حلال اورحرام کا تصور

حلال اور حرام کا تصور کوئی پُر اسرار تصور نہیں۔ وہ فطرت کے قانون (law of nature) کا مذہبی نام ہے۔ حلال اور حرام کا مطلب اُن ابدی اصولوں کواپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے جو نظام فطرت کے تحت آدمی کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے انسان کو استثنائی طورپر ایک عظیم نعمت دی ہے۔ یہ عظیم نعمت وہی ہے جس کو دماغ کہاجاتا ہے۔ انسان کے دماغ میں لا محدود صلاحیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر فردکے دماغ میں ایک سو ملین، بلین، بلین پارٹکل ہیں۔ یہ سارے پارٹکل انفارمیشن پارٹکل ہیں۔ لیکن ابتدائی طور پر یہ تمام پارٹکل خوابیدہ حالت میں ہیں۔ انسان اپنی کوشش سے ان کو اَن فولڈ (unfold)کرتا ہے۔ کوئی آدمی جتنے زیادہ پارٹکل کو ان فولڈ کرے گا، اتنا ہی زیادہ وہ ذہنی اور روحانی ترقی حاصل کرسکے گا۔

انسان کو موجودہ دنیا میں،جینے کے لیے تھوڑی مدت ملی ہے۔ مثلاً نپولین بونا پارٹ (وفات 1821) غیر معمولی دماغ کا حامل ہونے کے باوجود صرف باون سال کی عمر میں مرگیا۔ سید جمالدین افغانی (وفات: 1897)غیرمعمولی دماغ رکھتے تھے۔ لیکن ان کا انتقال صرف اٹھاون سال کی عمر میں ہوگیا، وغیرہ۔

ایسی حالت میں انسان کو اپنے ذہنی امکانات کو ان فولڈ کرنے کے لیے بہت تھوڑا وقت ملا ہے۔ کوئی بھی آدمی اِس نادانی کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ سو سال یا اُس سے بھی کم مدت میں مرجائے اور اُس کے ننانوے فیصد سے بھی زیادہ ذہنی امکانات واقعہ بننے سے رہ گیے ہوں۔ محدود عمر کے اندر لامحدود امکانات کے حصول کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی بھی قیمت پر اِس نقصان کو برداشت نہ کرے۔

اِس نقصان کا سب سے بڑا ذریعہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ڈسٹریکشن(distraction)، یعنی ذہنی امکانات کی ان فولڈنگ کے پراسس کا رُک جانا۔ ڈسٹریکشن کیا ہے، اس کو لغت میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے:

Distraction is the diverting of the attention of an individual or group from the chosen object of attention onto the source of distraction.

حرام (unlawful) در اصل اِسی ڈسٹریکشن کا مذہبی نام ہے۔ وہ تمام چیزیں جن کو مذہب میں حرام یا منع کیا گیا ہے، وہ سب اِسی لیے حرام یا منع ہیں کہ وہ آدمی کے ذہن کو اصل نشانے سے غیر مفید طورپر ہٹا دیتی ہیں، اور اِس طرح آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل، وقتی طورپر یا مستقل طورپر، رُک جاتا ہے۔

اِس ڈسٹریکشن کی دو قسمیں ہیں— حرام اور مکروہ۔ موجودہ دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مکمل ڈسٹریکشن (total distraction) کا ذریعہ بنتی ہیں، ایسی چیزوں کو مذہب میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اِن کے علاوہ کچھ اور چیزیں ہیں جو جُزئی ڈسٹریکشن (partial distraction) کا ذریعہ بنتی ہیں، اُن کو حرام تو نہیں قرار دیاگیا، لیکن اُن کو مکروہ بتایا گیا۔ یعنی غیر مطلوب یا قابلِ پرہیز۔

حرام چیزوں میں سے چند چیزیں یہ ہیں— بت پرستی، قتل، زنا، شراب، خنزیر، جوا، وغیرہ۔ جو چیزیں مکروہ قرار دی گئی ہیں، اُن میں سے چند چیزیں یہ ہیں— لڑائی جھگڑا، عورت مرد کا اختلاط، شاپنگ، آؤٹنگ، رقص وسُرود، بے فائدہ تفریحات، پان سگریٹ، فیشن، میک اپ، پُر تکلف دعوتیں، سامانِ عیش، تحفے تحائف کی رسم، احباب اور اعزّہ کی بے معنٰی دھوم، سماجی تکلفات اور تقریبات، وغیرہ۔

آدمی کا ذہن فطری طورپر جامد ذہن نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ اِس کے بعد آدمی مطالعہ، مشاہدہ، انٹلکچول ایکسچینج، غور وفکر، عبرت پذیری، وغیرہ کے ذریعہ جو سیکھتا ہے، وہ مسلسل طورپر انسان کی ذہنی ترقی میں مددگار بن جاتا ہے۔ذہنی ترقی کا یہ عمل ایک مسلسل عمل ہے۔ یہاں تک کہ وہ سونے کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے۔ جب بھی آدمی مذکورہ قسم کے محرّمات یا ممنوعات میں مشغول ہوتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ڈسٹریکشن کا لمحہ ہوتا ہے۔ وہ اُس کے اندر اُس فکری پراسس کو، وقتی یا ابدی طور پر، روک دیتا ہے جو آدمی کے ذہنی ارتقا کے لیے ضروری ہے۔

اِس نظریے کو کسی بھی شخص کا مطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً جو لوگ بزنس یا تفریحات وغیرہ میں زیادہ مشغول رہتے ہیں، اُن سے بات کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اگر چہ وہ اپنے پروفیشن میں بظاہر کامیاب ہیں، لیکن وہ فکری ارتقا کے معاملے میں بالکل پس ماندہ ہیں۔ فکری موضوعات پر اُن سے بات کیجیے تو آپ کو فوراً محسوس ہوگا کہ وہ ذہنی پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ لوگ جسمانی دیو (physical giant) ہیں اور ذہنی بَونے (intellectual dwarf)۔

موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے تفریحات کو ایک عمومی کلچر کی حیثیت دے دی ہے۔ آج یہ حال ہے کہ آرٹ، ٹی وی، سینما، فیشن، عورت مرد کا اختلاط، تفریحی تقریبات بہت زیادہ عام ہوگئی ہیں۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کی تفریحات کا کوئی وجود نہ تھا۔

اب قدیم اور جدید زمانوں کا تقابل کرکے دیکھئے۔ جتنے بڑے بڑے فلسفی، مصنف، سائنس داں اور مُوجد پیدا ہوئے، وہ تقریباً سب کے سب قدیم زمانے میں پیدا ہوئے۔ موجودہ تفریحات کے زمانے میں شاید کوئی بھی بڑا صاحب دماغ آدمی پیدا نہیں ہوا۔ اِس کا سبب یہ نہیں ہے کہ عالی دماغ لوگ پیدا ہونا بند ہوگیے، بلکہ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسی بے شمار چیزیں وجود میں آگئی ہیں جو مسلسل طورپر انسان کے لیے ڈسٹریکشن کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ جب کہ قدیم زمانے میں ڈسٹریکشن کے یہ اسباب موجود نہ تھے۔ اِس لیے انسان یکسو ہو کر صرف اپنے علمی یا سائنسی کام میں مشغول رہتا تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom