اللہ اکبر (Allahu Akbar)

By
Maulana Wahiduddin Khan

اللہ اکبر

 

مولانا وحید الدین خاں

 

 

Contents

خدا کا وجود

خد اکوپانے والا

خدا کا وجود

عجیب کرشمہ

خداکا عقیدہ

خدا سب کچھ

خدا کی موجودگی کا تجربہ

خدا کا ثبوت

کائناتی مشین

کائناتی وحدت

فطرت کی پکار

کائنات مشین نہیں

معبود کی طلب

خدا کی تلاش

تو ہم پرستی

مشینی تعبیر

خدا کا بندہ

فطر ت کی تصدیق

خدا کی نشانیاں

خلائی تہذیب

یہ ماہرین

محبت کا نذرانہ

قیمت جو ادا نہیں کی گئی

قومی ہیرو

فطرت کی تلاش

یہ انسان

خدا کی عظمت

شرک اورکبر

عقید ۂ خدا

عظمت خداوندی

کارخانہ کائنات

تقویٰ کیا ہے

خرابی کی جڑ

خد اسے غافل

تضادختم ہوگیا

خد اکی نشانیاں

قدرتی مناظر

شناختی کارڈ کے بغیر

جب پردہ اٹھے گا

جھوٹی بڑائی

خدا کی نشانی

خدا کا فیضان

خدا اورفطرت

دینِ فطرت

کائنات کی معنویت

انسان کی بے چارگی

انسان کی تلاش

انسان کی کمائی

کچھ سے کچھ

محرومی

یہ بھی ممکن ہے

عجزکی تلافی

کائناتی نمونہ

ضمیر کے خلاف

اژدہا بھی

خدا پر ستی

زندگی کا مسئلہ

زلزلہ درکار ہے

خدا کی معرفت

خدا کی یافت

معرفت

توحید اورشرک

سب کچھ عجیب ہے

خد اسے نسبت

حق کی پہچان

پانے والا

دریافت کی لذت

سچائی کو پانے والا

گروہی اعتراف

حق کو پانا

خدا کو پانے والے

انکشاف خدا وندی

ایمان میں اضافہ

ہر چیز عجیب

نفی ذات

اللہ کا ذکر

کھونے والا پاتا ہے

خدا کا فیصلہ

فیصلہ کے دن

اس دن کیاہو گا

دولت کا فریب

گھاٹے والا

انسان کاالمیہ

موت کا حملہ

پانچ سکنڈ کا فاصلہ

ناتما م کہانی

موت کو یاد کرو

جب موت ذہنی طلسم کو توڑدے گی

ساٹھ کیلومیٹر

کیساعجیب

موت کا مرحلہ

سب سے بڑا بھونچال

موت ہر چیز کو باطل کر دے گی

کل کو یاد رکھیے

آہ یہ انسان

زبان والے بے زبان ہو جائیں گے

کیسا عجیب

جب حقیقت کھلے گی

خدااورآخرت

چھوڑنے کے لیے

کہاں سے کہاں تک

قریب مگر دور

دنیا کی حقیقت

بے خبر انسان

انسان ذمہ دار وجود ہے

انسان کا المیہ

چالیس سال بعد

31دن کے لیے

سب سے بڑی خبر

کل کو جانیے

آنے والا طوفان

اس وقت کیا ہو گا

نامعلوم مستقبل

الٹا رُخ

انجینئرنگ کافی نہیں

دنیا اورآخرت

کچھ کام نہ آئے گا

ہرطرف فریب

کامیابی کی فہرست

چھت گرپڑی

خدا کی دنیا

خدا کی دنیا

ہم خدا کے ملک میں ہیں

ایک موت

زندگی کا انجام

کہاں سے کہا ں

یہ گونگے شاہکاروں کاعجائب خانہ نہیں

زیادہ نازک

خد ا سے ڈرو

کائنات بیان دے گی

کیسی عجیب محرومی

سب چلے گئے

21واں منٹ

آرزوؤں کی دنیا

ہر چیز میں سبق

خرچ سے اضافہ

جب پردہ کھلے گا

جھوٹی عظمت

خدا اورانسان

آنے والا دن

عجیب یادگار

یہ سونے والے

خدا اورانسان

انسان کی غلطی

انسا ن کی تلاش

دو قسم کی روحیں

مقبول بندے

خوراک

کم سمجھنا

خدا سے بغاوت

اہلیت

پانے کے باوجود محروم

امتحان گاہ

قانون کی حد

دلیل اورشخصیت

کائنات کا دستر خوان

صرف ’’کرنا ‘‘کافی نہیں

الفا ظ کم ہوجاتے ہیں

امتحان

کوئی فرق نہیں

پچپن سال کے بعد

خدا کی عبادت

پرستش کیا ہے

اللہ سے ڈرنے والے

دین داری

محسوس پرستی

محبت کا نذرانہ

خد اکی نصرت

دل کا سکون

شکر کی اہمیت

خدا کی یاد

مومن کا ذہن

خدائی کارخانہ

صبر کا بدلہ

جنت والے

اپنا احتساب

ثواب

نمائشی حق پرستی

زند ہ قبرستان

اسم اعظم کیا ہے

جھوٹی دھوم

لطیف تجربات

دعا

خدا ئی اخلاقیات

کائنات کی شاہراہ

حسن سلوک

سرسبز درخت

چڑیا اورانسان

جنت صبر کے اُس پار ہے

عمل کا فرق

پلاسٹک کے پھل اورپھول

دونوں ایک سطح پر

جانور سے بدتر

امتحان کا کام

عمل کے بغیر

دنیا کی خاطر عمل کرنے والے

شکار کرنے والے

دو قسم کے انسان

آپریشن

یہ جہنمی قافلے

دوسرے درجہ پر

دو قسم کی غذائیں

خداکی قدرت

خدا کی طرف سفر

جب سفر ختم ہوگا

25واں گھنٹہ

آخری منزل

موت کے دوسری طرف

آخرت تک جانا ہے

موت کی طرف

موت سے قریب

قبر نہیں دروازہ

موت کا سبق

زندگی کا سفر

کیسا عجیب

جنازہ کو دیکھ کر

روپیہ سے راکھ تک

جہنم کا خطرہ

کتنا سنگین

الفا ظ ختم نہیں ہوتے

آہ کس قلم سے لکھا جائے

خدا کا قانون

قانون کی زد

خدا کی دنیا میں

تولے جانے سے پہلے تول لو

آج بونا کل کاٹنا

موجودہ دنیا ناکافی

عقیدۂ آخرت

راکھ کی گواہی

انسان کا المیہ

موت کے آگے

عقل مند کون

ناکام موت

کوئی بچانہ سکے گا

رات کے بعد دن

سب سے بڑا فریب

آخرت کے بغیر

جاننے کے بعد

آزمائش کاقانون

موت جب آتی ہے

یہ بے قیمت انسان

خدائی منصوبہ

خدا کا منصوبہ

مستقبل کا یقین

حقیقت انسانی

یہ تضاد کیوں

کائناتی منصوبہ بندی

تخلیق کی حکمت

زندگی کا اسٹیج

اندھیر اختم ہوگا

تاریکی میں سفر

دونو ں ایک سطح پر

حادثات کیوں

حقیقت سے بے خبری

ظاہر فریبی

تضاد فکری

کائنات کو پڑھیے

غلط استعمال

کامیاب زندگی

امتحان

دو قسم کے بیج

اگلا پیرا گراف

خداکی پکار

خدا کا داعی

کرنے کا کام

مقبولیت کا راز

داعی کون

داعیانہ اخلاق کی ضرورت

رہنماکی ضرورت

خداکاداعی

غلط فہمی

حق کی دعوت

آخرت کی پکار

نازک سوال

داعی بننے کے لیے

حق کی پکار

یہ انسان

خدا کا وجود

خد اکوپانے والا

خدا کوپانا سب سے بڑی حقیقت کو پانا ہے۔کوئی آدمی جب خد اکو پاتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک ایسی زلزلہ خیز دریافت ہوتی ہے جو اس کی پوری زندگی کو ہلا دیتی ہے۔

وہ ایک ناقابل بیان ربانی نور میں نہا اٹھتا ہے۔وہ ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔اس کی سوچ نئے رخ پر چلنے لگتی ہے۔اس کا عمل کچھ سے کچھ ہوجاتاہے۔اس کی تمام کارروائیاں ایک ایسے انسان کی کارروائیاں بن جاتی ہیں جو خدا کے ظہو رسے پہلے خدا کو دیکھ لے۔جو قیامت کی ترازوکھڑی ہونے سے پہلے اپنے آپ کو قیامت کی ترازو پر کھڑاہوامحسوس کرنے لگے۔

مومن اورغیر مومن کافرق یہ ہے کہ غیر مومن پر جو کچھ قیامت میں گزرنے والا ہے وہ مومن پر اسی دنیا میں گزرجاتا ہے۔غیر مومن جو کچھ آخرت میں دیکھے گاوہ مومن اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے۔غیر مومن کل کے دن جو کچھ مجبور ہوکر مانے گا اس کومومن آج کے دن کسی مجبوری کے بغیر مان لیتا ہے۔

خدا کا وجود

خدا کے وجود کا سب سے بڑاثبوت انسان کاخود اپنا وجود ہے۔خدا جیسی ہستی کو ماننا جتنا مستبعد ہے اتنا ہی مستبعد یہ بھی ہے کہ انسان جیسی ہستی کو مانا جائے۔اگر ہم ایک انسان کو مانتے ہیں تو ایک خدا کو ماننے میں بھی ہمارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔

قرآن میں بتایا گیاہے کہ خدانے انسان کے اندر اپنی روح پھونکی (الحجر،15:29)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خداکی صفات کا ایک بشری نمونہ ہے۔وجود ،زندگی ،علم ، قدرت ،ارادہ ،اختیار اوردوسری صفات کمال جن کا حقیقی مظہر صرف خداکی ذات ہے۔ ان کا ایک عکس (نہ کہ حصہ )انسان کو ودیعت کیا گیاہے۔انسان کسی بھی اعتبار سے خداکا جزء نہیں مگروہ اپنی ذات میں اس خداکی محسوس دلیل ہے جس کو غیبی طورپر ماننے کا اس سے مطالبہ کیا گیاہے۔

انسان کے اندر وہ ساری خصوصیات شہود کے درجہ میں موجود ہیں جن خصوصیات کے ساتھ ایک خداکو غیب کے درجہ میں ماننے کا اس سے مطالبہ کیاگیا ہے۔

انسان کا ایک مستقل وجود ہے۔وہ دیکھنے اورسننے اوربولنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ وہ سوچتاہے اورمنصوبہ بناتاہے۔وہ اپنے ذاتی ارادہ کے تحت حرکت کرتاہے۔وہ مادہ کو تمدن میں تبدیل کرتاہے۔وہ ریموٹ کنٹرول سسٹم کے ذریعہ خلائی مشین کو چلاتاہے۔وہ اپنی ذات کا شعور رکھتاہے۔وہ جانتاہے کہ ’’میں ہوں‘‘ انہیںصفات کی کامل ہستی کا نام خداہے۔

انسان اورخدا میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا وجود غیر حقیقی ہے اورخداکا وجود حقیقی۔یہ مخلوق ہے اوروہ خالق۔یہ محدود ہے اوروہ لامحدود۔ یہ بے اختیار ہے اوروہ بااختیار ۔ یہ فانی ہے اوروہ غیر فانی۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ عطیہ ہے جب کہ خداکے پاس جو کچھ ہے وہ اس کا ذاتی ہے ،وہ کسی دوسرے کا دیا ہوا نہیں۔

انسان کو ماننا بلاتشبیہ ’’چھوٹے خدا‘‘کو ماننا ہے۔پھر کیا وجہ ہے وہ ’’بڑے خدا‘‘کو نہ مانے ہر شخص جو خدا کو نہیں مانتا وہ یقینا اپنا اقرار کرتا ہے۔وہ انسانی وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ جو شخص انسان کو مان رہاہو اس کے لیے خدا کو نہ ماننے کی کوئی دلیل نہیں۔ انسان کے وجود کا اقرا ر کرکے وہ خداکے وجود کا بھی اقرار کر چکا ہے ،خواہ وہ اپنی زبان سے اس کا اظہار کرے یانہ کرے۔حقیقت یہ ہے کہ خداکا انکار خود اپنا ا نکار ہے۔اورکون ہے جو خود اپنا انکار کرسکے۔

عجیب کرشمہ

انسان کا جسم چند مادی چیزوں سے مل کر بنا ہے پانی ،کاربن ،آکسیجن اورکچھ مزید کیمیائی عناصر۔ ظاہری تجزیہ کے اعتبار سے انسان بس اسی قسم کی چند چیزوں کا مجموعہ ہے۔ رابرٹ پیٹیسن (R. Pattison)نے انسانی جسم کے ان مادی عناصر کاحساب لگایاتو اس نے پایا کہ بازارکی شرح کے لحاظ سے ان کی کل قیمت ساڑھے چھ ڈالر ہے یعنی ہندستانی سکہ میں تقریباً ستر روپیہ۔

مگر اسی ’’ستر روپیہ‘‘کے سامان سے اللہ تعالیٰ نے ایسا انمول آدمی بنایا ہے جو اتنا قیمتی ہے کہ سکہ میں اس کی قیمت مقرر نہیں کی جا سکتی۔ ستر کھرب روپئے بھی ایک انسان کی قیمت نہیں ہوسکتے۔

انسان کے انتہائی قیمتی ہونے کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کا کوئی عضو اس سے چھن جائے۔ انسان کاایک ہاتھ کٹ کراس سے جداہوجائے تواربوں ڈالر ادا کر کے بھی دوبارہ ویسا ہاتھ اس کو نہیں مل سکتا۔انسان کی آنکھ اگربے نور ہو جائے تو ساری دنیا کی دولت بھی اس کو وہ آنکھ نہیں دے سکتی جس سے وہ دوبارہ دیکھنے لگے۔ انسان کی زبان اگر جاتی رہے تو کوئی بھی قیمت ادا کرکے وہ بازار سے ایسی چیز نہیں پا سکتا جس سے وہ بولے اوراپنے خیالات کا اظہار کرسکے۔

کیسی عجیب ہے خدا کی کاریگری کہ وہ بے قیمت چیزوں سے انتہائی قیمتی چیز بناتا ہے۔ وہ مردہ چیز کو زندہ چیز میں تبدیل کرتا ہے۔ وہ بے شعور مادہ سے باشعور مخلوق وجود میں لاتا ہے۔ وہ نہیں سے ہے کی تخلیق کرتا ہے۔

کسی جادوگر کی چھڑی سے ایک پتھرکوئی آواز نکالے تواس کو دیکھ کرسارے لوگ حیران رہ جائیں گے۔مگر خدا بے شمار انسانوں کو مادّہ سے بنابنا کر کھڑاکر رہا ہے۔اور وہ نہایت بامعنی الفاظ میں کلام کررہے ہیں۔ مگر اس کو دیکھ کر کسی پر حیرانی طاری نہیں ہوتی۔کیسے اندھے ہیں وہ لوگ جن کو جادو گر کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں، مگر خداکے کرشمے دکھائی نہیں دیتے۔کیسے بے عقل ہیں وہ لوگ جو جھوٹے کرشمے دکھانے والوں کے سامنے سراپا عقیدت مندبن جاتے ہیں ،مگر جو ہستی سچے کرشمے دکھارہی ہے اس کے لیے ان کے اندر عقیدت ومحبت کا جذبہ نہیں امنڈتا۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر خدا کو پالے تو وہ اس کے کمالات میں گم ہوجائے۔ خداکے سواکسی دوسری چیز کا اس کو ہوش نہ رہے۔

خداکا عقیدہ

میں نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔انڈیاگیٹ تعمیر اورسنگ تراشی کا بے حد حسین نمونہ ہے۔ وہ مشاہدہ کی زبان میں بتارہا ہے کہ انسان کیسی انوکھی صلاحیتوں کا مالک ہے وہ ’’ انڈیاگیٹ ‘‘جیسی ایک چیز کو پیشگی طور پر سوچتا ہے۔وہ اس کا منصوبہ بناتاہے اورپھر عملاً اس کو وقوع میں لاتا ہے۔

اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ اگر تمام ستاروں اورسیاروں اورتمام درختوں اورجانوروں سے کہا جائے کہ وہ ایک ’’انڈیاگیٹ ‘‘بنادیں توسب مل کر بھی اس کے جیسی ایک عمارت نہیں بناسکتے۔

یہی دوسرے تمام انسانی واقعات کا حال ہے۔انسان جو کام کرتاہے وہ اس کی انتہائی نادراستثنائی خصوصیت ہے۔ معلوم کائنات میں کوئی بھی دوسری مخلوق اس قسم کے کام کو انجام نہیں دے سکتی جس کو انسان اپنی عقل اور اپنے ہاتھ پائوں کو استعمال کر کے انجام دیتا ہے۔ خواہ وہ ایک انڈیا گیٹ کو بنانا ہویا ایک پیچیدہ مشین کو چلانا۔

انسان سے خداکو یہ مطلوب تھا کہ وہ خدا کی شعوری معرفت حاصل کرے۔وہ اپنی عقل سے خد اکو پہچانے۔اس لیے اس نے انسان کو ایسی ممتاز تخلیق کے ساتھ پیدا کیا۔ جس طرح انسان ساری کائنات سے ممتاز ایک ہستی ہے ،اسی طرح خداانسان کے مقابلہ میں ایک ممتاز تر ہستی ہے۔انسان اگر اس فرق پر غور کرے ،جو اس کے اوربقیہ کائنات کے درمیان ہے تواسی پر وہ اس فرق کو قیاس کر سکتا ہے جو اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔ خدا اِسی امتیازی فاصلے کی آخری اور انتہائی شکل ہے جس کا آدمی اپنے اور کائنات کے درمیان فاصلہ کے ذریعہ تجربہ کررہاہے۔خدا کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا اپنے آپ کو سمجھنا۔

حقیقت یہ ہے کہ خد اکو ماننا ایک مانی ہوئی چیز کو ماننا ہے۔ خدا کو دیکھنا ایک دیکھی ہوئی چیز کو دیکھنا ہے۔انسان جس واقعہ کا ہرآن تجربہ کررہا ہے۔اسی واقعہ کی توسیع کا دوسرانام خداکا عقیدہ ہے۔انسان اس کائنات میں ’’فل اسٹاپ ‘‘ نہیں۔ پھر اگر کائنات کے آگے انسان کا درجہ ممکن ہے تو انسان کے آگے خداکا درجہ کیوں ممکن نہیں۔

خدا سب کچھ

ممتاز ریاضی داںسرمائیکل فرانسس اتیا(1929-2019) حال میں بمبئی آئے تھے۔انھوں نے کہا کہ خداایک ریاضی داں ہے۔خداکو ریاضی داں قرار دینے کا نظریہ نیا نہیں ہے۔تقریباً 50 سال پہلے سزجیمس جینس(1877-1946) نے کہا تھا کہ کائنات ایک ریاضی داں کا عمل ہے۔اس سے بھی صدیوں پہلے فیثا غورث (570BC-495BC)نے کہا تھا کہ تمام چیزیں دراصل گنتیاں ہیں۔پکا سوکے نزدیک خداایک آرٹسٹ ہے۔اس نے کہا خدا فی الواقع دوسرا آرٹسٹ ہے۔اس نے زرافہ ایجاد کیا۔اس نے ہاتھی بنایا۔اس نے بلی بنائی۔آئن سٹائن (1879-1955)نے کہا تھا کہ خدا لطیف ہے اور اگرچہ وہ کسی کا بُرا چاہنے والا نہیں مگر وہ بہت ہوشیار ہے

 The distinguished mathematician. Sir Michael Francis Atiyah. Who was recently in Bombay said that ‘'God was a mathematician''. The idea of God being a mathematician is not new. About 50 years ago. Sir James Jeans suggested that the universe was the handiwork of a mathematician and centuries before him Pythagoras said all things are numbers. To Picasso God was an artist. ''God is really. Another artist'' ,ؔ he said. ‘‘He invented the giraffe. the elephant and the cat.’’ Einstein has said that the Lord is subtle and though not malicious, very clever.

جو شخص بھی کائنات کو زیادہ گہری نظر سے دیکھتا ہے اس کو ایک چیز کا یقینی احساس ہوتا ہے— یہاں کوئی اورہےجو سب سے بڑا ہے اورخود اس کی اپنی ذات سے بھی۔ ریاضی داںکو کائنات میں ایسی اونچی ریاضی نظر آتی ہے جہاں اس کو اپنی ریاضی بھول جاتی ہے۔وہ پکار اٹھتا ہے کہ خدا بہت بڑا ریاضی داں ہے۔ایک آرٹسٹ جب کائنات کو اپنی نظر سے دیکھتاہے تو یہاں اس کو اتنا اعلیٰ آرٹ نظر آتا ہے کہ اس کا اپنا آرٹ اس کی نگاہ میں ہیچ ہوجاتا ہے۔اوروہ کہہ اٹھتا ہے کہ خدا سب سے بڑا آرٹسٹ ہے۔ایک عقل والا آدمی جب کائنات کی حکمتوں پر نظر ڈالتا ہے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہاں کوئی اورہے جو تمام عقلوں سے زیادہ بڑی عقل والا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خد اسب سے بڑا ریاضی داں ،سب سے بڑا آرٹسٹ ،سب سے بڑا عاقل ہے اور اسی کے ساتھ وہ مزید بہت کچھ ہے۔جو شخص کائنات میں خدا کے نشان کو نہ دیکھے وہ اندھا ہے اور جو شخص دیکھ کر بھی اس کو نہ مانے وہ مجنون ہے۔

خدا کی موجودگی کا تجربہ

اپالو 15 (Apollo 15)میں امریکاکے جوتین خلاباز چاند پر گئے تھے ، ان میں سے ایک کرنل جیمز ارون (James Irwin)تھے۔ انھوں نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ اگست 1972کا وہ لمحہ میرے لیے بڑا عجیب تھا جب میں نے چاند کی سطح پر قدم رکھا۔میں نے وہاں خدا کی موجودگی (God's Presence)کو محسوس کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری روح پر اس وقت وجدانی کیفیت طاری تھی اورمجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا بہت قریب ہو۔خدا کی عظمت مجھے اپنی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔ چاند کا سفر میرے لیے صرف ایک سائنسی سفر نہیں تھا بلکہ اس سے مجھے روحانی زندگی نصیب ہوئی(ٹریبون 27 اکتوبر1972)۔

کرنل جیمز ارون کا یہ تجربہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ اتنا حیرتناک ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی خالق کی صناعیوں میں ڈوب جائے۔ تخلیق کے کمال میں ہر آن خالق کا چہرہ جھلک رہا ہے۔مگر ہمارے گرد وپیش جودنیا ہے اس کو ہم بچپن سے دیکھتے دیکھتے عادی ہوجاتے ہیں۔اس سے ہم اتنا مانوس ہوجاتے ہیں کہ اس کے انوکھے پن کا ہم کو احساس نہیں ہوتا۔ہوا اورپانی اوردرخت اور چڑیا غرض جو کچھ بھی ہماری دنیا میں سب کا سب حددرجہ عجیب ہے ،ہر چیز اپنے خالق کا آئینہ ہے۔مگر عادی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے عجوبہ پن کو محسوس نہیں کرپاتے۔ مگرایک شخص جب اچانک چاند کے اوپر اترا اورپہلی باروہاں کے تخلیقی منظر کو دیکھا تووہ اس کے خالق کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے تخلیق کے کارنامہ میں اس کے خالق کو موجود پایا۔ ہماری موجودہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں یہاں بھی ’’خدا کی موجودگی ‘‘کا تجربہ اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح چاند پر پہنچ کرکرنل ارون کو ہوا۔مگر لوگ موجودہ دنیا کو اس استعجابی نگاہ سے نہیں دیکھ پاتے جس طرح چاند کاایک نیا مسافر چاند کو دیکھتا ہے۔اگرہم اپنی دنیا کو اس نظر سے دیکھنے لگیں تو ہر وقت ہم کو اپنے پاس’’خدا کی موجودگی ‘‘کاتجربہ ہو۔ہم اس طرح رہنے لگیں جیسے کہ ہم خدا کے پڑوس میں رہ رہے ہیں اورہر وقت وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔

اگر ہم ایک اعلیٰ درجہ کی مشین کو پہلی بار دیکھیں توفی الفور ہم اس کے ماہر انجینئر کی موجودگی کووہاں محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم دنیا کو اوراس کی چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں تو اسی وقت ہم وہاں خدا کی موجودگی کو پالیں گے۔خالق ہم کو اس طرح نظر آئے گا کہ ہم خالق اورتخلیق کو ایک دوسرے سے جدانہ کرسکیں۔

موجودہ دنیا میں انسان کی سب سے بڑی یافت یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھنے لگے ،وہ اپنے پاس خدا کی موجودگی کو محسوس کرلے۔اگر آدمی کا احساس زندہ ہوتوسورج کی سنہری کرنوں میں اس کو خدا کا نور جگمگاتا ہوا دکھائی دے گا ہرے بھرے درختوںکے حسین منظر میں وہ خدا کا روپ جھلکتا ہواپائے گا۔ہوائوں کے لطیف جھونکے میں اس کو لمسِ ربانی کا تجربہ ہوگا۔اپنی ہتھیلی اوراپنی پیشانی کو زمین پر رکھتے ہوئے اس کو ایسا محسوس ہوگا گویا اس نے اپنا وجود اپنے رب کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ خدا ہر جگہ موجودہے بشرطیکہ دیکھنے والی نگاہ آدمی کو حاصل ہوجائے۔

خدا کا ثبوت

اگرایک انسان کا وجود ہے تو ایک خدا کا وجود کیوں نہیں ہوا اورپانی ،درخت اورپتھر ، چاند اورستارے موجود ہیں توان کو وجود دینے والے کا وجود مشتبہہ کیوں ہو۔حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کی موجودگی عمل تخلیق کا ثبوت ہے اورانسان کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ایک ایسا خالق موجود ہے جو دیکھے اورسنے ،جو سوچے اورواقعات کو ظہور میں لائے۔

اس میں شک نہیں کہ خدا ظاہر ی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا ،مگر اس میں بھی شک نہیں کہ اس دنیا کی کوئی بھی چیز ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی۔پھر خدا کو ماننے کے لیے دیکھنے کی شرط کیوں ضروری ہو۔

آسمان پر ستارے جگمگاتے ہیں۔عام آدمی سمجھتا ہے کہ وہ ستاروں کودیکھ رہا ہے۔ حالانکہ خالص علمی اعتبار سے یہ صحیح نہیں۔ جب ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں تو ہم ستاروں کو براہ راست نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کے اثرات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ستاروں سے جداہوکر کروروں سال کے بعد ہماری آنکھوں تک پہنچے ہیں۔

یہی تمام چیزوں کا حال ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز جس کو انسان ’’دیکھ‘‘رہاہے۔وہ صرف بالواسطہ طور پر اسے دیکھ رہا ہے۔ براہ راست طور پر انسان کسی چیز کو نہیں دیکھتا۔ اور نہ ہی اپنی موجودہ محدودیت کے ساتھ کبھی دیکھ سکتا۔

پھر جب دوسری تمام چیزوں کے وجود کو بالواسطہ دلیل کی بنیاد پر مانا جاتا ہے تو خدا کے وجود کو بالواسطہ دلیل کی بنیا د پر کیوں نہ مانا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا اتنا ہی ثابت شدہ ہے جتنا کہ اس دنیا کی کوئی دوسری چیز۔ اس دنیا کی ہر چیز بالواسطہ دلیل سے ثابت ہوتی ہے۔اس دنیا میں ہر چیز اپنے اثرات کے ذریعہ سے پہچانی جاتی ہے۔ ٹھیک یہی نوعیت خدا کے وجود کی بھی ہے۔

خدا یقیناً براہ راست ہماری آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا۔مگر خدا اپنی نشانیوں کے ذریعہ یقیناً دکھائی دیتا ہے۔اوربلا شبہ خدا کے علمی ثبوت کے لیے یہی کافی ہے۔

کائناتی مشین

1965میں دوملکوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ایک کے پاس کمتر ہتھیار تھے۔ دوسرے کے پاس بہتر ہتھیار۔ایک کے وجینت ٹینک(Vijayant tanks) کے مقابلہ میں دوسرے کا برطانی ساخت کا پیٹن ٹینک(Patton tanks) زیادہ اعلیٰ تھا۔ایک طرف معمولی نیٹ جہاز تھے اوردوسری طرف فرانسیی سیبر جٹ(Sabrejet) جو زیادہ طاقت کے ساتھ وار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔پھر بھی اوّل الذکر کے مقابلہ ثانی الذکر ہارگیا۔

اس کی وجہ کیاتھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اوّل الذکر کے ہتھیار اس کے اپنے بنائے ہوئے تھے۔ وہ ان کو استعمال کرنے کی پوری مہارت رکھتا تھا۔جب کہ ثانی الذکر کے ہتھیار بیرونی ملکوں کے بنے ہوئے تھے۔چنانچہ ثانی الذکر ملک کے سپاہی ان کو مہارت کے ساتھ استعمال نہ کرسکے اورہارگئے۔

ایک جنگی تبصرہ نگار نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

Even the most sophisticated technology of warfare is handled ultimately by men engaged in the profession of soldiering. Its use in combat depends therefore greatly on their skill, training, morale, and ingenuity. The doctrine of the supremacy of the man behind the gun thus remains valid even in this age of push button wars.

 جنگ کی انتہائی پیچیدہ مشینری بھی آخر کار متعلقہ فوجی آدمیوں ہی کے ذریعہ چلائی جاتی ہے۔ اس لیے جنگ میں ان کا استعمال بڑی حد تک ان کی مہارت ،تربیت ،جرأت اور تدبیر پر منحصر ہوتا ہے۔قدیم اصول کے مطابق بندوق کا استعمال کرنے والے آدمی کی اہمیت آج بھی  باقی ہے، حتی کہ اس بٹن دبانے والے دورمیں بھی(ٹائمس آف انڈیا ، 2فروری 1984ء)۔

مذکورہ قسم کے واقعات کائنات کی مشینی تعبیر کی تردید ہیں۔ ہماری مشینوں کو چلانے کے لیے ہمیشہ ایک ’’انسان ‘‘درکار ہوتا ہے۔ پھر کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ کائنات کی عظیم مشین کسی چلانے والے کے بغیر چل رہی ہے۔ اس قیاس کے لیے کوئی نظیر موجود نہیں۔ کائنات ایک سائنس داں کے الفاظ میں بالفرض ایک ’’گریٹ مشین‘‘(Great  Machine) ہو تب بھی اس کو چلانے کے لیے ایک ’’گریٹ مائنڈ‘‘(Great  Mind) چاہیے۔انسان مجبور ہے کہ خدا کو مانے ، خواہ مذہبی زبان میں خالق ومالک کی حیثیت سے یا سائنسی الفاظ میں مشین کو چلانے والے انجینئر کی حیثیت سے۔

کائناتی وحدت

کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات ایک مرکز کے گرد گھوم رہی ہے۔ایٹم کا ایک نیو کلیس ہے۔ اور ایٹم کا پورا ڈھانچہ اس نیو کلیس کے گرد گھومتا ہے۔شمسی نظام کا مرکز سورج ہے اوراس کے تمام سیارے اورسیارچے مسلسل اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔اسی طرح کہکشاں کا ایک مرکز ہے اورکہکشاں کے اربوں ستارے اس مرکز کے گرد حرکت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ پوری کائنات کا ایک مرکز ہے اور پوری پھیلی ہوئی کائنات اپنی ذیلی حرکتوں کے ساتھ اس آخری مرکز کے گرد حرکت کررہی ہے۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ کائناتی مرکز ایک روز اپنے گرد کی تمام چیزوں کو کھینچنا شروع کرے گا اورپھر یہ ناقابل قیاس حد تک پھیلی ہوئی عظیم کائنات اپنے مرکز کی طرف سمٹنا شروع ہوگی اور بالآخر وہ وقت آئے گا کہ سارے کائناتی اجسام اس طرح سمٹ کرایک مرکزی گولے کی صورت اختیار کرلیں گے جیسے بکھری ہوئی کیلوں کے درمیان مقناطیس لایا جائے اور سب کیلیں سمٹ سمٹ کر اس سے جڑ جائیں—  كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُه(21:104)۔

اس طرح کائنات گویا دین توحید کا عملی مظاہر ہ بن گئی ہے۔وہ عمل کی زبان میں بتا رہی ہے کہ انسان کی زندگی کو کیسا ہونا چاہیے۔انسان کی زندگی کو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی تمام سرگرمیوں کا صرف ایک مرکز ہو۔اوروہ ایک خدا ہو۔آدمی کے جذبات،اس کی سوچ ، اس کی سرگرمیاں ،اس کا سب کچھ خدا کے گرد گھومنے لگیں۔

آدمی اگر اپنی زندگی کا مرکز و محور اپنی ذات کو بنائے توکائنات بزبان حال اس کو ردکر رہی ہے۔اسی طرح اگروہ اپنی ذات کے باہر کسی کو اپنی توجہات کا مرکز ومحور بنائے توموجودہ کائنات کے ڈھانچہ میں وہ قابل رد قرار پا رہا ہے۔کائنات کا موجودہ ڈھانچہ ایک ہستی کے سوا کسی دوسرے کی مرکزیت کوقبول کرنے سے انکار کرتاہے۔

کائنات زبان حال سے کہہ کر رہی ہے کہ —’’ایک‘‘ کو اپنا مرکز توجہ بنائو نہ کہ ایک کے سوا ’’کئی‘‘کو۔

فطرت کی پکار

برٹرینڈرسل(1872-1970) ایک انگریز مفکر ہے۔وہ موجودہ زمانہ کابہت بڑا ملحد سمجھاجاتا ہے۔ مگراس کی سوانح عمری بتاتی ہے کہ انسان بظاہر خواہ کتنا ہی بڑا ملحد ہوجائے وہ اپنے آپ کو خدا ئی فطرت سے آزاد نہیں کرسکتا۔

برٹرینڈرسل 1952ء میں یونان گیا۔اس سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ یہ یونان کا میرا پہلا سفر تھا اورجو کچھ میں نے دیکھا وہ میرے لیے بے حد دلچسپی کا باعث تھا۔ایک پہلو سے تو مجھے خود تعجب ہوا۔ وہ عظیم اور ٹھوس کا میابیاں جن کو دیکھ کر ہر شخص متاثر ہوتا ہے میں بھی متاثر ہوا۔پھر میں نے اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے چرچ میں پایا۔یہ اس وقت کی یادگار تھا جب کہ یونان بازنطینی سلطنت کا حصہ تھا۔مجھے سخت حیرانی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ اس سے میں نے اپنے آپ کو اس سے زیادہ مانوس پایا جتنا کہ میں یونان کی قبل مسیح دورکی یادگاروں سے متاثر ہواتھا۔میں نے اس وقت محسوس کیاکہ مسیحی نقطہ نظر میرے اوپر اس سے زیادہ غالب ہے جتنا کہ میں نے سمجھا تھا۔یہ غلبہ عقائد پر نہیں تھابلکہ میرے احساسات پرتھا

To my astonishment, I felt more at home in this little church than I did in the Parthenon or in any of the other Greek buildings of Pagan times. I realised then that the Christian outlook had a firmer hold upon me than I had imagined. The hold was not upon my belief, but upon my feelings. (P.561)     

یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس کی ملحد انہ کتابوں میں سے ایک کتاب وہ ہے جس کا نام ہےمیں عیسائی کیوں نہیں (Why I Am Not A Christian) حقیقت یہ ہے کہ برٹرینڈرسل کے الفاظ اس کی فطرت کی پکار ہیں۔ ہر انسان کی فطرت میں خدا اور مذہب کا شعور ابدی طور پر پیوست ہے، وہ چاہے بھی تو اس کو اپنے اندر سے نکال نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ملحد اورمنکر بھی اندر سے اپنے الحاد و انکار پر غیر مطمئن رہتے ہیں۔ وہ خاص لمحات میں بے تابانہ طور پر اسی چیز کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کا بظاہر وہ اپنی زبان سے انکار کررہے تھے۔

کائنات مشین نہیں

موجودہ زمانہ میں مشینی انسان بنائے گئے ہیں جن کو عام طورپر روبوٹ (Robot) کہا جاتا ہے۔ روبوٹ بظاہر بالکل آدمی کی شکل کا ہوتا ہے۔وہ چلتا ہے، وہ بولتا ہے ،وہ کام کرتا ہے۔مگر حقیقتہً وہ ایک مشین ہوتا ہے نہ کہ کوئی شعور۔ وہ اسی طرح میکانکی انداز میں عمل کرتا ہے جیسے انسان کی بنائی ہوئی دوسری تما م مشینیں۔

لندن کے ایک دفتر میں ایک روبوٹ رکھا گیا تاکہ وہ چپراسی (office Boy)کے طور پر کام کرسکے یہ روبوٹ جب تیار ہوکر دفتر میں آیا تو دفتر کی خاتون سکرٹیری مس جینی سیف (Jennie Seff) نے اس کو آزمائشی حرکت (Trial Run)دینا چاہا۔وہ روبوٹ کی بیٹری جانچ رہی تھیں کہ روبوٹ حرکت میں آگیا۔وہ سکرٹیری کے پیچھے چلنے لگا۔ اب یہ صورت ہوئی کہ خاتون سکرٹیری آگے آگے بھا گ رہی ہیں اورآہنی مشین ان کو پیچھے سے دوڑارہی ہے۔روبوٹ اس طرح چل رہا تھا گویا اس نے کنٹرول قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔اس بھاگ دوڑ میں نیا ٹائپ رائٹر ٹکراکرزمین پر گر پڑا اورٹوٹ گیا۔بالآخر بڑی مشکل سے روبوٹ کو قابو میں لایا گیا(ہندستان ٹائمس، 30جون1981ء)۔

موجودہ زمانہ میں جو لوگ خدا کو نہیں مانتے ان کا کہناہے کہ کائنات اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بہت بڑی مشین ہے۔وہ بس اسی طرح چل رہی ہے جس طرح کوئی ’’روبوٹ ‘‘ میکانکی طور پر چلتا ہے۔مگر کائنات کا کھرب ہاکھرب سال سے انتہائی منظم طور پر یکساں حالت میںچلنا اس مفروضہ کی تردید کررہا ہے۔اگر کائنات محض ایک میکانکی مشین ہوتی جیسے روبوٹ ،تو یقینا اس میں بار بار اسی قسم کے ٹکرائو ہوتے جیسا کہ لندن کے آفس میں مذکورہ بالا واقعہ کی صورت میں ہوا۔

قرآن میں ارشاد ہواہے اورسورج اپنے ایک معین مدار پرگردش کرتا ہے۔یہ زبردست علیم ہستی کا مقررکیا ہوااندازہ ہے۔اورچاند کے لیے ہم نے منزلیں ٹھہرادی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند رہ جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کوجا پکڑے اورنہ رات دن پر سبقت کرسکتی۔ ہر ایک اپنے خاص دائرہ میں گردش کرتے ہیں (36:38-40)۔قرآن کا یہ بیان موجودہ زمانہ میں ایک ثابت شدہ انسانی مشاہدہ بن چکا ہے اوریہی واقعہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یہاں ایک باشعور ہستی ہے جو کائنات کو کنٹرول کررہی ہے۔ اس کے بغیر کائنات کے اندر یہ تنظیم اور یہ باقاعدگی اتنی کامل صورت میںممکن نہ ہوتی۔

معبود کی طلب

روس کے خلائی مسافراندرن نکولائیف(1929-2004ء) اگست1962میں جب ایک خلائی پرواز سے واپس ہوئے تو 21 اگست کو ماسکوکی ایک پریس کانفرنس میںانھوں نے کہا

جب میں زمین پر اترا تو میرا جی چاہتا تھا کہ میں زمین کو چوم لوں

انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے زمین پر جو بے حساب موافق سامان جمع ہیں وہ معلوم کائنات میں کہیں بھی نہیں۔روسی خلا باز جب زمین سے دور خلا میں گیا تو اس نے پایا کہ وسیع خلا میں انسان کے لیے صرف حیرانی اورسرگشتگی ہے۔وہاں انسان کے سکون اور حاجت برآوری کا کوئی سامان نہیں۔اس تجربہ کے بعد جب وہ زمین پر اترا تو اس کو زمین کی قیمت کا احساس ہوا،ٹھیک ویسے جیسے شدید پیاس کے بعد آدمی کو پانی کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔زمین اپنے تمام موافق امکانات کے ساتھ اس کو اتنی محبوب معلوم ہوئی کہ اس کا جی چاہا کہ اس سے لپٹ جائے اور اپنے جذبات محبت کو اس کے لیے نثار کردے۔

یہی وہ چیز ہے جس کو شریعت میں الٰہ بنانا کہا گیا ہے۔آدمی خالق کو نہیں دیکھتا ،اس لیے وہ مخلوق کو اپنا الٰہ بنا لیتا ہے۔مومن وہ ہے جو ظاہر سے گزر کر باطن تک پہنچ جائے ،جو اس حقیقت کوجا ن لے کہ یہ جو کچھ نظر آرہا ہے۔یہ کسی کا دیا ہوا ہے۔زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کسی برتر ہستی کا پیدا کیا ہوا ہے۔وہ مخلوق کو دیکھ کراس کے خالق کو پالے اورخالق کو اپنا سب کچھ بنا لے۔وہ اپنے تمام بہترین جذبات کو خدا کے لے نثار کردے۔

روسی خلا باز پر جو کیفیت زمین کو پاکر گزری وہی کیفیت مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر خدا کو پاکر گزرنا چاہیے۔مومن وہ ہے جو سورج کو دیکھے تو اس کی روشنی میں خدا کے نور کو پالے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں خدا کی لامحدودیت کا مشاہدہ کرنے لگے۔وہ پھول کی خوشبو میں خدا کی مہک کو پائے اورپانی کی روانی میں خدا کی بخشش کودیکھے۔مومن اورغیر مومن کا فرق یہ ہے کہ غیر مومن کی نگاہ مخلوقات میں اٹک کر رہ جاتی ہے اور مومن مخلوقات سے گزر کر خالق تک پہنچ جاتا ہے۔ غیرمومن مخلوقات کے حسن کو خود مخلوقات کا حسن سمجھ کر انہیںمیں محو ہوجاتا ہے۔مومن مخلوقات کے حسن میں خالق کاحسن دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو خالق کے آگے ڈال دیتا ہے۔غیر مومن کا سجدہ چیزوں کے لیے ہوتا ہے اورمومن کا سجدہ چیزوں کے خالق کے لیے۔

خدا کی تلاش

ایک بے حدذہین شخص تھا۔ وہ مستقل طور پر اسی احساس میں مبتلارہتا تھا کہ میں زندگی میں اپنے واقعی مقام کو نہ پاسکا۔بالآخر اس نے خود کشی کرلی۔اس نے اپنی خود کشی کی تحریر میں لکھا تھا

’’میں اپنی زندگی کو ختم کررہا ہو ں۔کیوں کہ میں شاید ایسی دنیا میں بھٹک آیا جس کے لیے میں پیدا نہیں کیاگیا تھا ‘‘۔

کمی کا یہ احساس اکثر ان لوگوں کا پیچھا کیے رہتا ہے جو فطرت سے غیر معمولی ذہن لے کر پیدا ہوئے ہوں۔وہ یا تو مایوسی اور ناکامی کی زندگی گذار کر طبعی موت مرتے ہیں یاخود کشی کر لیتے ہیں۔کم ترذہن رکھنے والوں میں ایسے لوگ کافی مل جائیں گے جو بظاہر مطمئن زندگی گذارتے ہوں۔مگر برتر ذہن رکھنے والوں میں مشکل ہی سے کوئی شخص ملے گاجو مطمئن زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہواہو۔

اس کی وجہ انسان کی معیار پسندی ہے۔ہر انسان فطری طورپر آئیڈیل کی تلاش میں ہے۔مگر موجودہ دنیا میں آئیڈیل کو پانا اتنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ یہ مثل بن گئی ہے کہ معیار کبھی حاصل نہیں کیاجاسکتا:

Ideal cannot be achieved

اب ہوتا یہ ہے کہ کم تر درجہ کا ذہن رکھنے والوں میں چونکہ شعور بہت زیادہ بیدار نہیں ہوتا۔وہ آئیڈیل اورغیر آئیڈیل کے درمیان بہت زیادہ فرق نہیں کرپاتے۔وہ اپنے موٹے ذوق کی وجہ سے غیر آئیڈیل میں بھی اس طرح مشغول ہوجاتے ہیں جیسے کہ وہ ان کا آئیڈیل ہو۔مگر جو لوگ زیادہ ذہین ہیں وہ آئیڈیل اورغیر آئیدیل کے فرق کو فوراً محسوس کرلیتے ہیں اور اس بنا پر آئیڈیل سے کم کسی چیز پر اپنے کو راضی نہیں کر پاتے۔

انسان کا آئیڈیل ایک ہی ہوسکتا ہے اوروہ اس کا خالق اوررب ہے۔اعلیٰ ذہن کے لوگ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ ربانی مشن کے سوا اورکچھ نہیں۔خدا کا وجود ہی آئیڈیل وجود ہے اورخدا کے مشن میں اپنے کو مشغول کرکے ہی ہم اس چیز کو پاسکتے ہیں جو ہماری پوری ہستی کو تسکین دے اورآئیڈیل کے بارے میں ہمارے ذہنی معیار پر مکمل طور پر پورا اتر ے۔

انسان کا آئیڈیل اس کا خدا ہے ،مگر وہ اپنے اس آئیڈیل کو ناکام طور پر غیر خدا میں تلاش کررہا ہے۔

تو ہم پرستی

امریکاکی ری پبلکن پارٹی(Republican Party)کے ایک عہد یدار مسٹرسیلر (1921-2021ء)نے بتایا کہ امریکی صدررونالڈ ریگن (1911-2004)ہر وقت اپنی جیب میں ایک چھوٹی سی سونے کی نعل رکھتے ہیں۔یہ نعل ان کو صدر بننے سے تقریباً پانچ سال پہلے ان کے ایک دوست نے دی تھی۔صدر ریگن کو یقین ہے کہ اس سنہری نعل میں طلسماتی اثرات چھپے ہوئے ہیں۔وہ ان کو ہر آفت سے بچاتی ہے۔ چنانچہ مارچ 1981ء میں جب ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو ان کے خیال کے مطابق اسی نعل نے ان کو اس سے محفوظ رکھا تھا۔

یہ نعل ہر وقت صدر ریگن کے ساتھ رہتی ہے۔جون 1981ء کی ایک ملاقات میں مسٹر سیلر نے ان سے پوچھا کیا آپ اب بھی اس نعل کواپنی جیب میں رکھتے ہیں۔صدر ریگن نے کہا ہاںضرور:

I sure do

اس کے بعد انھوں نے اپنی بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا اورمذکورہ نعل نکال کر دکھائی (ٹائمس آف انڈیا،24جون1981)۔

یہ بلا شبہ توہم پرستی (Superstition)ہے۔مگر اس توہم پرستی کا ایک معلوم سبب ہے۔وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں انسان کے ساتھ جو واقعا ت پیش آتے ہیں وہ ایسے پر اسرار ہوتے ہیں کہ آدمی پوری طرح ان کی توجیہ نہیں کرپاتا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ چھپے ہوئے عوامل ہیں جو کسی کو کامیاب اورکسی کو ناکام کردیتے ہیں۔

کوئی شخص ایک نتیجہ سے دوچار ہوتا ہے اورکوئی شخص دوسرے نتیجہ سے۔اوردونوں میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں نہیں بتا سکتا کہ اس کے ساتھ جو ہواوہ کیوں ہوا۔ایک بار میں نے ایک بڑے تاجر سے پوچھا کہ تجارت میں کامیابی کا راز کیا ہے۔وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔آخر میں کہا کہ ’’قسمت ‘‘اگر کوئی شخص اس کا تین سبب بتائے تو میں کہوں گا کہ— قسمت ، قسمت،قسمت۔

یہ پر اسراریت اس لیے ہے کہ سب کچھ کرنے والا خدا ہے۔مگر انسان چوں کہ غیبی خدا کو دیکھ نہیں پاتا اس لیے وہ کسی نہ کسی دکھا ئی دینے والی چیز کو اپنا خدا بنالیتا ہے۔خواہ وہ سونے کی ایک نعل ہویا پتھر کی ایک انگوٹھی۔

انسان مجبور ہے کہ وہ کسی کو اپنا معبود بنائے۔خدا کو یا خدا کو چھوڑکر کسی اورکو۔

مشینی تعبیر

جولائی 1983میں امریکی بحریہ نے فوجی مشقیں کی تھیں۔یہ فوجی مشقیں سان فرانسسکو (San  Francisco)کے ساحل پر ہوئیں۔یہ پوراعمل کمپیوٹروں کے ذریعہ ہورہا تھا۔اس دوران میں بحریہ کے توپ خانہ کو فائر کرنا تھا۔ فائرنگ کے دوران کمپیوٹر میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کمپیوٹر عقب کی جانب گولے برسانے لگا۔یعنی جس طرف فائرنگ مطلوب تھی اس کے بالکل الٹی طرف۔

ابتدائی پروگرام کے مطابق اس مشقی گولہ باری میں امریکی بحریہ کے توپ خانہ کے گولے دورسمندر میں جاکر گرتے مگر توپوں کا رخ الٹا ہو جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے گولے میکسکو کے ایک مال بردارجہاز کے پاس جاکر گرنے لگے۔

کمپیوٹر میں اس طرح کے لطیفے باربار پیش آتے ہیں جن کی اطلاع اخبارات ورسائل میں آتی رہتی ہے۔کمپیوٹر کے عمل میں ایسی غلطیاں کیوں ہوتی ہیں۔اس کی وجہ صرف ایک ہے۔کمپیوٹر صرف ایک مادی مشین ہے۔اس کے پاس عقل نہیں ہے۔اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ کائنات اگر ایک مادی مشین ہوتی جیساکہ جدید ملحدین کا دعویٰ ہے۔ تو وہ کبھی اس طرح انتہائی درست طور پر نہ چل سکتی جیسا کہ وہ چل رہی ہے۔ایسی حالت میں زمین اور اس کی آبادیاں اسی طرح برباد ہوچکی ہوتیں جس طرح زلزلہ کے بعد زلزلہ کامقام برباد ہوجاتا ہے۔کائناتی حادثات کے نتیجہ میں کائنات بھی تباہ ہوچکی ہوتی اور وہ انسان بھی جو کائنات کی مادی تعبیر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

’’کائنات کا کوئی خد انہیں،وہ صرف ایک مادی مشین ہے ‘‘یہ جملہ گرامر کے لحاظ سے بظاہر درست ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ درست نہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر داخلی تضاد پایا جاتا ہے۔

یہ جملہ اس وقت صحیح ہوتا جب کہ ایسی کوئی مادی مشین ہوتی جو کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے اورکسی چلانے والے کے بغیر چلنے لگے۔ہم جن مشینو ں سے واقف ہیں ان کو ’’انسان‘‘ بناتا اورچلاتا ہے۔اس کے باوجود یہ حال ہے کہ یہ مشین نقص سے خالی نہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ کائنات جیسا بے عیب کارخانہ اپنے آپ وجود میں آجائے اوراپنے آپ نہایت درست طور پر مسلسل چلتا رہے۔

خدا کا بندہ

بجلی کے بلب کا کنکشن ایک پاور ہائوس سے جُڑ نا کوئی عام قسم کا واقعہ نہیں۔یہ ایک غیر روشن چیز کا ایسی چیز سے جڑنا ہے جو دوسری چیزوں کو روشن کرنے کی غیر معمولی طاقت رکھتی ہے۔اس ک فوری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ’’مردہ ‘‘بلب ’’زندہ‘‘بلب بن جاتا ہے۔ ایک تاریک بلب میں روشنی کا فوارہ پھوٹ پڑتا ہے۔ایسا ہی کچھ معاملہ بندے اورخدا کے تعلق کا بھی ہے۔

خدا ہماری دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔اسی لیے خدا کو پانا محض سادہ واقعہ نہیں۔یہ نفسیات انسانی میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ ہے۔یہ ایک بھونچال ہے جس سے آدمی کا پورا وجود ہل جاتا ہے۔یہ ایک سیلاب ہے جس سے آدمی کی پوری شخصیت نہا اٹھتی ہے۔خد ا کو پانے کے بعد کوئی شخص ویسا نہیں رہتا جیسا وہ خدا کو پانے سے پہلے تھا۔خدا کا مومن وہ ہے جو اس کے بعد ایک نیا انسان بن جائے۔

خدا کو پانا جس کو شریعت کی اصلاح میں ایمان کہا جاتا ہے ،کسی انسان کے لیے اس کی زندگی کا سب سے بڑا تجربہ ہے۔خدا پر ایمان یہ ہے کہ ایمان آدمی کو اس طرح ملے کہ وہی اس کی زندگی بن جائے۔وہ ایسی روشنی ہو جس سے اس کا پورا وجود چمک اٹھے۔وہ ایسا رنگ ہو جس میں اس کے سارے معاملات رنگے ہوئے نظر آئیں۔

ایمان خدا کی موجودگی کو پالینے کا دوسرانام ہے۔ایمان یہ ہے کہ آدمی خدا کی عظمتوں میں گم ہوجائے۔وہ احساس خداوندی میں سرشار ہوجائے۔ایمان آدمی کے جذبات کا حمد خدا وندی میں ڈھل جانا ہے۔یہ دنیا میں رہتے ہوئے خدا تک پہنچ جانا ہے۔

ایمان ایک زلزلہ ہے جو خدا کی معرفت سے آدمی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ ایمان ایک سیلاب ہے جو خدا کے فیضان کو پاکر آدمی کے سینہ میں بہہ پڑتا ہے۔ایمان خدا کو پالینا ہے اورخدا کو پانا سب کچھ کو پانا ہے۔پھر کیا چیز ہے جو خدا کو پانے کے بعد آدمی کو نہ ملے۔

فطر ت کی تصدیق

’’پتھر اورلکڑی کو کوٹ پیس کر ملا دو تو وہ پٹرول بن جائے گا ‘‘۔اس قسم کی بات بظاہر بالکل مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔یقیناً انسان اس طرح کاکوئی واقعہ ظہور میں لانے پر قادر نہیں۔ مگر اسی قسم کے اس سے زیادہ عجیب واقعات اس دنیا میں ہر دن ظہور میں آرہے ہیں۔ قدرت کی کیمسٹری ہر دن ایسے بے شمار واقعات ظہور میں لاتی ہے جو انسان کے لیے صرف ایک ناقابل فہم عجوبہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 آکسیجن اورہائڈروجن دو گیسیں ہیں۔قدرت ان کو ایک خاص تناسب سے ملاتی ہے تو ان کا مجموعہ پانی جیسے سفید سیال کی صورت اختیارکرلیتا ہے۔کاربن اورہائڈروجن مخصوص حالات میں باہم ملتے ہیں تو تیل جیسی قیمتی چیزوجود میں آتی ہے۔کاربن کے ساتھ کچھ نمکیات اورمعدنیات جمع ہوتی ہیں تو زندگی وجود میں آجاتی ہے۔

مقناطیسی فیلڈاورحرکت کو یک جاکیا جاتا ہے تو بجلی جیسی حیرت ناک طاقت پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح مقناطیسی فیلڈاور بجلی کواکھٹا کیا جاتا ہے توانتہائی تیز حرکت وجود میں آجاتی ہے۔ایک بیج کو مٹی میں ملا دیا جاتا ہے تو اس سے لکڑی اورپتی اورپھول اورپھل کا ایک مجموعہ نکل کر کھڑاہوجا تا ہے۔وغیرہ ،وغیرہ۔

اس قسم کے بے شمار کرشمے کائنا ت میں ہر لمحہ ظاہر ہورہے ہیں۔انسان ان کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ نہ خود ان چیزوں میں اپنے آپ کو ظہور میں لانے کی طاقت ہے اورنہ انسا ن اس پر قادرہے کہ وہ بطور خود کسی واقعہ کو پیدا کرسکے۔’’پھر یہ سب کیسے ہورہا ہے ‘‘اس سوال کے جواب میں وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ سب خدا کا انش ہے۔یہ خود خدا ہے جو اَن گنت صورتوں میں اپنے آپ کو ظاہر کررہا ہے۔

قرآن اس قسم کے جواب کو گمراہی قرار دیتا ہے۔قرآن کے نزدیک یہ چیزیں خدا کا انش نہیں بلکہ خدا کا حکم ہیں۔خدا نے اپنی قدرت سے ان کو پیدا کیاہے۔نہ کہ خود خدا ان کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

’’ستار ے ‘‘قدیم زمانہ سے شعراء کے حسین تخیلات کا مرکز رہے ہیں۔’’چاند ‘‘کو انسان دیوتا کے روپ میں دیکھتا رہا ہے۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ستارے ہیبت ناک آگ کے شعلے ہیں اورچاند اور دوسرے سیارے محض خشک چٹانیں جن پر پانی کا ایک قطرہ یا درخت کا ایک پتہ بھی نہیں۔کائنات انتہائی وسیع ہونے کے باوجود انسان جیسی مخلوق کے لیے انتہائی طور پر غیر موافق ہے۔ ساری معلوم کائنات میں صرف زمین ہی ایک ایسا کرہ ہے جہاں انسان زندہ رہتا ہے اورتمدن کی تعمیر کرتا ہے۔بے حد وسیع کائنات میں زمین کا استثناء واضح طور پر ایک ذی شعور ہستی کے وجود کا ثبوت ہے جس نے بالا راوہ زمین پر استثنائی حالات پیدا کیے۔

خدا کی نشانیاں

ستمبر 1984ء کی سات تاریخ تھی۔میں افریقہ کے ایک پہاڑی علاقہ میں درخت کے سامنے کھڑا تھا۔یہ درخت میرے لیے نیا تھا۔اس سے پہلے میں نے اس قسم کا درخت نہیں دیکھاتھا۔

درخت اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی نشانی معلوم ہورہا تھا۔اس کی ہر چیز میری نظر میں عجیب تھی ،اس کا نازک پھول ،اس کا ترشا ہوا پھل، ریاضیاتی کاریگری کے ساتھ بنی ہوئی اس کی پتیاں تمام چیزیں پکار رہی تھیں کہ وہ اپنے آپ نہیں اگ آئی ہیں بلکہ کسی بنانے والے نے ان کو بنایا ہے۔اس دنیا کا ہر درخت خدا کی صنعت گری کا نمونہ ہے۔مگر مذکورہ درخت پہلی بار میرے سامنے آیا اس لیے وہ خصوصی طورپرمیرے لیے اثر انگیز ثابت ہوا۔

افریقہ کے اس عجیب اورحسین درخت کو دیکھ کربے ساختہ میری زبان سے نکلا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اس دنیا میں جو چیزیں بنائیں ان میں سے ہر چیزپر اس نے یہ لکھ دیا — خدا کا بنایا ہوا:

Made by God

خدا نے چیزوں پر یہ لکھا اوراس کے بعد اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا لیا۔ تاکہ لوگ مخلوق کو دیکھ کرخالق کو پہچانیں ،تاکہ غیب کے باوجود اس دنیا میں خدا کی موجودگی کو پالیں۔

ایک شخص جو مشینوں کا ماہر ہو وہ ایک مشین کو دیکھ کرکہہ دیتا ہے کہ یہ مشین روس کی بنی ہوئی ہے یا امریکاکی ،برطانیہ کی بنی ہوئی ہے یا جاپان کی۔یہی کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں بے شمار قدرتی مشینیں موجود ہیں اورہر ایک مسلسل اپنا کام کر رہی ہے۔ان ’’مشینوں ‘‘پر بظاہر ان کی ساخت کا ٹھپہ نہیں لگا ہوا ہے، مگر اپنی غیر معمولی بناوٹ اورناقابل بیان حد تک ممتاز کارکردگی کی وجہ سے وہ اپنی ساخت کا آپ اعلان ہیں۔ مخلوقات خود اپنے خالق کو بتارہی ہیں۔

کائنات کی کسی چیز کے اوپر لفظوں میں یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ اس کو کس نے بنایا۔مگر معنوی طورپر ہر ایک کے اوپر لکھا ہوا موجود ہے۔اگر دیکھنے والی نگاہ ہو تو آدمی ہر چیز کو دیکھ کر پکار اٹھے گا بلا شبہ یہ خدا کی بنائی ہوئی ہے۔کوئی دوسرا اس کو بنا نہیں سکتا۔

خلائی تہذیب

مغربی دنیا پچھلے 20 سال سے ایک انوکھی تحقیق میں مشغول ہے۔یہ ہے خلا میں زندہ مخلوقات کی آواز کو سننا:

Listening for life in space

بظاہر اس تلاش کامحرک جدید علماء کا وہ مفروضہ ہے جس کو ارتقاء کہا جاتا ہے۔مغربی علماء نے زندگی کی جو ارتقائی توجیہ کی ہے ،ا س کے مطابق لازم آتا ہے کہ وسیع خلا میں دوسرے مقامات پر بھی اسی طرح زندگی کی انواع موجود ہوںجس طرح وہ ہماری زمین پر پائی جاتی ہیں۔ خلا میںسفر کا ایک خاص مقصد ان زندگیوں سے ملاقات ہے۔اس مفروضہ پر ان کو اتنا یقین ہے کہ اس کا ایک خاص نام بھی دے دیا گیاہے۔ یعنی بالائے خلا تہذیب (Extra-terrestrial civilisation)۔

اس کے علاوہ امریکامیں اوردوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں خاص طرح کے بہت بڑے بڑے اینٹینا (Antenna)لگائے گئے ہیں جن کو عام زبان میں ریڈ یائی کان (Radio ears) کہتے ہیں۔ان مشینوں سے بالائے خلامیں سگنل بھیجے جاتے ہیں اور حساس قسم کے آلات ہر وقت تیار رہتے ہیں کہ اوپر سے آنے والے متوقع سگنل کو سن سکیں۔

ایک مبصر نے ان کو ششوں پر تبصرہ (ٹائم میگزین  21مارچ 1983)کرتے ہوئے اس کی روح کو ان مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے اگر تم واقعۃً وہاں ہوتو اپنے دوستوں سے بولو:

If you are really there, please call your friends.

زمین پر زندگی اورشعور کا وجود ساری معلوم کائنات میں ایک انتہائی نادر اور مستثنیٰ واقعہ ہے۔چونکہ یہ شعور اپنا خالق آپ نہیں۔اس لیے اس کا وجود لازمی طورپر تقاضا کرتا ہے کہ یہاں زندگی اورشعور کا ایک اورخزانہ زیادہ بڑی سطح پر موجود ہو جو زمین کی زندگی اورشعور کا سرچشمہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ زندہ انسان کی موجودگی زندہ خدا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔جدید انسان اس امکان کو بالواسطہ انداز میں تسلیم کرتا ہے۔البتہ وہ اس وجود کو خلائی زندگی قرار دے کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ یہ وجود ہماری ہی طرح کا ایک وجود ہے نہ کہ ہم سے برتر کوئی وجود۔وہ محض ایک تہذیب ہے نہ کہ کوئی خالق اورمالک خدا۔

یہ ماہرین

پروفیسر راج کرشنا (1925-1985)ہندستان کے پچاس انتہائی اعلیٰ اذہان میںشمار ہوتے تھے۔علم اقتصادیات میں غیرمعمولی مہارت کی وجہ سے وہ بین اقوامی شہرت کے مالک تھے۔وہ ملک کے بڑے بڑے معاشی عہدوں پر فائز رہے۔آخرعمر میں وہ ایف اے او (فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن)کے ایک پروجیکٹ کے تحت تین مہینہ کے لیے روم(اٹلی)گئے تھے۔ابھی وہ اپنے کام کی تکمیل نہیں کرسکے تھے کہ 21 مئی 1985ء کو اچانک حرکت قلب بند ہونے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر صرف 89سال تھی(ٹائمس آف انڈیا،22مئی 1985ء)۔

پروفیسر راج کرشنا زرعی اقتصادیات کے ایک مانے ہوئے اکسپرٹ تھے۔ انھوں نے اس مسئلہ کا اختصاصی مطالعہ کیاتھا کہ تیسری دنیا کے غربت کے ماحول میں روزگارکا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے:

He was an acknowledged expert in agricultural economics and had specialised in the study of employment conditions of poverty in the third world.

کیسے عجیب ہوںگے مسائل عالم کے وہ ماہرین جن کو خود اپنے مسئلہ کی خبر نہ ہو۔

انسان کا حال بھی کیسا عجیب ہے۔وہ اپنے کل کو نہیں جانتا اوردوسروں کے مستقبل پر ریسرچ کرتا ہے۔

وہ خود فکری افلاس میں مبتلا ہوتا ہے اوردوسروں کے معاشی افلاس پر تقریر کے کارنامے دکھاتا ہے۔مسائل عالم کی مہارت پر اس کو بڑے بڑے خطابات دئے جاتے ہیں۔مگر جب تجربہ ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے قریبی مسئلہ سے بھی ناآشنا تھا کیسا عجیب ہے لوگوں کا جاننا اورکیسا عجیب ہے ان کا نہ جاننا۔

محبت کا نذرانہ

قرآن کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’اوربعض انسان وہ ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنا چاہیے۔اورجو ایمان والے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب کو دیکھیں گے کہ ساری قوت اللہ ہی کے لیے ہے اوراللہ سخت عذاب دینے والا ہے ‘‘ (2:165)۔

آدمی اپنی فطرت اوراپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ خارجی سہاراچاہتا ہے ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے۔اور اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو،کسی کو اس حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا اس کومعبود بنانا ہے۔جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اورعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ وہ کسی سے حُبِّ شدید کرے اور جس سے کوئی شخص حبّ شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔

موجودہ دنیا میں چوں کہ خدا نظر نہیں آتا اس لیے ظاہر پرست انسان عام طور پر نظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتا ہے جو دراصل خدا کو دینا چاہیے۔ یہ ہستیاںاکثر وہ سردار یا پیشو اہوتے ہیں جن کو آدمی ’’بڑا‘‘سمجھ لیتا ہے اورپھر وہ دھیرے دھیرے لوگوں کی توجہات کا مرکز بن جاتے ہیں۔لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں جیسا گر ویدہ انہیںصرف خدا کا ہونا چاہیے۔آدمی کی فطر ت کا خلا جو حقیقہً اس لیے تھا کہ اس کو خدا سے پُرکیا جائے وہاں کسی غیر خدا کو بٹھالیا جاتا ہے۔

انسان کے پاس کسی کو دینے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے وہ محبت ہے۔ایسی حالت میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص خدا جیسی باکمال ہستی کو پائے اوراس کی خدمت میںمحبت سے کم تر درجہ کی کوئی چیز پیش کرے۔محبت سے کم کوئی چیز نہ تو خدا قبول کرتا اورنہ کسی انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ خدا کے حضور میںمحبت سے کم کسی چیز کا نذرانہ پیش کرے۔اپنی چیزوں میںکم تر چیز کاہدیہ خدا کو پیش کرنا صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے خدا کو اس کے جلال وکمال کے ساتھ پایاہی نہیں۔

قیمت جو ادا نہیں کی گئی

بائبل میںہے’’میں نے بانسری بجائی ،تو نے رقص نہ کیا ‘‘(متی ،11:17)۔کائنات ایک عظیم نمائش گاہ ہے۔ وہ قدرت اور حکمت اور معنویت کا ایک اتھا ہ کارخانہ ہے۔وہ اس قدر حسین ہے کہ اس کے حسن کو کسی بھی طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔کائنات اپنے تمام جلووں کے ساتھ خدا کی ابدی طرب گاہ ہے۔تاہم معلوم کائنات میں صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جو اس طرب گاہ کوسمجھ سکتا ہے اور اس کو دیکھ کر اس کے جمال وکمال پر رقص کرسکتا ہے۔مگر وہی واحد مخلوق جس کو خدا نے اپنے دست خاص سے اس لیے بنایا تھا کہ وہ کائنات کی بے پناہ فن کاریوں کو دیکھے اوراس سے بے خودہوکر رقص کرنے لگے ،وہی سب سے زیادہ اس سے اعراض کرتا ہے۔انسان سب کچھ کرتا ہے مگروہی کام نہیں کرتا جس کو اسے سب سے زیادہ کرناچاہیے۔

تمام مخلوقات میں صرف انسان کو اس قسم کا احساس وشعور دینا ظاہر کرتا ہے کہ انسان سے اس کے خدا کو کیا مطلوب ہے۔انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ خدا کے ’’طرب پر رقص کرے‘‘۔وہ کائنات میں خدا کے کرشموں کو اس طرح پالے کہ اس پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجائے۔وہ بے اختیار پکار اٹھے:فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ(23:14)۔یعنی،کیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا ہے ۔انسان کی اصل قیمت یہی ہے۔اگر وہ ایسا نہ کرے تو گویا وہ اس کائنات میں اپنے آپ کو بے قیمت کررہا ہے۔وہ اپنے وجود کو بے معنی بنا رہا۔ خدا نے ایک عظیم آفاتی اسٹیج بنایا اور اس میںاپنے بہترین جلووں کے ساتھ ظاہر ہوا اوریہ سب کچھ جس کے لیے کیا گیا وہ وہی تھا جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ایسی حالت میں انسان اگر اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لے ، اگر اس کی طرف سے حمد کا ظہور نہ ہوتویہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی جو سزابھی دی جائے وہ کم ہوگی۔

خدا کی دنیا بے حد حسین ہے۔وہ جنت کی فضائوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ خدا کے جمال وکمال کا آئینہ ہے۔ مگر انسان اس کے حُسن کو دیکھ نہیں پاتا۔انسان کے جہنمی سائے نے اس کو ڈھانپ رکھا ہے۔کائنات کو اس کے جنتی روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے بنائے ہوئے جھوٹے خول سے باہر آئے۔وہ ’’انسانی دنیا ‘‘سے اوپر اٹھ کر خدائی دنیا میں جھانک سکے۔انسان اپنے خول سے باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوتا ،اس لیے وہ خدا کی دنیا کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔

وہی انسان انسان ہے جو تمام دیکھی جانے والی چیزوں سے زیادہ کائنات کو دیکھے۔کائنات کے آئینہ میں اس کو خدا کا جلوہ نظر آنے لگے جب کسی بندۂ خدا پر یہ تجربہ گزرتا ہے تو اس کا وہ حال ہوتاہے جس کو انسانی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔اس کی زبان خدا کی حمد وثنامیں تر رہنے لگتی ہے۔یہاں تک کہ وہ خدا کے نور میں ڈوب جاتا ہے۔اس کے الفاظ جواب دینے لگتے ہیں۔اس کا شدت احساس آنکھوں کی راہ سے بہہ نکلتا ہے۔خدا کی خدائی کے اعتراف میں اس کا پوراوجود خاکستر ہوجاتا ہے۔

انسان اپنے آپ میں اتنا مشغول ہے کہ اس کو خداکی خدائی کی خبر نہیں۔وہ اپنی ’’مصنوعات ‘‘میں اتنا الجھا ہواہےکہ اس کو خداکی مصنوعات دکھائی نہیں دیتیں۔وہ اپنے جلووں میں اتنا گم ہے کہ اس کو خدا کے جلوے نظر نہیں آتے۔انسان کی سب سے بڑی محرومی یہی ہے اورجو شخص دنیا میں محروم ہو وہ آخرت میں پانے والا کس طرح بن سکتا ہے۔

قومی ہیرو

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ناظم دینیات کے دفتر میں بی ایس سی کا ایک مسلمان طالب علم داخل ہوا’’یہ مسلم یوینورسٹی ہے ‘‘اس نے پر جو ش انداز میں کہنا شروع کیا۔’’یہاں آپ دینی امور کے ذمہ دار ہیں۔میں آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ یہاں کی آ زاد لائبریری میں انگریزی کی ایک کتاب ہے جس میں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تصویر ہے۔آپ اس کتاب کو فوراً لائبریری سے ہٹوادیں ورنہ …‘‘۔

ناظم دینیات نے کہا’’تم جانتے ہوکہ آزاد لائبریری بہت بڑی لائبریری ہے۔ یہاں دنیا کے مختلف اداروں سے کتابیں آتی رہتی ہیں۔ایسی حالت میں یہاں ایسی کتابیں بھی آسکتی ہیںجن میں اللہ میاں کا مذاق اڑایا گیا ہو۔کیا تم ایسی سب کتابوں کو دیکھ کر مشتعل ہوتے رہوگے‘‘۔

’’سر اللہ میاں تو سب کے ہیں اوررسول اللہ تو ہمارے ہیں ‘‘(احتساب، علی گڑھ، 15مئی 1984ء)۔

مسلمان طالب علم کوکیوں خدا سب کا نظر آیا اوررسول صرف اپنا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے رسول کو اپنا قومی ہیرو سمجھ لیا۔ہر قوم کا اپنا الگ ایک ہیرو ہوتاہے جس پر وہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں فخر کرتی ہے۔ خدا میں اشتراک ممکن ہے مگر قومی ہیرومیں اشتراک ممکن نہیں۔یہی قومی نفسیات تھی جس کی وجہ سے مسلمان طالب علم خدا کے خلاف بات پر نہیں بھڑکا مگر رسول اللہ کے خلاف بات کو دیکھ کر بھڑک اٹھا۔

مذکورہ طالب علم کا واقعہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی صحیح نمائندگی کررہا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان کبھی ’’جشن خداوندی ‘‘نہیں مناتے۔البتہ وہ ’’جشن محمدی‘‘خوب دھوم کے ساتھ ساری دنیا میں مناتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ اپنی قومی نفسیات کی بنا پر انہیںخدامیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔کیونکہ خدا میں وہ اپنے لیے ذاتی فخر کاسامان نہیں پاتے۔البتہ ’’محمد‘‘تاریخی طور پر چوں کہ ان کے ہیرو یا ان کا قومی فخر بن چکے ہیں۔ اس لیے ان کے نام پر خوب دھوم مچاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے پر فخر قومی جذبات کی تسکین حاصل کرسکیں۔

آج ہر طرف الحاد کا غلبہ ہے مگر مسلمانوں کے اندر یہ جوش نہیں ابھرتا کہ وہ الحاد کے فکری غلبہ کو ختم کرکے توحید کا فکری غلبہ قائم کریں۔البتہ پیغمبر کی تصویر دیکھ کر وہ فوراً بھڑک اٹھتے ہیں۔یہ یقینی طور پر ہیرو پرستی ہے نہ کہ خدا پرستی۔

فطرت کی تلاش

ایک آدمی جس کے پاس دولت اوراقتدار ہواس کے گرد پررونق سازوسامان جمع رہتے ہیں۔باہر سے دیکھنے والوں کو وہ اپنے سے مختلف بڑی چیز دکھائی دیتا ہے مگر خود اس شخص کاحال اس کے برعکس ہوتا ہے۔وہ جب اپنی تنہائیوں میںجاتاہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بھی ویسا ہی ایک کمزورانسان ہے جیسا کہ دوسرے انسان۔

امریکاکی مشہور فورڈ کمپنی کے موجودہ وارث مسٹرالفرڈفورڈ (پیدائش 1950)بے پناہ دولت کے مالک ہیں۔مگر ان کی روح کوئی اورچیز پانے کے لیے بے چین تھی۔اس دوران ان کا تعارف ہرے کرشنا موومنٹ سے ہوا جس کے مراکز امریکااوردوسرے مغربی ملکوں میں موجود ہیں۔انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی روح یہاں تسکین پاسکتی ہے۔وہ اس میںشریک ہوگئے۔مسٹرفورڈ نے 27 دسمبر 1984ء کو کرشنا موومنٹ کی ایک ہندولڑکی شرمیلا بھٹاچاریہ (39)سے شادی کرلی۔شادی کی یہ رسم ہرے کرشنا موومنٹ کے آسٹریلیا کے ایک مرکز میںانجام پائی۔ٹائمس آف انڈیا (یکم جنوری 1985ء)کی ایک تصویرمیں مسٹرفورڈ سادھوئوں جیسے بغیر سلے ہوئے کپڑے میں ملبوس نظر آتے ہیں۔اے پی کے نامہ نگار نے اس سلسلہ میں جو رپورٹ دی ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے :

Mr. Alfred Ford said he was only a Ford by name. ‘I’m not a car. I’m a spiritual soul,  just  like   anyone   else,'' he  said.

مسٹر فورڈنے کہا کہ وہ بس نام کے اعتبار سے فورڈ ہیں۔’’میں ایک کار نہیں ہوں۔ میں ایک روحانی وجود ہوں ویسے ہی جیسے کہ کوئی دوسرا شخص (ہندستان ٹائمس، 28 دسمبر1984ء)۔

کسی آدمی کو دولت اوراقتدار کی خواہ کتنی ہی بڑی مقدار حاصل ہوجائے ،وہ اس کی ہستی کا جزء نہیں بنتی۔سازوسامان کے ہجوم میں وہ اپنے آپ کو اکیلا اوربے سہارا محسوس کرتا ہے۔اس کے باوجود وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں رہتا ہے جو اس کی ہستی میں شامل ہوجائے۔جس کو وہ اپنے داخلی وجود کی سطح پر اپنا بنا سکے۔اس تلاش کا جواب صرف وہ کامل اوربرتر خدا ہے جو انسان کا خالق اورمالک ہے۔ مگر انسان جب حقیقی خدا کو نہیں پاتا تو وہ غیر خدا میں مشغول ہوجاتا ہے تاکہ وہ مصنوعی طور پر اپنے اس مطلوب کوحاصل کرسکے جس کو وہ حقیقی طورپر نہ پاسکا۔

یہ انسان

لوگوں کو دیکھیے تو وہ یاتو ’’ملت ‘‘کے مسائل پر باتیں کرتے ہوئے ملیں گے یا زیادہ سے زیادہ دین کے ظاہری پہلو ئوں پر۔دین کے معنوی پہلوئوں پر بات کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔اس کی وجہ شاید انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صرف دکھائی دینے والی چیزوں میں اپنی توجہ لگاپاتا ہے۔جو چیز دکھائی نہ دے اس میں توجہ لگانا اس کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام رہاہے۔ماضی میں بھی اورآج بھی۔

انسان ان چیزوں کو اپنا معبود بناتا ہے جو اس کو دکھائی دیتی ہیں اورجو چیز دکھائی نہیں دیتی ، اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح اس کو اپنا معبود بنائے۔وہ ان کاموں میں بآسانی مشغول ہوجاتا ہے جو دکھائی دیں مگر جوکام بظاہر دکھائی نہ دیتے ہوں ان میں مشغول ہونا وہ نہیں جانتا۔جو چیز محسوس طورپر سامنے موجود ہو اس کی اہمیت کو وہ خوب جان لیتا ہے مگر جو چیز محسوس طور پر اس کے سامنے موجود نہ ہو اس کو وہ اس طرح نظر انداز کردیتا ہے۔جیسے وہ اس کو جانتا ہی نہیں۔

یہ ظاہر پرستی ہی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔اس کمزوری کا آخری اظہار وہ ہے جس کو شرک کہا جاتا ہے۔نیز اس کمزوری کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ آدمی دین پر ایمان لانے کے باوجود دین میں ترقی نہیں کرتا۔

مشرک وہ ہے جو نہ دکھائی دینے والے خدا کو مانتے ہوئے کچھ دکھائی دینے والی چیزوں کو بھی خدا بنالے۔ملحد وہ ہے جو یہ کہہ کر سرے سے کسی خداکا اانکار کردے کہ وہ اس کو دکھائی نہیں دیتا۔یہ گمراہی کی زیادہ سنگین قسمیں ہیں۔

مگر یہاں ایک اورچیز ہے جو اپنے انجام کے اعتبار سے کم اہم نہیں۔وہ ہے ایمان کے باوجود ایمان کابے اثر رہنا۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی خدا پر ایمان لائے مگر وہ خدا کو دیکھ نہ سکے۔وہ خد ا کو مانے مگر اس نے گہرائی کے ساتھ اس کا ادراک نہ کیا ہو۔ وہ خدا کا معتقد ہو مگر محسوسات سے بلند ہوکر وہ خدا کو اپنا مرکز توجہ نہ بناسکے۔

مزید یہ کہ غیر محسوس خدا کو نہ پانا گویا چھپی ہوئی معنویت کو نہ پانا ہے۔ایسا شخص انھیںانسانوں کو پہچان پاتا ہے جو اپنے گرد ظاہری اشیاء کا ڈھیرجمع کیے ہوئے ہوں۔ جو انسان اپنے اندر معنویت کا خزانہ لیے ہوئے ہووہ اس کے لیے لامعلوم رہتا ہے۔خدا کو کھونے والا بالآخر معنویت کو بھی کھو دیتاہے۔

خدا کی عظمت

 

شرک اورکبر

 إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا (4:48)۔ یعنی،بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے۔اور اس کے سواجس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔اورجو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اس نے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا۔

وَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَا يدْخل الْجنَّة من كَانَ فِي قلبه مِثْقَال ذرة من كبر قيل فَمَا الْكبر يَا رَسُول الله قَالَ أَن تسفه الْحق وَتغمضُ النَّاس أَي تحقرهم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 91)۔یعنی،رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت میں وہ شخص نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہو۔ پوچھا گیا کہ کبر کیا ہے۔ آپ نے فرمایاحق کو نظر انداز کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔

اس دنیا میں سب سے زیادہ خلاف واقعہ بات یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کو بڑائی کا درجہ دیاجائے۔یہی خدا کے نزدیک سب سے بڑاجرم ہے۔آدمی اگراپنے آپ کو بڑاسمجھ لے تویہ کبر ہے اوراگروہ کسی دوسرے کو بڑاقراردے تواسی کا نام شرک ہے۔

خدا کی معرفت خدا کے سوا دوسری تما م عظمتوں کو ڈھا دیتی ہے بشمول اپنی عظمت کے۔خداکے سوا دوسروں کی عظمت ماننے کا نام شرک ہے اوراپنی عظمت ماننے کا نام کبر۔ 

موجود ہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔اس لیے یہاں ہر قسم کے لوگوں کو بسنے کے مواقع ملے ہوئے ہیں۔مگر آخرت کی دنیا آئیڈیل دنیا ہوگی۔وہاں صرف وہی لوگ عزت کامقام پائیں گے جنھوں نے موجودہ آزمائشی دنیا میں یہ ثبوت دیا ہو کہ وہ حقیقت واقعہ کی سطح پر جینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کبر اورشرک کی سطح پر جینا غیر حقیقی سطح پر جینا ہے۔اس لیے جو لوگ کبر اورشرک کی سطح پر زندگی گزاریں گے وہ آخرت کی ابدی دنیا میں بسنے کے لیے سراسرنا اہل ٹھہریں گے۔

جنت ان اعلیٰ انسانوں کے لیے ہے جو خدا کی بڑائی میں جیتے ہوں۔جہنم ان پست لوگوں کا مقام ہے جو غیر خدا کی بڑائی میں جئیں ،خواہ یہ جینا خود اپنی بڑائی میں ہو یا اپنے  سواکسی دوسرے کی بڑائی میں۔

عقید ۂ خدا

شیر کو دیکھنے کی صورت یہ ہے کہ آپ اس کو مردہ عجائب خانہ میں دیکھیں۔ اور دوسرا شیر وہ ہے جو کھلے جنگل میں نظر آتا ہے۔مردہ عجائب خانہ میں شیر کی کھال کے اندر بھس وغیرہ بھر کر اس کو کھڑا کردیتے ہیں۔بظاہر وہ شیر کی مانند ہوتا ہے مگر وہ صرف شیر کی صورت ہوتی ہے ،نہ کہ فی الواقع شیر۔ ایسے شیر کو لوگ صرف تفریح کے طور پر دیکھتے ہیں۔کوئی بھی شخص اس سے ڈرنے یا بھا گنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

مگر جنگل کا شیر ایک زندہ شیر ہے وہ ناقابل تسخیر قوت کا نشان ہے۔وہ جب چلتاہے توساراجنگل سہم اٹھتا ہے۔وہ جب دھاڑتا ہے تو جانور دہشت زدہ ہو کر گرپڑتے ہیں۔ کوئی آدمی اگر جنگل میں زندہ شیر کو دیکھ لے تووہ سر سے پائوں تک کانپ اٹھتا ہے۔ اس کے تمام ہوش وحواس گم ہوجاتے ہیں۔وہ ویسا نہیں رہتا ہے جیسا وہ اس کو دیکھنے سے پہلے تھا۔

اس مثال سے خدا کے معاملہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔خدا پر عقیدہ کی بھی دوصورتیں ہیں۔ ایک ہے خدا پر تقلیدی عقیدہ۔ دوسرا ہے خدا پر زندہ عقیدہ۔

خدا پر تقلیدی عقیدہ ایک بے جان عقیدہ ہے۔ایسا عقیدہ آدمی کی روح کو نہیں تڑپاتا۔وہ اس کی رگوں میں بجلی بن کر نہیں دوڑتا۔وہ آدمی کے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں کرتا۔خدا کے تقلیدی عقیدہ میں خدا کو ماننا ہوتا ہے۔مگر خدا سے ڈرنا نہیںہوتا۔

مگر خدا پر زندہ عقیدہ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔خدا پر زندہ عقیدہ خد اکو اس کی اتھاہ قوتوں کے ساتھ اس کو دیکھ لینے کا نام ہے۔جو شخص اس طرح خدا کو پالے وہ پانے کے بعد ویسا نہیں رہ سکتا جیسا کہ وہ پانے سے پہلے تھا۔خدا کو پانے کے بعد اس کے سارے وجود کے اندر بھونچال آجاتا ہے۔خوف کی شدت سے اس کی روح سہم اٹھتی ہے۔اس کے ذہن سے تمام دوسرے مسائل حذف ہوجاتے ہیں۔وہ صرف ایک ہی مسئلہ کو جانتا ہے اوروہ خد اکا مسئلہ ہے۔

خدا کا زندہ عقیدہ اورخدا کا خوف دونوں ناقابل تقیسم ہیں۔آپ خداکے زندہ عقیدہ سے خدا کے خوف کو الگ نہیں کرسکتے۔جہاں یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوں وہاں سمجھ لیجیے کہ خدا کا زندہ عقیدہ نہیں بلکہ صرف تقلیدی عقیدہ ہے اور تقلیدی عقیدہ کی کوئی قیمت نہیں۔

عظمت خداوندی

ہر ایک کےپاس اپنی عظمت کی داستانیں ہیں ،خدا کی عظمت کی داستان کسی کے پاس نہیں۔ایک آدمی اپنی محبوب شخصیت کے حق میں لمبا نثری قصیدہ پڑھے گا جس میں یہ خبر دی جائے گی ’’آپ کی ذات گرامی کے آفتاب سے گوشے گوشے جگمگارہے ہیں ‘‘مگر طویل تحریر میں کہیں بھی یہ محسوس نہ ہوگا کہ کہنے اورسننے والے خدا کی عظمت وجلال کے احساس سے لرزرہے ہیں اوررب العالمین کے بے پایا ں کرشموں کو دیکھ کر محو حیرت ہیں۔البتہ خاتمہ کلام پر یہ فقرہ ادا کردیا جائے گاوآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔کلام کے پورے مجموعہ میں دیکھیے توعربی کا یہ فقرہ ایک بے جوڑ سا فقرہ معلوم ہوگا۔جس کلام میں انسانی عظمت کے آبشار برسائے جارہے ہوں وہاں ’’تمام تعریف صرف اللہ کے لیے ہے ‘‘  کہنے کا کیا مقام۔اس قسم کا فقرہ ہمیشہ رسمی ہوتا ہے نہ کہ حقیقی۔انسان کی عظمت کا طویل قصیدہ پڑھنے کے بعد یہ مختصر عربی فقرہ حقیقۃً اللہ کی حمد کے جذبہ سے نہیں نکلتا بلکہ صرف تبرک یا رسم کی خانہ پری کے لیے ہوتا ہے۔کسی دوسرے مذہب کا آدمی ہو اوروہ اپنی محبوب شخصیت کا قصیدہ پڑھے تووہ اپنے کلام کے آخر میں اپنے مذہب اورروایات کے لحاظ سے کوئی فقرہ بول دے گا اورمسلمان اپنے مذہب اورروایات کے لحاظ سے۔بظاہر دونوں ایک دوسرے سے مختلف معلوم ہوتے ہیں۔ایک فقرہ ’’اسلامی ‘‘فقرہ ہے اوردوسرے کا ’’غیر اسلامی ‘‘فقرہ مگر جس نفسیاتی حالت کے تحت یہ فقرے نکلے ہیں ،اس کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ اندرونی کیفیت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ایک شخص اپنی روایتی تسکین کے لیے عربی فقرہ کا تلفظ کررہا ہے ،دوسراکسی غیر عربی فقرہ کا۔

جو لوگ اپنے ان مشغلوں پر خوش ہیں اوران کو کارنامہ سمجھتے ہیں وہ بہت جلد جان لیں گے کہ ان کی یہ سرگرمیاں خدا کی نظر میں اس سے بھی زیادہ بے قیمت تھیں جتنا کہ مٹی کے ڈھیر میں ایک چیونٹی کا رینگنا۔یہ زمین کسی کے ’’اکابر‘‘کی جلوہ گاہ نہیں۔یہ خدا کی تجلیات کا ظہور ہے۔ جب بھی خدا کے سوا کسی اورکی تعریف اس زمین پر کی جاتی ہے تو وہ سب سے بڑاجھوٹ ہوتا ہے جو کوئی شخص بولتا ہے۔

انسانی عظمت کے قصیدے جب پڑھے جاتے ہیں تو زمین وآسمان کی ہر چیز پڑھنے اورسننے والوں پر لعنت بھیجتی ہے مگر جب خد اکی عظمت کا چرچا کیا جا ئے تو زمین وآسمان اس کے ہم آواز ہوجاتے ہیں۔انسانی عظمت کے قصیدے جھوٹی زبانوں سے نکلتے ہیں اور جھوٹے کانوں سے سنے جاتے ہیں۔مگر جب کسی کو خدا کی عظمت بیان کرنے کی توفیق ملتی ہے تو یہ ایک ملکوتی کلام ہوتا ہے جو فرشتوں کے ہم نشینی سے کسی کی زبان سے ابلتا ہے۔ جو لوگ کسی انسان کی عظمت سے مسحور ہوں وہ اس کی شان میں الفاظ کے دریا بہاتے ہیں جب کہ خدا کی عظمت سے مسحور ہونے والے شخص پر چپ لگ جاتی ہے۔ انسانی عظمت کے چرچے پُررونق مجلسوں اورعمدہ چھپے ہوئے کاغذوں میں ہوتے ہیں اوراللہ کی عظمت کا چرچا ایک بندۂ خداکے قلب میں ابلتاہے اورصرف اس کی تنہائیوں کو یہ خوش قسمتی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اس کو سنیں اوردیکھیں۔خدا کی عظمتوں میں جینے والے اورانسان کی عظمتوں میں جینے والے میں وہی فرق ہے جو خود خدا ا ورانسان میں ۔

کارخانہ کائنات

آپ کسی انسانی کارخانہ میں داخل ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں ہر چیز کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔اس کے ہر شعبہ میں تعارفی تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ہر جگہ آدمی کھڑاہوا ہے جو آپ کے ہرسوال کاپوراجواب دیتاہے۔کارخانہ کی طرف سے آپ کو ایسا تعارفی لٹریچر بھی دیا جائے گا جس میں ضروری معلومات درج ہوں۔

کائنات تمام کارخانوں سے زیادہ بڑاکارخانہ ہے۔مگر یہاں نہ کہیں کوئی تعارفی بورڈ نظر آتا اورنہ کوئی گائڈ۔یہاں منصوبہ بندی بھی ہے اورتعمیرات بھی۔یہاں پیداوار بھی ہے اورپیکنگ اورسپلائی کاانتظام بھی۔ یہاں رسد اورطلب میںتناسب کا لحاظ بھی کیا جارہا ہے اورصنعتی فضلات کو دوبارہ استعمال میں لانے کا اہتمام بھی۔یہاں ضبط اورتوازن کا نظام بھی ہے اورخام سامانوں کی مسلسل فراہمی کابندوبست بھی۔یہ سب کچھ ہے مگر نہ کہیں کوئی اعلان کرنے والا ہے اورنہ بتانے والا۔

پہاڑوں کی بلندیاں کائناتی اسٹيج کی مانند نظر آتی ہیں مگر وہاں کوئی بولنے والا نہیں۔ چڑیاں چہچہاتی ہیں تو شبہ ہوتا ہے کہ وہ شایدکسی بات کی خبر دے رہی ہیں مگر ان کی بولی سمجھ میں نہیں آتی۔بجلی چمکتی اوربادل گرجتے ہیں تو گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ کائنات کا آلۂ مکبرالصوت ہے جس کے ذریعہ کچھ اعلان کیاجا رہاہے مگر اس کے الفاظ آدمی کے لیے قابل فہم نہیں ہوتے۔

’’ایمان ‘‘کسی آدمی کے اندر اسی خلا کوپُر کرتا ہے۔وہ آدمی کو کائنات کے بھیدوں کا راز داں بناتا ہے۔مومن ایک قسم کا سائنس داں ہے۔ سائنس داں بکھرے ہوئے کُرّوں میں نظام شمسی کا پتہ لگاتا ہے وہ مادہ کے اند رچھپی ہوئی توانائی کو دریافت کرتا ہے۔وہ غیر متحرک دھات میں متحرک مشین کو دیکھ لیتا ہے۔اسی طرح مومن عالَم ظاہر میں عالَم غائب (غیب)کو دیکھ لیتا ہے۔وہ مخلوقات میں اس کے خالق کو پالیتا ہے۔وہ نظم کو دیکھ کر اس کے ناظم کا پتہ لگالیتاہے۔

ایمان جب اپنی آخری انتہاکو پہنچتا ہے تو وہ دعوت بن جاتا ہے۔دعوت دوسرے لفظوں میں کائنات کے غیر ملفوظ نغمہ کو الفاظ کی صورت دینا ہے۔داعی خدا کی خاموش نشریات کو با آوازاعلان میں منتقل کرتاہے۔وہ خدائی پیغام کو سن کر اسے انسانوں تک پہنچاتا ہے دعوت خداکی دنیا میں خداکی نمائندگی ہے۔

تقویٰ کیا ہے

ہٹلر کی حکومت کے زمانہ میں جرمنی میں جب یہودی پکڑے جانے لگے تو وہاں بہت لطیفے مشہور ہوئے۔ایک لطیفہ یہ تھاکہ شہر کی ایک سڑک پر ایک یہودی بھاگا جارہا تھا۔دوسرے یہودی نے اس کو دیکھ کر پوچھا کہ تم کیوںبھاگ رہے ہو۔اس نے کہا ’’تم بھی بھاگو‘‘اس نے دوبارہ پوچھا ’’آخر کیوں ‘‘بھاگنے والے یہودی نے جواب دیا ’’چڑیا گھر سے ایک بھیڑیا بھاگ نکلا ہے اوراس کو گولی مارنے کاحکم ہوا ہے۔ دوسرے یہودی نے حیران ہوکر کہا ہم کو کیا ڈرہے ،ہم بھیڑئے تو نہیں ہیں ،پھر ہم کیوں بھاگیں ‘‘پہلے یہودی نے جواب دیا ہاں ہم بھیڑئے نہیں ہیں۔مگر کیا ہم اس کو ثابت کر سکتے ہیں۔

 اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرکی نفسیات سے جوانسان بنتا ہے وہ کیسا انسان ہوتا ہے۔وہ مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھتا ہے۔کیوں کہ اس کو ڈرہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے کہیں میں نہ پکڑلیا جائوں۔کسی سے ڈرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس کے مقابلہ میں اپنے کو کمزورپارہاہے۔وہ فیصلہ کا سرادوسرے کے ہاتھ میں سمجھتا ہے۔اور جب بھی فیصلہ کا سرا دوسرے کے ہاتھ میں ہوتو لازماً ایسا ہوگا کہ آدمی اندیشہ میں مبتلارہے گا۔اس کو یہ ڈر لگا رہے گا کہ کہیں میں ہی مجرم نہ قراردے دیا جائوں۔ایک بکری جو مجھ سے بہت دور فرات کے کنارے مری ہو،اگر اس کے مرنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی جائے تو میرے پاس کیا جواب ہوگا۔اورمیں کس طرح اپنے کوبری الذمہ ثابت کرسکوں گا۔

اللہ تمام طاقتوں سے بڑھ کر طاقت ور ہے۔تمام فیصلوں کا سرااسی کے ہاتھ میں ہے۔ایسی حالت میں جوشخص اللہ کو پالے وہ اس کی طرف سے مستقل اندیشہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ہر معاملہ میں وہ سوچنے لگتا ہے کہ خدا کی عدالت میں کہیں مجھ کو اس کا ذمہ دار نہ قرار دے دیا جا ئے۔اپنے کو بچانے کا جذبہ اس کو مجبور کرتا ہے کہ لوگوں سے معاملہ کرنے میں وہ حددرجہ محتاط رہے ،لوگوں کے ساتھ وہ ہمیشہ فیاضی کا سلوک کرے ،وہ لوگوں کے حق سے زیادہ انہیںدے۔ اس کاکوئی ساتھی یا اس کا ماتحت اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو اس کا خطرہ وہ اپنے اوپر محسوس کرتا ہے ،کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ خدااگر قیامت میںکہہ دے کہ تمہاری وجہ سے اس کو یہ جرأت ہوئی تو میرے پاس کیا عذر ہوگا۔اس کی لاعلمی میں ظلم کا ایک واقعہ ہوتب بھی وہ کانپ جاتا ہے کہ اگر خدا کے یہاں یہ کہا جائے کہ تم عوامی قائدبنے ہوئے تھے تو تم اس سے باخبر کیوں نہ ہوئے تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا۔اس کے دائرہ میں کوئی شخص کسی کو ستاتا ہے تو وہ بے تاب ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ ڈرجاتا ہے اگر خدا یہ کہے کہ تم نے اپنی کارروائیوں سے جو ماحول بنایا اس کی وجہ سے ایساواقعہ ممکن ہوسکا تو میں کس طرح اپنے کو بری الذمہ ثابت کروں گا۔کوئی شخص اس کو مدد کے لیے پکارتا ہے اوروہ ایک عذر کرکے آگے بڑھ جاتا ہے تو وہ لرزاٹھتا ہے۔کیوں کہ یہ احساس اس کو پریشان کردیتا ہے کہ قیامت میں اگر خدا یہ کہہ دے کہ تم نے اپنے جس کام کو عذربنایا اس سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ تم اس کو چھوڑ کر میرے بندے کا ساتھ دیتے تو میں کیاکہہ کر چھوٹ سکوں گا۔

خرابی کی جڑ

ہر آدمی حق کا نام لیتا ہے ،اس کے باوجود دنیا میں ہرطرف بگاڑکیوں ہے۔اس کی وجہ قرآن کے لفظوں میں الحاد (انحراف )ہے۔ یعنی بات کو صحیح رخ سے غلط رخ کی طرف موڑدینا۔

الحاد کی ایک صورت جو موجود زمانہ میں بہت زیادہ رائج ہے ،وہ ہے — انفرادی حکم کا رخ اجتماعیات کی طرف کردینا۔جس حکم کا خطاب آدمی کی اپنی ذات سے ہے اس کا مخاطب دوسروں کو بنا دینا۔مثلاً قرآن میں ہے کہ:وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۔ وَثِيَابَكَ فَطَهِّر(74:3-4) یعنی، اپنے رب کی بڑائی کر اور اپنے اخلاق کو پاک کر‘‘۔

اس آیت میں اگروَثِيَابَكَ فَطَهِّر  کو وَثِيَابَ غیركَ فَطَهِّر(اور دوسروں کے اخلاق کو پاک کر )کے معنی میں لے لیا جائے تو سارا معاملہ الٹ جائے گا۔جو آیت ذاتی اصلاح کا سبق دے رہی ہے وہ صرف دوسروں کے خلاف اکھاڑپچھاڑ کے ہم معنی بن کر رہ جائے گی۔

اسی طرح تمام احکام کا حال ہے۔ہر حکم جوخداکی طرف سے دیا گیا ہے اس کا سب سے پہلا خطاب آدمی کی اپنی ذات سے ہے۔مگر موجودہ زمانہ کے انقلابی دینداروں نے تمام احکام کا رخ دوسروں کی طرف کررکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دین ومذہب کے نام پر بے شمار ہنگاموں کے باوجود کوئی اصلاح نہیں ہوتی۔

ہر قسم کی اصلاح اورہر قسم کے بگاڑ کا خلاصہ دو لفظ میں یہ ہے :

1۔خدابڑاہے ،اس لیے میں بڑانہیں ہوں۔

2۔خدابڑاہے ،اس لیے تم بڑے نہیں ہو۔

’’پہلاجملہ’’اللہ اکبر ‘‘کے کلمہ کو صحیح رخ سے لینا ہے اوردوسراجملہ’’اللہ اکبر‘‘کے کلمہ کو غلط رخ سے اختیار کرنا ہے۔اگر آپ کہیں کہ’’خدا بڑاہے اس لیے میں بڑانہیں ہوں‘‘تو آپ کے اندراپنی ذات کے بارے میں ذمہ دار ی کا احساس جاگے گا۔آپ کے اندر سے گھمنڈ نکلے گا اورسنجیدگی اورذاتی اصلاح کا جذبہ پیدا ہوگا۔آپ کے اندر تو اضع ابھر ے گی جو تمام بھلائیوں کی جڑہے۔

اس کے برعکس جب آپ کا نعرہ یہ ہوکہ ’’خدا بڑاہے اس لیے تم بڑے نہیں ہو‘‘تو اس سے گھمنڈ کی نفیسات پیدا ہوتی ہے اورتوڑ پھوڑ اوردوسروں کے خلاف اکھیڑپچھا ڑ کی سیاست ابھرتی ہے۔اصلاح کے نام پر ایسا فساد ظہور میں آتا ہے جوکسی حد پر رکنے والا نہ ہو۔

خد اسے غافل

کسی شخص سے اس کے عزیز بیٹے کا ذکر کیجئے تو اس کے پاس اپنے بیٹے کے بارے میں کہنے کے لیے اتنی زیادہ باتیں ہوںگی جو کبھی ختم نہ ہوں۔مگر اسی شخص کے سامنے خدا کا تذکرہ کیجئے تو وہ اس طرح غیر متحرک بنارہے گا جیسے کہ اس کے پاس خدا کے بارےمیں کہنے کے لیے کوئی بات ہی نہیں۔جیسے کہ وہ خداکے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں۔

کسی شخص کو اس کے خاندانی بزرگ کی یاد دلادیجیے تووہ اس قدر پر جوش طورپر بولنے لگے گاجیسے کہ اس کے تمام اندرونی احساسات جاگ اٹھے ہوں۔ مگر اسی شخص کے سامنے خدا کا ذکر کیجئے توہ جذبات سے اس طرح خالی نظر آئے گا جیسے کہ اس کو معلوم ہی نہیں کہ خدا کے بارے میں کیا کہا جائے۔

کسی شخص کے سامنے اس کے جماعتی اکابر کا نام لے لیجیے۔ اچانک الفاظ کا دریا اس کی زبان سے بہہ پڑے گا۔ وہ اس وقت تک چپ نہ ہو گا جب تک آپ مداخلت کر کے موضوع کو بدل نہ دیں۔ مگر اسی شخص کے سامنے خدا کا نام لیجیے تو ا س کے اندر کوئی جوش پیدا نہ ہو گا۔ ایسا معلوم ہو گا جیسے اس کے پاس خدا کے بارے میں بولنے کے لیے کوئی چیز ہی نہیں۔

ایک شخص کے سامنے اس کے قومی ہیرو کاچرچا کر دیجیے اورپھر آپ دیکھیں گے کہ اچانک وہ بادشاہ سخن بن کر ظاہر ہوگیا ہے۔مگر اس کے سامنے خدا کا چرچاکیجئے تو وہ ایسا نظر آئے گا جیسے کہ اس کے اندر خداکا نام سن کر کوئی ہلچل ہی پیدا نہیں ہوئی جواس کو بولنے پر مجبور کردے۔

آہ وہ لوگ جن کے پاس رجال کی تعریف کے لیے الفاظ ہوں مگر خد اکی تعریف کے لیے ان کے پاس الفاظ نہ ہوں۔انسانوں کے بارے میںوہ معلومات کا خزانہ بنے ہوئے ہوں مگر خدا کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں جو ان کے زبان یا قلم سے جاری ہو۔کیا سینوں میں ایمان کے سوتے خشک ہوگئے۔

کیا لوگوں نے خدا کی عظمت کو محسوس نہیں کیا جس کو وہ لوگوں سے بیان کریں۔کیا لوگوں کو خدا کے کمالات کا کوئی مشاہدہ نہیں ہو ا۔کیا انہیںصرف مخلوقات کی خبر ہے ،خدا وند ذالجلال کی انہیںکوئی خبر نہیں۔

تضادختم ہوگیا

میں آبادی سے دورایک پہاڑ کے کنارے کھڑاتھا۔سرسبز درخت میرے سامنے پھیلے ہوئے تھے۔چڑیوں کی بولیاں کانوں میںآرہی تھیں۔مختلف قسم کے جانور چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔یہ دیکھ کر میرے اوپر عجیب تاثر ہوا۔کیسا عظیم اورکیسا کامل ہوگا وہ خدا جس نے اتنی بڑی دنیا بنائی اورپھر اس کو مجبور کردیا کہ وہ اس کے بتائے ہوئے نقشہ کی انتہائی پابندرہتے ہوئے حرکت کرے۔

کتنی حسین اورکتنی معصوم ہے یہ دنیا۔یہاںچڑیاں وہی آوازیں نکالتی ہیں جو ان کے خالق نے انہیںسکھایا ہے۔یہاں بلّی اوربکری بالکل اسی طرح اپنا اپنا رزق کھاتے ہیں جو پیدائشی طور پر ان کے لیے مقررکردیا گیا ہے۔ یہاں درخت عین اسی منصوبہ کے مطابق اُگتے اوربڑھتے ہیں جو ازل سے ان کے مالک نے ان کے لیے متعین کردیا ہے۔یہاں دریا ٹھیک اسی قانون کے مطابق رواں ہوتا ہے جو اس کے لیے ابدی طورپر مقدر ہے۔خدا کی کائنات انتہائی کامل مجموعہ ہے اوریہاں کی ہرچیز ادنیٰ انحراف کے بغیر عین اسی طرح عمل کرتی ہے جس کا حکم اس کے خدا نے اسے دے رکھا ہے۔

مگر انسان کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔وہ اپنے منہ سے ایسی آوازیں نکالتاہے جس کی اجازت اس کے خدانے اسے نہیں دی۔وہ ایسی چیزوں کو اپنا رزق بناتاہے جس سے اس کے مالک نے اس کوروک رکھا ہے۔وہ اپنے سفرحیات کے لیے ایسے راستے اختیار کرتاہے جہاں کاتب ازل نے پیشگی طورپر اس کے لیے لکھ دیا ہے کہ ’’یہاں سے گزرنا منع ہے ‘‘انسان خدا کی کائنات کابہت چھوٹا حصہ ہے۔مگر وہ عظیم کائنات کے مجموعی نظام سے بغاوت کرتا ہے ،وہ خدا کی اصلاح یافتہ دنیا میں فساد برپاکرتا ہے۔

یہ خدا کی بے تضاد دنیا میں تضاد کودخل دینا ہے۔یہ ایک ہم آہنگ مجموعہ میں بےآہنگی کا جوڑلگانا ہے۔یہ ایک حسین تصویر میں بدصورتی کا دھبہ ڈالنا ہے۔یہ ایک کامل دنیا میں ناقص چیز کا اضافہ کرنا ہے۔یہ فرشتوں کی سرگرمیوں کے ماحول میںشیطان کو سرگرم ہونے کا موقع دینا ہے۔

خدا کی قدرت اوراس کے حسنِ ذوق کا ثبوت جو عظیم تر کائنات میں ہر لمحہ نظر آتاہے وہ اس گمان کی تردید کرتاہے کہ یہ صورت حال اسی طرح باقی رہے۔ خد اکی قدرت یقینا اس ظلم کی اجازت نہیں دے سکتی۔خدا کا حسن ذوق ہر گز اس کو برداشت نہیں کرسکتا۔ضروری ہے کہ وہ دن آئے جب کائنات کا یہ تضاد ختم ہو،خدا کی مرضی انسانی دنیا میں بھی اسی طرح پوری ہونے لگے جس طرح وہ بقیہ دنیا میںپوری ہورہی ہے۔

خد اکی نشانیاں

میکسویل(1831-1879ء) وہ شخص ہے جس نے فطرت میں برقی مقناطیسی تعامل کے قوانین کو انتہائی کامیابی کے ساتھ ریاضیاتی مساوات میں بیان کیا۔کہا جاتاہے کہ جب عظیم جرمن سائنسداں بولٹنر مین(1844-1906) نے اس کو دیکھا تواس نے تعجب کے ساتھ کہا کہ کون وہ خدا ہے جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں

Maxwell put the laws of electromagnetic interactions into equations so marvellous that when the great German physicist, Boltzmann, saw them he exclaimed, who was the God who wrote these signs?                                                               

کائنات کا مطالعہ کرنے والے کے لیے سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ ہر مطالعہ  بالآخر ایک ایسی چیز پر ختم ہوتاہے جوانتہائی پر اسرار طورپر حکیمانہ ہوتی ہے۔ کائنات اپنے آخری مطالعہ میں ایک حددرجہ منظم واقعہ ہے نہ کہ کوئی بے ترتیب انبار۔یہ حقیقت ہر واقف کارکویہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ کائناتی واقعات کے پیچھے کوئی برتر ذہن کام کررہاہے۔

آ ئن سٹائن(1879-1955) ایک خالص سائنسی مزاج کا آدمی تھا۔تاہم اس نے اقرار کیا ہے کہ میں طبیعیات داں سے زیادہ ایک فلسفی ہوں۔کیونکہ میرایقین ہے کہ ہمارے باہر بھی ایک حقیقت ہے:

I am more a philosopher than a physicist,

for I believe there is a reality outside of us.

