رمضان اور عید الفطر(Ramdhan aur Eid-ul-Fitr)

By
Maulana Wahiduddin Khan

رمضان اور عید الفطر

(Leaflet)

مولانا وحید الدین خاں

 

حضرت ابو ہریرہ کی ایک طویل روایت مسند احمد میں آئی ہے۔ اِس روایت کا ایک حصہ یہ ہے:یُغفر لہم في آخر لیلۃ من رمضان۔ قیل: یا رسول اللہ، أہی لیلۃ القدر۔ قال:لا، ولکنّ العاملَ إنّما یُوفی أجرہ إذا قضی عملہ) رقم الحدیث (7904 یعنی رمضان کی آخری رات میں روزے دار بندوں اور بندیوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ کہاگیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا اِس رات سے مراد شبِ قدر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ عمل کرنے والا جب عمل کرتا ہے، تو عمل کے پورا ہونے کے بعداُس کو اُس کاپورا اجر دے دیا جاتا ہے۔

اِس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کے وہ افراد جو روزے کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھیں، مہینے کی آخری رات میں ان کے عمل کا پورا اجر ان کے ریکارڈ میں لکھ دیا جاتاہے ۔ رمضان کے مہینے کی اِس آخری رات کو دوسری حدیث میں ’لیلۃ الجائزۃ‘ (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی انعام کی رات۔ ہر نیک عمل پر اللہ اپنے بندوں کو انعام دیتا ہے۔ رمضان کی عبادت کی اہمیت کی بنا پر اِس حدیث میں اس کے انعام کا ذکر خصوصی انداز میں کیا گیا۔

عام طورپر ایسا ہوتاہے کہ جب رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے، تو عید سے پہلے کی رات کو لوگ غفلت میں یا تماشے میں گزارتے ہیں۔ وہ اس میں شاپنگ کی دھوم مچاتے ہیں۔ یہ حدیث اِس قسم کی غفلت کے لیے ایک انتباہ (warning)  کی حیثیت رکھتی ہے۔انعام کی اِس رات کا بہتر استعمال یہ ہے کہ اُس رات کو زیادہ سے زیادہ دعا اور عبادت میں گزارا جائے، اور پورے مہینے کا محاسبہ کیا جائے، اور نئے سال کی دوبارہ منصوبہ بندی کی جائے۔ اِس رات کو مسرفانہ شاپنگ جیسی چیزوں میں گزارنا، اِس بابرکت موقع کا ضیاع بھی ہے اور اُس کی ناقدری بھی۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ رمضان کے مہینے کو اُس کی مطلوب اسپرٹ کے ساتھ گزاریں، وہ کبھی اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ رمضان کی آخری رات کو وہ غفلت اور تفریح میں گزار دیں۔ ان کے لیے مہینے کی آخری رات دعا اور عبادت کی رات ہوگی، نہ کہ غفلت اور تفریح کی رات۔

رمضان کے بارے میں حضرت انس بن مالک سے ایک طویل روایت حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ اُس حدیث کا ایک حصہ یہ ہے:

’’… فإذا کان یومُ عیدِہم، یعني یومَ فِطرہم، باہیٰ بہم ملائکتَہ، فقال: ملائکتي، ماجزائُ أجیرٍ وفّیٰ عملَہ۔ قالوا:ربّنا، جزائُہ أن یُوفّیٰ أجرہ۔قال: ملائکتي، عبیدي وإمائي قضَوا فریضتي علیہم، ثمّ خرجوا یعُجُّون إلی الدّعاء، وعزّتي وجَلالِي وکَرمي وعُلوّي وارتفاعِ مکاني لأجیبنّہم۔ فیقول: ارجعوا فقد غفرتُ لکم، وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات۔ قال:فیرجعون مغفوراً لہم۔)رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، رقم الحدیث (3717 ۔

یعنی جب اُن کی عید کا دن آتا ہے، یعنی عید الفطر کا دن، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اُن پر فخر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہےاے میرے فرشتو، اُس عامل کی جزا کیا ہے جس نے اپنے عمل کو پورا کردیا۔ فرشتے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، اُس کی جزا یہ ہے کہ اُس کو اُس کے عمل کا پورا بدلہ دے دیا جائے۔اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ اے میرے فرشتو، میرے بندو ں اور میری بندیوں نے میرے اُس فرض کو ادا کردیاجو اُن پر عائد تھا، پھر وہ نکلے ہیں دعا کے ساتھ مجھ کو پکارتے ہوئے۔ میری عزت اور میرے جلال کی قسم ، میرے کرم ، میرے عُلو ِ شان اور میرے بلند مقام کی قسم، میں ضرور اُن کی پکار کو سنوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہتم لوگ واپس جاؤ، میں نے تم کو بخش دیا اور میں نے تمھارے سیّاٰت کو حسنات میں تبدیل کر دیا۔ پس وہ لوگ اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔

رمضان کے خاتمے کے بعد عید الفطر کا دن ایک عظیم خوش خبری بن کر آتا ہے، ابدی انعام کی خوش خبری۔ یہ ابدی انعام اللہ کے اُن بندوں اور بندیوں کے لیے ہے جو رمضان کے مہینے میں مطلوب روزے کے ذریعے اپنے لیے اُس کا استحقاق   (deservingness)ثابت کریں۔