سفر ِ معرفت
انسان کے ذہن میںپیدائش کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور پر سب سے پہلے جو خیال آتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان کا خالق کون ہے۔ اسی تصور کو لے کرتقریباً پانچ ہزار سال پہلے فلسفیانہ غور و فکر کا آغاز ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام بڑے بڑے دماغ اس غور و فکر میں مشغول ہوئے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ فلسفیانہ غو ر و فکر کسی فلسفی کو اپنے سوال کے جواب تک نہ پہنچا سکا۔ برطانی فلسفی برٹرینڈ رسل(1872–1970ء) ایک مشہور فلسفی تھا۔ وہ اپنی ساری عمر اس موضوع کے مطالعے میں مشغول رہا۔ مگرساری عمر کے مطالعے کے باوجود اس کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملا۔ اس کے ایک کمنٹیٹر نے اس کے بارے میں درست طور پر لکھا ہے :
‘‘Bertrand Russell was a philosopher of no philosophy.’’
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات تمام فلسفیوں کے بارے میں درست ہے۔ ہر فلسفی عملاً فلاسفر آف نو فلاسفی تھا۔ ہر فلسفی کا موضوع یہ تھا کہ وہ سچائی کیا ہے، اس سوال کا جواب فلسفیانہ فریم ورک میں معلوم کرے۔ مگر کوئی بھی فلسفی اپنی اس تلاش میں کامیاب نہیں ہوا۔ سچائی کا فلسفیانہ جواب ہزاروں سال کے تلاش کے باوجود نامعلوم رہا۔
ایسا کیوں ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انسان نے سوال کو تو جانا۔ لیکن وہ اس سے بے خبر رہا کہ اس سوال کا جواب پانے کے لیے صحیح طریقِ مطالعہ (methodology) کیا ہے۔ حالاں کہ جتنی اہمیت کسی سوال کی ہے۔ اتنی ہی اہمیت اس سوال کا جواب پانے کے لیے صحیح طریقِ مطالعہ (methodology) کی ہے۔
راقم الحروف کو اس سوال کا جواب قرآن میں ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے اللہ رب العالمین نے اس میتھڈالوجی کو اشارہ کی زبان میں بتادیا تھا۔ لیکن کوئی عالم یا فلسفی اس کو متعین طور پر جان نہ سکا۔ قرآن کا جواب سورہ الاعراف میں اس طرح ملتا ہے۔ پیغمبر موسیٰ مصر سے نکلنے کے بعد جب صحرائے سینا میں پہنچے تو وہاں ماؤنٹ سینائی (Mount Sinai) کے مقام پر ان پر ایک تجربہ گزرا۔ پیغمبر موسیٰ کے اوپر یہ تجربہ ایک اندازے کے مطابق پندرھویں صدی قبل مسیح کے نصف ثانی میں گزرا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیاہے:
وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (7:143)۔ یعنی اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا، مجھے اپنے کو دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھوں۔ فرمایا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو تم بھی مجھ کو دیکھ سکو گے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑا۔ پھر جب ہوش آیا تو بولا، تو پاک ہے، میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔
پیغمبر موسیٰ کے اس تجربے میں ایک علمی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان موجودہ دنیا میں خدا کو براہ راست طور پر نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ رب العالمین کو دیکھنے کی صورت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ انسان مخلوقات میں غور وفکر کرکے استنباط (inference) کے ذریعہ اس کے خالق کی دریافت کرے۔ یہی وہ نکتہ ہے، جس کی وجہ سے علم حقیقت کا سفر اپنی منزل تک نہ پہنچ سکا۔ خالق اور مخلوق دونوں ایک نہیں ہیں، بلکہ دونوں مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ لہٰذااس معاملے میں صحیح میتھڈالوجی صرف یہ ہے کہ انسان پہلے یہ دریافت کرے کہ خالق اور مخلوق دونوں الگ الگ ہیں، اور پھر مخلوق یعنی کائناتی نشانیوں میں غور وفکر کر کے بذریعہ استنباط خالق کو دریافت کرے۔ مگر یہاں یہ واقعہ انسان کے لیے ایک رکاوٹ بنا رہا کہ اس کو یہ طریقہ معلوم نہ تھا کہ وہ خالق کو الگ کرکے مخلوق کو کس طرح دریافت کرے۔
یہ ڈی لنکنگ (delinking)کا معاملہ تھا۔ یعنی ضرورت تھی کہ انسان خالق کا مطالعہ اور مخلوق کے مطالعہ کو ایک دوسرے سے ڈی لنک کرے۔ مگر انسان کو قدیم زمانے میں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ڈی لنکنگ کی پالیسی کو عملاً کس طرح اختیارکرے۔ یہ واقعہ اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی (وفات1642ء) نے انجام دیا۔ جرمن سائنس داں البرٹ آئنسٹین (1879-1955ء) نے درست طور پر لکھا ہےکہ گلیلیو جدید سائنس کا بانی تھا:
‘‘Galileo was the father of modern science.’’
آئنسٹین کی اس بات کامطلب یہ ہے کہ گلیلیو سے پہلے سائنس بیک وقت دو قسم کے خیالات میں الجھی ہوئی تھی۔ یعنی حقیقت کا قابل مشاہدہ پہلو (observable aspect) اور ناقابل مشاہدہ پہلو (non-observable aspect)۔ دوسرے لفظوں میں کیفیاتی (quantitative)پہلو اور کمیاتی (qualitative)پہلو۔ گلیلیو نے دونوں کو ایک دوسرے سے ڈی لنک کردیا۔ ناقابل مشاہدہ پہلو کو فلسفیانہ تلاش کے خانے میں رکھا، اور قابل مشاہدہ پہلو کو سائنس کی تلاش کے دائرے میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے سائنس کا سفرگویا کہ ایک بند دروازے میں رکا ہوا تھا، گلیلیو نے اس بند دروازے کو کھول دیا۔
گلیلیو اس دریافت تک کس طرح پہنچا۔ اس کا بھی ایک سبب تھا۔ گلیلیو کے زمانے میں دوربین (telescope) ابتدائی طور پر دریافت ہوئی۔ گلیلیو نے پہلی بار1610ء میں اس کے ذریعے سیاروں کی گردش کا براہ راست مطالعہ کیا۔ اس طرح شمسی نظام (solar system) کا براہ راست مطالعہ کا آغازہوا۔ اسی کے ساتھ سائنس کا ایک نیا دور شروع ہوگیا، جس میں پوری فیزیکل ورلڈ ایک قابل مطالعہ چیز بن گئی۔
اس اعتبار سے گلیلیو نہ صرف فادر آف ماڈرن سائنس ہے، بلکہ وہ بالواسطہ طور پر فادر آف ماڈرن علم کلام بھی ہے۔ کیوں کہ گلیلیو سے پہلے علم کلام صرف ٹکنکل بحثوں میں الجھا ہوا تھا، وہ کسی حقیقت کو دریافت نہیں کرپایا تھا۔ لیکن گلیلیو کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ علم کلام کو ایک نئے دور میں پہنچایا جاسکے، یعنی وہ دور جس کو قرآن میں تبیین حق کا دور بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی متعلقہ آیت (41:53)کا ترجمہ یہ ہے:عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں ک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔)علم کلام کی تفصیل کے لیے دیکھیے، ماہنامہ الرسالہ، اپریل 1978، بعنوان:علم کلام کی حقیقت(۔
جدید سائنسی دور سے پہلے انسان کائناتی نشانیوں کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چنانچہ قدیم زمانے میں معرفت اعلیٰ تک پہنچنے کے لیے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ اسی انقلاب کا یہ نتیجہ ہے کہ بیسویں صدی میں علم الٰہیات میں بہت سے نہایت قابل قدر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نمائندہ کتاب وہ ہے، جس کا عربی ترجمہ اس معنی خیز عنوان کے ساتھ چھپا ہے— اللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم الدكتور الدمرداش عبد المجيد سرحان)۔ اصل کتاب کا انگریزی ٹائٹل حسبِ ذیل ہے:
‘‘The Evidence of God in an Expanding Universe.’’
اس اعتبار سے غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ علم الٰہیات یا علم کلام کے معاملے میں گلیلیو گلیلی کا کارنامہ ایک تائیدی کارنامہ ہے۔ غالباً اسی تائید کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّ اللّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1096)۔یعنی اللہ تعالیٰ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعہ کرے گا۔
میرا قیاس ہے کہ یہاں ’’الرجل الفاجر‘‘ سے مراد سیکولر انسان ہے، اور یہ سیکولر انسان غالباً گلیلیو گلیلی تھا۔ و اللہ اعلم بالصواب۔گلیلیو گلیلی کی اس دریافت کے بعد بیک وقت علم کے دو دروازے کھلے۔ ایک درواز ہ تھا فیزیکل سائنس کا ڈیولپمنٹ، اور دوسرا دروازہ تھا علم الٰہیات کا دروازہ، جو اس سے پہلے کلامی موشگافیوں میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کو ایک تسلیم شدہ علمی بنیاد حاصل ہوئی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اس علمی بنیاد کو استعمال کرکے علم الٰہیات کودورِ جدید میں نئی طاقت کے ساتھ مرتب کیا جاسکے۔
توحید کاآغاز معرفت (realisation) سے ہوتا ہے۔ یعنی کائناتی نشانیوں میں تدبر و تفکر کرکے خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔ قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نشانیاں (signs) اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ لامحدود کائناتی نشانیاں ہیں جن پر تدبر کرکے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاتا تھا۔ گلیلیو کے بعد تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح آج ایک انسان کے لیے یہ بات اعلیٰ پیمانے پر ممکن ہوچکی ہے کہ وہ اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرکے اس کے آگے جھک جائے۔