سوال وجواب
سوال
میں الرسالہ دس سال سے پڑھ رہی ہوں اور آپ کی کئی کتابیں بھی پڑھ چکی ہوں۔ میں آپ کے مشن سے پورا اتفاق کرتی ہوں۔ آپ کی تحریریں پڑھنے سے پہلے میری سوچ یہ تھی کہ دنیا میں سب کچھ مال و دولت ہے۔ مگر آپ کی تحریریں پڑھنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑی دولت عقل کا صحیح استعمال اور صبر ہے۔ آپ کی تحریروں میں صبر کی بہت اہمیت ہے۔ صبر سے وہ چیز ملتی ہے جو جلد بازی سے نہیں ملتی۔
میں ’’الہُدیٰ کراچی‘‘ میں قرآن کی کلاسیز لینے جاتی ہوں۔ ہماری اُستاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ ہیں۔ قرآن کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ہمیں آپ کی کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘ پڑھائی۔ یہ بہت اچھی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشن کو آگے لے جانے کی توفیق دے، آمین۔
اب سوال یہ ہے کہ دعوتِ اسلام کا کام میں کس طرح کرسکتی ہوں۔ کیا مجھے پہلے یہ کام اپنے گھر سے شروع کرنا چاہیے یا باہر جاکر لوگوں کو بتاؤں۔ دعوت کا اصل کام تو غیر مسلموں میں ہوگا۔ مگر گھر والے بھی تو صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان گھر میں پیدا ہوگئے۔ پہلے اپنی اصلاح، پھر گھر والوں کی اصلاح، پھر گھر سے باہر دوسرے لوگوں کی۔دوسرا سوال یہ کہ دین و دنیا میں کس طرح بیلینس (balance) قائم کیا جائے۔ جب سے دین کی طرف رجحان ہوا ہے دنیا سے بے رغبتی ہونے لگی ہے۔ مگر دنیا کو چھوڑنا بھی صحیح نہیں ہے۔ میں کنفیوزڈرہتی ہوں کہ کس سے ملوں اور کس سے نہ ملوں۔ کہاں جاؤں اور کہاں نہ جاؤں۔ (فرزانہ فیصل، کراچی)
جواب
۱۔ دین کا کام مسلم اور غیر مسلم دونوں کے درمیان کرنا ہے۔ تاہم دونوں کی نوعیت ایک دوسرے سے الگ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان کیے جانے والے کام کا عنوان اصلاح ہے، اور غیر مسلموں کے درمیان کیے جانے والے کام کا عنوان دعوت ہے۔ یہ دونوں ہی کام ضروری ہیں۔ ہمیشہ اور ہر حال میں دونوں کام کو ایک ساتھ انجام دیا جائے گا۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کی جائے گی اور اس کے بعد غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے گا۔ میرے نزدیک اس قسم کا قول خدا کے احکام کو بدلنے کے ہم معنٰی ہے۔ کچھ لوگ ایسا تو کرسکتے ہیں کہ وہ دین کے حکم پر عمل نہ کریں۔ مگر یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ خود حکم کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔
تاہم کسی بھی شخص یا گروہ پر جو ذمہ داری ہے وہ اس کی استطاعت کے بقدر ہے۔ آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے لیے ایک کام کا انتخاب کریں اور اپنی طاقت کے بقدر اس کی انجام دہی میں لگ جائیں۔ اور بقیہ کام کے لیے یہ اعتراف کریں کہ اپنے حالات کے اعتبار سے ہم اُس کو نہیں کرسکتے۔ مثلاً آپ اگر مسلمانوں کی اصلاح کے کام میں مشغول ہوں تو آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ غیر مسلموں میں دعوتی کام بھی اگر چہ یکساں طورپر ضروری ہے۔ مگر عدمِ استطاعت کی بنا پر میں اس کو نہیں کرسکتی۔ اس کے برعکس اگر آپ یہ کہنے لگیں کہ ابھی تو ہمیں مسلمانوں کی اصلاح کرنا ہے۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوچکی ہوگی تو اس کے بعد غیر مسلموں میں دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے۔ یا یہ کہ پہلا کام اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ہی غیر مسلموں میں دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کی بات کہنا میرے نزدیک سخت گناہ کی بات ہے۔ کیوں کہ وہ احکامِ دین میں تبدیلی کے ہم معنٰی ہے۔
۲۔ مادی دنیا میں بے رغبتی ایک اچھی علامت ہے۔ اس کو حدیث میں زہد فی الدنیا کہا گیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مادی دنیا کو چھوڑ دیا جائے۔ مومنانہ طریقہ یہ ہے کہ مادی دنیا کو اپنا مقصدِ حیات نہ بنایا جائے۔ مادی دنیا ہماری ضرورت ہے، وہ ہمارا مقصد نہیں۔
اس معاملہ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام کا اصل نشانہ متقیانہ شخصیت کی تعمیر ہے۔ یہ عمل دنیا کے اندر رہتے ہوئے انجام پاتا ہے، نہ کہ دنیا کو چھوڑ کر۔جنت میں صرف اُسی عورت یا مرد کو داخلہ ملے گا جس نے دنیا میں اپنے اندر متقیانہ شخصیت کی تعمیر کی۔تعمیر کا یہ کام تمام تر مادی دنیا کے اندر رہ کر انجام پاتا ہے، وہ کسی علیٰحدہ مقام پر انجام نہیں پاتا۔ مادی سرگرمیوں کے دوران جو مختلف تجربات پیش آتے ہیں، اُن تجربات اور مشاہدات سے رزقِ رب کی غذا لیتے رہنا، یہی اصل مومنانہ زندگی ہے۔
کوئی شخص اگر مادی دنیا کو چھوڑ دے تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی طالبِ علم امتحان ہال کو چھوڑ کر باہر چلاجائے۔ ایسے طالب علم کو کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ طالب علم کے لیے اپنی کامیابی کا ثبوت امتحان ہال کے اندر دینا ہے، نہ کہ امتحان ہال کے باہر۔
سوال
میں تقریباً بیس سال سے الرسالہ کا قاری تھا۔ میں اس کو بہت پسند کرتا تھا اور اپنے دوستوں کو پڑھواتا تھا۔ مگر اب میں نے الرسالہ کو پڑھنا چھوڑ دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حال میں اردو اخبارات میں میں نے آپ کے بارے میں کچھ مضامین پڑھے۔ ان مضامین اور رپورٹوں میں آپ کے بارہ میں ایسی باتیں بتائی گئی تھیں جو درست نہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں، آپ پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے، وغیرہ۔ آپ کو میں نے کئی خط لکھے مگر آپ کا عجیب حال ہے کہ آپ لمبے خط کا جواب چند سطروں میں دیتے ہیں۔ اگر کئی سوال ہیں تو آپ ایک شاطرانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔ یعنی کمزور اعتراض کا جواب دینا اور طاقتور اعتراض کو چھوڑ دینا۔ آپ کے اخلاص پر مجھ کو شک ہوگیا ہے۔ آپ کی نیت مشتبہ نظر آتی ہے۔ آپ دین کے نام پر دنیا کمانا چاہتے ہیں۔ مجھے امید نہیں ہے کہ آپ میری ان باتوں کا جواب دیں گے۔ مگر الرسالہ کو پڑھنا تو میں نے بند کردیا ہے۔ (ایک قاری، الرسالہ)
جواب
اس طرح کے کئی خط ہم کو ملے ہیں۔ یہ ایک خطرناک علامت ہے۔ اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ مگر قرآن کے الفاظ میں، اختلاف خواہ کتنا ہی شدید ہو آدمی کو عدل سے ہر گز نہیں ہٹنا چاہیے اور اختلاف کے معاملہ میں عدل یہ ہے کہ صرف ثابت شدہ بات پر تنقید کی جائے۔ ناقد جب تک کامل تحقیق کے بغیر پوری بات نہ جان لے اس کو ہر گز تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
مثلاً اخباری مضامین اور رپورٹوں کی بنیاد پر میرے خلاف رائے قائم کرنا سراسر عدل کے خلاف ہے۔ میرے بارے میں کوئی رائے میری خود اپنی تحریروں کی بنیاد پر قائم کرنا چاہیے نہ کہ اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر۔ کیوں کہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ اخبارات عام طور پرکسی کی بات کو بگڑی ہوئی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً اخبارات اور میڈیا عام طورپر یہ بتاتے ہیں کہ مدرسہ اور مسجد متشددانہ تعلیم کا مرکز ہیں، حالانکہ یہ درست نہیں۔ کوئی بھی شخص جو میرے بارے میں اخبار کی بنیاد پر رائے قائم کرے وہ بلا شبہہ عدل کے راستہ سے ہٹ گیا اور غیر عادلانہ تنقید خود ناقد کے لیے ایک خطرناک کھیل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ناقد کو صرف خارجی معلومات کی بنیاد پر علمی تجزیہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی حال میں کسی ناقد کے لیے جائز نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کی نیت پر حملہ کرنے لگے۔ حدیث میں منافق کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ إذا خاصم فجر (جب مخاصمت ہو تو وہ تجاوز کرنے لگے)۔ اس کے مطابق، یہ منافقت کی ایک پہچان ہے کہ کسی مسئلہ پر اختلاف ہو تو آدمی علمی دلیل کی حد پر نہ ٹھہرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ زیر تنقید شخص کی نیت اور اخلاص پر حملہ کرنے لگے۔ اس قسم کا فعل زیر تنقید شخص سے زیادہ خود ناقد کو اکسپوز کرتا ہے۔ علمی تنقید بلا شبہہ ایک جائز فعل ہے، مگر تنقیص اور کردار کشی بلا شبہہ حرام ہے۔
