر موجودہ زمانے میں وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا جارہا ہے۔ اِس مطالعے کا ایک حصہ یہ ہے کہ زمین کے نارتھ پول اور ساؤتھ پول میں پہاڑ کی مانند برف کے بڑے بڑے تودے (glaciers) ہیں۔ اِن تودوں کے نیچے بڑے بڑے آتش فشاں پہاڑ (volcanoes) چھپے ہوئے ہیں۔ یہ آتش فشاں پہاڑ محصور توانائی (pent-up energy) کے بھاری ذخیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن کے اوپر برف کے تودے گویا کہ بڑے بڑے فطری ڈھکن تھے جو اِس آتش فشاں کو پھٹ کر باہر آنے سے روکے ہوئے تھے۔گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے یہ برفانی ڈھکن تیزی سے پگھل رہے ہیں۔اِس طرح شدید طورپر یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا برفانی ڈھکن بہت جلد پگھل کر ختم ہوجائے اور ان کے اندر چھپا ہوا آتش فشا ں پھٹ کر آگ اور لاوا (lava)کی صورت میں باہر آجائے۔

مثلاً لاپالما کا لاوا بحر اٹلانٹک تک پہنچا تو وہاں لاوا کے پانی میں ملنے سے دھماکے شروع ہوگئے ہیں، اور زہریلی گیس کے بادل فضا میں پھیل رہے ہیں۔ لاوا کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں نے اسے 1000 ڈگری سینٹی گریڈ (1,800 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ) پر ناپا۔ اس وقت یہ آتش فشاں ایک دن میں 8,000 سے 10,500 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ پیدا کر رہا ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ صحت عامہ کے لیے بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ تیزابی بارش اور فضائی آلودگی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔یہی سب وہ چیزیںہے، جن کو لائف سپورٹ سسٹم کے خاتمہ کی طرف سفر کہا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے تعلق سے مختلف پیشین گوئیاں کی ہیں۔ ان میں کلائمیٹ کی تبدیلی کے تعلق سے چند یہ ہیں: دخان (اسموگ) ، زمین کا دھنسنا یا لینڈ سلائڈ، سورج کا مغرب (مخالف سمت ) سے نکلنا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2901)، زلزلوں کی کثرت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7121)، وغیرہ۔حالات بتاتے ہیں کہ ان باتوں کی ابتدا ہوچکی ہے۔ نیوز کے مطابق، ایک مقامی باشندہ نے لا پالما کی تباہی کو ان الفاظ میں بیان کیاہے کہ ہر چیز تباہ و برباد ہوگئی:

Everything is destroyed.

  زمین کے ایک چھوٹے حصے میں ہونے والی فطری تباہی (calamity) گویا اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک دن آنے والا ہے، جب کہ زمین مکمل طور پر ڈسٹرائے (destroy) کردی جائے۔ تباہی کے یہ چھوٹے چھوٹے فطری واقعات گویا موجودہ دنیا کے خاتمے کے آغاز کا اعلان ہیں۔ یعنی بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے اور ایک نئی دنیا بنے، جہاں خدا کا عدل قائم ہو۔ جہاں نیک لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے، اور بُرے لوگوں کو کائناتی کوڑےخانے میں ڈال دیا جائے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہر زندہ عورت اور مرد اُس آنے والے انصاف کے دن (Day of Judgement) کے لیے تیاری کرے، جو بہر حال آکر رہے گا اور جوآنے کے بعد پھر واپس جانے والا نہیں۔

قرآن کے مطابق، بڑا عذاب (العذاب الاکبر)وہ ہے جو قیامت کے وقت صورِ اسرافیل کے بعد آئے گا، لیکن اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے علامتی عذاب (العذاب الادنیٰ)آئیں گے، تاکہ لوگ متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کرلیں (السجدۃ،31:21)۔ گلوبل وارمنگ، میٹھےپانی کی قلت، زلزلوں کی کثرت ، آتش فشاں کا کثرت سے پھٹنا، سمندری طوفان،اور سیلاب وغیرہ، اِسی قسم کے چھوٹے عذاب ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان متنبہ ہو، اِس سے پہلے کہ وہ وقت آجائے جب کہ متنبہ ہونا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

حدیث کے مطابق،انسان کے لیے توبہ (repentance )کا موقع اس وقت تک ہے، جب تک سورج مشرق سے طلوع ہورہا ہے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو انسان کے لیے توبہ کا موقع ختم ہوجائے گا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4070)۔اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، گویا خدا کے حالتِ شہود میں آنے کے پراسس کا آغاز ہوگا، اور قیامت اس پراسس کا کلمینیشن ۔ یہی وہ دن ہوگا، جب کہ خدا غیب سے نکل کر ظاہر ہوجائے گا، اور ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے عمل کے اعتبار سے اچھا یا برا بدلہ دے گا۔لیکن توبہ کا موقع ابھی ختم نہیں ہوا ہے، وہ اب بھی انسان کے پاس موجودہے۔ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو ایک سچا انسان بنائے، اور خدا کے منصوبۂ تخلیق کو جان کر اس کے مطابق زندگی کا سفرشروع کرے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)

Author
Maulana Wahiduddin Khan
Language
Urdu