شناخت کا مسئلہ
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میرے ساتھی نے CPS International کا تعارف کرایا اور کہا کہ اِس تنظیم کے تحت، ہم غیر مسلموں میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے الرسالہ میں اس کا ذِکر پڑھا ہے، مگر میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ جو لوگ اسلام کو اپناتے ہیں آپ ان کا نام نہیں بدلتے۔ ان کو اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع اختیار کرنے کے لیے نہیں کہتے۔ ان کے قدیم تشخص کو بدل کر انھیں اسلامی تشخص پر لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ کا یہ طریقہ درست نہیں۔ ایسا آپ کیوں کررہے ہیں۔
میں نے کہا کہ مذکورہ تشخص(identity) نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ وہ ایک نقصان کی بات ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی آئی ڈنٹٹی کو بدل کر آپ یہ کرتے ہیں کہ ان کا دعوتی رول ختم کردیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ اس کا دل اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن ہو اور وہ اپنا نام نہ بدلے تو وہ اپنی سوسائٹی سے کٹتا نہیں۔ اِس طرح وہ اِس قابل رہتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کے لوگوں میں اسلام کی دعوت کو پھیلا سکے۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا ظاہری تشخص بدل لے تو اچانک ہی وہ اپنی سوسائٹی سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
اِس معاملے میں قرآن کے اندر واضح رہنمائی موجود ہے۔قرآن کی سورہ نمبر ۴۰ میں حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ مصری حکمراں فرعون کا ذکر ہے۔ حضرت موسی کی دعوت سننے کے بعد اس نے ارادہ کیاکہ وہ حضرت موسی کو قتل کردے۔ اس وقت فرعون کے دربار کے ایک ممبر نے مداخلت کی اور اس طرح بادشاہ کو قتل کے اِس ارادے سے روک دیا، اور حضرت موسی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ حکومت کے تشدد سے محفوظ رہ کر اپنا پُرامن دعوتی کام جاری رکھ سکیں۔
دربارِ فرعون کے اس شخص کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وقال رجل مؤمن من آلِ فرعون یکتم ایمانہ (المؤمن: ۲۸) یعنی آلِ فرعون میں سے ایمان لانے والے ایک شخص نے کہا جو کہ اب تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے شاہی حلقے کا ایک آدمی ایمان لاچکا تھا لیکن فرعون کو یا اس کے درباریوں کو اس کا کوئی علم نہ تھا۔ اِس شخص کا نام تفسیروں میں شمعان یا خبرک آیاہے۔ سوال یہ ہے کہ اِس آدمی کو ایمان کا پیغام کیسے پہنچا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہوا کے ذریعے نہیں پہنچا۔ یقینی طور پر وہ وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ کے ذریعہ پہنچا۔ اُس سے حضرت موسی کی ملاقات ہوئی۔ حضرت موسی نے اس کو حق کا پیغام پہنچایا اور پھر اس نے حضرت موسیٰ کے اوپر ایمان قبول کرلیا۔
یہاں واضح قرینے کے طورپر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے ایمان کو تو قبول کر لیا لیکن آپ نے اس کا نام نہیں بدلا۔ آپ نے اس کی وضع قطع نہیں بدلی، آپ نے اس کو اس کے سابقہ تشخص پر باقی رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آدمی ایک نازک موقع پر ایک بے حد اہم رول ادا کرسکا۔ حضرت موسیٰ پر ایمان لاتے ہی اگر اس کا نام بدل دیا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ تم اپنے قدیم تشخص کو چھوڑو اور موسی کے تشخص کو اختیار کرلو۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مذکورہ رجُل مؤمن فوراً فرعون کے حلقے سے کٹ جاتا۔ اس کے بعد وہ اِس قابل نہ رہتا کہ وہ فرعون کے دربار میں وہ اہم رول اداکرسکتا جو اس نے قرآن کے بیان کے مطابق، بعد کو ادا کیا۔
اِس واقعے سے ایک عظیم پیغمبرانہ سنت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ داعی کا کام آدمی کے دل کوبدلنا ہے نہ کہ اس کے ظاہری تشخص کو بدلنا۔ اِس عظیم حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے موجودہ زمانے میں بڑے بڑے نقصانات ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی میں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی حقیقی دعوتی کوشش کے بغیر ان لوگوں نے قرآن کا مطالعہ کیا۔ ان کا دل اس پر مطمئن ہوگیا، اور پھر انھوں نے اسلام کو اپنا دین بنا لیا۔ ایسے افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ اسلام قبول کرتے ہی ان کا دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب وہ مسلمانوں سے ملے تو مسلمانوں نے فوراً ان کا نام بدلوایا، اور ان کے لباس اور وضع قطع کو بدل کر انھیں موجودہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بنا لیا۔ ایسا کرتے ہی ان کا مطلوب دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس نام نہاد اسلامائزیشن کے بعد مسلمان تو خوش ہوگیے لیکن اسلامی دعوت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
مثلاً ہندستان میں ایک تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹر نِشی کانت چٹوپادھیانے ذاتی مطالعے کے تحت اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد فوراً مسلمانوں نے ان کانام بدل کر انھیں مسلم معاشرے کا ایک ممبر بنا لیا۔ وہ مشہور ہندو خاتون مسز سروجنی نائڈو کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بہت بڑا دعوتی کام کرسکتے تھے مگر ظاہری تشخص کو بدلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مطلوب انداز میں اپنا دعوتی رول ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اِسی طرح ہنگری کے عبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے محمد اسد، برطانیہ کے یوسف اسلام، امریکا کے حمزہ یوسف اور اِس طرح کے بہت سے لوگ ہیں جن کا انجام وہی ہوا جو ڈاکٹر نشی کانت کا ہوا۔ ان میں سے کوئی بھی ’’رجل مؤمن‘‘ کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہا۔ ہر ایک بس مسلم معاشرے کا ایک فرد بن کر رہ گیا۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ آدمی جب تک اپنا نام اور اپنا تشخص نہ بدلے وہ اپنی قوم کا ایک فرد شمار کیا جاتا ہے۔ وہ عقیدے یا نظریے کے معاملے میں الگ بات کہنے کے باوجود اپنی اِس حیثیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ جو کچھ کہے اس کو اس کی قوم کے افراد کسی توحّش کے بغیر سنیں۔ وہ اس کو اپنی ہی قوم کا ایک فرد سمجھ کر اس کی باتوں پر غور کریں۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا تشخص بدل دے تو اس کے اور اس کی قوم کے درمیان ایک دوری قائم ہوجاتی ہے۔ وہ اس کو غیر کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کی باتوں کو سننے کے لیے ان کے اندر آمادگی باقی نہیں رہتی۔ اِس لیے یہ روش سراسر غیر حکیمانہ ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی آدمی کا نام اور حلیہ بدل دیا جائے۔ کچھ نادان لوگ اِس سے خوش ہو سکتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ کوئی پسندیدہ بات نہیں، جیسا کہ آلِ فرعون کے ایک رجل مؤمن کی مثال سے واضح ہوتا ہے۔