سوال و جواب
سوال
الحمد للہ تقریباً ۲۰ سال سے الرسالہ کا قاری ہوں اور تقریباً آپ کی زیادہ تر کتابیں میری لائبریری میں موجود ہیں۔ آپ کی تحریروں سے جو فائدہ ہوا ہے اُسے بیان کرنا ناممکن ہے۔ کتابیں تو میں نے اہل دیو بند او رجماعت اسلامی کی بھی بہت پڑھی ہیں مگر جو thinking آپ کی تحریروں سے بنی ہے اب اس کے بعد کسی اور کی کتاب دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔
میں تبلیغی جماعت کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ مگر یہاں آج کل بہت زیادہ ’’نکلنے‘‘ پر زور دیا جارہا ہے۔ چار مہنیہ، چالیس دن اور روزانہ کے ڈھائی گھنٹہ پر بہت زیادہ اصرار کیا جاتا ہے۔ میں اپنی مصروفیت اور دوسرے مشاغل کی وجہ سے مطلوبہ وقت دے نہیں پاتا مگرساتھی اس کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ یہ بھی دین کا کام ہے اور اپنے بھائیوں میں دین کی لائن سے فکر کرنا کہ کیسے وہ اعمال پر آجائیں بہت اونچی بات ہے۔ مگر کیا یہ ’’نکلنا‘‘ اتنا زیادہ ضروری ہے اور اس کا ثواب بھی وہی ہے جو یہ ’’اللہ کے راستے میں ‘‘ نکلنے کا بتاتے ہیں (عبد الرزاق، ممبئی)
جواب
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے درمیان جو تحریکیں اُٹھیں، بد قسمتی سے تقریباً ہر ایک میں انتہا پسندی کاوہی غیر مطلوب عنصر پایا جاتا ہے جس کوقرآن اور حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ مثلاً جماعت اسلامی میں سیاسی انتہا پسندی، تبلیغی جماعت میں فضائلی انتہا پسندی، مدارس میں مسائلی انتہاپسندی، قومی تحریکوں میں مظاہراتی انتہا پسندی، مسلم پرسنل لاء بورڈ میں تشخّصی انتہا پسندی، وغیرہ۔
دین میں اصل اہمیت روح کی ہے، نہ کہ مظاہر کی۔ غلو ہمیشہ مظاہر کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ ’’نکلنے‘‘ جیسی چیزیں بھی مظاہر سے تعلق رکھتی ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ روح دین پر زور دیا جائے۔ فارم کے بجائے اسپرٹ کو زندہ کرنے میں ساری طاقت صَرف کی جائے۔ اسپرٹ جب زندہ ہوتی ہے تو فارم اپنے آپ زندہ ہوجاتا ہے۔ اوراگر اس کے برعکس فارم پر محنت کی جائے تو فارم تو زندہ ہوسکتا ہے مگر اس سے اسپرٹ زندہ نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کے بارہ میں قرآن کی زبان میں یہ کہا جائے گا کہ ایمان کی ظاہری صورت تو تمہاری زندگیوں میں آئی مگر تمہارے دلوں میں ایمان ابھی تک داخل نہیں ہوا۔ (الحجرات۱۴)
سوال
آپ اپنی تحریروں میں اکثر صلح حدیبیہ کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ بتاتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر اپنے مخالف کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر اُن سے صُلح کرلی تھی۔ آپ کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو اپنے حریفوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب کا سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کے برعکس دوسرا واقعہ بھی ملتاہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جب کہ بعد کو ابو سفیان مکہ والوں کے نمائندہ کی حیثیت سے مدینہ آئے اور صُلح حدیبیہ کی تجدید و توثیق کی درخواست کی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو قبول نہیں فرمایا اور اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کا فیصلہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ہمیں دونوں میں سے کس سنت کی کس وقت پیروی کرنی چاہئے۔ (شمشاد محمد خاں، برمنگھم)
جواب
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حقیقی صورتِ حال یہ فیصلہ کرے گی کہ ہم اپنے حالات کے لحاظ سے دونوں میں سے کس سُنّت کے مخاطب ہیں۔ شریعت اور عقل دونوں کا یہ اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رُخی (result oriented) ہونا چاہئے۔ متوقع نتیجہ کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم دونوں میں سے کس روش کو اختیارکریں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اُن میں بلا اشتباہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہیں صبر کے اُصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے، نہ کہ اقدام کے اصول پر۔ پچھلے دو سو سال میں مسلمان با ربا راقدام کا تجربہ کرتے رہے ہیں اور ہر بار وہ مکمل ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اپنی استعداد یا تیاری کے اعتبار سے فریقِ ثانی کے مقابلہ میں اتنا کم ہیں کہ کسی بھی اقدام کا نتیجہ اُن کے حق میں نکلنا ممکن نہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ: المؤمن لا یلدغ من جحر مرّتین (مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاتا)۔ واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے پچھلے دو سوسال میں لا تعداد بار چھوٹے اور بڑے اقدامات کیے اور ہر باروہ یکطرفہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔ ایسی حالت میں اُن پر لازم ہے کہ وہ صبر کی سنت پر عمل کریں، نہ کہ اقدام کی سنت پر۔ حالات کا اندازہ کرنے میں مسلمان اگر ایک بار دھوکہ کھائیں تو وہ قابل معافی قرار پاسکتے ہیں۔ مگر حالات کا اندازہ کرنے میں بار بار دھوکہ کھانا کسی بھی حال میں اُن کے لیے قابلِ معافی نہیں۔
