آیت الکرسی
قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک آیت ہے جس کو عام طورپر آیت الکرسی کہاجاتا ہے۔ اِس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جو وہ چاہے۔ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمینوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ تھکتا نہیں ہے اُن کے تھامنے سے۔ اور وہی ہے بلند مرتبہ، عظمتوں والا (2: 255)۔
بلاغت کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر کسی حقیقت کو کامل صحت کے ساتھ بیان کردیا جائے تو ایسا بیان اپنے آپ میں کافی ہوجاتا ہے، اس کے بعد اِس بیان کو مدلل کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ مثلاً دوپہر کے وقت اگر کھلے آسمان میں سورج چمک رہا ہو تو یہ کہنا کافی ہے کہ سورج نکلا ہوا ہے۔ اِس کے بعد اِس بیان کو ثابت کرنے کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہ ہوگی۔
سورج کی مثال ایک حسّی مثال ہے۔ یہی معاملہ غیر حسّی حقیقتوں کا بھی ہے۔ اگر کسی غیر حسی حقیقت کو کوئی شخص پوری طرح دریافت کرلے اور پھر اس کو کامل صحت کے ساتھ الفاظ میں بیان کردے تو ایسا بیان اپنے آپ میں ایک مدلل بیان بن جائے گا۔ یہی معاملہ قرآن کی مذکورہ آیت کا ہے جس کو آیت الکرسی کہاجاتا ہے۔آیت الکرسی میں خداوند ذوالجلال کی جن صفتوں کو الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، ان میں صحتِ بیان اتنا زیادہ کمال درجے میں پایا جاتا ہے کہ اگر اس میں مزید وضاحت شامل کی جائے تو وہ اصل بیان کو کم تر کرنے کے ہم معنی بن جائے گی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ آیت الکرسی کو یاد کرکے بار بار اس کو دہرائے۔ وہ محسوس کرے گا کہ وہ ایک ایسے کلام کو دہرا رہا ہے جو معروف قسم کے مدلل کلام سے بھی زیادہ مدلل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت الکرسی ایک ایسا کلام ہے جس کو تشریح کے بغیر پڑھنا چاہیے۔ اُس میں کسی تشریح کا اضافہ صرف اس کی عظمت کو گھٹانے والا ثابت ہوگا، نہ کہ اس کی عظمت کو بڑھانے والا۔