بغیر ِہدایت

(History of Withouts)

نظریۂ ارتقا کو ماننے والے لوگ زمین پر انسان کی تاریخ کو لاکھوں سال قدیم بتاتے ہیں، لیکن تاریخ کے رکارڈ کے مطابق، زمین پر انسان کی عمر بہ مشکل پچیس ہزار سال پیچھے تک جاتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی زندگی کے دو پہلوؤں میں بہت زیادہ فرق ملے گا— انسان نے مادّی چیزوں میں تو بہت زیادہ ترقی کی، لیکن انسانی علوم میں لمبی مدت گذر نے کے باوجود کوئی ترقی نہ ہوسکی۔ مٹیریل ترقی کا خواب انسان نے بڑی حد تک پورا کرلیا، لیکن ذہنی اور روحانی ترقی کی سمت میں ابھی تک کوئی قابلِ ذکر پیش قدمی نہ ہوسکی۔ اسی کا ایک اظہار درج ذیل کتاب ہے جو پہلی بار 1935 میں چھپی۔ اس کا نام یہ ہے:

Dr. Alexis Carrel, Man the Unknown

اصل یہ ہے کہ ترقی کے لیے ہمیشہ گائڈ لائن کی ضرورت ہوتی ہے۔مٹیریل ورلڈ یا فزکل ورلڈ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی گائڈ لائن خود اِن اشیا کے اندر موجود ہے۔ تجربے کے ذریعے اس قانون کو دریافت کرکے ترقی کا سفر جاری رکھا جاسکتا ہے۔

مثلاً سواری کے میدان میں یہ ہوا کہ پہلے انسان گھوڑے پر سواری کرتا تھا۔ اس کے بعد اس نے پہیے دار گاڑی بنائی۔ اس کے بعد سمندری جہاز بنائے گیے۔ پھر اس نے بائسکل تیار کی۔ اس کے بعد موٹر کار بنی اور پھر ہوائی جہاز اور راکٹ تیار کیے گیے۔ اِن تمام سواریوں کو بنانے کے لیے گائڈ لائن لا آف نیچر کی صورت میں خود اُن چیزوں کے اندر موجود تھی جس کو استعمال کرکے مختلف قسم کی سواریاں بنائی گئیں۔

مگر انسان کے بارے میں سب کچھ لامعلوم تھا۔ مثال کے طورپر انسان جب پیدا ہوتا ہے اور سماج کے اندر رہنا شروع کرتا ہے تو اس کے ذہن کی کنڈیشننگ ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ ہر آدمی مسٹر کنڈیشنڈ بن جاتا ہے، یہ کنڈیشننگ، آدمی کو اس قابل نہیں رکھتی کہ وہ اپنی دنیا کے بارے میں بے آمیز رائے قائم کرسکے۔ مگر یہ حقیقت صرف بیسویں صدی کے رُبع اوّل میں معلوم ہوسکی اور وہ بھی صرف پچاس فیصد۔ یہ واقعہ پھر بھی لامعلوم رہا کہ کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرکے اس کو دوبارہ فطری سوچ (natural thinking) پر لایا جاسکتا ہے۔

قرآن خدا کی کتاب ہے۔ قرآن کی اصل حیثیت یہی ہے کہ وہ انسان کے لیے ایک قابل اعتماد گائڈ لائن ہے۔ مذکورہ سوال کا جواب قرآن کی اِس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے: ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علمٍ ولا ہدًی ولا کتاب منیر(الحج: 8) یعنی لوگوں میں کوئی شخص ہے جو اللہ کی بات میں جھگڑتا ہے، علم اور ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر۔

اِس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سائنس میں ناکامی کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے گائڈنس کے بغیر انسانی زندگی کو سمجھنا چاہا اور اس کی تشکیل کرنے کی کوشش کی۔ یہی واحد وجہ ہے جس کی بنا پر انسانی سائنس ترقی سے محروم رہی۔ کیوں کہ جب گائڈنس موجود نہ ہو تو آدمی کو اپنے عمل کا نقطہ آغاز ہی نہیں ملے گا، اور جب حقیقی نقطہ آغاز کو جانے بغیر سفر شروع کیاجائے تو ایسا سفر کبھی اپنی منزل تک پہنچنے والا نہیں۔

خالق کے تخلیقی نقشے کو جانے بغیر

کسی پیچیدہ مشین کو بنانے والا انجینئر ہی اس کی گائڈ بک دے سکتا ہے، یہی معاملہ موجودہ دنیا کا ہے۔ موجودہ دنیا کو خدا نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق بنایا ہے۔ یہ تخلیقی نقشہ زندگی کی حقیقی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کو جانے بغیر زندگی کا جو تصور قائم کیا جائے گا، وہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق نہ ہوگا۔ اور جو منصوبہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق نہ ہو اس کے لیے ناکامیابی یقینی ہے۔

خدا کی کتاب قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اِس دنیا کو ٹسٹ کے لیے بنایا ہے۔ اس دنیا سے انسان کے تعلق کی نوعیت وہی ہے جو امتحان ہال سے ایک طالب علم کی ہوتی ہے۔ امتحان ہال میں کوئی طالب علم اس لیے جاتا ہے کہ وہاں وہ مطلوب ٹسٹ دے کر اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کرے کہ امتحان ہال کے باہر کی دنیا میں وہ جگہ پانے کا مستحق ہے۔

اسی طرح موجودہ دنیا انسان کے لیے خدائی ٹسٹ دینے کی جگہ ہے۔ موت سے پہلے کی اِس دنیا میں آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ٹسٹ میں اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرے، تاکہ موت کے بعد کی دنیا میں وہ خدا کے ابدی انعامات کا مستحق قرار پائے۔

انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ خدا کی گائڈبک کے ذریعے دنیا کے بارے میں خدا کے تخلیقی نقشے کو جانے، اور اس سے مطابقت کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ جو لوگ ایسا کریں وہی کامیاب انسان ٹھیریں گے اور جو لوگ ایسا نہ کریں وہ ناکام ہو کر رہ جائیں گے۔

آئڈیل زندگی کی تعمیر

مشہور یونانی فلسفی افلاطون (Plato) تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں پیدا ہوا۔ اس کا نشانہ یہ تھا کہ یونان میں ایک اسٹیٹ بنائی جائے جو ہر اعتبار سے آئڈیل ہو۔ اس نے اپنے کتاب آئڈیل اسٹیٹ(Ideal State) میں اس کا نقشہ پیش کیا۔ اس کے نزدیک آئڈیل اسٹیٹ بناناپوری طرح ممکن تھا۔ افلاطون یونان کے شاہی خاندان کا معلم تھا۔ اِس طرح اس کو موقع مل گیا کہ وہ شہزادوں کی تعلیم و تربیت کرکے ایسا مطلوب سیاسی کردار تیار کرے جو اس کی اسٹیٹ میں وہ رول ادا کرسکے جس کو اس نے فلاسفر کنگ(Philosopher King) کا نام دیا تھا۔ مگر افلاطون کی مفروضہ آیڈیل اسٹیٹ کبھی قائم نہ ہوسکی۔

اِس کا سبب یہ نہ تھا کہ اس کے شاگرد سکندر اعظم نے بعد کے مرحلے میں اس کی پیروی نہ کی، بلکہ اس کا سبب فطرت کے تخلیقی نقشے سے بے خبر تھی۔ خدا نے یہ دنیا اِس لیے نہیں بنائی کہ یہاں آئڈیل اسٹیٹ بنائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، آئڈیل اسٹیٹ اِس دنیا میں بنانا ممکن ہی نہیں۔ افلاطون نے ایک ناقابلِ عمل منصوبے کو عمل میں لانا چاہا، اس لیے وہ ناکام ہو کر رہ گیا۔ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اگر وہ کسی عملی منصوبے کو زیر عمل لانے کی کوشش کرتا تو ضرور وہ کامیاب ہوسکتا تھا۔

ڈی کنڈیشننگ کے بغیر تفکیری عمل

حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلّ مولود یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہوّدانہ أو ینصّرانہ، أویمجّسانہ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز) یعنی ہر پیدا ہونے والا اپنی اصل فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا مسیحی یامجوسی بنادیتے ہیں۔