سوال
اسلام میں لَے پالک یا منہ بولا بیٹا یا متبنّیٰ بنانے کو حرام کیا گیا ہے۔قرآن کی سورہ الاحزاب آیت ۴ میں یہ حکم موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی بابت کئی حدیثیں آئی ہیں۔ مثلاً یہ حدیث کہ: من ادعیٰ الی غیر ابیہ و ہو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام (بخاری، مسلم، ابو داؤد) یعنی جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا، حالانکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اُس کا باپ نہیں ہے، اُ س پر جنت حرام ہے۔ سوال یہ ہے کہ متبنّیٰ کے بارے میں اسلام میں اتنا سخت حکم کیوں ہے کہ اُس کو حرام قرار دے دیا گیا۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو فعل ناجائز ہو اُس سے مشابہت بھی جائز نہیں۔ متبنّٰی کا معاملہ یہی ہے۔ بیٹا ہمیشہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان جنسی تعلق کے ذریعہ پیدا ہوتا ہے۔ اس تعلق کی صرف ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ نکاح ہے۔ نکاح کے بغیر جو بیٹا پیدا ہو، وہ اُس عورت اور مرد کی جائز اولاد نہیں کہی جائے گی۔ ایسی حالت میں کسی کو اپنا منھ بولا بیٹا بنانا اور اُس کے ساتھ حقیقی بیٹے جیسا معاملہ کرنا غیر منکوحہ تعلق سے مشابہت کے ہم معنٰی ہے۔ اسی مشابہت سے بچنے کے لیے اُس کو حرام قرار دے دیا گیا۔
سوال
ہمارے شہر میں ہر سال ماہ نومبر میں بُک فیر لگتا ہے، جہاں اردو کا ہمارا واحد اسٹال ہوتاہے۔ یہ بُک فیر تقریباً ۱۸ سالوں سے لگ رہا ہے۔ وہاں آپ کی مطبوعات خصوصی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔ آپ سے اتفاق کرنے والوں کا ایک حلقہ یہاں موجود ہے۔ عام آدمی آپ کی کتابوں کو بے حد پسند کرتا ہے۔ جو لوگ جماعتوں سے جڑے ہوتے ہیں وہی لوگ تنقید کرتے ہیں ورنہ تمام پڑھے لکھے مسلمان آپ کی باتوں پر توجہ دیتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں ان باتوں کو استعمال کرکے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے۔ (عبد الستار خاں، جمشید پور)
جواب
حدیث میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ امت کے اندر مزید جماعتیں نہ بنائی جائیں۔ قرآن میں اس کو تفرّق (آل عمران ۱۰۵) کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں مختلف عنوانات کے تحت جو جماعت بندیاں ہوئی ہیں وہ سب کی سب اس حکم کی خلاف ورزی ہیں۔ اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ جماعت کے لوگوں میں ایک عرصہ کے بعد لازمی طورپر جماعتی تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ تعصب شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ہماری جماعت مکمل حق پر ہے۔ اب ہمیں حق کے لیے کسی اور فرد یا جماعت سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں۔
اسی کا وہ نتیجہ ہے جو آپ نے اپنے تجربے میں پایا۔ جماعتی افراد گروہی صداقت کا ذہن رکھنے کی وجہ سے اپنی جماعت کے باہر کسی اورکتاب کوقابل مطالعہ نہیں سمجھتے۔ لیکن جو لوگ جماعتی گروہ بندی سے باہر ہیں وہ اس متعصبانہ مزاج سے آزاد ہوتے ہیں۔ اُن کا ذہن ہر وقت تیار رہتا ہے کہ جب بھی کوئی بات دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے آئے تو وہ کسی تحفظِ ذہنی کے بغیر اُس کو قبول کرلیں۔
سوال
میں پچھلے دنوں دہلی میں تھا۔ ۸ مارچ ۲۰۰۲ کو وہاں آپ کے ہفتہ وار در س میں شریک ہوا۔ آپ نے قرآن کی مختلف آیتوں کو لے کر اپنی بات کی وضاحت کی۔ میری تجویز ہے کہ آپ معروف طریقہ کے مطابق، سلسلہ وار قرآن کا درس دیں۔ اس طرح پورا قرآن لوگوں کے سامنے مجموعی طورپرآسکے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہی طریقہ عام طورپر درسِ قرآن کے لیے رائج ہے۔ امید ہے کہ اس بارے میں اپنی رائے سے مطلع کریں گے۔ (سلیم احمد، سری نگر)
جواب
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، تقریباً دو سو سال سے مسلمانوں میں درسِ قرآن کا طریقہ رائج ہے۔ خاص طورپر بر صغیر ہند کی بیشتر مسجدوں میں اس پر عمل ہورہا ہے۔ یہ درس ہمیشہ مصحفی ترتیب کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگرتجربہ بتاتا ہے کہ عملاً اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان درسوں میں لوگ عقیدت کے جذبہ کے تحت آتے ہیں اور ثواب اور برکت کے لیے اُن کو سنتے ہیں۔ مگر اصل مقصد—لوگوں کے اندر قرآنی طرزِ فکر پیدا ہونا اور ذہنی انقلاب برپا ہونا، کسی بھی درجہ میں حاصل نہ ہوسکا۔
میں نے اس سوال پر کافی غور کیا ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ جہاں تک تلاوت یا تراویح یا اکیڈمک مطالعہ کا تعلق ہے، اُس میں مصحفی ترتیب ہی کی پیروی کی جائے گی۔ مگر جہاں تک اصلاح و دعوت کاتعلق ہے، دوبارہ وہی ترتیب مطلوب ہوگی جو دور اول میں نزولِ قرآن کے وقت مطلوب تھی۔ یعنی جیسے حالات ہوں گے، اُس کے مطابق، قرآن کا کوئی حصہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ دورِ اول میں قرآن اسی طرح حالات کے لحاظ سے اُترا۔ بعدکو اُسے موجودہ شکل میں ترتیب دے دیا گیا۔
حالات کی نسبت سے قرآنی آیتوں کے نزول کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ اُس سے مقصود تثبیتِ قلب (الفرقان ۳۲) ہے۔ یعنی جو قرآنی حکم لوگوں کے سامنے آئے وہ اُن کے دل میں بیٹھتا چلا جائے۔ سنتے ہی وہ اُن کے شعور کا جزء بن جائے۔ اسی مصلحت کی بنا پر قرآن بیک وقت مکمل کتاب کی صورت میں نہیں اُتارا گیا بلکہ اس طرح اُتارا گیا کہ جس وقت لوگوں کے ذہن میں جو سوالات تھے، اُس کی نسبت سے اُنہیں رہنمائی دی گئی۔
غور و فکر کے بعد میں نے سمجھا ہے کہ اصلاح و دعوت کے لیے دوبارہ یہی انداز اختیار کیا جائے گا۔ یعنی مصحفی ترتیب کے بجائے حالات کی نسبت سے قرآن کے متعلق حصّوں کو پیش کرنا اور اُس کو لوگوں کے لیے دل نشیں بنانے کی کوشش کرنا۔ میں نے اپنے در س کے لیے اسی طریقہ کو اپنایا ہے۔ تجربہ سے یہ طریقہ بہ مفید ثابت ہوا ہے۔
مثال کے طورپر ۸ مارچ ۲۰۰۳ کے اجتماع میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک ہندو خاتون اُس میں شریک تھیں۔ اُن کی عمر ۳۷ سال ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ ایک بڑی کمپنی میں اچھے عہدہ پر ہیں۔ ۸ مارچ کو وہ پہلی بار ہمارے درس میں آئیں۔ وہ لمبے عرصہ سے سخت ذہنی خلفشار میں مبتلا تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ تین بار خود کُشی کی کوشش کرچکی ہیں جو کامیاب نہ ہوسکی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے برسوں میں بہت سے ہندو پیشواؤں اورعیسائی پادریوں سے ملیں۔ بُدھ مذہب اور سکھ مذہب کے گروؤں سے بھی ملیں۔ مگر اُن کا ذہنی انتشار ختم نہ ہوسکا۔ کسی کے بتانے پر وہ میرے یہاں آئیں۔ میں نے یہ کیا کہ پہلے اُن کے ذہن کو پڑھا اور پھر اُن کے ذہن کی نسبت سے کچھ آیتوں اور حدیثوں کی تشریح کی۔
اُنہوں نے نہایت غور سے میری باتوں کوسُنا۔ وہ ایک ماڈرن خاتون ہیں۔ لیکن شرکاء درس نے بتایا کہ ختم اجتماع پر جب وہ میرے کمرہ سے نکلیں تو وہ اس طرح رو رہی تھیں کہ اُن کے آنسو آنکھوں سے نکل کر فرش پر گررہے تھے۔ بعد کو خاتون کے ایک ساتھی نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ اُنہوں نے درس کے بارہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی میں پہلا موقع تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ مجھ کو میرے سوالات کا جواب مل رہا ہے:
For the first time in my life I felt that my questions are being addressed.
اگر میں اپنے ہفتہ وار اجتماع میں سلسلہ وار قرآن کا درس دے رہا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ۸ مارچ کو سلسلہ وار ترتیب میں قرآن کاکوئی ایسا حصہ اُن کے سامنے آتا جو اُنہیں اپنی بروقت سوچ کے اعتبار سے غیر متعلق معلوم ہوتا۔ مگر جب میں نے اُن کے ذہن کو سمجھ کر اُس سے متعلق آیت اور حدیث اُن کے سامنے پیش کی تو اُنہیں محسوس ہوا کہ اُن کے سوالات کو ایڈرس کیا جارہا ہے۔ یہی وہ دعوتی حکمت ہے جس کی بنا پر قرآن کی ترتیبِ نزول اُس کی ترتیب تلاوت سے مختلف ہے۔ تلاوت کے لیے آج بھی مصحفی ترتیب ہی پر عمل کیا جائے گا لیکن جب دعوت و تبلیغ کا معاملہ ہو تو سامعین کی نسبت سے قرآن کاایسا حصہ اُن کے سامنے لایا جائے گا جس میں اُنہیں محسوس ہو کہ بوقتِ خطاب اُن کے ذہن میں جو سوالات تھے وہ ایڈرس ہورہے ہیں۔
سوال
میں انجینیرنگ کالج کا طالب علم ہوں۔ میری عمر ۲۳ سال ہے۔ میں ایک اچھا کرکٹ کھلاڑی ہوں۔میں انٹرنیشنل کرکٹ کھلاڑی بننا چاہتا ہوں۔ میں کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہوں۔اس بابت ایک سوال مجھے اکثر پریشان کرتا رہتا ہے۔ وہ یہ کہ کیا اسلام میں کرکٹ کھیلنا اور اس کو ذریعہ معاش بنانا جائز ہے یا نہیں۔ (اقبال رشید بیگ، سری نگر، کشمیر)
جواب
کرکٹ یا اور کوئی گیم اسلام میں منع نہیں ہے۔ گیم کے ذریعہ اگر آپ اپنی معاش حاصل کریں تو یہ بھی اسلام میں جائز ہوگا۔ البتہ جو چیز اسلام میں منع ہے وہ یہ ہے کہ آدمی میچ فکسنگ کرے یا وہ خدا کی عبادت میں اُس سے غافل ہوجائے۔
سوال
ہمارا ایک سوال ہے۔ وہ یہ کہ ملک کی ایک مشہور تنظیم اس وقت ایک مہم چلارہی ہے کہ پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر اوران سے اتحاد پیدا کرکے حالات کا رخ موڑا جائے، کیا صرف پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر کامیابی مل سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ (عبدالعلیم قاسمی، امتیاز احمد خاں مفتاحی، عادل آباد)
جواب
دلت۔مسلم اتحاد کا نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں۔ دلت۔ مسلم اتحاد کی بات بار بار کی گئی ہے اور ہر بار وہ ناکام ہوئی ہے۔ موجودہ کوشش بھی یقینی طورپر اس مقصد میں ناکام ہوگی۔ اگر آپ کو تفصیل معلوم ہوتو یہ کوشش پہلے ہی دن خود اپنے اسٹیج پر ناکام ہوچکی ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ عین اسٹیج کے اوپر مسلم ارکان آپس میں ٹکرا گئے۔ پھر جب خود مسلمان آپس میں متحد نہ ہوں تو دوسروں کو اتحاد کا پیغام دینا کیسے موثر ہوسکتا ہے۔
پچھلے سوسال کے اندر مسلمانوں نے بار بار اتحاد کانفرنسیں کی ہیں۔ مگر وہ سب کی سب بے نتیجہ رہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد جلسوں اور تقریروں سے قائم نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے کچھ اور زیادہ گہرے اسباب درکار ہیں—مثلاً مسلمانوں میں اختلاف کو برداشت کرنے کا مزاج، دوسرے طبقات میں یہ احساس کہ مسلمانوں کے ساتھ متحد ہو کر انہیں کوئی بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ اتحاد کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اُس کے حق میں گراؤنڈ ورک، وغیرہ۔ اتحاد کے حق میں ابھی تک اس قسم کے موافق اسباب موجود نہیں۔ ایسی حالت میں اتحاد کی بات اُسی طرح ایک خیالی شاعری ہے جیسا کہ اس سے بہت پہلے اقبال نے بے نتیجہ طورپر اس طرح کی تھی:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
سوال
میں Engineeringکی طالبہ ہوں۔ میں آپ سے دو سوالات کررہی ہوں۔ کیا اسلام میں یہ جائز ہے کہ ہم اپنے جسم کاکوئی بھی اہم حصہ donate کرسکتے ہیں، ہمارے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جس سے کسی دوسرے انسان کو ایک نئی زندگی ملے۔
کوئی لڑکی یا عورت کی آواز اگر سریلی ہو تو کیا وہ کسی اجتماع یا پھر کسی function کے آغاز میں حمد، نعت یا پھر کسی ترانہ کے ذریعہ اپنی آواز کو ظاہر کرسکتی ہے یا نہیں۔ براہِ کرم میرے ان دوسوالوں کا جواب دیں۔ (فرح جبیں)
جواب
یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون فطرت کا نتیجہ ہے کہ انسانی جسم کا کوئی حصہ، مثلاً آنکھ، اُس کی موت کے بعد بھی کسی زندہ کے کام آسکتی ہے۔ جس طرح دوسرے قوانین فطرت انسان کے لیے رحمت ہیں۔ اس طرح یہ فطری قانون بھی انسان کے لیے ایک رحمت ہے اور اُس کو ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ یہ مرے ہوئے آدمی کی طرف سے زندہ کے لیے ایک صدقۂ جاریہ ہوگا۔
میں ذاتی طورپر جلسوں کے آغاز میں نظم یا ترانہ کوغیر مفید سمجھتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلسہ یا اجتماع میں سنجیدگی کا ماحول ختم ہو جاتا ہے اور تفریح لینے اور تالیاں بجانے کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اسی قسم کے رواج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہمارا ہراجتماع صرف ایک قسم کا شو بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں میرے نزیک اس قسم کی شعر خوانی ہر حال میں نادرست ہے، خواہ وہ لڑکوں کے ذریعہ ہو یا لڑکیوں کے ذریعہ۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۲ ملا۔ صفحہ ۲۷ پر آپ نے لکھا ہے کہ یہ دنیا امتحان کے اصول پر مبنی ہے۔ عرض یہ ہے کہ اللہ نے دنیا کواور تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے، اُس کے تخلیق کردہ بندے کیسے ہیں، اُس سے پوشیدہ نہیں۔ کس انسان میں کیا خوبی یا کمی ہے اللہ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ پھر امتحان کیوں ضروری ہے۔ (معصوم علی، راجستھان)
جواب
اس امتحان کا تعلق علم خداوندی سے نہیں ہے۔ اس کا مقصد در اصل انتخاب (selection) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کے پورے نظام کو اسی اصول کے تحت بنایا ہے۔ یہاں ہر آدمی اپنا امتحان دے رہا ہے اور اس امتحان کے دوران ہر آدمی اپنے بارہ میں بتاتا ہے کہ کیا وہ اس قابل ہے کہ جنت کی رہائش گاہ کے لیے اُس کا انتخاب کیاجائے۔ جو لوگ موجودہ دنیامیں اپنے آپ کو اس انتخاب کا اہل ثابت کریں گے وہ آخرت کی ابدی جنت میں داخل کیے جائیں گے اور جو لوگ اپنے آپ کو اُس کا اہل ثابت کرنے میں ناکام رہیں گے اُن کو ناکارہ قرار دے کر جہنم کے کوڑا خانہ میں ڈال دیا جائے گا۔
سوال
