ایک مرد ِمومن
حیدر آباد سے جناب واسم احمد خاں ایڈوکیٹ نے ٹیلی فون پر بتایا کہ ان کے والد ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ ۱۰ ستمبر ۲۰۰۴ کو ۷۴ سال کی عمر میں انتقال کرگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کی وفات ایک سچے انسان کی وفات ہے۔ میرے ذاتی تجربہ کے مطابق، وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کا ایک نمونہ تھے۔ وہ ان نادر انسانوں میں سے تھے جن کے بارے میں محفوظ طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس نے ان کو دیکھا اس نے گویا ایک جنتی انسان کو زمین پر چلتے پھرتے دیکھ لیا۔
ڈاکٹر عزیز احمد خاں مرحوم میں جو اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں ان میں سے ایک صفت وہ ہے جس کا ذاتی طورپر مجھے تجربہ ہوا۔وہ صفت ہے، صاحب حق کی حمایت۔ دنیا میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو کسی حق کو اشو بنا کر اس کے نام پر جھنڈا اٹھاتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ سب حق کے نام پر لیڈری کرنا ہے۔ مگر ایک صاحب حق کی حمایت کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہونا بلاشبہہ اسلامی کردار کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ میں ایک شخص کے کیس کو جانتا ہوں۔ وہ ایک مالیاتی زیادتی کا شکار ہوا۔ مگر سارے شہر میں کوئی بھی نہیں نکلا جو اس شخص کی حمایت میں کھڑا ہو۔ جو حقدار کی کھلی حمایت کرے اور زیادتی کرنے والے کی کھلی مذمت کرے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف پورے شہر میں واحد شخص تھے جس نے کسی بھی قسم کے انٹرسٹ کے بغیر اس حق دار آدمی کا قولی اور عملی دونوں اعتبار سے ساتھ دیا۔ انہوں نے اس معاملہ میں کسی مصلحت کی کوئی پروا نہیں کی۔
پچھلے پچاس سال سے بھی زیادہ لمبی مدت کے دوران مجھ کو جو تجربات ہوئے اس کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ مسلمانوں میں میں نے ایسے لوگ بہت دیکھے جو ایک حق کے سوال کو عوامی اشو بنا کر اس پر تحریکیں چلاتے ہیں اور اس پر ہنگامے کھڑے کرتے ہیں۔ مگر اس قسم کی تحریکیں اپنی حقیقت کے اعتبار سے قیادت کے ہنگامے ہیں، وہ حق کی حمایت ہر گز نہیں۔ کسی حق کے اشو پر تحریکیں چلانا اور ایک حق دار فرد کی بے غرض حمایت کرنا، دونوں کے درمیان اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک اگر بے دینی ہے تو دوسرا دین داری۔
میں کم ازکم اپنے تجربہ کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ اپنی عمر میں میں نے شاید کسی بھی مسلمان کو نہیں پایا جو ایک حق دار فرد کے مسئلہ پر تڑپے اور مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر اس کا بھر پور ساتھ دے۔ البتہ ہندوؤں میں میں نے اپنے تجربہ کے مطابق کئی ایسے افراد دیکھے ہیں۔مثال کے طورپر دہلی کے رام رتن کپلا (وفات ۲۰۰۱) اور موتی لال صرّاف(وفات ۱۹۹۴)۔
اصلاح معاشرہ کے نام پر جلسہ جلوس کی تحریکیں چلانے سے معاشرہ کی اصلاح نہیں ہوتی۔ اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ جب بھی کسی فرد پر کوئی شخص زیادتی کرے تو اس میں بروقت دخل دے کر زیادتی کو ختم کیا جائے۔ زیر زیادتی شخص کی حمایت کرکے انصاف قائم کیا جائے۔
ایک اور نادر انسانی صفت جومیں نے ڈاکٹر عزیز احمد مرحوم میں دیکھی وہ ان کی تعلیمی خدمت تھی۔ دوبارہ میں کہوں گا کہ تعلیم کے اشو پر قیادت کرنے والے تو بہت ہیں مگر تعلیم کے لیے حقیقی خدمت کرنے والے بہت کم۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ تھے۔ وہ تعلیم کی اہمیت کو بخوبی طورپر سمجھتے تھے۔ وہ اس کے لیے سچا درد رکھتے تھے۔ انہوں نے خاموشی کے ساتھ ایک بہت بڑا کام کیا۔ انہوں نے اپنے گھر کو ایک فری کوچنگ سنٹر میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کی ذاتی طورپر کوچنگ کرکے انہیں پڑھایا اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے درجہ تک پہنچایا۔ وہ اس کام کو کسی مادّی انٹرسٹ کے بغیر لمبی مدت تک چلاتے رہے۔ اس طرح محض اپنی ذاتی کوشش سے انہوں نے بہت سے گھروں کو تعلیم یافتہ بنا دیا۔ اخبار میں چھپنے والے خادمان ملت تو بہت ہیں مگر اخباری شہرت سے دور رہ کر ملّی خدمت کرنے کی یہ ایک انوکھی مثال تھی جس کا مشاہدہ میں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی زندگی میں کیا۔
