مذہب کی اہمیت
کہا جاتا ہے کہ جدید تہذیب نے مذہب کو فرسودہ اور غیر ضروری ثابت کر دیا ہے۔
وہ کیا چیز ہے جو مغربی تہذیب نے انسانیت کو دی ہے۔ وہ ہیں جدید طرز کی سواریاں۔ نئے طرز کے مکانات، نئے قسم کے ذرائع مواصلات۔ نئے قسم کے لباس ۔ مختصر یہ کہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے نئے سازو سامان جو پچھلے سامانوں کے مقابلہ میں زیادہ آرام دہ ، زیادہ خوش نما اور زیادہ سریع العمل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کے سامانوں کا خدا اور مذہب پر عقیدہ رکھنے یا نہ رکھنے کے مسئلہ سے کیا تعلق۔
کیا کسی کے پاس جدید طرز کی رہائش گاہ اور موٹرکار ہونے کامطلب یہ ہے کہ اس کے لیے خدا کا وجود بے معنی ہو گیا ۔ کیاتار اور ٹیلی فون کے ذریعہ خبررسانی سے وحی و الہام کے عقیدے کی تردید ہو جاتی ہے۔ کیا ہوائی جہاز اور راکٹ کے ذریعہ فضا میں اڑنے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کا اس کائنات میں کہیں وجود نہیں ہے۔ کیا لذیذ کھانے، خوش نما لباس اور اعلیٰ فرنیچر کے وجود میں آنے کے بعد جنت و دوزخ کو ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کیا جدید عورتوں کے اندر یہ صلاحیت کہ وہ ٹائپ رائٹر کے کی بورڈ پر اپنی انگلیاں تیزی سے چلا سکتی ہیں یہ ثابت کرتا ہے کہ ٱلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى ٱلنِّسَاءِ (4:34)کی آیت منسوخ ہو گئی۔ کیا اسمبلی اور پارلیمنٹ کی شاندار عمارتوں میں بیٹھ کر کچھ لوگوں کا قانون سازی کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ شریعت کا قانون بے معنی ہو گیا ہے۔
نئے ساز و سامان اور نئے ذرائع و وسائل کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کامذہب کی صداقتوں کی تائید یا تردید سے کیا تعلق ہے۔
مذہب کا تعلق قدروں (values) سے ہے، نہ کہ تمدنی مظاہر سے۔ تمدنی مظاہر بدلتے رہتے ہیں، مگر زندگی کی قدروں میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ جدید طرز کی تیز رفتار سواریوں نے قدیم طرز کی سست رفتار گاڑیوں کو فرسودہ قرار دے دیا ہے۔ مگر اس مسئلہ کی اہمیت بدستور اپنی جگہ قائم ہے کہ آدمی سواریوں کو بنانے اور استعمال کرنے میں کن اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرے۔ جدید مواصلاتی ذرائع نے قدیم طرز کے پیغام رسانی کے طریقوں کو بے فائدہ ثابت کر دیا ہے۔ مگر اس سوال کی اہمیت میں اب بھی کوئی فرق نہیں ہوا کہ ان مواصلات کو جھوٹ کی اشاعت کے لیے استعمال کیا جائے یا سچ کی اشاعت کے لیے۔
پارلیمنٹ کے ممبران خواہ پیدل چل کر پارلیمنٹ ہائوس پہنچیں یا ہوائی جہازوں پر اڑ کر آئیں ، اس اصول کی اہمیت بدستور باقی رہے گی کہ ان کی قانون سازی کا کام اسی خدائی قانون کی مطابقت میں ہونا چاہیے جس پر ساری کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ عدالت کے دفاتر خواہ چھپر میں ہوں یا کسی عالی شان عمارت میں ، یہ معیار یکساں طور پر باقی رہے گا کہ عدالتوں کو اس طرح کام کرنا چاہیے کہ کوئی شخص اپنا جائز حق لینے سے محروم نہ رہے اور نہ کوئی شخص اپنے جرم کی سزا پانے سے۔
’’اسلام عصر حاضر میں ‘‘ ویسا ہی ایک جملہ ہے جیسا کہ ’’سورج عصر حاضر میں‘‘ اسلام ، بالفاظ دیگر خدا کی سچی ہدایت ، ابدی حقیقتوں کا اظہار ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کی مادی تعمیر کے لیے جس طرح سورج کی روشنی کی مستقل ضرورت ہے۔ اسی طرح اس کو اپنی زندگی کی روحانی اور اخلاقی تعمیر کے لیے خدا کی سچی ہدایت (اسلام) کی لازمی ضرورت ہے۔ جو لوگ اسلام کو نہ اپنائیں وہ گویا روحانی اور اخلاقی معنوں میں اسی نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو وہ شخص کرے گا جو اپنی زندگی کی مادی تعمیر اس طرح کرے کہ اس نے سورج کو اپنی فہرست سے حذف کر دیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ سورج کے بغیر آدمی کی دنیا اندھیری ہے اور ہدایت کے بغیر آدمی کی آخرت اندھیری۔