کچھ صحافتی اصطلاحات کے جوابات مطلوب ہیں۔ امید کہ آپ اپنی روایت کی مانند جوابات سے ممنون فرمائیں گے۔ (۱) ایلو جرنلزم (yellow journalism) (۲) ایلو پریس(yellow press) (۳) الٹا اہرام(inverted pyramid) (۴) فورتھ اسٹیٹ کی صحیح اسپیلنگ اور اس کا مطلب (۵) اسپینی امریکی جنگ، وغیرہ۔
جواب
۱۔ ایلو جرنلزم (yellow journalism) سے مراد صحافت کی وہ قسم ہے جس کوعام طورپر سنسنی خیز جرنلزم کہا جاتا ہے۔ یعنی خبروں کو سنسنی انداز میں پیش کرنا تاکہ اخبار کی اشاعت زیادہ سے زیادہ بڑھے۔ یہ طریقہ امریکہ کے دو اخباروں ورلڈ اور جنرل نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ۱۸۹۰ میں ایلو جرنلزم کی اصطلاح رائج ہوئی۔
۲۔ ایلو پریس (yellow press) اور ایلو جرنلزم دونوں ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں۔ ایلوپریس سے مراد اشتعال انگیز اخبارات ہیں۔ وہ اخبارات جو ہیجان خیز خبریں شائع کرتے ہیں، جو تعصبات کو بھڑکانے والی خبریں چھاپ کر اپنی اشاعت بڑھاتے ہیں۔
۳۔ مصر کے اہرام مثلّث شکل کے ہیں۔ یعنی نیچے کی طرف چوڑا اور چوٹی کی طرف نوکیلا۔ صحافت کی اصطلاح میں اُلٹا اہرام (inverted pyramid) کا مطلب یہ ہے کہ کسی خبر کو واقعاتی ترتیب کے بجائے اُلٹی طرف سے بیان کرنا۔ مثلاً قتل کا واقعہ بہت سے سرگرمیوں سے شروع ہو تا ہے اور آخر کار قتل تک پہنچتا ہے۔ مگر اخبار میں جب ایسی کسی خبر کو چھاپا جاتا ہے تو اُس کی سُرخی اس طرح لگائی جاتی ہے: شہر میں ایک قتل۔ یعنی خبر کے آخری جزء کو پہلے بیان کرنا۔
۴۔ فورتھ اسٹیٹ (fourth estate) کا لفظ پریس یا جرنلزم کے لیے بولا جاتا ہے۔ فیوڈل دور میں پولیٹکل پاور کے چار ستون سمجھے جاتے تھے۔ کلرجی (clergy) نابلٹی(Nobility) اور بورژوا(bourgeoisie)۔ پھر جب پرنٹنگ کا طریقہ وجود میں آیا اور پریس (اخبارات) کی طاقت کا ظہور ہوا تو پریس کو چوتھا اسٹیٹ کہا جانے لگا۔
۵۔ اسپین اورامریکہ کی جنگ (Spanish-American War) ۱۸۹۸ء میں ہوئی۔ اس کے بعد امریکا پر اسپین کا نوآبادیاتی اقتدار ختم ہوگیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ امریکہ میں وہ چیز پیدا ہوئی جس کو ایلو جرنلزم کہا جاتا ہے۔
سوال
برائے مہربانی حدیث و قرآن کی روشنی میں اس سوال کی وضاحت کرنے کی زحمت فرمائیں کہ کسی شخص کی سنِ بلوغ سے قبل کی عبادات (مثلاً روزہ نماز وغیرہ) کا میدان محشر میں اس کے اعمال کے ساتھ شمار ہوگا کہ نہیں؟ بالفاظ دیگر سن بلوغ سے قبل کی عبادات حشرکے دن کام آئیں گی کہ نہیں؟ (زبیراحمد،بھاگلپور)
جواب
اس قسم کے سوالات غیر سنجیدہ ذہن کی علامت ہیں۔ سنجیدہ ذہن ہمیشہ یہ سوچے گا کہ بلوغ کے بعد میں جو عبادت کر رہا ہوں اُس کا حشر قیامت میں کیا ہوگا۔ وہ قبول ہوگی یا نہیں۔ اس کے بجائے یہ سوچنا غیر سنجیدگی کی علامت ہے کہ فلاں شخص نے بالغ ہونے سے پہلے جو نمازیں پڑھی تھیں اُس کا انجام آخرت میں کیا ہوگا۔ نماز یا کسی بھی عبادت کی قیمت اُس وقت ہے جب کہ خدا اُس کو قبول کرلے۔ اس حقیقت کا ادراک آدمی کو اتنا زیادہ اندیشہ ناک بنا دیتا ہے کہ وہ غیر متعلق سوالات میں اپنے ذہن کو مشغول نہیں کرسکتا۔
سوال
اسلامی شریعت میں قتل کی جائز تین شرطیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان اپنے دین سے پھر جائے تو اسے بھی قتل کیا جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ (مذہب میں کوئی زبردستی نہیں) والی بات کیسے پوری ہوگی۔ اگرکوئی قوم اس کی ہوڑ میں کہے کہ ہم بھی ایسا قانون بنائیں گے کہ کوئی دوسرا مذہب قبول کرے تو اس کی سزا قتل ہوگی تو پھر وہ اسلام میں کیسے داخل ہوں گے۔ (صائمہ بھوپال)
جواب
مجھے اس مسئلہ سے اتفاق نہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ اسلامی تاریخ میں کبھی صرف ارتداد کی بنا پر کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جو جنگ کی تھی وہ مانعین زکاۃ کے خلاف تھی، نہ کہ معروف معنوں میں مرتدین کے خلاف۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس جنگ کا سبب ریاست سے بغاوت تھا، نہ کہ اعتقادی طورپر مرتد ہوجانا۔ جیسا کہ معلوم ہے، ان لوگوں نے اسلام کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ ہم اپنی زکوۃ کی رقم مقامی طورپر خرچ کریں گے۔ اُس کو مرکزی خلافت کے خزانہ میں نہیں دیں گے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو حضرت ابوبکرکے اس اقدام کا تعلق مرتد کے مسئلہ سے نہیں ہے بلکہ ریاست سے بغاوت کے مسئلہ سے ہے۔
اس سوال پر میں نے اپنی کتاب ’’شتم رسول کا مسئلہ‘‘ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ یہاں میں صرف ایک حوالہ نقل کروں گا۔ قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں مرجائے تو ایسے لوگوں کے عمل ضائع ہوگئے دنیا میں اور آخرت میں۔ اور وہ جہنم والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (البقرہ ۲۱۷)