سوال
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے آپ کے گہرے سمبندھ ہیں۔ اس کے ثبوت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ بی جے پی اور آر ایس ایس کے جلسوں میں اکثر شرکت کرتے ہیں۔ جب کہ آپ کانگریس سے دور رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ حالانکہ عام طورپر یہ مانا جاتا ہے کہ بی جے پی ایک تنگ نظر جماعت ہے اور کانگریس اُدّاروادی جماعت۔ آپ کے بارے میں یہ بات اکثر کہی جاتی ہے۔ براہ کرم اس کا جواب دیں (رجت ملہوترا، نئی دہلی)
جواب
میرے بارے میں یہ بات جو کہی جاتی ہے وہ سر تاسر بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ انڈیا کی ۱۴ ویں لوک سبھا کا فائنل رزلٹ ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو آیا ہے۔ اس سے پہلے ۴ مئی ۲۰۰۴ کو نئی دہلی کے جین ٹی وی کے اسٹوڈیو میں ایک ڈسکشن تھا جس میں میرے سوا کانگریس کے سینئر لیڈر سی کے سید جعفر شریف تھے۔ اس موقع پر میں نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے صاف طورپر کہا تھا کہ میں کسی پولیٹکل پارٹی کا ایڈوکیٹ نہیں۔ میں اصلاً ایک داعی ہوں۔ میری پالیسی یہ ہے کہ کوئی بھی گروہ یا پارٹی جو مجھے اپنے جلسہ میں بلائے میں وہاں شرکت کرتا ہوں اور حسب موقع اپنی مثبت بات وہاں رکھتا ہوں۔ اگر آپ الرسالہ میں خبر نامہ اور سفر نامہ کے صفحات دیکھیں تو آپ اس میں اس کی تصدیق پاسکتے ہیں۔
مثال کے طورپر اردو ماہنامہ الرسالہ مارچ ۱۹۹۷ (شمارہ نمبر ۲۴۴) کو لیجئے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ میں نے شملہ میں ہونے والے ایک سیمینار میں باقاعدہ شرکت کی۔ یہ سیمینار ۵۔۶ جولائی ۱۹۹۴ کو اندرا گاندھی میموریل ٹرسٹ کی طرف سے ہوا تھا۔ اس کی کارروائیاں شملہ کے راشٹرپتی نواس (قدیم وائس ریگل لاج) میں انجام پائیں۔ اس سیمینار کا موضوع یہ تھا:
Redefining the good society.
اس سیمینار میں کانگریس کے بڑے بڑے لیڈر شریک تھے۔ مثلاً سونیا گاندھی، ڈاکٹر منموہن سنگھ، ارجن سنگھ، نٹور سنگھ وغیرہ۔ ۶ جولائی کی نشست میں مجھ کو اس کا صدر بنایا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ میں حق کا داعی ہوں۔ داعی دو چیزوں کو اَفورڈ (afford) نہیں کرسکتا۔ ایک یہ کہ و ہ اپنے مدعو سے کوئی مادی انٹرسٹ وابستہ کرے۔ خدا کے فضل سے میں ہمیشہ اس پرقائم رہا ہوں۔ اخباروں میں یہ بات آچکی ہے کہ پچھلی حکومت کے زمانہ میں مجھ کو گورنر کا عہدہ پیش کیا گیا مگر میں نے اس کو لینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح مجھے راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا مگر میں نے اس کو بھی قبول نہیں کیا۔
دوسری چیز جس کو داعی افورڈ نہیں کرسکتا وہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے اور غیر میں بانٹے۔ وہ اپنے خیر خواہانہ جذبہ کے تحت مجبور ہے کہ ہر ایک کو یکساں طورپرانسان سمجھے، وہ یکساں طورپر ہر ایک کی فلاح کا خواہش مند ہو۔ خدا کا فضل ہے کہ اس معاملہ میں بھی میرا مسلک اسی اصول کے مطابق ہے۔ چنانچہ اپنی چالیس سالہ دعوتی زندگی میں میں ہر جماعت اور ہر گر وہ کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے ان کے پروگراموں میں شرکت کرتا رہا ہوں۔ ۲۹ نومبر ۱۹۵۹ کو میں نے آریہ سماج کے ایک جلسہ میں شرکت کی تھی جو بجنور (سیوہارہ) میں ہوا تھا۔ اس موقع پر میں نے جو تقریر کی تھی وہ اسی زمانہ میں اسلام کا تعارف کے نام سے چھپی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے اور بڑے جلسوں میں شریک رہا ہوں۔ یہ جلسے ہر مذہب اور ہر پارٹی اور ہر گروہ کی طرف سے ہوتے رہے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کا چھپا ہوا ریکارڈ موجود ہے اور اب بھی ان کو الجمعیۃ ویکلی اور الرسالہ منتھلی کے صفحات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سوال
دو سوالات کے جواب مطلوب ہیں، اُمید کہ آپ جواب دیں گے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ثواب کیا چیز ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے سناگیا ہے کہ قرآن شریف کے معنٰی نہ سمجھنے کے باوجود صرف تلاوت سے ثواب ملتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ داڑھی رکھنے کا رواج عربوں میں کب سے ہوا۔ کیا اسلام سے پہلے لوگ داڑھی نہیں رکھتے تھے۔داڑھی سنت رسول ہے یا یہ عادت انسانی کے قبیل سے ہے۔ (احساس آفاقی، بمبئی)
جواب
ثواب کوئی پر اسرار (mysterious) چیز نہیں۔ وہ مکمل طورپر ایک معلوم چیز کا نام ہے۔ ثواب کے لفظی معنٰی بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اعمال کے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ کسی عمل کا مطلوب نتیجہ انسان کو ملے۔ اسلام میں زندگی کے جو طریقے بتائے گئے ہیں ان کو شعور کے ساتھ اپنانے سے انسان کی شخصیت میں ایک مثبت تبدیلی آتی ہے۔ اس مثبت تبدیلی کا انعام جنت کی صورت میں ملتا ہے۔ اس لیے اس کو ثواب کہا جاتا ہے۔
داڑھی رکھنا فرض نہیں ہے مگر وہ یقینی طورپر سنت ہے۔ سنت ہونے کی وجہ سے داڑھی کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ فرض اور سنت کی تقسیم نظری اعتبار سے کسی عمل کا قانونی درجہ متعین کرنے کے لیے ہے۔ مگر جہاں تک عملی اہمیت کی بات ہے تو عملی اعتبارسے سنت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ فرض۔ حقیقت یہ ہے کہ داڑھی اس سنجیدگی اور اخلاص کی علامت ہے جو ایمان کے بعد آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ کسی چیز کی علامت اگر چہ ایک ظاہری چیز ہے مگر اس اعتبار سے اس کی بے حد اہمیت ہے کہ وہ بتاتی ہے کہ اندرونی حقیقت آدمی کے اندر موجود ہے یا نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہر عمل جس کی تعلیم اسلام میں دی گئی ہے وہ اسی وقت اسلامی عمل ہے جب کہ وہ اخلاص کے ساتھ ہو۔ اگر وہ عمل ریاء یعنی دکھاوا کے لیے ہو تو ایسے عمل کی کوئی قیمت نہیں اور داڑھی بھی بلا شبہہ اس حکم عام سے مستثنٰی نہیں ہے۔
سوال
امریکا میں ہماری دوستی ہندو، عیسائی، بہائی یعنی مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ہے۔اگر کسی ہندو یا عیسائی کے گھر میں کوئی فرد مرجائے تو بحیثیت مسلمان کس طرح تعزیت کرنی چاہیے۔ امید ہے، آپ تفصیل سے جواب دیں گے۔ (ریاض احمد خاں، امریکا)
جواب
عیادت یا غیر مسلم کی تعزیت کا مسئلہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اس کو عرف کے مطابق انجام دینا چاہیے۔ یعنی اس معاملہ میں سماج کے اندر جو طریقہ انسانی شرافت کا طریقہ سمجھا جاتا ہو اس کے مطابق ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔ اس معاملہ کو غیر ضروری طورپر ملی شناخت کا مسئلہ بنانا درست نہیں۔
