سچائی کا اعتراف

گلیلیو (1564-1642) اٹلی کا بہت بڑا سائنس داں تھا۔ اس نے پہلی بار دوربین تیار کی اور علم الافلاک میں بہت سی اہم چیزیں دریافت کیں۔ ساڑھے تین سو سال پہلے اس نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام تھا ’’دو بڑے نظام ہائے عالم پر گفتگو‘‘۔

Dialogue Concerning the Two Chief World Systems (1632).

 اس کتاب میں گلیلیو نے زمین اور شمسی نظام کے مسئلہ پر بحث کی۔ اس نے کوپرنیکس کے اس نظریہ کی تائید کی کہ زمین چپٹی نہیں ہے بلکہ گول ہے اور یہ کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھوم رہا بلکہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔

رومی کلیسا نے اس نظریہ کو مسیحی عقائد کے خلاف قرار دیا۔ کتاب مقدس (تورات اور انجیل) میں اگرچہ یہ مسئلہ درج نہ تھا۔ تاہم مسیحی بزرگوں نے بطور خود اپنے عقیدہ کی جو تفصیلات مرتب کیں ان میں انہوں نے اس نظریہ کو درج کر دیا۔ کلیسا یہ عقیدہ رکھتا تھاکہ کتاب کے متن کی طرح اس کے حواشی بھی مقدس ہیں جو اس کے بزرگوں نے لکھ رکھے ہیں ، اس لیے اس نے ان حواشی کو عین دین سمجھا اور اس نے گلیلیو کو بے دین قرار دے دیا۔ اس زمانہ میں کلیسا کو مسیحی دنیا پر زبردست اقتدار حاصل تھا۔ حتیٰ کہ یورپ کے کئی ملکوں (اسپین ، اٹلی وغیرہ) میں اس کی متوازی مذہبی عدالتیں قائم تھیں۔ ان عدالتوں کے ذریعہ کلیسا براہ راست خود اپنے اختیار سے ہر قسم کی سزائیں دے سکتا تھا۔

جب گلیلیو نے اپنی غلطی نہیں مانی تو اس کا مقدمہ رومی کلیسا کی مذہبی عدالت میں پیش ہوا۔ اور اس نے اس کو عمر قید کی سزا دے دی۔ اس کے بعد دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک کے لیے اٹلی میں علمی تحقیق کا کام رک گیا— خدائی متن کے ساتھ بزرگوں کی تشریحات کو مقدس سمجھنے کا یہ بھیانک انجام تھا جو اٹلی کو بھگتنا پڑا۔

کلیسا نے اپنے دائرہ اختیار میں کچھ اہل علم کا خاتمہ کر دیا۔ مگر خود علم کا خاتمہ کر دینا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ کلیسا کا دائرہ اختیار بہرحال محدود تھا۔ جب کہ علم کائناتی بنیادوں پر قائم ہے ، علم وہ چیز ہے جس کی جڑیں سارے زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ کلیسا کے مخالفانہ رویہ کے باوجود علم بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ نوبت آ گئی کہ علم کوعمومی بالادستی حاصل ہو گئی۔ کلیسا کا اختیار ماضی کا افسانہ بن کر رہ گیا۔

اب کلیسا کے لیے اس کے سوا کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی کہ وہ نئی صورت حال کو تسلیم کرے۔ جس گلیلیو کو وہ اپنے یہاں مرتد اور قابل سزا کے خانہ میں لکھے ہوئے تھا وہ باہر کی پوری علمی دنیا میں ہیرو کا مقام حاصل کر چکا تھا۔ یہ واقعہ اب کلیسا کی تاریخ میں ایک شرمناک واقعہ بن گیا۔ وہ کلیسا کی غیر علمی روش کے لیے ایک علامتی مثال کی حیثیت رکھتا تھا۔ حتیٰ کہ جو چیز پہلے گلیلیو کا مسئلہ تھی وہ اب خود کلیسا کا مسئلہ بن گئی۔ کیوں کہ گلیلیو کی علمی حیثیت کا اعتراف کیےبغیر کلیسا اپنے اعتماد کو بحال نہیں کر سکتا تھا۔

