مسلم تاریخ ایک جائزہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ۵۷۰ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ پر پہلی وحی ۶۱۰ عیسوی میں نازل ہوئی۔ یہی وہ سال ہے جب کہ اسلام کا آغاز ہوا۔ مبصرین کا اِس پر اتفاق ہے کہ آغاز کے بعد جس طرح اسلام کی عالمی توسیع ہوئی، وہ انسانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ مثال کے طور پر انڈیا کے ایک بنگالی اسکالر ایم این رائے (وفات ۱۹۵۴) کی ایک کتاب دہلی (اَجنتا پبلکیشنز) سے پہلی بار ۱۹۳۹ میں چھپی۔ اس کتاب کا نام یہ تھا:
The Historical Role of Islam
اِس کتاب میں مصنف نے اسلام کے اِس تاریخی پہلو کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ— اسلام کی توسیع تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزاتی واقعہ ہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles (p. 4)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آغاز کے بعد اسلام اور اہلِ اسلام کو بہت کم مدّت میں عالمی غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہ غلبہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ایک شاعر نے بجا طور پر کہا ہے:
ہمیں چھائے ہوئے تھے شرق سے تا غرب دنیا میں نہ تھا پَلّہ کسی ملّت کا دنیا میں گراں ہم سے
اسلام کی یہ توسیع رومن ایمپائر اور برٹش ایمپائر کی طرح محض ایک سیاسی توسیع نہ تھی، توسیع کا یہ معاملہ مکمل طورپر ایک خدائی معاملہ تھا، وہ ایک خدائی منصوبے کے تحت پیش آیا۔ چنانچہ وہ اس خدائی منصوبے کی تکمیل تک باقی رہا، اور جب یہ منصوبہ مکمل ہو گیا اور اس کی براہِ راست ضرورت نہ رہی تو مسلمانوں کا پورا سیاسی محل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت پر غور کیجئے: إنّا نحن نزّلنا الذکر وإنّا لہ لحافظون (الحجر۹) یعنی وہ خدا ہے جس نے اِس قرآن کو اتارا اور خدا ہی یقینی طورپر اس کی حفاظت کرے گا۔
اِس قرآنی آیت کا پس منظر یہ ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے بار بار اپنا کلام اُتارا، مگر یہ خدائی کلام تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکا۔ خدا نے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے انسان کی اِس محرومی کو ختم کرنا چاہااور یہ فیصلہ فرمایا کہ قرآن آخری خدا ئی کلام کے طورپر محفوظ ہوجائے تاکہ اس کے بعد دوبارہ کوئی پیغمبر اور کوئی کتاب بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
سنت اللہ کے مطابق، یہ کام معجزاتی طورپر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ اِس مقصد کے لیے ملکِ عرب میں ایک لمبی منصوبہ بندی کی گئی۔ اِس منصوبے کا آغازاُس وقت ہوا جب کہ چار ہزار سال پہلے ہاجرہ کو اپنے چھوٹے بچے اسماعیل کے ساتھ مکّہ کے صحرا میں آباد کردیاگیا۔ اُس کے بعد ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ٹیم بنی جس کو ایک مستشرق اسکالر نے ہیروؤں کی قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ پر قرآن اتارا گیا۔ آپ نے قرآن کی بنیاد پر تحریک چلائی۔ اِس قرآنی تحریک کی بنیاد پر انسانوں کی ایک جماعت بنی، پھر ایک غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے اسلامی اقتدار کا وہ نظام بنا جس کو خلافت کا نظام کہاجاتا ہے۔
زمین کے تقریباً تمام آباد حصے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر خلافت کے اِس نظام کے زیرِ اثر آگیے۔ خلافت کا یہ تصور خود قرآن سے اخذ کیا گیا تھا، کیوں کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان اور عملِ صالح کی صفات سے متصف ہوں گے، ان کو خدا زمین میں خلافت عطا فرمائے گا (النور ۵۵)
اب فطری طورپر ایسا ہوا کہ قرآن کا تصور اِس نظامِ خلافت کی اساس بن گیا۔ یہ قرآن سے اخذ کردہ تصور، نظامِ خلافت کے قیام کے لیے وجہِ جواز فراہم کرتاتھا۔ یہ قرآن کا تصور تھا جس پر عقیدہ رکھنے والوں کی حمایت، یا مین ڈیٹ (mandate) کے ذریعے کوئی خلیفہ اقتدار کی سیٹ پر بیٹھتا تھا۔ اِسی کی ایک علامت وہ چیز تھی جس کو بیعت کہاجاتا ہے۔
قرآن کی اس حیثیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے اندر ایک سیاسی اہمیت، یا سیاسی قدر (political value) پیدا ہوئی۔ اب قرآن، خلافت کے تصور کے تحت قائم شدہ سیاسی ادارے کا اپنا انٹر سٹ بن گیا۔ اب خود سیاسی اقتدار کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ قرآن کا سرپرست بن کر اس کی مسلسل حفاظت کرتا رہے۔ قرآن کے محفوظیت، سیاسی ادارے کی محفوظیت تھی اور قرآن کا غیر محفوظ ہونا یہ معنی رکھتا تھا کہ خود سیاسی ادارہ بھی غیر محفوظ ہوجائے۔
قدیم زمانے کے سماج میں صرف سیاسی ادارہ ہی واحد طاقت ور ادارہ ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں کوئی بھی دوسرا ادارہ نہیں ہوتا تھا جو کوئی مؤثر سماجی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ قرآن سے پہلے جو کتابیں آئیں وہ قدیم روایتی دور میں آئیں۔ اِن کتابوں میں سے کسی کتاب کی حمایت میں سیاسی ادارے کا زور شامل نہ ہوسکا۔ عالمِ اسباب کے لحاظ سے یہی سبب تھا جس کی بنا پر قدیم کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔
قرآن کے ساتھ استثنائی طورپر ایساہوا کہ اس کی حفاظت کے لیے مسلسل طورپر سیاسی ادارے کی طاقت حاصل رہی۔ عالمِ اسباب کے اعتبار سے یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا۔اسی کا ایک مظہر یہ تھا کہ حکمراں طبقے کے افراد بھی قرآن کو حفظ کرنے اور قرآن کی کتابت کرنے کو اپنے لیے فخر کی چیز سمجھتے تھے۔
قرآن کی حفاظت کا یہ سیاسی انتظام آغازِ اسلام کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ نظام صرف اُس وقت ختم ہوا جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے قرآن کی حفاظت کے لیے سیاسی اقتدار کی اہمیت ختم کردی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ قرآن کا ہر نسخہ الگ الگ تیار کرنا پڑتا تھا، مگر پرنٹنگ پریس نے اِس بات کو ممکن بنادیا کہ قرآن کی ایک کاپی نہایت صحیح طورپر لکھ کر تیار کی جائے اور پھر چھاپ کر اس سے ملین اور بلین کاپیاں تیار کر لی جائیں۔ اِس زمانی تغیرنے قرآن کی حفاظت کو سیاسی دائرے سے نکال کر صنعتی دَور میں پہنچا دیا۔ اِس تبدیلی کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ کوئی مخالف قوّت، قرآن کو ایک غیر محفوظ کتاب بنا سکے۔
پرنٹنگ پریس کے ظہور کے ساتھ نَو آبادیاتی دَور (colonialism) کا بھی ظہور ہوا۔ اِس نَو آبادیاتی دَور نے خلافت، یا مسلمانوں کی سیاسی بالا دستی کا خاتمہ کردیا۔ اُنیسویں صدی عیسوی میں خلافت کا یہ محل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا۔ اس کے بعد سے مسلمان تمام دنیا میں کسی نہ کسی عنوان سے احیائِ خلافت کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر انھیں اِس معاملے میں ایک فیصد کے بقدر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ راقم الحروف کے تجزیے کے مطابق، نظامِ خلافت کا انہدام اتفاقی نہیں تھا، اور نہ وہ کسی کی سازش کے تحت انجام پایا۔ یہ واقعہ مکمل طورپر خدا کی منصوبہ بندی کے تحت تھا۔ مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصدصرف ایک تھا، اور وہ ہے قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اِس مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ قرآن کی حفاظت جب تک سیاسی اقتدار پر منحصر تھی، اُس وقت تک مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل رہا، اور جب اِس حفاظت کی ذمّے داری پرنٹنگ پریس نے لے لی تو اب سیاسی اقتدار نے اپنی اہمیت کھودی۔ چنانچہ خدا نے اُس سے اپنی مدد واپس لے لی۔ یہی اصل سبب ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی قدیم شکل میں باقی نہ رہا۔
خلافت کے سیاسی اقتدار کے ٹوٹنے کا ایک اورپہلو بھی تھا۔ اصل یہ ہے کہ آغازِ اسلام کے بعد ہزار سال تک جو سیاسی اقتدار قائم تھا، وہ روایتی دور میں قائم ہوا تھا۔ اس روایتی دور کی نسبت سے اسلامی فکر اور اسلامی عمل کا ایک ماڈل بن گیا تھا۔ اِس ماڈل کی تشکیل روایتی ماحول میں ہوئی تھی۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عارضی ماڈل تھا، مگر وہ لمبی مدّت تک باقی رہا۔ اِس بنا پر شعوری یا غیر شعوری طورپر عوام اور خواص دونوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہی ماڈل اسلام کا حقیقی ماڈل ہے۔ حالاں کہ اس کے حق میں قرآن اور حدیث میں کوئی بنیاد موجود نہ تھی۔
مغربی نو آبادیات کا دَور اپنے ساتھ سائنسی انقلاب کا دور لے آیا تھا۔جدید سا ئنسی حالات نے قدیم روایتی نظام کو آج کے لیے مکمل طورپر غیر متعلق (irrelevant) بنا دیا تھا۔ ماقبل سائنس دَور(pre-scientific era) میں بننے والا ماڈل اب مابعد سائنس دور (post-scientific era) میں کار آمد نہیں رہا تھا۔ ضرورت تھی کہ اب اس کی نئی تشکیل کی جائے اور روایتی فریم ورک میں بننے والے ماڈل کی جگہ سائنسی فریم ورک میں نیا ماڈل بناجائے۔
قُرونِ وسطیٰ کے مسلمان اپنے عمل سے ثابت کررہے تھے کہ وہ تشکیلِ نَوکے اِس کام کے لیے بالکل نااہل ہیں۔ اِس طرح مسلمان عملاً اسلام کی راہ میں ایک رُکاوٹ بن گیے۔ وہ اسلام کو دَور جدید میں داخل کرنے کے لیے نااہل ثابت ہوئے۔
یہی وہ موقع تھا جب کہ خدا نے انیسویں صدی عیسوی میں مغربی قوموں کو یہ موقع دیا کہ وہ روایتی دور میں بنے ہوئے مسلمانوں کے قدیم ڈھانچے کو توڑ دیں اور اسلامی فکر اور اسلامی عمل کا نیا ڈھانچہ بنانے کی راہ ہموار کریں۔
مگر پچھلے دو سوسال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اِس منصوبۂ الٰہی کو سمجھ نہ سکے۔ مسلمانوں کی تمام طاقت پچھلے دو سو سال سے اِس بے نتیجہ کام میں لگی ہوئی ہے کہ وہ قدیم کھنڈر کی اینٹوں کو اکھٹا کرکے دوبارہ قدیم روایتی انداز کا ڈھانچہ کھڑا کریں، مگر ایسا کرنا غیر مفید بھی ہے اور غیر ممکن بھی۔ اس لیے وہ کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔ پچھلے دو سو سال کی ناکام کوشش اِس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
مسلمان پچھلے دوسو سال سے سیاسی اقتدار کی بازیابی کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر وہ اپنے اِس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کی وہ اہمیت ہی نہیں جو مسلم رہنماؤں نے بطور خود سمجھ لیا تھا۔ قدیم زمانے میں مسلمانوں کو طویل مدّت تک سیاسی اقتدار اس لیے ملاکیوں کہ قدیم زمانے میں آخری کلامِ الٰہی (قرآن) کی کامل حفاظت کے لیے سیاسی اقتدار کی حمایت ضروری تھی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد خود پرنٹنگ پریس قرآن کی حفاظت کا ضامن بن گیا، اس کے بعد سیاسی اقتدار کی حیثیت اِس پہلو سے ایک اضافی (relative)چیز بن گئی۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ سیاسی اقتدار کے حق میں خدا کی خصوصی حمایت باقی نہ رہی۔
اب سیاسی اقتدار کا معاملہ اُسی طرح صرف مسابقت کا معاملہ ہے، جس طرح اقتصادیات کا معاملہ مسابقت کا معاملہ۔ تاریخ میں اِس تبدیلی کے بعد اب ایسا ہونے والانہیں کہ سیاسی اقتدار کے قیام و بقا کے لیے مسلمانوں کو خصوصی خدائی مدد ملے۔ اب اِس پہلو سے مسلمانوں کا معاملہ دوسری قوموں جیسا ہے۔ اب مسلمانوں کا معاملہ بھی دوسری قوموں کی طرح اسباب و علل کے تحت ہے۔ جو قوم بھی اسباب و علل کے اعتبار سے اپنے کو اہل ثابت کرے گی وہی سیاسی اقتدار کی مالک ہوگی۔
اب قانونِ فطرت کے تحت، مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اقتدار کی لڑائی لڑنا چھوڑ دیں، وہ اُس نیے امکان سے فائدہ اٹھائیں جس کو موجودہ زمانے میں اداراتی دَور(institutionalization) کہاجاتا ہے۔ یہ نیا امکان قدیم دَور سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ پہلے جس طرح سیاسی اقتدار کو قائم کرنے کے لیے وہ اپنی ساری طاقت لگا دیتے تھے، اُسی طرح اب وہ مختلف غیر سیاسی شعبوں میں ادارہ بنانے میں اپنی ساری طاقت لگا دیں۔ مثلاً تعلیم، دعوت، سماجیات، صحافت، پبلشنگ، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اِس جدید تقاضے کو سمجھیں اور اداراتی تنظیم کے میدان میں پُرامن طورپر سرگرم ہوجائیں تو وہ غیر سیاسی میدان میں زیادہ بڑے پیمانے پر اُس مقصد کو حاصل کرلیں گے، جس کو وہ سیاسی میدان میں صرف ناکام طورپر حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے اور جس میں انھیں یک طرفہ تباہی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوسکا۔