صحیح البخاری کی ایک روایت میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک بار رسول اللہ نے دیکھا کہ سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزر رہا ہے۔ اس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازہ کو دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے۔ یہ سماجی عرف کاایک معاملہ تھا۔ چونکہ عرف عام میں یہ طریقہ تھا کہ لوگ جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس لیے آپ بھی کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا نہ کہ کسی مسلمان کا جنازہ۔
سوال
الرسالہ مئی ۲۰۰۴ میں آپ سے حبیب اشرف صاحب نے سوال پوچھا تھا کہ آپ کی تصنیف تذکیرالقرآن کا اجتماعی طور پر ہم مطالعہ کررہے ہیں، لیکن تبلیغی جماعت کے حضرات روک رہے ہیں اور وہ فضائل اعمال کا مطالعہ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ آپ نے جواب میں فضائل اعمال کی کتاب کو کہانیوں کی کتاب کہا ہے مگر اس میں رسول اللہ کی حدیثیں بھی ہیں۔ آپ کا ایسا کہنا غلط ہے۔ فضائل اعمال کا مطالعہ کرنے والے حضرات کو آپ نے زوال یافتہ قوم کہا ہے۔ میں آپ کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوں۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب تفصیل سے دیں (وحید الدین شیخ، مہاراشٹر)
جواب
میں تبلیغی جماعت کا قدر داں ہوں۔ الرسالہ میں بار بار ایسے مضامین چھپے ہیں اور چھپتے رہتے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کا اعتراف پایا جاتا ہے۔ تاہم پیغمبر کے سوا کوئی بھی فرد یا جماعت ایسا نہیں جس میں صد فی صد صرف خوبیاں ہوں اور کوئی کمی اس میں موجود نہ ہو۔
خود تبلیغی جماعت والوں کی روش اس کا ثبوت ہیں۔ مثلاً تبلیغی جماعت کے لوگ علماء کا اعتراف کرتے ہیں مگر وہ تبلیغی جماعت کے باہر کسی عالم کو کبھی اپنے اسٹیج پر بولنے کا موقع نہیں دیتے۔ تبلیغی جماعت کے لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر وہ اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کے اجتماعات میں کسی مفسر کا ترجمہ پڑھ کر سنایا جائے۔ تبلیغی جماعت کے لوگ میری قدر کرتے ہیں اور میری تحریروں کو ذاتی طور پر پڑھتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ میری تفسیر تذکیر القرآن کو پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ پھر جو روش تبلیغی جماعت والوں کے لیے جائز ہے وہی روش دوسروں کے لیے جائز کیوں نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی فرد یا جماعت پیغمبر والا کام نہیں کرسکتا۔ پیغمبر کے بعد جو بھی دینی کام کیا جائے گا اس میں کچھ نہ کچھ کمیاں رہیں گی۔ اس لیے نہ تو کسی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا مشن مکمل معنوں میں پیغمبرانہ مشن ہے اور نہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس سے کوئی اختلاف کیا جائے کہ وہ اُس پر سوچے بغیر فوراً برہم ہو جائے۔
سوال
ایک بات اس وقت یہ معلوم کرنی ہے کہ بی جے پی کی حمایت کھلے عام کرنے میں کیا مصلحت تھی اور کیا چیزیں آپ کے ذہن میں تھیں۔ تفصیل سے لکھیں تو ہم سب کا انشراح صدر ہوجائے۔ ورنہ آپ کے نظریات کے بارے میں ایک طرح کی کھٹک جو بہت سوں کے اندر پیدا ہوگئی ہے، باقی رہ جائے گی۔ (نیاز احمد، بنگلور)
جواب
آپ نے میرے بارہ میں بی جے پی کی حمایت کی جو بات کہی ہے وہ آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ پابندی کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ پڑھتے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کو اس سلسلہ میں الرسالہ کے صفحات سے کوئی حوالہ دینا چاہیے۔ جب ہم ایک مشن چلا رہے ہیں اور اُس کے ترجمان کے طور پر ماہنامہ الرسالہ ۱۹۷۶ سے مسلسل جاری ہے تو آپ کو ہمارے خیالات کا علم الرسالہ کے مضامین سے حاصل کرنا چاہیے، نہ کہ سنی ہوئی باتوں یا اخباروں سے۔ اگر آپ پابندی کے ساتھ الرسالہ پڑھتے ہیں تو یقینا آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ الرسالہ کے صفحات میں کبھی وہ چیز شائع نہیں کی گئی جس کو آپ بی جے پی کی حمایت کہتے ہیں۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ اخباروں میں اکثر ہر ایک کے بارہ میں اُلٹی باتیں چھپتی رہتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں۔ دینی مدارس دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایجنٹ ہے۔ تبلیغی جماعت خفیہ عسکری اڈّے چلا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ یا دوسرے حضرات اخباروں میں اس قسم کی چیزیں پڑھ کر فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔ اسی طرح بی جے پی کی حمایت والی بات جب ماہنامہ الرسالہ میں موجود نہیں تو اخباروں میں پڑھ کر یہاں بھی آپ کو یہ کہہ دینا چاہیے کہ: سبحنک ما ہذا الا بہتان عظیم۔
واضح ہو کہ اخبار کے حوالہ سے میری طرف جو بات منسوب کی جارہی ہے وہ خود بھی درست نہیں۔ مثلاً نئی دہلی کے روزنامہ راشٹریہ سہارا میں اس معاملہ کی جو رپورٹ چھپی ہے اُس میں یہ جملہ موجود ہے: البتہ مولانا نے واضح لفظوں میں بی جے پی کی حمایت سے انکار کیا۔ (راشٹریہ سہارا، ۲۶مارچ ۲۰۰۴)
سوال
میں نے اپنے ایک عزیز سے سنا ہے کہ آپ نے الیکشن کی مہم میں وزیر اعظم واجپئی جی کے ساتھ شاید یوپی کا دورہ کیا۔ کیا یہ بات سچ ہے۔ آپ نے گورنری کا عہدہ بھی تسلیم نہیں کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آپ نے کن وجوہات پر ساتھ دیا ہے۔ مہربانی کرکے تفصیل سے مجھے اس بارے میں الرسالہ کے ذریعہ سمجھائیے۔ (غلام رسول، سری نگر)
جواب
آپ کے عزیز نے جو بات آپ سے کہی وہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ میں نے ہر گز کسی وزیر اعظم کے ساتھ یوپی یا غیر یوپی کا دورہ نہیں کیا۔ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو یہ ضرور میڈیا میں آتا اور آپ اپنے عزیز کے بتائے بغیر اس کو جان لیتے۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس بات کو سن کر فوراً یہ کہہ دیں کہ یہ جھوٹی بات ہے۔ کیوں کہ اس قسم کے دورے اتنا زیادہ میڈیا میں آتے ہیں کہ ہر آدمی ان کو جان لیتا ہے۔ مزید یہ کہ میرے بارے میں جاننے کے لیے آپ کو یا کسی کو الرسالہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جو بات الرسالہ میں نہ ہو اس کے متعلق پیشگی طور پر یہ مان لینا چاہیے کہ وہ واقعہ ہی نہیں۔
جب آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ مجھے حکومت نے گورنر کا عہدہ دیا لیکن میں نے اس کو قبول نہیں کیا تو آپ کو اسی سے سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے عزیز کی بات غلط ہے۔ کیوں کہ کوئی آدمی حکومت نواز اس لیے بنتا ہے کہ وہ اس سے مادی فائدہ حاصل کرے۔ کوئی شخص ایسا دیوانہ نہیں ہوسکتا کہ وہ صرف اپنے کو بدنام کرنے کے لیے کسی حکومت کا ساتھ دے۔ جب میں نے عہدہ قبول نہیں کیا تو اسی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ میں حکومت نواز نہیں ہوں۔ کسی حکومت کی طرفداری میرے لیے خارج از بحث ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ ہر سنی ہوئی بات کو سب سے پہلے اپنے کامن سنس سے جانچئے اور جو چیز کامن سنس پر پوری نہ اترے اس کو تحقیق کے بغیر مان لیجئے کہ وہ غلط ہوگی۔
سوال
میں آپ کے الرسالہ کا مطالعہ بہت شوق سے کرتی ہوں۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا مرد اور عورت کے نماز پڑھنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ کچھ حدیثیں اس بات کی تائید کرتی ہیں اور کچھ اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ آخر کیا صحیح ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی جس سے مسلمان برادری کے نام پر فرقہ بنائیں۔ پھر بھی ہر مسلمان اس سماجی برائی پر بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ اپنے نام کے آگے ولدیت نہ لگا کر caste name لگانا بہتر سمجھتا ہے۔ آخر ہر مسلمان اپنی پہچان caste سے کیوں کرانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے lower caste کے لوگ احساس کمتری کے شکار رہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔آخر اس سماجی برائی کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔
آپ یہ بھی بتانے کی مہربانی کریں کہ گھر میں ٹیلی ویزن (T.V.) کو رکھنا اور دیکھنا کیسا ہے۔ (غزالہ شاہد، کمال گنج، فرخ آباد)
جواب
۱۔ عورت اور مرد کے لیے نماز پڑھنے کا طریقہ ایک ہے۔ دونوں کے درمیان اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ عورت کی نماز کے لیے بعض جزئی فرق جو حدیث میں ملتے ہیں وہ صرف سہولت یا رعایت کی بنا پر ہے نہ کہ مسئلہ میں فرق کی بنا پر۔ نماز میں اصل اہمیت خشوع کی ہے اور خشوع عورت اور مرد دونوں سے یکساں طورپر مطلوب ہے۔ دونوں ہی کو سب سے زیادہ توجہ خشوع پر دینا چاہیے کیوں کہ خشوع کے بغیر نماز،نماز نہیں (لا صلوۃ لمن لم یتخشع)۔
۲۔ ذات کا مسئلہ کوئی دینی معاملہ نہیں، وہ صرف ایک سماجی معاملہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں شعوب و قبائل کہا گیا ہے۔ قرآن کے مطابق، یہ صرف تعارف یا پہچان کے لیے ہے(الحجرات ۱۳) اس قسم کا فرق ایک فطری فرق ہے اور وہ بہر حال باقی رہتا ہے۔ مثلاً مغربی ملکوں میں کوئی اپنے آپ کو خان یا سید نہیں لکھتا مگر وہاں رنگ کے فرق کی بنا پر اس سے بھی زیادہ امتیاز پایا جاتا ہے جو ہندستان میں نظر آتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک صحیح استعمال ہے اور ایک اس کا غلط استعمال۔ مذکورہ فرق کو تعارف کے معنٰی میں لیا جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال ہوگا۔ لیکن اگر اس فرق کو امتیاز کے معنٰی میں لیا جانے لگـے تو یہ اس کا غلط استعمال ہو جائے گا۔ غلط استعمال سے بچنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ آپ یہ مانگ کریں کہ لوگ اس قسم کے الفاظ کو لکھنا چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امتیاز کا تعلق سوچ سے ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ کو لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ سوچ کو بدلے بغیر ظاہری علامتوں کو ختم کرنے سے اصل برائی ختم ہونے والی نہیں۔
۳۔ ٹیلی ویژن اپنے آپ میں کوئی بری چیز نہیں۔ ٹیلی ویژن در اصل فطرت کی تسخیر کا ایک حصہ ہے۔ خدا نے فطرت کے نظام میں بہت سے امکانات رکھے ہیں۔ انہیں امکانات میں سے ایک امکان کا نام ٹیلی ویژن ہے۔ مثلاً قدیم زمانہ میں جب انسان نے گھوڑے اور اونٹ کو سواری کے لیے استعمال کیا تو یہ بھی فطرت کے قانون کو استعمال کرنے کی ایک صورت تھی۔ پھر جب انسان نے پانی کو اسٹیم پاور میں تبدیل کیا تو یہ بھی فطرت کے قانون کو استعمال کرنے کی ایک مثال تھی۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو بھی استعمال کرنا فطرت کے قانون کو استعمال کرنے کی ایک مثال ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آج کل ٹی وی کو اکثر غلط کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ٹی وی بذات خود ایک غلط چیز ہے۔ آپ کو ٹی وی کے صحیح استعمال پر زوردیناچاہئے نہ یہ کہ آپ ٹی وی کو بذات خود حرام چیز قرار دیں۔ آج کل تو حال یہ ہے کہ جہاد کو بھی غلط طورپر استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سے لوگ جہاد کو اُس غلط کام کے لیے استعمال کررہے ہیں جس کو قرآن میں فساد کرنا اور خون بہانا بتایا گیا ہے۔ مگر اس بنا پر ایسا کرنا درست نہیں کہ خود جہاد کو غلط قرار دیا جائے۔ ہم جہاد کے غلط استعمال کی مذمت کریں گے نہ کہ خود جہاد کو غیر مطلوب بتائیں گے۔ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں انسان کسی بھی چیز کا غلط استعمال کرسکتا ہے۔ ہمیں غلط استعمال کو روکنا چاہیے نہ کہ خود استعمال کو۔
سوال
اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان سے السلام علیکم کہتا ہے تو اس کے جواب میں مسلمان کو کیا کہنا چاہیے۔ براہِ کرم اس کا جواب دیں۔ (خلیل الرحمن، ناگپور)
جواب
کوئی غیر مسلم اگر ملاقات کے وقت آپ کو السلام علیکم کہے تو آپ کو بھی اسے السلام علیکم کہنا چاہیے۔ یہی انسانی اخلاق ہے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت سے واضح رہنمائی ملتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: واذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منہا أو ردوہا (النساء ۸۶) یعنی اور جب کوئی تم کو تحیت وسلام کہے تو تم بھی تحیت وسلام کرو اس سے بہتر یا الٹ کر وہی کہہ دو۔
قرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک باپ سے جدائی کے وقت اس کو رخصتی سلام کرتے ہوئے کہا کہ تم پر سلامتی ہو (قال سلامٌ علیک) قرآن میں منافق کو کافر کے ساتھ بریکیٹ کیاگیا ہے (التوبہ ۷۳)۔ پھر جس طرح منافق کے سلام کا جواب سلام کی صورت میں دینا جائز ہے، اسی طرح غیر مسلم کے سلام کا جواب سلام سے دینا یقینی طورپر جائز ہے۔یہی اسلام کا عام حکم ہے۔ بعض حدیثوں میں اس سلسلہ میں جو محتاط روش کی تلقین کی گئی ہے وہ صرف بعض معلوم افراد سے متعلق ہے، ان کی حیثیت اس معاملہ میں عمومی حکم کی نہیں۔
سوال
آپ کے اُس بیان پر میں سوال کرتا ہوں جو کہ آپ نے ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو فکی آڈیٹوریم ہال، نئی دہلی میں مسٹر اٹل بہاری واجپئی کی حمایت میں منعقد ایک میٹنگ کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی روداد دیگر اخباروں کے ساتھ ساتھ قومی تنظیم میں بھی شائع ہوئی۔
۲۶ مارچ کے قومی تنظیم (پٹنہ) کے مطابق، آپ نے کہا کہ سیاست کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ اس میں حالات کے تحت تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیان صرف مسلمانوں پر عائد ہوگا یا ہندستان کے تمام شہر یوں پر۔ دوسری بات آپ نے یہ کہی کہ مسلمانوں کو ایک تعمیر پسند اقلیت بن کر رہنا چاہیے۔ تو سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان تخریب پسند ہیں۔ تعجب ہوتا ہے آپ کے اس مضحکہ خیز بیان پر۔ کیا آپ اس کی تردید میں ایک لفظ بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ جیسے نامور عالم دین کے منھ سے ایسے الفاظ نکلنے کی امید نہیں تھی۔(شاہ عمران حسن، دلاور پور)
جواب
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو میرے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے میڈیا کی رپورٹوں کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب کہ میڈیا کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ میڈیا حقیقت کو صحیح صورت میں پیش نہیں کرتا۔ یہی میڈیا عام مسلمانوں کے بارے میں تشدد پسند کمیونٹی کی تصویر پیش کرتا ہے تو تمام لکھنے اور بولنے والے مسلمان اس کو جھوٹ بتاتے ہیں۔ لیکن یہی میڈیا جب میرے بارے میں کوئی الٹی بات پیش کرتا ہے تو اس کو آپ جیسے لوگ بالکل درست مان لیتے ہیں۔یہ تضاد کیوں۔
