ایک خط
برادر محترم جناب محمد حنیف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آج کل آپ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوبارہ ٹیلی فون کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کی صحت ٹھیک ہورہی ہے اور آپ جلد ہی گھر واپس آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی مدت تک صحت اور عافیت کے ساتھ قائم رکھے تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کرسکیں۔
آپ کی بیماری کی خبر سن کر مجھے قرآن کی آیت (البلد ۴) یاد آئی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو کبد یعنی مشقت (toil) میں پیدا کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں بار بار ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ اس کے ساتھ بیماری، حادثہ اور بڑھاپا جیسی چیزیں بھی ہر ایک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اس قسم کی باتیں زندگی کا لازمی حصہ ہیں وہ زندگی سے کبھی جدا نہیں ہوتیں۔
میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں خدا کی کون سی مصلحت کام کررہی ہے۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ خدا کی ایک رحمت (blessing) ہے۔ خدا نے انسانی زندگی کا یہ نظام اس لیے بنایا ہے کہ وہ ہماری زندگی کو تجربہ بنا دے۔ تجربہ کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہماری زندگی میں کبد کے ذریعہ تجربات کو شامل کردیا گیا ہے۔
علم کا مطلب جاننا ہے اور تجربہ کا مطلب سیکھنا۔ علم آدمی کو معلومات دیتا ہے اور تجربہ آدمی کو گہری سوچ عطا کرتا ہے۔ علم کسی آدمی کو ایک زندہ کمپیوٹر بنا سکتا ہے اور تجربہ اس کی شخصیت کو ایک اعلیٰ انسانی شخصیت بنادیتا ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت وہ ہے جس کے اندر پختگی (maturity) ہو۔ جس کو معرفت (realization) کا رز ق ملا ہو، جس کے اندر سنجیدگی (sincerity) کا مزاج پایا جاتا ہو، جو بلند فکری(high thinkink) کی صفت رکھتا ہو۔ جس کو وہ نعمت مل جائے جسے درد مند قلب کہا جاتا ہے۔ خدا آپ کو یہ تمام چیزیں وافر مقدار میں عطا فرمائے۔
نئی دہلی ۵ نومبر ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین