خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۶
۱۔ ۲۵ مئی ۲۰۰۲ کو جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس کا موضوع تھا، اسلام اورامن۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے، وہ جنگ اورتشدد کا مذہب نہیں۔
۲۔ رشی کیش میں ۴ جون ۲۰۰۲ کو پرمارتھ نکیتن کے زیراہتمام بہت بڑاجلسہ ہوا۔ اس میں ٹاپ کے ہندو پیشوا شریک ہوئے۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور اس موضوع پر ایک تقریر کی کہ مختلف مذاہب کے درمیان معتدل تعلقات کس طرح قائم کیے جائیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس معاملہ میں اسلام کا فارمولا یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا پورا احترام کیاجائے اور کسی بھی حال میں یا کسی بھی عذر کی بنا پر ٹکراؤ اور تشدد کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
۳۔ وی آئی پی فیملی میگزین (جے پور) کے نمائندہ مسٹر محمد رفیق نے ۱۳جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم خواتین کی تعلیم سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں مسلم مردوں کے ساتھ مسلم عورتیں بھی تعلیم میں آگے رہی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سارے ملک میں کثرت سے مسلم لڑکیوں کے لیے اسکول اور مدرسے کھولے جارہے ہیں۔ مسلم خواتین بہت بڑے پیمانہ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ یہ مدرسے اور اسکول گویا مسلم خواتین کے لیے ایک نئے دور کی علامت ہیں۔
۴۔ سوتنتر وچار منچ کے تحت ۱۹ جون ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک سیمینا ر ہوا۔ اس کا موضوع تھا: ٹیررزم اور انڈیا۔ اس کی دعوت پرصدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک مفصّل تقریر کی۔
۵۔ دہلی کے ہفتہ وار ہندی اخبار ’’راشٹریہ وشواس‘‘ کے نمائندہ مسٹر بابو لال شرما نے ۲۱ جون ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق ملک اور ملت دونوں قسم کے مسائل سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ یہ صحیح ہے کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو متشددانہ تحریکیں چل رہی ہیں ان سے اسلام کی تصویر خراب ہور ہی ہے۔ مگر اس کا سبب اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں۔ اسلام مکمل طورپر امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ مسلمان اپنی قومی تحریکوں کو اسلامی جہاد کے نام پر چلاتے ہیں، اس لیے اس کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا ہے۔ اگر وہ سری لنکا جیسے لوگوں کی طرح اپنی تحریک کو قومی بنیاد پر چلائیں تو ان کی تحریک کا خواہ جو بھی نتیجہ ہو مگر اس کی وجہ سے اسلام بد نام نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ایسی حالت میں ان کی تحریک کی رپورٹنگ پریس میں مسلم قوم کے حوالہ سے آئے گی، نہ کہ مذہب اسلام کے حوالہ سے۔
۶۔ ۲جولائی ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے ایناڈو ٹی وی (EENADU TV) نے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع تھا: اسلام اور تعلیم۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام تعلیم کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا سبب اسلام نہیں ہے۔ اُس کے اسباب زیادہ تر سیاسی ہیں۔
۷۔ برطانیہ کے دو اسکالر کرس فلپاٹ (Chris Philpolt) اور فرزر گرانٹ(Frser Grant) ۱۰ جولائی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ انہوں نے اپنی ایک زیر تصنیف کتاب کے لئے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کی کتاب کا ٹائٹل اور موضوع یہ ہے:
Millennium Choices; Global Environmental Problems, Spiritual Traditions, a rediscovery of Green Spirituality.
ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ماحولیات اور روحانیات کے بارے میں تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان دونوں موضوعات پر اسلام کا نقطۂ نظر کیاہے۔ نیز ان کاسوال یہ تھا کہ موجودہ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کے جوابات دئے گئے۔
۸۔ مائنارٹیز کمیشن کے زیر اہتمام ۱۴ جولائی ۲۰۰۲ کو نئی دہلی میں ایک سیمینار ہوا۔ اس میں ہر مذہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارے مسائل کاحل رواداری اورمفاہمت کے اصول پر ہی نکل سکتا ہے۔ ٹکراؤ کا طریقہ کسی کے لیے بھی مفید نہیں۔
۹۔ بی بی سی لندن (انگریزی پروگرام) کے تحت ۱۴ جولائی ۲۰۰۲ کو ایک انٹرویو ہوا۔ انٹرویور مسٹر نابلینک(Noblank) لندن کے بُش ہاؤس سے بول رہے تھے اور نئی دہلی کے بی بی سی آفس سے صدر اسلامی مرکز اُن کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ بائیکاٹ کی پالیسی کوئی پالیسی نہیں۔ بلکہ دونوں گروہوں کے درمیان سنجیدہ ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔
۱۰۔ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۶ جولائی ۲۰۰۲ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کاموضوع تھا کہ ہندستان کے ہندو اور مسلمان مل جل کر کس طرح امن کے ساتھ رہیں۔ اس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے۔
۱۱۔ جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن سنٹر میں ۲۱ جولائی ۲۰۰۲ کو حکیم عبد الحمید مرحوم، بانی جامعہ کی یوم وفات کے موقع پر ایک اسلامک کوئز کمپٹیشن کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اس میں شرکت کی اور تقسیم انعامات کے علاوہ ایک تقریر کی۔ تقریر میں انہوں نے طلباء اور طالبات کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب اور جامعہ ہمدرد میں آپ کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یہ جگہ جہاں آج ہمدرد یونیورسٹی ہے،یہاں ۱۹۴۷ میں صرف جنگل تھا۔ انہوں نے شیکسپیئر اور برنارڈ شا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شیکسپیئر کی موت اور برنارڈ شاکی وفات میں تقریباً ڈھائی سو سال کا فاصلہ ہے۔ اس واقعہ کو لے کر برنارڈ شا نے کہا تھا کہ میرا قد شیکسپیئر سے چھوٹا ہے مگرمیں شیکسپئر کے کندھوں کے اوپر کھڑا ہوں :
I am smaller in stature than shakespeare, but I stand upon his shoulders.
انہوں نے نوجوان طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرا قد حکیم عبدالحمید سے چھوٹا ہے مگر میں حکیم عبدالحمید کے کندھوں پر کھڑا ہوا ہوں۔ ۱۹۴۷ میں حکیم عبدالحمید صاحب نے اپنی زندگی کاآغاز جنگل کی سطح سے کیا تھا آج آپ اپنی زندگی کاآغاز یونیورسٹی کی سطح سے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس کا شکر ادا کیجئے اور عزم وہمت کے ساتھ ایک نئے مستقبل کی طرف اپنا سفر شروع کردیجئے۔
۱۲۔ راشٹریہ سہارا اُردو (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ ایک ہندو پارٹی نے مانگ کی ہے کہ قرآن کی کچھ آیتوں کو قرآن سے نکال دیا جائے۔ جواب میں کہا گیا کہ قرآن کی آیتوں پر یہ اعتراض سراسر لغو ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ قرآن اپنے مخاطبین کو الانسان اور الناس کہہ کر خطاب کرتا ہے اس لیے قرآن کے مطابق، ساری دنیا دار الانسان ہے، نہ کہ دار الکفار۔ مائناریٹی کمیشن کے ڈائیلاگ (۱۴ جولائی) کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے بارہ میں یہ نہ کہئے کہ وہاں ملی نمائندے نہیں تھے بلکہ یہ کہئے کہ وہاں ملی دادا نہیں تھے۔
۱۳۔ حیدر آباد سے مولانا سید اکبر الدین قاسمی اپنے خط مورخہ ۲۵ جولائی ۲۰۰۲ میں لکھتے ہیں : یکساں سول کوڈ آپ کا مؤقر کتابچہ جو اس موضوع پر ہزاروں کتابوں پر بھاری ہے وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حالیہ اجلاس (حیدرآباد) کے موقع پر شرکاء اجلاس میں تحفۃً تقسیم کیا گیا۔ اس کو بہت پسند کیا گیا۔ میرٹھ کے سفر نامہ میں مسلم انٹلیکچول فورم کا آپ نے تذکرہ فرمایا تھا، اسی نہج پر یہاں کام کرنے کے لیے یہ فورم قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔
۱۴۔ ۱۸ اگست ۲۰۰۲ کو نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب (اسپیکر ہال) میں ایک گوسٹھی ہوئی۔ اس کا انتظام سار بدیشک آرے پرتی ندھی سبھا نے کیا تھا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور قومی ایکتا کے موضوع پر ایک تقریر کی۔
۱۵۔ دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) میں ۱۵ اگست ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں اشوک سنگھل نے اپنی تقریر میں کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ کافروں کو مارو۔ اس کاجواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ قرآن میں کافر سے مراد کوئی نسل یا قوم نہیں۔ اس سے مراد پیغمبر کے وہ معاصر منکرین ہیں جنہوں نے آپ اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ اور پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو دفاع میں ان سے لڑنا پڑا۔
۱۶۔ سعودی ٹی وی اورایجپٹ ٹی وی کے نمائندہ مسٹر محمد بسّام نسّان مصری نے ۱۸ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر کشمیر کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ موجودہ حالت میں پاکستان کے سامنے صرف دو آپشن ہیں۔ یا تو وہ حالت موجودہ (statusquo) کو مان کر معاملہ ختم کردے یا تشدد کو براہ راست اور بلاواسطہ دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ کر پُرامن ڈائیلاگ کا طریقہ اختیار کرے۔
۱۷۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ (نئی دہلی) کی طرف سے ۱۹ اگست ۲۰۰۲ کو ایک سیمینار ہوا۔ یہ سیمینار جامعہ ہمدرد (نئی دہلی) کے کنونشن ہال میں منعقد کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکزنے اُس میں شرکت کی اوروہاں ایک تقریر کی۔ اس کا موضوع تھا: ہندستانی اسکولوں میں ویلو ایجوکیشن۔ اس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی گئی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ نصاب میں کچھ اخلاقی کتابیں شامل کرنے سے نوجوانوں میں اخلاق نہیں آجائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی کوشش کی ضرورت ہے۔
۱۸۔ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۱ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ گجرات کی گورو یاترا کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ گورویاترا نہیں ہے بلکہ وہ الیکشن یاترا ہے۔ اس کو پری الیکشن سرگرمیوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔
۱۹۔ ایناڈو ٹیلی ویژن (EENADU TV) نے ۲۳ اگست ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات کے فساد سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فساد کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نفرت اور غلط فہمی کے ماحول کو ختم کیا جائے۔ اس کے بغیر فساد کا مستقل خاتمہ نہیں ہوسکتا۔
۲۰۔ جین وشو بھارتی انسٹی ٹیوٹ (راجستھان) کی خاتون وائس چانسلر سُدھا ماہی نے ۳۱ اگست ۲۰۰۲ کواپنے انگریزی میگزین (You) کے لیے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کاخاص موضوع یہ تھاکہ پازیٹیو تھنکنگ کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پازیٹیو تھنکنگ یہ ہے کہ آدمی کی سوچ اتنا زیادہ ترقی کرچکی ہو کہ وہ منفی صورت حال میں بھی مثبت رسپانس دے سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیاکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے۔ ہر مرد اور عورت کو یکساں احترام کے قابل سمجھنا چاہئے اور ہر حال میں پُر امن روش پر قائم رہنا چاہئے۔
۲۱۔ نئی دہلی (جن پتھ) کے نیشنل میوزیم میں ۱۲ ستمبر ۲۰۰۲ کی شام کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا انتظام نہرویووا کیندر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں خصوصی مقرر کے طور پر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع تھا: اسلام کیا ہے۔ اس موضوع پر دو گھنٹہ کا پروگرام تھا۔ آخر میں حاضرین کی طرف سے سوالات کیے گیے اور اُن کے جوابات دیے گئے۔
۲۲۔ ستمبر ۲۰۰۲ کے وسط میں ادارہ الرسالہ ہندی کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ اس سلسلہ میں مختلف پروگرام ہوئے۔ اس کی روداد انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۳۔ انڈین کونسل آف ریلیجس لیڈرس (نئی دہلی) کی طرف سے اعلیٰ طبقہ کے ہندوؤں کا ایک وفد اجودھیا لے جایا گیا۔ وہ لکھنؤ اور فیض آباد ہوتے ہوئے اجودھیا پہنچا۔ یہ پروگرام ۱۹۔۲۰ ستمبر ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو بھی شریک کیا گیا تھا۔ اس سفر میں مختلف ہندو رہنماؤں سے گفتگو ہوئی اور اجودھیا کے ایک بڑے جلسہ میں خطاب کیا۔ اس خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کی ترقی ٹکراؤ کے ذریعہ نہیں ہوسکتی بلکہ رواداری اور میل ملاپ کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔
۲۴۔ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ کو راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ گودھرا اور گجرات جیسے فسادات کاحل کیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ ایک طرف سماج کی جانب سے کھلی مذمت اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے مجرمین کو مکمل سزا۔ ہمارے ملک میں یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ اخلاقی مذمت جانبدارانہ انداز میں کی جاتی ہے، اسی طرح حکومت کی طرف سے مجرمین کو سزا نہیں ملتی۔ اگر یہ دونوں باتیں ہوں تو فسادات بہت کم وقت میں ختم ہو جائیں۔
۲۵۔ گاندھی سمیتی کے زیر اہتمام برلا ہاؤس (نئی دہلی) میں ۶اکتوبر ۲۰۰۲ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا کہ نوجوانوں میں پیس اور ڈسیپلن کس طرح لایا جائے۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ حاضرین میں زیادہ تر نوجوان لوگ تھے۔
۲۶۔ تہران ریڈیو نے ۷ اکتوبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک امریکی مصنف نے لکھا ہے کہ اسلام ٹیررزم کا مذہب ہے۔ سوالات کا تعلق اسی سے تھا۔ جواب میں دلائل سے بتایا گیا کہ یہ ایک لغو بات ہے۔ اس الزام کی تردید میں میری متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ تازہ کتاب کا نام ہے، آئیڈیالوجی آف پیس۔
۲۷۔ نظریۂ امن (Ideology of Peace) کے نام سے ایک تازہ کتاب تیار ہوئی ہے۔ فی الحال وہ انگریزی زبان میں چھپی ہے جو ۱۳۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد انشاء اللہ وہ اردو میں بھی شائع ہوگی۔