اسلام دور جدید کا خالق (Islam: Daur-e-Jadid ka Khaliq)

By
Maulana Wahiduddin Khan

فهرست

تمہید    

باب اول

اسلام دَورِ جدید کا خالق

تاریکی سے روشنی تک

انا الماحی

شرک کی طرف 

اسلام کا نظریہ 

تمام خرابیوں کی جڑ

تحقیق کی آزادی     

ایک اقتباس

چار دور  

جدید انسان       

ترقی کی طرف سفر

علم اور اسلام

اسلام نے موافق ماحول دیا 

قدیم یونان

رومی تہذیب     

ایک حوالہ

علم کی طرف سفر

باب دوم

غیر خدا کو مقدس ماننا

ایک مثال

سائنس کا ظہور    

چند مثالیں

زمین کی عمر

یونانی علوم

ذہنی روک

علوم طبیعی

اسلام کی دَین

باب سوم

نظام شمسی 

فن طب 

ایک مثال

علم اللسان 

علم اعداد

ایک وضاحت

زراعت وآبپاشی

علم تاریخ 

باب چهارم

مساوات انسانی

ایک واقعہ

نئی دنیا کی تخلیق

آزادی فکر

انسانی اونچ نیچ      

اظہار خیال کی آزادی

چند حوالے       

مذہبی آزادی      

دورجدید اور اسلام

تمہید

        امریکی خلا باز آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong, 1930-2012) پہلا انسان ہے جس نے چار روزہ خلائی سفر کے بعد 20 جولائی 1969 کو چاند پر اپنا قدم رکھا ، اور وہاں پہنچ کر یہ تاریخی الفا ظ کہے کہ ایک انسان کے لیے یہ ایک چھوٹا قدم ہے ، مگر انسانیت کے لیے وہ ایک عظیم چھلانگ ہے

That's one small step for a man, one giant leap for mankind (EB-1/530)

آرم اسٹرانگ اور ان کے ساتھی ایڈون آلڈرن (Edwin Aldrin, b. 1930) اور مائیکل کولنس (Michael Collins, b. 1930)نے ایک مخصوص راکٹ اپالو  (Apollo II)  پر سفر کیا اور آخری مرحلے میں ایک چاند گاڑی (Eagle) کے ذریعے وہ چاند کی سطح پر اترے۔

یہ اپالو یا یہ چاند گاڑی کوئی جادو کا اڑن کھٹولہ نہ تھا۔ وہ محکم قانون فطرت کے تحت بنی ہوئی ایک سائنسی مشین تھی۔ اس نے قانون فطرت کو استعمال کر کے یہ پورا خلائی سفر طے کیا۔ یہ قانون ہماری دنیا میں لاکھو ں سال سے موجود تھا۔ مگر انسان اس سے پہلے کبھی یہ سوچ نہ سکا کہ وہ فطرت کے اس قانون کو جانے ،اور اس کو استعمال کر کے چاند تک پہنچنے کی کوشش کرے۔

فطری امکانات کے باوجود، چاند تک پہنچنے میں اس تاخیر کا سبب کیا تھا۔ یہ سبب شرک تھا ، یعنی مخلوق کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کرنا۔ قدیم زمانہ میں ساری دنیامیں شرک کا عقیدہ چھایا ہوا تھا۔ انسان ، دوسری چیزوں کی طرح ، چاند کو اپنا معبود سمجھتا تھا۔ روشن چاند کو دیکھ کر آدمی کے ذہن میں اس کے آگے جھکنے کا خیال پیدا ہوتا تھا ،نہ کہ اس کو فتح کرنے کا۔ چاند کو مقدس سمجھ لینا، اس میں رکاوٹ بن گیا کہ آدمی چاند کو مسخر کرنے کی بات سوچ سکے۔

ساتویں صدی عیسوی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اسلام کے ذریعے وہ انقلاب آیا، جس نے شرک کومغلوب کر کے توحید کو غالب فکر بنا دیا۔ یہ انقلاب اولاً عرب میں آیا۔ اس کے بعد وہ ایشیا اور افریقہ میں سفر کرتا ہوا یورپ پہنچا، اور پھر وہ اٹلانٹک کو پار کر کے امریکہ میں داخل ہو گیا۔

مسلم دنیا میں یہ انقلاب مذہب کے تحت آیا تھا ، مغربی دنیا نے اپنے حالات کے زیر اثر ، اس میں یہ فرق کیا کہ اس کو مذہب سے الگ کر کے ایک سیکولر علم کے طور پر ترقی دینا شروع کیا۔ اور پھر اس کو موجودہ انتہا تک پہنچایا۔ جس طرح نیشنلائزیشن (nationalization) مارکسزم کے فلسفیانہ نظام کا ایک معاشی جزء ہے ، اسی طرح جدید سائنس اسلامی انقلاب کا ایک جزئی حصہ ہے جس کو اس کے پورے مجموعے سے الگ کر لیا گیا ہے۔

چاند کے سفر کا ذکر یہاں بطور مثال کیا گیا ہے۔ یہی ان تمام علوم کا معاملہ ہے، جن کو موجودہ زمانے میں علوم فطرت (natural sciences) کہا جاتا ہے۔ یہ علوم قدیم زمانہ میں شرک یا بالفاظ دیگر مظاہر فطرت کو مقدس سمجھنے کی بنا پر ممنوعہ علوم بنے ہوئے تھے۔ توحید کے انقلاب نے فطرت کو تقدس کے مقام سے ہٹا کر ان کی تحقیق وتسخیر کا دروازہ کھول دیا۔

اس طرح تاریخِ انسانی میں فطرت کی آزادانہ تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ہزار سالہ عمل کے بعد آخر کار جدید سائنس اور جدید ٹکنالوجی تک پہنچا۔ جدید سائنس تمام تر اسلامی انقلاب کی دَین ہے ، ابتداء ً براہ راست طور پر ، اور اس کے بعد بالواسطہ طور پر۔

اس حقیقت کا اعتراف کسی نہ کسی انداز سے عام طور پر کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں کثر ت سے ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن کا نام ہوتا ہے —’’ عربوں کی سائنسی ترقی ‘‘ یا ’’تہذیب میں مسلمانوں کا حصہ‘‘ 

Muslim contribution in progress of civilization

محققین نے عام طور پر اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جدید صنعتی ترقی عربوں (مسلمانوں ) کے اثر سے ظہور میں آئی۔ اے ہمبوٹ (A. Humboldt) نے کہا ہے کہ یہ دراصل عرب ہیں جن کو صحیح معنی میں فزکس کا بانی سمجھا جانا چاہیے

It is the Arabs who should be regarded as the real founders of physics (p.25).

فلپ ہٹی (Philip Khuri Hitti, 1886-1978) نے اپنی کتاب ، ہسٹری آف دی عربس  (1970) میں لکھا ہے کہ قرون وسطی میں کسی بھی قوم نے انسانی ترقی میں اتنا حصہ ادا نہیں کیا جتنا عربوں نے اور عربی زبان بولنے والوں نے کیا

No people in the Middle Ages contributed to human progress so much as did the Arabians and the Arabic-speaking peoples.  (History of the Arabs, Macmillan, 1970, p. 4)

مورخین نے عام طور پر تسلیم کیا ہے کہ عربوں (مسلمانوں ) کے ذریعہ جو علوم یورپ میں پہنچے ، وہی بالآخر یورپ کی نشاۃ ثانیہ (صحیح تر لفظ میں نشاۃ اولیٰ ) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ 832ء میں بغداد میں بیت الحکمت قائم ہونے کے بعد عربوں نے جو ترجمے کیے اور جو کتابیں تیار کیں ، وہ لاتینی زبان میں ترجمہ ہو کر اسپین اور سسلی کے راستے سے یورپ پہنچیں، اور پھر وہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کا سبب بنیں

This stream was re-diverted into Europe by the Arabs in Spain and Sicily, whence it helped create the Renaissance of Europe . (History of the Arabs, p. 307)

تاہم سوال یہ ہے کہ خود عربوں (مسلمانوں ) کے اندر یہ ذہن کیسے پیدا ہو ا۔ جب کہ وہ خود بھی پہلے اسی عام پسماندگی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے ،جس میں ساری دنیا کے لوگ پڑے ہوئے تھے۔ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ توحید کا عقیدہ ان کے لیے اس ذہنی اور عملی انقلاب کا سبب بنا۔ دوسری قوموں کے پاس شرک تھا ، عربوں کے پاس (اسلام کے بعد ) توحید۔ اسی فرق نے دونوں کی تاریخ میں یہ فرق پیدا کر دیا کہ ایک تاریخ کا معمول بنا رہا، دوسرا تاریخ کا عامل بن گیا۔

زیر نظر کتاب کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک مسلمہ تاریخی واقعہ ، جس کو لوگوں نے صرف ایک مسلم قوم کے خانہ میں لکھ رکھا ہے ، اس کو زیادہ صحیح طور پر اسلام کے خانے میں درج کیا جائے۔ یہ صرف ایک معلوم واقعے کی توجیہ ہے ، نہ کہ کسی نامعلوم واقعے کی خبر دینا۔

ایک مثال سے اس کی مزید وضاحت ہو سکتی ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہندستان 1947 میں آزاد ہوا۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہندستان کو گاندھی (Mohandas Karamchand Gandhi, 1869-1948) اور نہرو (Jawaharlal Nehru, 1889-1964)نے آزاد کرایا۔ مگر زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہندستان کو جدید قومی اور جمہوری نظریات نے آزاد کرایا۔ موجودہ زمانے میں جمہوریت اور قومی آزادی کے اصولوں کی بنیاد پر جو عالمی فکری انقلاب آیا، اس نے وہ حالات پیدا کیے جس میں کوئی گاندھی یا کوئی نہرو اٹھے اور ملک کو آزادی کی طرف لے جانے میں کامیاب ہو سکے۔ اگر عالمی فکری انقلاب کا یہ ماحول موافقت نہ کر رہا ہوتا تو ہمارے لیڈروں کی تحریکِ آزادی بھی کامیابی سے ہم کنار نہ ہوتی۔

زیر ِبحث موضوع کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب مسلمانوں کے ذریعہ دنیا میں جدید سائنسی انقلاب کا آغاز ہوا۔ مگر خود اس آغاز کا سبب بھی یہ تھا کہ اسلام نے انھیں ایک نیا ذہن دیا۔ اس طرح سائنس کی تاریخ صرف ایک قوم کا کارنامہ نہیں رہتی بلکہ اس دین کا عطیہ قرار پاتی ہے، جو ابدی طور پر تمام انسانوں کی صحیح رہنمائی کے لیے خدا ئے ذوالجلال کی طرف سے اپنے بندوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔

ہنری پرین (Henri Pirenne, 1862-1935) نے اس تاریخی حقیقت کا اعتراف ان لفظوں میں کیا ہے کہ اسلام نے کرہ ارض کی صورت بدل دی۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ اکھاڑ پھینک دیا گیا

Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p. 46)

زیر نظر کتاب اسلامی انقلاب کے اسی پہلو کا مختصر تعارف ہے۔ اس موضوع پر میں ایک جامع اور مفصل کتاب تیار کرنا چاہتا تھا۔ معلومات جمع کرنے کا کام کسی قدر سست رفتاری کے ساتھ جاری تھا۔ آخر کار مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی موجودہ مصروفیات کے ساتھ مطلوبہ نوعیت کی زیادہ مفصل اور جامع کتاب شاید تیار نہ کر سکوں گا۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ جتنا کام ہو چکا ہے ، اس کو بلا تاخیر کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔

اگر عمر اور حالات نے موقع دیا تو ان شا ء اللہ آئندہ اس میں مزید مباحث کا اضافہ کیا جا سکے گا ، اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو یہ نقش اول ، کسی بعد کو آنے والے کے لیے نقش ثانی کی تیاری میں مدد گار ہو سکتا ہے۔

وحید الدین

16 اپریل 1989

باب اول

اسلام دَورِ جدید کا خالق

1965 کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں لکھنؤ میں تھا۔ میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم سے ہوئی۔ وہ مذہب میں یقین نہیں رکھتے تھے، اور مذہبی باتوں کو بے فائدہ سمجھتے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا

اسلام کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔

یہ سن کر میری زبان سے نکلا  ’’وہی کمی جو اسلام سے پہلے تاریخ میں تھی‘‘۔ میرے اس جواب پر وہ فوری طور پر خاموش ہو گئے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ با عتبار تاریخ یہ بات صحیح ہے کہ وہ سب کچھ جس کو ترقی کہا جاتا ہے ، وہ اسلام سے پہلے دنیا میں موجود نہ تھا ، یہ صرف اسلام کے بعد ظہور میں آیا۔ تاہم انھیں اس میں شبہ تھا کہ ان ترقیوں کے ظہور کا کوئی تعلق اس تاریخی واقعے سے ہے، جس کو اسلام یا اسلامی انقلاب کہا جاتا ہے۔

زیر ِنظر کتاب میں اسی تاریخی سوال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں اس رشتے کی تحقیق کی گئی ہے، جو اسلامی انقلاب اور جدید ترقیات کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بعض ان پہلوؤں پر بھی کلام کیا گیا ہے، جو زیرِ بحث موضوع سے متعلق ہیں یا اس کے تقاضے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اصلاً ہدایتِ ربانی کا انکشاف ہے، جو آدمی کو آخرت کی ابدی کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ سائنسی اور صنعتی ترقیاں براہِ راست اسلام کا مقصود ومطلوب نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنسی اور صنعتی ترقیاں اسلامی انقلاب ہی کا ایک نتیجہ ہیں۔ اگر اسلامی انقلاب دنیا میں نہ آتا تو سائنسی اور صنعتی ترقیاں بھی ظاہر ہوئے بغیر پڑی رہتیں ،جس طرح وہ اسلامی انقلاب سے پہلے پڑی ہوئی تھیں۔

درخت کا اصل مقصد پھل دینا ہے۔ مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے، تو وہ انسانوں کو سایہ بھی دیتا ہے۔ یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے۔ اسلام کا اصل مقصد انسانوں کے اوپر ہدایتِ ربانی کا دروازہ کھولنا ہے، تاکہ وہ اپنے رب کی ابدی قربت حاصل کر سکے۔ مگر اسلام مکمل سچائی ہے ، اور مکمل سچائی جب ظہور میں آتی ہے تو وہ ہر اعتبار سے انسانیت کے لیے برکت اور افادیت کا باعث ہوتی ہے ، براہ راست بھی او ربالواسطہ بھی۔

تاریکی سے روشنی تک

اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل دنیا بنائی، اور پھر انسان کو کامل صورت میں پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان سے کہا کہ تم اس دنیامیں رہو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اسی کے ساتھ انسان کو یہ بھی بتا دیا کہ تمہارا خالق اور معبود صرف ایک ہے۔ اسی ایک خدا کی پرستش کرو۔ اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بناؤ۔

مگر انسان محسوس پرستی میں پڑ گیا۔ وہ غیر مرئی خدا کو اپنا مرکزِ توجہ نہ بنا سکا۔ وہ دن بدن مرئی خداؤں کی طرف مائل ہوتا چلا گیا۔ جو چیز بھی اس کو بظاہر بڑی اور نمایاں نظر آئی ، اس کے متعلق اس نے سمجھ لیا کہ وہ خدا ہے یا وہ اپنے اندر خدائی صفت رکھتی ہے۔ اس طرح ایک طرف بڑے انسانوں کے تقدس کا عقیدہ پیدا ہوا ،اور دوسری طرف فطرت کی پرستش کا سلسلہ شروع ہوا، جس کو مظاہر کی پرستش (worship of natural phenomena)  یا فطرت کی پرستش  (nature worship) کہا جاتا ہے۔

اسی عبادتِ غیر اللہ کا نام شرک ہے۔ یہ شرک دھیرے دھیرے عقیدہ اور عمل کے تمام پہلوؤں پر چھا گیا۔ برکت اور نحوست کے مفروضہ عقائد کے تحت وہ تمام گھریلو رسموں میں شامل ہو گیا، اور خدائی بادشاہ  (divine king) کے نظریہ کی صورت میں وہ سیاسی نظام کا لازمی جزء بن گیا۔

یہی قدیم دنیا کا مذہب تھا۔ قدیم دنیا مکمل طور پر ان مفروضہ عقائد پر قائم ہو گئی تھی، جس کو مذہب کی زبان میں شرک اور علمی زبان میں توہم پرستی (superstition) کہا جاتا ہے۔

پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے وہ سب اسی بگاڑ کی اصلاح کے لیے آئے۔ انھوں نے ہر دور میں انسان کو یہ دعوت دی کہ شرک کو چھوڑو، اور توحید کو اختیار کرو۔ ایک روایت کے مطابق حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر آئے(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ مگر انسان ان کی بات ماننے کے لیے راضی نہ ہوا۔ پیغمبروں کی دعوت اعلانِ حق تک رہی ، وہ انقلابِ حق تک نہ پہنچ سکی۔

شرک یا توہم پرستی کو ختم کرنے کا معاملہ سادہ معنوں میں صرف ایک مذہبی معاملہ نہ تھا۔ اس کا تعلق انسان کے تمام معاملات سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ تو ہم پرستی کا یہ غلبہ ہر قسم کی انسانی ترقیوں کو روکے ہوئے تھا۔

اس نے فطرت (nature) کو تقدس کا درجہ دے کر اس کی تحقیق وتسخیر کا ذہن ختم کر دیا تھا۔ جب کہ فطرت کی تحقیق وتسخیر کے بعد ہی وہ تمام واقعات ظہور میں آنے والے تھے، جن کو سائنسی یا صنعتی ترقی کہا جاتا ہے۔ اس نے مختلف قسم کے بے بنیاد مفروضات کے تحت انسانوں کے درمیان اونچ نیچ کے عقائد قائم کر لیے تھے۔ ان کے باقی رہتے ہوئے یہ ناممکن ہو گیا تھا کہ انسانی مساوات کا دور شروع ہو سکے۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کو موجودہ زمانے میں روشنی اور ترقی کہا جاتا ہے ، ان سب کا ظہور نا ممکن بن گیا تھا۔ کیوں کہ ان کے ظہور کے لیے دنیا کے بارے میں سائنٹفک نقطۂ نظر درکار تھا، اور توہم پرستانہ نقطۂ نظر نے سائنٹفک نقطۂ نظر کی پیدائش کو نا ممکن بنا دیا تھا۔

ہزاروں برس کی پیغمبرانہ کوشش ثابت کر چکی تھی کہ مجرد فکری اور دعوتی جدوجہد انسان کو توہمات کے اس دور سے نکالنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس زمانے کی حکومتیں بھی انھیں توہماتی عقائد کی بنیاد پر قائم ہو تی تھیں۔ اس لیے حکمرانوں کا مفاد اس میں تھا کہ توہماتی دور دنیا میں باقی رہے۔ تاکہ عوام کے اوپر ان کی بادشاہی کا حق مشتبہ نہ ہونے پائے۔ اس لیے وہ اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کو ہر اس دعوت کے خلاف بھر پور طور پر استعمال کرتے تھے، جو شرک اور توہم پرستی کو ختم کرنے کے لیے اٹھی ہو۔

اب سوال یہ تھا کہ کیا کیا جائے۔ یہی وہ وقت ہے جب کہ چھٹی صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فیصلے کے تحت آپ کو ’’ داعی ‘‘ بنانے کے ساتھ ’’ماحی ‘‘ بھی بنایا۔ یعنی آپ کے ذمہ یہ مشن سپرد ہوا کہ آپ نہ صرف اس توہماتی نظام کے باطل ہونے کا اعلان کریں، بلکہ اس  سیاسی غلبہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی خاطر فوجی کارروائی (military  operation) بھی فرمائیں ، جس کی سرپرستی میں یہ توہماتی نظام جاری تھا۔

انا الماحی

قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ کتاب ہم نے تمہارے اوپر اس لیے اتاری ہے کہ تم لوگوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لاؤ (كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ)14:1  ۔

انسانوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کا یہی کام تمام پیغمبروں کے سپرد ہوا تھا۔ تاہم پیغمبر اسلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف پیغام پہنچا کر انسانیت کو اس کے حال پر نہ چھوڑ دیں، بلکہ اقدام کر کے ان کی حالت کو عملاً بدل ڈالیں۔ اس عملی اقدام کو کامیاب بنانے کے لیے جو ضروری اسباب درکار تھے ، وہ سب اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مہیا فرمائے۔ نیز یہ ضمانت بھی دے دی کہ دنیوی اسباب کی ہر کمی فرشتوں کی خصوصی مد د سے پوری کی جائے گی۔

یہ بات حدیث میں مختلف انداز سے بیان ہوئی ہے۔ ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیںوَأَنَا المَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِي الكُفْرَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3532)۔ یعنی میں مٹانے والا ہوں، جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ گویا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم صرف داعی نہ تھے۔ اسی کے ساتھ وہ ماحی بھی تھے۔ وہ پکارنے والے بھی تھے، اور قدیم دور سے حکمرانوں کی سرپرستی میں جاری مذہبی جبر (religious persecution)کے ماحول کو عملاً ختم کرنے والے بھی۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر کے مشن کی تکمیل کے لیے صالح انسانوں کے علاوہ اللہ اور فرشتے تک اس کے مدد گار ہیں۔

ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو جو نیا دور ظہور میں لانا تھا ، اس کا ظہور ممکن ہو سکے۔

شرک کی طرف

قرآن کے مطابق زمین پر انسانی نسل کا آغاز آدم سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو بتا دیا تھا کہ تمہارا اور تمہاری نسلوں کا دین توحید ہوگا، اسی میں تمہاری دنیا کی بھلائی بھی ہے اور اسی میں تمہاری آخرت کی بھلائی بھی۔ ابتدائی کچھ دنوں تک لوگ صحیح راستے پر قائم رہے۔ اس کے بعد ان میں بگاڑ شروع ہو گیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا (البقرۃ، 2:213  )۔

حضرت مسیح سے غالباً تین ہزار سال پہلے عراق میں نوح بن لامخ پیدا ہوئے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بنایا ،اور انھیں قوم کی اصلاح کا کام سپرد کیا۔ اس کے بعد سے لے کر مسیح ابن مریم تک مسلسل پیغمبر آتے رہے ،اور لوگوں کو سمجھاتے رہے ، مگر لوگ دوبارہ اصلاح قبول کرنے پر تیار نہ ہو سکے (المومنون ، 23:44)۔

اس بگاڑ کا سبب لوگوں کی ظاہر بینی تھی۔ توحید کا مطلب غیب کے معبود کو عظمت دینا ،اور اس کی پرستش کرنا ہے۔ لوگ غیب کے معبود کو اپنا خدا نہ بنا سکے۔ اس کے بجائے انھوں نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ دنیا کا آغاز توحید پر ہوا تھا ، مگر بعد کے زمانے میں جو بگاڑ پیش آیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی تاریخ شرک کے رُخ پر چل پڑی۔

توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ انسان توحید پر قائم ہو تو اس کے تمام معاملات درست رہتے ہیں۔ وہ توحید کو چھوڑدے تو اس کے تمام معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ توحید تمام انسانوں کے لیے ان کے عروج وزوال کا پیمانہ ہے۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی نشانیوں کا انکار کیا، وہی گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔ کہو کہ اے نادانو ، کیا تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیر اللہ کی عبادت کرو ں۔ اور تمہاری طرف اور تم سے پہلے والوں کی طرف وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا۔ اور تم گھاٹے میں رہو گے۔ بلکہ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اور شکر کرنے والوں میں سے بنو۔ اور لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہو گی، قیامت کے دن ،اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ میں۔ وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (الزمر ،39:62-67)۔

توحید سے انحراف کا اصل نقصان وہ ہے، جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے۔ تاہم توحید چونکہ کائنات کی اصل حقیقت ہے ، اس لیے توحید سے ہٹنا حقیقتِ واقعہ سے ہٹنا بن جاتا ہے۔ اور جو لوگ حقیقتِ واقعہ سے ہٹ جائیں ، ان کی زندگی نہ صرف آخرت میں بلکہ موجودہ دنیا میں بھی بگڑ کر رہ جاتی ہے۔ یہی وہ بات ہے، جس کی طرف مذکورہ بالا آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔

اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایک خدا کا شعور آدمی کی فطرت میں پیوست ہے۔ آدمی خود اپنے فطری تقاضے کے تحت مجبور ہے کہ وہ خدا کو مانے اور اس کے آگے جھک جائے۔ آدمی ایک خدا کو ماننے سے انکار کر سکتا ہے ، مگر یہ اس کے بس سے باہر ہے کہ وہ اپنی فطرت کا انکار کر دے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ خالق کو نہ مانیں ، انھیں اس کی یہ قیمت دینی پڑتی ہے کہ وہ مخلوق کو معبود کے طور پر  ماننے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ وہ غیر حقیقی طور پر مخلوق کو وہ درجہ دے دیتے ہیں ،جو حقیقی طور پر صرف ایک خالق کو دینا چاہیے۔

اس دنیا کا خالق اور مالک خدا ہے۔ تمام حقیقی عظمتیں صرف اسی کو حاصل ہیں۔ انسان جب خدا کو اپنا عظیم بناتا ہے تو وہ اس ہستی کو عظیم بناتا ہے، جو فی الواقع عظمت وکبریائی کا مستحق ہے۔ خدا کو عظیم بنانے کی صورت میں آدمی حقیقتِ واقعہ پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی زندگی سچی زندگی ہوتی ہے۔ وہ ہر قسم کے تضاد سے خالی ہوتی ہے۔ اس کی سوچ اور اس کا عمل دونوں صحیح رخ پر چلتے ہیں۔ اس کا وجود عالم حقائق سے پوری طرح آہنگ ہو جاتا ہے۔ اس کے اور عالم حقائق کے درمیان کہیں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔

اس کے بر عکس، آدمی جب ایسا کرتا ہے کہ وہ غیر خدا کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ وہ خد اکے سوا کسی اور کو بڑائی کا وہ درجہ دینے لگتاہے، جو صرف ایک خدا کے لیے خاص ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا پورا رویہ غیر حقیقی رویہ بن جاتا ہے۔ وہ ایسی بے جوڑ چیز بن جاتا ہے، جو عالم حقائق سے مطابقت نہ کر رہی ہو۔ اس کی پوری زندگی حقیقت پسندی کے بجائے تو ہم پرستی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔

اس معاملے کی وضاحت کے لیے ایک مثال لیجیے۔ عیسائی حضرات نے عقیدۂ تثلیث کے تحت مسیح ابن مریم کو خدا فرض کر لیا۔ حضرت مسیح با عتبار واقعہ ابن مریم تھے۔ مگر عیسائی حضرات نے غلو کر کے انھیں ابن ُاللہ کا درجہ دے دیا۔ انھوں نے حضرت مسیح کو وہ عظمت دے دی، جو عظمت صرف خدائے واحد کے لیے ہے، جو مسیح سمیت تمام انسانوں کا خالق ہے۔

 اس کے نتیجے میں وہ عظیم تضاد کا شکار ہو گئے۔ انھیں تضادات میں سے ایک تضاد وہ ہے، جو نظام شمسی کے بارے میں ان کے متکلمانہ نظریات سے پیدا ہوا۔

قدیم یونان میں مشہورعالم فلکیات بطلیموس (Claudius Ptolemy) دوسری صدی عیسوی میں پیدا ہوا۔ اس نے سکندر کے زمانے میں تحقیقات کیں۔ اس نے ایک ضخیم کتاب لاتینی زبان میں لکھی۔ اس کتاب میں اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین ٹھہری ہوئی ہے، او رسورج ، چاند اور سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کا زمانہ پہلی صدی عیسوی اور دوسری صدی عیسوی کے درمیان (90-168) ہے۔ مسیحی حضرات کی سر پرستی کی وجہ سے یہ نظریہ مسلسل ذہنوں پر چھایا رہا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی عیسوی میں کوپرنیکس نے اس کو آخری طور پر ختم کیا۔

مسیحی حضرات کے یہاں مذہب کا بنیادی عقیدہ کفارہ کا عقیدہ ہے، جس کے ذریعہ خدا نے ساری انسانیت کی نجات کا انتظام کیا۔ نجات کا واقعہ ایک ایسا مرکزی واقعہ (central event) ہے، جس کا تعلق نہ صرف انسانی نسلوں سے بلکہ ساری کائنات سے ہے۔ ساری کائنات کا یہ مرکزی واقعہ (حضرت مسیح کا گناہوں کا کفارہ بننے کے لیے مصلوب ہونا ) چونکہ زمین پر پیش آیا۔ اس لیے مسیحی علم کلام کے مطابق ، زمین ساری کائنات کا اہم ترین مقام اور اس کا مرکزی نقطہ قرار پائی۔ اس بنا پر مسیحی حضرات نے بطلیموس کے زمین مرکزی (Geocentric) نظریہ کی زبردست تائید کی ، اس کو مذہبی عقیدہ جیسی حیثیت دے دی۔

مسیحی حضرات ہراس کو شش کے مخالف بنے رہے جو سورج مرکزی (Heliocentric) نظریے کی طرف لے جانے والا ہو۔ یہاں تک کہ نکولس کوپرنیکس (Nicolaus Copernicus, 1473-1543) اور گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei, 1564-1642) اورجان کپلر (Johannes Kepler, 1571-1630) کی تحقیقات نے اس کو آخری طور پر باطل ثابت کر دیا۔ (EB-4/522)

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ مسیحی علم کلام کے مطابق ، نجات کی اسکیم ایک کائناتی واقعہ تھا۔ مسیح کا عملِ نجات کائناتی معنویت رکھتا تھا۔ اس کا تعلق انسان سے لیکر جانوروں تک سے تھا۔ مگر جدید علم فلکیات سے معلوم ہوا کہ زمین کائنات کے وسیع سمندر میں ایک چھوٹے سنگر یزے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس حقیقت کی بنا پر ، خود مسیح کی معنویت بھی کسی حد تک کم ہو گئی ، اور نجات کا خدائی عمل ایک ناقابل لحاظ کرہ پر محض ایک چھوٹا سا واقعہ بن کر رہ گیا

In view of this fact, the meaning of Christ itself lost some of its impact, and the divine act of salvation appeared merely as a tiny episode within the history of an insignificant little star.  (EB-4/522)

اس دنیا کا خالق ، مالک ، مدبر ، سب کچھ صرف ایک خدا ہے۔ ہر قسم کی بڑائی اور اختیار تنہا اسی کو حاصل ہے۔ اس کے سوا کسی اور کو کسی بھی قسم کی بڑائی یا اختیا ر حاصل نہیں۔ چنانچہ اس دنیا میں جب بھی کسی اور کو عظمت اور تقدس کا مقام دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسا نظریہ پوری کائنات سے ٹکرا جاتا ہے ، وہ ہمہ گیر کائنات میں کہیں اپنی جگہ نہیں پاتا۔

یہی وجہ ہے کہ شرک کا نظریہ انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے ، اور توحید کا نظریہ انسان کے لیے ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھولنے والا ہے۔

اسلام کا نظریہ

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام پیغمبروں کی دعوت صرف ایک تھی۔ انھوں نے ہر دور کے انسانوں سے یہ کہا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی الہٰ نہیں (اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ )۔دیکھیے سورۃ الاعراف، آیت59

امام راغب نے أَلِهَ  یأ لَہُ کے معنی تحيّرکے بتائے ہیں (المفردات في غريب القرآن، صفحہ83)۔ یعنی حیران ہونا۔ لسان العرب میں ہے وأَصله من أَلِهَ يَأْلَهُ إذا تَحَيَّر، يُرِيدُ إِذَا وَقَعَ الْعَبْدُ فِي عَظَمَةِ اللهِ وَجَلَالِهِ ...وَقِيلَ فِي اسْمِ الْبَارِي سُبْحَانَهُ إِنَّهُ مأْخوذ من أَلِهَ يَأْلَه إذا تَحَيَّرَ، لأَن الْعُقُولَ تَأْلَهُ فِي عَظَمَتِه (لسان العرب، جلد13، صفحات 467، 469)۔یعنی لفظ الہ کی اصل حیران ہونا ہے۔ اس سے وہ کیفیت مراد ہے جو اللہ کے عظمت وجلال کے احساس سے بندے کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ لفظ اللہ اسی الہ ٰ سے (الف لام تعریف داخل کر کے ) بنا ہے۔ کیونکہ عقلیں اس کے تصور سے حیرانگی میں پڑجاتی ہیں۔

’’ الہٰ ‘‘ سے مراد وہ ہستی ہے جو حیران کن حد تک عظیم ہو۔ جس کے کمالات کو سوچ کر آدمی حیرت واستعجاب میں غرق ہو جائے۔ اسی سے تقدس کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے۔ تقدس سے مراد کسی چیز کی وہ پراسرار صفت ہے، جو اس کو ناقابل فہم اور ناقابل ادراک حد تک بلند اور برتر بنا دیتی ہے۔ ’’ الہٰ ‘‘ وہ ہے، جو مطلق طور پر مقدس ہو ، جس کے آگے آدمی اپنی پوری ہستی کے ساتھ جھک جائے۔ جو ہر قسم کے تصرف اور تغلب سے ماورا ہو۔

اس معنی میں صرف ایک اللہ ہی الہٰ ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی الہٰ ہے، اور نہ کسی بھی درجہ میں کوئی اس کے ساتھ الو ہیت میں شریک ہے — حقیقی الہٰ کو الہٰ ماننا تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہے، اور غیر حقیقی الہٰ کو الہٰ ماننا تمام برائیوں کا سر چشمہ۔

تمام خرابیوں کی جڑ

غیر مقدس کو مقدس ماننا تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جس کو دینی اصطلاح میں شرک کہا جاتا ہے۔ شرک کو قرآن میں ظلم عظیم (لقمان ، 31:13 ) کہا گیا ہے۔

ظلم کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو ایسی جگہ رکھنا ،جو اس کی جگہ نہ ہو (وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِمَوْضِعِهِ الْمُخْتَصِّ بِهِ )المفردات فی غریب القرآن للاصفہانی، صفحہ 537۔ شرک سب سے بڑا ظلم اس لیے ہے کہ وہ اس نوعیت کا سب سے زیادہ سنگین فعل ہے۔ وہ ایسی چیزوں کو مقدس اور معبود قرار دیتا ہے، جو حقیقۃ ً مقدس اور معبود نہیں ہیں۔ وہ غیر خدا کو وہ مقام دیتا ہے، جو صرف ایک خدا کے لیے مخصوص ہے۔

اس ظالمانہ فعل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کا مرجع پرستش بدل جاتا ہے۔ وہ ایسی ہستیوں کو پوجنے لگتا ہے، جو اس کی اہل نہیں کہ انھیں پوجا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کائنات میں اس واحد سہارے سے محروم ہو جاتا ہے، جس کے سوا آدمی کے لیے کوئی سہار ا نہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا لیتاہے کہ اس کو ربانی رحمتوں میں سے کوئی حصہ نہ ملے ، اور جو شخص ربانی رحمتوں سے محروم ہو جائے وہ ابدی طور پر محروم ہو گیا۔ کیوں کہ کسی اور کے پاس یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ کسی شخص کو رحمت اور عنایت دے سکے۔

یہ نقصان وہ ہے جو حیات ابدی کے اعتبار سے ہے۔ مگر موجودہ دنیا کی حیات عارضی کے اعتبار سے بھی اس میں نقصان اور خسارہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ قدیم زمانے میں انسان نے بہت سی غیر مقدس چیزوں کو مقدس مان لیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہ مسلسل نقصان اور خسارہ سے دو چار ہوتا رہا۔

اس مشرکانہ نظریے کے تحت اور بہت سے عقیدے بن گئے۔ یہاں تک کہ اوہام وخرافات کا ایک پورا سلسلہ قائم ہو گیا۔ مثلاً جب بجلی چمکی تو سمجھ لیا گیا کہ یہ دیوتا کا آتشیں کوڑا ہے۔ چاند یا سورج گرہن پڑا تو فرض کر لیا گیا کہ دیوتا پر کوئی مصیبت کا وقت آیا ہے ، وغیرہ، وغیرہ۔

تقدس کا یہ مشرکانہ عقیدہ مذہبی پیشواؤں کے لیے نہایت مفید تھا۔ انھوں نے اس کو پورا نظریہ بنا ڈالا ،اور خدا اور انسان کے درمیان واسطہ بن کر لوگوں کو خوب لوٹنے لگے۔ انھوں نے لوگوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ مذہبی پیشواؤں کو خوش کرنا بالواسطہ طور پر خدا کو خوش کرنا ہے۔

اس کا سب سے بڑا فائدہ بادشاہوں کو ملا۔ انھوں نے عوام کے اس ذہن کو استعمال کرتے ہوئے خدائی بادشاہ (God-king)  کا نظریہ بنایا۔ بادشاہ کے پاس کسی سماج میں سب سے زیادہ طاقت اور دولت ہوتی ہے۔ وہ مختلف اعتبار سے عام لوگوں سے ممتاز ہوتا ہے۔ اس امتیاز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بادشاہوں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ عام انسانوں سے برتر ہیں۔ وہ زمین پر خدا کے نمائندے ہیں۔ کسی نے صرف اتنا کہا کہ وہ خدا اور بندوں کے درمیان بیچ کا واسطہ ہے۔ کسی نے آگے بڑھ کر یہ یقین دلایا کہ وہ خدا کا جسمانی ظہور ہے۔ وہ فوق الطبیعی طاقتوں کا مالک ہے۔ اس بنا پر قدیم زمانے کے بادشاہ اپنی رعایا پر مطلق اختیار کے حامل بن گئے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے مقدس بادشاہت (sacred kingship)  کے تحت لکھا ہے کہ ایک وقت میں جبکہ مذہب مکمل طور پر فرد کی پوری زندگی نیز اجتماع کی زندگی سے پوری طرح وابستہ تھا ، اور جب کہ بادشاہت مختلف درجے میں مذہبی طاقتوں یا مذہبی اداروں سے وابستہ تھی ، اس وقت کوئی بھی بادشاہت دنیا میں ایسی نہ تھی جو کسی پہلو سے مقدس نہ سمجھی جائے

At one time, when religion was totally connected with the whole existence of the individual as well as that of the community and when kingdoms were in varying degrees connected with religious powers or religious institutions, there could be no kingdom that was not in some sense sacred  (EB-16/118)

لارڈ ایکٹن (1834-1902) نے کہا ہے کہ اقتدار بگاڑتا ہے، اور کامل اقتدار بالکل ہی بگاڑ دیتا ہے

Power corrupts and absolute power corrupts absolutely.

قدیم شرک نے جب حکمرانوں کو مقدس حیثیت دی تو اس نے بیک وقت دو شدید برائیاں سماج میں پیدا کر دیں۔ اس نے اقتدار کی برائی کو اس کے آخری ممکن درجہ تک پہنچا دیا۔ اسی کے ساتھ یہ کہ اب عوام کے لیے حکمراں کو بدلنا ممکن نہ تھا۔ کیوں کہ جو حکمراں خدا کا نائب یا خدا کی تجسیم ہو ،بلکہ خود خدا ہو اس کے متعلق عوام یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ اس کو مقام اقتدار سے ہٹائیں ، اور اس کے بڑھے ہوئے مظالم سے نجات حاصل کریں۔

یہ سیاسی برائی جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین(Henry Perrine)نے مطلق شہنشاہیت (Empirical absolutism) کہا ہے ، تمام ترقیوں کی راہ میں مستقل رکاوٹ بن گئی۔ اسلام نے جب قدیم شہنشاہی نظام كو توڑا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ انسان کے اوپر ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھلے۔ اس سلسلہ میں ہنری پرین کی کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

ہنری پرین کے نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم رومی سلطنت جو بحر قلزم (Red Sea)کے دونوں طرف چھائی ہوئی تھی ، وہ رائے کی آزادی کو ختم کر کے انسانی ترقی کا دروازہ بند کیے ہوئے تھی۔ اس مطلق نوعیت کی شہنشاہیت کو توڑے بغیر انسانی ذہن کو آزادی نہیں مل سکتی تھی ، اور انسانی ذہن کو جب تک آزادانہ ماحول میں عمل کرنے کا موقع نہ ملے ، انسانی ترقی کا آغاز بھی نہیں ہو سکتا۔

راقم الحروف اس فہرست میں ایرانی شہنشاہیت کو بھی شامل کرتا ہے۔ یہ دونوں شہنشاہتیں قدیم دنیا کے بیشتر آباد حصے پر قابض تھیں، اور ریاست کے محدود شاہی فکر سے آزاد ہو کر سوچنے کے حق کو مکمل طور پر سلب کیے ہوئے تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ طویل زمانہ اقتدار کے باوجود، ایرانی یا رومی شہنشاہیت کے علاقے میں سائنسی طرز فکر کا حقیقی آغاز نہ ہو سکا۔

رسول اور اصحاب رسول نے حیرت ناک حد تک کم خون بہا کر ان شہنشاہیتوں کو ختم کیا ، اور اس طرح آزادی فکر کی راہ ہموار کر کے انسان کے لیے وسیع ترقی کا دروازہ کھول دیا۔

تحقیق کی آزادی

بیرون کا ر اڈی واکس (Baron Carra de Vaux, 1867-1953) کی مشہور کتاب اسلام کا ورثہ (The Legacy of Islam)  1931 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مصنف اگرچہ عربوں کے کارنامے کا اعتراف کرتا ہے۔ مگر اس کے نزدیک ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ یونانیوں کے شاگرد (Pupils of the Greeks)  تھے۔ برٹر ینڈرسل نے اپنی کتاب ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی میں عربوں کو صرف ناقل (Transmitter) کا درجہ دیا ہے۔ جنھوں نے یونان کے علوم کو لے کر اسے بذریعہ تراجم یورپ کی طرف منتقل کر دیا۔

مگر علمی اور تاریخی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عربوں نے یونانی علوم کو پڑھا، اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ مگر اس کے بعد جو چیز انھوں نے یورپ کی طرف منتقل کیا ،وہ اس سے بہت زیادہ تھی، جو انھیں یونان سے ملی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یونان کے پاس وہ چیز موجود ہی نہ تھی، جو عربوں کے ذریعہ یورپ کو پہنچی، اور جو یورپ میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ اگر فی الواقع یونان کے پاس وہ چیز موجودہوتی تو وہ بہت پہلے یورپ کو مل چکی ہوتی۔ ایسی حالت میں یورپ کو اپنی حیات نو کے لیے ایک ہزار سال کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قدیم یونان نے جو کچھ ترقی کی تھی ، وہ آرٹ اور فلسفہ میں کی تھی۔ سائنس کے میدان میں ان کی ترقی اتنی کم ہے کہ وہ کسی شمار میں نہیں آتی۔ اس معاملہ میں واحد قابل ذکر استثنا ارشمید س (Archimedes) کا ہے۔ جس کو 212 ق م میں ایک رومی سپاہی نے عین اس وقت قتل کر دیا، جب کہ وہ شہر کے باہر ریت پر جیومیٹری کے سوالات حل کر رہا تھا۔

J. M. Roberts, History of the World, p. 238

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی غوروفکر اور سائنسی ترقی کے لیے ذہنی آزادی کا ماحول انتہائی ضروری ہے ، اور یہ ماحول ، قدیم زمانے کے دوسرے ملکوں کی طرح ،یونان میں بھی موجود نہ تھا۔ سقراط کو اس جرم میں زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانوںمیں آزاد انہ غوروفکر کا مزاج بنا رہا ہے۔ پلو ٹارک کے بیان کے مطابق، اسپارٹا کے لوگ صرف عملی ضرورتوں کے لیے لکھنا اور پڑھنا سیکھتے تھے۔

ان کے یہاں دوسری تمام کتابوں اور اہل علم پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ ایتھنز میں آرٹ اور فلسفہ کو ترقی حاصل ہوئی۔ مگر بہت سے آرٹسٹ اور فلسفی جلا وطن کر دئے گئے ، قید خانہ میں ڈال دئے گئے ، پھانسی پر چڑھا دئے گئے ، یا وہ خوف سے بھاگ گئے۔ ان میں اسکائی لس، ایوریفائڈس ، فدیا س ، سقراط اور ارسطو جیسے لوگ بھی شامل تھے۔

یونان کے اسکائی لس (Aeschylas) کا قتل جس بنیاد پر کیا گیا، وہ مزید اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم یونان میں سائنسی ترقی کا ماحول موجود نہ تھا۔ اس کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس نے الیوسی نین رازوں (Eleusinian Mysteries) کو ظاہر کر دیا تھا۔ یہ ’’ راز‘‘ ان بے شمار پر عجوبہ کہانیوں میں سے ہے، جن کا کوئی وجود نہیں۔ مگر وہ یونانی فکرو خیال کا لازمی حصہ بنے ہوئے تھے (EB-3/1084)۔

جدید سائنسی دور سے پہلے سائنس کے معاملہ میں یورپ کا کیا حال تھا ، اس کی ایک مثال پوپ سلوسٹر (Pope Sylvester II) کا قصہ ہے ،جو عام طور پر گربرٹ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ 945ء میں فرانس میں پیدا ہوا، اور 1003ء میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ یونانی اور لاتینی دونوں زبانیں بخوبی جانتا تھا، اور نہایت قابل آدمی تھا۔

اس نے اسپین کا سفر کیا اور وہاں بار سلونہ (Barcelona) میں تین سال تک رہا۔ اس نے عربوں کے علوم سیکھے، اور ان سے بہت متاثر ہوا۔ وہ اسپین سے واپس ہوا تو اس کے ساتھ کئی عرب کتابوں کے ترجمے تھے۔ وہ ایک اصطرلاب (astrolabe)بھی اسپین سے لایا تھا۔ اس نے عربوں کے علوم منطق ، ریاضی اور فلکیات ،وغیرہ کی تعلیم شروع کی۔ مگر اس کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ مسیحی حضرات نے کہا کہ یہ اسپین سے جادو سیکھ کر آیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس پر شیطان مسلط ہو گیا ہے۔ وہ اسی قسم کے سخت حالات میں رہا ، یہاں تک کہ 12 مئی 1003ء کو روم میں اس کا انتقال ہو گیا۔ (EB-17/899)

اسلام سے پہلے پوری معلوم تاریخ میں علمی آزادی کا وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں سائنسی غوروفکر کی بعض انفرادی مثالیں ملتی ہیں۔ مگریہ غوروفکر وقتی یا انفرادی واقعہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ذہنی آزادی نہ ملنے کی وجہ سے ایسی ہر سوچ پیدا ہو کر ختم ہوتی رہی۔

اسلام نے پہلی بار یہ انقلابی تبدیلی کی کہ مذہبی علم اور طبیعاتی علم کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ مذہبی علم کا ماخذ خدائی ا لہام قرار پایا، جس کا مستند ایڈیشن ہمارے پاس قرآن کی صورت میں محفوظ ہے۔ مگرطبیعاتی علوم میں پوری آزادی دے دی گئی کہ آدمی ان میں آزادانہ تحقیق کر ے ،اور آزاد انہ طور پر نتائج تک پہنچ سکے۔

صحیح مسلم میں ایک باب کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ شرعی طو ر پر کہا ہو اس کا ماننا لازمی ہے۔ مگر معیشتِ دنیا کے بارے میں آپ کا قول اس سے مستثنیٰ ہے

بَابُ وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا، دُونَ مَا ذَكَرَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا، عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ

اس باب کے تحت امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ موسیٰ بن طلحہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے لوگوں پر گزرا جو کھجور کے درخت پر چڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تلقیح (pollination) کا عمل کر رہے ہیں۔ یعنی مذکر کو مونث پر مار رہے ہیں تو اس سے وہ زرخیز ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گمان نہیں کرتا کہ اس سے کچھ فائدہ ہو گا۔ یہ بات لوگوں کو بتائی گئی تو انھوں نے تلقیح کا عمل چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے کہا اگر اس سے ان کو نفع ہوتا ہو تو وہ ایسا کریں۔ کیوں کہ میں نے صرف ایک گمان کیا تھا تو تم میرے گمان کی پیروی نہ کرو۔ مگر جب میں تم سے اللہ کی کوئی بات کہوں تو اس کو اختیار کر لو۔ کیوں کہ میں اللہ عزوجل کے بارے میں کبھی جھوٹ نہیں کہتا(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2361)۔

اسی طرح حضرت عائشہ اور حضرت ثابت اور حضرت انس سے یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو تلقیح کا عمل کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایااگر وہ ایسا نہ کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد کھجور کی پیداوار بہت کم ہوئی۔ آپ دوبارہ ان کے پاس سے گزرے اور پوچھا کہ تمہارے کھجوروں کا کیا ہوا۔ انھوں نے پورا قصہ بتایا۔ آپ نے فرمایا تم اپنے طریقہ کے مطابق کرو ، کیونکہ تم اپنی دنیا کے بارے میں زیادہ جانتے ہو (أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ)۔صحیح مسلم، حدیث نمبر 2363۔

اس حدیث کے مطابق ، اسلام میں دینی بحث کو سائنسی تحقیق (scientific research) سے الگ کر دیا گیا ہے۔ دینی بحث میں الہامی ہدایت کی کامل پابندی کرنی ہے۔ مگر سائنسی تحقیق کو انسانی تجربے کی بنیاد پر چلانا ہے۔ یہ علم کی تاریخ میں بلاشبہ عظیم الشان انقلاب ہے۔

ایک اقتباس

یہ صحیح ہے کہ قدیم زمانے میں مختلف ملکوں میں بعض شخصیتیں پیدا ہوئیں ،جنھوں نے انفرادی طور پر کچھ سائنسی کارنامے انجام دئے۔ مگر ماحول کی عدم موافقت کی وجہ سے ان کو نہ اپنے وطن میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، اور نہ اپنے وطن کے باہر۔

موسیولیباں نے اپنی کتاب ’’تمدن عرب ‘‘ میں لکھا ہے کہ قدیم زمانے میں بہت سی قوموں نے اقتدار حاصل کیا۔ایران ، یونان اور روم نے مختلف زمانوں میں مشرقی ملکوں پر حکومت کی۔ مگر ان ملکوں پر ان کا تہذیبی اثر بہت کم پڑا۔ ان قوموں میں وہ نہ اپنا مذہب پھیلا سکے، نہ اپنی زبان اور نہ اپنے علوم اور صنعت کو فروغ دے سکے۔ مصر بطلیموسیوں اور رومیوں کے زمانہ میں نہ صرف اپنے مذہب پر قائم رہا ، بلکہ خود فاتحین نے مفتوح قوموں کا مذہب اور طرز تعمیر اختیار کر لیا۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں نے جو عمارتیں تعمیر کیں وہ فراعنہ کے طرز کی تھیں۔لیکن جو مقصد یونانی ، ایرانی اور رومی مصر میں حاصل نہ کر سکے ، اس مقصد کو عربوں نے بہت جلد اور بغیر کسی جبر کے حاصل کر لیا۔ مصر جس کے لیے کسی غیر قوم کے خیالات کا قبول کرنا بہت دشوار تھا، اس نے ایک صدی کے اندر اپنے سات ہزار سالہ پرانے تمدن کو چھوڑ کر ایک نیا مذہب اور نئی زبان اختیار کر لی۔ عربوں نے یہی اثر افریقہ کے ملکوں اور شام اور ایران، وغیرہ پر بھی ڈالا۔ ان سب میں تیزی کے ساتھ اسلام پھیل گیا۔ حتی کہ جن ملکوں سے عرب صرف گز ر گئے ، جہاں کبھی ان کی حکومت قائم نہیں ہوئی، جہاں وہ صرف تاجر کی حیثیت سے آئے تھے ، وہاں بھی اسلام پھیل گیا ، جیسے چین، وغیرہ۔

تاریخ عالم میں مفتوح قوموں پر کسی فاتح قوم کے اثرات کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ ان تمام قوموں نے جن کا عربوں سے صرف چند دن کا واسطہ پڑا ، انھوں نے بھی ان کا تمدن قبول کر لیا۔ بلکہ بعض فاتح قوموں تک ، مثلاً ترک اور مغل ، نے مسلمانوں کو مفتوح کرنے کے بعد نہ صرف ان کا مذہب اور تمدن اختیار کر لیا ، بلکہ اس کے بہت بڑے حامی بن گئے۔ آج بھی جب کہ صدیوں سے عربی تمدن کی روح مردہ ہو چکی ہے ، بحر اٹلانٹک سے لے کر دریائے سندھ تک ، اور بحر متوسط سے لے کر افریقہ کے ریگستان تک ، ایک مذہب اور ایک زبان رائج ہے ، اور وہ پیغمبر اسلام کا مذہب اور ان کی زبان ہے ‘‘۔ (تمدن عرب )

موسیولیباں نے مزید لکھا ہے کہ مغربی ملکوں پر بھی عربوں کا اتنا ہی اثر ہوا ،جتنا اثر مشرقی ملکوں پر ہوا تھا۔ اس کی بدولت مغرب نے تہذیب سیکھی۔ صرف اتنا فرق ہے کہ مشرق میں عربوں کا اثر ان کے مذہب ، زبان ، علوم وفنون اور صنعت وحرفت ہر چیز پر پڑا ، اور مغرب میں یہ ہوا کہ ان کے مذہب پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔ صنعت وحرفت پر نسبتاً کم اور علوم وفنون پر بہت زیادہ اثر پڑا۔

عربوں کے ذریعہ مذہبِ توحید اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی تہذیب ہر طرف پھیلی۔ اس نے قدیم آباد دنیا کے بیشتر حصے کو متاثر کیا۔ اس طرح وہ ماحول اور وہ فضا تیار ہو ئی جس میں علمی تحقیق اور مظاہر فطرت کی تسخیر کا کام آزاد انہ طور پر ہو سکے۔

چار دور

قرآن میں تقریباً ایک درجن مقامات پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اسلام کی صورت میں جو دین بھیجا گیا ہے، وہ انسانوں کے لیے ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی (هُدًى وَرَحْمَةٌ ، الا نعام، 6:157)۔ہدایت سے مراد اس کا مذہبی پہلو ہے ، اور رحمت سے مراد ، ایک اعتبار سے ، اس کا دنیوی پہلو۔ اسلام کے ذریعے ایک طرف یہ ہوا کہ انسان کو سچا اور بے آمیز دین ملا۔ انسان اور اس کے رب کے درمیان تعلق قائم کرنے کے لیے جو مصنوعی رکاوٹیں حائل تھیں ، وہ سب ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئیں۔ قرآن وسنت کی صورت میں رہنمائی کا ایک ابدی مینار کھڑا کر دیا گیا، جس سے ہر دور کا آدمی روشنی حاصل کرتا رہے۔

اسی کے ساتھ دوسری ، نسبتاً ثانوی درجہ کی بات، یہ ہوئی کہ اسلام کے ذریعے ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے انسان کے اوپر دنیوی رحمتوں کا دروازہ کھولا۔ اس نے انسانی تاریخ کو تاریکی کے دور سے نکال کر روشنی کے دورمیں داخل کر دیا۔ اسلامی انقلاب کا یہی دوسرا پہلو ہے، جس کا اعتراف مشہور مغربی مورخ ہنری پرین  (Henry Perrine) نے ان الفاظ میں کیا ہے— اسلام نے کرہ ارض کی صورت بدل دی ، تاریخ کا روایتی ڈھانچہ اکھاڑ کر پھینک دیا گیا

Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.  (A History of Europe, p. 46)

وہ چیز جس کو جدید ترقی یافتہ دور کہا جاتا ہے — سائنس اور صنعت کا دور، آزادی اور مساوات کا دور، وغیرہ۔ وہ تمام تر اسلامی انقلاب کے اس پہلو کا نتیجہ ہے جس کو قرآن میں ’’ رحمت ‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ دور دوسرے تمام کائناتی واقعات کی طرح ، تدریجی طور پر ظہور میں آیا اور تقریباً ایک ہزار سال میں اپنی انتہا کو پہنچا۔

اس تدریجی عمل کو اگر دوروں اور مرحلوں میں تقسیم کیا جائے تو بڑی تقسیم کے اعتبار سے اس کو چار مرحلوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ابتدائی تین مرحلے اسلامی انقلاب کے براہ راست مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں اور چوتھا مرحلہ بالواسطہ مرحلہ

1         پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ          610-632

2         خلفاء راشدین کا زمانہ                      632-661

3         بنو امیہ اور بنو عباس کا زمانہ                  661-1492  (اسپین تک )

4      یورپ کا جدید انقلاب جو صلیبی جنگوں کے بعد نیز اسپین کی مسلم تہذیب کے زیر اثر پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔

جدید انسان

موجودہ صدی کے آغاز تک متمدن دنیا میں عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ ترقی کا راز سادہ طور پر یہ ہے کہ انسانی قافلے کو روایت  (tradition) سے جدت (modernity) تک پہنچا دیا جائے۔ مگر اس سفر کے تکمیلی مرحلے میں پہنچ کر انسان دوبارہ مایوسی کا شکار ہے۔ اس کو محسوس ہو رہا ہے کہ انسان کی حقیقی ترقی کے لیے اس سے زیادہ گہری بنیاد درکار ہے۔ چنانچہ اب کثرت سے ایسے مضامین چھپ رہے ہیں جن کا عنوان ، مثلاً یہ ہوتا ہے

Shallow are the roots

اب خود مغربی دنیا میں یہ بات مصنفین کے لیے ان کے قلم کا موضوع بن رہی ہے۔ ان میں سے ایک کتاب پروفیسر کو نولی کی ہے جو 1988 میں چھپ کر سامنے آئی ہے

Willian E. Connolly, Political Theory and Modernity, Black Well, London, 1988.

        پروفیسر کو نولی کہتے ہیں کہ جدت پسندی کا پورا منصوبہ، اپنی ظاہری کامیابیوں کے باوجود بہت زیادہ مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا کو ہٹانے کے بعد ، آغاز کا ر میں تعقل ، رائے عامہ، اضداد تاریخ کے ذریعہ اس کی جگہ کو پُر کرنے کی تمام کوششیں بےفائدہ ثابت ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی قسم کی انکاریت پر جا کر ختم ہوئی ہے

The whole project of modernity, despite its stunning success, is highly problematic. This is because all attempts to fill the place which God was forced to vacate at the start of the project.... with reason, with the general will, the dialectic of history... have been of no avail, and each has ended up in one kind of nihilism or another.

        اسلام سے پہلے کا دور شرک کے غلبے کا دور تھا۔ اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر مشرکانہ افکار چھائے ہوئے تھے۔ مخلوقات (creations)نے خالق (Creator) کا مقام حاصل کر لیا تھا۔ انسان بے شمار خداؤں کا پرستا ر بنا ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں انسان کی پوری سوچ بگڑ گئی ،اور اس کے اوپر تمام ترقیوں کا دروازہ بند ہو گیا۔

        اس کے بعد اسلام کا ظہور ہوا۔ اسلام کا اصل نشانہ یہ تھا کہ شرک کے غلبے کو ختم کر کے توحید کو غلبہ کا مقام دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں شرک کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا ،اور توحید کو غلبہ کا مقام حاصل ہو گیا۔ یہ انقلاب اتنا دور رس تھا کہ تاریخ میں پہلی بار شرک کا دور ختم ہو گیا، اور اس کے بجائے توحید کے دور کا آغاز ہوا۔

        یہ دورِ توحید تقریباً ایک ہزار سال تک اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری رہا۔ اس کے بعد جدید صنعتی تہذیب کا ظہور ہوا۔ یہ تہذیب اولاً اسلامی انقلاب کے زیرِ اثر ، مغربی یورپ میں پیدا ہوئی۔ اس کے بعد اس کے اثرات ساری دنیا میں پھیل گئے۔ اس تہذیب کا جو حصہ برا ہے ، وہ انسان کی اپنی آمیزش ہے۔ اور اس کا جو حصہ بہتر ہے، وہ اسلامی انقلا ب کے اثرات کا تسلسل ہے۔

ترقی کی طرف سفر

حضرت مسیح سے پہلے دنیا میں چار تمدنی مرکز تھے۔ ایران ، چین ، ہندستان ، یونان۔ عباسی خلیفہ المنصور نے 762ء میں بغداد شہر آباد کیا۔ اس نے مختلف علاقوں کے علما اور دانشوروں کو جمع کیا اور دوسری زبانوں سے ترجمہ کی حوصلہ افزائی کی۔ ریاست کی سر پرستی میں یہ کام شروع ہو گیا۔ 832ء میں خلیفہ المامون نے بغداد میں بیت الحکمت (House of Wisdom) کی بنیاد رکھی۔ اسی کے ساتھ اس نے ایک رصد گاہ (observatory)، ایک کتب خانہ اور ایک دار الترجمہ قائم کیا۔ یہاں دوسری زبانوں سے عربی ترجموں کا کام اتنے وسیع پیمانہ پر شروع ہوا کہ قیام بغداد کے اسی سال کے اند ریونانی کتابوں کا بیشتر ذخیرہ عربوں کی تحویل میں آگیا۔

عباسی دور میں کاغذ سازی ایک گھریلو صنعت بن چکی تھی۔ چنانچہ کثرت سے کتابیں لکھی جانے لگیں۔ دسویں صدی میں قرطبہ (اسپین )کے کتب خانہ میں چار لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔ اس زمانہ میں یورپ کا یہ حال تھا کہ کیتھو لک انسائیکلو پیڈیا کے مطابق کینٹر بری کا کتب خانہ تیرہویں صدی میں اپنی 1800 کتابوں کے ساتھ مسیحی کتب خانوں کی فہرست میں پہلے نمبر کی حیثیت رکھا تھا۔

جغرافیہ میں نویں صدی عیسوی کے نصف اول میں خوار زمی اور اس کے ساتھیوں نے معلوم کیا تھاکہ زمین کا محیط بیس ہزار اور اس کا نصف قطر 6500 میل ہے۔ یہ صحت نہایت حیرت انگیز ہے۔ دنیائے اسلام میں یہ سر گرمیاں ایسے زمانے میں جا رہی تھیں، جب کہ سارے کا سار ایورپ زمین کے چپٹی ہونے کا قائل تھا۔ بارھویں صدی کے وسط میں الا دریسی نے دنیا کا ایک نقشہ بنایا۔ اس نقشہ میں اس نے دریائے نیل کا منبع بھی دکھایا جسے اہل یورپ کہیں انیسویں صدی میں جا کر دریافت کرنے کے قابل بنے۔ مسلمانوں نے اہل یورپ کو زمین گول ہونے کا عقیدہ اور مدو جزر کے اسباب کا تقریباً صحیح نظریہ منتقل کیا۔

بطلیموس (Ptolemy) دوسری صدی عیسوی کا مشہور یونانی عالم فلکیات ہے۔ اس نے نظام شمسی کا زمین مرکزی (earth-centred)  نظریہ پیش کیا تھا۔ اس موضوع پر اس کی کتاب المجست (Almajest) بہت مشہور ہے۔ بطلیموس کا نظریہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال تک عالمی ذہن پر چھایا رہا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی عیسوی میں کوپرنیکس اور گلیلیو اور کپلر کی تحقیقات نے آخری طور پر اس کو غلط ثابت کر دیا۔ اب ساری دنیا میں کوئی اس کا ماننے والا نہیں۔

گردش زمین کے بارے میں ایک غلط نظریہ کے اتنی لمبی مدت تک غالب رہنے کی وجہ دراصل غیر مقدس کو مقدس بنانے کی غلطی تھی۔ مسیحی حضرات کا یہ عقیدہ تھا کہ زمین ایک مقدس کرہ ہے کیوں کہ وہ خدا کے بیٹے (مسیح ) کی جنم بھومی ہے۔ اس بنا پر یہ بات انھیں اپنے مفروضہ عقیدہ کے عین مطابق نظر آئی کہ زمین مرکز ہو اور ساری کائنات اس کے گرد گھوم رہی ہو۔ زمین کے تقدس کا یہ نظریہ مسیحی حضرات کے لیے اس میں مانع ہو گیا کہ وہ اس کی مزید چھان بین کریں۔ وہ اس وقت تک اس پر قائم رہے جب تک حقائق کے طوفان نے انھیں ماننے کے لیے مجبور نہ کر دیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ قدیم نظریہ کائنات کے مطابق ، زمین کائنات کا مرکز تھی ، انسان زمین کی سب سے اعلیٰ مخلوق تھا۔ اور انسان کی نجات (بذریعہ کفارہ ) پورے زمین وآسمان کا سب سے زیادہ مرکزی واقعہ تھا۔ یہ دریافت کہ زمین بہت سے سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے جو کہ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ، اور یہ کہ سورج کائنات کی ان گنت کہکشاوں میں صرف ایک ناقابل لحاظ ستارہ ہے ، اس نے انسان کے بارے میں قدیم (مسیحی ) تصور کو ہلا دیا۔ زمین وسیع تر کائنات کے مقابلہ میں صرف ایک چھوٹا سا گرد کا دھبہ نظر آنے لگی۔ نیوٹن اور دوسرے لوگوں نے اس سوال کی تحقیق شروع کی کہ انسان جو ذرہ کا ذرہ ہے ، کیوں کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کو یہ مقدس حیثیت حاصل ہے کہ وہ اس کی منزل خداوندی نقشہ میں معراج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (EB-4/522)

مسیحی حضرات نے حضرت مسیح کو مقدس خدائی تثلیث کا ایک حصہ مان لیا اور یہ مفروضہ عقیدہ بنایا کہ خدا کے بیٹے کا انسانی کفارہ کے لیے صلیب پر چڑھنا تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے جو زمین پر پیش آیا۔ اس طرح زمین ان کے اعتقادی خانہ میں ایک مقدس حیثیت حاصل کر گئی۔ وہ ہر ایسی سوچ کے شدید ترین مخالف ہو گئے جس میں زمین کی مرکزی حیثیت ختم ہوتی ہو۔

مسیحی حضرات کا یہ عقیدہ ان کے لیے نظام شمسی کی آزادانہ تحقیق میں حائل ہو گیا۔

اسی طرح غیر مقدس کو مقدس بنانا قدیم زمانہ میں تمام ترقیوں کا دروازہ روکے ہوئے تھے۔ چاند کو مقدس بنانا اس میں مانع تھا کہ انسان اس کے اوپر اپنا پاؤں رکھنے کی بات سوچ سکے۔ دریا کو مقدس سمجھنا اس میں مانع ہو گیا کہ انسان دریا کو مسخر کر کے اس سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنائے۔ گائے کو مقدس سمجھنا اس میں مانع بن گیا کہ انسان اس کے گوشت کی پروٹینی اہمیت کو سمجھے اور اس کو اپنی خوراک بنائے۔ اس قسم کی تمام تحقیقی وتسخیر کا کام صرف اس وقت شروع ہو سکا جب کہ اشیاء فطرت کو تقدس کے مقام سے ہٹایا گیا اور اس کو اس سطح پر لایا گیا جہاں انسان ان کو ایک عام چیز کی حیثیت سے دیکھ سکے۔

اسلام سے پہلے ستاروں کو صرف پرستش کا موضوع سمجھا جاتا تھا، اسلامی انقلاب کے بعد پہلی بار بڑے پیمانہ پر انسان نے رصد گاہ ہیں قائم کیں اور ان کو مطالعہ کا موضوع بنایا۔ زمینی معدنیات کو اب تک تقدس کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اہل اسلام نے پہلی بار کیمسٹری کا فن دریافت کر کے مادہ کو تحقیق وتجزیہ کا موضوع بنایا۔ زمین کو اب تک خدائی چیز سمجھا جاتا تھا (مثلاً یہ کہ آسمان مذکر دیوتا ہے اور زمین مونث دیوتا)۔ مسلمانوں نے پہلی بار اس کی پیمائش کر کے اس کا طول وعرض معلوم کیا۔ سمندر کو انسان اب تک صرف پوجنے کی چیز سمجھتا تھا ، مسلمانوں نے پہلی بار اس کو وسیع پیمانہ پر آبی گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ طوفان اور ہوا کو انسان پر اسرار چیز سمجھ کر پوجتا تھا ، مسلمانوں نے اس کو ہوا چکی  (windmill)  میں تبدیل کر دیا۔

درختوں سے پر اسرار کہانیاں وابستہ کر کے ان کو قابل تعظیم سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے ان پر تحقیق شروع کی، حتی کہ انھوں نے نباتات کی علمی فہرست میں مجموعی طور پر دو ہزار پودوں کا اضافہ کیا۔ جن دریاؤں کو لوگ مقدس سمجھتے تھے اور ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو زندہ حالت میں اس کے اندر ڈال دیتے تھے ، ان دریاؤں سے نہریں کاٹ کر آبپاشی کے لیے استعمال کیا اور زراعت کو بالکل نئے دور میں داخل کر دیا۔

اس زمانہ میں مسلمان دوسری قوموں سے اتنا زیادہ آگے تھے کہ مسلمان جب اسپین سے ملک بدر کیے گئے تو انھوں نے وہاں رصد گاہیں چھوڑیں جن کے ذریعہ وہ آسمانی اجرام کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان چھوڑی ہوئی رصد گاہوں کا استعمال اسپین کے عیسائی نہیں جانتے تھے چنانچہ انھوں نے ان کو کلیسا کے گھنٹہ گھرمیں تبدیل کر دیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قدیم زمانہ میں ساری دنیامیں شرک اور توہم پرستی کا غلبہ تھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی شرک اور توہم پرستی ہر قسم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار شرک اور توہم پرستی کے غلبہ کو عملاً ختم کیا۔ اس کے بعد عین اس کے فطری نتیجہ کے طور پر انسانی تاریخ ترقی کے راستہ پر چل پڑی۔

قدیم زمانہ میں بعض ملکوں میں کچھ تخلیقی ذہن (creative mind)پیدا ہوئے۔ انھوں نے ماحول سے الگ ہو کر سوچا۔ مگر ماحول کی عدم مساعدت بلکہ مخالفت کی وجہ سے ان کی کوشش آگے نہ بڑھ سکی۔ ان کے علم کی کلی پھول بننے سے پہلے اپنی شاخ پر مرجھا کر رہ گئی۔ اسلامی انقلاب نے جب اس کے موافق ماحول پیدا کیا تو علم کا وہ سیلاب پوری تیزی سے بہہ پڑا جو ہزاروں سال سے توہمات کے بند کے پیچھے رکا ہوا تھا۔

علم اور اسلام

سکندر اعظم کے بعد بطلیموس ثانی  (Ptolemy II)  مصر کے علاقہ کا حکمراں ہوا۔ اس کا زمانہ تیسری صدی ق م ہے۔ وہ ذاتی طور پر علم کا قدر داں تھا۔ اس نے اسکندر یہ میں ایک کتب خانہ بنایا جس میں مختلف علوم کی تقریبا 5 لاکھ (500,000) کتابیں تھیں۔ یہی وہ کتب خانہ ہے جو تاریخ میں کتب خانہ اسکندر یہ (Library of Alexandria)  کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتب خانہ بعد کو (اسلامی دور سے پہلے ) تباہ کر دیا گیا۔

اس کتب خانہ کے بارے میں غلط طور پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے حکم سے اس کو جلا یا گیا۔ حالانکہ ظہور اسلام سے بہت پہلے چوتھی صدی عیسوی میں اس کا وجود ختم ہو چکا تھا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ وہ رومی حکومت کے تحت تیسری صدی عیسوی تک موجود تھا  (1/227)، اس کے بعد وہ باقی نہ رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کتب خانہ کا نصف حصہ جولیس سیزر (Julius Caesar) نے 47 ق م میں جلایا۔ تیسری صدی عیسوی میں مسیحیوں کو اس علاقہ میں غلبہ حاصل ہوا۔ اس دوران غالباً 391ء میں مسیحیوں نے اس کو جلا کر آخری طور پر اسے ختم کیا۔ اس بات کا اعتراف انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے ان الفاظ میں کیا ہے

These institutions survived until the main museum and library were destroyed during the civil war of the 3rd century AD; a subsidiary library was burned by Christians in AD 391 (EB-1/479).

        دو جگہ اس واضح اعتراف کے باوجوس اسی انسائیکلو پیڈیا میں تیسرے مقام پر غیر ضروری طور پر کتب خانہ کی بربادی کو مسلم عہد کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ ’’سنسر شپ ‘‘ کے مقالہ کے تحت درج ہے کہ اس بات کے مختلف ثبوت موجود ہیں کہ اسکندر یہ کا کتب خانہ مختلف مرحلوں میں جلا یا گیا۔  47 ق م میں جو لیس سیزر کے ذریعہ ، 391ء میں مسیحیوں کے ذریعہ 420ء میں مسلمانوں کے ذریعہ۔ بعد کے دونوں موقع پر یہ کہا گیا کہ ان کتابوں سے مسیحیت یا قرآن کو خطرہ ہے

There are many accounts of the burning, in several stages, of part or all of the library at Alexandria, from the siege of Julius Caesar in 47 BC to its destruction by Christians in AD 391 and by Muslims in 642. In the latter two instances, it was alleged that pagan literature presented a danger to the Old and New Testaments or the Quran.  (EB-3/1084)

یہاں کتب خانہ اسکندر یہ کی بربادی کے واقعہ کو اسلام کے ساتھ منسوب کرنا کسی طرح درست نہیں۔ خود برٹانیکا کے مذکورہ بالا دو اقتباسات اس کی واضح تردید کر رہے ہیں۔ اسلام عین اپنی فطرت کے اعتبار سے علم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ علم کی حوصلہ شکنی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔

ڈاکٹر فلپ ہٹی نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھا ہے کہ یہ کہانی کہ کتب خانہ اسکندر یہ خلیفہ عمر کے حکم سے برباد کیا گیا ، اور شہر کے لا تعداد حماموں کی بھٹیاں 6 مہینہ تک کتب خانہ کی کتابوں کو جلا کر گرم کی جاتی رہیں۔ یہ ان فرضی قصوں میں سے ہے جو اچھی کہانی مگر بری تاریخ بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بطلیموس کا عظیم کتب خانہ اسلام سے بہت پہلے 4 ق م میں جو لیس سیزر کے ذریعہ جلایا جا چکا تھا۔ ایک اور کتب خانہ جو مذکورہ کتب خانہ کا ذیلی کتب خانہ تھا وہ شاہ تھیوڈو سیس (Theodosius)  کے حکم سے 389ء میں جلا دیا گیا۔ اس لیے عرب فتح کے وقت کوئی قابل ذکر کتب خانہ اسکندریہ میں موجود نہ تھا۔ اور کسی بھی معاصر مصنف نے کبھی خلیفہ عمر کے خلاف یہ الزام نہیں لگایا۔ عبد الطیف البغدادی ، جس کی وفات 629 ھ (1231ء ) میں ہوئی، بظاہر پہلا شخص ہے جس نے بعد کے زمانہ میں اس فرضی قصہ کو بیان کیا ہے۔ اس نے کیوں ایسا کیا، اس کو ہم نہیں جانتے ، تاہم اس کا بیان بعد کو نقل کیا گیا اور بعد کے مصنفوں نے اس کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا۔

Philip K. Hitti, History of the Arabs, London, 1970, p. 166

اسلامی تہذیب توحید کے اصول پر قائم ہے ، اور وہ استثنائی طور پر دوسری قدیم تہذیبوں سے مختلف ہے۔ اسلامی تہذیب نے انسان کو فکر کی آزادی عطا کی ، جو کہ پچھلی تمام تہذیبوں میں مفقود تھی۔ اس طرح اسلامی تہذیب کے ماحول میں علم کو ترقی کے بھر پور مواقع ملے۔ دوسری قدیم تہذیبوں میں یقینا ایسا ہوا کہ علم کو اور اہل علم کو جبرو تشدد کا شکار بنایا گیا۔ مگر اس معاملہ میں اسلامی تہذیب کو دوسری تہذیبوں کے ساتھ جوڑنا بلا شبہ ایک کھلا ہوا تاریخی ظلم ہے۔

بات اتنی ہی نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی دور کا آغاز کرنے والا بھی حقیقۃ ً یورپ نہیں ، بلکہ اسلام تھا۔ یہ ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے دور میں علم کو حوصلہ افزائی ملی اور ہر شعبہ میں بڑے بڑے اہل علم اور اہل تحقیق پیدا ہوئے۔ اس کا اعتراف عام طور پر مورخین نے کیا ہے۔

پروفیسر ہولٹ (P.M.Holt) اور دوسرے مستشرقین نے اسلام کی تاریخ پر ایک ضخیم کتاب تیار کی ہے۔ یہ کتاب کیمبرج ہسٹری آف اسلام کے نام سے چار جلدوں میں شائع ہوئی ہے

The Cambridge History of Islam

اس کتاب کی جلد 2۔ بی کے ایک باب میں تفصیل کے ساتھ دکھایا گیا ہے کہ ماضی میں اسلام نے مغربی دنیا کے علوم اور تہذیب پر نہایت گہرے اثرات ڈالے۔ اس باب کا عنوان یہ ہے

Literary impact of Islam on the modern West

تفصیلی معلومات دینے کے بعد مقالہ نگار نے اس با ب کے آخر میں لکھا ہے کہ قرون وسطیٰ کے دوران علم کا بہاؤ تقریباً تمام تر مشرق سے مغرب کی طرف جاری تھا ، جب کہ اسلام مغرب کا معلم بنا ہوا تھا

... during the Middle Ages the trend was almost entirely from East to West  (when Islam acted as the teacher of the West) (p. 888-89)

        بیروں کا ر ادی فاکس (Baron Carra de Vaux)  ایک فرانسیسی مستشرق ہے۔ اس نے اعتراف کیا ہے کہ عربوں نے واقعۃً سائنس میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں

The Arabs have really achieved great things in science.

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ امید نہیں کرنا چاہیے کہ عربوں میںوہی اعلیٰ قابلیت ، وہی علمی تخیل ، وہی جوش اور وہی فکری نیا پن موجود ہو گا جو یونانیوں میں تھا۔ عرب سب سے پہلے یونانیوں کے شاگرد ہیں۔ ان کی سائنس دراصل یونانی سائنس کا ایک تسلسل ہے

The Legacy of Islam (1931)

مانٹگو مری واٹ نے مذکورہ بیان کا ذکر (صفحہ 226) کرتے ہوئے اس خیال کی تردید کی ہے کہ عرب صرف یونانی مترجم تھے۔ انھوں نے عربوں کو منتقل کرنے والے سے زیادہ آگے کا درجہ دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ عرب سائنس اور فلسفہ نے یورپ کی ترقی میں  بہت بڑا حصہ لیا ہے

Arab science and philosophy... contributed greatly to developments in Europe.  (p. 232)

مگر اسی کے ساتھ ما نٹگومری واٹ نے ایک اور ایسی بات کہی ہے جو اول الذکر سے بھی زیادہ قابل اعتراض ہے۔ مانٹگومری واٹ نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب یونانیوں کے شاگر د تھے۔ عربی میں سائنس اور فلسفہ یونانی ترجموں کی تحریک سے آیا

Science and philosophy in Arabic came into existence through the stimulus of translations from Greek . (p. 226)

مانٹگومری واٹ کا یہ بیان صحیح نہیں کہ عربوں میں سائنسی خیالات پیدا ہونے کا محرک یونان تھا۔ بات یوں نہیں ہے کہ عربوں نے یونانی ترجمے پڑھے ، اس کے بعد ان کے اندر سائنسی طرز فکر آیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ ان کے اندر قرآن اور موحدانہ عقیدہ کے ذریعہ سائنسی طرز فکر آیا، اس کے بعد انھوں نے یونان اور دوسرے ملکوں کی کتابوں کے ترجمے کیے۔ نیز خود اپنی تحقیق سے سائنس اور فلسفہ میں اضافہ کیا۔

تاریخ کے محققین نے کہا ہے کہ اگرچہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عرب سائنس اور فلسفہ میں یونانیوں کے شاگرد تھے ۔مگر یہ بھی صحیح ہے کہ وہ یونانی علوم کے صرف مترجم نہ تھے۔ انھوں نے خود اپنی طرف سے اس میں بہت زیادہ اضافے کیے۔ (مانٹگومری واٹ ، صفحہ 226)

مثلاً عربوں نے یونان سے طب کا علم لیا۔ اس کے بعد انھوں نے طب کو مزید ترقی یہ دی کہ انھوں نے طبی کالج اور اسپتال قائم کیے، جو کہ اس سے پہلے یونان میں موجود نہ تھے۔ خلافت عباسی کے دور میں بغداد میں دنیا کا پہلا طبی کالج قائم کیا گیا۔ قاہرہ میں ایک اسپتال بنایا گیا جس میں بیک وقت 8000 آدمی رہ سکتے تھے۔اس میں عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ وارڈ بنے ہوئے تھے۔ اسی طرح مختلف بیماریوں کے لیے الگ الگ شعبے تھے۔ ہر مرض کے ماہر اطباء کی خدمات اس کے لیے حاصل کی گئی تھیں۔ اس میں دوسرے مختلف انتظامات کے ساتھ لائبریری اور لکچر روم بھی موجود تھے ۔(مانٹگومری واٹ ، صفحہ 227)

اسی طرح عربوں نے اپنی تحقیق سے فن طب میں غیر معمولی اضافے کیے۔ زکریا الرازی (م 923ء) نے دنیا کی پہلی طبی انسائیکلوپیڈیا (الحاوی )تیار کی۔ اس ضخیم کتاب میں ہر قسم کے امراض اور ان کی دواؤں کا مفصل تذکرہ تھا۔ یہ کتاب اس کے بعد اس کے شاگردوں نے مکمل کی۔ الرازی نے اس میں ہر بیماری کے بارے میں یونانی ، شامی ، ہندستانی ، ایرانی اور عرب علما کے نظریات بیان کیے۔ اور پھر اپنے تجربات اور اپنی تحقیقات کا ذکر کیا۔ یہ کتاب لاتینی زبان میں  Continents  کے نام سے ترجمہ ہوئی اور پھر یورپ میں پھیلی۔

ابن سینا (م1027ء ) نے عرب اطباء کے درمیان غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ اس کی مشہور کتاب القانون فی الطب بارہویں صدی میں لاتینی میں ترجمہ ہو کر یورپ میں شائع ہوئی۔ اس کا نام Canon of Medicine   تھا۔ اس کتاب کو یورپ میں جا لینوس اور بقراط کی کتابوں سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ابن سینا کی کتاب یورپ کی طبی دنیا پر سولھویں صدی تک چھائی رہی۔ صرف 15 ویں صدی میں یورپ میں اس کے 16 ایڈیشن چھپ کر شائع ہوئے۔ عرب طب گیارھویں صدی کے آغاز میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گیا۔ اور ا سکے بعد وہ 17 ویں صدی تک باقی رہا (مانٹگومری واٹ ، صفحہ 228)

Montgomery Watt, The Majesty That Was Islam, London, 1984.

عبد اللہ بن البیطار (وفات 1248 ء ) نباتات کا بہت بڑا ماہر تھا۔ فلپ ہٹی نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے نباتات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصہ کا سفر کیا۔ اس نے بے شمار پودوں کی طبی اہمیت کے بارے میں تحقیق کی ، اور ان کا ذاتی تجربہ کیا۔

عبد اللہ بن البیطار نے تحقیق اور تجربہ کے بعد دو مفصل کتابیں لکھیں جن میں تقریباً ڈیڑھ ہزار پودوں کے بارے میں معلومات درج ہیں۔ اس کی کتابیں اپنے زمانے میں اس موضوع پر سب سے زیادہ جامع کتابیں تھیں۔ 1758ء میں اس کتاب کا ترجمہ لاتینی زبان میں ہوا۔ اس کے بعد البیطار کی تحقیقات یورپ میں پھیلیں اور اہل یورپ کو علمی روشنی دینے کا ذریعہ بنیں (صفحہ  75-76)

طب ، فلکیات ، اور ریاضی کے بعد مسلم عہد کا سب سے بڑا سائنسی عطیہ کیمسٹری ہے۔مسلم سائنس دانوں نے علم کیمیا کو کیمیا گری کے دائرے سے نکالا اور اس کو ایک باقاعدہ تجرباتی علم کا درجہ دے دیا۔ انھیں کے ذریعہ سے دنیا پہلی بار سائنسی طریق کار (scientific method) سے متعارف ہوئی۔

یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے فزیکل علوم میں خارجی تجربہ کو رواج دیا۔ یہ یونانیوں کے الجھے ہوئے قیاسات پر ایک مانا ہوا ارتقاء تھا۔ جابر بن حیان (721-815ء ) کا نام ، الرازی کے بعد قرون وسطی میں کیمیکل سائنس کے میدان میں سب سے بڑا نام ہے۔ فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ جابر بن حیان نے تجربہ کی اہمیت کو اس سے زیادہ واضح طور پر مانا، اور بیان کیا، جتنا کسی بھی قدیم کیمیا داں نے نہیں کیا تھا۔ اس نے کیمیا میں نظری اور عملی دونوں اعتبار سے قابل ذکر ترقی کی

He more clearly recognised and stated the importance of experimentation than any other early alchemist and made noteworthy advance in both the theory and practice of chemistry . (p. 380)

جابر کی کتابیں پندرھویں صدی عیسوی تک یورپ میں علم کیمیا میں آخری سند کا درجہ رکھتی تھیں۔ اٹھارویں صدی کے ترقی یافتہ مغربی کیمسٹری کا ابتدائی زینہ جابر بن حیان ہی نے فراہم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جابر بن حیان نے مختلف علوم پر تقریباً دو ہزار کتابیں تصنیف کی تھیں۔ مسلمانوں سے پہلے ایسا کوئی مصنف نہیں گزرا جس نے اتنی زیادہ علمی کتابیں لکھی ہوں۔

یہ صرف چند متفرق اور غیر مرتب حوالے ہیں۔ تاہم یہ حوالے اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام علم کا دشمن نہیں، بلکہ اسلام علم کا سر پرست ہے۔ قدیم زمانے میں علم دشمنی کی روایت ان مذاہب نے قائم کی، جو شرک اور توہم پرستی پر کھڑے ہوئے تھے۔ اسلام نے شرک اور توہم پرستی کو ختم کیا ، اور مذہب کو خالص توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔ ایسی حالت میں اس کا سوال ہی نہیں کہ اسلام علم اور تحقیق کا دشمن بنے۔

علم کی ترقی شرک کی قاتل ہے۔ اس لیے مشرکانہ مذہب علم کی ترقی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر توحید کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ علم کی ترقی توحید کو مزید ثابت اور مستحکم بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موحدانہ مذہب علم کی ترقی کی مکمل حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے موریس بوکائی (Maurice Bucaille, 1920-1998)کی کتاب کا مطالعہ کافی ہے

The Bible, The Qur'an and Science

اسلام نے موافق ماحول دیا

قدیم مشرکانہ دور میں ساری دنیا میں جو ماحول بنا ہوا تھا ، وہ توہماتی خیالات کے پھیلنے کے لیے موزوں تھا۔ مگر وہ علمی اور سائنسی خیالات کی ترقی کے لیے بالکل نا موافق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں کسی بھی ملک میں علم اور سائنس کی ترقی نہ ہو سکی۔ یہ کام موثر طور پر صرف اس وقت شروع ہوا جب کہ اسلامی انقلاب نے قدیم مشرکانہ غلبہ کو ختم کر کے نیا موافق ماحول بنایا۔

قدیم یونان

قدیم یونانی ذہن پر سب سے زیادہ غلبہ دیو مالا کا تھا۔ یونانی دیو مالا یا گر یک مائتھا لوجی (Greek mythology) ایک مفصل موضوع ہے، جس پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ حتی کہ ’’انسائیکلو پیڈیا آف گریک مائتھالوجی ‘‘ کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل انسائیکلو پیڈیا بھی موجود ہے۔

قدیم یونان میں دیوتاؤں اور ہیروؤں کے نام پر بے شمار عجیب وغریب قسم کی کہانیاں مشہور تھیں جن کو یونانی لوگ بالکل حقیقت کی طرح مانتے تھے۔ ایسے ماحول میں یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی حقیقی سائنس ترقی کر سکے۔ شاعروں اور آرٹسٹوں کی خیال سازی کے لیے یہ ماحول موزوں تھا۔ چنانچہ ان کے درمیان کثرت سے شاعر اور آرٹسٹ پیدا ہوئے۔ مگر وہاں کا ماحول علمی تحقیق کے لیے موزوں نہ تھا۔ چنانچہ علمی محققین ، یا آج کی زبان میں سائنٹسٹ وہاں پیدا بھی نہیں ہوئے۔

قدیم یونان میں ہر چیز کے دیوتا تھے۔ ان کے بارے میں ان کے یہاں طلسماتی تصورات پھیلے ہوئے تھے۔ ایسی حالت میں شاعری اور آرٹ جیسی چیزوں کی ترقی کے لیے ان کے یہاں فضا پوری طرح موجود تھی۔ چنانچہ یونان میں اور یونان کے باہر دوسرے یورپی ملکوں میں ایسے بہت سے فن کا ر پید اہوئے جن کو یونانی دیو مالا سے ذہنی تحریک ملی۔ حتی کہ مغربی ادب پر یونانی دیو مالا کا اثر آج تک پایا جاتا ہے (EB-8/405-406)

یونانی تہذیب ، قدیم زمانے کی مشہور ترین تہذیب ہے۔ مگر وہ یورپ میں سائنس کے عمل کا آغاز نہ کر سکی۔ یہ کام صر ف اس وقت شروع ہوا، جب کہ مسلمانوں کے ذریعہ سائنسی طرز فکر یورپ تک پہنچا۔ شرک کا نظریہ مانع ترقی تھا ، توحید کا نظریہ فاتح ترقی بن گیا۔

رومی تہذیب

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ مسیحی دور سے پہلے رومی سلطنت نے پوری میڈیٹیر ینین دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ مگر علوم کے مورخین کے لیے روم ایک معما بنا ہوا ہے۔ رومی تہذیب بے حد طاقت ور تہذیب تھی۔ جنگی فنون میں اس نے بہت ترقیاں کیں۔ نیز یونان کے علمی ورثہ تک اس کی براہ راست پہنچ تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنے ہزار سالہ دور میں ایک بھی سائنسداں پیدا نہ کر سکا

It failed to produce a single scientist .  (EB-16/37)

مورخین نے سائنس میں رومیوں کی بد ترین ناکامی کی وجہ بتانے کی کوشش کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شاید رومیوں کا سماجی ڈھانچہ جو لمبے عرصے سے جادو کی نہایت بھونڈی شکلوں پر مبنی تھا ، اس نے فطرت کی دنیا کے بارے میں منظم علمی تحقیق کے راستہ پر چلنا ان کے لیے مشکل بنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص جب یہ سوچتا ہے کہ کتنی کم تہذیبیں ایسی ہیں جن کے اندر سائنس کو فروغ حاصل ہو ا تو اس کے ذہن میں سوال کی نوعیت بدل جاتی ہے ، اور وہ روم کی سائنس سے دوری کو ایک معمولی واقعہ سمجھنے لگتا ہے، اور قدیم یونان کو ایک تعجب خیز مظہر قرار دیتا ہے جس کی توجیہ مشکل ہو۔ (EB-16/367)

عام مورخین اس سوال کے کسی یقینی جواب تک نہ پہنچ سکے ، مگر اس کا واضح جواب اس وقت معلوم ہو جاتا ہے، جب کہ ہم یہ جان لیں کہ رومی لوگ بت پرستی میں مبتلا تھے۔ یہ دراصل شرک اور بت پرستی تھی جو رومیوں کے لیے سائنس کے میدان میں تحقیق وتفتیش (investigation ) میں رکاوٹ بن گئی۔ اشیاء کے تقدس کے عقیدہ نے انھیں اشیاء کی تسخیر سے روک دیا۔

ایک حوالہ

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے ’’ہسٹری آف سائنس ‘‘ کے تحت لکھا ہے کہ عالم فطرت کو آج جس نظر سے دیکھا جاتا ہے ، وہ انسانی تاریخ میں ایک بہت نئی چیز ہے۔ ماضی میں بڑی بڑی تہذیبوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ علم اور مذہب اور قانون کے میدان میں ترقیاں کریں۔ مگر اس وقت سائنس کا موجودہ تصور بالکل غیر موجود تھا۔ مصر ، میسو پوٹامیہ، ہندستان وغیرہ کا قدیم زمانے میں یہی حال تھا۔ قدیم قومیں سائنس کے معاملہ میں معاند یا کم از کم غیر متعلق بنی ہوئی تھیں۔ اگرچہ تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونانیوں نے ایک ایسا نظام فکر پیدا کیا جو سائنٹفک نظام سے مشابہ تھا۔ مگر بعد کی صدیوں میں اس میں مزید کوئی ترقی نہ ہو سکی حتی کہ اس کو سمجھنے والے بھی باقی نہ رہ سکے۔ سائنس کی عظیم طاقت اور زندگی کے تمام پہلووں پر اس کا گہرا اثر بالکل ایک نئی چیز ہے۔

یورپی سائنس کی صبح روایتی طور پر یونان کے فلسفیوں کے ذریعہ شروع ہوئی جو چھٹی اور پانچویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر یں بھی صرف جزئی طور پر ہمارے علم میں آسکی ہیں۔ وہ بھی ان مصنفوں کے ذریعہ جو ان کے سیکڑوں سال بعد پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی کتابوں میں ان کے مختصر حوالے دئے۔

یہ مختصر حوالے بھی بہت مغالطہ آمیز ہیں۔ مثلاً فلسفی تھیلس (Thales) کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ ہر چیزپانی ہے۔ بظاہر یہ ایک علمی فقره ہے۔ مگر اس کے پورے قول کو سامنے رکھیے تو وہ ایک توہم پرستانہ عقیدہ معلوم ہو گا۔ کیونکہ پورا قول اس طرح ہے ہر چیز پانی ہے ، اور دنیا دیوتاؤں سے بھری ہوئی ہے۔ انگریزی ترجمہ میں اس کا پورا فقرہ اس طرح بتایا گیا ہے

All is water, and the world is full of gods. (EB-16/366)

تھیلس (Thales) قدیم یونان کا ایک فلسفی ہے ،جس کازمانہ چھٹی صدی قبل مسیح بتایا جاتا ہے یونان کے دوسرے فلسفیوں کی طرح ، اس کے حالات کے بارے میں مستند معلومات موجود نہیں۔ وہ اگرچہ قدیم دنیا کے سات عقلمند آدمیوں  (Seven Wise Men) میں سے ایک ہے۔ تاہم آج اس کی کوئی کتاب محفوظ نہیں، اور نہ اس کے بارے میں کوئی معاصر ریکارڈ پایا جاتا ہے۔ (EB-9/920)

حقیقت یہ ہے کہ یونانیو ں اور رمیوں ، دونوں کے لیے سائنس کی راہ میں پیش قدمی کی رکاوٹ صرف ایک تھی ، اور وہ ان کا مشرکانہ مزاج تھا۔ ان کے شرک نے ان سے وہ حقیقت پسندانہ ذہن چھین رکھا تھا جو سائنسی تحقیق کے لیے ضروری ہے۔ ایسی حالت میں وہ سائنسی ترقی کرتے تو کس طرح کرتے۔

علم کی طرف سفر

یونان یورپ کا ایک ملک ہے۔ قدیم زمانہ میں یہاں کئی اعلیٰ سائنسی ذہن پیدا ہوئے۔ اس سلسلہ میں ایک نام ارشمید س (Archimedes) کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ابتدائی قسم کی سادہ مشین مثلاً چرخی (Water screw)  ایجاد کی۔ مگر عجیب بات ہے کہ یونان کے یہ سائنسی ذہن بجلی کی طرح وقتی طور پر چمکے ، اور پھر جلد ہی ختم ہو گئے۔ وہ یونان کو یا وسیع تر یورپ کو سائنس اور صنعت کے دور میں داخل نہ کر سکے۔ خودار شمیدس کا انجام یہ ہوا کہ اس کو ایک رومی سپاہی نے اس وقت قتل کر دیا، جب کہ وہ شہر کے باہر ریت کے اوپر ریاضی کا ایک سوال حل کر رہا تھا۔

قدیم یونانی علم اور جدید سائنسی یورپ کے درمیان نہایت طویل علمی وقفہ پایا جاتا ہے۔ ارشمیدس نے اپنی مشینی چرخی 260ق م میں ایجاد کی تھی ، اور جرمنی کے گوٹن برگ (J. Gutenberg) نے پہلا مشینی پریس 1450ء میں ایجاد کیا۔ دونوں کے درمیان ڈیڑھ ہزار سال سے زیادہ مدت کا فاصلہ ہے۔

ایسا کیوں ہو ا۔ کیا وجہ ہے کہ قدیم یونانی سائنس کا تسلسل یونان میں اور یورپ میں جاری نہ رہ سکا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے وہ فضا موجود نہ تھی، جس میں علمی تحقیق کا کام آزادانہ طور پر جاری رہ سکے۔ اسلام نے توحید کی بنیاد پر جو انقلاب برپا کیا، اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس میدان کی رکاوٹیں ختم ہو گئیں، اور وہ موافق فضا تیار ہوئی جس میں علمی تحقیق کا کام کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رہ سکے۔

علمی ترقی ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ مگر یونانی علما کا کام، زمانی عدم موافقت کی بنا پر مسلسل عمل کی صورت میں آگے نہ بڑھ سکا۔ وہ وقتی چمک بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلمای انقلاب نے توہماتی دور کو ختم کیا ، تو علمی ترقی کے عمل کے لیے موافق مواقع حاصل ہو گئے۔ ا ب سائنسی تحقیق ایک مسلسل عمل کی صورت میں جاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ ترقی یافتہ دور تک پہنچی۔

ماحول کی اس عدم موافقت کی وجہ سے یونانی علما کا کام زیادہ تر ذہنی سوچ کے دائرے میں محدود رہا۔ وہ خارجی تجربات تک نہیں پہنچا۔ مثلاً ارسطو نے طبیعیات کے موضوع پر مضامین لکھے۔ مگر اس نے اپنی ساری زندگی میں کوئی ایک بھی عملی تجربہ نہیں کیا۔ یونانی علما کی سرگرمیاں منطق میں تو نظرآتی ہیں۔ مگر وہ تجرباتی سائنس میں بالکل دکھائی نہیں دیتیں۔ سائنس کا حقیقی آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان کے اندر تفتیش کی روح (spirit of enquiry)آزادانہ طور پر پیدا ہو جائے۔ قدیم زمانہ میں یہ روح انفرادی طور پر اور وقتی طور پر کہیں کہیں ابھری۔ مگر وہ ، ماحول کی عدم موافقت کی وجہ سے ، بڑے پیمانہ پر پید انہ ہو سکی۔

آزادانہ تحقیق کے لیے موافقت کا یہ ماحول صرف اسلام کے انقلابِ توحید کے بعد ظہور میں آیا۔ اسلامی انقلاب نے اچانک پورے ماحول کو بدل دیا۔ اور وہ سازگار فضا پید اکر دی جس میں آزادانہ طور پر فطرت کی تحقیق کا کام ہو سکے۔ اس سائنسی فکر کا آغاز پہلے مکہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ پہنچتا ہے۔ پھر وہ دمشق کا سفر کرتا ہے۔ پھر وہ آگے بڑھ کر بغداد کو اپنا مرکز بناتا ہے۔ اس کے بعد وہ اسپین اور سسلی اور اٹلی ہوتا ہوا پورے یورپ میں پھیل جاتا ہے۔ وہ پھیلتا ہی رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے عالمی ذہن کو بدل دیتا ہے۔

علم کا یہ ارتقائی سفر اسلامی انقلاب سے پہلے ممکن نہ ہو سکا۔ اس سے پہلے سائنسی فکر محض انفرادی یا مقامی سطح پر پید اہوا اور ماحول کے عدم موافقت کی وجہ سے بہت جلد ختم ہو گیا اسلام نے پہلی بار سائنسی ترقی کے لیے موافق ماحول عطا کیا۔

 

 

با ب دوم

غیر خدا کو مقدس ماننا

ناتھن سوڈر بلوم (Nathan Soderblom) نے 1913 میں کہا تھا کہ مذہب کا بنیادی تصور (central notion) تقدس کا عقیدہ ہے۔ اس وقت سے اب تک تاریخ مذاہب کا مطالعہ وسیع پیمانہ پر کیا گیا ہے۔ جرمن ، فرانسیسی ، انگریزی زبانوں میں کثیر تعداد میں محققانہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ موجودہ علما مذاہب کا تقریباً اتفاق ہے کہ مذہب کا بنیادی تخیل تقدس (Holiness) کا عقیدہ ہے۔ یعنی چیزوں میں ایسی پر اسرار صفات یا پر اسرار طاقتیں ماننا جو عام انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔ یا عام عقلی اصولوں کے تحت جن کی توجیہ نہ کی جا سکتی ہو۔ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں اس موضوع پر مفصل بحث زیر عنوان تقدس (Holiness) موجود ہے۔

تقدس کا یہ عقیدہ کوئی فرضی چیز نہیں ، وہ انسان کی فطرت میں آخری گہرائیوں تک پیوست ہے۔ اس کے استعمال کی صحیح صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے اس جذبے کو ایک خدا کے لیے خاص کر دے۔ مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کا یہ جذبہ غیر خدا کی طرف مڑ جاتا ہے۔ جس جذبۂ تقدس کا رخ حقیقۃً خالق کی طرف ہونا چاہیے تھا ، اس کا رخ مخلوق کی طرف ہو جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا ایک غیبی حقیقت ہے۔ آدمی اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتا۔ اس لیے وہ ایسا کرتا ہے کہ آس پاس کی دنیا میں جو چیزیں نمایاں نظر آتی ہیں ، انھیں کو مقدس سمجھ کر پوجنے لگتا ہے۔ یہی نفسیات ہے جس نے قدیم زمانہ میں وہ چیز پیدا کی جس کو مذہب کی اصطلاح میں شرک اور علمی اصطلاح میں فطرت کی پرستش (nature worship) کہا جاتا ہے۔ انسان کا تقدس کا جذبہ اندر سے زور کر رہا تھا کہ کسی کو مقدس مان کر اس کی پرستش کرے۔ اس نے ہراس چیز کی پرستش شروع کر دی جو اس کو بظاہر نمایاں اور ممتاز دکھائی دی۔ مثلاً سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، دریا، آگ ، بھونچال ، جانور ، وغیرہ وغیرہ۔ پیغمبروں کی تعلیمات کے تحت ایک خدائے برتر کا تصور موجود تھا۔ انسان نے فرض کر لیا کہ ایک خدا کہیں آسمان کی بلندیوں پر ہے اور یہ تمام چیزیں اس کے ماتحت دیوی دیوتا ہیں۔ (EB-12/877)

موجودہ زمانہ کے علما مذاہب کا عام طور پر اتفاق ہے کہ مذہب کی اصل تقدس کا عقیدہ ہے۔ یعنی بعض چیزوں میں ایسی مخصوص صفات یا پر اسرارطاقتیں ماننا جو دوسروں میں نہ پائی جاتی ہوں۔ اور عام عقلی اصولوں کے تحت جن کی توجیہ ممکن نہ ہو۔

اسی سے ان مقدس چیزوں کے حق میں خوف اور امید کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں آدمی اپنے آپ کو عاجز محسوس کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہاں میری حد ختم ہو گئی۔ یہ مقدس چیزیں مختلف قسم کی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً پتھر ، جانور، سمندر ، سورج ، چاند اور اسی طرح بادشاہ اور مذہبی شخصیتیں وغیرہ۔ آدمی جن چیزوں کو اس طرح مقدس مان لے ، ان کی وہ پرستش کرتا ہے۔ ان کے نام پر قربانی کرتا ہے۔ ان کو خوش کرنے کے لیے رسمیں مناتا ہے تاکہ ان کے قہر سے بچے اور ان کی عنایتوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ تقدس کا عقیدہ مقدس شخصیتوں میں ظہور کرتا ہے ، جیسے مذہبی پیشوا ، بادشاہ ، مخصوص جگہیں مثلاً مندر اور بت اور فطری مظاہر ، مثلاً دریا ، سورج ، پہاڑ ، درخت۔ مذہبی پیشوا مذہبی پرستش کے عمل میںخاص ذریعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے رسمی اعمال خدائی عمل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح بادشاہ آسمان وزمین کے درمیان خاص کڑی ہے۔ اسی بنا پر اس کو آسمانی فرزند یا خدائی ہتھیار جیسے لقب دئے جاتے ہیں۔

علم الا نسان کے جو محققین تقدس (Holiness) کو مذہب کی اصل بتاتے ہیں ، ان میں سے چند کے نام یہاں بطور مثال درج کیے جاتے ہیں

Nathan Soderblom, Rudolf Otto, Emile Durkheim, Max Scheler, Gerardus van der Leeuw, W. Brede Kristensen, Friedrich Heiler, Gustav Mensching, Roger Caillois, Mircea Eliade   (EB-16/124)

جدید علما مذاہب کا یہ کہنا درست ہے کہ مذہب کا بنیادی تخیل تقدس (Holiness) کا عقیدہ ہے۔ تقدس کا یہ جذبہ بجائے خود فطری جذبہ ہے۔ مگر جب ایک اللہ کے سوا کسی اور کو مقدس مانا جائے تو یہ اصل فطری جذبہ کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ یہی ہر قسم کی برائیوں کی اصل جڑ ہے۔

انسان جب غیر مقدس کو مقدس مانتا ہے تو وہ ہر قسم کی ترقی کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لیتا ہے۔

غیر مقدس کو مقدس ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے فطرت کو مقدس ماننا ، اور دوسرا ہے انسانوں میں سے کسی کو مقدس ماننا۔ یہ دونوں ہی برائیاں قدیم تاریخ میں ساری دنیامیں کسی نہ کسی شکل میں پائی جا رہی تھیں، اور یہی سب سے بڑا سبب ہے جس نے انسان کی سوچ کو غیر علمی سوچ بنا رکھا تھا۔

تقدس کا معاملہ انسان کی گہری نفسیات سے تعلق رکھتا ہے اور اس قسم کی نفسیات کو کسی ایک لفظ میں بیان کرنا انتہائی دشوار ہے۔ گہری انسانی کیفیات کے لیے جو الفاظ بولے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ علامتی ہوتے ہیں نہ کہ حقیقی۔ اس واقعہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، اصولاً میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تقدس کا عقیدہ مذہب کا خلاصہ ہے۔ البتہ یہ تقدس حقیقی ہے نہ کہ موجودہ علما مذاہب کے خیال کے مطابق ، محض فرضی۔

اصل یہ ہے کہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو ہر آدمی کے اندر پیدائشی طو رپر موجود ہوتا ہے۔ آدمی عین اپنے اندرونی جذبہ کے تحت چاہتاہے کہ کسی کو مقدس مان کر اس کے آگے جھک جائے۔ اس جذبہ کے اظہار کی دو صورتیں ہیں۔ ایک موحدانہ اظہار ، اور دوسرا مشرکانہ اظہار۔

آدمی اگر ایک خدا کو مقدس مانے اور اس کو اپنا معبود بنا کر اس کی پرستش کرے تو اس نے ایک صحیح جذبہ کو صحیح مقام پر استعمال کیا۔ یہ دراصل خدا ہی ہے جو فی الواقع تقدس کی صفت رکھتا ہے۔ اس لیے خدا کو مقدس ماننا ایک حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔

مگر انسان ایسا کرتا ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی اس کو بظاہر نمایاں دکھائی دے یا اپنے سے مختلف نظر آئے ، اس کو وہ مقدس فرض کر لیتا ہے۔ اور اس کی پرستش اور احترام میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک صحیح جذبہ کا غلط استعمال ہے۔ یہ گویا جو کچھ خدا کو دینا چاہیے وہ غیر خدا کو دینا ہے۔ مذہب کی زبان میں اسی کا نام شرک ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اس کو توہم پرستی  (superstition) کہہ سکتے ہیں۔

خدا کے سوا دوسری چیزوں کو مقدس ماننے کی یہی غلطی تھی جو قدیم زمانہ میں سائنس کے ظہور کو ہزاروں برس تک روکے رہی۔ صرف ایک خدا کو مقدس مانا جائے تو اس سے کوئی علمی اور فکری مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ خدا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ وہ آسمانوں سے پرے ہے جہاں انسانوں کا گزر نہیں ہو سکتا۔

مگر دوسری چیزیں جن کو مقدس مان لیا جاتا ہے ، وہ ہمارے دائرہ اختیار کی چیزیں ہیں۔ یہ وہی چیزیں ہیں جن کی تسخیر سے حقیقۃً سائنس کا آغاز ہوتا ہے۔ مگر جب ان کو مقدس مان لیا جائے تو وہ قابل تسخیر چیز کے خانہ سے نکل کر قابل عبادت چیز کے خانہ میں چلی جاتی ہیں۔

خدا کے سوا اس دنیامیں جو چیزیں ہیں وہ سب کی سب مخلوقات ہیں۔ وہ وہی ہیں جن کو عام طور پر مظاہر فطرت کہا جاتا ہے۔ یہی مظاہر فطرت سائنسی عمل کی زمین ہیں۔ ان مظاہر فطرت کا مطالعہ کرنا اور ان پر کنٹرول حاصل کرنا ، اسی کا دوسرا نام سائنس ہے۔

اب چونکہ قدیم زمانے میں تمام قوموں نے مظاہر فطرت کو مقدس سمجھ لیا تھا ، اس لیے وہ ان کے لیے پرستش کا موضوع بن گیا وہ ان کے لیے تسخیر کا موضوع نہ بن سکا۔ یہی وہ فکری گمراہی ہے جو قدیم زمانے میں سائنسی تحقیق کے عمل کو ہزاروں سال تک روکے رہی۔ ترقی کا یہ دروازہ صرف اس وقت کھلا جب کہ توحید کے انقلاب نے انسانی ذہن کو بدلا اور مظاہر فطر ت کو تقدس کے مقام سے ہٹا دیا۔

ایک مثال

ماضی کی دنیا میں جو کچھ پیش آیا ، اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اب بھی ہندستان میں موجود ہے۔ ہندستان موجودہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں شرک اب بھی طاقتور حالت میں باقی ہے۔ اگر کسی کو یہ دیکھنا ہو کہ شرک کس طرح وہ ماحول بننے نہیں دیتا جہاں علمی تحقیق آزادانہ طور پر جاری ہو سکے ، وہ اس کا کم از کم جزئی نمونہ آج بھی ہندستان میں دیکھ سکتا ہے۔

1967 میں دہلی کے انگریزی اخبار میں ایک ہندستانی سائنس داں کا انٹرویو چھپا۔ اس انٹرویو نے اچانک ملک میں سنسنی پھیلا دی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کو اگلے دو دہوں میں بڑے پیمانہ پر ذہنی بونا پن کے خطرہ کا سامنا کرنا ہو گا ، اگر پروٹینی فاقہ کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی

India may have to face the danger of large-scale intellectual dwarfing in two decades if the problem of malnutrition and protein hunger was not tackled soon.  (Statesman, Delhi, September  4, 1976)

یہ الفاظ ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن کے تھے جو اس وقت انڈین ایگریکلچرل انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی ) میں ڈائرکٹر تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ متوازن غذا کا تصور اگر چہ نیا نہیں ، مگر دماغ کے ارتقاء کے سلسلہ میں اس کی اہمیت ایک نئی حیاتیاتی دریافت ہے۔ اب یہ بات قطعی ہے کہ چار سال کی عمر میں انسانی دماغ 80 فیصد سے لے کر 90 فی صد تک اپنے پورے وزن کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر اس نازک مدت میں بچہ کو مناسب پروٹین نہ ملے تو اس کا دماغ اچھی طرح نشوونما نہیں پا سکتا۔

ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ اگر ناقص تغذیہ اور پروٹینی فاقہ  (protein hunger) کے مسئلہ پر جلد توجہ نہیں دی گئی تو اگلے دو دہوںمیں ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف متمدن قوموں کی ذہنی طاقت (intellectual power) میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن بڑھ رہا ہے۔ نوجوان نسل کو پروٹینی فاقہ سے نکالنے میں اگر ہم نے جلدی نہ کی تو اس کا یہ سنگین نتیجہ برآمد ہو گا کہ ہر روز ہمارے یہاں دس لاکھ ذہنی بونے  (intellectual dwarfs)وجود میں آئیں گے۔ اس کا بہت کچھ اثر ہماری نسلوں پر حالیہ برسوں ہی میں پڑ چکا ہو گا۔

پوچھا گیا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے اس کے جواب میں کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اپنی کارروائیوں کے ذریعہ عوام کے اندر پروٹینی شعور (protein consciousness)  پیدا کرے اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کو ہموار کرے۔ پروٹین کی ضرورت کا تخمینہ مقدا ر اور نوعیت دونوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ اوسط نشوونما کے لیے پروٹین کے مرکبات میں 80 قسم کے امینو ایسڈ ہونا ضروری ہیں۔ غیر لحمی غذاوں میں بعض قسم کے ایسڈ مثلاً لائسین (Lysine) اور میتھونین (Methionine)کا موجود نہ ہونا عام ہے جب کہ جوار میں لیوسین کی زیادی متعدد علاقوں میں بیماری کا سبب رہی ہے جہاں کی خاص غذا یہی اناج ہے۔ اگرچہ حیوانی غذا  (دودھ) کا بڑے پیمانہ پر استعمال پسندیدہ چیز ہے ، مگر ا س کا حصول بہت مہنگا ہے ، کیونکہ نباتاتی غذا کو حیوانی غذا کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ قوت ضائع کرنی پڑتی ہے۔ (اسٹیٹسمین  4ستمبر 1967)

ڈاکٹر سوامی ناتھن کے انٹرویو کی اشاعت کے بعد انڈین اکسپریس (7ستمبر 1967) نے ایک اداریہ شائع کیا، جس کا عنوان تھا پروٹینی فاقہ  (protein hunger)  اس اداریہ میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کی مرکزی حکومت نے جب اناج کے سلسلہ میں تائیدی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشکل ہی سے یہ شبہ کیا جا سکتا تھا کہ غلہ کی بہتات کے باوجود پروٹینی فاقہ کا مسئلہ سامنے آجائے گا، جیسا کہ انڈین ایگر یکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی ہے۔ غلوں پر زیادہ اعتماد سے ایسی صورت حال پیدا ہو گی جس سے اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ناقص تغذیہ میں مبتلا ہو جائیں گے۔ جو لوگ پروٹینی فاقہ سے دو چار ہوں گے ، جسمانی تکلیفوں کے علاوہ ان کے ذہنوں پر اس کے اثرات پڑیں گے اور بچوں کی ذہنی صلاحیت پوری طرح نشوونما نہیں پا سکے گی۔

انڈین اکسپریس نے مزید لکھا تھا کہ اس کو دیکھتے ہوئے موجودہ زرعی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مگر اصل مسئلہ ان حد بندیوں (limitations) کا ہے جن میں حکومت کو کام کرنا ہو گا۔ زرعی پیداوار کو حیوانی پروٹین میں تبدیل کرنا بے حد مہنگا ہے۔ حکومت نے اگرچہ متوازن خوراک اور گوشت ، انڈے اور مچھلی کے زیادہ استعمال کی ایک مہم چلائی ہے۔ مگر اس کے باوجود عوام اپنی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے میں سست ہیں (انڈین ایکسپریس 7 ستمبر 1967)

ڈاکٹر سوامی ناتھن کا مذکورہ بیان اخبارات میں چھپا تو ہندستان میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ حتی کہ کچھ انتہا پسند لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر سوامی ناتھن ایگریکلچرل انسٹی ٹیوٹ کے عہدہ سے استعفا دیں ، کیونکہ وہ اس قومی ادارہ کی صورت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر سوامی ناتھن بالکل خاموش ہو گئے اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان کے روایتی مذہب میں جان کو مارنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور چونکہ گوشت کو غذا بنانے کے لیے جاندا ر کو مارنا پڑتا ہے ، اس لیے روایتی طور پر یہاں سبزی خوری (vegetarianism) کو معیاری خوراک قرار دیا گیا ہے۔ خاص طور پر گائے یہاں کے روایتی مذہب میں ایک مقدس جانور ہے۔ رگ وید میں گائے کو دیوی (goddess) بتایا گیا ہے (EB-3/206)۔اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر موحدانہ عقیدہ کس طرح انسانی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔

ہندستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس بے شمار وسائل اور امکانات موجود ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب تک صحیح معنوںمیں ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا۔ اس کی واحد وجہ اس قسم کی مشرکانہ بندشیں ہیں جنھوں نے اس کی ترقی کا راستہ روک رکھا ہے۔ یہ راستہ اس وقت تک رکا رہے گا جب تک ملک کو ان غیر حقیقی بندشوں سے آزادنہ کیا جائے۔

سائنس کا ظہور

یورپ کی تاریخ میں چھٹی صدی عیسوی سے لے کر دسویں صدی عیسوی تک کے زمانہ کو تاریک دور(Dark Ages) کہا جاتا ہے۔یہ وہ زمانہ ہے جب کہ یورپ تہذیب وتمدن سے کامل طور پر دور تھا۔ یہ یورپ کے لیے ذہنی تاریکی اور وحشت کا دور تھا

A period of intellectual darkness and barbarity (EB-3/380)

مگر اس تاریک دور کا تعلق صرف یورپ سے تھا۔ عین اس وقت جب کہ یورپ پر ’’ تاریک دور ‘‘ کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، اسلامی دنیا میں تہذیب کی روشنی پوری طرح موجود تھی۔ برٹرینڈر سل کے الفاظ میں ، ٹھیک اسی زمانہ میں ، ہندستان سے اسپین تک اسلام کی عالیشان تہذیب ظہور میں آچکی تھی

From India to Spain, the brilliant civilization if Islam flourished . (p. 395)

یہ اسلامی تہذیب جو سسلی اور اسپین میں داخل ہو کر یورپ کے اندر تک پہنچ چکی تھی ، اس نے یورپ کے لوگوں کو متاثر کیا۔ مغربی یورپ کے طلبہ اسپین کی اسلامی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے آنے لگے۔ مسلم دنیا کے بہت سے لوگ نکل کر یورپ پہنچے۔ جب یورپ والوں کو معلوم ہوا کہ مسلمان علم کے اعتبار سے ان سے بہت آگے جا چکے ہیں تو انھوں نے مسلمانوں کی کتابوں کا ترجمہ لاتینی زبان میں کرنا شروع کیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایسے کتب خانے تھے جن کی کتابوں کی تعداد 000،100جلدوں سے زیادہ تھی۔ وہ تمام بنیادی لٹریچر جس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کو ابھارا ، وہ مسلم لائبریریوں کی عربی کتابوں کے ترجمہ سے حاصل کیا گیا تھا

Most of the classical  literature that spurred the European Renaissance was obtained from translations of Arabic manuscripts in Muslim libraries . (EB-15/646).

موجودہ زمانہ میں کثر ت سے ایسے محققین پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے واضح لفظوں میں اس واقعہ کا اعتراف کیا ہے کہ عربوں کی تحقیقات کے ذریعے یورپ میں جدید سائنس کا دور شروع ہوا، مثلاً گستاولی باں ، رابرٹ بریفالٹ ، جے ایم رابرٹس، مانٹگومری واٹ وغیرہ۔

اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ یہاں جو بات کہی جا رہی ہے وہ عالمی طور پر ایک تسلیم شدہ بات ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے جس واقعہ کو ’’ تاریخ مسلم ‘‘ میں لکھ رکھا ہے ، اس کے متعلق ہمارا کہنا ہے کہ اس کو ’’تاریخ اسلام ‘‘ میں لکھا جائے۔ اس کو انسان کے خانہ سے نکال کر خدا کے خانے میں ڈال دیا جائے۔

چند مثالیں

قدیم زمانے میں مشرکانہ عقائد کے تحت چیزوں کو مقدس مان لیا گیا تھا۔ اس ذہن نے چیزوں کے بارے میں آزادانہ غوروفکر کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔ توحید کے انقلاب نے تاریخ میں پہلی بار آزاد انہ غوروفکر کا ماحول پیدا کیا۔ ہر معاملہ میں بے روک ٹوک تحقیق اور مطالعہ کیا جانے لگا۔ اس طرح توحید کے انقلاب نے تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ طور پر سائنسی غوروفکر کی بنیاد رکھی۔ ا س سے پہلے بھی اگرچہ انفرادی سطح پر بعض اشخاص نے سائنس کی تحقیق کی تھی مگر ماحول ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے ان کو پذیرائی نہیں ملی۔ اور ان کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔

عام طور پر دور بین کا موجد گلیلیو(وفات 1642 ء ) کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ ابو اسحاق ابراہیم بن جندب (وفات767ء ) نے افلاک کا مطالعہ کیا۔ اس نے دو ر کی چیزوں کو دیکھنے کے لیے کچھ اصول اخذ کیے اور اس کے مطابق ایک دور بینی آلہ ایجاد کیا۔ گلیلیو نے اس ابتدائی دور بین کو مزید ترقی دی۔ یہ فن آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ موجودہ زمانے کی الیکٹرانک دور بینوں تک جا پہنچا۔

جدید سائنس کی بنیاد تجربات پر ہے۔ مگر قدیم زمانہ میں مختلف قسم کے توہماتی عقائد تجربات کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ جابربن حیان (وفات 817ء ) نے تجربہ کی اہمیت کو سمجھا اور اس کو علمی مطالعہ میں استعمال کیا۔ اس کی تحریریں ترجمہ ہو کر یورپ میں پہنچیں۔ یہ ذہن ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی جس کو موجودہ زمانے میں تجرباتی علم (experimental knowledge) کہا جاتا ہے۔

موجودہ زمانہ میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ زمین سورج کے گرد گول دائرہ میں نہیں گھومتی بلکہ بیضوی صورت کے مدار میں گھومتی ہے۔ سیاروں کی یہ حرکت آج کپلر کے تیسرے قانون (Kepler's third law) کے نام سے مشہور ہے۔ مگر اس کائناتی واقعہ کو ابتدائی طور پر جس نے دریافت کیا، وہ ابو عبد اللہ محمد بن جابر البنانی (وفات929 ء ) ہے۔ اس نے اپنے فلکیاتی مشاہدات کے ذریعہ ا س حقیقت کو معلوم کیا اور اس کے بارے میں کتاب لکھی۔ اس کی کتاب ترجمہ ہو کر یورپ پہنچی اور جدید تجرباتی سائنس کو ظہور میں لانے کا سبب بنی۔

ابو علی حسن بن الہیثم (وفات 1021ء) تاریخ میں پہلا شخص ہے، جس نے مادی اجسام میں جمود (inertia) کا تصور دیا۔ اس کی یہ دریافت ترجمہ ہو کر یورپ پہنچی۔ وہاں کے اہل علم نے اس کو پڑھا، اور اس پر مزید تحقیقات کی۔ یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی، جس کو مادی اجسام کی حرکت کے بارے میں نیوٹن کے پہلے قانون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دراصل ابن الہیثم ہی ہے، جس نے اولاً یہ دریافت کیا کہ روشنی ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے ایسا راستہ منتخب کرتی ہے، جس میں کم سے کم وقت لگے۔ یہی دریافت ہے جو موجودہ زمانہ میں فرما کے اصول (Fermat's principle) کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔

زمین کی عمر

زمین پر انسان کے ظہور کی قطعی تاریخ سائنس دانوں کو معلوم نہیں۔ تاہم انھوں نے ایسے انسانی ڈھانچے دریافت کیے ہیں، جن کے متعلق ان کا یقین ہے کہ وہ دس ہزار سال قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس بنا پر اس معاملہ میں بائبل کے بیان کو سائنس داں تسلیم نہیں کرتی۔ بائبل کی کتاب پیدائش میں انسانی نسلوں کی جو تاریخیں دی گئی ہیں اس کے مطابق زمین پر آدم کا ظہور حضرت مسیح سے 37 سو سال پہلے ہوا۔ حتی کہ 1975 کے عبرانی کلینڈر میں حساب لگا کر بتایا گیا تھا کہ انسان ابتدامیں زمین پر 3657 سال پہلے ظہور میں آیا۔ جدید سائنس کے نزدیک یہ حساب مضحکہ خیز حد تک غلط ہے۔

عیسائی حضرات نے اس طرح زمین کی پوری تاریخ کو ، بائبل کے مطابق ، صرف کچھ ہزار سالوں میں سمیٹ دیا تھا۔ اس حساب کے سائنسی طور پر غلط ہونے کا اظہار اٹھارویں صدی میں جیمز ہٹن (James Hutton)  کی تحقیقات سے ہوا جو طبقات الارض کا ماہر تھا۔ اس نے اپنی ساری عمر چٹانوں اور زمین کی بناوٹ کا مطالعہ کیا۔ اس نے ثابت کیا کہ زمین اپنی موجودہ شکل میں کروروں سال کے اندر تیار ہوئی ہے۔

اس کے بعد انیسویں صدی میں چارلس لائل (Charles Lyell)  کے مشاہدات نے ہٹن کے نظریہ کی مزید تصدیق کی۔ چارلس لائل کی مشہور و معروف کتاب طبقات الا رض کے اصول (Principles of Geology) جس کی پہلی جلد 1830میں شائع ہوئی، وہ بڑی حد تک اس کا سبب بنی کہ بائبل کا حسابی پیمانہ سنجیدہ بحث کے قابل نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لائل کی کتابوں کا نتیجہ تھا کہ وسیع تر دنیااس پر مطمئن ہو گئی کہ بائبل کا بیان غلط ہو سکتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے یہ ناقابل قیاس تھا کہ بائبل کے بیان کو غلط سمجھا جائے

Indeed, Lyell's books were largely responsible for convincing the world at large that the Bible could be wrong, at any rate in  some respects, a hitherto unthinkable thought . (p. 29)

اس قسم کے نظریات یورپ کی علمی ترقی میں رکاوٹ بن گئے۔ جس شخص نے بھی اس سے مختلف نظریہ پیش کیا ، اس کو غیر مقدس بتا کر اس کو مستوجب سزا قرار دے دیا گیا۔ مگر اسلام میں اس قسم کے غیر واقعی نظریات موجود نہ تھے ، یہی وجہ ہے کہ اسپین میں جب اسلام کے زیر اثر سائنسی تحقیق کا کام شروع ہوا تو وہاں انھیں مذہب کی طرف سے کوئی مخالفت پیش نہ آئی۔

یونانی علوم

یورپ کا جدید ترقیاتی عہد 14-17 ویں صدی میں شروع ہوا، جس کو عام طور پر ریناساں (Renaissance) کہا جاتا ہے۔اس کے معنی نشاۃ ثانیہ (Rebirth) یا  ازسر نو زندگی (Revival) کے ہیں۔ اہل یورپ اپنے اس دور کا رشتہ ایک مغربی ملک یونان سے جوڑتے ہیں۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ کا دور جدید دراصل یونان کے دور قدیم کا احیاء ثانی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ’’احیاء ‘‘ ہے، نہ کہ احیاء ثانی۔ وہ یورپ کی تاریخ میں پہلی بار پیش آیا۔چنانچہ منصف مزاج محققین نے تسلیم کیا ہے کہ مغرب کی ریناساں براہ راست طور پر عربوں کی دین ہے۔ بریفالٹ نے لکھا ہے کہ ہماری سائنس کے لیے عربوں کی دَین صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے انقلابی نظریات دیے۔ سائنس کے لیے عرب کلچر کی دَین اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہ اپنے وجود کے لیے عربوں کی مرہون منت ہے

The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories. Science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence.  (Making of Humanity, 190)

بریفالٹ نے مزید لکھا ہے کہ یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ عربوں کے بغیر جدید صنعتی تہذیب سرے سے پیدا ہی نہ ہوتی

It is highly probable that but for the Arabs, modern industrial civilization would never have arisen at all.  (p. 202)

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگا ر نے لکھا ہے کہ کتب خانہ اسلامی معاشرہ کا ایک اہم پہلو تھا۔ کثرت سے ایسے ادارے موجود تھے جن کے یہاں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود ہوتی تھیں۔ وہ بنیادی لٹریچر جس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ پیدا کی ، اس کا بڑا حصہ مسلم لائبریریوں کی عربی کتابوں کے ترجمہ سے حاصل کیا گیا تھا

Most of the classical literature that spurred the European Renaissance was obtained from translations of Arabic manuscripts in Muslim libraries . (EB-15/646)

کچھ لوگوں کے نزدیک ،عربوں کا کارنامہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انھوں نے یونانی علم کو بذریعہ ترجمہ یورپ کی طرف منتقل کیا۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ یونانی کلچر کا دھارا اسپین اور سسلی کے عربوں کے ذریعہ یورپ کی طرف موڑ دیا گیا ، جہاں اس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے میں مدد دی

This stream  (of Greek culture) was redirected into Europe by the Arabs in Spain and Sicily, whence it helped create the Renaissance of Europe . (p. 307)

مگر یہ بات صحیح نہیں۔ کیوں کہ یونانی فلسفیوں سے عربوں کو جو چیز ملی تھی وہ نظری بحثیں تھیں نہ کہ تجربی علم ، بالفاظ دیگر انھوں نے یونانیوں سے فلسفہ پایا تھا۔ انھوں نے یونانیوں سے سائنس نہیں پائی تھی جس کا ان کے یہاں وجود ہی نہ تھا۔ سائنس یا تجربی علم مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ وہ اس علم تک تاریخ میں پہلی بار پہنچے۔ اور دوسری اقوام کو (بشمول یورپ ) اسے منتقل کیا۔

برٹر ینڈرسل نے درست طور پر لکھا ہے کہ سائنس ، عربوں کے وقت تک دو پہلو رکھتی تھی۔  (1) ہم کو اس قابل بنانا کہ ہم چیزوں کو جانیں۔ (2) ہم کو اس قابل بنانا کہ ہم چیزوں کو کریں۔ یونانی ، باستثناء ار شمید س، ان دو میں سے صرف پہلی چیز سے دلچسپی رکھتے تھے۔ سائنس کے عملی استعمالات میں دلچسپی اولاً توہم پرستی اور جادو کے ذریعہ آئی

Science, ever since the time of the Arabs, has had two functions: (1)  to enable us to know things, and  (2) to enable us to do things. The Greeks, with the exception of Archimedes, were only interestd in the first of these.... interested in the first of these…Interest in the practical uses of science came first through superstition and magic.   (The Impact of Science on Society, p. 29)

برٹر ینڈرسل نے مزید لکھا ہے کہ آج کے ایک تعلیم یافتہ کو یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ کسی بات کو ماننے سے پہلے مشاہدہ کے ذریعہ اس کی تحقیق کی جائے نہ کہ محض تقلیدی طور پر اس کو مان لیا جائے۔ مگر یہ مکمل طور پر ایک جدید نقطہ نظر ہے ،جو بمشکل ہی 17 ویں صدی سے پہلے اپنا وجود رکھتا تھا۔ ارسطو نے دعویٰ کیا کہ عورتوں کے منھ میں کم دانت ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس نے دو شادیاں کیں ، وہ ایسا نہ کر سکا کہ اپنی بیوی کے منھ کو کھول کر دیکھے اور مشاہدہ کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرے۔ برٹر ینڈرسل نے اس قسم کی بہت سی مثالیں دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ارسطو نے بلا تحقیق بہت سی باتیں کہہ دیں اور بعد کے لوگ بھی بد ستور بلا تحقیق ان باتوں کو دہراتے رہے۔ (صفحہ 17)

ذہنی روک

سائنس کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کی ماہیت جاننے کے لیے گہرائی کے ساتھ ان کا مشاہدہ اور تجربہ کیا جائے۔ مگر یونانیوں میں اور دوسری قدیم قوموں میں اس کا ماحول موجود نہ تھا۔ کیوں کہ خدا کے سوا دوسری چیزوں میں بھی تقدس کو ماننے کی بنا پر ایسا ہوا کہ تمام چیزیں لوگوں کی نظر میں مقدس اور پر اسرار ہو گئی تھیں۔ اس کے نتیجے میں ہر قوم کے اندر جادو اور توہم پرستی اور غیر اللہ کی تقدیس کا عام رواج ہو گیا تھا۔ یہ ذہن اشیاء کی سائنسی تحقیق میں مانع بن گیا۔ اگر لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بیٹھا ہوا ہو کہ واقعات جادو کے زور پر ہوتے ہیں یا چیزوں میں پر اسرار قسم کے دیوتائی اوصاف چھپے ہوئے ہیں ،تو ایسی حالت میں ان کے اندر تحقیق کا ذہن نہیں ابھر سکتا۔ ایسی حالت میں وہی چیز ابھرے گی، جس کو برٹرینڈر سل نے جادو اور توہم پرستی سے تعبیر کیا ہے۔

قدیم زمانے کے عرب خود بھی اسی قسم کے توہمات میں مبتلا تھے۔ یہ توہمات دوسری قوموں کی طرح خود ان کے لیے بھی ایک ذہنی روک (mental block) بنا ہوا تھا۔ اسلام کے ذریعہ جب ان کے اندر فکری انقلاب آیا تو ان کے درمیان سے اس ذہنی روک کا خاتمہ ہو گیا۔ اب وہ چیز کو صرف چیز کے روپ میں دیکھنے لگے جب کہ اس سے پہلے ہر چیز انھیں مقدس اور پر اسرار دکھائی دے رہی تھی۔ یہی وہ فکری انقلاب ہے جس نے عربوں میں پہلی بار سائنسی ذہن پیدا کیا اور اس میں ترقی کر کے وہ ساری دنیا کے لیے اس چیز کو دینے والے بنے جس کو موجودہ زمانہ میں سائنس کہاجاتا ہے۔

علوم طبیعی

آرنلڈ ٹوائن بی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سائنس فطرت کو استعمال کرنے کا علم ہے ، یہ فطرت کروروں سال سے ہماری دنیا میں موجود تھی۔ پھر فطر ت کو کنٹرول کرنے اور اس کو انسان کے استعمال میں لانے میں اتنی دیر کیوں لگی۔ پھر اس نے خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ قدیم زمانے میں فطرت انسان کے لیے پر ستش کا موضوع بنی ہوئی تھی۔ اور جس چیز کو انسان پرستش کی چیز سمجھ لے ، عین اسی وقت وہ اس کو استعمال اور تسخیر کی چیز نہیں سمجھ سکتا۔

آرنلڈ ٹوائن بی نے بجا طور پر لکھا ہے کہ قدیم انسان کے لیے فطرت صرف فطری ذرائع کے ایک ذخیرہ کے ہم معنی نہ تھی۔ بلکہ وہ دیوتا تھی ، وہ اس کے لیے مادرِ گیتی تھی۔ اور زمین پر پھیلی ہوئی نباتات، اس کی سطح پر گھومنے والے حیوانات ،اس کے اندر چھپی ہوئی معدنیات، سب کی سب خدائی اوصاف کی مالک تھیں۔ یہی حال تمام فطری مظاہر کا تھا۔ چشمے اور ندیاں اور سمندر ، پہاڑ زلزلے اور بجلی کی گرج اور چمک، سب دیوی دیوتا تھے۔ یہی قدیم زمانہ میں تمام انسانیت کا مذہب تھا

For  (the ancient man) nature was not just a treasure trove of ‘‘natural resources” but a goddess, ‘‘Mother Earth”. And the vegetation that sprang from the earth, the animals that roamed the earth’s surface, and the minerals hiding in the earth's bowels, all partook of nature's divinity. So did allnatural phenomenon—springs and rivers and the sea; mountains; earthquakes and lightening and thunder. Such was the original religion of all mankind.

(Arnold J. Toynbee, Reader’s Digest, March 1974)

جس فطرت کو انسان معبود کی نظر سے دیکھتا ہو ، اس کو وہ تحقیق اور تسخیر کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ ٹوائن بی نے مذکورہ تاریخی واقعہ کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ فطرت کے تقدس کے اس دور کو جس نے ختم کیا وہ توحید (mnotheism)کا عقیدہ تھا۔ توحید کے عقیدے نے فطرت کو معبود کے مقام سے اتار کر مخلوق کے مقام پر رکھ دیا۔ فطرت کے مظاہر کو پرستش کی چیز قرار دینے کے بجائے اس کو تسخیر کی چیز قرار دے دیا۔

توحید کا یہ نظریہ پچھلے دور میں تمام پیغمبر پیش کرتے رہے ہیں۔ تاہم پچھلے پیغمبروں کے زمانہ میں توحید کی تحریک صرف شخصی اعلان تک محدود رہی ، وہ انقلاب عام کے مرحلہ تک نہیں پہنچی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی کوششوں نے توحید کے عقیدہ کو انقلاب عام کے مرحلے تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر فطرت کے بارے میں تقدس کا ذہن ختم ہو گیا۔ اب انسان نے فطرت کو اس نظر سے دیکھنا شروع کیا کہ وہ اس کو جانے اور اس کو اپنے کام میں لائے۔ یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ سائنسی دور تک پہنچ گیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے فزیکل سائنس کی تاریخ کے تحت لکھا ہے کہ یونانی سائنس دوسری صدی عیسوی کے بعد تعطل کا شکار ہو گئی۔ کیونکہ رومیوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ سماجی دباؤ ، سیاسی سختی ، اور چرچ کے ذمہ داروں کی مخالف پالیسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ یونانی علما اپنے وطن کو چھوڑ کر مشرق کی طرف چلے گئے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلام کو عروج ہوا تو اسلامی دنیا میں آخر کار اس قسم کے علما کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ بیشتر یونانی کتابیں عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ عربوں نے قدیم یونانی علم پر کچھ بہت اہم اضافے کیے۔ بارہویں اور تیرہویں صدی میں جب مغربی یورپ میں یونانی علوم سے دلچسپی پیدا ہوئی تو یورپی اہل علم سائنسی علوم کی تحصیل کے لیے مسلم اسپین جانے لگے۔ عربی کتابوں کے لاتینی ترجموں سے مغربی یورپ میں سائنس کا احیاء ہوا۔ قرون وسطی کے یہ اہل علم اعلیٰ کمال کے درجہ تک پہنچے اور انھوں نے سولھویں اور سترہویں صدی کے سائنسی انقلاب کی زمین تیار کی

Scientists of the Middle Ages reached high levels of sophistication and  prepared the ground for the scientific revolution of the 16th and 17th centuries . (EB-14/385)

موسیولیباں (Charles-Marie Gustave Le Bon, 1841-1931) نے ’’تمدن عرب‘‘ میں لکھا ہے کہ یورپ میں عربی علوم صلیبی جنگوں کے ذریعہ نہیں پہنچے ۔ بلکہ اندلس ، سسلی اور اٹلی کے ذریعہ سے پہنچے۔ 1130 ء میں طلیطلہ کے رئیس الا ساقفہ ریموں(Remond) کی سر پرستی میں مترجمین کا ایک ادارہ قائم ہوا، جس نے مختلف فنون کی مشہور عربی کتابوں کا ترجمہ لاتینی زبان میں کیا۔ ان ترجموں سے یورپ کی آنکھوں کو ایک نئی دنیا نظر آنے لگی۔

چودہویں صدی تک اس ترجمہ کا سلسلہ جاری رہا۔ نہ صرف رازی ، ابن سینا اور ابن رشد وغیرہ کی کتابیں بلکہ جالینوس ، بقراط، افلاطون، ارسطو، اقلیدس ، بطلیموس وغیرہ کی کتابوں کا بھی عربی ترجموں سے لاتینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ڈاکٹر گلکرک نے اپنی تاریخ میں تین سو سے زیادہ عربی کتابوں کے لاتینی ترجموں کا ذکر کیا ہے۔ (تمدن عرب )

دوسرے مغربی علما نے مزید کھل کر اس تاریخی حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً رابرٹ بریفالٹ (Robert Stephen Briffault, 1874-1948) نے لکھا ہے کہ یونانیوں نے سسٹم پیدا کیا۔انھوں نے تعمیم کی اور اصول مقرر کیے۔ مگر مفصل اور طویل مشاہدہ کی مشقت اور تجرباتی تحقیق یونانی مزاج کے لیے بالکل اجنبی تھی۔ جس چیز کو ہم سائنس کہتے ہیں وہ نئے تجرباتی اور مشاہداتی اور حسابی طریقوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور یہ چیز یورپ کو عربوں کے ذریعہ سے ملی۔ جدید سائنس اسلامی تہذیب کی سب سے زیادہ عظیم دین ہے۔ اس قسم کی تفصیلات دیتے ہوئے بریفالٹ نے کہا ہے کہ ہماری سائنس پر عربوں کا جو احسان ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے ہم کو انقلابی نظریات کی بابت حیرت خیز دریافتیں عطا کیں۔ سائنس اس سے بھی زیادہ عرب کلچر کی احسان مند ہے ، وہ یہ کہ اس کے بغیر جدید سائنس کا وجود ہی نہ ہوتا

The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Briffault, The Making of Humanity)

جارج سارٹن (George Sarton) جو کہ علوم سائنس کا مشہور مورخ ہے ، اس نے لکھا ہے کہ قرون وسطیٰ کی سب سے زیادہ بنیادی اور سب سے زیادہ واضح کامیابی تجرباتی روح کو پیدا کرنا تھا۔اور یہ روح اصلاً مسلمانوں نے پیدا کی جو بارھویں صدی عیسوی تک جاری رہی۔

اسلام کی دَین

اسلام نے اس سلسلہ میں دو اہم ترین کام انجام دیا ہے۔ ان میں سے ایک ہے ذہنی رکاوٹ  (mental block) کو دور کرنا۔ جو ترقی کی طرف سفر کرنے میں مانع بنی ہوئی تھی۔ دوسرے ، نئے ترقیاتی دور کا عملی آغاز کرنا۔ ذہنی رکاوٹ کو دور کرنے سے مراد اشیا کو تقدس کے مقام سے ہٹانا تھا۔ یہ بلا شبہ سب سے زیادہ مشکل کام تھا۔ یہ کام دورِ نبوت میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں پوری طرح انجام پا گیا۔

عملی آغاز کا کام اگرچہ پہلے دور میں شروع ہو چکا تھا ، تاہم اس کا باقاعدہ آغاز عباسی دور حکومت میں بیت الحکمت کے قیام (832ء) کے ساتھ ہوا۔ اس کے بعد اسپین اور سسلی میں عربوں کی حکومت کے زمانہ میں مزید طاقت کے ساتھ جاری رہا، اور آخر کار یورپ میں پہنچ کر جدید صنعتی انقلاب کا باعث بنا۔

یہ بات عام طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ موجودہ ترقیوں کا تعلق صنعتی انقلاب سے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ تمام ترقیاں صنعتی انقلاب کے بطن سے ظاہر ہوئی ہیں۔ اور خود صنعتی انقلاب زمین کے اندر چھپی ہوئی طاقتوں کے استعمال کا دوسرا نام ہے۔ انسان نے کوئلہ کو انرجی میں تبدیل کیا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی سے جنریٹر چلا کر بجلی تیار کی۔ اس نے معدنی اشیاء کو نکال کر انھیں مشینوں کی صورت میں ڈھالا۔ اس طرح صنعتی انقلاب وجود میں آیا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں تو لاکھوں سال سے زمین کے اوپر موجود تھیں ، پھر اسلام سے پہلے کا انسان ان پر وہ عمل کیوں نہ کر سکا جس کے نتیجہ میں وہ ان سے ترقی یافتہ تمدن کو تشکیل دیتا۔ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ ’’شرک ‘‘ اس عمل کی راہ میں مانع تھا۔

شرک کیا ہے ، شرک نام ہے مظاہر فطرت کی پرستش کا۔بالفاظ دیگر، فطرت کی چیزوں کو مقدس ماننے کا ذہن۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام معلوم زمانوں میں انسان مظاہر فطرت کو معبود سمجھ کر ان کا پر ستار بنا ہوا تھا۔ یونانی تہذیب ، مصری تہذیب ، رومی تہذیب ، ایرانی تہذیب۔ غرض دور قدیم کی تمام تہذیبیں مشرکانہ تہذیبیں تھیں۔ دنیا کا ہر نمایاں واقعہ ، خواہ وہ زمین اور دریا اور پہاڑ ہو یا سورج اور چاند اور ستارے، سب کے سب انسان کے لیے پر ستش کا موضوع (object of worship) بنے ہوئے تھے۔ اسلام نے ان چیزوں کو پرستش کے مقام سے ہٹا کر تحقیق کا موضوع (object of investigation)بنایا۔ اس کے بعد ہی اس چیز کا آغاز ہوا، جس کو سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔

باب سوم

نظام شمسی

علم کی ترقی کے لیے آزاد انہ تحقیق کا ماحول انتہائی طور پر ضروری ہے۔ قدیم زمانے میں مختلف قسم کے خود ساختہ عقائد کی وجہ سے آزادانہ تحقیق کا ماحول باقی نہیں رہا تھا۔ قدیم زمانے میں بار بار ایسا ہوا کہ ایک ذہین اور صاحب علم آدمی غوروفکر کرتے ہوئے کسی حقیقت تک پہنچا۔ مگر جب اس نے اپنا خیال لوگوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اس کو اپنے توہماتی عقائد کے غیر موافق پا کر اس کے مخالف بلکہ دشمن بن گئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا فکر مزید آگے نہ بڑھ سکا۔

یونان کے فلسفی سقراط (Socrates) کو زبردستی زہر کا پیالہ پلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ— ان دیوتاؤں کو نظر انداز کرتا ہے جس کو شہر ایتھنز کے لوگ پوجتے ہیں۔ وہ مذہب میں نئے نئے طریقے نکالتا ہے ، وہ یونان کے نوجوانوں کے ذہن کو خراب کر رہا ہے۔ سقراط کو ہلاک کرنے کا یہ واقعہ 399قبل مسیح میں پیش آیا۔

گلیلیو نے زمین کی گردش کے نظریہ کی تائید کی تو رومی کلیسا اس کا سخت دشمن ہو گیا۔ اس پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا یا گیا۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ اس کو موت سے کم کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ اس نے فلکیاتی نظریہ سے توبہ کر لی۔ اس نے رومی کلیسا کی عدالت کے سامنے ان الفاظ میں اپنے رجوع کا اعلان کیا

’’ میں گلیلیو ، عمر 70سال ، آپ لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر انجیل مقدس کو گواہ بنا کر اس پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں ، اور زمین کی حرکت کے بعیداز حقیقت دعوے سے دست بردار ہوتا ہوں ، اس سے انکار کرتا ہوں اور اس نظریہ کو قابل نفرت خیال کرتا ہوں ‘‘۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہ تھا۔ اس زمانہ میں مسیحی علما کا یہی عام طریقہ تھا۔ نئی حقیقتوں کی کھوج اور فطرت کے رازوں کی تلاش جس کا نام سائنس ہے ، ان کو انھوں نے صدیوں تک ممنوع بنائے رکھا۔ ایسی چیزوں کو کالا علم ، جادو ، اور شیطانی تعلیم بتایا جاتا تھا۔ ان حالات میں نا ممکن تھا کہ تحقیق وتلاش کا عمل مفید طور پر جاری رہ سکے۔ قرون وسطی میں یہ کام پہلی بار مسلمانوں کے ذریعہ شروع ہوا۔ کیونکہ قرآن کی تعلیمات نے ان کے ذہن سے وہ تمام رکاوٹیں ختم کر دیں جو گلیلیو جیسے لوگوں کی راہ میں حائل تھیں۔ اس کی ایک مثال نظام شمسی کی گردش کا معاملہ ہے۔ اس معاملہ میں صحیح نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی پہلی بار اسلامی انقلاب کے بعد ہوئی، اور پھر مزید ترقی کرتے ہوئے وہ جدید دریافت تک پہنچی۔

 قدیم یونان میں ایک عالم فلکیات گزرا ہے، جس کو ارسٹارکس  (Aristarchus of Samos) کہا جاتا ہے۔ اس کا انتقال 270ق م میں ہوا۔ اس نے شمسی نظام کا مطالعہ کیا، اور غالباً پہلی بار آفتاب مرکزی(Heliocentric) نظریہ پیش کیا۔ یعنی یہ کہ سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ تاہم اس کے نظریہ کو لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔

اس کے بعد بطلیموس (Ptolemy) پیدا ہوا۔ اس کا زمانہ دوسری صدی عیسوی ہے۔ بطلیموس نے اس کے بر عکس زمین مرکزی (geocentric) نظریہ پیش کیا۔ یعنی یہ کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہاہے۔

زمین مرکزی نظریہ مسیحی حضرات کو اپنے اس عقیدہ کے عین مطابق محسوس ہوا جو انھوں نے حضرت مسیح کے بعد بنایا تھا۔ اور جس کی تصدیق آخری طور پر 325ء میں نیقیا (Nicaea) کی کونسل میں ہوئی۔ قسطنطین اعظم (280-337) کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد عیسائیت سارے رومی علاقہ میں پھیل گئی ، اور اس کو زبردست اقتدار حاصل ہو گیا۔ اب مسیحی حضرات نے بطلیموس کے نظریہ کی خصوصی سر پرستی کی ، اور ارسٹارکس کے نظریہ کو مکمل طور پر تاریکی میں ڈال دیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے الفاظ ہیں ، اس کے بعد اس نقشہ کائنات میں مزید غوروفکر کا موقع باقی نہ رہا۔ 17 ویں صدی عیسوی کے آخر تک تقریباً ہر جگہ یہی نظریہ پڑھایا جاتا رہا

There was no further scope for cosmology in the model, which continued to be taught and used almost everywhere until the 17th century . (EB-18/1013)

مگر مسلمان جو غیر مقدس کو مقدس سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہیں تھے ، انھوں نے اس معاملہ پر کھلے ذہن کے ساتھ خالص علمی انداز میں غور کیا ، انھوں نے پایا کہ آفتاب مرکزی نظریہ زیادہ قرین عقل ہے ، چنانچہ انھوں نے اس کو اختیار کر لیا۔ 

ایڈورڈ میکنال برنس (Edward McNall Burns) نے اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نظریہ کہ سورج ہمارے شمسی نظام کے مرکز میں ہے ، اب ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔ یہ نظریہ ابتداء ً ارسٹارکس (230-310 ق م ) نے پیش کیا تھا۔ مگر تقریباً چار سو سال بعد ارسٹارکس کا نظریہ دب گیا۔ اور بطلیموس کا زمین مرکزی نظریہ غالب آگیا۔ اس کے بعد 12 سو سال سے بھی زیادہ مدت تک بطلیموس کا نظریہ ساری دنیا میں لوگوں کے ذہنوں پر چھایا رہا۔ 1496ء میں کو پرنیکس نے بتایا کہ زمین ہماری دنیا کا مرکز نہیں ہے۔ تحقیق اور فلکیاتی مطالعہ کے بعد کوپر نیکس اس نتیجہ پر پہنچا کہ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ مگر چرچ کی مخالفت کے اندیشہ کی بنا پر وہ اپنی تحقیقات کے نتائج کو شائع کرنے سے 1543 تک رکا رہا۔

اسپینی مسلمانوں نے کسی اور مضمون کو اتنی ترقی نہیں دی جتنی سائنس کو۔ درحقیقت اس میدان میں ان کی کامیابی نہایت اعلیٰ تھیں، جو اب تک دیکھی نہیں گئی تھیں۔ اسپینی مسلمان فلکیات ، ریاضیات ، طبیعیات ، کیمسٹری اور طب میں ممتاز ترین علمی درجہ رکھتے تھے۔ ارسطو کے احترام کے باوجود وہ اس سے نہیں ہچکچائے کہ وہ اس نظریہ پر تنقید کریں کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ انھوں نے اس امکان کو تسلیم کیا کہ زمین اپنے محور پر گردش کرتی ہوئی سورج کے گرد گھوم رہی ہے

Despite their reverence for Aristotle, they did not hesitate to criticize his notion of a universe of concentric spheres with the earth at the centre, and they admitted the possibility that the earth rotates on its axis and revolves around the sun .

(Edward Mc Nall Burns, Western Civilization, W.W. Norton & Company Inc, New York, 1995, pp. 36)

نظام شمسی کے بارے میں مسلمانوں کا صحیح نظریہ تک پہنچنا، صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ اسلام نے پابندیٔ فکر کے اس ماحول کو توڑ دیا، جو انسان کے لیے ذہنی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ مصنوعی بندشوں کے ختم ہوتے ہی انسانی فکر کا قافلہ تیزی سے ترقی کی طرف سفر کرنے لگا اور بالآخر اس مرحلہ تک پہنچا جہاں وہ بیسویں صدی میں ہم کو نظر آرہا ہے۔

فن طب

انسان ہر دور میں بیمار ہوتے رہے ہیں۔ اس بنا پر فن طب بھی کسی نہ کسی طور پر ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ مگر قدیم زمانہ میں کبھی فن طب کو وہ اعلیٰ ترقی نہ مل سکی، جو اسلام کے بعد کے دور ہیں ، اور پھر موجودہ زمانے میں اس کو حاصل ہوئی۔

کہا جاتا ہے کہ طب کا آغاز ، قابل لحاظ صورت میں ، قدیم یونان میں ہوا۔ قدیم یونان میں دو بہت بڑے بڑے طبیب پیداہوئے۔ ایک،بقراط (Hippocrates) اور دوسرے ، جالینوس۔ بقراط کا زمانہ پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح ہے۔ تاہم بقراط کی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔ بعد کے لوگوں نے تخمینی طور پر یہ اندازہ لگایا ہے کہ بقراط غالباً 460 ق م میں پیدا ہوا ، اور غالباً 377 ق م میں اس کی وفات ہوئی۔ حتیٰ کہ بعض محققین کو اس کے تاریخی شخصیت (historical figure)  ہونے پر شبہ ہے۔ فلسفہ اور طب کی جو کتابیں اس کے نام سے مشہور ہیں ، ان کے متعلق بھی یہ شبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسی کی لکھی ہوئی ہیں یا دوسروں نے لکھ کر ان کو بقراط کے نام سے موسوم کر دیا ہے۔ (EB-8/942-43)

جالینوس (Galen) دور قدیم کا دوسرا اہم ترین فلسفی اور طبیب سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے عقلی طب (rational medicine) کی بنیاد رکھی۔ جالینوس غالباً 129ء میں پیدا ہوا ، اور غالباً 199ء میں اس کی وفات ہوئی۔ روم میں جالینوس کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جالینوس کی بیشتر تحریریں ضائع ہو گئیں۔ بقیہ بھی ضائع ہو گئی ہوتیں۔ یہ صرف عرب تھے جنھوں نے نویں صدی عیسوی میں ازسر نو اس کے یونانی مخطوطات کو جمع کیا اور ان کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کے بعد گیارھویں صدی میں یہ ترجمے یورپ میں پہنچے اور ان کو عربی سے لاتینی میں منتقل کیا گیا۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے جالینوس کے بارے میں اپنا مقالہ ان الفاظ پر ختم کیا ہے کہ جالینوس کے آخری سالوں کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں

Little is known of Galen's final year. (EB-7/850)

بطور واقعہ یہ بات صحیح ہے کہ قدیم یونان میں کچھ اعلیٰ طبی ذہن پیدا ہوئے۔ مگر بقراط اور جالینوس جیسے لوگوں کا انجام بتاتا ہے کہ قدیم یونان میں وہ حالات موجود نہ تھے جن میں ایسے لوگوں کو اہمیت حاصل ہو سکے۔ اصل یہ ہے کہ قدیم یونان میں طب کی نشوونما کے لیے فضا ساز گار نہ تھی۔ طرح طرح کے توہماتی عقیدے اس طرح کی کھلی تحقیقات کی راہ میں حائل تھے۔ مثلاً بیماریوں کو پر اسرار طاقتوں سے وابستہ کرنا۔ نباتات اور دوا والی اشیا ء میں بہت سی چیزوں کو مقدس مان لینا، وغیرہ۔

یونان میں طب کا آغاز ظہور مسیح کے تقریباً دو سو سال پہلے اور تقریباً دو سوسال بعد کے زمانہ میں ہوا۔ اس طرح یونانی طب کا زمانہ تقریباً چار سو یا پانچ سو سال ہے۔ اس کے بعد خود یونان میں یہ فن مزید آگے نہ بڑھ سکا۔ یونان یورپ کا ایک ملک ہے مگر یونانی طب کا تسلسل بقیہ یورپ میں جاری نہ رہ سکا کہ وہ جدید مغربی طب کے ظہورکا ذریعہ بن سکے۔ یہ واقعہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم یونان کا ماحول طب کی ترقی کے لیے ساز گار نہ تھا۔

یونانی طب جس کو بعض انفرادی شخصیتوں نے پیدا کیا تھا ، وہ اپنے ظہور کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک غیر معروف کتابوں میں بند پڑا رہا۔ یہاں تک کہ عباسی دور میں ان کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔ عربوں نے مزید اضافے کے ساتھ فن طب کو ازسر نو مدون کیا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ یہ فن یورپ میں پہنچے اور جدید میڈیکل سائنس کے ظہور کا ذریعہ بنے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے دنیا میں شرک اور توہم پرستی کا زور تھا۔ اس زمانے کا ماحول اتنا غیر موافق تھا کہ کوئی شخص اگر علمی اور سائنسی تحقیق کرتا تو اس کو لوگوں کی طرف سے حوصلہ افزائی نہیں ملتی تھی۔ اس کو نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس بنا پر اس قسم کی کوششیں اگر انفرادی سطح پر ظاہر بھی ہوتیں تو وہ اکثر دب کر رہ جاتی تھیں۔ لوگ مرض اور علاج کا رشتہ دیوتاؤں سے جوڑے ہوئے تھے۔ ایسی حالت میں سائنسی طریق علاج کی بات لوگوں کو اپیل نہیں کرتی تھی۔ اسلام کے ذریعہ جب دنیا میں توحید کا انقلاب آیا ، اس کے بعد ہی ممکن ہوا کہ طبی ترقی کا وہ دروازہ کھلے جو بالآخر جدید میڈیکل سائنس تک پہنچ جائے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ان لفظوں میں نقل کیا گیا ہے إِنَّ اللهَ لَمْ يُنْزِلْ دَاءًإِلَّا أَنْزَلَ لَهُ دَوَاءً عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ إِلَّا السَّامَ۔قَالُوايَا رَسُولَ اللهِ وَمَا السَّامُ؟ قَالَالْمَوْت ( مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 8220)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بھی مرض اتارا ہے، اسی کے ساتھ اس کی دوا بھی اتاری ہے جس نے اس کو جانا اس نے جانا، اور جو اس سے بے خبر رہا وہ اس سے بے خبر رہا۔ البتہ موت کی کوئی دوا نہیں۔

پیغمبر اسلام کا یہ ارشاد گویا قائد انقلاب کا ارشاد تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنی زبان سے اس طبی حقیقت کا اعلان فرمایا اور دوسری طرف تاریخ عملی طور پر اس کے سانچے میں ڈھلنا شروع ہو گئی۔

ایک مثال

چیچک (Small Pox) دنیا کی ایک خطرناک ترین بیماری سمجھی جاتی ہے۔ اس میں پہلے بخار آتا ہے۔ دو دن کے بعد دانے نکل آتے ہیں۔ یہ ایک وبائی بیماری ہے۔ اور سخت مہلک ہے۔ مزید یہ کہ آدمی اگر اس کے حملے سے بچ جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے آدمی کی کھال کو داغدار بنا دیتی ہے۔

موجودہ ریکارڈ کے مطابق ، یہ بیماری چین میں 1122 ق م میں پائی گئی۔ ہندستان کی قدیم سنسکرت کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ ماضی میں مختلف ملکوں میں یہ بیماری ایک ہولناک وبا کی صورت میں پھوٹتی رہی ہے۔ اس نے بے شمار لوگوں کو اپنا شکار بنایا ہے۔ مصری فرعون  (Ramses V) جس کا انتقال 1156 ق م میں ہوا تھا ، اس کا ممی کیا ہوا جسم ایک اہرام میں پایا گیا ہے۔ اس کے چہرے پر چیچک کے نشانات ہیں (EB-9/280)۔ تاہم ہزاروں برس تک چیچک کے مرض کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی جا سکی تھی۔

اب ہم جانتے ہیں کہ چیچک ایک چھوت کی بیماری ہے۔ وہ وائرس انفکشن (virus infection) سے پیدا ہوتی ہے۔ انسان نے اب یہ دریافت کر لیا ہے کہ ایسی معالجاتی تدبیریں موجود ہیں جن کا پیشگی اہتمام کر لیا جائے تو چیچک کے حملے سے بچا جا سکتا ہے۔

مگر یہ طبی حقیقت پہلی بار اسلام کے ظہور کے بعد صرف نویں صدی عیسوی کے آخر میں معلوم کی جا سکی۔ پہلا واضح نام جس نے تاریخ میں چیچک کا علاج تلاش کیا اور اس کی طبی جانچ کی وہ مشہور عرب طبیب الرازی (865-925ء) ہے۔ وہ رے (ایران ) میں پیدا ہوا۔ اس نے اس مہلک مرض کے بارے میں پہلی طبی کتاب لکھی جس کا نام الجُدری والحسبہ تھا۔ اس کتاب کا ترجمہ قدیم یورپ کی علمی زبان لاتینی میں 1565 میں وینس میں چھپا۔ اس کے بعد یونانی اور دوسری زبانوںمیں ترجمہ ہو کر وہ پورے یورپ میں پھیلی۔ اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے 1848 میں چھپا جس کا نام یہ تھا

A Treatise on the Small-pox and Measles

محققین نے تسلیم کیا ہے کہ الرازی کی یہ کتاب پوری معلوم تاریخ میں چیچک کے بارے میں پہلی طبی کتاب ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع پر کسی شخص نے طبی تحقیق نہیں کی۔

ایڈور ڈجنر (Edward Jenner) نے الرازی کی کتاب کے ترجمے کو پڑھا۔ اس سے اس کے اندر چیچک کے مرض کی طبی تحقیق کا خیال پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ اس نے 1796ء میں ٹیکہ  (Vaccination) کا وہ طریقہ دریافت کیا جس نے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ اب انسان نے چیچک کو کنٹرول کرنے کی تدابیر پر عمل شروع کیا۔ یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی بار 1977 میں اقوام متحدہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ چیچک کے مرض کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

چیچک کی بیماری کو طب اور علاج کا موضوع بنانے میں کئی ہزار سال کی تاخیر کیوں ہوئی۔ اس کا سبب وہی چیز تھی جس کو مذہبی اصطلاح میں شرک کہا جاتا ہے۔ یعنی غیر مقدس کو مقدس سمجھنا یا غیر خدا میں خدائی اوصاف فرض کرنا۔ ڈاکٹر دیوڈ ورنر (David Werner) کے الفاظ میں

In most places in India, people believe that these diseases are caused because the goddess is angry with their family or their community. The goddess expresses her anger through the diseases. The people believe that the only hope of cure for these diseases is by giving her offerings in order to please her. They do not feed the sick child or care for him because they fear this will annoy the goddess more. So the sick child becomes very weak and either dies or takes  a long time to get cured. These diseases are caused by virus infection. It is essential that the child be given plenty of food to keep up his strength so that he can fight the infection .

قدیم زمانے کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ چیچک اور خسرہ کی بیماریاں دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی کی بنا پر پید اہوتی ہیں۔ کسی خاندان یا قوم سے جب دیوی دیوتا ناراض ہوتے ہیں تو ان کو اس مہلک بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ وہ اس بیماری کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس عقیدے کی بنا پر لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اس بیماری سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دیوی دیوتاؤں کو نذرانے پیش کیے جائیں تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور خوش ہو کر بیماری کو ہٹا دیں۔ اس عقیدے کی بنا پر وہ قصداً مریض کو کچھ کھلانے اور علاج کی تدبیر سوچنے سے پرہیز کرتے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے دیوی دیوتا اور زیادہ ناراض ہو جائیں گے۔

اسلام نے جب مرض کے بارے میں اس توهّم (superstitious belief)کو توڑا ، اور یہ بتایا کہ ایک خدا کے سوا کسی کو بھی نفع یا نقصان کا کوئی اختیار نہیں۔ خالق صرف ایک ہے۔ اس کے سوا جو ہیں وہ سب مخلوق اور بندے ہیں۔اسلامی انقلاب کے بعد جب انسان کے اندر یہ ذہن ابھرا ، اور اس نے دیوتائی مفروضات سے آزاد ہو کر سوچنا شروع کیا ، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ چیچک پر طبی تحقیق کی جائے اور اس کا علاج معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔

جب دنیا میں یہ فکری انقلاب آیا ، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ چیچک کو طبی تحقیق اور علاج کا موضوع بنایا جائے۔ اس کے بعد ہی یہ امکان پید اہو کر ابو بکر رازی اور ایڈورڈ جنر جیسے افراد اٹھیں اور چیچک کا علاج دریافت کر کے انسانیت کو اس مہلک مرض سے نجات دلائیں۔ چیچک کے علاج کی دریافت تک پہنچنے میں اصل رکاوٹ (barrier) مشرکانہ مفروضات تھے ، اور ان مفروضات کو تاریخ میں جس نے پہلی بار ختم کیا وہ بلا شبہ اسلام تھا۔

فن طب کے سلسلہ میں مسلمانوں کے کارنامے پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس۔ ان کتابوں میں مسلمانوں کے طبی کارناموں کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔

علم اللسان

        زبان کے بارے میں توہماتی عقائد کی بنا پر علم اللسان ماضی میں سخت نا مساعد حالات کا شکار رہا ہے۔ حتی کہ ہزاروں سال تک اس کی ترقی رکی رہی۔ علم لسان کے ایک ماھر ڈاکٹر گلز  (Dr. Ernest Gellner) نے لکھا ہے کہ فلسفہ لسانیات میں الٹا طرز فکر پایا جاتا ہے۔ وہ حقیقی خیالات کو بیماری سمجھتا ہے۔ اور مردہ خیالات اس کے نزدیک صحت کا نمونہ ہیں

Linguistic philosophy has an inverted vision which treats genuine thought as a disease and dead thought as a paradigm of health.

قدیم زمانے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تحریر (خط ) دیوتاؤں کا عطیہ ہے۔ مثلاً ہندستان میں ’’ برہم لیپی ‘‘ کا عقیدہ۔ الفاظ اور ترکیبیں دیوتاؤں کی مقرر کردہ ہیں، اور اس بنا پر وہ اعلیٰ ترین تعظیم (Highest veneration) کی مستحق ہیں۔ جان اسٹونس (John Stevens) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے مشرق کی مقدس کتابت

Sacred Calligraphy of the East

اس میں اس نے اپنی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ مقدس خط کا عقیدہ صدیوں تک دنیا میں جاری رہا ہے۔ اس بارے میں تو محققین کے درمیان اختلاف ہے کہ فن تحریر اولاً کہاں پیدا ہوا۔ مصر میں یا چین میں یا ہندستان میں، یا کسی اور مقام پر۔ تاہم اس امر میں علما لغت متفق ہیں کہ تمام قدیم قوموں میں یہ عقیدہ مشترک طور پر پایا جاتا رہا ہے کہ تحریر خدائی چیز ہے۔ یہ اپنی ذات میں مقدس ہے۔ تحریر دیوتاؤں کی زبان ہے

One idea, however, is common to all ancient systems. Writing is divine. It is inherently holy. Writing is the speech of the gods.

تاریخ بتاتی ہے کہ انسانی زبانیں ہزاروں سال تک توہمات (superstitions) کاشکار رہی ہیں۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ بعض زبانیں خدائی اصل  (divine origin) رکھتی ہیں، اور ان کے بولنے والوں کو دوسری زبانوں پر خصوصی درجہ حاصل ہے۔ مثلاً یونانی زبان کے متعلق عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ وہ تمام دوسری زبانوں سے اعلیٰ ہے۔ وہ دیوتاؤں کی زبان ہے۔ دوسری زبانیں اس کے مقابلے میں وحشیوں کی زبانیں ہیں ، وغیرہ۔

یہی معاملہ عبرانی کا ہوا۔ یہودی اور مسیحی دنیا میں صدیوں تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ عبرانی زبان خدا کی اپنی زبان ہے۔ وہ سب سے پہلے دنیامیں بولی گئی۔ ونڈرلی اور نیڈاز بانوں پر مسیحی عقائد کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جن عوام نے لسانی ترقی کو روکا ،ان میں سے ایک قدیم مسیحی مؤلفین کا یہ عقیدہ تھا، جو نشاۃ ثانیہ کے دور میں شدت سے چھایا رہا کہ دنیا کی تمام زبانیں عبرانی سے نکلی ہیں

One of the factors which retarded linguistic progress was the belief among early Christian writers and persisting well into the Renaissance era, that all languages were derived from Hebrew. (William L. Wonderly and Eugene Nida in  ‘‘Linguistic and Christian Mission’’ Anthropological Linguistics, vol. 5, pp. 104-144)

چنانچہ صدیوں تک یورپ کے علمائے لسان لا حاصل طور پر عبرانی کی افضلیت ثابت کرنے کی کوششوں میں مشغول رہے۔ وہ ہر زبان کا رشتہ عبرانی سے ثابت کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم اللسان ترقی نہ کر سکا۔ اٹھارھویں صدی میں جب یہ فکر مغلوب ہو گیا، اس وقت یورپ کی مختلف زبانوں کا علم اللسان ترقی کرنا شروع ہوا۔

خدائی زبان (divine language)کا تصور مکمل طور پر توہمات کی پیداوار ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جب کسی زبان کی بابت یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ خدا کی یاد یوتاؤں کی زبان ہے ، تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ مقدس زبان کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔اب وہ لوگوں کی نظر میں قابل احترام ہوتی ہے، نہ کہ قابل تحقیق۔ اس کے بعد اس زبان کا تنقیدی جائزہ لینا ، اس کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کسی نئے انداز کی وکالت کرنا، سب بدعت قرار پاتا ہے۔ وہ اس کے تقدس کو توڑنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسی ہر تحقیق لوگوں کو بے جا جسارت نظر آنے لگتی ہے نہ کہ اس کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش۔

یہ صورت جو زبانوں کے ساتھ پیش آئی ، یہی قدیم زمانہ میں دوسرے تمام انسانی شعبوں کا بھی حال رہا ہے۔ بے شمار قسم کے توہماتی عقائد تھے جنھوں نے انسان کی فکری ترقی کو روک رکھا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار جس نے اس بند کو توڑا وہ توحید کا انقلاب تھا جو پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کے ذریعه رونما ہوا۔

یہ انقلاب اولاً عرب میں پیدا ہوا۔ اس کے بعد اس کے اثرات ساری دنیا میں پہنچے۔ انسانی تاریخ توہم پرستی کے دور سے نکل کر حقیقت پسندی کے دور میں داخل ہو گئی۔

قرآن میں جب اعلان کیا گیا کہ ایک اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، تو اسی وقت سائٹفک طرزِ فکر کا آغاز ہو گیا۔ لوگ غیر واقعی ذہنی بندششوں سے آزاد ہو کر چیزوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ یہ طرزِ فکر بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ موجودہ سائنسی انقلاب تک پہنچا۔

ایک اللہ کو الہٰ ماننا اور دوسری تمام چیزوں کو الہٰ کا درجہ دینے سے انکار کرنا ، یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور چیز کو تقدس کا مقام حاصل نہیں۔ ایک اللہ کے سوا جتنی چیزیں ہیں ، وہ سب یکساں درجہ میں مخلوق اور بے اختیار ہیں۔ دوسری چیزوں کو مقدس درجہ دینا، انھیں تحقیق وتسخیر کا موضوع بنانے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اس کے برعکس، ان چیزوں کو غیر مقدس قرار دینا انھیں تحقیق وتسخیر کا موضوع بنانے کا باعث بن گیا۔ یہی اسلام کا وہ خاص کارنامہ ہے، جو اس کو دور جدید کا خالق ٹھہرا رہا ہے۔

علم اعداد

        اعداد (ہندسہ ) کا موجودہ طریقہ ابتدا میں ہندستان میں بعض افراد نے ایجاد کیا۔ تاہم یہ زمانہ وہ تھا جب کہ ہر مروجہ چیز کو مقدس سمجھ لیا جاتا تھا ، اور ہر نئی چیز کو شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ہندسہ کا یہ طریقہ اس وقت ہندستان میں رواج نہ پا سکا۔ وہ صرف بعض انفرادی کتابوں میں بند ہو کر رہ گیا۔ لوگ قدیم طریقے کو مقدس سمجھ کر اس کو پکڑے رہے ، وہ نئے طریقے کو اختیا ر نہ کر سکے۔

        اس کے بعد ہندسہ کے ان واضعین کو معلوم ہوا کہ بغداد میں ایک سلطنت قائم ہوئی ہے، جو نئی چیزوں کی قدر دانی کرتی ہے۔ چنانچہ ایک ہندستانی 154ھ (771ء ) میں سفر کر کے بغداد گیا۔ اس وقت بغداد میں عباسی خلیفہ المنصور کی حکومت تھی۔ ہندستانی پنڈت نے المنصور کی خدمت میں دو سنسکرت رسالے پیش کیے۔ ان میں سے ایک سِدّھاتناکے بارے میں تھا۔ اس کو عربوں نے سِندهند کا نام دیا۔ اس کا دوسرا رسالہ ریاضی کے بارے میں تھا۔

        المنصور کے حکم سے محمد بن ابراہیم انفرادی نے 796-806ء کے درمیان ان کا عربی ترجمہ کیا۔ الخوارزمی (780-850ء ) نے اس عربی ترجمہ کو پڑھا اور اس کے ذریعہ ہندی ہندسہ سے واقفیت حاصل کی جس میں بنیادی گنتی نو (1۔9) تک تھی۔ اور اس کے بعد صفر کے اضافہ سے تمام گنتیاں بنانے کا طریقہ بتایا گیا تھا۔ الخوارزمی نے اس کو ہندی ہندسہ کہا، اور اس کو اختیار کرنے کی اپیل کی ۔(ہٹی ، صفحہ  307-308)

        الخوارزمی کی کتاب کا لاتینی ترجمہ بارھویں صدی میں اڈیلارڈ (Adelard) نے کیا۔ اس طرح گنتی کا یہ فن یورپ پہنچا۔ عربوں نے اگرچہ اس کو ہندی ہندسہ کہا تھا۔ مگر یورپ میں اس کو عربی گنتی (Arabic numerals) کا نام دیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ الخوارزمی کی عربی کتاب کا نسخہ ضائع ہو گیا ، البتہ اس کا لاتینی ترجمہ اب بھی یورپ کی لائبریریوں میں موجود ہے۔ (ہٹی صفحہ  573-74)

یورپ میں قدیم زمانے میں رومی ہندسہ رائج تھا۔ وہ یورپ میں دو ہزار سال تک رائج رہا۔ یہ علامتی حروف کی شکل میں لکھا جاتا تھا۔ مثلا ً 88 کا عدد لکھنے کی صورت یہ تھی  (LXXXVIII)  اس کے نتیجہ میں حساب کتاب بے حد دشوار تھا۔ مگر اہل یورپ رومی ہندسہ کو مقدس مانتے تھے۔ وہ اس کو دیوتاؤں کا عطیہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ سوچ نہیں پاتے تھے کہ اس کو بدلیں یا اس میں کوئی ترمیم کریں۔ غیر مقدس اعداد کو مقدس ماننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم کے میدان میں وہ سیکڑوں سال تک کوئی ترقی نہ کر سکے۔ یہ اسلامی انقلاب تھا، جس نے پہلی بار اعداد کے تقدس کے طلسم کو توڑا ،اور پھر یورپ میں علمی ترقی کا دور شروع ہوا۔

        لیو نارڈو (Leonardo Fibonacci) غالباً پیسا (اٹلی )میں پیدا ہوا۔ اس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ تاہم بعد کی تاریخ میں اس نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ کیونکہ یہی وہ شخص ہے، جس نے عرب اعداد کو یورپ میں روشناس کرایا۔ اس کا زمانہ بارھویں اور تیرھویں صدی کے درمیان ہے۔

        لیونارڈ کا باپ الجیریا میں تجارت کرتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو ایک عر ب استاد کے حوالے کر دیا، تاکہ وہ اس کو حساب کی تعلیم دے۔ عرب استاد نے لیو نارڈ کو ’’ہندسہ ‘‘ کا علم سکھایا۔ اس کے بعد لیونارڈ نے مصر ، شام ، سسلی وغیرہ کا سفر کیا۔ اس نے الخوارزمی کی تحریریں پڑھیں۔ عرب اعداد سے پوری واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس نے کتابیں لکھ کر ان کو اس سے متعارف کرایا۔ اس نے بتایا کہ اس اصول کے مطابق نو بنیادی گنتیاں ہیں 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8، 9۔ ان گنتیوں پر صفر  کا اضافہ کر کے کوئی بھی عدد بنایا جا سکتا ہے۔

یہ طریقہ بہت جلد یورپ میں تجارتی حسابات کے لیے استعمال ہونے لگا۔ 1220ء میں لیونارڈ کی شہرت اتنی بڑھی کہ اٹلی کے بادشاہ فریڈرک (Frederick) نے اس کو اپنے دربارمیں بلایا۔ وہاں اس نے بادشاہ کے سامنے اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربی ٹائپ (Arabic Type)  پیش کیے۔ عرب اعداد کے طریقہ کو جن لوگوں نے یورپ میں شائع کیا۔ ان میں لیو نارڈ کا نام سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ (EB-10/817-18) 

ولفرڈ بلنٹ (Wilfrid Blunt) نے لکھا ہے — فرض کرو کہ اگر اسلام کا طوفان نہ آیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ کوئی بھی چیز نہیں ہے جس نے مغرب میں سائنس کی ترقی کو اتنا روکا ہو جتنا کہ بے ڈھنگے رومی ہندسہ نے۔ عربی ہندسہ جو کہ آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ہندستان سے بغداد پہنچا تھا ، اگر وہ جلد ہی بعد مغربی یورپ پہنچ جاتا، اور یہاں اس کو اختیار کر لیا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بہت سی سائنسی ترقی جس کو اٹلی کی نشاۃ ثانیہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ چند سو سال پہلے حاصل ہو جاتی

And supposing the tide of Islam had not been stemmed. Nothing so delayed the advance of science in the West as the clumsiness of the Roman numerals. Had the Arabic numerals, which had reached Baghdad from India towards the end of the eighth century, been soon afterwards introduced into and adopted by western Europe as a whole, much of that scientific progress which we associate with the Renaissance in Italy might have been achieved several centuries earlier. Wilfrid Blunt, The Times  (London, April 2,1976)

ایک وضاحت

نئی دہلی سے ایک انگریزی کتاب چھپی ہے۔ وہ بچوں اور عام قارئین کے لیے ہے اور 22 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا نام ہے — زیرو کی کہانی

Dilip M. Salwi, Story of Zero, Children's Book Trust

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ زیرو کا تصور انڈیا میں دریافت کیا گیا۔ اس سے پہلے بڑی گنتیوں کو بتانے کے لیے کوئی آسان طریقہ موجود نہ تھا۔ ایک طریقہ کے مطابق ، کچھ خاص گنتیوں کے لیے بعض الفاظ مقرر تھے۔ مثلا سہا سرا (1000)آیوتا (10000)لکشا (100000) کوٹی (10000000) ، وغیرہ۔ زیرو کی ایجاد نے علم الحساب میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دی۔ اب بڑی گنتیوں کو بتانا نہایت آسان ہو گیا۔

برہما گپت (598-660) ملتان میں پیدا ہوا۔ اس نے پہلی بار زیرو (صفر ) کا طریقہ مقرر کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس کے طریقہ میں کچھ خامی تھی۔ اس کے بعد بھاسکر (1114-1185) بیجا پور میں پیدا ہوا۔ اس نے سنسکرت میں ایک کتاب ’’لیلاوتی ‘‘ لکھی۔ اس کتاب میں زیرو کے اصول کو زیادہ سادہ اور آسان انداز میں بیان کیا گیا تھا۔

مسٹر آر کے مورتی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بات ہمارے قومی فخر کے احساس کو بڑھاتی ہے کہ زیرو کا نظریہ انڈیا میں پیدا ہوا

It boosts our sense of national pride to note that the zero was conceived in india . (Times of India, January 30, 1989, p. 6)

مصنف اس کتاب کے ذریعہ اپنے قارئین کو بتاتے ہیں کہ ہندستانی گنتی پہلے ہندستان سے اسپین میں داخل ہوئی۔ پھر وہ اٹلی ، فرانس ، انگلینڈ اور جرمنی پہنچی۔ ہندستانی گنتی کو مغرب میں پوری طرح قبول کر لیا گیا۔ ان کی قبولیت ریاضی اور سائنس کے لیے ایک نقطہ انقلاب بن گئی

The Indian numbers first entered Spain, then Italy, France, England and Germany... Indian numbers were accepted completely... Their adoption turned to the turning point in the history of mathematics and science.

یہ صحیح ہے کہ زیرو (صفر ) کا تصور ابتداء ً انڈیا میں پیدا ہوا۔ مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ ہندستان سے براہ راست مغربی دنیامیں پہنچا۔ یہ طریقہ عربوں کے ذریعہ مغربی دنیا میں پہنچا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اس کو ہندستانی گنتی کے بجائے عربی گنتی (Arabic numerals) کہا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں

Arabic numerals — the numbers, 0,1,2,3,4,5,6,7,8,9;  they may have originated in India but were introduced to the western world from Arabia . (EB-1/469)

عربی اعداد ، یعنی صفر سے لے کر 9 تک گنتی کی ایجاد، ہو سکتا ہے کہ انڈیا میں ہوئی ہو، مگر مغربی دنیا میں وہ عرب کے ذریعے پہنچے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا دوسری جگہ بتاتی ہے کہ یورپ کے تعلیم یافتہ طبقے تک یہ اعداد نویں صدی عیسوی کے عرب ریاضی داں الخوارزمی کی تحریروں کے ذریعہ پہنچے۔ الخوارزمی نے ہندستانی گنتی کے اصول کو عربی میں لکھا۔ پھر یہ عربی کتاب لاتینی میں ترجمہ ہو کر یورپ تک پہنچی۔  (EB 10/817)

برٹر ینڈرسل نے لکھا ہے کہ محمد بن موسی الخوارزمی نے جو ریاضی اور فلکیات کی سنسکرت کتابوں کا ایک عرب مترجم تھا، 830 ء میں ایک کتاب شائع کی۔ بارھویں صدی عیسوی میں اس کتاب کا ترجمہ عربی سے لاتینی زبان میں کیا گیا۔ یہی کتاب تھی جس سے مغرب نے پہلی بار اس چیز کو جانا جس کو ہم عرب اعداد کہتے ہیں۔ اگرچہ با عتبار حقیقت اس کو ہندستانی اعداد کہنا چاہیے۔ اسی مصنف (الخوارزمی ) نے الجبرا پر ایک کتاب لکھی جو سولھویں صدی تک مغرب میں نصاب کی کتاب کے طور پر استعمال کی جاتی رہی۔

Bertrand Russell: A History of Western Philosophy,  London 1984,  p. 416

 زیرو کا نظریہ اگرچہ انڈیا میں بنا۔ مگر کئی سو سال تک اس کو خود انڈیا میں مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ انڈیا میں بھی اس کی مقبولیت اس وقت بڑھی، جب کہ اولاً عربوں نے اور پھر یورپ نے اس کو اختیار کر لیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ یہ ایجاد جو اغلباً ہندوؤں نے کی ، ریاضی کی تاریخ میں زبردست اہمیت رکھتی ہے۔ ہندو لٹریچر اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ زیرو ممکن ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش سے قبل معلوم رہا ہو ، مگر ایسا کوئی کتبہ نہیں پایا گیا ہے، جو نویں صدی سے پہلے کا ہو

The invention, probably by the Hindus, of the digit zero has been described as one of the greatest importance in the history of  mathematics. Hindu literature gives evidence that the zero may have  been known before the birth of Christ, but no inscription has been found with such a symbol before the 9th century  (EB-1/1175).

یہ بات بذات خود صحیح ہے کہ زیرو (صفر ) کو استعمال کرنے کا تصور ابتداء ً ایک ہندستانی ذہن کے اندر پیدا ہوا۔ مگر اُس وقت ہندستان میں مکمل طور پر شرک اور توہم پرستی کا غلبہ تھا۔ ہر چیز کے ساتھ پر اسرار عقائد وابستہ ہو گئے تھے۔ نئی چیزوں کو سخت توحش کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس بنا پر قدیم ہندستان میں صفر کے تصور کو عمومی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ انفرادی دریافت بن کر رہ گیا ، اجتماعی مقبولیت کے درجہ تک نہیں پہنچا۔

اسلام نے جب شرک اور توہم پرستی کے ماحول کو ختم کیا تو وہاں جس طرح دوسری نئی چیزوں کو پذیرائی ملی ، اسی طرح صفر کے تصور کو بھی پذیرائی ملی۔ ہندستان کے بیج کو موافق زمین مسلم بغداد میں ملی۔ وہاں وہ درخت بنا، اور پھر مسلمانوں ہی کے ذریعہ اسپین پہنچ کر پورے یورپ میں پھیل گیا۔

زراعت وآبپاشی

قدیم زمانے میں فطرت کے جن مظاہر کو خدائی اوصاف کا حامل سمجھ لیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک دریا تھا۔ دریاؤں کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ ان کے اندر پر اسرار قسم کی خدائی روح پائی جاتی ہے۔ یہی روح دریاؤں کو چلاتی ہے ، اور دریاؤں کو انسان کے لیے نفع بخش یا نقصان رساں بناتی ہے۔ (EB-17/129)

قدیم یونان میں سکا منڈ روز (Skamandros)دریا کے متعلق یہ عقیدہ تھا کہ وہ تولید اور زرخیزی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چنانچہ 14 ویں صدی قبل مسیح کا ایک یونانی مقرر کہتا ہے کہ ہماری لڑکیاں شادی سے پہلے اس مقدس دریا میں نہاتی ہیں ، اور کہتی ہیں کہ ’’سکا منڈروز ، میرے کنوار پن کو قبول کر ‘‘۔ مختلف ملکوں میں ایسی ساحرانہ رسوم ادا کرنے کا رواج رہا ہے ، جس میں دریا کا پانی عورت کو حاملہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ (EB-12/882)

دریاؤں کو مقدس ماننے کی وجہ سے یہ ہوا کہ لوگ دریاؤں کو پوجنے لگے۔ وہ ان کے نام پر نذر اور قربانی پیش کرنے لگے۔ اس طرح دریاؤں کی تقدیس کے نظریے نے دریاؤں کی تسخیر کا ذہن پیدا ہونے نہیں دیا۔ لوگ دریاؤں کو مقدس دیوتا کے روپ میں دیکھتے تھے، نہ کہ ایک عام طبیعی واقعہ کے روپ میں جس کو سادہ انسانی تدبیر کے ذریعہ استعمال کیا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں دریاؤں کا زرعی استعمال نہایت محدود رہا۔ آب پاشی (irrigation) کی تاریخ حیرت انگیز طور پر انسان کی جدید تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔

اسلام کے ذریعہ جب توحید کا انقلاب آیا، اور انسان پر یہ کھلا کہ دریا ایک مخلوق ہے، نہ کہ خالق۔ وہ ایک بندہ ہے، نہ کہ خدا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ انسان بڑے پیمانے پر دریاؤں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی بات سوچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں یہ پڑھتے ہیں کہ اسپین کے مسلمانوں نے جتنے بڑے پیمانہ پر آب پاشی کا نظام قائم کیا، اس کی کوئی دوسری مثال ان سے پہلے کسی قوم میں نہیں ملتی۔

اسپین کے مسلمانوں نے زراعت کو اس قدر ترقی دی کہ وہ ایک مکمل فن بن گیا۔ انھوں نے درختوں کا مطالعہ کیا، اور زمین کی خاصیت سے واقفیت حاصل کی۔ اسپین کے لاکھوں مربع میل جو ویران پڑے ہوئے تھے ، مسلمانوں نے ان کو میوہ دار درختوں اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی صورت میں بدل دیا۔ چاول ، گنا ، روئی ، زعفران ، انار ، آڑو ، شفتا لو ،وغیرہ جو موجودہ اسپین میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، وہ مسلمانوں ہی کے ذریعہ اسپین کو ملے۔ انھوں نے اندلوسیہ اور اشبیلیہ کے صوبوں میں زیتون اور خرما کی کاشت کو زبردست ترقی دی۔ غرناطہ اور مالقا کے علاقوں میں انگوروں کی پیداوار بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔

چارلس سینو بوس (فرانسیسی مصنف ) نے لکھا ہے کہ اسپینی عربوں نے نہروں کے ذریعہ آبپاشی کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے بڑے بڑے کنویں کھدوائے۔ جنھوں نے پانی کے نئے منبع کا پتہ چلایا ان کوانعامات دئے۔

مختلف قطعات زمین میں پانی کی تقسیم کی اصطلاحیں وضع کیں۔ اسپین میں آبپاشی کے لیے بڑی بڑی نہریں بنوائیں اور پھر ان سے چھوٹی چھوٹی شاخیں نکالیں۔ ان کی بدولت بلنیہ (Valencia) کا بنجر میدانی علاقہ سر سبز وشاداب علاقہ بن گیا۔ انھوں نے نہر کا مستقل محکمہ قائم کیا، جس سے نہروں پر آبپاشی کے متعلق ہر قسم کی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں۔

اسپینی زراعت کو عربوں نے جو ترقی دی، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ یہ زرعی ترقی مسلم اسپین کے شاندار کارناموں میں سے ایک تھی ، اور وہ اس ملک کے لیے عربوں کا ایک مستقل تحفہ تھا۔ اسپینی باغات آج بھی ان کے نشان کے طور پر محفوظ ہیں

This agricultural development was one of the glories of Moslem Spain and one of the Arab’s lasting gifts to the land, for Spanish gardens have preserved to this day a  ‘‘Moorish’’ imprint . (History of the Arabs, p. 528)

برٹرینڈرسل نے مسلم اسپین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب اقتصادیات کی ایک ممتاز صفت ان کی زراعت تھی۔ خاص طور پر ان کا نہایت ماہرانہ انداز میں آبپاشی کا نظام قائم کرنا، جس کو انھوں نے اپنی صحرائی زندگی سے سیکھا تھا، جہاں پانی کی بہت کمی تھی۔ اسپینی زراعت آج تک بھی عرب آب پاشی کے نظام سے فائدہ اٹھا رہی ہے

One of the best features of the Arab economy was agriculture, particularly the skillful use of irrigation, which they learnt from living where water  is scarce. To this day Spanish agriculture profits by Arab irrigation works. (A History of  Western Philosophy, p. 416)

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسپین میں جو مسلمان گئے ، وہاں انھوں نے ایک نیا زرعی انقلاب برپا کر دیا۔ وہاں انھوں نے کھیتوں اور باغوں کی آبپاشی کا ایسا نظام قائم کیا جس کی نظیر ان سے پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ برٹرینڈر سل نے عجیب وغریب طور پر ان کے اس کارنامہ کو ان کی صحرائی زندگی سے جوڑ دیا ہے۔ یہ توجیہ سراسر بے معنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس کارنامے کا اصل سبب وہ موحدانہ انقلاب تھا، جس نے عربوں کے ذہن کو یکسر بدل دیا۔ پچھلے لوگ دریاؤں اور چشموں اور سمندروں کو خدا کے روپ میں دیکھتے تھے۔ وہ ان کو احترام کی چیز سمجھتے تھے، نہ کہ استعمال وتسخیر کی چیز۔ عربوں نے اپنے بدلے ہوئے ذہن کے تحت ان چیزوں کو مخلوق کے روپ میں دیکھا۔ انھوں نے ان کو اس نظر سے دیکھا کہ وہ کس طرح ان کو مسخر کریں ،اور اپنے کام میں لائیں۔ یہی وہ ذہنی انقلاب ہے، جس نے عربوں کو اس قابل بنایا کہ وہ زراعت اور آبپاشی کی دنیامیں تاریخی کارنامہ انجام دے سکیں۔

صحرا کی زندگی جہاں پانی کم پایا جاتا ہو، وہاں آبپاشی کے اصول کس طرح سیکھے جا سکتے ہیں۔ برٹرینڈر سل کو عربوں کی اس صفت کا صحیح ماخذ معلوم نہ تھا، اس لیے بالکل غیر متعلق طور پر اس نے ان کو ان کی بے آب وگیاہ زندگی سے جوڑ دیا۔ حالانکہ صحیح طور پر وہ ان کے اس ذہنی انقلاب سے جڑتا ہے جو توحید کے ذریعہ ان کے اندر پیدا ہوا تھا۔ یہ موحدانہ زندگی کا نتیجہ تھا ،نہ کہ صحرائی زندگی کا نتیجہ۔

علم تاریخ

موجودہ زمانے میں تاریخی مطالعہ کا طریقہ یہ ہے کہ قوم (nation) کو اکائی (unit)  قرار دے کر تاریخ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آرنلڈ ٹوائن بی نے اس میں تبدیلی کر کے یہ کیا ہے کہ تہذیب (civilization) کو تاریخی مطالعہ کے لیے اکائی قرار دینے کی کوشش کی ہے (EB-10/76)۔

تاہم دونوں نظریات کا مشترک خلاصہ ایک ہے۔ دونوں کا مدعا یہ ہے کہ تاریخ کو کسی فرد واحد کے تابع نہ کیا جائے ، بلکہ پورے انسانی گروہ کی تمام سرگرمیوں کو تاریخ کے مطالعہ کا موضوع بنایا جائے۔ علم تاریخ میں یہ ایک زبردست تبدیلی ہے۔ جو صرف پچھلے چند سو سال کے اندر وجود میں آئی ہے۔ موجودہ زمانے کی تاریخ کو اگر انسان نامہ کہا جائے تو قدیم زمانہ کی تاریخ صرف شاہ نامہ ہوتی تھی۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں کی تاریخ کا نام تاریخ ہوتا تھا۔ یہ صرف موجودہ زمانے کی بات ہے کہ تاریخ کو کسی عہد کے علمی ، اقتصادی ، سماجی ، سیاسی اور تمدنی احوال کے مطالعہ کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ گویا قدیم تاریخ انسانیتِ عامہ کی تصغیر تھی۔ اس میں عام انسان قابلِ تذکرہ نہیں تھا۔ تذکرہ کے قابل صرف ایک شخص تھا ، اور وہ وہی تھا، جس کے سر پر بادشاہت کا تاج چمک رہا ہو۔

تاریخ کو شاہ نامہ بنانے کا یہ مزاج اتنا زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ غیر بادشاہوں کے واقعات سرے سے قابل ذکر ہی نہیں سمجھے جاتے تھے ، خواہ بذات خود وہ کتنے ہی زیادہ بڑے کیوں نہ ہو ں۔ اس معاملے کی ایک عجیب مثال وہ ہے، جو پیغمبروں سے متعلق ہے۔ انسانی تاریخ کا شاید سب سے زیادہ عجیب واقعہ یہ ہے کہ تاریخ میں وہی بات لکھنے سے رہ گئی، جو سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی تھی۔ یہ ان مقدس ہستیوں کے حالات ہیں، جن کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ انسانیت کی مدون تاریخ میں بادشاہوں کے مفصل تذکرے ہیں۔ ان کے محلوں سے لے کر ان کے فوجی سرداروں تک کا حال درج ہے۔ مگر خدا کے پیغمبروں نے اپنے زمانے میں جو کام کیا ، اس کا مدوّن انسانی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

اگر ہندستان کی آزادی کی ایسی تاریخ لکھی جائے جس میں مہاتما گاندھی کا نام نہ ہو۔ اگر اشتراکی روس کی ایسی تاریخ لکھی جائے ،جو لینن کے ذکر سے خالی ہو تو ایسی تاریخ لوگوں کو بہت عجیب معلوم ہو گی۔ مگر اسی قسم کا عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کی مدون تاریخ ان روحانی ہستیوں کے تذکرہ سے مکمل طور پر خالی ہے جن کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ اس میں صرف آخری رسول کا استثناء ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے خود اس تاریخ کو بدل دیا جس کے نتیجہ میں ماضی میں بار بار یہ المیہ پیش آرہا تھا۔

ماضی میں یہ عظیم تاریخی فروگذاشت اس لیے ہوئی کہ قدیم مورخین کے نزدیک صرف ’’بادشاہ‘‘ اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات قابل تذکرہ تھے ، اس کے سوا دوسری چیزیں ان کے نزدیک سرے سے اس قابل ہی نہ تھیں کہ ان کا تذکرہ کیا جائے۔

غیر بادشاہوں کا حال یہ تھا کہ ان کے حقیقی واقعات بھی قابل تذکرہ نہیں سمجھے جاتے تھے۔ مگر بادشاہ سے تعلق رکھنے والے فرضی افسانے بھی اس طرح اہتمام کے ساتھ لکھے جاتے تھے گویا کہ وہ بہت بڑی حقیقت ہوں۔ مثال کے طور پر مصر کا ساحلی شہر اسکندر یہ سکندر اعظم نے 332 ق م میں آباد کیا۔ اسی کے نام پر اس کا نام اسکندر یہ (Alexandria) ہے۔

سکندر کے اس ’’ شاہی کا رنامہ ‘‘ کے بارے میں اس وقت کے مورخین نے جو عجیب وغریب کہانیاں لکھی ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ سکندر نے جب سمندر کے ساحل پر اس شہر کو بنانا شروع کیا تو بحری شیاطین نے رکاوٹیں ڈالیں۔ اس کے بعد سکندر نے لکڑی اور شیشہ کا ایک صندوق تیار کرایا۔ اس کے ذریعہ غوطہ لگا کر وہ سمندر کی تہ میں گیا۔ وہاں اس نے سمندری شیاطین کو دیکھ کر ان کی تصویریں بنائیں۔ پھر ان تصویروں کے مطابق ان کے معدنی مجسمے تیار کیے۔ اور ان مجسموں کو اسکندر یہ کی بنیاد میں گاڑ دیا۔ اس کے بعد جب سمندری شیا طین وہاں آئے اور دیکھا کہ ان کی جنس کے لوگوں کو مار کر بنیاد میں دفن کر دیا گیا ہے تو وہ ڈر کر بھاگ گئے۔

اسلام سے پہلے پورے قدیم دور میں یہی تمام دنیا کا حال تھا۔ معلوم انسانی تاریخ میں عرب مؤرخ ابن خلدون (1332-1406ء) پہلا شخص ہے، جس نے تاریخ نویسی کے فن کو بدلا اور تاریخ کو شاہ نامہ کے دور سے نکال کر انسان نامہ کے دور میں داخل کیا۔ اس نے تاریخ کو علم الملوک کے بجائے علم الا جتماع بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ علم جس کو موجودہ زمانے میں علم اجتماع (sociology) کہا جاتا ہے ، وہ ابن خلدون ہی کی دین ہے۔ ابن خلدون نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ایک نئے علم ( علم العمران ) کا بانی ہے ، اور یہ بات بلا اختلاف درست ہے۔

یہ دراصل ابن خلدون ہے جس نے یورپ کو جدید فن تاریخ دیا۔ اور خود ابن خلدون کو جس سے یہ چیز ملی وہ اسلام تھا۔ اسلامی انقلاب نے ابن خلدون کو پیدا کیا اور ابن خلدون نے جدید فن تاریخ کو۔ ابن خلدون نے نظریۂ تاریخ میں جو تبدیلی کی ، اس کا اعتراف بیسویں صدی کے مشہور انگریز مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ابن خلدون نے ایک فلسفۂ تاریخ پید اکیا۔ یہ بلا شبہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا علمی کام ہے جو کبھی بھی کسی ذہن نے کسی زمانہ میں یا کسی مقام پر تخلیق کیا ہو۔

A philosophy of history which is undoubtedly the greatest work of its kind that has ever yet been created by any mind in any time or place . (EB-9/148)

اسی طرح رابرٹ فلنٹ (Robert Flint) نے ان غیر معمولی الفاظ میں اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے کہ تاریخ کے نظریہ ساز کی حیثیت سے وہ کسی بھی دور یا کسی بھی ملک میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، یہاں تک کہ اس کے تین سو سال بعد وائکو (Vico) پیدا ہوا۔ افلاطون ، ارسطو ، آگسٹین اس کے ہم رتبہ نہ تھے

As a theorist on history he had no equal in any age or country until Vico appeared, more than three hundred years later. Plato, Aristotle and Augustine were not his peers .  (EB-9/148)

پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ ابن خلدون کی شہرت اس کے مقدمہ کی وجہ سے ہے۔ اپنی اس کتاب میں اس نے پہلی بار تاریخی حالات کا ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں آب وہوا اور جغرافیہ کے طبیعی حقائق کو علم تاریخ میں قرار واقعی جگہ دی گئی اور اسی کے ساتھ روحانی اور اخلاقی طاقتوں کو بھی جو تاریخ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ قومی عروج وزوال کے قوانین کو وضع کرنے والے کی حیثیت سے ابن خلدون کو اس کا دریافت کنندہ کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے مقدمہ میں خود بھی اپنے آپ کو یہی حیثیت دی ہے۔ اس نے تاریخ کے واقعی امکانات اور اس کی واقعی نوعیت کو دریافت کیا۔ کم از کم علم اجتماع کا وہ حقیقی بانی ہے۔ کوئی عرب مصنف ، حتی کہ کوئی یورپی مصنف ایسا نہیں جس نے کبھی بھی تاریخ کو اس قدر جامع اور فلسفیانہ انداز سے دیکھا ہو۔ ناقدین کی متفقہ رائے کے مطابق ، ابن خلدون سب سے بڑا تاریخی فلسفی تھا جو اسلام نے پیدا کیا۔ بلکہ وہ تمام زمانوں میں پیدا ہونے والے لوگوں میں سب سے بڑے مورخ فلسفی کی حیثیت رکھتا ہے ـ

P.K. Hitti, History of the Arabs, London 1970, p. 568

ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کے پہلے حصے میں عام اجتماعیات کو بیان کیا ہے۔ دوسرے اور تیسرے حصے میںسیاسی اجتماعیات کا بیان ہے۔ چوتھے حصے میں شہری زندگی کی اجتماعیات کا تذکرہ ہے۔ پانچویں حصے میں اقتصادی اجتماعیات کو بیان کیا گیا ہے۔ چھٹے حصے میں علم الا جتماع کا بیان ہے۔ اس کا ہر باب علمی اعتبار سے نہایت اعلیٰ ہے۔ اس طرح وہ ایک ایسے علم تاریخ کی بنیاد رکھتا ہے جو صرف بادشاہوں کے احوال پر مبنی نہ ہو ، بلکہ وسیع تر معنوں میں پوری قوم کی اقتصادیات ، سیاسیات ، تعلیم ، مذہب ، اخلاق اور تمدن پر مبنی ہو۔

علم تاریخ کے محققین نے عام طورپر تسلیم کیا ہے کہ عبد الرحمن ابن خلدون کے ظہور تک فن تاریخ غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑا ہوا تھا۔ ابن خلدون پہلا شخص ہے جس نے جدید فن تاریخ کا آغاز کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود ابن خلدون کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ ایک ایسی چیز کو پائے جس کو اس سے پہلے کا کوئی شخص نہ پا سکا تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دوسرے مورخین اسلامی انقلاب سے پہلے پیدا ہوئے، اور ابن خلدون اسلامی انقلاب کے بعد پیدا ہوا۔ ابن خلدون دراصل اسلامی انقلاب کی پیداوار تھا ، اور یہی وہ چیز ہے جس نے ابن خلدون کو ابن خلدو ن بنایا۔

فن تاریخ کی ترقی میں دوبارہ وہی چیز حائل تھی، جس کو مذہبی اصطلاح میں شرک کہا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے کا پورا زمانہ خدائی بادشاہتوں کا زمانہ ہے۔ کچھ بادشاہ سیدھے سیدھے خدا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، اور لوگوں سے اپنی پرستش کراتے تھے۔ کچھ بادشاہ اپنے آپ کو خدا کی تجسیم یا اس کا نائب قرار دے کر عوام کے اوپر یہ عقیدہ بٹھائے ہوئے تھے کہ ان کو اپنی رعایت پر مطلق حکمرانی کا اختیار حاصل ہے۔ کچھ بادشاہ لفظی طور پر تو خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے تھے ، مگر عملاً ان کی مملکت میں وہی فضا تھی جو دوسرے ملکوں میں پائی جاتی تھی۔ (EB-5/816)

اسلام نے اس صورت حال کو بدلا۔ اسلام نے توحید کی بنیاد پر وہ انقلاب برپا کیا، جس کے بعد بادشاہ اور غیر بادشاہ میں کوئی فرق نہ رہا۔ تمام انسان یکساں طور پر ایک آدم اور حوا کی اولاد قرار پائے۔ مساوات انسانی کے اس عظیم انقلاب کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ کوئی ابن خلدون پیدا ہو جو ’’بادشاہ ‘‘ کو مرکز بنا کر سوچنے کے بجائے انسانیت عامہ کو مرکز بنا کر سوچے اور پھر نئے علم تاریخ کی بنیاد رکھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاجزادے ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10ھ (632 ء ) میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اتفاق سے اسی دن سورج گرہن پڑا۔ قدیم زمانے میں جن توہمات کا رواج تھا ، ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو سورج گرہن یا چاند گرہن پڑتا ہے۔ اس طرح گویا آسمان بڑے انسانوں کی موت پرغم مناتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی حیثیت اس وقت بادشاہ عرب کی تھی۔ چنانچہ مدینہ کے کچھ مسلمانوں نے قدیم تصور کے تحت کہا کہ یہ سورج گرہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فوراً اس کی تردید کی۔ اس سلسلے میں مختلف روایات حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا مُسْتَعْجِلًا إِلَى الْمَسْجِدِ وَقَدْ انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى حَتَّى انْجَلَتْ، ثُمَّ قَالَإِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَقُولُونَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ عُظَمَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا خَلِيقَتَانِ مِنْ خَلْقِهِ، يُحْدِثُ اللهُ فِي خَلْقِهِ مَا يَشَاءُ، فَأَيُّهُمَا انْخَسَفَ فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ أَوْ يُحْدِثَ اللهُ أَمْرًا (سنن النسائی، حدیث نمبر 1490)۔یعنی نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ایک روز نکل کر تیزی سے مسجد کی طرف آئے۔ اس وقت سورج گرہن تھا۔ آپ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ گرہن ختم ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج اور چاند میں گرہن اس وقت لگتا ہے جب کہ زمین کے بڑوں میں سے کسی بڑے کے موت واقع ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سورج اور چاند میں کسی شخص کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ دونوں اللہ کی مخلوقات میں سے دو مخلوق ہیں۔ اللہ اپنی مخلوقات میں جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ پس جب دونوں میں سے کسی میں گرہن لگے تو تم لوگ نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ ختم ہو جائے یا اللہ کوئی بات ظاہر فرمائے۔    

قدیم زمانے کے حکمراں عوام کے ان توہماتی خیالات کی سرپرستی کرتے تھے تاکہ لوگوں کے اوپر ان کی عظمت چھائی رہے۔ معلوم تاریخ میں پیغمبر اسلام پہلے حکمراں ہیں، جنھو ں نے ان توہماتی عقائد کی تردید کی، اور اس کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس طرح آپ نے انسان کو ایک نیا ذہن دیا۔ آپ نے ایک انسان اور دوسرے انسان کے فرق کو فکری اور علمی طور پر ختم کر دیا۔ آپ نے ان مفروضات وتوہمات کو بے بنیاد قرار دے دیا، جن کے ذریعہ اس قسم کے خیالات لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہو گئے تھے۔

جب پورے عرب پر اسلام کا غلبہ ہو گیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخر عمر میں اپنے تقریباً سو ا لاکھ اصحاب کے ساتھ حج ادا فرمایا۔ اس حج میں آپ نے عرفات کے میدان میں وہ تاریخی خطبہ دیا جس کو خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔

یہ خطبہ گویا عرب کے حکمراں کی حیثیت سے دستور انسانی کا عام اعلان تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے لوگو ، سن لو ، تمام لوگ ایک مرد اور عورت سے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان میں جو مختلف قسم کا ظاہری فرق ہے ، وہ صرف پہچان اور تعارف کے لیے ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ با عزت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی کے اوپر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی کے اوپر فضیلت نہیں۔ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت نہیں اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں۔ فضیلت کی چیز صرف تقویٰ ہے (مسند احمد، حدیث نمبر 23489)۔

پھر آپ نے فرمایا کہ سن لو ، جاہلیت کی ہر بات اور ہر معاملہ میرے قدموں کے نیچے روند دیا گیا (أَلا كل شئ من أَمر الْجَاهِلِيَّة تَحت قدمي مَوْضُوع) السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد 4، صفحہ 340۔ قدیم تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ وقت کے ایک حکمراں نے انسانوں کے درمیان ہر قسم کے اونچ نیچ اور ہر قسم کے جھوٹے امتیاز کو عملاً ختم کر دیا۔

اس کے بعد انسانی دنیا میں ایک نئی تہذیب پید اہوئی جس میں تمام انسان برابر کی حیثیت رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو لوگ اسلامی دنیا کے حکمراں بنے۔ وہ اگرچہ قدیم آباد دنیا کے بہت بڑے حصہ کے حکمراں تھے ، مگر مہاتما گاندھی کے الفاظ میں ، وہ اگرچہ ایک وسیع سلطنت کے مالک تھے ، مگر لوگوں کے درمیان وہ فقیروں کی طرح رہتے تھے

Though they  (Abu Bakr and Umar) were masters of vast empire, yet they lived the life of paupers.

یہ انقلاب اتنا طاقتور تھا کہ بعد کے دور میں جب کہ حکومت کے ادارے میں بگاڑ آ گیا ،اور ’’خلیفہ ‘‘ کے بجائے ’’ سلطان ‘‘ ہونے لگے ، تب بھی اسلامی تہذیب کے دباؤ کے تحت یہ حال تھا کہ کوئی سلطان قدیم طرز کا بادشاہ بن کر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس سلسلے میں تاریخ اسلام میں بے شمار واقعات موجود ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک واقعہ نقل کرتے ہیں۔

سلطان عبد الرحمن الثانی (176-238ھ ) مسلم اسپین کا ایک طاقت ور حکمراں تھا۔ اس نے ’’الزہرا ء ‘‘ کے نام سے اتنا بڑا محل بنایا کہ لفظ محل اس کے لیے کم معلوم ہونے لگا۔ چنانچہ اس محل کو قصر الزہراء کے بجائے مدینۃ الزہرا ء کہا جانے لگا۔

سلطان عبدالرحمن ثانی کا واقعہ ہے۔ ایک سال اس نے رمضان کے مہینہ میں ایک روز ہ قضا کر دیا۔ شرعی عذر کے بغیر اس نے ایک روزہ نہیں رکھا۔ تاہم بادشاہ ہونے کے باوجود اس کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو قانون سے برتر سمجھ لے۔ چنانچہ اس نے قرطبہ کے علما کو دربار میں جمع کیا، اور ان کے سامنے اپنا واقعہ بیان کر کے عام آدمی کی طرح ان سے فتویٰ پوچھا۔

علامہ مقری نے لکھا ہے کہ علما کی مجلس میں امام یحیٰ بن یحیٰ بھی موجود تھے۔ اما م یحیٰ نے معاملہ کو سن کر فتویٰ دیا کہ بادشاہ اپنی اس غلطی پر بطور کفارہ متواتر ساٹھ دن تک روزے رکھے۔ جب وہ فتویٰ دے کر محل سے باہر نکلے تو ایک عالم نے کہا کہ حضرت ، شریعت میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم بھی تو موجود ہے۔ پھر آپ نے بادشاہ کو اتنا سخت فتویٰ کیوں دیا۔ آپ یہ فتویٰ بھی تو دے سکتے تھے کہ بادشاہ ایک روزہ کے بدلے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ امام یحیٰ نے کہا کہ بادشاہوں کے لیے ساٹھ آدمی کو کھانا کھلانا کوئی سزا نہیں ( نفح الطیب ،جلد2، صفحہ10-11)۔ چنانچہ تاریخ اندلس بتاتی ہے کہ سلطان عبد الرحمن (الثانی) بن الحكم نے امام یحیٰ کے فتویٰ کو مانتے ہوئے پے درپے ساٹھ روزے رکھے اور کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ حتی کہ امام یحیٰ کو ان کے مذہبی عہدہ سے معزول بھی نہیں کیا۔

یہ اس انقلاب کا اثر تھا جو اسلام نے پیدا کیا۔ اس انقلاب نے بادشاہ اور رعایا کا فرق ختم کر دیا تھا۔ اس انقلاب نے انسانی مساوات کا ایک ماحول بنا دیا تھا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھ سکتا تھا۔ کسی بادشاہ کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنے کو عام انسانوں سے ممتاز قرار دے سکے۔ اور اپنے لیے قانون کی پابندی کی ضرورت نہ سمجھے۔

حالانکہ اسلامی انقلاب سے پہلے یہ ایک تسلیم شدہ بات سمجھی جاتی تھی کہ بادشاہ عام انسانوں سے بلند تر حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً پیغمبر اسلام کا ہم عصر رومی بادشاہ ہر قل (Heraclius) اگرچہ اپنے آپ کو مسیحی کہتا تھا، مگر اس نے اپنی بھانجی سے نکاح کر لیا جو مسیحی شریعت کے خلاف تھا

He had married his niece, Matrina, thus offending the religious scruples of many of his subjects, who viewed his second marriage as incestuous.  (EB-8/782)

لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ ایک حرام ازدواجی تعلق ہے ، مگر اس کے باوجود تمام لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر قل ’’بادشاہ ‘‘ تھا ، اور بادشاہ کو حق تھا کہ وہ جو چاہے کرے ، عام انسانی معیار سے اس کو نا پا نہیں جا سکتا۔

پچھلے زمانے میں مختلف قسم کے توہماتی عقائد کے تحت بادشاہ کی عظمت کا غیر معمولی تصور لوگوں کے ذہنوں پر چھاگیا۔ وہ بادشاہ کو اپنے سے بلند تر کوئی مخلوق سمجھنے لگے۔ خود بادشاہ بھی مخصوص رسوم وآداب کے ذریعہ اس ذہن کی مکمل تصدیق کرتے تھے۔ ان حالات میں بادشاہ کو اپنی مملکت میں وہی مقام عظمت حاصل ہو گیا، جو وسیع تر کائنات میں خدا کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ قدرتی طور پر تاریخ نویسی کافن اس سے متاثر ہوا اور تاریخ عملاً بادشاہوں کے تذکرے کا نام ہو کر رہ گئی۔

عرب میں اور دوسرے ملکوں میں جب اسلامی انقلاب آیا تو اس نے جس طرح سورج چاند کو خدائی منصب سے ہٹایا اسی طرح بادشاہوں کو بھی غیر معمولی عظمت کے مقام سے ہٹا دیا گیا۔ اب بادشاہ بھی اسی طرح ایک انسان تھا ، جس طرح عام لوگ ایک انسان تھے۔

اسلامی انقلاب کے اثرات ایشیا اور افریقہ اور یورپ کے بیشتر آباد دنیا میں پہنچے۔ اس سے عالمی سطح پر ایک نیا ماحول پیدا ہوا۔ لوگوں کے اندر ایک نئی سوچ ابھری۔ قدیم شاہ مرکزی (king-centred) ذہن ختم ہو گیا ، اور اس کی جگہ انسان مرکزی (man-centred)ذہن پیدا ہوا۔ علم تاریخ کے اعتبار سے اس ذہن کا پہلا نمایاں اظہار عبد الرحمن ابن خلدون (1332-1406) تھا۔ انہوں نے العبر کے نام سے عربوں کی تاریخ لکھی تھی ، جس کامفصل نام ہے’’كتاب العبر وديوان المبتدا والخبر في ايام العرب والعجم والبربر ومن عاصرهم من ذوي السلطان الاكبر ‘‘۔موجودہ دور میں یہ کتاب تاریخ ابن خلدون کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔لیکن ابن خلدون کا اصل کارنامہ اس کا فن تاریخ پر وہ مفصل مقدمہ ہے، جو اس نے تاریخ ابن خلدون مقدمہ کے طور پر لکھا ہے۔وہ مقدمہ اصل کتاب سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ الگ سے وہ ’’مقدمہ ابن خلدون ‘‘ کے نام سے بار بار مختلف زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔

مورخ المقر یزی ابن خلدون کا شاگرد تھا۔ ابن خلدون نے 15 ویں صدی عیسوی میں مصر کے اہل علم پر اثر ڈالا۔ اس کے بعد ووسرے مسلم ممالک میں اس کا تاریخی طرز فکر پھیلا۔ 1860 اور 1870 کے درمیان اس کے مقدمہ کا مکمل ترجمہ فرانسیسی زبان میں شائع ہوا۔ اس طرح ابن خلدون کے تاریخی افکار یورپ میں پھیلے۔ یہاں اس کے خیالات کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخر کار سترہویں صدی میں وائکو (Giambattista Vico) اور دوسرے مغربی مورخین پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی جس کو جدید علم تاریخ کہا جاتا ہے۔

مساوات انسانی

تمام فلسفیوں اور مفکروں کا پسندیدہ ترین خواب انسانی برابری اور مساوات ہے۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے انسان ہیں جن کے لائے ہوئے اسلامی انقلاب نے ساری تاریخ میں پہلی بار انسانی مساوات کو عملی طور پر قائم کیا۔ اس کا اعتراف عام طور پر سنجیدہ اہل علم نے کیا ہے۔ مثال کے طور پر سوامی ویویکانند نے اپنے مطبوعہ خط (نمبر 175) میں کہا تھا کہ میرا تجربہ ہے کہ اگر کبھی کوئی مذہب عملی مساوات تک قابل لحاظ درجے میں پہنچا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے

My experience is that if ever any religion approached to this equality in an appreciable manner, it is Islam and Islam alone.

اس تاریخی استثناء کا سبب بھی وہی شرک تھا ،جو دوسری ترقیوں میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ شرک کے غلبے نے انسانوں کے اندر نا برابری قائم کر رکھی تھی ، توحید کے غلبے نے لوگوں کے اندر انسانی برابری کا نظام قائم کر دیا۔

اصل یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان فطری اور طبیعی طور پر بہت سے فرق پائے جاتے ہیں۔مثلاً کوئی کالا ہے، اور کوئی گورا۔ کوئی امیر ہے، اور کوئی غریب۔ کوئی حاکم ہے، اور کوئی محکوم۔ یہ فرق قرآن (الحجرات، 49:13) کے الفاظ میں ، تعارف کے لیے ہے، نہ کہ امتیاز کے لیے۔ یہ فرق درجہ بندی کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ دنیا کا انتظام خوش اسلوبی کے ساتھ قائم ہو۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی اونچے درجے کا ہے، اور کوئی نیچے درجےکا۔ وہ صرف اس لیے ہے کہ اگر اس قسم کا فرق نہ ہو تو دنیا کا متنوع کاروبار خوش اسلوبی کے ساتھ چل نہیں سکتا۔

قدیم زمانے میں شرک کے زیر اثر جو تو ہم پرستی پیدا ہوئی ، اس نے جس طرح طبیعی مظاہر کے بارے میں غیر واقعی نظریات قائم کر لیے ، اسی طرح انسانوں کے بارے میں بھی ساری دنیا میں غیرواقعی نظریات قائم ہوئے ، اور صدیوں کے درمیان پختہ ہو کر وہ قوموں کی روایا ت میں شامل ہو گئے۔ مثلاً اسی کے اثر سے کہیں ذات پات کا عقیدہ بنا۔ کہا گیا کہ کچھ لوگ خد اکے سرسے پیدا ہوئے ہیں، اور کچھ لوگ خدا کے پاؤں سے۔ اس طرح اونچی ذات اور نیچی ذات کی تقسیم رائج ہوئی۔ اسی طرح بادشاہوں کے بارے میں یہ عقیدہ بنا کر وہ دیوتاؤں کی نسل سے ہیں۔ اور عوام اس لیے ہیں کہ ان کی خدمت کریں۔ کہیں یہ نظر یہ وضع ہوا کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر برتر نسل ہیں اور دوسرے لوگ پیدائشی طور پر کم نسل۔

یہ تفریق اور عدم مساوات دوبارہ شرک کی زیرسر پرستی رائج ہوئی اور صدیوں کے عمل سے تاریخ میں اس کا تسلسل قائم ہو گیا۔ حتی کہ یہ ذہن بن گیا کہ جس طرح رات کا تاریک ہونا اور دن کا روشن ہونا مقدرات میں سے ہیں اسی طرح انسانیت کی تفریقات بھی مقدرات میں سے ہیں ، وہ ابدی طور پر اٹل ہیں ، ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

اس دور کو لانے کے لیے شرک اور توہم پرستی کے غلبے کو ختم کرنا تھا۔ مگر ہزاروں پیغمبروں کے آنے کے باوجود وہ ختم نہ ہو سکا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ خاتم الرسل ‘‘ ہونے کا تقاضا تھا کہ اس کو بھی عملاً ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خصوصی نصرت فرمائی اور آپ نے اپنے اصحاب کو ساتھ لے کر وہ فکری اور عالمی انقلاب برپا کیا، جس کے بعد اس نظریے کی جڑ اکھڑ گئی۔ عدم مساوات کا نظریہ ہمیشہ کے لیے بے زمین ہو کر رہ گیا۔

عرب میں شرک کے نظام کو ختم کرنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودا ع کے موقع پر جو تقریر فرمائی اس کے کچھ الفاظ یہ تھے يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى (مسند احمد، حدیث نمبر 2044) و فی روایۃأَبُوكُمْ آدَمُ، وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ( کشف الاستارللہیثمی، حدیث نمبر 2044)۔یعنی کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں۔ کسی کالے کو کسی سرخ پر فضیلت نہیں او رکسی سرخ کو کسی کالے پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ ایک روایت یہ میں ہےتم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمی مٹی سے تھے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان محض ایک وقتی وعظ نہ تھا۔ وہ قیامت تک باقی رہنے والے دین کی طرف سے گویا ایک ابدی اعلان تھا۔ وہ صرف ’’ کیا ہونا چاہیے ‘‘ کی لفظی تلقین نہ تھی ، بلکہ ’’ کیا ہو چکا ہے ‘‘ کی واقعاتی اطلاع تھی۔ چنانچہ ایک طرف یہ اعلان ہوا ، اوردوسری طرف اس پر باقاعدہ عمل شروع ہو گیا۔ انسانیت کے درمیان تفریق کی تمام مصنوعی دیواریں ڈھ پڑیں، اور انسانیت ایک نئی دنیا میں پہنچ گئی، جہاں کوئی اونچ نیچ نہ تھی۔ جہاں اخلاقی صفات کی بنیاد پر آدمی کو سماج میں درجہ ملتا تھا، نہ کہ محض نسلی تعلق یا پیدائشی اتفاق کی بنا پر۔

ایک واقعہ

پہلے زمانے میں جب ایک شخص کو سماجی امتیاز کا تجربہ ہوتا تھا تو وہ اس کو اپنے مقدر کا نتیجہ سمجھ کر چپ رہ جاتا تھا۔ قدیم زمانے میں پہلی بار یہ واقعہ ہوا کہ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں مصر کے مسلمان گورنر (عمرو بن العاص ) کا لڑکا ایک قبطی کو کوڑا مارتا ہے، اور مارتے ہوئے کہتا ہے خذها وأنا ابن الأكرمين(یہ لو، میںایک معزز صاحبزادہ ہوں)۔ اس قبطی کو نئے انقلاب کی خبر تھی۔ چنانچہ وہ مصر سے روانہ ہو کر مدینہ آیا اور خلیفه ثانی عمر فارووق ؓ سے شکایت کی کہ ان کے گورنر کے لڑکے نے ناحق اس کو کوڑے سے مارا ہے۔ خلیفہ ثانی فوراً اپنے ایک خاص آدمی کو مصر بھیجتے ہیں کہ وہاں جاؤ اور عمرو بن العاص اور ان کے لڑکے جس حال میں ہوں ، اسی حال میں ان کو سواری پر بیٹھا کر مدینہ لے آؤ۔

دونوں مدینہ لائے جاتے ہیں۔ خلیفہ ثاني عمر قبطی کو بلاتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ کیا یہی شخص ہے، جس نے تم کو کوڑے سے مارا تھا۔ قبطی نے کہا ہاں۔ آپ نے قبطی کو کوڑا دیا ،اور کہا کہ معزز صاحبزادہ ( ابن الأكرمين ) کو مارو۔ قبطی نے مارنا شروع کیا، اور اس وقت تک مارتا رہا جب تک اس کو پوری تسکین نہ ہو گئی۔ اس کے بعد خلیفہ ثانی قبطی سے کہتے ہیں کہ ان کے والد عمرو بن العاص کو بھی مارو۔ کیونکہ انھیں کی بڑائی کے بل پر بیٹے نے تمہیں مارا تھا۔ (فوالله ما ضربك إلا بفضل سلطانه)۔ مگر قبطی کہتا ہے کہ نہیں ، جس نے مجھے مارا تھا ، اس کو میں نے مار لیا۔ اس سے زیادہ کی مجھے حاجت نہیں۔

جب یہ سب ہو چکا تو خلیفہ ثانی نے گورنر مصر عمرو بن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا   مذكم تعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا( تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، حالاں کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا)۔محض الصواب ، ابن المبرد الحنبلي، جلد2، صفحہ 473، فتوح مصر وأخبارها لابن عبد الحكم، صفحہ183

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروؤں کے ذریعہ لائے ہوئے اس انقلاب نے سارے عالم میں اونچ نیچ کی دیواریں گرا دیں۔ مساوات انسانی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا جو بالآخر جدید جمہوری انقلاب تک پہنچ گیا۔

قدیم زمانے کی حکومتیں مشرکانہ عقائد پر قائم تھیں۔ عوام سورج اور چاند کو پوجتے تھے، اور حکمراں افراد لوگوں کو یقین دلاتے تھے کہ وہ ان دیوتاؤں کی اولاد ہیں۔ اسی سے سورج بنسی اور چاند بنسی خاندانوں کے عقائد پیدا ہوئے۔ اسی لیے قدیم زمانے کے حکمراں مذکورہ قسم کے توہماتی عقائد کو اور پختہ کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ یہ عقیدہ رکھیں کہ بادشاہوں کی موت سے سورج گرہن اور چاند گرہن واقع ہوتا ہے تاکہ ان کی اہمیت لوگوں کے دماغوں پر قائم رہے ،اور وہ کامیابی کے ساتھ ان کے اوپر حکومت کرتے رہیں۔

اس طرح قدیم زمانے کے حکمراں گویا شرک اور توہم پرستی کے سر پرست بنے ہوئے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حکمراں ہوتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ سورج اور چاند گرہن سادہ طبیعیاتی واقعات ہیں نہ کہ کسی انسان کی عظمت کا اظہار ، تو اس کے بعد توہم پرستی اور مظاہر فطرت کی تعظیم کی جڑ کٹ گئی۔ اور تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جب کہ گردوپیش کی چیزوں کے بارے میں الو ہیت اور تقدس کا عقیدہ ختم ہو گیا، اور ان کے بارے میں وہ حقیقت پسندانہ ذہن پیدا ہونا شروع ہوا، جس کو موجودہ زمانہ میں سائنسی ذہن کہا جاتا ہے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسان کو صرف یہی چیز نہیں ملی۔ اسی کے ساتھ مزید یہ ہوا کہ آپ نے جو خدائی کتاب انسان کے حوالے کی۔ اس میں زوروشور کے ساتھ یہ بات بتائی گئی کہ زمین وآسمان کی تمام چیزیں انسان کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں اس سے یہ ذہن پیدا ہوا کہ ان چیزوں کی تسخیر کر کے انھیں اپنے کام میں لانے کی ضرورت ہے ، نہ یہ کہ ان کو عظیم اور برتر سمجھ کر ان کے آگے سر جھکایا جائے۔

نئی دنیا کی تخلیق

محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دین لائے تھے اس کو عرب کے تمام لوگوں نے قبول کر لیا۔ اس کے بعد وہ حیرت ناک تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا۔ حتی کہ ایک صدی سے کم عرصہ میں وہ ایشیا اور افریقہ کو مسخر کرتا ہو ا یورپ میں داخل ہو گیا۔ امریکہ کو چھوڑ کر تقریبا ً تمام ملکوں اور تمام سمندروں پر بالواسطہ یا براہ راست طور پر اس دین کے پیروؤں کا غلبہ قائم ہو گیا۔

یہ سلسلہ ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ نائیجیر یا کی سو کو تو خلافت (Sokoto Caliphate) سے لے کر انڈونیشیا کے مسلم سلطان تک اور تر کی کی عثمانی خلافت سے لے کر ہندستان کی مغل بادشاہت تک ، گویا ایک عظیم ملک تھا جو موجودہ طرز کی قومی حدود سے نا آشنا تھا۔ مسلمان اس پورے علاقے میں تجارت تعلیم یا دوسرے مقاصد کے تحت بہ آسانی سفر کر سکتے تھے۔

یہی وہ زمانہ ہے جب کہ چودھویں صدی عیسوی میں ابن بطوطہ نے تقریباً75 ہزار میل کا سفر طے کیا۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح پہنچا کہ کہیں وہ اجنبی نہ تھا۔ کہیں اس کے لیے بے روزگاری کا مسئلہ نہ تھا۔ وہ محمد بن تغلق (1325-51ء) کے زمانہ میں دہلی آیا۔ یہاں اس کو نہ صرف تحفے تحائف ملے ، بلکہ اس کو دہلی کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس ) بنا دیا گیا۔ (EB-9/144)

اس عالمی انقلاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام انسان ایک ہی انسانی برادری کا حصہ نظر آنے لگے مساوات انسانی کا یہ ذہن نہایت تیزی سے ساری دنیامیں چھا گیا۔ اولاً اس نے مدینہ پر غلبہ حاصل کیا۔ اس کے بعد دمشق اس کا مرکز بنا۔ پھر وہ بغداد پہنچا۔ اس کے بعد اسپین اور سسلی ہوتا ہوا وہ یورپ کے قلب میں داخل ہو گیا۔

یورپ کی اکثریت نے اگرچہ مذہبی اعتبار سے اسلام کو قبول نہیں کیا۔ مگر کائنات کے بارے میں اسلام (توحید ) کے نقطہ نظر کو انھوں نے پوری طرح لے لیا، اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا سائنسی اور جمہوری انقلاب اسلام کے انقلاب توحید کا ’’سيکولر ایڈیشن ‘‘ ہے۔ اس انقلاب کے اُخروی پہلو کو الگ کر کے اس کے دنیوی پہلو کو اختیار کرنے ہی کا دوسرا نام مغرب کا جدید انقلاب ہے۔

ایسی حالت میں يه کہنا ادنیٰ مبالغے کے بغیر درست ہے کہ انسانی تاریخ سے اگر اسلام کو نکال دیا جائے تو اسی کے ساتھ تمام تمدنی اور انسانی ترقیوں کو بھی نکال دینا پڑے گا۔ اس کے بعد دنیا دوبارہ اسی تاریکی کے دور میں چلی جائے گی ،جہاں وہ اسلامی انقلاب سے پہلے پائی جا رہی تھی۔

آزادئ فکر

قدیم زمانے میں انسان کو فکرو خیال کی آزادی حاصل نہ تھی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے الفاظ میں ، فکری احتساب کی کچھ صورتیں تمام قوموں میں رائج تھیں ، خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی۔ احتساب کی یہ صورت حال دنیا کے تمام حصوں میں اور تاریخ کے تمام دوروں میں پائی جاتی رہی ہے

Some form of censorship has appeared in all communities, small and large, in all parts of the world, at all stages of history . (EB-3/1083)

انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں 25 صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے جس کا عنوان تعذيب (persecution)ہے۔ اس مفصل مقالے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قدیم تاریخ کے تمام ادوار میں ساری دنیا میں لوگ آزادیٔ خیال کے حق سے محروم تھے۔ تمام لوگ مجبور تھے کہ وہ وہی سوچیں، جو حکمراں طبقہ کی سوچ ہے۔ مقالے میں اس طرح کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ قدیم انسانی سماج بنیادی طور پر غیر روادار تھا

Ancient society was essentially intolerant  (743)

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں احتساب (censorship) کے عنوان کے تحت 8 صفحہ کا ایک مقالہ ہے، جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح تاریخ کے پچھلے ادوار میں ساری دنیامیں فکری دارو گیر کا عام رواج تھا۔ قدیم چین میں شہریوں کو آزادیٔ فکر حاصل نہ تھی۔ شِہ ہوانگ ٹی  (Shih Huang Ti) نے عظیم دیوار چین بنوائی۔ مگر اسی کے ساتھ اس نے 213ء میں حکم دیا کہ تمام کتابیں جلا دی جائیں۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ کتابیں تھیں جو دوا اور زراعت جیسی بے ضرر موضوعات سے تعلق رکھتی تھیں۔ شاہی حکم میں یہ بھی شامل تھا کہ 30 دن کے اندر جو لوگ کتابیں نہیں جلائیں گے ان کو سخت سزا دی جائے گی۔ (صفحہ  1083)

یونان کے بارے میں پلو ٹارک نے لکھا ہے کہ قدیم اسپارٹا کے لوگ صرف عملی ضرورتوں کے لیے لکھنا پڑھنا سیکھتے تھے۔ دوسری ہر قسم کی تعلیم اور کتابوں پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ یونان کے دوسرے حصہ ایتھنز میں آرٹ اور فلسفہ کو ترقی ہوئی۔ مگر اکثر آرٹسٹ اور فلسفی ، جن میں سقراط اور ارسطو جیسے لوگ بھی شامل ہیں ، ان کو یا تو قید کر دیا گیا یا جلا وطن کر دیا گیا۔ بہت سے اہل علم قتل کر دئیے گیے۔ کچھ لوگوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی ۔ (صفحہ  1084)

قدیم روم میں فکرو خیال کے احتساب کے لیے ایک مستقل سر کاری محکمہ 443 ق م میں قائم کیا گیا۔ تنقید کو وہ لوگ بغاوت کے ہم معنی سمجھتے تھے۔ آزادانہ تقریر کرنا ممنوع تھا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے اس سلسلہ میں روم کے کئی ممتاز شہریوں کی مثالیں دی ہیں، جنھیں صرف اس لیے سخت سزائیں دی گئیں کہ انھوں نے حکمراں طبقہ پر تنقید کی تھی۔ (صفحہ  104) حضرت مسیح کے بعد ابتدائی تین صدیوں تک یہودی اور عیسائی صرف اعتقادی اختلاف کی بنیادپر ایک دوسرے کے دشمن بنے رہے۔ پہلے یہودیوں نے مسیحی حضرات کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد جب مسیحی حضرات کو اقتدار ملا تو انھوں نے یہودیوں سے جارحانہ انداز میں انتقام لینا شروع کیا۔ (صفحہ  1084-85)

قدیم زمانے میں آزادیٔ فکر پر پابندی کی ایک وجہ یہ تھی کہ محرف مذاہب نے جن خود ساختہ عقائد پر اپنے مذہبی نظام کا ڈھانچہ کھڑا کر رکھا تھا ، فکری آزادی کا ماحول اس کے لیے خطرہ کے ہم معنی تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ اگر آزادانہ تحقیق کو فروغ ہوا تو وہ لوگوں کی نظر میں اپنی صداقت کو برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں یورپ میں جن لوگوں نے سائنسی انداز سے ٖغوروفکر کرنا چاہا ، ان پر مسیحی چرچ نے زبردست مظالم کیے۔ اس کی وجہ یہی مذکورہ بالا اندیشہ تھا۔ ان مظالم کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (John William Draper, 1811-1882) کی کتاب مذہب  او رسائنس میں تصادم کی تاریخ (History of the Conflict Between Religion and Science, 1874)  میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس کا زیادہ صحیح نام سائنس اور مسیحیت میں تصادم ہے۔

انسانی اونچ نیچ

قدیم زمانے میں فکرو خیال پر پابندی کی وجہ بھی وہی شرک تھا، جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے۔ مشرکانہ عقائد کے تحت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جو شخص بادشاہ کے تخت پر بیٹھا ہوا ہو، وہ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اس زمانے میں بادشاہ کو ، کسی نہ کسی اعتبار سے ، خدائی اوصاف کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ عام انسان محض رعایا تھے ، اور بادشاہ کو ان کے اوپر خدائی آقا کی حیثیت حاصل تھی۔

یہی مشرکانہ یا تو ہمانہ عقیدہ تھا جس نے لوگوں سے آزادی ٔخیال کا حق چھین رکھا تھا۔ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جو بادشاہ کی رائے ہے وہی صحیح رائے ہے۔ دوسرے لوگوں کو صرف بادشاہ کی رائے کی ہمنوائی کرنی ہے۔ انھیں بادشاہ کی رائے سے الگ رائے بنانے کا کوئی حق نہیں۔ یہی وہ غلط عقیدہ تھا جس نے قدیم زمانے میں آزادیٔ فکر کا خاتمہ کر رکھا تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلام کا ظہور ہوا ، تو اس نے اعلان کیا کہ ہر قسم کی بڑائی صرف ایک خدا کے لیے ہے۔ اس کے سوا جو انسان ہیں سب برابر ہیں۔ سب ایک دوسرے کی طرح ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے اس حقیقت کا اعلان کیا کہ تمام انسان بھائی بھائی ہیں (العباد كلَّهُم إخوة)سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 1508۔

یہی وہ چیز ہے جس کو مذہبی اصطلاح میں توحید کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس حقیقت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اسی بنیاد پر ایک مکمل انقلاب برپا کر کے اس کو عملاً زمین پر قائم کر دیا۔ پیغمبری کے ابتدائی دور میں آپ نے اس حقیقت کی لفظی تبلیغ فرمائی تھی۔ اس کے بعد جب عرب میں آپ کو سیاسی غلبہ حاصل ہو گیا تو آپ نے وقت کے حکمراں کی حیثیت سے اس کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، أَنْتُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 5116)۔ یعنی بے شک اللہ نے جاہلیت کے غرور اور نسلی فخر کا تم سے خاتمہ کر دیا۔ اب انسان یا تو صاحبِ تقویٰ مومن ہے یا گنہ گار بد بخت ہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔

اس طرح اسلام نے انسانوں کے درمیان نسل اور رنگ اور عہدہ جیسی بنیادوں پر تفریق کو ختم کر دیا ، اور ازسرِ نو اخلاقی بنیاد پر ان کی درجہ بندی قائم کی۔

اظہار خیال کی آزادی

اسلام نے توحید کی بنیاد پر جو انقلاب برپا کیا اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار ایک نیا انسانی سماج وجود میں آیا ، ایک ایسا سماج جس میں کسی روک ٹوک کے بغیر ہر شخص کو اظہار خیال کی آزادی تھی۔ ایران کا نوشیرواں (خسر و اول ) 531سے 579 تک ساسانی سلطنت کا حکمراں رہا ہے۔ وہ ایران کے عادل بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر اس کے زمانے میں بھی یہ حال تھا کہ ایک بار اس کے دربار میں ایک شخص نے بادشاہ پر تنقید کرنے کی جرات کی تو اس کو بادشاہ کی طرف سے یہ سزا دی گئی کہ عین دربار میں اس کے سر پر لکڑی مار مار کر اس کو ہلاک کر دیا گیا۔ قدیم زمانے میں یہی تمام دنیا کا حال تھا۔ حکمراں کے خلاف کسی بھی قسم کا فکری اختلاف بغاوت کے ہم معنی سمجھا جاتا تھا۔ جس کی سب سے ہلکی سزا یہ تھی کہ اس کو مار کر اسی وقت ختم کر دیا جائے۔

اسلام نے نہ صرف اس کے خلاف اعلان کیا بلکہ سماج میں وہ حالات پیدا کیے کہ لوگوں کے اندر یہ جرأت پیدا ہوئی کہ وہ اس قدیم روایت کو توڑیں، اور اپنے سرداروں اور حکمرانوں کے خلاف کھلم کھلا اظہار رائے کر سکیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں سیاسی حکمراں کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے باوجود آپ عام انسانوں کی طرح رہتے تھے۔ ہر شخص آپ کے مقابلے میں آزادانہ اظہار خیال کر سکتا تھا۔ اس کی ایک مثال غزوہ بدر کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ کے سفر میں آپ نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ ایک شخص جس کا نام حباب بن المنذر تھا۔ وہ سامنے آیا اور براہ راست پیغمبر اسلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ مقام جہاں آپ ٹھہرے ہیں، وہ خدا کی وحی سے ہے یا آپ اپنی ذاتی رائے کے تحت یہاں ٹھہرے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنی ذاتی رائے سے یہاں ٹھہرا ہوں۔ یہ سن کرحباب بن المنذر نے کہا کہ یہ تو کوئی ٹھہرنے کی جگہ نہیں (إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِمَنْزِل) ، لوگوں کو ساتھ لے کر دوسری جگہ پڑاؤ کیجیے(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ620)۔

اس واقعے کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ یہاں ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک عام آدمی وقت کے حکمراں کے خلاف بے تکلف ’’ تنقید ‘‘ کرتا ہے، مگر کوئی اس کو برا نہیں مانتا۔ خود پیغمبر اسلام نے اس جسارت کے خلاف کوئی منفی رد عمل ظاہر نہیں کیا ،بلکہ سادہ طور پر صرف یہ پوچھا کہ تمہاری یہ رائے کیوں ہے ، اور جب اس نے اپنی رائے کی اہمیت بتائی تو آپ نے فوراً اس کو قبول کر لیا، اور وہاں سے اٹھ کر اگلی منزل کے لیے روانہ ہو گئے۔

اسلامی توحید کے تحت آنے والا یہ انقلاب اتنا طاقت ور تھا کہ وہ پوری اسلامی تاریخ میں مسلسل طور پر جاری ہو گیا۔ پیغمبر اسلام کے بعد خلفاء راشدین کے زمانے میں کوئی بھی شخص خواہ بظاہر وہ کتنا ہی غیر اہم ہو، خلیفہ کے اوپر آزادانہ تنقید کر سکتا تھا۔ اس کی مثالیں کثرت سے خلفاء راشدین کے تذکروں میں موجود ہیں۔ اسلام کا یہ انقلاب اتنا طاقتور تھا کہ وہ بعد کے زمانے میں اس وقت بھی باقی رہا جب کہ خلافت کی جگہ ’’ ملوکیت ‘‘ قائم ہو گئی۔ اسلام کی بعد کی 14 سو سالہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص عوام کی زبان بندی کرنے میں کامیاب ہو سکے۔

چند حوالے

رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے جو اسلامی انقلاب آیا وہ سادہ معنوں میں صرف ایک مذہبی انقلاب نہ تھا ، بلکہ اس نے تقریباً پوری آباد دنیا کو متاثر کیا۔ اہل اسلام نے عالمی سطح پر طاقتور حکومتیں قائم کیں۔ یہ سلسلہ ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اس پوری مدت میں کہیں بھی انسانی فکر پر بندش قائم نہیں کی گئی۔ ہر جگہ تمام لوگوں کو مکمل طور پر فکری آزادی حاصل رہی۔ یہاں ہم پروفیسر آرنلڈ کی کتاب ’’پریچنگ آف اسلام ‘‘ سے کچھ اقتباسات نقل کرتے ہیں۔

پروفیسر آرنلڈ نے اندلس کے ایک مسلمان کا لمبابیان نقل کیا ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے— یہ صحیح ہے کہ جو شخص ہمارا دین قبول کرنے کی طرف میلان ظاہر کرے ، ہم اس کو گلے لگانے لیے تیار رہتے ہیں۔ مگر ہمارا قرآن ہم کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم دوسروں کے ضمیر پر جبرو تعدی کریں۔ (صفحہ  145)

ترکوں کی مذہبی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انھوں نے یورپ ممالک کی فتح کے بعد کم از کم دو سو سال تک اپنی عیسائی رعایا کے ساتھ مذہبی معاملات میں ایسی رواداری کا ثبوت دیا جس کی مثال اس زمانے میں یورپ کے دوسرے ملکوں میں مطلق نہیں ملتی (صفحہ  157) سترھویں صدی میں انطاکیہ کے بطر یرک مکا ریوس نے ترکوں کی اس صفت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا خدا ترکوں کی سلطنت کو ہمیشہ باقی رکھے ، کیوں کہ وہ اپنا جزیہ لیتے ہیں ، لیکن رعایا کے مذہب میں دخل اندازی نہیں کرتے ، خواہ وہ نصرانی ہوں یا یہودی یا سامری۔ (صفحه 158-59)

پروفیسر آرنلڈ نے مسلم دور حکومت میں فکرو خیال کی آزادی کی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ رومی سلطنت کے وہ صوبے جن کو مسلمانوں نے تیز رفتاری کے ساتھ فتح کیا تھا ، انھوں نے اچانک اپنے آپ کو ایسی رواداری کے ماحول میں پایا جو کئی صدیوں سے ان کے لیے نا معلوم بنی ہوئی تھی—   اس قسم کی رواداری ساتویں صدی کی تاریخ میں کس قدر حيرتناک تھی

‘‘....... so striking in the history of the seventh century. ’’

مذہبی آزادی

ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے اپنی کتاب اشاعتِ اسلام  (The Preaching of Islam)  میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ المامون (813-833) نے سنا کہ اسلام کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام اپنی دلیل کی طاقت سے کامیاب نہیں ہوا ہے، بلکہ اپنی تلوار کی طاقت سے کامیاب ہوا ہے۔ اس نے دور دو رکے ملکوں میں پیغام بھیج کر ہر مذہب کے اہلِ علم کو بغداد میں جمع کیا اور پھر مسلم علما کو بلا کر دونوں کو ایک عظیم الشان اجتماع میں بحث ومناظرہ کی دعوت دی۔ اس علمی مقابلہ میں علمائے اسلام کامیاب ہوئے، اور غیر مسلم اہلِ علم نے بر سرِ عام اسلام کی استدلالی عظمت کا اعتراف کیا۔ (صفحہ  86)

آرنلڈ نے لکھا ہے کہ خلیفہ المامون اسلام کی اشاعت کے معاملہ میں بہت زیادہ پُر جوش (very zealous) تھا۔ اس کے باوجود اس نے کبھی اپنی سیاسی طاقت کو اسلام کی تبلیغ کے لیے استعمال نہیں کیا، اور نہ کبھی کسی کو جبراً مسلمان بنایا۔

بغداد کے مذکورہ بین مذاہب اجتماع میں دوسرے مذاہب کے جو اہلِ علم شریک ہوئے ، ان میں ایک یزداں بخت تھا۔ وہ مانی فرقہ (Manichaean sect) سے تعلق رکھتا تھا اور ایران سے آیا تھا۔ یزداں بخت نے مسلم علما کی باتیں سنیں تو وہ اسلام کی استدلالی طاقت سے مرعوب ہو گیا۔ اس نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کر لی۔

اجتماع کے بعد المامون نے اس کو دربار میں بلایا، اور اس سے کہا کہ اب تم کو اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ یزداں بخت نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا امیر المومنین ، میں نے آپ کی بات سنی اور آپ کے مشورہ کو جانا۔ مگر آپ تو وہ شخص ہیں جو کسی کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے اور جبراً کسی کو مسلمان نہیں بناتے۔ یزداں بخت کے انکار کے بعد المامون نے اپنی بات واپس لے لی ، اور جب یزداں بخت بغداد سے اپنے وطن واپس جانے لگا تو اس نے مسلح محافظ یزداں بخت کے ساتھ کر دیا تاکہ جذبات سے بھرے ہوئے مسلمانوں کی کوئی جماعت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ (صفحہ 56)

اسلام میں ہر فکر کی آزادی ہے اور اسی کے ساتھ ہر فکر والے کا احترام بھی۔

دورجدید اور اسلام

موجودہ زمانے میں آزادی فکر کو خیر اعلیٰ (summum bonum) سمجھا جاتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ آزادی مغرب کے سائنسی انقلاب کا نتیجہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس کا فوری اور قریبی سبب جدید سائنسی انقلاب ہے مگر خود یہ سائنسی انقلاب ، جیسا کہ پچھلے صفحات میں واضح کیا گیا ، اسلام کے موحدانہ انقلاب کا نتیجہ تھا۔

فرانسیسی مفکرروسو (1712-1778) جدید جمہوریت کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی کتاب معاہدہ عمرانی (Social Contract) ان الفاظ کے ساتھ شروع کی تھی انسان آزاد پیدا ہوا تھا ، مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں۔ یہ فقرہ حقیقۃ ً روسو کا عطیہ نہیں۔ یہ دراصل اسلامی خلیفہ عمر (586-644ھ) کے اس شاندار تر فقرہ کی با ز گشت ہے، جو انھوں نے اپنے گورنر عمروبن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا اے عمرو، تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ، حالاں کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد پیدا کیا تھا (فتوح مصر وأخبارها، صفحہ 183)۔

موجودہ زمانے میں یورپ میں اور اس کے بعد ساری دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا جو انقلاب آیا ہے ،وہ اس انقلابی عمل کا اگلا مرحلہ ہے جو اسلام کے ذریعہ ساتویں صدی میں شروع ہوا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے 1948 میں وہ چارٹر منظور کیا، جس کو یونیورسل ڈیکلریش آف ہیومن رائٹس کہا جاتا ہے۔ اس کے آرٹیکل 18 میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر آدمی خیال ، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے۔ اس حق میں یہ آزادی بھی شامل ہے کہ آدمی اپنے مذہب کو تبدیل کر سکے، اور اپنے مذہب کا خفیہ یا اعلانیہ اظہار کر سکے یا دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔

اقوام متحدہ کا یہ چارٹر بھی حقیقۃً اقوام متحدہ کا کارنامہ نہیں، بلکہ وہ بھی اسی اسلامی انقلاب کی ایک دین ہے، جو اقوام ِ متحدہ سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے ظہور میں آیا تھا۔

اسلام نے تاریخ میں پہلی بار شرک کے اس نظام کو ختم کیا جس نے انسان اور انسان کے درمیان فرق و امتیاز کا ذہن پید اکر رکھا تھا۔ اسی غیر حقیقی تقسیم کا نتیجہ اونچ نیچ کا وہ سماج تھا جو تمام قدیم زمانوں میں مسلسل پایا جاتا رہاہے۔

اسلام نے ایک طرف اس معاملے میں انسانی ذہن کو بدلا۔دوسری طرف اس نے وسیع پیمانے پر عملی انقلاب برپا کر کے انسانی آزادی اور انسانی احترام کا ایک نیا دور شروع کیا۔ یہ دور تاریخ میں مسلسل سفر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ یورپ میں داخل ہو گیا ، اور بڑھتے بڑھتے آخر کار آزادی اور جمہوریت کے جدید انقلاب کا سبب بنا۔ جدید یورپ کا جمہوری انقلاب اسی اسلامی انقلاب کا سیکولر اڈیشن ہے، جو بہت پہلے ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں برپا ہوا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام دور جدید کا خالق ہے ، سائنسی اعتبار سے بھی اور سماجی اور معاشرتی اعتبار سے بھی۔

 

 

 

 

دورِ جدید کو ظہور میں لانے کے لیے ایک آئڈیالوجی درکار تھی۔ یہ آئڈیالوجی توحیدکی صورت میں اسلام نے فراہم کی۔ اسلام کی آئڈیالوجی کے بغیر دورِ جدید کا ظہور میں آنا اتنا ہی ناممکن تھا، جتنا کہ انجینئرنگ کی سائنس کے بغیر مشین کا وجود میں آنا۔