نشانِ منزل
ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے جب سڑک بنائی جاتی ہے تو اس میں جگہ جگہ نشانات لگائے جاتے ہیں۔ یہ نشانات مسافر کو بتاتے ہیں کہ وہ کدھر جائے اور کدھر نہ جائے۔ یہ نشانات بتاتے ہیں کہ مسافر کے لیے صحیح سمت کیا ہے۔ وہ کو ن سا راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے وہ آخر کار اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ جو آدمی ان نشانات کی پیروی کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے گا۔ وہ یقینا اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔
اسی طرح زندگی کے سفر کا بھی ایک راستہ ہے۔ اس راستہ میں بھی کچھ نشانات مقرر کردیے گئے ہیں۔ جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ راستہ کے نشانات کو پڑھے اور پوری طرح اس کی پیروی کرے۔
زندگی کے سفر کے یہ نشانات کیا ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ آدمی سوچ سمجھ کر اپنے لیے ایک راستہ کا انتخاب کرے، ایک ایسا راستہ جس کو پھر کبھی چھوڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ راستہ بدلنا گویا اپنے سفر کو پیچھے لے جانا ہے۔ وہ اپنے سفر کی مدت کو کم کرنا ہے۔ کامیابی ہر راستہ میں ممکن ہے مگر جو آدمی اپنا راستہ بدلتا ہے وہ کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔
اس کے بعد دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ راستہ کی رکاوٹوں میں کبھی نہ الجھے۔ وہ ہر رکاوٹ سے اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جائے۔ رکاوٹوں سے ٹکرانا زندگی کے سفر کو روک دیتا ہے اور رکاوٹوں کو نظر انداز کرنا زندگی کے سفر کو مسلسل جاری رکھتا ہے۔
پھر مسافر کو چاہیے کہ وہ درمیان میں ملنے والے چھوٹے چھوٹے فائدوں پر قانع نہ ہو، وہ اپنے نشانہ سے کبھی نظر نہ ہٹائے۔ بڑی کامیابی پانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اس دنیا میں بڑی کامیابی صرف اس انسان کا حصہ ہے جو چھوٹی کامیابی پر راضی نہ ہو۔ جو بڑے فائدہ کی خاطر چھوٹے فائدہ کو نظر انداز کرسکے۔ جو مستقبل کی امید میں حال سے اوپر اٹھ جائے۔