کنڈیشننگ کا مسئلہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی نے آلِ فرعون کے سامنے اپنی دعوت کو معجزاتی انداز میں پیش کیا، لیکن وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا:مَہْمَا تَأْتِنَا بِہِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ (7:132)۔ یعنی ہم کو مسحور کرنے کے لیے تم خواہ کوئی بھی نشانی لاؤ، ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ کا استدلال اپنے آپ میں کوئی کمزور استدلال تھا۔ حضرت موسی کا استدلال پوری طرح ایک طاقت ور استدلال تھا۔ لیکن انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کنڈیشننگ میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ یہ خود فریبی انسان کے لیے ہمیشہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔
حدیث میں اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے گھر کا ماحول اس کو کنڈیشننگ کا شکار بنادیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یہ کنڈیشننگ بلاشبہ ہر انسا ن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو ختم کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کے بجائے، مسٹر ڈی کنڈیشنڈ بنائے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے، وہ سچائی کو قبول کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ خواہ رسول کا زمانہ ہو یا رسول کے بعد کا زمانہ۔
کنڈیشننگ کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈی کنڈیشنڈ آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے، اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور وہ سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے فری انسان بنائے۔