آپ نے ایک اردو اخبار کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس نے میری مذکورہ تقریر کے بارے میں یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ ’’مسلمانوں کو ایک تعمیر پسند اقلیت بن کر رہنا چاہیے‘‘۔ یہ بات غلط ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں تخلیق کا لفظ استعمال کیا تھا، نہ کہ تعمیر کا لفظ۔یہ وہی بات ہے جس کو میں الرسالہ میں بار بار لکھ چکا ہوں۔ وہ یہ کہ ہندستان کے حالات مسلمانوں کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ یہاں ایک تخلیقی اقلیت (creative minority) بن کر ابھریں اور پھر ان کے حق میں فطرت کا وہ قانون صادق آئے گا جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیاگیا ہے: کتنے اقلیتی گروہ ہیں جو اکثریتی گروہ پر غالب آئے، خدا کے اذن سے (البقرہ ۲۴۹)۔
سوال
مجھے الرسالہ کے ایک قاری نے بتایاکہ آپ کسی کے سوال کا جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی آپ سوال کو الرسالہ میں شائع کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ آپ ذرا الگ ٹائپ کے مولانا ہیں۔
اس قاری کی بات میں کہاں تک سچائی ہے، یہی جاننے کے لیے میں آپ سے یہ سوال کررہی ہوں۔ آخر آپ ایک مولانا ہوتے ہوئے کسی کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے ہیں۔ برائے مہربانی بتائیں۔(رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
میرے بارے میں یہ غلط پروپیگنڈہ ہے کہ میں جواب نہیں دیتا۔ اصل یہ ہے کہ لوگ عمومی رواج کے مطابق، اپنی غلطی کا الزام دوسرے کے اوپر ڈالتے ہیں۔ سوال کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کے ساتھ اپنا پورا نام لکھا جائے، پتہ لکھا جائے اور تاریخ لکھی جائے۔ جو سوال ان شرائط کے مطابق ہوتا ہے میں ضروراُن کا جواب دیتا ہوں۔ مگر جوسوال ان شرائط پر پورا نہیں اترتا میں اس کا جواب نہیں دیتا۔ اس کا ایک نمونہ خود آپ کا یہ خط ہے جس میں آپ کا پورا پتہ درج نہیں۔ آپ نے اپنا پتہ اس طرح لکھا ہے:رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار۔ میرے خیال کے مطابق، یہ مکمل پتہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں گھر کا نمبر اور محلہ مذکور نہیں۔ تاہم میں اس خط کو الرسالہ کے سوال و جواب کے کالم میں شامل کررہا ہوں تا کہ آپ کی شکایت ختم ہوجائے۔
سوال
الرسالہ مئی ۲۰۰۴ میں ایک قاری کے سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ زندگی ایک آرٹ ہے۔ زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کانٹوں سے بچتے ہوئے پھولوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ میرے خیال سے آپ کا یہ کہنا صحیح نہیں کیوں کہ زندگی صرف پھولوں کی سیج نہیں وہ کانٹوں کا بستر بھی ہے اور بنا کانٹوں سے الجھے کوئی بھی انسان پھول کو کیسے پاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پھول پانے کے لیے کانٹوں سے اُلجھنا بے حد ضروری ہے، تبھی انسان کامیاب ہوسکتا ہے۔ (رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
آپ نے میرے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔میری ہی بات کو آپ نے بدلے ہوئے الفاظ میں دہرا دیا ہے۔ میں سمجھ نہ سکا کہ میری بات اور آپ کی بات میں کیا فرق ہے۔
میں نے جوبات الرسالہ میں لکھی ہے وہ دراصل دو صحابی کے مکالمہ سے لی گئی ہے۔ عمرفاروق نے ایک بار ایک صحابیٔ رسول سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ائے امیر المؤمنین کیا آپ کبھی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس میں جھاڑیاں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ صحابی نے دوبارہ پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ عمر نے کہا کہ میں نے اپنا دامن سمیٹ لیا اور بچتا ہوا راستہ سے گزر گیا۔ صحابی نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے۔ (ذٰلک التقوٰی)
یہ فطرت کا اصول ہے۔ یہ اصول اس دنیا میں متقیانہ زندگی کے لیے ضروری ہے اور عام انسانی زندگی کے لیے بھی۔ اس کے سوا کامیاب زندگی کا کوئی اور قابل عمل اصول نہیں۔
سوال
ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مولانا وحید الدین خان بہت عظیم شخصیت ہیں اور یہ کہ وہ ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ وہ جو بھی دعا کرتے ہیں ضرور پوری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اُنہوں نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ ہمارے لیے بھی خدا سے خاص طورسے دعا کردیجئے کہ مجھے زندگی میں ہمیشہ کامیابی و کامرانی عطا ہو۔ (رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت حاصل ہو۔ تاہم ایک اصولی بات یہ ہے کہ دعا کوئی مطلق چیز نہیں۔ دعا کی قبولیت ہمیشہ فطرت کے اصول کے تحت ہوتی ہے، فطرت کے اصول کے خلاف نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس تخلیقی نقشہ کے مطابق، اس دنیا کو بنایا ہے اس میں یہ مقدر کردیا ہے کہ انسان کو مشکلات بھی پیش آئیں (لقد خلقنا الانسان فی کبد)انسان کو آسانی بھی پیش آئے اور مشکل بھی(إن مع العسر یسرا) انسان کو دوستی کا تجربہ بھی ہو اور دشمنی کا تجربہ بھی (بعضکم لبعض عدو)۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس لیے صحیح یہ ہے کہ آپ یہ دعا کریں : رب یسر و لا تعسر و تمم بالخیر۔ کسی پیغمبر یا صحابی نے کبھی یہ دعا نہیں کی کہ مجھ کو دنیا میں ہمیشہ کامیابی حاصل ہو اور کبھی بھی ناکامی نہ ہو۔
سوال
اسلام کی روشنی میں بتائیں کہ بدعت کسے کہتے ہیں۔ (رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
بدعت کے لفظی معنٰی نئی چیز کے ہیں۔ بدعت در اصل یہ ہے کہ عبادتی یا تعبدی امور میں کوئی نئی چیز نکالی جائے۔ مثلاً اذان میں کوئی شخص اللہ اکبر کے بجائے اللہ الصمد کہنے لگے۔ تعبدی امور میں صرف تقلید ہے۔ تعبدی امور میں کوئی بھی نئی چیز نکالنا جائز نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز نکالی تو وہ قابل رد ہے۔
تاہم غیر تعبدی امور میں ضروریات زمانہ کی رعایت سے نئی چیز نکالنا جائز ہے۔ مثلاً چھپر کی مسجد کے بجائے پختہ مسجد بنانا۔
سوال
کلام پاک کی بہت ساری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ مثلاً قرآن میں ایک جگہ ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے (آل عمران ۳۷) جب کہ خود قرآن ہی میں ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (النجم ۳۹) (ایم اے خاں، کلکتہ)
جواب
سورہ النجم کی آیت (لیس للانسان الا ماسعی) کا تعلق دنیا سے نہیں ہے بلکہ آخرت سے ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے انعام کا تعلق آدمی کے اپنے دنیوی عمل سے ہوگا، جیسا عمل ویسا انعام۔ نہ تو کوئی شخص عمل کے بغیر آخرت کے انعام کو پاسکتاہے اور نہ کسی دوسرے کا عمل کسی شخص کے لیے نفع بخش بن سکتاہے۔ اس آیت میں آخرت کا قانون بیان کیا گیا ہے نہ کہ دنیا کا قانون۔ پہلی آیت (ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب) کا تعلق دنیا کی معاشی تقسیم سے ہے۔خدا کے قانون کے مطابق، دنیا کے معاشی وسائل ہر ایک کو برابر نہیں ملتے، کسی کو کم ملتا ہے اور کسی کو زیادہ۔ یہ فرق انعام یا سزا کی بنا پر نہیں ہے بلکہ وہ قانونی امتحان کی بنا پر ہے۔ دنیا کی زندگی آزمائش کے لیے ہے۔ یہاں کسی کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہوتا ہے۔ ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے اس کو کوئی امتحانی پرچہ دیا جاتا ہے۔ اس معاملہ میں فرق کو امتحان کی مصلحت کے تحت سمجھنا چاہیے نہ کہ کسی اور نظریہ کی روشنی میں۔
