دین کے تقاضے

قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو ایک مسلم کے لیے متعین طور پر دین کے تین تقاضے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ تین تقاضے یہ ہیں — (1) معرفت، (2) اقامت، (3) شہادت۔ یہ تینوں تقاضے قرآن اور حدیث میں واضح طور پر موجود ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں قرآن کی کچھ آیتیں نقل کی جاتی ہیں۔

(1)معرفت کے سلسلے میں قرآن کی متعلق آیات یہ ہیں:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ۔ وَمَا لَنَا لَانُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے، رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔

ایک شخص کے لیے ایمان کا آغاز یہ ہے کہ و ہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے۔ اس مطالعے کے ذریعہ اس کو اسلام کی معرفت(دریافت) حاصل ہو۔ یہ معرفت اتنی گہری ہو کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں۔ اس کا ذہن اس طرح ایڈریس ہو کہ اس کو محسوس ہو کہ میں نے اپنی تلاش کا جواب پا لیا ہے۔ یہ دریافت اتنی گہری ہو کہ وہ اس کی سچائی کا گواہ بن جائے۔

(2) اقامت دین کےسلسلے میں قابلِ مطالعہ آیت یہ ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّینِ مَا وَصَّى بِہِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَى وَعِیسَى أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ (42:13)۔ یعنی اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو۔

یہاں اقامت کا مطلب پیروی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین جو مشترک طور پر تمام پیغمبروں کو دیا گیا، وہ ایک ہی دین ہے۔ وہ توحید پر مبنی ہے۔ ہر فرد مسلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشترک دین کو مانے، اور بھرپور طور پر اس کی پیروی کرے۔

(3)مومن کی تیسری ذمہ داری قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (2:143)۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، امت محمدی بیچ کی امت ہے۔ یعنی امت محمدی کو یہ کرنا ہے کہ وہ خدا کی ہدایت کو پیغمبر اسلام سے لے کر تمام انسانوں تک اس کی قابلِ فہم زبان میں پہنچائے۔

ان پہلوؤں میں دعوت کا پہلو ایک ایسا پہلو ہے، جو جتنا دوسروں سے تعلق رکھتا ہے، اتنا ہی وہ اپنے آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ دعوت کے کام میں انٹریکشن کا عمل بھی بار بار پیش آتا ہے۔ یہ انٹرایکشن آدمی کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنا مطالعہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ سیکھنے اور سکھانے (mutual learning) کے عمل کو لامتناہی طور پر بڑھاتا رہے۔ دعوت کا کام صرف اناؤنسمنٹ (announcement) کا کام نہیں ہے، وہ ایک ہمہ جہتی عمل ہے۔ اس میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر زندگی کا ہر پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ دعوت ایک ایسا کام ہے، جو آدمی کو ایک زندہ درس گاہ کا رکن بنا دیتا ہے۔

یہ تین پہلو تین نکاتی معیار ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ان تین پہلوؤں سے اپنے آپ کو جانچتا رہے۔ وہ ان تین پہلوؤں کے اعتبار سے اپنا محاسبہ (introspection)کرتا رہے۔ بلکہ زیادہ اچھا یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنے پاس ایک ڈائری رکھے۔ اس ڈائری میں وہ اپنا جائزہ لکھتا رہے۔ یہ ڈائری اس کے لیے ایک آئینہ ہوگی، جو اس کو بتائے گی کہ اس نے ہر دن کیا کھویا اور کیا پایا۔اس نے ہر دن کیا سیکھا،اور کیا سیکھنے سے وہ محروم رہا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom