جذبات کو ٹھیس پہنچنا
موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں ایک نئی اصطلاح ظہور میں آئی ہے۔ وہ ہے جذبات کو ٹھیس پہنچنا۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو مسلمانوں کے قومی جذبات کے خلاف ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں ‘ اور مظاہرہ اور تشدد کی کارروائی کرنے لگتے ہیں۔ مسلم دانش ور یہ کہہ کر اس کو جائز بتاتے ہیں کہ اس واقعے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور جب ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی تو فطری طورپر وہ مشتعل ہوجائیں گے۔ اور مظاہرے کریں گے‘ خواہ وہ تشدد تک پہنچ جائے۔
یہ دلیل بلا شبہہ غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اگر اِس قسم کے پُر شور مظاہرے اپنے قومی جذبات کے اظہار کے نام پر کریں تو اِس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن مسلمان اِس قسم کے پر شور مظاہروں کو اسلامی حمیت اور اسلامی غیرت کے نام پر کرتے ہیں۔ اِس بنا پر وہ ایک غلط فعل قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں اسلام کی تعلیم سراسر اِس کے خلاف ہے۔
قرآن کی واضح تعلیم کے مطابق‘ یہ خود مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جہاں تک دوسروں کی اشتعال انگیزی کا تعلق ہے تو اس پر مسلمانوں کے لیے صبر اور اعراض کا حکم ہے‘ نہ کہ بھڑک کر اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ اِن دونوں آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
پہلی آیت
“اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں تم ان کو گالی نہ دو‘ ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔ اِسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نظر میں اس کے عمل کو خوش نُما بنا دیا ہے۔ پھر اُن سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ اُس وقت اللہ انھیں بتا دے گا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (الانعام: ۱۵۹)
دوسری آیت
“جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی‘ جاہلیت کی حمیت۔ پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر‘ اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۶)
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائیں کہ وہ دوسروں کے معبودوں یا اُن کے مقدس شعائروں کو بُرا بھلا کہیں اور اس کے نتیجے میں ایسا ہو کہ وہ ردّ عمل کا شکار ہوجائیں اور جواب میں مسلمانوں کے دین اور شعائر کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔ اس آیت میں واضح طورپر مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اُنھیں اپنے جذبات پر کٹرول کرنا ہے۔ انھیں ایسی کوئی بات لکھنا یا بولنا نہیں ہے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہو‘اور جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ بھڑک اٹھیں اور مسلمانوں کے دین کے خلاف منفی باتیں بولنے لگیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اس سے روکا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔
دوسری آیت صلح حُدیبیہ کے موقع کی ہے۔ اس موقع پر فریقِ مخالف نے سخت اشتعال انگیز باتیں کیں ‘ مثلاً انھوں نے معاہدے کی تحریر میں رسول اللہ کے لفظ پر سخت اعتراض کیا اور رسول اور اصحابِ رسول کو معاہدے کی تحریر سے اس کو مٹانے پر مجبور کیا‘ وغیرہ۔ اِن باتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ لیکن خدا کی تعلیم کے مطابق‘ اُنھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ مذکورہ آیت کے مطابق‘ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو ایمان اور تقویٰ کی روش پر قائم رکھیں۔ یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے کہ مسلمان دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ تم ہمارے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاؤ۔ یہی اسلام کا اصول ہے اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ایسی تعلیم کیوں دی گئی ہے جو بظاہر نابرابری کی تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مشتعل ہونے سے روکنا‘ اور دوسروں کی اشتعال انگیزی پر مسلمانوں کو صبر اور اعراض کی تلقین کرنا‘ یک طرفہ اخلاقیات کا یہ اصول اسلام میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کا جواب قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔
قرآن میں باربار یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم صبر کی روش اختیار کرو۔ تم صبر سے مدد لو (استعینوا بالصبر) اسی طرح فرمایا کہ تم ان کی ایذارسانی سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ (دع اذا ہم وتوکّل علی اللہ)۔ قرآن میں اِس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو یہ تعلیم دیتی ہیں کہ اہلِ اسلام فریقِ مخالف کے مقابلے میں ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رکھیں۔
اِس یک طرفہ اخلاقیات کی معنویت قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ فرمایا کہ: وترجون من اللہ مالا یرجون (النساء: ۱۰۴) یعنی صابرانہ روش کی اہمیت فریقِ مخالف کو معلوم نہیں۔ کیوں کہ وہ موجودہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ تمہارا معاملہ یہ ہے کہ تم آخرت پر عقیدہ رکھتے ہو۔ تم کو یقین ہے کہ تمھاری صابرانہ روش کا انعام بے حساب مقدار میں آخرت میں ملے گا (إنما یُوفّی الصابرون أجرہم بغیر حساب)
یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اہلِ اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عالمی مشن دیا گیا ہے۔ اِسی عالمی مشن کی ادائیگی پر اُن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ مشن‘ دعوت الی اللہ ہے۔ اِس دعوتی عمل کے لیے طرفین کے درمیان معتدل تعلقات ناگزیر طورپر ضروری ہیں۔ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات کے بغیر دعوت کا عمل مؤثر طورپر جاری نہیں رہ سکتا۔
یک طرفہ طورپر صابرانہ روش کی حکمت یہی ہے۔ صابرانہ روش کے ذریعہ ہی یہ ممکن ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان نارمل تعلقات قائم ہوں ‘ اور مسلمان وہ دعوتی عمل انجام دے سکیں جس کی انجام دہی پر مسلمانوں کے لیے دنیا میں کامیابی اور آخرت میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ انجام صرف اہلِ ایمان کے لیے مقدّر کیاگیا ہے۔ اس لیے اہلِ ایمان ہی کو یہ کرنا ہے کہ وہ فریقین کے درمیان نارمل تعلقات کو برقرار رکھنے کی ذمّے داری لیں۔ تاکہ وہ اللہ کے وعدے کے مطابق‘ بطور نتیجہ‘ عظیم خدائی انعامات سے بہرہ ور ہوسکیں۔
یہاں جس دوطرفہ روش کا ذکر کیاگیا وہ کوئی سادہ بات نہیں ‘ یہ دراصل بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ بامقصد انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی روش کا تعین دوسروں کی روش کو دیکھ کر بطور ردّ عمل نہیں کرتا‘ اس کے بجائے اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ باتوں سے غیر متاثر رہ کر یہ سوچتا ہے کہ اس کے مقصد کے اعتبار سے اس کے لیے صحیح روش کیا ہے۔ وہ کون سی روش ہے جو اس کے مستقبل کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سوچ بامقصد انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ محض جذباتی اشتعال کے تحت کوئی اقدام نہ کرے بلکہ سوچے فیصلے کے تحت‘ اپنے عمل کا تعین کرے۔ اِسی کا نام منصوبہ بند عمل ہے‘ اور منصوبہ بند عمل با مقصد انسان کی ایک لازمی صفت ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ جذباتی رد عمل ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے اور منصوبہ بند عمل ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ جذباتی رد عمل میں آدمی کا رہنما اس کے منفی احساسات ہوجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس‘ منصوبہ بند عمل میں اس کا رہنما اس کا مثبت ذہن ہوتا ہے۔ اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں میں سے ایک تخریب کاری کا عمل بن جاتا ہے اور دوسرا مکمل معنوں میں تعمیر کاری کا عمل۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جن سے آدمی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ لیکن حقیقت پسندانہ بات یہ ہے کہ آدمی ایسے واقعات کو نظر انداز کرے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جذبات کے بجائے اپنی عقل کے تابع بنائے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ جذبات کی پیروی کرنے والا ہمیشہ ناکام ہوتا ہے۔ اور عقل کی پیروی کرنے والا ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