ایک مثال
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں انسانی حقوق پر (Human Rights) پر ایک مفصل مقالہ ہے۔اس کے پہلے پیراگراف میں بتایا گیا ہے کہ حقوق انسانی کا تصور اگرچہ قدیم زمانے سے شاعروں ، فلسفیوں اور سیاست دانوں کے یہاں پایا جاتا رہا ہے۔ مگر عملی صورت میں وہ صرف اٹھارویں صدی کے آخر میں امریکی اور فرانسیسی انقلاب کے بعد ظہور میں آیا۔ (8/1183)
ایک شخص اگر صرف اس مقالہ کو پڑھے ، اس سے زیادہ واقفیت حاصل کرنے کا موقع اس کو نہ مل سکے تو وہ اس موضوع کے بارے میں سخت ترین غلط فہمی کا شکار رہے گا۔ کیوں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ حقوق انسانی کا انقلاب ، مغربی تہذیب کے ظہور سے ہزار سال پہلے ،عرب میں اپنی کامل ترین صورت میں واقعہ بن چکا تھا ۔ مغربی ملکوں میں حقوق انسانی کی بحالی خود اسی اسلامی انقلاب کا نتیجہ اور اس کےزیرِ اثر پیدا ہونے والا واقعہ ہے ۔
خود مغربی علماء میں ایسے لوگ میں جنہوں نے کھلے طور پر اس واقعہ کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً مشہور انگریز مصنف ایچ جی ویلز (۱۹۴۶-۱۸۶۶) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ٔحجۃ الوداع کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کو پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ اس کا پہلا پیراگراف اہل اسلام کے درمیان مال اور خون کے تمام جھگڑے کو کالعدم کر رہا ہے۔ اس کا آخری حصہ ایک کالےحبشی کو خلیفہ کے برابر کا درجہ دے رہا ہے۔ انھوں نے دنیا میں باوقار اور منصفانہ معاملے کی عظیم روایت قائم کی۔ انھوں نے لوگوں میں فیاضی کی روح پھونکی۔ انھوں نے ایک ایسا سماج بنایا جو تاریخ کےکسی بھی پچھلے سماج سے زیادہ بے رحمی اور اجتماعی ظلم سے پاک تھا:
The reader will note that the first paragraph sweeps away all plunder and blood feuds among the followers of Islam. The last makes the believing Negro the equal of the Caliph... they established in the world a great tradition of dignified fair dealing, they breathed a spirit of generosity, and they are human and workable. They created a society more free from widespread cruelty and social oppression than any society had ever been in the world before.
H.G . Wells, The Outline of History, London 1963, p. 606.
اس دنیا میں حقیقت سے انکار کی مثالیں ہیں اور اسی کے ساتھ حقیقت کے اعتراف کی مثالیں بھی۔