سوال
۱۔ آپ نے الرسالہ جون ۲۰۰۴ کے صفحہ ۳۹ پر لکھا ہے کہ ’’اجودھیا کا معاملہ اتنا زیادہ نازک بن چکا ہے کہ اگر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ بابری مسجد کے متعلق فیصلہ مسلمانوں کے حق میں بھی دے دے تب بھی اس سے اصل مسئلہ حل ہونے والا نہیں ‘‘۔ اس جملے کا آخر کیا مقصد ہے۔ در پردہ اور بالواسطہ طورپر آپ ہندوؤں کو شہہ دے رہے ہیں کہ اگر کورٹ بابری مسجد کے متعلق فیصلہ مسلمانوں کے حق میں بھی دے دے تو تم اس کو نہ ماننا بلکہ اس پر قبضہ جمائے رکھنا۔ کیا یہ اسلام دشمنی نہیں ہے۔ کیا یہ مسلمانوں کے حق میں منافقت والا رول نہیں ہے۔ آخرکیا ضرورت ہے کہ آپ ایک نزاعی معاملہ میں اتنا بڑا اور وہ بھی غلط قدم اٹھائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ کو ہندو نواز کہتے ہیں اور حکومت بھی آپ کو شو پیس (show piece) کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ آخر آپ کیوں ہندوؤں کی فرقہ پرست جماعت کو شہہ دے رہے ہیں۔ کیا اس سے آپ کا ذاتی مفاد وابستہ ہے۔ وضاحت کریں تاکہ ہم قارئین کو اصل حقیقت کا پتہ چل سکے۔
۲۔ قرآن و حدیث اور فقہ اور تاریخ کی روشنی میں ایک مسجد کے امام کی کیا حیثیت ہے۔ کیا کوئی امام ملت کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اگر کر سکتا ہے تو کیا ملت اسلامیہ کو اس کی پیروی کرنی چاہیے، وضاحت کریں۔
۳۔ افسانہ نگاری اور شاعری کرنا اسلام میں کہاں تک درست ہے۔ واضح ہو کہ افسانہ نگاروں کی دلیل یہ ہے کہ ہم در پردہ طور پر زندگی کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ تفریح کے سامان بھی۔ تاکہ عام لوگ جو زندگی سے مایوس ہوچکے ہوں ان کو اس سے کچھ فائدہ پہنچ سکے۔ (شاہ عمران حسن، دلاور پور، بہار)
جواب
اجودھیا کے مسئلہ کے بارے میں، میں نے جو بات کہی ہے وہ نئی بات نہیں ہے، وہ تقریباً تمام سنجیدہ لوگ کہتے رہے ہیں۔ عدالت خود اس معاملہ میں اپنی محدودیت کو سمجھتی ہے۔ اسی لیے اس نے لمبی مدت کے با وجود اپنا فیصلہ دینے سے احتراز کیا ہے۔ مثلاً دُوارکا پیٹھ کا شنکر آچاریہ سوروپ آنند سرسوتی مہاراج نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ: یہ کام عدالت کے فیصلہ پر بھی نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ عدالت کے فیصلہ سے ایک فرقہ ضرور ناراض ہوگا اور اس مسئلہ پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہے گی (راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ۲۴ مئی ۲۰۰۴)
بنیادی بات یہ ہے کہ یہ معاملہ جب نازک صورت اختیار کرلے اور اس کے ساتھ ضد اور ساکھ کا سوال جڑ جائے تو اس کا فیصلہ صحیح اور غلط کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ صورت موجودہ میں کیا چیز قابل عمل ہے اور کیا چیز قابل عمل نہیں ہے۔ اس پہلو سے غور کیجئے تو یہ معاملہ برسوں کی جذباتی سیاست کے نتیجہ میں اتنا نازک بن چکا ہے کہ صرف قانون اور عدالت اس کے حل کے لیے کافی نہیں ہے۔
مثلاً عدالت اگر اجودھیا کے نزاع کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرے تو ہندو پیشگی طورپر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں عدالت کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے شاہ بانو کے کیس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا مگر مسلمانوں نے اس فیصلہ کو نہیں مانا اور اس کے خلاف مولانا علی میاں کی قیادت میں ایک ہنگامہ خیز تحریک چلائی۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ اس فیصلہ کو رد کر دیا گیا۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ اجودھیا کے معاملہ میں ہم بھی یہی کریں گے اور مسلمانوں کو خود اپنی قائم کردہ نظیر کی بنیاد پر اس معاملہ میں ہمارے موقف کو ماننا چاہیے۔
یہ امید رکھنا کہ اگر عدالت مسلمانوں کے حق میں یہ فیصلہ دے تو حکومت اس کو طاقت کے زور پر نافذ کرے گی۔ یہ بلا شبہہ ایک فرضی امید ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حکومت کی بھی محدودیتیں ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ۶دسمبر ۱۹۹۲ کو دن کے اجالے میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک بھیڑ اجودھیا میں داخل ہوئی اور وہ سارے دن بابری مسجد کو توڑتی رہی اور حکومت اس کو روکنے میں پوری طرح ناکام رہی۔ جب کہ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی جس کے پرائم منسٹرمسٹر نرسمہا راؤ تھے۔ اس واقعہ سے صرف ایک سال پہلے اسی کانگریسی حکومت نے عبادت گاہوں کا قانون (places of worship act 1991) پارلیمنٹ میں پاس کرایا تھا۔ اس قانون میں کہا گیا تھا کہ حکومت بابری مسجد کی حالت موجودہ (status quo) کو باقی رکھنے کی پابندہوگی۔ یہاں تک کہ اس معاملہ میں عدالت کا فیصلہ آگیا۔ مگر انتہا پسندوں کی بھیڑ نے علی الاعلان بابری مسجد کو ڈھادیا اور حکومت اپنے قانونی فرض کو ادا کرنے میں ناکام رہی۔ ایسی حالت میں حکومت سے امید رکھنا آزمودہ را آزمودن جہل است کے ہم معنٰی ہے۔
۲۔ مسلم دنیا میں جب خلافت کا باقاعدہ نظام قائم تھا تو خلیفہ یا اس کا مقرر کردہ نمائندہ مسجد کی نماز کی امامت کرتا تھا۔ اس وقت خلافت اور امامت دونوں ایک ہی ذمہ داری کے دو حصے تھے۔ مگر اب جب کہ خلافت کا نظام ٹوٹ چکا ہے۔ اب مسجد کا امام صرف مسجد کا امام ہے۔ اب اگر کوئی امام مسجد کی امامت کے دائرہ سے باہر آکر سیاسی سرگرمی دکھائے تو یہ ایک انحرافِ امامت کی بات ہوگی نہ کہ فرائض امامت ادا کرنے کی بات۔ نماز کی امامت سے باہر مسجد کے امام کی ذمہ داری اس وقت ہے جب کہ اس کو معاشرہ میں باقاعدہ اقتدار حاصل ہو۔ بے اقتدار امام کا کام صرف نماز پڑھانا ہے۔ سیاسی نوعیت کی سرگرمیوں میں حصہ لینا اس کے لیے ایک گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثبت سیاسی رول کے لیے اقتدار ضروری ہے۔ بے اقتدار امام اگر سیاسی رول ادا کرنے کے لیے اٹھے گا تو وہ ملت کے اندر صرف انتشار پیدا کرے گا۔ اس کا ارادہ بظاہر نیک ہو تب بھی عملاً وہ فتنہ کا سبب بنے گا اور جس عمل کا نتیجہ فتنہ ہو اس سے پر ہیز کرنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے۔ بے اقتدار امام کے لیے صرف امامت ہے نہ کہ لیڈری۔
۳۔ افسانہ نگاری اور شاعری کوئی ناجائز چیز نہیں مگر یقینی طورپر وہ بے فائدہ ہے۔ اور اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ آدمی بے فائدہ چیزوں سے پرہیز کرے (من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ)۔
قدیم زمانہ میں عام رواج تھا کہ باتوں کو تمثیل یا فرضی حکایت(parable) کی زبان میں بیان کیا جاتا تھا۔ ہندو لٹریچر یا عیسائی لٹریچر اس قسم کی حکایتوں سے بھرا ہوا ہے۔ قرآن عین اسی زمانہ میں اترا۔ مگر قرآن میں حکایت اور تمثیل کے اسلوب سے مکمل طورپرپرہیز کیاگیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ یا کہانی کا انداز کوئی مطلوب انداز نہیں۔ اسی طرح عرب میں اسلام کا نزول ہوا تو وہاں شاعری کا عام رواج تھا۔ اکثر صحابہ اسلام سے پہلے شاعری کیا کرتے تھے مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شاعری چھوٹ گئی۔ عرب شاعر لبید نے جب اسلام قبول کیا تو انہوں نے بھی شاعری چھوڑ دی۔ کسی نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا أبعد القرآن۔
أصل یہ ہے کہ تحریر کے دو الگ الگ مقصد ہیں۔ ایک ہے،تفریح کا مواد فراہم کرنااور دوسرا ہے، انسان کے اندر فکری انقلاب لانا۔ افسانہ یا شاعری فنون لطیفہ کی چیز یں ہیں۔ وہ انسان کو صرف سستی تفریح فراہم کرسکتی ہیں۔ مگر اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا طرز فکر بدلے، وہ ربانی انداز میں سوچنے لگے۔ یہ دوسرا مقصد صرف سنجیدہ نص کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔
سوال
بمبئی کے ایک روزنامہ میں آپ کے خلاف ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا عنوان یہ ہے: مولانا وحیدالدین صاحب، صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان بھی ہے۔مضمون میں بتایا گیا ہے کہ مولانا وحیدالدین صاحب مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کی نصیحت کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان ہوئی تھی جس میں صحابہ نے جہاد پر بیعت کی تھی۔ اس کے بارہ میں آپ کیا فرماتے ہیں۔ یہ سوال یہاں کئی لوگوں کے ذہن میں آرہا ہے(فاروق فیصل، بمبئی)
جواب
بیعت رضوان اگر بالفرض بیعت جہاد ہو تب بھی میری بات ثابت شدہ ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بیعت جہاد‘‘ کے باوجود صُلح حدیبیہ کو قبول فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے پہلے کی بیعت، اگر بالفرض وہ جہاد کی بیعت ہو، تب بھی وہ سنتِ رسول کے مطابق منسوخ قرار پائے گی۔ کیوں کہ اس موقع پر آپ کا جو آخری عمل تھا وہ جہاد کا نہ تھا بلکہ صلح کا تھا۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ بیعتِ رضوان کے نام پر حدیبیہ کے مقام پر جو بیعت ہوئی وہ جہاد یا قتال کی بیعت نہ تھی بلکہ وہ صرف عدمِ فرار کی بیعت تھی۔ چنانچہ بیعت میں شامل ہونے والے صحابی کہتے ہیں کہ بایعنا ان لا نفر (ہم نے اس پر بیعت کی کہ ہم فرار اختیار نہیں کریں گے)۔ یعنی اگر فریقِ ثانی کی طرف سے عملی جارحیت کی صورت پیش آجائے تو ہم مقابلہ کا طریقہ اختیار کریں گے، نہ کہ فرار کاطریقہ۔ اس معاملہ میں اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کے سوا کوئی اور مطلب اس کا نہیں نکلتا۔ یعنی اگر فرار اور عدم فرار کے درمیان انتخاب(option) کا معاملہ ہو تو فرار کو چھوڑ کر عدم فرار کے طریقہ کو اختیار کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر جنگ اور صلح کے درمیان انتخاب ہو تو صلح کا طریقہ اختیار کیاجائے گا، نہ کہ جنگ کا طریقہ۔
سوال
آج کل یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ عقیدہ کے حدود کیا ہیں۔ اجودھیا کے مسئلہ کے حوالہ سے یہ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ مسجد اور مندر کا ایشو عقیدہ کا مسئلہ ہے یا عدالت کا مسئلہ۔ یہ وقت کا ایک اہم سوال ہے۔ آپ اس مسئلہ کی وضاحت کریں (مستقیم احمد، دہلی)
جواب
اس معاملہ میں جہاں تک رام مندر کی بات ہے تو میں کہوں گا کہ اس مسئلہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہندو عقیدہ کے مطابق، رام بھگوان کے اوتار تھے یا نہیں۔ یہ بلا شبہہ عقیدہ کا ایک مسئلہ ہے۔ اگر کچھ لوگ اپنے مذہب کے مطابق یہ سمجھیں کہ رام بھگوان کے اوتار تھے تو یہ اُن کے ذاتی عقیدہ کا مسئلہ ہوگا۔ اس معاملہ میں قانون یا عدالت کو تعرض کرنے کا کو ئی اختیار نہیں۔ یہ کسی فرد کا ایک ذاتی معاملہ ہے اور فرد ہی اُس کے بارے میں جو فیصلہ چاہے کرسکتا ہے۔
مگر جب یہ کہا جائے کہ رام فلاں متعین جغرافی مقام پر پیدا ہوئے تو یہ بلاشبہہ عدالت کا ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور تاریخی دستاویزات یا خارجی شہادتوں کی بنیاد پر عدالت یہ فیصلہ دے گی کہ یہ دعویٰ صحیح ہے یا نہیں کہ رام فلاں متعین جغرافی خطّہ میں پیدا ہوئے۔
جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے، مسجد کے مسئلہ کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک اعتبار سے مسجد ایک عقیدہ کی بات ہے۔ مسجد ایک مقدّس چیز ہے اور عبادت گاہ کی حیثیت سے اُس کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔
مگر اسی کے ساتھ مسجد کے معاملہ کا ایک اور پہلو ہے۔ اور اس دوسرے پہلو کے اعتبار سے مسجد کا تعلق قانون اور عدالت کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ مسجد اگر دوسروں کے لیے کسی اعتبار سے ضرر رساں بن جائے۔ مثلاً مسجد میں تیز لاؤڈاسپیکر لگا کر صوتی کثافت (noise pollution) پیدا کرنا، سڑک پر نماز کی صفیں قائم کرکے ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنا، مسجد میں سیاسی اور جوشیلی تقریریں کرکے جھگڑا کھڑا کرنا، غصب کی زمین پر مسجد بنانا، اس قسم کا کوئی معاملہ ہو تو اس پہلو کے اعتبار سے مسجد کا معاملہ قانون اور عدالت کا معاملہ بن جائے گا اور عدالت مجاز ہوگی کہ وہ اس پہلوسے اپنا عادلانہ فیصلہ دے۔
سوال
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان میں فیکلٹی شریعہ اینڈ لاء کا اسٹوڈنٹ ہوں، اور آپ کے الرسالہ کا مستقل قاری ہوں۔ آپ کی کتابیں پڑھ کر آپ کی فکر سے آشنائی ہوئی اور حقیقتاً فکروعمل میں ایک انقلاب لانے والی فکر سے آشنا ہو کر قلبی سکون ہواکہ ابھی امت کے علماء اپنے نور بصیرت سے اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے صبح انقلاب کی نوید مسرت سُنا سکتے ہیں اور خدا کی فطرت سے سیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے اب مجھے سوچنے کی عادت ڈال ہی دی تو میری رہنمائی بھی فرمائیں اور پلیز مجھے مندرجہ ذیل باتوں سے آگاہ فرمائیں۔
۱۔ آج کے دو رمیں جہاں علوم کی کثرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور تمام معلومات کااحاطہ ممکن نہیں تو ایک علم کا پیاسا کس طرز عمل کو اختیار کرے کہ وہ اس دنیا میں کامیاب ہو اور اُس کا ایجوکیشنل کیریربھی بہتر ہو۔ ورنہ سفر زیادہ اور زاد راہ کم ہے۔
۲۔ آپ کی رائے کے مطابق، ایک مسلم نوجوان تعلیم کے میدان سے فارغ ہونے کے وقت کس قسم کے اسلحہ سے لیس ہو۔ اس کی شخصیت کس چیز کی آئینہ دار ہو۔ موجودہ دورمیں کامیابی کے لیے اور دین اسلام کی فہم کے لیے نصاب تعلیم کس قدر اور کس کو محیط ہو۔ بچہ ونوجوان کے لیے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا نصاب کیسا ہو جو فکری و عملی تربیت کے ساتھ زمانے کے تقاضے پورے کرتا ہوا قائدانہ کردار ادا کرے۔ (محمد احمد، اسلام آباد، پاکستان)
جواب
۱۔ مطالعہ کا مقصد تمام مطبوعہ کتابوں کو پڑھنا نہیں ہے۔ مطالعہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ آدمی زمانہ کے بنیادی افکار کو جان لے۔ بقیہ چیزوں کو جاننے کا ذریعہ آدمی کی خود اپنی فطرت یا اُس کا کامن سنس ہے۔ اپنی فطرت کو مثبت اُصول پر زندہ کیجئے، اور آپ کے لیے انتخابی (selective) مطالعہ ہی صاحب علم اور صاحب بصیرت بننے کے لیے کافی ہوجائے گا۔
۲۔ میرے نزدیک طالب علمی کے زمانہ میں ایک شخص کو صرف اپنی تعلیم پر دھیان دینا چاہیے۔ طالب علمی کے زمانہ میں اُس کا نظریہ تعلیم برائے تعلیم ہونا چاہیے۔ آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ طلباء سیاسی اور قومی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ میرے نزدیک مہلک ہے، طالب علم کے لیے بھی اور وسیع تر معنوں میں پوری قوم کے لیے بھی۔
۳۔ موجودہ زمانہ میں مسلم نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ منفی طرز فکر ہے۔ تقریباً ساری دنیا میں مسلم نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ وہ منفی ذہن کے تحت سوچنے لگے ہیں۔ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ غیر مسلم قومیں اُن کی دشمن ہیں۔وہ اُن کے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔ وہ اُن کو مٹانے کے درپے ہیں۔ اس قسم کے نظریات سراسر بے بنیاد ہیں۔ کیوں کہ قرآن میں واضح لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ اُن کی داخلی کمزوری ہے، نہ کہ خارجی سازش۔