1980ء میں کلیسا نے اس مسئلہ پر نظرثانی کے لیے آٹھ افراد پر مشتمل ایک خصوصی کمیشن مقرر کیا۔ اس کے ارکان میں مورخ ، ریاضی داں اور مسیحی علما شامل تھے۔ کمیشن طویل غور و خوض اور بحث و مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ علم نے آخری طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اس معاملہ میں یقینی طور پر گلیلیو حق پر تھا۔

اس کے بعد مئی 1983ء میں ویٹیکن میںایک خاص اجلاس ہوا جس میں مورخین ، مسیحی علما اور سائنس دانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ پوپ جان پال ثانی خود بھی اس تاریخی اجتماع میں موجود تھے۔ پوپ نے تمام لوگوں کے سامنے اس معاملہ میں کلیسا کی غلطی کا اعتراف کیا اور گلیلیو کے برسرحق ہونے کا علان کیا۔ انہوں نے کہا:

The Church's experience, during the Galileo affair and after it, has led to a more mature attitude and to a more accurate grasp of the authority proper to her.

گلیلیو کے زمانہ میں اور اس کے بعد کلیسا کے تجربہ نے اس کو زیادہ پختہ نقطہ نظر اور اختیار کے زیادہ صحیح ادراک تک پہنچایا ہے جو اس کے لیے مناسب ہے (گارجین 29 مئی 1983)۔

یہ تضاد کیوں

کلیسا نے کیوں سترھویں صدی عیسوی میں گلیلیو کا انکار کیا تھا اور بیسویں صدی میں کیوں اس نے گلیلیو کا اقرار کر لیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سترہویں صدی عیسوی میں گلیلیو کی شخصیت ایک متنازعہ (controversial)شخصیت تھی۔ جب کہ بیسویں صدی عیسوی میں وہ ایک تسلیم شدہ (established) شخصیت بن چکی ہے۔

ٹھیک یہی معاملہ کلیسا کاایک اور شخصیت کے ساتھ پیش آیا۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔ مسیحی کلیسا نے ساتویں صدی عیسوی میں حضرت محمد کا انکار کیا۔ اس انکار کی وجہ یہ تھی کہ ساتویں صدی میں حضرت محمد کی شخصیت ایک متنازعہ شخصیت تھی۔ اب دوبارہ یہ ہوا ہے کہ بیسویں صدی میں پہنچ کر حضرت محمد کی شخصیت ایک ثابت شدہ شخصیت بن چکی ہے۔ آج علم اور تاریخ کے اتنے شواہد آپ کی نبوت کی تصدیق پر جمع ہو چکے ہیں کہ اب باعتبارحقیقت کسی کے لیے اس پر شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تقابل کے لیے ملاحظہ ہو ڈاکٹر موریس بوکیل کی مندرجہ ذیل کتاب— بائبل ، قرآن اور سائنس:

The Bible, The Quran, and Science (1976)

پھر کیا وجہ ہے کہ جن اسباب کی بنا پر کلیسا نے گلیلیو کو مان لیا، انہیں اسباب کی موجودگی میں وہ حضرت محمد کو نہیں مانتا۔ وہ بدستور آپ کو بناوٹی نبی (false prophet) کے خانہ میں ڈالے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ وہ فرق ہے جو باعتبار نوعیت دونوں شخصیتوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ گلیلیو کو ماننا صرف ایک فنی غلطی کا اعتراف ہے۔ جب کہ حضرت محمد کو ماننا اپنے پورے وجود کی نفی کے ہم معنی ہے۔

گلیلیو ایک فلکیات داں تھا۔ اس کاکیس فلکیاتی علم کا کیس تھا۔ جب کہ حضرت محمد ایک پیغمبر تھے اور آپ کا کیس خدا کی پیغمبری کا کیس ۔ یہ فرق دونوں کے معاملہ کو نوعی طور پر ایک کو دوسرے سے جدا کر دیتا ہے۔ گلیلیو کو ماننا صرف ایک علمی سچائی (scientific truth) کو ماننا ہے۔ اس کے برعکس، حضرت محمد کو مانناایک مذہبی سچائی (religious truth) کو ماننا۔ گلیلیو کو ماننا کلیسا کے لیے ایک ایسے خارجی واقعہ کو ماننا تھا جس سے اس کے اپنے اوپر کوئی زد نہیں پڑتی تھی۔ اس کا اپنامخصوص ڈھانچہ اس کے بعد بھی بدستور برقرار رہتا تھا۔ اس کے برعکس، حضرت محمد کو ماننا ایک ایسے واقعہ کو ماننا تھا جس کا براہ راست تعلق اس کے اپنے ڈھانچہ سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد کو مانتے ہی پاپائیت اپنے وجود کا جواز کھو دیتی ہے۔ اس کے بعد کلیسا کا پورا محل اچانک زمین پر گر پڑتا ہے۔