The World as I See it.

 آئن سٹائن اپنے اس ذہن کی وجہ سے کہتا ہے کہ اس معنی میں میں بھی ایک پکا مذہبی آدمی ہوں :

In this sense, I belong to the ranks of devoutly religious men.

کائنات خد اکی نشانی ہے۔وہ مخلوق کے روپ میں خالق کی تصویر دکھاتی ہے۔جو شخص کھلے ذہن کے ساتھ کائنات کو دیکھے گا وہ اس کے اندر اس کے خدا کو پا لے گا۔البتہ جن کے ذہن میںٹیڑ ھ ہووہ عین روشنی کے درمیان بھی اندھیرے میں رہیں گے ،وہ خداکے قریب کھڑے ہوکر بھی خدا کو نہ پائیں گے۔

قدرتی مناظر

مسٹر یو۔کے مو کھاپادھیا ئے لند ن گئے۔وہاں ان کی ملاقات ایک معمر انگریز سے ہوئی جو پچاس سال پہلے برٹش راج کے زمانہ میںرائل ایر فورس کے افسر کی حیثیت سے ہندستان میں مقیم تھا۔اس نے مسٹر موکھاپا دھیائے سے بہت دل چسپی کے ساتھ ہندستان کے حالات پوچھے۔اس نے بتایا کہ اس کا قیام زیادہ تربمبئی اورپونہ میں تھا۔اس نے عجیب محویت کے انداز میںبتایا کہ بمبئی اور پونہ کے درمیان ٹرین کاسفر اس کو بہت پسند تھا۔یہ پوراسفر دریائوں ،جنگلوں اورقدرت کے مناظر کے درمیان ہوتاتھا۔ اس نے کہا کہ میںدوبارہ ہندستان جانا چاہتا ہوں تاکہ ان مناظر کو دیکھ کرخوشی حاصل کروں۔

مزید سوالات کے درمیان مسٹر موکھاپادھیا نے مذکورہ انگریز کو بتایا کہ اب پونہ پہلے جیسا پونہ نہیں ہے۔اب وہ پونے کہا جاتاہے۔اس کی آبادی دس گنا بڑھ گئی ہے۔نئی نئی سڑکیں اورروشنیوں کے انتظام نے اس علاقہ میں قدرتی مناظر سے زیادہ مشینی مناظر کاماحول پیداکردیاہے یہ سن کر اچانک اس انگریز کا ساراشوق ختم ہوگیا۔اس نے کہا:

NO. I don't think I will go to India

My India probably does not exist

نہیں،میں نہیں سمجھتا کہ مجھے انڈیا جانا چاہیے۔میراانڈیااب غالباًموجودنہیں (ٹائمس آف انڈیا، 3فروری1984)۔

مشینی مناظردیکھنے سے ’’انسان ‘‘یاد آتا ہے اورقدرتی مناظر کو دیکھنے سے ’’خدا‘‘یاد آتاہے۔مشینی مناظر میں انسان کی کاریگری کادھیان آتا ہے اورقدرتی مناظر میں خدا کی کاریگری کا ۔مشینی مناظر انسان کوانسان سے ملا تے ہیں اورقدرتی مناظر انسان کو خدا سے ملاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مشینی مناظر میںانسان کووہ سکون نہیں ملتاجو قدرتی مناظر میں اس کو ملتا ہے  — أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(13:28)۔ سنو، اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

قدرتی مناظر کیاہیں۔وہ خداکی صفات کا آئینہ ہیں۔آسمان کی وسعت خدا کی بے پایاں ہستی کا تعارف ہے۔سورج خدا کے سراپانورہونے کا اعلان کررہا ہے۔دریا کی روانی خداکے جوش رحمت کی گویا ایک تمثیل ہے۔پھو لوں کی مہک اورخوبصورتی خدا کے حسن کی ایک دور کی جھلک ہے۔اگر دیکھنے والی آنکھ ہوتو اس کو قدرتی مناظر میں خدا کا جلوہ دکھائی دے گا۔

شناختی کارڈ کے بغیر

دیہات کا ایک لڑکاشہر آیا۔سڑک پر چلتے ہوئے وہ ایک اسکول کی عمارت کے سامنے سے گزرا۔یہ اسکول کے جشن کا دن تھا۔سیکڑوں لڑکے ایک کھڑکی کے سامنے لائن لگائے ہوئے تھے۔دیہاتی لڑکے نے قریب جاکردیکھا تو معلوم ہواکہ اس کھڑکی پر مٹھائی تقسیم ہورہی ہے۔اور ہر ایک اس کو لے کر باہر آرہا ہے۔دیہاتی لڑکا بھی لائن میں شامل ہوکر کھڑاہوگیا۔وہ لائن کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔وہ سمجھتا تھا کہ جب میری باری آئے گی تومٹھائی کا پیکٹ اسی طرح میرے ہاتھ میں بھی ہوگا جس طرح وہ دوسروں کے ہاتھ میں دکھائی دے رہا ہے۔

لائن ایک کے بعد ایک آگے بڑھتی رہی۔یہاں تک کہ دیہاتی لڑکا کھڑکی کے سامنے پہنچ گیا۔اس نے خوش خوش اپنا ہاتھ کھڑکی طرف بڑھایا۔اتنے میں کھڑکی کے پیچھے سے آواز آئی ’’تمہارا شناختی کارڈ ‘‘۔لڑکے کے پاس کوئی کارڈ نہ تھا۔وہ کارڈ پیش نہ کرسکا۔چنانچہ وہ کھڑکی سے ہٹادیا گیا۔اب لڑکے کو معلوم ہواکہ یہ مٹھائی ان لوگوں کو تقسیم ہوری تھی جو سال بھر اسکول کے طالب علم تھے نہ کہ کسی ایسے شخص کے لیے جو اچانک کہیں سے آکرکھڑکی پر کھڑاہوگیاہو۔

ایسا ہی کچھ معاملہ آخرت میں پیش آنے والاہے۔آخرت کا دن خدائی فیصلہ کا دن ہے۔اس دن سارے لوگ خدا کے یہاں جمع کیے جائیں گے۔وہاں لوگوں کو انعامات تقسیم ہورہے ہوںگے۔مگر پانے والے صرف وہ ہوں گے جنھوں نے اس دن کے آنے سے پہلے پانے کا استحقاق پیدا کیاہو،جواپنا ’’شناختی کارڈ ‘‘لے کر وہاںحاضر ہوئے ہوں۔

وہ وقت آنے والا ہے جب کسی آنکھ کے لیے سب سے زیادہ پُر کیف منظر یہ ہوگا کہ وہ اپنے رب کو دیکھے۔کسی ہاتھ کے لیے سب سے زیادہ لذید تجربہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے رب کو چھوئے۔ کسی سرکے لیے سب سے زیادہ عزت اورفخر کی بات یہ ہوگی کہ وہ اس کو رب العالمین کے آگے جھکادے۔مگر یہ سب کچھ صرف ان لوگوں کے لیے ہوگاجنھوں نے اس دن کے آنے سے پہلے اپنے خداکی نظر عنایت کا مستحق ثابت کیاہو۔بقیہ لوگوں کے لیے ان کی غفلت ان کے اور ان کے خدا کے درمیان حائل ہوجائے گی۔وہ خداکی دنیا میں پہنچ کر بھی خدا کو نہ دیکھیں گے۔وہ پانے والے دن بھی اپنے لیے کچھ پانے سے محروم رہیںگے۔

جب پردہ اٹھے گا

امریکی صدر رونالڈریگن(1911-2004) 30مارچ 1981کوپر اعتماد چہرہ کے ساتھ اپنے صدارتی محل (وھائٹ ہائوس) سے نکلے۔کاروں کا قافلہ ان کو لے کرواشنگٹن کے ہلٹن ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔پروگرام کے مطابق انھوں نے ہوٹل کے شان دارہال میں ایک تقریر کی۔تحسین و آفر یں کی فضامیں ان کی تقریر ختم ہوئی۔وہ آدمیوں کے ہجوم میں ہنستے ہوئے چہرہ کے ساتھ باہر آئے۔وہ اپنی بلیٹ پر وف لیموزین (کار) سے صرف چند قدم کے فاصلہ پر تھے کہ اچانک باہر کھڑے ہوئے مجمع کی طرف سے گولیوں کی آواز یں آنے لگیں۔ایک نوجوان جان ہنکلے نے دو سکنڈکے اندر چھ فائر کیے۔ایک گولی مسٹرریگن کے سینہ پر لگی۔وہ خون میں لت پت ہوگئے اورفوراًاسپتال پہنچائے گئے۔اچانک گولی لگنے کے بعد صدر امریکاکا جوحال ہوا وہ اے پی کا رپورٹر اِن الفاظ میں بیان کرتا ہے

Mr Reagan appeared stunned. The smile faded from his lips.

مسٹرریگن جیسے سن ہوگئے۔مسکراہٹ ان کے ہونٹوں سے غائب ہوگی (ٹائمس آف انڈیا، 31مارچ 1981)۔ یہ واقعہ اس صورت حال کی ایک تصویر ہے جو موت کے ’’حملہ ‘‘کے وقت اچانک آدمی پر طاری ہوگی۔

آدمی موجودہ دنیا میں اپنے کو آزاد سمجھ رہا ہے۔وہ نڈرہوکر جو چاہے بولتا ہے اورجو چاہے کرتا ہے۔اگر کسی کو کچھ مال ہاتھ آگیا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میرا مستقبل محفوظ ہے۔کسی کو کوئی اقتدار حاصل ہے تو وہ اپنے اقتدار کو اس طرح استعمال کرتا ہے جیسے اس کا اقتدار کبھی چھننے والانہیں۔ہر آدمی پُر اعتماد چہرہ لیے ہوئے ہے۔ ہر آدمی ہنستے ہوئے اپنی ’’لیموزین ‘‘کی طرف بڑھ رہا ہے۔اس کے بعد اچانک پردہ اٹھتا ہے۔ موت کا فرشتہ اس کو موجودہ دنیا سے نکال کر ا گلی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔

یہ ہر آدمی کی زندگی کا ایک انتہائی بھیانک لمحہ ہے۔جب یہ لمحہ آتا ہے تو آدمی اپنے اندازہ کے بالکل خلاف صورت حال کو دیکھ کر دہشت زدہ ہوجاتا ہے۔اچانک اس کو محسوس ہوتاہے وہ سب کچھ محض دھوکا تھا جس کو اس نے سب سے بڑی حقیقت سمجھ لیا تھا۔میں نے اپنے کو آزاد سمجھا تھا مگر میں تو بالکل بے اختیار نکلا میں اپنے کو مال و جائیداد والا پارہا تھا مگر میں تو بالکل خالی ہاتھ تھا۔میں سمجھتا تھاکہ میرے ساتھ بہت سے لوگ ہیں مگر یہاں تو میراکوئی ایک بھی نہیں۔

آہ وہ انسان جو اسی بات کو نہیں جانتا جس کواسے سب سے زیادہ جاننا چاہیے۔

جھوٹی بڑائی

حضرت عمر فاروقؓبحیثیت خلیفہ مدینہ میں تقریر کر رہے ہیں۔ایک شخص اٹھ کرکہتا ہے کہ خداکی قسم اگر ہم تمہارے اندر کوئی ٹیڑھ پائیں گے تو ہم تم کو تیر کی طرح سیدھا کر دیں گے:لَو فَعَلت ذَلِكَ قَوَّمْنَاكَ تَقْوِيمَ القِدْحِ(کنز العمال، حدیث نمبر 14197)  بظاہر یہ نہایت سخت تنقید ہے اوربڑی گستاخی کی بات ہے مگر نہ عمر فاروق اس کو برامانتے اورنہ سارے مجمع سے کوئی ایک شخص اٹھ کر یہ کہتاکہ تم نے ایسا کیوں کہا۔اس طرح کے تنقیدی واقعات صحابہ کے دمیان روزانہ پیش آتے تھے۔صحابہ کے بعد تابعین اورتبع تابعین کے زمانہ میں بھی یہ صورت حال باقی رہی۔مگر کبھی کسی نے اس کو برا نہ مانا۔اگر کہا تو صرف یہ کہا کہ جوبات کہو تحقیق کے ساتھ کہو،نہ کہ بے تحقیق باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف رائے زنی کرنے لگو۔

اس کی وجہ کیا ہے۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ لوگ انسانوں کی عظمت میں نہیں جیتے تھے بلکہ صرف ایک خدا کی عظمت میں جیتے تھے۔ان کے دل پر اس سے چوٹ نہیں لگتی تھی کہ کوئی شخص کسی انسان پر کیوں تنقید کرتا ہے۔کیوں کہ وہ بڑائی کا سارا حق صرف خدا کو دئے ہوئے تھے۔اورانسانوں پر تنقید کرنے سے خداکی بڑائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اس کے برعکس موجودہ زمانہ میں اگر کسی شخصیت پر تنقید کردیجیے تو خوا ہ وہ تنقید کتنی ہی علمی اورتحقیقی کیوں نہ ہو ،اس کے معتقدین فوراً برہم ہوجائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انسانوں ہی کو اپنا بڑابنائے ہوئے ہیں پھر وہ کیسے گوارا کرسکتے ہیں کہ ان کی بڑائی کا مینا ر گرجائے۔لوگوں کا حال یہ ہے کہ نماز اوراذان میں وہ اللہ اکبر (اللہ بڑا ہے )کہتے ہیں مگر یہ صرف الفاظ ہیں جن کو لوگ زبان سے ادا کرتے ہیں ورنہ حقیقتہً لوگ جس بڑائی میں جی رہے ہیں وہ انسان کی بڑائی ہے نہ کہ خدا کی بڑائی۔

لوگوں کو جاننا چاہیے کہ غیراللہ کی بڑائی میں جینے کا موقع صرف اس وقت تک ہے جب تک امتحان وآزمائش کی مدت ختم نہ ہو۔اس کے ختم ہوتے ہی اس کا موقع بھی ختم ہو جائے گا۔پھر جن لوگوں کی غذاانسان کی جھوٹی بڑائی ہو۔وہ اس وقت کس چیز کواپنی غذا بنائیں گے جبکہ تمام دوسری بڑائیاں ختم ہوجائیں گی اورخدا کی سچی بڑائی کے سوا کوئی بڑائی نہ ہوگی جس کو آدمی اپنی غذابنائے اورجس کے بل پر وہ جی سکے۔

خدا کی نشانی

إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ۔وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(45:3-5)۔یعنی، بے شک آسمانوں اورزمین میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیںاورتمہارے اورحیوانات کو پیدا کرنے میں جن کو زمین میں پھیلا دیا ہے نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے۔ اور رات اوردن کے آنے جانے میں اوراس رزق میں جس کو اللہ نے اتاراہے پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے خشک ہونے کے بعد اورہوائوں کے چلنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔

 قرآن میں کثرت سے اس طرح کی آیتیں ہیں جن میںکہا گیا ہے کہ کائنات میںسوچنے والے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان سے جن معنوی حقیقوں پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا ہے ان کی مادی تمثیلات اس نے کائنات میں ہر طرف قائم کردی ہیں۔تاکہ آدمی کے لیے ان حقیقیوں کوسمجھنا آسان ہوجائے۔تاکہ وہ دکھائی دینے والی چیزوں کے آئینہ میں نہ دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھ سکے۔

سورج اورچاند خدا کی روشن ہستی کا تعارف ہیں۔چڑیاں اورجانورخداکی خدائی کے معصوم نمائندے ہیں آسمان خداکی عظمت وقدرت کا اعلان ہے۔پانی اورہوا خداکی رحمت وشفقت کا ایک نمونہ ہیں۔درخت اورپہاڑخدا کے لامحدود حسن کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

انسان اگر دنیا میں اس طرح رہے کہ اس کے دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوں۔وہ دیکھنے والی چیزوں کو دیکھ رہا ہو تو ساری دنیا اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے گی۔وہ ہر چیز میں خداکا نور پائے گا۔ہر چیز میں وہ خدا کی حکمت کو دریافت کرے گا۔کائنات اس کے لیے ایک خدائی سمندربن جائے گی۔جس میں وہ نہائے۔زمین وآسمان اس کے لیے خدا کی جلوہ گاہ بن جائیں گے جہاں وہ اپنے رب سے ملاقات کرے۔

خدا کا فیضان

ہمارے گھر میں پہلے ایک میڑ بینڈ کا معمولی ٹرانسسٹر تھا۔وہ صرف دہلی ریڈیو اسٹیشن پکڑتا تھا۔ہم اس سے دہلی کی خبر یں سن لیتے تھے۔مگر دوسرے ملکوں کی نشریات سننا اس کے ذریعہ ممکن نہ تھا۔کئی سال تک یہی چھوٹا ٹرانسسٹر ہمارے ریڈ یائی نشریات سننے کا ذریعہ بنارہا۔

اس کے بعد ہم نے چارمیڑ بینڈ ریڈیو سٹ خریدا۔یہ ریڈیوسٹ دنیابھر کے تمام ملکوں کے ریڈیواسٹیشن کو پکڑتا تھا۔اس کے ذریعہ جب ہم نے بی بی سی اور دوسرے بیرونی اسٹیشنوں کو سنا تو معلوم ہو اکہ ہم کتنی بڑی دولت سے محروم تھے۔ہر روز مختلف ممالک نہایت قیمتی پروگرام نشر کرتے ہیں۔ان کو سننے سے زبردست فکری اورمعلوماتی فائدے ہوتے ہیں۔مگر اس علمی خزانہ سے مستفید ہونا ہمارے لیے اس وقت تک ممکن نہ ہوسکاجب  تک کہ ہم نے بڑاریڈیوسٹ اپنے لیے حاصل نہ کیا۔

خدا اوربندے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔خدا کا فیضان گویا ایک لامحدود نشرگاہ ہے۔اس سے ہر لمحہ رزق رب کا مینھ برستارہتا ہے۔مگر آپ اس سے کتنا پائیں ،اس کا انحصا ر آپ کے اپنے ’’ریڈیوسٹ ‘‘پر ہے۔اگر آپ کا ریڈیوسٹ چھوٹا ہے تو آپ بہت کم چیزیں اخذ کرسکیں گے اوراگر آپ کاریڈیوسٹ بڑاہے تو آپ کے اوپر اتنا زیادہ خدا کا فیضان برسے گاگویا کہ آپ خدائی فیضان کے اتھاہ سمندرمیں نہا اٹھے ہیں۔

آج کل ہر آدمی محدود یت کا شکار ہے۔کوئی شخص ہے جو کسی گروہی خول میں بند ہے۔کوئی اپنے آپ کو حقیر مفادات میں اس طرح گم کیے ہوئے ہے کہ اس کو آگے پیچھے کی کوئی خبر نہیں۔کسی کی سطحیت اس کو گہری حقیقتوں کا ادارک کرنے میں مانع بنی ہوئی ہے کسی کی تنگ نظری نے اس کو اس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ وسیع تر دائرہ کی معرفت حاصل کرسکے۔

بند کو ٹھری میں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔اسی طرح بندذہن خدا کا فیضان پانے سے محروم رہتاہے۔خدا کا فیضان اسی کو ملتا ہے جو اپنے ذہن کے دروازے کھولنے پر راضی ہوجائے۔

خدا اورفطرت

 

دینِ فطرت

اگر ایک آدمی کو سمندر میں سفر کرنا ہوتو وہ ایسا نہیں کرتا کہ جس طرح سے وہ خشک زمین پرچلتاہے اسی طرح وہ اپنے پیروں پر چلتا ہوا سمندرمیں داخل ہوجائے۔بلکہ اس وقت وہ ایک کشتی تیار کرتا ہے اورکشتی میں بیٹھ کر سمندرمیں اپنا سفرجاری کرتاہے۔

جب ایک آدمی ایسا کرتا ہے تو وہ گویا اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں ہے جس کے خود اپنے قوانین ہیں۔وہ مجبور ہے کہ خد اکی اس خارجی دنیا سے کامل مطابقت کرے۔آدمی اگر دنیا کو اپنی بنائی ہوئی دنیا سمجھتا تو وہ سمندرمیں بھی اسی طرح چلنے لگتا جس طرح وہ خشکی پر چلتا ہے۔

عالم فطرت سے مطابقت کا یہ طریقہ تمام انسان اپنی زندگی کے ’’50فی صد‘‘حصہ میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہ اس سے ذرابھی انحراف نہیں کرتے۔مگر زندگی کے بقیہ ’’50فیصد‘‘حصہ میں وہ اِس کو چھوڑے ہوئے ہیں۔اسلام اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دعوت دیتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوسرے نصف حصہ میں اسی طریقہ کو اختیار کر لے جس کو وہ اپنی زندگی کے پہلے نصف حصہ میں عملاً اختیار کیے ہوئے ہے۔

انسان کی زندگی کا ایک پہلو طبیعی ہے اوردوسراپہلواخلاقی۔انسان زندگی کے طبیعی پہلو میں اسی طرح خدا کا مطیع ہے جس طرح بقیہ چیزیں خدا کی پوری طرح مطیع ہیں۔مگر اپنی زندگی کے اخلاقی پہلو میں وہ خد اکے حکم کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلتا ہے ،وہ اطاعت کے بجائے بغاوت کاطریقہ اختیار کرتاہے۔اسلام کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے اس تضاد کو ختم کردے۔وہ صدفی صد خد اکا مطیع وفرماں برداربن جائے۔

مادی دنیا میں قانون فطرت سے انحراف کا نتیجہ چوں کہ فوراً سامنے آجاتا ہے اس لیے آدمی مادی پہلو ئوں میں اس سے انحراف نہیں کرتا۔مگر اخلاقی دنیا میں اس کے حقیقی نتائج فوراً نہیں نکلتے اس لیے یہاں آدمی خلاف ورزی کرتاہے۔

ایک کسان فصل بونے کے وقت قانون زراعت کی پیروی نہ کرے تو فصل کاٹنے کے دن وہ محروم ہوکر رہ جاتا ہے۔اسی طرح موجودہ دنیا میں جو آدمی اخلاقی قوانین کی پیروی نہ کرے اس کے حصہ میںآخرت کے دن محرومی اورشرمندگی کے سواکچھ نہ آئے گا۔

کائنات کی معنویت

آرتھر کوئسلر (1905-1983)نے البرٹ آئن سٹائن(1879-1955) کاایک قول نقل کیا ہے۔اس نے کہا ’’میں یہ مانتا ہوں کہ سائنسی تحقیق میں سب سے زیادہ طاقتور اورسب سے زیادہ اعلیٰ محرک جو چیز ہوتی ہے وہ کائناتی مذہبیت ہے۔ایک معاصر سائنسی داں نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہمارے موجودہ مادی دورمیں بھی سنجیدہ علمی تحقیق کرنے والا وہی شخص ہوسکتاہے جو گہرامذہبی آدمی ہو‘‘(ٹائمس آف انڈیا، 5اکتوبر1980)۔

I maintain that cosmic religiousness is the strongest and most noble driving force of scientific research. A contemporary has said, not unrightly, that the serious research scholar in our generally materialistic age is the only deeply religious human being.

Einstein as quoted by Koestler in Janus.

مذکورہ قول میں مذہبی ہونے کا مطلب ان دیکھی معنویت پریقین کرنا ہے۔سائنس داں جب اپنی تلاش میں نکلتا ہے تو اس وقت جو چیز اس کی رہنمابنتی ہے وہ اس کے اندر چھپا ہواعقیدہ ہوتا ہے کہ کائنات میں وحدت اورمعنویت ہے۔اگر وہ اس یقین سے خالی ہوتو کبھی وہ اپنی تلاش میں سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔

گویا با عتبارحقیقت ایک سائنس داں اورایک مذہبی انسان میں کوئی فرق نہیں۔ ایک مذہبی انسان کچھ اعمال کرتا ہے۔ان اعمال کا مقصد خدا کو خوش کرنا یا آخرت کی دنیا میں اس کا انعام پاناہے۔مذہبی انسان خدا کو نہیں دیکھتااورنہ آخرت کو۔مگر وہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے عمل میں مشغول رہتا ہے۔ اس انہماک کی وجہ نہ دکھائی دینے والی حقیقتوں پر اس کا کامل عقیدہ ہے۔ٹھیک یہی معاملہ سائنسداں کا ہے۔وہ ساری عمر کسی حقیقت کی جستجوکرتا ہے۔یہ حقیقت نامعلوم دنیا میںچھپی ہوئی ہے۔تاہم سائنس داں پیشگی طور پر یہ یقین قائم کرلیتا ہے کہ جو چیز وہ چاہتا ہے وہ کائنات کے اندر چھپی ہوئی موجود ہے۔ اگرچہ ابھی تک وہ اس کے علم میں نہیں آئی۔

مذہب کی اصل کائنات کا معنویت پر یقین کرنا ہے۔ایسی معنویت جو بظاہر ہم کو اپنی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی۔سائنسی کھوج کی نوعیت بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہی ہے۔اس دنیا میں ایک سائنس داں بھی ٹھیک اسی مقام پر کھڑاہواہے جہاں ایک مذہبی انسان  —اس دنیا میں تمام اعلیٰ حقیقتیں چھپی ہوئی حقیقتیں ہیں۔اس لیے وہ شخص زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کسی اعلیٰ تحقیقی کام میں مصروف ہوگا جو چھپی ہوئی حقیقت پر یقین رکھنے والا ہو۔

انسان کی بے چارگی

بنگلہ دیش بے شمار چھوٹے چھوٹے جزائر کا مجموعہ ہے۔یہاں اکثر شدید طوفان آتے ہیں اورانسانی آبادیوں کو غیر معمولی نقصان پہنچاتے ہیں۔اب تک کے ریکارڈ کے مطابق 1876ء میں یہاں سخت ترین طوفان آیا جس میں تقریباً تین لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ دیگر نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

مئی 1985 میں یہاں پھر طوفان آیا۔طوفانی ہوائیں 150کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تقریباً ایک ہزار جزیروں کے علاقہ میں داخل ہوگئیں۔دوسری طرف سمندر کی چارمیٹر سے بھی زیادہ اونچی لہروں نے جزائر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔تقریباً ایک لاکھ انسان اس کے آگے بے بس ہوکر ہلاک ہوگئے۔سیکڑوں بستیاں تنکوں کی طرح طوفانی لہروں میں بہہ گئیں۔ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنا عینی مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کیا:

Urir Char....looks like it has been bombed relentlessly. Not a single structure, save the concrete forest office stands erect. In fact, so fierce has been the force of the gale and tidal waves that not only the houses, but even the building materials were washed away, leaving behind just mounds.                                            

ایک انگریز ی اخبار (29مئی 1985)نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مہلک طوفان جو قدرت کے غصہ کے سامنے انسان کی بے چارگی کو بے نقاب کرتاہے :

—murderous cyclones which expose man's helplessness before nature's fury.

حادثات انسان کوحقیقت واقعہ کی یاد دلاتے ہیں۔وہ خداکی قدرت اورانسان کے عجزکا واقعاتی اعلان ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ خدا کل کے دن انسان کو پکڑے گا جس طرح آج اس نے انسان کو پکڑاہے۔موجودہ عارضی دنیا میں انسان اپنے عجزکو بھگتتا ہے۔کیسا عجیب ہوگا انسان کا حال اگروہ آخرت کی ابدی دنیا میں اپنے گنا ہ کو بھگتے۔

انسان کی تلاش

فلپ جان بائر(1717-1781)امریکاکا ایک بڑاتاجر تھا۔وہ کویکر اسٹیٹ ریفائننگ کمپنی (Quaker State Refining Co.)کا بانی تھا۔اس کے یہاں صرف ایک لڑکا تھا۔ لڑکا مراتواس نے بھی صرف ایک لڑکی چھوڑی جس کانام الینررٹشی (Eleanor Ritchey) تھا۔

الینررٹشی کے پاس بے پناہ دولت تھی مگر وہ انسانوں سے اس قدر متنفرتھی کہ اس نے شادی نہیں کی اورتمام عمراکیلی رہی۔14اکتوبر1968ء کو اس کا انتقال ہواتواس کی عمر 58سال تھی۔انسانوں سے بے رغبت ہوکر اس نے اپنی دل چپسی کے لیے عجیب وغریب عادتیں بنارکھی تھیں۔مثلاً وہ کثرت سے جوتے خریدتی۔مگر ہر جوتے کو وہ صرف ایک بارپہنتی تھی۔چنانچہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر میں 1706جوڑے جوتے موجود تھے۔اسی طرح اس کے گھر میں اسٹیشنری کے 1344بکس پائے گئے۔وغیرہ

اس کی سب سے عجیب دل چسپی کتے تھے۔وہ جب اپنی کارسے باہر نکلتی اورکوئی آوارہ کتا اس کو نظر آتا تو وہ پکڑواکر اس کو اپنے گھر لاتی اوران کو خصوصی اہتمام سے پالتی۔اس طرح اس کے یہاں 150کتے جمع ہوگئے۔اس کا گھر کتوںکی اس فوج کے لیے ناکافی معلوم ہواتواس نے اولاً بارہ ایکڑاوراس کے بعد180 ایکڑ زمین صرف اس لیے خریدی کہ وہاں کتوں کو خصوصی اہتمام کے ساتھ رکھنے کا انتظام کیا جاسکے۔

الینر رٹشی نے موت سے پہلے ایک وصیت نامہ تیار کرایا۔اس وصیت میں اس نے لکھا کہ میری دولت میرے پالتو کتوں کے لیے وقف ہے۔جب ایک ایک کرکے تمام کتے مرجائیں تو میری پوری دولت الباما (امریکا)کے مدرسہ حیوانات (School of Veterinary Science)کودے دی جائے۔

اب اس کے کتوں میں صرف آخری کتارہ گیا ہے جس کانام مسکٹیر (Musketeer) ہے۔یہ 23سالہ کتا اتنا کمزورہوچکا ہے کہ جب وہ چلتاہے تو اس کا پائوں کا نپتا ہے اورجب وہ چھینکتاہے توزمین پر گر پڑتا ہے۔یقینی طورپر وہ بہت جلد مرجائے گا۔اس کے بعد مذکورہ مدرسہ حیوانات کو بارہ ملین ڈالر کی رقم اچانک حاصل ہوجائے گی(ٹائمس آف انڈیا، 2جنوری1984)۔

آدمی کو اگر آئڈیل انسان نہ ملے تواس کو آئیڈل نظریہ تلاش کرنا چاہیے۔الینررٹشی اگر ایسا نظریہ پالیتی تو انسان اس کے لیے محبت کا موضوع بن جاتا نہ کہ نفرت کا موضوع۔

انسان کی کمائی

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ (46:20)يعني،اورجس دن انکار کرنے والے لوگ آگ کے سامنے لائے جائیں گے۔تم اپنی اچھی چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے اوران کو برت چکے تو آج تم ذلت کا عذاب بدلے میں پائو گے ا س وجہ سے کہ تم دنیا میں ناحق گھمنڈ کرتے تھے اوراس وجہ سے کہ تم نافرمانی کرتے تھے۔

دنیا میں آدمی کو جواسباب ملتے ہیں۔مثلاً جسمانی طاقت ،ذہانت ،مال۔عہدہ،وسائل اورمواقع یہ سب خدا کی طرف سے ہوتے ہیں۔وہ اس لیے دئے جاتے ہیں کہ ان سے آدمی اپنے لیے کمائی کرے۔

اس کمائی سے مرادنفسیاتی کمائی ہے اوراس کی دوقسمیں ہیں ایک وہ جس کوآیت میں کبراورفسق کہا گیا ہے۔دوسری کمائی وہ ہے جواس کے برعکس ہے۔یعنی تواضع اور شکر۔آدمی اگر ان اسباب کو پاکر گھمنڈ میں مبتلا ہوجائے۔وہ ان کو ذاتی برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے۔وہ ان کو شہرت اورلیڈری حاصل کرنے کاذریعہ بنائے۔ توگویاکہ اس نے اپنے مواقع کو ضائع کردیا۔اس کو جوسامانِ عمل دیاگیا تھا ،اس کا انجام اس نے اسی آج کی دنیا میں لے لیا۔ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں بربادی کے سوااورکچھ نہیں۔

دوسرا آدمی وہ ہے جس کو اسباب حیات ملے تواس نے ان کو خدائی چیز سمجھ کر اپنے عجز کا اقرارکیا۔اس نے ان کو خدا کا عطیہ مان کر خدا کا شکر اداکیا۔اس نے ان اسباب کو اپنی ذات کے راستہ میں استعمال کرنے کے بجائے خداکے راستہ میں استعمال کیا۔یہ شخص وہ ہے جس نے ان مواقع کے ذریعہ آگے کا ذخیرہ فراہم کیا۔اس نے اپنے دینوی سامان کے ذریعہ آخرت کی کمائی کی۔ایسا شخص موت کے بعد اپنے بہترین ذخیرہ کو پائے گا۔اس کی کمائی جنت کے ابدی باغوں کی صورت میں اُس کی طرف لوٹادی جائے گی  —موجودہ زندگی میں ہرآدمی کو یکساں طور پر مواقع دیے گئے ہیں۔کوئی ان مواقع سے طیّبات دنیا کمارہاہے اورکوئی طیباتِ آخرت۔

کچھ سے کچھ

دیوی سنگھ ایک مشہور ڈاکوتھاجوجنوری 1984ء میںپولیس کے ساتھ ایک مقابلہ میں ماراگیا۔مِسز امرت پریتم کی ایک اتفاقی ملاقات مذکورہ ڈاکو سے سیوراگائوںمیں ہوئی۔ اس موقع پر دونوں کے درمیان جوبات چیت ہوئی اس کی دل چسپ رودادہندستان ٹائمس (22جنوری1984)میں شائع ہوئی ہے۔

دیوی سنگھ نے بتایا کہ میں نے اب تک تقریباً ایک سوڈاکے ڈالے ہیں۔ہم لوگ ڈاکو نہیں ہیں بلکہ حکومت کے باغی ہیں۔ہم مال لوٹتے ہیں مگرہم نے آج تک کسی لڑکی کی عصمت نہیں لوٹی۔ ہماراایک سخت قسم کا اخلاقی اصول ہے۔ہماراکوئی آدمی اس کے خلاف کرے توہم فوراًاس کوگولی ماردیتے ہیں۔

امرت پریتم نے کہا کہ دیوی سنگھ جی ،یہ بتائیے کہ آپ کی ٹولی (گینگ )میں کل کتنے آدمی ہیں ،دیوی سنگھ نے کہا کہ سات آدمی ، اور آٹھواں خدا:

Seven   men, and   the   eighth God.

بظاہر یہ جملہ ،معمولی فرق کے ساتھ ،قرآن کی اس آیت کا ترجمہ معلوم ہوتاہے جس میں کہا گیاہے کہ تم میں سے پانچ آدمی جہاں ہوتے ہیں وہاں چھٹاخداہوتاہے (المجادلہ، 58:7) پھر کیا ڈاکوکی بات انہیںمعنوں میں ہے جن معنوں میں وہ قرآن میں آئی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔دونوں کے درمیان لفظی مشابہت کے سواکوئی اورچیز مشترک نہیں۔

ڈاکونے کس معنی میں یہ بات کہی ،وہ خود مذکورہ انٹرویو میں موجود ہے۔اس نے کہا کہ ہم لوگ ڈاکہ کے ذریعہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں اس کو ہم ٹولی کے درمیان بانٹتے ہیں۔مثال کے طور پرمیری ٹولی میں سات افراد ہیں تو ہم لوٹے ہوئے مال کے آٹھ حصے بناتے ہیں۔سات حصے اپنے افراد کے لیے اورایک حصہ خدا کے لیے۔خدا کا جو حصہ ہے اس کو ہم کسی غریب کو دیدیتے ہیں۔آمدنی کا ایک حصہ مذہب کے نام پر خداکو دینا یہ تمام ڈاکوئوں کا طریقہ ہے۔

قرآن کا خدا خوف پیدا کرتاہے اورڈاکوئوں کا خدابے خوفی۔خدااس لیے تھا کہ وہ آدمی کو ڈاکہ بازی سے روکے۔مگر ڈاکوئوں نے خداکا حصہ لگا کر اس کو اپنے ڈاکہ کا چوکیدار بنایا لیا۔گویا جب وہ سات مل کر ڈاکہ ڈالیں تو خداان کا آٹھواں بن کر ان کی حفاظت کے لیے موجودرہے۔

محرومی

فرانس میں سحرونجوم تیزی سے پھیل رہے ہیں۔اندازہ کیا گیا ہے کہ 1984ء میں فرانس کے جن شہریوں نے ساحروں اورجوتشیوں سے رجوع کیا ان کی تعداد تقریباًآٹھ ملین ہے۔یعنی فرانس کے ہر چارآدمیوں میں سے ایک آدمی۔

فرانس میں جو تش اوررغیب دانی باقاعدہ تجارتی پیشہ بن گئے ہیں۔چنانچہ ٹیکس کے محکمہ کے مطابق پچاس ہزار افراد باقاعدہ محکمہ ٹیکس میں اس اعتبار سے رجسٹرڈ ہیں۔یہ تعداد فرانس میں پادریوں یاڈاکٹروں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ان لوگوں کی آمدنی 500ملین سے لے کر600ملین ڈالر سالانہ تک ہوتی ہے۔

اے ایف پی نے پیرس سے رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ

With the deepening economic recession, more and more people are turning to the occult for relief for their physical and psychological ailments.             

گہرے اقتصادی بحران کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی جسمانی اورنفسیاتی بیماریوں کے لیے غیب دانوں سے رجوع کررہے ہیں (ٹائمس آف انڈیا5مارچ 1985)۔

انسان کو بار باریہ تجربہ ہوتاہے کہ ظاہری مادی اسباب اس کا سہارابننے کے لیے ناکافی ہیں۔وہ معلوم اسباب سے مایوس ہوکر نامعلوم اسباب کی طرف دوڑتاہے۔مگر نامعلوم اسباب کی تلاش میں کسی انسان کا سہاراپکڑنا سراسربے حقیقت ہے۔یہ ایسی چیز کا سہاراپکڑنا ہے جس کے اندر سہارابننے کی طاقت نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کا سہاراصرف ایک ہے۔اوروہ خداہے۔مادی اسباب کی بے مایگی اس لیے تھی کہ آدمی خدا کی طرف رجوع کرے۔مگر مادی اسباب کے عجزکا تجربہ اس کو ایک اورعاجز کی طرف متوجہ کردیتاہے۔حقیقت کا سراغ پانے کے بعد آدمی دوبارہ حقیقت کو کھو دیتاہے۔

یہ بھی ممکن ہے

بیٹے نے اپنے ننھے ہاتھوں سے ماں کو مارا۔ماں نے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔اس کا مطلب کیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک معاملہ جو بظاہر مارکا معاملہ تھا اس کو ماں نے محبت کا معاملہ بنادیا۔اس نے ’’برائی ‘‘کو’’بھلائی ‘‘کے خانہ میں ڈال دیا۔ اس نے ایک قابل سزاچیز کو قابل انعام قراردے دیا۔یہ واقعہ جوہر گھر میں گزرتاہے ،یہ خدا کی صفات کمال میں سے ایک صفت کی ہلکی سے جھلک ہے جو ماں کے رویہ کی صورت میں دکھائی گئی ہے۔یہ خدا کی ایک نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ خدانے اپنی رحمتوں کے کیسے عجیب نمونے اس دنیا میں بکھیر دیے ہیں۔شفقت کی یہ انوکھی قسم جو ماں کے اندر پائی جاتی ہے اس کو ماں نے خلق نہیں کیاہے۔اس کا خالق اللہ ہے۔پھر جو اس کا خالق ہے اس کے اندر یہ صفت کمال درجہ میںپائی جانی چاہیے۔

آدمی غیب کو نہیں جانتا ‘اس بنا پر اس کو دنیا کی زندگی میں طرح طرح کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس کی قوت ارادی کمزورہے ‘اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سطحی جذبہ سے مغلوب ہوجاتا ہے اوربڑی بڑی غلطیاں کر بیٹھتا ہے۔آدمی کے وسائل محدود ہیں،اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ باہر کے اسباب وعوامل پر وہ قابو نہیں پاتا اورشکست کھا جاتاہے۔اس قسم کی چیزوں نے دنیا میں انسان کی زندگی کو ایک المیہ بنا دیاہے۔زمین پر چلنے والا ہر آدمی خواہ وہ کوٹھی میں ہویا جھونپڑی میں،اس احساس میں مبتلا رہتاہے کہ وہ ایک ناکام انسان ہے ، وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا اس کو وہ حاصل نہ کرسکا۔یہاں کا ہر انسان ایک مایوس انسان ہے ، خواہ بظاہر وہ فربہ جسم اورہنستے ہوئے چہرہ کے ساتھ کیوں نہ دکھائی دیتاہو۔

کیا اس المیہ کو طربیہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔کیایہ ممکن ہے کہ زندگی کی منزل پر ہم اس حال میں پہنچیں کہ ہماری ناکامیاں کامیابیوں کی صورت اختیار کرچکی ہوں ،ہمارے قصور کو انعام کے خانہ میں ڈال دیا گیا ہو،ماں کی زندگی میں خدانے اپنی صفات کی جو ایک جھلک دکھائی ہے وہ اسی سوال کا ایک مثبت جواب ہے۔خدااپنے بندوں کے لیے اس سے زیادہ بڑے پیمانہ پر اس واقعہ کو رونما کرسکتاہے جوماں اپنے بچہ کے لیے بہت چھوٹے پیمانہ پر ظاہر کرتی ہے۔ماں کے رویہ کی صورت میں خدا نے دنیا میں جونشانی قائم کی ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ مانگنے والے کو یہ انعام بھی دیتاہے کہ  — وہ اس کے ’’نہیں ‘‘کو ’’ہے ‘‘میں تبدیل کردے۔مگر ایسا انعام صرف اس شخص کے لیے مقدر ہے جو خدا کواپنی ’’ماں‘‘کادرجہ دے کر اپنے آپ کو اس کا ’’بیٹا‘‘بناچکاہو۔

عجزکی تلافی

خدا قادرمطلق ہے اورانسان عاجزمطلق۔خدا اورانسان کے درمیان جوتقسیم ہے وہ زیادہ اختیار اور کم اختیار کی نہیں ہے بلکہ اختیار اوربے اختیار ی کی ہے۔یہاں سارااختیار خداکی طرف ہے اورساری بے اختیاری انسان کی طرف۔

ایک شخص کہہ سکتاہے کہ ایسی تخلیق کا کیا جو از ہے جس میں انسان کو حقیقی طورپر کچھ دیا ہی نہ گیا ہو۔خدا کے لیے کیوں کر جائز تھا وہ ایسے انسان پیدا کرے جو سراسر عاجز ہوں ، جن کو نہ اپنے آپ پر کوئی اختیار حاصل ہواورنہ اپنے سے باہر کی دنیا پر۔

اس سوال کا صحیح جواب صرف وہ ہوسکتا ہے جس میں انسان کے عجز کی کامل تلافی موجودہو۔کامل تلافی سے کم کوئی چیز اس سوال کا حقیقی جواب نہیں بن سکتی۔کامل تلافی کا مطلب یہ ہے کہ جو جواب دیا جائے اسی سطح پر ہو جو سوال کی سطح ہے۔یعنی انسان کا عجز بذات خود اس کی بے اختیاری کی تلافی ہوجائے۔

اس سوال کا جواب قرآن میں اورپیغمبر کی تعلیمات میں واضح طور پر موجود ہے۔اوروہ خدا کی یہ رحمت خاص ہے کہ اس نے صرف مانگنے کو پانے کے لیے کافی بنادیا ہے۔آدمی اگر حقیقی طورپر خد اسے مانگنے والا بن جائے تو یقینی طورپر وہ اپنے لیے پانے والا بھی بن جائے گا۔ انسان جب ذاتی اقتدار کا مالک نہیں تو وہ دیے ہی سے پاسکتاہے۔چنانچہ خدانے اس کو اپنی طرف سے دے دیا۔حقیقی دعا کے لیے قبولیت کی ضمانت ہونایہی گویا اس کو دے دینا ہے۔

حدیث میں یہی بات ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ  —الدَّعْوَةُ لَا تُرَدُّ  (مسند احمد، حدیث نمبر13357)۔یعنی، بندہ اپنے خدا کو اگر حقیقی طورپر پکارے تو اس کی پکار کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔حضرت مسیح نے اسی بات کوان لفظوں میں فرمایا

مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ڈھونڈوتو پائوگے۔دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولاجائے گا۔کیوں کہ جوکوئی مانگتاہے اسے ملتاہے اورجوڈھونڈتاہے وہ پاتا ہے اورجو کھٹکھٹاتاہے اس کے واسطے کھولاجائے گا۔تم میں ایسا کون ساآدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تووہ اسے پتھر دے دے۔یا اگرمچھلی مانگے تواسے سانپ دے دے۔پس جب کہ تم برے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پرہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا(متی،7:7-11)۔

کائناتی نمونہ

ایمرسن (1803-1882)کا قول ہے کہ فطرت اس اصول پر عمل کرتی ہے کہ  — سب ہر ایک کے لیے اورہر ایک سب کے لیے

Nature works on a method of 'all for each and each for all'.

یہ ایک لفظ میں کائنات کے عمل کی نہایت جامع تعبیر ہے۔کائنات میں بے شمار چیزیں ہیں۔مگر ان کا عمل حد درجہ تو افق کے ساتھ ہوتا ہے۔ان میں سے ہر چیز اس طرح عمل کرتی ہے کہ اس کا عمل دوسری تمام چیزوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔اسی طرح تمام چیزیں اس طرح متحرک ہوتی ہیں کہ ان کی حرکت ہر واحد جزء سے کامل طورپر مطابق رہے۔

یہ گو یا خدا کا ایک نمونہ ہے جو اس نے اپنی دنیا میں قائم کررکھا ہے۔انسان کو بھی اسی نمونہ پر چلنا ہے۔انسانی آبادی میں بھی یہی نظام مطلوب ہے کہ ہر فرد اس طرح زندگی گزارے کہ اس سے دوسروں کو فائدے پہنچے اورمجموعی طور پر پوری انسانیت اس طرح کام کرے کہ اس کا کام فرد کی ترقی اورکامیابی میں معاون بن رہا ہو۔فرد کا عمل جماعت سے ہم آہنگ ہوا اورجماعت کا عمل فرد سے ہم آہنگ۔

کائنات کی صورت میں خدانے ایک زندہ نمونہ قائم کردیا ہے جو ہر صبح وشام لوگوں کو بتارہا ہے کہ وہ کس طرح رہیں اورکس طرح نہ رہیں۔کون سا انسان خدا کے یہاں قابل قبول ٹھہرے گااورکون سا انسان خدا کے یہاں ردکر دیاجائے گا۔

ایک درخت اورکائنات کی مثال لیجیے۔کائنات میں حرارت ہے۔کشش ہے۔ہوا ہے ،پانی ہے۔ان میں سے ہر چیز درخت کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔بیکٹیریا سے لے کر سورج تک تمام چیزیں درخت کے لیے گویا کائناتی دسترخوان ہیں۔ ہر چیز درخت کو عین وہی چیز دے رہی ہے جو اس کی فطرت کے مطابق اسے ملنا چاہیے۔

دوسری طرف ایک درخت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ درخت اس دنیا کی کسی چیز سے ٹکرائے بغیر اپنا ارتقائی سفر طے کرتا ہے۔اس کی لکڑی ،اس کی پتی ،اس کا پھول ،اس کا پھل ،غرض اس کی چیز بقیہ دنیا کے لیے عین کارآمد ہے۔حتیٰ کہ اس کا کاربن لینا اورآکسیجن نکالنا بھی عین خارجی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ہے — جزء اورکل یافرد اوراجتماع کے درمیان یہی کامل مطابقت انسان سے بھی مطلوب ہے۔اس کے سوا انسان کی کامیابی کا کوئی دوسراراستہ نہیں۔

ضمیر کے خلاف

مشہور انگریزمورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975)نے اپنی آخر عمر میں ایک بارکہا کہ فلسطین پر یہودیوں کا بطور تاریخی وطن اپنا حق جتانا ایسا ہی ہے جیسے ریڈ انڈین قبائل  کناڈا کی واپسی کا مطالبہ کریں۔یہودیوں نے نازیوں کے ظلم پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں مگر خود یہودی فلسطینی عربوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کررہے ہیں وہ بالکل اسی قسم کا ہے جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔

ٹائن بی نے اپنا یہ بیان کناڈا میں دیا تھا۔اس وقت کناڈا میں حکومت اسرائیل کے سفیر مسٹر ہرزگ(1921-1972) تھے۔مسٹر ہرزگ نے برطانوی مورخ کو دعوت دی کہ اس مسئلہ پروہ اس سے مباحثہ کریں۔آرنلڈ ٹائن بی نے اس کو قبول کرلیا۔اس کے بعد مانٹریل کی میک گل یونیورسٹی میں ایک تقریب ہوئی جس میں دونوں جمع ہوئے۔ مسٹر ہرزگ نے کہا جرمن نازیوں نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو مارڈالا تھا۔اس کے مقابلہ میں فلسطین میں جو عرب بے گھر ہوئے ہیں ان کی تعداد بہت معمولی ہے۔ان دونوں کو ایک جیسا کس طرح کہا جاسکتاہے۔

آرنلڈ ٹائن بی نے جواب دیا کہ میں نے جب نازیوں اوراسرائیلیوں کے مظالم کو ایک جیسا کہا تھا تواس سے مراد تعداد نہیں بلکہ جرم کی نوعیت تھی۔کسی شخص کے لیے سو فیصد سے زیادہ براہونا ممکن نہیں۔قاتل کہلانے کے لیے ایک شخص کو قتل کردینا کافی ہے۔میں حیران ہوں کہ آپ لوگ میرے الفاظ پر کیوں اس قدر بوکھلا اٹھے ہیں۔میں نے وہی بات کہی ہے جوتم میں سے ہر ایک کا ضمیر کہہ رہاہے۔

جب بھی آدمی کسی سچائی کی تردید کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود اپنی تردید کررہا ہوتا ہے۔سچائی ہمیشہ آدمی کے اپنے دل کی آواز ہوتی ہے مگر آدمی ضد ،تعصب اوراپنی جھوٹی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر اس کو نہیں مانتا ،وہ اپنے انکار کوحق بجانب ثابت کرنے کے لیے ایسے الفاظ بولتا ہے جن کے بارے میں خود اس کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ ان میںکوئی وزن نہیں۔

آدمی کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کا ساتھ نہ دے سکے۔ضد اورتعصب اورمصلحت سے مغلوب ہوکر وہ ایسے رخ پر چلنے لگے جس کے متعلق اس کا اندرونی ضمیر آواز دے رہا ہو کہ وہ صحیح رخ نہیں ہے۔یہ اپنی تردید آپ کرنا ہے۔یہ اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں قتل کرنا ہے۔یہ اپنے مجرم ہونے پر خود گواہ بننا ہے۔

کیسی عجیب ہے یہ محرومی ،مگر جب آدمی کی بے حسی بڑھ جاتی ہے تووہ اپنی محرومی کی ان کارروائیوں کو اپنی فتح سمجھتا ہے۔وہ اپنے کو ہلا ک کررہا ہوتاہے مگر سمجھتا ہے کہ میں اپنے آپ کوزندگی دے رہا ہوں۔

اژدہا بھی

اژدہا کا لفظ سنتے ہی ایک خطرناک جانور کا تصور سامنے آتا ہے۔اژدہے کی بہت سی قسمیں ہیں۔ہندستان کے جنگلوں میں اس خوفناک سانپ کی جوقسم پائی جاتی ہے اس کو ماہرین حیوانات مالورس اژدہا (Python molurus)کہتے ہیں۔اس کی لمبائی 20فٹ ہوتی ہے اوروزن 200پونڈسے زیادہ جب کہ وہ پوراہوجائے۔

تاہم دوسرے وحشی جانوروں کی طرح اژدہا بھی کوئی خطرناک جانور نہیں۔وہ کسی انسان یا کسی جاندار پر صرف دو حالتوں میںوار کرتاہے— جب کہ وہ بہت بھوکا ہو،یااس پر حملہ کیا جائے۔عام حالات میں وہ بالکل بے ضررجانور کی طرح پڑارہتاہے۔ایک ماہرحیوانات نے اژدہے کے طویل مطالعہ کے بعد لکھا ہے :

A python, however large it may be, is nervous by nature and like all other snakes will never attack deliberately nor will it become aggressive unless provoked. It threatens by hissing or disappears if encountered in the wild but does not stand up and fight as one might imagine.

اژدہا ،خواہ کتنا ہی بڑاہو،فطری طورپر وہ عصبی مزاج کا ہے۔وہ دوسرے تمام سانپوں کی طر ح کبھی بالقصد حملہ نہیں کرے گا۔اورنہ کبھی وہ جارح بنے گا۔الاّ یہ کہ اسے مشتعل کردیاجائے۔اگر جنگل میں اس کاسامنا پیش آجائے تووہ آواز نکال کرڈرائے گایاغائب ہوجائے گامگر وہ نہ تو اٹھے گا اورنہ لڑائی کرے گا۔جیسا کہ عام طورپر سمجھا جاتاہے(ہندستان ٹائمس، 19اکتوبر1984)۔

اژدہے کے اندر یہ خصوصیت محض اتفاقاًنہیں۔وہ براہ راست خالق کائنات کا منصوبہ ہے۔ اژدہا فطرت کی ایک خاموش پکار ہے۔وہ عمل کی زبان میں انسان سے کہہ رہا ہے کہ —  اگر تم اژدہا ہوتب بھی کسی کونہ کاٹو۔اگرتم زوراورقوت میں دوسروں سے بڑھ جائو تب بھی دوسروں کو نہ ستائو۔

کیسا عجیب ہے وہ انسان جو ایک ایسی دنیا میں ظلم کرتاہے جہاں شیر اوراژدہے تک کی سطح پر اس کو ظالم نہ بننے کا سبق دیاجارہاہے۔

خدا پر ستی

موجودہ دنیا میں زندگی گزارنے کی دو قسمیں ہیں ایک خودرخی(self-oriented) زندگی۔ دوسری خدا رخی (God- oriented)زندگی۔

آدمی یاتو خود پرست ہوگا یا خدا پرست۔اس کا مرکز ومحور اپنی ذات ہوگی یاخداکی ذات۔وہ یا تو اپنے رخ پر دوڑے گا یاخداکے رخ پر۔زندگی کے بس یہی  دوطریقے ہیں۔ ان کے سوازندگی کا کوئی تیسراطریقہ نہیں۔

خود رخی زندگی وہ ہے جس میں آدمی کی توجہ کا مرکز صرف اس کی اپنی ذات ہو۔وہ بس اپنے آپ میں جئے۔وہ اپنے وسائل کو اپنی ذات کی تکمیل میں خرچ کرے۔فلسفیانہ زبان میں اس طرزِ فکر کانام ذاتی طرزفکر (Self-centred thinking)ہے۔اوراخلاقی زبان میں اِس کو خودغرضی ، بے اصولی ، خواہش پرستی اور مفاد پسندی کہا جاتا ہے۔ ایسا آدمی بظاہر انسان ہوتا ہے۔مگر اندر سے حیوان کی مانند ہوتاہے۔اس کے جینے کی سطح اورحیوانات کے جینے کی سطح میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

خدا رخی زندگی وہ ہے جس میں آدمی کی توجہات کامرکز صرف ایک خداہو۔خداکو وہ ایک ایسے بڑے کی حیثیت سے پالے جس کے بعداپنی ذات سمیت ہر چیز اس کی نظر میں چھوٹی ہو جائے ۔اس کو یاد آئے تو خداکی یاد آئے۔اس کو امید ہوتوخداسے امیدہو۔ اس کوڈرہوتو صرف خداکاڈرہو۔خداکی ذات اس کی نظر میں سب کچھ ہواوراپنی ذات اس کی نظر میں بے کچھ۔

یہی دوسراانسان خداپر ست انسان ہے۔وہ ایک حقیقت پسند انسان ہے کیوں کہ اس نے وہ روش اختیار کی ہے جوکائنات کے مجموعی نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔اس نے اس صحیح راستہ کو پالیا ہے جس پر چلنے والا اس حقیقی منزل تک پہنچ جاتا ہے جس کے سواخداکی اس کائنات میں دوسری کوئی منزل نہیں۔

انسان کی منزل خداہے۔اس سے کمتر کوئی چیز انسان کی منزل نہیں ہوسکتی۔

زندگی کا مسئلہ

برازیل جنوبی امریکاکا ایک ملک ہے جواٹلانٹک سمندرکے کنارے واقع ہے۔ اس کی آبادی 119ملین ہے جس میں زیادہ تررومن کیتھو لک ہیں۔برازیل میں 1964سے فوجی حکومت قائم تھی۔فوجی حکومت کے خلاف جن جمہوریت پسند لیڈروں نے تحریک چلائی ان میں ایک ممتازنام ٹینکر یڈنویس (1910-1985) کاتھا۔مسٹرنویس نے بے شمار مصیبتیں اٹھائیں۔21سال کی پر مشقت جدوجہد کے بعد بالآخر وہ ملک کے عوام کو حکومت کے خلاف منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔فوجی حکمراں مجبور ہوگئے کہ ملک میں عام انتخابات کرائیں۔

جنوری 1985ء میں الیکشن ہوا۔اس ا یکشن میں مسٹر نویس بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ اخبارات اورریڈیو نے ان کی کامیابی کا شاندارتذکرہ کیا۔ایک اخبار نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ  —ان کی جیت ایک شخص کے تقریباً پچاس سالہ سیاسی کردارکی تکمیل ہے :

His victory capped a political career spanning nearly 50 Years.

15مارچ 1985ء کو مسٹر نویس کی حلف برداری کی رسم صدارتی محل میں اد اکی جانے والی تھی کہ عین اس روز چند گھنٹہ پہلے وہ سخت بیمار پڑگئے۔انہیںفوری اسپتال لے جایا گیا۔ ملک کے سب سے بہتر اسپتال میں وہ ایک مہینہ تک ماہر ڈاکٹر وں کی نگرانی میں رہے۔ اس مدت میں ان کاسات بار آپریشن کیا گیا۔مگر ساری کوشش ناکام ہوگئی۔ 21 اپریل 1985ء کو مسٹر نویس کا انتقال ہوگیا۔اس وقت ان کی عمر 75سال تھی۔

کیسا عجیب ہے انسان کا یہ انجام کہ وہ کوشش کرتا ہے مگر وہ اس کا پھل نہیں پاتا۔اس کے لیے فتح کاتاج تیار کیاجاتاہے مگر اس کے لیے ممکن نہیں ہوتاکہ وہ اس کو اپنے سرکی زینت بنائے۔اس کی کوششوں کی تکمیل اس کی بربادیوں کی تکمیل بن جاتی ہے۔

اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ دنیاصرف عمل کرنے کی جگہ ہے۔وہ پانے کی جگہ نہیں۔پانے کی جگہ کوئی اورہے جو اس کے ماورا ہے۔

زلزلہ درکار ہے

خدا کی جنت جتنی نفیس ہے اتنی ہی بڑی قیمت اس کی ادا کر نی پڑتی ہے۔جنت صرف ان حوصلہ مندوں کے لیے ہے جو بھونچال کی قیمت پر اس کو حاصل کرنے کے لیے راضی ہوجائیں۔جنت کو پانے کے لیے آدمی کو ایسے کٹھن مرحلہ سے گزرنا ہوتاہے جس کوانسانی زبان میںصرف زلزلہ سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔

جو آدمی آخرت کی ابدی جنت کا طالب ہواس کو سب سے پہلے اپنی ذات کے اندر زلزلہ لاناہے۔جس طرح ایٹم کے مجموعہ میں بے پناہ طاقت چھپی ہوتی ہے۔مگر یہ طاقت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کہ ایٹم کو توڑا جائے۔یہی معاملہ انسان کا ہے۔ہر آدمی کے اندر ایک عظیم ربانی انسان چھپا ہواہے۔موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کااصل کام یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انفجار برپاکرے۔تاکہ اس کے اندر چھپا ہواربانی انسان باہر آسکے۔

ہر آدمی اصلاً فطرت خداوندی پر پیداہوتاہے۔مگر ماحول ،روایات ،خواہشات اور اس طرح کے دوسرے اسباب اس کے اوپر تہ بہ تہ پردے ڈال دیتے ہیں۔آدمی ایک مصنوعی غلاف میں بند ہوکر رہ جاتاہے۔جس کے تحت وہ سوچتاہے اورجس کے مطابق وہ جیتا ہے۔اسی مصنوعی پردہ کو پھاڑنے میں انسان کی تمام ترقیوں کا راز چھپا ہواہے۔اپنے ذہنی سانچہ کو توڑنا بلا شبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔مگر اسی مشکل ترین کام میں خدانے تمام انسانی سعادتوں کارازچھپا دیاہے۔

قرآن کے الفاظ میں انسان جب اپنے شاکلہ کو توڑتاہے تو اس کاشاکلہ خد اکے شاکلہ کے ہم سطح ہوجاتاہے۔اس کی ربانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔وہ براہ راست خدائی فیضان کی زدمیں آجاتاہے۔وہ محدودیت کی دنیا سے نکل کر ابدیت کی دنیا میں داخل ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ خدائی سوچ بن جاتی ہے۔اس کا اخلاق خدائی اخلاق کے ہم رنگ ہوجاتاہے ،جس طرح بیج کے اندر ایک شاداب درخت چھپاہواہے۔مگر یہ درخت اسی وقت ظہور میں آتاہے جب کہ بیج ٹوٹے اوراپنے کو فنا کرنے کے لیے تیار ہو۔اسی طرح ہر آدمی کے اندر ایک ربانی انسان چھپاہواہے جو جنت کی حسین دنیا کا باسی بن سکے۔مگر اس چھپے ہوئے انسان کا وقوع میں آنا اسی وقت ممکن ہوتاہے جب کہ انسان اپنے اندر ایک زلزلہ پیداکرنے کے لیے تیار ہو۔وہ مصلحتیں اورمحبوبات جن کو بچانے کے لیے آدمی اپنا سب کچھ لگادیتاہے انہیںمصلحتوں اورمحبوبات کا ٹوٹنا جنت کے دروازہ کا کھلنا ہے۔مگر اکثر لوگ اس کو نہیں جانتے۔

خدا کی معرفت

 

خدا کی یافت

قرآن میں ارشاد ہواہے کہ— ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔حالانکہ قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اورآسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔وہ پاک اوربرترہے اس شرک سے جو لوگ کرتے ہیں (39:67)۔

اس سلسلے میں ایک حدیث مختلف روایات میں مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز منبر پر سورہ زمر کی مذکورہ آیت پڑھی:

 وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَكَذَا بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا يُقْبِلُ بِهَا وَيُدْبِرُ يُمَجِّدُ الرَّبُّ نَفْسَهُ أَنَا الْجَبَّارُ أَنَا الْمُتَكَبِّرُ أَنَا الْمَلِكُ أَنَا الْعَزِيزُ أَنَا الْكَرِيمُ فَرَجَفَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرُ حَتَّى قُلْنَا لَيَخِرَّنَّ بِهِ (مسند احمد، حدیث نمبر 5414)۔یعنی،اوررسول اللہ اپنے ہاتھ کو حرکت دے رہے تھے اور آگے پیچھے ہورہے تھے۔اللہ اپنی بزرگی بیان کرے گا۔اورکہے گامیں جبّا رہوں۔میں متکبرہوں،میں بادشاہ ہوں، میں عزیز وکریم ہو ں۔ کہاںہیں زمین کے بادشاہ یہ کہتے ہوئے رسول اللہ پر لرزہ طاری ہوگیا حتی کہ ہم نے کہا آپ منبر کے ساتھ گرپڑیں گے۔

جب ایک آدمی خدا کا حقیقی ادراک کرتا ہے توا س کاحال وہی ہوجاتاہے جو اوپر کی مثال میں خدا کے رسول کا نظر آتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خد اکو اس وقت حسی طورپر نہیں دیکھ رہے تھے۔مگر خدا کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ کاجسم ہل گیا۔دیکھنے والوں کو ایسا محسو س ہوا کہ آپ زمین پر گرپڑیں گے۔

اس کانام خدا کی معرفت ہے۔خدا کی معرفت اس مالک کائنات کی معرفت ہے جو سب سے بڑا ہے۔جو سب سے طاقتور ہے۔ایسے خد اکو پانا محض سادہ پانا نہیںہوتا۔وہ آدمی کی پوری شخصیت کو ہلا دیتاہے۔وہ آدمی کے اندر بھونچال کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔خدا کی معرفت خدا کو دیکھے بغیردیکھ لینا ہے۔یہ اس وقت خدا کے سامنے ڈھ پڑنا ہے جب کہ خدا ابھی زمین وآسمان کا پردہ پھاڑکر عیاناً انسان کے سامنے نہیں آیاہے۔

معرفت

ہندوستان کے مشہور سائنس داں ڈاکٹر سی ،وی،رمن (1888-1970)سے کسی نے کہا کہ سائنس دانوں نے جو چیزیں دریافت کی ہیں ان میں ان کا اپنا کوئی خاص کارنامہ نہیں۔یہ دریافتیں زیادہ تر اتفاقات کے نیتجہ میں حاصل ہوئیں۔ڈاکٹر رمن نے جواب دیا’’ہاں،مگر ایسا اتفاق صرف سائنس داںکو پیش آتا ہے‘‘۔

دریافت دراصل ذہنی ترکیز (Concentration of Mind )کی قیمت ہے۔جب آدمی کسی خاص موضوع پر اپنے ذہن کو پوری طرح لگا دیتا ہے تو اس موضوع کے بارے میں اس کو خاص بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔سوتے جاگتے ہر وقت اس کا ذہین اسی کے اندر مشغول رہتا ہے۔اس موضوع کی دنیا سے اس کا بے حد قریب فکر ی رابطہ ہوجاتا ہے۔

سائنسی دریافتیں اکثر اسی قسم کے ترکیز فکر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔جب ایک آدمی کسی چیز سے اتنا زیادہ اپنے کو متعلق کرلیتا ہے تو اس چیز کے بارے میں اس کو خاص پہچان حاصل ہوجاتی ہے۔ذراسا اشارہ دیکھتے ہی وہ اس کی پوری بات کو پکڑ لیتا ہے۔دریافت اکثر حالات میں جزءسے کل تک پہنچنے کا دوسرا نام ہوتی ہے ،اور اس قسم کا پہنچنا ہمیشہ اسی کے لیے ممکن ہوتا ہے جو پہلے سے اس موضوع میں لگا ہوا ہو اور اس کی بابت پوری آگہی رکھتا ہو۔

یہ بات جو سائنسی معرفت کے لیے صحیح ہے۔یہی دینی معرفت کے لیے بھی درست ہے۔خدا بھی آدمی کے لیے ایک دریافت ہے۔مگر یہ دریافت صرف اس شخص کے حصہ میں آتی ہے جس نے اپنے آپ کو خدا میںشامل کر رکھا ہو۔

جب آدمی اپنا ذہن خدا میں لگائے ہوئے ہو۔وہ خدا کی نظر سے دیکھتا ہو اورخدا کے کان سے سنتا ہو۔وہ دوسری تمام باتوں سے اپنی توجہ ہٹا کر خدا کی طرف مائل ہوگیا ہو، جب کوئی شخص اس قسم کی زندگی گزارے تو اس کو باربار وہ اتفاقات پیش آتے ہیں جن کو معرفت کہا جاتا ہے۔دنیا کی چیزوں کا مشاہدہ ،انسانی تاریخ کا مطالعہ ،اپنے حالات پر غور وفکر ہر چیز میں اس کا ذہن باربار حقیقت اعلیٰ کی طرف منتقل ہوتا ہے ،وہ باربار ربانی تجلیات کو پاتا رہتا ہے۔خدا کی معرفت خدا میں جینے کی نقد قیمت ہے۔یہ قیمت اسی کو ملے گی جو خدا میں جی رہا ہو۔جو کسی اورچیز میں جئے وہ خدا کی معرفت کا رزق کبھی نہیں پاسکتا۔

توحید اورشرک

آدمی کو موجو دہ دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ایک سہا را درکار ہے۔ہر آدمی کسی نہ کسی بڑائی میں جیتا ہے۔مومن وہ ہے جو خدا کی بڑائی میں جئے اورغیر مومن وہ ہے جو خدا کے سوا دوسری بڑائیوں میں جیتا ہو۔

قدیم زمانہ کا مشرک انسان چاند اورسورج کی بڑائی میںجیتا تھا۔موجودہ زمانہ کاما دہ پرست انسان مادی قوتوں کی بڑائی میںجی رہا ہے۔کچھ لوگ دولت کو بڑا بنا کر اس کو اپنی تلاش کا جواب بنائے ہوئے ہیں۔کچھ لوگ انسانی اکابر کی بڑائی میں گم رہتے ہیں اوراس طرح اپنے اس فطری جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

یہ تمام کی تمام شرک کی صورتیں ہیں۔یہ ایک حقیقی تلاش کا مصنوعی جواب ہے۔مومن وہ ہے جو فطرت کی تلاش کے سچے جواب کو پالے۔جو ظاہری چیزوں میں نہ اٹکے۔بلکہ ظاہری اور نمائشی چیزوں سے گزرکر آخر ی حقیقت تک پہنچ جائے۔

مومن انسان جب ان چیزوں کو دیکھتا ہے تو وہ ان کی ظاہری چمک سے فریب نہیں کھاتا۔یہ تمام چیزیں اس کو صرف مخلوق نظر آتی ہیں۔وہ اس کو اسی مقام عجز پر دکھائی دیتی ہیں جہاں وہ خود کھڑاہوا ہے۔مومن ان چیزوں میں سے کسی پر نہیں ٹھہرتا۔اس کا سفر جاری رہتا ہے۔یہاں تک کہ وہ خدا تک پہنچ جاتا ہے۔وہ مخلوقات سے گزرکر خالق کو پالیتا ہے۔

مومن وہ ہے جو اپنی تمام چیزوں کو خدا کا عطیہ سمجھے۔جو اپنے عجز کی تلافی خدا سے کرے۔جس کو زمین کے حسن میں خدا کا حسن دکھائی دے۔جس کو کائنات کی عظمت میں خدا کی عظمت نظر آئے۔جو تمام بڑائیوں کو خد اکا عکس سمجھتا ہو۔جو خد اکے جلووں میں اس طرح گم ہوجائے کہ اس کی حمدخوانی اس کا لذیذ ترین مشغلہ بن جائے۔

ایمان کا مطلب دراصل حاضر میں غائب کو دیکھنا ہے۔جو کچھ سامنے ہے اس میں اس چھپی ہوئی چیز کو دیکھ لینا ہے جو سامنے نہیں ہے۔جس کو یہ نظر حاصل ہوجائے اس کو اپنے چاروں طرف صرف خدا کی بڑائی دکھائی دیتی ہے۔وہ صرف خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔وہ خدا کی بڑائی میں اس طرح گم ہوجاتا ہے کہ اس کو نہ اپنی بڑائی نظر آئی اورنہ دوسروں کی بڑائی۔

دریافت

لندن سے ایک کتا ب چھپی ہے جس کا نام ہے دریافت کرنے والے :

The Discoverers: A History of man's Search to Know His World and Himself by Daniel Boorstin, Randon House, p.745

مصنف نے اس کتاب میں دریافتوں کی تاریخ کامطالعہ کیا ہے۔مختلف لوگ جنھوں نے کسی شعبۂ علم میں کوئی نئی چیز یا نیا نظریہ دریافت کیا وہ مصنف کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔مصنف دریافت کرنے والوں کی شخصیت سے اتنا متاثر ہے کہ وہ کہہ اٹھتا ہے کہ میرا ہیر ودریافت کرنے والا انسان ہے :

My hero is Man the Discoverer

یہ صرف مذکورہ مصنف کی بات نہیں بلکہ یہ عام انسانی فطرت کی بات ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’دریافت ‘‘ہر انسان کی محبوب ترین چیز ہے۔جو آدمی کسی نئی چیز کا انکشاف کرے وہ لوگوں کی نظر میں اعلیٰ ترین انسان کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔

حق کا داعی بھی ایک اعتبارسے دریافت کرنے والا (discoverer)ہوتا ہے۔وہ باطل کے مقابلہ میں حق کو دریافت کرتا ہے۔جو چیز لوگوں کومعلوم نہیں ہے اس کو معلوم کرکے لوگوں کے سامنے رکھتا ہے:عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(96:5)۔

دریافت حقیقۃً لوگوں کی چھپی طلب کے جواب کا دوسرا نام ہے۔لوگوں کے دل میں یہ خواہش چھپی ہوئی تھی کہ وہ مواصلات (communications)کے لیے تیز رفتا ر ذریعہ پالیں۔جب ایک شخص نے تیز رفتار ذریعہ سفر دریافت کیا تو گو یا اس نے ہزاروں برس سے لوگوں کی چھپی ہوئی تمنا کو پورا کیا۔اس بنا پر وہ لوگوں کا محبوب بن گیا۔

یہی معاملہ حق کا ہے۔ہر دور میںایسا ہوتا ہے کہ بہت سے خدا کے بندے اس تلا ش میںہوتے ہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔صحیح کیا ہے اورغلط کیا۔اب ایک شخص جو خود بھی اس تلاش سے دوچارتھا وہ حق کو اس کی کامل صورت میں دریافت کرتاہے۔اوراس کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے چھپے ہوئے سوال کا جواب بن جائے۔جب ایسا شخص ظہور میں آتا ہے تو بالکل فطری طور پر وہ ان تمام لوگوں کا ’’ہیرو‘‘قرار پاتا ہے جن کو اس نے تلاش کے دلدل سے نکالا تھا — دریافت کرنے والا شخص لوگوں کی نظر میں ہیرو بن جاتا ہے اور اسی طرح حق کو دریافت کرنے والا بھی۔

سب کچھ عجیب ہے

1957میں روس نے پہلا اسپٹنک (Sputnik) خلا میں بھیجا تھا۔امریکانے 12اپریل 1981کو پہلی خلائی بس (کولمبیا)دو آدمیوں کے ساتھ بھیجی۔وہ اس طرح بنائی گئی ہے کہ تقریباً سو بار خلائی سفر کے لیے استعمال ہوسکتی ہے۔

کولمبیاکا وزن 75ٹن ہے۔اس کے بنانے میں تقریباً دس ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں اوروہ نو سال میں بن کر تیار ہوئی ہے۔کولمبیا اپنے دو مسافروں کو لے کرخلا میں روانہ ہوئی۔اس کی رفتا ر26ہزار میل فی گھنٹہ تھی۔وہ 54گھنٹہ خلا میں رہی۔اس نے زمیں کے گرد 36چکر لگاکر 10لاکھ میل طے کیے اورپھر14اپریل کوواپس آگئی۔واپسی کے وقت مخصوص راڈر اور راکٹوں کے ذریعہ اس کی رفتار کو گھٹا کر 345کیلو میٹر فی گھنٹہ کیا گیا۔ جب وہ ہوائی کرہ میں داخل ہوئی تو ہوا کی رگڑ سے گرم ہو کر سرخ اینٹ کی مانند ہوگئی۔اس وقت اس کا بیرونی درجہ حرارت11500درجہ سنٹی گریڈ تھا۔مگر کولمبیا کے بیرونی سمتوں میں ہر طرف گرمی روکنے والے ٹائل 31ہزار کی تعداد میں لگائے گئے تھے اس کی وجہ سے اس کے اندر کے دونوں مسافر محفوظ رہے۔

کولمبیا کو امریکاکی ریاست کیلی فورنیا کے صحرا میں ایک ہوائی میدان میں اتارا گیا۔وہ صرف10 سکنڈ کے فرق سے اپنے ٹھیک وقت پر اتر گئی۔تقریباً دو لاکھ آدمی اس کے اتر نے کا منظر دیکھنے کے لیے وہاں جمع تھے۔اس کے علاوہ مختلف ملکوں کے کروڑوں آدمیوں نے اس واقعہ کو ٹیلی ویژن پر دیکھا۔کیلی فورنیا کے صحرا میں20ٹرک اورکئی ہوائی جہاز اوردوسرے سامان موجود تھے تاکہ اترنے کے بعد وہ کولمبیا کی ہر ضرورت کو پورا کرسکیں۔کولمبیا راکٹ کی طرح عمودی شکل میں اوپر گئی۔وہ ایک تابع سیارہ کی طرح زمین کے گرد گھومی اورپھر گلائڈ ر(ہوائی جہاز )کی طرح زمین پر اتر آئی۔

کولمبیا کے دو مسافروں میں سے ایک مسٹرجان ینگ (1930-2018ء)تھے۔ان کی عمر اس وقت 50سال ہے۔ 54 گھنٹہ بے وزنی حالت میں رہنے کے بعد جب وہ اس حیران کن خلائی سفر سے واپس کیلی فورنیا پہنچے تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا — کیسا عجیب ہے اس طرح سے کیلی فورنیا آنا:

What a way to come to California

مسٹرینگ خلائی سفر طے کر کے کولمبیا کے ذریعہ کیلی فورنیا میں اتر ے تو یہ بات ان کوبہت عجیب معلوم ہوئی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز عجیب ہے۔کوئی سفر خواہ پیدل ہویا سواری کے ذریعہ ہو،اس میں اتنے بے شمار کائناتی اسباب شامل ہوتے ہیں کہ آدمی ان کے بارے میں سوچے تومعمولی سفر بھی اس کو حیران کن معلوم ہو کہ وہ پکار اٹھے میرااپنے پیروں سے چل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا بھی اتنا عجیب ہے جتنا کولمبیا کے ذریعہ خلائی سفر طے کرکے کیلی فورنیا کے صحرامیں اترنا۔عام آدمی صرف کسی انوکھے واقعہ کے عجوبہ کو دیکھ پاتا ہے ،عقلمند وہ ہے جو معمولی واقعات میں بھی خدائی عجوبہ کو دیکھ لے۔

خد اسے نسبت

ایک بزرگ فجر کی نماز کے وقت اپنے گھر سے نکلے اورتیزی سے مسجد کے لیے روانہ ہوگئے مگر جب وہ مسجد کے اندر داخل ہوئے تو ان کے قدموں کی رفتار سست ہوگئی۔اس وقت اگرچہ پہلی صف میں کافی جگہ تھی۔مگر وہ پیچھے کی صف میں رک گئے اورمسجد کے ایک کنارے بیٹھ کر جماعت کا انتطار کرنے لگے۔نماز کے بعد ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت، یہ کیا بات ہے کہ آپ مسجد کی طرف تیزی سے روانہ ہوئے مگر جب مسجد کے اندر پہنچے تو بڑھ کر اگلی صف میں جگہ لینے کے بجائے پچھلی صف میں ایک گوشہ میں بیٹھ گئے۔

بزرگ نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جب میں گھر سے مسجد جانے کے لیے نکلا تو مجھ کو ایسا لگا کہ میں ایک ایسی جگہ جارہا ہوں جہاں خداکی رحمت ومغفرت تقسیم ہورہی ہے۔اس وقت شوق ہواکہ میں لپک کر جلد سے وہاں پہنچوں۔مگر جب اندر داخل ہو اتو خدا کی عظمت کے مقابلہ میں اپنے عجز کا احساس مجھ پر غالب آگیا اورمیرے قدموں کی رفتار اچانک سست پڑگئی۔

’’آپ سست قدموں سے بھی تو اگلی صف میں جاسکتے تھے ‘‘آدمی نے دوبارہ پوچھا۔بزرگ نے کہا کہ تمہارایہ کہنا صحیح ہے۔مگر اس وقت مجھ پر یہ احساس طاری ہواکہ خداکی رحمت ومغفرت کا خزانہ تو ختم ہونے والا نہیں۔اگر میں پیچھے بیٹھ جائوں تب بھی اس کی تقسیم کا سلسلہ ضرور یہاں تک پہنچ جائے گا۔

اس کے بعد بزرگ نے کہا کہ بندے کی نجات کا دار ومدار اس پر ہے کہ وہ خداکی صفات کا ادراک کرے۔بندے اورخداکے درمیان اس کی صفات ہی کے ذریعہ اتصال قائم ہوتا ہے۔جب کوئی شخص خدا کی صفتوں میں سے کسی صفت کا ادراک کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو خدا کی زد میں لاتا ہے۔جس طرح سورج کسی کو اس وقت روشن کرتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو اس کی کرنوں کی زد میں لائے۔اسی طرح ایک بندہ اس وقت اپنے رب کی زد میں آتا ہے جب کہ وہ خدا کی صفات کی معرفت حاصل کرے۔

بزرگ جب مسجد کی طرف جارہے تھے تو انھوں نے خدا کی حیثیت دریافت کی کہ خدا دینے والا ہے۔اس کے سوا کوئی دینے والا نہیں۔جب وہ مسجد میں داخل ہوئے تو انھوں نے خدا کے بڑے ہونے کو پہچانا اوراس کے مقابلہ میں اپنے عجز کو دریافت کیا۔پہلے مرحلہ میں انھوں نے معطی ہونے کی حیثیت سے خدا سے نسبت قائم کی اوردوسرے مرحلہ میں خدا کے علی وکبیر ہونے کی حیثیت سے۔

حق کی پہچان

شری رام رتن کپلا دہلی میں ریفریجر یٹرکے تاجر ہیں اورشری موتی رام صراف دہلی میں سو نے چاندی کا کاروبار کرتے ہیں۔دونوں میں بہت دوستی ہے۔اکثر صبح کو دونوں ایک ساتھ ٹہلنے کے لیے نکلتے ہیں اورایک ساتھ واپس آتے ہیں۔

ایک روز دونوں ایک مقام پر ٹہل رہے تھے۔شری رام رتن کپلا کو ایک جگہ راستے کے کنارے ایک چمکتی ہوئی چیز دکھائی دی۔انھوں نے اس کو شیشہ کا ٹکڑا سمجھا اور تفریح کے طور پر ہاتھ میں اٹھالیا۔

ٹہلنے کے بعد دونوں گھر واپس آئے شری رام رتن کپلا نے واش بیسن پر ہاتھ دھو یا اور مذکورہ ٹکڑسے کوبے خیالی کے ساتھ ایک کنارے ڈال دیا۔

اس کے بعد شری موتی رام صراف اپنا ہاتھ دھونے کے لیے واش بیسن پر آئے، ان کی نگاہ مذکورہ ٹکڑے پر پڑی۔اس کی چمک دیکھتے ہی فوراً انھوں نےپہچان لیا کہ یہ ہیرا ہے۔انھوں نے اس کو اٹھالیا اوراس کو دھو کر شری رام رتن کپلا کے پاس لے گئے۔جب انھوں نے بتایا کہ یہ ہیرا ہے تو شری رام رتن کپلا کو بہت تعجب ہوا۔انھوں نے کہا کہ میں نے تو اسے معمولی شیشہ کا ٹکڑا سمجھا تھا۔خیریت ہوئی کہ میں نے اسے پھینک نہیں دیا۔

شری رام رتن کپلا ہیرے سے بے خبر نہ تھے۔ان کے گھر میں ہیرے کا نیکلس موجودہ تھا جس کو وہ نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی مخصوص الماری میں رکھے ہوئے تھے۔مگر راستہ میں پڑے ہوئے ہیرے کو وہ پہچان نہ سکے۔

شری موتی رام صراف بھی ہیرے سے واقف تھے اورشری رام رتن کپلا بھی۔فرق یہ ہے کہ شری موتی رام جوہر ی تھے۔وہ ہیرے کو اس کے جوہر کی بنیاد پر پہچان سکتے تھے خواہ وہ کہیں بھی ہو۔مگر شری رام رتن کپلا صرف اس ہیرے سے واقف تھے جو ان کے معلوم نیکلس میں لگا ہواہو۔معلوم نیکلس کے باہر کسی ہیرے کے ٹکڑے کو پہچاننا انہیںنہیں آتا تھا۔

وہ شخص جوہری نہیں جوہیرے کو صرف اس وقت پہچانے جب کہ وہ اس کے اپنے ہار میں لگا ہوا ہو۔جوہری وہ ہے جو ہیرے کو اپنے ہار میں بھی پہچانے اوردوسرے کے ہا ر میں بھی۔اسی طرح حق شناس وہ ہے جو حق کو ہر حال میں پہچان لے ،خواہ وہ اس کے اپنے حلقہ کے اندر ہو یا اس کے اپنے حلقہ کے باہر۔

پانے والا

قرآن میںجو کردار بیان ہوئے ہیں ،ان میں سے ایک قارون ہے۔وہ اسرئیلی تھا اور موسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر تھا۔مصر کے قبطی حکمرانوں کاساتھ دے کر اس نے بے حساب دولت اپنے پاس جمع کرلی تھی۔ایک روز وہ اپنی پوری شان کے ساتھ لوگوں کے سامنے نکلا۔اسرائیلیوں میں سے کچھ لوگ اس کو دیکھ کر مرعوب ہوگئے۔انھوں نے کہا :قارون بھی کیسا خوش قسمت ہے۔کاش ہم کو بھی وہ چیز حاصل ہوتی جو اس کو ملی ہوئی ہے۔

اسرائیلیوںمیں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو سچائی کو پائے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا:قارون کی دنیوی شان وشوکت پر رشک نہ کرو۔ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل خوش قسمتی تو یہ ہے کہ آدمی کو آخرت کی کامیابی حاصل ہو۔اورآخرت کی کامیابی کا کوئی تعلق دنیا کی چمک دمک سے نہیں ہے۔وہ تو صرف انہیںکو ملے گی جو سچے مومن ہوں اور وہ کام کریں جو اللہ کو پسند ہے۔اسرائیلی علماء کا یہ جواب نقل کرنے کے بعد قرآن میں ارشاد ہواہے:وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ(28:80)۔ یعنی،اور یہ بات انہیں کو دی جاتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں ۔

یعنی حقیقت کا یہ مقام کہ آدمی دنیا کی شان وشوکت سے اوپر اٹھ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔بڑے تپ کا مقام ہے۔یہ انہیںلوگوں کے حصہ میں آتا ہے جو دنیا کی زینتوںکی طرف دوڑنے سے اپنے کو بچائیں۔جو اپنی سوچ اوراپنی دلچسپیوں کو نمائشی چیزوں میں نہ الجھائیں۔ جو وقتی ہنگاموں میں کھونے کے بجائے ابدی کائنات میں مصروف رہتے ہوں۔جودنیا سے گزرکر آخرت میں جینے لگے ہوں۔یہ بڑے تپ کا کام ہے۔اس میں اپنے آپ کو جانتے بوجھتے ذبح کردینا پڑتا ہے۔مگر اعلیٰ سچائی کو پانے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔رجھانے والی دنیا میں رہ کر جو اپنے آپ کوریجھنے سے بچا سکے اسی پر بالا تر حقیقتوں کا راز کھلتا ہے۔جو سامنے کی چمک دمک میں کھو گیا وہ کبھی آگے کی اعلیٰ تر چیزوں سے آشنا نہیں ہوسکتا۔

دنیوی ہوشیاری دکھانا بلا شبہ دنیا میںآدمی کو عزت اورترقی عطا کرتا ہے۔مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ’’دنیوی ہوشیاری ‘‘ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو آخرت کی ہوشیاری سے محروم کردیتی ہے۔آخرت کی عقل اسی کے حصے میں آتی ہے جو دنیا کی محرومیوں کو جھیلنے کے لیے تیار ہو،جودنیوی مصلحتوں کو حق کی خاطر قربان کرسکے ،جو ظاہری عزتوں پرگمنامی کی زندگی کو ترجیح دے سکے،جو عوامی مقبولیت کو عوامی نا مقبولیت کے بدلے میں دے سکے ،جو ملتے ہوئے مفادات کی قیمت دے کر ذاتی نقصان کو خرید سکے،جو نفس کی تسکین کر چھوڑ کر نفس کو دبانے کے راستہ پر چلنے کے لیے تیار ہو۔دنیا کی رونقوں میں نہ بہنا بڑاپر مشقت عمل ہے مگر اسی شخص پر معرفت حق کے دروازے کھلتے ہیں جو اس مشقت کو برداشت کرے،دنیا کی محرومی پر قانع ہونا بڑے صبر کا کام ہے مگر جو دنیا کی محرومیوں پر صبر کرتا ہے وہی وہ شخص ہے جس کو اِس لیے چنا جاتا ہے کہ حکمت کے موتیوں سے اس کے دامن کو بھر دیا جائے۔

دریافت کی لذت

سورج ہماری زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا اوراس سے ساڑھے نو کروڑ میل دورہے۔ پھر بھی سورج کی روشنی اورحرارت بے پناہ مقدار میں ہم تک پہنچ رہی ہے۔یہ سورج کائنات کا نسبتًا ایک چھوٹا ستارہ جو قریب ہونے کی وجہ سے ہم کو بڑادکھائی دیتا ہے۔اکثر ستارے سورج سے بہت زیادہ بڑے ہیں اوراس سے بہت روشن بھی۔روشنی اورحرارت کی یہ عظیم دنیا ئیں جن کو ستارہ کہا جاتا ہے بے شمار تعداد میں خلا میں پھیلی ہوئی ہیں۔کھرب ہاکھرب سال سے دہکنے کے باوجود ان کا حرارتی بھنڈارختم نہیں ہوتا۔

ستاروں میں یہ بے پناہ قوت (Energy)کیسے پیدا ہوتی ہے۔ہنس بیٹے (1906-2005) نے فلکیاتی طبیعیات کے میدان میں لمبی تحقیق کے بعد بتایا کہ اس کا راز کاربن سائیکل (Carbon Cycle)ہے۔اسی تحقیق پر 1967میں موصوف کو طبیعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔

ڈاکٹر بیٹے (Hans Bethe)نے جس دن کاربن سائیکل کی یہ سائنسی دریافت کی ،وہ ان کے لیے جوش ومسرت کا ایک ناقابل بیان لمحہ تھا۔ان کی بیوی روزبیٹے (Rose Bethe) کہتی ہیں کہ رات کا وقت تھا۔ہم نیو میکسیکوکے صحرا میں تھے۔صحرائی ماحول میں آسمان کے ستارے عجیب شان کے ساتھ چمک رہے تھے۔روزبیٹے نے اوپر نگاہ کی اورحیران ہوکر کہا ’’آکاش کے ستارے کتنا زیادہ چمک رہے ہیں ‘‘ڈاکٹر بیٹے نے جواب دیا — کیا تم کو خبر ہے کہ اِس وقت تم اس واحد انسان کے عین قریب کھڑی ہو جو یہ جانتا ہے کہ یہ ستارے آخر چمکتے کیوں ہیں

Do you realize, just now you are standing next to the only human who knows why they shine at all.

ہنس بیٹے کی دریافت اصل حقیقت کا بے حد جزئی پہلو تھا۔اس نے ستاروں میںکاربن سائیکل کا عمل دریافت کیا۔مگر سوال یہ ہے کہ خود کاربن سائیکل کا عمل ستاروں میں کیوں ہے۔اس عظیم تر راز کو مومن خدا کی صورت میں دریافت کرتا ہے۔ایمان باللہ ایک دریافت (discovery)ہے جو تمام دریافتوں سے زیادہ بڑی ہے۔مگر کیسی عجیب بات ہے کہ سائنس داں کو معمولی دریافت ہوتی ہے تو وہ وفور جذبات سے بے قابو ہوجاتا ہے۔مگر ایمان والے سب سے بڑی چیز — خدا کو دریافت کرتے ہیں اوران کے اندر کوئی جذباتی ابال پیدا نہیں ہوتا۔شاید خدا پر ایمان کے دعوے داروں نے ابھی تک خدا کو دریافت نہیں کیا۔

سچائی کو پانے والا

معانی کی دنیا خدا کے جلووں کی دنیا ہے۔کون ہے جو خدا کے جلووں کو انسانی زبان میں بیان کرسکے۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں الفاظ ختم ہوجاتے ہیں وہاں سے معانی کا آغاز ہوتا ہے۔جب ہم کسی معنی کو بیان کرتے ہیں توہم اس کو بیان نہیں کرتے بلکہ اس کو کچھ گھٹا دیتے ہیں ،اس کے اوپر ایک قسم کا لفظی پردہ ڈال دیتے ہیں۔

کسی بامعنی حقیقت کو کوئی آدمی صرف اس کے الفاظ سے سمجھ نہیں سکتا۔ایک اندھا شخص کسی کے بتانے سے یہ نہیں جان سکتا کہ پھول کیا ہے خواہ اس نے پھول کے تعارف کے لیے انسانی زبان کے تمام الفاظ جمع کردیے ہوں۔اسی طرح ایک شخص جس نے معنوی حقیقتوں کو دیکھنے کی صلاحیت اپنے اندر نہ جگائی ہو وہ معنوی حقیقتوں سے باخبر نہیں ہوسکتا ،خواہ ڈکشنر ی کے تمام الفاظ اس کے سامنے دہرادئے جائیں ،خواہ قاموس المعانی کی تمام جلدوں کو اسے پڑھا دیا جائے۔

ہدایت ہر آدمی کی فطرت کی آواز ہے مگر ہدایت اسی کو ملتی ہے جو اپنے اندر اس کی سچی طلب رکھتا ہو۔جو اپنے اندر سچائی کی کھٹک لیے ہوئے ہو،سچائی جس کی ضرورت بن گئی ہو۔جو سچائی کو پانے کے لیے اتنا بے قرار ہوکہ وہ اسی کی یاد لے کر سوتا ہواوراسی کی یاد لے کر جاگتا ہو،جو آدمی اس طرح سچائی کا طالب بن جائے وہی سچائی کو پاتا ہے۔

ایسا شخص گویا ہدایت کا نصف راستہ طے کر چکا ہے۔وہ اپنے اندر چھپے ہوئے عہد اَلست کی خدائی آوازوں کو سن رہا ہے۔وہ اپنے اندر اس فطری صلاحیت کو بیدار کرچکا ہے جو معانی کی زبان کوسمجھتی ہے۔ایسا شخص غیر حقیقی دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے حقیقی دنیا کے اتنا قریب آجاتا ہے کہ وہ فرشتوں کی سرگوشیوں کو سننے لگتا ہے۔

پیغمبر اس تلاش حق کی راہ میں آدمی کا مدد گار ہے۔پیغمبر کے ذریعہ حقیقت کا علم ملنے سے پہلے یہ تمام تجربات آدمی کے اندر مبہم اورمجہول انداز میں ہوتے ہیں۔اس کے بعد جب پیغمبر کی آواز اس کے اندر داخل ہوتی ہے تو وہ اس کی کتاب فطرت کی تفسیر بن جاتی ہے۔ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے غیر ملفوظ اشارات کو ملفوظ زبان میں پالیتا ہے — قرآن اور قرآن کو پڑھنے والا دونوں ایک دوسرے کا مثنیٰ بن جاتے ہیں۔قرآن وہ بن جاتاہے اوروہ قرآن۔

گروہی اعتراف

یہود تورات کو خدا کی کتاب مانتے تھے۔اسی طرح عیسائی انجیل کو خد اکی کتاب مانتے تھے۔مگر جب قرآن ان کے سامنے آیا تو اس کو انھوں نے خدا کی کتاب ماننے سے انکار کردیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ماننا گروہی ماننا تھا نہ کہ حقیقی ماننا۔وہ حق کو صرف اپنے گروہ کی بنیاد پر پہچانتے تھے نہ کہ اس کے جو ہر کی بنیاد پر چنانچہ انھوں نے اپنے گروہی حق کو مانا اورگروہ سے باہر جو حق تھا اس کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔یہی بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے :

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ (2:91)۔یعنی،اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو (قرآن) بھیجا ہے اس کو مانو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے اوپر اترا ہے۔ اوروہ اس کا انکار کرتے ہیں جو اس کے سوا ہے حالانکہ وہ حق ہے اوراس کی تصدیق کرنے والا ہے جوان کے پاس ہے۔

یہ نفسیات جس کے تحت یہود ونصاریٰ نے قرآن کا انکار کیا تھا۔وہ آج پوری طرح مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔آج مسلمانوں کا بھی یہ حال ہو رہا ہے کہ وہ صرف گروہی صداقت کو جانتے ہیں۔وہ چیزوں کو اپنے گروہ کی نسبت سے پہچانتے ہیں۔ان کے گروہ سے باہر اگر کوئی خوبی پائی جاتی ہو تو اس کی انہیںکوئی خبر نہ ہو گی۔

مسلمان آج بے شمار گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہر گروہ کا یہ حال ہے کہ وہ صرف اِس عالم کو عالمِ جانتا ہے جو اِس کے گروہ کا ہو۔ باہر کے عالم کی اِسے خبر نہیں۔ ہر گروہ اپنے گروہ کے متقی کو متقی سمجھتا ہے۔ باہر کے متقیوں کی اِس کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔ وہی مصنف مصنف ہے جو اپنے حلقہ کا ہو۔ اپنے حلقہ سے باہر کی کسی چیز کو وہ اِس طرح نظرانداز کر دیتا ہے جیسے وہ اس کو دکھائی ہی نہیں دیتی۔

خدا کے یہا ں اس انسان کی قیمت ہے جس نے حق کو جوہر کی بنیاد پر پہچانا ہو۔جو شخص گروہ کی بنیاد پر حق کو پہچاننے کی مہارت دکھائے۔اس کی قیمت صرف اس کے اپنے گروہ میں ہے ،خدا کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں۔

حق کو پانا

انسان کا ذہن حق کا آئینہ ہے۔آئینہ کے سامنے کو ئی چیز لائی جائے تو وہ اس کی ہو بہو صورت اپنی سطح پر اتار لیتا ہے۔وہ کبھی اس میں کوتاہی نہیں کرتا۔ٹھیک یہی حال آدمی کے ذہن کا ہے۔اس کے سامنے جب حق آتا ہے تو وہ فوراً اس کو پہچان لیتا ہے۔وہ پوری طرح اسے پالیتا ہے۔وہ نہ دیکھنے میں غلطی کرتا اور نہ پہچاننے میں۔

پھر کیا وجہ ہے کہ آیات بینات (کھلے دلائل ) کے ذریعہ حق سامنے آتا ہے ،اس کے باوجود بے شمار لوگ اس کو قبول نہیں کرتے۔اس کی وجہ صرف ایک ہے۔اوروہ نفسیاتی اٹکائو ہے۔ایسے افراد کا گہر اتجزیہ کیجئے تو ان کے انکارکی وجہ کوئی حقیقی دلیل نہیں ہوگی۔بلکہ کوئی نہ کوئی دوسری غیر متعلق چیز ہوگی جس کے ساتھ آدمی اٹکا ہوا ہو گا۔

سچائی کوپانے کی ایک ہی لازمی شرط ہے۔وہ یہ کہ حق واضح ہونے کے بعد آدمی کسی بھی اورچیز کو اپنے لیے رکاوٹ نہ بننے د۔مگر آدمی اکثر حالات میں ایسا نہیں کرپاتا۔وہ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کو اپنے لیے رکاوٹ بنا لیتا ہے۔

کوئی کسی شخصیت پر اٹک کر رہ جاتاہے۔کوئی کسی مفاد پر ،کوئی کسی اورچیز پر۔ یہی وہ کمزوری ہے جس نے ہردورمیں بے شمار لوگوں کو سچائی اختیار کرنے سے محروم کردیا۔ وہ پانے کے باوجود اس کو پانے میں ناکام رہے۔

ابو جہل کے لیے اس کا قیادتی مفادقبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔طائف کے لوگوں نے حق کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ اس کا اعلان ایک ایسے شخص کی زبان سے ہورہا تھا جو بظاہر انہیںوقت کی بڑی بڑی شخصیتوں سے کم تر دکھائی دیتا تھا۔یہود نے آپ کا انکار اس لیے کیاکہ آپ کو پیغمبر ماننے سے ان کا احساس برتری ٹوٹتا تھا۔شہنشاہ ہر قل نے اس لیے اس کا اقرار نہیں کیا کہ اس نے محسوس کیا کہ اگر میں ایساکروں تو میں اپنی قوم سے کٹ جائوں گا۔ہر ایک دلیل سے مفتوح ہوچکا تھا۔مگر ہر ایک کسی نہ کسی چیز میں اٹک کر اس کو قبول کرنے سے بازرہا۔

اس دنیا میں حق صرف اس شخص کو ملتا ہے جوکسی اٹکنے والی چیز پر نہ اٹکے۔سچائی کا دلیل سے واضح ہوجانا ہی اس کے لیے کافی ہوکہ وہ اس کو ہمہ تن قبول کرلے۔

خدا کو پانے والے

خدا کی زمین پر شاید ایسے لوگ موجود نہیں جنھوں نے خدا کو ان عظمتوں کے ساتھ پایا ہو جس کے اثرات اس ہیجان خیز کیفیت میں ڈھل جاتے ہیں جس کو خدا کی یاد کہا گیا ہے۔ جھوٹی عبادت کی دھوم ہر طرف نظر آتی ہے۔مگر سچی عبادت اتنی نا یاب ہے کہ امکان ہی کے درجہ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کہیں موجودہوگی۔

آج ساری دنیا میں دین اوراسلام کا غلغلہ بلند ہے۔مگر وہ انسان شاید خدا کی زمین پر کہیں پایا نہیں جاتا جس نے خدا کو اس طرح دیکھا ہو کہ اس کی ہیبت سے اس کا دل دہل اٹھے اور اس کے جسم کے رونگٹے کھڑ ے ہوجائیں۔جو قرآن کو پڑھے تو اس کی روح پکار اٹھے کہ خدا یہ تیرا کتنا بڑااحسان ہے تو نے میری ہدایت کا ایساانتظام کیا ،ورنہ میں جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہتا۔وہ رسول کی سنت کو دیکھے تو اس کاوجود اس دریافت سے سرشار ہو جائے کہ یہ خدا کا کیسا غیر معمولی انتظام تھا کہ اس نے پیغمبر کی زندگی میںہدایت کا بے داغ نمونہ قائم کیا اورپھر تاریخ میں اس کوروشنی کے ابدی مینار کی طرح محفوظ کردیا۔جب وہ سجدہ کرتے ہوئے اپنا سرزمین پر رکھے تو اس کو یہ احساس ہونے لگے کہ اس کے رب نے اس کو اپنی رحمت کے آغوش میں لے لیا ہے۔جب وہ کوئی غذا اپنی حلق کے نیچے اتارے تو اس کی پوری ہستی میں اس احسان مندی کی لہر دوڑ جائے کہ کیسا عجیب ہے وہ خدا جس نے میرے جسم کی پرورش کے لیے ایسی ممکن غذا کا اہتما م کیا۔جب وہ پانی پئے تو اس کی آنکھوں سے ایک اورجھرنابہہ پڑے اوروہ بے اختیار ہوکر کہے کہ خدا یا اگر تو مجھے سیراب نہ کرے تو میں سیراب ہونے والا نہیں۔اگر تو مجھے پانی نہ دے توکہیں سے مجھ کو پانی ملنے والا نہیں۔

آہ ،لوگ اپنے کوخدا سے کتنا قریب سمجھتے ہیں مگر وہ خدا سے کتنا زیادہ دور ہیں۔وہ خدا کانام لیتے ہیں۔مگران کے منہ میں خدائی مٹھاس کی شکر نہیں گھلتی۔وہ خدا کو پانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مگر خدا کے چمنستان کی کوئی خوشبوان کے مشام کو معطر نہیں کرتی۔وہ خدا کے نام پر دھوم مچاتے ہیں مگر خدا کے نورانی سمندر میں نہانے کاکوئی نشان ان کے جسم پر ظاہر نہیں ہوتا۔وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی جنتیں ان کے لیے مخصوص ہوچکی ہیں مگر جنت کے باغ کا کوئی جھونکا ان کے وجود کو نہیں چھوتا۔

کیسا عجیب ہوگا وہ خدا جس کی یاد دل ودماغ کی دنیا میں کوئی اہتزاز (Thrill)پیدا نہ کرے۔کیسی عجیب ہوگی وہ جنت جس میں داخلہ کا ٹکٹ آدمی اپنی جیب میں لیے ہوئے ہو مگر جنت کا باسی ہونے کی کوئی جھلک اس کے رفتار وگفتار سے نمایا ں نہ ہو۔کیسے عجیب ہوں گے وہ آخرت والے جن کے لیے آخرت کی ابدی وراثت لکھی جاچکی ہو مگران کی ساری دلچسپیاں بد ستور اسی عارضی دنیا میں اٹکی ہوئی ہوں۔

انکشاف خدا وندی

نکیتا خروشچیوف (1894-1971)نے کہا تھا’’ہمارا راکٹ چاند تک گیامگر اس کو کہیں خدا نہیں ملا ‘‘۔کمیونسٹ روس کے سابق صدر نے یہ بات نعوذ باللہ بطور مذاق کہی تھی۔مگر موجودہ زمانہ کے تمام سیکولر محققین پر وہ پوری طرح صادق آتی ہے۔

موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانے پر فطرت کے علوم کا مطالعہ کیا گیا ہے۔زمین سے لے کر آسمان تک کی مختلف چیزوں کی تحقیق میں بے شمار لوگوں نے اپنی عمریں صرف کردیں۔مگر ان لوگوں کی کتابیں پڑھئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں کہیں ان کی خدا سے ملاقات نہیں ہوئی۔وہ زمین سے لے کر آسمان تک سفر کرتے رہے۔مگر خداکی کوئی جھلک انہیںدکھائی نہیں دی۔انھوں نے خاموش لہروں کے ذریعہ سفر کرنیوالی آوازوں کو پکڑ لیا۔مگر ان کے کان خدا کی آواز سے آشنا نہیں ہوئے۔ان کی خورد بینوں اوردور بینوں نے انہیںایسی چیزیں دکھائیں جو اس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھی تھیں مگر خدا کے فرشتوں سے ان کا کبھی مصافحہ نہیں ہوا جو کائنات میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

عجیب بات ہے کہ یہی واقعہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکر ین اورقائدین کے ساتھ بھی کسی قدربدلی ہوئی شکل میں پیش آیا ہے۔جس طرح سیکولر مفکر ین کو کائنات کا صرف ظاہر ملا ،اس کی اندرونی حقیقت انہیںنہیں ملی۔اسی طرح مسلم مفکرین کے حصہ میں اسلام کا صرف ظاہری ڈھانچہ آیا۔وہ اسلام کی اندرونی حقیقت سے آشنا نہ ہوسکے۔

آپ ان مفکر ین کی تقریریں سنیے ،ان کی سوانح عمریاں پڑھیے۔ان کی کتابوں کا مطالعہ کیجیے۔آپ کو ان میں ہر چیز ملے گی مگروہی چیز نہیں ملے گی جو اسلام کی اصل روح ہے — ان کے یہاں انسانوں سے ملاقات کا ذکر ہوگا مگر خدا کی کبریائی کا احساس اورخدا سے ملاقات کاکہیں ذکر نہ ہوگا۔وہ انسانی آرٹ کی بلندی اورتاثیر سے مسحور نظر آئیں گے، مگر خدائی آرٹ کی بلندی اورتاثیر سے ان کے اندر کوئی تموج پیدا ہوتا ہو ا دکھائی نہیںدے گا۔ دنیا کے واقعات کے چرچے سے ان کی زبان وقلم گونج رہی ہوں گی مگر آخرت کے چرچے کانشان کہیں دکھائی نہیں دے گا۔وہ قومی مسائل اورملّی مفاخر پرولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے نظر آئیں گے مگر خدا کے جلال وجمال پرولولہ انگیزتقریر کبھی ان کے یہاں سنائی نہ دے گی وہ اپنی حیران کن دریافتوں کا انکشاف کریں گے۔مگر کہیں اس کا نشان نہیں ملے گا کہ ان پر خدا کا انکشاف ہوا اورخدا کی دریافت نے ان کے اندر ہلچل پیدا کردی۔

ایمان میں اضافہ

ایک سائنس داں نے کہا ’’فطرت کا مطالعہ میرا مذہب ہے۔جس دن میں فطرت کی کوئی نئی چیز نہیں دریافت کرتا ،میں سمجھتا ہوں کہ وہ دن میں نے ضائع کردیا ‘‘۔یہ اس انسان کا حال ہے جو مخلوقات میں جیتا ہے۔پھر اس انسان کا حال اس سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے جو خالق میں جیتا ہو۔جس طرح سائنس دان ہر روز مخلوقات میں کوئی نئی چیزدریافت کرتا ہے، اسی طرح مومن کو ہرروزخالق کی نسبت سے کوئی ایسی چیز پانا چاہیے جو اس کے ایمان میں اضافہ کرنے والی ہو۔مومن جس روز کوئی نئی چیز نہ پائے ،وہ دن گویا اس نے ضائع کردیا ،اس دن گویا خدا سے اس کا ربط قائم نہیںہوا۔

ایمان خدا کی دریافت کا دوسرا نام ہے۔خداایک مسلسل حقیقت ہے جس کی کوئی حد نہیں ، اس لیے اس کی دریافت بھی ایک مسلسل واقعہ ہے جس کی کوئی انتہانہیں۔جو ایمان اضافہ پذیر نہ ہو وہ غفلت کی ایک قسم ہے ،اس کو حقیقی معنوں میں ایمان نہیں کہا جا سکتا ۔

جس کا ذہن خدا کی طرف متوجہ ہو ،جس کا دل خدا کی طرف لگا ہوا ہو،اس کو باربار خداکی نئی تجلیات کا ادراک ہوتا ہے۔وہ بار بار خدا کی نئی جھلک پاتا رہتا ہے۔جس طرح خدا کے کمالات کہیں ختم نہیں ہوتے ،اسی طرح مومن کا سفر ِمعرفت بھی کسی حد پر ختم نہیں ہوتا۔

یہ نئی معرفت کبھی ایسی ربانی کیفیات کی صورت میں امنڈتی ہے جس سے وہ اس سے پہلے کبھی آشنا نہیں ہواتھا۔کبھی ایسے دعائیہ الفاظ کے روپ میں بے اختیار اس کی زبان پر آجاتی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔کبھی وہ خدا کی حکمتوں میں سے کسی ایسی حکمت کا راز پا لیتا ہے جو اس سے پہلے اس  پر نہیں کھلے تھے۔ وہ خدا کی قربت کا ایسا تجربہ کرتا ہے جو اِس سے پہلے کبھی اس کے علم میں نہیں آئے تھے۔کبھی اس پر ایسے نئے معانی کا القاء ہوتا ہے۔جس کے اظہار کے لیے اس کے تمام معلوم الفاظ عاجز نظر آنے لگتے ہیں۔

ہر چیز عجیب

موجودہ قسم کی چھتری لند ن میں سب سے پہلے 1749میں بنائی گئی۔اس وقت اس کا تعارف ایک شخص نے ان الفاظ میں کرایاتھا:

When opened it was like a small tent, and when shut it was all curiously jointed and would fold up to the length of a man's hand.

جب اس کو کھولا جائے توہ ایک چھوٹے خیمے کے مانند ہوجاتی ہے اورجب اس کو بند کیا جائے تو حیرت انگیز طورپر وہ پوری سمٹ جاتی ہے اورلمبائی میں ایک آدمی کے ہاتھ کے برابر ہوجاتی ہے(ٹائمس آف انڈیا،26مئی 1984)۔

موجودہ صدی کی ابتدامیں ہندستان کے ایک دیہات میں ایک زمین دار کے یہاں پہلی بار ہینڈ پمپ(hand pump) لگایا گیا۔جب اس کو چلایاگیا اورزمین سے وہ پانی کھینچ کر نکالنے لگا تو ایک دیہاتی عورت نے اس کو دیکھ کر کہا’’آدمی صرف موت سے ہاراہے ‘‘۔یعنی آدمی سب کچھ کرسکتا ہے۔صرف ایک موت ایسی چیز ہے جس پر قابو پانا اس کے اختیار میں نہیں۔

دوسو سال پہلے چھتری اورہینڈپمپ آدمی کوانتہائی عجیب معلوم ہوتے تھے۔مگر آج آدمی چھتری اورہینڈ پمپ کو دیکھتا ہے اوراس کے اندر کوئی استعجاب پیدا نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو دیکھتے دیکھتے اب وہ اس کا عادی بن چکا ہے۔کوئی چیز جب باربار آدمی کے سامنے آتی ہے تو وہ اپنا انوکھا پن کھودیتی ہے۔اس کے بعد انتہائی عجیب چیز بھی اس کے لیے غیر عجیب بن کر رہ جاتی ہے۔

یہی معاملہ خداکی تخلیقات کا ہے۔موجودہ دنیا میں جو چیز بھی ہے،نہایت عجیب ہے۔ خواہ وہ ایک چھوٹی پتی ہو یا عظیم سمندر ہو،ایک بے نور ذرّہ ہویا روشن آفتاب ہو۔مگر آدمی پیداہوتے ہی ان کودیکھتا ہے اورساری زندگی ہر روز دیکھتا رہتا ہے۔اس طرح برابر دیکھتے رہنے کی وجہ سے ان کا عجوبہ پن اِس کی نظر میں ختم ہوجاتا ہے۔ان کو دیکھ کر آدمی کے اندراستعجاب پیدا نہیں ہوتا۔اگر انہیںچیزوں میں سے کسی چیز کووہ اچانک ایک روز دیکھے تو وہ احساس حیرت میں ڈوب جائے۔

یہی موجودہ دنیا میں آدمی کا امتحان ہے۔اس کو ایک درخت کو اس طرح دیکھنا ہے جیسے کہ وہ پہلی باراچانک اس کے سامنے کھڑاہوگیاہو۔اس کو ایک سورج کو اس طرح دیکھنا ہے جیسے کے وہ بالکل پہلی باراس کے سامنے چمک اٹھا ہو۔ایک چڑیا کے نغمہ کو اسے اِس طرح سننا ہے جیسے کہ اس کے کان پہلی بار اس کے چہچہے سے آشنا ہوئے ہوں۔

نفی ذات

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو قرآن میں احسن القصص (بہترین قصہ)کہا گیاہے(یوسف، 12:3)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی اس بات کی ایک تاریخی مثال ہے کہ کس طرح خدائی مددواقعات کے دھارے کو پھیر دیتی ہے۔وہ ایک اسوء القصص کو احسن القصص بنا دیتی ہے۔

حضرت یوسف کے دشمنوں نے آپ کو کنویں میں ڈال دیا۔مگر خدا نے آپ کو کنویں سے نکال کر مصر کے تخت پر پہنچا دیا۔جہاں آپ کے مخالفین نے آپ کی کہانی ختم کرنی چاہی تھی وہیں سے آپ کی ایک نئی شاندار تر کہانی شروع ہوگئی۔

مذکورہ سورہ میں حضرت یوسف کا قصہ بیان کرنے کے بعد ارشاد ہواہے:یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اورخیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جس کو چاہا بچا لیااورہمارا عذاب مجرموں سے ٹالا نہیں جاتا (12:110)۔

اس سے معلوم ہواکہ خدا کی مدد مایوسی کی حد پر پہنچ کر ملتی ہے۔ ’’مایوسی ‘‘سے مراد وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنا سب کچھ دے کر خالی ہوچکا ہو۔اس کے پاس مزید کچھ دینے کے لیے باقی نہ رہے۔جب وہ محسوس کرنے لگے کہ بند گی کی حد ختم ہوگئی۔اب وہ درجہ آگیا ہے جہاں سے خدائی کی حد شروع ہوتی ہے۔عین اس وقت خدا کی مدد آجاتی ہے۔ناکامی کی انتہاکامیابی کا آغاز بن جاتا ہے۔

بیج کا ختم ہونا ایک درخت کو وجود دیتا ہے۔یہی معاملہ خدا اوربندے کابھی ہے۔ آدمی خدا کی مدد کا مستحق اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو خداکے لیے مٹا دے۔ جہاں اعتماد خویش ختم ہو جائے وہاں سے اعتمادعلی اللہ کا آغازہوتا ہے۔

خدا بلا شبہ سب سے بڑی طاقت ہے۔مگر خدا کو پانا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے۔آدمی اپنی نفی نہیں کر پاتااسی لیے وہ خدا کو پانے والا بھی نہیں بنتا۔خدا ہرچیز کا بدل ہے۔خدا کو پانا سب کچھ کو پالینا ہے۔مگر انسان کی یہ نادانی بھی عجیب ہے کہ وہ بے کچھ کے لیے سب کچھ کو کھو دیتا ہے۔وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں خدا سے محروم ہوجاتا ہے۔

اللہ کا ذکر

ذکر کے معنی یاد کے ہیں۔اللہ کے ذکر کا مطلب ہے اللہ کی یاد۔یہ یاد کوئی مصنوعی چیز نہیں ،وہ اللہ کی معرفت کا لازمی اورقدرتی نتیجہ ہے۔

جب کوئی آدمی اللہ کواس کی عظمتوں اورقدرتوں کے ساتھ پاتا ہے تو اس کے اندر ایک روحانی ہلچل پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے بعد اس کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ اس کو ہر وقت اللہ کی یاد آتی رہتی ہے۔یہ یادکبھی دل کے اندر تڑپ بن کر ظاہر ہوتی ہے اورکبھی زبان سے حمداورشکر اورخشیت کے الفاظ کی صورت میں بے ساختہ نکل پڑتی ہے۔اسی کیفیت کو اللہ کی یاد کہا جاتا ہے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اتھاہ خلا میں ستاروں اورکہکشائوں کی حرکت پر غور کرتا ہے۔وہ پکاراٹھتا ہے کہ وہ خدا بھی کیسا عظیم خدا ہوگا جو اتنے بڑے کارخانے کو اتنی صحت کے ساتھ متحرک کیے ہوئے ہے۔کبھی وہ درختوں اورپہاڑوں اوردریائوں کے پرُ کشش مناظر کو دیکھتا ہے۔اوران کے حسن اورمعنویت کا ادراک کرکے حیران رہ جاتا ہے۔آدمی کو اس کے گردوپیش کی چیزیں بار باراللہ کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ اس کے اندر اللہ کی یاد کو جگاتی رہتی ہیں۔

اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی حالت پر غور کرتا ہے تو اس کو اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے۔وہ بے تابانہ اپنے رب سے معافی مانگنے لگتا ہے۔وہ خدا سے کہتا ہے کہ وہ اس کو آخرت کے عذاب سے بچائے اوراس دن اپنی رحمتوں کے سایہ میں داخل کرے جب کہ خدا کی رحمت کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا جہاں آدمی پناہ لے سکے۔کبھی آدمی اپنے عجز اوربے چارگی کو دریافت کرتا ہے اوربے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ خدایا تو قادرمطلق ہے تو اپنی قدرت سے میرے عجز کی تلافی فرما۔

انسان کے دل میں انہیںربانی احساسات کا پیدا ہونا اوران احساسات کا الفاظ کی صورت میں ڈھل جانا ،اسی کا نام ذکر ہے۔ذکر اللہ کی یاد ہے ،سب سے بڑی حقیقت کی یاد۔جو چیز سب سے بڑی حقیقت کی یاد ہواس کاتجربہ بھی سب سے بڑا ہوتا ہے۔اس تجربہ کا کسی کے دل پر گزرنا اتنا بڑاواقعہ ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

کھونے والا پاتا ہے

اگر آپ بمبئی میں ہیں اورکلکتہ جانا چاہتے ہیںتو پہلے آپ کو بمبئی کوچھوڑنا ہوگا۔اس کے بعد ہی آپ کلکتہ میں موجود ہوسکتے ہیں۔جو آدمی خدا کا طالب ہو وہ بھی گویا ایک قسم کا مسافر ہے۔اگروہ اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے تو اس کی ایک ہی لازمی شرط ہے۔یہ کہ وہ اپنی سابقہ جگہ کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔اس کے بعد ہی وہ اپنی  مطلوب خدائی منز ل پر پہنچنے کی خوشی حاصل کرسکتا ہے۔

دنیا کا نظا م اس طرح بنا ہے کہ یہاں لینے کے لیے دینا پڑتا ہے۔یہاں کھونے میں پانے کا راز چھپا ہواہے۔

آپ اگر ایک نفع بخش تجارت کے مالک بننا چاہتے ہیں تو پہلے اپنا اثاثہ اس میں کھپا نا پڑے گا۔اگر آپ اپنے کھیت میں ہری بھری فصل دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے بیج کے ذخیرے کو مٹی میں ملا دینا ہوگا۔اگر آپ منصوبہ بندی کے تحت دور رس عمل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے فوری جذبات کو کچل دینے پر اپنے آپ کو راضی کرناپڑے گا۔اگر آپ دولت مند بننا چاہتے ہیں تو ضروری ہوگا کہ آپ اپنے کو فضول خرچی سے باز رکھیں۔

جو ذرّہ نہ پھٹے وہ کبھی ایٹمی طاقت نہیں بنتا۔جو دانہ اپنے آپ کو فنا نہ کرے وہ درخت کی صورت اختیار نہیںکرتا۔جو فرد اپنے ذاتی مفاد کو قربان نہ کرے وہ اجتماعی مفاد کو قائم کرنے کا کریڈٹ نہیں پاتا۔

یہی معاملہ خدا کا بھی ہے۔کوئی شخص خد اوالا اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ خداکی خاطر اپنے کو حذف کردے۔جو شخص اپنے وجو دکو حذف کرنے کے لیے تیار نہ ہووہ کبھی خدا والا بھی نہیں بنتا۔

خدا کو پانے کے لیے اپنے آپ کو کھونا پڑتا ہے — اسی ایک لفظ میں خدا کو پانے کا راز ہے۔جو شخص اپنے آپ کو بھی پانا چاہے اورخدا کوبھی ،وہ صرف اپنے آپ کو پائے گا۔ایسا آدمی کبھی خدا کو پانے والا نہیں بن سکتا۔

خدا کا فیصلہ

 

فیصلہ کے دن

انڈین ایکسپریس بنگلور کی اشا عت مورخہ9 ستمبر1983 کی ایک خبر کاعنوان ہے— چمک دار چیز سونا نہیں :

Glitter is not gold

خبر میں بتایا گیا ہے کہ مس سبل ڈی سلوا(Miss Sybil D'Silva )جو بنگلور میں آرٹیلری روڈ(Artillery Road)پر رہتی ہیں وہ اپنے گھر پر تھیں کہ تقریباً 45سالہ ایک عورت ان کے پاس آئی اس کی گو دمیں چھ مہینہ کا ایک بچہ تھا عورت نے مس ڈی سلوا سے کہا کہ اس کا شوہر بہت زیادہ بیمار ہے اور اس کے علاج کے لیے فوری طور پر 5 ہزار روپیہ کی ضرورت ہے عورت نے سونے کا ایک ہار اپنی جیب سے نکالا اور کہا کہ میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہی ہوں میں صرف اس سونے کے ہار کو بیچنا چاہتی ہوں اگرچہ یہ ہا رمجھے بہت عزیز ہے مگر شوہر کی صحت اس سے زیادہ عزیز ہے اس ہار کی قیمت بازار میں دس ہزار روپے سے کم نہیں ہے میں اپنی ضرورت کی بنا پر آپ کو صرف 5 ہزار روپے میں دے دوں گی۔

مس ڈی سلوا نے ہار لینے سے انکار کیا لیکن عورت اپنی مجبوری بیان کرتی رہی یہاں تک کہ اس نے مس ڈی سلوا کو متاثر کر لیا۔ انھوں نے روپیہ دے کر ہار خریدلیا۔

اگلے دن مس ڈی سلوا بنگلور کی کمرشل اسٹریٹ پر گئیں اور وہاں ایک سنار کو انھوں نے وہ ہار دکھایا۔ سنارنے وہ ہار لے کر اپنی کسوٹی پر جانچا۔ کسوٹی پر جانچنے کے بعد ہار کی حقیقت کھل گئی۔ مس ڈی سلوا نے بنگلور پولیس کو یہ کہانی سناتے ہوئے کہا کہ سنار نے مجھے بتایا کہ یہ تو پیتل ہے :

He told me it was brass

یہی آخرت کا معاملہ بھی ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر آدمی اپنے کیے پر مگن ہے ہر آدمی اپنے کام کو سونا سمجھتا ہے۔ مگر کوئی سونا اسی وقت سونا ہے جب کہ وہ سنار کی کسوٹی پر بھی سونا ثابت ہو۔ آخرت میں خدا ہر آدمی کے عمل کو اپنی کسوٹی پر جانچے گا۔ جس کا عمل وہاں کی جانچ میں سونا ثابت ہو اسی کے عمل کی قیمت ہے اور جس کے عمل کے بارے میں یہ کہہ دیا جائے کہ یہ تو پیتل تھا ، اس کا سونااس کے لیے صرف رسوائی اور بربادی کی علامت ہو گا۔ جس چیز کو آدمی آج اتنا قیمتی سمجھے ہوئے ہے کہ وہ اس کو کسی طرح چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اس دن وہ اس سے اتنا بیزار ہو گا کہ وہ چاہے گا کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان جدائی ہو جائے مگر اس دن جدائی نہ ہو سکے گی۔ جس چیز کو وہ فخر کی چیز سمجھے ہوئے تھا اس دن وہ اس کے لیے صر ف ذلت اور رسوائی کی چیز بن جائے گی۔ 

اس دن کیاہو گا

خداہر چیز کا مالک ہے دنیا میں کسی کو جو کچھ ملتا ہے خدا کے دئے سے ملتا ہے خدا کے سوا کسی کے پاس کوئی چیز ہی نہیں جو وہ کسی کو دے سکے ایسی حالت میں اگر کچھ لوگ ایسا کریں کہ ایک شخص کو جائز طور پر ملی ہوئی چیز کو اس سے چھیننے لگیں تو گویا وہ خداکے دئے کو چھین رہے ہیں وہ خدا کے منصوبہ کو باطل کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا میں ایک شخص کو مکان ملے مگر کچھ لوگ اس کو بے گھر کر نے کی سازشیں کریں اس کی معاش کا جائز انتظام ہو مگر لوگ اس کی معاشیات کو تباہ کرنے پر اتر آئیں اس کو عزت کی زندگی حاصل ہو مگر لوگ اس کو بے عزت کرنے کی کارروائیاں کریں وہ سکون و عافیت کے ساتھ اپنے ماحول میں رہ رہا ہو مگر لوگ اس کو جھوٹے مقدمات میں الجھا کر اس کے سکون کو غارت کرنے لگیں۔ایسا ہر واقعہ خدا کے انتظام میں مداخلت ہے یہ بے اختیار مخلوق کا ایسے خالق سے لڑنا ہے جو تنہا اور مکمل طور پر ہر قسم کا اختیار رکھتا ہے۔

ایسے واقعات کا مطلب یہ ہے کہ  —خدا نے چاہا مگر بندوں نے نہ چاہا۔ خدا نے اپنے فیصلہ کے تحت تقسیم رزق کا ایک انتظام کیا مگر بندے اس تقسیم کو ماننے پر راضی نہ ہوئے۔ خدا کے مقابلہ میں بندوں کی یہ سرکشی موجودہ دنیا میں بظاہر کامیاب نظر آتی ہے۔ مگر یہ کامیابی صرف اس لیے ہے کہ موجودہ دنیا میں لوگوں کو امتحان کی آزادی حاصل ہے جیسے ہی امتحان کی مدت ختم ہو گی، آدمی اپنے آپ کو اتنا بے زور پائے گا کہ اس کے پاس الفاظ بھی نہ ہوں گے کہ وہ کسی کے خلا ف بولے، اس کے پاس دل بھی نہ ہو گا کہ کسی کو ملیامیٹ کرنے کا منصوبہ بنائے۔

موجودہ دنیا میں انسان کوآزادی حاصل ہے یہاں کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کے چاہے کو باطل کرے، وہ خدا کے تقسیم رزق کو کھنڈت کرنے کی کوشش کرے مگر ایسے لوگوں کا حال اس وقت کیا ہو گا جب امتحان کی موجودہ آزادی ختم ہو چکی ہو گی جب وہی ہو گا جو خدا چاہے اور وہ نہ ہو سکے گا جو خدا نہ چاہے، اس روز خدا کہے گا — میں دیتا ہوں جس کو چاہوں، اب جس کو کرنا ہے میرے چاہے کوباطل کرے۔

دولت کا فریب

کوالالمپور کے اخبار نیو اسٹریٹس ٹائمس (New Straits Times) کی اشاعت 28 جولائی 1984میں ایک خبر نظر سے گزری۔ ایک اطالوی نژا د امریکی کارپینٹر (carpenter) وینر  و   پیگانو(Venero Pagano) جس کی عمر 63 سال ہے اور وہ نیو یار ک کے قریب رہتا ہے وہ آٹھ سال سے بے روزگار تھا اور یونین کی پنشن سے اپنا کام چلا رہا تھا۔ اس کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ اپنے مکان سے متصل زمین پر حسب منشا ٹماٹر کی کاشت کرسکے۔

مذکورہ کا رپنٹر نے لاٹری کا ایک ٹکٹ خریدا۔ 27جولائی 1984 کو اچانک اسے معلوم ہوا کہ اس کو اول انعام ملا ہے یہ انعام 20 ملین ڈالر تھا۔ یہ اب تک کے لاٹری انعاموں میں دنیا بھر میں سب سے بڑا انعام ہے۔

انعام کی خبر سب سے پہلے ٹیلی وژن پر آئی۔ اس کے فوراً بعد اس کے لیے پریس کانفرنس کی گئی۔ اس نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ خبر کو سن کر میں ششدر رہ گیا۔ میں بار بار اپنے نمبر کو اعلان شدہ نمبر سے ملا کر چیک کرتا رہا اور ابھی تک مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ انعام مجھ کو ملا ہے خبر سن کر وہ بھاگ کر اندر کمرے میں گیا ا ور اپنی بیوی سےکہا کہ’’ میرا خیال ہے کہ ہم لوگ کروڑ پتی ہوگئے ہیں‘‘۔ اس نے اخبار نویسوں سے کہا کہ مجھ کو جو ضرورت تھی وہ میں نے پالیا میں نے اپنا مکان پالیا میں نے اپنے ٹماٹر پالیے:

I got whatever I need. I got my house. I got my tomatoes.

دنیا میں آدمی کے پاس دولت ہو تو اس کا ہر کام پور ا ہو جاتا ہے۔ اس لیے آدمی سمجھتا ہے کہ دولت سب کچھ ہے دولت مل جائے تو آدمی سمجھتا ہے کہ اس نے سب کچھ پا لیا۔ حالاں کہ سب کچھ پانایہ ہے کہ آدمی آخرت میں خدا کی رحمتوں کو پالے۔

موت سے پہلے کی زندگی میں آدمی جن مسائل سے دو چار ہے ان سے بالکل مختلف وہ مسائل ہوں گے جن سے آدمی موت کے بعد کی زندگی میں دوچار ہو گا۔ آج دولت کی اہمیت ہے، اس وقت ایمان اور عمل صالح کی اہمیت ہو گی۔ آج چیزیں بازار سے حاصل ہوتی ہیں اس وقت تمام چیزیں خدا کی رحمت کے خزانے سے ملیں گی۔ آج مادی قوانین کے تحت آدمی کو مقام ملتا ہے اس وقت اخلاقی قوانین یہ فیصلہ کریں گے کہ آدمی کو کیا ملے اور کیا نہ ملے۔

گھاٹے والا

قرآن میں ارشاد ہوا ہے— کہو،کیا میں بتائوں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں وہ لوگ جن کی کوششیں دنیا کی زندگی میں کھوئی گئیں اور وہ اسی خیال میں رہے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھوںنے اپنے رب کی نشانیوں کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا۔ پس ان کے اعمال ضائع ہو گیے ہم قیامت کے دن ان کے اعمال کا کچھ وزن قائم نہ کریں گے (18:103-105)۔

تمام محرومیوں میں سب سے زیادہ عجیب محرومی وہ ہے جب کہ آدمی کمائی کرے مگر اس کو اس کا حاصل نہ ملے وہ مہینہ بھر محنت کرے مگر وہ کوئی تنخواہ نہ پائے وہ تجارت میں اپنی ساری پونجی لگائے مگر اسے کچھ نفع حاصل نہ ہو وہ ارمانوں کے ساتھ اپنا گھر بنائے مگر اس میں اس کو چین کے ساتھ رہنا نصیب نہ ہو۔

اگر کسی آدمی کے ساتھ ایسا حادثہ گزرے تو وہ بالکل بجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے اعضاء شل ہو جاتے ہیں۔ اپنی محنت کے آخری نتیجے کو اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے دیکھنا اتنا بڑا حادثہ ہے جس کو کوئی بھی شخص برداشت نہیں کر سکتا۔

یہ دنیا میں اعمال کی بربادی کا حال ہے۔ پھر آخرت میں جب آدمی اپنے اعمال کو ابدی طور پر برباد ہوتے ہوئے دیکھے گا تو اس کا کیا حال ہو گا۔

جب وہ دیکھے گا کہ عمر بھر کی محنت سے بنایا ہوا اِس کا ڈ ھانچہ اچانک ڈھ پڑا۔ اِس کی خوش گمانیوں کا قلعہ ایک ہی جھٹکے میں ہمیشہ کے لیے مسمار ہو گیا۔

جب وہ دیکھے گا کہ دنیا میں محنت کے ساتھ حاصل کی ہوئی کمائی آخرت میں اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی۔ دنیا میں کھڑا کیا جانے والا عظمتوں کا گنبد آخرت میں گرا ہوا پڑا ہے۔ دنیا میں جمع کی ہوئی نیک نامی آخرت میں بالکل بے قیمت ہو چکی ہے۔

جس آدمی نے اپنی دوڑ دھوپ کو صرف دنیا میں لگایا ہو اس کا آخرت میں یہی حال ہو گا کہ وہاں وہ بالکل مفلس بن کر کھڑا ہو گا۔ وہاں اس کی حیثیت صرف ایک لٹے پٹے انسان کی ہو گی یہ منظر آدمی کیلیے نا قابل برداشت حد تک سخت ہو گا۔ کا میابیوں پر فخر کرنے والے ناکامی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہوں گے۔ ترقیات پر ناز کرنے والے ایسے بد حال دکھائی دیں گے جیسے انھوں نے کبھی ترقی کا نام بھی نہیں سنا تھا۔

انسان کاالمیہ

ڈاکٹر اتم پر کاش (1928-1982)ہندستان کے ایک نامور سرجن تھے۔ وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں شعبہ سرجری کے ہیڈ تھے۔ ڈاکٹر پر کاش کو پدم بھوشن کا انعام ملا تھا۔ شعبہ سرجری کی عالمی کانفرنس 17 فروری کو دہلی میں ہونے والی تھی جس کی صدارت کی کرسی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر 14 فروری کو ان پر دل کا دورہ پڑا ور اسپتال پہنچتے پہنچتے ان کا انتقال ہو گیا۔اس وقت ان کی عمر صرف 54 سال تھی۔

سرجری پر ہونے والی ورلڈ کانفرنس کی کامیابی ان کے ذاتی وقار کو بہت زیادہ بڑھا دیتی۔ اسی بنا پر وہ اس کے معاملا ت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے تھے۔ انھوں نے راشٹرپتی سنجیواریڈی(1913-1996) کو آمادہ کر لیا تھا کہ وہ کانفرنس کا افتتاح کریں مگر جب سارے انتظامات مکمل ہو چکے تو راشٹرپتی بھون سکریٹریٹ سے بتایا گیا کہ راشٹرپتی ان کے اجلاس میں صرف اس وقت شرکت کر سکیں گے جب کہ مرکزی وزیر صحت بھی وہاں موجود ہوں۔ پروٹوکول (آداب شاہی ) کے مطابق ایسا ہونا ضروری ہے۔

اس سے پہلے ڈاکٹر پرکاش کے منصوبہ میں وزیر صحت کو بلانا شامل نہ تھا مگر اب ضروری ہو گیا کہ وزیر صحت کو بھی شرکت اجلاس کی دعوت دی جائے۔ ڈاکٹر پرکاش نے وزیر صحت کے دفتر کا طواف شروع کیا مگر اب یہاں دوسری رکاوٹ حائل تھی وزیر صحت اجلاس میں شرکت پر راضی نہ ہو سکے۔ ایک ایسے اجلاس میں شرکت کرنا ان کی عزت نفس کے خلاف تھا جس کے اولین پروگرام میں ان کو شامل نہ کیا گیا ہو۔ یہ صدمات ڈاکٹر اتم پرکاش کے لیے اتنے سخت ثابت ہوئے کہ اجلاس کے تین دن پہلے ان پر دل کا سخت دورہ پڑا ور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ کوئی شخص اپنے وقت سے پہلے نہیں مرتا مگر ایک اخباری مبصر (ہندستان ٹائمس، 16فروری 1982)کے یہ الفاظ بالکل درست ہیںکہ موت کے طویل سفر پر روانہ ہونے سے پہلے وہ دہلی کے سب سے زیادہ پریشان آدمی تھے۔

He was the most worried man in town before he took the long road

آج آدمی وقار کے کھونے کو بھی برداشت نہیں کر پاتا۔ پھر آنے والی دنیا میں آدمی کا کیا حال ہو گا جب اس کو بھوک اور پیاس لگے گی مگر وہاں کھانا نہ ہو گا جس کو وہ کھائے اور پانی نہ ہو گا جس سے وہ اپنی پیاس بجھائے۔ وہ تیز دھوپ میں جل رہا ہو گا مگر اس کے لیے کوئی سایہ نہ ہو گا جس کے نیچے وہ پناہ لے۔ عذاب اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو گا مگر وہاں کوئی مددگار نہ ہو گا جو اس کی مدد کو پہنچے آہ وہ انسان جو کنکری کی چوٹ کو برداشت نہیں کر پاتا حالانکہ اس کے اوپر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ کر گرنے والا ہے۔

موت کا حملہ

سکندر اعظم (356-323ق م)یونانی بادشاہ فلپ کالڑکا تھا۔اس نے تخت ملنے کے بعد دس سال کی مدت میںاس زمانہ کی معلوم دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر ڈالا۔مصر کا شہر اسکندر یہ اس کے فتح مصر کی یاد گار کے طور پر اب بھی موجود ہے۔مگر بالآخر اس کا انجام کیا ہوا۔ وہ عراق کے قدیم شہر بابل کے ایک محل میں اس طرح بے بسی کے ساتھ مرگیا جس طرح ایک غریب اورکمزور آدمی اپنی جھونپڑی میں مرتا ہے۔اس نے اپنی زندگی میں جو چا ہا وہ پایا اورپھرسب کچھ پا کر خالی ہاتھ اس دنیا سے چلا گیا۔اس کی وسیع سلطنت اس کے مرنے کے بعد ا س کے تین فوجی سرداروں میں تقسیم ہوگئی۔کیونکہ اس کا واحدبیٹا اس کی زندگی ہی میں قتل کیاجا چکا تھا۔

سکندر کی عظمت کا یہ حال تھا کہ جو لیس سیزرایک بار اسپین میں سکند ر کے مجسمہ کے سامنے سے گزراتو اس کو دیکھ کر وہ بے اختیار رونے لگا۔اس نے کہا سکندر نے جو فاتحانہ کارنامے دس برس کی مدت میں انجام دیے، اس کا دسواں حصہ بھی میں اب تک انجام نہ دے سکا۔

سکند ر مخالفت کو بالکل برداشت نہیں کرتاتھا۔اس کا نظریہ تھا کہ مخالفت شروع ہوتے ہی اس کو فوراً کچل دینا چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ سکندر کی غیر معمولی فتوحات کا باعث اس کی برق رفتاری تھی۔اچانک پہنچ کر دشمن کو دبوچ لینے کی صلاحیت اس کے اندر دنیا کے تمام جنرلوں سے زیادہ تھی ،مگر موت اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئی۔13جون323ق م کو جب موت اس کے اوپر حملہ آور ہوئی تواس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بے بسی کے ساتھ موت کے حوالے کردے۔

موت اس لیے آتی ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ وہ خداکے آگے کس قدر بے بس ہے۔آدمی ہر روز اپنے چاروں طرف موت کے واقعات کو دیکھتا ہے مگر وہ اس سے کوئی سبق نہیں لیتا۔وہ زندگی کی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھو لارہتا ہے ،یہاں تک کہ موت آکر اس سے خود مہلت کو چھین لیتی ہے کہ وہ سوچے اوراس سے سبق لے۔موت آدمی کے لیے سب سے بڑاسبق ہے۔مگر موت سے آدمی سب سے کم جو چیز لے رہا ہے وہ یہی ہے۔

پانچ سکنڈ کا فاصلہ

3جون 1979 کو راقم الحروف میر ٹھ میں تھا۔ شام کا وقت تھا۔ میں اور مولانا شکیل احمد قاسمی صدر بازار کی سڑک پر ایک ساتھ جا رہے تھے۔

اس کے بعد اچانک ایک واقعہ ہوا۔ ہمارے سامنے ایک مکان کے آگے کا حصہ دھماکہ کے ساتھ گر پڑا۔اینٹ اور پتھر سڑک پر ڈھیر ہو گئے۔ اس وقت ہم دونوں جائے حادثہ سے بمشکل پانچ سکنڈ کی مسافت پر تھے۔ اگر ہم پانچ سکنڈ آگے ہوتے یا مکان پانچ سکنڈ بعد گرتا تو یقیناً ہم دونوں اس کی زد میں آجاتے۔ ہمارا سفر شاید درمیان ہی میں ختم ہو جاتا جس کی منزل ہم نے بہت آگے سمجھ رکھی تھی۔

میں نے سوچا آدمی اور اس کی موت کے درمیان صرف پانچ سکنڈ کا فاصلہ ہے۔ کسی بھی آدمی کے لیے ہر آن یہ اندیشہ ہے کہ اس کا پانچ سکنڈ کا سفر پورا ہو جائے اور اچانک وہ اپنے آپ کو دوسری دنیا میں پائے۔

آدمی اگر اچھی طرح اس با ت کو جان لے کہ اس کے اور موت کے درمیان صرف پانچ سکنڈ کا فاصلہ ہے تو اس کی دنیا بالکل بدل جائے۔ وہ ایک اور ہی قسم کا انسان بن جائے وہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں جینے لگے۔

زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جان لے کہ وہ ہر وقت موت کے کنارے کھڑا ہوا ہے ایسی موت جس کے معاً بعد آدمی ،حدیث کے الفاظ میں، یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہو جاتا ہے یا دو زخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں جا گرتا ہے۔ آدمی کا ہر قدم اس کو دو انتہائی انجام میں سے کسی ایک انجام کے قریب پہنچا رہا ہے۔ مگر انسان اتنا بے حس بنا ہوا ہے کہ اس کو اس کی خبر نہیں۔

لوگ جھوٹی خدا پرستی پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں حالانکہ آخرت میں صرف حقیقی خدا پرستی کسی شخص کے کام آئے گی۔ حقیقی خدا پرستی یہ ہے کہ آدمی اس طرح اللہ سے ڈرنے لگے کہ وہ اس کے ذہن پر چھا جائے وہ اس کے صبح و شام کانگراں بن جائے وہ جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ وہ خدا کے سامنے ایسا کر رہا ہے اس کو دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر ستانے لگے۔

ناتما م کہانی

مسٹر پی این پاٹھک ایک بے حد محنتی آدمی تھے وہ انگریز ی اخبار ہندستان ٹائمس (نئی دہلی ) میں ایک معمولی ملازم کے طور پر1958 میں داخل ہوئے اور آخر میں اس کے کمپوزنگ شعبہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بن گئے۔ و ہ غالباً مزید ترقی کرتے مگر 27 دسمبر 1984ء کو حرکت قلب بند ہونے سے ان کا انتقال ہو گیا مرنے کے وقت ان کی عمر صرف50 سال تھی۔

ہندستان ٹائمس (28 دسمبر 1984 )میں ان کی اچانک موت کی خبر دیتے ہوئے یہ الفاظ درج ہیں کہ وہ اپنے عہدہ پر محض سخت محنت کے ذریعے پہنچے تھے:

He rose to the present position by sheer hard work

مسٹر پاٹھک نے الٰہ آباد میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد پندرہ سال تک وہ ٹائمس آف انڈیا اور انڈین ایکسپریس میں رہے۔ اس کے بعد1958 میں وہ ہندستان ٹائمس کے عملہ میں داخل ہوئے۔ یہاں انہیںجم کر کام کرنے اور محنت کرنے کا موقع ملا 25 سال محنت کے بعد وہ اخبار میں ایک بڑے عہدہ پر پہنچ گئے مگر ابھی وہ اس عہدہ سے متمتع بھی نہیں ہو سکے تھے کہ اچانک موت کا وقت آگیا۔

یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کیسے عجیب المیہ سے دو چار ہے۔ انسان بے پناہ محنت کرتا ہے وہ اپنی پوری طاقت خرچ کر کے ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہنچتا ہے۔ مگر اپنی کوششوں کے آخری انجام سے فائدہ اٹھانے کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوتا کہ اس کی موت آجاتی ہے۔

زندگی کا یہ خاتمہ کیسا درد ناک ہے مگر کوئی شخص اس پر غور نہیں کرتا ہر آدمی دوبا رہ اسی درد ناک کہانی کو لکھنا چاہتا ہے جس کو اس کے پیش رو نے لکھنا چاہا تھا اوروہ اس کو لکھنے میں کامیاب نہ ہوا۔ تمام انسانوںکی کہانی نا مکمل کہانی ہے۔ مگر کوئی نہیں جس کو یہ سوال بے چین کرے کہ اس کا راز کیا ہے اور وہ کون سا طریقہ ہے جس کو اختیار کرکے انسان کی کہانی مکمل کہانی بن سکے۔

ہر انسان اس دنیا میں ایک نا تمام کہانی ہے۔ ہر انسان اپنی منزل پر پہنچ کر اچانک بے منزل ہو جاتا ہے۔ زندگی کی یہ بے انجامی کیسی عجیب ہے اور اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ کسی کو اپنی بے انجامی کی فکر نہیں۔

موت کو یاد کرو

کچھواپانچ سو سال تک زندہ رہتا ہے۔درخت ایک ہزار سال تک زمین پر کھڑارہتا ہے۔پہاڑ اوردریاکروروں سال تک اپنی شان کو باقی رکھتے ہیں۔مگر انسان کی عمر پچا س یا سوسال سے زیادہ نہیں۔انسان جوبظاہر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ اشرف اورافضل ہے وہ سب سے کم زندگی پاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ مختصر زندگی بھی ناکامیوں کی ایک مسلسل داستان کے سوا اورکچھ نہیں۔آدمی کی زندگی غم اوردکھ سے اتنا زیادہ بھری ہوئی ہے کہ خوشی کے لمحات غفلت کی چند جھلکیوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔بیماری ،حادثہ ،بڑھاپا ، امیدوں کی مسلسل پامالی کا نام زندگی ہے اوربالآخر اس قسم کے درد ناک ایام گزارتے ہوئے ایک دن موت کے آگے شکست کھاجانا۔

ایک غریب کو یہ حسرت ہوتی ہے کہ اس کے پاس بڑامکان نہیں۔اس کے پاس ضروریات زندگی کے لیے کافی پیسہ نہیں۔مگر دوسری طرف ان لوگوں کا حال بھی بہت مختلف نہیں جن کو ایک غریب آدمی رشک کی نظر سے دیکھتا ہے ،دولت مند آدمی کے لیے پیسہ ہونا اس سے زیادہ بڑے مسائل پیدا کرتاہے جو غریب کو پیسہ نہ ہونے کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ایک مشہور آدمی جس کے گرد انسانو ں کی بھیڑ لگی ہوئی ہو اندر سے اس قدر بے چین ہوتا ہے کہ رات کو گولی کھائے بغیر اسے نیند نہیں آتی۔غرض اس دنیا میں ہر آدمی دکھی ہے ،کوئی ایک صورت میں اورکوئی دوسری صورت میں۔

بالفرض کوئی شخص ناموافق حالات سے بچ جائے اوراس خوش قسمتی کو حاصل کرلے جس کو سکھ اورچین کہتے ہیں ،تب بھی کتنے دن تک۔اگر کوئی شخص اتفاقی اسباب کے تحت خوشیوں کا خزانہ اپنے گرد جمع کرلے تو وہ بھی بس صبح سے شام تک کے لیے ہوگا۔اس کے بعد اچانک موت کا بے رحم فرشتہ آئے گا اوراس کو اس طرح پکڑے گا کہ نہ اس کی دولت اس کو بچا سکے گی اور نہ اِس کی فوج۔ ہوائی جہاز کے مسافر پر بھی موت اسی طرح قابو پالیتی ہے جس طرح ایک پیدل چلنے والے آدمی پر۔وہ عالی شان محلوں میں بھی اسی طرح فاتحانہ داخل ہوجاتی ہے جس طرح ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں۔ موت آدمی کی سب سے بڑی مجبوری ہے۔

موت آدمی کویاد دلاتی ہے کہ وہ آج سے اوپر اٹھ کر سوچے۔وہ کامیابی کوزندگی کے اُس پار تلاش کرے۔کامیاب وہ ہے جو موت سے یہ سبق لے لے۔جو شخص یہ سبق لینے سے محروم رہے اس کی خوشیوں کے چراغ بہت جلد بجھ جائیں گے۔وہ اپنے کو ایک ایسے بھیانک اندھیرے میں پائے گاجہاں وہ ابدالآ بادتک ٹھوکر یں کھاتا رہے اورکبھی اس سے نکل نہ سکے۔

جب موت ذہنی طلسم کو توڑدے گی

ایران میں فروری 1979میں شاہ مخالفت عناصر غالب آگئے۔اس کے بعد خفیہ انقلابی عدالتیں قائم ہوئیں۔ سرسری سماعت کے بعد ان افسروں کو گولی مارکر ہلاک کیا جانے لگا جنھوںنے شاہ کے حکم کی تعمیل میں شاہ مخالف عناصر کوکچلنے کی کوشش کی تھی۔اس سلسلہ میں جو خبریں آرہی ہیں ان میں بڑی عبرت کاسامان ہے۔

جنرل ربیع شاہ کی خفیہ پولس ساواک (Savak)میں اعلیٰ افسر تھے۔9اپریل 1979کو تہران میں ان لوگوں کو گولی مارکر ہلاک کردیاگیا۔ایران کی نئی انقلابی حکومت میں ان پر مقدمہ چلایا گیاتھا۔رائٹر کے مطابق انھوں نے اپنے بیان میں عدالت سے کہا:

I am sorry I served somebody until it was too late to discover he was nothing.

مجھے افسوس ہے کہ میں شاہ ایران کے احکام کی تعمیل کرتا رہا۔میں اس کے بے حقیقت ہونے کو صرف اس وقت جان سکا جب کہ اس کوجاننے کا وقت نکل چکا تھا — یہی صورت زیادہ بڑے پیمانہ پر موت کے وقت پیش آتی ہے۔آدمی اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑتارہتا ہے۔یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے۔اس وقت اس کی آنکھ کھلتی ہے۔اب اس کومعلوم ہوتا ہے کہ جن خوش نماخیالات اورخوب صورت الفاظ کے سہاے وہ جی رہاتھا ان کی کوئی حقیقت نہ تھی۔موت کے جھٹکے کے بعد اچانک وہ ہوش میں آجاتا ہے۔مگر اب اس کا ہوش میں آنا بے کار ہوتا ہے۔کیونکہ یہ بدلہ پانے کا وقت ہوتاہے نہ کہ عمل کرنے کا۔

اسی طرح،رائٹر کے مطابق ،ایک اورملزم جنرل خواجہ نوری نے عدالت کے سامنے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا:

Because of the heavy censorship. I was unaware of the real situation.

’’خبروں پر بھاری سنسر قائم ہونے کی وجہ سے میں حقیقی صورت حال سے بالکل بے خبر رہا‘‘۔ آخرت کے اعتبار سے بھی انسان کا حال یہی ہے۔آدمی اپنے خیالات میں اس طرح گم رہتا ہے کہ اس کو باہر کے حقائق دکھائی نہیں دیتے۔وہ اپنی خواہشات کے خول میں بند رہتاہے۔وہ لفظی توجیہات وضع کرتاہے اوران کے سہارے جیتا رہتا ہے۔وہ اپنے مطابق حق اور ناحق کا ایک خود ساختہ ڈھانچہ گھڑتا ہے اوراپنے آپ کو اس کے حسب حال پاکر خوش ہوتا رہتا ہے۔وہ اپنی خوش خیالیوں اوردنیو ی کامیابیوں کے مطابق اپنے گرد ایک فرضی ہالہ بنالیتا ہے اوراس کے اندر اس طرح صبح وشام کرتا رہتا ہے جیسے وہ ابدی حصار میں آگیا ہے ، آدمی اسی طرح اپنی زندگی کے دن گزارتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ موت آکر اس کے ذہنی فریب کا پردہ پھاڑ دیتی ہے۔اب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جس فکری گھروندے میں جی رہا تھا وہ فرضی طلسمات کے سوا اورکچھ نہ تھا۔وہ جن الفاظ کولکھ اوربول رہاتھا وہ معانی سے بالکل خالی تھے۔وہ جن کاموں میں مشغول تھا وہ عالم آخرت کے اعتبار سے کوئی قیمت نہ رکھتے تھے۔جن مشاغل پر اس نے خدا اوراسلام کا بورڈ لگا رکھاتھا وہ محض اس کی ایک ذاتی تجارت تھی۔وہ صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے متحرک تھا نہ کہ حقیقہً خد اکی رضا کے لیے۔

ساٹھ کیلومیٹر

جابر حسین ایک ریلوے گارڈ تھے۔ان کی ملازمت کی مدت پوری ہوچکی تھی۔ 17جولائی 1981کو وہ اندور۔بلا سپور ایکسپر س لے کر روانہ ہوئے۔یہ گارڈ کی حیثیت سے ان کا آخری سفر تھا۔کیونکہ اگلے دن 18 جولائی سے وہ ریٹائر ہونے والے تھے۔ ریٹائر منٹ کے بعد انھوں نے اپنی زندگی کا پورانقشہ بنا رکھا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اب وہ اپنے اس نقشہ کو زیر عمل لانے کے کنارے پہنچ چکے ہیں۔ریلوے گارڈ کی حیثیت سے اپنی ڈیوٹی کے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے انھوں نے اپنے دوستوں سے کہا ’’کل سے میری دوسری زندگی شروع ہوگی‘‘۔

یہ سفر جابر حسین کے لیے واقعی آخری سفر تھا اوراس کے بعد ہی ان کی دوسری زندگی شروع ہوگئی۔مگر اس معنی میں نہیں جس میں کہ انھوں نے سمجھا تھاکہ بلکہ کسی اورمعنی میں۔ ان کی ایکسپرس ٹرین اپنی منزل سے ساٹھ کیلومیٹر کے فاصلہ پر تھی کہ پیچھے سے آنے والی مال گاڑی ان کی ٹرین سے ٹکراگئی۔گارڈ کا ڈبہ چکنا چور ہوگیا۔جابر حسین فوراً ہلاک ہوگئے۔ ایک ریلوے افسر نے اس حادثہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

Sixty kilometres more and it would have been the end of his official journey.

جابر حسین نے اگر60 کیلومیٹر اورطے کرلیا ہوتا تو ریلوے ملازم کی حیثیت سے ان کا سفر پوراہوجاتا(انڈین ایکسپرس 18جولائی 1981)۔

یہی اس دنیا میں ہر آدمی کا حال ہے۔ہر آدمی اپنی زندگی کولمبی تصو رکیے ہوئے ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس کا سفر ’’60 کیلومیٹر ‘‘کے بعد پوراہوگا۔مگر موت کا فرشتہ اس کو60کیلومیٹر سے پہلے ہی پکڑ لیتا ہے۔ہر آدمی موجودہ دنیا میں ’’اپنی کل ‘‘کی تعمیر کا ایک نقشہ لیے ہوئے ہےمگر اچانک موت آکر اس کو بتاتی ہے کہ اس کی ’’کل ‘‘اس دنیامیں شروع نہیں ہوتی جہاں 17جولائی کے بعد 18جولائی اور18جولائی کے بعد 19جولائی کی تاریخیں آتی ہیں۔بلکہ اس کی کل اس ابدی دنیامیں شروع ہوتی ہے جہاں دنیا کے کیلنڈر لپیٹ کررکھ دئے جاتے ہیں۔آدمی جہاں اپنے سفر کو ختم سمجھ رہا ہے وہیں سے اس کے حقیقی سفر کا آغاز ہوتاہے۔

کیساعجیب

کرنا ٹک کے گورنر مسٹر گووند نرائن (1916-2012)کی لڑکی نندنی کی عمرابھی صرف 38سال تھی کہ16ستمبر 1981کو نئی دہلی میںاس کا انتقال ہوگیا۔ایک ہنستی ہوئی زندگی اچانک خاموش ہوگئی۔

نندنی بہت ذہین اور تندرست تھی۔ اس کی تعلیم خالص انگریزی طرزپر ہوئی۔ اس کے بعد اس نے امریکاسے جرنلزم (صحافت ) کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ہندستان ٹائمس میں سینئر رپورٹر تھی۔ اپنی مختلف خصوصیات کی وجہ سے نندنی اپنے اخباری ساتھیوں کے درمیان بہت مقبول تھی۔ اس کے ایک ساتھی کے الفاظ میں نندنی کی زندگی کا نظریہ یہ تھا :

She loved life to the full and wanted to live it to the full

وہ زندگی سے آخری حد تک پیار کرتی تھی اور زندگی کے ساتھ آخری حد تک رہنا چاہتی تھی۔

نندنی کی وفات پر اس کے ساتھی رپورٹروں نے ایک یادداشت (ہندستان ٹائمس، 17 ستمبر 1918) شائع کی ہے۔اس یادداشت کے خاتمہ پروہ لکھتے ہیں— نندنی کی موت اس حقیقت کی ایک بے رحم یاد دہانی ہے کہ ہر آدمی کا ایک بے حد مقرر وقت ہے:

It is a cruel reminder of the fact that there is a deadline for everyone.

کیسی عجیب بات ہے ایک جیتی جاگتی زندگی اچانک بجھ جاتی ہے۔ ایک ہنستا ہوا چہرہ ایک لمحہ میں اس طرح ختم ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ مٹی سے بھی زیادہ بے قیمت تھا۔ حوصلوں اور تمنائوں سے بھری ہوئی ایک روح دفعتا اس طرح منظر سے ہٹا دی جاتی ہے جیسے اس کے حوصلوں اور تمنائوں کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔

زندگی کس قدر بامعنی ہے۔ مگر اس کانجام اس کو کس قدر بے معنی بنا دیتا ہے۔ آدمی بظاہر کتنا آزاد ہے مگر موت کے سامنے وہ کتنا مجبور نظر آتاہے۔ انسان اپنی خواہشوں اور تمنائوں کو کتنا زیادہ عزیز رکھتا ہے، مگر قدرت کا فیصلہ اس کی خواہشوں اور تمنائوں کو کتنی بے رحمی سے کچل دیتاہے۔

آدمی اگر صرف اپنی موت کو یاد رکھے تو وہ کبھی سرکشی نہ کرے کامیاب اجتماعی زندگی کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی اپنی حد کے اندر رہنے پر راضی ہو جائے اور موت بلاشبہ اس حقیقت کی سب سے بہتر اور سب سے بڑی معلم ہے۔

موت کا مرحلہ

موت کا لمحہ تمام قابل قیاس اور نا قابل قیاس لمحات سے زیادہ شدید ہے۔ ہر دوسری مصیبت جس کے لیے آدمی پریشان ہو تا ہے اس مصیبت کے مقابلہ میں ہیچ ہے جو موت کی صورت میں اس کے سامنے آنے والی ہے۔

موت زندگی کے سخت ترین مرحلہ کی طرف سفر ہے یہ کامل بے اختیاری کامل بے سروسامانی اور کامل بے مددگاری کے مرحلہ میں داخل ہونا ہے دنیا کی ہر تکلیف کی ایک حد ہوتی ہے موت ہم کو ایک ایسی دنیا میں داخل کر دیتی ہے جس کی تکلیفوں اور مصیبتوں کی کوئی حد نہیں۔

موجودہ دنیا میں بھی آدمی با اعتبار حقیقت اسی حال میں ہے۔ انسان اپنی ذات کے اعتبار سے اتنا کمزور ہے کہ وہ معمولی نا خوشگواری کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ ایک سوئی کا چبھنا، ایک دن کی بھوک پیاس، چند دن کے لیے نیند نہ آنا بھی اس کے پورے وجود کو تڑ پا دیتا ہے۔ تاہم موجودہ دنیا میں اس کو اس کی ضرورت کے مطابق تمام چیزیں حاصل ہیں ، اس لیے وہ اپنی بے چار گی کو بھولا رہتا ہے وہ اپنی حقیقت سے نا آشنا رہتا ہے۔

اگر آدمی سے موجودہ دنیا چھین لی جائے جہاں پانی اور غذا ہے، جہاں ہوا اور روشنی ہے، جہاںفطرت کی قوتوں کو مسخر کر کے تمدن بنانے کے امکانات ہیں۔ اگر موجودہ دنیا آدمی سے چھین لی جائے تو خلا کے کسی دوسرے مقام پر وہ اپنے لیے اس قسم کی ایک اور دنیا کی تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد اس کا انجام اس کے سواکچھ نہ ہو گا کہ وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہے۔ 

دنیا میں آدمی پر مصیبت پڑتی ہے تو وہ آہ واویلا کرتا ہے۔لیکن اگر وہ آنے والے دن کو جانے تو وہ کہے گاکہ خدایا جو کچھ بیت رہا ہے اس سے کہیں زیادہ سخت ہے وہ جو بیتنے والا ہے۔ دنیا میں آدمی کو عزت اور آرام حاصل ہو تو وہ فخر اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ آنے والے لمحات کو جانے تو وہ کہہ اٹھے گا کہ خدایا اس عزت اور آرام کی کوئی حیثیت نہیں اگر آنے والے طویل تر مرحلہ میں وہ باقی نہ رہے۔

موت ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں ، وہ ایک نئے مرحلۂ حیات کا آغاز ہے۔ یہ نیا مرحلہ کسی کے لیے تمام مصیبتوں سے زیادہ بڑی مصیبت کا آغار ہو گا اور کسی کے لیے تمام راحتوں سے زیادہ بڑی راحت کا دروازہ۔

موت کے دروازے پر 

موت کا مرحلہ سب سے زیادہ یقینی مرحلہ ہے جس سے آدمی کو لازماً گزرنا ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی کو زندگی نہ ملے مگر جس کو زندگی ملی اس کے لیے موت کا آنا لازمی ہے۔ ہر آدمی جو زندہ ہے وہ ایک روز مرے گا۔ ہر آدمی جو دیکھتا اور بولتا ہے، یقیناً ایک روزاس کی آنکھ بے نور ہو گی اور اس کا بولنا بند ہو جائے گا۔ ہر آدمی پر وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ موت کے دروازہ پر کھڑا کر دیا جائے۔ اس وقت اس کے پیچھے دنیا ہو گی اور اس کے آگے آخرت وہ ایک ایسی دنیا کو چھوڑ رہا ہو گا جہاں وہ دوبارہ کبھی نہیں آئے گا اور ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہا ہو گا جس سے اس کو کبھی نکلنا نصیب نہ ہو گا وہ اپنے عمل کے میدان سے ہٹا کر وہاں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ اپنے عمل کا ابدی انجام بھگتتا رہے۔

زندگی ایک بے اعتبار چیز ہے جب کہ موت بالکل یقینی ہے۔ ہم زندہ صرف اس لیے ہیں کہ ابھی ہم مرے نہیں ہیں اور موت وہ چیز ہے جس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ ہم ہر لمحہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم زندگی کے مقابلہ میں موت سے زیادہ قریب ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں حالاں کہ زیادہ صحیح با ت یہ ہے کہ وہ مرے ہوئے ہیں وہ موت جس کا وقت مقرر نہ ہو جو ابھی اگلے لمحہ آسکتی ہو وہ گویا ہر وقت آرہی ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ وہ آچکی ہے، بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ وہ آنے والی ہے۔ اس لیے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ— اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرووعُدَّ نفسَك في أَهلِ القبورِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2333 )۔

موت ہر چیز کو باطل کر دیتی ہے، وہ ہماری زندگی کا سب سے زیادہ بھیانک واقعہ ہے تا ہم موت اگر صرف زندگی کا خاتمہ ہوتی تو وہ زیادہ بھیانک نہیں تھی۔ موت کا مطلب اگر صرف یہ ہوتا کہ اب آئندہ کے لیے اس انسان کا وجود نہ رہے گا جو چلتا تھا اور جو دیکھتا اور سنتا تھا تو اپنی ساری ہولنا کیوں کے باوجود یہ صرف ایک وقتی حادثہ تھا نہ کہ کوئی مستقل مسئلہ۔ مگر اصل مشکل یہ ہے کہ موت ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں وہ ایک نئی اور ابدی زندگی کا آغاز ہے۔موت کا مطلب اپنے ابدی انجام کی دنیا میں داخل ہونا ہے۔

ہر آدمی زندگی سے موت کی طرف سفر کررہا ہے۔کسی کا سفر دنیا کی خاطر ہے اورکسی کا آخرت کی خاطر۔ کوئی سامنے کی چیزوں میں جی رہا ہے،کوئی اپنی خواہش اورانا کی تسکین کے لیے دوڑ دھوپ کررہا ہے اورکسی کو خدا کے خوف اورخدا کی محبت نے بے چین کررکھا ہے۔دونوں قسم کے لوگ شام کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی تھکان کو مٹائیں اوراگلے دن دوبارہ صبح کرتے ہیں تاکہ پسندکی دنیا میں دوبارہ سرگرم ہوجائیں۔موجودہ دنیا میں دونوں بظاہر یکساں نظر آتے ہیں۔مگر موت کے بعد آنے والی منزل کے اعتبار سے دونوں کا حال یکساں نہیں۔جو شخص خد ااورآخرت میں جی رہا ہے وہ اپنے کو بچا رہا ہے اورجو شخص دنیا کی دلچسپیوں اوراپنے نفس کی خواہشوں میں جی رہا ہے وہ اپنے کو ہلاک کررہا ہے۔

سب سے بڑا بھونچال

آج لوگو ں کے پاس الفاظ ہیں جن کو وہ بے تکان دہرارہے ہیں مگر ایک وقت آنے والا ہے جب کہ ان کے الفاظ چھن چکے ہوں گے۔ ان کو اپنا ہر بول بالکل بے قیمت نظر آئے گا۔ وہاں کوئی سننے والا نہ ہو گا۔ جو اِن کے الفاظ کو سنے۔ کوئی پریس نہ ہو گا جو ان کے الفاظ کو چھاپے۔ کوئی لائوڈ اسپیکر نہ ہو گا جو ان کے الفاظ کو فضا میں بکھیرے۔ ان کی خوش خیالیوں کا محل گر چکا ہو گا۔ وہ حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے اپنے چاروں طرف دیکھیں گے اور کچھ نہ کر سکیں گے۔ اس وقت ان کو نظر آجائے گا کہ دنیا میں حق کا انکار کرنے کے لیے وہ جن الفاظ کا سہارا لیے ہوئے تھے وہ کس قدر بے قیمت تھے یہ دنیا چونکہ امتحان کی دنیا ہے اس لیے یہاں الفاظ ہر معنی کوقبول کر لیتے ہیں۔ ایک نا حق بات کو بھی یہاں شان دار الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے مگر موت کے بعد جو دنیا آئے گی وہاں صرف سچی بات بولنا ممکن ہو گا وہاں الفاظ کسی غلط بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔

حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ— موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہےأَكْثِرُوا ذِكْرَ هَادِمِ اللَّذَّاتِيَعْنِي الْمَوْتَ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258 )۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی اگر موت کو یاد کرتا رہے تو اس کے لیے دنیا کی وہ تمام چیزیں بالکل بے حقیقت ہوجائیں جن کی خاطر وہ ظلم اور بے انصافی کرتا ہے اور اپنے لیے جہنم کی آگ میں جلنے کا خطرہ مول لیتا ہے جس مال کو آدمی اپنا سب کچھ سمجھتا ہے اور اس کے سمیٹنے میں اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے وہ اس کو برت نہیں پاتا کہ موت آجاتی ہے اور اس کو اس کمائے ہوئے مال سے جدا کر دیتی ہے اگر آدمی کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوتو وہ مال کے پیچھے اپنے کو دیوانہ نہ بنائے آدمی کو کسی سے شکایت ہو جاتی ہے اور وہ اس کو مٹانے اور اس کو برباد کرنے میں لگ جاتا ہے مگر ابھی وہ اپنے تخریبی منصوبہ کو پورا نہیں کر پاتا کہ موت اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان حائل ہوجاتی ہے وہ اپنے دشمن کو اس کے حال میں چھوڑ کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اگر یہ حقیقت آدمی کے ذہن میں تازہ ہوتو وہ کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ آدمی کے سامنے ایک سچائی آتی ہے، مگر وہ اس کااعتراف نہیں کرتا کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے اس کا اعتراف کر لیا تو وہ بڑائی کے مقام سے نیچے آجائے گا۔ اس کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ کر منتشر ہو جائے گا، مگر سچائی کے انکار کے بعد اس پر چند دن بھی نہیں گزرتے کہ موت اس کی بڑائی کو ختم کر دیتی ہے اور اس کا سارا نقشہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔اگر وہ موت سے پہلے اس ہونے والے واقعہ کو یاد کرلے تو کبھی ایسی سچائی کے انکار کی جرأت نہ کرے جس کو چند لمحہ بعد اس کو بہر حال تسلیم کرنا ہے۔

ایک ایسا گھر جو کل جل کر تباہ ہو جانے والا ہو اس کو کوئی نہیں خریدتا ایک ایسا شہر جو اگلے لمحہ بھونچال کی زد میں آنے والا ہو اس میں کوئی داخل نہیں ہوتا مگر کیسی عجیب بات ہے کہ موت کے عظیم تر بھونچال کے معاملہ میں ہر آدمی یہی غلطی کر رہا ہے۔

موت ہر چیز کو باطل کر دے گی

وہ وقت کیسا عجیب ہو گا جب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ عمل کے نام پر دنیا میں وہ جو کچھ کرتے رہے وہ بے عملی کی بد ترین شکل تھی لوگ دنیا میں ا پنے آپ کو اوپر اٹھا کر فخر کرتے رہے حالاں کہ ان کے لیے قابل فخر بات یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے آگے جھکا دیں۔ وہ اپنی غلطیوں کی توجیہ وتا ویل کو کامیابی سمجھتے رہے حالاں کہ ان کی کامیابی یہ تھی کہ وہ اپنی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کر لیں۔ ان کو الفاظ اس لیے دئے گئے تھے کہ ان کو اللہ کی تعریف میں استعمال کریں مگر وہ اپنے الفاظ کے ذخیرہ کو انسان کی تعریف میں خرچ کرتے رہے۔ ان کے اندر خوف و محبت کے نازک جذبات اس لیے رکھے گئے تھے کہ وہ ان کو خدا کے لیے وقف کردیں مگر وہ دوسری چیزوں کو اپنے خو ف ومحبت کے جذبات کا مرکز بناتے رہے۔ انھوں نے مال جمع کرنے کو سب سے بڑی چیز سمجھا حالاں کہ ان کے لیے سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ وہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے کر بے مال ہو جائیں۔ ان کا اصلی کمال یہ تھا کہ وہ کمزوروں کا لحاظ کریں مگر وہ کمزوروں کو نظر انداز کر کے طاقت وروں کا استقبال کرتے رہے۔ ان کے لیے زیادہ بہتر یہ تھا کہ معافی کے خاموش سمندر میں غوطہ لگائیں مگر وہ شوروغل کے ہنگامے کھڑے کرنے میں مشغول رہے ان کی ترقی کا راز یہ تھا کہ وہ اپنی ذات کا احتساب کرنے والے بنیں مگر وہ دوسروں کا احتساب کرنے میں مصروف رہے۔ ان سے یہ مطلوب تھا کہ دنیا کا مال یا دنیا کی عزت پائیں تو اس کو بے حقیقت سمجھیں اور اس سے بے رغبتی کا ثبوت دیں مگر اسی کو وہ سب سے بڑی چیز سمجھ بیٹھے۔

آج کی دنیا میں لوگ دوسروں کے ظلم کا اعلان کرنے کے بہادر بنے ہوئے ہیں ، اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب ان کو معلوم ہو گا کہ اصل بہادری یہ تھی کہ وہ خود اپنے ظلم کو جاننے کے بہادر بنیں۔ لوگ کسی نہ کسی غیر خدا کا دامن تھام کر سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنے لیے مضبوط پناہ حاصل کر لی، اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب ان کو معلوم ہو گا کہ خدا کے سوا کوئی نہ تھاجو کسی کے لیے پناہ بن سکے۔ لوگ الفاظ بول کر اپنے کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں۔ اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب ان کو معلوم ہو گا کہ یہ صر ف حقائق تھے جو کسی کو بری الذمہ کر سکتے تھے لوگ دنیا کے اسباب کو اکٹھا کر کے مطمئن ہیں کہ جو کچھ ان کو پانا تھا وہ انھوں نے پا لیا، اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب موت ان کی ہر چیز کو باطل کر دے گی اور ان کو معلوم ہو گا کہ انھوں نے کچھ بھی نہیں پایا تھا۔ لوگ دوسروں کی غلطیوں کی فہرست مرتب کر رہے ہیں اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب فرشتے خود ان کی غلطیوں کی فہرست ان کے سامنے پیش کریں گے۔ لوگ زندگی کو اصل مسئلہ سمجھے ہوئے ہیں اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب ان کو معلوم ہوگا کہ ان کا اصل مسئلہ موت تھا نہ کہ دنیا کی چند روزہ زندگی۔ لوگ اپنے خود ساختہ معیار کے مطابق پا کر اپنے کو برحق سمجھ رہے ہیں۔ اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب ان کو معلوم ہو گا کہ حق پر صرف وہ تھا جو اللہ کے مقرر کیے ہوئے معیار کے مطابق تھا لوگ استقبال کرنے والوں کی بھیڑ پا کر اپنے کو خوش قسمت سمجھ رہے ہیں۔اس وقت لوگوں کا کیا حال ہو گا جب ان کو معلوم ہو گا کہ خوش قسمت صرف وہ تھا جس کے استقبال کے لیے اللہ اور اس کے فرشتے اس کا انتظار کر رہے تھے— ہر آدمی نے اپنی خوش خیالیوں کی ایک دنیا بنا رکھی ہے اور اپنے آپ کو اس کے اندر پا کر مطمئن ہے مگر قیامت ایسے تمام گھروندوں کو توڑدے گی اس وقت صرف وہ شخص محفوظ ہو گا جو خدا کے ’’گھر‘‘میں پناہ پکڑے ہوئے تھا جس نے اپنے لیے خدا کا سایہ حاصل کر لیا تھا۔

کل کو یاد رکھیے

لارڈ کرزن(1859-1925) 1898 میں ہندستان کے وائسرائے(Viceroy) ہو کر انگلستان سے یہاں آئے ان کی دولڑکیاں تھیں تیسری پیدائش کے وقت لارڈ کرزن اور لیڈی کرزن کی بہت خواہش تھی کہ ان کے یہاں لڑکا پیدا ہو ۔دونوں بڑی امیدوں کے ساتھ آنے والے وقت کا انتظارکر رہے تھے، مگر تیسری بار بھی مارچ 1904 میں ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی اس وقت ان کا قیام نالدرا میں تھا۔ اس مناسبت سے انھوں نے اپنی لڑکی کا نام الکزنڈر نالدرا کرزن رکھا۔ لارڈ کرزن نے اس زمانہ میں اپنی بیوی کے نام جو خطوط لکھے ان میں سے ایک خط وہ ہے جو انھوں نے شملہ سے لندن بھیجا تھا۔ اس خط میں انھوں نے اپنی بیوی کو تسکین دلانے کی کوشش کی۔ ان کے خط کا ایک جملہ یہ تھا— لڑکا یا لڑکی کا کیا فائدہ جب کہ ہم دونوں اس دنیا سے جا چکے ہوں گے۔

After all what does sex matter after we are both of us gone.

لارڈکرزن کا یہ جملہ محض اپنی مایوس نفسیات کو چھپانے کی ایک کوشش تھی لیکن یہی بات اگر آدمی کے اندر شعوری طور پر پیدا ہو جائے تو دنیا کا آدھا مسئلہ حل ہو جائے دولت، اولاد، اقتدار یہی وہ چیزیں ہیں جن کو آدمی سب سے زیادہ چاہتا ہے اور ان کو حاصل کرنے لے لیے سب کچھ کر ڈالتا ہے۔ اگر آدمی یہ سوچ لے کہ کسی چیز کو پانے کا کیا فائدہ جب کہ چند ہی روز بعد اس کو چھوڑ کر چلا جانا ہے تو لوگوں کے اندر قناعت آجائے اور دنیا کا تمام ظلم و فساد ختم ہو جائے یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں پانے اور نہ پانے میں بہت زیادہ فرق نہیں جو پانا اگلے روز کھونا بننے والا ہو اس پانے کی کیا قیمت ہے۔ آدمی اپنی ساری کوشش خرچ کر کے جو چیز حاصل کر تا ہے وہ صرف اس لیے ہوتی ہے کہ اگلے لمحہ وہ اس کو کھو دے۔ ہر زندگی بالآخر موت سے دوچار ہونے والی ہے۔ ہر وہ محبوب چیز جس کو آدمی اپنے گردو پیش جمع کرتا ہے اس کو چھوڑ کر وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلا جانے والا ہے۔

آدمی ’’آج‘‘ میں جیتا ہے وہ کل کو بالکل بھولا رہتا ہے آدمی دوسرے کا گھر اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے حالاں کہ اگلے دن وہ قبر میں جانے والا ہے۔ آدمی دوسرے کے اوپر جھوٹے مقدمے چلا کر اس کو انسانی عدالت میں لے جاتا ہے حالانکہ فرشتے خود اس کو خدا کی عدالت میں لے جانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ آدمی دوسرے کو نظر انداز کر کے اپنی عظمت کے گنبد میںخوش ہوتا ہے حالاں کہ بہت جلد اس کا گنبد اس طرح ڈھ جانے والا ہے کہ اس کی ایک اینٹ بھی باقی نہ رہے۔

آہ یہ انسان

تقریباً ایک در جن انڈے سامنے رکھے ہوئے تھے۔ بظاہر سب انڈے اوپر سے دیکھنے میں اچھے لگتے تھے۔ مگر جب توڑا گیا تو ایک کے بعد ایک سب خراب نکلتے چلے گئے۔ آخر میں یہ معلوم ہوا کہ ان میں کوئی ایک بھی اچھا نہ تھا۔ سارے انڈے اندر سے خراب انڈے تھے۔ اگرچہ بظاہر اوپر سے اچھے نظر آتے تھے۔

ایسا ہی کچھ حال آج کل انسانوں کا ہورہا ہے۔بظاہر دیکھنے میں ہر آدمی آدمی ہے۔وہ عمدہ کپڑے پہنے ہوئے ہے۔وہ خوبصورت باتیں کرتا ہے۔اوپر سے ہر آدمی اچھا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے پاس اپنے کارناموں کی نہ ختم ہونے والی داستانیں ہیں۔مگر جب تجربہ کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اندر سے کچھ اورتھا۔اوپر کے خوبصورت خول کے اندر ایک انتہائی بد ہیئت اوربالکل مختلف قسم کا انسان چھپا ہواتھا۔

جب کسی سے لین دین ہوتا ہے،جب کوئی شکایت اورتلخی کا کوئی موقع سامنے آتا ہے، جب کسی کے مفاد اور مصلحت پر ضرب پڑتی ہے تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ اندر کا اصلی انسان وہ نہ تھا جو اوپر سے دکھائی دے رہا تھا۔خوبصورت کپڑوں کے اندر جو چیز چھپی ہوئی ہے وہ گندگی کے سوا اورکچھ نہیں۔ خود غرضی ،سطحیت ،ظاہر داری ،فخر ،حسد ،غرور ،موقع پرستی ، تعصب ،استحصال ،یہی وہ چیزیں ہیں جو لوگ اپنے خوبصورت جسموں کے اند ر چھپائے ہوئے ہیں۔ہر آدمی بظاہر اچھا انڈا ہے۔مگر توڑنے کے بعد ہر آدمی خراب انڈاہے۔

یہی آج کی انسانی دنیا ہے۔گہرائی کے ساتھ دیکھیے تو آج کی دنیا میں صرف دوچیزیں نظر آتی ہیں۔دکھ کی آہیں،یاظلم کے قہقہے ،کچھ لوگ بے انصافیوں کا شکار ہوکر آہیں بھر رہے ہیں۔کچھ لوگ اپنے حیوانی ارادوں کی تکمیل کرکے فتح کے قہقہے لگا رہے ہیں۔کچھ لوگ بے شعوری کے گڑھے میں پڑئے ہوئے ہیں۔اور کچھ لوگ بے حسی کے گڑھے میں۔مگر یہ صورت باقی رہنے والی نہیں۔بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو ایک اوردنیا میں پائے گا۔ایک ایسی دنیا جہاں فیصلہ کا سارا اختیار خدا کو ہوگا نہ کہ انسان کو۔

زبان والے بے زبان ہو جائیں گے

قدیم عرب میں ایک شخص جمیل بن معمرجمحی تھا۔وہ بہت ذہین آدمی تھا۔اس کے اندر یہ عجیب صلا حیت تھی کہ وہ دو متضاد نقطۂ نظر پر یکساں قدرت کے ساتھ تقریر کرسکتا تھا۔چنانچہ اس کا نام ذوالقلبین (دودل والا) پڑگیا۔

اس قسم کے کردار مختلف شکلوں میں ہرزمانہ میں پائے گئے ہیں، مگر ذوالقلبین ہو نا خدا کے مقرر کیے ہوئے فطر ی نقشہ سے انحراف کر نا ہے۔ یہ خدا کی دنیا میں ایک نا پسندیدہ چیز ہے نہ کہ کوئی پسندیدہ چیز۔ اس لیے قرآن میں فرمایاگیا کہ — اللہ نے کسی انسان کے دودل نہیں بنائے (33:4)۔ یعنی جب عضویاتی تخلیق میں انسان کو دو دل والا نہیں بنایا گیا ہے تو سوچ اور جذبات کے اعتبار سے بھی دو دل والا ہونا اس کے لیے صحیح نہیں ہو سکتا۔

موجودہ دنیا میں چونکہ انسان کو آزادی حاصل ہے اس لیے یہاں کوئی شخص ایسا کر سکتا ہے کہ وہ ایک معاملہ میں ایک طرز پر سوچے اور دوسرے معاملہ میں دوسرے طرز پر سوچے، وہ ایک مجمع میں ایک ڈھنگ پر بولے اور دوسرے مجمع میں دوسرے ڈھنگ پر تقریر کر ے۔ وہ جسم کے اعتبار سے ایک دل والا انسان ہونے کے باوجود ذہن اور زبان کے اعتبار سے دو دل والا انسان بن کر رہے۔ بلکہ کئی دل والا انسان بن جائے۔ مگر ایسی ہر صورت خدا کے تخلیقی نقشہ کی خلاف ورزی ہے۔ وہ فطرت کے مقررہ راستہ سے انحراف کرتا ہے۔ موجودہ دار الامتحان میں کوئی شخص ایسا متضاد رویہ اختیار کر کے کامیاب ہو سکتا ہے مگر آخرت کی حقیقی اور معیاری دنیا میں اس قسم کا خلاف فطرت رویہ بالکل بے قیمت ہو کر رہ جائے گا۔

اس قسم کا انداز اختیار کرنے والا آدمی موجودہ دنیا میں خوب کامیاب رہتا ہے وہ ہر طبقہ کے لوگوں سے ان کے حسب حال بات کرتا ہے۔ وہ جس سے ملتا ہے یا جہاں جاتا ہے ہر جگہ وہی بات کہتا ہے جو وہاں کے لوگوں کی پسند کے مطابق ہو۔ مگر ایسی ہوشیاری صرف موجودہ دنیا میں کسی کے کام آسکتی ہے کیونکہ یہ دنیا سچائی کے ظہور کی دنیا نہیں۔ آخرت سچائی کے ظہور کی دنیا ہو گی وہاں حق حق کی صورت میں اور باطل باطل کی صورت میں ظاہر ہو جائے گا۔ وہاں جمیل بن معمرجمحی جیسے ماہرین بالکل بے قیمت ہو جائیں گے۔ وہ ساری مہارت کے باوجود ایسا محسوس کریں گے جیسے ان کے پاس زبان ہی نہیں جس سے وہ بولیں اور ان کے پاس قلم ہی نہیں جس سے وہ کچھ لکھ سکیں۔

کیسا عجیب

میں شہر کی ایک پررونق سڑک کے کنارے کھڑاتھا۔تیز رفتار سواریاں مسلسل میرے سامنے سے گزررہی تھیں۔وہ انسانوں کو لیے ہوئے اِدھر ے اُدھر جارہی تھیں۔جیسے وہ کسی منزل کی طرف رواں ہوں۔جیسے وہ کسی پہنچنے کی جگہ پر پہنچنا چاہتی ہوں۔

یہ دیکھ کر مجھے ایسا معلوم ہواجیسے یہ سواریاں نہیں ہیں بلکہ خدا کے فرشتے ہیں جوانسانوں کولیے ہوئے تیزی سے بھاگ رہے ہیں تاکہ جلد ازجلد تمام انسانوں کو اس کے خالق ومالک کے دربار میں پہنچادیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی منزل کی طرف جارہے ہیں۔حالاں کہ وہ خدا کی منزل کی طرف لے جائے جارہے ہیں نہ کہ اپنی کسی منزل کی طرف۔

زندگی کیاہے،موجودہ دنیا میں امتحان کی مہلت۔موت کیا ہے ،آخرت کی دنیا میں بجبر داخلہ۔موجودہ دنیا میں ہم ٹھیک ویسے ہی ہیں جیسے طالب علم امتحان ہال میںہوتا ہے۔کوئی طالب علم صرف گھنٹہ بجنے تک امتحان ہال میں رہ سکتا ہے۔گھنٹہ بجتے ہی وہ اس میں قیام کا حق کھودیتا ہے۔اسی طرح موجودہ دنیا میں انسان صرف اس وقت تک ہے جب تک موت یاقیامت کا گھنٹہ نہ بجے۔گھنٹہ بجنے کے بعد نہ دنیا اس کی رہ جاتی ہے اورنہ وہ دنیاکا۔

انسان سمجھتا ہے کہ میں اپنی دنیا میں ہوں۔حالاں کہ وہ صرف خداکی دنیا میں ہے۔انسان کوجوکچھ ملا ہے وہ خدا کے دئے سے ملاہے۔وہ عین اسی لمحہ چھن جائے گا جب کہ خداان کو چھننے کا فیصلہ کرے۔اس کے بعد انسان اپنے آپ کو اس حال میں پائے گاکہ اس کے پاس ان چیزوں میں سے کچھ نہ ہوگاجن کو آج وہ اپنا سمجھ رہاہے۔

انسان پروہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ بھوکا ہوگا مگر اس کے پاس کھانے کو نہ ہوگا جس سے وہ اپنی بھوک مٹائے۔وہ پیاسا ہوگا مگر اس کے پاس پانی نہ ہوگاجس سے وہ اپنے سینہ کی آگ ٹھنڈی کرے۔اس پر سخت سردی کا موسم آئے گامگر اس کے پاس گرم کپڑے نہ ہوں گے جن سے وہ اپنے بدن کو گرم کرے۔اس کو سخت گرمی کاسامنا ہوگامگر اس کو کوئی سایہ نہ ملے گاجس کے نیچے جاکر وہ ٹھنڈک حاصل کرے۔

آہ ،کیسا عجیب دن انسان پر آنے والاہے مگر وہ اس سے کتنا زیادہ غافل بنا ہواہے۔

جب حقیقت کھلے گی

دنیا میں کچھ لوگ وہ ہیں جن کے دل خداکے آگے جھکے ہوئے نہیں ہیں۔وہ دکھاوے کے لیے خدا کو سجد ہ کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کا حال آخرت میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہاں جب کہا جائے گاکہ اپنے رب کو سجدہ کروتو وہاں سجدہ نہ کرسکیں گے(القلم،68:42)۔

سجدہ محض ایک وقتی اوررسمی نوعیت کا جسمانی فعل نہیں۔وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ کے آگے جھکانا ہے ،وہ اپنی پوری زندگی کو حق وصداقت کے تابع بنا دینا ہے۔اس اعتبار سے دیکھیے تومعلوم ہوگا کہ اس آیت میں محدود معنوں میں صرف ’’سجدہ‘‘کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ آیت پوری زندگی کے بارے میں ایک اہم حقیقت کو بتا رہی ہے۔

موجودہ دنیا میں ہر شخص اورہر قوم کا یہ حال ہے کہ ان کے دل سچائی کے آگے جھکے ہوئے نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو حق کے تابع نہیں بنایا ہے۔مگر ظاہر ی رویہ میں ہر ایک یہ دکھارہا ہے کہ وہ حق پر قائم ہے۔ہر ایک اپنی زبان سے ایسے الفاظ بول رہا ہے گویا کہ اس کا کیس انصاف کا کیس ہے نہ کہ ظلم اوراستغلا ل کا کیس۔

مگر اس قسم کی دھاندلی صرف موجودہ امتحانی دنیا میں ممکن ہے۔آخرت کے آتے ہی پوری صورت حال بالکل بد ل جائے گی۔بازار میں کھوٹے سکے چل سکتے ہیں مگر بینک میں کھوٹے سکے نہیں چلتے۔اسی طرح آخرت میں اس کا امکان ختم ہوجائے گاکہ کوئی جھوٹی بات کو سچے الفاظ میں بیان کرے۔کوئی بے انصافی کے عمل کو انصاف کا عمل ثابت کرے۔

آخرت میں ہوگاکہ الفاظ جھوٹے معانی کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا وہ ظلم کو انصاف بتائے اورباطل کو حق کے لباس میں پیش کرے۔اس وقت ظاہر اورباطن کا فرق ختم ہوجائے گا۔آدمی کی زبان وہی بول سکے گی جو اس کے دل میں ہے۔اس دن ہر آدمی عین اس روپ میں دکھائی دے گا جو باعتبار حقیقت تھا نہ کہ اس روپ میں جو وہ مصنوعی طور پر دوسروں کے سامنے ظاہر کررہاتھا۔

لوگ انسان کے سامنے اپنے آپ کو حق بجانب دکھاکرمطمئن ہیں کہ وہ حق بجانب ثابت ہوگئے۔حالانکہ حق بجانب وہ ہے جو خدا کے سامنے حق بجانب ثابت ہو۔ اور وہاں کا حال یہ ہے کہ وہاں صرف حق حق ثابت ہوگا اورجو باطل ہے وہ وہاں صرف باطل ہوکر رہ جائے گا۔

خدااورآخرت

 

چھوڑنے کے لیے

برطانوی دورحکومت میں ہندستان کادارالسلطنت کلکتہ تھا۔1911میں برطانیہ نے یہ فیصلہ کیاکہ دار السلطنت کوکلکتہ سے دہلی منتقل کردیا جائے۔انگریز ماہر تعمیرات سرایڈون لیوٹنس (1869-1944)نے نئے دارالسلطنت کا نقشہ بنایا۔1913میں پرانی دہلی کے جنوب میں رائے سینا پہاڑیوں کے علاقہ میں تعمیرات شروع ہوئیں۔بالآخروہ عالی شان آبادی وجود میں آئی جس کو نئی دہلی کہاجاتا ہے۔

یہ زمانہ وہ تھا جب کہ ساری دنیا میں ایک نئی سیاسی لہر آچکی تھی۔یہ قومی تحریکوں کی لہر تھی۔سیاسی افکار کی دنیامیں نئے انقلابات نے نو آبادیاتی نظام کا جو از ختم کردیا تھا۔ ہندستان میںآزادی کی تحریک تیزی سے جڑپکڑرہی تھی۔بظاہر یہ بات کھل چکی تھی کہ ہندستان میں برطانیہ کی حکومت اَب زیادہ دیر تک باقی رہنے والی نہیں۔

نئی دہلی کی تعمیر کے بعد اسی زمانہ میں فرانس کے ایک لیڈر نے ہندستان کا دورہ کیا۔جب وہ نئی دہلی آئے اوریہاں نیا تعمیر شدہ عظیم دار السلطنت دیکھا تو انھوں نے اس پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا —’’انھوں نے کیسی شاندار دنیا بنائی ہے ،صرف اس لیے کہ وہ اسے چھوڑدیں:

What a magnificent world they built to leave

یہ کہانی صرف برطانیہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کی کہانی ہے۔یہاں ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ آرزئووں اورتمنائوں کو لیے ہوئے دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ اپنی تمام قوتوں کا استعمال کرکے وہ اپنا ایک ’’شاندار گھر‘‘بناتا ہے۔مگر عین اس وقت جب کہ اس کی آرزئووں کاگھر بن کر مکمل ہوتا ہے،اچانک موت کا فرشتہ آجاتا ہے اور اس کو اس کی محنتوں سے بنائی ہوئی دنیا سے جدا کر کے وہاں پہنچا دیتا ہے جس کو آرتھر کوئسلر(1905-1983) نے نامعلوم ملک (Unknown Country)کا نام دیاہے۔

زندگی کی کہانی اگر اتنی ہی ہو تو وہ کیسی عجیب دردناک کہانی ہے۔مگر جس طرح دنیا کی ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔اسی طرح موجودہ دنیا کابھی ایک تکمیلی جوڑا ہے،اوروہ جوڑاآخرت ہے۔جو شخص آخرت کو بھولا ہواہے اس کی زندگی یقیناً صرف ایک المیہ ہے۔مگر جو شخص امکان آخرت سے فائدہ اٹھائے اورموجودہ دنیا کے مواقع کو اگلی دنیا کی تعمیر میں صرف کرے اِس کے لیے موجودہ دنیا ایک نئی زیادہ کامیاب زندگی کا قیمتی زینہ بن جائے گی۔

آخرت کے بغیر انسا ن کی زندگی صرف ایک المیہ ہے۔مگر آخرت کو ملانے کے بعد وہ ایک طربیہ میں بدل جاتی ہے۔

کہاں سے کہاں تک

5رمضان1404 ھ کو میںدہلی کے ایک جنازہ میں شریک ہوا موت کے بعد مرنے والے شخص کو نہلایا گیا اس کو نئے کپڑے کا کفن پہنایا گیا لوگوں نے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر میت کو اپنے کا ندھوں پر لے کر چلے یہاں تک کہ قبر میں احترام کیساتھ لٹا کر اس کو ڈھک دیا گیا

میں نے سوچاکہ ایک مردہ جسم کے ساتھ اتنے زیادہ اہتمام کا حکم اسلام نے کیوں دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم مٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، مگر اس کو عام مٹی کی طرح اِدھر اُدھر پھینک نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ انسان کا سا سلوک کیا جاتاہے ’’مٹی ‘‘کے ساتھ’’ انسان ‘‘جیسا معاملہ کرنے کا حکم مرنے والے کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ زندہ رہنے والے کے اعتبار سے ہے۔ مردہ انسان کے ذریعہ زندہ انسانوں کو سبق دیا جاتا ہے کہ بالاآخر ان کا انجام کیاہونے والا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ زندہ لوگ مرنے والے کے روپ میں خود اپنے آپ کو دیکھیں وہ موت سے پہلے موت کا تجربہ کریں۔

یہ تجربہ اس طرح بھی ممکن تھا کہ ایک مقررہ دن کو کاغذ کا انسانی پتلا بنایا جائے اور اس کے ساتھ تمام رسوم ادا کرکے اس کو مٹی کے گڑھے میں ڈال دیا جائے اسلام نے اس تجربہ کو حقیقی بنانے کے لیے حقیقی انسان کے مردہ جسم کو استعمال کیا۔

ایک انسان ہماری طرح ایک زندہ انسان تھا۔ چلتے چلتے اس کے قدم جواب دے گئے بولتے بولتے اس کی زبان بند ہو گئی۔ دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں بے نور ہو گئیں لوگوں کے نزدیک اس کی جو قیمت تھی وہ سب اچانک ختم ہو گئی۔ اب خدا اس واقعہ کو استعما ل کرتا ہے تا کہ اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ لوگوں کو زندگی کا سبق یاد دلادے۔

لوگ اس کو اہتمام کے ساتھ تیار کرتے ہیں اور پھر لے کر چلتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری مرحلہ میں پہنچ کر جب اس کو قبر کے گڑھے میں لٹا دیا جاتا ہے توہر آدمی یہ کرتا ہے کہ تین بار اپنے ہاتھ میں مٹی لے کر قبر میں ڈالتا ہے۔ پہلی بار مٹی ڈالتے ہوئے کہتا ہے:مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ  (اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا)جب وہ دوسری بارمٹی ڈالتاہے تو کہتا ہےوَفِيهَا نُعِيدُكُمْ (اسی میں ہم تم کو دوبارہ ڈالیں گے ) اور پھر تیسری بار مٹی ڈالتے ہوئے وہ کہتا ہے:وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى(20:55) ، اور اسی سے ہم تم کو دوبارہ نکالیں گے۔

یہ تین بار مٹی ڈالنا اس پورے قصہ کا کلائمکس(climax) ہے۔ اس طرح ایک زندہ واقعہ کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ انسان کیا ہے اور اس کا آخری انجام کیا۔

قریب مگر دور

ایر انڈیا کا ایک جہاز (Boeing 747) 23 جون 1985 کو مانٹریل سے اڑا ۔اس پر جہاز کے عملہ سمیت 329 آدمی سوار تھے وہ مانٹریل سے لندن ہوتا ہوا دہلی آنے والا تھا۔ دہلی کے پالم ایر پورٹ پر حسب معمول بہت سے لوگ اپنے آنے والے عزیزوں اور مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ آنے والے مسافروں میں کچھ وہ لوگ تھے جو کمائی کر کے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔کچھ وہ لڑکے اورلڑکیاں تھیں جو ہندستان میں شادی کرنے کے لیے آرہی تھیں۔ کچھ لوگ اپنے متعلقین سے ملنے کے لیے اپنے وطن پہنچنے والے تھے۔

اچانک خوشیاں غم میں تبدیل ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ جہاز اٹلانٹک کے اوپر پرواز کر رہا تھا کہ آئر لینڈ کے قریب اس کو حادثہ پیش آگیا اور وہ برباد ہو کر سمندر میں گرپڑا ۔ہوائی اڈہ پر مرنے والے مسافروں کی فہرست آویزاں کر دی گئی۔ تمام لوگ جو ہوائی اڈہ پر انتظار کر رہے تھے وہ فہرست دیکھنے کے لیے متعلقہ بورڈ کی طرف دوڑے۔ اس موقع پر ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں:

In their moment of stunned disbelief, each one thought "this could not be happening to me " But, with merciless equality the death list shattered all their hopes.

ہوش اڑا دینے والی بے یقینی کے اس لمحہ میں ہر ایک یہ سوچ رہا تھا کہ ایسا حادثہ میرے ساتھ پیش نہیں آسکتا، مگر بے رحم مساوات کے ساتھ موت کی فہرست نے ان کی تمام امیدوں کو بکھیر دیا(ہندستان ٹائمس، 24جون 1985)۔فہرست نے بتایا کہ ہوائی جہاز کے329مسافر سب کے سب اچانک حادثہ کا شکار ہوکر ختم ہوچکے ہیں۔ان میں سے کوئی بھی نہیں جو اپنے انتظار کرنے والوں تک پہنچنے والا ہو۔

ہر روز اس دنیا میں بے شمار آدمی مر رہے ہیں۔یہ واقعہ لوگوں کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔مگر آدمی کا حال یہ ہے کہ جب وہ کسی کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ موت صرف دوسروں کے لیے ہے ، اس کے اپنے لیے موت نہیں۔اپنے کو الگ کرنے کی اس نفسیات کا نتیجہ ہے کہ آدمی سبق نہیں لیتا۔وہ موت کے عین قریب ہوکر بھی موت کے پیغام کو نہیں سنتا۔

دنیا کی حقیقت

مسٹر آر این پانڈے (35سال) ہندستانی فوج میں سکنڈ لیفٹیننٹ تھے۔وہ 12نومبر 1983کو جموں توی ایکسپریس پر سوار ہوئے۔ٹرین آگے بڑھی تو انہیںاحساس ہواکہ وہ غلط ٹرین پر سوار ہوگئے ہیں۔انہیںدراصل اتکل ایکسپر یس پر سوار ہونا چاہیے تھا۔جب اوکھلا کا اسٹیشن آیا تو وہ فرسٹ کلاس کا دروازہ کھول کر باہر کو د پڑے۔ٹرین اس وقت پوری رفتا رمیں تھی۔وہ پہیہ کے نیچے آگئے اور اسی وقت کٹ کرمرگئے (ہند ستان ٹائمس، 13نومبر 1983)۔

یہ واقعہ موجودہ دنیا میں انسان کی بے بسی کی ایک تصویر ہے انسان ٹرین بناتا ہے جب وہ اس پر بیٹھتا ہے تو وہ اس کو لے کر دوڑتی ہے اورمنزل پر پہنچا دیتی ہے۔مگر اسی ٹرین کے مقابلہ میں انسان اتنا کمزور ہے کہ اس کے پہیہ کے نیچے آنے کے بعد وہ اس کی زد سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا۔

ایک کامیاب انسان ہے۔وہ ایک بہت بڑے مکان میں رہتا ہے جو اس کی خوش حال زندگی کی علامت ہے۔اس کے گھر کے سامنے موٹر کا ر کھڑی ہوئی ہے جو اس کی شان میں اضافہ کرتی ہے۔وہ ایک کارخانہ کامالک ہے جو اس کی دولت اور ترقی کا سرچشمہ ہے۔اس کے بے شمار ساتھی ہیں جو اس کی قوت وشوکت کا زندہ ثبوت ہیں۔

یہ وہ چیزیں ہیں جن سے آدمی کی دنیوی ترقی کا اندازہ کیاجاتا ہے۔لیکن اگر یہ تمام چیزیں سمیٹ کر اوپر سے آدمی کے سر پر گرائی جائیں تو وہ اس کی بربادی کا ذریعہ بن جائیں گی۔یہ گویا ایک بہت بڑا ملبہ ہوگا جو آدمی کے اوپر پٹک دیا گیا اوراس کے نیچے دب کر اس کا وجود فنا ہوگیا۔

اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیوی ترقی کی حقیقت کیا ہے۔دنیا کی تما م ترقیاں اسی وقت تک ترقیاں نظر آتی ہیں جب تک وہ فریب کے روپ میں ہوں۔جیسے ہی وہ اپنے اصلی روپ میں آئیں وہ صرف بربادی کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔یہ ترقیاں اپنے آخری انجام کے اعتبار سے کسی کے لیے قبرستان تو بن سکتی ہیں مگر وہ کسی کے لیے کامیابی کا شاندار محل نہیں بن سکتیں۔

لذتیں جنت میں لذت ہیں اوردنیا میں صرف فریب لذت۔انسان کی غلطی یہ ہے کہ جو چیز جنت میں ملنے والی ہے اس کو وہ موجودہ دنیا میں پانا چاہتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ آدمی یہاں بھی محروم رہتاہے اوروہاں بھی۔

بے خبر انسان

آئیوری کوسٹ(Ivory Coast) مغربی افریقہ کا ایک ساحلی ملک ہے۔یہاں بجلی افراط کے ساتھ پائی جاتی ہے۔گھروں اوردکانوں کی جگمگاہٹ کی وجہ سے اس کو افریقہ کا شوکیس کہا جاتا تھا (ٹائمس آف انڈیا 4جنوری1984)۔

دسمبر 1983میں اچانک وہ ایسا ملک بن گیاجہاں لوگ عالی شان ہوٹلوں میں موم بتی کی روشنی میں کھانا کھائیں اورگھروں اوردفتروں کو بھی موم بتی سے روشن کریں۔آئیوری کوسٹ میں 92 فیصد پن بجلی کا رواج تھا مگر بارش رک جانے کی بنا پر ڈیم سوکھ گئے اور اکثر ٹربائن کا چلنا بند ہو گیا ۔چنانچہ بجلی کی کٹوتی کا یہ عالم ہوا کہ بعض اوقات مسلسل 18گھنٹے تک بجلی غائب رہی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صنعتی پیداوارگھٹ کر 35 فیصد رہ گئی کمپیوٹر الکٹرک ٹائپ رائٹر(electric typewriter)ریفریجریٹر اور اکثر بجلی سے چلنے والی چیزیں بند رہنے لگیں۔

بہت سے بڑے بڑے تاجروں نے اس اندیشہ سے دفتر جاناچھوڑ دیا کہ کہیں وہ لفٹ میں اٹک کر نہ رہ جائیں ایک تاجر نے اپنا حال بتاتے ہوئے نیو یارک ٹائمز کے نمائندہ سے کہا کہ سالہا سال سے میرا یہ حال تھا کہ میں اپنے ائیرکنڈیشنڈ مکان سے ائیر کنڈیشنڈ کار میں اور پھر ائیر کنڈیشنڈ دفتر میں جاتا تھا میں نے کبھی یہ جانا ہی نہیں کہ حقیقۃً آئیوری کوسٹ کتنا زیادہ گرم ہے :

For years, I had gone from my air-conditioned villa to my air-conditioned car to my air-conditioned office. I never realised just how hot it really is here.

افریقہ جیسے گرم ملک میں ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں رہنے والا تاجر گویا ایک مصنوعی دنیا میں رہ رہا تھا جب بجلی نے اس کا ساتھ چھوڑدیا اس وقت اس کو معلوم ہوا کہ اصل صورت حال اس کے برعکس تھی جس کو وہ اپنے ذہن میں بطور خود فرض کیے ہوئے تھا۔

یہی حال زیادہ بڑے پیمانے پر تمام انسانوں کا ہے انسان موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو آزاد پاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس کی ملکیت ہے جب انسان کی موت آئے گی اس وقت اچانک اس کو معلوم ہوگا کہ یہ محض فریب تھا۔ اس نے امتحان کی آزادی کو استحقاق کی آزادی سمجھ لیا تھا اس نے خدا کے اثاثہ کو اپنا اثاثہ فرض کر لیا تھا وہ اپنے اعمال کے لیے خدا کے یہاں جواب دہ تھا مگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ وہ خواہ کچھ بھی کرے کوئی اس سے پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ 

انسان ذمہ دار وجود ہے

دوستو وسکی (1821-1881) مشہور روسی ناول نگار ہے۔ اس کاایک کامیاب ناول ’’جرم و سزا ‘‘ ہے۔ اس ناول کا ہیرو ایک بد مزاج، کریہہ المنظر اور لاولد بوڑھی عورت کو اس لیے قتل کر دیتا ہے کہ اس کی بڑھتی ہوئی بے کار دولت کو اپنی اعلیٰ تعلیم کے حصول کا ذریعہ بنا سکے۔ جب یہ واقعہ ہوتا ہے تو ناول کے تمام کردار اور خود ناول کا قاری اس کو مجرم قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بڑھیا کی دولت اس کے قاتل کے لیے اتنی ہی مفید تھی جتنا کسی شیر کے لیے ہرن کا گوشت ہوتا ہے، مگر شیر ہرن کو مار کر اس کا خون پی جائے تو کسی کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی اور نہ اس کے لیے کوئی تعزیری قانون بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ مگر اسی قسم کا فعل ایک انسان کرتا ہے تو ساری انسانیت چیخ اٹھتی ہے اور چاہتی ہے کہ قاتل کو اس کے فعل کی پوری سزا دی جائے۔

اس کی وجہ کیا ہے اس کی وجہ صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار وجود ہے۔ اس کے ہر فعل کو صحیح اور غلط کی ترازو پر تولا جاتا ہے۔ جب کہ جانور اپنے اندر اس قسم کا کوئی اخلاقی شعور نہیں رکھتے۔ ان کے یہاں صرف مفید اور غیر مفید کی تقسیم ہے نہ کہ صحیح اور غیر صحیح کی۔ انسان ایک اخلاقی حیوان ہے جب کہ حیوان صرف حیوان۔

انسان اور حیوان کا یہ فرق بتاتا ہے کہ انسان اور حیوان کا معاملہ یکساں نہیں۔ حیوان کو اس کے اعمال کے لیے کسی اخلاقی عدالت میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ جب حیوان کو اعمال کے اخلاقی پہلوئوں کا شعور ہی نہیں تو اس کو اخلاق کی عدالت میں مجرم کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مگر انسان کا معاملہ سرا سر مختلف ہے۔ انسان کے اندر معاملات کے بارے میں اچھے اور برے کا احساس ہونا ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے لیے اخلاق کے سامنے جواب دہ ہے۔ جس فعل پر آدمی کا اپنا اندرونی ضمیر اس کو مجرم ٹھہرارہا ہو اس کے لیے باہر کی عدالت میں مجرم ٹھہرانا عین فطری ہے۔

تا ہم موجودہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کوئی ایسی عدالت نہیں جو آدمی کا اخلاقی احتساب کر سکے یہاں آدمی اپنی مجرمانہ کا رروائی کو خوبصورت الفاظ میں چھپا سکتا ہے وہ قانونی نکتے نکال کر اپنے کو عدالت کی گرفت سے بچا لیتا ہے وہ زور قوت کے ذریعہ اپنے خلاف تمام زبانوں کو بند کر دیتا ہے یہ صورت حال بتا تی ہے کہ انسان کا اخلاقی احتساب کرنے والی عدالت دنیا کے موجودہ حالات میں قائم نہیں کی جا سکتی اس کے لیے ایک اور دنیا درکار ہے جہاں وہ تمام مواقع کا مل صورت میں جمع ہوں جو اس پیچیدہ کا م کے لیے ضروری ہیں۔

انسان کا المیہ

خدا نے ایک دنیا بنائی ۔بے حد حسین اور انتہائی لذیزدنیا۔ خدا نے اس دنیا میں آدمی کے لیے وہ سب کچھ جمع کر دیا جس کو وہ چاہتا ہے۔ اس کے بعد خدا نے اس پر کیف دنیا میں انسان کو بسایا اور لکھ دیا کہ — انسان اس دنیا کو صرف دیکھے گا وہ اس کو پا نہ سکے گا۔

دنیا کا سکھ اور اس کی لذتیں آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا کے سکھ اور اس کی لذتیں آدمی کے لیے نا قابل حصول ہیں۔ ایک شخص جس کو دنیا ابھی حاصل نہ ہوئی ہو وہ اپنے کو جتنا محروم سمجھتا ہے اتنا ہی وہ شخص بھی اپنے کو محروم پاتا ہے جس کو دنیا اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ حاصل ہو گئی ہو۔

بمبئی کا ایک فلم پروڈیوسر ہے گل آنند۔ اس کی شادی ایک خوبصورت عورت سے ہوئی جس کا نام شوبھا تھا۔ بظاہر اس جوڑے کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی کوئی شحص تمنا کر سکتا ہے۔ بمبئی میں ان کے پاس کئی شاندار مکانات تھے، جہاں وہ خوشیوں کی جنت میں رہنے لگے۔مگر کچھ دنوں کے بعد انہیںایک کمی کا احساس ہونے لگا۔ وہ دو ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد سے محروم ہیں۔ اس احساس نے دونوں کے درمیان ایک خاموش دوری پیدا کرنی شروع کی۔

بالآخر انھوں نے ایک مقامی یتیم خانہ سے ایک چھوٹا بچہ اور ایک چھوٹی بچی حاصل کی۔ وہ بیٹے اور بیٹی کے طور پر ان کی پرورش کر نے لگے۔ تا ہم یہ مصنوعی تدبیر ان کی محرومی کے احساس کو ختم نہ کر سکی۔ دوری یہاں تک بڑھی کہ دونوں الگ مکانوں میں رہنے لگے۔

شوبھا کے ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ اس کو ذہنی اختلال ہے۔ دس سال تک وہ اس مفروضہ کے تحت اس کا علاج کرتے رہے، مگر بے سود۔ بالآخر8فروری1983 کو یہ المناک کہانی ختم ہوگئی۔ شوبھا بمبئی میں پیڈار وڈ کے ’’نیلم بار ‘‘میں سولہویں منزل پر ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ اس نے 8 فروری کو اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ پہلے اپنے بچوں کو کھڑکی سے باہر پھینکا اور اس کے بعد خود بھی چھلانگ لگا دی۔ تینو ں نیچے گرتے ہی مر گئے۔ انگریزی اخبار کی رپورٹنگ کے مطابق شوبھا کے شوہر (گل آنند ) نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا :

I don't know the exact medical terms for my wife's mental disorders.

اپنی بیوی کے ذہنی اختلال کو بیان کرنے کے لیے متعین طبی اصطلاح مجھے معلوم نہیں (ٹائمس انڈیا، بمبئی، 9فروری1983)۔

چالیس سال بعد

31 جولائی 1984 کو دہلی فیض روڈ کے پاس ایک لاش ملی۔ اس کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی اور اس کو بری طرح قتل کر کے ایک پارک میں ڈال دیا گیا تھا۔ پولیس نے کافی کوشش کی اور اشتہارات دیے، مگر مقتول کی شناخت ممکن نہ ہو سکی۔ مقتول کے جسم پر جو قمیض تھی اس  پر ’’آزاد ٹیلرس ‘‘ کا لیبل لگا ہوا تھا ۔مزید تحقیق سے معلوم ہواکہ اس پر کوڈ نمبر52بھی درج ہے۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد آخر کا رپولیس ساون پارک کی ایک چھوٹی سی دکان تک پہنچی۔ اس دکان کے مالک صلاح الدین نے بڑی مشکل سے ’’پانڈے ‘‘نام کے ایک شخص کی نشاندہی کی۔ اس کے بعد پولیس قریب کے ’’کمال کلاتھ ہائو س‘‘ تک پہنچی جس نے بتایا کہ مذکورہ شخص کا پورا نام دیو نرائن پانڈے تھا۔ اس کا وطن فیض آباد تھا اور کام کے لیے وہ دہلی میں رہتا تھا۔

دیونرائن پانڈے موزا ئک فرش کی پالش(mosaic floor polish) کا کام کرتا تھا۔ پولس کی یہ تحقیق جاری رہی ۔بالاآخر معلوم ہواکہ مذکورہ شخص نے چالیس سال پہلے ایک شخص کو کسی ذاتی رنجش کی بنا پر مار ڈالا تھا۔ اس مقتول کا بھتیجا مہندر کمار چودھری( 23 سال) بچپن سے اپنے گھر میں سنتا آیا تھا کہ پانڈے نے اس کے چچا کو قتل کیا ہے۔ اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس نے دیو نرائن پانڈے سے دوستی کی اور ایک دن موقع پا کر اس کا قتل کر دیا۔ قاتل اب پولیس کی حراست میں ہے اور اس نے جرم کا اقبال کر لیا ہے (ہندستان ٹائمس، 14ستمبر 1984 ء) ۔

مہند ر کمار چودھری کا خاندان چالیس سال بعد بھی اپنے قاتل کو نہ بھلا سکا۔ اس کے انتقام کی آگ اس وقت تک ٹھنڈی نہ ہوئی جب تک اس نے مارنے والے کو مار نہ ڈالا۔

ہر ماحول میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے آدمی سے شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا حل بدلہ لینا نہیں بلکہ بھلا دینا ہے۔ شکایت کو بھلا نا مسئلہ کو گھٹاتا ہے اور شکایت کا بدلہ لینا مسئلہ کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

مگر یہ کوئی آسان معاملہ نہیں۔ آدمی ایک کھوئی ہوئی چیز کو اسی وقت بھلا سکتا ہے جب کہ وہ اس سے بڑی چیز اپنے لیے پا لے۔ محرومی کو بھلانے کے لیے ہمیشہ کوئی بڑی چیز درکار ہوتی ہے اوریہ ’’بڑی چیز ‘‘ صرف آخرت ہے۔ آخرت کا عقیدہ آدمی کو وہ سب سے بڑی چیز دے دیتا ہے جس کے مقابلہ میں ہر چیز کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو پانے والا ہر دوسری چیز کا کھونا گوارا کر لیتا ہے ۔

31دن کے لیے

جنوری 1983 میں آندھرا پر دیش میں تلگو دیسم پارٹی بر سر اقتدار آئی تاہم16 اگست 1984کو گورنر مسٹر رام لال نے تلگو دیسم وزارت کو بر خاست کر دیا اور مسٹر نریندر بھاسکر رائو سے کہا کہ وہ کانگریس سے مل کر وزارت بنائیں۔ گورنر نے از روئے دستور یہ ہدایت کی کہ وہ 30دن کے اندر یہ ثابت کریں کہ 293 رکنی اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے۔

اس کے بعدممبروں کو توڑنے کی کوشش شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ایک ممبر کی قیمت 20 لاکھ روپے تک لگا دی گئی (ہندستان ٹائمس، 13 ستمبر 1984 )۔ مگر معزول وزیر اعلیٰ مسٹر این ٹی رامارائو نے وزارت کی برخاستگی کے بعد اپنی پارٹی کے ممبران اسمبلی کو اپنے راما کرشنا اسٹو ڈیوز میں بند کر دیا۔ 30دن گزر گئے اور مسٹر بھا سکر رائو اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے قابل نہ ہو سکے۔ ان کی وزارت غیر قانونی ہو گئی۔ چنانچہ نئے گورنر شنکر دیال شرما نے 16 ستمبر 1984 کو نیا حکم جاری کیا جس کے مطابق مسٹر بھا سکررائو کو وزارت چھوڑ دینی پڑی اور مسٹر این ٹی راما رائو دوبارہ حکومت کے ایوان میں داخل ہو گئے ۔

اس سلسلے میں ٹائمس آف انڈیا (19 ستمبر 1984 ) نے ایک خصوصی رپورٹ میں دکھایا ہے کہ مسٹر بھا سکر رائو نے اپنی مختصر وزارت کے دوران کیا کیا۔ انھوں نے حکومت کا ایک سو کرور روپیہ سے زیادہ کا فنڈ ریلیز کر دیا انھوں نے اسمبلی کے ممبروں کو کھلی پیشکش کردی کہ پارٹی چھوڑ کر آئو اور وزیر بن جاو۔

Defect and be a minister

اس قسم کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے اخبار مذکورہ کا نامہ نگار لکھتاہے کہ مسٹر بھاسکر رائو 31 دن تک وزیر اعلیٰ رہے۔ اس غیر یقینی مدت میں انھوں نے اس طرح عمل کیا گویا کہ وہ اس عہدہ پر ایک سو سال تک رہنے کے لیے آئے تھے

During his 31-day uncertain career as chief minister, Mr. Bhaskara Rao behaved and acted as if he had come to stay for a hundred year.

یہی ہر آدمی کا حال ہے موجودہ دنیا میں ہر آدمی صرف ’’30 دن ‘‘ کے لیے آیا ہے مگر وہ اس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ ’’ سو سال ‘‘ سے پہلے یہاں سے جانے والا نہیں۔ کیسا عجیب ہے موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اور کیسا عجیب ہے اس کا یہاں سے جانا۔

سب سے بڑی خبر

ایک نوجوان دہلی میں سرکاری ملازم ہیں۔ان سے میری پرانی ملاقات ہے۔ایک روز میں کسی کام سے باہر گیا ہواتھا ،رات کوواپس آیا تو گھر والوں نے بتایا کہ آج مذکورہ نوجوان کئی بارآپ سے ملنے کے لیے آچکے ہیں۔ابھی باتیں ہورہی تھیں کہ گھنٹی بجی۔دروازہ کھولا گیا تو مذکورہ نوجوان تیسری بار مجھ سے ملنے کے لیے دروازے پر موجود تھے۔مجھ کو دیکھتے ہی وہ مسکرا کر بولے ’’آج میںآپ کو ایک خوش خبری دینے آیا ہوں‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ میرا پروموشن ہوگیا ہے اوراب میری تنخواہ میں سوروپیہ ماہوار کا اضافہ ہوجائے گا۔

میں نے سوچا کہ آدمی کے پاس اگر کوئی اہم خبر ہوتو وہ اس کو چھپانے پر قادر نہیں ہوسکتا۔اہم خبر کو آدمی بتا کر رہتا ہے۔بلکہ وہ ڈھونڈتا ہے کہ کوئی ملے تاکہ وہ اس کو بتا سکے۔کسی نے نئی کار خریدی ہویا نیا مکان بنایا ہو تو اس کا چر چاکیے بغیر وہ رہ نہیں سکتا۔کسی مجلس میں اگر اس کی کاریااس کا مکان موضو ع گفتگو نہ ہو تو وہ کسی نہ کسی طرح موضوع کو بدل کر ایسے رخ پر لاتا ہے کہ وہ اپنی نئی کار اورنئے مکان کی خبر لوگوں کو دے سکے۔یہ انسانی فطرت ہے۔کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی اہم خبر کو دوسروں کو سنانے کے لیے بے قرار نہ رہتا ہو۔

 آج بے شمار آوازیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی پیغام ہے جس کو وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔مگر سنانے والوں کی بھیڑ میں کوئی آخرت کی خبر سنانے والا نہیں۔کوئی جنت اورجہنم سے آگاہ کرنے والا نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بولنے اورلکھنے والوں کے پاس آخرت کی خبرہی نہیں۔ہر ایک کے پاس دنیا کی کوئی نہ کوئی خبرہے۔آخرت کی خبر کسی کے پاس موجو د ہی نہیں۔اگرکسی کے پاس آخرت کی خبر ہوتی تو وہ اس کو سنائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔بلکہ آخرت کی غیر معمولی اہمیت کی بنا پر اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے لیے کوئی دوسری خبر ،خبر نہ ہوتی جس کو سنانے کے لیے وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہو۔وہ اپنی ساری طاقت اورسارا وقت بس آخرت کی خبر سنانے میں لگا دیتا، جہنم سے ڈرانے اورجنت کی خوش خبری دینے کے سواکوئی کام اس کو کام نظر نہ آتا۔

اگر یہ معلوم ہوکہ اگلے چند لمحہ کے بعد بھونچال آنے والا ہے یا آتش فشاں پھٹنے والا ہے تو ہر آدمی اسی کا تذکرہ کرنے میں مشغول ہوگا۔ہردوسری بات کو بھول کر لوگ آنے والے ہولناک لمحہ پر بات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔مگر تقریر کرنے والے تقریریں کر رہے ہیں اورمضامین لکھ رہے ہیں مگر یہ سب چیزیں قیامت کے تذکرہ سے اس طرح خالی ہوتی ہیں جیسے کہ لوگوں کو آنے والے ہولناک دن کی خبر ہی نہیں۔

آدمی اکثر اپنے گردوپیش کے مسائل میں الجھا رہتا ہے ،ذاتی یا قومی قسم کے معاشی اورسیاسی اورسماجی واقعات جن کا وہ اپنے آس پاس تجربہ کرتا ہے وہ انہیںکو واقعہ سمجھتا ہے اورانہیںکے چرچے میں مشغول رہتا ہے۔مگر سب سے بڑا مسئلہ قیامت کامسئلہ ہے۔ قیامت ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے، مگر وہ ہونے والے تمام واقعات میں سب سے بڑا واقعہ ہے ،وہ تمام واقعات سے زیادہ اس قابل ہے کہ اس کاچرچا کیا جائے۔

کل کو جانیے

ضیاء الرحمٰن (1936-1981)سابق صدر بنگلہ دیش ڈھاکہ سے چاٹگام گئے۔وہاں وہ 30مئی 1981کو سرکاری ریسٹ ہائوس میں آرام کررہے تھے کہ رات کے وقت ان پر حملہ کر کے انہیںہلاک کردیا گیا۔ان کو ہلاک کرنے والا بنگلہ دیش کا ایک فوجی افسر میجر جنرل منظور تھا۔میجر جنرل منظورنے یہ گمان کیاتھا کہ صدر ضیاء الرحمٰن کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت پر قبضہ کرلیں گے۔مگر ان کا اندازہ غلط نکلا فوج کے ایک دستہ کے سوا عام فوجیوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔صرف دو دن بعد2جون 1981کو مخالف فوجیوں نے انہیںگولی مارکر ہلاک کردیا۔

جنرل منظور کا جو انجام ہواوہی اس دنیا میں ہر آدمی کا انجام ہورہا ہے۔کسی کابظاہر فوج کی گولی کے ذریعہ ہوتا ہے اورکوئی فرشتوں کے ذریعہ موت کے انجام تک پہنچا دیا جاتا ہے۔مگر کوئی اس سے سبق نہیں لیتا کوئی ’’جنرل منظور ‘‘یہ نہیں سوچتا کہ اپنے حریف کو قتل کرنے کے اگلے ہی دن وہ بھی قتل کردیا جائے گا۔دوسرے کو موت کے گڑھے میں گرانے کے بعد وہ خود بھی لازمی طور پر موت کے گڑھے میں دھکیل دیا جائے گا۔

یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔اس دنیا میں ہر آدمی کو کسی نہ کسی دائرہ میں اقتدار دیا جاتا ہے۔کسی کے اختیار کا دائرہ بڑاہے اورکسی کا دائرہ چھوٹا۔مگر عجیب بات ہے کہ ہر آدمی اپنے دائرہ میں وہی بن جاتا ہے جو دوسرا اپنے دائرہ میں بنا ہوا ہے۔یہاں ہر شخص ’’جنرل منظور‘‘ ہے۔ہر شخص دوسرے کی کاٹ میں لگا ہوا ہے۔ہر شخص دوسرے کی نفی پر اپنا اثبات کرنا چاہتا ہے۔ہرشخص اپنی حیثیت کا غلط اندازہ کرکے سمجھتا ہے کہ اگر اس نے دوسرے کو اس کے مقام سے ہٹا دیا تو اس کا خالی مقام اسے مل جائے گا۔وہ بھول جاتا ہے کہ جو چیز اس کاانتظار کررہی ہے وہ کسی کا خالی مقام نہیں بلکہ خود اس کی اپنی قبر ہے۔

ہر شخص جو آج اپنے کو کامیاب سمجھتا ہے وہ کل اپنے کو ناکام دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔یہ واقعہ ہر روز ہورہا ہے۔مگر کوئی بھی شخص آج کے بعد آنے والے کل کو نہیں دیکھتا۔ہر شخص اپنے ’’آج ‘‘کو جاننے کاماہر ہے ،کسی کو اپنے ’’کل ‘‘کی خبر نہیں۔

اپنے آج کو جاننے والو،اپنے کل کو جانو۔کیونکہ بالآخر تم جس سے دو چار ہونے والے ہووہ تمھارا کل ہے نہ کہ تمھارا آج۔

آنے والا طوفان

11اگست 1979کو موروی (گجرات)میں اچانک ایک سیلاب آیا جس نے پوری بستی کو تہس نہس کردیا۔بستی کے کنارے ایک بڑا بند تھا۔غیر معمولی بارش سے اس کا پانی بہت اونچا ہوگیا۔یہاں تک کہ اس نے بند کو توڑ ڈالا۔ایک مشاہدکے الفاظ میں ’’تقریباً 20فٹ اونچی پانی کی دیوار ‘‘اتنی تیزی کے ساتھ بستی کے اندر داخل ہوئی کہ کوئی اس سے بچ نہ سکتا تھا۔چند گھنٹوںکے اندرپانی کا یہ طوفان بستی کی تمام چیزوں کو برباد کرکے نکل گیا۔اندازہ ہے کہ تقریباً 25ہزار آدمی اس اچانک سیلاب میں مرگئے۔جب کی بستی کی کل آبادی تقریباً 40ہزار تھی بربادی کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ دیگر چندوں کے علاوہ صرف مرکزی حکومت نے فوری امداد کے طور پر پانچ کروڑروپے حکومت گجرات کودیے ہیں۔

ایک انگریزی اخبار کے نامہ نگار ارن کمار نے جو چشم دیدرپورٹ (ہندستان ٹائمس 19اگست 1979)شائع کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ بچے ہیں ان میں سے ہرشخص کے پاس بتانے کے لیے ایک پُر درد کہانی ہے۔ان کو جو صدمہ اورتکلیف پہنچی ہے اس کے احساس سے وہ ابھی تک نکل نہیں سکے ہیں ،کچھ کا حال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی گویائی کھودی ہے۔وہ بالکل سراسیمہ اورہکا بکا دکھائی دیتے ہیں :

Some have lost their speech and look absolutely dazed and blank.

ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے ایک تباہ حال زمین دارکو اس وقت حیرت ناک خوشی ہوئی جب سرکاری ذمے داروں نے اس کو 18ہزار روپے نقد 225گرام سونے کے زیورات یہ کہہ کر دئیے کہ یہ تمھارے گھر کے اندر سے دستیاب ہوئے ہیں (ہندستان ٹائمس 20اگست 1979)۔

اس طرح کے واقعات جو زمین پر روزانہ ہوتے رہتے ہیں ،وہ اس لیے ہوتے ہیں تاکہ آدمی آخرت کے دن کو یاد کرے۔آخرت کا عظیم تر سیلاب بھی بالکل اچانک آئے گا۔بہت سے لوگ اس دن اس طرح بربادہوں گے کہ ان کے الفاظ کے ذخیرے تک ختم ہوجائیں گے جو دنیا میں ہر آدمی کو نہایت وافر مقدار میں حاصل ہیں۔ان کی چلتی ہوئی زبانیں بند ہوجائیں گی۔وہ سراسیمہ نظروں سے اپنی ہولناک بربادی کو دیکھیں گے اور کچھ بول نہ سکیں گے۔دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو یہ خوش خبری دی جائے گی کہ ہلاکت اوربربادی کے عمومی طوفان نے تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچایا۔تمھارا بہترین اثاثہ اللہ کے مزید انعام کے ساتھ آج تمھارے حوالے کیا جائے گا۔ایک ہی سیلاب کچھ لوگوں کو جہنم میں دھکیل دے گااور کچھ لوگوں کے لیے وہ جنت کی ابدی خوشیوں میں داخلہ کا دن بن جائے گا۔’’سیلاب ‘‘سے پہلے آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ہر ظالمانہ روش کو درست ثابت کرنے کے لیے شاندارالفاظ پالیتا ہے۔مگر ’’سیلاب‘‘ کی ہولناکی کو دیکھتے ہی اس کا سارا زورختم ہوجائے گا اورایسا معلوم ہوگا گویا اس کے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں جن سے وہ اپنی روش کی صفائی پیش کرسکے۔

اس وقت کیا ہو گا

بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہاکہ مجھے قرآن کا کوئی حصہ پڑھ کر سنائو۔ میں نے کہا، اے خدا کے رسول میں آپ کو قرآن سنائوں اور وہ آپ کے اوپر اتر ا ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے پسند ہے کہ میں قرآن کو اپنے سوا دوسرے سے سنوں۔ میں نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا:فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (4:41)۔ یعنی،پھرکیا ہو گا جب ہم ہر قوم سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور ان لوگوں پر تم کو گواہ بنا کر لائیں گے ۔آپ نے فرمایا بس کرو۔ میں نے دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھےفَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر4582)۔

وہ وقت کیسا عجیب ہو گا جب خدا کی عدالت قائم ہو گی۔ کسی کے لیے ڈھٹائی اور انکار کا موقع نہ ہو گا۔ وہی شخص جس کو دنیا میں لوگوں نے بے قیمت سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا اسی کو خدا کی طرف سے اس خاص بندہ کی حیثیت سے سامنے لایا جائے گا جس کو خدا نے اپنی طرف سے لوگوں کو آنے والے دن سے باخبر کرنے کے لیے چنا تھا۔ جس کو لوگوں نے اپنے درمیان سب سے کمزور آدمی سمجھ لیا تھا وہی اس وقت خدا کے حکم سے وہ شخص ہو گا جس کی گواہی پر لوگوں کے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ کیا جائے۔

ان لوگوں کا اس وقت کیا حال ہو گا جو دنیا میں بہت بولنے والے تھے مگر وہاں اپنے آپ کو گونگا پائیں گے۔ جو دنیا میں عزت اور طاقت والے سمجھے جاتے تھے وہاں اپنے آپ کو بالکل بے زور دیکھنے پر مجبور ہو ں گے۔ جب ان کا ظاہری پردہ اتارا جائے گا اور لوگ دیکھیں گے کہ دین کا لبادہ پہننے والے دین سے بالکل خالی تھے۔ جب کتنی سفیدیاں کالی نظر آئیں گی اور کتنی رونقیں اتنی قبیح ہو جائیں گی کہ لوگ اس کی طرف نظر کرنے سے بھی گھبرائیں گے۔

موجودہ دنیا میں لوگ مصنوعی غلافوں میں چھپے ہوئے ہیں کسی کے لیے خوبصورت الفاظ اس کی اندرونی حالت کا پردہ بنے ہوئے ہیں اور کسی کے لیے اس کی مادی رونقیں۔ مگر آخر ت میں لوگوں کے الفاظ بھی ان سے چھن جائیں گے اور ان کی مادی رونقیں بھی۔ اس وقت ہر آمی اپنی اصلی صورت میں سامنے آجائے گا کیسا سخت ہو گا وہ دن۔ اگر آج لوگوں کو اس کا اندازہ ہو جائے تو ان کے الفاظ کی شدت ختم ہو جائے ، کسی چیز میں ان کے لیے لذت باقی نہ رہے دنیا کی عزت بھی ان کو اتنی ہی بے معنی معلوم ہو جتنا دنیا کی بے عزتی۔

نامعلوم مستقبل

آدمی اس دنیا میں معصوم کلی کی طرح پیدا ہو تاہے۔ اس کے والدین امنگوں اور حوصلوں کے ساتھ اس کو پالتے ہیں۔ وہ بڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ایسی دنیا میں اپنی زندگی کی جدوجہد شروع کرتا ہے جہاں اس کے لیے تلخ تجربات اور نا خوشگوار یادوں کے سوا اور کوئی چیز موجودہ نہیں۔

انسان آرزئوں کے محل بناتا ہے، صرف اس لیے کہ سنگین حقائق اس کی نفی کر کے اس کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیں وہ حوصلوں کی دنیا آباد کرتا ہے۔ مگر اس کے حوصلے صرف اس کے دماغ میں رہ جاتے ہیں۔ وہ خارجی دنیا میں واقعہ نہیں بنتے۔ وہ امیدیں قائم کرتا ہے، مگر بہت جلد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی امیدیں فرضی سپنے کے سوا اور کچھ نہ تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زندگی ایک نازک شیشہ ہے جو صرف اس لیے دنیا میںآتی ہے کہ حالات کی چٹان سے ٹکرا کر چور چور ہو جائے۔

آدمی موجودہ دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز سنہری آرزئوں کے ساتھ کرتا ہے۔ مگر بالآخر جو چیز اس کے حصہ میں آتی ہے وہ صرف آرزئوں کا ایک قبرستان ہے جو اس کے سینے میں دفن ہو کر رہ جاتا ہے۔ کیسی کیسی امیدیں ،کیسی کیسی تمنائیں اور کیسے کیسے خواب ہو تے ہیں جن کی وہ اپنی روح کے سب سے نازک گوشہ میں پرورش کرتا ہے،مگر سب کا سب نا تمام رہتاہے ۔وہ حسرتوں کا قبرستان بنا ہوا زندگی کے دن پورے کرتا ہے۔یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے جب کہ وہ ایک نامعلوم مستقبل کی طرف دھکیل دیا جائے۔

انسان کا ماضی امیدوں اور تمنائوں کا ماضی ہے اس کا حال نا کامیوں اور حسرتوں کا بہت بڑا مزار ہے اور اس کا مستقبل ایک نا معلوم دنیا کی طرف چھلانگ لگانا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ آغاز اور کیسا عجیب ہے اس کا انجام۔

خدا نے ایسا کیوں کیا۔ اس کی کم از کم ایک وجہ یہ ہے کہ آدمی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہو ۔وہ زندگی میں کھو جانے کے بجائے زندگی کے آغاز و انجام کے بارے میں سوچے۔ جو شخص سنجیدگی کے ساتھ اس معاملہ میں سوچے گا وہ اس کامل حکمت کو پالے گا جس کی طرف یہ ناقص دنیا ہر آن اشارہ کر رہی ہے۔

الٹا رُخ

ایک مولوی صورت آدمی ایکسپریس ٹرین کے فرسٹ کلاس میں داخل ہوا ۔اس کے سوا کیبن میں تین اور مسافر تھے اور تینوں پورے معنوں میں ’’ مسٹر ‘‘ تھے۔ مذکورہ مسافر کے سادہ لباس اور اس کے چہرے کی شرعی داڑھی نے اس کو اس ماحول میں اجنبی بنا دیا۔

کئی اسٹیشن گزر گئے۔ تینوں مسٹر آپس میں باتیں کرتے رہے مگر کسی نے مولوی کی طرف رخ نہیں کیا۔ مولوی شاید ان کے نزدیک اس قابل نہ تھا کہ اس سے بات کی جائے۔ آخر مولوی نے یہ کیا کہ اگلے اسٹیشن پر ایک انگریزی اخبار خریدا اور اس کو ہاتھ میں لے کر الٹی طرف سے دیکھنے لگا۔ مسٹر صاحبان یہ منظر دیکھ کر ہنس پڑے۔ ایک شخص نے دوسرے سے انگریزی میں کہا۔ اس مولوی کو دیکھو الٹی طرف سے اخبار پڑھ رہا ہے۔ دوسرا بولا یہ شخص جب انگریزی نہیں جانتا تو اس کو خواہ مخواہ انگریزی اخبار خریدنے کی کیا ضرورت تھی۔

مسٹر صاحبان کو یقین تھا کہ مولوی ان کی گفتگو کو سمجھ نہیں رہا ہے۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ مولوی ان سے زیادہ انگریزی جانتا ہے۔ اس کے بعد مولوی ان کی طرف مخاطب ہوا اور انگریزی زبان میں مسلسل بولنا شروع کیا۔ اس نے انگریزی میں کہاکیا یہ کوئی قانونی جرم ہے کہ اخبار کو الٹی طرف سے پکڑا جائے۔ آخر آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں انگریزی زبان نہیں جانتا۔ اس کے بعد اس نے گفتگو کو دوسری طرف موڑ دیا۔ اس نے کہا:ایک اخبار کو الٹی طرف سے پکڑنا آپ کو اتنا عجیب معلوم ہوا مگر معاف کیجیے آپ اور آپ جیسے بے شمار لوگ پوری زندگی کو الٹی طرف سے پکڑے ہوئے ہیں۔

زندگی کو غیر مادی مقصد کی طرف سے پکڑنا چاہیے اور لوگ اس کو مادی مقاصد کی طرف سے پکڑے ہوئے ہیں۔ اس کو روح کی طرف سے پکڑنا چاہیے اور لوگ اس کو جسم کی طرف سے پکڑے ہوئے ہیں۔ زندگی کو دیکھنے کا صحیح رخ یہ ہے کہ اس کو آخرت کی طرف سے دیکھا جائے۔ مگر لوگ اس کو دنیاکی طرف سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا سب سے اہم مسئلہ موت ہے، مگر تمام لوگ زندگی کو سب سے اہم مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ خدا کی نظر سے انسان کو دیکھا جائے، مگر آج سارے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ انسان کی نظر سے خدا کو دیکھ رہے ہیں۔

اخبار کا الٹا رخ ہر ایک کو دکھائی دے رہا ہے اور زندگی کا الٹا رخ کسی کو نظر نہیں آتا۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو اپنے کو دیکھنے والا سمجھتے ہیں، مگر ان کو وہی چیز دکھائی نہیں دیتی جس کو انہیںسب سے زیادہ دیکھنا چاہیے۔

انجینئرنگ کافی نہیں

ڈاکٹر فضل الرحمٰن خاں دنیا کے مشہور ترین تعمیراتی انجینئر تھے۔ وہ ڈھاکہ میں پیدا ہوئے کلکتہ میں تعمیراتی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اس فن میں امریکاسے ڈاکٹر کی ڈگری لی۔ 1963 میں انھوں نے شکاگو میں 43 منزلہ عمارت کا ٹھیکہ لے کر اپنی زندگی کا آغاز کیا۔اپنی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے انھوں نے اس میدان میں مجتہدا نہ کارنامے انجام دئے۔ شکاگو میں 110 منزلہ عمارت سیئرز ٹاور(Sears Tower) بنانے کے بعد انھوں نے جدید تعمیرات میں عالمی شہرت حاصل کی۔دنیا کی یہ سب سے اونچی عمارت ان کے اپنے وضع کردہ غیر روایتی اصولوں پر بنائی گئی ہے جس کو Tubular Designکہا جاتا ہے(ہندستان ٹائمس، 9 مئی 1982)۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن خاں کو اپنی غیر معمولی کامیابی کے باوجود قلبی سکون حاصل نہ تھا۔ مسٹر کے ایم املادی 1976 میں فضل الرحمٰن خاں کے شکاگو کے دفتر میں ملے تھے۔ مسٹر املادی نے انہیںان کی کامیابیوں پر مبارک باد دی مگر ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے اس کو سادہ چہرے کے ساتھ سنا۔ انھوں نے گفتگو کے دوران مسٹر املادی سے کہا کہ زندگی انجینئرنگ سے زیادہ ہے۔

Life is more than engineering.

27مارچ 1982 کو ڈاکٹر فضل الرحمٰن خاں کا اچانک اس وقت انتقال ہو گیا جب کہ ان کی عمر صرف 52 سال تھی۔ فضل الرحمٰن خاں نے تعمیراتی انجینئرنگ میں جو اجتہادی اصول وضع کیے۔ ان کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے جرمن انجینئر رابرٹ گیبریل(Robert Gabriel) نے 365 منزلہ عمارت کا منصوبہ بنایا ہے جو زمین سے ایک میل اونچی ہو گی۔مسٹر املادی نے اپنی ملاقات میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن خاں سے پوچھا کہ کیا وہ ایسی عمارت کی تعمیر کو ممکن سمجھتے ہیں۔ فضل الرحمٰن خاں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے املادی اپنے مضمون کو اس جملہ پر ختم کرتے ہیں کہ آئندہ یورپ اور امریکامیں ایسی اونچی عمارتیں کھڑی ہو چکی ہوں گی، مگر افسوس کہ وہی آدمی ان کو دیکھنے کے لیے موجودہ نہ ہو گا جس نے ایسی عمارتوں کی تعمیر کو ابتدائی طور پر ممکن بنایا تھا۔

The man who laid the foundation for making them possible, alas, will no longer be there to witness them.

دنیا اورآخرت

انسان کی سب سے بڑی طلب کیا ہے۔یہ کہ اس کو خوشیوں سے بھری ہوئی ایک زندگی حاصل ہو۔یہی ہر زمانہ میں آدمی کا سب بڑا خواب رہا ہے۔ہر آدمی اسی تمنا کو لے کر جیتا ہے۔مگر ہر آدمی اس تمنا کی تکمیل کے بغیر مرجاتا ہے۔سارے فلسفے اورنظریات ،تمام انسانی کوششیں اسی ایک چیز کے گرد گھوم رہی ہیں۔مگر آج تک انسان نہ فکری طورپر اس کو دریافت کرسکا اورنہ عملی طور پر اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکا۔

اس ناکامی کی وجہ صرف ایک ہے۔تمام لوگ اپنے خواب کی تعبیر اسی موجودہ دنیا میں پانا چاہتے ہیں۔مگر ہزاروں برس کے تجربہ نے صرف ایک چیز ثابت کی ہے۔یہ کہ موجودہ دنیا اس آرزو کی تکمیل کے لیے ناکافی ہے۔موجودہ دنیا کی محدودیت ،موجودہ دنیا میں انسانی آزادی کا غلط استعمال انتہائی فیصلہ کن طورپر اس میں مانع ہے کہ موجودہ دنیا انسانی خوابوں کی تعبیر بن سکے۔

ہم زندگی کو کامیاب بنانے کی طرف ابھی سفر کررہے ہوتے ہیں کہ ہم کو موت آجاتی ہے۔ہم مشینی ترقیاں وجود میں لاتے ہیں مگرصنعتی مسائل پیداہوکر ساری ترقی کو بے معنی بنا دیتے ہیں۔ہم بے پناہ قربانیاں کرکے ایک سیاسی نظام کو وجود میں لاتے ہیں مگر اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والوں کا بگاڑاس کو عملاً بے نیتجہ بنا دیتا ہے۔ہم اپنی پسند کے مطابق ایک زندگی بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر دوسرے انسانوں کا بغض ،حسد ،گھمنڈ،ظلم اورانتقام ظاہر ہوکر ہم کو الجھا لیتا ہے اورہم اپنے آشیانہ کو خود اپنی آنکھوں سے بکھرتا ہوا دیکھ کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

یہ مسلسل تجربات ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے خوابوں کی دنیا موجودہ زمینی حالات میں نہیں بن سکتی۔اس کے لیے دوسری دنیا اوردوسرے حالات درکار ہیں۔آدمی کی تمنائیں بجائے خود ایک حقیقی انسانی طلب ہیں۔مگر اس طلب کی تکمیل کی جگہ موت کے بعد آنے والی اگلی دنیا ہے نہ کہ موت سے پہلے کی موجودہ دنیا۔

یہی واحد چیز ہے جو ہماری دنیا کی زندگی کو بامعنی بناتی ہے۔اس کے بعد موجودہ دنیا جدوجہد کی دنیا بن جاتی ہے اوراگلی دنیا جدوجہد کا انجام پانے کی دنیا۔اس کے بعد آدمی اپنی وہ منزل پالیتا ہے جس کی طرف وہ مطمئن ہوکر بڑھ سکے۔موجودہ دنیا کو منزل سمجھنے کی صورت میں آدمی بالآخر مایوسی اورانتشار ذہنی کے سوا اورکہیں نہیں پہنچتا۔جب کہ آخرت کی دنیا کو منزل سمجھنے کا عقیدہ اس کے سامنے ابدی سکون کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں کھونے کے سوا اورکچھ نہ ہو۔ وہاں وہی نظریہ صحیح ہوسکتا ہے جوکھونے میں پانے کا راز بتارہاہو۔

کچھ کام نہ آئے گا

ایک صاحب سے بات ہورہی تھی۔20سال پہلے وہ معمولی مکینک تھے۔اب وہ تقریباً دودرجن مشینوں کے مالک ہیں۔ان کے کئی کارخانے چل رہے ہیں۔میں نے ایک ملاقات میں کہا:آپ نے ماشاءاللہ اپنے کاروبار میں ترقی کی ہے۔انھوں نے خوشی اوراعتماد کے لہجہ میں جواب دیا:اتنی کمائی کرلی ہے کہ بچے کچھ نہ کریں تب بھی وہ سو سال تک آرام سے کھاتے رہیں گے۔

یہ ایک انتہائی مثال ہے۔تاہم موجودہ زمانہ میں ہر آدمی کا یہی حال ہورہا ہے۔ہر آدمی اپنے اپنے دائرہ میں یہی یقین لیے ہوئے ہے کہ اس نے اپنے معاملات کو درست کرلیا ہے۔اسے اب کسی خطرہ کی ضرورت نہیں۔کم از کم ’’سو سال ‘‘تک تو بالکل نہیں۔

کوئی اپنے بڑوںکوخوش کرکے مطمئن ہے۔کسی کو یہ فخرہے کہ اس نے اپنے قانونی کاغذات کو پکا کرلیا ہے۔کسی کو اپنے قابل اعتماد ذریعہ معاش اوراپنے بینک بیلنس پر نازہے۔کوئی اپنے بازؤوں کی قوت اوراپنی دادا گیری پر بھروسہ کیے ہوئے ہے۔کسی کے پاس کچھ نہیں تو جس کے پاس ہے وہ اس سے خوشامد اورمصالحت کا تعلق قائم کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے بھی ایک چھتری حاصل کرلی ہے ،اب اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔

مگر بھونچال جب آتا ہے تو اس قسم کے تمام بھروسوں کو باطل ثابت کردیتا ہے۔ بھونچال کے لیے پکے محل اورکچی جھونپڑیوں میں کوئی فرق نہیں۔طاقت ور اورکمزور دونوں اس کے نزدیک یکساں ہیں۔وہ بے سہارالوگوں کو بھی اسی طرح تہس نہس کر دیتا ہے جس طرح ان لوگوں کو جومضبوط سہارا پکڑے ہوئے ہیں۔بھونچال یہ یاد دلاتا ہے کہ اس دنیا میں آدمی کس قدر بے بس ہے۔

یہ بھونچال خدا کی ایک پیشگی نشانی ہے جو بتاتی ہے کہ ہر ایک کے لیے بالآخر کیا ہونے والا ہے۔بھونچال ایک قسم کی چھوٹی قیامت ہے جو بڑی قیامت کا پتہ دیتی ہے۔جب ہولناک گڑگڑاہٹ لوگوں کے اوسان خطا کردیتی ہے۔جب مکانات تاش کے پتوں کی طرح گرنے لگتے ہیں۔جب زمین کا نچلا حصہ اوپر آجاتا ہے اورجو اوپرتھا وہ نیچے دفن ہوجاتا ہے۔اس وقت انسان جان لیتا ہے کہ وہ قدرت کی طاقتوں کے آگے بالکل عاجز ہے۔ اس کے لیے صرف یہ مقدر ہے کہ بے بسی کے ساتھ اپنی بربادی کا تماشہ دیکھے اوراس کے مقابلہ میں کچھ نہ کرسکے۔

قیامت کا بھونچال موجودہ بھونچال سے اربوں اور کھربوں گنازیادہ سخت ہوگا۔اس وقت سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے۔ہر آدمی اپنی ہوشیاری بھول جائے گا۔عظمت کے تمام منارے اس طرح گرچکے ہوں گے کہ ان کا کہیں وجودہ نہ ہوگا۔اس دن وہی سہارے والا ہوگا جس نے موجود ہ چیزوں کو بے سہاراسمجھاتھا۔اس دن وہی کامیاب ہوگاجس نے اس وقت خدا کو اپنا یاتھا جب سارے لوگ خدا کو بھول کر دوسری دوسری چھتریوں کی پناہ لیے ہوئے تھے۔

ہرطرف فریب

آج کی دنیا فریب کی دنیا ہے۔آج کے انسان کو ایسے نعرے مل گئے ہیں جن سے وہ اپنی شخصی لوٹ کی سیاست کو قومی خدمت کی سیاست ظاہر کرسکے۔ہر آدمی ایسے الفاظ کا ماہر بنا ہوا ہے جو اس کے ظلم وفسادکو عین حق وانصاف کا روپ دے سکیں۔ہر آدمی کو ایسے قانونی نکتے ہاتھ آگئے ہیں جو اس کے جرم کو بے گنا ہی کا سرٹیفکیٹ عطا کردیں۔

یہ دنیا پرستوں کا حال ہے۔مگر خدا پرستوں کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔یہاں بھی لوگوں نے ایسے فضائل ومسائل کا خزانہ جمع کررکھا ہے جو ان کی بے دینی کو دینی کمال کے خانہ میں ڈال دیں۔جو ان کی بے عملی کوعمل کا شان دار کریڈٹ دے دیں۔

لوگوں نے ایسا خدا دریافت کررکھا ہے جس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لوگوں کو ایسا رسول ہاتھ آگیا ہے جو صرف اس لیے آیا تھا کہ ان کی ساری بد اعمالیوں کے باوجود خدا کے یہاں ان کا یقینی سفارشی بن جائے۔لوگوں کو ایسی آخرت مل گئی ہے جہاں جنت صرف اپنے لیے ہے اورجہنم صرف دوسروں کے لیے۔ لوگوں کو ایسی نمازیں حاصل ہوگئی ہیں جن کے ساتھ کبر اور حسد جمع ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو ایسے روزے معلوم ہوگئے ہیں جو جھوٹ اورظلم سے فاسد نہیںہوتے۔ لوگوں کو ایسا دن ہاتھ آگیا ہے جو صرف بحث ومباحثہ کرنے کے لیے ہے نہ کہ عمل کرنے کے لیے۔ لوگوں کو اسلامی دعوت کے ایسے نسخے معلوم ہوگئے ہیں جو ان کی شخصی قیادت اورقومی سیاست کو اسلام کا لباس اوڑھادیں۔

مگر جھوٹا سونا اسی وقت تک سونا ہے جب تک وہ کسوٹی پر کسانہ گیاہو۔اسی طرح فریب کا یہ کاروبار بھی صرف اس وقت تک ہے جب تک کہ خدا ظاہر ہوکر اپنے انصاف کی ترازو کھڑا نہ کر دے۔آج امتحان کی آزادی ہے۔آج آدمی کو موقع ہے کہ جو چاہے کرے۔مگرجب امتحان کی مدت ختم ہوگی توآدمی اپنے آپ کو بالکل بے بس پائے گا۔وہ بولنا چاہے گامگر اس کے پاس الفاظ نہ ہوگے کہ وہ بولے۔وہ چلنا چاہے گا مگر اس کے پاس پائوں نہ ہوںگے کہ ان کے ذریعہ وہ بھاگ کر کہیں جاسکے۔

یہ سچائی کا دن ہوگا۔اس دن ہرآدمی کے اوپر سے فریب کا وہ لباس اتر چکا ہوگا جس کو آج وہ پہنے ہوئے ہے۔ہر آدمی اپنی اصل صورت میں نمایا ں ہوجائے گاجوفی الواقع اس کی ہے مگر امتحان کی آزادی سے فائدہ اٹھا کر آج وہ اس کو چھپائے ہوئے ہے۔آدمی کی یہ اصل صورت خدا کے سامنے آج بھی عریاں ہے۔مگرآخرت کی دنیا میں وہ تمام لوگوں کے سامنے نمایاں ہوجائے گی۔

کامیابی کی فہرست

سید محمد کیرلا میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم لندن میں ہوئی۔ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کے 80سالہ انگریز استاد پروفیسر سٹیونس(Dr. Cleveland Stevans) نے 1957میں کہا تھاکہ اے نوجوان شخص ،ایک دن تم یہاں اپنے ملک کے نمائندہ بن کر آئو گے۔مگر میں اس وقت تم کو دیکھنے کے لیے موجود نہ ہوں گا:

Young man, one of these days you will come here to represent your country. But I would not be there to see you.

یہ پیشین گوئی 23سال بعد پوری ہوئی اورسید محمد ہندستان کے ہائی کمشنر بن کر لندن گئے۔

سید محمد نے بیرسٹری سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔اس کے بعد انہیںبہت سے اعلیٰ عہدے ملے۔وہ اقوام متحدہ میں ہندستان کے مندوب تھے۔کیرلاکا بینہ میں وزیر ہوئے۔ مائناریٹیز کمیشن کے چیئرمین مقرر ہوئے۔وغیرہ وغیرہ۔سید محمد کے خاص دوستوں میں ایک مسٹر خوشونت سنگھ بھی تھے۔انھوں نے سید محمد کے بارے میں ایک مضمون لکھتے ہوئے اس کو اس پیرا گراف پر ختم کیاہے :

Seyyed’s passions were politics and law. He had applied for the Congress-I ticket to fight the last Parliamentary elections. Going by his records he would have undoubtedly won it. Kerala State Congress bosses denied him the ticket. It broke Seyyed’s heart and a month later the setback took his life.

سید محمد کا شوق سیاست اورقانون تھا۔انھوں نے کانگرس آئی کے ٹکٹ کے لیے درخواست دی تھی تاکہ حالیہ پارلیمنٹری الیکشن میں لڑ سکیں۔ اپنے حالات کے لحاظ سے وہ ضرور کامیاب ہوتے۔ کیرلا ریاستی کانگرس کے ذمہ داروں نے انہیںٹکٹ دینے سے انکار کیا۔اس واقعہ نے سید محمد کا دل توڑ دیا اورایک ماہ بعد اس حادثہ نے ان کی زندگی لے لی (ہندستان ٹائمس،23مارچ1985)۔

آج انسان کامیابیوں کی فہرست میں صرف ایک کمی کو برداشت نہیں کرپاتا۔حالانکہ انسان پر وہ دن آنے والا ہے جب کامیابیوں کی پوری فہرست اس سے چھن جائے گی۔کیسا عجیب ہوگا وہ دن اورکیسا عجیب ہوگا اس دن انسان کاحال۔

چھت گرپڑی

1968کا واقعہ ہے۔میں اعظم گڑھ کی ایک دوکان میں داخل ہوا۔وہاں میرے ایک جانے پہچانے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے ان کو سلام کیا۔مگرانھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔میں نے دوبارہ سلام کیا۔مگر میں نے دیکھا کہ اب بھی وہ خاموش ہیں۔وہ میری طرف دیکھ رہے تھے مگر کچھ بول نہیں رہے تھے۔’’کیا یہ کوئی دوسرے صاحب ہیں‘‘ میں نے سوچا۔مگر میری آنکھیں اس شبہ کی تردید کررہی تھیں۔جو شخص میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا وہ یقینی طور پر وہی شخص تھا جس کو میںپندرہ سال سے جانتا ہوں۔بظاہر یہ بھی ناممکن تھا کہ وہ مجھ کو بھو ل گئے ہوں۔

دکان کے مالک کو جلد ہی حیرانگی کا احساس ہوگیا۔اس نے بتایا کہ اصل قصہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک سخت حادثہ پیش آگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے ہیں۔ وہ اپنا نیا مکان بنا رہے تھے۔دیواریں کھڑی ہوگئیں تو حسب قاعدہ ان کے اوپر سانچہ بنا کر چھت ڈلوائی مگر ایک ماہ بعد جب سانچہ کھولا گیا تو ساری چھت دھڑام سے گر پڑی۔اس حادثہ کا ان کے دماغ پر اتنا اثر ہو اکہ وہ نیم پاگل ہوگئے۔اب وہ نہ کوئی کام کرتے ہیں نہ کھانا کھاتے ہیں اورنہ بولتے ہیں۔بس بت کی طرح اِدھر اُدھر پڑے رہتے ہیں جیسا کہ اس وقت آپ ان کو دیکھ رہے ہیں۔ مزید تحقیق کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کچھ لوگوں نے یہ کاروبار کیا ہے کہ سیمنٹ کے رنگ کی مٹی (پنڈول )کو باریک پیس کر بوریوں میں بھر دیتے ہیں۔یہ مٹی دیکھنے میں بالکل سیمنٹ جیسی ہوتی ہے۔اس لیے لوگ اس کو سیمنٹ سمجھ کر خرید لیتے ہیں۔مذکورہ بزرگ کو بھی اتفاق سے اسی قسم کی سیمنٹ مل گئی۔اوراسی سیمنٹ سے انھوں نے اپنی چھت بنوا دی۔ ظاہر ہے کہ ایسی سیمنٹ سے بنی ہوئی چھت کا وہی انجام ہونا تھاجو ہوا۔

اسی طرح کوئی دولت کو اپنی چھت بنائے ہوئے ہے۔کسی کو اپنے الفاظ پر بھروسہ ہے۔کوئی سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھیوں کی مدد اس کے لیے کافی ہے۔کوئی بڑوں کا سہارا پکڑے ہوئے ہے۔مگریہ سب جھوٹے سہارے ہیں۔قیامت جب ظاہری سانچہ کو ہٹائے گی تو اچانک لوگوں کی چھت ان کے اُوپر اس طرح گرپڑے گی کہ وہاں کوئی تنکا نہ ہوگا جو آدمی کا سہارا بن سکے۔

خدا کی دنیا

 

خدا کی دنیا

جب آپ اپنے کمرہ میں ہوں تو آپ اس کی چھت کو ناپ کر معلوم کرسکتے ہیں کہ اس کی لمبائی کتنی ہے اورچوڑائی کتنی۔مگر جب آپ کھلے میدان میں آسمان کے نیچے ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی چھت کی لمبائی اورچوڑائی کو ناپنے کے لیے آپ کے تمام پیمانے ناکافی ہیں۔یہی حال خدا کی پوری کائنات کا ہے۔ ایک بیج جس طرح بڑھ کر درخت کی ایک دنیا بناتا ہے اس کو کون بیان کرسکتا ہے۔سورج کی روشنی ،ہوائوں کا نظام ، چڑیوں کے نغمے ،پانی کے بہتے ہوئے چشمے اوراسی طرح کی بے شمار چیزیں جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

سچائی اس سے زیادہ لطیف ہے کہ اس کو انسانی لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔حقیقت یہ ہے کہ جہاں زبان گنگ ہوجاتی ہے وہاںسے حقائق شروع ہوتے ہیں۔جہاں الفاظ ساتھ نہیں دیتے وہاں سے معانی کا آغاز ہوتا ہے۔خداچپ کی زبان میں بول رہاہے اورہم اس کو شور کی زبان میں سننا چاہتے ہیں۔ ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ ہم خدا کی آوازوں کو سن سکیں۔اس دنیاکی سب سے قیمتی باتیں وہ ہیں جو چپ کے بول میں نشر ہورہی ہیں مگر جو لوگ صرف شوروغل کی بولیاں سننا جانتے ہوں وہ ان قیمتی باتوں سے اسی طرح ناآشنا رہتے ہیں جس طرح ایک بہرا شخص کسی عمدہ موسیقی سے۔

خدا کی دنیا بے حدحسین ہے۔اس کے حسن کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔آدمی جب اس دنیا کو دیکھتا ہے تو بے اختیار اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ خدا کی اس ابدی دنیا کا باشندہ بن جائے۔وہ ہوائوں میں شامل ہوجائے وہ درختوں کی سرسبزیوں میں جا بسے۔وہ آسمان کی بلندیوں میں کھوجائے۔مگر انسان کی محدود یتیں اس کی اس خواہش کی راہ میں حائل ہیں۔وہ اپنی محبوب دنیا کو دیکھتا ہے مگر اس میں شامل نہیں ہوپاتا۔شاید جنت اسی کانام ہے کہ آدمی کو اس کی محدود یتوں سے آزاد کردیا جائے تاکہ وہ خدا کی حسین دنیا میں ابدی طورپر داخل ہوجائے۔

انسان نے جو تمدنی دنیا بنائی ہے وہ خدا کی دنیا سے کس قدر مختلف ہے۔انسان کی بنائی ہوئی سواریاں شور اوردھواں پیدا کرتی ہیں مگر خدا کی دنیا میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اورنہ کہیں شور ہوتا ہے اورنہ دھواں۔انسان انسان کے درمیان اس طرح رہتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں ،مگر خدا کی دنیا میں ہوا اس طرح گزرتی ہے کہ وہ کسی سے نہیں ٹکراتی۔انسان اپنی غلاظت کو کاربن اورپسینہ اوربول وبراز کی صورت میں خارج کرتا ہے مگر خدا نے اپنی دنیا میں جو درخت اُگائے ہیں وہ اس کے برعکس اپنی کثافت کو آکسیجن کی صورت میں خارج کرتے ہیں اورپھول اپنی کثافت کو خوش بو کی صورت میں۔انسان کے بنائے ہوئے تمام شہروں میںکوڑے کو ٹھکانے لگانا ایک ناقابل حل مسئلہ بناہوا ہے۔مگر خدا کی بنائی ہوئی وسیع تر دنیا میں ہر روز بڑے پیمانہ پر ’’کوڑا‘‘نکلتا ہے مگرکسی کو پتہ نہیںچلتا۔کیوںکہ اس کو (Recycle)کرکے دوبارہ کائنات کے مفید اجزاء میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔جو شخص حقیقت کی جھلک دیکھ لے تو وہ اس کے بیان سے اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگتا ہے۔اس پر چپ طاری ہوجاتی ہے نہ یہ کہ وہ لفظوں کا سیلاب بہانے لگے۔

ہم خدا کے ملک میں ہیں

ایک امریکی خاتون سیاحت کی غرض سے روس گئیں۔وہاں انھوں نے دیکھا کہ ہر جگہ کمیونسٹ پارٹی کے چیف کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔یہ بات انہیںپسند نہیں آئی۔ایک موقع پر وہ کچھ روسیوں سے اس پر تنقید کرنے لگیں خاتون کے ساتھی نے ان کے کان میں چپکے سے کہا ’’میڈیم آپ اس وقت روس میں ہیں ،امریکامیں نہیں ہیں ‘‘۔

آدمی اپنے ملک میں اپنی مرضی کے مطابق رہ سکتا ہے۔لیکن اگروہ کسی غیر ملک میں جائے تو وہاں اس کو دوسرے ملک کے نظام کی پابندی کرنی پڑے گی۔اگر وہ وہاں کے نظام کی خلاف ورزی کرے تووہ مجرم قرار پائے گا۔

ایسا ہی کچھ معاملہ وسیع تر معنوں میں دنیا کا ہے۔انسان ایک ایسی دنیا میں پیداہوتا ہے۔جس کو اس نے خود نہیں بنایا ہے۔یہ مکمل طور پر بنائی ہوئی دنیا ہے۔گویا انسان یہاں اپنے ملک میں نہیں ہے بلکہ خدا کے ملک میں ہے۔

ایسی حالت میں انسان کی کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ خدا کی سیکم کو جانے اوراس اسیکم کے مطابق اس دنیا میں رہے۔اگر وہ یہاں خدا کی اسکیم کے خلاف رہے گا وہ باغی قرار پائے گا اور اس قابل ٹھہرے گا کہ خدا اس کو سخت سزا دے کر ہمیشہ کے لیے اپنی تمام نعمتوں سے محروم کردے۔

دنیامیں خدا کی مرضی کے مطابق رہنے کا طریقہ کیا ہے ،یہی وہ سوال ہے جس کا جواب دینے کے لیے خدا نے اپنے پیغمبر کھڑے کیے۔ پیغمبر وں نے انسان کی قابل فہم زبان میں کھول کھول کر بتایا کہ انسان سے خدا کو کیا مطلوب ہے۔اورخدا کی وہ اسکیم کیا ہے جس کی انسان کو پابندی کرنی چاہیے۔

قرآن اسی پیغمبر انہ ہدایت کا مستند مجموعہ ہے۔جو شخص یہ چاہتا ہو کہ خد ااس کو اپنے وفادار بندوں میں شمار کرے اوراس کو اپنی ابدی نعمتوں میں حصہ دار بنائے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کو پڑھے اوراس کو اپنی زندگی کار ہنما بنالے۔

جو شخص ایسا نہیں کرے گا اس کا انجام شدید ترشکل میں وہی ہوگا جوروس میں امریکا نوازوں کا ہوتا ہے یا امریکامیں روس نوازوںکا۔

ایک موت

23فروری1983کی صبح الرسالہ کے لیے بڑی درد ناک خبر لے کر آئی۔اس دن الرسالہ کے کاتب حافظ امجد علی شاہجہانپوری کا انتقال ہوگیا۔وفات کے وقت ان کی عمر تقریبا ً ستر سال تھی۔ حافظ امجد علی صاحب نے الرسالہ کی کتابت کا کام اتنی دلچسپی اورلگن کے ساتھ کیاکہ ’’الرسالہ ‘‘اور’’امجد علی صاحب‘‘دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی بن گئے۔وہ دہلی کے اعلیٰ درجہ کے کاتب تھے۔الرسالہ کے صفحات نے ان کی خوش نویسی کے جو نمونے محفوظ کیے ہیںوہ ابھی نامعلوم مدت تک باقی رہیں گے۔مگر لکھنے والے کا فن لکھنے والے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔

اگر یہ کہا جائے کہ الرسالہ کی ہر اشاعت سب سے پہلے امجد علی صاحب کی نظر سے گذرتی تھی تو یہ بات بالکل صحیح ہوگی۔کیونکہ وہ الرسالہ کو صرف ’’لکھتے ‘‘نہیں تھے بلکہ وہ اس کو ’’پڑھتے ‘‘بھی تھے۔الرسالہ کے مضامین جب انہیںکتابت کے لیے دیے جاتے تو پہلے وہ ان کا مطالعہ کرتے۔اس کے بعد ان کو لکھنا شروع کرتے۔وہ الرسالہ کے صرف کاتب نہیں تھے،بلکہ وہ اس کے سب سے پہلے قاری بھی تھے۔

موت کی خبر ملنے کے بعد 23 فروری کی دوپہر کو جب میں ان کے گھر پہنچا تو ان کا مردہ جسم ایک چارپائی پر لٹایا ہواتھا۔میں دیر تک تاثرات کے طوفان میں انہیںدیکھتا رہا۔ وہی معصوم چہرہ تھا، مگر اب وہ خاموش ہوچکا تھا۔بظاہر وہی آنکھیں تھیں۔مگر اب وہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی تھیں۔ہاتھ وہی تھا مگر اب وہ قلم پکڑنے کی طاقت سے محروم تھا۔

23فروری کو نماز ظہر کے بعد جنازہ اٹھا۔لوگ حافظ امجد علی کاجسم کاندھوں پر اٹھائے قبرستان کی طرف جا رہے تھے اورمیرے ذہن میں ایک پوری تصویر جاگ رہی تھی۔جس میں انسان اپنے آغاز سے انجام کی طرف جاتا ہوا نظر آرہا تھا۔انسان کی کہانی کیسے عجیب طورپر اس دنیا میں شروع ہوتی ہے۔اورکیسے عجیب طورپر ختم ہوجاتی ہے۔

23فروری سے پہلے امجد علی صاحب سے میرا ہر روز ساتھ تھا۔23فروری کو وہ اچانک دوسری دنیا میں چلے گئے۔جب مجھے اس کا خیال آتا ہے تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ ہماری آج کی دنیا اورہماری کل کی دنیا میں کتنا کم فاصلہ ہے۔ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کا ایک قدم اگر اِس دنیا میں ہے تو اس کا دوسرا قدم اُس دنیا میں۔

زندگی کا انجام

ماستی وینکا ٹیساآئنگر(1891-1986)کنڑازبان کے مشہور مصنف ہیں۔تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ میسورسول سروس میں شامل ہوئے۔ اپنی اعلیٰ خدمات کی بنا پر انہیںریاست میسور کا وزیر ہونا چاہیے تھا۔مگر ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔چنانچہ وہ بددل ہوکر وقت سے پہلے ریٹائر ہوگئے۔

ملازمت سے الگ ہوکر انھوں نے کہانیاں اورناول لکھنا شروع کیا۔اس میدان میں انھیںغیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔آج وہ تقریباً ڈیڑھ سو کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتاب چکاویراراجندر (Chikka Veera Rajendra)پر حکومت ہندنے ان کو گیان پیٹھ کا خطاب اورڈیڑھ لاکھ روپیہ بطور انعام دیا ہے۔

مسٹروی سری دھر موصوف سے ملے اوران سے ایک انٹر ویو(ٹائمس آف انڈیا 12اگست 1984)لیا۔مسٹر ماستی اگرچہ اپنی تمام کتابوں کوادبی شاہکا رسمجھتے ہیں۔مگر حکومت کے اعلیٰ انعام پروہ خوش نہ ہوسکے۔انھوں نے کہا :

I am too old to be happy

یعنی 94سال کی عمر کو پہنچ کر میں اتنا زیادہ بوڑھا ہوچکا ہوں کہ کوئی خوشی میرے لیے خوشی نہیں۔مسٹر ماستی کی پہلی کہانی 1912میں شائع ہوئی تھی۔اس لحاظ سے انہیںاپنے ادبی کمالات کے اعتراف کے لیے 70سال انتظار کرنا پڑا۔مگر لمبی مدت کے بعد جب انہیںعزت اورانعام ملا تووہ وقت تھا جب کہ بڑھاپے نے ان کے چہرے پر جھریوں کی مالا پہنا دی تھی۔

مسٹر ماستی کی کہانی موجودہ دنیا میں ہرشخص کی کہانی ہے۔اس دنیامیں ہر آدمی کایہ قصہ ہے کہ وہ محنت کرتا ہے۔اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔بالآخر’’ستر سال ‘‘کی محنت کے بعد وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں عزت اورانعام ملے۔مگر ا س وقت وہ بوڑھا ہوچکا ہوتا ہے۔مزید یہ کہ کسی بھی صبح یا شام موت آجاتی ہے اوراس کو مجبور کرتی ہے کہ اپنی عمر بھر کی کمائی کو چھوڑ کر ایسی دنیا کی طرف چلا جائے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا تھا۔

کہاں سے کہا ں

31اکتوبر 1984کو صبح سوا نو بجے کا وقت تھا۔نئی دہلی میں وزیراعظم ہند کی سرکاری رہائش گاہ میں حسب معمولی پولیس اوراسٹاف کی سرگرمیاں اپنے شباب پر تھیں۔پیشگی اپائنٹمنٹ کے مطابق وسیع اورشاندار لان میں پیڑاسٹینوف (1921-2004) اپنی پارٹی کے ساتھ آچکے تھے۔ وہ وزیر اعظم اندر اگاندھی (1917-1984)پر ایک فلم تیار کررہے تھے۔ وزیر اعظم اپنے وقت پر اپنے کمرہ سے برآمد ہوئیں۔وہ لان میں داخل ہونے ہی والی تھیں کہ گولیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔مسزاندراگاندھی کی حفاظتی پولیس کے دو مسلح جوانوں نے اچانک ان پر حملہ کردیا۔ایک پستول سے فائر کیے ،دوسرے نے اپنے اسٹن گن کی 20 گولیاں ان کے اوپر خالی کردیں۔ خون میں لت پت اندراگاندھی کوئی آخر ی کلمہ نہ بول سکیں۔وہ ’’بے ہوش ‘‘حالت میں اسپتا ل لے جائی گئیں۔صرف اس لیے کہ ڈاکٹر ان کی طبی موت کا آخری اعلان کرسکیں۔اس سلسلہ میں اخبارات میں جورپورٹیں شائع ہوئی ہیں ،ان میں سب سے زیادہ عبرت انگیز مسٹر پیٹر اسٹینوف کا واقعہ تھا:

Peter Ustinov, world renowned actor, director, and writer, was sitting in the lawn at Mrs Indira Gandhi's residence, waiting, to interview her ("I wanted to ask her how as a single child she came to terms with her loneliness") when he heard the 'sound of death'.

مسٹر اسٹینوف جو عالمی شہرت رکھنے والے ایکٹر ،ڈائرکٹر اوررائٹر ہیں ،وہ مسزاندرا گاندھی کی رہائش گاہ کے لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔وہ ان سے انٹرویو کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ واحد اولاد ہونے کے اعتبار سے انھوں نے کس طرح اپنے اکیلے پن کے ساتھ نباہ کیا۔عین اسی وقت اسٹینوف نے موت کی آواز سنی (ہندستان ٹائمس،1نومبر1984)۔

راقم الحروف نے جب یہ رپورٹ پڑھی تو معاًمجھ کو یہ خیال آیا کہ اگر الفاظ کے اندر تھوڑی سی تبدیلی کردی جائے تو غالباً یہ اہم ترین سوال تھا جو اس نازک لمحہ میں مسز اندرا گاندھی سے پوچھا جاسکتا تھا۔الفاظ میںمعمولی تبدیلی کے بعد وہ سوال یہ تھااب تک آپ700ملین انسانوں کے ملک کی محبوب وزیراعظم تھیں۔اگلے لمحہ آپ کا کیا حال ہوگا جب کہ آپ اپنے کو ایک ایسی دنیا میں پائیں گی جہاں آپ بالکل تنہا اور بے یارومددگار ہوں گی۔

کیسا عجیب ہے وہ پانا جس کا انجام کھونے کے سوا اورکچھ نہ ہو۔

یہ گونگے شاہکاروں کاعجائب خانہ نہیں

تمام سفروں میں ٹرین کا سفر سب سے زیادہ تجربات سے بھر اہواہوتا ہے۔انسانی قافلوں کو لیے ہوئے تیز رفتار ایکسپریس دوڑی چلی جارہی ہے۔گاڑی کے دونوں طرف قدرت کے مناظر مسلسل ہماراساتھ دے رہے ہیں۔اس طرح ٹرین گویا زندگی کے بڑے سفر کی علامت بن گئی ہے جو نشانیوں سے بھری ہوئی ایک دنیا میں انسان طے کررہا ہے۔مگر جس طرح ٹرین کے مسافراطراف کے مناظر سے بے خبر ہوکر اپنی ذاتی دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں۔اسی طرح انسان موجودہ دنیا میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی بکھری ہوئی نشانیوں پر غور کرے۔

سورج اپنے روشن چہرہ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اورانسان کے اوپر اس طرح چمکتا ہے جیسے وہ کوئی پیغام سنانا چاہتا ہو۔مگر وہ کچھ کہنے سے پہلے غروب ہوجاتا ہے۔درخت اپنی ہری بھر ی شاخیں نکالتے ہیں ،دریا اپنی موجوں کے ساتھ رواں ہوتا ہے۔یہ سب بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔مگر انسان اِن کے پاس سے گزرجاتا ہے۔بغیر اس کے کہ ان کا کوئی بول اس کے کان میں پڑاہو۔آسمان کی بلندیاں ،زمین کی رعنائیاں سب ایک عظیم ’’اجتماع ‘‘کے شرکاء معلوم ہوتے ہیں۔مگر ان میں سے ہر ایک خاموش کھڑا ہواہے۔وہ انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا۔

یہ عظیم کائنات کیاگونگے شاہکاروں کا عجائب خانہ ہے۔نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس خدا کا ایک پیغام ہے اوراس کو وہ ابدی زبان میں نشر کررہا ہے۔مگر انسان دوسری آوازوں میں اتنا کھویا ہواہے کہ اس کو کائنات کاخاموش کلام سنائی نہیں دیتا۔ایک سفر میں ہم ایک درمیانی اسٹیشن پر نماز پڑھنے کے لیے اترے۔اسٹیشن کے آدمیوں سے پوچھا کہ’’پچھم کس طرف ہے ‘‘۔مگر کسی کے پاس اس سادہ سے سوال کا جواب نہ تھا۔میں نے سوچا ’’سورج ایک روشن ترین حقیقت کی حیثیت سے روزانہ ان کے اوپر نکلتا ہے اورڈوبتا ہے۔مگر لوگ اپنے آپ میں اتنا گم ہیں کہ ان کو مشرق ومغرب کا پتہ نہیں۔پھر وہ لطیف پیغام جو سورج اوراس کے کائناتی ساتھی اپنی خاموش زبان میں نشر کررہے ہیں ان سے کیسے کوئی باخبر ہوسکتا ہے‘‘۔

ہماری ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی۔میں باہر آکر پلیٹ فارم پر کھڑا ہوگیا۔سورج ابھی ابھی غروب ہواتھا۔ہرے بھر ے درخت ،ان کے پیچھے سرخی ملی ہوئی روشنی اوراس کے اوپر پھیلے ہوئے بادل ،عجیب آفاقی حسن کا منظر پیدا کررہے تھے۔’’ان میں یہ حسن ان کی بلندی نے پیدا کیا ہے ‘‘میں نے سوچا۔’’مگر انسان اس بلندی تک جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔وہ اس سطح پر نہیں جیتا جس سطح پر درخت جی رہے ہیں۔وہ وہاں بسیرانہیں لیتا جہاں روشنی اوربادل بسیرالیے ہوئے ہیں۔اس کے برعکس وہ سطحی مفادات میں جیتا ہے۔وہ جھوٹی دوستی اورجھوٹی دشمنی میں سانس لیتا ہے۔کائنات کا ہم سفر بننے کے بجائے اپنے آپ کو وہ اپنی ذات کے خول میں بند کرلیتا ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں جنتی فضائیں اس کا انتظار کررہی ہیں۔وہاں وہ اپنے آپ کو دوزخ کے ماحول میں ڈال دیتا ہے۔انسانی دنیا کے بگاڑ کی ساری وجہ یہی ہے۔اگر وہ بلند سطح پر جینے لگے تو اس کی زندگی میں بھی وہی حسن آجائے جو قدرت کے حسین مناظر میں دکھائی دیتاہے(16مارچ 1979)۔

زیادہ نازک

ایک مسلم نوجوان نے جدیدتعلیم حاصل کی۔اس کے بعد اس کو باہر کے ایک ملک میں کام ملا وہ اوراس کے لیے روانہ ہوگیا۔اس کے ماں باپ اس کو رخصت کرنے کے لیے ہوائی اڈہ پر آئے۔نوجوان کے مشرقی باپ نے آخری وقت میں نصیحت کرتے ہوئے کہادیکھو بیٹے ،جب ہوائی جہاز کے اندر بیٹھنا تو اپنے چاروں طرف آیتہ الکرسی کاگھیرا بنا لینا۔اوردرودشریف پڑھتے رہنا۔

یہ سن کر ایک شخص نے کہا آپ بیٹے کو اس قسم کی نصیحت کیوں کررہے ہیں۔ بزرگ بولے اس لیے یہ ہوائی سواری ہے۔راستہ میں ذراسی بھی کوئی بات پیش آئے توکیا سے کیا ہوجائے۔

’’آپ کو شاید معلوم نہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اس سے زیادہ خطر ناک ہوائی سواری پر بیٹھا ہواہے ‘‘۔آدمی نے دوبارہ کہا’’یہ زمین جس پرہم آپ ہیں یہ ہوائی جہاز سے بھی زیادہ نازک سواری ہے۔ہماری زمین کسی ٹھوس چیز پر رکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ اتھاہ خلامیں معلق ہے۔وہ ہوائی جہاز سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ دہراحرکت کررہی ہے۔ایک طرف وہ اپنے محور پر20میل فی سکنڈ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔دوسری طرف وہ اپنے مدار پر15سکنڈ فی میل کی رفتار سے دوڑرہی ہے۔ہوائی جہاز تو درمیانی مقامات پر اترتے ہیں۔مگر زمین کا تیز رفتار سفر بغیر رکے ہوئے مسلسل جاری ہے ‘‘۔  

اس قسم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد مذکورہ شخص نے کہا۔’’اگر آپ کو اپنے اس زمینی سفر کاواقعی احساس ہوتو آپ ہر وقت آیتہ الکرسی اوردرودشریف پڑھتے رہیں۔آپ کے اوپر لرزہ طاری ہوجائے۔ہوائی سفر سے کہیں زیادہ آپ کو اپنے زمینی سفر کا فکر لاحق رہنے لگے‘‘۔

لوگ انسانی واقعات سے متاثر ہوتے ہیں،وہ خدائی واقعات سے متاثر ہونا نہیں جانتے۔کوئی شخص کرتب کے زورسے اپنے آپ کو اس طرح دکھائے کہ اس کا پائوں چھت پر ہو اوراس کا سرنیچے کی طرف لٹکا ہواہوتو بے شمار لوگ اس عجیب واقعہ کو دیکھنے کے لیے جمع ہوجائیںگے۔مگر لوگوں کی یاد نہیں کہ وہ خود اسی قسم کے عجیب تر واقعہ کی مثال ہیں۔کیونکہ ہم میں سے ہرشخص کا یہ حال ہے کہ وہ زمین کی سطح پر لٹکا ہواہے۔زمین گول ہے۔زمین پر فی الواقع یہ صورت پائی جاتی ہے کہ آدمی اس کے اوپر مذکورہ کرتب باز آدمی کی طرف لٹکے ہوئے ہیں۔ہندستان والوں کے لیے امریکاکے لوگ اس طرح ہیں کہ زمین کی سطح پر ان کا پائوں ہے اور ان کا سر زمین کے نیچے لٹک رہا ہے اسی طرح امریکاوالوں کے لیے ہندستان کے لوگ سرنیچے اورپائوں اوپر کیے ہوئے زمین پر چل پھر رہے ہیں۔

خد ا سے ڈرو

آج کوئی بستی ایسی نہیںہے جہاں ایک آدمی دوسرے آدمی کو ستا نہ رہا ہو۔جہاں ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنے ظلم کا نشا نہ نہ بنائے ہوئے ہو۔مگر لوگ کس آدمی کو ستاتے ہیں۔اس آدمی کو جو ان کی نظر میں کمزور ہو۔جو دادا گیری کرنا نہ جانتا ہو،جس نے اپنے آگے پیچھے ساتھیوں کی فوج نہ جمع کر رکھی ہو،جو پولیس اورکچہری سے دور رہنا چاہتا ہو،لو گ بے زوروں کے لیے بہادر ہیں اورجو شخص لوگوں کو زورآور دکھائی دیتا ہواس کے لیے کوئی بہادر نہیں۔

مگریہ اندھے پن کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔اگر ان کے پاس دیکھنے والی آنکھ ہوتو وہ سب سے زیادہ اس سے ڈریں جس کو وہ بے زورسمجھتے ہیں۔کیونکہ جو شخص بے زورہے اس کے پیچھے خدا کھڑا ہواہے۔

دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ آزمائش کے منصوبہ کے تحت ہورہا ہے۔خدا کو جانچ کر ہرشخص کے بارے میں جاننا ہے کہ ان میں سے کون ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے اوروہ کون ہے جو اللہ سے بے خوف ہے۔اس کی جانچ کیسے ہو۔اس کی جانچ ان شخاص کی سطح پرنہیں ہوسکتی جو اپنی زورآوری کی وجہ سے لوگوں کو مرعوب کیے رہتے ہیں،جن کی طاقت دیکھ کر لوگوں کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ان کے خلاف اگر لوگ برائی نہ کریں تو یہ ان کی اپنی طاقت سے ڈرنے کی وجہ سے ہوگا نہ کہ خدا کے ڈرکی وجہ سے۔

مگر ایک شخص ہے جس کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں جو لوگوں کو مرعوب اورخوف زدہ کرتی ہے۔اس کو ستانے سے اگر کوئی شخص بچتا ہے تو اس کی وجہ یقیناً اخلاقی ہوگی نہ کہ مادی۔خدا کچھ افراد کو بے زور اوربے حیثیت بنا کر لوگوں کے درمیان رکھتا ہے اورپھر ان کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔جو شخص کمزور آدمی کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈراوہ گویا خدا سے ڈرا،اس کا ٹھکانا جنت ہوگا۔جو شخص کمزور آدمی کے ساتھ بے انصافی کرنے سے نہیں ڈراوہ گویا خدا سے نہیں ڈرا،ایسا شخص جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ڈال دیا جائے گا۔

ہر آدمی بری زندگی گزار کر مرجاتا ہے تاکہ موت کے بعد اورزیادہ بری زندگی کی طرف دھکیل دیا جائے۔

کائنات بیان دے گی

مجھے ایک بار لکھنؤ کے ایک علاقہ میں جانا ہوا جہاں آم کے باغات تھے۔ میں نے دیکھا کہ درختوں پر پھل لگے ہوئے ہیں مگر سب کے سب کالے ہورہے ہیں۔دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ یہ دھوئیں کی وجہ سے کالے ہوگئے ہیں۔ان باغات کے پا س اینٹ کے بھٹے تھے جن کی چمنیوں سے ہر وقت کوئلہ کا دھواں نکلتا رہتا تھا۔اس دھوئیں کی وجہ سے تمام پھل کالے ہوکر خراب ہوگئے۔ان کی بڑھوتری رک گئی۔وہ منڈی میں بھیجنے کا قابل نہ رہے۔

یہی اس دنیا کی تمام چیزوں کا حال ہے۔دنیا کے بنانے والے نے اس کو نہایت حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔اس کی ہر چیز بے حد نازک اورلطیف ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات ایک انتہائی بامعنی کارخانہ ہے۔وہ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں کرتی جو اس کے مزاج کے خلاف ہو،جو اس کی تخلیقی اسکیم کے مطابق نہ ہو۔مگر کائنات کے سب سے زیادہ سرسبزاورقیمتی حصہ پر انسان ہر وقت ظلم فساد جاری کیے ہوئے ہے۔حق کے نام پر حق کو قتل کیا جارہاہے اورکائنات اپنی تمام معنویت کے باوجود خاموش کھڑی ہوئی ہے۔وہ زمین پر سب کچھ ہوتے دیکھتی ہے مگر اس کے بارے میں اپنا کوئی بیان نہیں دیتی۔ا س کی وجہ یہ ہے اس کے خدا نے ایک مقررمدت تک کے لیے اس کو روک رکھا ہے۔جب یہ مدت ختم ہوگی تو اچانک وہ بول پڑے گی۔اس وقت وہ سب کچھ کہہ ڈالے گی جس کو آج وہ دیکھتی ہے مگر نہیں کہتی۔

آدمی اپنے اقتدار کی سیاست چلاتا ہے اوراس کو خدا کی سیاست کانام دیتا ہے۔وہ مکمل اصلاح کے نفاذ کانعرہ لگاتا ہے اورجب آزمایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جزئی اصلاح پر بھی قائم نہیں۔وہ اپنے پڑوسی کو ستاتا ہے اوردورکے ظالم کے خلاف جھنڈالے کر کھڑا ہوتا ہے۔وہ اپنی انا کی پر ستش میں لگا ہوتا ہے اور دوسرے کی انانیت اورتعصب کا اعلان کرنے کے لیے اسٹیج سجاتا ہے۔وہ مفاد پرستی اوراستحصال میں غرق ہوتا ہے اورانصاف اورانسانیت کے عنوان پر تقریریں کرتا ہے۔وہ ضد اورنفرت اورانتقام کے تحت کارروائی کرتا ہے اورزبان سے یہ ظاہر کرتا ہے وہ صرف حق کے لیے ایسا کررہا ہے۔ وہ اپنے بدترین شیطانی کاموں کو بیان کرنے کے لیے بھی نہایت خوب صورت الفاظ پالیتا ہے۔یہ سب کچھ انسانی دنیا میں ہورہا ہے اورکائنات اپنی تمام نفاست اورلطافت کے باجود چپ رہتی ہے۔وہ سچ کوسچ نہیں کہتی اورجھوٹ ہونے کا اعلان نہیں کرتی۔

کیا کائنات کے اندر تضاد ہے ،کیا یہ ایک گونگی کائنات ہے۔جس کائنات کے پاس سریلے نغمے بکھیرنے والی چڑیاں ہوں ،کیا اس کے پاس حق کا اعلان کرنے کے لیے زبان نہیں۔قرآن اس سوال کا جواب دیتا ہے۔قرآن بتاتا ہے کہ کائنات کی یہ خاموشی اس لیے ہے کہ خدا نے اس کو قیامت کے آنے تک خاموش رہنے کا حکم دے رکھا ہے ، جیسے ہی صورپھونکا جائے گا۔تمام زبانوں کی مہریں ٹوٹ جائیں گی۔اس وقت ساری کائنات ایک عظیم الشان ٹیپ ریکارڈربن جائے گی اور پھر خدا کے گواہ کی حیثیت سے وہ سب کچھ بتائے گی جوحق اورعدل کے مطابق اسے بتانا چاہیے۔اس وقت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ جس کائنات کے پاس رات کو دن بنا دینے والا سورج تھااس کے پاس یہ بھی انتظام تھا کہ تاریکی میں چھپے ہوئے اعمال کو اجالے میں لاسکے۔

کیسی عجیب محرومی

آپ کسی شخص کو ایک ڈالر دیں اوراس سے کہیں کہ آگے اسی قسم کے ایک کرورسکے پڑے ہوئے ہیں۔اگر تم تیزی سے جائو تو اس پورے ذخیرہ کو حاصل کرسکتے ہو۔ایسا آدمی ڈالر دیکھ کر کیا کرے گا۔وہ ایک کو بھول کر ایک کرورکی طرف دوڑپڑے گا۔

ایسا ہی کچھ معاملہ دنیا اورآخرت کا ہے۔موجودہ دنیا آخرت کا تعارف ہے۔یہاں آدمی ان نعمتوں اورلذتوں کی ابتدائی پہچان حاصل کرتا ہے جس کو خدا نے کامل طور پر آخرت میں مہیا کررکھا ہے۔یہ اس لیے ہے تاکہ آدمی جزءسے کل کو سمجھے۔وہ قطرہ کو دیکھ کر سمندر کا اندازہ کرے۔

اگر آدمی کو دنیاکی صحیح معرفت حاصل ہوتو اس کے لیے دنیا مذکورہ ایک ڈالر کی مانند ہوجائے گی۔وہ چھوٹی لذت کو چھوڑ کر بڑی لذت کی طرف بھاگے گا۔وہ دنیا کو بھول کر آخرت کی طرف دوڑ پڑے گا۔اس کے برعکس جو شخص دنیا کی صحیح نوعیت کو نہ سمجھے وہ موجودہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے گا۔وہ آخرت کو بھول کر اسی دنیا کی چیزوں میں ہمہ تن مشغول ہوجائے گا۔

سورج اس لیے ہے کہ وہ آخرت کی روشنیوں سے بھری زندگی سے انسان کو متعارف کرے۔مگر انسان سورج کو دیکھ کر یہ کرتا ہے کہ وہ خود سورج ہی کو اپنا معبود بنالیتا ہے۔ پھولوں اوردرختوں کا حسن اس لیے ہے کہ وہ آدمی کو آخرت کے حسن کی یاد دلائے۔ مگر انسان پھولوں اوردرختوں کو آخری چیز سمجھ کر انہیںکے درمیان اپنی مستقل جنت بنانے لگتا ہے۔دنیا کی لذتیں اس لیے ہیں کہ انسان کو ہمہ تن آخرت کا مشتاق بنادیں مگر انسان انہیںلذتوں میں ایسا کھوتا ہے کہ اس کو آخرت کی یاد بھی نہیں آتی۔

جو شخص موجودہ دنیا کی دلفریبیوں میں گم ہوجائے اس نے اپنی آخرت کو کھو دیا۔ایسا شخص آخرت میں پہنچے گا تو وہاں کی ابدی نعمتوں کو دیکھ کر اس کا یہ حال ہوگا گویا اس کا سینہ حسرت ویاس کا قبرستان بن چکا ہے۔وہ کہے گا کہ میں بھی کیسا نادان تھا۔میں نے جھوٹے عیش کی خاطر حقیقی عیش کو کھو دیا۔میں نے جھو ٹی لذت کے پچھے حقیقی لذت گنوا دی۔ میں نے جھوٹی آزادی سے فریب کھا کر اپنے آپ کو حقیقی آزادی سے محروم کرلیا۔

سب چلے گئے

فیبین سو شلزم(Fabian Socialism)ایک سو سال پہلے انگلینڈ میںوجود میں آئی۔ برناڈشا(1856-1950)اوردوسرے بہت سے دانشوراس سے وابستہ تھے۔فیبین کا لفظ ایک رومی جنرل (Fabius Maximus)کے نام سے لیا گیا تھا۔ یہ لوگ غریبی اور جہالت کے خاتمہ پر زور دیتے تھے اور جبر کے بغیر سوشلزم لانے کے علمبردار تھے۔ یہ گروہ فیبین سوسائٹی(Fabian Society) کے نام سے مشہور ہوا۔

اس نظریے کو ماننے والوں میں ایک خاتون بیٹرس ویب(Beatrice Webb) بھی تھیں۔وہ اپنی ڈائری لکھتی رہتی تھیں جو ان کے بعد شائع ہو کر کافی مقبول ہوئی۔ اس ڈائری کے آخری اندراجات میں سے ایک وہ ہے جو انھوں نے 1943 کی کسی تاریخ کو لکھا تھا۔ اس میں مذکور ہ خاتون نے تحریر کیا تھا

Everything and everyone is disappearing Churchill Roosevelt, Stalin. What an amazing happening, and well worth recording in my diary. But that also will suddenly disappear (1943).

ہر چیز اور ہر شخص غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ چرچل ،روزولٹ، اسٹالن، سب چلے گئے۔کیسے عجیب ہیں یہ واقعات، اور کس قدر زیادہ میری ڈائری میں لکھے جانے کے قابل، مگر وہ بھی اچانک ایک روز غائب ہوجائے گی(ہندستان ٹائمس، 25دسمبر1984) ۔

کیسے کیسے انسان اس دنیا میں آتے ہیں۔ وہ کیسے کیسے کمالات دکھاتے ہیں۔اور پھر اچانک ایک روز اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، جیسے کہ ان کا یہاں آنا اور یہاں سے جانا ان کی اپنی مرضی سے نہ ہو۔ بلکہ کوئی اور ہو جوان کو یہاں لاتا ہواور پھر اپنے یک طرفہ فیصلہ کے تحت انہیںیہاں سے اٹھا لے جاتا ہو۔

اس واقعہ کی کوئی بھی با معنی توجیہ اس کے سوا نہیں ہے کہ پیغمبروں کی اطلاع کے مطابق آخرت کو مانا جائے۔ آخرت کو شامل کرنے کے بعد موجودہ دنیا کی ہر چیز با معنی ہو جاتی ہے اور آخرت کو شامل کیے بغیر موجودہ دنیا کی ہر چیز بے معنی۔

21واں منٹ

موجودہ دنیا میں انسان بظاہر آزادہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جوچاہے کرے، کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔اس صورت حال نے انسان کو غفلت میں ڈال دیا ہے۔ہر آدمی بے خوف بنا ہوا ہے۔ہر آدمی وہ سب کر ڈالنا چاہتا ہے جس کو کرنے کے لیے اس کا دل کہے۔

مگر یہ صورت حال سراسر وقتی ہے۔آدمی کے پاس صرف ایک محدود مدت ہے۔اس خاص مدت کے اندر ہی وہ سر کشی کر سکتا ہے۔ اس مدت کے ختم ہوتے ہی اس کا مالک اسے پکڑلے گا۔اس کے بعد وہ مجبور ہو گا کہ اپنی سرکشی کا انجام ابدی طور پر بھگتتارہے۔

ہوائی جہاز کو اڑانے کے لیے دو پائلٹ ہوتے ہیں۔21جولائی 1983 کو یہ واقعہ ہوا کہ ایک ہوائی جہاز اٹلانٹک سمندر کے اوپر اڑرہا تھا۔ عین پرواز کی حالت میں اس کے دونوں پائلٹ(ہوا باز) سو گئے اور مسلسل 20 منٹ تک سوتے رہے۔وہ صرف اس وقت بیدار ہوئے جب کہ پائلٹ کیبن میں ایک خاص طرح کا الارم بجنا شروع ہو گیا (ہندوستان ٹائمس، 22جولائی 1983) ۔

یہ ہوائی جہاز کسی اتفاقی سبب سے اپنے روانگی کے مقام پر 12 گھنٹے لیٹ ہو گیا تھا۔اس غیر معمولی حادثہ کی وجہ سے پائلٹ بے حد تھکے ہوئے تھے۔ جب انھوں نے ہوائی جہاز کو اڑایا تو اس کے انجن کو انھوں نے ایک خاص رفتار پر سٹ کر دیا۔اب ہوائی جہاز ایک بندھی ہوئی رفتار پر اڑنے لگا۔ اس دوران میں تھکے ہوئے ہوا بازوں کی آنکھ بند ہو گئی۔ اوروہ مسلسل 20 منٹ تک سوتے رہے۔ یہاں تک کہ کنٹرول کا نظام بگڑ گیا اور ہوائی جہاز کی رفتار غیرمعمولی تیز ہوگئی۔اس کے بعد مشینی نظام کے تحت جہاز کا مخصوص الارم بجنے لگا۔الارم کی وجہ سے پائلٹ جاگ اٹھے اور فوراًانجن کو سنبھال لیا۔

فارن بورو(انگلینڈ) کے ہوائی جرنل(Feedback) میں ایک ہوا باز نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں یہ سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں کہ کیا کچھ ہو سکتا تھا :

I Shudder to think what could have happened.

موجودہ زندگی کو اگر’’ 20‘‘ منٹ کا لمحہ فرض کریں اور اس کے بعد 21 ویںمنٹ کو آخرت میں داخلہ کے ہم معنی قرار دیں توہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت نے انسان کو صر ف 20 منٹ تک غلطی کرنے کی اجازت دی ہے، اگر وہ آخر وقت تک ہوشیار نہ ہو تو قدرت اس کو 21 ویں منٹ میں غلطی کرنے کی اجازت نہ دے گی۔ 20 منٹ کے بعد اس کے لیے یاتو اپنی اصلاح کرلینا ہے یا موت کی گرفتاری۔

آرزوؤں کی دنیا

جنت کا انکاراپنے آپ کا انکار ہے۔جو شخص جنت کو نہیں مانتا وہ خود اپنی نفی کر رہا ہے۔ جو شخص جنت کو مانتا ہے مگر ٍاس کے لیے عمل نہیں کرتا وہ ایسا خریدار ہے جو ایک چیز خریدنا چاہتا ہے۔ مگر اس کی قیمت دینے کے لیے تیا ر نہیں۔

ہر انسان سب سے زیادہ کیا چاہتا ہے۔ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی دنیا کو پاسکے۔ وہ ابدی طور پر جیتا رہے۔ وہ اپنی تمام آرزئوں کی تکمیل کر سکے وہ ایسی زندگی کا مالک بنے جو ہر قسم کی محدودیت(Limitations) اور ناخوشگواری (Disadvantage) سے خالی ہو۔

یہ آدمی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ہرآدمی اپنی اس تمنا کی تکمیل کے لیے دوڑ رہا ہے۔ مگر کوئی بھی آدمی اپنی اس تمنا کو پورا نہیں کر پاتا۔آدمی اپنی صحت بناتاہے مگر بہت جلد اس کی صحت کسی حادثہ یا بڑھاپے کا شکار ہو جاتی ہے۔آدمی دولت جمع کرتاہے مگر دولت اس کے قلب و دماغ کو سکون نہیں دیتی۔وہ اقتدار پر قبضہ کرتا ہے مگر اقتدار صرف اس کے مسائل میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ وہ عیش و عشرت کے سامان اکٹھا کرتا ہے مگر جلد ہی وہ اکتا ہٹ (Boredom)کا شکار ہو جاتا ہے۔

ہر آدمی اپنے لیے ایک جنت کی تعمیر میں لگا ہوا ہے۔مگر وہ اپنی جنت بنا نہیں پاتا کہ اس کی موت آجاتی ہے۔وہ اپنی تمام آرزئوں اور تمنائوں کو لیے ہوئے دنیا سے چلا جاتا ہے۔

آدمی موت کے بعد کہاں جاتا ہے۔وہ وہاں جاتا ہے جہاں اس کے خوابوں کی جنت بنی ہوئی ہے۔ مگر یہ جنت اس شخص کو ملتی ہے جس نے موت سے پہلے والی زندگی میں اس کی قیمت ادا کی ہو۔ جو شخص موجودہ دنیا میں جنت کی قیمت ادا نہیں کر تا وہ گویا اسی چیز کی محرومی کا خطرہ مول لے رہا ہے جس کو وہ سب سے زیادہ پانا چاہتا ہے۔

جنت ہماری آرزئوں کا محل ہے۔ مگر جنت صرف اس شخص کے حصہ میں آتی ہے جس نے اس کو آخرت میں تعمیر کیا ہو۔ جو شخص اپنی جنت موجودہ دنیا میں تعمیر کرے اس کے لیے ابدی محرومی کے سوا کچھ اور نہیں۔

کیسی عجیب ہے وہ محرومی جب کہ آدمی عین اِسی چیز سے ابدی طور پر محروم ہو جائے۔ جس کے لیے وہ ساری عمر سب سے زیادہ آرزومند بنا ہوا تھا۔

ہر چیز میں سبق

خواجہ حسن نظامی (1878-1955) کا ایک مضمون ہے’’ مچھر کی کہانی‘‘ خواجہ صاحب نے مچھر سے شکایت کی کہ تم اتنا کیوں پریشان کر رہے ہو۔ ہم کو سونے کیوں نہیں دیتے۔ مچھر نے جواب دیا’’ سونے اور ہمیشہ سونے کا موقع ابھی نہیں آیا ہے۔جب آئے گا تو بے فکر ہو کر سونا۔ابھی تو ہوشیار رہنے اور کچھ کام کرنے کا وقت ہے‘‘  —اگر نصیحت لینے کا ذہن ہو تو مچھر کی بھنبھنا ہٹ میں بھی آدمی کو زندگی کا پیغام مل جاتا ہے۔ اور اگر نصیحت لینے کا ذہن نہ ہو تو بم دھماکے اور ٹینکوں کی گڑ گڑاہٹ بھی جمود کو توڑنے کے لیے ناکافی ہیں۔ ایسے لوگوں کو قیامت کا طوفان ہی بیدار کر سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ قیامت کے طوفان سے بیدار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ وہ بدلہ پانے کا وقت ہو گا نہ کہ عمل کرنے کا۔

قرآن میں کہا گیا ہے کہ— جنتی وہ ہے جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے  (26:89) ۔حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ— اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے:مَنْ يُرِدِ اللَهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 71 )۔ اس سے معلوم ہواکہ اللہ کی سب بڑی نعمت یہ ہے کہ آدمی کا ذہن کھلاہوا ہو۔وہ حق کو اس کی اصل شکل میں دیکھ سکے۔وہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزادہوکر رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ایسے آدمی کے سامنے جب کوئی سچائی یا کوئی سبق کی بات آتی ہے تو اس کو سمجھنے میں اسے دیر نہیں لگتی۔وہ اس کو فوراً پالیتا ہے اوراپنی زندگی میں اس کو شامل کرلیتا ہے۔

دنیا میں ہر طرف اللہ کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں ،کہیں جمادات خاموش زبان میں کسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کہیں ’’مچھر ‘‘اپنی زبان میں کوئی پیغام دیتا ہے۔کہیں انسانوں کے درمیان کوئی واقعہ ہوتا ہے اوراس میں ایک چھپا ہوا سبق موجودہوتا ہے۔کبھی کوئی اللہ کا بندہ کھلی ہوئی نصیحت کی زبان میں کسی امر حق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ان تمام مواقع پر وہی شخص سچائی کو پائے گا جس نے اپنا سینہ سچائی کے لیے کھلا رکھا ہو۔اگر آدمی کے اندر سبق لینے اوربات کوپکڑنے کا مزاج نہ ہو تو کوئی بھی چیزاسے فائدہ نہیں دے سکتی۔کھلے ذہن کا آدمی ’’مچھر ‘‘سے سبق لے سکتا ہے۔اور جس نے اپنے ذہن کی کھڑکیاں بند کرلی ہوں اس کے لیے خداکی کتاب اوررسول کا کلا م بھی ہدایت کوپانے کے لیے ناکافی ہے — سب سے بڑی چیز سبق لینے کامزاج ہے۔جس شخص کے اندر یہ مزاج پیدا ہوجائے اس کے لیے خدا کی ساری دنیا ایک زندہ کتاب بن جائے گئی۔اور جو اس مزاج سے محروم ہووہ ایک قسم کا جانور ہے جو سب کچھ دیکھنے اورسننے کے بعد بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھا اورکیا سنا۔

خرچ سے اضافہ

مسٹر رام رتن کپلا (پیدائش1918)نے 1937میں پندرہ روپیہ ماہوارکی ایک ملازمت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔اب دہلی میں نرائناانڈسٹریل ایریا میں ان کی فیکٹری ہے اور آصف علی روڈ پر بہت بڑاشوروم ہے۔انھوں نے اپنے ابتدائی دورکا ایک واقعہ اس طرح بتایا۔

یہ 1945ء کی بات ہے جب کہ میں ایک میکینک کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔میں نے کافی محنت سے کام کیا اوردھیرے دھیرے 25ہزار روپئے بینک میں جمع کرلیے۔ میں بہت خوش تھاکہ میں نے کارنامہ انجام دیاہے۔اس کے بعد ایسا ہواکہ راولپنڈی کے ایک بزرگ ’’خواجہ صاحب ‘‘انہیںدنوں میرے پاس آئے۔ہمارے ان کے درمیان بہت پرانے مراسم تھے۔میں ان کی بہت عزت کرتا تھا۔انھوں نے مجھ سے میرے کام کے بارے میں پوچھا۔میں نے فخر کے ساتھ انہیںبتایا کہ میں نے 25ہزار روپیہ بچا لیا ہے جو بنک میں جمع ہے۔ مجھے امید تھی کہ وہ مجھ کو شاباش دیں گے اِس کے برعکس انھوں نے مجھ کو لعنت ملامت کی اور کہا کہ تم نے اپنا وقت خراب کیا۔ تم کو شرم آنی چاہیے کہ تمہارے پاس 25 ہزار روپیہ بے کار پڑا ہواہے ،صرف اس لیے کہ بنک کا سود ملتا رہے۔اگر تم یہ بتاتے کہ میرے اوپر بنک کا قرض ہے تو البتہ مجھے خوشی ہوتی۔تم فوراً بمبئی جائو۔ کلکتہ جائو۔وہاں جاکر کاروبار دیکھو،ایجنسی لو،روپیہ کو کام میں لاو۔

شری رام رتن کپلا نے بتایا کہ اس کے بعد میں1945-1946میں بمبئی گیا۔ وہاں ریفریجریٹر بنانے والی بڑی کمپنیوں کی ایجنسیاں لیں۔ اس کے بعد ہمارا کاروبار خوب بڑھا۔ کافی پیسہ ہاتھ آیا۔اس کے بعد میں نے بارہ روپیہ ماہوار کا گیرج(garage) چھوڑ دیا اور ایک ہزار روپیہ ماہوار کرایہ پر موجودہ شو روم لیا۔

خدا نے اپنی دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ یہاں خرچ کرنے سے اضافہ ہوتاہے۔ آپ چند دانے ’’خرچ ‘‘کرتے ہیں تو کھیت اس کے بدلے میں آپ کو ہزاروں دانے لوٹا تا ہے۔ کاروبار میں آدمی روپیہ لگاتا ہے تو وہ کئی گنا زیادہ ہو کر اس کی طرف واپس آتا ہے۔معاشرہ میں صدقات و خیرات کی صورت میں جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس طرح اضافہ ہو کر آدمی کی طرف لوٹتا ہے کہ اس سے سماج میں باہمی اعتماد، ایک دوسرے کا لحاظ ، حقوق کی ادائیگی، دوسرے کے معاملے کو اپنا معاملہ سمجھنا جیسے احساسات پرورش پاتے ہیں اور وہ بے شمار صورتوں میں خود دینے والے کو نفع پہنچاتے ہیں۔

آخرت کے لیے خرچ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اگر آخرت کی راہ میں خرچ کریں تو وہ دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی صورت میں آپ کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ آخرت کی راہ میں خرچ سے جو اضافہ ہوتا ہے وہ سب سے بڑا اضافہ ہے، کیونکہ وہ نہ صرف مقدار میں زیادہ ہے بلکہ وہ دائمی بھی ہے۔ آخرت کے سوا کوئی دوسرا اضافہ دائمی نہیں۔

جب پردہ کھلے گا

خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے ان سب کے ساتھ ایک ہی مشترک حادثہ پیش آیا۔وقت کے اکابر نے ان کو نظر انداز کر دیا۔جو لوگ ماحول کے اندر بڑائی کا مقام حاصل کیے ہوئے تھے انھوں نے ان کو قابل التفات نہیں سمجھا۔

وقت کے یہ اکابر سب کے سب وہ لوگ تھے جو خدا کو مانتے تھے۔وہ اس کو بھی مانتے تھے کہ خدا کی طرف سے خدا کا پیغام دینے والا آتا ہے۔ حتی کہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو آنے والے پیغمبر خدا کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔وہ اس کی یاد میں پُر جوش تقریریں کرتے تھے مگر جب وہ آنے والا آیا تو انھوں نے اس کو نہیں پہچانا۔ انھوں نے حقارت کے ساتھ اس کو رو کر دیا۔

چونکہ وہ تقلید آباء کی سطح پر جی رہے تھے، وہ صرف ان پچھلے پیغمبروں کو پہچان سکے جن کا نام ان کے آبائی مذہب میں شامل تھا۔ جو ان کی قومی تقلید کا حصہ بن چکا تھا۔ جو انہیںتاریخی روایات کے تسلسل میں مل رہا تھا۔ وقت کا پیغمبر ابھی ان اضافی خصوصیات سے خالی تھا اس لیے وہ ان کو دکھائی بھی نہیں دیا۔ وقت کے نمائندہ خدا کو پہچاننے کے لیے جو ہرشنا سی کی صلاحیت درکار تھی اور یہ لوگ اس سے محروم تھے ،پھر وہ وقت کے پیغمبر کو کس طرح پہچانتے۔

یہ سب کرتے ہوئے وہ مذہب کا جھنڈا بھی اٹھائے ہوئے تھے۔وہ پچھلے پیغمبروں کا مومن ہونے پر فخر کرتے تھے۔ عوام کے درمیان وہ خدا کے دین کے سب سے بڑے حامی بنے ہوئے تھے۔مگر خدا کے یہاں وہ بالکل بے قیمت قرار پائے۔کیوں کہ ان کا مذہب آباء کی تقلید کی سطح پر پیدا ہوا تھا نہ کہ حقیقت کے اعتراف کی سطح پر۔

آخرت میں جب ان پر کھلے گا کہ انھوں نے جس کو نظر انداز کیا وہی وہ تھاجس کی زبان سے خدا نے اپنا کلام جاری کیا تھا۔ جو دنیا میں خد ا کا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا تو یہی واقعہ ان کی ابدی روسیا ہی کے لیے کافی ہو گا۔وہ کہیں گے کہ ہائے ہمارا ندھا پن ،ہم نے اسی کو نہ دیکھا جس کو ہمیں سب سے زیادہ دیکھنا چاہیے تھا۔ ہم نے اسی کو نہ پہچانا جس کو ہمیں سب سے زیادہ پہچاننا چاہیے تھا۔

جھوٹی عظمت

نپولین بونا پارٹ (1769-1821)ایک فوجی افسر تھا۔ حالات سے فائدہ اٹھا کر وہ فرانس کی حکومت پر قابض ہو گیا۔1804میں اس نے فرانس کے تاعمر شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ نپولین نے فتوحات کا سلسلہ شروع کیا۔ یہاں تک کہ انگلینڈ کو چھوڑ کر وہ پورے یورپ کا فاتح بن گیا۔ اس نے فرانس کی ایک دلکش خاتون جوزفین (Josephine)سے شادی کی۔مگر1810 میں اس نے جوزفین سے علیحدگی اختیار کر لی۔ کیونکہ وہ شہنشاہ یو رپ کا جانشین پیدا کرنے میں نا کام رہی تھی۔

اس کے بعد نپولین نے آسٹریا کے بادشاہ کی لڑکی میری لوئی (1791-1847) سے شادی کی۔ 1811 میں اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اس نے فرانسس جوزف چارلس رکھا۔نپولین خوش تھا کہ اس نے اپنی بادشاہت کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے اپنا ایک ولی عہد پا لیا ہے۔ مگر اس کے جلد ہی بعد یہ واقعہ ہوا کہ نپولین کی سیاسی حرص نے اس کو روس سے ٹکرا دیا۔ روس کی فوجیں اگرچہ نپولین کی فوجوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ تاہم روس کا جغرافیہ اس کی مدد پر آگیا۔ نپولین کی فوجیں روس کی شدید برفباری کی تاب نہ لاسکیں۔نپولین اس حال میں روس سے واپس آیا کہ اس کی فوج کا بڑا حصہ راستہ میں برباد ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ1812 میں ہوا۔ بعد کے حالات اس کے لیے اور بھی نا موافق ثابت ہوئے۔یہاں تک کہ 1815 میں نپولین کو برطانوی فوجوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔اس کو گرفتار کر کے جزیرہ سینٹ ہیلینا بھیج دیا گیا۔ یہاں 1821 میں وہ قید کی حالت میں مر گیا۔

انسان اپنی اولاد تک کے لیے عظمت کا خواب دیکھتا ہے، حالانکہ وہ خود بہت جلد بے عظمت ہو جانے والا ہے۔اس دنیا میں ہر روز کوئی نپولین بے عظمت ہو کر مر رہا ہے۔ مگر کوئی نہیں جو اس سے سبق لے۔کوئی نہیں جو اس کو اپنی زندگی کے لیے رہنما بنائے۔

موجودہ دنیا میں ہر انسان کو صر ف محدود موقع دیا گیا ہے۔ مگر ہر انسان اپنے لیے  لامحدود منصوبہ بناتا ہے۔ ہر شخص کی عظمت آخر کا ر یہاں خاک میں مل جاتی ہے۔ ہر دیکھنے والا اس کو دیکھتا ہے مگر کوئی اس سے سبق نہیں لیتا۔ہر آدمی اس کہانی کو دوبارہ لکھنا چاہتا ہے جس کو اس کے پیش رونے لکھنا چاہاتھا مگر وہ اس کو لکھنے میں ناکام رہا۔

خدا اورانسان

 

آنے والا دن

موجودہ دنیامیں جب کوئی آدمی خدا کو مانتا ہے تو وہ دلیل کی بنیاد پر خدا کو مانتا ہے۔ آخرت میں جو لوگ خدا کومانیں گے وہ خدا کے زوروقوت کی بنیاد پر خداکو مانیں گے۔گویا موجودہ دنیا میں دلیل خدا کی نمائندہ ہے۔اس کے برعکس آخرت میں یہ ہوگا کہ خداخود اپنی ذات کمال کے ساتھ اپنے آپ کو منوانے کے لیے انسان کے سامنے ظاہر ہوجائے گا۔

اس سے یہ معلوم ہواکہ حقیقت میں خدا کو ماننے والا کون ہے اوراس کو نہ ماننے والا کون۔خدا کو ماننے والا وہ ہے جو معقولیت کے وزن کومانے۔جو حق کے آگے اس وقت جھک جائے جب کہ اس کے ساتھ لفظی دلیل کے سوا کوئی اورزورشامل نہ ہو۔اس کے برعکس جس کا یہ حال ہوکہ کوئی بات محض اپنی سچائی کی بنا پر اس کو متاثر نہ کرسکے ،وہ کسی سچائی کو صرف اس وقت مانے جب کہ وہ کسی وجہ سے اس کو ماننے کے لیے مجبور ہوگیا ہو۔جس سچائی کے ساتھ ایسا کوئی دباو موجودہ نہ ہو وہ اس کو ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتا ہو،ایسا آدمی خدا کو ماننے والا نہیں ہے۔اس کا معبود ظاہری طاقت ہے نہ کہ غیبی خدا۔

خدا اپنے ماننے کا ثبوت غیب کی سطح پر لے رہا ہے اورلوگ اس کو ماننے کا ثبوت شہود کی سطح پر دینا چاہتے ہیں۔خدا چاہتا ہے کہ آدمی حق کے آگے جھک جائے مگر آدمی صرف طاقت کے آگے جھکنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔خدا چاہتا ہے کہ آدی محض خدا کے خوف کی بنا پر انصاف کے طریقہ کو اپنا لے۔مگر انسان صرف اس وقت انصاف کرنے پر راضی ہوتا ہے جب کہ وہ اس کے لیے مجبور ہوگیا ہو۔جہاں مجبوری نہ ہو وہاں وہ فوراً سرکشی کرنے لگتا ہے۔

موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں آدمی کو موقع ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو چھپا لے۔ مگر قیامت ہر آدمی کو برہنہ کردے گی۔اس وقت بہت سے خدا پرست غیر خدا پرستوں کی صف میں نظر آئیں گے ،بہت سے حق کو ماننے والے حق کو نہ ماننے کے مجرم قرار دیے جائیں گے۔بہت سے لوگ جو جنت کا الاٹمنٹ لیے ہوئے ہیں وہ اپنے کو جہنم کے دروازے پر کھڑاہو اپائیں گے۔انسان کتنا زیادہ بے ڈربنا ہواہے ،حالانکہ کتنا زیادہ ڈرکا لمحہ اس کے لیے آنے والا ہے

عجیب یادگار

مسز اندرا گاندھی (1917-1984)پہلی بار1966میں ہندستان کی وزیراعظم بنیں۔ اس وقت ان کی سرکاری رہائش گاہ کے لیے یہ انتظام کیا گیا کہ صفدر جنگ روڈ(نئی دہلی ) کے دو مکانات کوملاکر ایک بڑا مکان بنایا گیا۔یہ وزیراعظم اندراگاندھی کی سرکاری رہائش گاہ تھی۔اس رہائش گاہ میں اوراس کے آس پاس بہت دور تک وزیراعظم کی حفاظت کے لیے انتہائی غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔مگر 31اکتوبر 1984کو مسزگاندھی کا خاتمہ سادہ طورپر اس طرح ہواکہ مسزگاندھی کے حفاظتی دستہ کے دو آدمیوں (بینت سنگھ اورستونت سنگھ) نے انہیںاسی ہتھیار کا نشانہ بنا کر ختم کردیاجو وزیراعظم کی جان کی حفاظت کے لیے انہیںخصوصی طور پر مہیا کیے گئے تھے۔

صفدر جنگ روڈ کے اس مکان کو اب مسز اندراگاندھی کی یاد گارمیں تبدیل کیا جارہا ہے۔اس سلسلہ میں حکومت کے منصوبہ کو بتاتے ہوئے اخباری رپورٹ (ٹائمس آف انڈیا،10نومبر1984)میں یہ الفاظ درج تھے:

.... that the house should be maintained as a place where people could come and pay their tributes to the memory of the most powerful woman in the world who died a martyr.

حکومت کا خیال ہے کہ اس گھر کو ایک ایسے مقام کی حیثیت سے باقی رکھا جانا چاہیے جہاں لوگ آئیں اوراس خاتون کو خراج عقیدت پیش کریں جو دنیا کی سب سے زیادہ طاقت ورخاتون تھیں اوریہاں ایک شہید کی حیثیت سے مریں۔

مسز اندراگاندھی کی زندگی کے دورخ ہیں۔ایک ان کا ہندستان کا وزیراعظم ہونا۔ دوسرا ان کا بے یارومددگار انسان کی حیثیت سے مارا جانا۔دونوں کو ملا کر دیکھیے تو مسز اندرا گاندھی کی زندگی انسان کے کمال عجز کی داستان سنارہی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں ایک وزیر اعظم بھی اتنا ہی کمزورہے۔جتنا ایک معمولی انسان۔مگر جن لوگوں نے مسزگاندھی کے پہلے رخ کو ان کے دوسرے رخ سے الگ کرکے دیکھا ان کے لیے یہ واقعہ بالکل الٹے مفہوم کا حامل بن گیا۔

کیسی عجیب بات ہے۔جو واقعہ انسانی عجز کا سبق دے رہا ہے ،اس سے نادان لوگ انسانی کبریائی کا سبق لے رہے ہیں۔جو واقعہ انسان کے لیے بے طاقت ہونے کا ثبوت ہے اس کو اس بات کی یادگاربنا یا جایا رہا ہے کہ انسان کس قدر طاقت ور ہے۔

یہ سونے والے

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے نہیں دیکھا کہ جہنم جیسی چیز سے بھاگنے والا سوگیا ہو اورمیں نے نہیں دیکھا کہ جنت جیسی چیز کو چاہنے والا سوگیا ہو:مَا رَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا، وَلاَ مِثْلَ الجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2601)۔

جہنم کا عذاب کتنا ہولناک ہے۔مگر آدمی اس سے غافل ہے۔جنت کی نعمتیں کتنی لذیز ہیں مگر آدمی کواس کا کوئی شوق نہیںیقینا یہ زمین پر ہونے والے تمام واقعات میں سب سے زیادہ عجیب ہے۔

لوگ سورہے ہیں تاکہ اس وقت جاگیں جب کہ جہنمی آگ کے شعلے ان کے لیے سونے کو ناممکن بنا دیں۔لوگ غافل ہیں تاکہ اس وقت ہوشیار ہوں جب کہ محرومی اور رسوائی ان کے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑے کہ ان کے لیے اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔

آج ہر آدمی بے ہوش نظر آتا ہے۔ہر آدمی اپنے آپ میں اس طرح گم ہے جیسے اس کے اوپر کوئی اورطاقت نہیں۔حالاں کہ موت ہر روز بتارہی ہے کہ آدمی ایک ایسی حقیقت سے دوچار رہے جس کے مقابلہ میں کسی کا کچھ بس نہیں چلتا۔انسان کتنا زیادہ مجبور ہے مگر وہ اپنے آپ کو کتنا زیادہ بااختیار سمجھتا ہے۔

آدمی وعدہ کرتا ہے مگر اس کے بعد اس کو نظر انداز کردیتا ہے۔اس کے اوپر کسی کا ایک حق آتا ہے مگر وہ اس کو ادا نہیں کرتا ہے۔آدمی کے سامنے ایک سچائی آتی ہے مگر وہ اس کا اعتراف نہیںکرتا۔وہ دوسرے کے اوپر یک طرفہ الزام لگاتا ہے اوراپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔وہ چھوٹوں کو نظر انداز کرکے بڑوں کا استقبال کرتا ہے۔وہ اپنی زندگی کو اصول کے تابع کرنے کے بجائے خواہشات کے تابع کرتا ہے۔وہ زور آور سے دبتا ہے اوربے زور کو ستاتا ہے۔وہ خدا کو مرکز توجہ بنانے کے بجائے خود اپنی ذات کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے۔وہ جنت کے اشتیاق اورجہنم کے اندیشوں میں جینے کے بجا ئے دنیا کے اشتیاق اور دنیا کے اندیشوں میں جیتاہے۔

آدمی یہ سب کچھ کرتا ہے اوربھول جاتا ہے کہ اپنی اس روش سے اپنے آپ کو جہنم کے قریب لے جارہا ہے اوراپنے آپ کو جنت کے لیے نااہل ثابت کررہا ہے۔

آہ! وہ انسان جس کو اسی چیز کا شوق نہیں جس کا اسے سب سے زیادہ شوق ہونا چاہیے۔ آہ ! وہ انسان جو اسی چیز سے سب سے زیادہ بے خوف ہے جس سے اس کو سب سے زیادہ خوف کرناچاہیے۔

خدا اورانسان

کائنات خدا کا آئینہ ہے۔یہاں خدا اپنی مخلوقات کے روپ میں نمایاں ہے۔آدمی کی حساسیت اگر زندہ ہو تو اپنے گردوپیش وہ خداکو پائے گا۔اپنے چاروں طرف وہ خدا کا مشاہدہ کرے گا۔خدا کی کائنات اس کے لیے خدا کا زندہ ثبوت بن جائے گی۔

دنیا میں زندگی کی سرگرمیاں اس بات کا کھلا ہوااعلان ہیں کہ اس دنیا کا خالق ایک زندہ ہستی ہے۔نہ کہ کوئی ایسی ہستی جو زندگی اورحیات سے محروم ہو۔جب سورج نکلتا ہے اور چھپی ہوئی چیزیں اس کی روشنی میں دکھائی دینے لگتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔جیسے خدا نے اپنی آنکھیں کھولی ہوں ،جیسے خدا ایک دیکھنے والی ہستی ہو اوراپنی آنکھوں سے سارے عالم کو دیکھ رہا ہو۔دریائوں میںجب پانی کا سیلاب رواں ہوتا ہے تو وہ پُرشور اعلان کرتا ہے کہ اس دنیا کا خالق ایک ایسا خالق ہے جو چلتا ہے اوراقدام کرکے آگے بڑھتا ہے۔جنگل کا شیر جب اپنا پنجہ نکال کر کسی جانور کو اپنی پکڑمیں لیتا ہے تو گویا وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا خدا ایک ایسا خدا ہے جو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے اور چیزوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔خلا کی بے پایاں وسعتیں اس حقیقت کا ابدی اظہار ہیں کہ اس کائنات کا خالق ایک لامحدود ہستی ہے ،وہ اپنی ذات میں بھی اتھاہ ہے اوراپنی صفات میں بھی۔

خدا کا یہ کائناتی مشاہدہ ایک طرف آدمی کے اندر خدا کا یقین پیدا کرتا ہے دوسری طرف اس کو بہت بڑے سوال سے دوچار کردیتا ہے۔اس دنیا کا اگرخدا ہے تو وہ اپنی دنیا میں ظاہر کیوں نہیں ہوتا۔دنیا میں بے پناہ برائیاں ہیں۔یہاں ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے۔ایک شخص موقع پاکر دوسرے شخص کو ذبح کردیتا ہے۔یہ سب خدا کی دنیا میں ہر روز ہورہا ہے مگر خدا ظالموں کا ہاتھ نہیں پکڑتا،وہ مظلوموں کی جانب کھڑانہیں ہوتا۔

اس سوال کو صرف اس وقت سمجھا جاسکتا ہے جب کہ مخلوقات کے بارے میں خالق کی اسکیم کو سمجھ لیاجائے۔موجودہ دنیا خدا کا مستقل بندوبست نہیں ،وہ صرف امتحانی بندوبست ہے۔یہ گویا ایک کھیت ہے جس میں مختلف پودوں کو اگنے کا موقع دے کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون اچھا درخت ہے اورکون جھاڑ جھنکاڑ۔اس کے بعد اچھے درختوں کو ہر قسم کے بہترین مواقع دے کر تمام برے درختوں کو اکھاڑدیاجائے گااورپھر خداکی دنیا خدا کے معیاری انتظام کے تحت حسن اورلذت کی ابدی بہشت بن جائے گی۔

انسان کی غلطی

انسان نے ہمیشہ خدا کو سمجھنے میں بھی غلطی کی ہے اوراپنے آپ کو سمجھنے میں بھی۔اس نے خدا کو اپنے جیسا سمجھ لیا اوراپنے آپ کو خدا جیسا۔یہی ہر دور کے انسان کی غلطی رہی ہے۔ساری انسانی تاریخ اسی غلطی اوراس کے نتائج کی داستان ہے۔

خدا کو اپنے جیسا سمجھنا یہ ہے کہ خدا کو انسانی سطح پر اتارلایا جائے۔الحاد اورشرک کی تمام قسمیں اسی غلطی کی پیداوار ہیں۔الحاد بھی خدا کو انسان پر قیاس کرنے کا دوسرانام ہے اورشرک بھی۔

انسان ہمیشہ باپ اورماں کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے ،وہ کسی جننے والے کے ذریعہ جنا جاتا ہے۔اس بنا پر گمان کرلیا گیا کہ خدا اگر ہے تو اس کو جننے والا بھی کوئی ہونا چاہیے۔کسی کو خدا سے پہلے ہونا چاہیے جو خدا کو وجود بخشے۔اب چونکہ انسان کوخدا ئے لم یزل پیدا کرنے والا کوئی نظر نہ آیا اس لیے اس نے خدا کے وجود کا انکار کردیا۔انسان اپنی تخلیق کی صورت میں اپنے خالق کو دیکھ رہاتھا۔مگر وہ اپنے ایک غلط مفروضہ کی وجہ سے اس کو ماننے پر تیار نہ ہوا۔

جن لوگوں نے خداکو مانا انھوں نے یہی غلطی دوسرے انداز سے کی۔انھوں نے دیکھا کہ انسان جب کوئی کام انجام دیتا ہے تو بہت سے لوگوں کی مدد سے انجام دیتا ہے۔ اس بنا پر انھوں نے خدا کے بھی شریک اورمددگار فرض کرلیے۔انسان کے یہاں بڑے لوگوں کی سفارشیں چلتی ہیں۔چنانچہ مان لیا گیا کہ خدا کے بھی کچھ مخصوص اورقریبی لوگ ہیں جو خدا کے دربار میں اثر رکھتے ہیں اورخدا ان کی سفارشیں قبول کرتا ہے۔انسان جذبات سے مغلوب ہوتا ہے۔وہ اکثر حق کے تقاضوں کو چھوڑکر جذباتی میلان کے تحت فیصلے کرتا ہے۔اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ عقیدہ بنالیا گیا کہ خدا محض گروہی تعلق کی بنیاد پر کچھ لوگوں سے ایسا معاملہ کرتا ہے جو معاملہ وہ دوسرے گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ نہیں کرتا۔اس قسم کا ہر عقیدہ خدا کی خدائی کی نفی ہے۔مگر انسان اپنی نادانی سے اکثر اپنے ذہن میں ایسے متضاد خیالات کو جمع کرلیتا ہے جن کا بیک وقت درست ہونا ممکن نہیں۔

اپنے آپ کو خدا جیسا سمجھنا یہ ہے کہ آدمی یہ گمان کرلے کہ وہ اپنی تقدیر کا مالک آپ ہے۔وہ آزادہے کہ جو چاہے کرے اورجو چاہے نہ کرے۔وہ اپنی زندگی کا اصول آپ وضع کرے اوراپنے حلال وحرام کو خود اپنی عقل سے متعین کرے۔اس قسم کی ہر کوشش گویا اپنے آپ کو خدا کے مقام پر بٹھانا ہے ،جو چیز صرف خدا کا حق ہے اس کا حق دار اپنے آپ کو سمجھنا ہے۔مگر ایسا ہر گمان اس کائنات میں سراسر باطل ہے۔کیونکہ انسان صرف ایک عاجز مخلوق ہے ،وہ کسی بھی اعتبار سے خالق کا درجہ حاصل نہیں کرسکتا۔

انسا ن کی تلاش

انسان کے اندر ایک عجیب خصوصیت ہے جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں۔وہ ہے لامتناہی تلاش کا جذبہ۔ہر آدمی اپنے پیدائشی جذبہ کے تحت ایک ایسی نامعلوم چیز کی تلاش میں رہتا ہے جس کو اس نے پایا نہیں۔کوئی بھی کامیابی اس کو اس طلب کے بارے میں مطمئن نہیں کرتی ،کوئی بھی ناکامی اس کے اندر سے اس جذبہ کو فنا نہیں کرپاتی۔فلاسفہ اس کو آئیڈیل کی طلب کہتے ہیں۔

یہ آئیڈیل کی طلب ہی تمام انسانی سرگرمیوں کی حقیقی اورآخری قوت محرکہ ہے۔اگر یہ طلب نہ ہو تو دنیا کی تمام سرگرمیاں اچانک ٹھپ ہوکر رہ جائیں۔انسانی ذہن کی یہی وہ زبردست طلب ہے جس کو فرائڈ(1856-1939)نے غلط طورپر جنسی خواہش سے تعبیر کیا۔ایڈ لر(1870-1937)نے اس کو غلط طورپر حصول طاقت کی خواہش قرار دیا۔میک ڈوگل (1871-1938)نے غلط طورکہا کہ یہ انسان کی تمام حیوانی جبلتوں کے مخلوطہ کا ایک پُراسرار نتیجہ ہے۔ مارکس(1818-1883) نے اس کو غلط طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ انسانی زندگی کی معاشی خواہش ہے اوریہی اس کی تمام سرگرمیوں کو کنڑول کرتی ہے۔مگر ان توجیہات کو غلط قرار دینے کے لیے یہی واقعہ کافی ہے کہ یہ چیزیں جن لوگوں کو پوری طرح ملیں وہ بھی مطمئن نہ ہوسکے۔ان کی اندرونی ہستی بھی اسی طرح بے چین رہی جس طرح ان چیزوں سے محروم رہنے والے بے چین نظر آتے ہیں۔

انسان ہزاروں برس سے اپنے اس آئیڈیل کو دنیا کی چیزوں میں تلاش کررہا ہے ،مگر کوئی بھی شخص اس اطمینان سے دوچار نہیں ہواکہ اس نے اپنی تلاش کا مکمل جواب پالیا ہے ۔اس معاملہ میں بادشاہ یاامیر بھی اتنا ہی غیرمطمئن رہتا ہے جتنا کوئی بے زوراورمفلس آدمی۔یہ لمبا تجربہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ’’نظر آنے والی‘‘دنیا میں آدمی کی تلاش کا جواب موجود نہیں۔اس کا جواب اس ’’نظر نہ آنے والی‘‘دنیا میں ہے جس کو آدمی محسوس تو کرتا ہے مگر دیکھ نہیں پاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ طلب خدا کی طلب ہے۔آدمی جس آئیڈیل کو پانے کے لیے بے قرار رہتا ہے وہ خود اس کا خالق ہے۔ہر آدمی جس چیز کی تلاش میں ہے وہ دراصل وہ خدا ہے جو اس کی روح میں سمایا ہواہے۔ہر آدمی اپنی فطرت کے تحت مسلسل خداکی جستجو میں رہتا ہے وہ اپنے اس اندرونی جذبہ کے تحت دنیا کی مختلف چیزوں کی طرف دوڑتا ہے اورسمجھتا ہے کہ شاید یہ چیزاس کی تلاش کا جواب ہو۔مگر جب وہ اس کو پالیتا ہے اورقریب سے اس کا تجربہ کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزوہ نہیں جس کی تلاش میں وہ سرگرداں تھا۔

دو قسم کی روحیں

قرآن کی سورہ الشمس میں ارشاد ہواہے:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا (91:9-10)۔یعنی،وہ شخص کامیاب رہا جس نے اپنے آپ کوپاک کیااوروہ شخص برباد ہوگیا جس نے اپنے آپ کو گنداکیا۔موجودہ زندگی آخرت سے پہلے کاایک امتحانی موقع ہے۔جو شخص یہاں سے نیک اورستھری روح لے کر آخرت کی دنیا میں پہنچے گاوہ وہاں جنت کی پر مسرت فضائوں میں بسایا جائے گااورجو شخص یہاں سے برائیوں میں لپٹی ہوئی روح لے کر آخرت کی دنیا میں جائے گااس کو وہاں جہنم کے پُر عذاب ماحول میں دھکیل دیاجائے گا۔

موجودہ دنیا گویا خدا کی نرسری ہے۔نرسری میں مختلف قسم کے پودے اگائے جاتے ہیں۔زمین میں روئیدگی کی قوت بہت زیادہ ہے۔چنانچہ یہاں طرح طرح کے پودے اگ آتے ہیں۔مالی ان سب کی جانچ کرتا ہے۔جو پودے غیر مطلوب پودے ہیں ان کو وہ کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔اور جو پودے اس کے مطلوب پودے ہیں ان کو اہتمام سے نکال کرلے جایا جاتا ہے تاکہ کسی باغ میں ان کو پھلنے پھولنے کے لیے نصب کردیاجائے۔

موجودہ دنیا میں آدمی کے لیے بیک وقت دونوں مواقع کھلے ہوئے ہیں۔وہ چاہے تو اپنی روح کو پاک کرے اورچاہے تو گندا کرتا رہے۔کوئی وہ شخص ہے جو اللہ کی بڑائی کو مان کراس کے آگے اپنے آپ کو جھکادیتا ہے۔اس کے سامنے جب کوئی حق آتا ہے تو وہ بے جھجھک اس کا اعتراف کرلیتا ہے۔لوگوں سے معاملہ کرتے ہوئے وہ ہمیشہ خیر خواہی اور انصاف کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔دوستی ہو یا دشمنی ہر حال میں وہ خدا کی مرضی پر چلتا ہے نہ کہ اپنے نفس کی مرضی پر۔یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی روح کو پاک کیا۔اس کو اس کا خدا جنت کی پُربہار دنیا میں بسائے گا۔

دوسراآدمی وہ ہے جو خود اپنی لڑائی میں گم رہتا ہے۔اس کے سامنے حق آتا ہے تو وہ اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔معاملات میں وہ سرکشی اور بے انصافی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔وہ اپنی مرضی پر چلتا ہے نہ کہ خدا کی مرضی پر۔یہی وہ آدمی ہے جس نے اپنی روح کو گندا کیا۔کائنات کا مالک اس کو اپنے پڑوس کے لیے قبول نہیں کرے گا۔وہ اس کو جہنم میں دھکیل دے گا تاکہ وہ ابدی طورپر اپنے جرم کی سزابھگتتا رہے۔

مقبول بندے

جسم میں اگر ایسا خون داخل کیا جائے جو آدمی کے بلڈ گروپ کا نہ ہوتو جسم اس کو قبول نہیں کرتا۔اس کے اندر فوراً ضد جسم (antibodies)پیدا ہوجاتے ہیں۔اوروہ خون باہر نکال دیاجاتا ہے۔اسی طر ح جلے یاکٹے ہوئے حصہ جسم پر قلم بندی ہوتی ہے جس کی محفوظ صورت یہ ہے کہ خود اپنے جسم کی کھال لے کر مقام مائوف پر لگا دی جائے جس کو آٹو گریفٹنگ کہتے ہیں۔اب اگر کسی مقام پر کھال کی قلم بندی (Skin Grafting) کرنی ہے اور وہاں کسی غیر متعلق جسم کی کھال لے کر لگا دی گئی تو وہ چند دن ٹھیک رہے گی۔مگر ایک ہفتہ کے اندر جسم اس کی اجنبیت کو پہچان لے گا۔خون کا دوران اس مقام پر رک جائے گااوربالآخر کھال کا مذکورہ ٹکڑاالگ ہوکر گرجائے گا۔اس کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ولیم بائڈ(1885-1979) نے اپنی پیتھا لوجی(pathology) کی کتا ب (صفحہ177) میں لکھا ہے کہ خود ی غیر خود ی کو قبول نہیں کرتی :

Self will not accept not-self.

یہ چھوٹے سِلف (انسان )کی خود داری کی ایک مثال ہے۔اسی پر بڑے سِلف (خدا)کی غیرت اورخودداری کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خدا تمام غیرت مندوںسے زیادہ غیرت مند اورتمام یکتا پسندوں سے زیادہ یکتا پسند ہے۔خدا کسی حال میں بھی کسی قسم کی دوئی کو گوارہ نہیں کرتا۔وہ ہر دوسرے قصور کو معاف کردے گا مگر شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔

وہ کون خوش قسمت لوگ ہیں جو آخرت میں خدا کے مقبول بندے ٹھہریں گے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے سلف کے خول کو توڑ کر خدا کے سلف میں گم ہونے پر راضی ہوگئے۔جو اپنی یاکسی دوسرے کی یکتا ئی کو بھلا کر خداکی یکتائی کے آگے جھک گئے۔جنھوں نے ہر قسم کے شرک کو چھوڑ کر توحید خالص کو اختیار کرلیا۔انسان کے لیے اگرچہ یہ مشکل ترین کام ہے کہ وہ اپنے سواکسی دوسرے کا اقرار کرے۔جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے کومانتا ہوانظر آئے تو وہ یا تو خوف کی بنیاد پر ہوگا یا مصلحت کی بنیاد پر۔تاہم یہی وہ عطیہ ہے جو کوئی انسان کبھی کسی کو نہیں دیتا اوراسی کا مطالبہ انسان کے خالق نے انسان سے کیا ہے۔اور اسی کا نام اسلام ہے۔مسلم وہی ہے جو اپنی خود ی کا اثاثہ اپنے خالق کو دینے پر راضی ہوجائے۔جو اپنے آپ کو پوری طرح خداکی سپردگی میں دے دے۔جو ہر اعتبار سے خداکا تابع فرمان بن جائے۔اس میں شک نہیںکہ یہ انسان کے لیے ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے۔مگر اسی کو خدانے اپنی جنت کی قیمت بنادیاہے۔جنت کی انوکھی نعمت اسی خوش نصیب کے حصہ میں آئے گی جو اس انوکھے عطیہ کی صورت میں اس کی قیمت پیش کردے۔

خوراک

والڑڈی لامیر(Walter De La ‘Mare)ایک انگریز شاعر ہے۔وہ1873میں پیدا ہوا اور1956 میں اس کی وفات ہوئی۔اس نے انسان کے بارے میں ایک طنزیہ نظم کہی ہے جس کا ایک ٹکڑایہ ہے :

It is a very odd thing

As odd as can be

That whatever Miss T eats

Turns into Miss T

یہ ایک نہایت عجیب بات ہے ،اتنی عجیب جتنی کہ کوئی چیز عجیب ہوسکتی ہے۔مس ٹی جو کچھ بھی کھاتی ہے وہ سب مس ٹی بن جاتاہے۔

ہر آدمی کی اپنی ایک منفرد شخصیت ہوتی ہے۔اس کا رنگ ،اس کے بدن کی ساخت ، اس کے بولنے کی زبان ،اس کا طرزفکر ،سب اس حد تک دوسروں سے مختلف ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے آدمی کے مقابلہ میں پہچانا جاسکے۔آدمی روز انہ طرح طرح کی چیزیں کھاتا ہے۔مگر وہ جو کچھ کھاتا ہے وہ اس کے اند رجاکر اس کی اپنی شخصیت میں ڈھل جاتا ہے۔کوئی کھانے کی چیز باہر خواہ کچھ بھی ہومگر وہ آدمی کے اندر داخل ہونے کے بعد وہی بن جاتی ہے جو وہ خود ہوتا ہے۔ہر آدمی جو خوراک کھاتا ہے یا پانی وہ اپنے جسم میں داخل کرتا ہے اس کو وہ تحلیل کرکے اپنے وجود کا حصہ بنالیتا ہے۔

یہی معاملہ خیالات ونظر یات کا بھی ہے۔آدمی بہت کم ایساکرتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھے یا سنے اس کو اس طرح دیکھے یاسنے جیسا کہ فی الواقع وہ ہے۔اکثروہ چیزوں کو اس شکل میں دیکھتا ہے جیسا کہ وہ خود دیکھنا چاہتا ہے۔ہر بات جو آدمی کے اندر داخل ہوتی ہے وہ اس کے اپنے ذوق کے مطابق بدل کر اس کی فکر کا جزءبن جاتی ہے۔

اسی مثال میں مومن اورغیر مومن کا فرق دیکھا جاسکتا ہے۔دنیاطرح طرح کے واقعات وحقائق سے بھری ہوئی ہے۔یہ واقعات وحقائق مومن کے سامنے بھی آتے ہیں اورغیر مومن کے سامنے بھی مگر دونوں انہیں اپنے اپنے زاویہ نظرسے دیکھتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک کے لیے وہ اس کے ایمان کی غذابن جاتے ہیں۔مگر دوسرے کو ان سے اس کے سواکچھ اورنہیں ملتا کہ اس کی سرکشی اورگمراہی میں اضافہ ہوجائے۔

کم سمجھنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک غیر امیر خاندان میں پیداہوئے۔آپ ابھی ماں کے پیٹ میں تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔پیدائش کے جلد ہی بعد آپ کی والدہ بھی اس دنیا سے چلی گئیں۔آپ کو حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔حلیمہ کے شوہر کو ابوکبشہ کہا جاتا تھا۔یہ ایک نہایت غریب خاندان تھاجو محنت مزودری پر گزرکرتاتھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ایک یتیم بچہ کی حیثیت سے پر ورش پائی۔وہ قلیل معاوضہ پر مکہ والوں کی بکریاں چراتے تھے۔آپ کے ساتھ کوئی عظیم ماضی شامل نہ تھا۔ چنانچہ مکہ والوں کی نظر میں آپ کی تصویر ایک حقیر تصویر بن گئی۔آپ کا شمار مکہ کے بڑے لوگوں میں نہ تھا۔بلکہ ان لوگوں میں تھاجو لوگوں کے نزدیک قابل تذکرہ نہیں ہوتے۔

اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر جب آپ پر وحی آئی اورآپ نے مکہ میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیاتو لوگوں کو یہ ایک مذاق کی بات معلوم ہوئی۔مکہ والوں کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ شخص جو کل تک ایک معمولی آدمی تھا وہ آج خداکا رسول کیسے بن گیا۔انھوں نے حقارت کے ساتھ کہا کہ یہ ابوکبشہ کے لڑکے کو دیکھو ،وہ کہتا ہے کہ اس کو آسمان سے وحی آتی ہے:هَذَا ‌ابْنُ ‌أَبِي ‌كَبْشَةَ‌ يُكَلَّمُ ‌مِنَ ‌السَّمَاءِ(نور الیقین ،جلد1، صفحہ 10)۔

یہی چیز ہر دور میں پیغمبروں کے ہم زمانہ لوگوں کے لیے پیغمبروں کے انکار کا سبب بن گئی۔خدا نے کبھی بادشاہوںیاوقت کی عظیم شخصیتوں کوپیغمبر نہیں بنایا۔بلکہ غیر معروف لوگوں میں سے ایک شخص کو پیغمبری کے لیے چن لیا۔اب جن لوگوں نے اس شخص کو پیغمبری سے پہلے کم سمجھاتھا وہ پیغمبر ی کے بعد بھی اس کو کم سمجھتے رہے۔خدانے انہیںبڑاکردیا مگرجو لوگ انہیںپہلے چھوٹا دیکھ چکے تھے ان کے لیے ممکن نہ ہو اکہ وہ ان کی بڑائی کو پہچانیں اوران کو اپنا بڑابنائیں۔

یہ سب سے بڑانفسیاتی فتنہ ہے جو ہر دور میں لوگوں کے لیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بنا رہا ہے۔موجودہ دنیا میں انسان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ حقیقت کو ’’غیب ‘‘کی سطح پر پالے۔وہ سچائی کو اس کے مجرد روپ میں پہچان سکے۔لوگ عظمتوں کی سطح پر اعتراف کا ثبوت دے رہے ہیں۔حالاں کہ اعتراف کا ثبوت وہاں دینا پڑتا ہے جہاں بظاہر دیکھنے والوں کو عظمت دکھائی نہیں دیتی۔لوگ رونقوں کے مقام پر خدا پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں حالانکہ خدا اکثر وہاں ہوتا ہے جہاں کسی قسم کی رونق نظر نہیں آتی۔

خدا سے بغاوت

خدا نے اپنی دنیا کا ایک منصوبہ بنایا۔اس منصوبہ کے مطابق وہ اپنی دنیا کو چلا رہا ہے۔جو لوگ اس منصوبہ سے مطابقت کرکے اس دنیا میں رہیں وہ خداکے فرماں بردار بندے ہیں۔خداان کو اپنے ابدی انعامات سے نوازے گا۔اس کے برعکس جو لوگ اس منصوبہ سے مطابقت نہ کریں وہ خدا کی دنیا میں فساد پھیلانے کے مجرم ہیں۔خدا انہیںعنقریب پکڑلے گااوران کو ایسی سزادے گاجس سے ابد تک نکلناان کے لیے ممکن نہ ہو۔

خداہر صبح سورج کو روشن کرتا ہے تاکہ اس کے بندے اس کی روشنی میں چلیں۔مگر ایک انسان دوسرے انسان کو اندھیرے میں دھکیل دینا چاہتا ہے۔خدا زمین سے رزق اگاتا ہے تاکہ اس کے بندے اس سے اپنی بھوک مٹائیں۔مگر ایک انسان دوسرے انسان کو بھوک سے تڑپا کر خوش ہوتا ہے۔خدا اپنے پاس سے بارش برساتا ہے تاکہ تمام انسان اورجاندار اس سے سیراب ہوں۔مگر انسان اپنے مفروضہ دشمنوں کو پیاس سے تڑپاکر کامیابی کے قہقہے لگاتا ہے۔

خدا لوگوں کے لیے مواقع کھولتا ہے تاکہ وہ ان مواقع کا استعمال کرکے اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔مگر انسان یہ منصوبہ بناتا ہے کہ وہ لوگوں سے ان کے ملے ہوئے مواقع کو چھین لے۔خدا ایک انسان کو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔مگر دوسراانسان حسد میں مبتلا ہوکر چاہتا ہے کہ اس کو بے عزت کرکے اوراس کوناکام بنا کر چھوڑدے۔

یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں فساد فی الارض کہا گیا ہے۔یعنی خدا نے اپنی دنیا کا نقشہ جس ڈھنگ سے بنایا ہے اس میں بگاڑ پیدا کرنا۔خدا کی دنیا میں خدا کے منصوبہ کے خلاف زندگی گزارنا۔خدا کی زمین میں خدا کی پسند کو چھوڑ کر وہ روش اختیار کرنا جو آدمی کی پسند اورخواہش کے مطابق ہو۔

انسان خداکی اسکیم کی نفی کرتا ہے۔انسان خدا کے فیصلہ کو بدل دینا چاہتا ہے۔یہ خدا کی دنیا میں خدا کے خلاف بغاوت ہے۔یہ سب سے بڑاجرم ہے جو کوئی انسان اس زمین پرکر سکتا ہے۔آج یہ سب سے بڑاجرم خداکی زمین پر سب سے بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بغاوت کے مرتکب وہ لوگ بھی ہیں جو خدا کی بغاوت کو خداکی زمین سے ختم کرنے کا جھنڈااٹھائے ہوئے ہیں۔

اہلیت

ایک شخص اچھے خاندان میں پیدا ہوا۔بعد کو اس کے حالات خراب ہوگئے۔معاشی اعتبار سے وہ بالکل مفلس ہوکر رہ گیا۔اس زمانہ میں اس کے تمام دوست اوررشتہ دار اس سے جدا ہوگئے۔کوئی اس کا بھی روادارنہ تھا کہ اس سے ملاقات اور سلام کلام کا تعلق رکھے۔

پھر وہ وقت آیا کہ اس کے حالات بدل گئے۔وہ اپنی بستی کا سب سے زیادہ خوش حال آدمی بن گیا۔اب اس کے پرانے دوست اوررشتہ دار اس کے پاس آنے لگے۔وہ اس کو یقین دلاتے کہ ہم تو ہمیشہ تمہارے خیر خواہ تھے۔مگر آدمی پر ان لوگوں کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔اس نے ان میں سے کسی کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔البتہ ایک شخص جو ہر حال میں اس کا ساتھی بنارہا۔اس کو اس نے بہت بڑے پیمانہ پر نوازا۔اس کو اس نے اپنا سب سے قریبی ساتھی اورمشیرکا ربنالیا۔

یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قدر وہ ہے جوناموافق حالات میں قابل قدر ہونے کا ثبوت دے۔جو دعوت حق کو اس وقت پہچانے جب کہ دعوت حق ماحول میں اجنبی بنی ہوئی ہو۔جو دین خداوندی کے ساتھ ایسے حالات میں اپنے کو وابستہ کرے جب کہ دین ظاہربینوں کو بے قیمت نظر آتا ہو۔

اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ جسموں کو۔اللہ کے یہاں حقیقت کی قدر ہے نہ کہ ظاہری دکھاوے کی۔اللہ کو وہ بندے پسند ہیں جو اس وقت جھک گئے ہوں جب کہ اس کی قوتیں ابھی غیب میں چھپی ہوئی ہیں۔اللہ کو وہ بندے درکار ہیں جن کی بصیرت کی نگاہیں کھلی ہوئی ہوں۔اللہ کو وہ بندے درکار نہیں جن کے اندھے پن کا یہ حال ہوکہ وہ پیشانی کی آنکھ سے دکھائی دینے والی چیزوں کے سواکسی اورچیز کو دیکھ ہی نہ سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ نہ دینے والے دور میں دئے جانے کا فیصلہ ہوتا ہے۔پہچاننے والا وہ قرار پاتا ہے جس نے نہ پہچاننے والے حالات میں پہچاننے کا ثبوت دیاہو۔انعام کا مستحق وہ ہے جس نے اس وقت ساتھ دیاہو جب کہ لوگوں نے اس کو غیر اہم سمجھ کر اسے نظر اندازکردیاتھا۔

پانے کے باوجود محروم

چارلی چپلن (1889-1977)فلمی دنیا کا ایک مشہور ترین آدمی تھا۔وہ فلموں میں ہنسانے کا کردار ادا کرتا تھا۔اس نے 52سالہ فلمی زندگی میں بے شمار دولت کمائی۔چارلی چپلن ایک انگریز تھا۔اس نے امریکامیں فلمی ترقی حاصل کی اورپھر سوئزرلینڈ میں اس نے 137ایکڑ زمین خرید کر وہاں اپنے لیے ایک شاندار مکان بنایا۔جب وہ مراتو اس کی ملکیت میں دس ملین پونڈ موجود تھے۔اس کو بڑے بڑے انعامات اورخطابات سے نوازاگیا۔

کہا جاتا ہے کہ چارلی چپلن کو دنیا کے ہر حصہ میں مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کی تقریباً 80فلمیں ایسی ہیں جو مسلسل کہیں نہ کہیں دکھائی جاتی ہیں۔حتیٰ کہ 1914-17میں اپنی ابتدائی زندگی میں اس نے جن فلموں میں کام کیاتھا وہ فلمیں بھی ابھی تک تاجرانہ حیثیت سے کامیاب ہیں۔یہ ابتدائی فلمیں بھی آج محض تاریخی یادگار کے طور پر نہیں دکھائی جاتیں بلکہ جدید تفریح کے معیار سے ان کو دیکھا جاتا ہے۔چارلی چپلن موجودہ زمانہ کا واحد فلمی کردار ہے جواب بھی اتنے شوق سے دیکھا جاتا ہے۔اندازہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 300ملین ایسے لوگ ہیں جنھوں نے چارلی چپلن کی80فلموں میں سے ایک ایک فلم کو دیکھا ہے۔

چارلی چپلن کی ابتدائی زندگی نہایت غربت میں گزری تھی۔چنانچہ بعد کو کثیر دولت کا مالک ہونے کے باوجود اس کو ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا تھاکہ کہیں وہ دوبارہ مفلس نہ ہوجائے۔ اس نے ایک کے بعد ایک چار شادیاں کیں۔آخر عمر میں وہ بالکل ناکارہ ہوگیا۔ اس کی زندگی وہیل چیر(پہیہ دار کرسی)پر گزرتی تھی۔اس کی نگاہ بے حد کمزورہوگئی تھی۔اس کے بولنے اورسننے کی طاقتیں جواب دے گئی تھیں۔حقیقی چارلی چپلن بستر پر ناکارہ پڑاتھا۔ مگر فلمی چارلی چپلن بدستور سینما ہائوسو ں میں لوگوں کی تفریح کا مرکز بنا ہواتھا۔

چارلی چپلن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ ’’اس نے کسی بھی دوسرے انسان کے مقابلہ میں لوگوں کو زیادہ خوشی دی اورزیادہ ہنسایا‘‘مگر اس کا اپنا انجام یہ ہواکہ وہ آخر عمر میں اپنے بڑھاپے کو بے بسی کے ساتھ دیکھا کرتا تھا اوراس کا ہنسنا اس سے رخصت ہوچکا تھا۔ 25دسمبر 1977کو چار بجے صبح اس وقت اس کا انتقال ہوگیا جب کہ صرف چند گھنٹے بعد اس کا خاندان کرسمس کی سالانہ تقریبات منانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔

چارلی چپلن کے ایک سوانح نگار ڈینس گیفرڈ(Denis Gifford)نے اس کے انجام کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں

وہ جب کام کرتا تھا تو وہ محض فلم سے کچھ زیادہ کی تخلیق کرتا تھا۔ہنسی اورمحبت کے ساتھ جینا ،خواب اورامیدیں۔مگر ہمیشہ خوشیوں پر خاتمہ کہاں تھا،اگر بالآخر وہ کل کی سڑک پر قدم رکھنے سے زیادہ کچھ نہ ہو(آر۔ڈی جون 1978)۔

چارلی چپلن کی موت کے بعد ایک مبصر نے اس کی بابت حسب ذیل الفاظ لکھے تھے:

Chaplin's life has been filled to the brim with what most lives consist of yearning after...wealth and fame and creative play and beautiful women...but he does not know how to enjoy any of the four.

Max Eastman in Ladies Home Journal.

چارلی چپلن کی زندگی ان چیزوں سے آخری کنارے تک بھری ہوئی تھی جس کی دوسرے اکثر لوگ صرف تمنا کرتے ہیں — دولت ،شہرت ،تخلیقی اداکاری اورخوبصورت عورتیں۔مگر اس کو نہیں معلوم تھا کہ ان چاروں میں کسی ایک سے بھی وہ کس طرح لطف اندوز ہو۔

چارلی چپلن کی یہ کہانی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ چارلی چپلن کی طرح پاکر محروم رہتے ہیں۔اوردوسرے لوگ پائے بغیر محروم۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں پانے والا بھی اتنا ہی محروم ہے جتنا نہ پانے والا۔مگر بہت کم لوگ ہیںجو اس سب سے بڑی حقیقت کو جانتے ہوں۔

امریکاکی ایک نوجوان عورت نے خود کشی کرلی۔اس کی جیب میں ہاتھ سے لکھا ہواایک پرچہ تھا۔اس میں درج تھامجھے خوشی کی تلاش تھی۔اس کے لیے میںنے نشہ کا استعمال کیا۔میں جنسی آوارگی کی حدتک گئی۔مگر مجھے کہیں خوشی نہیں ملی۔اب میں مایوس ہوکر اپنے آپ کو ختم کررہی ہوں۔

اکثرآزاد خیال مردوں اورعورتوں کا یہی حال ہے۔وہ خوشی کی تلاش میں سب کچھ کر ڈالتے ہیں۔مگر آخر میں انہیںمعلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان کی تلاش کا جواب موجود نہیں۔اس کے بعد کچھ مایوسانہ زندگی گزار کر طبعی موت مرتے ہیں اورکچھ لوگ جھنجھلاہٹ میں آکر خودکشی کرلیتے ہیں۔

کتنے بے خبرہیں وہ لوگ جو اپنے کو جاننے والا سمجھتے ہیں۔کیسے ناکام ہیں وہ لوگ جن کانام کامیاب انسانوں کی فہرست میں سب سے آگے لکھا ہواہے۔

امتحان گاہ

قرآن و حدیث میں زندگی کا یہ تصور دیا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کو جو کچھ ملتا ہے وہ صرف بطور آزمائش ملتا ہے۔وہ اس کا حق نہیں ہوتا۔آدمی ان چیزوں سے صرف ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھاتا ہے اس کے بعد موت آتی ہے اوراس کے ساز و سامان سے اسے جداکر دیتی ہے۔موت سے پہلے یہ چیزیں ہر ایک کو ملتی ہیں مگر موت کے بعد صرف اس کو ملیں گی جو آزمائش میں پورا اترے۔اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔

ایک طالب علم امتحان کے کمرہ میں ہے۔وہ اپنا تعلیمی امتحان دے رہا ہے۔اس وقت بظاہر وہ ایک مکان میں ہے۔اس کے پاس میزاورکرسی اوردوسرے ضروری سامان ہیں۔اس کے خدمت گار بھی وہاں موجودہیں۔

بظاہر دیکھنے والوں کو وہ صاحب مِلک آدمی نظر آتا ہے۔مگر یہ سب کچھ محض وقتی ہے۔ جیسے ہی وقت پوراہونے کا الارم بجتا ہے۔اچانک معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کا کچھ بھی نہ تھا۔ہر چیز جو وہاں اس کے پاس تھی اس سے واپس لے لی جاتی ہے۔اوروہ بلاتاخیر امتحان گھر کے باہر نکال دیاجاتا ہے۔

یہی معاملہ وسیع ترمعنوں میں دنیا کابھی ہے۔یہ دنیا انسان کے لیے ایک خدائی امتحان گاہ ہے۔یہاں ہر آدمی صرف اس لیے ہے کہ وہ اپنا امتحان دے۔ خدا نے ہرآدمی کے لیے مدت مقرر کر رکھی ہے۔جیسے ہی یہ مدت پوری ہوتی ہے۔فوراًموت کا فرشتہ آتا ہے اورآدمی کو جبراً اس دنیا سے نکال کر خدا کے سامنے حاضر کردیتا ہے تاکہ ہر آدمی کو اس کے عمل کے مطابق اس کا بدلہ دیا جائے۔

موت کا لمحہ امتحان کی مدت ختم ہونے کا لمحہ ہے۔جب یہ لمحہ آتا ہے تو آدمی جان لیتا ہے کہ ان چیزوںمیں سے اس کا کچھ نہ تھا جس کو وہ اپنا سمجھے ہوئے تھا۔جس مکان کو اس نے بنایا تھا وہ اس سے جدا کر دیا جاتاہے۔جس جائیداد کو وہ اپنی چیز سمجھتا تھا وہ اس سے چھین لی جاتی ہے۔جن آدمیوں کو وہ اپنے آدمی سمجھتا تھا وہ اس سے بچھڑجاتے ہیں۔

یہ لمحہ ہر آدمی پر آنے والا ہے۔خوش قسمت ہے وہ جو اس کے آنے سے پہلے اس کو جان لے جو آنے سے پہلے اس کی تیاری کرلے۔

قانون کی حد

26اگست 1978کو دہلی میں بھیانک جرم کا ایک واقعہ ہوا۔ایک فوجی افسر ایم ایم چوپڑاکے دو بچے سنجے (15)اورگیتا(17) انتہائی بے قصور طور پر مارڈالے گئے۔نوجوان بہن بھائیوں کے اس قتل پر ملک کا ضمیر جاگ اٹھا۔مجرمین کی تلاش شروع ہوئی۔بالآخر قتل کے دونوں مجرمین جبیر سنگھ عرف بلا (25) اورکلجیت سنگھ عرف رنگا(23)ایک ٹرین میں سفر کرتے ہوئے آگرہ اسٹیشن پر پکڑلیے گئے۔اس کے بعد دونوں پر قتل کا مقدمہ چلا۔لمبی عدالتی کارروائی کے بعد دونوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا۔مختلف قانونی مراحل سے گزرکر بالآخر دونوں کو 31جنوری 1982کو دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

ایڈیشنل سیشن جج ایم۔کے چاولانے پانچ صفحات کے فیصلہ میں دونوں کے لیے موت کا حکم دیتے ہوئے لکھا:

The ends of justice would be met only if the two accused were put to eternal sleep, thereby allowing others to live in peace.

انصاف کے مقاصد صرف اسی طرح حاصل ہوسکتے ہیں کہ دونوں مجرم ہمیشہ کی نیند سلادیے جائیں تاکہ دوسروں کو امن کے ساتھ جینے کا موقع ملے (ہندستان ٹائمس، 1 فروری1982)۔

جج کے یہ الفاظ انسانی قانون کی حدکو بہت اچھی طرح بتاتے ہیں۔انسانی قانون کے بس میں صرف یہ ہے کہ وہ مجرم اورسماج کو ایک دوسرے سے جدا کر دے۔وہ مجرم کو اس کے جرم کی حقیقی سزانہیں دے سکتا۔ایک شخص جب کسی معصوم جان کو ناحق ذبح کردے تویہ اتنا بڑا جرم ہے کہ موجودہ محدوددنیا کی کوئی سزااس کے جرم کے برابر نہیں ہوسکتی۔دنیا کا جج بس اتنا ہی کر سکتا ہے کہ جس شخص کے اندر اس قسم کا مجرمانہ ذہن دیکھے اس کوآئندہ کے لیے سماج سے ہٹادے۔

موجودہ دنیا کی یہ محدودیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بعد ایک اورلامحدود دنیا آئے جہاں یہ کمی پوری ہو۔جہاں کے جج کے امکان میں صرف یہ نہ ہو کہ وہ ظالم اورمظلوم میں جدائی کردے بلکہ وہ ظالم کو اس کے ظلم کی ایسی سزادے سکے جو انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے والی ہو۔

دلیل اورشخصیت

قرآن میں حضرت موسیٰؑ اورفرعون کا قصہ مختلف مقامات پر تفصیل سے بیان ہوا ہے۔فرعون نے جب مصر کے جادوگروں کو بلایا اورحضرت موسیٰ سے ان کا مقابلہ ہواتو یہ واقعہ پیش آیا کہ جادو گروں نے اپنی رسیاں اورلاٹھیاں میدان میں ڈالیں۔وہ جادو کے زور سے سانپ کی مانند چلتی ہوئی نظر آنے لگیں۔اس وقت حضرت موسیٰ نے خدا کے حکم سے اپنا عصا ڈالا تو وہ تمام سانپوں سے بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگا۔اس نے جادوگروں کے جادو کو نگل لیا۔وہ جدھر جدھر گیا۔جادو گروں کی رسیاں اورلاٹھیاں بس رسیاں اور لاٹھیاں بن کر رہ گئیں۔

یہ دیکھ کر جادوگروں نے سمجھ لیا کہ حضرت موسیٰ کا معاملہ کوئی جادوکا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا معاملہ ہے۔حضرت موسیٰ کے مظاہرے میں جادوگروں کو خدا کی معرفت حاصل ہوگئی۔انھوں نے اسی وقت اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔یہ فرعون کی کھلی ہوئی شکست تھی۔اس نے غصہ میں آکر جادو گروں کے لیے مصر کی سخت ترین سزا کا اعلان کردیا۔وہ یہ کہ جادوگروں کے ہاتھ اورپائوں کو مخالف سمتوں سے کاٹ کر انہیںتڑپایا جائے اورپھر انہیںکھجور کے تنوں پر لٹکا کر سولی دے دی جائے۔

اس سز اکو سن کر جادوگروں کی زبان سے نکلا ___ہم تجھ کو ان دلائل پر ترجیح نہ دیں گے جو ہمارے پاس آئے ہیں:لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَى مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ  (20:72)۔

جادوگروں کے سامنے ایک طرف عظیم شخصیت تھی اوردوسری طرف کھلی ہوئی دلیل شخصیت اوردلیل کے اس مقابلہ میں انھوں نے وہی کیا جو ایک سچے انسان کو کرنا چاہیے۔ انھوں نے شخصیت کو نظر انداز کردیا اوردلیل کو لے لیا۔

جب آدمی کے سامنے ایسی دلیل آجائے جو بات کو اس طرح ثابت شدہ بنا دے کہ وہ اس کی تردید کے لیے کوئی جوابی دلیل پیش کرنے سے عاجز رہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ دلیل کو لے لے اور اس کے خلاف شخصیتوں کو چھوڑ دے۔دلیل کا اس طرح ظہور دراصل خدا کا ظہور ہے۔جو لوگ دلیل کے مقابلہ میں شخصیت کو ترجیح دیں انھوں نے گویا خدا کے مقابلہ میں غیر خداکو ترجیح دی۔ایسے لوگوں کے لیے زمین وآسمان کے اندر کوئی جگہ نہیں۔یہ غیر خداکو اپنا بنانا ہے۔پھر خدا کی دنیا میںجو لوگ غیر خدا کو اپنا خدا بنائیں وہ کیسے یہاں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

کائنات کا دستر خوان

قرآن میں ہے کہ — اللہ آسمان وزمین کا نور ہے (24:35)۔اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا تمام کی تمام خدائی صفات کا مظہر ہے۔حساس قلب کو یہاں کی ہر چیز میں خدا کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ رزق خداوندی کا دستر خوان ہے۔

خدا پر ایمان اگر کسی آدمی کو وہ حساسیت دے دے جو خدا پر سچے ایمان سے پیدا ہوتی ہے تو کائنات میں فی الواقع اس کو ہر طرف خدا کا نور دکھائی دے گا۔ہواکے لطیف جھونکے جب اس کے جسم کو چھوئیں گے تو اس کو ایسا محسوس ہوگا کہ لمس خداوندی کا کوئی حصہ اسے مل رہا ہے۔دریائوں کی روانی میں اس کو رحمت حق کا جوش ابلتا ہوا نظر آئے گا۔ چڑیوں کے چہچہے جب اس کے کان میں رس گھولیں تو اس کے دل کے تاروں پر زمزمۂ خداوندی کے نغمے جاگ اٹھیں گے۔پھولوں کی مہک جب اس کے مشام جان کو معطر کرے گی تو وہ اس کے لیے خدائی خوشبو میں نہانے کے ہم معنی بن جائے گی۔

ساری کائنات مومن کے لیے رزق روحانی کا دستر خوان ہے ،ویسے جیسے جنت اس کے لیے رزق مادی کا دستر خوان ہوگی۔موجودہ دنیا کی تمام چیزوں کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ان کو دیکھ کر انسان عبرت حاصل کرے،ان کے ذریعہ وہ ان ربانی کیفیات کو پالے جوان کے اندر ان لوگوں کے لیے رکھ دی گئی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔

ڈھاک ایک معمولی درخت ہے۔مگر اس کے اورپر بے حد حسین پھول اُگتے ہیں۔ موسم خزاں کے پت جھڑکے بعد اس کا درخت بظاہر ایک سوکھی لکڑی کی مانند ،اس سے بھی زیادہ ایک سوکھی زمین پر کھڑا ہوتا ہے۔اس کے بعد ایک خاموش انقلاب آتا ہے۔حیرت انگیز طورپر نہایت خوش رنگ پھول اس کی شاخوں میں کھل اٹھتے ہیں۔سوکھی لکڑی کا ایک ڈھانچہ لطیف اوررنگین پھولوں سے ڈھک جاتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ایک محروم اوربے قیمت وجود کے لیے خدانے خصوصی طورپر اپنی خوب صورت چھتری بھیج دی ہے۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی بندہ خدا اس کو دیکھ کر کہے—’’اےخدا !میں بھی ایک ڈھاک ہوں،تو چاہے تو میرے اوپر حسین پھول کھلادے۔میں ایک ٹھنٹھ ہو ں ،تو چاہے تو مجھ کو سر سبزوشاداب کردے۔میں ایک بے معنی وجود ہوں ،تو چاہے تو میری زندگی کو معنویت سے بھر دے۔میں جہنم کے کنارے کھڑاہوں تو چاہے تو مجھ کو جنت میں داخل کردے‘‘۔

صرف ’’کرنا ‘‘کافی نہیں

بالٹی کے پیندے میں سوراخ ہو اور اوپر سے آپ اس میں پانی ڈالیں تو سارا پانی بہہ کر نکلتا رہے گااوربالٹی کے اپنے حصہ میں کچھ نہیں آئے گا۔ایسا معاملہ انسان کا بھی ہے۔آدمی کا وہی عمل حقیقۃً عمل ہے جو خود اس کو کچھ دے رہا ہو۔اگر آدمی بظاہر سرگرمیاں دکھارہا ہواور اس کا اپنا وجود کچھ پانے سے محروم ہوتو اس کی سرگرمیوں کی کوئی حقیقت نہیں۔عمل وہی عمل ہے جس کے دوران آدمی کے ذہن میں شعور کی چنگاری پڑے۔اس کے دل میں سوزوتڑپ کا کوئی لاوا ابلے۔اس کی روح کے اندر کوئی کیفیاتی ہل چل پیدا ہو۔ اس کے اندرون میں کوئی ایسا حادثہ گزرے جو برتر حقیقتوں کی کوئی کھڑکی اس کے لیے کھول دے۔یہی یافت کسی عمل کی کامیابی کا اصل معیار ہے۔وہی عمل عمل ہے جو آدمی کو اس قسم کے تحفے دے رہا ہو۔جس عمل سے آدمی کو یہ چیزیں نہ ملیں وہ ایسا ہے جیسے سوراخ دار بالٹی میں پانی گرانا۔

دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں۔دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ آپ کیا ہو رہے ہیں۔اگر آپ کی ’’مصر وفیات ‘‘بہت بڑھی ہوئی ہوں،اگر بتانے کے لیے آپ کے پاس بہت سے کارنامے ہوں مگر آپ کی اندرونی ہستی خالی ہو،آپ خود کچھ نہ ہورہے ہوں تو آپ کی مصرفیات محض بے فائدہ سرگرمیاں (idle business)ہیں۔اس کے سوا اورکچھ نہیں۔ ہوائیںہوں مگر ان سے آکسیجن نہ ملے۔پانی ہو مگراس سے سیرابی حاصل نہ ہو۔غذا ہو مگر اس سے آدمی کو قوت نہ ملے۔سورج ہومگر وہ روشنی نہ دے رہا ہوتو ایسا ہونا ہونا نہیں ہے بلکہ نہ ہونے کی بد ترین شکل ہے۔اسی طرح جو عمل آدمی کی اپنی غذانہ بن رہا ہو وہ عمل نہیں صرف بے عملی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ بے معنی کوئی چیز۔

پتھرکے اوپر آپ پانی ڈالیں تو وہ بظاہر پانی سے بھیگ جائے گا۔اس کے چاروں طرف پانی پانی نظر آئے گا۔مگر پتھر پانی کے مزہ اورتراوٹ کو نہیں جانتا ،اس نے پانی کی اِس دوسری حیثیت کا تجربہ نہیںکیا۔اس کے برعکس ایک زندہ آدمی جب پیاس کے وقت پانی پیتاہے تو اس کی رگیں ترہو جاتی ہیں ،وہ پانی کی حقیقت کا ایک ’’اندرونی تجربہ ‘‘کرتا ہے۔اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کرنا کیا ہے اور ہونا کیا۔کرنا یہ ہے کہ آدمی کچھ مقر رہ اعمال کو بس رسمی طور پر دہرالے۔آدمی کی زبان کچھ الفاظ بولے مگر وہ الفاظ اس کے دل کی دھڑکن نہ بن رہے ہوں۔آدمی اپنے ہاتھ پائوں سے کچھ عمل کرے مگر اس کا عمل اس کی روح کو نہ چھوئے۔اس کی حرکات و سکنات اس کے دل ودماغ میں ارتعاش نہ پیدا کریں۔اس کے برعکس ہونا یہ ہے کہ آدمی کا عمل اس کے لیے روحانی تجربہ بن رہا ہو۔اس کی اندرونی ہستی کو باربار کیفی غذائیں مل رہی ہوں۔اس کا جسمانی عمل اس کے غیر جسمانی وجود میں ہل چل پیدا کررہا ہو۔وہی کرنا کرنا ہے جس کے درمیان آدمی خود بھی کچھ ہور ہا ہو۔جوکرنا ہونا نہ بنے ،حقیقت کے اعتبار سے اس کی کوئی قیمت نہیں۔وہ گویا ایک ایسا پتھر ہے جو بظاہر پانی سے بھیگ رہا ہے مگر وہ پانی کا مزہ نہیں پاتا۔

الفا ظ کم ہوجاتے ہیں

مسٹر لزلی برائون شمالی انگلستان کے ایک ٹرک ڈائیور ہیں۔وہ اولاد سے محروم تھے۔ ان کی بیوی کے جسمانی نظام میں بعض حیاتیاتی فرق کی وجہ سے دونوں کا مادۂ حیات رحم مادر میں یک جا نہیں ہوتا تھا۔وہ اولاد کی طرف سے مایوس ہوچکے تھے کہ عین وقت پر سائنس نے ان کی مدد کی۔لندن کے ڈاکٹر پیٹرک اسٹپٹو جوبر سہا برس سے اس میدان میں تجربہ کررہے تھے۔ انھوں نے اپنی لیبارٹری میں لزلی برائون کا مادۂ تولید(sperm ) نکالا اورمسز برائون کے جسم سے ایک بیضہ لیا۔دونوں کو انھوں نے ایک خصوصی قسم کے ٹیسٹ ٹیوب میں رکھا۔قدرتی قانون کے تحت وہ دونوں مل کر زرخیز ہوگئے۔چار روز کے بعد ڈاکٹر نے اس کو مصنوعی طور پر رحم مادر میں پہنچا دیا۔اب رحم مادر میں اس ’’بچہ ‘‘کی پرورش ہونے لگی۔ تجربہ کامیاب رہا۔جولائی1978میں تاریخ کا پہلا ’’test tube baby‘‘وجود میں آگیا۔اس پورے عمل کی تصویر لی جاتی رہی اورپیدائش کے بعد اس کو مکمل طورپر ٹیلی وژن پر دکھا یاگیا۔

ٹیوب بے بی (لوئس برائون ) کے باپ سے اس پورے واقعہ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے کہا ’’بیوٹی فل ‘‘یعنی بے حد حسین۔اس ایک لفظ کے سوا وہ کچھ اور نہ کہہ سکا۔

غم کی گھٹنا خوشی سے زیادہ بڑی گھٹنا ہوتی ہے۔انڈین نیوی کے ایک افسر کی اہلیہ مسز اوما چوپڑہ کو 26اگست 1978 کو جب معلوم ہواکہ ان کے دونوں بچے گیتا (17سال) اور سنجے(15سال) کو نئی دہلی میں وحشیانہ طور پر کسی نے قتل کردیا ہے تو اس کے بعد ان کا یہ حال ہواکہ سات گھنٹے تک وہ ایک لفظ نہ بول سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تاثرجتنا شدید ہو الفاظ اتنا ہی کم ہوجاتے ہیں۔بے حد خوشی ہو تب بھی آدمی زیادہ بول نہیں پاتا اوربے حد غم ہوتب بھی زیادہ بولنا آدمی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔جو لوگ دین وملت کے’’غم ‘‘ میں ہر روز الفاظ کے دریا بہاتے رہتے ہیں وہ صرف اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ دین وملت کے غم میں وہ سب سے پیچھے ہیں۔جو شخص درد وغم میں مبتلا ہو اس کو تو چپ لگ جاتی ہے نہ یہ کہ وہ لفظی اکھاڑوں میں لسانی پہلوانی کے کرتب دکھانے لگے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے خدا کو نہ اس کے منعم کے روپ میں پایا ہے اورنہ منتقم کے روپ میں۔اگر وہ دونوں میں سے کسی روپ میں بھی خدا کوپالیتے تویہ صورت باقی نہ رہتی کہ ہر آدمی ایسے الفاظ کا بھنڈار بنا ہوا ہے جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتے۔

امتحان

حضرت ابراہیم کو خواب میں دکھا یا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔حضرت ابراہیم خواب کے مطابق بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔مگر جیسے ہی آپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھی ،آواز آئی کہ بس تم نے خواب کو پوراکر دکھا یا۔اس کے بعد آپ کو خصوصی طور پر ایک مینڈھا فراہم کیا گیا اورآپ نے بیٹے کے بدلے اسی مینڈھے کو ذبح کیا۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ — اکثر ایسا ہوتا ہے کہ قربانی مانگی جاتی ہے مگر قربانی لی نہیں جاتی۔ گلے پر چھری رکھی جاتی ہے مگر قبل اس کے کہ چھری آدمی کا گلا کاٹے ،چھری کو گلے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

اس دنیا میں ہر آدمی کا اصل امتحان نفسیاتی امتحان ہے نہ کہ جسمانی امتحان۔خدا انسان کی آمادگی کو دیکھتا ہے نہ کہ کر ڈالنے کو۔خدا کبھی کسی کو غیر ضروری مشقت میں نہیں ڈالتا۔مگر مشقت سے نجات اس کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو مشقت کے حوالے کرنے کا واقعی ثبوت دے دے۔

جو لوگ قربانی کے راستہ سے بھاگتے ہیں وہ صرف اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ خدائے رحمان ورحیم پر یقین نہیں رکھتے۔خدا تمام مہربانوںسے زیادہ مہربان ہے۔وہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ شفیق ہے جتنا کوئی باپ اپنے عزیز بیٹے کے لیے شفیق ہوتا ہے۔ایسی حالت میں قربانی کے راستہ سے بھاگنا خدا کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار ہے۔حالاں کہ خدا جتنا لیتا ہے اس سے بہت زیادہ دیتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے خدا کو صرف ایک بیٹا پیش کیا تھا اور خدا نے ان کو سارے عالم کی امامت دیدی۔

انسان کو چاہیے کہ وہ کسی تحفظ کے بغیر خدا کے راستہ پر چل پڑے۔وہ قربانی کے مواقع پر ہرگز اپنی طرف سے کوئی کمی نہ کرے۔اسی کے ساتھ وہ یقین رکھے کہ شفیق باپ سے بھی زیادہ مہربان اور طاقت ور خدا ہر آن اس کو دیکھ رہا ہے۔خدا آدمی کا امتحان ضرور لیتا ہے مگر قبل اس کے کہ آدمی ہلاکت میں پڑے وہ ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لیتا ہے۔

کیسا عجیب ہے وہ بیٹا جو باپ کی پکار پریقین نہ کرے۔کیسا عجیب ہے وہ بندہ جو خدا کے بارے میں اپناا عتماد کھودے۔

کوئی فرق نہیں

ایک آدمی ایک درخت کے نیچے آرام کررہا تھا۔اس کا ایک دوست ادھر سے گزرا۔اس نے پکار کر کہا ’’میرے بھائی ،تم کیوں نہیں جاتے کہ کچھ لکڑیاں کاٹ کر لائو‘‘۔

’’کس لیے ‘‘سوئے ہوئے آدمی نے پوچھا۔

’’تاکہ تم ان لکڑیوں کو بیچ کر پیسہ حاصل کرواوراپنے لیے ایک گدھا خریدو اورپھر لکڑی کو گدھے پر لا دکر گھر گھر بیچو۔اس طرح ایک وقت آئے گا تم اورنفع کما کر ایک ٹرک خرید لوگے۔پھر تم اورترقی کروگے اورتمہارے یہاں آرہ کی مشین اوربہت سے ٹرک ہوجائیں گے ‘‘۔

’’یہ سب کس لیے ‘‘سونے والے نے دوبارہ پوچھا۔

’’تم لکھ پتی ہوجائو گے اورآرام سے رہو گے ‘‘۔

’’پھر تمہارا کیا خیال ہے ،اب میں کیا کر رہا ہوں ‘‘۔

یہ ایک واقعہ ہے کہ جو آرام ایک آدمی کو ٹھی بنا کر حاصل کرنا چاہتا ہے وہی آرام ایک آدمی درخت کے سایہ میں بھی حاصل کررہا ہے۔دیکھنے والوں کے نزدیک ضرور دونوں میں فرق ہے۔مگر خود آرام کرنے والے کے لیے دونوں میںکوئی فرق نہیں۔بلکہ درخت کے نیچے سونے والا جس سکون میں ہے وہ کوٹھی والے کو شاید میسر نہیں۔

ایک تاجر ایک بار مجھے اپنا نیا مکان دکھانے کے لیے لے گئے۔کافی بڑا دومنزلہ مکان تھا۔گھر کے ہر چھوٹے بڑے کے لیے الگ الگ کمرے اوراس کے ساتھ تمام ضروری سہولتیں مہیا تھیں۔سارے گھر میں قیمتی قالین بچھے ہوئے ،تمام دروازے اور کھڑکیاں خوبصورت پردوں سے ڈھکی ہوئی۔ہر کمرہ میں اعلیٰ درجہ کا فرنیچر ایسا معلوم ہوتا تھا گویا پورا گھر جدید سامانوں کی ایک نمائش گاہ ہے۔

مگر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میںایک خوبصورت قید خانہ میں بند کردیاگیا ہوں۔یہ مکان ایک کھلی جگہ پرتھا وہ قدرت کی ہر چیز سے خالی اورقسم قسم کی مصنوعی چیزوں سے بھر اہوا تھا۔ہر طرف بجلی کی روشنی کا اعلیٰ انتظام تھا مگر سورج کی روشنی کو اجازت نہ تھی کہ وہ بند مکان میں داخل ہو۔ہر کمرہ میں ایرکنڈیشنر لگا ہوا تھا مگر قدرتی ہوا کا کہیں گزرنہ تھا۔انسانی آرٹ کے نمونے دیوار پر تھے مگر قدرت کے آرٹ کو دیکھنے کے لیے وہاں کوئی کھڑکی کھلی ہوئی نہ تھی۔کمرہ میں میوزک کا انتظام تھا مگر باہر کے درخت پر چہچہانے والی چڑیوں کی آواز سننے کے تمام راستے بند تھے— جدید تمدن نے انسان کو قدرت سے کتنا دور کردیا ہے۔

پچپن سال کے بعد

طبیہ کالج (قرول باغ،دہلی ) نے ایک باررات کی کلاسیں شروع کی تھیںتاکہ ملازمت پیشہ لوگ اس میں داخلہ لے کر طبی کورس کریں اوراپنے خالی اوقات میں پریکٹس کرسکیں۔انہیں داخلہ لینے والوں میں سے ایک مسٹر رمیش دتہ تھے۔وہ اکائونٹ آفس میں کام کرتے تھے اوراسی کے ساتھ رات کے کلاس میںشریک ہوکر بی آئی ایم ایس (B.I.M.S)کا کورس کررہے تھے۔1955 کا واقعہ ہے ،ان کے استاد ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے ایک بار ان سے پوچھا:دتہ جی ،آپ تو ایک اچھی ملازمت میں ہیں۔پھر آپ بی آئی ایم ایس کا کورس کیوں کررہے ہیں۔انھوں نے جواب دیا:

’’نوکر ی پچپن سال کی ہے اورزندگی سو سال کی۔پھر نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد کیا کروں گا‘‘۔کہنے والے نے زندگی کی جو تقسیم موجود ہ دنیا کے اعتبار سے کی ہے وہی تقسیم وسیع تر معنوں میںدنیا اورآخرت کے اعتبار سے بھی ہے۔دنیا میںانسان کی عمر کو اگر پچپن سال سمجھیں اورآخرت کی طویل تر زندگی کو علامتی طورپر ’’سو سال ‘‘سمجھیں تو معلوم ہوگا کہ ہر آدمی وسیع تر معنوں میںاسی سوال سے دوچار ہے۔تاہم ہر آدمی کو صرف اپنے ’’55‘‘سال کی فکر ہے ،کسی کو اپنے ’’سو سال ‘‘کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں۔

دنیا کی ’’55سالہ ‘‘ زندگی کے لیے ہر آدمی سرگرم ہے۔ہر آدمی اپنی ساری طاقت خرچ کرکے اس کی تعمیر میں لگا ہوا ہے۔اس معاملہ میں ہر آدمی اتنا زیادہ سنجیدہ ہے کہ وہ فوراً اس کے نشیب وفراز کو سمجھ لیتا ہے۔وہ اس کے کسی موقع کو کھونا کسی حال میں گوارانہیں کرتا۔

دوسری طرف ’’سو سالہ ‘‘زندگی جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے ،اس کی کسی کو پروا نہیں۔اس معاملہ میں آدمی نہ کچھ سوچنے کی ضرورت محسوس کرتا اور نہ کچھ کرنے کی۔یہاں کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ — موت سے پہلے کی زندگی تو صرف ’’55سال‘‘ کی ہے اورموت کے بعد کی زندگی ’’سو سال‘‘ کی۔پھر اگر ابھی سے میں نے تیاری نہ کی تو موت کے بعد کی ’’سو سالہ زندگی ‘‘میںمیں کیاکروں گا۔کیسا عجیب ہے وہ انسان جو تھوڑی زندگی کے لیے تو بہت زیادہ کر رہا ہے مگر زیادہ زندگی کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں (26جنوری 1984)۔

غالباً یہی صورت حال ہے جس کی طرف حدیث میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے —  میں نے جہنم سے زیادہ سخت چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والا سو گیا ہو۔اورمیں نے جنت سے زیادہ قیمتی چیز نہیں دیکھی جس کا چاہنے والا سوگیا ہو (سنن الترمذی، حدیث نمبر2601 )۔

خدا کی عبادت

 

پرستش کیا ہے

نیلما دیوی (Nilima Devi)ہندستان کی ایک رقاصہ ہے۔وہ رقص کو ایک خدائی آرٹ (Divine art ) سمجھتی ہے۔وہ اپنے فن میں اتنا ڈوبی ہوئی ہے کہ وہ محسوس کرتی ہے کہ وہ رقص کی صورت میں جو کچھ ظاہر کرنا چاہتی ہے وہ ان کو ظاہر نہیں کرپاتی۔جسمانی حرکات کی محدودیت اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ایک انٹرویو (ہندستان ٹائمس 30 دسمبر 1983)میں اس نے کہا کہ رقص وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں جسمانی حرکات ختم ہوجاتی ہیں :

The dance starts where the gymnastics end.

نیلما دیوی کا کہنا ہے کہ وہ رقص کا کام بطور پیشہ کے نہیں کرتی۔یہ میرے لیے ایک طریق زندگی ہے۔انٹرویو لینے والے کے الفاظ میں ،جب وہ رقص نہیں کرتی تو وہ اپنے آپ کو خالی محسوس کرتی ہے۔ایسے لمحات میں اس کے پاس کوئی نقطۂ ارتکاز نہیں ہوتا جس میں وہ اپنی زندگی کو مرتکز کرسکے :

She says when she is not dancing, she feels empty. There is no focal point in her life at such moments.

رقاصہ نے جس چیز کو طریق زندگی ( Way of life)کہا ،اسی کا دوسر انام پرستش ہے۔اوپر کے اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ فن کی پرستش ایک رقاصہ کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ اس کے اندر گہرے جذبات پیدا کر دیتی ہے— وہ رقص کو اس کے لیے زندگی بنا دیتی ہے۔اس کے اندرجذبات کا ایسا طوفان برپا ہوتا ہے جس کے اظہار سے وہ اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگے۔اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے رقص کے ذریعہ وہ کچھ کہہ سکی ہے وہ اس سے بہت کم ہے جو وہ کہنا چاہتی ہے۔اس کے بغیر اس کی زندگی خالی ہوجاتی ہے ۔ اس سے الگ ہوکر وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا مرکزی نقطہ باقی نہیں رہا جہاں وہ اپنے وجود کو سمیٹ سکے۔

خدا کی پرستش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔وہ ایک خدائی رقص ہے۔جب کوئی بندہ اپنے رب کو پاتا ہے تو یہ اس کے لیے اتنا عظیم واقعہ ہوتا ہے کہ وہ رقص کر اٹھتا ہے۔اس کا وہی حال ہوجاتا ہے جو مذکورہ مثال میں فن کے پرستار کا نظر آتا ہے— خدا اس کے تمام وجود کا مرکزی نقطہ بن جاتا ہے۔خدا سے الگ اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔خدا کے بارے میں اس کے اندر ایسے گہرے جذبات اٹھتے ہیں جن کو بیان کرنے کے لیے وہ الفاظ نہ پاسکے۔

اللہ سے ڈرنے والے

دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اللہ کے ڈر سے خالی ہوں۔ایسے لوگ خواہ زبان سے اللہ کا نام لیتے ہوں ،مگر ان کے سینہ میں اللہ کے ڈر کاکوئی خانہ نہیں ہوتا۔وہ اس طرح رہتے ہیں جیسے کہ وہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں۔ان کے سامنے سارا سوال بس دنیا کے نفع نقصان کا ہوتا ہے۔جس کا م میں نفع نظر آئے اس کی طرف دوڑنا اور جس کام میں نقصان کا اندیشہ ہو اس سے رک جانا،یہ ان کا مذہب ہوتا ہے۔کسی چیز کا اصولی طورپر برحق ثابت ہوجانا ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔وہ ہمیشہ ’’دلیل ‘‘ کے بجائے ’’مفاد‘‘کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔کوئی کام کرتے ہوئے وہ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس معاملہ میں اللہ کی مرضی کیا ہے یا یہ کہ وہ اللہ کے سامنے کیوں کربری الذمہ ہوسکتے ہیں۔وہ وہاں جھک جاتے ہیں جہاں ان کا نفس جھکنے کے لیے کہے۔اور وہاں اکڑ جاتے ہیںجہاں ان کا نفس اکڑنے کی ترغیب دے۔وہ اللہ سے بے خوف زندگی گزارتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے جاتے ہیںتاکہ اللہ کی عدالت میں حساب دینے کے لیے کھڑے کردیے جائیں۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے دل میں حرام وحلال کا لحاظ رہتا ہے۔ان کوخیال آتا رہتا ہے کہ مرنے کے بعد اللہ کے یہاں حساب کتاب کے لیے حاضر ہونا ہے۔عام حالات میںوہ اللہ سے ڈر کر زندگی گزارتے ہیں۔روز مرہ کی زندگی میں کسی کو ان سے حق تلفی اوربے اخلاقی کا تجربہ نہیں ہوتا۔تاہم وہ اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اٹھے ہوئے نہیں ہوتے۔ان کا خوفِ خدا اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ وہ ان کے نفس کے اندر چھپے ہوئے جذبات کا احاطہ کرلے۔عام حالات میں وہ خدا ترس زندگی گزارتے ہیں۔مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیش آئے تو اچانک وہ دوسری قسم کے انسان بن جاتے ہیں۔کبھی کسی کی محبت کا لحاظ، کبھی کسی کے خلاف نفرت کا جذبہ ،کبھی اپنی عزت کا سوال ان کے اوپر اس طرح غالب آتا ہے کہ ان کا خوف خدا اس کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔یہ عمل چونکہ اکثر  غیرشعوری طورپر ہوتا ہے اس لیے بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اوپر نفس کے اس حملہ سے آگاہ ہو ں اوراپنے آپ کو تھامے ہوئے اپنے کو متقیانہ روش پر قائم رکھیں۔معمول کے حالات میں خدا ترسی کی زندگی گزارنے والا غیر معمولی حالات میںوہی کچھ کر گزرتا ہے جو پہلی قسم کے لوگ اپنی عام زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔

تیسرا انسان وہ ہے جو پورے معنوں میںاللہ سے ڈرنے والا ہو۔جو اللہ کو پہچاننے کے ساتھ خود اپنے کو بھی پوری طرح پہچان چکا ہو۔ایسا شخص صرف عام حالات ہی میں اللہ سے نہیں ڈرتا بلکہ غیر معمولی حالات میںبھی اللہ کا خوف اس کا نگراں بنا رہتا ہے۔کسی کی محبت جب اس کو بے خوفی کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے تو وہ فوراً اس کو دیکھ لیتا ہے۔ کسی سے چھپی ہوئی نفرت جب اس کے نفس میں تیرتی ہے اور اس کو بے انصافی پر اکساتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے اوراس سے باخبر ہوکر اس کے خلاف کھڑاہوجاتا ہے۔ ذاتی عزت ووقار کا سوال جب اس کے اندر داخل ہوکر اس کو کسی حق کے اعتراف سے روکتا ہے تو وہ بلا تا خیر اس کو جان لیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی تمام خامیوں سے آگاہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے۔اس کا مسلسل احتساب اس کو ایسے مقام پر پہنچادیتا ہے۔جہاں وہ اپنے آپ کو انتہائی بے لاگ نظر سے دیکھ سکے۔بالفاظ دیگر،وہ اپنے کو اس حقیقی نظر سے دیکھنے لگتا ہے جس نظر سے اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔

دین داری

دینداری اصل میں اپنی ذات کی سطح پر دیندار بننے کا نام ہے۔اپنی انا کو کچلنا اوراپنے اندرون  میں خدا کو بسانا وہ چیز ہے جو اسلام کا اصل مطلوب ہے۔جب آدمی اپنے آپ میں جینے کے بجائے خدا میں جینے لگے۔جب دنیا کے بجائے آخرت اس کا مقصود بن جائے جب پانے سے زیادہ کھونا اس کو محبوب نظر آتا ہوتو اس نے دین کو پایا ، اس نے اپنے خدا کے ساتھ اپنا تعلق قائم کیا۔

آدمی اکثر حالات میں باہر باہر جیتا ہے اس لیے وہ ایسے دین کو بہت جلد قبول کرلیتا ہے جو اس کو اپنے سے باہر کی زندگی میں کوئی مشغلہ دیتا ہو۔

جو دین لائوڈ اسپیکر کی سطح پر چیخ پکارکا پروگرام دے ،جس دین میں آدمی کو جلسے اورجلوس کی سطح پر کارنامے دکھانے کا موقع ملتا ہو۔جس دین میں سیروسیاحت کی چاشنی موجود ہو۔جس دین میں حکمرانوں سے نوک جھونک کرنے کا جواز ہاتھ آتا ہو۔جو دین بحث ومناظرہ کی دلچسپیاں فراہم کرتا ہو۔جس دین میں شامیانہ سجانے اورکھانے پینے کی دھوم مچانے کے مواقع ملتے ہوں۔جس دین میں دوسروں کو گولی کا نشانہ بنا کر اس کی تڑپتی ہوئی لاش دیکھنے کا منظر نصیب ہوتا ہو۔جس دین میں دوسروںکے پیسہ پر مفت کی لیڈری قائم کرنے کے مواقع ہاتھ آتے ہوں — دین کی یہ تمام صورتیں دین کو اپنے سے باہر پانے کی صورتیں ہیں۔ اس لیے وہ لوگ بہت جلد ایسے دین کی طرف دوڑپڑتے جو اپنے آپ کوبچائے ہوئے ہوں اوراپنے سے باہر دین کا ثبوت دے کر دیندار بننا چاہتے ہوں۔

دین اپنے اندر سفر کرنے کانام ہے۔دین اپنے آپ کو انا نیت کے تخت سے اتارنا ہے۔دین خود اپنے اندر جھانکنے کا نام ہے نہ کہ دوسروں کا ماہر بننے کا۔درخت اپنے آپ میں جینا ہے ،اسی طرح مومن اپنے آپ میں جیتا ہے۔درخت اسی وقت درخت بنتا ہے جب کہ اسکی جڑیں زرخیززمین میں قائم ہوجائیں۔اسی طرح مومن ایک روحانی درخت ہے جو خداکی زمین میں اگتا ہے۔وہ زمین و آسمان سے ایمانی رزق لے کر بڑھتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ خداکی دنیا تک پہنچ جاتا ہے جس کانام جنت ہے۔

محسوس پرستی

قرآن میں خدا کے مقبول بندوں کے بارے میں ارشاد ہواکہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں:يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (2:3)اور غیر مقبول بندوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ صرف دنیا کے ظاہر کوجانتے ہیں:يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا(30:7)۔

اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ شرک کیا ہے اور توحید کیا۔اگر لفظ بدل کر کہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ — شرک نام ہے حقائق کو محسوسات کی سطح پر پہچاننے کا ،اورتوحید نام ہے حقائق کو معنویت کی سطح پر پہچاننے کا۔مشرک انسان صرف ان خدائوں کو جانتا ہے جو محسوس طورپر اس کو اپنی آنکھوں سے نظر آتے ہیں۔اس کے برعکس موحد انسان اس خدا کو جان لیتا ہے جو صرف تصور کی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ موحد مومن بالغیب ہوتا ہے اورمشرک مومن بالشہود۔

غیر مومن دکھائی دینے والی چیزوں میں جیتا ہے اورمومن نہ دکھائی دینے والی چیزوں میں۔غیر مومن کی یافت عضو یاتی یافت ہوتی ہے اورمومن کی یافت ذہنی یافت۔غیر مومن کی پہنچ صرف ان چیزوں تک ہوتی ہے جن کو دیکھ کرجانا جاتا ہے اورمومن کی پہنچ ان چیزوں تک ہوجاتی ہے جن کو صرف سوچ کر جانا جاسکتا ہے۔

تاریخ کے ہر دور میں یہی انسان کی سب سے بڑی گمراہی رہی ہے۔پیغمبرلوگوں کو خدا کی طرف بلاتے تھے مگر خدا چونکہ دکھائی نہیں دیتا اس لیے بہت کم لوگ ایسے نکلے جو خدا کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ بیشتر لوگوں نے انہیںمحسوس چیزوں کو اپنا مرکز تو جہ بنالیا جن کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔روشن ستاروں کی پرستش سے لے کر دریائوں اورپہاڑوں کی پرستش تک ہر جگہ یہی ذہنیت کارفرمارہی ہے۔ پیغمبروں کی دعوت کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہردور میں یہ تھی کہ ان کے مخالفین صرف محسوس خدائوں سے آشنا تھے ،اس لیے پیغمبروں کی زبان سے غیر محسوس خداکی پکارکو سن کر وہ متاثرنہ ہوسکے۔

بزرگوں اورممتاز شخصیتوں کی پرستش کی نفیسات بھی یہی ہے۔خدا چونکہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اس لیے لوگ خدا کی عظمت کو پکڑ نہیں پاتے۔بزرگ اورممتاز شخصیتیں دکھائی دیتی ہیں اس لیے لوگ ان کی عظمت کو پکڑلیتے ہیں اوران کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔بزرگ پرستی نام ہے محسوس پرستی کا، اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو جانتے ہوں۔

محبت کا نذرانہ

آدمی اپنی فطرت اوراپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ خارجی سہاراچاہتا ہے۔ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے۔اورجو اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو۔کسی کو اس حیثیت سے زندگی میں شامل کرنا اس کو اپنا معبود بنانا ہے۔ جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اورعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ وہ کسی سے حبّ شدید کرے اورجس سے کوئی شخص حبّ شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔

موجودہ دنیا میں چو ںکہ خد انظر نہیں آتا اس لیے ظاہر پرست انسان عام طورپر نظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتا ہے جو دراصل خداکو دینا چاہیے۔یہ ہستیاں اکثر وہ سردار یاپیشواہوتے ہیں جن کو آدمی ’’بڑا‘‘سمجھ لیتا ہے۔اورپھر وہ دھیرے دھیرے لوگوں کی توجہات کا مرکز بن جاتے ہیں۔لوگ ان کے اس طرح گرویدہ ہوجاتے ہیں جیسا گرویدہ انہیںصرف خدا کا ہونا چاہیے۔آدمی کی فطرت کا خلا جو حقیقۃ ً اس لیے تھا کہ اس کو خدا سے پرکیا جائے وہاں وہ کسی غیر خداکو بٹھا لیتاہے(البقرہ،2:165)۔

مذہبی احساس جب اپنے اعلیٰ ترین اسٹیج کو پہنچتا ہے تو وہ محبت میں ڈھل جاتا ہے۔خدا ہرقسم کی خوبیوںکا اعلیٰ ترین مجموعہ ہے۔انسان جتنی بھی چیزوں کا مالک ہے وہ سب کی سب خداکاعطیہ ہیں۔کائنات کا گہرامشاہدہ ایک ایسے خالق کا تعارف کراتا ہے ، جو حیرت ناک حد تک حسن وکمال کی خصوصیات رکھنے والا ہے۔

یہ ہے خدااور کوئی آدمی جب ایسے خدا کو پالیتا ہے تو وہ بالکل فطری طورپر اس کی عقیدت ومحبت میں سرشار ہوجاتا ہے۔

انسان کے پاس کسی کو دینے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے وہ محبت ہے۔ایسی حالت میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص خدا جیسی باکمال ہستی کو پائے اوراس کی خدمت میں محبت سے کم تردرجہ کی کوئی چیز پیش کرے۔محبت سے کم کوئی چیز نہ تو خدا قبول کرتااورنہ کسی انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ خدا کے حضور میں محبت سے کم کسی چیز کا نذرانہ پیش کرے۔

خد اکی نصرت

محمد ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں مکی دور کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ قریش نے نضر بن حارث اورعقبہ بن ابی معیط کو مدینہ بھیجا۔وہاں وہ یہود کے علماء سے ملے اوران سے پوچھا کہ ہم کو محمد کے بارے میں بتائو کہ ہم ان کو کیا سمجھیں۔علماء یہود نے کہا کہ ان سے تم اصحاب کہف اورذوالقرنین کا حال پوچھو۔ اگر وہ بتا دیں تو وہ نبی مرسل ہیں اور اگر نہ بتا سکیں تو وہ متقول ہیں۔

یہ لوگ مکہ واپس آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ان چیزوں کے بارے میں ہمیں بتائیں۔آپ نے فرمایا کہ تم نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب میں تم کو کل دوںگا:أُخْبِرُكُمْ غَدًا بِمَا سَأَلْتُمْ عَنْهُ۔آ پ نے یہ جملہ کہا مگر ان شا ء اللہ نہ فرمایا۔آپ کو خیال تھاکہ کل کے دن جبریل آئیں گے تو میں ان سے پوچھ کر بتاددں گا۔مگر انشاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے اگلے دن وحی نہ آئی۔یہاں تک کہ پندرہ دن تک وحی رکی رہی۔

وحی نہ آنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے دن جواب نہ دے سکے۔یہ مکہ کے مشرکین کے لیے سنہرا موقع تھا۔انھوں نے لوگوں سے کہنا شروع کیاکہ محمد نے وعدہ کیاتھا مگر وہ اپنے وعدہ کو پورانہ کرسکے۔دن پر دن گزرتے رہے اورآپ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔مکہ کے مشرکین نے اس کو خوب استعمال کیا۔انھوں نے لوگوں سے کہا کہ اب ثابت ہوگیا کہ یہ پیغمبر نہیں ہیں۔اگر وہ پیغمبر ہوتے تو ضرور اپنے وعدہ کے مطابق جواب دیتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات دن سخت بے چینی میں گزررہے تھے۔ایک ایک لمحہ پہاڑ ہورہا تھا۔بظاہر یہ سراسر آپ کے خلاف بات تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو زبردست طور پر آپ کے موافق بنادیا۔وہ یہ کہ پندرہ دن وحی رکنے کی وجہ سے قریش نے سارے شہر میں اتنا پروپیگنڈا کیا کہ ایک ایک آدمی اس معاملہ سے باخبر ہوگیا۔ہر آدمی کو اشتیاق ہوگیا کہ وہ جانے کہ اس کی بابت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں۔گویامکہ والوں نے بہت بڑے پیمانے پر سننے کی فضا بنا دی۔ چنانچہ پندرہ دن کے بعد جب سورہ کہف اتری اور اس میںاصحاب کہف اورذوالقرنین کا قصہ تفصیل سے بیان ہوا تو سارے لوگ اس کو سننے کے لیے دوڑپڑے۔سورہ کہف کے اترتے ہی وہ سارے شہر میں ایک ایک آدمی کی زبان پر تھی۔جو تبلیغ مہینوں میں ہوتی وہ صرف ایک دن میں ہوگئی — اگر اللہ چاہے تو وہ اپنے کسی بندے کی غلطی کو بھی صحت کے خانہ میں ڈال دے۔وہ اس کے ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کر دے(البدایہ و النھایہ، جلد3، صفحہ69)۔

دل کا سکون

آج کی دنیا ترقی یافتہ دنیا کہی جاتی ہے۔مگر یہ تمام ترقیاں صرف’’چیزوں ‘‘کی ہوئی ہیں۔جہاں تک ’’انسان ‘‘کا تعلق ہے ،وہ بدستو غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑاہوا ہے۔انسان پیچھے ہے اور چیزیں آگے۔

سب سے بڑی چیز جو انسان چاہتا ہے وہ سکون ہے۔مگر آج کسی کو سکون حاصل نہیں۔جدید مادی ترقیوں نے صرف یہ کیا ہے کہ انسان سے اس کا سکون چھین لیا ہے۔یہ ترقیاں انسان کوسکون دینے میں سراسرناکام ثابت ہوئی ہیں۔

موجودہ دنیا میں ایک عجیب تضاد نظر آتا ہے۔یہاں سامانِ سکون ہے مگر سکون نہیں یہاں قہقہوں کا شور ہے مگر دل کا چین نہیں۔یہاں خوشی کے اسباب کے ڈھیر لگے ہوئے ہیںمگر حقیقی خوشی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

اس کی وجہ کیا ہے۔اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ہم روح جیسی برتر چیز کومادہ جیسی کمتر چیز کے ذریعہ خوش کرنا چاہتے ہیں۔اور ایسا ہونا کبھی اس دنیا میں ممکن نہیں۔جو لین آف ناروچ (1342-1416)نے صحیح کہا ہے کہ ہماری روح کبھی ان چیزوں میںسکون نہیں پاسکتی جو خود اس سے نیچی ہوں:

Our soul may never rest in things that are beneath itself.

انسان اشرف المخلوقات ہے۔وہ ہماری معلوم دنیا کی سب سے برتر مخلوق ہے۔اس کائنات میں انسان کے اوپر صرف ایک ہی ذات ہے اوروہ خود خالق ہے۔یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کے لیے سکون اورراحت کا واحد ذریعہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پالے۔اس سے کمتر کوئی چیز اس کے لیے سکون اورراحت کا سبب نہیں بن سکتی۔

یہی حقیقت ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے :

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (13:28)۔

جو لوگ ایمان لائے اوران کے دلوں کو اللہ کی یادسے اطمینان ملتا ہے۔جان لو،اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے ۔

شکر کی اہمیت

چارلس رشٹر (1900-1985)ایک امریکی سائنس داں ہیں۔وہ زلزلہ کے ماہرین میں سمجھے جاتے ہیں۔انھوں نے ایک مخصوص پیمانہ دریافت کیا ہے جو آج دنیا بھر میں زلزلہ کی پیدا کردہ طاقت کو ناپنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس کو رکٹر پیمانہ (Richter Scale) کہتے ہیں۔

چارلس رکٹر نے کیلی فورنیا کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں نصف صدی تک زلزلہ کا مطالعہ کیا ہے۔انھوں نے کہا ان سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ زلزلہ کے خطرہ سے بچنے کے لیے آدمی کو کہاں بھاگنا چاہیے۔کیلی فورنیا میں ا س کا جواب بالکل سادہ ہے ،وہ یہ کہ کہیں نہیں۔امریکاکی 48ریاستوں میں زلزلہ کا سب سے کم خطرہ فلوریڈا اورساحلی ٹکساس میںہے۔مگر پھر میں سوال کروں گاکہ طوفان کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔حقیقت یہ کہ ہر علاقہ کے اپنے کچھ خطرات ہیں۔اس لیے واحد بدل یہ ہے کہ آدمی کسی دوسرے مقام پر چلا جائے اورکسی دوسرے خطرہ کو گواراکرے(ہندستان ٹائمس، 7اکتوبر1980)۔

آدمی کا یہ مزاج ہے کہ جو کچھ اس کو ملا ہوا ہے اس پر وہ مطمئن نہیں ہوتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر آدمی غیر مطمئن زندگی گزارتا ہے۔کوئی بظاہر خوش نصیب آدمی جس کو لوگ قابل رشک سمجھتے ہیں وہ بھی اندر سے اتنا ہی غیر مطمئن ہوتا ہے جتنا وہ لوگ جو اِس کو رشک کی  نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ہر شخص کو کوئی نہ کوئی نعمت ملی ہوئی ہے۔مگر جس کے اندر شکر کی نفسیات نہیں ہوتی وہ غیر حاصل شدہ نعمت کی طرف متوجہ رہتا ہے اورجو نعمت بروقت اسے حاصل ہے اس کو حقیر سمجھتا ہے۔ ایسے آدمی کے اندر اپنے خداکے لیے شکر کا جذبہ نہیں ابھرتا۔وہ عین اسی چیز سے محروم رہ جاتا ہے جس کو اسے سب سے زیادہ اپنے سینہ کے اندر پرورش کرنا چاہیے۔

موجودہ دنیا کو خد انے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں مکمل راحت کسی کے لیے نہیں۔ ایک جغرافیہ کا آدمی وہاں کے مسائل سے گھبراکر دوسرے جغرافیہ میں چلا جائے تو اس کو دوسرے جغرافیہ میں پہنچ کر معلوم ہوگا کہ یہاں بھی مسائل ہیں۔ اسی طرح اگر کم آمدنی والے کے مسائل ہیں تو زیادہ آمدنی والے کے بھی مسائل ہیں۔اگر بے زور آدمی کے مسائل ہیں تو ان کے بھی مسائل ہیں جن کو زور و قوت حاصل ہے۔ امتحان کی اس دنیا میں کسی آدمی کو مسائل سے فرصت نہیں۔آدمی کو چاہیے کہ وہ جن مسائل کے درمیان ہے ان کو گوارا کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے۔اس کی توجہات کا مرکز خداکی رضا حاصل کرنا ہونہ کہ مسائل سے پاک زندگی کا مالک بننا ،کیونکہ وہ تو آخرت سے پہلے ممکن ہی نہیں۔

خدا کی یاد

اخبار ہند ستان ٹائمس کے ایڈیٹر نے ایک فیلڈاسٹڈی (15مئی 1982)کے ذریعہ ہندستانی لوگوں کا مزاج معلوم کیا۔وہ اپنے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندستانیوں کا حال یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو خداان کے یہاں سب سے اوپر ہوتا ہے۔ جب ہر چیز ٹھیک ہوتو پیسہ سب سے اوپر آجاتا ہے اورخداکو دوسرے درجہ میں پہنچادیتا ہے :

When a catastrophe strike, God is tops. When all is tranquil, money manages to push God down to the second place.

یہ بات نہ صرف ہندستانیوں کے لیے صحیح ہے بلکہ وہ عام انسانوں کے لیے بھی بڑی حدتک درست ہے۔انسان کا حال یہ ہے کہ تکلیف اوربے بسی کے لمحات میں وہ سب سے زیادہ خدا کو یاد کرتا ہے۔اس وقت اس کی ساری توجہ خداکی طرف لگ جاتی ہے۔مگر جب حالات اچھے ہوں اورکوئی پریشانی سامنے نہ ہوتو وہ اپنے مادی مفادات کو اپنی تمام توجہ کا مرکز بنالیتا ہے۔

مگر اس قسم کی خدا پرستی خدا پرستی نہیں۔وہ صرف آدمی کے اس جرم کو بتاتی ہے کہ وہ اپنے رب کو بھولا ہواتھا۔وہ وقت جب کہ اسے خداکو یاد کرنا چاہیے تھا اس وقت اس نے خدا کو یاد نہیں کیا۔یہاں تک کہ خدانے اس کی حقیقت اس پر کھول دی۔اس کی آنکھ سے غفلت کا پردہ ہٹ گیا۔جب ایسا ہواتو وہ گھبراکر خداکو پکارنے لگا۔

انسان ایک آزاد اوربااختیار مخلوق ہے۔اس سے آزادا نہ خداپرستی مطلوب ہے نہ کہ مجبورانہ۔ انسان کا یاد کرنا وہ یاد کرنا ہے جب کہ اس نے راحت کے لمحات میں خداکو یاد کیاہو۔راحت کے وقت خداکو بھلائے رکھنا اورجب مصبیت آئے تو خدا کی طرف دوڑنا ایک ایسا عمل ہے جس کی خداکے یہاں کوئی قیمت نہیں۔

پھر یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ دولت کو سب سے بڑادرجہ دئے ہوئے ہیں وہ جھوٹے معبود کو اپنامعبود بنائے ہوئے ہیں۔جو چیز مصیبت کے وقت آدمی کا سہارانہ بنے،جس کو آدمی خود نازک لمحات میں بھول جائے وہ کسی کامعبود کس طرح ہوسکتی ہے۔

مومن کا ذہن

ایک روز کا واقعہ ہے۔میں انگریزی اخبار پڑھ رہا تھا۔اچانک مجھ پر ایک عجیب تجربہ گزرا۔مجھ کو محسوس ہواکہ کاغذ پر چھپے ہوئے انگریزی زبان کے الفاظ کو میں اردو زبان میں سمجھ رہا ہوں۔میری آنکھ اگرچہ ان کو انگریزی زبان میں پڑھ رہی ہے مگر میراذہن ان کو اردو زبان میں لے رہا ہے۔

یہی ہر شخص کا معاملہ ہے ،خواہ وہ اردوکا آدمی ہویاکسی دوسری زبان کا۔آدمی کسی بات کو ہمیشہ اپنی مادری زبان میں سمجھتاہے۔کان یاآنکھ کے راستہ سے بظاہر آدمی کے اندر ٹیبل کالفظ داخل ہوتا ہے۔مگر اردو کا ایک آدمی ٹیبل کو صرف اس وقت سمجھ پاتا ہے جب کہ اس کا ذہن اس کو میز میں تبدیل کرلے۔اسی طرح انگریزی کا ایک آدمی جب میز کا لفظ سنتا ہے تو وہ اس کو صرف اس وقت سمجھتا ہے جب کہ اس کاذہن اس کو ٹیبل کی صورت میں ڈھال لے۔انسانی ذہن کے اندر ایک اجنبی زبان کا لفظ داخل ہوتا ہے۔اس کے بعد ایک حیرت ناک واقعہ ہوتا ہے۔ذہن اس کوایک انتہائی پیچیدہ نظام سے گزار کر پراسرار طورپر اس کو اپنی مادری زبان میں تبدیل کرلیتا ہے۔

یہ واقعہ تمثیل کے انداز میں بتاتا ہے کہ مومن کا معاملہ اس دنیا میں کیا ہے۔مومن اس دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ ہر چیز جو اس کے اندر داخل ہوتی ہے وہ فی الفور خدائی حقیقت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔باہر جو چیز ایک مادی واقعہ ہے وہ مومن کے ذہنی سانچہ میں آکر روحانی واقعہ بن جاتی ہے۔ایک معاملہ جو باہر بظاہر انسانی معاملہ تھا وہ مومن کے ذہن میں داخل ہوتے ہی خدائی معاملہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک دنیوی چیز مومن کے ذہن میں پہنچ کر اخروی چیز کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔مومن کا ذہن ایک انتہائی پیچیدہ کارخانہ ہے جو ہر واقعہ کو ربانی واقعہ میں تبدیل کردیتا ہے۔

اس خدائی کا رخانہ میں ہروقت ایک عظیم عمل جاری رہتا ہے۔اس کے اندر ’’خام مال‘‘داخل ہوتا ہے اوروہ ’’تیارمال‘‘بن کر باہر آتا ہے۔ایک بظاہر بے معنی چیز اس سے گزرکر ایک انتہائی بامعنی چیزکی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔وہ شخص مومن ہے جس کا وجود اس قسم کا ایک ربانی کارخانہ بن جائے۔

خدائی کارخانہ

سورج گویا قدرت کا ایک کارخانہ ہے جو مادہ کو روشنی میں تبدیل کرتا ہے۔گائے ایک زندہ کارخانہ ہے جس میں گھا س داخل ہوتی ہے اورگوشت اوردودھ میں تبدیل ہوجاتی ہے اسی طرح درخت قدرت کا ایک کارخانہ ہے جس میں مٹی اورپانی اورگیس داخل ہوتے ہیں اور وہ پھول اورپھل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

یہ عمل جو سورج اوردرخت اورجانور میںکامیابی کے ساتھ ہورہا ہے ،یہی عمل انسان سے بھی اس کے خالق کو مطلوب ہے۔فرق یہ ہے کہ کائنات کی دوسری چیزوں میں تبدیلی کا عمل قانون قدرت کے تحت مجبورانہ طورپر انجام پاتاہے۔اورانسان میں تبدیلی کا یہ عمل خود انسان کے اپنے ارادہ کے تحت اختیارا نہ طورپر انجام دیاجاتا ہے۔دوسری چیزوں میں تبدیلی مادی اعتبار سے ہورہی ہے اورانسان کے اندر خدائی اعتبار سے۔

انسان سے اس کے پیداکرنے والے کو یہ مطلوب ہے کہ خارجی دنیا کے مشاہدات کو دلائل خداوندی میں تبدیل کرے۔جو چیز اس کے اندر صرف بطور ’’معلومات ‘‘داخل ہوئی تھی اس کو اپنے ذہن میں ’’معرفت ‘‘کی صورت دے سکے۔اس کو جب دنیا میں کوئی کامیابی حاصل ہوتو اس کووہ تمام تر خدا کے خانہ میں ڈال دے۔اس کو جب کوئی ناکامی ہوتو اس کے ذریعہ وہ عجز انسانی کی حقیقت کو دریافت کرے۔اس کو جب کسی سے شکایت ہوتو اس کا اندرونی نظام اس کو معافی اوردرگذرکی صورت میں تبدیل کردے۔وغیرہ

جو زمین اپنی مٹی کو درخت کی صورت میں تبدیل کرے اس کو زخیز زمین کہا جاتا ہے۔اورجو زمین اپنی مٹی کو درخت کی صورت میں تبدیل نہ کرسکے وہ بنجر زمین کہلاتی ہے۔یہی معاملہ انسانوں کا بھی ہے جو انسان اپنے اندرونی نظام کو اس طرح بیدار کرے کہ وہ خام چیزوں کو اعلیٰ چیزوں میں تبدیل کرنے لگے وہ مومن ہے جس انسان کا اندرونی کارخانہ ایسا کرنے میں ناکام رہے وہ کافر ہے۔

زرخیز زمین اوربنجر زمین میں جو فرق ہے وہی فرق مومن اورغیرمومن کے درمیان پایا جاتا ہے۔زرخیز زمین کے حصہ میں شادابی آتی ہے اوربنجر زمین صرف اجاڑ پڑی رہتی ہے۔اسی طرح مومن انسان کے لیے خداکے یہاں ہمیشہ کی جنت ہے اورغیر مومن انسان کے لیے خداکے یہاں ہمیشہ کی جہنم۔

صبر کا بدلہ

قرآن میں صبرکی بے حد تاکید کی گئی ہے ارشاد ہواہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے اوپر زیادتی کرے اورتم صبر نہ کرسکوتو اس کے ساتھ تم اتنا ہی کرسکتے ہوجتنا اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔مگر یہ صرف رخصت کی بات ہے۔ورنہ اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ تم معاف کردو اور انتقام کے بجائے اصلاح کا انداز اختیار کرو۔اگر تم ایسا کروگے تو تمہارااجر اللہ کے ذمہ ہو جائے گا اورتم کوکو ئی نقصان نہ ہوگا:فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (42:40)۔

دنیا کی زندگی میں بار بارایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کودوسرے شخص سے تکلیف پہنچتی ہے۔کبھی ایک آدمی دوسرے کو ایک قول دیتا ہے مگر بعد کو وہ اسے پورانہیں کرتا۔ کبھی کوئی شخص اپنے کو مضبوط پوزیشن میں پاکر کمزور فریق کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے۔کبھی کوئی شکایت پیش آنے کی بنا پر ایک شخص دوسرے شخص کو مٹانے اوربرباد کرنے پر تل جاتا ہے۔کبھی کوئی شخص موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اوراپنے ساتھی کو اس کا ایک جائز حق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔کبھی کسی کی ترقی دیکھ کر آدمی کے اندر حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ ناحق اپنے بھائی کی بربادی کے درپے ہوجاتا ہے۔

اب اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص مظلوم ہے اس کے دل میں ظالم کے خلاف آگ بھڑک اٹھتی ہے۔وہ اس کی زیادتیوں کو بھولنے اوراس کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔اس میں شک نہیں کہ ایسے مواقع پر دل کے زخم کو بھلا دینا انتہائی مشکل کام ہے۔لیکن اگر آدمی ایسا کرے کہ معاملہ کو اللہ کے اوپر ڈال دے ،وہ اللہ کی خاطر اس کو برداشت کرلے تو اس کا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیںجائے گا۔جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خداسے پاکر رہے گا۔

ایک شخص جب کسی کو ایک قول دیتا ہے تو گویا وہ اس کو ایک بینک چیک دے رہا ہے جو عمل کے وقت کیش کیا جاسکے۔مگر جب عمل کے وقت وہ اپنے قول سے پھر جاتا ہے تو گویا اس نے کاغذی چیک تو لکھ دیا مگر جب کھاتہ سے اس کی رقم لینے کا وقت آیا تو اس نے ادائیگی سے انکار کردیا۔ایسا تجربہ کسی انسان کے لیے تلخ ترین تجربہ ہے۔لیکن اگروہ صبر کرلے تو خداکاوعدہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے ا س کا بدلہ دے گا جو چیک انسانی بینک میں کیش نہ ہو سکا وہ خدائی بینک میں کیش ہوگا ،خواہ دنیا میں ہو یاآخرت میں۔

جنت والے

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ — اہل ایمان کو جس جنت میں داخل کیا جائے گااس کی معرفت انہیںاسی دنیا میں کرائی جاچکی ہوگی:وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ (47:6)۔دوسری جگہ ارشاد ہواہے کہ — جنت کا رزق اس رزق کے مشابہ ہوگا جس کی توفیق انہیںدنیا کی زندگی میں ملی تھی:وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا (2:25)۔حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت دوزخ دراصل انسان ہی کے اعمال ہیں جو آدمی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں:إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ تُرَدُّ إِلَيْكُمْ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، جلد5، صفحہ 125)۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ جنت میں داخلہ کا آغاز اِسی دنیا سے ہوجاتا ہے۔جنتی انسان اپنی جنت کو اسی دنیا میں پالیتا ہے۔گویا کہ جنت کا ایک مثنیٰ اسی دنیا میں ہے اور آخرت کی جنت میںوہی شخص جائے گاجس نے دنیا میںجنت کے اس مثنیٰ کو پالیا ہو۔ جنت کا یہ دنیوی مثنیٰ گویا نقد انعام ہے جو اصل انعام سے پہلے اس کی ایک ابتدائی علامت کے طور پر دے دیاجاتاہے۔

یہ جنتی کون ہے۔یہ وہ شخص ہے جس نے دنیا میں ان کیفیات کا تجربہ کیا ہوجو آخرت میں اس کو جنت کا مستحق بنانے والی ہیں۔جس کے رونگٹے کھڑے ہوکر اس کو خدائی محاسبہ کا احساس دلا چکے ہوں۔ جس کے قلب پر ٹکڑے کردینے والی تجلیات کے نزول نے اس کو قربت خداوندی سے آشنا کیا ہو۔ جس نے بغض وانتقام کے جذبات کو اپنے اندر کچل کر عفوخداوندی کا مشاہدہ کیا ہو۔جس نے اپنے ندامت کے آنسوئوں میں وہ منظر دیکھا ہو جب کہ ایک مہربان آقا اپنے خادم کے اعتراف قصور پر اس سے درگزر فرماتا ہے۔جس پر یہ لمحہ گزراہو کہ ایک شخص پر قابو پانے کے باوجود وہ اس کو اس لیے چھوڑدے کہ اس کا خدابھی اس دن اسے چھوڑدے جب کہ وہ اس سے زیادہ عجز کی حالت میں ہوگا۔جو ایک امر حق کے آگے اس طرح گرپڑے جیسے لوگ آخرت میں خدا کو دیکھ کر ڈھ پڑیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ مومن جنت کا ایک پھول ہے۔وہ موجودہ دنیا میں آنے والی دنیا کا ایک ابتدائی شگوفہ ہے۔مومن پر وہ سارے تجربات اسی دنیا میں گزرجاتے ہیں جو دوسروں پر موت کے بعد گزرنے والے ہیں۔آدمی کی زندگی میں مختلف قسم کے جو حالات پیش آتے ہیں انہیں میں ہر آدمی کی جنت اورجہنم چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ان حالات میں شیطانی رد عمل پیش کرکے کوئی شخص جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے اورملکوتی رد عمل پیش کرکے کوئی شخص جنت کا۔

اپنا احتساب

کھیت میں جب فصل بوئی جاتی ہے تو فصل کے ساتھ طرح طرح کے گھاس پھوس بھی اگتے ہیں۔ گیہوں کے ہر پودے کے ساتھ ایک خود روگھاس بھی نکلتی ہے اورسرسوں کے ہر درخت کے ساتھ ایک خودرو پودابھی بڑھنا شروع ہوتا ہے۔یہ اپنے آپ نکلنے والے گھاس پھوس فصل کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں ،وہ کھیت کے پانی اورکھاد میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔وہ اصلی فصل کو بھر پورطور پر بڑھنے نہیں دیتے۔

کسان اگر ان خودروپودوں کو بڑھنے کے لیے چھوڑدے تو وہ ساری فصل کو خراب کردیں۔کھیت میں دانہ ڈال کر کسان نے جو امیدیں قائم کی ہیں وہ کبھی پوری نہ ہوں۔اس لیے کسان یہ کرتا ہے کہ وہ کھیت میں نرائی (weeding)کا عمل کرتا ہے۔وہ ایک ایک خودروپودے کو نکالتا ہے تاکہ کھیت کو ان سے صاف کردے اورفصل کو بڑھنے کا پورا موقع ملے۔ہر کسان جانتا ہے کہ کھیت میں دانہ ڈالنا ہی کافی نہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ فصل کے ساتھ اگنے والی دوسری گھاسوں کو چن چن کر نکال دیا جائے ،ورنہ کھیت سے مطلوبہ فصل حاصل نہیں ہوسکتی۔

یہ نرائی کا عمل جو کھیت میں کیا جاتا ہے یہی انسانی زندگی میںبھی مطلوب ہے اوراس کا دینی نام محاسبہ ہے۔انسان کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اس کو جب کوئی خوبی کی چیز حاصل ہوتی ہے تو اسی کے ساتھ ایک ’’خودرو گھاس ‘‘بھی اس کے اندر سے اگنا شروع ہوتی ہے۔اس خودرو گھاس کو جاننا اوراس کو اپنے اندر سے نکال پھینکنا انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ آدمی کا انجام وہی ہوگا جو بغیرنلائی کیے ہوئے کھیت کا۔

کسی کو اسباب و وسائل ہاتھ آجائیں تو اس کے اندر بے جاخوداعتماد ی کا جذبہ ابھرتا ہے۔اقتدار مل جائے تو گھمنڈ پیدا ہوتا ہے۔اسی طرح دولت کے ساتھ بخل ،علم کے ساتھ فخر ،مقبولیت کے ساتھ ریا اور سماجی عزت کے ساتھ نمائش کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں۔یہ تمام چیزیں گویا خود روگھاس ہیں جو کسی آدمی کی خوبیوںکو کھاجانے والی ہیں۔ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اس اعتبار سے اپنا نگراں بن جائے اورجب بھی اپنے اندر کوئی ’’خودرو گھاس‘‘اگتے ہوئے دیکھے تو اس کو اکھاڑکر پھینک دے۔جو شخص اپنے اوپر محاسبہ کا عمل نہ کرے گاوہ یقینی طورپر اس دنیامیں برباد ہوجائے گا۔وہ ایسا کھیت ہوگاجس کی فصل تباہ ہوگئی ،وہ ایسا باغ ہوگا جس کی ساری بہار خزاں میں تبدیل ہوگئی۔

ثواب

جن لوگوں کو اللہ نے پیسہ دیا ہے وہ عام طور ایسا کرتے ہیں کہ اپنے ملازموں اورماتحت کارکنوں کی تو صرف واجبی تنخواہ یا اجرت دیتے ہیں۔دوسری طرف کانفرنس یاریلیف فنڈ یا مشہور اداروں کو بڑی بڑی رقمیں دے کر خوش ہوتے ہیں۔اگر ان سے پوچھئے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو وہ کہیں گے کہ ملازم یا کارکن کو جو رقم دی جاتی ہے تو وہ ان کے کام کی اجرت ہوتی ہے۔اس پر ہم کو ثواب نہیں ملے گا۔انھوں نے ہماری خدمت کی اورہم نے ان کو معاوضہ دے دیا۔اس پر ثواب کیسا۔یہ تو دونوں طرف سے معاملہ برابر ہوگیا۔اس کے برعکس اداروں اورملی کاموں میں رقم دی جاتی ہے ان کے متعلق یقینی ہے کہ ان پر ثواب ملے گا۔

مگر اس کی تہہ میں اصل بات کچھ اور ہے یہ جواب محض اصل بات پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے دل میں چھپی خواہش موجود ہے کہ وہ جو کچھ دے اس کا معاوضہ اس کو اسی دنیا میںملے۔غریب آدمی یہ معاوضہ پیسہ کی صورت میں چاہتا ہے۔مگر جن لوگوں کے پاس کافی پیسہ آجاتا ہے ان کو جس معاوضہ کی تمنا ہوتی ہے وہ سماجی حیثیت (social status)ہے۔یہی وہ چھپی ہوئی خواہش ہے جو اس قسم کے لوگوں کے انفاق کا رخ بڑی بڑی قابل ذکر مدوں کی طرف کردیتی ہے۔

ظاہر ہے کہ غریب ملازم یا کارکن یہ معاوضہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔اس کے پاس نہ اخبار ہوتا ہے نہ اسٹیج۔اس کے پاس اونچی بلڈنگوں والے ادارے ہیں اورنہ استقبال کرنے والا حلقہ۔مگر ایک شخص جب کسی مشہور ادارہ یاکسی ’’عظیم الشان‘‘ملی مہم میں رقم دیتا ہے تو اس کو امید رہتی ہے کہ اس کو شان دار معاوضہ ملے گا۔جلسوں کی صدارت ، عوامی مواقع پر نمایاں نشست ،اداروں میں پر زوراستقبال ،سماجی حیثیت میں اضافہ ، اخباروں میںنام چھپنا اوربڑے بڑے لوگوں کی صف میں جگہ ملنا ،وغیرہ۔

ثواب کا تعلق نیت سے ہے نہ کہ قابل تذکرہ مدوںسے۔ثواب حقیقتہً اس عمل میں ہے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔ثواب یہ ہے کہ اللہ کی خاطر ایسی مدوں میں دیا جا ئے جو لوگوں کو دکھائی نہیں دیتیں۔ان مواقع پر خرچ کیا جائے جہاں ہر قسم کے دوسرے محرکات حذف ہوجاتے ہیں۔جس انفاق کافائدہ اسی دنیا میں وصول کرلیا گیا ہواس کا فائدہ کسی کو آخرت میں ملے گاتو کیوں ملے گا۔

لوگ دکھائی دینے والے مقامات پر انفاق کررہے ہیں حالاں کہ خداان کے انفاق کو قبول کرنے کے لیے اس مقام پر کھڑاہواہے جو ظاہر پرست انسانوں کودکھائی نہیں دیتا۔

نمائشی حق پرستی

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پتھر کے اوپر کچھ مٹی جم جاتی ہے۔اس مٹی کے اوپر سبزہ اگ آتا ہے۔بظاہر دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کوئی کھیت ہو۔لیکن اگر زور کی بارش ہوجائے تو مٹی سمیت سارا سبزہ بہہ جاتا ہے اوراس کے بعد صرف پتھر کی صاف چٹان باقی رہ جاتی ہے جو ہر قسم کی ہریالی اورنباتات سے بالکل خالی ہوتی ہے۔

یہی معاملہ اکثر انسانوں کا ہے۔وہ دیکھنے میں بظاہر بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ظاہری طور طریق میں بہت ’’شاداب ‘‘نظر آتے ہیں۔مگر حالات کا ایک جھٹکاان کی ساری شادابی اورہریالی کو ختم کردیتا ہے۔اس کے بعد ان کی شخصیت ایک سوکھے پتھر کی مانند ہوکر رہ جاتی ہے۔

ایک شخص جو بات چیت میں شرافت اورمعقولیت کی تصویر بنا ہواتھا وہ عملی تجربہ کے وقت اچانک ایک نامعقول انسان بن جاتا ہے۔ایک شخص جو انصاف اورانسانیت کے موضوع پر تقریر کررہا تھا وہ عمل کے موقع پر بے انصافی کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ایک شخص جو مسجد کے رکوع اورسجدہ میں تواضع کا مظاہر ہ کررہا تھا وہ مسجد کے باہر انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں گھمنڈ اورخود پسندی کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ایک شخص جو دوسروں کو عالی ظرفی اورحقوق رسی کی تلقین کررہا ہے جب اس کا اپنا وقت آتا ہے تو وہ بغض ،حسد اورظلم کے راستہ پر چلنے لگتا ہے۔

یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں ہر آدمی کی آزمائش ہورہی ہے۔یہ آزمائش معمول کے حالات میں نہیں ہوتی بلکہ غیرمعمولی حالات میں ہوتی ہے۔مگر عجیب بات ہے کہ آدمی عین اس وقت ناکام ہوجاتا ہے جب کہ اس کو سب سے زیادہ کامیابی کا ثبوت دینا چاہیے۔

لوگ باتوں میں حق پرستی کا ثبوت دے رہے ہیں حالانکہ حق پرستی وہ ہے جس کا ثبوت عمل سے دیا جائے۔لوگ دوستی کے وقت خوش اخلاق بنے رہتے ہیں حالانکہ خوش اخلاق وہ ہے جو بگاڑ کے وقت خوش اخلاق ثابت ہو۔لوگ خدا کے سامنے تواضع کی رسم ادا کر کے مطمئن ہیں حالانکہ کسی کا متواضع ہونا یہ ہے کہ وہ بندوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں تواضع پر قائم رہے۔

چٹان کی مٹی پر کی جانے والی کھیتی نمائشی ہے۔ایسی کھیتی کسی کسان کے کچھ کام آنے والی نہیں۔سیلاب کا ایک ہی ریلا اس کو جھوٹی کھیتی ثابت کردیتا ہے۔اسی طرح نمائشی حق پرستی بھی جھوٹی حق پرستی ہے جس کو قیامت کا سیلاب اس طرح باطل ثابت کردے گا کہ وہاں اس کے لیے کچھ نہ ہوگا جو اس کا سہارابنے۔

زند ہ قبرستان

میں اسپتال کے اندر کھڑا تھا۔میرے سامنے طرح طرح کے مریض تھے۔ہر مریض درد والم کی تصویر بناہواتھا کسی کے ہاتھ میں تکلیف تھی اورکسی کے پائوں میں۔کسی کے پیٹ میں درد ہورہاتھا،کسی کی پیٹھ حادثہ کاشکار ہوگئی تھی۔اسپتال کی دنیا کا ہر آدمی مصیبت زدہ تھا۔یہاں کا ہر باشندہ انسانی عجز کانمونہ پیش کررہا تھا۔

میں نے سوچا ’’جسم کی کوئی ایک بات بگڑ جاتی ہے تو آدمی کا یہ حال ہوجاتاہے۔پھر اس وقت آدمی کا کیاحال ہوگا جب کہ اس کی ساری بات بگڑ جائے گی۔جب انسان سے اس کی ہر وہ چیز چھن جائے گی جس کو وہ اپنی چیز سمجھ کر سرکشی کررہا تھا‘‘۔

پہلے زمانہ میں آدمی عبرت کے لیے قبرستان جاتا تھا۔اب اس کو عبرت کے لیے اسپتال جانا چاہیے۔قبرستان میں ’’مصیبت زدہ ‘‘زمین کے نیچے ہوتا ہے۔اوراسپتال میں مصیبت زدہ زمین کے اوپر دکھائی دیتا ہے۔قبرستان میںعبرت کی چیز کو سوچ کر تصور میں لانا پڑتا ہے۔اور اسپتال میں عبرت کی چیز بالکل زندہ حالات میں آنکھ کے سامنے موجود ہوتی ہے۔

اسپتال گویا زندہ قبرستان ہے۔اسپتال کی دنیا سراپا عبرت کی دنیا ہوتی ہے۔کوئی آدمی حادثہ کا شکار ہوکر یہاں آیا ہے۔کوئی سخت بیماری میں مبتلا ہے۔کسی کے جسم میں کوئی ضروری چیز کم ہوگئی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کراہ رہا ہے۔کوئی چیخ رہا ہے۔ غرض بے بسی وبے چارگی کے عبرت ناک مناظر ہیں جو اسپتال میں ہر طرف بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ مناظراس لیے دکھائے جاتے ہیں کہ آدمی ان سے سبق لے۔وہ دوسروں کی تکلیف میں اپنی تکلیف کاعکس دیکھے۔وہ جزئی واقعہ میں کلی حقیقت کا مشاہدہ کرے۔وہ دنیا کے واقعہ میں آخرت کے واقعات کا احساس کرلے۔

ایسے مناظر ہر آدمی کے سامنے آتے ہیں۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو ان سے سبق لیتے ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سبق لینے کے لیے غیر کی حالت کو اپنے اوپر طاری کرنا پڑتا ہے۔جو کچھ ابھی پیش نہیں آیا اس کا احساس اس طرح کرنا پڑتا ہے گویا کہ وہ پیش آچکا ہے۔یہ مستقبل کو حال کے اندر دیکھنا ہے اور کتنے لوگ ہیںجو مستقبل کو حال کے اندر دیکھنے والی نظر رکھتے ہوں۔

اسم اعظم کیا ہے

ایک بزرگ سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ اللہ کا اسم اعظم کیا ہے۔بزرگ نے فرمایا جب آدمی کا پیٹ غذ اسے خالی ہواوراس کا دل کینہ سے خالی ہوتو وہ اللہ کے ناموں میںسے جس نام سے بھی اپنے رب کو پکارے گاوہی اسم اعظم ہوگا(تذکرۃ الاولیاء)۔ گویا اسم اعظم کا تعلق ’’اسم ‘‘سے نہیں بلکہ کیفیت سے ہے۔اسم اعظم وہ ہے جو اعلیٰ کیفیات کے ساتھ زبان سے نکلے۔کیفیات کی عظمت کسی اسم کو اسم ِ اعظم بناتی ہے نہ کہ حروف تہجی کی عظمت۔ پیٹ خالی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آدمی مادیات کے غلبہ سے آزاد ہے اور دل میںکینہ نہ ہونا بتاتا ہے کہ آدمی اپنے سینہ میںکسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگی لیے ہوئے نہیں ہے۔جب کوئی آدمی اپنے کو مادی رونقوں سے اور انسانی شکایتوں سے اوپر اٹھا لیتا ہے تو وہ خدا کے بہت قریب ہوجاتا ہے۔اس کو خدا کے خصوصی فیضان میں سے حصہ ملنے لگتا ہے۔ایسے وقت میں خدا کے صفاتی ناموں میں سے کوئی نام جب اس کی زبان پر آتا ہے تو وہ ربانی کیفیات میں نہا یا ہواہوتا ہے۔ان کیفیات کے ساتھ جو بہترنام آدمی کی زبان سے نکلے وہی اس کے لیے اسم اعظم ہے۔

کچھ لوگ اسلام کے معاملہ کو پاک کلمات کا ایک پراسرار معاملہ سمجھتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ اسلام کے کچھ خاص عربی الفاظ ہیں جن میں طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں۔اگر کوئی شخص ان پاک الفاظ کو یاد کرلے اورزبان سے ان کو ادا کرے تو ان کی صرف ادائیگی سے کراماتی نتائج ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔دنیا میں آل و اولاد میں برکت ہوگی اور آخرت میں جنتی محل بننے لگیں گے۔ان کے نزدیک ان بابرکت کلمات میں سب سے زیادہ اونچا ’’اسم اعظم‘‘ہے۔مگر یہ محض بے بنیاد خیال ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت میں موجود نہیں۔

اسم اعظم حقیقۃً حروف کے کسی مجموعہ کانام نہیں بلکہ کیفیات کے مجموعہ کانام ہے۔اللہ کو جب کوئی بندہ اس طرح یادکرتا ہے کہ وہ ہردوسری چیز سے اپنا رخ موڑ کر صرف اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔وہ اللہ میں اپنے آپ کو اس طرح شامل کرتا ہے کہ انسانوں کے لیے اس کے دل میں خیرخواہی کے سواکوئی اورجذبہ باقی نہیں رہتا تو اس وقت اس کی زبان سے اللہ کے لیے جو کلمات نکلتے ہیں ،اسی کا نام اسم اعظم ہے۔اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے ترجمہ’’کہو کہ تم اللہ کہہ کر پکارویارحمٰن کہہ کر پکارو،جس نام سے بھی پکاروگے تو اس کے سب نام اچھے ہیں ‘‘(17:110)۔اللہ خالق بھی اور مالک بھی وہ رحیم بھی ہے اور اکبر بھی۔وہ سب کچھ ہے۔جس برتر نام سے بھی آدمی اس کو پکارے وہ اس کے لیے جائز ہوگا۔البتہ پکارنے والے کی زبان سے نکلنے والا ایک لفظ کبھی اس کے لیے ’’اسم اعظم‘‘بن جاتا ہے۔یہ پکارنے والے کی کیفیت پر ہوتا ہے۔اللہ کو اس کی صفتوں میں سے کسی صفت سے پکارنا کبھی سادہ اورعام حالت میں ہوتا ہے اورکبھی اس طرح ہوتا ہے کہ خدا کانام لیتے ہوئے آدمی کی شخصیت پھٹ پڑتی ہے۔خدا کا نام لینا اس کی روح میں برپا ہونے والے طوفان کی آواز ہوتا ہے۔اس طرح دل کے بھونچال کے ساتھ خداکانام لینا عام حالت میں اس کا نام لینے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔وہ اس کی زبان سے ادا ہونے والے اسم کو اسم اعظم بنا دیتا ہے۔بندہ جب اللہ کی عظمتوں کے احساس سے سر شار ہو اور اس کی سرشاری زبان پر لفظ کی صورت میں ڈھل جائے تویہی اللہ کو اسم اعظم کے ساتھ یاد کرنا ہے۔

جھوٹی دھوم

ٹائمس آف انڈیا (30مئی 1985)میںہند ستانی شادیوں کے بارے میں ایک سبق آموز رپورٹ شائع ہوئی ہے۔اس کا عنوان ہے:ہیلی کاپٹر بارات(Copter Barat)۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ سوائی مادھوپور کی مینا برادری میں خوش حالی کی علامت اب یہ بن گئی ہے کہ بارات دلہن کے گھر آئے تو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ آئے ،خواہ دولہا کے گھر سے دلہن کے گھر تک کافاصلہ 10کلو میٹر ہی کیوں نہ ہو۔اس سے پہلے شادیوں میںجہیز اورتلک کی دھوم تھی۔اب اس سے آگے بڑھ کر بمبئی کی ایک فرم سے ہیلی کاپٹر کرایہ پر حاصل کیے جارہے ہیں۔

شادیوں میں ہیلی کارپٹر کا استعمال کیوں کیا جارہا ہے ،اس کا جواب اخباری رپورٹر نے ان الفاظ میں دیا ہے :

The parents of the bride expect the barat to reach village with adequate pomp and show.

دلہن کے والدین امید کرتے ہیں کہ بارات ان کے گائوں میں دھوم دھام کے ساتھ آئے۔

انسان سمجھتا ہے کہ اس کی سواری کسی دولہا یاکسی دلہن کے گھر اترنے والی ہے۔اس لیے وہ شان وشوکت کے ساتھ اپنی سواری لے جانے کا اہتمام کررہا ہے۔اگر انسان کو یہ معلوم ہوکہ اس کی سواری بالآخر جہاں پہنچنے والی ہے وہ مالک کائنات کی عدالت ہے تو انسان کی سوچ یکسر بدل جائے۔اس کو معلوم ہو کہ شان والی شادی اوربے شان والی شادی میںکوئی فرق نہیں۔

کوئی شخص اپنی قتل گاہ کی طرف دھوم مچاتا ہوانہیں جاتا۔کوئی شخص ایک ایسی عدالت میں جشن کے ساتھ داخل نہیں ہوتا جہاں ایک بااختیار جج اس کے خلاف فیصلہ سنانے کے لیے بیٹھا ہواہو مگر اپنی آخری منزل کے بارے میں ہر آدمی اسی نادانی میں مبتلا ہے۔

کامیاب انسان وہ ہے جس کی سواری خدا کے یہاں باعزت طورپر اتاری جائے  اورناکام انسان وہ ہے جو خد اکے یہاں اس حال میں پہنچے کہ وہاں اس کی حیثیت ایک غیر مطلوب انسان کی ہو۔وہاں نہ کوئی اس کا استقبال کرنے والا ہواور نہ کوئی اس کی خبر گیری کرنے والا۔

لطیف تجربات

الا صمعی عبدالملک بن قریب کا بیان ہے کہ میں نے بصرہ میں دیکھا کہ دو قبریں ہیں ِ، ان کے درمیان ایک لڑکی بیٹھی ہوئی رورہی ہے۔غم کی وجہ سے اس کا براحال ہورہا ہے۔ میں قریب ہوا تو میں نے سنا کہ وہ ان الفاظ میں دعا کر رہی ہے :

اللَّهُمَّ إِنَّكَ لَمْ تَزَلْ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ، وَأَنْتَ الْكَائِنُ بَعْدَ كُلِّ شَيْءٍ، وَقَدْ خَلَقْتَ وَالِدَيَّ قَبْلِي وَخَلَقْتَنِي بَعْدَهُمَا مِنْهُمَا أَنِسْتَنِي بِقُرْبِهِمَا مَا شِئْتَ، ثُمَّ أَوْحَشْتَنِي مِنْهُمَا، إِذَا شِئْتَ، فَكُنْ لِي وَلهمَا مُؤْنِسًا، وَكُنْ لِي بَعْدَهُمَا حَافِظًا )ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(1454۔یعنی،اے اللہ ،تو ہی سب سے پہلے ہے اورتو ہی سب سے بعد ہے۔تو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ،اے میرے رب تو نے ہی میرے ماں باپ کو مجھ سے پہلے پیدا کیا ،اس کے بعد ان دونوں سے مجھ کو پیدا کیا۔تو نے ان کے ساتھ مجھے سکون دیاجب تک تو نے چاہا اورپھر جب چاہا تو نے ان کو مجھ سے جدا کر دیا۔اے اللہ ،تو مجھ پر اور ان دونوں پر رحم فرما اوران کے بعد میری حفاظت فرما۔

اصمعی کابیان ہے کہ اس لڑکی کے حسن کلام نے میری عقل کو مبہوت کردیا۔میں نے اس سے کہا کہ اے بیٹی اپنے کلام کو پھر ایک باردہرائو۔ یہ سن کر اس نے اپنا سراٹھایا اورمیری طرف دیکھ کر بولی اے شیخ ،خدا کی قسم میں تمہاری بیوی نہیں کہ تم مجھ سے اس قدر بے تکلف ہو۔تم کو اپنے گھر والوں سے بے تکلف ہونا چاہیے۔اصمعی کہتے ہیں خدا کی قسم میں یہ سن کر شرما گیا اوروہاں سے بھا گ آیا(ففررت واللہ عنھا حیاء منھا

ایک معمولی لڑکی کے لیے یہ کیسے ممکن ہواکہ وہ اتنے گہرے انداز میں دعا کر ے۔ اس کی وجہ وہ حادثہ تھا جو اس پر گزرا۔آدمی جب کسی جھٹکے سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے اندر چھپے ہوئے لطیف جذبات جاگ اٹھتے ہیں۔وہ ایسی باتیں پالیتا ہے جو اس نے اس سے پہلے نہیں پائی تھی۔وہ ایسے الفاظ بولنے لگتا ہے جو اس سے پہلے کبھی اس کی زبان پر نہیں آئے تھے۔آدمی طبعی طور پر آسودگی کے حالات کو پسند کرتا ہے۔مگر آسودگی کسی آدمی کو صرف اس قیمت پر ملتی ہے کہ وہ ان ربانی تجربات سے محروم رہ جائے جواس کی فطرت کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے تھے۔

دعا

’’میرے لیے بائیسکل خریددیجیے ‘‘ایک غریب خاندان کے لڑکے نے اپنے باپ سے کہا۔باپ کے لیے بائیسکل خریدنا مشکل تھا۔اس نے ٹال دیا۔لڑکا باربار کہتا رہا اور باپ باربار منع کرتا رہا۔آخر کار ایک روز باپ نے ڈانٹ کرکہا’’میں نے کہہ دیاکہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا‘‘۔

یہ سن کر لڑکے کی آنکھ میں آنسوآگئے۔وہ کچھ دیر تک چپ رہا۔اس کے بعد روتے ہوئے بولا ’’آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں۔پھر آپ سے نہ کہیں تو اورکس سے کہیں ‘‘اس جملہ نے باپ کو تڑپا دیا۔اچانک اس کا انداز بدل گیا۔اس نے کہا ’’اچھا بیٹے ،اطمینا ن رکھو۔ میں تم کو ضرور بائیسکل دوں گا ‘‘یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔اگلے دن اس نے پیسہ کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے نئی بائیسکل خریددی۔

لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہاتھا۔مگر یہ ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی۔جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہوگئی تھی۔اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطہ پر کھڑاکر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی جتنا وہ خود اس کے اپنے لیے تھی۔

یہ انسانی واقعہ خدائی واقعہ کی تمثیل ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی دعا ہے جو لوٹائی نہیں جاتی۔یہ وہ دعا ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین وآسمان بھی نہ کرسکیں۔جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’بیٹا‘‘اور’’باپ‘‘دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔

یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا محض زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔قادرمطلق عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔

خدا ئی اخلاقیات

 

کائنات کی شاہراہ

انسان ایک کامل دنیا کے اندر غیر کامل وجود ہے۔ستارے اورسیارے ،ہوااورپانی ، درخت اورجانور سب ویسے ہی ہیں جیساکہ انہیںہونا چاہیے۔وہ فطرت کی مقرر شاہراہ سے نہیں ہٹتے۔اس کے برعکس انسان فطرت کی شاہراہ سے ہٹ جاتا ہے۔انسان ویسا بنتا ہے جیسا اسے نہیں بننا چاہیے۔انسان وہ کرتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے۔

انسان کا یہ تضاد سوال بھی ہے اوراسی کے اندر اس کاجواب بھی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے تمام مسائل کاسبب یہ ہے کہ وہ کائنات کی شاہراہ سے ہٹ گیا ہے۔اور اس کے تمام مسائل کاحل یہ ہے کہ وہ کائنات کی شاہراہ کو دوبارہ اختیار کرلے۔

فطرت کی جو شاہراہ بقیہ چیزوں کے لیے اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ ان کو ایک معیاری دنیا میں ڈھال دے ،وہی شاہراہ یقینی طورپر اس بات کی بھی ضمانت ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کو معیاری معاشرہ میں تبدیل کرسکے۔

ہماری غیر معیاری دنیا کے باہر جب ایک وسیع ترمعیاری دنیا موجود ہے تو یقینی طور پر ہمارے لیے پہلا صحیح ترین انتخاب یہی ہوسکتا ہے کہ ہم اس دنیا کو سمجھیں اوراس کے اصولوں کواپنی زندگی پر منطبق کریں۔

کائنات کے مطالعہ سے جو واضح ترین بات سامنے آتی ہے، وہ یہ کہپوری مادّی کائنات ایک متعین قانون فطرت میںجکڑی ہوئی ہے۔وہ کسی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتی۔ہائیڈروجن اورآکسیجن کے مالیکیول سے پانی بننے کا جو اصول ہے وہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے۔مختلف عناصر کے امتزاج سے کیمیائی مرکبات ہمیشہ ایک ہی لگے بندھے اصول کے تحت بنتے ہیں۔معدنیات کا پگھلنا اورپانی کا بھاپ بننا ہمیشہ ایک ہی معلوم قانون فطرت کے مطابق وقوع میں آتے ہیں۔یہی انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کے کردار کو اس حدتک معلوم اورمتعین ہونا چاہیے کہ اس کی پیشین گوئی کی جا سکے۔ انسان کا کردار قابل پیشین گوئی کردار ہونا چاہیے ،نہ یہ کہ خواہشات کے تحت وہ کبھی ایک قسم کے کردار کا مظاہرہ کرے اورکبھی دوسرے قسم کے کردار کا— اخلاقیات کا ایک ہی صحیح معیار ہے۔انسان کے لیے بھی اوربقیہ کائنات کے لیے بھی۔

حسن سلوک

سماج میں جو لوگ بے سہارا ہوگئے ہوں ان کا سہارا بننا بہت بڑی عبادت ہے۔ ماں باپ آخری عمر کو پہنچ جائیں۔ایک بچہ یتیم ہوگیا ہو۔ایک شخص اپنے وطن سے دور سفر کی حالت میں کسی مشکل میں پھنس جائے۔اس طرح کی دوسری صورتیں جب کہ آدمی کی ضروریات تمام تر دوسروں کے اوپر منحصر ہوجاتی ہیں ،اس وقت کسی کی مدد کرنا ،ایسے نازک وقتوں میں کسی کے کام آنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا بہت ثواب ہے۔ اس کی اہمیت قرآن سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی۔

اس طرح کے عمل کی اتنی افضلیت کیوں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کی عاجزانہ حیثیت کا عملی اقرار ہے۔ہرانسان خدا کے سامنے کا مل طورپر عاجز ہے۔ہر آدمی کو خدا کے دئے سے ملتا ہے اور اسی کے چھیننے سے چھن جاتا ہے۔اسی کی معرفت کانام ایمان ہے اور اسی کو مراسم عبودیت کی شکل میں ادا کرنے کانام پرستش ہے۔

لیکن آدمی اپنے ایمان اوراپنی عبادت میںسچا ہے یا نہیں ،اس کی صحیح جانچ اس وقت ہوتی ہے جب کہ ایک کمزور اوربے سہارا انسان سے اس کا سابقہ پڑے۔ایسے ہر موقع پر گویا ایک شخص ہمارے سامنے اسی حالت عجز میں لایا جاتا ہے جس حالت عجز میں خود ہم کو خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔اپنے جس احتیاج کی بنا پر ہم کسی خدا سے اپنے لیے مدد کے طلب گارہیں اسی احتیاج میں مبتلا ایک شخص ہمارے سامنے کردیاجاتا ہے تاکہ ہم کسی استحقاق اوردبائو کے بغیر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرکے خدا سے کہیں کہ خدا یاتو بھی ہمارے ساتھ بہتری کا معاملہ فرماجب کہ تیرے اوپر نہ ہماراکوئی حق ہے اورنہ کوئی دبائو۔

عاجز انسان کے ساتھ حسن سلوک دراصل خداکے سامنے اپنی حیثیت عجز کا اقرار ہے۔یہ اپنی دعا کو خداکے آگے عمل کی صورت میںدہرانا ہے۔یہ خدا کے سامنے اپنی   بےیارومددگار حیثیت کی دریافت ہے ایک مومن جب کسی ایسے آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کے روپ میں وہ خود اپنے آپ کو خداکے مقابلہ میں دیکھنے لگتا ہے۔

یہ ادراک اس کو تڑپا دیتا ہے۔وہ چاہنے لگتا ہے اس بے سہاراآدمی کو وہ سب کچھ دے دے جو اس کے پاس ہے تاکہ وہ اپنے خداسے وہ سب کچھ پاسکے جو خدا کے پاس ہے۔دوسرے کی مدد کرنا گویا خداسے یہ دعا کرنا ہے کہ خدایا تو بھی اسی طرح میری مدد کر۔

سرسبز درخت

درخت جب بلند ہوکر فضا میں اپنی شاخیں پھیلاتا ہے اورایک ہرے بھرے وجود کی صورت میں زمین پر کھڑا ہوجاتا ہے تو وہ دیکھنے والوں کی نظر میں کتنا حسین ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک کامل وجود ہے۔اس نے وہ سب کچھ پالیا ہے جو اسے پانا تھا ،اس نے کائنات میں اپنے لیے وہ جگہ حاصل کرلی ہے جو اسے درکار تھی۔

اس کے برعکس انسان کو دیکھیے تو انسان ایک محروم اورناکام وجود نظر آتا ہے۔یہاں پائے ہوئے لوگ بھی اندر سے خالی ہیں۔کامیاب لوگ بھی مستقل طورپر ناکامی کے احساس سے دوچار ہیں۔انسان اس کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ہے۔وہ دوسری تمام چیزوں سے برتر اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے۔ایسی حالت میں اس کا دوسری انواع سے پیچھے ہونا کس قدر عجیب ہے۔

ایک درخت کا دوسرے درخت سے کوئی ٹکرائو نہیں ،جب کہ ایک انسان دوسرے انسان سے لڑتا ہے۔جس درخت سے جس پھل کی امید کی جاتی ہے وہ ہمیشہ اپنی شاخ پر وہی نکالتا ہے۔جب کہ انسان کا حال یہ ہے کہ اس سے جو امید کی جائے اس پر وہ پورانہیں اترتا۔درخت اپنے دشمن کوبھی سایہ دیتا ہے اور اپنے دوست کوبھی۔جب کہ انسان اپنے دوست کے لیے کچھ ثابت ہوتا ہے اورغیر دوست کے لیے کچھ۔

اس فرق کاکوئی پراسرار سبب نہیں۔اس کا سبب دونوں کے مطالعہ سے بہ آسانی معلوم کیا جاسکتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ درخت اوردوسری چیزیں اپنے خالق کے نقشہ پر قائم ہیں۔اس کے برعکس انسان اپنے خالق کے نقشہ پر قائم نہیں۔

یہ کائنات ایک مرکزی اورمجموعی نقشہ کے مطابق بنی ہے۔یہاں امن وسکون اس مرکزی اورمجموعی نقشہ سے مطابقت کے ذریعہ ہی حاصل کیاجاسکتا ہے۔یہاں کامیابی کائناتی منصوبہ سے ہم آہنگی کی قیمت ہے اورناکامی اس سے ہم آہنگ نہ ہونے کی قیمت۔

خداکی طرف سے جو پیغمبر آتے ہیں وہ دراصل اسی خلا کو پرکرنے کے لیے آتے ہیں۔پیغمبروں کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ انسان کس طرح اپنے آپ کو کائنات کی مجموعی اسکیم سے ہم آہنگ کرے۔وہ کس اسلوب حیات کو اختیار کرسے کہ وہ بھی خداکی دنیا میں ایک ’’ہرابھرادرخت ‘‘بن کر کھڑاہوسکے۔

چڑیا اورانسان

سالم علی (1896-1987)چڑیوں کے مطالعہ کے بہت بڑے ماہر ہیں۔ابھی وہ صرف دس سال کے تھے کہ انہیںچڑیوں کے مطالعہ سے دلچسپی ہوگئی۔انھوں نے اپنی زندگی کا بڑاحصہ اس طرح گذارا ہے کہ ہاتھ میں دور بین ہے۔ایک کندھے سے کیمرہ لٹک رہا ہے اورچڑیوں کے مشاہدہ اورمطالعہ میں مصروف ہیں۔کہاجاتا ہے کہ انھوں نے اس سلسلے میںجو اہرلال نہرو سے بھی زیادہ سفر کیے۔حتیٰ کہ لوگ انہیںچڑیاوالا (Birdman) کہنے لگے۔اس فن میں مہارت کی وجہ سے ان کو بہت سے ملکی اورغیر ملکی انعامات مل چکے ہیں۔

ہندستان میں دو ہزارسے زیادہ اقسام کی چڑیاں پائی جاتی ہیں۔سالم علی نے ان کا مطالعہ کرکے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ان کی ایک کتاب کانام (The Handbook of Indian Birds)ہے۔ یہ کتاب انھوں نے 20سال کے مطالعہ کے بعد لکھی۔

ایک اخبار کانمائندہ بمبئی میں ان کے مکان پر ان سے ملا۔اس نے سالم علی کو نہایت شریف اورمہذب انسان پایا۔اس کا خیال ہے کہ سالم علی میں یہ غیرمعمولی شرافت چڑیوں کے مطالعہ سے آئی ہے۔اس نے اپنی رپورٹ (ٹائمس آف انڈیا،25ستمبر1983)میں لکھا کہ انسان کو زیادہ انسانیت والا بنانے کے لیے غالباً یہ تجویز کیاجانا چاہیے کہ چڑیوں کے مطالعہ کوداخل نصاب کردیا جائے:

Perhaps a course in birdwatching should be recommended to make men more human.

دنیا میں بے شمار قسم کی چڑیاں اورجانور پائے جاتے ہیں۔قدیم زمانہ کا انسان ان کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔مگر موجودہ زمانہ میں زمین پر پائے جانے والے مختلف جانوروں کا وسیع مطالعہ کیا گیا ہے اوران سے متعلق معلومات جمع کی گئی ہیں۔جانوروں کے طرززندگی سے انسان کو باخبر کرنے کے لیے آج کل مختلف ذریعہ اختیار کیے گئے ہیں۔جانور کے کھلے پارک اورچڑیاگر قائم کرنے کا مقصد یہ بھی ہے۔حتیٰ کہ اب بہت سی یونیورسٹیوں میں جنگلی جانوروں کی زندگی کے مضامین باقاعدہ نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔جانوروں میں انسان کے لیے بہتر نمونے موجود ہیں۔ہرجانور نہایت صحیح فطری زندگی گذارتا ہے۔جب کہ انسان باربار فطرت کے راستہ سے ہٹ جاتا ہے۔انسان اگر جانوروں کی تقلید کرے تو یہی اس کی نجات کے لیے کافی ہوجائے۔

جنت صبر کے اُس پار ہے

صالح سماج بنانے کا سارادارومدار اس چھوٹی سی بات پر ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح رہے کہ دونوں اپنے آپ کو قابو میں رکھے ہوئے ہوں۔

جس چیز کو اسلامی نظام کہاجاتا ہے وہ کسی قسم کے سیاسی اکھیڑ پچھاڑسے وجود میں نہیں آتا۔اورنہ گولی اورپھانسی کی منطق سے اس کو برپا کیا جاسکتا ہے۔جو لوگ اس قسم کی کارروائیوں سے اسلامی نظام قائم کرنے کا اعلان کرتے ہیں،وہ یقینی طور پر یا تو غیر سنجیدہ ہیں یا مجنون ہیں۔

اسلامی نظام یااسلامی سماج اس وقت وجود میں آتا ہے جب کسی انسانی مجموعہ کی قابل لحاظ تعداد میں یہ مزاج پیدا ہوجائے کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر زندگی گزارنے لگے۔یہ وہ لوگ ہیںجو شکایتوں اورتلخیوں سے اوپر اٹھ کر جینا جانتے ہوں۔جو اپنے خلاف مزاج باتوں کو نظر اندازکردینے کی طاقت رکھتے ہوں۔جو اپنی غلطی کو فوراً محسوس کرلیں اوراس کا اعتراف کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔جو دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود ذمہ داری قبول کرلیں۔جو غلط فہمی کے مواقع پر خوش فہمی سے کام لینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔جو کسی انسان کو اس کے ’’آج ‘‘کے بجائے اس کے ’’کل‘‘کے لحاظ سے دیکھ سکیں۔

یہ سب کچھ ٹھنڈے طریقہ سے نہیں ہوتا۔اس کے لیے آدمی کو برداشت کی تلخیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ الفاظ رکھتے ہوئے آدمی نہ بولے۔وہ ہر وار کو اپنے اوپر سہے۔ وہ اپنے سینہ کو دبے ہوئے جذبات کا قبرستان بنادے۔مختصر یہ ہے کہ اپنے تمام حقوق کو وہ آخرت کے خانہ میں ڈال دے اوراپنی تمام ذمہ داریوں کو دنیا کے خانہ میں۔

حدیث میں ارشاد ہواہے کہ جہنم کولذتوں سے ڈھانک دیاگیا ہے اورجنت کو ناخوش گواریوں سے ڈھانک دیاگیاحُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ، وَحُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَكَارِه (صحیح البخاری، حدیث نمبر6487)۔جو آدمی اپنے جی کی راہ پر بے روک ٹوک چلے وہ سیدھا جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔اس کے برعکس جو شخص جنت میں اپنی جگہ لینا چاہے اس کو اپنی خواہشات پر روک لگانا ہوگا۔اپنے اٹھنے والے محرکات کو دبانا ہوگا۔ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنا ہوگا۔اپنی ذمہ داریوں کو پوراکرنا ہوگا،خواہ ان کا پورا کرنا اس کے لیے کتنا ہی تلخ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جنت صبر کے اُس پار ہے ،اگرچہ لوگ اپنی نادانی سے اس کو بے صبری کے اُس پار سمجھ لیتے ہیں۔

عمل کا فرق

ایک ایسا کمپیوٹربنا یاجاسکتا ہے جو اپنی صورت کے اعتبار سے بالکل انسان کی طرح دکھائی دیتا ہو۔اس سے آپ کہیں کہ ’’پانی لائو‘‘اور وہ چل کر مقررہ مقام پر جائے اوروہاں سے پانی کا گلاس لاکر آپ کو پیش کردے۔مگر کمپیوٹر کے اس عمل پر اس کے لیے کوئی جزانہیں ہے۔

دوسری طرف ایک انسان ہے۔اس نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پیاس سے بیتاب ہے۔اس کی حالت دیکھ کر اسے رحم آگیا۔وہ روانہ ہوا کہ ٹھنڈاپانی لاکر اس پیاسے آدمی کو پلائے۔اس وقت اس کے دل میںجذبات کا طوفان برپاتھا۔اس کی زبان سے نکلا خدایاتو اس دن مجھے ٹھنڈا پانی پلا جس دن تیرے سواکسی کے پاس پانی نہیں ہوگا۔ اس دن مجھ کو اپنے سایہ میں لے لے جس دن تیرے سوا کسی کے لیے سایہ نہ ہو گا۔اس نے ٹھنڈے پانی کا گلاس لیااوراس کو لے کر پیاسے کے پاس اس حال میں آیاکہ ایک طرف بھرے ہوئے پانی سے گلاس چھلک رہا تھا۔اوردوسری طرف خداکے خوف سے آنسوئوں کا طوفان اس کی آنکھوں میں امڈرہا تھا۔عین ممکن ہے کہ آدمی کا یہ عمل اللہ کو اتنا زیادہ پسند آجائے کہ اس عمل پر اس کی بخشش ہوجائے۔

کمپیوٹراورانسان میں یہ فرق کیوں ہے۔جو کام انسان نے کیا وہی کام کمپیوٹر نے بھی کیا۔مگر انسان کو ایک گلاس پانی کے بدلے جنت دے دی گئی۔جب کہ کمپیوٹر کو اسی قسم کے ایک گلاس پانی پر کوئی انعام نہیں ملا۔ اس کی وجہ جذبہ کا فرق ہے۔کمپیوٹر کا عمل بے شعوری کی سطح پرتھا اورانسان کا عمل شعورکی سطح پر۔کمپیوٹر نے بے حسی کے تحت اپنا کام انجام دیااورانسان نے احساس کے تحت۔اسی فرق کا یہ نتیجہ تھا کہ ایک کواپنے کام پر کوئی جزانہیں ملی اوردوسرے کو اسی عمل پر ابدی جنت لکھ دی گئی۔

یہی وہ فرق ہے جس کو شریعت میں قساوت اوراحتساب کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

قساوت کا مطلب ہے بے حسی۔اس سے مراد وہ عمل ہے جو محض ظاہری اعضاء سے انجام دیاجائے ،جس میں انسان کی اپنی نفسیات شامل نہ ہو۔اس کے مقابلہ میں احتساب کا مطلب ہے اللہ کی رضا کو سامنے رکھ کرکوئی کام کرنا۔

قساوت اوراحتساب کا یہ فرق تمام معاملات میں ہے۔کوئی بھی دینی عمل اللہ کے یہاں اسی وقت  مقبول ہوتا ہے جب کہ وہ حساسیت کی سطح پر انجام دیاگیا ہو،بے حسی کی سطح پر کیا ہواعمل ایک قسم کا مشینی عمل ہے اورمشینی عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں مطلوب نہیں۔

پلاسٹک کے پھل اورپھول

آجکل پلاسٹک کے پھول اورپھل بنتے ہیں۔دیکھنے میں بالکل پھول اورپھل کی طرح معلوم ہوںگے لیکن سونگھئے تو اس میں پھول کی خوشبونہیں اور منہ میں ڈالیے تو اس میں پھل کا مزہ نہیں۔اسی طرح موجودہ زمانہ میںدین داری کی عجیب وغریب قسم وجود میں آئی ہے۔بظاہر اس میں دھوم کی حدتک دین دکھائی دے گا۔لیکن قریب سے تجربہ کیجئے تو وہی چیز موجودنہ ہوگی جو دین کا اصل خلاصہ ہے اللہ کا ڈر اورانسان کادرد — پلاسٹک کے دور میں شاید دین داری بھی پلاسٹک کی دین داری بن کررہ گئی ہے۔

لوگ دین دار ہیں مگر کوئی شخص اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں۔کوئی شخص اللہ کی خاطر اپنی اکڑختم کرنا نہیں جانتا۔ذاتی فائدہ کی خاطر بے شمار لوگ اپنے اختلاف اورشکایت کو بھول کر دوسروں سے جڑے ہوئے ہیں مگر خداکی زمین پرکوئی نہیں جو خدا کے لیے اپنے اختلاف وشکایت کو بھول کردوسروں سے جُڑ جائے۔

دین اصلاً اس کانام ہے کہ آدمی اس حقیقت کو پاجائے کہ اس کا ئنات کا ایک خدا ہے۔اسی نے تمام چیزوں کو بنایا ہے۔وہ موت کے بعد تمام انسانوں کو جمع کرکے ان سے حساب لے گااورپھر ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق یاتو ابدی جنت میں داخل کرے گایاابدی جہنم میں۔یہ حقیقت اتنی سنگین ہے کہ اگر وہ فی الواقع کسی کے دل ودماغ میں اتر جائے تو اس کی زندگی کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔وہ ان تمام چیزوں کے بارے میں انتہائی حساس ہوجاتا ہے جو آدمی کو جہنم کی آگ میں پہنچانے والی ہیں اوران تمام چیزوں کا انتہائی مشتاق ہوجاتا ہے جو آدمی کو جنت کے باغوں کا مستحق بنانے والی ہیں۔وہ ہر چیز سے زیادہ اللہ سے ڈرنے لگتا ہے اورہر چیز سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔وہ اپنی انفرادی ہستی کو خدا کی عظیم ترہستی میں کھودیتا ہے۔

 خدا اورآخرت کے بارے میں اس بڑھی ہوئی حساسیت اس کو بندوں کے بارے میں بھی انتہائی محتاط اور ذمہ دار بنا دیتی ہے۔ایک انسان سے بد خواہی کرتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنے آپ کو جہنم کے گڑھے میں گرارہا ہے۔بندوں کے ساتھ سرکشی کو سلوک کرتے ہوئے وہ اس طرح ڈرنے لگتا ہے جیسے کہ ہر آدمی اپنے ساتھ جہنم کے فرشتوں کی فوج لیے ہوئے ہے۔اپنے صاحب معاملہ افراد سے بے انصافی کرنا اس کو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس نے اپنے آپ کو جہنم کے گہرے غار میں دھکیل دیا ہے۔اب کوئی انسان اس کی نظر میں محض ایک انسان نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان ایک ایسا وجود ہوتا ہے جس کے ساتھ خدا اپنے تمام فرشتوں کے ساتھ کھڑاہواہو۔

دونوں ایک سطح پر

31مارچ 1981کو تمام دنیا کے اخبارات کی پہلی سرخی یہ تھی’’صدرامریکاپر قاتلانہ حملہ‘‘۔ ایک نوجوان نے خود کارگن سے صدر رونالڈریگن پر حملہ کیا اوردوسکنڈمیں چھ فائر کیے۔ ایک گولی صدر کے سینہ کو چھید کر ان کے پھیپھڑے میں لگی۔اسپتال تک پہنچتے پہنچتے ان کے جسم کا آدھا خون بہہ چکا تھامگر فوری طبی مدد کارگر ثابت ہوئی اوررونالڈریگن کی جان بچ گئی۔

رونالڈریگن اس سے پہلے ایک فلم ایکٹر تھے۔فلم کی دنیا میں وہ کوئی ممتاز مقام حاصل نہ کرسکے۔اس کے بعد انھوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیااوربالآخر1980کے الیکشن میں امریکاکے صدر منتخب ہوگئے۔گولی لگنے کے بعد صدر ریگن نے واشنگٹن کے اسپتال میں ڈاکٹروں اورنرسوں سے بات کرتے ہوئے کہا:

If I'd got this much attention in Hollywood, I would never have left.

اگر میںہالی وڈ(فلمی دنیا )میںاتنی زیادہ توجہ کا مرکز بناہوتا تو میں فلمی دنیا کو کبھی نہ چھوڑتا (ہندستان ٹائمس،1 اپریل 1981)۔دوسری طرف نوجوان حملہ آور جان ہنکلے (1955)کی روداد کے ذیل میں آیا ہے کہ اس کو نوجوان فلم ایکٹرس جاڈی فاسٹر(1962)سے محبت ہوگئی تھی۔وہ اس کو خطوط لکھتا رہا مگر مس فاسٹر نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔بالآخر اس نے حملہ سے ایک دن پہلے مذکورہ ایکٹر س کو خط لکھا جس میں یہ فقرہ تھا:

Now you'll know who I am (Hindustan Times, April 2, 1981)

اب تم جان لوگی کہ میں کون ہوں۔اس خط کے اگلے دن اس نے صدر امریکاپر قاتلانہ حملہ کیا۔اس کے بعدایک گمنام نوجوان اچانک ساری دنیا کے اخباروں کی شاہ سرخی بناہواتھا۔ریڈیو اورٹیلی ویژن کی خبروں میں اس نے پہلا مقام حاصل کرلیا۔صرف ایک بندوق کی لبلبی دبا کر اس نے وہ شہرت حاصل کرلی جو بے شمار لوگوں کو ساری عمرکام کرنے کے بعد بھی نہیں ملتی۔

ایک آدمی بظاہر مجرم ہواوردوسرابظاہر بے قصور مگر دونوں شہرت کے طالب ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے جینے کی سطح ایک ہے۔دنیا کا قانون لوگوں سے ان کے ظاہر کے اعتبار سے معاملہ کرتا ہے،آخرت وہ مقام ہے جہاں لوگوں سے ان کے باطن کے اعتبار سے معاملہ کیاجائے گا۔ایک شخص نام و نمود کے لیے دین کا علم بردار بنے ،دوسرا شخص نام ونمود کے لیے لیڈری کرے تو دین دار کاانجام بھی وہی ہوگا جو خود پسند لیڈروں کا خدا کے یہاں ہونے والا ہے۔

جانور سے بدتر

شیخ سعد ی نے کہا تھا ’’میں خدا سے ڈرتا ہوں۔اورخدا کے بعد اس شخص سے ڈرتا ہوں جو خدا سے نہیں ڈرتا ‘‘۔اسی بات کو شیکسپیئر نے ایک اورانداز سے اس طرح کہا ہے— ’’انسان ہی ایک ایسا جانور ہے جس سے میں بزدل کی طرح ڈرتا ہوں‘‘۔

اس دنیا میں ہر چیز قابل پیشین گوئی کردار رکھتی ہے۔آگ کے بارے میں آپ پیشگی طور پر یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر آپ نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تبھی وہ آپ کو جلائے گی۔اگر آپ اپنے ہاتھ کو اس سے دور رکھیں تو وہ ایسا نہیں کرے گی کہ وہ کو دکر آپ کے ہاتھ پر آگر ے۔یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے حتیٰ کہ موذی جانوروں کے بارے میں بھی ہم کو پیشگی طورپر معلوم ہے کہ وہ یک طرفہ طور پرکسی کے اوپر حملہ نہیں کرتے۔ان کا حملہ ہمیشہ دفاعی ہوتا ہے نہ کہ جارحانہ۔

اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی ہر چیز ایک لگے بندھے قاعدہ کے تحت کام کررہی ہے اوراس قاعدہ کی رعایت کرکے آپ اس کے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔مگر انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کے عمل کا کوئی اصول اور قاعدہ نہیں۔وہ مکمل طور پر آزاد ہے اورجس وقت جو چاہے کرسکتا ہے۔

اس دنیا میں انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جو یک طرفہ طورپر دوسرے کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو کسی واقعی سبب کے بغیر دوسرے کے اوپر حملہ کرتا ہے۔انسان کے حرص اورانتقام کی کوئی حد نہیں۔آپ خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوں اورمحض ذاتی محنت کی بنیاد پر ترقی کریں تب بھی آپ محفوظ نہیں۔کیونکہ دوسروں کے اندر حسد کا جذبہ پیدا ہوگااوروہ آپ کو گرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔انسان لامحدود طورپر اپنی خواہشیں پوری کرناچاہتا ہے اوربے حساب حدتک دوسرے کو برباد کرکے اس کی بربادی کاتماشا دیکھنا چاہتا ہے۔

کوئی بدترین موذی جانور بھی اس کو نہیں جانتا کہ وہ کسی کو ذلیل کرنے کامنصوبہ بنائے۔وہ کسی کو نیچا دکھا کر اپنے غرور کے لیے تسکین کا سامان فراہم کرے۔کسی کو خواہ مخواہ مصیبتوں میں پھنسا کر اس کی پریشانی کا تماشا دیکھے۔یہ صرف انسان ہے جو ایسا کرتا ہے۔ خدا نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا ہے۔مگر انسان اپنی نادانی سے اپنے آپ کو اسفل سافلین کی پستی میں گرالیتا ہے۔

امتحان کا کام

کالج میں امتحان ہورہا تھا۔ایک طالب علم امتحان ہال میں داخل ہوا۔مگر اس نے امتحان کی کاپی پر کچھ نہیں لکھا۔وہ بس بیٹھا ہواسگریٹ پیتا رہا اورتین گھنٹہ گزار کرباہر چلا آیا۔اس کے بعد وہ لائبریری پہنچا اوروہاں کتابوں کے درمیان بیٹھ کر پرچہ حل کرنا شروع کردیا۔امتحان ہال میں اس نے اپنی کاپی سادہ چھوڑ دی تھی مگر لائبریری میں اس نے اپنی کاپی بھرڈالی۔

آپ کہیں گے کہ یہ فرضی کہانی ہے۔کوئی طالب علم اتنا بے وقوف نہیں ہوسکتا کہ امتحان ہال میں پرچہ حل نہ کرے اورلائبریری میں بیٹھ کر کاپی بھرنے لگے۔اوراگر یہ واقعہ سچا ہوتو یقینا وہ کوئی ایسا طالب علم ہوگا جس کا دماغ صحیح نہ ہو۔

یہ درست ہے کہ اس قسم کی حرکت کوئی پاگل طالب علم ہی کرسکتا ہے۔مگر دنیا کے امتحان کے معاملہ میں جوبات لوگوں کواتنی عجیب معلوم ہوتی ہے ،آخرت کے معاملہ میں ہر شخص اسی طریقہ پر عمل کررہا ہے۔ کالج کے ذمہ دار طلبہ کا امتحان جہاں لینا چاہتے ہیں وہ امتحان ہال ہے نہ کہ لائبریری۔اسی طرح خداکے بھی امتحان لینے کے مقامات ہیں۔مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا نے امتحان کے جو مقامات مقرر کیے ہیںوہاں لوگ امتحان میں پورا اترنے کی کوشش نہیںکرتے۔اس کے بجائے وہ دوسرے مقامات پر خدا پرستی اوردین داری کا کمال دکھارہے ہیں۔

خدا آدمی کے ایمان کا ثبوت دل کی انابت میں دیکھنا چاہتا ہے اورلوگ اپنے ایمان کا ثبوت کلمہ ایمان کے مخارج میںدے رہے ہیں۔خداآدمی کی عبادت کوخشوع کے معیار پر جانچ رہا ہے اورلوگ مسائل کی پابندی میں اپنی عبادت گزاری کا ثبوت فراہم کررہے ہیں۔خدا لوگوں کے دین کو کردار اورمعاملات کی سطح پر جانچ رہا ہے اورلوگ اشراق اور چاشت کے فضائل میں اپنی دین داری کامظاہرہ کررہے ہیں۔خدا چاہتا ہے کہ آدمی اپنے آپ پر خدا کی حکومت قائم کرنے والا بنے اورلوگ کسی خارجی شخص کے خلاف اکھیڑ پچھاڑ کرکے حکومت خداوندی کے قیام کا کریڈٹ لینے میںمصروف ہیں۔ خداکسی آدمی کو جہاں مظلوموںکی حمایت کرنے والا دیکھنا چاہتا ہے وہ مظلوم فرد ہے مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ظلم وفساد کے اجتماعی واقعات پر تقریریں اوربیانات پیش کرکے اپنے کو مظلوموں کے حامی ثابت کرنے لگے ہوئے ہیں۔

ہرآدمی جانتا ہے کہ کسی طالب علم کی وہ کاپی بالکل بے کار ہے جو امتحان ہال کے بجائے لائبریری میں بیٹھ کر بھری گئی ہو۔کاش لوگ جانتے کہ ٹھیک اسی طرح وہ عمل  بےحیثیت ہے جو خداکے مطلوبہ مقام کے علاوہ کہیں اورپیش کیاگیاہو۔

عمل کے بغیر

آج کا غذ کی اتنی افراط ہے کہ جہاں بھی دیکھیں کاغذ کا ایک ٹکڑاپڑاہواملے گا۔مگر کاغذ کے ان ٹکڑوں کی کوئی قیمت نہیں۔نوٹ بھی کاغذ کا ایک ٹکڑاہے۔مگر اس کی قیمت ہے۔اس کی قیمت اتنی یقینی ہے کہ کوئی بھی آدمی اس پر شبہ نہیں کرتا۔اس فرق کی وجہ یہ کے عام کاغذ ٹکڑے کی کسی نے ضمانت نہیں لی ہے جبکہ نوٹ کے پیچھے سرکاری بینک کی ضمانت ہے۔ہر نوٹ پرسرکاری بینک کی یہ ضمانت ثبت ہوتی ہے کہ وہ اس کے پیش کرنے والے کو وہ رقم پوری اداکر دے گاجو اس پر چھپی ہوئی ہے۔یہی ضمانت ہے جس نے نوٹ کے کاغذکو لوگوں کے لیے قیمتی بنادیاہے۔

یہی معاملہ الفاظ کا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج جتنے الفاظ بولے جارہے ہیں تاریخ کے کسی دور میں اتنے الفاظ نہیں بولے گئے۔مگر ان الفاظ کی کوئی قیمت نہیں ،کیونکہ ان کے پیچھے اٹل ارادہ کی ضمانت شامل نہیں ہے۔آپ سے ایک شخص وعدہ کرتا ہے کہ وہ آپ کافلاں کام کردے گا،مگر جب آپ مقررہ وقت پر اس کی حمایت مانگتے ہیں تو وہ بہانہ کر دیتا ہے۔آپ مذکورہ شخص کے پاس جو چیز لے کرگئے،وہ اس کے بولے ہوئے الفاظ تھے۔ جب اس نے اپنا وعدہ پورا نہیںکیا توگویا اس نے اپنے الفاظ کی قیمت ادانہیں کی۔ اس نے الفاظ کا کاغذ تو دے دیا، مگر جو عمل اس کاغذ کی قیمت تھا اس کو دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس کے بولے ہوئے الفاظ ردی کاغذ کے ٹکڑے تھے نہ کہ بینک کاجاری کیاہوا نوٹ۔

آج کی دنیا کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ الفاظ کی سطح پر ہر آدمی بڑے بڑے الفاظ بول رہا ہے مگر اپنے الفاظ کی عملی قیمت دینے کے لیے کوئی شخص تیار نہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کے بولے ہوئے الفاظ اسی طرح ردی کے پرزے بن کر رہ گئے ہیں جیسے پرزے گلی کوچوں میں ہر وقت پڑے رہتے ہیں اورہر آدمی ان کو بے قیمت سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔

ایک شخص مظلوموں کی حمایت میں بیانات اورتجویزوں کے انبار لگارہا ہے مگر جب اس کے قریب کا ایک شخص اس کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ میری مظلومیت پر میری مدد کروتو وہ اس کو برف کی طرح بالکل سردپاتا ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی جو لفظ بول رہا تھا اس کے پیچھے اس کا حقیقی ارادہ شامل نہ تھا۔وہ محض زبانی الفاظ تھے نہ کہ کوئی حقیقی فیصلہ۔ایک شخص لوگوں کے سامنے شرافت اورتواضع کی تصویر بنارہتا ہے مگر جب اس کی انا پر چوٹ لگتی ہے تو اچانک وہ حسد اورگھمنڈ کامظاہرہ کرنے لگتا ہے۔اس سے معلوم ہواکہ اس کی شرافت محض ظاہری تھی ،وہ اس کی روح میں اتری ہوئی نہ تھی۔

دنیا کی خاطر عمل کرنے والے

لوگ خوش اخلاق ہیں۔وہ ہدیے دیتے ہیں اوردعوتیں کرتے ہیں۔وہ دوسروں کے کام آنے کے لیے دوڑتے ہیں۔وہ دوسروں کے مسئلہ کواپنا مسئلہ بناتے ہیں۔وہ غمی کے موقع پر اظہار درد کے لیے پہنچتے ہیں اورخوشی کے موقع پر مبارک باد دینے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔وہ اختلاف کے باوجود اختلاف کو بھول جاتے ہیں اورشکایت کے باوجود شکایت کو پی جاتے ہیں۔

لوگ خوش ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔وہ ویسے ہیں جیسا کہ انہیںہوناچاہیے۔

مگر لوگوں کی یہ خوش معاملگی کس کے ساتھ ہے۔صرف ان لوگوں کے ساتھ جن سے ان کا کوئی فائدہ وابستہ ہے۔جن سے انہیںامید ہے کہ وہ وقت پر ان کے کام آسکتے ہیں۔جن سے وہ ڈرتے ہیں۔جن کے زورقوت کا رعب ان کے اوپر چھایا ہوا ہے۔جن سے کٹ کروہ سمجھتے ہیںکہ سارے لوگوں سے کٹ جائیں گے،جن سے جڑکر وہ سمجھتے ہیں کہ سارے لوگوں سے جُڑ ے رہیں گے۔

لوگوں کی یہ خوش اخلاقی تمام ترمفاد پرستانہ خوش اخلاقی ہے۔اس کا راز اس وقت معلوم ہوجاتا ہے جب کہ معاملہ ایسے شخص سے پڑے جس کے ساتھ خوش اخلاقی برتنے کے لیے مذکورہ محرکات میں سے کوئی محرک موجود نہ ہو۔ایسے موقع پر اچانک وہی آدمی بالکل بد اخلاق بن جاتا ہے جو اس سے پہلے نہایت خوش اخلاق دکھائی دے رہا تھا۔

اب اس کو یہ شوق نہیںہوتاکہ وہ سلام میں پہل کرے۔اب وہ اپنی دعوتوں میں اس کوبلانا بھول جاتا ہے۔اب وہ اس کی مشکلوں میں کام آنے کے لیے نہیں دوڑتا۔ اب وہ معمولی شکایت پر بگڑکر بیٹھ جاتا ہے۔ اب اس کو یہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس کے جذبات کی رعایت کرے۔ دنیوی فائدہ کے لیے اخلاق دکھانے والا آدمی اس وقت بے اخلاق ہوجاتا ہے جب کہ اس میں کوئی دنیوی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔

لوگوں کوجاننا چاہیے کہ اس قسم کی خوش اخلاق اورانسانیت کی خداکے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔وہ کسی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے والی نہیں خواہ وہ کتنی ہی زیادہ بڑی مقدار میں آدمی کے اندر پائی جارہی ہو۔خداکے ہاں جو کچھ بدلہ ہے صرف اس عمل کاہے جو خالص خداکی رضا اورآخرت کی نجات کے لیے کیاگیاہو۔اورجو عمل دنیا میں اپنا معاملہ درست رکھنے کے لیے کیا جائے اس کا خدا کے یہاں کوئی بدلہ نہیں۔ایسے اعمال لے کر خدا کے یہاں پہنچنے والوں سے خدا کہہ دے گا — تم نے جوکچھ کیا وہ اپنی دنیا کے لیے کیا۔تم دنیا میں اس کا بدلہ پاچکے۔اب آخرت میں تمہارے لیے اس کے بدلے میں کچھ نہیں۔

شکار کرنے والے

کرنل جے پال نے اپنی شکاری یادداشتوں پر ایک کتاب شائع کی ہے جس کانام ہے عظیم شکار:

Great Hunt, Lt. Col. Jaipal, Carlton Press. New York 1982.

جم کاربٹ (Jim Corbett)ایک شکاری تھا ،وہ شیر کو گولی مارکر ہلاک کرنے سے خاص دل چسپی رکھتا تھا،تاہم اپنے اس قاتلانہ فعل کے لیے اس کے پاس ایک خوبصورت توجیہ تھی۔’’میں گائوں والوں کو مردم خورشیروں سے بچانے کے لیے ان کا شکار کرتا ہوں ‘‘اسی طرح اکثر شکاریوں کے پاس اپنے وحشیانہ کھیل کی خوبصورت تاویلات موجود ہوتی ہیں۔مگرکرنل جے پال کو اس قسم کی فرضی توجیہات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔انھوں نے صفائی کے ساتھ اس بات کو تسلیم کرلیا ہے جس کو دوسرے لوگ صفائی کے ساتھ تسلیم نہیں کرتے۔

کرنل جے پال کے لیے گھڑیال کومارنا ایک پسندیدہ کھیل تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ منظربڑادلچسپ ہوتاتھا جب کہ میں گھڑیال کے پیچھے رینگ کرچلتا۔پھر کبھی گھڑیال چھپ سے پانی میں کودپڑتا۔اورجب اس کو گولی لگتی تو وہ عجیب طریقے سے اپنی دم پٹکتا اوراپنا منہ کھول دیتا۔یہ سب چیزیں مجھ کوبڑی عجیب قسم کی پُرجوش مسرت دیتی تھیں :

All this gave me quite a lot of thrills.

انسان کے مزاج میں یہ بات داخل ہے کہ وہ دوسرے کی گھات میں لگے۔وہ دوسرے کو ستانے کے منصوبے بنائے اورجب دوسرے کوستانے میں کامیاب ہوجائے تو اپنی کامیابی پر خوشی کے قہقہے لگائے۔یہی مزاج انسان کے امتحان کا اصل پرچہ ہے۔جو اپنے اس مزاج سے مغلوب ہوکر اپنے بھائی کاشکار کرنے لگے وہ جہنمی ہے اورجو شخص اپنے اس مزاج پر قابو پالے اوردنیا میں اس طرح رہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے رحمت بناہواہووہی وہ شخص ہے جس کے لیے آخرت میںجنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔

دو قسم کے انسان

قرآن میں ہے کہ ہر جی اپنے کیے میں پھنسا ہواہے:كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ  (74:38)۔لوگ خود اپنے کیے کے حوالے کردیے جائیں گے:أُولَئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا (6:70)۔قیامت میں لوگوں سے کہا جائے گاکہ چکھو جو تم کماتے تھے:ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ  (39:24)۔یہی بات حدیث میں ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ یہ تمہارااپناکیاہے جو تمہاری طرف لوٹایا جائے گا:إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ تُرَدُّ إِلَيْكُم (حیاۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، جلد5، صفحہ 125)۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی ایک انڈسٹری (کارخانہ)ہے۔مومن خداکی انڈسٹری ہے اورغیر مومن شیطان کی انڈسٹری۔ہر آدمی جو کچھ ہے اس کے مطابق وہ اپنی پیداوار کاڈھیرلگارہا ہے۔خدا کے علم کے مطابق آدمی جب اپنے حصہ کاکام کرچکا ہوتا ہے تو اس پر موت آجاتی ہے۔اس کے بعد اس کی اگلی زندگی شروع ہوتی ہے جہاں وہ ابدی طورپر اپنی اگائی ہوئی فصل کے حوالے کردیا جاتا ہے۔جس نے کانٹوں کی فصل اگائی تھی وہ اپنے آپ کو کانٹوں میں پھنسا ہواپاتا ہے اورجس نے پھول اورخوشبو کی فصل اگائی تھی وہ پھول اورخوشبووالے باغوں میں ہمیشہ کے لیے چلاجاتا ہے۔

انڈسٹری کیا ہے۔انڈسٹری وہ نظام ہے جس کے اندر خام مال ڈالا جائے اورپھر وہ تیار شدہ سامان کی صورت میں برآمدہ ہو۔ایک انسان وہ ہے جس کو خدانے بڑائی دی تواس نے تواضع کی صورت میں اس کا ردعمل پیش کیا۔اس کا احتساب کیاگیا تو اس نے عجز کی نفیسات کے ساتھ اس کو قبول کیا۔اس کے پاس دولت آئی تو اس نے خداکے راستہ میں اس کا استعمال ڈھونڈنکالا۔اس کو مواقع ملے تو وہ ان مواقع میں اپنے آپ کو خداکی خاطر دفن کرنے پر راضی ہوگیا۔اس نے لوگوں کے اوپر قابو پایا تو وہ ان کے لیے انصاف اورخیرخواہی کاپیکر بن گیا۔یہ وہ شخص ہے جس نے اس بات کا ثبوت دیاکہ اس نے اپنے اندر خداکی انڈسٹری قائم کی تھی۔جو چیز بھی اس کے اندر داخل ہوئی وہ ربانی پیکر میں ڈھل کرباہر نکلی۔

دوسرا انسان وہ ہے جس کی انڈسٹری سے صرف زہر اورانگارے برآمد ہوئے۔اس کو جب موقع ملا تو اس نے اپنی بڑائی کا جھنڈابلند کیا۔اس کے پاس دولت آئی تو اس کو اس نے اپنی نمودونمائش میںخرچ کیا۔اس نے کسی کے اوپر غلبہ پایا تواس کی بربادی کے منصوبے بنائے۔اس کو کسی سے اختلاف ہواتو اس کو اس نے زہریلے کلام اور آتشیں عمل کا مزہ چکھایا۔اس سے جب کسی کا معاملہ پڑاتو اس کو اس سے خود غرضی ،بے انصافی اوردھاندلی کا تجربہ ہوا۔

ایسا آدمی گویا اپنے اندر شیطان کی انڈسٹری قائم کیے ہوئے ہے۔جو چیز بھی اس کے اندر داخل ہوتی ہے وہ زہراورآگ اوربدبو بن کر اس کے باہر آتی ہے۔موت کے بعد اس کی یہ پیداوار اسے گھیرلے گی۔وہ اپنے آپ کو خود اپنے بنائے ہوئے جہنم میں پھنسا ہواپائے گا۔

آپریشن

فونکس (امریکہ)کے اسپتال میں ایک شخص نے داخلہ لیا۔اس کے پیٹ میں نہایت سخت تکلیف تھی۔ڈاکٹروں نے اس کو آپریشن کا کیس قرار دیا۔چنانچہ اس کے پیٹ کا آپریشن کیاگیا۔ڈاکٹروں نے حیرت انگیز طورپر پایاکہ اس کے پیٹ میں ایک ہیرا اٹکا ہواہے۔یہی ہیرااس کے ناقابل برداشت درد کا سبب تھا۔ہیرااس کے پیٹ سے نکال کرالگ کیاگیا۔اس ہیرے کے ساتھ اب بھی قیمت کا پرچہ لگاہواتھا۔اس پرچہ پرلکھا ہواتھا— 6500ڈالر۔

فوراً پولیس طلب کی گئی۔پوچھ گچھ کے دوران مریض نے بتایا کہ اس کو انعام میں یہ ہیراملاتھااورغلطی سے وہ اس کے پیٹ میں چلاگیا۔تاہم بہت جلد معلوم ہوگیاکہ اصل حقیقت کچھ اورہے۔یہ شخص ایک بارہیرے کی ایک دکان میں داخل ہوااوروہاں ایک ہیراچرالیا۔مگرجب وہ نکلنے کی کوشش کررہا تھاتو دکان دار کو شبہ ہوا۔اس نے آدمی کا پیچھا کیا۔جب آدمی نے دیکھا کہ وہ پکڑاجانے والا ہے تو اس نے ہیرے کو جلدی سے منہ میں ڈالا اورنگل لیا۔پولیس اس کی تلاش میں تھی مگر وہ ابھی تک پولیس کے ہاتھ نہیں آیاتھا۔اس کے بعد فوراً اس کو گرفتار کرلیاگیا(ہندستان ٹائمس، 5نومبر1981ء)۔

ناجائز طورپر حاصل کیاہواہیراآدمی کے پیٹ میں ہضم نہ ہوسکا۔وہ مجبور ہوگیا کہ چھپائے ہوئے ہیرے کونکال کرباہر لائے اورخود اپنے جرم کازندہ ثبوت بن جائے۔یہی معاملہ شدید ترصورت میںلوگوں کے ساتھ آخرت میں ہوگا۔

دنیا میں آدمی ایک شخص کا حق دباتا ہے ،وہ کسی کو وہ کلمہ اعتراف دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو ازروئے واقعہ سے دینا چاہیے۔یہ سب کرکے بھی آدمی موجودہ دنیا میں کامیاب رہتا ہے۔زوراورہوشیاری کے ذریعہ وہ اپنے جرم کو چھپالیتا ہے۔مگر یہ صرف اس وقت تک ہے جب تک آدمی موت سے دوچار نہیں ہوتا۔موت ہر آدمی کے لیے گویا قدرت کاآپریشن ہے جو اس کے اندر کوباہر کردیتا ہے اوراس کے چھپے کوکھلابنادیتا ہے۔جس طرح ہیراآدمی کے پیٹ میں ہضم نہیں ہوتا۔اسی طرح ظلم اوربے انصافی کو بھی خدا کی یہ کائنات کبھی قبول نہیں کرتی۔

آدمی پر وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدائی آپریشن اس کی حقیقت کوکھول دے اوراس کے لیے اپنے جرائم کے اقرار کے سواکوئی چارہ نہ رہے۔

یہ جہنمی قافلے

’’ہرآدمی جنت کی تلاش میں ہے مگر ہر آدمی اپنی جنت کو دوزخ میں تلاش کررہا ہے‘‘ میری زبان سے بے ساختہ نکلا’’لوگ کانٹوں میںپھول کو ڈھونڈرہے ہیں ،وہ اپنی زندگی کو کھنڈرکررہے ہیں اورسمجھتے ہیںکہ بہت جلد ان کے لیے ایک شان دار محل کھڑاہونے والا ہے ‘‘۔

ہر آدمی اپنی زندگی کوسنوارنے میں لگاہواہے۔کوئی تجارت اورملازمت کے میدان میں محنت کررہا ہے۔کوئی قیادت کے میدان میں اپنا نام اونچا کرنے کے لیے سرگرم ہے۔کسی کا دماغ خوبصورت الفاظ کاکارخانہ بناہواہے تاکہ وہ عوام کی بھیڑکوزیادہ اپنے گرد جمع کرسکے۔ہر آدمی اپنے ذہن میں اپنے مستقبل کاایک سہانا خواب لیے ہوئے ہے اورہر آدمی اپنے خواب کو واقعہ بنانے میں رات دن مصروف ہے۔مگر لوگوں سے قریب ہوکر ان کودیکھیے تو معلوم ہوگاکہ اپنے خوابوں کی دنیا کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے پاس عملِ غیر صالح کے سواکوئی سرمایہ نہیں۔

آدمی اپنے رشتہ داروں کے حقوقسے بےپرواہوکراپنےبچوںکامستقبل سنوارنا چاہتا ہے۔وہ اپنے پڑوسیوں کو دکھ پہنچا کردورکے لوگوں میں خوش نام ہونے کی تدبیریں کررہا ہے۔وہ اپنے ذاتی معاملات میں بے انصافی کرکے باہر کی دنیا میں انصاف کا علم بردار بنا ہواہے۔وہ اپنے خلاف ایک لفظ سننے کے لیے تیار نہیں مگر دوسروں کے خلاف سب کچھ کہنے اورکرنے کے لیے وہ اپنے آپ کو خدائی فوجدارسمجھتا ہے۔

خدانے اپنی دنیا میں انسان کے لیے وہ سب کچھ رکھا ہے جو وہ چاہتا ہے۔بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ مگر خداکی دنیا میں ہراچھی چیز کو پانے کا ذریعہ اچھا عمل ہے— خداکاانعام ان لوگوں کو ملتا ہے جو اپنے متعلقین کے حقوق اداکریں۔جو اپنے پڑوسیوں کو اپنے شرسے بچائیں۔جو اپنے اہل معاملہ کے ساتھ انصاف کریں۔جو خود پسندی کے بجائے خداپسندی کے اوپر اپنی زندگیوں کو اٹھائیں۔جو لوگوں سے حق اورعدل کی بنیاد پر معاملہ کریں نہ کہ اکڑاورخود غرضی کی بنیاد پر۔جو حق کے آگے جھک جائیں چاہے وہ ان کے خلاف کیوں نہ ہو۔جو اپنی اناکو خداکے حوالے کردیں اورخداکی دنیا میں بے انا بن کررہنے پر راضی ہوجائیں۔

لوگ جہنمی انگاروں میں کودتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ وہ خوبصورت پھولوں سے کھیل رہے ہیں۔ وہ دوزخ کے راستوں میں دوڑرہے ہیں اورخوش ہیں کہ بہت جلد وہ جنت کے باغوں میں پہنچنے والے ہیں۔آہ وہ قافلہ جس کے پاس جھوٹی خوش فہمی کے سوا اورکوئی سرمایہ نہیں۔آہ وہ لوگ جو خداکی دنیا میں اپنے لیے ایک ایسی دنیا بنانا چاہتے ہیں جس کی خدانے اجازت نہیںدی۔

دوسرے درجہ پر

آئن سرویوچ تور جنیف (1818-1883)روس کا مشہور ناول نگار ہے۔اس کے ایک دوست نے ایک باراس کو لکھا ’’میرے نزدیک اپنے آپ کو ہمیشہ دوم درجہ میں رکھنے پر رضا مند کرلینے ہی میں زندگی کی ساری اہمیت پوشیدہ ہے ‘‘یہ بات صد فی صد درست ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام اجتماعی اورقومی برائیاں اسی لیے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلہ میں دوم درجہ پر رکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ہر ایک اپنے آپ کو اول درجہ پر دیکھنا چاہتا ہے۔اور جہاں ہر شخص اورہر قوم اپنے کو اول درجہ پر رکھنا چاہے وہاں لازماً یہی ہوگا کہ باہمی ٹکرائو ہو،اورکوئی دوسرے کا خیرخواہ نہ رہے۔

انسانیت کے اکثر فلسفے اسی بنیادی فکر کے گرد گھومتے ہیں۔سماجی مفکرین کی کوششوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے کچھ ایسے اعلیٰ معیار رکھ دئے جائیں جن کو آدمی ہر حال میں اپنے سے بالا تر سمجھے ،وہ اپنی ذات کو مرکز بنانے کے بجائے ان معیاری قدروں کو اپنے فکر وتوجہ کا مرکز بنالے۔مگر عملاً کوئی فلسفی اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس چیز کو بھی انھوں نے اس حیثیت سے دریافت کیا کہ وہ انسان کی توجہات کا مرکز اول بنے (مثلاً امن ،محبت،خیرخواہی)وہ خود انسان کی اپنی تخلیق تھی۔انسانی ذہن کے باہر ان کاکوئی ذاتی وجود نہ تھا۔پھر اپنے تخلیق کیے ہوئے معبود کے بارے میںکوئی شخص سنجیدہ ہوتا تو کیوں ہوتا۔

اس مسئلہ کا واحد حل خداکا عقیدہ ہے۔خداایک حقیقی وجود ہے۔وہ ہماراخالق اورمالک ہے۔وہ آج بھی ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے سارے عالم کو اپنے قبضہ میںلیے ہوئے ہے۔تمام چیزیں مکمل طورپر اس کی محتاج ہیں ،وہ کسی کا محتاج نہیں۔ایسے خداکو ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کائنات میں آدمی اپنے آپ کو ’’دوسرے درجہ ‘‘پر رکھ رہا ہے۔وہ خداکو ہر اعتبار سے اول حیثیت دے کر خود ہر اعتبار سے دوسری حیثیت پر راضی ہوگیاہے۔جس آدمی کے اندر یہ خیال پوری طرح بیٹھ جائے ،جو اپنے سارے دل ودماغ کے ساتھ خداکے مقابلہ میں اپنے کو دوسرے درجہ کی حیثیت دینے پر راضی ہو جائے۔ وہ عین وہی انسان بن جاتا ہے جس کو تمام دنیا کے مفکرین تلاش کررہے ہیںمگر وہ اس کو کہیں نہیںپاتے۔

انسان کی نفسیات ایک بسیط شے ہے۔نفسیات میں تقسیم ممکن نہیں۔اگر کسی کی نفسیات حقیقی معنوں میں یہ بن جائے کہ اس کائنات میںوہ خداکے مقابلہ میں ’’دوسرے درجہ ‘‘پر ہے تو انسانوں کے مقابلہ میں بھی اس کے اندر یہی مزاج بنے گا۔اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کہ اس کائنات میںوہ دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتا ہے ،اس سے ’’اول درجہ ‘‘ والا بننے کا احساس چھین لے گا۔اس کی انانیت بے نفسی میں تبدیل ہوجائے گی۔اس کی سرکشی تواضع کی صورت اختیار کرلے گی۔اس کی ڈھٹائی اعتراف کے روپ میںڈھل جائے گی۔اوریہی وہ اوصاف ہیں جو بہتر سماج بناتے ہیں۔جہاں لوگوں کے اندر یہ مزاج آجائے وہاںنہ انفرادی جھگڑوں کاکوئی وجود ہوگااورنہ قومی جھگڑوں کا۔

دو قسم کی غذائیں

قرآن میںارشاد ہواہے کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لیے آیا ہے کہ وہ پاک چیزوں کو جائز بتائے اورگندی چیزوں کو حرام قرار دے:وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ (7:157)گویا ایمان سے آدمی کے اندر ایسی روح پیداہوتی ہے جو خبیث چیزوں کو قبول نہ کرے، وہ صرف طیب چیزوں کو اپنی غذابنائے۔اس کے برعکس غیر مومن وہ ہے جو خبیث چیزوں پر جی رہا ہواورطیب چیزیں اس کی روح کی غذانہ بنتی ہوں۔

جانوروں میں دو قسم کے جانور ہوتے ہیں۔ایک وہ جو مردار اورغلیظ چیزیں تلاش کرکے کھاتے ہیں۔دوسرے وہ جو ستھری غذائوں سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ایک وہ جو خبیث جذبات پر جیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو طیب جذبات پر پرورش پاتے ہیں۔ ایک انسان و ہ ہے جو نفرت اورعداوت میںجی رہا ہے۔جو ذاتی نمائش اورشخصی مصالح کی ہوائوں میں سانس لیتا ہے۔جس کی روح کو اس سے غذاملتی ہے کہ وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔جس کے قلب ودماغ کو انانیت ،خود پرستی ، اظہار برتری سے خوراک ملتی ہے۔ وہ کسی کو تکلیف پہنچاکر خوش ہوتا ہے۔ کسی کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اس پر وار کرتا ہے اورپھر کامیابی کے قہقہے لگاتا ہے — ایسے لوگ خداکی دنیا میں طیب خوراک کو چھوڑ کر خبیث خوراک پر جی رہے ہیں۔

دوسرا انسان وہ ہے جو قلب سلیم کے ساتھ جی رہا ہے۔اس کی روح دوسروں کی کامیابی سے خوش ہوتی ہے۔وہ دوسرے پر قابو یافتہ ہوکر بھی اس کو چھوڑدینے میں راحت محسوس کرتا ہے۔اس کا دل دوسروں کے لیے خیرخواہی اورمحبت کے جذبات سے بھراہوتا ہے۔اس کی ہستی کو عجز اورتواضع میںلذت ملتی ہے۔وہ خدا اورآخرت کی فضا میں سانس لیتا ہے۔ اختلاف کے وقت اپنے کو جھکالینے میں اس کو سکون ملتا ہے۔جب کوئی اس پر تنقید کرتا ہے تو تنقید کو قبول کرلینے میں اس کا دل ٹھیرائو پاتا ہے۔کسی کاحق اس کے ذمہ ہوتو جب تک وہ اس کا حق ادانہ کرلے تو اس کو راتوں کو نیند نہیںآتی— ایسے لوگ خداکی دنیا سے اس کی طیب خوراک لے رہے ہیں اوراس کی خبیث خوراک سے اپنے کو بچائے ہوئے ہیں۔

دنیا میںایسا ہوتا ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں باربار غیر معمولی حالات آتے ہیں ،کبھی کسی سے معاملہ پڑنے کی صورت میں ،کبھی کسی سے شکایت پیدا ہوجانے کی صورت میں۔یہ غیر معمولی مواقع وہ غیر معمولی لمحات ہیں جب کہ خدادونوں قسم کی روحوں کوچھانٹتا ہے تاکہ ایک کے لیے جنت کا اوردوسرے کے لیے جہنم کا فیصلہ کرے۔جنت پاک روحوں کی آبادی ہے جہاں وہ لوگ بسائے جائیں گے جنھوں نے دنیا کی جانچ میںتواضع اورانصاف کا ثبوت دیااورجہنم ناپاک روحوں کا جیل خانہ ہے جہاں وہ لوگ داخل کیے جائیںگے جو معاملہ کے وقت بے انصاف ہوگئے اورخداکے دئے ہوئے وسائل کو اس لیے خرچ کیاتاکہ اس کے ذریعہ سے اپنی متکبر انہ نفسیات کی تسکین حاصل کریں۔جنتی اخلاقیات کے لوگ جنت میںہوں گے اورجہنمی اخلاقیات کے لوگ جہنم میں۔

خداکی قدرت

ابو العلاء المعری کا ایک شعر ہے :

تَبَارَكَتْ أَمْوَاهُ البِلَادِ بِأَسْرِهَا                          عِذَابٌ ‌وَخُصَّتْ ‌بِالمُلُوحَةِ زَمْزَمُ

 ’’خدا یا تیری برکت ،دنیا کی تمام نہریں میٹھا پانی لے کر بہہ رہی ہیں اورزمزم ہی کو خاص طورپر کھاری بنادیاگیا) ‘‘الدر الفريد وبيت القصيد (6303۔

یہ تمثیل کے انداز میں گہری حقیقت کا اظہار ہے۔دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں تمام سطحی چیزیں مزہ دار ہیں اورتمام گہری چیزیں بے مزہ ہیں۔ اگر آپ کو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دینا ہوتو آپ کو غصہ اورنفرت کا کڑواگھونٹ پینا پڑے گاجب کہ تنگ ظرفی کے لیے اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیںکہ آدمی کے اندر جو تلخی یا کڑواہٹ پیدا ہووہ اس کودوسرے کے اوپر انڈیل دے۔اگر آپ کوکوئی حقیقی کام کرنا ہو تو آپ کو بااصول آدمی بننے کی سختی برداشت کرنی ہوگی ،جب کہ بے مقصد انسان بن کر جینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جہاں جیسا موقع ہووہاں اسی روش کا مظاہرہ کردیا جائے۔اگر آپ کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے جینا ہے تو پوری زندگی پر طرح طرح کی روک لگانی پڑے گی،جب کہ بے مقصد زندگی گزارنے کے لیے صرف یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو بے لگام چھوڑدیاجائے۔

آزادی کے بعد ہندستان کی جو پہلی منتخب پارلیمنٹ بنی اس کے ممبر پروفیسر ہیریندر ناتھ مکھر جی(1907-2004) تھے۔ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد جب وہ دہلی سے کلکتہ کے لیے روانہ ہوئے تو ان پر ایک عجیب کیفیت گزری۔تیز رفتار ٹرین کی فرسٹ کلاس بوگی ان کولیے ہوئے دہلی کے جنوبی علاقہ سے گزررہی تھی۔انھوں نے دیکھا کہ ریلوے لائن کے کنارے جھگی جھونپڑیوں اورگندے محلّوں کا سلسلہ ہے جو دورتک چلاگیا ہے۔ان کو یہ سوچ کر سخت صدمہ ہواکہ آزادی کے انقلاب نے چند خوش قسمت لوگوں کو تو بہت کچھ دیا ہے مگر کروڑوں عوام کے لیے اس انقلاب کے پاس کوئی چیزنہیں ہے۔کلکتہ پہنچ کر انھوں نے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہروکو ایک خط لکھا جس میں اپنے مذکورہ تاثر کا ذکر کرتے ہوئے یہ درج تھا کہ جب میں دہلی کی ان غریب بستیوں سے گزراتو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ لوگ اگر مجھ سے پوچھیں کہ تمہاری آزادی سے ہم کو کیا ملاتو میرے پاس اس کا کیا جواب ہوگا۔پنڈت نہرو نے پروفیسر مکھرجی کے اس خط کو جو جواب دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا—’’تم اپنے حساس ہونے کی قیمت اداکررہے ہو‘‘

You are paying the price of being sensitive.

بے ضمیر انسان کو کروڑوں جھونپڑیوں کا منظر کسی پریشانی میںمبتلا نہیںکرتا۔مگر جس شخص کا ضمیر زندہ ہو اس کو یہ گندی جھونپڑیاں اس طرح تڑپادیں گی کہ اس کا نرم گدّا اس کے لیے کانٹوں کا بستر بن جائے — اعلیٰ انسانیت ہمیشہ تلخ گھونٹ پی کر ملتی ہے جب کہ گھٹیا انسان بننے کے لیے سطحیت اورموقع پرستی کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔

خدا کی طرف سفر

 

جب سفر ختم ہوگا

ایکسپریس ٹرین لمبا سفر طے کرنے کے بعد منزل پر پہنچ رہی تھی۔سٹرک کے دونوں طرف ظاہر ہونے والے آثار بتارہے تھے کہ آخری اسٹیشن قریب آگیا ہے۔ٹرین کے سینکڑوں مسافروں میں نئی زندگی پیداہوگئی تھی۔کوئی بستر باندھ رہاتھا۔کوئی کپڑے بدل رہاتھا۔کوئی اشتیاق بھری نظروں سے کھڑکی کے باہر دیکھ رہاتھا۔ہر ایک کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی ،ہر ایک آنے والے پُر مسرت لمحہ کا منتظر تھا جبکہ وہ ٹرین سے اتر کر اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔

اچانک زور کا دھماکا ہوا۔ایکسپریس ٹرین یارڈمیں کھڑی ہوئی دوسری ٹرین سے ٹکراگئی۔اس کے بعد جو کچھ پیش آیا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں — خوشیاں اچانک غم میں تبدیل ہوگئیں۔زندگیاں موت کی آغوش میں سو گئیں ،امیدوں کے محل کی ایک ایک اینٹ بکھر گئی۔ایک کہانی جس کا اختتام بظاہر طربیہ (Comedy) پر ہور ہاتھا ،اپنے آخری نقطہ پر پہنچ کر اچانک المیہ(Tragedy)میں تبدیل ہوگیا۔

ایسا ہی کچھ معاملہ زندگی کا ہے۔آدمی بے شمار کوششوں کے بعد پُر اعتماد معاشی زندگی بناتا ہے۔وہ اپنے حوصلوں کو ایک بنے ہوئے گھر کی صورت میں تعمیر کرتا ہے۔وہ اپنے لیے ایک کامیاب زندگی کا مینار کھڑاکرتا ہے۔مگر عین اس وقت اس کی موت آجاتی ہے۔اپنے گھر کو سونا چھوڑکر وہ قبر میں لیٹ جاتا ہے۔اس کا چکنا جسم مٹی اورکیڑے کی نذرہوجاتا ہے۔اس کی کوششوںکا حاصل اس سے اس طرح جدا ہوجاتا ہے جیسے آدمی اوراس کے درمیان کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا۔

’’کوٹھی ‘‘کا خواب دیکھنے والا مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ’’قبر ‘‘میں داخل ہو،وہ قبر کے راستہ سے گزرکر حشر کے میدان میں پہنچ جائے۔یہ دوسری دنیا اس کی آرزوئوں کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔یہاں وہ اتنا مفلس ہوتا ہے کہ اس کے جسم پر کپڑابھی نہیںہوتا۔ اس کی ساری کمائی اس سے جداہوجاتی ہے۔اس کے ساتھی اس سے بچھڑ جاتے ہیں۔اس کا زور اس سے رخصت ہوجاتا ہے۔ان چیزوں میں سے کوئی چیز وہاں اس کا ساتھ دینے کے لیے موجود نہیں ہوتی جن کے بل پروہ دنیا میں گھمنڈکررہا تھا۔

آہ وہ سفر بھی کیسا عجیب ہے جو عین اختتام پر پہنچ کر حادثہ کا شکار ہوجائے۔

25واں گھنٹہ

ایک فرانسیسی مصنف نے ایک کتاب شائع کی ہے۔اس کا نام ہے 25واں گھنٹہ :

25th Hour

اس کتاب میں مصنف نے دنیا کی موجودہ حالت کا جائزہ لیاہے۔انھوں نے دکھایا ہے کہ دنیادو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔دونوں ایک دوسرے کو مٹانے کی ایسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جس کا آخری نتیجہ صرف انسانیت کی مجموعی ہلاکت ہو۔ہتھیاروں کی اندھادھند ریس نے دنیا کو خطرناک ہتھیاروں کا گودام بنادیا ہے۔مسلسل جنگی تیاریوں نے دنیا کو اپنی بربادی کے آخری کنارے پہنچا دیاہے۔

مصنف لکھتا ہے کہ ہمارا 24واں گھنٹہ ختم ہوچکا ہے( 24th hour is past )۔ اب پچیسواں گھنٹہ (خاتمہ کا گھنٹہ)شروع ہونے والا ہے۔

مصنف نے جوبات ’’انسانی جنگ ‘‘کے بارے میں کہی ہے وہ ’’خدائی قیامت ‘‘کے بارے میں زیادہ صحیح ہے۔خدانے موجودہ دنیا کو محدودمدت کے لیے امتحان کے واسطے پیدا کیاہے۔یہ مدت صرف خداکے علم میں ہے ،وہ ہم کو تعین کے ساتھ معلوم نہیں۔کسی بھی لمحہ خدااس مدت کے خاتمہ کا اعلان کرسکتا ہے۔اور اس کے بعد دنیا اور اس کا سارا تمدن عظیم زلزلہ کے ذریعہ تباہ ہوجائے گا۔اور اس کے بعد ایک نئی ابدی اورکامل دنیا تخلیق کی جائے گی۔

اس اعتبار سے دیکھیے تو موجودہ زمین پر ہماراہر لمحہ گویا آخری لمحہ ہے۔اگر ہم اپنی صبح میں ہیں تو اندیشہ ہے کہ ہم شام نہ کرسکیں۔اگر ہم اپنی شام میں ہیں تو اندیشہ ہے کہ ہمیں دوبارہ صبح دیکھنے کو نہ ملے۔

موجودہ دنیا میں ہماراہر لمحہ آخری لمحہ ہے۔ہر وقت یہ امکان ہے کہ انسانیت اپنی مہلت عمر پوری کرچکی ہو۔انسان اپنے ’’24ویں گھنٹے ‘‘کو ختم کرکے 25ویں فیصلہ کن گھنٹے میں داخل ہوجائے۔

لوگ نیو کلیر جنگ کے خطرہ سے ڈر رہے ہیں۔حالاں کہ انہیںخداکی طرف سے قیامت کا صور پھونکاجانے سے ڈرنا چاہیے۔کیوں کہ نیو کلیر جنگ کا ہونا یقینی نہیں۔مگر قیامت کا آنا یقینی بھی ہے اوراس کا انجام ابدی بھی۔

آخری منزل

ماؤنٹ ایورسٹ(Mount  Everest) دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ہمالیہ کی یہ مشہور چوٹی سطح سمندر سے 29028فٹ (8848میٹر)بلند ہے۔کہا جاتا ہے کہ پہلا قابل ذکر شخص جس نے اس بلند چوٹی پراپنا قدم رکھنے کی سنجیدہ کو شش کی وہ ایک انگریز موریس ولسن (1898-1934) تھا۔اس نے 1934میں اس کے اوپر چڑھائی کی۔مگرجس چیز کو اس نے اپنی زندگی کا کلائمکس سمجھا تھا وہ اس کے لیے اینٹی کلائمکس (Anti-climax) بن گیا۔

موریس ولسن پہلی جنگ عظیم میں ایک سپاہی تھا۔اس کو دنیا کی’’ آخری بلند ی‘‘پر پہنچنے کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اس نے اپنے خاندان کی کامیاب تجارت کو اس کے اوپر قربان کردیا۔اس نے اپنا تمام سرمایہ خرچ کرکے ذاتی طورپر ایک سکنڈ ہینڈ ہوائی جہاز خریدا۔وہ انگلستان سے ہند ستان تک چھ ہزار میل کا سفر طے کرکے پورنیہ میں اترا۔اس کو اپنا ہوائی جہاز آگے لے جانے کی اجازت نہیں ملی۔چنانچہ اس نے اپنا جہاز فروخت کردیا۔اس کے بعد اس نے دارجیلنگ اورتبّت کے راستے سے ایورسٹ کی طرف سفر شروع کردیا۔

آخر میں اس کے پاس ایک چھوٹا خیمہ، کچھ چاول، ایک خود کارکیمرہ اور چند دوسری چیزیں باقی رہ گئیں۔تاہم وہ اوپر چڑھتا رہا۔وہ کامیابی کے ساتھ19500فٹ کی بلندی تک چڑھ گیا۔21 اِپریل 1934کو اس کی 36ویں برتھ ڈے تھی۔اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اس تاریخی دن کو ایورسٹ کی چوٹی پر کھڑاہو۔اس نے اپنی ڈائری میں چند دن پہلے یہ الفاظ لکھے:

Only 1300 feet more go. I have the distinct feeling that I'll reach the summit on April 21

صرف تیرہ ہزار فیٹ جانا اورباقی ہے۔مجھے یہ واضح احساس ہورہا ہے کہ میں 21اپریل (1934)کو چوٹی پر پہنچ جائوں گا۔

ان پُر فخر سطروں کو لکھنے کے بعد ہمالیہ کا سخت طوفان اورموسم کی شدت اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔وہ مجبور ہوگیا کہ پیچھے لوٹے۔چنانچہ وہ اترکر اپنے نچلے ٹھکانہ پر آگیا۔مگر اس کے بعد اس کو دوبارہ اوپر چڑھنا نصیب نہ ہوا۔اس کے بعد اس کے ساتھ کیا پیش آیا۔اس کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ایک سال بعد تِن زِنگ نارگے(1914-1986) اوپر چڑھ رہاتھا کہ اس کو ایک مقام پر موریس ولسن کی لاش ملی اوراسی کے ساتھ اس کی ڈائری بھی۔جس کا آخری اندراج وہ جملہ تھا جس کو ہم نے اوپر نقل کیاہے۔

موریس ولسن ہمالیہ کی بلند ترین چوٹی پرخود کارکیمرہ کے ذریعہ اپنی تصویر کھینچنا چاہتا تھا۔اس کو امید تھی کہ کیمرہ کی آنکھ اس کو فتح کی چوٹی پر دیکھے گی۔جب یہ تاریخ آئی تو وہاں نہ کوئی ولسن تھا جو اپنی فتح وکامیابی کو دیکھ کر خوش ہو،اورنہ کوئی کیمرہ تھا جو اس کی فتح وکامیابی کے واقعہ کو ریکارڈ کرے۔

یہ کہانی بدلی ہوئی صورت میں ہر آدمی کی کہانی ہے۔ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔یہاں ہر آدمی صرف ایک ایسی منزل کی جانب چلا جارہا ہے جہاں موت کے سوا کوی دوسری چیز نہیںجو اس کا استقبال کرنے کے لیے موجودہو۔

موجودہ دنیا میں کچھ لوگ وہ ہیں جو دنیوی کامیابیوں کی صرف تمنا کرتے رہتے ہیں۔اور بالآخر اس طرح مرجاتے ہیںکہ انھوں نے اپنی خوابوں کی دنیا کی طرف سفر بھی شروع نہیں کیا تھا۔

دوسرے لوگ وہ ہیں جو اپنی زندگی میں ،کم یازیادہ ،ان خواہشوں کو پالیتے ہیں۔مگر پانے والے بھی ان چیزوں سے اتنا ہی دور ہتے ہیں جتنا کہ نہ پانے والے۔کیونکہ ان کو پالینے کے بعد آدمی پر کھلتا ہے کہ اس کو وہ طاقت اورموقع حاصل نہیں جو ان چیزوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہیں۔اس دنیا میں پانے والا بھی اتنا ہی محروم ہے جتنا نہ پانے والا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو جانتے ہوں۔

انسان کتنا زیادہ محروم ہے۔مگر وہ اپنے آپ کو کتنا زیادہ پانے والا سمجھتا ہے۔زندگی کس قدر غیریقینی ہے مگر آدمی اس کو کس قدر یقینی سمجھ لیتا ہے۔آدمی صرف نامعلوم کل کے راستہ پر جارہا ہے مگر وہ گمان کرلیتا ہے کہ وہ معلوم آج میں اپنی کامیاب دنیا تعمیر کررہا ہے۔

کتنے بے خبر ہیں وہ لوگ جو اپنے کوجاننے والا سمجھتے ہیں۔کیسے ناکام ہیں وہ لوگ جن کا نام کامیاب انسانوں کی فہرست میں سب سے آگے لکھا ہواہے۔

موت کے دوسری طرف

سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں۔مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا ’’میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا۔مگر موت نے مجھ کو فتح کرلیا۔افسوس کہ مجھ کو زندگی کا وہ سکون بھی حاصل نہ ہوسکا جو ایک معمولی آدمی کو حاصل ہوتا ہے‘‘۔نپولین بونا پارٹ(1769-1821) کے آخری احساسات یہ تھے ’’مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان دنیا میں کوئی نہیں۔میں دو چیزوں کا بھوکا تھا۔ایک حکومت ،دوسری محبت۔ حکومت مجھے ملی مگر وہ میراساتھ نہ دے سکی۔ محبت کومیں نے بہت تلاش کیامگر میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔ انسان کی زندگی اگر یہی ہے جو مجھ کو ملی تو یقینا انسانی زندگی ایک بے معنی چیزہے۔ کیونکہ کہ اس کا انجام مایوسی اوربربادی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ہارون الرشید ایک بہت بڑی سلطنت کا حکمران تھا۔مگر آخر عمر میں اس نے کہا ’’میں نے ساری عمر غم غلط کرنے کی کوشش کی ،پھر بھی میں غم غلط نہ کرسکا۔میں نے بے حد غم اورفکر کی زندگی گزاری ہے۔زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں جومیں نے بے فکری کے ساتھ گزاراہو۔اب میں موت کے کنارے ہوں۔ جلد ہی قبر میرے جسم کو نگل لے گی‘‘۔یہی ہر انسان کا آخر ی انجام ہے۔مگر ہر انسان اپنے انجام سے غافل رہتا ہے۔خلیفہ منصورعباسی کی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا:اگر میں کچھ دن اورزندہ رہتا تو اس حکومت کو آگ لگادیتا جس نے مجھے باربار سچائی سے ہٹادیا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک نیکی اس ساری حکومت سے بہتر ہے۔مگر یہ بات مجھ کو اس وقت معلوم ہوئی جب موت نے مجھے اپنے چنگل میں لے لیا۔

دنیا کے اکثر کامیاب ترین انسانوں نے اس احساس کے ساتھ جان دی ہے کہ وہ دنیا کے ناکام ترین انسان تھے۔حقیقت یہ ہے کہ موت کے قریب پہنچ کر آدمی پر جو کچھ گزرتا ہے اگر وہی اس پر موت سے پہلے گزرجائے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ہر آدمی جب موت کے کنارے کھڑاہوتا ہے تو اس کو وہ تمام رونقیں راکھ کے ڈھیرسے بھی زیادہ بے حقیقت معلوم ہوتی ہیں جن میں وہ اس قدر گم تھا کہ کسی اورچیز کے بارے میں سوچنے کی اسے فرصت ہی نہ ملی۔اس کے پیچھے ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ کھوچکا اورآگے ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا۔

موت جب سر پر آجائے اس وقت موت کو یاد کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔موت کو یاد کرنے کا وقت اس سے پہلے ہے۔جب آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر ظلم کرے اوراپنی ظالمانہ کارروائیوں کو عین انصاف کہے اس وقت وہ کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیںہوتا۔اس وقت وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتا ہے جو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔مگر جب اس کی طاقت ختم ہوجاتی ہے ،جب اس کے الفاظ جواب دینے لگتے ہیں ، جب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ موت کے بے رحم فرشتہ کے قبضہ میں ہے اس وقت اس کو اپنی غلطیاں یاد آتی ہیں۔حالاں کہ یاد آنے کا وقت وہ تھا جب کہ وہ غلطیاں کررہا تھا۔اورکسی نصیحت کی پرواکرنے کے لیے تیار نہ تھا۔

آخرت تک جانا ہے

مولانا اشرف علی تھا نوی ایک بارٹرین سے سفر کررہے تھے۔ان کو اعظم گڑھ جانا تھا۔ایک ریلوے گارڈجوان کا معتقدتھا اسٹیشن پر ان سے ملنے کے لیے آیا۔اتنے میں ایک دیہاتی آدمی بھی آگیا۔اس نے گنّے کا ایک گٹھّا تحفہ کے طور پر مولانا کو پیش کیا۔ مولانا نے قبول کرلیا اوراپنے ساتھی سے کہا کہ ان گنوں کا وزن کراکے ان کو بک کروا لو۔ گارڈنے کہا:بک کروانے کی کیا ضرورت ہے۔اس ٹرین سے جو گارڈجارہا ہے میں اس سے کہہ دیتا ہوں۔وہ خیال رکھے گا۔مولانا نے کہا کہ تمہاراگارڈتو اسی ٹرین تک ساتھ رہے گااورمجھے آگے جانا ہے۔گارڈ نے سمجھا کہ مولانا کو آگے کسی اسٹیشن پر یہ ٹرین بدل کر دوسری ٹرین پکڑنا ہے۔ اس نے کہا:کوئی ہرج نہیں۔میں گارڈ کو بتادیتا ہوں وہ آگے والے گارڈ سے بھی کہہ دے گااور آپ کوکوئی زحمت نہ ہوگی۔مولانا نے کہامجھے اس سے بھی آگے جانا ہے۔ گارڈ نے حیرت سے پوچھا آخر آپ کہاں تک جائیں گے ۔ابھی تو آپ نے کہا کہ آپ اعظم گڑھ جارہے ہیں۔مولانا نے کسی قدر خاموشی کے بعد کہا:مجھے آخرت تک جانا ہے ، وہاں تک کون ساگارڈ میرے ساتھ جائے گا‘‘۔

یہ معاملہ محض ریل کے سفر کا نہیں بلکہ تمام معاملات کا ہے۔آدمی کا ہر معاملہ آخرت کا معاملہ ہے۔ دنیا میں کوئی ’’گارڈ ‘‘وقتی طورپر آپ کا ساتھ دے سکتا ہے۔مگر آخرت کی منزل پر پہنچ کرکوئی گارڈساتھ دینے والا نہیں۔ جس کا ذہن یہ ہوکہ مجھے آخرت تک جانا ہے وہ ہر اس چیز کو بے قیمت سمجھے گاجو آخرت میں بے قیمت ہوجانے والی ہو ،خواہ آج وہ کتنی ہی قیمتی نظر آئے۔اسی طرح وہ ہر اس چیز کو وزن دینے پر مجبور ہوتا ہے جو آخرت میں باوزن ثابت ہونے والی ہو،خواہ آج کی دنیا میں بظاہر وہ کتنی ہی بے وزن دکھائی دے۔

آدمی حق کاانکار کرنے کے لیے آج خوبصورت الفاظ پالیتا ہے۔مگر آخرت میں اس کو معلوم ہوگا کہ وہ اس کا ساتھ چھوڑ کر پیچھے رہ گئے۔آدمی طاقت کے بل پر بے انصافی کرتا ہے اورخوش ہوتا ہے کہ مظلوم اس کا کچھ بگاڑنہیں سکتا۔مگر آخرت میں وہ دیکھے گاکہ اس کی طاقت پیچھے کی دنیا میں رہ گئی ہے ،آخرت میںوہ اس کا ساتھ دینے کے لیے موجود نہیں ہے۔آدمی کے سازوسامان اس کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ اپنے گھمنڈ کا مینار کھڑاکرتا ہے۔ مگر آخرت میںوہ پائے گا کہ اس کے وہ سازوسامان اس سے بہت دور ہوچکے ہیں جن کے اوپر وہ گھمنڈ کیاکرتا تھا۔

مومن اورغیر مومن کا فرق ایک لفظ میں یہ ہے کہ غیر مومن یہ سمجھ کر زندگی گزارتا ہے کہ اس کو اسی دنیا میں رہنا ہے۔اورمومن اس نفسیات کے ساتھ جیتا ہے کہ ا س کو آخرت تک جانا ہے۔نفیسات کا یہ فرق دونوں کی زندگیوں میںاتنا زیادہ عملی فرق پیدا کردیتا ہے کہ ایک جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے اور دوسراجنت کا۔

موت کی طرف

آج وہ بے وقت مجھ سے ملنے آگیا تھا اور بہت کم میرے پاس ٹھہرا۔خلافِ معمول اس نے چائے بھی قبول نہیں کی۔’’مجھے بہت جلد گھر پہنچنا ہے۔وہاں میری بیوی میراانتظار کررہی ہوگی ‘‘۔اس نے کہا اوراپنا اسکوٹر اسٹارٹ کرکے تیزی سے روانہ ہوگیا۔اس کی واپسی کو بمشکل آدھ گھنٹہ ہواتھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔اس کی بیوی گھبرائی ہوئی آواز میں بول رہی تھی ’’آپ کے دوست کا....‘‘اس نے کہا۔بظاہر اس کا جملہ ادھوراتھا۔مگر اس کے رونے کی آواز نے اس کو پوراکردیا۔میں ٹیلی فون بند کرکے فوراً اس کے گھر کی طرف بھاگا۔معلوم ہواکہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔مجھ سے رخصت ہوکر وہ اپنے گھر پہنچا۔ابھی سیڑھیوں ہی پر تھا کہ لڑھک کر گرپڑا۔لوگ اٹھا کر اندر لے گئے۔فوراًڈاکٹر بلایا گیامگر ڈاکٹر نے آکر صرف یہ خبر دی کہ وہ اس دنیاسے جاچکا ہے۔

اسکوٹر پر سوار ہوکر وہ میرے یہاں سے روانہ ہواتو بظاہر وہ اپنے گھر جارہا تھا۔مگر حقیقتہً وہ موت کی طرف جارہا تھا۔یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں۔اس طرح کے واقعات ہر روز اورہر جگہ پیش آرہے ہیں۔26مئی 1979کو امریکاکا ایک بڑاجیٹ جہاز جس میں 271مسافر سوار تھے ،اوہرے(O'Hare)ہوائی اڈے سے اڑا۔تھوڑی ہی دیر بعدوہ زمین پر گرگیا۔جہاز سمیت سارے مسافر جل کر راکھ ہوگئے۔یہ معاملہ چند انسانوں کا نہیں بلکہ یہی معاملہ تمام انسانوں کا ہے۔سارے انسان جو زمین پر چلتے اوردوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ سب موت کی منزل کی طرف جارہے ہیں۔ہر آدمی سب سے زیادہ جس چیز کے قریب ہے وہ موت ہے۔ ہر آدمی موت کے کنارے کھڑاہواہے۔ہر آدمی ہر آن اس خطرہ میں مبتلا ہے کہ اس کا آخری وقت آجائے اوروہ اچانک اس دنیا سے اٹھا کر اگلی دنیا میں پہنچا دیا جائے ،جہاں سے کسی کو واپس نہیں آنا ہے۔جہاں آدمی کے لیے یا تو جنت ہے یا جہنم۔

ایک اندھا آدمی چلتے چلتے کنویں کے کنارے پہنچ جائے تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اس وقت سب سے بڑاکام یہ ہے کہ اس کو کنویں کے خطرہ سے آگاہ کیا جائے۔حتیٰ کہ ایسے نازک موقع پر آدمی قبلہ وکعبہ کی زبان اور نحووصرف کے قواعد تک بھول جاتا ہے اوربے اختیار پکار اٹھتا ہے ’’کنواںکنواں ‘‘۔مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ساری انسانیت اس سے بھی زیادہ خطرناک ’’کنویں ‘‘کے کنارے کھڑی ہوئی ہے۔مگر ہر آدمی دوسرے دوسرے کاموں میں لگا ہواہے۔کوئی شخص ’’کنواں کنواں ‘‘پکارنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ اگر کوئی دیوانہ اس قسم کی پکار بلند کرے تو لوگوں کی طرف سے جواب ملتا ہے— ’’یہ شخص قوم کو بزدلی کی نیند سلانا چاہتا ہے ،وہ جہاد کے جذبہ کو ختم کررہا ہے ،وہ حقیقی مسائل سے لوگوں کو ہٹادینا چاہتا ہے ،وہ زندگی کا پیغام بر نہیں بلکہ موت کا داعی ہے۔وہ مایوسی اور بے ہمتی کا سبق دے رہا ہے ‘‘۔

لوگ کنویں کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ مکان میں ہیں۔لوگ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر خوش ہیں کہ وہ زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔

موت سے قریب

ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے۔ہمارااصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانوں کے درمیان اپنی جگہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔حالاں کہ عنقریب ہم خداسے دوچار ہونے والے ہیں۔ہم دنیا میں عزت اورکامیابی ڈھونڈرہے ہیں۔حالاں کہ بہت جلد ہم آخرت میں داخل ہونے والے ہیں۔ہم میں سے ہر شخص زندگی کے مقابلہ میں موت سے زیادہ قریب ہے مگر ہر شخص زندگی کے مسائل میں الجھا ہواہے ،موت کے مسائل کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔وہ اسلام جس نے اصحاب رسول کو سراسیمہ بنا دیا تھا وہ اسلام آج لوگوں کو صرف قناعت اوربے فکری کا تحفہ دے رہا ہے۔

ایسا کیوں ہے۔قرآن کے الفاظ میں اس کی وجہ تزئین (فاطر،35:8)ہے۔ہر آدمی کو کچھ ایسے الفاظ مل گئے ہیں جن سے وہ اپنی غیر اسلامیت کی خوبصورت اسلامی توجیہ کرسکے۔ہر آدمی نے اپنے گرد خوش خیالیوں کاایک گھر وندابنالیا ہے اوراس کے اندر وہ جی رہا ہے۔اس کو یہ احساس نہیں کہ موت کا دھماکہ اچانک اس کے گھروندے کو توڑدے گااوراس کے بعد اس کے پاس ایک تنکا بھی نہ ہوگا جس سے وہ خدا کے غضب کے مقابلہ میں اپنا بچائو کرسکے۔

ایک قائد ملت ایک مسلمان کے اوپر ظلم کرتا ہے مگر اس کو اپنے ظالم ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔کیوں کہ وہ جلسوں میں اوراخبارات کے صفحات میں اپنے کو اسلام کا چیمپئن بنا ہوادیکھتا ہے۔اس کے لیے ناقابل قیاس ہوجاتا ہے کہ ایک شخص جو دنیا میں ناخدائے ملّت بنا ہوا دکھائی دے رہا ہووہ آخرت میں ظالمِ ملّت کی حیثیت سے اٹھا یا جائے۔ایک لیڈر مسلمانوں کے درمیان ایسی سیاست چلاتا ہے جس سے مسلمان دوگرہوں میںبٹ کرایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں۔ملک کی دینی اورتعمیری سرگرمیاں تہس نہس ہوجاتی ہیں۔دنیا کی نظر میں اسلام کی یہ تصویر قائم ہوتی ہے کہ اسلام وحشیوں کا مذہب ہے جو آپس میں لڑائی جھگڑے کے سوا اورکچھ نہیں سکھاتا۔اس کے باوجود لیڈرکی راتوں کی نیند نہیں اچٹتی۔اس کا دن کا سکون غارت نہیں ہوتا۔کیوںکہ وہ دیکھتا ہے کہ اپنی زبان وقلم کے ذریعہ اس نے جو اشاعتی کارنامے انجام دیے ہیں وہ اس کو لاکھوں معتقدین کے درمیان نجات دہندۂ اسلام بنائے ہوئے ہیں۔اپنی علمی اورتقریری خدمات کی بدولت وہ ایک اسلامی ہیرو کی سی زندگی گزار رہا ہے۔ایسی حالت میں اس کے لیے ناقابل فہم بن جاتا ہے کہ خداکے یہاں اس کو بے قیمت قرار دے دیاجائے ،دنیا میں اعزازات پانے والا آخرت میں صرف محرومی کی خندق میں ڈال دیا جائے۔

اسی طرح ایک شخص وعدہ خلافی کرتا ہے ،اپنے پڑوسی کو ستاتا ہے۔اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا نہیں کرتا۔لین دین میں اس کے معاملات لوگوں سے صاف نہیں ہیں۔اس کے باوجود سمجھتا ہے کہ جنت اس کے لیے ضرور ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ میں نماز روزہ کا اہتمام کررہا ہوں۔حج کی سعادت بھی میں نے حاصل کرلی ہے۔مسجد اورمدرسہ کے چندہ دہندگان میں بھی میرا نام چھپا ہوا ہے۔اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے ایک دین دار آدمی کا بھی یہ انجام ہوسکتا ہے کہ آخرت میں وہ بے دین قرار دے کر خداکی رحمتوں سے دور پھینک دیا جائے۔

قبر نہیں دروازہ

’’حافظ جی کے لڑکے کا انتقال ہوگیا ہے۔جنازہ کی نمازتیار ہے۔میں آپ کو بلانے کے لیے آیا ہوں‘‘۔سنتے ہی میں نے کتاب بند کی اوروضو کرکے ان کے ساتھ روانہ ہوگیا۔

قبرستان پہنچا تو وہاںمیرے سوا تھوڑے سے آدمی اور کھڑے تھے۔گنا تو چھوٹے بڑے سترہ آدمی تھے جن میں میت کے گھر کے افراد بھی شامل تھے۔مجھے ایک مہینہ پہلے کی بات یاد آئی جب کہ سیٹھ فضل علی کے ایک رشتہ دار کا جنازہ اسی قبرستان میں آیا تھا اور قبرستان کے خصوصی حصہ میں دفن ہوا تھا۔اس دن آدمیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ شمار کرنا مشکل تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا گویابستی کی تمام مسلم آبادی نکل آئی ہے۔

میرے پہنچنے کے چند منٹ بعد محلہ کے امام صاحب نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوگئے۔میں نے بھی صف میں شامل ہوکر نیت باندھ لی مگر امام صاحب نے اتنی تیزی سے نماز پڑھائی کہ میں کوئی دعا بھی پوری نہ پڑھ سکا۔بس جلدی جلدی چار بار اللہ اکبر کی آواز آئی اورتھوڑی دیر بعد انھوں نے سلام پھیردیا۔لوگ اپنے جوتے پہن کر اطمینان کے ساتھ اس طرح کھڑے ہوگئے گویا ’’نماز جنازہ ‘‘کے نام سے جو کام انہیںکرنا تھا اس کو انھوں نے پوری طرح انجام دے دیا ہے۔

قبر قریب ہی تھی۔وہاں پہنچے تو معلوم ہواکہ ابھی کھودی جارہی ہے۔لوگ دودو چار چار کرکے اِدھر اُدھر کھڑے ہوگئے۔کوئی فرقہ وارانہ مظالم کی داستان سنانے لگا۔کسی نے موسم کی سختی کا ذکر چھیڑ دیا۔کوئی بازار بھائو کے متعلق اپنی معلومات پیش کرنے لگا۔غرض اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہوگئیں۔

میں قبر کے سامنے خاموش کھڑاتھا۔میرے ذہن میںوہ آیتیں اورحد یثیں گھوم رہی تھیں جن میں قیامت ،حشر ،جنت ،دوزخ وغیرہ کے حالات بتائے گئے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا تھا گویا قبر ایک کھلا ہوا دروازہ ہے جس کے سامنے کھڑے ہوکر میں دوسری دنیا کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔میرا دل بے قرار ہوگیا۔میری زبان سے نکلا ’’زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جس میںلوگ الجھے ہوئے ہیں۔بلکہ اصل مسئلہ وہ ہے جو موت کے بعد سامنے آنے والا ہے۔کاش لوگوں کو معلوم ہوتا کہ وہ اس وقت کس واقعہ کے درمیان کھڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک شخص کی عارضی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف روانگی کی تقریب ہے۔یہ قبر جو ہمارے سامنے کھو دی جارہی ہے ،یہ قبر نہیں ہے بلکہ یہ ایک دروازہ ہے جو ایک شخص کو دوسری دنیا میں داخل کرنے کے لیے کھولا گیا ہے۔جانے والا ابھی اس دروازہ میں داخل ہوکر اُس پار چلا جائے گا۔

جب بھی کوئی شخص مرتا ہے تو یہ ایک خاص وقت ہوتا ہے۔اس وقت گویا تھوڑی دیر کے لیے اس دنیا کادروازہ کھو لا جاتا ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔اگر دیکھنے والی آنکھ ہوتو اس کھلے ہوئے دروازہ سے دوسری دنیا کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے جہاں ہم میں سے ہر شخص کو ایک روز جانا ہے۔مگر آج کی دنیا کے مناظر نے لوگوں کی نگاہوں کو اس قدر الجھا رکھا ہے عین دروازہ پر کھڑے ہوکر بھی انہیںاس پار کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔وہ حقیقت کے انتہائی قریب پہنچ کر بھی حقیقت سے بے خبر رہ جاتے ہیں۔

موت کا سبق

ایک مجرم کو بتایا گیا کہ عدالت اس کے خلاف فیصلہ کرچکی ہے اورکل صبح اس کو پھانسی دے دی جائے گی۔پھانسی اگرچہ کل کے دن ہونے والی تھی مگر آج ہی اس کا یہ حال ہواگویا اس کو پھانسی دی جاچکی ہو۔زندگی اس کے لیے بے قیمت ہوگئی۔اس کا ہنسنا اوربولنا ختم ہوگیا۔اس کے ہاتھ جو دوسروں کے خلاف اٹھتے تھے ،اب اس قابل نہ رہے کہ کسی کے خلاف اٹھیں۔اس کے پائوں جو ہر طرف دوڑنے کے لیے آزاد تھے ،اب ان میں یہ طاقت بھی نہ رہی کہ وہ کہیں بھاگنے کی کوشش کریں۔

موت بتاتی ہے کہ یہی معاملہ ہر ایک کا ہے۔ہر آدمی جو آج زندہ نظر آتا ہے ،کل کے دن اسے ’’پھانسی ‘‘کے تختہ پر لٹکنا ہے۔مگر ہر آدمی اس سے بے خبر ہے۔ہر ایک اپنے آج میں گم ہے ،کسی کو اپنے کل کا احساس نہیں۔یہاں ہر آدمی ’’مجرم‘‘ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اپنے مجرم ہونے کو جانتے ہوں۔

آدمی زمین پر چلتا پھرتا ہے۔وہ دیکھتا اورسنتا ہے۔وہ اپنے مال اور اپنے ساتھیوں کے درمیان ہوتا ہے۔اس کے بعد ایک عجیب واقعہ پیش آتا ہے۔اس سے پوچھے بغیر اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔اس کے چلتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔اس کی دیکھنے والی آنکھیں بے نور ہوجاتی ہیں۔وہ اپنی ہر چیز سے جدا ہوکر قبر کی تنہائی میں چلا جاتا ہے۔

موت کا یہ واقعہ آدمی کی حقیقت کو بتا رہا ہے۔وہ بتاتا ہے کہ آدمی اختیار سے بے اختیاری کی طرف جارہا ہے۔وہ اجالے سے اندھیرے کی طرف جارہا ہے۔وہ سب کچھ سے بے کچھ کی طرف جارہاہے۔موت سے پہلے وہ اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے جہاں وہ اپنے ارادہ کا آپ مالک ہے۔موت کے بعد وہ ایک ایسی دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں وہ کسی اور کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور ہوگا۔

آدمی اگر اس حقیقت کو یاد رکھے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔کسی پر قابو پاکر اسے ستانااس کو مضحکہ خیز معلوم ہو۔کیونکہ جو شخص خود کل دوسرے کے قابو میں جانے والا ہے وہ کسی کو ستاکر کیاپائے گا۔اپنے کو بڑاسمجھنے پر اسے شرم آئے گی۔کیونکہ جو بڑائی بالآخر چھن جانے والی ہو اس کی کیا حقیقت۔

زندگی کا سفر

مصطفیٰ رشید شیروانی ،مشہور مجاہد آزادی اورصنعت کار اور ممبر راجیہ سبھا ،ٹرین کے ذریعہ الہ آباد سے دہلی جارہے تھے۔گورنر کشمیر مسٹربی کے نہرو(1909-2001) بھی انہیںکے کمپارٹمنٹ میں تھے۔ٹرین غازی آباد پہنچی تھی کہ مصطفیٰ رشید شروانی پر دل کا سخت دورہ پڑا۔قبل اس کے کہ انہیںکوئی طبی امداد پہنچے ،فوراً ہی ٹرین میں ان کا انتقال ہوگیا۔یہ  8اپریل 1981کا واقعہ ہے۔انتقال کے وقت مرحوم کی عمر 59سال تھی۔

اس طرح کے واقعات مختلف شکلوں میں ہر روز ہوتے ہیں۔ہر دن بے شمار زندہ لوگ موت کے دروازہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ہر روز لاکھوں آدمیوں کے ساتھ یہ واقعہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقام سے نکل کر کسی ’’دہلی ‘‘کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔مگر درمیان ہی میں ان کو خدا کے فرشتے پکڑ لیتے ہیں اور ان کو ’’دہلی ‘‘کے بجائے آخرت کی منزل پر پہنچا دیتے ہیں۔

ہرآدمی امیدوں اورتمنائوں کی ایک دنیا اپنے ذہن میںلیے ہوئے ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی امیدوں کی دنیا کی طرف بڑھ رہا ہوں۔میںاپنے خوابوں والے ’’کل ‘‘کی طرف چلا جارہا ہوں۔مگر بہت جلد اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمنائوں والی دنیا کے بجائے خداکی دنیاکی طرف بڑھ رہا تھا ،وہ دنیا کی منزل کی طرف نہیں بلکہ آخرت کی منزل کی طرف چلا جارہاتھا۔آدمی کہاں جارہا ہے اور کہاں پہنچ رہا ہے ،مگر کسی کو اس کی خبر نہیں۔

آدمی اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دیتا ہے مگر قبل اس کے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو دیکھ کر خوش ہو وہ خود اپنے اس مستقبل کی طرف ہانک دیا جاتا ہے جس کے لیے اس نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔آدمی اپنے آرام کے لیے ایک شان دار مکان کھڑاکرتا ہے مگر ابھی وہ وقت نہیں آتا کہ وہ اپنے خوابوں کے مکان میںسکھ چین کے ساتھ رہے کہ موت اس کے اور اس کے مکان کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔آدمی اپنی معاش کو بڑھاتا ہے ،وہ سمجھتا ہے کہ میں عزت وترقی کی بلندیوں پر اپنے کو بٹھانے جارہا ہوں مگر بہت جلد اس کو معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا دن اس کے لیے جس چیز کا انتظار کررہا تھا وہ ایک سنسان قبر تھی نہ کہ عزت وترقی کی رونقیں۔

خداہر دن کسی ’’دہلی ‘‘کے مسافر کو ’’قبر‘‘میں پہنچا رہا ہے۔مگر آدمی ان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔اس کے باوجود ہر آدمی یہی سمجھتاہے کہ وہ ’’دہلی ‘‘کی طرف چلا جارہا ہے ،قبر کی منزل اس کے لیے کبھی آنے والی نہیں۔

کیسا عجیب

ایئر انڈیا کا ایک جہاز3جون  1984کو بینکاک سے بمبئی کے لیے اڑا۔یہ بوئنگ 747 تھا۔اس میں چار انجن نصب تھے اورعملہ کے علاوہ152مسافر سوار تھے۔جہاز ابھی فضا میں پہنچا تھا کہ اس کے ایک انجن میں آگ لگ گئی۔تاہم کیپٹن ورمانے ہوشیار ی کی اور جہاز کو قریب کے ہوائی اڈہ ڈون موانگ(Don Muang)پر اتارلیا۔اڑنے کے 20 منٹ بعد جہاز دوبارہ زمین پر تھا۔

پائلٹ کی ہوشیار ی سے جہاز حفاظت کے ساتھ رن وے پر اتر گیا جہاں ریڈ یائی اطلاع پا کر پہلے سے آگ بجھانے والے انجن موجود تھے۔تاہم بہت سے مسافر زخمی ہو گئے اور انہیںفوری طورپر اسپتال پہنچا یاگیا۔اس کی وجہ جہاز کا حادثہ نہیں تھا۔بلکہ اخباری رپورٹ(ٹائمس آف انڈیا،4 جون 1984)کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی :

Most of the injuries were due to passengers rushing for the emergency exit from where they descended through a chute.

یعنی بیشتر زخمیوں کی وجہ مسافروں کا آپس کا ٹکر ائو تھا۔کیوں کہ جب جہاز اترا تو مسافر تیزی سے دروازہ کی طرف دوڑ پڑے جہاں انہیں ایک ڈھلوان گاڑی سے نیچے اترنا تھا۔

جہاز کی آگ نے ابھی کسی کو پکڑ انہیں تھا۔صرف یہ اندیشہ تھاکہ شاید پکڑلے اور آدمی جل کر مرجائے۔تاہم اس اندیشہ نے لوگوں کو اتنا بد حواس کردیا کہ وہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ان میں سے ہر شخص یہ چاہنے لگا کہ سب سے پہلے وہ بھا گ کر آگے نکل جائے۔

مگر ایک اس سے زیادہ ہولناک خطرہ آدمی کا پیچھا کررہا ہے۔وہ موت اوراس کے بعد قیامت کا خطرہ ہے۔لیکن کسی کو اس کے اندیشہ سے بدحو اسی نہیں۔کوئی اس سے بھاگنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔کس قدر سچ فرمایا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں نے جہنم کی آگ سے خوفناک چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والا بے خبر سوگیا ہو:مَا رَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ هَارِبُهَا(سنن الترمذی، حدیث نمبر2601)۔

آدمی کو موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز متحرک کرتی ہے وہ ’’خوف‘‘ہے۔ خوف کی نفسیات عمل کا سب سے بڑاسر چشمہ ہے۔آخرت کا خوف تمام خوفوں میں سب سے بڑاخوف ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آخرت کا خوف واقعی معنوں میں کسی کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ آدمی کی پوری شخصیت کو جگا دے گا۔وہ اس کی تمام قوتوں کو متحرک کردے گا۔

جنازہ کو دیکھ کر

مرحوم کا جنازہ لوگ کا ندھوں پر اٹھائے ہوئے قبرستان کی طرف جارہے تھے۔ اور میرے ذہن میں ایک پوری تصویر جاگ رہی تھی۔مرحوم کے اس آخری سفر میںمجھے انسان اپنے آغاز سے اپنے انجام کی طرف جاتا ہوانظر آرہا تھا۔

آدمی پیدا ہوکر دنیا میں آتا ہے تو فوراً ہی اس کو ماں کی شفقت اور باپ کی سر پرستی حاصل ہوجاتی ہے۔وہ عزیزوں اوردوستوں کے درمیان پرورش پاتا ہے۔پھر وہ بڑاہوکر ایک بااختیار انسان کی حیثیت سے زمین پر اپنی زندگی بناتا ہے۔

آدمی کا یہ سفر جاری رہتا ہے۔یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے۔اب اس کے وہی دوست اوررشتہ دار جو دنیا میں اس کے مددگاربنے ہوئے تھے ،اس کو اٹھا کرلے جاتے ہیں اورزمین کے ایک ایسے گڑھے میں ڈال کر بند کردیتے ہیں جہاں آدمی بالکل اکیلا ہوتا ہے۔جہاں وہ ہوتا ہے اور اس کا خدا۔

آدمی اب تک اپنے جیسے انسانوں کے سامنے تھا ،اب وہ برتر خدا کے سامنے ہوتا ہے۔اب تک وہ اختیار کی دنیا میں تھا ،اب وہ بے اختیاری کی دنیا میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔کیسا عجیب ہوگا وہ لمحہ جب ایک عاجز مطلق ایک قادر مطلق کے سامنے کھڑا ہوگا۔

موت کا یہ واقعہ ہر روز زمین کے اوپر ہوتا ہے۔ہر روز آدمی کسی نہ کسی کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے ،مگر اس کو کچھ احساس نہیں ہوتا۔

’’احساس تو جب ہو جب کہ آدمی کے دماغ میں جنت اور جہنم ہو‘‘میں نے سوچا۔ لوگوں کی سوچ بالکل دوسرے رخ پر چل رہی ہے۔لوگوں کے ذہن میں دوستی ،رشتہ داری ، کمانا اورگھر بنانا ،جیسے مسائل بھرے ہوئے ہیں۔وہ کسی آدمی کو اسی حیثیت سے جانتے ہیں۔ جب کوئی آدمی مرتا ہے تو وہ اس کے متعلق بس اتنا سوچ پاتے ہیں کہ ایک ساتھی بچھڑ گیا۔ ایک کمانے والا فرد ہم سے رخصت ہوگیا۔وہ صرف دنیا کے ساتھ انسان کے تعلقات کو جانتے ہیں۔وہ آخرت کے ساتھ انسان کے تعلقات کو نہیں جانتے ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ وہ جنازہ میں انسان کی خدا کے سامنے حاضری کو دیکھیں۔وہ موت کے سفر میں انسان کے آخرت کی طرف سفر کا مشاہدہ کریں۔

روپیہ سے راکھ تک

گھنشیام داس برلا (1894-1983)ہندستان کے مشہور ترین صنعت کا رتھے۔ان کی اعلیٰ کامیابی کا راز ان کی بے حد بااصول زندگی تھی۔انھوں نے 12سال کی عمر میںمعمولی کاروبارسے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔پھر وہ عظیم ترقی تک پہنچے آج ان کا خاندان ہندستان کا واحد سب سے بڑا کاروباری خاندان ہے۔

مسٹر برلا کا معمول تھا کہ صبح5بجے اٹھتے اورشام9بجے تک مسلسل کام میں مشغول رہتے۔ان کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔وہ شراب کے بجائے کافی پیتے تھے۔دو کھانے کے درمیان پانی کے سوا اورکچھ نہیں لیتے تھے۔اکثر اپنا کھانا خود اپنے ہاتھ سے پکاتے۔

مسٹر برلا روزانہ صبح کو ٹہلنے کے لیے نکلتے تھے۔اس معمول میں کوئی فرق نہیں تھا، خواہ وہ ہندستان میںہوں یا ہندستان کے باہر۔11جون 1983کو وہ لندن میں تھے۔ وہ حسب معمول صبح کے ناشتہ کے بعد ریجنٹ اسٹریٹ پر ٹہلنے کے لیے نکلے۔تھوڑی دیر چلنے کے بعد انہیںتکلیف محسوس ہوئی۔انھوں نے اپنے مددگاروں کو بتا یا جو اس وقت ان کے ساتھ تھے۔وہ انہیںفوراً گھر واپس لائے۔گھر آتے ہی وہ بے ہوش گئے۔اس کے بعد انہیںلندن کے مڈل سکس اسپتال(Middlesex Hospital) پہنچایا گیا۔اسپتال میں انہیںتھوڑی دیر کے لیے ہوش آیا ،وہاں انھوں نے کہا — ڈاکٹر ،مجھے کیا تکلیف ہے۔

What is wrong with me, Doctor?

ڈاکٹروں نے کہاہم پانچ منٹ میں معائنہ کرکے بتاتے ہیں۔مگر قبل اس کے کہ ڈاکٹروں کا معائنہ مکمل ہوان کا انتقال ہوچکا تھا۔مسٹر برلا کی وصیت تھی کہ جہاں میراانتقال ہو وہیں میرے آخری مراسم ادا کیے جائیں۔چنانچہ مسٹر برلا کی لاش کو لندن میں بجلی کے ذریعہ جلا دیا گیا ،اور ان کی راکھ ہندستان لاکر یہاں کی ندیوں میں بہادی گئی۔مسٹر برلا کی اسکول میں تعلیم نہیں ہوئی ،تاہم بعد کو انھوں نے ذاتی محنت سے اپنے اندر لیاقت پیدا کی۔وہ کئی کتابوں کے مصنف بنے۔ان کی ایک کتاب کا ہندی نام ہے — روپیہ کی کہانی۔

مسٹر برلا نے ’’روپیہ کی کہانی ‘‘لکھی ‘حالانکہ بالآخر وہ خود’’راکھ کی کہانی ‘‘بننے والے تھے۔یہی ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ہر آدمی اپنی کا میابی کی داستان لکھ رہا ہے۔حالانکہ آخر کار وہ جہاں پہنچنے والا ہے وہ مکمل بربادی کے سوا اورکچھ نہیں۔

جہنم کا خطرہ

خدانے انسان کو اس کی بناوٹ کے اعتبار سے جنتی نفسیات کے ساتھ پیدا کیا۔ اس کے بعد اس کو موجودہ دنیا میں ڈال دیا جہاں ایسے حالات ہیں جو آدمی کے اندر جہنمی نفسیات کو ابھارتے ہیں۔اب جو شخص اسفل سافلین میںرہتے ہوئے اپنے کو احسن تقویم کی سطح پر لے جائے ،با الفاظ دیگر جہنمی نفسیات کو ابھارنے والے ماحول میں دوبارہ اپنے اندر چھپی ہوئی جنتی نفسیات کو بیدار کرے تو وہی وہ شخص ہے جو مرنے کے بعد اللہ کے پڑوس میںاور اس کی نعمتوں میں جگہ پائے گا۔باقی لوگ دھوئیں اور آگ کی دنیا میں عذاب سہنے کے لیے چھوڑدئے جائیں گے (التین،95:1-5) ۔

موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔اس لیے اس کو اسی ڈھنگ پر بنایا گیا ہے کہ یہاں باربار آدمی کے لیے آزمائشی حالات پیدا ہوں۔یہاں نفع اورنقصان کے معاملات ہیں جو آدمی کے اندر حرص ،طمع اورخود غرضی کے احساسات ابھارتے ہیں۔یہاں سطحی دل چسپیاں ہیں جو آدمی کو شہوت پرستی ،نشہ بازی اور لذتیت کی طرف لے جاتی ہیں۔یہاں ایک آدمی اوردوسرے آدمی کا مقابلہ پیش آتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کے اندر خود پرستی اورانانیت کا شیطان جاگتا ہے۔یہاں مفادات کا ٹکرائو ہے جس کی وجہ سے غصہ ،نفرت اورکمینہ پن کے جذبات بھڑکتے ہیں۔یہی موجودہ دنیاکا ’’اسفل سافلین ‘‘ہونا ہے۔آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اوپر اٹھائے اوراپنے کو ’’احسن تقویم ‘‘کی سطح پر لے جائے جو باعتبار پیدائش اس کی حقیقی سطح ہے۔

ایک پھل اندر سے اچھا ہے یا خراب ،اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ اسے توڑاجائے۔یہی حال انسان کا ہے۔کوئی انسان جنتی نفسیات میں جی رہا ہے یا جہنمی نفسیات میں،اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ اس کی ہستی کو توڑاجائے۔جب آدمی کے ساتھ کسی قسم کی ناموافق صورت حال پیش آتی ہے تو اس وقت اس کی ہستی ٹوٹ جاتی ہے۔ایسے مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنتی تقویم کی سطح پر تھا یاجہنمی تقویم کی سطح پر۔جب دو آدمیوں کے درمیان روپیہ یا جائیدار کا جھگڑا کھڑا ہوتا ہے۔ جب دوصاحب معاملہ افراد کے درمیان کوئی کھٹ پٹ پیدا ہوجاتی ہے۔جب دو الگ الگ خیال رکھنے والوں کے درمیان رائے کا اختلاف ہوجاتا ہے۔جب ایک منصب کے دو دعویداروں کے درمیان ٹکرائو شروع ہوجاتا ہے تو یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب کہ یہ پتہ چلتا ہے کہ آدمی حقیقت کے اعتبار سے کیا ہے۔ایسے مواقع پر جو شخص نفرت ،خود غرضی ، بے انصافی اورانانیت کا مظاہرہ کرے وہ اپنے اس عمل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ جہنمی نفسیات میں جی رہا تھا ،وہ ابلیس اور شیطان کا پڑوسی تھا۔اس کے برعکس جس شخص کا ردعمل ان مواقع پر محبت ،بے غرضی ،انصاف پسندی اورتواضع کی صورت میں ظاہرہو وہ ثابت کررہا ہے کہ وہ جنتی نفسیات میں جی رہا ہے ،اس کے روز وشب خدا اور اس کے فرشتوں کے پڑوس میں گزرتے ہیں۔جو شخص دنیا میں شیطان کا پڑوسی ہے ،آخرت میں بھی اس کو شیطان ہی کا پڑوس حاصل ہوگا اورجو شخص دنیا میں خدا اورفرشتوں کا پڑوسی ہے ،وہ آخرت میںبھی خدا اورفرشتوں کے پڑوس میںرہے گا۔

گڑھے میں پاوں

مسٹر پی ،وی وینکٹیشورن ایک سرکاری ادارہ میں چیف مارکٹنگ مینجر تھے۔29مئی 1982 کی شام کو انھوں نے دہلی کے گوپالا ٹاور میں ایک میٹنگ میں شرکت کی۔آٹھویں منزل پر اپنی میٹنگ سے فارغ ہوکر وہ دفتر سے باہر نکلے تو بجلی فیل ہوچکی تھی ،وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لفٹ تک آئے۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کا دروازہ کھلا ہواہے۔وہ سمجھے کہ لفٹ آئی ہے حالاں کہ لفٹ ابھی اوپر نویں منزل پر تھی۔مسٹر وینکٹیشور لفٹ کے دروازے کی طرف لپکے۔اس وقت وہ میٹنگ کے فیصلوں سے اتنا خوش تھے کہ وہ صورت حال کی نزاکت کا اندازہ نہ کرسکے۔انھوں نے اپنا ایک پائوں لفٹ کے اندر ڈال دیا۔مگر وہاں خالی تھا۔وہ اچانک آٹھویں منزل سے زمین پر آگئے۔ان کا ذاتی ڈاکٹر ان کے ساتھ تھا، مگر وہ صرف یہ خدمت انجام دے سکا کہ نیچے اتر کر ان کی لاش کو دیکھے اور ان کے مردہ ہونے کا اعلان کرے۔موت کے وقت ان کی عمر 51 سال تھی (ہندستان ٹائمس، 30مئی 1982)۔

مسٹر وینکٹیشور ایک نہایت کامیاب افسر تھے۔ حال میں ایک سرکاری جرنل میں ان کے بارے میں الفاظ چھپے تھے— ایک بہادر کارکن ،ایک مستعد اوراختراعی منتظم ،جس کے اندر میں آگ لگی ہوئی ہو اورجس کے دماغ میں نظر یات کا خزانہ ہو ،ایک ہوشیار جنرل

A thoroughbred professional and a dashing innovative manager with fire in his belly and ideas in his mind, an astute general.

دنیا کے اعتبار سے مسٹر وینکٹیشور کا کیس ایک انوکھا کیس ہے۔مگر آخرت کے اعتبار سے ہر آدمی یہ فعل انجام دے رہا ہے ۔ہر آدمی عقل مندی اورکامیابی کے جوش میں ایسی جگہ اپنا پائوں رکھ رہاہے جو اس کو سیدھے آخرت کے گڑھے میں گرادینے والا ہے— کسی کو بے عزت کرنے والے الفاظ بولنا ،کسی کوستانے کے لیے اقدام کرنا ،کسی کے خلاف ضد اور انتقام کے تحت کارروائی کرنا ،کسی کے ساتھ ظلم اوربے انصافی برتنا ،کسی کو ناحق اپنے زور طاقت کا نشانہ بنانا ،کسی کا بے دلیل مذاق اڑانا ،یہ سب گویا ’’آٹھویں منزل ‘‘کے خالی مقام پر پائوں رکھنا ہے۔ایسا ہر اقدام آدمی کو تباہی کے نچلے گڑھے میں پہنچا دیتا ہے۔اس کے بعد نہ اس کے ساتھ اس کو بچانے والے ثابت ہوسکتے ہیں نہ اس کی خوش فہمیاں — ہر آدمی گڑھے میں پائوں رکھ رہا ہے۔ اگرچہ بطور خود وہ سمجھتا ہے کہ وہ محفوظ تختہ پر اپنا قدم جمائے ہوئے ہے۔

کتنا سنگین

اخبار ایک اعتبار سے موت کا خبر نامہ ہے۔ہر روز اخبار میں لوگوں کی موت کی خبریں ہوتی ہیں۔مثلاً میرے سامنے 24فروری1985کا اخبار ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ چکردھرپور ناگپور کی دوبوگیوں میں آگ لگ گئی۔یہ آدھی رات کا وقت تھا۔تیز ہواچل رہی تھی۔آگ تیزی سے پھیلی۔مگر بریک کام نہ کرنے کی وجہ سے مسافر ٹرین کو فوراً ٹھہرانہ سکے۔اگلے اسٹیشن پر ٹرین رکی تو بھرے ہوئے ڈبہ کے تقریباً ایک سو آدمی جل کر مرچکے تھے۔

دوسری خبروں میں صرف دہلی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ہندی ادیب چندرگپت ودیا لنکر 78سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔اجیت سنگھ (14سال) جیپ میں سفر کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہوا اورمرگیا۔25سال کے ایک آدمی کی لاش بورے میں بند پائی گئی وغیرہ وغیرہ ۔

اس طرح کے واقعات ہر روز اورہر جگہ پیش آتے ہیں۔وہ سادہ معنوں میں صرف موت کے واقعات نہیں ہیں۔یہ مخلوق کی اپنے خالق ومالک کے سامنے حاضری ہے۔یہ  ایک انسان کا خداکی عدالت میں پہنچا یاجانا ہے۔یہ امتحان کے مرحلہ کو پور اکرکے ابدی انجام کے مرحلہ میں داخل ہونا ہے۔

موت کایہ پہلو کتنا ہولناک ہے۔یہ موت کے واقعہ کو انتہائی سنگین بنادیتا ہے۔اتنا سنگین کہ اس سے زیادہ سنگین کوئی دوسرا واقعہ نہیں۔

موت کے اس پہلو کا تقاضا ہے کہ آدمی سب سے زیادہ موت کے بارے میں سوچے۔لکھنے اوربولنے والے سب سے زیادہ اس کے بارے میں لکھیں اوربولیں۔ انفرادی مجلسوں اورعوامی اجتماعات میں سب سے زیادہ اس کا چرچا ہو۔مگر عملاً صورت حال اس کے برعکس ہے۔موت ہر آدمی کو صرف یہ بتاتی ہے کہ ’’فلاں شخص اس دنیاسے چلا گیا‘‘وہ کسی کو یہ نہیں بتاتی کہ ’’میں بھی اس دنیا سے جانے والا ہوں ‘‘ہر آدمی موت کے سفر کو دوسروں کا سفر سمجھتا ہے۔کسی کو موت کے واقعہ میں اپنا سفر دکھائی نہیں دیتا۔

آہ وہ انسان ،جو اس وقت تک ہو ش میں آنے کے لیے تیار نہیں جب تک اس کو ہوش میں آنے کے لیے مجبور نہ کردیاگیا ہو۔

الفا ظ ختم نہیں ہوتے

الرسالہ اپریل 1984(آخری سفر)کے بارے میں ہم کو کئی خطوط ملے ہیں جن میں شکایت کی گئی ہے کہ اس شمارہ میں ’’کچھ مضامین دوبارے چھاپ دیے گئے ہیں ‘‘ایسے لوگوں سے ہم کہیں گے کہ آپ نے ابھی اس شمارہ کو نہیں پڑھا۔اگرآپ واقعۃ ً اس کو پڑھتے تو آپ کے ہوش وحواس گم ہوجاتے۔اس شمارہ میں زندگی کے جس انتہائی سنگین مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ اگر انسان کی سمجھ میں آجائے تو اس کے اوپر ایسی سراسیمگی طاری ہوکہ اس کو یہ یاد ہی نہ رہے کہ کون سامضمون پہلی بارچھپا ہے اورکون سامضمون دوسری بار۔کون سی بات پہلے کہی جاچکی تھی اورکون سی دوبارہ کہی جارہی ہے۔

اگر آپ راستہ چل رہے ہوں اوراچانک کوئی شخص چیخ کرکہے ’’تمہارے آگے سانپ ہے سانپ ‘‘توکیا اس وقت آپ کو یہ ہوش رہے گا کہ آپ اس شخص سے بحث کریں کہ تم نے سانپ کالفظ دوبارہ کیوں کہا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگوں کی بے خبری ہے جس نے انہیںتکرار اوربے تکرار جیسی باتوں میں مشغول کررکھا ہے۔اگر انہیںخبر ہوجائے تو ’’تکرار ‘‘ کا لفظ وہ اس طرح بھول جائیں جیسے کہ انھوں نے کبھی اس لفظ کو جانا ہی نہ تھا۔

ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ الرسالہ کے قارئین میں ایسے لوگ بھی ہیں جو واقعتاً اس کو پڑھتے ہیں۔اوراس سے وہ اثرلیتے ہیں جو انہیں لینا چاہیے۔چنانچہ اگر ہم کو ایک طرف مذکورہ بالا قسم کے خطوط ملے تو اسی کے ساتھ ہم کو دوسری قسم کے خطوط بھی موصول ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر الرسالہ کے ایک پرانے خریداراپنے خط مورخہ 16پریل 1984میں آکولہ سے لکھتے ہیں:

’’اپریل کا پرچہ (آخری سفر) ملا۔پڑھ کر ہوش وحواس گم ہوگئے۔واقعی اللہ نے آپ کے قلم میں جادو کا اثر رکھا ہے۔رسالہ پڑھتے ہوئے کئی مرتبہ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ الرسالہ کی تعریف کے لیے تو میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔صرف دعا کرسکتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ نصیب فرمائے اورآپ کے قلم میں دلوں کو پلٹ دینے کی تاثیر رکھ دیں ‘‘۔

آہ ،لوگوں کو اپنے ’’آخری سفر‘‘کی ہولناکی کا اندازہ نہیں۔اگر انہیںاس کا اندازہ ہو تو ان کی زبان بند ہوجائے۔حتی کہ ان کے پاس یہ کہنے کے لیے الفاظ نہ رہیں کہ — تم نے چھپے ہوئے مضمون کو دوبارہ چھاپ دیاہے۔

آہ کس قلم سے لکھا جائے

کوئی جہاز مشکل میں پھنس جائے تو وہ ریڈیو کے ذریعہ خاص سگنل بھیجتا ہے۔اس کو اصطلاح میں ایس اوایس (SOS)کہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم مصیبت میںہیں، ہماری مدد کرو۔ مگر اس قسم کے سگنل کی قیمت اسی وقت ہے جب کہ اس کو وصول کرنے والا اسٹیشن اسے اہمیت دے۔ اگر وصول کرنے والا اسٹیشن اسے اہمیت نہ دے تو وہ فضا میں بکھر کر رہ جائے گا۔وہ ایسا کلام بن جائے گا جس کو بولنے والے کے سواکسی اورنے سنا ہی نہ ہو۔

موجودہ زمانہ میں ہمارے لکھنے اوربولنے والے بھی خداکے نام گویا’’ایس اوایس ‘‘بھیج رہے ہیں۔وہ کہہ رہے ہیں کہ خدا یا ظالموں کے خلاف ہماری مدد کر۔مگر سو سالہ پکار کے باوجود ہماری مصیبت ختم نہیں ہوتی۔اس سے ظاہر ہے کہ ہم جس خدائی اسٹیشن کو اپنا ایس او ایس بھیج رہے ہیں اس کے نزدیک ہمارے ایس او ایس کی کوئی قیمت ہی نہیں۔

ہم خدا سے دوسروں کی بربادی مانگ رہے ہیں مگر خدااس کا منتظر ہے کہ ہم اس سے دوسروں کی ہدایت مانگیں۔ہم اپنے قومی مقاصد کے لیے خدا کو پکار رہے ہیں۔مگر خدا صرف اس پکار کو سنتا ہے جو دینی مقاصد کے لیے کی گئی ہو۔ہم لوگوں کو آگ میں ڈالنے کی دعا کررہے ہیں حالانکہ خداکی مرضی یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگ سے بچانے کی دعا کریں۔ایسی حالت میں ہمارا ’’ایس او ایس ‘‘خداکے یہاں کیسے قابل لحاظ ہوسکتا ہے۔جو فائر بریگیڈ پانی لیے ہوئے بیٹھا ہوا س سے ہم کہیں کہ آگ برسائو تو وہ کیسے ہماری بات کو سنے گا۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی جنتیں رزرو (reserve)ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہیںدوسروں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر نہیں۔اگر لوگوں کو اللہ کا ڈر ہو تو وہ جان لیں کہ قیامت میں اللہ کی پکڑسے وہی شخص بچے گاجس نے دوسروں کو اللہ کی پکڑ سے بچانے کی فکر کی ہو۔

لوگوں کے پاس الفاظ ہیں ،صرف اس لیے کہ وہ قیامت کی ہولناکی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالے ہوئے ہیں۔اگر وہ جانیں کہ وہ خود بھی قیامت کی ہولناکی کے کنارے کھڑے ہوئے ہیں تو ان کی زبانیں بند ہوجائیں۔خدا کی پکڑکا خوف ان کو اتنا ہلکان کردے کہ وہ ہنسنے سے زیادہ روئیں۔وہ بولنے سے زیادہ خاموش دکھائی دینے لگیں۔

خدا کا قانون

 

قانون کی زد

ہمارے ملک میں قانون کی پکڑسے بچنے کا یقینی ذریعہ رشوت ہے۔رشوت کے زور پر یہاں سب کچھ کیا سکتا ہے۔جس آدمی کی جیب میں کافی پیسہ موجودہے اس کے لیے کوئی بھی غلط کام کرکے اس کے قانونی انجام سے دو چار ہونے کا اندیشہ نہیں ۔

مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ اس قسم کی رشوت کارواج نہیں۔مگر اصل برائی وہاں بھی پوری طرح موجود ہے۔ان ملکوں میں قانون کی پکڑسے بچنے کے لیے ایک مستقل ’’کاروبار‘‘قائم ہے جس کو لوپ ہول کاروبار (Loophole  Business)کہا جاتا ہے۔

امریکاکے دارالسلطنت واشنگٹن میں ایک شخص نے دیکھا کہ شہر میں بہت سی نئی آفس بلڈنگیں کھڑی ہورہی ہیں۔اس کو تعجب ہوا۔کیوں کہ حال میں اس نے اخبار میں پڑھا تھاکہ صدر امریکانے دفتری کارکنوں میںکمی کا اعلان کیا ہے۔اس نے ایک عمارتی ٹھیکیدار سے پوچھا کہ ان عمارتوں کو کس قسم کے لوگ کرایہ پر لے رہے ہیں۔ٹھیکیدار نے کہا کہ وہ لوگ جو لوپ ہول بزنس سے تعلق رکھتے ہیں۔آدمی نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ لوپ ہول بزنس کیا ہے۔ٹھیکیدار نے جواب دیا،کیا آپ نہیں جانتے۔واشنگٹن میں دنیا کی سب سے بڑی لوپ ہول انڈسٹری ہے :

Washington has the largest loophole industry in the world.

اس نے مزید بتایا کہ امریکاکی مجلس قانون ساز قانون بناتی ہے۔اب کچھ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اوپر ان قوانین کی زد پڑرہی ہے۔انہیں تلاش ہوتی ہے کہ ان میں ایسے قانونی شگاف (Legal loopholes)دریافت کریں جن کے ذریعے وہ ان کی پکڑسے بچ سکیں۔ان دفاتر میںہزاروں کی تعداد میں ایسے اعلیٰ دماغ بیٹھے ہوئے ہیں جن کا کام یہی قانونی شگاف تلاش کرنا ہے۔چنانچہ لوپ ہول بزنس آج امریکاکا بہت بڑا اورمنظم بزنس بن چکا ہے (دی ہند و16دسمبر1984)۔

دنیا میں انسان کا مقابلہ انسان سے ہے۔یہاں وہ جرم کرتا ہے اورپھر رشوت دے کر یا قانون میں لوپ ہول تلاش کرکے اس کی زد سے بچ جاتا ہے۔پھر اس وقت انسان کا کیا حال ہوگا جب کہ وہ اپنے آپ کو خد اکے مقابلہ میں پائے گا جہاں نہ کوئی مال کسی کے کام آنے والا ہے اورنہ کسی قسم کی قانونی مہارت۔

خدا کی دنیا میں

ایک نو مسلم انگریز نے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے 1974میں حج کا فریضہ ادا کیا۔ یہ سفر میں نے اپنے وطن انگلینڈ سے بذریعہ موٹر کا ر کیا تھا۔

دسمبر 1973کی کوئی تاریخ تھی۔میںاپنی گاڑی چلاتا ہوا سوئزرلینڈ پہنچا۔وہاں زیورک میں میری بہن تھی جس سے مجھے ملنا تھا۔انگلینڈمیں بائیں چلو(Keep left)کا اصول ہے اورسوئزر لینڈ میں دائیں چلو(Keep right)کا اصول۔میں جب زیورک میں داخل ہواتومجھے یاد نہ رہا کہ یہاں مجھ کو اپنی گاڑی سڑک کے دائیں طرف چلانا چاہیے۔ سابقہ عادت کے مطابق میں سڑک کے بائیں طرف اپنی گاڑی دوڑانے لگا۔

جلد ہی ایک مقام پر ٹریفک کانسٹیبل نے ویسل دے کر مجھے روکا۔ جب میں رکاتو وہ میرے قریب آیا۔اس نے میری گاڑی کی پلیٹ دیکھی۔میرا حلیہ دیکھا۔وہ فوراً سمجھ گیا کہ یہ انگلش آدمی ہے اورانگلش ہونے کی وجہ سے بائیں طرف گاڑی دوڑارہا ہے۔اس نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا اورکہا جناب ،اس وقت آپ انگلینڈمیں نہیں ہیں :

Sir, you are not in England now.

یہ واقعہ بظاہر ایک ٹریفک کا واقعہ ہے۔مگر اس میں آخرت کا ایک بہت بڑا سبق چھپا ہواہے۔موجودہ دنیا جس میں ہم ہیں وہ خدا کی دنیا ہے۔مگر انسان اکثر اوقات اس کو اپنی دنیا سمجھ لیتا ہے۔وہ خدا کی مرضی کی پیروی کرنے کے بجائے اپنی مرضی اورخواہش کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔

جس طر ح سٹرک کے کنارے ٹریفک کانسٹیبل کھڑا ہوالوگوں کو بتاتا ہے کہ ’’تم اپنے ملک میں نہیں ہوبلکہ دوسرے کے ملک میں ہو‘‘اسی طرح خدا کے پیغمبر لوگوں کو یہ وارننگ دے رہے ہیں کہ ’’تم انسان کی دنیا میں نہیں ہوبلکہ خدا کی دنیا میںہو‘‘کامیاب انسان وہ ہے جو اس وارننگ پر دھیان دے۔وہ خود سری کو چھوڑ دے اورخدا کی دنیا میں خداکے حکم کا پابند بن کر رہے۔اس کے برعکس ناکام انسان وہ ہے جو خدا کو بھول جائے اورخدا کی دنیا میں اپنی خواہش کے رخ پر دوڑنے لگے۔

دنیا میں ٹریفک کے قانون کے خلاف ورزی کا انجام فوراً سامنے آجاتا ہے۔اس لیے آدمی یہاں ٹریفک کانسٹیبل کی وارننگ پاتے ہی اپنے کو درست کرلیتا ہے۔مگر خداکے قانون کی خلاف ورزی کا انجام آخرت میں سامنے آئے گا اس لیے اس معاملہ میںوہ وارننگ سن کر بھی اس کی پروانہیں کرتا، مگر اس سے بڑی بھول اورکوئی نہیں۔

تولے جانے سے پہلے تول لو

موجودہ دنیا میں چیزوں کے دو روپ ہیں۔ایک ظاہر اوردوسرا باطن۔یہاں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے باطنی وجود میں برائی لیے ہوئے ہومگرزبان سے خوبصورت الفاظ بول کر اپنے کو اچھی صورت میں ظاہر کرے۔قیامت اس لیے آئے گی کہ ظاہر وباطن کے اس فرق کو مٹادے۔ قیامت کا زلزلہ تمام ظاہر ی پردوں کو پھاڑدے گاتاکہ ہر انسان کے اوپر سے اس کا خول اتر جائے اوروہ اپنی اصلی اورحقیقی صورت میں سامنے آجائے۔

وہ دن بھی کیسا عجیب ہوگا جب حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا۔کتنے لوگ جو آج انصاف کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اس دن وہ مجرموں کے کٹہرے میں نظر آئیں گے۔ کتنے لوگ جو آج اہم ترین شخصیت سمجھے جاتے ہیں اس دن وہ کیڑوں مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر دکھائی دیں گے۔کتنے لوگ جن کے پاس آج ہر بات کا شاندار جواب موجود ہوتا ہے اس دن وہ ایسے بے جواب ہوجائیں گے جیسے کہ ان کے منہ میں الفاظ ہی نہیں۔

آج ایک شخص کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو ستائے اس کے باوجود اس کو دینداری کے اسٹیج پر بیٹھنے کے لیے نمایاں جگہ ملی ہوئی ہو۔ایک شخص اپنی شان وشوکت دکھانے کے لیے سرگرم ہوپھر بھی وہ مجاہد اسلام کے نام سے شہرت پائے۔ایک شخص اپنے اہل معاملہ سے بے انصافی کا طریقہ اختیار کرے اس کے باوجود امن وانصاف کے اجلاس میں اس کو صدارت کرنے کے لیے بلایا جائے۔ ایک شخص کی خلوتیںاللہ کی یاد سے خالی ہوں مگر اجتماعی مقامات پر وہ اللہ کے نام کا جھنڈااٹھانے والا سمجھا جاتاہو۔ایک شخص کے اندر مظلوم کی حمایت کا کوئی جذبہ نہ ہو اس کے باوجود اخبارات کے صفحہ پر اس کو مظلوموں کے حامی کی حیثیت سے نمایاں کیا جارہا ہو۔

ہر آدمی کی حقیقت خدا کے علم میں ہے مگر دنیا میں خدا لوگوں کی حقیقت چھپائے ہوئے ہے۔آخرت میں وہ ہر ایک کی حقیقت کھول دے گا۔وہ وقت آنے والا جب کہ خداکی ترازوکھڑی ہواورہر آدمی کو تول کر دکھا دیا جائے کہ کون کیا تھا اورکون کیا نہیں تھا۔اس وقت کا آنا مقدر ہے۔کوئی شخص نہ اس کوٹال سکتا اورنہ کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے بچا سکتا۔کامیاب صرف وہ ہے جو آج ہی اپنے کو خدا کی ترازو میں کھڑاکرلے۔کیونکہ جو شخص کل خداکی ترازو میں کھڑاکیا جائے اس کے لیے بربادی کے سوااورکچھ نہیں۔

آج بونا کل کاٹنا

گھنشیام داس برلا(1894-1983)راجستھان کے ایک گائوں پلانی میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ ایک معمولی آدمی تھے اورکلکتہ میں جو ٹ کے دلال کے طور پر کام کرتے تھے۔ چودہ سال کی عمر میں مسٹر برلا بھی کلکتہ چلے گئے اوروہاں اپنے باپ کے کام میں مدد کرنے لگے۔

مسٹر برلاکو ایک روز کلکتہ کے کسی تجارتی دفتر کی عمارت میں اوپر جانا تھا۔وہ جب لفٹ میںسوار ہونے لگے تو انہیںروک دیاگیا۔کیوں کہ یہ لفٹ صرف انگریز افسروں کے استعمال کے لیے تھی۔جب وہ سیڑھیوں پر چڑھ کر اوپر پہنچے تو وہاں بھی ان کو کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ملی۔ان کو ایک بنچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا جو چپراسیوں کے لیے مخصوص تھی۔تاہم نوجوان برلا اس بنچ پر نہیں بیٹھے اورکام ہونے تک برابر کھڑے رہے۔

انگریز ی دور میں مذکورہ بالا قسم کے تجربات نے مسٹر برلا کے اندر قومی آزادی کے خیالات پیدا کردئے۔وہ تحریک آزادی میں مہاتما گاندھی کے ساتھی بن گئے۔یہ وہ دورتھا جب کہ سرمایہ دار طبقہ کانگرس کے قریب آنے سے گھبراتا تھا۔مگر مسٹر برلا نہایت دوربین اورحوصلہ مند آدمی تھے۔انھوں نے 1947سے پہلے کی کانگرس میں 1947کے بعد کی کانگرس کی جھلک دیکھ لی۔انھوں نے قومی تحریک کے دور کے ہندستان میں آزادی کے دور کے ہندستان کا مشاہدہ کرلیا۔انھوں نے اس راز کو پالیا کہ آج کے ’’لیڈر ‘‘کل کے ’’وزیر‘‘ ہوں گے ، آج اگروہ ان لیڈروں کی مدد کریں۔توکل وہ ان سے زبر دست فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے آزادی کی تحریک کی باقاعدہ مالی مدد شروع کردی۔کہا جاتا ہے کہ 1947 تک وہ اس سلسلے میں گاندھی جی کو اورکانگرس پارٹی کو تقریباً 20کرور روپے دے چکے تھے۔

آزادی کے بعد مسٹر برلا کو اس کا زبردست فائدہ حاصل ہوا۔نئی حکومت کی طرف سے ان کو ہرقسم کی غیر معمولی سہولتیں ملنا شروع ہوگئیں۔انھوں نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ آزاد ہندستان کے سب سے بڑے صنعت کا ربن گئے۔آج برلا کا خاندان ہندستان کا سب سے زیادہ دولتمند خاندان سمجھا جاتا ہے۔

جو آدمی آج بوتا ہے وہی آدمی کل کاٹتا ہے۔یہ بات آج کی دنیا کے لیے بھی صحیح ہے اور یہی کل کی دنیا کے لیے بھی۔

موجودہ دنیا ناکافی

گرسن ولوریا(Gerson Viloria)فلپائن کا ایک باشندہ ہے جس کی عمر 34سال ہے۔ وہ ایک ٹریثرری میں کلرک تھا۔ اس نے لوگوں کی طرف سے فرضی دستخط کرکے بہت سے لوگوں کی رقم وصول کرلی۔اس کا مقدمہ فلپائن کی ایک عدالت میں پیش ہوا۔جج کانام رومیواسکاریل (Romeo M.Excareal)تھا۔جج نے تفصیلی سماعت کے بعد گرسن ویوریا کو 17معاملات میں مجرم پایا۔قانون کے مطابق اس طرح کے ایک جرم میں آدمی کو10سال قید بامشقت کی سزا ملنی چاہیے۔اس کے مطابق جج نے مجرم کو170سال کی سزا دی۔اسی کے ساتھ اس نے مجرم پر4625ڈالر جرمانہ عائد کیا۔جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں سزا ئے قید میں اضافہ ہوجائے گا(ٹائمس آف انڈیا،9نومبر 1979)۔

مجرم کی عمر 34سال ہوچکی ہے۔اگر ’’قبل از وقت‘‘اس کا خاتمہ نہ ہو بلکہ وہ اپنی عمر طبعی کو پورا کرکے مرے تب بھی اس کی موت کے وقت اس کی سزا کی مدت میں کم از کم سو سال باقی رہ جائیں گے ۔

انسان کا ضمیر کسی عمل کا جو بدلہ یاکسی جرم کی جو سزاچاہتا ہے وہ موجودہ محدود دنیا میں ناممکن ہے۔جوہونا چاہیے اورجو ہورہا ہے کے درمیان یہ تضادبتاتا ہے کہ موجودہ دنیا نامکمل ہے۔اس کی تکمیل کے لیے ایک اوردنیا ہونی چاہیے جہاں یہ تضاد ختم ہوجائے اورجو کچھ ہونا چاہیے وہی عملاً بھی ہونے لگے۔

اسی قسم کاایک واقعہ تھائی لینڈ میں ہوا۔تھائی لینڈ کی ایک عدالت میں ایک خاتون پولیس کامقدمہ پیش ہوا۔اس کانام مسزامساپ (Mrs. Phenphanchong Imsap) ہے۔ وہ سرحدی علاقہ پٹچابون (Petchabun)میں تعینات تھی۔اس کا تعلق بیرونی افرادکے رجسٹریشن آفس سے تھا۔اس نے رجسٹریشن کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینااوران سے رشوت لینا شروع کیا۔وہ ستر ہ سال تک حکومت کو اوراسی کے ساتھ لوگوں کو فریب دیتی رہی۔اس مدت میں اس نے ناجائز طورپر تقریباً 25ہزار ڈالر کمایا۔عدالت نے خاتون پولیس کو مجرم قرار دیتے ہوئے اس کو ایک ہزار ایک سال کی قید بامشقت کی سزادی۔جج نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا کہ مجرم کو پیرول پر رہائی یا رحم کی درخواست کی رعایت نہ دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو(ٹائمس آف انڈیا،21مارچ 1981ء)۔

ظاہر ہے کہ خاتون پولیس عدالت کی سزا بھگتنے کے لیے مزید ایک ہزار سال تک زندہ نہیں رہے گی۔وہ یقینی طور پر اس سے بہت پہلے مرجائے گی۔پھر جج نے کیوں اس کو اتنی لمبی سزادی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی کا جذبہ انصاف چاہتا ہے کہ جو شخص کوئی بڑاجرم کرے اس کواس جرم کے بقدر لمبی سزادی جائے۔مگر موجودہ دنیا میں کوئی جج عملاً ایسا کر نہیں پاتا۔وہ مجرم کو ’’ایک ہزار سال ‘‘کی سزا دینا چاہتا ہے مگر آدمی کی محدود عمر اس کو ایسا کرنے نہیںدیتی۔آدمی کے جرم کی عمر ’’ایک ہزار سال ‘‘ہے اس کے جینے کی عمر صرف ’’پچاس سال ‘‘آدمی کے عمل اوراس کی عمر دونوں میں یکسانیت نہیں۔یہ صورت حال ایک اوروسیع تر دنیا کا تقاضا کرتی ہے جہاں آدمی زیادہ لمبی عمر پائے تاکہ وہ پورے انصاف کے ساتھ اپنے عمل کا انجام پاسکے۔

عقیدۂ آخرت

جب بارش ہوتی ہے اس کا پانی دریائوں میں بہہ نکلتا ہے۔یہ پانی اگر حد کے اندر ہوتو اس سے انسان کو مختلف قسم کے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔اگر حد سے بڑھ جائے تو سیلاب آجاتا ہے اورنقصانات کا باعث ہوتا ہے۔اس سے بچنے کے لیے دریائوں پر بند بنائے جاتے ہیں۔

بند (Dam)کا مقصد یہ ہے کہ دریاکے اندر پانی کے بہائو پر روک قائم کی جائے اورجب بھی پانی حدسے بڑھتا ہوا نظر آئے تو اس کے رخ کو موڑ کر دوسری طرف کردیا جائے تاکہ وہ دریا میںبہنے کے بجا ئے علیحدہ بنے ہوئے عظیم گڑھے میں پہنچ جائے جس کو عام طور پر ذخیرۂ آب ( Reservoir)کہا جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ معاملہ انسان کابھی ہے۔مختلف انسان جب مل جل کررہتے ہیں تو بار بار شکایت کی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف دلوں میں تلخیاں ابھرتی ہیں۔اگر اس شکایت اور تلخی کو بڑھنے دیا جائے تو اختلاف،باہمی عناد اورجنگ ومقابلہ کی نوبت آجاتی ہے۔انسانی معاشرہ یا انسانی جماعت کا درست طور پر کام کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

ان حالات میں انسان کے لیے بھی ایک ایسی چیز کی ضرورت ہے جس کی طرف اس کے بڑھے ہوئے منفی جذبات کو موڑاجاسکے۔خدا اورآخرت کا عقیدہ یہی کام کرتا ہے۔وہ اجتماعیت کو نقصان پہنچانے والے جذبات کو انسان سے ہٹا کر خدا کی طرف موڑ دیتا ہے۔

حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے آپ کو باپ سے جدا کر دیا۔اس کے بعد آپ کے دوسرے بھائی بنیامین کے ساتھ یہی حادثہ پیش آیا۔ان واقعات کے بعد قدرتی طور پر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے اندر شدید جذبات پیدا ہوئے۔آپ اپنے ان جذبات کا نشانہ اگر حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں کو بناتے تو زبر دست انتشار اوراختلاف پیدا ہوتا۔مگر آپ نے سارے جذبات کو خدا کی طرف موڑ دیا۔آپ نے فرمایا:إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ(12:86)۔یعنی، میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔

یہ کسی انسانی معاشرہ کے لیے عقیدۂ آخرت کی بہت بڑی دلیل ہے۔آخرت کا عقیدہ ہر آدمی کے پاسڈائیورژن پول (Diversion pool)رکھ دیتا ہے جس کی طرف اپنے جذبات کے سیلاب کو پھیر سکے اس کو نقصان ہوتو خدا سے حسن تلافی کی امید قائم کرلے۔اس کو غصہ آئے تو خدا کی خاطر وہ اپنے غصہ کو پی جائے اس کو کسی سے شکایت ہوتو اس کے معاملہ کو خدا کے حوالے کردے۔

راکھ کی گواہی

دہلی کا ایک محلہ ہے جس کا نام نبی کریم ہے۔یہاں ایک نوجوان مزدور اشوک نام کارہتا تھا۔5ستمبر1980کو وہ اپنے گھر کے پاس مرا ہواپایا گیا۔ اچانک دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے اس کا انتقال ہوگیا۔اس واقعہ کی کوئی رپورٹ پولیس میںدرج نہ ہوسکی۔اگلے دن اشوک کی لاش جمنا کے کنارے لے جائی گئی اوراس کو جلا کر دریا رمیں بہا دیاگیا۔

بظاہر معاملہ ختم ہوچکا تھا۔اور اگر اس میں کوئی مجرمانہ سازش ہوتو اس کا پتہ لگانے کاکوئی امکان اب باقی نہیں رہاتھا۔مگر جلائی ہوئی لاش کی راکھ نے وہ بات بتادی جو معروف ذرائع نہیں بتا سکے۔

اشوک کی ماں چمیلی دیوی کو بعض وجوہ سے یہ شبہ ہواکہ اشوک طبعی موت نہیں مرا ہے بلکہ اس کے ایک دوست سریش (26سال) نے اس کو شراب میں زہردے کر مارا ہے۔ ماں نے 7ستمبر کو پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔پولیس کے لیے اب واحد صورت یہ باقی تھی کہ وہ مردہ کی راکھ حاصل کرکے اس کی چھان بین کرے۔رپورٹ کے بعد اسی دن ایک پولیس پارٹی لاش جلانے والے گھاٹ پرپہنچی۔یہ ستمبر کی سات تاریخ تھی۔مگر خوش قسمتی سے شمشان بھومی کے مذکورہ پلیٹ فارم پر ابھی تک کوئی دوسری لاش نہیں جلائی گئی تھی۔پولیس نے راکھ جمع کی اوراس جلی ہوئی راکھ کو سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (آرکے پورم)میں جانچ کے لیے بھیج دیا۔وہاں سے چھ ماہ بعد 13مارچ 1981کو رپورٹ نے تصدیق کردی کہ مرنے والا طبعی موت نہیں مرا بلکہ زہر کے سبب سے مرا ہے۔16مارچ کو سریش کو قتل کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا (ہند ستان ٹائمس، 17مارچ 1981)۔

اخباری رپورٹر نے اس واقعہ کی روداد درج کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں — مرے ہوئے آدمی کوئی بات نہیں بتاتے مگران کی جلی ہوئی راکھ بتاسکتی ہے:

Dead men tell no tales, but their ashes may.

انسان ظلم کرتا ہے اور’’ریکارڈ‘‘جلا کر سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے عمل کا ثبوت مٹا دیا۔وہ برائی کرتا ہے اوراپنی ہوشیاری اورطاقت سے اس پر پردہ ڈال کر یقین کر لیتا ہے کہ اس نے برائی کو ہمیشہ کے لیے چھپا دیا۔مگر وہ بھول جاتاہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہے بلکہ خداکی بنائی ہوئی دنیا میں ہے۔اورخدا نے اپنی دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر عمل وجود میں آتے ہی کائناتی صفحہ پر اس طرح ثبت ہوجاتاہے کہ اس کے بعد اس کو مٹانا کسی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ہر آدمی عمل کرنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ اپنے عمل کا نشان مٹانے کے لیے آزاد نہیں۔آدمی اگرا پنی اس بے بسی کو جان لے تووہ ظلم اوربرائی کے قریب بھی نہ جائے۔

انسان کا المیہ

یہ جولائی کی ایک حسین صبح تھی۔سورج ابھی نکلا نہیں تھا مگر آسمان کی وسعتوں میں اس کی پھیلتی ہوئی روشنی بتا رہی تھی کہ وہ جلد ہی نکلنے والا ہے۔افق پر بادل کے ٹکڑوں کے پیچھے سے پھوٹنے والی سورج کی ابتدائی شعائیں عجیب رنگ برنگ منظر پیش کررہی تھیں۔ درختوں کی سرسبزی ،چڑیوں کے چہچہے اورصبح کی ہوا کے لطیف جھونکے ماحول کی رعنائی میں مزید اضافہ کررہے تھے۔میری زبان سے بے اختیار نکلا خدا کی دنیا انتہائی حد تک با معنی ہے ،مگر وہ اس وقت انتہائی حدتک بے معنی ہوجاتی ہے جب کہ اس کے ساتھ آخرت کو شامل نہ کیا جائے۔

دنیا بے حد لذیذ ہے مگر اس کی لذتیں چند لمحے سے زیادہ باقی نہیں رہتیں۔دنیا بے پناہ حد تک حسین ہے مگر اس کو دیکھنے والی آنکھ بہت جلد بے نور ہوجاتی ہے۔دنیا میں عزت اورخوشی حاصل کرنا انسان کو کتنا زیادہ مرغوب ہے مگر دنیا کی عزت اورخوشی آدمی ابھی پوری طرح حاصل نہیں کرپاتا کہ اس پر زوال کا قانون جاری ہوجاتا ہے۔دنیا میں وہ سب کچھ ہے جس کو انسان چاہتاہے مگر اس سب کچھ کو حاصل کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں،حتیٰ کہ اس خوش قسمت انسان کے لیے بھی نہیں جو بظاہر سب کچھ حاصل کرچکا ہو۔

انسان ایک کامل وجود ہے۔مگر اس کا المیہ یہ ہے کہ اسی کے ساتھ وہ طرح طرح کی محدودیت کاشکار ہے اوربہت سے ناموافق حالات اس کوگھیرے ہوئے ہیں ،انسان کی زندگی کامل زندگی ہونے کے باوجود اس وقت تک بے معنی ہے جب تک اس کو ایسی دنیا نہ ملے جو ہر قسم کی محدودیت اورناموافق حالات سے پاک ہو۔

خدا نے یہ کامل اورابدی دنیا جنت کی صورت میںبنائی ہے۔مگر یہ دنیا کسی کو اپنے آپ نہیں مل سکتی۔اس آنے والی مکمل دنیا کی قیمت موجودہ نامکمل دنیا ہے۔جو شخص اپنی موجودہ دنیا کو آنے والی دنیا کے لیے قربان کرسکے وہی آنے والی جنتی دنیا کو پائے گا۔جو شخص اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو وہ بھی اگرچہ موت کے بعد ابدی دنیا میں داخل ہوگا۔مگر اس کے لیے یہ ابدی دنیاحسرتوں اورمایوسیوں کی دنیا ہوگی نہ کہ خوشیوں اورلذتوں کی دنیا۔

موت کے آگے

فرانس کے لوئی یازدہم (1423-1483)نے ساٹھ سال تک بادشاہ کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔چنانچہ آخر عمر میں وہ ایک بند قلعہ میں رہنے لگا جہاں بہت کم لوگوں کو داخلہ کی اجازت تھی۔قلعہ کے چاروں طرف گہری خندق کھوددی گئی تھی تاکہ کوئی اس کے قریب نہ پہنچ سکے۔قلعہ کی دیواروں پر ہر وقت چالیس تیر انداز بیٹھے رہتے تھے۔اس کے علاوہ چالیس گھڑسواردن رات اس کے چاروں طرف گشت کرتے رہتے تھے۔بادشاہ کا حکم تھا کہ جو بھی بلااجازت قلعہ کے اندر آنے کی کوشش کرے اس کو پکڑکراسی وقت قتل کردیا جائے۔قلعہ کے اندر بادشاہ کے لیے ہر قسم کا عیش وعشرت کا سامان کیا گیا تھا تاکہ بادشاہ کا دل کبھی غمگین نہ ہونے پائے۔

لوئی یازدہم کو زندہ رہنے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ موت کا لفظ اس کے سامنے ہرگز نہ بولا جائے۔ایک ماہر ڈاکٹرہرآن بادشاہ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا۔ اس ڈاکٹر کو دس ہزار سنہری کراون ماہواردیے جاتے تھے۔اس وقت یورپ کے کسی میدان جنگ میںچالیس سال کام کرکے بھی ایک فوجی افسر اتنی تنخواہ حاصل نہیں کرسکتا تھا۔

تاہم ان میں سے کوئی چیز بادشاہ کو بڑھاپے اورکمزوری سے نہ بچا سکی۔آخر عمر میں وہ اتنا کمزورہوچکا تھا کہ مشکل سے وہ کھانے کی کوئی چیز اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کی جینے کی خواہش وہم کی حدتک پہنچ گئی تھی۔اس کو کسی نے بتایا کہ کچھوے پانچ سو سال تک جیتے ہیں اوروہ زندگی بخش خواص کے مالک ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس نے کچھ لوگوں کو تین بحری جہازدیکر جرمنی اوراٹلی روانہ کیاتا کہ وہاں سے اس کے لیے بحری کچھوے لے آئیں۔یہ کچھوے اس کے قریب ایک بڑے حوض میںرکھے گئے تاکہ اس کو زندگی کا فیضان عطا کر سکیں۔

آخر کار لوئی پر فالج کاحملہ ہوااور30اگست 1483کو موت نے اس پر قابوپالیا۔اس کو معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص موت کو نہیں جیت سکتا۔اس کی زبان سے جو آخری الفاظ مرنے سے پہلے نکلے وہ یہ تھے :

’’میں اتنا بیمار تو نہیں ہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتے ہیں ‘‘

تاہم اس کی تمام کوششیں بے کار ہوگئیں۔30اگست 1483کو وہ مرگیا۔آخر کار بادشاہ فرانس کو معلوم ہوگیا کہ کوئی شخص موت کو جیت نہیں سکتا۔

عقل مند کون

انسان کواس کے پیدا کرنے والے نے بہترین بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔مگر بڑھاپاآتا ہے اوراس کی بہترین بناوٹ کو کھا جاتا ہے۔انسان کو اعلیٰ ترین لذتوں کا احساس دیاگیاہے۔مگر ہزار کوشش کے بعدجب وہ ان لذتوں کو پالیتا ہے تواس کو معلوم ہوتاہے کہ اپنی پیدائشی محدودیتوں(Limitations)کی وجہ سے وہ ان لذتوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔انسان کو ایک ایسی زمین دی گئی ہے جو اپنی حسین فضائوں اور قیمتی سازوسامان کے ساتھ ساری کائنات میں ایک انتہائی نادراستثناء ہے مگر آدمی اس دنیا کو استعمال نہیںکرپاتا کہ موت آتی ہے اوراس کو اس کی پسند کی دنیا سے جدا کر دیتی ہے۔

ایسا کیوں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا ہماری اصل دنیا نہیں۔اصل دنیا وہ ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔موجودہ دنیا اس آئندہ آنے والی دنیا کا ابتدائی تعارف ہے۔یہ لذتوں کے اصل خزانہ کا لمحاتی تجربہ ہے۔یہ ابدی بہشت کا صرف ایک وقتی مظاہر ہ ہے۔یہ اس لیے ہے کہ آدمی حال کے آئینہ میں مستقبل کے عظیم امکانات کو دیکھے۔وہ ناقص فلاح میںکامل فلاح کاراز پالے۔

عقلمند انسان وہ ہے جس کو دنیا کایہ وقتی تجربہ اس کو ابدی دنیا کی یاد دلائے۔وہ اپنے آپ کو زندگی کے آنے والے دور کے لیے تیار کرے۔وہ اپنی عمر کے موجودہ مرحلہ کو اس طرح استعمال کرے کہ وہ اس کے لیے عمر کے اگلے مرحلہ میں کامیابی کا زینہ بن جائے۔

اس کے برعکس نادان وہ ہے جو وقتی اورفانی لذتوں میں گم ہوجائے۔جو’’آج ‘‘میں مشغول ہو کر’’کل ‘‘کو بھول جائے۔ایسا آدمی اس نادان مسافر کی طرح ہے جو ریلوے اسٹیشن کی بنچ خالی پاکر اس پر سوجائے۔وہ اسی طرح بے خبر پڑارہے۔یہاں تک کہ اس کی ٹرین اپنے وقت پر آئے اوراس کو لیے بغیر آگے چلی جائے۔

موجودہ دنیا آخرت کے سفر کاراستہ ہے۔جس طرح ایک عام مسافر اس وقت اپنی منزل پر نہیں پہنچتا  جب کہ وہ راستہ کی چیزوں میں کھو گیا ہو۔اسی طرح جو شخص دنیا کی دل فریبیوں میں گم ہوجائے وہ کبھی آخرت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔وہ دنیا میں بھٹک کر رہ جائے گااوربالآخر اس کے حصہ میں حسرت کے سوااورکچھ نہیں آئے گا۔

ناکام موت

مسٹر بی ڈی کھوبر اگاڑ(پیدائش 1925) 9 اپریل 1984کو دہلی کے پنت اسپتال میں مرگئے۔وہ ایک ہریجن لیڈرتھے۔انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ اونچی ذات والوں کے امتیازی سلوک کودیکھا۔ان کے اندر اس کے خلاف آگ بھڑک اٹھی۔جب انہیںمعلوم ہواکہ اس امتیاز کی بنیا دخود اس ہندستانی مذہب میں ہے جس سے وہ اب تک اپنے کو منسوب سمجھے ہوئے تھے تو انھوں نے مذہب کی تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ڈاکٹرا مبیڈ کر (1891-1956) اور لاکھوں دوسرے ہریجنوں کے ساتھ وہ بدھزم میں داخل ہوگئے۔مگر اس کے باوجود ہریجنوں کے ساتھ سماجی امتیاز ختم نہیں ہوا۔

اب کھوبر اگاڑاوران کے ساتھیوں نے دوسری تدبیر کی۔انھوں نے ری پبلکن پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔انھوں نے چاہاکہ جو مسئلہ تبدیلیٔ مذہب سے حل نہیں ہوا،اس کو تبدیلی حکومت کے ذریعہ حل کیا جائے۔مگر یہ اقدام بھی کامیاب نہیں ہوا۔خود ری پبلکن پارٹی میں اندرونی اختلاف پیداہوگئے۔وہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مایوس کھوبر اگاڑ59سال کی عمر میں اس دنیا سے چلے گئے۔

مسٹر کھوبراگاڑاپنی زندگی کے مسئلہ کا حل تلاش کرتے رہے جو’’59سال‘‘میں ختم ہوجانے والی تھی۔ آج اگر کوئی شخص ان سے پوچھے تو یقیناً وہ کہیں گے — افسوس کہ میں وقتی زندگی کے مسائل میں الجھا رہا اوراپنی اس زندگی کے لیے کچھ نہیںکیا جس سے ابدی سابقہ پیش آنے والا تھا۔

لوگ آج کے مسائل میں اتنا مشغول ہیںکہ انہیںکل کے مسائل پر سوچنے کی فرصت نہیں۔وہ حال کے اندر اتنا گم ہیں کہ ان کو یہ پروانہیں کہ وہ مستقبل کے بارےمیں سوچیں۔لوگ اسی طرح غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی موت آجاتی ہے۔ انسانوں میں الجھا ہواآدمی اچانک اپنے آپ کو خداکے سامنے کھڑاہواپاتاہے۔دنیا کے مسائل کو سب کچھ سمجھنے والا آدمی وہاں پہنچادیاجاتاہے جہاں صرف آخرت کے مسائل کسی آدمی کے لیے سب کچھ ہوں گے۔ظواہرکو اہمیت دینے والا آدمی اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتاہے جہاں حقیقت کے سوا کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔

انسان کو دیکھیے تو وہ کتنا حیرت انگیز وجود معلوم ہوتاہے۔انسان کی صلاحیتیں اتنی عجیب ہیں کہ ساری کائنات میں اس سے زیادہ عجیب کوئی چیز نہیں۔مگر کیسا درد ناک انجام انسان کے حصہ میں آیاہے۔کیسی قیمتی زندگی کیسے بے قیمت انجام پر ختم ہوجاتی ہے۔مگر کوئی نہیں جو اس کو سوچے ،کوئی نہیں جو زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے فکر مند ہو۔

کوئی بچانہ سکے گا

مغربی ملکوں کے لوگ عام طور پر گائے کا گوشت کھانا بہت پسند کرتے ہیں۔آج کل کے زمانہ میں مغرب کے لوگ کثرت سے ہندستان آتے ہیں۔یہ لوگ جب یہاں کسی ’’فائیواسٹار ہوٹل ‘‘میں ٹھہرتے ہیں تووہ توقع رکھتے ہیںکہ ہوٹل کی طرف سے ان کو ان کی تمام مطلوب چیزیں فراہم کی جائیں گئی جن میں اپنی پسند کی غذابھی لازمی طورپر شامل ہے۔چنانچہ ہوٹل والے اپنے بیرونی گاہکوںکے سامنے جو مینو کارڈ پیش کرتے ہیں ان کی غذائی فہرست میں گائے کا گوشت (Beef steak)کا لفظ شامل رہتاہے۔

چوںکہ ہندستان میں گائے کا گوشت ممنو ع ہے،اس کی خبر اخبار میںچھپی تو اس پر سخت تنقید ہوئی۔ ایک ایم پی نے پارلیمنٹ میں اس پر سوال کردیا۔حکومت ہند نے اس سلسلے میںہوٹل والوں سے بازپرس کی۔ہوٹل والوں کا جواب یہ تھا کہ ہم اپنے گاہکوں کو ’’بیف‘‘دیتے ہیں اوربیف انگریزی ڈکشنری کے مطابق گائے اوربھینس دونوں کے گوشت کے لیے استعمال ہوتاہے۔

اخباری رپورٹ (ٹائمس آف انڈیا، 5مئی 1984)کے مطابق حکومت ہند کے وزیر سیاحت نے 4مئی 1984کو پارلیمنٹ میں بیان دیا۔انھوں نے آکسفورڈڈکشنری میں اس لفظ کے معنی پڑھ کرسنائے جس میں بھینس کا گوشت بھی شامل تھا نہ کہ صرف گائے یابیل کاگوشت:

The minister read out Oxford dictionary meaning of ''beef'' which included the flesh of buffalo as well, and not, merely that of cow or ox.

اس خبر پر اخبار نے یہ سرخی لگائی ہے ’’ڈکشنری نے فائیو اسٹار ہوٹل کو بچالیا‘‘ موجودہ دنیا میں اس قسم کے واقعات دیکھ کرآدمی غلط فہمی میں پڑجاتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ موت کے بعد کی دنیا بھی ویسی ہی ایک دنیا ہوگی جیسی موت سے پہلے کی دنیا۔جس طرح’’ڈکشنری ‘‘موجودہ دنیا میں ہم کو بچالیتی ہے ،اسی طرح وہاں بھی ہم کوئی نہ کوئی ڈکشنری پالیں گے جو ہم کو وہاں کی آفتوں سے بچالے۔مگراس سے بڑی بھول اورکوئی نہیں۔ موجودہ دنیا میں آدمی کا معاملہ اپنے جیسے انسان سے ہے اس لیے وہ لفظی کرتب دکھا کر اس سے بچ جاتاہے۔مگر آخرت میں اس کا معاملہ مالک کائنات سے ہوگا۔اور مالک کائنات کے سامنے کسی قسم کا کوئی کرتب کام آنے والا نہیں۔

آخرت کی دنیا میں حقیقی تدبیر آدمی کو بچائے گی نہ کہ کوئی لفظی تدبیر۔

رات کے بعد دن

كَلَّا وَالْقَمَرِ ۔ وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ ۔ وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ ۔ إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ۔ نَذِيرًا لِلْبَشَرِ ۔ لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّر۔كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ  (74:32-38)۔

قسم ہے چاند کی اوررات کی جب وہ جانے لگے اورصبح کی قسم جب وہ روشن ہوجائے۔وہ دوزخ بڑی بھاری چیز ہے جو انسان کے لیے بڑاڈر اواہے ،تم میں سے ہر اس آدمی کے لیے جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے ہر آدمی اپنے کیے میں پھنسا ہواہے ‘‘۔

زمین پر ہر روز ایسا ہوتا ہے کہ یہاں رات آتی ہے اورزمین گہری تاریکی میں ڈوب جاتی ہے۔اس کے بعد دن نکلتا ہے اورہر چیز دوبارہ سورج کی روشنی میں دکھائی دینے لگتی ہے۔یہ واقعہ آخرت کے معاملہ کی تمثیل ہے۔موجودہ دنیا میں آدمی کی اصل حقیقت چھپی ہوئی ہے ،آخرت میں ہرآدمی کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔آج ہماری زندگی ’’رات‘‘کے دورسے گزررہی ہے ،موت کے بعد ہم ’’دن ‘‘کے دور میں پہنچ جائیں گے۔

آج آدمی ایک قسم کے پردہ میں ہے۔وہ دلیل پر قائم نہ ہونے کے باوجود خوش نما الفاظ بول کر لوگوں کو اپنے بارے میں غلط فہمی میں ڈالے ہوئے ہے۔کسی کی دنیوی شہرت ومقبولیت اس کی مجرمانہ حیثیت کے لیے پردہ بن گئی ہے۔کسی کے دولت واقتدار نے اس کو موقع دیا ہے کہ وہ حقیقت کے اعتبار سے مفلس ہونے کے باوجود مادی رونقوں میں اپنے معنوی افلاس کو ڈھانک سکے۔کوئی اند ر سے بے دین ہے مگر کچھ رسمی اعمال کا اہتمام کرکے ظاہر کررہا ہے کہ وہ خدا پرست اوردیندار ہے۔لو گ ظلم اوربے انصافی میں جی رہے ہیں مگر اپنی نمائشی تدبیروں سے وہ عوام کو اس دھوکے میں ڈالے ہوئے ہیں کہ وہ عین حق وانصاف پر قائم ہیں۔

مگر جب آخرت کا سورج طلوع ہوگا تو وہ تاریکی کے ان تمام پردوں کو پھاڑدے گا۔اس وقت ہر آدمی اپنی اصلی صورت میں دکھائی دینے لگے لگا۔اس وقت صاف نظر آئے گاکہ کون شخص اندر سے جانور تھااوربظاہر انسانی صورت میں چل رہاتھا۔کون شخص ناحق پر تھا اگرچہ وہ خوبصورت الفاظ بول کر اپنے کو حق پرست ثابت کیے ہوئے تھا۔کون شخص اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش میں مبتلا تھا اگرچہ زبان سے وہ اللہ کانام لیتے ہوئے نہیں تھکتاتھا۔

اس کے مقابلہ میں کچھ اور لوگ ہوں گے جن کی حقیقت آخرت کے دن لوگوں کے سامنے آئے گی۔وہ دیکھیں گے کہ ایک شخص جس کو انھوں نے اس کے معمولی حالات کی بنا پر غیر اہم سمجھ لیاتھا وہ اپنے اندر اہمیت کا پہاڑ لیے ہوئے تھا۔ایک شخص جس کو دنیا کی پررونق مجلسوں میں کہیں عزت کی جگہ نہیں ملتی تھی وہ فرشتوں کی زیادہ باعزت مجالس میں اپنے صبح وشام کے اوقات گزاررہاتھا۔ایک شخص جس کو وقت کے بڑوں نے اپنے نزدیک رد کر دیا تھاوہی وہ شخص تھا جس کو خدا کی طرف سے مقبولیت کی سند ملی ہوئی تھی۔ایک شخص جس کو دنیا کے لوگ بے دین قرار دے کر حقارت کے خانہ میں ڈالے ہوئے تھے اس کانام خدا کے یہاں دین داروں کی فہرست میں سب سے اوپر لکھا ہواتھا۔

سب سے بڑا فریب

ایک نوجوان نے سی اے کاکورس کیا۔اس کے بعدامریکاسے ایم بی اے کی ڈگری لی۔ دونوں امتحانوں میں وہ فرسٹ آئے۔اس کے بعد ان کے لیے ترقیات کے دروازے کھل گئے۔وہ عرب امارات گئے۔وہاں ان کو پانچ ہزار درہم ماہوار کی ملازمت مل گئی۔جلد ہی بعد انہیںایک سعودی وفد نے انٹرویو کے لیے بلایا۔ انٹرویو کامیاب رہا۔فوراً ہی ان کو عرب میں ایک جگہ مل گئی جہاں ان کی تنخواہ 15ہزار ریال ماہوار تھی۔وہ اسی طرح ترقی کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی آمدنی ہندستانی سکہ میں ایک لاکھ روپیہ ماہوار تک پہنچ گئی۔

ترقی کے یہ مواقع جو موجودہ زمانہ میں کھلے ہیں وہ وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی جھوٹی بنیادوں پر اپنے کو ’’فرسٹ کلاس ‘‘سمجھتا ہے۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ ’’تھرڈ کلاس ‘‘ہوتا ہے۔وہ جھوٹی بنیادوں پر اپنے کو کامیاب سمجھتا ہے ، حالاں کہ وہ کامیابی کی منزل سے بہت دور ہوتاہے۔

موجودہ زمانہ کے ان امکانات نے بہت سے لوگوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ماحول میں پائیں جہاں ان کے رہنے کے لیے سجے ہوئے مکانات ہوں۔ سفر کے لیے شاندار گاڑیاں ہوں۔بینک بیلنس ہو۔ان کی جیب میں کریڈٹ کارڈ ہوجس کے ذریعے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں اپنے لیے حسب منشاء رقم حاصل کرسکیں۔

یہ چیزیں جدید انسان کے لیے زبر دست فتنہ بن گئی ہیں۔ہر آدمی اپنے آپ کو مادیت کے وقتی بازار میں فروخت کررہا ہے۔ہر آدمی کامیابی کے جھوٹے فریب میں مبتلا ہے۔ہر آدمی فرضی خوش خیالیوںکا ایک محل اپنے گرد بنائے ہوئے ہے۔

مگر حقیقت کے اعتبار سے ان چیزوں کی کوئی قیمت نہیں۔امریکی وفا داری کا تمغہ روس میں بے قیمت ہوتا ہے۔اسی طرح موجودہ دنیا کی مہارتیں آخرت میں بالکل بے وزن قرار پائیں گی۔آہ وہ انسان جو جھوٹے فریب میں جی رہا ہے۔اس کے باوجود وہ سمجھتا ہے کہ وہ حقیقت کے پہاڑ پر اپنا محفوظ قلعہ بنائے ہوئے ہے۔

آخرت کے بغیر

ارنسٹ ہیمنگوے(1899-1961)ایک امریکی فوجی تھا۔وہ  1961میں انتقال کر گیا۔وہ 1918میں اٹلی کی جنگ میں شریک تھا۔اس نے اپنی فوجی زندگی کے درمیان جو خطوط لکھے تھے وہ کتابی صورت میں شائع کردیے گئے ہیں۔

اٹلی کی جنگ میں جب وہ زخمی ہوگیا تو اس نے اسپتال سے اپنے گھر والوں کے نام کچھ خطوط لکھے ان میں سے ایک خط میں حسب ذیل الفاظ درج تھے:

There are no heroes in this war. All the heroes are dead. And the real heroes are the parents. They suffer a thousand times more. And how much better to die in all the happy period of disillusioned youth, to go out in a blaze of light, than to have your body worn out and illusions shattered.

اس جنگ میںکوئی ہیرو نہیں۔تما م ہیرو مرچکے ہیں اوراصل ہیرو ان کے والدین ہیں، ایک ہزار گنا زیادہ مصیبت اٹھاتے ہیں۔اوریہ کتنا اچھا ہے کہ جوانی کے پر کیف زمانہ میں آدمی کی موت آجائے۔ روشن شعلہ میں داخل ہونا اس سے بہتر ہے کہ تمہاراجسم بوڑھا اورفرسودہ ہوجائے اورسارے فریب منتشر ہوچکے ہوں(لائف، جون 1981)۔

ان الفاظ کے پیچھے زندگی کا کتنا مایوس تصور چھپا ہوا ہے۔ایک شخص دیکھتا ہے کہ جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کا آخری انجام یہ ہے کہ سو سال یااس سے کم مدت میں وہ بوڑھا اورناکارہ ہوکر مرجائے۔وہ سوچتا ہے کہ اگر زندگی بالآخر اسی کانام ہے تو اس سے بہتر ہے کہ جوانی کے امید بھرے دور میں آدمی ہیرو انہ اقدام کرکے اپنا خاتمہ کرلے۔

زندگی کو آخرت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بوڑھا ہوکر مرنا بھی بامعنی ہوجاتاہے اورروشن شعلہ میں داخل ہونا بھی۔مگر جب ایک شخص زندگی کو آخرت سے الگ کرکے دیکھتا ہے تو اس کو اپنے چاروں طرف مایوسی کے سوااورکچھ نظر نہیںآتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر آخرت کے تصور کو شامل نہ کیا جائے تو موجودہ زندگی اپنی تمام معنویت کھو دیتی ہے۔اس کے بعد اتنی ناقابل فہم ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنا بھی آدمی کو بے معنی نظر آنے لگے۔

جاننے کے بعد

پروفیسر مجیب (1902-1985)ہند ستان کے چوٹی کے دانشوروں میں سے تھے۔ان کی تعلیم خالص مغربی طرز کے اداروں میں ہوئی۔انہیںشیکسپیئر کے ڈراموں کے بڑے بڑے حصے زبانی یاد تھے۔ہندستان میں تعلیم کے بعد بیرونی ملکوں میں مزید تعلیم کے لیے گئے۔وہ ایک خوش فکر آدمی تھے۔وہ اپنے کسی ساتھی کو رنجیدہ دیکھتے تو کہتے کہ بھئی مسکرائیے اوردور تک دیکھیے۔وہ اردو انگریزی ،فرانسیی ،جرمن اور روسی زبانیں یکساں طور پر جانتے تھے۔

دسمبر 1972میں پروفیسر مجیب بیمار ہوئے۔ڈاکٹر وں کی تشخیص کے مطابق ان کے دماغ کا آپریشن ہوا۔آپریشن کامیاب ہوامگر اس کے بعد ان کا حافظہ جاتارہا۔پروفیسر مجیب پانچ زبانوں کے ماہر تھے مگر آپریشن کے بعد وہ تمام زبانیں بھو ل گئے۔حتی کہ اردوسمیت تمام زبانوں کے حروف تہجی تک انہیں یاد نہ رہے (جامعہ، دسمبر 1984)۔

دس سال سے زیادہ عرصہ تک وہ اسی حال میں اپنے اوکھلا (دہلی ) کے مکان میں پڑے رہے۔یہاں تک کہ 20جنوری 1985کو ان کا انتقال ہوگیاجب کہ ان کی عمر82سال ہوچکی تھی۔وہ 1948سے 1973 تک جامعہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے۔

قرآن میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ — اللہ نے تم کو پیدا کیا۔ پھر وہ تم کو موت دیتا ہے۔اور تم میں سے بعض وہ ہیں جونا کارہ عمرتک پہنچ جاتے ہیںکہ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانیں۔بے شک اللہ علیم وقدیر ہے (16:70)۔

جوانی کے بعد بڑھاپا آنے کا واقعہ آدمی کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔وہ اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی اپنی اصل حقیقت کو جانے۔وہ جانے کہ اس کا علم ذاتی نہیں ہے۔بلکہ وہ دوسرے کا دیا ہواہے۔وہ جب چاہے دے اورجب چاہے چھین لے۔آدمی کی قوت اگر اس کی ذاتی ہوتو وہ کبھی اس سے نہ چھنے۔ مگر قوت کا ملنا اورپھراس کا چھن جانا اس بات کی علامت ہے کہ انسان دئے سے پاتا ہے۔دینے والا اگرنہ دے تو وہ خود سے نہیں پاسکتا۔

یہ واقعہ ہر روز پیش آتاہے مگر نہ ’’بوڑھے ‘‘اس سے نصیحت لیتے ہیں جن پر یہ واقعہ گزرتاہے اورنہ ’’جوان ‘‘اس سے سبق حاصل کرتے ہیںجو اس کو اپنے سامنے ہوتا دیکھتے ہیں۔

آزمائش کاقانون

کوئی آدمی حقیقی معنوں میں مومن اورمسلم ہے یانہیں ،اس کا فیصلہ فتنہ (آزمائش ) کے ذریعہ ہوتاہے۔اللہ کو اگرچہ ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے مگر اللہ کی سنت یہ ہے کہ آزمائش کے حالات پیدا کرکے ہر آدمی کے اندر کو باہر لایا جائے تاکہ اللہ آخرت میں اس کے بارے میںجو فیصلہ کرے اس سے انکارکی مجال کسی کو نہ ہو۔

آزمائش کا مطلب ایسی صورت حال آدمی کے سامنے لانا ہے جہاں حسن عمل کے تمام اضافی اسباب حذف ہوگئے ہوں ،صرف ایک ہی سبب (اللہ کا ڈر)باقی رہ گیا ہو۔ اسی لیے معمول کے حالات یاروز مرہ کے عمل میں آدمی کی آزمائش نہیں ہوسکتی۔آزمائش کے لیے ضروری ہے کہ غیر معمولی حالات سامنے لائے جائیں۔

اگریہ دیکھنا ہوکہ آپ خوش اخلاق ہیں یا نہیں ،تو اس کا تجربہ ایک ایسے آدمی کے ذریعہ نہیں کیاجاسکتاجو آپ سے نیاز مندی کی باتیں کرتاہو۔کیوں کہ نیازمندی دکھانے والے کے ساتھ تو ہر آدمی خوش اخلاقی ہی کے ساتھ پیش آتا ہے۔اسی طرح اس کا تجربہ ایک طاقتور آدمی کے ذریعہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ طاقتور شخصیت کے سامنے ہر آدمی خوش اخلاق بن جاتاہے۔کسی کی خوش اخلاقی کو جانچنے کا ذریعہ ایک ایسا شخص ہی بن سکتا ہے جو کمزور اور معمولی آدمی ہو اور اسی کے ساتھ وہ ایسے انداز میں کلام کرے جو ناگواری پیدا کرنے والا ہو۔

اسی طرح کسی کی انسانیت دوستی کی جانچ اس طرح نہیں ہوسکتی کہ ایک شان دار اجلاس کیا جائے اوراس کے بعد اس آدمی سے کہا جائے کہ سجے ہوئے اسیٹج پر کھڑے ہوکر تم انسانیت کے موضوع پر ایک تقریر کرو۔کسی کی انسانیت دوستی کی جانچ اس وقت ہوتی ہے جب ایک بے قیمت آدمی اس کے دروازے پر پہنچتا ہے اوراس سے کہتا ہے کہ میں فلاں مصیبت میں پھنس گیا ہوں تم انسانیت کے ناتے میری مدد کرو۔کوئی شخص فیاض ہے یا نہیں اس کا اندازہ اس وقت نہیں ہوتاجب ایک شان دار موقع سامنے آئے اوراس میں پیسہ دے کر لوگ آناً فاناً شہرت وعزت کی منزلیں طے کر رہے ہوں۔آدمی کی فیاضی کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کو ایک ایسی خاموش مد میں پیسہ دینا ہوجس میں اخباری شہرت کا کوئی موقع نہیں۔کسی شخص کے انصاف کا حال اس وقت معلوم نہیں ہوتا جب کہ متعلقہ فریق سے تعلقات خوش گوار ہوں بلکہ آدمی کی انصاف پسند ی یا بے انصافی اس وقت کھلتی ہے جب کہ دونوں فریقوں کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی اورانصاف کرنا بظاہر اپنے حریف کو فائدہ پہنچانے کے ہم معنی بن گیا ہو۔آدمی اللہ سے ڈرتا ہے یانہیں اس کا حقیقی اندازہ ان اعمال میں نہیں ہوتا جو آدمی انسانو ں سے دور تسبیح ونوافل کی صورت میں کرتا ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کا سابقہ انسانوں سے پڑے اورایک شخص کے معاملہ میں اللہ سے ڈرنا اس قیمت پر ہوکر آدمی اپنی انا کو کچلے اوراپنی مصلحتوں کو برباد کرے — آدمی معمول کے حالات میں خدا پرستی والے عمل کرتاہے۔مگر خدا جب غیر معمولی مواقع پیدا کرکے اس کی خدا پرستی کو جانچنا چاہتاہے تو عین اس وقت وہ خدا پرستی کا ثبوت دینے میں ناکام ہوجاتاہے۔

موت جب آتی ہے

جے۔اے دیو1923ء میں شملہ میں پیدا ہوئے۔انھوں نے نہایت محنت سے تعلیم حاصل کی۔بالآخر انھوں نے آئی۔اے۔ایس کا امتحان پاس کیاوہ مزید تعلیم کے لیے برطانیہ بھی گئے۔اس کے بعد ان کو حکومت میں اچھی ملازمت مل گئی۔جولائی 1979میں وہ اپنی اعلیٰ ترین ترقی کے منصب پر پہنچ گئے جب کہ ان کو ڈیفنس سکریٹری کے عہدہ پر مقر ر کیاگیا۔مگر اس ترقی پر ان کوایک سال بھی نہیں گزراتھا کہ 10اپریل 1980کو 57سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔11اپریل کو مسٹردیو کا جسم نگم بودھ گھاٹ پر اس وقت جلادیاگیا جب کہ ہند ستانی فوج کے تینوں سپہ سالا ران کے اظہار عقیدت کے لیے گھاٹ پر موجود تھے۔بری اوربحری اورہوائی فوجوں کے اعلیٰ ترین افسران جو ساٹھ کروڑ انسانوں کے اس ملک پر کسی بھی حملہ کو پسپا کرنے کی پوری طاقت رکھتے تھے وہ اپنے حاکم اعلیٰ کو موت کے حملہ کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے بے بس ہوگئے۔

1980میںمرکزی پارلیمنٹ اورریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں اندر اگاندھی اوران کے بیٹے سنجے گاندھی کی پارٹی کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔اس کے بعد عام طورپر سمجھاجانے لگاکہ اب سنجے گاندھی ہندستان کے وزیر اعظم ہوں گے۔مگر وزارت عظمیٰ کی عین چوکھٹ پر پہنچ کر اچانک 33سال کی عمر میں ان کاخاتمہ ہوگیا۔23جون 1980کی صبح کو سنجے گاندھی ایک نئے امریکی ہوائی جہاز میں تفریحی سواری (Joy Ride)کے لیے نکلے۔ان کا دوسٹیوں کا جہاز صفدر جنگ کے ہوائی اڈے سے اڑ کر ابھی فضا میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک اس کے انجن نے کام کرنا بند کردیااوردھماکہ کے ساتھ زمین پرگرپڑا۔جہاز کے ملبہ سے اس کے دونوں مسافر(سنجے گاندھی اورکیپٹن سکسینہ)مردہ اورکچلی ہوئی حالت میں باہر نکالے گئے۔سنجے گاندھی کو اپنے اوپر اتنا اعتماد تھاکہ حادثہ سے صرف ایک دن پہلے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جگ موہن کے ساتھ کارپرسفر کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا’’پریشانی کی کوئی بات نہیں۔کارہویاہوائی جہاز ،وھیل پراگر میں ہوں تو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ اگلے دن آنے والی صبح صرف اس لیے آرہی ہے کہ ان کے اس اعتماد کی ہمیشہ کے لیے تردید کردے۔

ٹائمس آف انڈیا (24جون 1980)نے ان شاندار امکانات کا ذکر کیا ہے جن کے بالکل کنارے سنجے گاندھی پہنچ چکے تھے۔ اس کے بعد وہ لکھتاہے :

What an irony that he should die so soon afterwards.

عین اس وقت جب کہ آدمی اپنی ترقی کے عروج پرپہنچ چکا ہوتاہے ،موت اس کے اور اس کی کامیابیوں کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔گویا کہ وہ اس کامیابی کی نفی کررہی ہو جس کو آدمی اپنے لیے کامیابی سمجھ کر اس کی طرف بڑھ رہاتھا۔

یہ بے قیمت انسان

آدمی زندگی چاہتا ہے مگر بہت جلد اس کو معلوم ہوتاہے کہ دنیا میں صرف موت ہے جو اس کا استقبال کرنے لیے کھڑی ہوئی ہے۔24جون کی شام کو ایک طرف شانتی ون میں سنجے گاندھی کا مردہ جسم جلایا جارہاتھا ،دوسری طرف وہاں کھڑے ہوئے ان کے ہزاروں معتقدین یہ نعرہ لگارہے تھے:

جب تک سورج چاند رہے، سنجے تیرا نام رہے

انسان ’’سورج چاند کے رہنے تک ‘‘زندہ رہنا چاہتا ہے مگر موت اس قدر بے رحمی کے ساتھ اس کو اس دنیا سے اٹھالیتی ہے جیسے اس کے نزدیک نہ انسان کی کوئی اہمیت ہے اورنہ اس کی خواہشوں کی۔

انسان اپنی عظمت کا قلعہ تعمیر کرتاہے مگر موت کا طوفان اس کو تنکوں کی طرح اڑاکر یہ سبق دیتا ہے کہ انسان کو اس دنیا میںکوئی قدرت حاصل نہیں۔انسان کہتا ہے کہ میں اپنا مالک ہوں مگر تقدیر اس کو کچل کربتاتی ہے کہ تیرا مالک کوئی اور ہے۔انسان موجودہ دنیا میں اپنی آرزئووں کا با غ اگانا چاہتا ہے مگر موت اس کے منصوبہ کو مٹاکر یہ سبق دیتی ہے کہ اپنے لیے دوسری دنیا تلاش کروکیونکہ موجودہ دنیا میں تمہاری آرزئووں کی تکمیل نہیں۔

زندگی کا سب سے بڑا سبق وہ ہے جو موت کے ذریعہ ملتا ہے۔موت ہماری زندگی کی سب سے بڑی معلم ہے۔موت ہر آدمی کو ایسے سوال کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کے جواب میں زندگی کا تمام راز چھپا ہواہے۔موت ہم کو بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا وہ مقام نہیں جہاں ہم اپنی تمنائوں کو حاصل کرنے کی امید کرسکیں۔موت دراصل زندگی کا پیغام ہے۔موت ہم کو جینا سکھاتی ہے۔موت ہم کو بتاتی ہے کہ اپنی حقیقی زندگی کی تعمیر کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

موت انسانی زندگی کا سب زیادہ عبرت ناک واقعہ ہے۔وہ آدمی کو آسمان میں اٹھا کر زمین پر گرادیتی ہے۔وہ آدمی کو زمین پر ختم کرکے اس کی راکھ کوہوا میں اڑادیتی ہے۔ موت کے سامنے ہر آدمی بالکل بے بس ہے،موت کے سامنے کسی بھی شخص کی کوئی قیمت نہیں۔یہ واقعہ ہماری زمین پر روزانہ لاکھوں کی تعداد میں پیش آتا ہے۔مگر انسان غفلت کی ایسی شراب پئے ہوئے ہے کہ اس کے باوجود اس کی مد ہوشی ختم نہیں ہوتی۔آدمی دوسرے کو مٹانے کا منصوبہ بناتا ہے حالاںکہ موت خود اس کو مٹانے کے لیے اس کے پیچھے کھڑی ہوئی ہے۔آدمی دوسرے کو برباد کرنے کی سازش کرتا ہے حالاں کہ اپنی سازش کی تکمیل سے پہلے وہ خود موت کا شکار ہوجاتا ہے۔آدمی دوسرے کا اعتراف نہیں کرتا ،وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنی بڑائی کا تحفظ کررہا ہے۔حالاں کہ اگلے ہی لمحہ موت آکر اس کی بڑائی کو خاک میں ملا دیتی ہے۔انسان ’’خدا ‘‘بننا چاہتا ہے مگر موت اس کو بتاتی ہے کہ وہ صرف ایک بے قیمت ’’آدمی‘‘ہے ‘اس کے سوا اورکچھ نہیں۔

خدائی منصوبہ

 

خدا کا منصوبہ

خدا نے اپنی پسند کی ایک دنیا بنائی اوراس کا نام جنت رکھا۔یہ جنت ابدی خوشیوں اورراحتوں کی دنیا ہے۔وہاں نہ دکھ ہے اور نہ شورو غل۔نہ رنج ہے اورنہ حادثہ۔وہ ہرقسم کی کلفتوں سے آزاد دنیاہے ہر قسم کی نعمتیں وہاں بے حساب مقدار میں اکٹھا کی گئی ہیں۔وہاں آدمی نہ مرے گااورنہ کبھی اکتائے گااورنہ کبھی کسی طرح کے غم سے دوچار ہوگا۔

یہی وہ دنیا ہے جس کی طلب ہر شخص کی فطرت میں موجود ہے۔ہر آدمی ایک نادیدہ جنت کی تلاش میں ہے۔مگر یہ لا محدود جنت کوئی شخص موجودہ محدوددنیا میں نہیں پاسکتا ہے۔ خدا نے اس جنت کو موت کے بعد آنے والی دنیا میں رکھ دیا ہے۔

تاہم یہ جنت اپنے آپ کسی کو نہیں مل جائے گئی۔یہ صرف اس خوش نصیب آدمی کا حصہ ہے جو موجودہ زندگی میںجنت والے عمل کرے۔خدا نے ہماری زندگی کو دوحصوں میں بانٹ دیا ہے۔ہماری زندگی کا مختصر حصہ موجودہ دنیا میں ہے اوراس کا بقیہ تمام حصہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں — موجودہ دنیا کو خدا نے عمل کی جگہ بنایا ہے اوربعد کی دنیا کو عمل کا بدلہ پانے کی جگہ۔

امتحان کی مصلحت کی بنا پر موجودہ دنیا میں آدمی کو اختیار دے دیا گیا ہے۔وہ آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔مگر یہ آزادی برائے آزمائش ہے نہ کہ برائے انعام۔جو آدمی وقتی آزادی کی بنا پر غلط فہمی میں نہ پڑے اوراپنے آپ کو حقیقتِ حال کے مطابق بنائے وہ جنت میں بسایا جائے گا۔اورجو شخص آزادی پاکر سرکشی کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔

اس کائنات میں سارا اختیار حقیقۃً صرف ایک خدا کوحاصل ہے۔وہی ہر چیز کا مالک ہے۔ہر آدمی ہر لمحہ اس کی مٹھی میں ہے۔جو آدمی اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ارادہ سے اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے وہ جنت کا مستحق بنا۔اورجو شخص حقیقت واقعہ سے انحراف کرکے خود ساختہ طریقوں پر چلے وہ خدا کی نظر میں مجرم ہے۔آخرت کی نعمتوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔

مستقبل کا یقین

ڈارٹنگٹن ہال(Darington Hall) انگلینڈ کا ایک ممتاز اسکول ہے۔وہاں ایک طالب علم کو (1983 میں) سالانہ پانچ ہزار پونڈ تعلیمی فیس دینی پڑتی ہے۔اس کے پرنسپل ڈاکٹر بلیکشا (Dr. Lyn Blackshaw) نے 11جولائی 1983کو اسکول اسٹاف کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجود ہ حالات میں طلبہ کو اپنی ڈگری بے قیمت معلوم ہونے لگی ہے۔ان کو یقین نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے حصول کے بعد اپنی پسند کے مطابق کوئی روز گار حاصل کرلیں گے۔اس بے یقینی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے اندر جھنجھلاہٹ کی نفسیات پیدا ہورہی ہے۔ اور وہ کثرت سے جرائم کرنے لگے ہیں۔انھوں نے کہا:

The worst thing we can do for our children is to destroy their faith in the future.

سب سے بری چیز جو ہم اپنے بچوں کے لیے کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں ان کے یقین کو برباد کردیں (سنڈے ٹائمس ،لندن4ستمبر 1983)۔

پرنسپل کے اس جملہ پرہم یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ تعلیم کے بعد روز گار حاصل کرنے کا مسئلہ انسان کے ’’مستقبل‘‘ کا صرف ایک چھوٹا ساجزءہے۔مستقبل کا مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔وہ زندگی کے موجودہ مرحلہ سے لے کر موت کے بعد کی ابدی زندگی تک چلا گیاہے۔

انسان کو کامل اطمینان اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اس کو اس کے پورے مستقبل کے بارے میں پر امید نقطہ نظر مل جائے۔جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے جتنے غالب افکار ہیں سب نے موت کے بعد ابدی مستقبل کے بارے میں انسان کے یقین کو برباد کردیا ہے یہی جدید انسان کے عدم اطمینان کی سب سے بڑی نفسیاتی وجہ ہے۔

انسان کو جب تک ایک ایسا کامل نقطۂ نظر نہ دیا جائے جو اس کے حال اورمستقبل کو ابدی طور پر پُرامید بناتا ہو وہ کبھی حقیقی معنوں میں مطمئن نہیں کرسکتا۔نوجوان کو اپنے دنیوی مستقبل کا مسئلہ پریشان کرتاہے مگر جب وہ اپنا دینوی مستقبل تعمیر کرچکا ہوتا ہے تو اس کے بعد مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔اب دوسرے سوالات اس کو پریشان کرنے لگتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پریشانیوں سے آدمی اسی وقت نجات پاسکتا ہے جب کہ وہ ابدی عمر تک کے لیے اپنے سوالات کا جواب پالے نہ کہ صرف وقتی عمرتک کے لیے۔

حقیقت انسانی

سب سے بڑی نیکی حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔ اس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک خدا کو حاصل ہے۔اس کے مقابلہ میں انسان بالکل عاجز اوربے بس ہے۔مگر اس دنیا میں انسان کو بظاہر ایسے حالات میں رکھاگیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح آزاد اورخودمختار محسوس کرے۔یہی انسان کا امتحان ہے۔جو آدمی حقیقی صورت حال کو سمجھے اور اس کا اعتراف کر کے خدا کے آگے جھک جائے ،وہ قابل انعام ٹھہرا۔اس کے برعکس جو آدمی امتحانی پردے کو پھاڑنے میں کامیاب نہ ہو اورخدا کی بڑائی کے آگے اپنے کو نہ جھکائے وہ مجرم ہے۔ایسا شخص عنقریب سخت ترین عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔

دنیا میںوہ مسئلہ بہت بڑے پیمانے پر پایا گیا ہے جس کو خرابی کا مسئلہ (Problem of evil) کہا جاتا ہے۔انسان کے ساتھ موجود دنیا میں بے شمار قسم کے دکھ لگے ہوئے ہیں۔ایک شخص تندرست وتوانا ہے اوراچانک موت آکر اس کو دبوچ لیتی ہے۔ایک شخص کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے اوراس کے شاندار جسم کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔اسی طرح بیماریاں،قحط،زلزلے اورطرح طرح کی آفتیں انسان کے منصوبوں کو اس طرح تہس نہس کرتی رہتی ہے جیسے ان کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔

بظاہر یہ بڑا بے رحمی کا معاملہ ہے۔مگر اس کے اندر زبردست حکمت چھپی ہوئی ہے۔یہ تمام ناخوشگوار واقعات اس لیے پیش آتے ہیں کہ انسان کی آنکھ کھولیں۔وہ انسان کو یاددلائیں کہ بظاہر بااختیار ہونے کے باوجود وہ کس قدر بے بس ہے۔سب کچھ کا مالک ہونے کے باوجود وہ کتنا زیادہ بے کچھ ہے۔یہ خرابیاں دراصل بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت ہیں۔اس طرح ظواہر کا پردہ پھاڑ کر انسان کو اصل حقیقت کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔قیامت میں جو پردہ مکمل طور پر پھاڑاجانے والا ہے وہ حادثات کے ذریعہ جزئی طور پر پھاڑدیاجاتاہے۔

دنیا کی مصیبتیں انسان کو اس کی بے بسی کی یاد دلاتی ہیں۔وہ اس کو ذہنی طور پر اس قابل بناتی ہیںکہ وہ حقیقت واقعہ کو پالے اوراس کو مان کر خدا کے انعامات کا مستحق بنے۔ آنے والی ابدی دنیا میں انسان حقیقی طور پر آزاد اورخود مختار ہوگا۔وہاں وہ ہر قسم کے دکھ اورغم سے مکمل طور پر محفوظ رہے گا۔مگر یہ درجہ کسی کو بطور انعام ملے گانہ کہ بطور استحقاق۔ جس نے اپنے عجز کو جان لیا وہی اس قابل ہے کہ اس کو آزادی کی نعمت عطا ہو۔جو اپنی بے اختیاری پر راضی ہوگیا اسی نے اس اہلیت کا ثبوت دیا کہ خدا اس کو اپنی معیاری دنیا میں بااختیار بنا کررکھے۔

یہ تضاد کیوں

آسمان کے نیچے ہونے والے تمام واقعات میں سب سے زیادہ عجیب واقعہ یہ ہے کہ یہاں دادا گیری کی صلاحیت کا استعمال ہے مگر سنجیدگی کی صلاحیت کا کوئی استعمال نہیں۔یہاں شاطر آدمی اپنی پوری قیمت پالیتا ہے۔مگر شریف آدمی کو یہاں کوئی قیمت نہیں ملتی۔ہر ایک کو خوش کرنے والی زبان بولنے والے کو یہاں خوب مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔مگر جو شخص غیر مصلحت پر ستانہ انداز میں بولے اورحق کو حق اورباطل کو باطل کہے اس کو یہاں کوئی عزت اورمقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔

یہ سب ایک ایسی دنیا میں ہورہا ہے جو اپنی ذات میں بالکل بے عیب ہے۔جہاں درخت کمال کا ایک انتہائی خوش منظر نمونہ بنے ہوئے کھڑے ہیں۔جہاں چڑیاں اس کے سوا کوئی اوربولی نہیں جانتیں کہ وہ حسن اورسلامتی کے نغمے گائیں۔جہاں سورج اورچاند صرف روشنی بکھیرتے ہیں ،ان کو تاریکی بکھیرنا اوراندھیرنا پھیلانا نہیں آتا جہاں ستارے صرف اپنے مدار میں گھومتے ہیں ،کوئی ستارہ دوسرے کے مدار میں داخل ہوکر وہاں اپنا جھنڈاگاڑنے کے لیے نہیں دوڑتا۔

انسان اوربقیہ کائنات میں یہ تضاد دیکھ کر کچھ لوگوں نے کہا کہ یہاں دو خدا ہیں ،ایک نور کا اوردوسرے ظلمت کا۔کسی نے کہا کہ یہاں کوئی خدا ہی نہیں۔اگر کوئی خداہوتا تودنیا میں الل ٹپ نظام کیوں کرجاری رہتا۔

مگر صحیح یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔مثالی دنیا اس کے بعد آنے والی ہے اورانسان کے سوا بقیہ کائنات اسی کا ایک ابتدائی تعارف ہے۔امتحان کا یہ لازمی تقاضا تھا کہ انسان کو عمل کی پوری آزادی ہو۔اسی آزادی کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی شخص سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے اورکچھ لوگ ٹیڑھے راستہ پر چلتے ہیں ،مگر قیامت کے بعد جب مثالی دنیا قائم ہوگی تو وہاں وہی لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے موجودہ دنیا میں اس بات کا ثبوت دیا ہوگا کہ وہ مثالی انداز میں سوچنے اور مثالی کردار کے ساتھ زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بقیہ تمام لوگ چھانٹ کر اسی طرح دور پھینک دئے جائیں گے جیسے کوڑا کرکٹ سمیٹ کر پھینک دیا جاتاہے۔

کائناتی منصوبہ بندی

موجودہ زمانہ میں آواز کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والے ہوائی جہاز بنائے گئے ہیں۔یہ جہاز بننے کے بعد جب امریکامیں اڑائے گئے تو معلوم ہواکہ وہ انسانی صحت کے لیے خطرہ ہیں۔کیونکہ ان کی وجہ سے ہوا میں گیسوں کا قیمتی تناسب بدل جاتا ہے۔ چنانچہ امریکامیں اس قسم کے جہازوں کی پروازپر پابندی لگا دی گئی۔

یہی معاملہ انسان کے تمام منصوبوں کا ہے۔آدمی ایک گھر بناتا ہے مگر جب وہ اس میں رہنا شروع کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فلاں فلاں کمی رہ گئی۔وہ سڑکیں اورلائنیں بچھاتا ہے مگر کچھ عرصہ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ضرورت کے مطابق کرنے کے لیے اس میں فلاں فلاں ترمیم کی ضرورت ہے۔اسی طرح انسانی تمدن کے ہر شعبہ میں ترمیم واصلاح کا کام مسلسل جاری رہتا ہے۔

یہ انسانی تعمیرات کا حال ہے مگر کائنات کے عظیم کارخانے کا معاملہ اس سے سراسر مختلف ہے۔ کائنات میں بے شمار چیزیں ہیں۔ستارے ،زمین ،معدنیات ،پہاڑ ،عرقیات ، گیسیں ،درخت ،جانور ،روشنی ،حرارت ،کشش ،انسان وغیرہ۔یہ چیزیں بے شمار صورتوں میں وسیع کائنات کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔مگر وہ اول روز سے انتہائی کامل صورت میں موجود ہیں۔ان کے خالق کو انہیںپیدا کرنے کے بعد نظر ثانی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

سورج اورزمین کا فاصلہ ،معدنیات میں جواہر کی ترکیب ،پانی اورہوا میں گیسوں کا تناسب، درخت اورپودوں کی نشوونما کا اصول ،حیوان اورانسان کا جسمانی ڈھانچہ ،غرض ہر چیز اول روز سے کامل اورمکمل ہے۔کسی چیز میں بھی ادنیٰ نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ہر چیز عین ویسی ہے جیسا کہ فی الواقع اسے ہونا چاہیے۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے جس ہستی نے کائنات کو بنایا ہے وہ قادر مطلق ہے اور اسی کے ساتھ عالم الغیب بھی۔مکمل قدرت اورغیب سے کامل آگہی کے بغیر ایسا معیاری منصوبہ بنانا ممکن نہیں جس میں کبھی نظر ثانی کی ضرورت پیش نہ آئے۔

تخلیق کی حکمت

ہندستان نے 1984میں روس کے تعاون سے اپنے دو آدمی خلا میں بھیجے۔ان کے نام ہیں :مسٹر رویش ملہوتر ا(پیدائش 1943)اورمسٹرراکیش شرما (پیدائش 1949)۔ان دونوں ہوا بازوں نے 1983میں دس مہینے روس کے خلائی سنٹر (Star City)میں گزارے۔دس مہینہ کی ٹریننگ میں ان کو جو چیزیں سکھائی گئیں ان میں سے ایک روسی زبان بھی تھی۔

بنگلور کی ایک پریس کانفرس (ہندستان ٹائمس، 24جولائی 1983)میں ان خلابازوں نے خلا کے بارے میں بعض دلچسپ چیزیں بتائیں۔انھوں نے بتایا کہ خلائی پرواز کے دوران آدمی تقریباً چھ سنٹی میٹر لمبا ہوجاتا ہے۔مگر اس کی اصل لمبائی اس وقت واپس آجاتی ہے جب کہ وہ دوبارہ زمین پر اترتا ہے۔لمبائی کا یہ فرق جسم کے اوپر فضا کے دبائو کی وجہ سے ہوتاہے :

One would gain about six centimetres in height during a space flight but would get back to one's normal height soon after returning to earth with the atmospheric pressure acting on the vertebrate.

خلامیں انسانی جسم کا لمبا ہوجانا بے وزنی کی وجہ سے ہوتا ہے۔وزن یا بے وزنی دونوں قوت کشش کے اثر سے پیدا ہوتے ہیں۔ہماری زمین بے حد صحیح اندازہ کے مطابق بنائی گئی ہے۔اس لیے یہاں ہر آدمی کا قدنہایت متناسب ہوتاہے ،نہ چھوٹا اورنہ بڑا۔زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت کے مقابلہ میں نصف ہوجائے تو اس کی کشش گھٹ جائے گئی۔اس کے نتیجہ میں انسان غیر متناسب طورپر لمبے قد کے ہونے لگیں گے۔ موجودہ معتدل قد کے انسانوں کے بجائے ہر طرف لمبے لمبے انسان دکھائی دیں گے۔ ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں موجودہ معتدل قد کے انسانوں کے بجائے ہر طرف اونٹ جیسے انسان کھڑے ہوئے نظر آتے ہوں۔

اس کے برعکس اگر ایسا ہوکہ زمین کی جسامت موجودہ جسامت کے مقابلہ میں دونا ہوجائے تو اس کی قوت کشش بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جسم کا بڑھنا رک جائے گا۔شیرکی جسامت گھٹ کر بلی جیسی ہوجائے گی اورانسان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنے موجودہ خوب صورت قد کو کھودے گااورزمین ان چھوٹے چھوٹے انسانوں کی بستی بن جائے گئی جن کو ہم بوناکہہ کر مسکراتے ہیں۔

تخلیق خداوندی کی یہی وہ حکمت ہے جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے :

 وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ (13:8)۔یعنی،او ر ہر چیز اس کے یہاں ایک انداز پر ہے۔

زندگی کا اسٹیج

حیدرآباد کا واقعہ ہے 21ستمبر 1981کو مسٹر بی کے راماریڈی(90سال)اوران کی 80سالہ بیوی پھولا بائی رات کے وقت اپنے گھر واقع بنجارہ ہلز میں سو رہے تھے۔ان کے علاوہ ان کے گھر میں ا س وقت صرف ان کا ملازم رامیا(50سال )تھا۔رامیا نے عین نیند کی حالت میں کلہاڑی سے بوڑھے میاں بیوی پر حملہ کیا اورنہایت بے دردی کے ساتھ دونوں کو مار ڈالا۔اس کے بعد رامیا نے بکس سے تقریباً ایک لاکھ روپے کے ہیرے اور زیورات نکالے اوررات کی تاریکی میں گھر سے باہر نکل گیا۔

راستہ چلتے ہوئے وہ ایک ایسے مقام پر پہنچاجہان پولیس کے دو آدمی رات کی ڈیوٹی میں پہرہ دے رہے تھے۔ان کو شبہ ہو اچنانچہ انھوں نے رامیا کو پکڑ لیا۔پوچھ گچھ اور ڈرانے دھمکانے کے بعد اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا اورچرایا ہوا مال پولیس کے حوالے کر دیا۔دونوں پولیس کے آدمیوں نے رامیا کو اوراس سے برآمدہ شدہ مال کو لے جاکر تھا نہ میں جمع کردیا۔ان کانام شیخ محبوب اورایس ایم رشید بتایا گیاہے۔

محکمہ پولیس کے افسران کے علم میں یہ واقعہ آیا تو وہ شیخ محبوب اورایس ایم رشید کی کارکردگی اوردیانت داری سے بہت خوش ہوئے اس کے بعد دونوں کو نقد انعامات دئے گئے اوراسی کے ساتھ دونوں کو ترقی بھی دے دی گئی۔شیخ محبوب کو اسٹیشن آفیسر کے عہدہ پر متعین کردیا گیا اورایس ایم رشید کو ہیڈ کانسٹیبل بنا دیاگیا۔

یہ ایک مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ایک واقعہ بیک وقت دو آدمیوں کے لیے دو معنی کا حامل ہوتا ہے۔ایک واقعہ پیش آتا ہے مگر اسی ایک واقعہ سے ایک شخص کو کریڈٹ دیا جاتا ہے اوردوسرے شخص کو ڈسکریڈٹ کیا جاتا ہے۔ایک شخص کو قاتل ثابت کرکے مجرم کے خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے اوردوسرے شخص کو ایماندار اور فرض شناس ظاہر کر کے انعام کا مستحق بنا دیا جاتا ہے۔

دنیا میں جتنے واقعات پیش آتے ہیں سب کی نوعیت یہی ہے۔یہاں کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں۔یہاں کوئی شخص کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتا اورنہ نقصان۔نہ کوئی کسی کو زندگی دے سکتا اورنہ موت۔تاہم یہ سارے واقعات یہاں ایک یا دوسرے کے ہاتھ سے پیش آتے ہیں۔دنیا ایک قسم کا خدائی اسٹیج ہے۔یہاں مختلف حالات پیدا کرکے خدا ہر ایک کویہ موقع دیتا ہے کہ اس کے اندر جو کچھ ہے اس کو وہ علی الا علان ظاہر کر دے۔جو شخص مجرمانہ ذہن لیے ہوئے ہے وہ اپنے موافق حالات پاکر جرم کرے اورخدا کے قانون کے مطابق سزا کا مستحق ہو۔جو شخص اپنے اندر حق پرستی کا ذہن لیے ہوئے ہے وہ اپنے موافق حالات میں حق اورانصاف کامعاملہ کرے تاکہ وہ خدا کے یہاں انعام اورقدرافزائی کے لائق ٹھہرے۔

اندھیر اختم ہوگا

خدا کی دنیامیںانسان بظاہر ایک تضاد ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں سورج ہر روز ٹھیک اپنے وقت پر طلوع ہوتا ہے وہاں انسان کا حال یہ ہے کہ آج ایک بات کہتا ہے ،اورکل وہ اس سے پھر جاتا ہے۔ جس دنیا میں سخت پتھروں کے اندر سے بھی پانی نکل پڑتا ہے وہاں ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ بدترین بے دردی کا ثبوت دیتا ہے۔جس دنیا میں اس کا چاند تمام مخلوقات کے اوپر بلا امتیاز چمکتا ہے وہاں انسان ایک کے ساتھ کچھ سلوک کرتا ہے اوردوسرے کے ساتھ کچھ۔جس دنیا کا ضمیراپنے آپ کو پھولوں کی لطافت کی صورت میں ظاہر کرتا ہے وہاں انسان کانٹوں سے بھی زیادہ برے کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جس دنیا میں ہوائوں کے جھونکے ہر طرف بے غرض خادم کی طرح پھر رہے ہیں وہاں انسان اس طرح رہتا ہے جیسے ذاتی غرض پوری کرنے کے سوا اس کا اورکوئی مقصد ہی نہیں۔جس دنیا میں ایک درخت دوسرے درخت کو دکھ نہیں دیتا وہاں ایک انسان دوسرے انسان کو ستاتا ہے ،ایک انسان دوسرے انسان کو برباد کرکے خوشی کے قہقہے لگاتا ہے۔

یہ سب کچھ اس دنیا میں ہر روز ہورہا ہے مگر خدا یہاں مداخلت نہیں کرتا ،وہ اس تضاد کو ختم نہیں کرتا۔ مخلوقات کے آفاتی آئینہ میں خدا کتنا حسین معلوم ہوتا ہے مگر انسانی زندگی کے الم ناک گوشہ میں اس کا چہرہ کتنا مختلف ہے۔خدا کے سامنے درندگی کے واقعات آئے ہیں مگر اس کے اندر کوئی تڑپ پیدا نہیں ہوتی۔خدا انسانوں کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھتا ہے مگر اسے اس کی کوئی پروانہیں ہوتی۔وہ کائنات کے سب سے زیادہ حساس باسیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کا مشاہدہ کرتا ہے مگر اس کے خلاف اس کے اندر کوئی بے چینی نہیں ابھرتی۔کیا خدا پتھر کی مورتی ہے ،کیا وہ ایک انتہائی کامیاب اسٹیچو ہے جو سب کچھ دیکھتا ہے مگر اس کے بارے میں اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کرتا۔

اس سوال نے ہر زمانہ کے سوچنے والوں کو سب سے زیادہ پریشان کیا ہے۔مگر یہ سوال صرف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ مخلوقات کے بارے میں ہم خالق کی حکمت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔خالق کی اسکیم میں دنیا دار الا متحان ہے مگر ہم اس دارالجزا کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔جو کچھ کل کے دن پیش آنے والا ہے اس کو ہم چاہتے ہیں کہ آج ہی کے دن ہماری آنکھوں کے سامنے آجائے۔

جس طرح ہر روزرات کے اندھیرے کے بعد سورج کی روشنی پھیلتی ہے اسی طرح لازماً یہ بھی ہونے والا ہے کہ زندگی کا اندھیر اختم ہو۔ظالم اورمظلوم ایک دوسرے سے الگ کیے جائیں۔سرکش انسانوں کی گردنیں توڑی جائیں اورسچے انسانوں کو ان کی سچائی کا انعام دیا جائے۔یہ سب کچھ اپنی کامل ترین صورت میں ہوگا ،مگر وہ موت کے بعد ہوگا نہ کہ موت سے پہلے۔

تاریکی میں سفر

لندن کے اخبار گار جین (13مارچ 1983)کے ایک تین کالمی مضمون کی سرخی ہے— تاریکی میں ایک بہادر انہ سفر:

A brave journey through the dark.

 یہ مضمون آرتھر کوئسلر (1905-1983)کے بارے میں ہے۔آرتھر کوئسلر انگلستان کا ایک مشہور ادیب اورمفکر تھا۔اس نے اوربیوی سنتھیا(Cynthia) نے مارچ1983میں اپنے لندن کے مکان میں خود کشی کرلی۔موت کے وقت آرتھر کوئسلر کی عمر 77سال تھی۔

آرتھر کوئسلر بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔اس کی ایک کتاب کانام ہے — دوپہر میں تاریکی (Darkness at Noon) ۔ یہ کتاب32زبانوں میںشائع ہوچکی ہے،جوکہ کمیونزم کے خلاف ہے۔اس میں مصنف نے دکھایا ہے کہ نام نہاد عوامی نظام میں بھی کس طرح انسان کے اوپر انسان کاظلم جاری رہتا ہے۔ایک انسان دوسرے انسان کا استغلال کرتا ہے۔

آرتھرکوئسلر کو ذاتی طور پر وہ تمام دنیوی چیزیں حاصل تھیں جن کی ایک انسان تمنا کرتا ہے۔وہ مشہور عالم تھا۔اپنے پیچھے اس نے چار لاکھ پونڈ چھوڑے ہیں جن کے بارے میں اس نے وصیت کی کہ وہ ایک برطانی یونیورسٹی کو دے دئے جائیں جو اس رقم کو (Parapsychology) کی تحقیق میں لگائے۔

آرتھر کوئسلر نے کیوں خود کشی کرلی۔اس کی وجہ اس کی مایوسی تھی۔وہ دنیا میں برُائیاں دیکھ کر بے حد پریشان تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان برائیوں کی کیا توجیہ کرے۔1974میں اس کے مقالات کا ایک مجموعہ چھپا تھا جس میں اس نے کہا تھا تکنیکی ترقیوں اوراخلاقی سلوک کے درمیان بہت نمایا ں قسم کی علامتی نابرابری پائی جاتی ہے :

There is a striking. symptomatic disparity between the growth-curves of technological achievement on the one hand and of ethical behaviour on the other.

اس کے بعد وہ جدید تہذیب سے اپنی مایوسی کا اظہار ان لفظوں میں کرتا ہے کہ ہم دور سیاروں کے گرد گھومنے والے خلائی جہازوں کی حرکت کو کنٹرول کرسکتے ہیں مگر شمالی آئر لینڈ کے حالات کو کنٹرول کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں :

We can Control the motions of satellites, orbiting the distant planets, but cannot control the situation in Northern Ireland.

دونو ں ایک سطح پر

جانور اپنی نوع کو ہلاک نہیں کرتے۔مگر انسان خود اپنے ہم جنسوں کو ہلاک کرتا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے۔اس سوال کی تحقیق کرتے ہوئے آرتھر کوئسلر اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کے مختلف حصوں میں ارتقا کے دوران عدم توازن (Imbalance) پیدا ہو گیا ہے۔یہی عدم توازن مردم کشی کے بڑے بڑے واقعات کا اصل سبب ہے۔

تاہم یہ تحقیقات اس کو سکون نہ دے سکیں۔وہ بالآخر اس رائے پر پہنچا کہ انسان کے لیے موجودہ حالات میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ خود کشی کرلے۔اس کا آخری فلسفہ یہ تھا کہ موت اس شخص کے لیے قابل استقبال اورقدرتی ریلیف ہوسکتی ہے جس کا واحد بدل غم اورمصیبت ہو:

Death could be a welcome and natural relief for someone whose only alternative was pain and suffering.

The Guardian (London) March 13, 1983

آرتھر کوئسلر نے اپنے اس نظریہ پر خود عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس دنیا سے الگ کرلیا جو نہ اس کی مرضی کے مطابق تھی اورنہ وہ اس کو بدلنے کی قدرت رکھتا تھا۔ا س نے دیکھا کہ انسان ایک روشن فضا میںآنکھ کھولتا ہے۔پھر وہ موت کی اندھیری دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔اس نے دیکھا کہ ٹکنالوجی میں غیر معمولی ترقی کے باوجود انسان کی اخلاقی ترقی ممکن نہ ہوسکی۔ا س نے دیکھا کہ جانور تک اپنے ہم جنسوں کو ہلاک نہیں کرتے مگر انسان خود اپنے ہم جنسوں کو ہلاک کرنے کے منصوبے بناتا ہے۔اس نے دیکھا کہ انسان اپنے سارے وسائل کو استعمال کرکے فلاحی نظام بناتا ہے مگر وہ نظام روشنی میں تاریکی کے ہم معنی ہوجاتا ہے۔ان حالات نے اس کو مایوس کردیا اوراس نے خود کشی کرلی۔

یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدمی کے سامنے آخرت کا تصور نہ ہو تو اس کی زندگی کتنی بے معنی ہوجاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجود دنیا کی معنویت اسی وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ اس کو آخرت کے ساتھ ملا کردیکھا جائے۔آخرت کے بغیر یہ دنیا اتنی بے معنیٰ معلوم ہوتی ہے کہ ایک حساس مفکر یہی کرسکتا ہے کہ وہ خود کشی کرلے تاکہ اس کے خیال کے مطابق اس کو موجودہ ناقابل فہم دنیا سے چھٹی مل جائے۔

حادثات کیوں

ٹرین جب پلیٹ فارم سے روانہ ہونے والی ہوتی ہے تو سیٹی دیتی ہے۔اس سیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ آگاہ ہوجائیں۔اگرکچھ مسافر پلیٹ فارم پرہوں تو وہ فوراً اپنے ڈبہ میں آکر بیٹھ جائیں۔تاہم اس سیٹی کو دو زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے۔اگر آپ محض آواز کے معنی میں لے کر اس کو شور یا صوتی آلودگی (Noise pollution) کہیں تو وہ بالکل بے معنی معلوم ہوگی لیکن اگر آپ اس کو ’’الارم‘‘کہیں تووہی چیز آپ کی نظرمیں بالکل درست اوربامعنی بن جائے گی۔

یہی معاملہ فطرت کے حادثات کا ہے۔ فطرت کے حادثات کو دوزاویہ نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہماری زمین پر قحط ،زلزلے ،طوفان آتے ہیں اوردوسری قسم کی آفتیں پیش آتی ہیں۔بعض فلسفیوں نے ان کو مطلق طورپر دیکھا تو ان کو ان واقعات میںکوئی معنویت نظر نہیں آئی۔ان کو انھوں نے مسئلہ فساد (Problem of evil) کانام دے دیا۔

مگر پیغمبر ان واقعات کو ایک اورزاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔یہ دوسرازاویہ نصیحت اورعبرت کا زاویہ ہے۔اس اعتبار سے دیکھنے میں اس قسم کے تمام واقعات فطرت کا الارم بن جاتے ہیں۔

پیغمبر کی تشریح کے مطابق یہ واقعات بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت ہیں۔وہ انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ایک بڑے سخت دن کو طرف بڑھ رہا ہے جب کہ خدا اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوگا۔تمام انسان مجبور اوربے بس حالت میں اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔اس دن آدمی بھاگنا چاہے گامگر کوئی جگہ نہ ہوگی جہاں وہ بھاگ کر پناہ لے سکے۔اس دن آدمی مدد کے لیے پکارے گا مگر وہاں کوئی نہ ہوگا جو اس کی مدد کے لیے دوڑے۔

یہ واقعات جو زیادہ بڑی شکل میں قیامت میں پیش آئیں گے وہی بہت چھوٹی شکل میں موجودہ دنیا میں پیش آتے ہیں۔وہ قیامت سے پہلے قیامت کی یاد دہانی ہیں۔کل کے دن جو پردہ کامل طور پر پھاڑا جانے والا ہے اس کو آج ان حادثات کے ذریعہ جزئی طور پر پھاڑ دیا جاتا ہے۔

عقلمند انسان وہ ہے جو اس قسم کے واقعات کو فطرت کا الارم سمجھے نہ کہ فطرت کا بگاڑ۔ ان کو الارم کی نظر سے دیکھا جائے تو تواضع اوراصلاح کا جذبہ ابھرے گا۔اوراگر ان کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ یہ نظام فطرت کی خرابی ہے تو اس سے ذہنی انتشار اور بغاوت کے جذبات ابھرتے ہیں۔پہلا ذہن آدمی کو جنت کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا ذہن جہنم کی طرف۔

حقیقت سے بے خبری

امتحان ہال میںہر طالب علم کو یکساں طور پر داخل ہونے اوربیٹھنے کے مواقع دئے جاتے ہیں۔مگر سند کی تقسیم کے وقت سند پانے کی خوشی ہر ایک کے حصہ میںنہیں آتی۔یہ خوشی صرف اس طالب علم کا حصہ ہوتی ہے جو محنتی ہو۔جس نے سال بھر کے وقت کو ضائع کرنے کے بجائے استعمال کیا ہو۔ایسا طالب علم کامیابی کے ساتھ تمام سوالات کو حل کرتا ہے اورامتحان میں پاس ہوکر سند کا مستحق بنتا ہے۔

یہی حال وسیع تر معنوں میں زندگی کا بھی ہے۔موجودہ دنیا بے شمار نعمتوں سے بھری ہوئی ہے۔اورہر آدمی اس سے متمتع ہورہا ہے۔مگر موجودہ دنیا میں ہر چیز جو آدمی کومل رہی ہے وہ امتحان کی قیمت میںمل رہی ہے۔اس کے برعکس آخرت میں ہر چیز آدمی کو عمل کی قیمت میں ملے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر آدمی خدا کی نعمتوں میںسے کچھ اپنے لیے پالیتا ہے۔مگر آخرت میں صرف وہی لوگ خدا کی نعمتوں کو پائیں گے جو اپنے عمل سے اس کا استحقاق ثابت کریں۔باقی تمام لوگ اس سے محروم کرکے چھوڑدئے جائیں گے۔

انسان زمین کے اوپر کس طرح اکڑکر چلتا ہے۔وہ بھول جاتا ہے کہ زمین پر چلنا اس کا حق نہیں یہ صرف خد اکی طرف سے امتحان کی مہلت ہے۔انسان یہاں دھوپ اورہو ا اورپانی اورغذااوربے شمار دوسروی چیزوں کو استعمال کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے لیے ہیں۔حالانکہ یہ صرف وقفہ امتحان تک اس کے لیے ہیں۔اس کے بعد وہ صرف اس شخص کے لیے ہوں گی جس نے ان کا حق ادا کیا ہو۔باقی تمام لوگوں کے حصہ میں ابدی محرومی کے سوا اورکچھ نہیں آئے گا۔انسان اختیار واقتدار پاکر گھمنڈکرنے لگتا ہے۔اس کو خبر نہیں کہ یہ اختیار واقتدار خدا کی امانت ہے۔اور اس کو پا کر گھمنڈ کرنا خدا کی امانت میں خیانت کرنا ہے۔جس کی کم سے کم سزایہ ہے کہ اس کو دائمی طور پر ہر قسم کے عزت اوراقتدار سے محروم کردیا جائے۔

یہ ایک بے حد نازک صورت حال ہے۔ہر آدمی ایک انتہائی بھیانک انجام کے کنارے کھڑاہواہے۔اس دنیا کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ لوگوں کو اس صورت حال سے باخبر کیا جائے۔

موجودہ دنیا کی چیزوں کو جو لوگ ذاتی چیز سمجھ کر اس میں بے روک ٹوک تصرف کررہے ہیں ان کا حال آخرت میں وہی ہوگا جو کسی بینک کے اس اکائونٹنٹ کا ہوتا ہے جو بینک کی الماری میں بھرے ہوئے نوٹوں کو اپنی ذاتی چیز سمجھ لے۔

ظاہر فریبی

ایئرمارشل عبداللطیف ہوائی جہاز چلانے کا چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔25اگست 1981کو انھوں نے روسی ساخت کا آواز سے تیز چلنے والا لڑاکا جہاز مگ 25آزمائشی طور پر اڑایا۔آدھا گھنٹہ تک پرواز کرنے کے بعد انھوں نے جہاز کو نیچے اتارا ۔ایئرمارشل جب ہوائی جہاز سے باہر آئے تو انھوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:

The flight made even the Himalayas look small

ہماری پرواز کے سامنے ہمالیہ پہاڑ بھی چھوٹا دکھائی دیتا تھا (ٹائمس آف انڈیا، 26اگست1981)۔

آواز سے تیز رفتار جہاز ہمالیہ کے اوپر اڑانیں بھر رہا ہو تو اس وقت جہاز کے اوپر بیٹھے ہوئے آدمی کو ہمالیہ واقعی حقیر دکھائی دیتا ہے،اوراپنی عظمت کا ایک عجیب احساس پیدا کرتا ہے مگر یہ غلط فہمی اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جہاز ہمالیہ کی کسی چوٹی سے ٹکرا جائے۔چٹان کے معمولی ٹکرائو سے بھی فی الفور جہاز میں آگ لگ جاتی ہے اور اچانک جہاز اوراس کا مسافردونوں اس طرح راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیںجیسے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔

موجودہ دنیا میں کسی کو کوئی بڑائی ملتی ہے تو وہ بہت جلد غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔حالاں کہ دنیا کی ہر بڑائی ایسی ہی ہے جسے تیز رفتار ہوائی جہاز کے اوپر سے کسی آدمی کاپہاڑ کو دیکھنا۔ایسے مسافر کو بظاہر اپنی سواری عظیم معلوم ہوتی ہے۔مگر یہ ایک خیالی فریب کے سوا اورکچھ نہیں۔حالات کا معمولی فرق بھی اس کو یہ بتانے کے لیے کافی ہوجاتا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہ تھی۔

دنیا میں کسی چیز کو پانے کے لیے جن بے شمار اسباب کی موافقت ضروری ہے ان کی فراہمی کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔یہ صرف خدا ہے جو تمام موافق اسباب کو یکجا کرکے کسی واقعہ کو ظہور میںلاتا ہے۔تاہم اس سارے معاملہ پر ظاہری اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔آدمی سے یہ مطلوب ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خدا کی خدائی اوراس کے مقابلہ میں اپنی بندگی کا اعتراف کرلے۔وہ بظاہر اپنی کو ششوں سے پائے مگر اس کو خدا کی طرف سے آیا ہواسمجھے۔وہ بظاہر بڑا بنا ہواہومگر اپنے کو چھوٹا یقین کرے۔وہ بظاہر بلندی پر اڑرہاہومگر اپنے کو پستی میں اتراہوامحسوس کرے۔

آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری فریب سے گزرکر اصل حقیقت کو پالے ،یہاں کی ہر بڑائی کو جھوٹی بڑائی سمجھے۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس فریب کا پردہ پھاڑنے میں کامیاب ہوتے ہوں۔

تضاد فکری

قرآن میں ارشاد ہواہے’’اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں بنائے اورنہ تمہاری بیویوں کوجن کو تم ماں کہہ بیٹھے ہوتمہاری مائیں بنایا اورنہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔یہ تمہارے اپنے منہ کی بات ہے۔اوراللہ حق کہتا ہے اوروہ صحیح راہ دکھاتا ہے۔منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو،یہی پوراانصاف ہے اللہ کے یہاں‘‘ (33:4)۔

قدیم عربوں میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی شخص نادانی میں اپنی بیوی کو ماں کہہ دیتا:أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي(مسند احمد، حدیث نمبر 27319 )تو وہ اس کے لیے حقیقی ماں کی طرح حرام ہوجاتی۔گویا اس لفظ کے بولنے سے وہ سچ مچ اس کی ماں بن گئی ہے۔اسی طرح اگر ایک شخص کسی کو منہ بولا بیٹا (تبنیٰ)بنالیتا تو وہ اس کو صُلبی بیٹے کی طرح سمجھنے لگتے اوراس پروہی احکام صادر کرتے جو حقیقی بیٹے کے لیے ہوتے ہیں۔اسلام نے اس جاہلی رواج کے خاتمہ کا اعلان کیا۔

’’ایک سینہ میں دو دل ‘‘کا مطلب کسی شخص کا بیک وقت دو متضاد نقطۂ نظر رکھنا ہے۔خدا نے جب انسان کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سوچنے کے انداز میں بھی دوئی نہیں ہونی چاہیے۔یہ بات خدا ئی اسکیم کے خلاف ہے کہ کوئی شخص بیک وقت دو مختلف اورمتضاد نظریہ کو اپنے اندر جگہ دے۔ایک طرف وہ حقیقی ماں اوربیٹے کو ماں اوربیٹا سمجھے اوردوسری طرف محض زبان سے کسی کو ماں یا بیٹا کہہ دینے کی بنا پر بھی اس کو ماں یا بیٹا ماننے لگے۔

جو شخص ایسا کرے اس نے گویا فکری دوئی کا مظاہرہ کیا۔اس نے ایک طرف ایک حقیقی چیز کو حقیقت سمجھا اوردوسری طرف ایک بے حقیقت چیزکو بھی حقیقت قرار دیا۔یہ متضاد خیالات کو ایک دل میں جگہ دینا ہے جو فطرت کے وحدانی نقشہ کے سراسرخلاف ہے۔یہ سچائی اور تعصب کو ایک ساتھ ماننا ہے۔حقیقت پسندی اورتو ہم پرستی کو بیک وقت اپنے ذہن میں جگہ دینا ہے۔ایک رواجی نقطۂ نظر کو بھی اسی طرح تسلیم کرنا ہے جس طرح خالص عقلی نقطۂ نظر کو تسلیم کرنا چاہیے۔اسی طرح توحید کے عقیدہ کے ساتھ مشرکا نہ خیالات کوماننا ،حقیقت واقعہ اورتو ہمات کو ایک ساتھ اپنے ذہن میں جگہ دینا ،اصولی صداقت کا اقرار کرنے ساتھ شخصیت پرستی کو اختیار کرنا،قرآن کی محکم آیتوں پر عقیدہ رکھتے ہوئے پُرعجوبہ قصے کہانیوں میں مشغول ہونا،سب ایک دل والے سینہ کو دو دل والا سینہ بنانا ہے جو سراسر تضادہے اورایسا ہر تضاد خدا کی اس بے تضاد دنیا میں جگہ پانے کے قابل نہیں۔

کائنات کو پڑھیے

قرآن کتاب کائنات کی ڈکشنری ہے۔یہی بات قرآن مین ان لفظوں میں کہی گئی ہے:  يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ (13:2)۔یعنی، خدا کائنات کا انتظام کررہا ہے اورقرآنی آیتوں کے ذریعہ اس کی تفصیل بیان کرتاہے۔

ایک شخص کائنا ت کو دیکھتا ہے۔وہ اپنی کم فہمی سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ کائنات ایک اتفاقی حادثہ کا نیتجہ ہے۔یہاں قرآن اس کو بتاتا ہے کہ نہیں ،کائنات ایک صاحب ارادہ کے ارادی منصوبہ کے تحت وجود میں آئی ہے۔

ایک شخص دیکھتا ہے کہ کائنات بظاہر کچھ اسباب کے تحت چل رہی ہے۔وہ سمجھ لیتا ہے کہ کائنات ایک عظیم خود چالو مشین ہے۔یہاں قرآن اس کو بتاتا ہے کہ نہیں ،کائنات کو خدا کے فرشتے خدا کے حکم سے چلا رہے ہیں۔

ایک شخص انواع حیات کے بعض ظاہری پہلووں کی بنا پر یہ رائے قائم کرلیتا ہے کہ زندگی کی تمام قسمیں سلسلۂ ارتقا کے تحت وجود میں آئی ہیں۔یہاں قرآن اس کی رہنمائی کرتا ہے اوراس کو بتاتا ہے کہ نہیں۔زندگی کی مختلف قسمیں ایک خالق کی تخلیق سے ظہور میں آئی ہیں۔

کائنات کو دیکھیے تو یہاں آرٹ اورکمال کے حیرت انگیز نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ایٹم رقص کررہے ہیں۔یہاں دوبے جان مادے باہم مل کر تیسری نئی چیز میں ڈھل جاتے ہیں۔یہاں بے شمار ستارے سفر کررہے ہیں ان کی رفتار میں ایک سکنڈ کابھی فرق نہیں ہوتا۔یہاں ایک بیج سر سبز درخت کی صورت اختیار کررہا ہے۔یہاں زندگی کا سیلاب چاروں طرف نظر آتا ہے۔اس قسم کے بے شمار عمل یہاں جاری ہیں مگر تمام عمل خاموشی کے ساتھ انجام پارہے ہیں۔کائنات کا کوئی کردار اپنا تعارف نہیں کراتا ،وہ انسان سے ہم کلام ہوکر اپنے بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔

آدمی یہ دیکھ کر سوچنے لگتا ہے کہ کائنات شاید گونگے شاہکاروں کا عجائب خانہ ہے۔یہاں قرآن اس کو بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا کے ہنگامے بے مقصد نہیں۔ایک وقت آنے والا ہے جب کہ دنیا کی معنویت پوری طرح ظاہر ہو۔اس وقت تما م چیزیں بول پڑیں گی جس طرح خاموش ریکارڈ گرامو فون کی سوئی کے نیچے آتے ہی بولنے لگتا ہے۔اس دن تمام کمیوں کی تلافی ہوگی جو موجود ہ دنیا میں نظر آتی ہیں۔انسان اپنے تمام سوالات کا جواب پالے گا۔ہر انسان اپنے اس انجام کو پہنچ جائے گاجہاں باعتبار حقیقت اسے پہنچنا چاہیے۔

معیاری دنیا

آدمی پیدائشی طور پر معیار پسند (Idealist) ہے۔ہر آدمی ایک معیاری دنیا (Ideal world)کی تلاش میں ہے۔مگر اس دنیا میں معیاری دنیا کا بننا ممکن نہیں۔اس دنیا میں آدمی کو صرف معیاری نظریہ دیا جاسکتا ہے نہ کہ معیاری دنیا۔

معیار ی دنیا بننے کی جگہ صرف آخرت ہے۔موجودہ دنیا امتحان کی حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت سی محدودیتیں (Limitations)ہیں۔یہ محدودیتیں خود خالق کی طرف سے ہیں اوران کی موجودگی میں یہاں معیاری دنیا بننا ممکن نہیں۔اسی کے ساتھ امتحان کی مصلحت کے تحت یہاں سے ہر شخص کو آزادی حاصل ہے۔یہاں اگر نیک لوگوں کو عمل کی آزادی ہے تو یہاں برے لوگوں کو بھی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔چنانچہ باربار ایسا ہوتا ہے کہ نیک لوگ ایک نقشہ بناتے ہیں اور برے لوگ شرارتیں کرکے اس نقشہ کو توڑ ڈالتے ہیں۔

امتحان کا تصور موجودہ دنیا کو سمجھنے کی کنجی ہے۔فلاسفہ اورمفکرین اس کنجی کو نہ پاسکے۔ اس لیے دنیا کو سمجھنے میں بھی وہ ناکام رہے۔انھوں نے موجودہ دنیا میں اپنی پسند کی دنیا بنانی چاہی۔مگر ’’ناقص دنیا‘‘میں ’’کامل دنیا‘‘نہیںبن سکتی تھی ،چنانچہ ان کے حصہ میں ذہنی انتشار کے سوا اورکچھ نہ آیا۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری دنیا نہیں بن سکتی۔معیاری بننے کی جگہ آخرت ہے۔یہاں صرف یہ ممکن ہے کہ لوگوں کو خد اکی اسکیم سے آگاہ کیاجائے اوران کو آخرت پسند ی کی زندگی گزارنے کی طرف متوجہ کیا جائے اس دعوت کے نتیجہ میں اگر انسانوں کی بہت بڑی تعداد دین حق پر آجائے تو ان کے اجتماع سے یقینا ایک ایسا معاشرہ بن جائے گا جو نسبتاً بہتر معاشرہ ہوگا۔نیز اگر حالات نے مساعد ت کی تو یہ گروہ غیر دینی نظام کے اوپر غلبہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔اوروہ چیز بھی قائم ہوسکتی ہے جس کو دینی حکومت کہا جاتا ہے۔

تاہم اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ معاشرہ یقینی طورپر ’’معیاری ‘‘معاشرہ ہوگا۔اورنہ اس کی کوئی ضمانت ہے کہ وہ مستقل طورپر باقی رہے گا۔یہ ساری چیزیں خدانے آخرت کی دنیا میں رکھ دی ہیں اورجو چیزیں مالک کائنات نے اگلی دنیا میں رکھ دی ہوں ان کو ہم موجودہ دنیا میں کبھی نہیں پاسکتے۔

غلط استعمال

جون 1984میں امرت سرکے سورن مندر (Golden Temple) کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی۔ہندستانی فوج کی اس کارروائی کا خفیہ نام آپریشن بلیو اسٹار (Operation Blue Star)تھا۔ سورن مندر سکھوں کا انتہائی متبرک مقام ہے۔اس واقعہ کے بعد کچھ پرجوش سکھوں میں ’’شہید ‘ ‘ ہونے کا جذبہ بھڑک اٹھا۔چنانچہ 31اکتوبر 1984کو خود انہیںسکھ جوانوں نے گولی مارکر اندرا گاندھی کو قتل کردیا جو حفاظت کی خاطر وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں متعین کیے گئے تھے۔

اس کے بعد مقدمہ چلا۔ 11فروری 1985کو چیف میڑوپولٹین مجسٹریٹ مسٹر ایس ایل کھنّہ کی عدالت میں ملزمین کے خلاف20صفحات کی چارج شیٹ پیش کی گئی۔اس سلسلہ میں اخبارات میں جو رپورٹ آئی ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے :

Satwant Sing has further been charged under section 27of the Arms Act for using a weapon lawfully supplied to him to commit murder.

قاتل ستونت سنگھ(1962-1989) پر اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 27کے تحت مزید یہ الزام ہے کہ ایک ہتھیار جو اس کو جائز طور پر دیاگیا تھا اس کو اس نے قتل کرنے کے لیے استعمال کیا(ٹائمس آف انڈیا، 12فروری 1985) ۔

ستونت سنگھ کو جو قیمتی آٹو میٹک ہتھیار دیاگیا تھا وہ وزیر اعظم کی حفاظت کے لیے تھا نہ کہ وزیراعظم کو قتل کرنے کے لیے۔یہ اگرچہ اس کے لیے جائز قانونی ہتھیار تھا مگرجب اس نے اس کا غلط استعمال کیا تو وہ قانون کی نظر میں مجرم قرار پایا۔وہی ہتھیار جس کا صحیح استعمال اس کو انعام کا مستحق بناتا  اس کے غلط استعمال نے اس کو سزاکا مستحق بنادیا۔

اسی طرح خدا کی طرف جو چیز یں انسان کو دی گئی ہیں وہ اس کا جائز حق ہیں۔مگر وہ صرف صحیح استعمال کے لیے ہیں۔آدمی اگر ان چیزوں کا غلط راہ میں استعمال کرے تو وہ خداکی نظر میں مجرم قرارپائے گا اورآخرت کی عدالت میں وہ ایسی سخت سزا کا مستحق ہوگا جس سے وہ کبھی نجات نہ پاسکے۔

کامیاب زندگی

اسٹوارٹ کیلی (Stuart Kelly)اونٹار یوکا ایک ٹرک ڈرائیور تھا اس نے لاٹری کا ایک ٹکٹ خریدا۔جنوری 1984میں اس کے نتیجہ کا اعلان ہوا تو اس کو پہلا انعام ملاجو 13.9ملین ڈالر تھا۔یہ کناڈا میں ملنے والے اب تک کے تمام لاٹری انعامات میں سب سے زیادہ تھا۔

اسٹوارٹ کیلی کے یہاں کوئی اولاد نہ تھی۔اس کو اتنا بڑاانعام ملاتو اس نے کہا کہ یہ میری تمام ممکن ضرور تو ں سے بھی زیادہ ہے مگر اس کو خوشیوں کاابھی آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے غم میں مبتلا ہوگیا۔انعام ملنے کے صرف تین ماہ بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کو کینسر ہوچکا ہے۔ لاٹری انعام ملنے کےسات ماہ بعد وہ مرگیا۔ اس کی عمر 57سال تھی۔وہ 35سال تک ٹرک ڈرائیور رہا اورانعام ملنے کے صرف سات ماہ بعد وہ اس دنیا سے چلاگیا۔

موجودہ دنیا میں ہر آدمی دولت چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے لیے ایک کامیاب زندگی کی تعمیر کرے۔مگر موجودہ دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ دولت نہیں بلکہ اس کا مسئلہ محدودیت ہے کوئی انسان خواہ کتنی ہی زیادہ دولت اپنے لیے حاصل کرلے وہ محدودیت سے خالی نہیں ہوسکتا۔اسی لیے کوئی شخص اس دنیا میں اپنی دل پسند زندگی بھی نہیں بنا سکتا۔

دولت کی کوئی مقدار آدمی کو اس سے نہیں بچاسکتی کہ وہ بیمار نہ ہو۔اس کو حادثہ نہ پیش آئے۔ایک مختصر مدت کے بعد وہ مرنہ جائے۔اورجب بیماری اورحادثہ اورموت پر انسان کو قدرت نہیں تو اپنے لیے پسند یدہ زندگی بنانے پر وہ کیسے قادر ہوسکتا ہے۔

دولت زندگی نہیں ہے۔دولت زندگی کا ایک وسیلہ ہے۔وسیلہ کی اہمیت ہمیشہ دوسرے درجہ کی ہوتی ہے۔زندگی ہے تو وسیلہ کی بھی اہمیت ہے۔اور اگر زندگی نہیں تووسیلہ کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔مگر اکثر انسان اس فرق کو بھول جاتے ہیں۔وہ دنیا کی دولت حاصل کرنے میں اتنا مشغول ہوتے ہیں جیسے کہ دنیا کی دولت بذات خود مقصود ہو،جیسے کہ دنیا کی دولت ہی کا دوسرا نام زندگی ہو۔

انسان کے لیے کامیاب زندگی کا کوئی نقشہ آخرت کو شامل کیے بغیر نہیں بن سکتا۔ انسان کو دو میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے۔موجودہ دنیاکو سب کچھ سمجھ کرنا کامی کی موت مرنا یا موجودہ زندگی کو آخرت تک وسیع کرکے اپنے لیے کامیاب زندگی کا راز دریافت کرنا۔

امتحان

انسان کی آنکھ کیسی عجیب چیز ہے۔اگر آپ اپنی آنکھ بند کرلیں تو آپ کوکچھ دکھائی نہیں دے گا۔ ساری دنیا آپ کے لیے ایک نامعلوم اندھیرا بن کررہ جائے گی۔ دنیا ہوگی مگر آپ اس کو نہیں دیکھیں گے۔چیزیں ہوں گی مگر آپ ان کو محسوس نہیں کریں گے۔

مگرجب آپ اپنی آنکھ کھولتے ہیں تو حیرت انگیز طورپر چیزوں کو دیکھنے لگتے ہیں۔ اب کالی چیز آپ کو سفید چیز سے الگ دکھائی دینے لگتی ہے۔اب متحرک چیز آپ کو متحرک دکھائی دیتی ہے اور جامد چیز جامد حالت میں نظر آتی ہے۔آپ انسان کو انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں اور جانور کو جانور کے روپ میں۔

یہی انسان کا خصوصی امتیاز ہے۔وہ چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے پہچانتا ہے۔وہ خیر اورشر کا فرق کرنا جانتا ہے۔وہ روشنی کو تاریکی سے اورتاریکی کو روشنی سے جدا کر کے دیکھتا ہے۔وہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ حق کو حق کے روپ میں دیکھے اورباطل کو باطل کے روپ میں پہچان لے۔وہ اس فرق سے آشنا ہے کہ کون سی چیز دلیل سے ثابت ہوئی اورکون سی چیز دلیل سے ثابت نہیں ہوئی۔

انسان کی یہی خصوصیت اس کے لیے اس کے امتحان کاپرچہ ہے۔یہی وہ خاص مقام ہے جہاں اس کا خدا اس کا امتحان لے رہا ہے۔انسان کو اس دنیا میں یہ ثبوت دینا ہے کہ اس نے خیر کو شر سے الگ کرکے دیکھا۔اس نے ظلم اورانصاف کے فرق کو پہچانا۔ اس کے سامنے جب کوئی بات آئی تو اس نے اس کو دلیل کی سطح پر جانچا۔اگر وہ بے دلیل تھی تو اس نے اسے رد کردیا اوراگر وہ دلیل سے ثابت ہورہی تھی تو اس نے کھلے طور پر اس کا اعتراف کرلیا۔

یہ امتحان بظاہر بہت آسان ہے مگر اس کی ایک قیمت دینی پڑتی ہے۔یہ قیمت اپنی نفی ہے۔حق کسی آدمی کو اپنی ذات کی نفی کی قیمت پر ملتا ہے۔آدمی یہ قیمت نہیں دے پاتا ، اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ امتحان میں ناکام ہوجاتا ہے۔

آدمی کے سامنے حق ظاہر ہوتا ہے مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔اس کے پاس حق کی آواز گونجتی ہے مگر وہ اس کو سن نہیں پاتا۔حق خود چل کر اس کے پاس آتا ہے مگر اس سے اس کی ملاقات نہیں ہوتی۔آہ ،وہ انسان جو عین اس مقام پر سب سے زیادہ ناکام ہوجاتا ہے جہاں اس کو سب سے زیادہ کامیاب ہونا چاہیے۔

دو قسم کے بیج

زمین میںایک سٹرا ہوبیج ڈالا جائے تو وہ مزید سٹرگل کر ختم ہوجاتا ہے۔اس کو نہ کوئی ہرا لباس ملتا اورنہ اس پر کبھی بہار آتی۔اس کے اجزاء اگرچہ زمین میں موجودہ رہتے ہیں مگر ان کے وجود کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔دنیا میں نہ ان کا کوئی مقام ہوتا اورنہ دنیا کی چیزوں میں ان کا کوئی حصہ ہوتا۔

اس کے برعکس زمین میں اگر ایک اچھا بیج ڈالا جائے تو وہ دوبارہ ایک زندہ وجود کے طور پر باہر آتا ہے۔وہ ایک ہرا بھرادرخت بن کر پہلے سے زیادہ بہتر صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔ساری کائنات اس کے لیے غذائی دستر خوا ن بن جاتی ہے۔وہ ایک انتہائی مکمل وجود کی صورت میں زمین کے اوپر اپنی جگہ حاصل کرتا ہے۔

یہ خدا کی ایک نشانی ہے جو آخرت کے معاملہ کو ہمیں واقعات کی زبان میں بتاتی ہے۔وہ آخرت کے معاملہ کو ہماری آنکھوں کے سامنے مصّور کرتی ہے۔

ایک انسان وہ ہے جو غیر صالح ہے۔ایسے انسان کی مثال خراب بیج کی ہے۔وہ مرنے کے بعد زمین میں دفن ہوگا ،صرف اس لیے کہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجائے۔ایک سٹرے ہوئے وجود کے سوا اس دنیا میں اس کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔

دوسرا انسان وہ ہے جو صالح انسان ہے۔اس کی مثال عمدہ بیج کی ہے۔وہ بھی اگرچہ مرنے کے بعد زمین میں دفن ہوگا۔مگر وہ اس لیے دفن ہوگا کہ پہلے سے زیادہ شاداب ہوکر ایک نئی زندگی کی صورت میں نمایاں ہو۔وہ کائنات میں اپنے لیے دوبارہ بہترین مقام پاسکے۔وہ خدا کے باغ میں سرسبز درخت کی طرح نشوونما پائے۔

اسی سے جہنم کا معاملہ اورجنت کا معاملہ سمجھا جاسکتا ہے۔جہنم گویا ایک خراب زمین ہے جہاں تمام سٹرے ہوئے بیج پھینک دئے جائیں گے۔اسکے برعکس جنت گویا بہترین زرخیززمین ہے جہاں تمام بہترین بیج چھانٹ کر ڈالے جائیں گے تاکہ وہ سر سبز وشاداب فصل کی صورت میں اُگیں اوربہترین موافق ماحول میں لہلہائیں۔

اگلا پیرا گراف

ایک ناول نگار کا واقعہ ہے۔اس نے ایک ناول لکھا۔یہ ناول بہت زیادہ ضخیم تھا۔اس کو دیکھ کر اس کے ایک دوست نے کہا  —’’اف اتنا لمبا ناول،اس کو لکھتے لکھتے تم اکتا نہیں گئے ‘‘ناول نگار نے فوراً جواب دیا:

’’ہرگز نہیں۔میری توجہ ہمیشہ اگلے پیراگراف پرلگی رہتی تھی ‘‘۔

انسانی زندگی بھی اسی قسم کی ایک طویل اکتا دینے والی کہانی ہے جو ہماری کامیابیوں اورناکامیوں کے واقعات کے ساتھ ہر آن لکھی جارہی ہے۔اس لمبی اورخشک کہانی سے مسلسل دل چسپی باقی رکھنے کی ایک ہی صورت ہے۔وہ یہ کہ آدمی کی توجہ ،ہمیشہ کہانی کے اگلے پیراگراف پر لگی رہے۔

یہی بات آخرت کے اعتبار سے بھی درست ہے۔ایک شخص یہ فیصلہ کرے کہ وہ موجودہ دنیا میں حق کے مطابق زندگی گزارے گا۔وہ وہی کرے گا جو کرنا چاہیے اوروہ نہیں کرے گاجو نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے شخص کو بہت جلد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ’’پانے‘‘ کے بجائے ’’کھونے ‘‘کی راہ اختیار کی ہے۔ اس کو موجودہ دنیا میں اپنی محنتوں اورقربانیوں کا صلہ نہیں ملتا۔

جن لوگوں کو اس نے ملانا چاہاتھا وہ شکاتیں لے کر الگ ہوجاتے ہیں۔جن لوگوں کواس نے اپنا ساتھی سمجھا تھا وہ اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔جن لوگوں کی خاطر اس نے اپنی زندگی ویران کردی تھی ان سے اسے صرف الزامات کے تحفے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ اس سے کم محنت کرکے اپنا ’’محل‘‘کھڑا کرلیتے ہیں اوراس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان سے زیادہ محنت کرنے کے باوجود اس کا ’’جھونپڑا ‘‘بھی تیار نہیں ہوتا۔

ایسی حالت میں حق کے راستہ پر قائم رہنے کی ایک ہی صورت ہے۔وہ یہ کہ آدمی اپنی توجہ آخرت کی طرف لگالے۔اس کی نظر کہانی کے ’’اگلے پیراگراف‘‘پر مرتکز رہے۔کوئی بڑی کامیابی اسی شخص کے حصہ میں آتی ہے جو ’’آج‘‘کی محرومی کے بجائے ’’کل‘‘کی یافت پر نگاہ رکھے۔جو کچھ کل ملنے والا ہے اس کی خاطر وہ آج کو نظر انداز کردے۔

خداکی پکار

 

خدا کا داعی

ایک سائنس داں ایک بلڈنگ کے اندر ہے۔اس کے آلات اس کو بتاتے ہیں کہ چند منٹ کے اندر یہاں بھونچال آنے والا ہے۔ دوسری طرف وہ دیکھتا ہے کہ بلڈنگ کے اندر بعض دوسرے انسانی مسائل بھی ہیں۔ایسی حالت میں سائنس داں کیا کرے گا۔ اس وقت دوسرے مسائل اس کی نظر میں چھوٹے ہوجائیں گے۔وہ ان کو بھول جائے گا۔ وہ صرف ایک ہی آواز دے گا — لوگو،چند لمحہ میں بھونچال اس بلڈنگ کو ڈھادینے والا ہے۔تم لوگ فوراً بلڈنگ سے نکل کر باہر آجائو۔سائنس داں اس وقت بلڈنگ کے مسائل پر تقریر نہیں کرے گابلکہ وہ بلڈنگ کو چھوڑنے کا مبلغ بن جائے گا۔

اب دوسری مثال لیجیے۔ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے جو کائنات میں ایسے مقام پر کھڑاہوا ہے جہاں سے وہ ایک طرف ہماری موجودہ دنیا کو دیکھ رہا ہے اوردوسری طرف جنت کا باغ اورجہنم کی آگ کے مناظر بھی اس کو بخوبی طور پر نظر آرہے ہیں۔ایسا آدمی اس وقت کیاکرے گا۔وہ کون سی بات ہوگی جس کے متعلق وہ چاہے گاکہ لوگوں کو اس کی خبر دے۔

یقینی طورپر وہ ایسا نہیں کرے گا کہ دنیا کے مسائل پر تقریر شروع کردے یا فلاح تمدن کا نسخہ لوگوں کو بتانے لگے۔اس کے پاس کہنے کو جو سب سے بڑی بات ہوگی وہ صرف یہ ہوگی کہ لوگو،جہنم کی آگ سے بھاگو اوراپنے آپ کو جنت کا مستحق بنائو۔

ایک شخص اگر اس سے بے خبر ہوکہ ایک سخت بھونچال اگلے لمحہ عمارت کو ڈھادینے والا ہے تو وہ دوسری باتوں کو مسئلہ سمجھ سکتا ہے۔مگر جو شخص بھونچال کو آتے ہوئے دیکھ رہا ہو اس کو بھونچال کے سوا کوئی اوربات یاد نہیں رہے گی۔حتیٰ کہ وہ ادبی تقاضے کے مطابق شاید جملہ کہنا بھی بھول جائے کہ لوگو،بھونچال آرہا ہے ،تم لوگ اپنے آپ کو بھونچال سے بچائو۔وہ سب کچھ بھول کر صرف یہ پکارتا ہوا بھاگے گا کہ — بھونچال ،بھونچال۔

خدا کے داعی کا معاملہ بھی یہی ہے۔خدا کا داعی وہ ہے جس کو پردہ کے اس پارسے جنت کی خوشبو آرہی ہواور وہ جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہو۔ایسا شخص یقینی طور پر صرف آخرت کی باتیں کرے گا۔دوسری چیزیں اس کے ذہن سے اس طرح نکل جائیں گی۔جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔

کرنے کا کام

زندگی میں سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔خوف کا جذبہ آدمی کے فکروعمل کی صلاحیتوں کو جتنا جگاتا ہے کوئی دوسری چیز اس کو اتنا نہیں جگاتی۔

دنیا کی تمام سرگرمیاں کسی نہ کسی خوف کا نتیجہ ہوتی ہیں — معاشی بدحالی کا خوف ، بےعزت ہونے کا خوف ،برتر طاقت کا خوف ،قوی دشمن کا خوف یا اورکوئی خوف۔ہر آدمی کسی دیکھے یا ان دیکھے خوف کے تحت عمل کرتا ہے۔خواہ وہ اس کو شعوری طورپر جانتا ہویا نہ جانتا ہو۔

مگر یہ تما م جھوٹے خوف ہیں۔اصلی خوف جس کے تحت آدمی کو متحرک ہونا چاہیے۔ وہ صرف ایک خداکا خوف ہے۔خدا ہی اس قابل ہے کہ اس سے ڈراجائے اوراس سے تمام اندیشے وابستہ کیے جائیں۔وہ تمام سرگرمیاں باطل ہیں جو کسی دوسرے خوف کی بنیاد پر ابھری ہوں۔اورصرف وہی سرگرمی سچی سرگرمی ہے جو اللہ کے خوف کی بنیاد پر قائم ہو۔

خدانے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔وہی ہر چیز کا مالک ہے۔اسی کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں۔یہ واقعہ کافی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا سے ڈرے۔مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔اس سے زیادہ سخت بات یہ ہے کہ خدا نے انسان کو صرف پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا ہے۔وہ ہر شخص کو بالآخر اپنے پاس بلائے گا۔ اس دن وہ ہر ایک سے اس کے قول وعمل کا حساب لے گااورہر ایک کو اس کے کارنامہ زندگی کے مطابق اچھا یا برابدلہ دے گا۔

واقعہ کا یہ پہلو زندگی کے معاملہ کو بے حد سنگین بنا دیتا ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی ماتحتی میں دے دے۔اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ سخت ترین سزاسے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔

کرنے کا کام کیا ہے ،اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے اوروہ یہ کہ اپنے آپ کو اوردوسرے بندگان خدا کو آگ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ خدا کے پیغمبر وں نے زندگی کی جو حقیقت بتائی ہے اس کے مطابق زندگی کا اصلی مسئلہ یہ ہے کہ آدمی آخرت میں خدا کی پکڑ سے بچ سکے۔ اس آنے والے دن کی سختیوں سے اپنے آپ کو بچانا اوردوسرے انسانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کرنا،یہی موجودہ دنیا میں کرنے کا اصل کام ہے۔اس کے سوا جومطلوب چیزیں ہیں وہ سب اسی کام کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں۔

مقبولیت کا راز

بنجامن فرینکلن(Benjamin Franklin)اپنے بچپن میں نااہلی (tactlessness) کے لیے مشہور تھا۔مگر بعد کو اس نے اتنا مقام پیدا کیا کہ وہ امریکاکی طرف سے فرانس میں سفیر بناکر بھیجا گیا۔ اس کی کامیابی کا راز کیا تھا۔صرف یہ کہ تجربات سے اس نے جانا کہ لوگ اپنے خلاف تنقید سے بہت برہم ہوتے ہیں۔اس نے طے کیاکہ میں کبھی کسی کی کوئی خرابی نہیں بیان کروں گا۔میں ہر ایک کی صرف خوبیاں بیان کروں گا:

I will speak ill of no man and speak all the good I know of everybody.

یہی وجہ ہے کہ بااصول آدمی ہمیشہ سب سے زیادہ مبغوض ہوتا ہے اوربے اصول آدمی کو لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔بااصول آدمی ہمیشہ حق کہتا ہے ،خواہ وہ کسی کے موافق ہویاکسی کے خلاف۔جب کہ بے اصول آدمی ہر موقع کے لحاظ سے وہ بات کہتا ہے جس کو سن کر لوگ خوش ہوجائیں۔سب کی پسند کی بات کہنے کی اسے یہ قیمت ملتی ہے کہ وہ سب کی نظر میں پسند یدہ شخص بن جاتاہے۔

یہ طریقہ تاجر کے لیے یقیناً مفید ہے مگر وہ داعی اورمصلح کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس طرح بولنے والے کے اندر وہ کردارا بھرتا ہے جس کو شریعت کی زبان میں منافق کہا گیا ہے۔وہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو اند رسے کچھ ہوتا ہے اورباہر سے کچھ۔وہ دل میں ایک چیز کو حق سمجھتا ہے اورزبان سے اس کے خلاف بولتا ہے۔ اس کی عقل اس کو ایک طریقہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے مگر محض اپنی قیادت کو باقی رکھنے کی خاطروہ لوگوں کے سامنے دوسرے طریقہ کی وکالت کرتا ہے۔اس کی آنکھ اس کو جو چیز اندھیرے کی صورت میں دکھاتی ہے اس کو وہ اپنی زبان سے اجالا بناکر پیش کرتا ہے۔ ایسا انسان باعتبار حقیقت ایک مردہ انسان ہے۔اگرچہ بظاہر وہ زندہ اورخوش پوش دکھائی دیتا ہو۔

داعی خدا کا سفیر ہوتا ہے۔مگر دنیوی حکومتوں کے سفیر میں اورخدا کے سفیر میں بہت بڑا فرق ہے۔ دنیوی حکومت کا سفیر وہ بات کہنے کے لیے بھیجاجاتا ہے جس سے لوگ خوش ہوں۔مگر خدا کا سفیر لوگوں کے سامنے اس لیے آتا ہے کہ انہیںوہ بات بتائے جس سے خدا خوش ہوتا ہے۔ایک مصلحت کو سامنے رکھ کر بولتا ہے۔دوسرا حق کے تقاضے کو سامنے رکھ کر بولتا ہے۔خواہ اس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان غیر مقبول ہوجائے ۔

داعی کون

داعی پیغمبر نہیں ہوتا مگر وہ خدا کا پیغام دینے والا ہوتا ہے۔اس کو وہ بات کہنی پڑتی ہے۔جو خداکی بات ہے۔اس کو وہ حق پیش کرنا ہوتا ہے جس میں غیر حق کی کوئی ملاوٹ شامل نہ ہو۔دعوت خدا کے بندوں کے سامنے خدا کی نمائندگی ہے اورخدا کی نمائندگی کبھی مصلحت اورملاوٹ کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

داعی وہ شخص بنتا ہے جس کے اوپر قرآن کے معانی اس طرح کھلیں جیسے کہ قرآن اس کے اوپر ازسرنو اتررہا ہے۔داعی وہ شخص ہے جس کے لیے کائنات جبریل امین کی قائم مقام بن جائے۔وہ خدا کی دنیا میں اسی طرح خدا کا پیغام اخذ کرنے لگے جس طرح ریڈیو سٹ نشرگاہ کے پیغام کو اخذ کرتا ہے۔سائنس داں کائنات میں قانون فطرت کو پڑھتا ہے۔ داعی وہ ہے جو کائنات میں قانون ربانی کو پڑھنے لگے۔

دعوت خدا کے کلام کو انسانی کلام میں ڈھالنا ہے۔دعوت خدا کی اس تسبیح کو الفاظ کا روپ دینا ہے جو کائنات میں خاموش صورت میں بیان ہورہی ہے۔دعوت وہی دعوت ہے جس میں حق کو بالکل برہنہ صورت میں دکھادیاجائے۔مگرحق کو برہنہ کرنے کے لیے داعی کو خود بھی ’’نذیر عریاں‘‘بن جانا پڑتا ہے۔داعی بننا ہمیشہ اپنی ہلاکت کی قیمت پر ہوتا ہے۔ ماں کے پیٹ سے پیدا شدہ انسان ہلاک ہوجاتا ہے اوراس کے اندر سے ایک نیا انسان ظہور میں آتا ہے اسی کانام داعی ہوتا ہے۔ داعی انسان کے روپ میں غیر انسان ہوتا ہے۔ داعی لوگوں کے درمیان رہ کرا پنے آپ کو لوگوں سے جداکرتا ہے ،اسی وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ خداکاداعی بنے۔

داعی بننے کے لیے اپنے آپ کو حذف کرنا پڑتا ہے۔دین کو اپنا فخر بنانے کے بجائے دین کو اپنا درد بنانا پڑتا ہے۔اس کے بعد ہی کسی کو داعی کا مقام ملتا ہے۔ دوسرے انسانوں کو اس دین سے دلچسپی ہے جو آپ کا درد ہو۔ان کو اس دین سے دلچسپی نہیں ہوسکتی جو آپ کا فخر ہو۔دعوت اورفخردونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔

داعیانہ اخلاق کی ضرورت

ایک شخص تاجر کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے،دوسرا شخص دادا گیری کو اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہوتو دونوں کا اخلاق یکساں نہیں ہوسکتا۔تاجر کا اخلاق اورہوگا اور داداگیری کرنے والے کا اور۔یہی معاملہ داعی کا ہے۔جو شخص یاگروہ حق کا داعی بنے ضروری ہے کہ اس کی اخلاقیات بھی اس کے مطابق ہوں۔اگر وہ زبان سے داعی ہونے کا مدعی ہومگر اس کا اخلاق غیر داعیانہ ہوتو وہ لوگوں کی نظر میں مسخرہ بن کر رہ جائے گا،وہ داعی کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتا۔

انتہائی لازمی طورپر ضروری ہے کہ داعی اورمدعوکے درمیان غیر دعوتی امورپر جھگڑے نہ کھڑے کیے جائیں۔غیر دعوتی جھگڑے اس فضا ہی کو ختم کردیتے ہیں جس میں داعی اپنی دعوت پیش کرے اورمدعواس کو سنجیدگی اورہمدردی کے ساتھ سنے۔

تاہم یہ دعوتی فضا داعی سے بہت بڑی قیمت مانگتی ہے۔یہ قیمت صبر ہے۔داعی کو ارادی اورشعوری طورپر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ نقصانات اورتکلیفوں پر صبر کرے گا۔حضرت مسیح کے تمثیلی الفاظ میں مدعواگراس کا کرتا چھینے تو وہ اس کواپنا چغہ بھی دینے کے لیے تیار رہے۔مدعو اگر ایک کو س بیگار چلنے کو کہے تو وہ دوکوس بیگارچلا جائے۔تاکہ کوئی غیر متعلق جھگڑاکھڑاہوکر دونوں کے درمیان ایسی صورت نہ پیداکردے کہ سننے اورسنانے کا ماحول ہی ختم ہوجائے۔

ماں اپنے بچہ کو دواکھلانا چاہتی ہواوراس وقت بچہ کوئی دوسری ضد شروع کردے تو ماں بچہ کی اس ضد کی راہ میں حائل نہیں ہوتی کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوا کھلانے کا کام رک جائے اوربچہ اورماں کے درمیان ساری نزاع ایک غیر متعلق ضد پر ہونے لگے۔اسی طرح داعی کو چاہیے کہ مدعوکے ہر وار کو اپنے اوپر سہتارہے تاکہ دونوں کے درمیان اعتدال کی فضا قائم رہے اورداعی اپنی اصل بات کو مدعو کے دل میں اتار سکے۔مدعو گروہ سے دوسری دوسری شکایتوں پر کش مکش صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے ذہنوں میں اپنے داعی ہونے کا شعور ختم ہوگیا ہو۔جنھوں نے اپنی داعیانہ حیثیت کھودی ہو اوروہ دوسری قوموں کی طرح محض ایک قوم بن کررہ گئے ہوں۔

موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر سے داعیانہ شعور ختم ہوگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں بالکل قومی بن کر رہ گئی ہیں۔اس روش نے مسلمانوں کو خداکی نصرت سے محروم کردیاہے۔کیونکہ خدا کی نصرت دعوت الی اللہ کے لیے اٹھنے والوں کو ملتی ہے نہ کہ قومی جھگڑاکرنے والوں کو۔

رہنماکی ضرورت

ہم کو بھوک لگتی ہے۔ہم اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کھانا موجود تھا جو ہماری بھوک کو مٹائے۔ہم اپنی پیاس کو بجھانے کے لیے عمل کرتے ہیں۔یہاں تک کہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں پانی موجودتھا جو ہماری پیاس کو بجھائے۔ایسا ہی معاملہ سچائی کا ہے۔آدمی ہمیشہ سچائی کا تلاش میں ہے۔یہ تلاش ہی اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ یہاں کوئی سچائی ہے جسے آدمی کو جاننا چاہیے۔سچائی کھانے اورپینے سے زیادہ بڑی ہے۔پھرجب ہماری چھوٹی طلب کا جواب اس دنیا میں موجود ہے تو ہماری بڑی طلب کاجواب یہاں کیوں نہ موجودہوگا۔

سچائی کا سوال اپنی حقیقت کو جاننے کا سوال ہے۔آدمی اچانک ایک روز پیدا ہوجاتا ہے۔حالاں کہ اس نے خود کو پیدانہیں کیاہے۔وہ اپنے آپ کو ایک دنیا میں پاتا ہے جو اس سے الگ خود اپنے آپ قائم ہے۔وہ پچاس سال یا سو سال اس دنیا میں رہ کر مرجاتا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ وہ مرکر کہاں جاتا ہے۔زندگی اورموت کی اسی حقیقت کو جاننے کا سوال سچائی کا سوال ہے۔

مگر ایک شخص جس طرح کھانا اورپانی کو جان لیتا ہے اسی طرح وہ سچائی کو نہیں جان سکتا۔سچائی یقینی طورپر لامحدوداورابدی ہے۔سچائی اگر لا محدود اورابدی نہ ہو تو وہ سچائی نہیں۔مگر آدمی کی عقل اوراس کی عمر دونوں محدودہیں۔محدود عقل لامحدود سچائی تک نہیں پہنچ سکتی۔محدودعمر کا آدمی ابدی سچائی کو دریافت نہیں کرسکتا۔

آدمی کی یہی نارسائی یہ ثابت کرتی ہے کہ سچائی کو جاننے کے لیے اسے پیغمبر کی ضرورت ہے۔’’پیغمبری‘‘کیاہے۔پیغمبری کا مطلب یہ ہے کہ وہ سچائی جہاں تک آدمی اپنے آپ نہیں پہنچ سکتا تھا وہ خود آدمی تک پہنچ جائے۔جس سچائی کو ہم اپنی کو ششوں سے نہیں جان سکے ،وہ خود ظاہر ہوکر اپنے بارے میں ہمیں بتادے۔

حقیقت سے لوگوں کو پیشگی طور پر باخبر کرنے کے لیے اس کو خدانے پیغمبر کے ذریعہ کھولا۔موجودہ امتحان کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کو براہ راست ہر آدمی پر کھول دیاجائے گا۔پیغمبر نے بتایا کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ جس خداکی اطاعت ساری کائنات جبر کے تحت کررہی ہے اسی خداکی اطاعت انسان ارادہ کے تحت کرنے لگے۔ وہ اپنے اختیار سے خود کو خدا کے آگے بے اختیار بنالے۔خداکی دی ہوئی آزادی کے باوجود جو لوگ خدا کے محکوم بن جائیں ان کے لیے جنت اورجو لوگ آزادی پاکر سرکش بن جائیں ان کے لیے جہنم۔

خداکاداعی

داعی بننا خدا کا پیغام بر بننا ہے۔خدا کاپیغام بروہی بن سکتا ہے جو خدا سے پاکر بولے اورخدا سے سن کر کلام کرے۔

خدا ملفوظ کلام میں بھی بولتا ہے اورغیر ملفوظ کلام میں بھی۔خداکا ملفوظ کلام رسولوں کے لیے خاص ہے اوروہ آخری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوگیا۔موجودہ دنیا میں اب خدا کسی سے ملفوظ زبان میں کلام کرنے والا نہیں۔

مگر خداکا غیر ملفوظ کلام بدستورجاری ہے۔جس طرح کسی شخص کے پیغمبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو خدا کا ملفوظ کلام پہنچے۔اسی طرح داعی وہی شخص بن سکتا ہے جو خداکے غیر ملفوط کلام کا آخذ( Recipient)ہو۔جس کو خدا کا غیر ملفوظ کلام مسلسل مل رہا ہو۔کوئی شخص وحی کے بغیر پیغمبرنہیں بن سکتا۔اسی طرح کوئی شخص خداکاداعی نہیں بن سکتا جب تک اس کی رسائی خداکے غیر ملفوظ کلام تک نہ ہوجائے۔

خداہوائوں کو اپنا سفیر بناکر بھیجتا ہے۔خدا چڑیوں کی صورت میں اپنا نغمہ بکھیرتا ہے۔خدادریا کے تموج کے ذریعہ آواز دیتا ہے اورسورج کی روشنی کے ذریعہ اپنی مرضی سے مطلع کرتا ہے۔ وہی شخص داعی ہے جو خداکے ان اعلانات کو سن کر اسے دوسروں کو سنانے کے لیے اٹھے۔جو شخص اس کے بغیر خداکا داعی بن کر کھڑاہواجائے وہ خداکا مجرم ہے نہ کہ خداکا داعی۔

داعی حقیقتاً وہ ہے جس کے بارے میں خداکے فرشتے گواہی دیں کہ خدایاتیرا یہ بندہ وہ ہے جو دوسروں کو وہ چیزدینے کے لیے اٹھا جس کو اس نے تجھ سے پایا تھا۔تو آسمانوں کے ذریعہ جس حقیقت کا اعلان کررہا تھااس کو اس نے سنا اورتیرے بندوں کو اسے سنایا۔تو نے سورج اورچاند کے ذریعہ جس ہدایت کو کھولا اس کو تیرے بندے نے پڑھا اورلوگوں کو اسے پڑھوایا۔تو درختوں اورپہاڑوں کے ذریعہ اپنی جس مرضی کو ممثل کررہا تھا۔اس کو اس نے پہچانا اورلوگوں کو اس سے آگاہ کیا۔

دعوت کا عمل ایک انتہائی زندہ عمل ہے۔داعی کو ہر روز نئی چیز دریافت کرنا چاہیے۔ اس کو ہر روز خدا کا نیا فیضان ملنا چاہیے۔ساری کائنات کو اس کے لیے نہ ختم ہونے والا دستر خوان بن جانا چاہیے۔اگر ایسا نہ ہو تو داعی جمودکاشکار ہوجائے گا۔اورجو شخص جمود کا شکار ہوجائے وہ خود مو ت سے دوچار ہوچکا ہے۔وہ دوسروں کو زندگی کاپیغام کیادے گا۔

غلط فہمی

حضرت موسیٰ اورحضرت ہارون نے جب فرعون مصر کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی تو اس نے کہا کہ تم دونوں چاہتے ہوکہ زمین میں بڑائی تمھارے لیے ہو(یونس،10:78)۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے اپنی دعوتی تقریر میںصرف خدا کی بڑائی بیان کی تھی پھر فرعون نے اس کو اس معنی میں کیوں لے لیا کہ موسیٰؑ اوراس کے بھائی خود اپنی بڑائی چاہتے ہیں۔اس نے خدا کی بڑائی کی بات کو خود متکلم کی بڑائی کے ہم معنی کیوں سمجھ لیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ فرعون خدا کی بڑائی سے واقف نہ تھا۔وہ صرف انسان کی بڑائی کو جانتا تھا۔اس کو بس اتنی ہی خبر تھی کہ انسان بڑے ہواکرتے ہیں۔اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ خداسب سے بڑاہے۔

ایسے لوگوں کی طرف سے دعوت حق کا رد عمل ہمیشہ اسی شکل میں ہوتا ہے۔وہ خدا کی بڑائی سے واقف نہیں ہوتے۔اس لیے داعی جب خدا کی بڑائی بیان کرتا ہے تو وہ اس کو اس کے سوا کسی اورمعنی میں نہیں لے پاتے کہ داعی خود اپنی بڑائی بیان کررہا ہے۔

وہ بے آمیز سچائی کو نہیں جانتے۔وہ صرف اس سچائی سے آشنا ہوتے ہیں جس کے اوپر ان کی محبوب شخصیتوں کی مہر لگی ہوئی ہو۔ اس لیے داعی جب ان کے سامنے بے آمیز سچائی بیان کرتا ہے جس کے اوپر خدا کی مہر لگی ہوئی ہوتو اس کو وہ پہچان نہیں پاتے۔اس کو وہ داعی کے اپنے احساس برتری پر محمول کرکے نظر انداز کردیتے ہیں۔

وہ برتر صداقت سے آشنانہیںہوتے۔وہ صرف اس صداقت کو جانتے ہیں جو ان کے قومی تقاضوں کے ساتھ لپٹی ہوئی ہو۔اس لیے داعی جب برتر صداقت کا اعلان کرتا ہے تو اس کو سن کر وہ متوحش ہوجاتے ہیں۔ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی بھی کوئی صداقت ہوسکتی ہے جو ان کے قومی عزائم سے الگ اپنا وجود رکھتی ہو۔

ایسے لوگ اپنی بے خبری کا الزام داعی کے اوپر ڈال دیتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اس کو نظراندازکر دیتے ہیں کہ وہ کبر میں مبتلا ہے۔ وہ اپنا نام بلند کرنا چاہتا ہے۔ داعی خدا کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور بے خبر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ داعی خود اپنی بڑائی کا اعلان کر رہا ہے۔ داعی خدا کی ذات کمال کی حمد بیان کرتا ہے مگر بے خبر لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی خودستائی میں مشغول ہے۔ داعی حق کی یکتائی پر زور دیتا ہے اور بے بصیرت لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنی انانیت کا اظہار کر رہا ہے۔

حق کی دعوت

آج کل ہر آدمی دعوت حق کا نام لیتا ہے مگر دعوت حق ابھی تک وجود میں نہیں آئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں وہ اس کی قیمت ادا کرنا نہیں چاہتے۔ہر چیز کی ایک کی قیمت ہوتی ہے اوردعوت حق کی بھی ایک قیمت ہے۔جب تک وہ قیمت ادا نہ کی جائے دعوت حق کبھی وجود میں نہیں آسکتی۔

حق کی دعوت دینے کی لازمی شرط یہ ہے کہ غیر حق کو چھوڑدیا جائے — خدا کی بڑائی بیان کرنے کے لیے اٹھنا اورانسانوں کی بڑائی میں گم رہنا ،آخرت کاداعی بننا اوردنیا کے مفادات کے لیے قوموں سے کش مکش کرنا ،ابدی مسائل کی بات کرنا اوراسی کے ساتھ وقتی مسائل میں الجھے رہنا ،یہ سب تضاد کی باتیں ہیں اورجو لوگ اپنے اندر تضاد لیے ہوں وہ کبھی حق کے داعی نہیں بن سکتے۔

اس قسم کا ہر واقعہ بتاتا ہے کہ لوگ ’’داعی حق‘‘کا ٹائٹل لینے کے لیے تو دوڑ پڑے ہیں مگر وہ اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیارنہیں۔

لوگوں کو اپنی مفروضہ شخصیتیں اتنی زیادہ محبوب ہیں کہ ان پر ادنیٰ تنقید سننا بھی انہیںگوارانہیں۔لوگوں کو اپنے دنیا کے مفادات اورمصلحتوں سے اتنی دلچسپی ہے کہ وہ ان کو کسی حال میں چھوڑنا نہیں چاہتے۔جو قومیں اسلام کے پیغام رحمت کی مخاطب ہیں ان سے وہ قومی اورمادی لڑائی چھیڑ کر انہیںاسلام سے بدکائے ہوئے ہیں۔اس قسم کی چیزوں کے ساتھ حق کی دعوت کا نام لینا صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ آدمی حق کی دعوت کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں۔

حق کی دعوت ابدی صداقتوں کی دعوت ہے۔حق کی پکار خدااورآخرت کی پکار ہے۔یہ ایک نہایت نازک کام ہے جس کے ساتھ کوئی دوسرا کام جمع نہیں ہوسکتا۔

حق کا داعی لوگوں کو موت اورقیامت کے بھیانک مسئلہ سے آگاہ کرتا ہے۔اس کو ہر واقعہ میں آخرت کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔وہ گرمی کی شدت دیکھتا ہے تو اس میں اس کو نارجہنم کی شدت دکھائی دیتی ہے۔ اس کو معاشی تکلیف کا سامنا ہوتا ہے تو وہ بھی اس کو آخرت کی تکلیف یاد دلانے والا بن جاتا ہے۔وہ لوگوں کو ’’ظلم ‘‘کے خلاف چیختے ہوئے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ لوگو،اس دن کو یاد کروجب تمہارے پاس زبان بھی نہ ہوگی کہ تم بولواورپانی کا ایک گلاس بھی نہ ہوگا جس سے تم اپنے سینہ کی آگ ٹھنڈی کرو۔

آخرت کی پکار

ایک مسئلہ آدمی کے ذہن پر بہت زیادہ چھایا ہواہوتو دوسرے تمام مسائل سے اس کی نظریں ہٹ جاتی ہیں۔وہ اپنے مخصوص مسئلہ کا اس طرح مبلغ بن جاتا ہے جیسے کہ بس وہی سارا مسئلہ ہے۔اس کے سواکسی اورمسئلہ کا کوئی وجود نہیں۔

کارل مارکس کے ذہن پر ’’معاش ‘‘کا مسئلہ چھاگیا۔اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مذہب ، اخلاق ،فلسفہ ،ہر دوسری چیز کو اس نے نظر اندازکردیا۔ٹالسٹائی کے ذہن پر ’’انسانیت‘‘ کا غلبہ تھا۔اس نے انسانیت کی باتیں اس طرح  بتکرارکہیں گویادوسرے سیاسی اوراقتصادی پہلوئوں کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ہندستان میں بہت سے لیڈروں پر آزادی وطن کا خیال چھاگیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری تمام چیزیں ان کے یہاں غفلت کے خانہ میں چلی گئیں۔

یہی معاملہ ایک اورصورت میں حق کے داعی کا ہے۔حق کے داعی کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت آخرت کی ہوتی ہے۔وہ جہنم سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے اورجنت کا سب سے زیادہ مشتاق ہوتا ہے۔اس کے قدرتی نتیجہ کے طورپر یہ ہوتا ہے کہ دوسرے تمام مسائل اس کی نظر میں ایسے بن جاتے ہیں جیسے کہ ان کا کوئی وجود نہیں۔

مزدوراورصنعت کار کے معاملات کیا ہیں۔ملک پرکس شخص یاکس قوم کی حکومت ہے۔عہدوں کی تقسیم میں کس کو زیادہ حصہ مل رہا ہے اورکس کو کم۔ایک قوم نے دوسری قوم کے خلاف کیا جارحانہ منصوبے بنارکھے ہیں۔اس طرح کی تمام چیزیں داعی حق کی نظر میں غیر اہم ہوتی ہیں۔دنیا کے مسائل اس کے لیے اسی طرح ناقابل ذکر بن جاتے ہیں جس طرح عام قائدین کے لیے موت اورآخرت کے مسائل ناقابل ذکر بنے ہوئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہاں صرف دوہی پکار یں ہیں۔ایک دنیا کی پکار ،دوسری آخرت کی پکار،آج تمام پکارنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ لوگوں کو دنیا کی طرف بلارہے ہیں۔ وہ لوگوں کو سیاسی اورمعاشی اورسماجی خطرات سے آگاہ کررہے ہیں۔بظاہر ان میں سے کوئی سیکولر اصطلاحوں میں بول رہا ہے اوراورکوئی مذہب کی اصطلاحوں میں۔مگر حقیقت کے اعتبار سے سب کے سب ایک ہیں۔کیوں کہ سب کے سب دنیا کے مسائل کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔

نازک سوال

آرتھرکوئسلرموت کی طرف سفرکونامعلوم ملک(Unknown Country)کی طرف سفر کہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت ہماری زندگی کا سب سے عجیب اورپراسرارواقعہ ہے۔ہر آدمی متجسس ہوتا ہے کہ یہ معلوم کرے کہ مرکروہ کہاں پہنچنے والا ہے۔

امریکاکے مشہور مشنری ڈاکٹر بلی گرہم(1918-2018) کی ایک کتا ب ہے جس کا نام ہے مسرت کا راز ( The Secret of  Happiness ) اس کتا ب میں بلی گرہم نے لکھا ہے کہ ایک بار مجھے دنیا کے ایک بہت بڑے لیڈرکا ارجنٹ پیغام ملا۔پیغام میں کہا گیا تھا کہ فوراً مجھ سے ملاقات کرو۔

میں روانہ ہوکر مذکورہ لیڈرکے یہاں پہنچا۔جب میں لیڈرسے اس کے دفتر میں ملاتو وہ فوراً مجھے الگ کمرہ میں لے گیااورمجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بڑئے موثرلہجہ میں کہا:

I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the Unknown. Young man. can you give me a ray of hope.

میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔زندگی نے اپنی تمام معنویت کھودی ہے۔عنقریب میں نامعلوم دنیا کی طرف ایک فیصلہ کن چھلانگ لگانے والا ہوں۔اے نوجوان شخص ،کیا تم مجھے امید کی کوئی کرن دے سکتے ہو۔

موت ہر آدمی کا پیچھا کررہی ہے۔بچپن اورجوانی کی عمر میں آدمی اسے بھولا رہتا ہے۔مگر بالآخر تقدیر کا فیصلہ غالب آتا ہے۔بڑھاپے میں جب اس کی طاقتیں گھٹ جاتی ہیں۔تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب میں بہرحال جلد ہی مرجائوں گا۔اس وقت وہ مجبور ہوتا ہے کہ سوچے کہ ’’موت کے بعد کیا ہونے والا ہے ‘‘اسے تلاش ہوتی ہے کہ وہ کوئی امید کی کرن پالے جو موت کے بعد آنے والے حالات میں اس کی زندگی کو تابناک کرسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ خداکے پیغمبر اسی امید کی روشنی کو دینے کے لیے آئے۔پیغمبروں نے انسان کو بتایا کہ موت کے بعد ایک اوردنیا ہے جو ابدی بھی ہے اورمعیاری بھی۔موت کے بعد کی اس کامل دنیا میں اس کو داخلہ ملے گاجو موت سے پہلے کی دنیا میں صالح اعمال سے اس کا استحقا ق ثابت کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں۔موت دوسری دنیا کی طرف ایک چھلانگ ہے۔ موت ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف سفر ہے۔کامیاب انسان وہ ہے جس کی موت اس کو اس کی منزل مقصود تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے۔

داعی بننے کے لیے

مائیکل فیراڈے(1791-1867ء) اورلارنس براگ(1890-1971ء) عہد جدید کے بہت کامیاب معلم سمجھے جاتے ہیں۔یہ دونوں لندن کے رائل انسٹی ٹیوٹ میں لکچر دیاکرتے تھے۔

کامیاب لکچر کا راز کیا ہے ،اس کے بارے میں دونوں کی یادداشتیں شائع ہوئی ہیں۔ ہم بالترتیب دونوں کا ایک ایک فقرہ یہاں نقل کرتے ہیں جو گویاان کے تجربات کا خلاصہ ہے۔

I am sorry to say that the generality of mankind cannot accompany us one short hour unless the path is strewn with flowers.

میں افسوس کے ساتھ یہ کہوں گاکہ بیشتر انسان ایک گھنٹہ کے مختصر وقت میں بھی ہمارے ہم سفر نہیں بن سکتے الاّ یہ کہ راستہ پھولوں سے سجادیاگیاہو۔

The essential feature for success of the lecture is the emotional contact between the lecturer and the students.

لکچر کی کامیابی کے لیے ضروری بات یہ ہے کہ استاد اورطالب علم کے درمیان جذباتی ربط قائم ہوجائے۔

فیراڈے اوربراگ نے جو بات کامیاب معلم بننے کے لیے لکھی ہے ،وہی زیادہ شدت کے ساتھ کامیاب داعی بننے کے لیے ضروری ہے۔ داعی اورمدعو کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔وہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک اس کی نزاکتوں کی پوری رعایت نہ کی جائے۔اپنے مدعو کو اپنا ہم سفر بنانے کے لیے آپ کو اس کے راستہ میں پھول بکھیرنا ہوگا۔راستہ میں کانٹے اورپتھر بچھا کر آپ مدعو کو اپنا ہم سفر نہیں بناسکتے۔

اسی طرح اپنی بات کو اس کے لیے قابل سماعت بنانے کی خاطر آپ کو یہ کرنا ہوگا کہ اس کو اتنے موثر انداز میں کہیں کہ آپ کی بات محض ایک خشک تلقین نہ معلوم ہوبلکہ وہ سننے والے کے لیے ایک ایسا تجربہ بن جائے جس میں وہ اپنے لیے ایک کیفیاتی کشش پاتا ہو۔

حق کی پکار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت حق کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ نے مکہ کے باشندوں کو صفا پہاڑی کے پاس جمع کیا اورفرمایا کہ اے لوگو،جس طرح تم سوتے ہواسی طرح تم مروگے۔اورجس طرح تم جاگتے ہواسی طرح تم دوبارہ اٹھائے جائو گے۔اس کے بعد یاتو ابدی جنت ہے یاابدی جہنم ۔یہ سن کر ابو لہب نے کہا ،تمہارابراہو،کیاتم نے ہم کو اسی لیے بلایاتھا:تَبًّا لَكَ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا(صحیح مسلم، حدیث نمبر208)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ کے سردار بن کر مدینہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی تقریر فرمائی۔اس وقت بھی آپ کے پاس کہنے کی جو سب سے بڑی بات تھی وہ یہ تھی کہ اے لوگو! اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچاو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو:اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1417)۔

ہمارامقصد اسی پیغمبر انہ دعوت کو زندہ کرنا ہے۔لوگ مسائل زندگی کے لیے اٹھتے ہیں۔ہم مسائل موت کے لیے اٹھے ہیں۔کیاکوئی ہے جو اس مشن میں ہمارا ساتھ دے۔ لوگوں کو جنگ اورفساد کے شعلے دکھائی دیتے ہیں۔کیا کوئی ہے جس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے دکھائی دیتے ہوںتاکہ وہ ہماراساتھ دے کر دنیا والوں کو جہنم کے شعلوں سے ڈرائے۔

لوگوں کو شہروں کی رونقیں دکھائی دیتی ہیں۔ہم ان انسانوں کی تلاش میںنکلے ہیں جن کو قبرستان کے ویرانے دکھائی دیں۔ایسے انسانوں سے دنیا پٹی ،ہوئی ہے جن کو یہ محرومی بیتاب کیے ہوئے ہے کہ ان کو کسی ادارہ میں داخلہ نہیں ملا۔ہم کو وہ انسان درکار ہیں جن کو یہ غم بدحواس کردے کہ کہیں وہ جنت کے داخلہ سے محروم نہ ہو جائیں۔ لوگ دنیا کی بربادی کا ماتم کررہے ہیں۔ہم ان انسانوں کو ڈھونڈرہے ہیں۔جو آخرت کی بربادی کے اندیشے میں دیوانے ہوچکے ہوں۔

خداکی دنیا میں آج سب کچھ ہورہا ہے۔مگروہی ایک کام نہیں ہورہا ہے جو خداکو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔یعنی آنے والے ہولناک دن سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔اگر انسان اس پکار کے لیے نہ اٹھیں تو اسرافیل کا صوراسے اٹھائے گا۔مگر آہ،وہ وقت جاگنے کا نہیں ہوگا۔وہ ہلاکت کا اعلان ہوگا نہ کہ آگاہی کا الارم۔

یہ انسان

حضرت مسیح کے وعظوں میں سے ایک وعظ میں داعی اورمدعو کی تمثیل ہے۔یہاں ہم اس تمثیل کا عربی اوراردوترجمہ نقل کرتے ہیں: بِمَنْ أُشَبِّهُ هَذَا الْجِيلَ؟ إِنَّهُمْ يُشْبِهُونَ أَوْلاداً جَالِسِينَ فِي السَّاحَاتِ الْعَامَّةِ، يُنَادُونَ أَصْحَابَهُمْ قَائِلِينَ زَمَّرْنَا لَكُمْ، فَلَمْ تَرْقُصُوا! وَنَدَبْنَا لَكُمْ، فَلَمْ تَبْكُوا(متی، 11:16-17)۔ترجمہپس اِس زمانہ کے لوگوں کو میں کس سے تشبیہ دوں وہ ان لڑکوں کی مانند ہیں جو بازاروں میں بیٹھے ہوئے اپنے ساتھیوں کو پکارکر کہتے ہیں۔ہم نے تمہارے لیے بانسری بجائی اورتم نہ ناچے۔ہم نے ماتم کیا اورتم نہیں روئے۔

خداکا داعی خداکے سمندر میں نہاتا ہے۔اس طرح اس کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ خداکی دنیا میں خداکے گیت گائے۔وہ فطرت کے سازپر خداکے ابدی نغمے چھیڑے۔ان نغمات میں ایک طرف خداکے حسن وکمال کی تجلیاں ہوتی ہیں جن کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کو سن کر آدمی رقص کر اٹھے۔ دوسری طرف ان نغمات میں خداکی پکڑکی تنبیہات ہوتی ہیں جو ایک حساس انسان کو تڑپا کر اسے رلادیں۔داعی خداکے جمال وجلال کا مظہر ہوتا ہے۔مگر انسان اتنا غافل ہے کہ وہ ان چیزوں سے کوئی اثر نہیں لیتا۔داعی کے کلام کی صورت میں خدا بالکل اس کے قریب آجاتا ہے،مگر اس وقت بھی وہ خداکو نہیں پاتا۔اس میں نہ حمدخداوندی کی کیفیات جاگتیں اور نہ خوف خدا سے اس کی آنکھیں ترہوتیں۔وہ نازک ترین پیغامات کوبھی پتھر کی طرح سنتا ہے نہ کہ اس انسان کی طرح جس کو خدا نے وہ عقل دی ہے جو باتوں کی گہرائی کو پالے اوروہ دل دیا ہے جو درد سے تڑپ اٹھے۔

خدا کی طرف سے پکار نے والے کا وجو دمیں آنا کسی مشین پر بجنے والے ریکارڈ کا وجود میں آنا نہیں ہے۔یہ روح انسانی میں ایک ایسے انقلاب کا برپا ہونا ہے جس کی شدت آتش فشاں پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔داعی کا بولنا اپنے جگر کے ٹکڑوں کو باہر لانا ہوتا ہے۔ اس کا لکھنا اپنے خون کو سیاہی بنانے کے بعد وجود میں آتا ہے۔اس کے نغمے محض نغمے نہیں ہوتے بلکہ روح انسانی میں ایک خدائی بھونچال کی آواز ہوتے ہیں۔ مگر اس دنیا کا شاید یہ سب سے زیادہ عجیب واقعہ ہے کہ ایسے ربانی کلمات بھی انسان کو متاثر نہیں کرتے۔ داعی اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے سامنے ’’نذیر عریاں ‘‘بن جاتا ہے ، اس کے باوجود وہ اندھابہرابنا رہتا ہے۔انسان کے سامنے جنت کی کھڑکیاں کھولی جاتی ہیں، پھر بھی وہ وجد میں نہیں آتا۔ اس کو بھڑکتے ہوئے جہنم کا نقشہ دکھایا جاتا ہے، پھر بھی اس پر گریہ طاری نہیں ہوتا۔اس کے سامنے خدا خود آکر کھڑاہوجاتاہے، پھر بھی وہ سجدہ میں نہیںگرتا۔ انسان سے زیادہ نازک مخلوق خدانے کوئی نہیں بنائی، مگر انسان سے زیادہ بے حسی کا ثبوت بھی کوئی نہیں دیتا۔