قرآن کی اس آیت میں واضح طورپر مرتد کا ذکر ہے مگر اس میں مرتد کی دنیوں سزا نہیں بتائی گئی ہے بلکہ صرف اُخروی سزا بتائی گئی ہے۔ اس آیت کے مطابق، کوئی مرتد دنیا میں تو اپنی طبعی موت مرے گا۔ البتہ آخرت میں وہ اپنے گناہ کی سزا پائے گا۔
سوال
سوال یہ ہے کہ انسان کی خودداری کی اہمیت کیا ہے اور گھر والوں سے خود کس حد تک برتی جاسکتی ہے اور دنیا والوں سے کس حد تک۔ (حافظ محمد الیاس، بیجا پوری)
جواب
آج کل جس چیز کو خود داری کہا جاتا ہے اُس کی تائید میں مجھے کوئی لفظ قرآن وحدیث میں نہیں ملا۔ میں اس خود داری کو غیر اسلامی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں حمیت جاہلیہ کا لفظ آیا ہے۔
اسلام کے نزدیک اصل مطلوب چیز خود داری نہیں ہے بلکہ خود شکنی ہے۔ حمیت نہیں ہے بلکہ تواضع ہے۔ اصرار نہیں ہے بلکہ اعتراف ہے۔ اسلام میں نہ خودی ہے اور نہ بے خودی۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے فکر و عمل کا محور خدا بن جائے، اُس کی محبوب چیز تواضع اور انکساری ہو۔
اس مزاج کاتعلق گھر کے اندر کی زندگی سے بھی ہے اور باہر کی زندگی سے بھی۔ ایک حدیث کے مطابق، مومن کو نرم پودے کی طرح ہوجانا چاہیے جو اکڑ سے خالی ہوتا ہے۔ خودداری در اصل اکڑ کا خوبصورت نام ہے۔ جو آدمی لچک یا اعتراف کو بے عزتی سمجھتا ہے وہ اپنی اس کمزوری کے جوازکے لیے اُس کو خود داری کا نام دے دیتا ہے۔
سوال
۱۔ سنجیدگی سے قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری الرسالہ خدا کے فضل و کرم سے عمر فاروقؓ کے قول’’لیس العاقل الذی یعرف الخیر من الشر ولٰکنہ الذی یعرف خیر الشرین‘‘ کا مصداق بن پاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ علم، تقویٰ، خلوص، خشوع اور انابت جیسی اہم خصوصیات سے متصف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور عبد الرشید گنگوہیؒ جیسی عظیم شخصیات جہاد بالسیف کے سلسلے میں ۱۸۵۷ء میں مولانا محمد شاہ صاحب دیوبندی کے معقول عندیہ کو کیوں سمجھ نہ سکے۔
۲۔ ۱۹۱۲ء میں مصری عالم دین حضرت مولانا سید رشید رضا نے جو دعوتی پروگرام علماء ہند کے سامنے تجویز فرمایا تھا، آخر وہ کیا کمی تھی کہ علماء نے اس کی طرف توجہ نہ فرما کر بس تحفظاتی کردار ادا کرتے رہے۔ اور تادمِ تحریر علماء امت سمجھا سمجھا کر institutional and scientific age میں قائدانہ کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔
۳۔ علیٰ ہٰذا القیاس حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ مسلمہ طور پر ایک عظیم صوفی گزرے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ ’’انا قائم الزمان‘‘ کا خواب دیکھنے والا اور’’ الہمنی ربی ‘‘ کا دعویٰ کرنے والا بھی عصری تقاضوں کو سمجھ نہ سکا۔
۴۔ محترم مولانا وحید الدین صاحب! آپ نے فہمِ دین کی نسبت سے التفکر والاعتبار، کان النہار أجمع خالیاًیتفکر، واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ،وغیرہ کا حوالہ دیا ہے۔ متذکرہ بالا بزرگان دین میں یہ چیزیں اگر بدرجۂ اولیٰ موجود تھیں تو کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود بھی یہ لوگ مطلوب قائدانہ کردار ادا نہ کرسکے۔ (جاوید حسین وانی، اننت ناگ)
جواب
۱۔ ۱۸۵۷ میں جن بزرگوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد بالسیف کیا، وہ میرے نزدیک اجتہادی خطا کا معاملہ تھا۔ اجتہاد کا شرعی مسئلہ یہ ہے کہ صحیح اجتہاد پر آدمی کو دو ہرا ثواب ملے گا اور اجتہادی خطا پر ایک ثواب۔ تاہم یہ آخرت کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک دنیا کا تعلق ہے، تو دنیا کا نظام اسباب و علل کے اصول پر مبنی ہے۔ اجتہادی خطا کا دنیوی انجام وہی ہوگا جو اسباب کے اعتبار سے اس کا ہونا چاہئے۔
۲۔ اُس زمانہ کے علماء کا خیال یہ تھا کہ دعوت کا کام برطانی اقتدار کے تحت نہیں ہوسکتا جو اُن کے مفروضہ تصور کے مطابق، اسلام دشمن طاقت تھی۔ مگر یہ تمام تر اجتہادی خطا کی بنا پر تھا۔ اپنی اسی اجتہادی خطا کی وجہ سے وہ رشید رضا کے مشورہ کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ انہوں نے انگریز کو دیکھا مگر وہ زمانی مواقع کو نہ دیکھ سکے جو انگریز سے بھی زیاد ہ بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔
اجتہادی خطا کی یہ مثال موجودہ زمانہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ علماء کی حمایت سے آج مختلف مقامات پر مسلّح جہاد کیا جارہا ہے۔ یہاں بھی یہی مفروضہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے حصول کے بغیر اسلامی دعوت کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ مگر یہ سراسر اجتہادی خطا ہے۔ یہ لوگ جدید دعوتی امکانات سے واقف نہ تھے۔ اس لیے وہ سیاسی انقلاب کے سوا اپنے عمل کاکوئی اور نقشہ وضع نہ کرسکے۔
۳۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کو جو تجربہ ہوا وہ الہام یاخواب کی نوعیت کا تجربہ تھا، وہ کوئی وحی کا تجربہ نہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، الہام یا خواب میں ہمیشہ یہ امکان رہتا ہے کہ آدمی اُس کی تعبیر میں غلطی کرجائے۔ تعبیری خطا کے امکان سے پاک صرف وحی ہوتی ہے، اور وحی پیغمبر کے سوا کسی اور کے پاس نہیں آتی۔
۴۔ یہ بھی اجتہادی خطا کا معاملہ تھا۔ یہ علماء علمی اعتبار سے تقلید میں مبتلا تھے اور دینی اعتبار سے وہ تصوف سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ان دو اسباب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے اندر تفکر اور تدبر کا طریقہ رائج ہی نہ ہوسکا۔ وہ اپنے اخلاص کی بنا پر یقینا آخرت میں جنت کے مستحق قرار پائیں گے مگر اُن کی اس اجتہادی خطا نے اُنہیں بصیرت زمانہ سے محروم کر دیا۔ ایسی حالت میں اسباب و علل کی اس دنیا میں اُن کی کوششوں کا وہی نتیجہ ہوسکتا تھا جو ہوا۔
سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل خواہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتاہو سنت ہے جیسا کہ علماء فرماتے ہیں۔ مگر آپﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ کو یعنی آپ کے تمام اعمال و کردار کو اسی طرح ہمہ وقت سامنے نہیں رکھا جاتا جس طرح آنجناب کی چند مشہور سنتوں کو مکمل طورپر برتا جاتا ہے۔یعنی علماء بطورخاص اور عوام بطور عام اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔ مثلاً ڈاڑھی بڑھانا سنت ہے۔ اس پر اتنا زیادہ زور ہے کہ لگتا ہے یہ سنت فرض ہے۔ میرا مقصد خدانخواستہ گنجائش ڈھونڈنا نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل سر کے بال رکھنے میں بھی آنجناب کی سنت موجود ہے۔ اس کا ذکر و تذکرہ بہت کم ہوتا ہے۔ برائے کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبدالواحد، جگادھری)
جواب
داڑھی اور مونچھ وغیرہ کے بارہ میں جو سنتیں بتائی جاتی ہیں وہ بلاشبہہ سنت ہیں۔ مگر سنت رسول کے تذکرہ کے ذیل میں اسی قسم کی جزئی چیزوں کو بیان کرنا کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عمل سنت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ اس اعتبار سے دعوت بھی سنت ہے، صبر بھی سنت ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے عام طور پر ان سنتوں کو چھوڑ رکھا ہے۔ حتی کہ اگر انہیں یہ یاد دلایا جائے کہ تم غیر مسلموں کو اسلام کا پیغام مثبت طورپر پہنچاؤ اور اگر ان کی طرف سے کوئی ایذا رسانی ہو تو اُس پر صبر کرتے ہوئے پُر امن دعوتی عمل کو جاری رکھو تو لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ حتی کہ جو لوگ داڑھی اور مونچھ جیسی چیز کی موافقت میں پُر زور بحثیں کرتے ہیں وہ دعوت اور صبر کے احیاء کی تحریک کے مخالف بن جاتے ہیں۔ یہ روش بلا شبہہ ایک خلافِ سنت روش ہے۔ آج سب سے زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ اس منفی روش کی اصلاح کی جائے۔
سوال
مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کو اسی طرح سچا مانتے ہیں جس طرح مسلمان اسلام کو۔ میرے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ پھر اسلام ہی واحد سچا مذہب کیوں ہے۔ اگر میں کسی اور مذہب کے ماننے والے کے گھر میں پیدا ہوتا تو اس مذہب کو اسی طرح سچا مانتا جس طرح اب اسلام کو مانتا ہوں۔ اس بات نے میرے ذہن کو منتشر کردیا۔ (اویس صدیقی، علیگڑھ)
جواب
اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر پیغمبر کو خدا نے ایک ہی دین کے ساتھ بھیجا۔ خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان میں ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں دین کے نام پر بہت سے مذاہب موجود ہیں تو کس مذہب کو لیا جائے اور کس مذہب کو نہ لیاجائے۔
اس ترک و اختیار کا معیار (criterion) صرف ایک ہے۔ اوروہ یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ مختلف ادیان میں سے کون سا دین محفوظ دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی وہ کون سا دین ہے جو آج بھی اُسی ابتدائی حالت میں موجود ہے جیسا کہ پیغمبر نے اُسے دیا تھا۔
اس موضوع پر میں نے اپنی کتابوں میں کافی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اُس کا مطالعہ کرکے آپ جان سکتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب میں اضافے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ حتی کہ اُن کا ابتدائی متن بھی محفوظ نہیں۔ اس کے برعکس اسلام مکمل طورپر اپنی ابتدائی حالت میں موجود ہے۔ اسلام کی مقدس کتا ب میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب اسلام ہی واحد قابل اعتبار مذہب ہے۔ اسلام کی اسی امتیازی صفت نے اُس کو خدائی سچائی کا واحد مستند ماخذ بنا دیا ہے۔
سوال
ہم کو کوئی ایسا ذریعہ بتائیے کہ جس سے ہم محبت خداوندی میں اپنے آپ کو غرق کردیں۔ ہمارا ہر کام ہر لفظ جو کہ زبان سے نکلے اس کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہو (ایک قاری، الرسالہ)
جواب
خدا کے ساتھ گہری محبت ہونا ایمان کی علامت ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: والذین آمنوا اشد حبا للہ۔ خدا کے ساتھ گہری محبت ہونا ایک اعلیٰ ترین متاع ہے۔ ہر متاع کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اسی طرح محبت الٰہی کی بھی ایک قیمت ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ آدمی ہر دوسری چیز کواپنی زندگی میں ثانوی بنا دے۔ مال، اولاد، عزت، شہرت، مقبولیت، بڑائی، سرخ روئی، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کو لوگ اپنا محبوب بنائے رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اُن کے جذبات محبت کا مرکز بن جائے۔ یہ ناممکن ہے۔ خدا کی محبت کسی کو اُسی وقت مل سکتی ہے جب کہ وہ بقیہ کی محبت سے اپنے سینہ کو خالی کرلے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے اُس کو محبت خدا کی بات بھی نہ کرنا چاہئے۔
سوال
مسلم برادری کی تاریخی حیثیت کیاہے۔ قوم جولاہا جو مومن برادری اور انصاری برادری سے موسوم ہے اس کی تاریخی حیثیت کیاہے۔ اس لئے کہ اس ذات سے دیگر مسلم برادریاں ایسے ہی نفرت رکھتی ہیں جیسے غیر مسلم مسلم سے اسلام کی بنیاد پر۔ جب کہ ان کی شرافت صبر و تحمل، سادگی، اور انسانی ہمدردی شر وفساد سے دوری یہ سب باتیں اس قوم میں بہت پاتا ہوں۔ اس کے باوجود لوگ انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایسا کیوں ہے۔(محمد افروز عالم، نالندہ)
جواب
اسلام میں برادری یا ذات پات کا کوئی نظام نہیں ہے۔اب بھی یہ نظام صرف برّ صغیر ہند میں پایا جاتا ہے۔ دوسرے مسلم ممالک میں اس قسم کا نظام موجود نہیں۔ یہ دراصل اسلام کا ہندوائزیشن ہے جو پچھلی صدیوں میں پیش آیا۔ اصل یہ ہے کہ ہندستان میں اسلام کی اشاعت علماء کے ذریعہ نہیں ہوئی بلکہ صوفیا کے ذریعہ ہوئی۔ صوفیا کو علم اور تعلیم سے زیادہ لگاؤ نہ تھا۔ اُن کے ذریعہ ہندوؤں نے لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ صوفیا نے ان لوگوں کو کلمہ اور نماز اور ذکر جیسی چیزیں تو بتائیں مگر اُن کی تعلیم دین کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سے پہلے وہ جن ہندو رسموں اور رواجوں سے مانوس تھے، اُنہی رسموں اوررواجوں کو اُنہوں نے اسلام میں بھی باقی رکھا۔ صوفیاء نے اگر ایسے لوگوں کی باقاعدہ تعلیم کا انتظام کیا ہوتا تو یقینی طورپر اس قسم کے رواج ختم ہوجاتے۔ مگر صوفیا اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ایسا نہ کرسکے۔ اس غلطی کا وہ نتیجہ ہے جس کو ہم آج مسلمانوں کے درمیان ذات پات کی صورت میں پارہے ہیں۔
سوال
حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ مجھ سے مانگو میں دوں گا۔ اللہ اپنے بندے سے اُس کی ماں سے بھی زیادہ محبت کا معاملہ کرتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ دعا مصیبت و پریشانی کو روکنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان جو اللہ سے برابر دعا کرتے ہیں اس کے باوجود ہماری دعائیں مقبول کیوں نہیں ہوتیں۔ ہم کیوں اتنی زیادہ مصیبت او رپریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس منکرین جو اللہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی بنا پر وہ دعا کرنے کا جواز نہیں رکھتے پھر بھی وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ (عمر احمد علی، پربھنی)
جواب
دعا کی قبولیت کے لیے یہ کافی نہیں کہ آدمی مسلم خاندان میں پیدا ہوا ہو۔ قبولیت کی شرط قرآن میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے: الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (فاطر ۱۰) اس آیت کے مطابق، وہی دعا خدا تک پہنچتی ہے جس کے ساتھ عمل صالح شامل ہو۔ ایسی حالت میں اگر مسلمان یہ محسوس کریں کہ اُن کی دعا قبول نہیں ہورہی ہے تو انہیں خود اپنے اندر اس کا سبب تلاش کرنا چاہئے۔ اس آیت کے مطابق، دعا کی عدم قبولیت کا سبب یقینی طورپر یہ ہوگا کہ دعا کرنے والے عمل صالح کی شرط کو پورا نہیں کررہے ہوں گے۔ اس لیے اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنا احتساب کرکے اس شرط کو پورا کریں۔ اُس کے بعد دعا کی قبولیت یقینی ہوجائے گی۔
جہاں تک غیر مسلمین کا تعلق ہے، اُن کا معاملہ فطرت کے قانون پر منحصر ہے۔ اگر وہ فطرت کے قانون کو معلوم کرکے اُس سے مطابقت کریں گے تو دنیا میں وہ مادّی کامیابی کو پالیں گے۔