اس حدیثِ رسول میں جو بات کہی گئی ہے وہ اب خود سائنسی ریسرچ کے تحت ثابت ہوچکی ہے۔ اب خالص علمی طورپر یہ مان لیاگیا ہے کہ کوئی عورت یا مرد جس ماحول میں پرورش پاتے ہیں، اُس ماحول کے مطابق، ان کے ذہن کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ کوئی بھی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کنڈیشننگ کا یہ عمل غیر شعوری طور پر ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ پراسس ہر آدمی کے ذہن میں جاری رہتا ہے اور کوئی آدمی بطورِ خود یہ جان نہیں پاتا کہ اس کے ذہن میں مسلسل طور پر کنڈیشننگ کا عمل جاری ہے۔

کنڈیشننگ کا یہ معاملہ پہلی بار بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آیا۔ امریکا میں نفسیات کے پروفیسر واٹسن (J.B. Watson) نے اِس موضوع پر لمبی تحقیق کے بعد 1925 میں اپنی مشہور کتاب بہیویرازم(Behaviourism) چھاپی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ہر آدمی لازمی طورپر کنڈیشننگ کا معمول بنتا ہے، کوئی بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ واٹسن کا یہ نظریہ اتنا مقبول ہوا کہ عرصے تک وہ یونیورسٹیوں میں نفسیات کے نصاب میں پڑھایا جاتا رہا۔

لیکن واٹسن کے نظریے میں ایک بھیانک کمی تھی۔ اس نے یہ فرض کرلیا کہ یہ کنڈیشننگ جو ہوتی ہے، وہی اصل صورت حال ہے۔ اس نظریے کے مطابق، انسانی شخصیت کی تشکیل وتعمیر نیچر (nature) سے نہیں ہوتی بلکہ نرچر(nurture) سے ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو آدمی جیسا بن گیا، وہی اس کی ابدی شخصیت ہے۔ اس کو دوبارہ اس کی ابتدائی فطرت کی طرف نہیں لوٹایا جاسکتا۔

یہ نظریہ اگر چہ بیسویں صدی کے آغاز میں پیش کیاگیا، لیکن عملاً وہ پوری تاریخ پر چھایا رہا۔ پچھلے ہزاروں سال کے درمیان جو عورت اور مرد پیدا ہوئے، وہ سب اِس حقیقت سے بے خبر رہے کہ ان کے لیے تفکیری عمل کا آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کریں، وہ اپنے ذہن کے اوپر سے مصنوعی پردوں کو ہٹا کر اپنے آپ کو اپنی اصل فطرت کی طرف واپس لے جائیں۔ خالق نے خارجی دنیا میں پیاز کی صورت میں اس معاملے کی ایک مادّی مثال رکھ دی تھی۔ پیاز اشارے کی زبان میں لوگوں کو بتارہی تھی کہ پہلے اپنے ذہن کے خارجی پردوں کو ہٹاؤ، اس کے بعد ہی تم چیزوں کو اُن کی بے آمیز صورت میں سمجھ سکتے ہو۔ مگر انسان نے نہ پیاز کی اس مثال سے سبق سیکھا، اور نہ پروفیسر واٹسن اور ان کے ہم نوا اِس حقیقت کو دریافت کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ بے خبری کے راستے پر چلتی رہی۔

مثال کے طورپر تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو تمام سیاسی، یا غیر سیاسی تحریکیں ردّ عمل کی تحریکیں نظر آتی ہیں۔ روسو کی تحریک، بادشاہت کے خلاف ردّ عمل کی تحریک تھی۔ مارکس کی تحریک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ جمال الدین افغانی کی تحریک مغربی استعمار کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ گاندھی کی تحریک برٹش اقتدار کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ آیت اللہ خمینی کی تحریک شاہ ایران کے خلاف رد عمل کی تحریک تھی۔ سید قطب کی تحریک یہودیوں کی زائن ازم (Zionism)کے خلاف ردعمل کی تحریک تھی، وغیرہ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ رد عمل کی تحریک ہمیشہ منفی ذہن کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آدمی کسی کے بارے میں نفرت میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر وہ اس کے خلاف رد عمل کی تحریک چلانے لگتا ہے۔ یہی پوری انسانی تاریخ کی کہانی ہے۔ تمام عورت اور مرد کسی نہ کسی اعتبار سے نفرت میں جیتے رہے، وہ مثبت نفسیات میں جینے والے نہیں بنے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ کنڈیشننگ کے معاملے سے بے خبر تھے۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کے بغیر وہ حقائق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں سکتے، جب کہ حقائق کو بے آمیز صورت میں دیکھنا ہی مثبت طرز فکر کی پہلی شرط ہے۔

ذہنی انقلاب کے بغیر روحانیت

روحانیت(spirituality) ہمیشہ سے انسان کی دل چسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس کے نام ہر حلقے میں الگ الگ لیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً مسٹسزم (Mysticism) اور مراقبہ(Meditation)اور تصوّف(Sufism)، وغیرہ۔ روحانیت کے محاذ پر ہزاروں سال سے زبردست سرگرمیاں جاری ہیں، مگر ابھی تک ان سرگرمیوں کا کوئی حقیقی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ تمام کوششوں اور ریاضتوں کے بعد جو چیز حاصل ہوئی، وہ صرف بے شعور وجد(ecstasy) ہے، نہ کہ روحانی ارتقاء جو کہ ان سرگرمیوں کا اصل مطلوب تھا۔

اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے سے لوگ یہ ماننے لگے کہ انسان کا ذہن سوچ کا مرکز ہے، اور انسان کا دل جذبات و عواطف کا مرکز۔ کیوں کہ روحانیت کو عواطف کی نوعیت کی چیز سمجھ لیا گیا، اس لیے انسان ہمیشہ مبنی بَر قلب روحانیت(heart-based spirituality) پر عقیدہ رکھتا رہا۔ اس مفروضے کی بنیاد پر باقاعدہ فلسفہ وضع کیا گیا۔ یہ مان لیا گیا کہ انسان کا دل ہر قسم کے روحانی خزانوں کا سرچشمہ ہے۔ اور دل میں چھپے ہوئے احساسات کو جگا کر روحانی فیض حاصل کیا جاسکتا ہے۔

لیکن موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات نے اس مفروضے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ اب یہ قطعیت کے ساتھ معلوم ہوچکا ہے کہ فکر اور جذبات دونوں کا واحد مرکز صرف انسان کا ذہن(mind) ہے۔ جہاں تک دل کا تعلق ہے، وہ صرف گردش خون(circulation of blood) کا ذریعہ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الرسالہ، نومبر 2004، صفحہ 23 ؛ جون 2005، صفحہ 6 ؛ فروری 2006، صفحہ 28؛ اگست 2006، صفحہ 33)

یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال کی روحانی ریاضت کے نتیجے میں انسان کو جو چیز ملی، وہ صرف وجد (ecstasy) تھا، نہ کہ روحانی بنیاد پر ذہنی ارتقاء۔ اس قسم کی روحانیت دراصل، روحانیت کی ایک کم تر صورت (reduced form) ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں روحانی ارتقاء۔

جیسا کہ معلوم ہے، وجد ایک مبہم کیفیت کا نام ہے، جب کہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسا ذہن رکھتا ہے جس کے اندرسوچنے کی صلاحیت ہے۔ انسانی تاریخ کی تمام ترقیاں سوچ کی صلاحیت کو عمل میں لانے سے حاصل ہوئی ہیں۔ ایسی حالت میں، روحانیت اگر کوئی چیز ہے تو اس کو بھی ذہن کی سطح پر حاصل ہونا چاہیے۔ تمام انسانی ترقیوں کا سرچشمہ انسان کے ذہن میں تفکیری عمل ہے، اِسی طرح روحانی ترقی کا ذریعہ بھی تفکیری عمل کو ہونا چاہیے۔ روحانیت دراصل معرفتِ حقیقت کا اعلیٰ درجہ ہے، وہ مبہم بے خودی جیسے کوئی چیز نہیں۔ اس لیے حقیقی روحانیت وہی ہے جو کسی آدمی کو ذہن کی سطح پر حاصل ہو، نہ کہ قلب کی سطح پر۔

اس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر ایسا ہوا کہ پوری تاریخ میں انسان حقیقی روحانیت کے حصول سے محروم رہا۔ اس نے جس چیز کو روحانیت سمجھا، وہ روحانیت نہیں تھی۔ اور جو اصل روحانیت تھی اس سے بے خبری کی بنا پر وہ اس کو حاصل کرنے کی طرف اپنا سفر ہی شروع نہ کرسکا۔ تاریخِ انسانی کا یہ شاید سب سے بڑا المیہ ہے، اس سے بڑا المیہ اور کوئی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom