دعا عبادت ہے
حدیث میں آیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے (الدعاء مخ العبادۃ) بلکہ دعا ہی اصل عبادت ہے(الدعاء ہی العبادۃ)یہ بات قرآن و حدیث میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔ دعا کا اصل عبادت ہونا عین فطری ہے۔ کیوں کہ آدمی جب خدا کے وجود کو اس کی صفات کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتاہے کہ خدا کے مقابلہ میں میں بالکل بے حقیقت ہوں۔
خدا آقا ہے، میں بندہ ہوں۔ خدا دینے والا ہے، میں پانے والا ہوں۔ خدا قادر ہے، میں عاجز اور محتاج ہوں۔ یہ احساس اس کو فوراً ہی خدا کے سامنے دعا گو بنا دیتا ہے۔ دعا وہ سب سے بڑا رشتہ ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے مربوط ہوتا ہے۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہے۔انسان جو کچھ پاتاہے، دعا سے پاتا ہے، اورتمام اعمال کا مقصد آدمی کو خدا سے دعا کرنے والا بنانا ہے تاکہ وہ خدا سے پانے والا بن جائے۔ مثال کے طورپر قرآن میں رمضان کے روزہ کا حکم دینے کے بعد یہ آیت آئی ہے: اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، توچاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں تاکہ وہ ہدایت پائیں (البقرہ ۱۸۶)
یہی بات حضرت مسیح نے ان لفظوں میں کہی: مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیوں کہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے،اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے، اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے۔
دعاصرف کچھ الفاظ کی تکرار نہیں ہے، دعا ایک عمل ہے، بلکہ دعا سب سے بڑا عمل ہے۔ جس طرح حقیقی عمل کبھی بے نتیجہ نہیں رہتا اسی طرح حقیقی دعا کبھی بے نتیجہ نہیں رہتی۔
جب کوئی بندہ حقیقی دعا کرتا ہے تو وہ گویا اپنے معاملہ کو خدا کا معاملہ بنادیتا ہے اور جب کوئی معاملہ خدا کا معاملہ بن جائے تو کوئی بھی نہیں جو اس کوپورا ہونے سے روک سکے۔