میرے نزدیک مسلم نوجوانوں کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اس غلط طرز فکر سے نکلیں۔ وہ دنیا کے تمام لوگوں کو انسان سمجھیں۔ وہ میری قوم اور غیر قوم کی اصطلاحوں میں سوچنا بند کریں۔ وہ دنیا کی قوموں کو مسلم دشمن اور مسلم نواز کے خانوں میں تقسیم نہ کریں۔ وہ مکمل طورپر مثبت طرز فکر کو اپنائیں، حتیٰ کہ اُن لوگوں کے معاملہ میں بھی جن کو اُنہوں نے خود ساختہ مفروضہ کے طورپر مسلم دشمن کا لقب دے رکھا ہے۔
ماہنامہ الرسالہ میں ہم بار بار ہر قسم کے دلائل کے ذریعہ یہ بتاتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ شکایت اور احتجاج کا ذہن ختم کریں۔ وہ اپنی منفی سرگرمیوں کو یک لخت بند کردیں۔ جہاد کے نام پر متشددانہ سرگرمیوں کو پوری طرح چھوڑدیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی طاقت کو تعلیم، دعوت، اصلاحِ معاشر ہ اور تعمیر و ترقی کے غیر سیاسی میدانوں میں استعمال کریں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ علماء اور جماعتیں مکمل طورپر سیاسی سرگرمیوں سے علیٰحدہ ہوجائیں۔ وہ مسجد اور مدرسہ اور ادارہ جیسے شعبوں میں پُرامن طورپر تعمیری اصلاح کا کام کریں۔ موجودہ زمانہ میں ترکِ سیاست حقیقی ملّی کام کا آغاز ہے۔ جب تک اس راز کو نہ سمجھا جائے، ملت کے اندر کسی نتیجہ خیز کام کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔
سوال
الرسالہ مارچ ۱۹۹۸ میں آپ نے صحیح البخاری کی روایت کے مطابق، یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ کا طریقہ اختیار اعسر کے مقابلہ میں اختیار ایسر کا تھا۔ یہ حدیث بلاشبہہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم ترین صفت کو بتاتی ہے۔ لیکن قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طرزِ فکر و عمل دوسرے تمام پیغمبروں کا نہ تھا۔ مثال کے طور پر قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک بڑے بت خانے میں داخل ہو کر وہاں کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور صرف ایک بڑے بت کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا (الانبیاء ۵۸)
ان حالات میں ان کا بتوں کو توڑنا مذکورہ حدیث میں بتائی گئی سنت سے مختلف عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ حالاں کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے زیادہ آسان عمل یہی تھا کہ وہ بت شکنی کے بجائے دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کریں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کی یہی بت شکنی کی ادا پسند آئی اور آپ کو آگ سے صحیح و سلامت بچایا۔ (غلام نبی کشافی، سرینگر)
جواب
آپ کا سوال غلط تقابل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ آپ نے استثناء کا تقابل عموم سے کیا ہے جو درست نہیں۔ صحیح البخاری کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے تمام پیغمبروں کی عمومی پالیسی کو بتاتی ہے۔ جہاں تک حضرت ابراہیم کے مذکورہ واقعہ کا تعلق ہے، وہ اتمام حجت کے بعد کا ایک واقعہ ہے جو دعوت کے عمل کی تکمیل کے بعد آخری مرحلہ میں کیا گیا۔ اتمامِ حجت کے بعد اس قسم کا استثنائی واقعہ ہر پیغمبر بشمول پیغمبر اسلام کی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً پیغمبر اسلام کا یہ ارشاد کہ: أمرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الٰہ الا اللہ، اتمام حجت کے بعد کا کلمہ ہے، وہ آپ کے عمومی انداز دعوت کا بیان نہیں۔
آپ کا یہ ارشاد صحیح نہیں کہ حضرت ابراہیم نے پُر امن دعوت کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ یہ ایک غلط جنرلائیزیشن ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، حضرت ابراہیم نے ۱۷۵ سال کی عمر پائی۔ اس طویل عمر میں ہمیشہ آپ پُر امن دعوت ہی کاکام کرتے رہے۔ مذکورہ واقعہ صرف ایک دن کا واقعہ ہے، وہ اُن کی پوری عمر کا عمومی طرز عمل نہیں۔ آپ کا یہ ارشاد بھی درست نہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو اُن کی بت شکنی کی ادا پسند آئی...‘‘۔یہ جو کچھ حضرت ابراہیم کے ساتھ پیش آیا وہ براہ راست خدا کے حکم سے تھا۔ ہر پیغمبر کے ساتھ اتمام حجت کے بعد اسی قسم کا واقعہ مختلف صورتوں میں پیش آیاہے۔
سوال
I have gone through your book The Concept of God written by Maulana W. Khan, which gave a vivid and brief encounter about the supernatural fact called God. But lastly an unseemly question appeared in my mind which says that 'What was the necessity for the infinite power, called God to create the universe and living organism?'
Thus I will be highly obliged if you please convey my question to the author.
(Soujatya Ghosh, student of Collage Leather Tech.)
جواب
میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے کائنات کو اپنی ضرورت کے لیے نہیں بنایا بلکہ اس کو ہماری ضرورت کے لیے بنایاہے۔ اس تخلیق کے ذریعہ خدا نے ہمارے لیے ایک عظیم امکان (great opportunity) کھولی ہے۔ وہ یہ کہ ہم سو سال یا اس سے کم کی مختصر زندگی میں حسن عمل کا ثبوت دیں اور موت کے بعد ابدی جنت میں داخلہ پاکر ابدی راحت کی زندگی گذاریں۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر آئیڈیل ورلڈ کی تلاش میں ہے۔ جنت اسی تلاش کا جواب ہے۔ موجودہ دنیا میں ہم آئیڈیل ورلڈ کو نہیں پاسکتے البتہ موجودہ محدود زندگی میں آئیڈیل کیرکٹر کا ثبوت دے کر اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا سکتے ہیں کہ جنت کی ابدی دنیا میں ہم کو داخلہ ملے۔
سوال
موجودہ دور کی روشنی میں دعوت کی ذمہ داری جو ہم پر ڈالی گئی ہے اس کی شکل کیا ہونی چاہیے۔ کیا ہم یک طرفہ اپنی اصلاح کرتے رہیں اور اقوام عالم کی نظروں میں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جائیں۔ کیا ملّت کے لیے یہ خودچیلنج نہیں ہے۔ پُر تشدد طریقِ کار کو استعمال کرنا سنّتِ رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اور جو افراد ملّت سنت کی خلاف ورزی کریں وہ کیا فلاح پانے والے ہیں۔ اپنے حق یا آزادی کے نام پر ظلم کرنا اور بے گناہوں کا خون کرنا کون سی شہادت یا کارخیر ہے۔ (ابرار حسین قریشی، دھار، مدھیہ پردیش)
جواب
۱۔ دعوت سے مراد غیر مسلموں تک اسلام کا مثبت پیغام پہنچانا ہے۔ یہ مسلمانوں کے اوپر ایک لازمی فریضہ ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ مسلمانوں کے اوپر سے ساقط نہیں ہوتا۔
۲۔ موجودہ زمانہ میں مسلم تنظیمیں جگہ جگہ جہاد کے نام پر متشددانہ کارروائیاں کررہی ہیں۔ یہ بلا شبہہ اسلام میں ناجائز ہیں۔ مسلح جہاد صرف قائم شدہ حکومت کا حق ہے۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ جہاد کے نام سے کسی کے خلاف مسلح کارروائی شروع کردیں۔ مزید یہ کہ جو مسلمان عملاً اس میں حصہ نہیں لیتے مگر وہ تحریر اور تقریر کے ذریعہ اس کو جہاد بتاتے ہیں وہ بھی اسلامی اصول کے مطابق، اس ناجائز فعل میں برابر کے شریک ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اس میں شریک مانے جائیں گے جو اس برائی کو جانیں مگر وہ اس پر خاموش رہیں، وہ اس کے بارے میں غیر جانبدار بن جائیں۔