آج ہماری ملّت کو سب سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔ اگر ملّت کے صاحب حیثیت افرادڈاکٹر عزیز احمد مرحوم کے نمونہ پر عمل کریں تو بہت تھوڑی مدت میں پوری ملّت تعلیم یافتہ بن جائے۔
ڈاکٹر عزیز احمد خاں مرحوم کی ایک اور صفت جومیرے علم میں آئی وہ تھی— بے غرض انسانی خدمت۔ موصوف بظاہر وکالت کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے مگر وکالت کے کام کو وہ زیادہ تر انسانی خدمت کے جذبہ کے تحت انجام دیتے تھے۔ موکل کا استحصال تو درکنار وہ موکل سے واجبی فیس کا تقاضہ بھی نہیں کرتے تھے۔ ان کے سامنے فیس سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ اپنے موکل کی پوری قانونی مدد کریں۔
اسی طرح موصوف ہومیوپیتھی کے ایک اچھے ڈاکٹر تھے۔ وہ اپنے خالی اوقات میں لوگوں کو دوائیں دیتے تھے۔ یہ کام بھی وہ کسی معاوضہ کے بغیر صرف انسانی خدمت کے جذبہ کے تحت کرتے تھے۔ مجھ سے کئی لوگوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عزیز احمد خاں کے علاج سے وہ پوری طرح شفایاب ہوگئے، جب کہ لمبے علاج کے بعد وہ اپنی صحت کے بارے میں مایوس ہوچکے تھے۔
ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ کو مطالعہ اور تحریر سے بھی دلچسپی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کچھ کتابیں تیار کیں اور ان کو شائع کیا۔ ان کی ایک کتاب کا نام یہ ہے: اللہ کی عظمت اور قرآن کا نظریۂ علم و سائنس۔
اس کتاب میں یونانی فلسفہ سے لے کر جدید دور کی سائنس تک کاجائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں مذہب کے موافق اور مخالف رایوں کو لے کرمختلف تاریخی شخصیتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے ایک باب کا عنوان یہ ہے: سائنس داں جو اللہ کے قائل تھے۔ اس باب میں سرآرتھر ایڈنگٹن کی کتاب سائنس اینڈ ان سین ورلڈ(Science and Unseen World) کے حوالہ سے ایک سبق آموز واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے:
ایک مرتبہ نیوٹن (۱۶۴۲۔ ۱۷۲۶) اپنے کمرہ میں کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھا۔ اس کے سامنے نظام شمسی کا ایک دھاتی نمونہ جس کو کسی کاریگر نے بڑی مہارت اور قابلیت سے بنایا تھا، رکھا ہوا تھا۔ اس کو جب گھمایا جاتا تو تمام سیارے اپنی اپنی رفتار کے تناسب سے گھومنے لگتے تھے۔ بظاہر یہ عجیب و غریب منظر پیش کرتا تھا۔ نیوٹن کا ایک سائنس داں دوست جو ماحول سے متاثر ہو کر خدا کا منکر ہوگیا تھا، نیوٹن کے کمرہ میں داخل ہوا اور نظام شمسی کے اس نمونہ کو دیکھ کر بے اختیار پوچھا ’’اس کو کس نے بنایا ہے‘‘ نیوٹن نے سوال سن کر اپنے دوست کی طرف دیکھے بغیر کہا ’’کسی نے بھی نہیں ‘‘ سائنس داں نے کہا ’’آپ نے میرا مطلب نہیں سمجھا‘‘ نیوٹن نے کتاب پر سے نظریں اٹھا کر اپنے دوست سے کہا ’’نہیں کسی نے بھی نہیں بنایا، جس چیز کو تم اتنی حیرت سے دیکھ رہے ہو اس نے خود بخود اپنی یہ شکل اختیار کر لی ہے‘‘۔ نیوٹن کے اس جواب میں طنز تھا۔ مگر اس جواب نے سائنس داں کو مضطرب کردیا۔ اس نے جھلاتے ہوئے کہا، ’’کیا تم مجھے بیوقوف سمجھ رہے ہو۔ بے شک اس کو کسی نے بنایا ہے اور وہ بنانے والا کوئی نہایت ماہر کاریگر ہے۔ میں اس کا نام جاننا چاہتا ہوں ‘‘۔ اپنی کتاب کو الگ رکھتے ہوئے نیوٹن کھڑا ہوگیا۔ اپنے دوست کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’یہ نمونہ ایک ادنیٰ نقل ہے اس شاندار نظام کائنات یعنی نظام شمسی کی جس کے قانون سے تم واقف ہو۔ اور میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم کو قائل کرسکوں۔ یہ معمولی کھلونا بغیر کاریگر کے خود بخود وجود میں آیا‘‘۔ نیوٹن نے اپنے دوست سے کہا کہ’’ تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ تم کیسے اس نظریے پر پہنچے کہ وہ شاندار نظام بغیر خالق کے وجود میں آگیا ہے۔‘‘ نیوٹن کا دوست سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ دے سکا۔ نیوٹن نے بات جاری رکھتے ہوئے اپنے دوست کو بتایا کہ: ’’اس شاندار نظام کا خالق خدا ہے اور جو بغیر خدا کے سمجھتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔‘‘ (صفحہ ۱۴۸۔ ۱۴۹)