حضرت محمد نے توحید کی تعلیم دی جب کہ موجودہ کلیسا کا سارا ڈھانچہ تثلیث کے عقیدہ پر قائم ہے۔ حضرت محمد نے حضرت مسیح کو خدا کا پیغمبر بتایا جب کہ کلیسا حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اپنا مذہبی قلعہ تعمیر کیےہوئے ہے۔ حضرت محمد نے ذاتی عمل کو نجات کی بنیاد قرار دیا، جب کہ کلیسا کا سارا مذہبی ڈھانچہ کفارہ کے عقیدہ پر قائم ہے، وغیرہ۔ اسی حالت میں کلیسا کیسے حضرت محمد کومان لے۔

گلیلیو کا اقرار کرنے کے بعد بھی کلیسا کی حیثیت بدستور باقی رہتی تھی۔ جب کہ حضرت محمد کا اقرار کلیسا کے لیے خود اپنے انکارکے ہم معنیٰ ہے۔ اور بلاشبہ دنیا میں ایسے لوگ سب سے زیادہ کم پائے جاتے ہیں جو اس قسم کی جرأت کا ثبوت دے سکیں۔ کلیسا صرف اپنی نفی کی قیمت پر حضرت محمد کو مان سکتا ہے۔ اور اس دنیا میں کون ہے جو اپنی نفی کی قیمت پر کسی سچائی کو ماننے کے لیے تیار ہو جائے۔

کسی حقیقت کے ثابت شدہ ہونے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کا نظری طور پر ثابت ہونا دوسرے اس کا مادی طور پر ثابت شدہ بن جانا۔ غیر مذہبی حقیقت موجودہ دنیا ہی میں آخری حد تک ثابت ہو جاتی ہے۔ جب کہ مذہبی حقیقت موجودہ دنیا میں صرف نظری طور پر ثابت ہوتی ہے۔ مادی یا ظاہری طور پر وہ صرف آخرت کی دنیا میں ثابت شدہ بنے گی۔

یہی وجہ ہے کہ غیر مذہبی حقیقت کو لوگ فوراً مان لیتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے معاملہ میں انسان کے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس کا انکار کرنا اپنے آپ کو انسانیت کے قافلہ سے کاٹ لینے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔

اس کے برعکس، مذہبی حقیقت کو اکثر حالات میں آدمی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا میں وہ صرف نظری طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اس کا حسّی اور ظاہری اثبات صرف آخرت کی دنیا میں ہو گا۔ اس بنا پر یہاں آدمی کے لیے ہمیشہ یہ گنجائش موجود رہتی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ الفاظ بول کر اس کا انکار کر دے۔

مگر یہی آدمی کا اصل امتحان ہے۔ نظری دلائل کی سطح پر حقیقت کو پہچاننے ہی کا دوسرا نام ایمان ہے، اور ایمان کے بغیر کسی کو خدا کی جنت نہیں مل سکتی۔ قیامت میں تمام لوگ مجبور ہوں گے کہ وہ حقیقت کا اعتراف کریں۔ کیوں کہ وہاں حقیقت اپنی آخری اور کامل صورت میں ظاہر ہو جائے گی۔ مگر دنیا میں حقیقت کو وہی لوگ مانتے ہیں جو کسی چیز کو اس کے معنوی جوہر کے اعتبار سے پہچاننے کا حوصلہ رکھتے ہوں گویا جو کچھ عام لوگوں پر قیامت کے دن گزرنے والا ہے وہ مومن پر اسی دنیا میں گزر جاتا ہے۔ وہ دیکھنے سے پہلے دیکھ لیتا ہے۔

یہ ’’دیکھنے سے پہلے دیکھنا‘‘ ہی دراصل جنت کی قیمت ہے۔ جو اس کا ثبوت دے وہی وہ شخص ہے جس کو خدا کی ابدی جنت میںداخلہ ملے گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom