قرآن اور امنِ عالم
امن کی تعریف، عدم جنگ(absence of war) سے کی جاتی ہے۔ مگر یہ امن کی منفی تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن ایک مثبت قدر کا نام ہے۔ ہر قسم کی تعمیری سرگرمی کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں امن کی حالت قائم ہو۔ امن کے بغیر کسی صحت مند سماج کا قیام ممکن نہیں۔
امن کا تصور دنیا میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ اِس شعبۂ مطالعہ کے لیے ایک مخصوص اصطلاح بھی وضع کی گئی ہے، جس کو پیسفزم(Pacifism) کہاجاتا ہے۔ پیسفزم کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ حتی کہ اِس موضوع پر ایک مستقل انسائکلو پیڈیا چھپی ہے، جس کا نام یہ ہے:
An Encyclopaedia of Pacifism (1937)
تاہم قدیم زمانے میں امن کا تصور یہ تھا کہ وہ ایک ایسی حالت ہے جس کو کوئی حکومت اپنی طاقت کے زور پر قائم کرتی ہے۔ چنانچہ رومن امپائر کے عہد میں پیکس رومانا(Pax Romana) کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ رومی اقتدار کے تحت قائم کیا ہوا امن۔ موجودہ زمانے میں جب امریکا کو سپرپاور کی حیثیت حاصل ہوئی تو پیکس امریکانا(Pax Americana) کا لفظ بولا جانے لگا۔ یعنی امریکا کے صنعتی دبدبے کے تحت قائم کیا جانے والا امن۔ امن کے معاملے میں اسلام نے جو فارمولا دیا ہے اس کو اِسی طرح پیکس اسلامیکا(Pax Islamica) کہا جاسکتا ہے۔
مہاتما گاندھی کو اِس باب میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ انھوں نے ہتھیار کے استعمال کے بغیر انڈیا کو سیاسی آزادی دلائی۔ چنانچہ اِس موضوع کو لے کر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً:
Mahatma Gandhi's Ideas, by C.F. Andrews.
Gandhi's Notions of Satyagraha, by Hannah Arendt.
مگر اس معاملے میں گاندھی کا کارنامہ ایک ادھوری نوعیت کا کارنامہ ہے۔ گاندھی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہتھیار کا استعمال نہیں کیا۔ مگر انھوں نے دوسرا کام یہ کیا کہ عوامی مظاہروں اور سول نافرمانی (civil disobedience) جیسے انتہا پسندانہ طریقوں کو اپنے مقصد کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔ اِس طریقِ کار کا منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان سے انگریزوں کاسیاسی اقتدار تو ختم ہوا لیکن اسی کے ساتھ ملک میں نراج کا دَور دورہ ہوگیا۔ قانون شکنی کا مزاج عام ہوگیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کی روایات ٹوٹ گئیں،وغیرہ۔ چنانچہ ۱۹۴۷ میں جو آزاد ہندستان بنا، وہ ایک ایسا ملک تھا جو امریکی پروفیسر گال بریتھ کے الفاظ میں حقیقی جمہوریت سے زیادہ ایک فنکشننگ انارکی(functioning anarchy)کے ہم معنی تھا۔
اصل یہ ہے کہ امن کے قیام کے لیے سب سے پہلے امن کا ایک قابل عمل فارمولا درکار ہے۔ ایک ایسا فارمولا جو لوگوں کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر زیر عمل لایا جاسکے۔ جو موجود روایات کو توڑے بغیر امن کی حالت قائم کرے۔ جس کے ذریعے سماج میں کوئی نیا بگاڑ لائے بغیر امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ امن کے لیے اِس قسم کا فارمولا پہلی بار قرآن میں پیش کیا گیا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زیرِ عمل لاکر اس کا ایک باقاعدہ نمونہ تاریخ میں قائم کردیا۔
پیکس رومانا، اور پیکس امریکانا کو اگر سیاسی امن کہا جائے تو قرآن کے اصولِ امن کو اصلاحی امن کا نام دینا درست ہوگا۔ قرآن کا امن فارمولا اِس بات کو ممکن بناتا ہے کہ جبر اور بگاڑجیسی کوئی خرابی پیدا کیے بغیر امن کی حالت قائم کی جاسکے، یعنی وہ حالت جس میں ہر قسم کی تعمیری سرگرمیاں قابلِ عمل ہوجائیں۔
قر آن کے اِس امن فارمولے کو بتانے کے لیے میں نے اپنی کتاب اسلام ری ڈسکورڈ (Islam Rediscovered) میں ایک اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ اصطلاح پازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive statusquoism) ہے۔ یعنی حالتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، اور اس کے ہوتے ہوئے عین اُسی وقت جو امکانات(opportunities) پائے جارہے ہیں، ان کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔ یہ ایک کامیاب فارمولا ہے جس کو قرآن میں انّ مع العسر یسرا کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ یعنی مسائل کے ساتھ ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں، اس لیے مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problems, avail the opportunities.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے حقیقی معنوں میں امن کا سماج قائم کیا۔ اس سماج کے قیام میں پوری طرح مذکورہ قرآنی فارمولے کو استعمال کیاگیا تھا۔ پیغمبر اسلام کی زندگی گویا کہ امن کے اِس قرآنی فارمولے کی ایک عملی تفسیر ہے۔ آپ کی زندگی کے مطالعے سے ہم جان سکتے ہیں کہ یہ قرآنی فارمولا کس طرح زیر عمل لایا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم مکّہ میں ۶۱۰ عیسوی میں اپنی دعوتِ توحید کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکّہ میں آپ کے لیے ایک سنگین مسئلہ تھا۔ آپ کا مشن یہ تھا کہ آپ کعبہ کو دوبارہ توحید کے عالمی مرکز کی حیثیت سے بحال کریں۔ مگر عملی صورتِ حال یہ تھی کہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئـے تھے۔ اگر آپ ایسا کرتے کہ ’’بت شکنی‘‘سے اپنے کام کا آغاز کرتے تو اس کا انجام یہ ہوتاکہ آپ کی بُت شکنی عملاً امن شکنی کے ہم معنی بن جاتی۔ اِس قسم کی کوشش کے نتیجے میں جوچیز ظہور میں آتی وہ سماجی فساد ہوتانہ کہ سماجی امن۔ آپ نے قرآنی حکمت کے مطابق،اِس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی (de-linking policy) اختیار کی۔ یعنی بُت کی موجودگی کے مسئلے کو بَروقت نظر انداز کرنا، اور بتوں کے باوجود آپ کے لیے وہاں کام کے جو مواقع موجود ہیں، اُن کو استعمال کرنا۔
کعبہ کے تین سو ساٹھ بت در اصل مختلف عرب قبائل میں پوجے جانے والے بت تھے۔ چنانچہ اِن قبائل کے افراد اپنے بتوں کی زیارت کے لیے برابر وہاں آتے رہـتے تھے۔ اِسی طرح خود اہلِ مکّہ کے لیے بھی کعبہ ایک مرکزِ اجتماع بنا ہوا تھا۔ جہاں وہ روزانہ اکھٹا ہوتے اور اپنے رواج کے مطابق، وہاں اپنے مذہبی مراسم ادا کرتے۔ اِس طرح کعبہ فطری طورپر ایک مقامِ اجتماع بن گیا۔
کعبہ میں رکھے ہوئے بُت بظاہر پیغمبر اسلام کے لیے ایک مسئلہ تھے، لیکن کعبہ کے صحن میں لوگوں کے اجتماع نے اِس مقام کو گویا کہ عربوں کی نیشنل اسمبلی کا درجہ دے دیا تھا۔ آپ نے کعبہ کے اِس دوگونہ پہلو کو سمجھا، اور بصیرتِ قرآنی سے کام لیتے ہوئے یہ کیا کہ آپ نے بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر انداز کیا، اور انسانوں کی موجودگی کو اپنی دعوت کے لیے مقامِ خطاب کے طورپر استعمال کیا۔ چنانچہ آپ پُرامن طور پر وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن کے حصے پڑھ کر سُناتے۔ اِس طرح قرآن کا پیغام کسی ٹکراؤ کے بغیر خاموشی کے ساتھ عرب قبائل میں پہنچنے لگا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک پُرامن پیغام رسانی کا یہ مشن چلاتے رہے۔ قریش نے دیکھا کہ لوگ آپ کے کلام سے متاثر ہو کر آپ کے دین میں داخل ہورہے ہیں، اِس لیے وہ آپ کے مخالف ہوگیے۔ یہ مخالفت اتنی زیادہ بڑھی کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سب مل کر آپ کو قتل کرڈالیں، اور اس طرح آپ کے مؤحّدانہ مشن کو ختم کردیں۔یہ ایک سنگین صورت تھی۔ آپ نے پیشگی طورپر اس کا اندازہ کرلیا اور مکّہ میں قیام کے زمانے ہی میں اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے تین سو میل دور واقع شہر مدینہ بھیج دیا۔ یہ لوگ وہاں جاکر توحید کی پُرامن تبلیغ کرنے لگے۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے۔ اِس لیے اُن کو مُقری کہاجانے لگا، یعنی پڑھ کر سنانے والا۔ اِس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کے لوگ تیزی سے اسلام قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہوگیا۔
اس تجربے سے اندازہ ہوا کہ مدینہ کے حالات مکّہ کے حالات سے مختلف ہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے فیصلہ کیا کہ وہ مکّہ والوں سے متشدّدانہ ٹکراؤکی نوبت نہ آنے دیں۔ اِس کے بعد آپ یک طرفہ فیصلے کے تحت، مکّہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ اِس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں ہجرت کہا جاتا ہے۔ ہجرت کا مطلب ہے—تشدد کے مقام کو چھوڑ کر ایسی جگہ چلے جانا جہاں پُر امن طورپر کام کرنے کے مواقع پائے جاتے ہوں۔
پیغمبر اسلام نے پُر امن عمل کا یہی طریقہ اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا۔ ہجرت کے بعد قریش نے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کی تو آپ ہر قیمت پر اس سے اعراض کرتے رہے۔ چند بار صرف اُس وقت محدودطور پر دفاعی جنگ کی نوبت آئی جب کہ فریقِ مخالف کے جارحانہ اقدام نے آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ آخر میں آپ نے خود اپنی طرف سے مخالف قبیلہ قریش سے امن کی بات چیت شروع کی۔ وہ لوگ ضد پر اُترآئے تو آپ نے اُن کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر منظور کرتے ہوئے اُن سے ناجنگ معاہدہ(no war pact) کرلیا۔ اِس معاہدے کا خلاصہ یہ تھا کہ—دونوں فریق اپنے اپنے دائرے میں امن پر قائم رہیں گے اور دوسرے کے خلاف وہ کوئی متشددانہ کارروائی نہیں کریں گے— اِس معاملے کی تفصیل راقم الحروف کی کتاب ’ امنِ عالم‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