اللہ کی عظمت نامی یہ کتاب ۲۴۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ وہ پہلی بار فروری ۱۹۸۶ میں چھپی۔ کتاب پر مندرجہ ذیل پتہ درج ہے:
ثمنی پبلیکیشنز، چلکل گوڑہ، سکندر آباد، ۵۰۰۳۶۱
ڈاکٹر صاحب مرحوم سے کئی بار میری خط وکتابت ہوئی تھی۔ یہ خطوط ان کی شخصیت کا تحریری تعارف ہیں۔ ڈاکٹر مرحوم کاایک خط اور میری طرف سے اس کا جواب یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
محترمی و مکرمی مولانا وحید الدین خاں صاحب
امید کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کی خیریت الرسالہ ہمیشہ دیتا رہتا ہے۔ آپ کا الرسالہ (عراق نمبر) دو تین مرتبہ پڑھا۔ آپ نے جو تبصرے کیے ہیں وہ بے حد پسندآئے۔ اور شاید یہ باتیں کسی کے ذہن و دماغ میں بھی نہ آئی ہوں۔
دوسرے یہ کہ میں بہت روز سے علیل ہوں۔ ہاتھوں میں رعشہ کی وجہ سے لکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ کئی روز سے آپ کو خط لکھنا چاہتا تھا مگر وقت کچھ انتظار میں اور کچھ دواخانوں کے چکر میں گزر گیا۔ دعا فرمائیے کہ میں صحت یاب ہو جاؤں۔
تیسری بات یہ ہے کہ میری نواسی عزیزہ شاذاں جو آٹھ دس سال قبل دہلی آئی تھی اور آپ سے دعاؤں کا شرف بھی حاصل کرچکی ہے، اس کی شادی ۶؍جولائی کو مقرر ہوگئی ہے۔ اس کی ماں کا بے حداصرار ہے۔میں آپ کو شادی میں آنے کی زحمت تو نہیں دے سکتا مگر آپ سے التجا کرکے آپ کی دعاؤں کا طلب گار بنوں۔
امید کہ آپ اس کی کامیاب زندگی کے لیے دعا فر مائیں گے۔ (عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ، سکندرآباد، ۲۸ جون ۲۰۰۳)
جواب
برادر محترم و مکرم ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۸ جون ۲۰۰۳ ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کامل عطا فرمائے۔ آپ کو ہر طرح امن اور عافیت کے ساتھ رکھّے اورتمام اہل خانہ کا ہر طرح مددگار ہو۔
عزیزہ شاذاں کی شادی کی خبر سے خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اور کامیاب زندگی عطا فرمائے۔ میری طرف سے عزیزہ کو دعا اور مبارک باد۔
شادی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے جو ہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے اور جب شادی خود فطرت کا قانون ہو تو خود فطرت میں اس کی ضمانت ہونی چاہیے کہ شادی طرفین کے لیے پرسکون زندگی کی ضمانت بنے۔
میرے نزدیک شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔ایڈجسٹمنٹ شادی شدہ زندگی کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر مرد اور عورت کو مسٹر ڈفرنٹ اور مِز ڈفرنٹ کے روپ میں پیدا کیا ہے۔ ڈفرینس خود فطرت کا لازمی حصّہ ہے اور جب دو ڈفرنٹ پرسن باہم ملیں تو کامیاب زندگی کی ضمانت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے زندگی گذاریں۔ اس معاملہ میں فریقین کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔
یہ ڈفرینس ایک عظیم نعمت ہے۔ اس ڈفرینس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ذہنی ارتقاء کا عمل جاری رہے۔ میرے تصور میں بہترین بیوی اور بہترین شوہر وہ ہے جو ایک دوسرے کے لیے انٹیلیکچول پارٹنر بن سکے۔ اگر فریقین میں مثبت مزاج ہو تو ڈفرینس سے انٹیلیکچول ایکسچینج پیدا ہوگا اور انٹیلیکچول ایکسچینج سے انٹیلیکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رہے گا۔ عزیزہ شاذاں کو ان کی زندگی کا یہ نیا دور مبارک ہو۔
یکم جولائی ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین