خادم الحرمَین کا انتقال
سعودی عرب کے حُکمراں شاہ فہد ۲؍ اگست ۲۰۰۵ء کو انتقال کرگئے۔ شاہ فہد ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے۔ وہ مختلف عُہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۸۲ میں وہ سعودی عرب کے حکمراں بنے۔ اُن کا زمانۂ حکومت سعودی عرب کی تاریخ میں نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں سعودی عرب تیل کی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا ملک (oil super power) بنا۔ ساری دنیا کے لوگ تیل کی دَولت کے حصول کے لیے سعودی عرب کی راجدھانی ریاض آنے لگے۔ اسی زمانے میں امریکی میگزین ٹائم نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قدیم زمانے میں کہا جاتا تھا کہ تمام سڑکیں روم کی طرف جاتی ہیں، اب یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تمام سڑکیں ریاض کی طرف جاتی ہیں:
All roads lead to Riyadh.
شاہ فہد کا دَورِ حکومت نہایت جاہ وجلال کا دورِ حکومت تھا۔ مگر ۱۹۹۵ میں اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ اُن کی صحت نہایت کمزور ہوگئی۔ اُنھیں کنگ فیصل اسپتال میں داخل کردیاگیا۔ اِس کے بعد وہ مسلسل زیرِ علاج رہے۔ دس سال پہلے انھیں حکومت کے کاموں سے عملی طورپر الگ ہوجانا پڑا۔ چنانچہ حکومت کے کام ان کی نیابت میں ان کے سوتیلے بھائی شہزادہ عبد اللہ انجام دینے لگے۔ شاہ فہد کے انتقال کے بعد شہزادہ عبد اللہ سعودی عرب کے حکمراں مقرر کیے گئے ہیں۔ ۱۹۹۵ میں شاہ فہد کے صاحبِ فراش ہوجانے کے بعد سے، حکومت کا روز مرّہ کا کام شاہ عبد اللہ ہی سنبھالے ہوئے تھے۔
شاہ فہد کے زمانۂ حکومت میں سعودی عرب کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی۔ حرم مکّی اور حرم مدنی دونوں میں غیر معمولی توسیع کی گئی۔ ان کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا گیا۔ قرآن کی توسیع واشاعت کے لیے بہت بڑا ادارہ قائم ہوا، جس کے تحت دنیا کی تمام زبانوں میں قرآن کے ترجمے کرکے کروڑوں کی تعداد میں ساری دنیا میں پھیلا دیے گیے۔ دنیا بھر کے مسلم اداروں اور مسلم تنظیموں کو مسلسل مدد ملتی رہی۔ مسلم حکومتوں کو مختلف قسم کی امداد فراہم کی جاتی رہی۔ انھوں نے اپنے لیے خادم الحرمین الشریفین کا لقب اختیار کیا، اس کی وجہ سے وہ مسلم دنیا کے لیے جذباتی طورپر خلیفۃ المسلمین کا بدل بن گئے۔ عرب شہروں کی نئی منصوبہ بند تعمیر کی گئی۔ ملک میں بہترین انفراسٹرکچر قائم کیا گیا، وغیرہ۔
شاہ فہد کے انتقال کے بعد ان کے بارے میں جو رپورٹیں اخباروں میں چھپی ہیں، ان میں کئی سبق آموز پہلو موجود ہیں۔ مثلاً رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شاہ فہد عرب کے ایک سادہ اور بے نشان قبرستان میں دفن کیے گیے:
King Fahad was buried in a simple unmarked grave. (TOI, Agust 3, 2005)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ واقعہ سعودی سلطنت کی ایک عظیم تاریخ کی یاددلاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عرب کے علاقہ نجد میں مشہور مُصلح محمد بن عبد الوہاب نجدی ظاہر ہوئے۔ وہ ۱۷۰۳ میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹۲ میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے مجاہدانہ انداز میں توحید خالص کے احیاء کا عمل شروع کیا۔ اُس زمانے میں نجد کے امیر محمد بن سعود (وفات: ۱۷۶۵)تھے۔ اُنھوں نے محمد بن عبد الوہاب کی پوری مدد کی۔
اس کے بعد محمد بن سعود (حاکم) اور محمدبن عبد الوہاب (مصلح) کے تعاون سے عرب میں زبردست تحریک چلی۔ اس تحریک کے نتیجے میں یہ ہوا کہ محمد بن سعود کو تقریباً پورے عرب میں اقتدار حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد سے جزیرہ نمائے عرب کا نام سعودی عرب یا سعودی مملکت پڑ گیا۔ شاہ فہد اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہ تحریک عام طور پر وہابی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تحریک کا خاص نشانہ یہ تھا کہ شرک کے تمام مظاہر اور علامتوں کو بالکل مٹا دیا جائے۔ یہ لوگ پختہ قبروں کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ انھوں نے عرب میں قدیم پختہ قبروں کو ختم کردیا۔ اس کے بعد عرب میں بڑے بڑے لوگوں کی قبریں بھی سادہ انداز میں بنائی جانے لگیں۔ اسی کا ایک نمونہ یہ تھا کہ شاہ فہد کو عام قبرستان میں بالکل سادہ طور پر دفن کیاگیا۔
شاہ فہد کو عام طورپر امریکا نواز سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ شاہ فہد کی موت کی خبر کو اخباروں میں اس طرح کی سرخی کے ساتھ شائع کیا گیا ہے—امریکا کے دوست، شاہ فہد کا انتقال:
America's friend, King Fahad, dead.
میرے نزدیک شاہ فہد کے لیے یہ لقب درست لقب نہیں۔ آج کل عام طورپر یہ مزاج ہے کہ لوگوں کو پروامریکا یا اینٹی امریکا کے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ کہ لوگوں کو حقیقت پسند (pro-reality) اور غیر حقیقت پسند(anti-reality) کی اصطلاحوں میں یاد کیا جائے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، شاہ فہد نہایت ذہین اور حقیقت پسند آدمی تھے۔ انھوں نے حالات کے مطالعے سے یہ سمجھا کہ امریکا سے ٹکراؤ کرنا ان کو یا مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں دے گا، بلکہ یقینی طورپر وہ معکوس نتیجہ (counter-productive) کا سبب بن جائے گا۔ اس لیے انھوں نے یہ پالیسی اختیار کی کہ امریکا سے بے فائدہ ٹکراؤ نہ کیا جائے بلکہ امریکا کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ امریکا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کو واحد سپر پاور کہا جاتا ہے۔ ایسی طاقت سے ٹکراؤ کرنا عقل اور دین دونوں کے خلاف ہے۔ اس کی ایک مثال خود قرآن میں موجود ہے۔ حضرت سلیمان جو اپنے زمانے کے عظیم حکمراں تھے، ان کے مقابلے میں ملکۂ سبا نے ٹکراؤ نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی اور اس کو کامیابی حاصل ہوئی(النمل ۳۴)۔ یہ واقعہ قرآن میں جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ اصولِ تفسیر کے مطابق قرآنی تصدیق کے ہم معنی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاہ فہد نے اسی دانش مندانہ پالیسی کو اختیار کیا۔ یہ منفی طرزِ فکر کا نتیجہ تھا کہ لوگوں نے اس پالیسی کو غلط طور پر امریکا نواز پالیسی کا نام دے دیا۔
عربی زبان کی ایک بامعنی مثل ہے: تعرف الأشیاء بأضدادہا (چیزیں اپنے ضد سے پہچانی جاتی ہیں) اس تاریخی اصول کی روشنی میں شاہ فہد کے معاملے کو سمجھئے۔ امریکا کے مقابلے میں حکومتی پالیسی کا جو مسئلہ ہے، اس کے بارے میں موجودہ زمانے میں دو متضاد مثالیں ملتی ہیں۔ ایک، عرب کے حکمراں شاہ فہد کی مثال، جنھوں نے امریکا کے ساتھ صُلح کا طریقہ اختیار کیا۔ دوسری مثال عراق کے حکمراں صدام حسین کی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، شاہ فہد کی حقیقت پسندانہ پالیسی کے نتیجے میں نہ صرف عرب کو بلکہ ساری مسلم دنیا کو بے شمار فائدے حاصل ہوئے۔ آج مسلم دنیا نیز یورپ اور امریکا میں ہر جگہ شان دار مسلم ادارے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بنانے والے مسلمان اگرچہ زبان سے کھلے طورپر اس کا اعتراف نہیں کرتے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی شان دار کامیابی کا راز سعودی حکومت کا عظیم تعاون ہے۔ سعودی حکومت اس عالمی تعاون کے قابل اس لیے بنی کہ اس نے مغربی طاقتوں کے مقابلے میں عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی۔
عراق کے حکمراں صدام حسین کی زندگی اس کے برعکس مثال پیش کرتی ہے۔ انھوں نے امریکا کو مسلم دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ (اُمُّ المعارک) کا اعلان کردیا۔ بہت سے جذباتی مسلمان اس معاملے میں صدام حسین کے ہم نوا بن گئے، مگر نتیجہ کیا نکلا۔ صدام حسین اور عراق دونوں تباہ ہوگیے۔ عراق میں تیل کی دولت بڑی مقدار میں موجود تھی، مگر اس خداد اد دولت کا فائدہ نہ عراق کو ملا اور نہ عراق کے باہر دوسری مسلم دنیا کو۔
سعودی عرب کے قدیم حکمراں شاہ فیصل (وفات: ۱۹۷۵)اپنی جرأت اور بے باکی کے لیے مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئے۔ مگر ذاتی طورپر میرا خیال ہے کہ شاہ فہد کی مفاہمت کی پالیسی اس سے بھی زیادہ عرب کے لیے نیز ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے غیر معمولی طورپر مفید ثابت ہوئی۔
اس معاملے میں ایک تقابلی مثال لیبیا کے حکمراں کرنل قذّافی کی ہے۔ لیبیا کے پاس تیل کی بہت بڑی دولت موجود تھی۔ مگر کرنل قذافی نے امریکا مخالف پالیسی اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لیبیا میں کوئی ترقی نہ ہوسکی، اس کی دولت نہ لیبیا کے کام آئی اور نہ باہر کی مسلم دنیا کو اس سے کوئی فائدہ پہنچا۔ لیبیا، فارسی مقولے کے مطابق ’’نہ خود خورد نہ بہ کس دہد‘‘ کا مصداق بن گیا۔
کرنل معمّر قذافی کی مخالفِ امریکا پالیسی کی بنا پر امریکا نے لیبیا کے خلاف سخت کارروائی کی۔ چند سال یہ معاملہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ کرنل معمر قذافی نے مجبور ہوکر امریکا کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دیے۔ گویا کرنل قذافی نے وہی حقیقت پسندانہ پالیسی بعد کو اختیارکی جو حقیقت پسندانہ پالیسی شاہ فہد بہت پہلے اختیار کرچکے تھے:
آں چہ دانا کند، کُند ناداں لیک بعد از خرابی ٔ بسیار