روزے کا پیغام
قرآن کی سورہ نمبر دو میں روزے کا حکم دیتے ہوئے حسب ذیل باتیں کہی گئی ہیں:
روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیداہو۔ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اترا۔ تم اس پورے مہینے کا روزہ رکھو اور اس نعمتِ ہدایت پر اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اور جان لو کہ خدا اپنے بندوں سے بے حد قریب ہے۔ وہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے، لہٰذا تم کو چاہیے کہ تم اُس کا حکم مانو اور اُس پر ایمان لاؤ، تاکہ تم کو ہدایت ملے (البقرۃ: 183-186)
روزہ بظاہر یہ ہے کہ آدمی رات کو کھائے پیے اور دن میں وہ کھانا پانی چھوڑ دے، مگر یہ روزے کی ظاہری صورت ہے۔ روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی کے اندر تقویٰ پیدا ہو، وہ اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گزارنے لگے۔ گویارمضان کے دنوں میں روزے کی مخصوص شکل ایک علامتی تربیت ہے کہ بقیہ مہینوں میں اور ساری عمر میں آدمی کو کس طرح رہنا چاہیے۔
خدا کی شریعت میں ہر آدمی کے لیے کچھ چیزیں جائز ہیں اور کچھ چیزیں ناجائز۔ رات کے اوقات آدمی کے لیے جائز چیزوں کی علامت ہیں اور دن کے اوقات ناجائز چیزوں کی علامت۔ اس علامتی ترک کے لیے کھانے پینے کو منتخب کرنا یہ بتاتا ہے کہ ممنوعات کی فہرست اس سے بھی زیادہ ہے جو قانونی الفاظ میں بتائی گئی ہے۔ممنوعات کی اس دوسری قسم کا نام قربانی ہے۔ روزہ یہ سبق دیتا ہے کہ خدا کی خاطر رکنے اور چھوڑنے کی فہرست اگر کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں تک پہنچ جائے تو اس سے بھی آدمی دریغ نہ کرے۔
آدمی جب دن بھر بھوکا پیاسا رہتا ہے اور شام کو کھانے اور پانی سے سیراب ہوتا ہے تو وہ ایک بہت بڑی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے، وہ یہ کہ اس کا وجود جس غذا کا اتنی شدت سے محتاج تھا وہ انتہائی کامل صورت میں اس کے باہر خدا نے مہیا کررکھی تھی۔ خوراک ایک حیرت انگریز مثال ہے کہ انسان کی طلب کا کتنا مکمل جواب خدا نے اس دنیا میں تیار کر رکھا ہے۔
یہی احساس آدمی کے اندر قرآن کے بارے میں پیدا ہونا چاہیے۔ جس طرح غذا آدمی کی مادی طلب کا جواب ہے، اسی طرح قرآن آدمی کی روحانی طلب کا جواب ہے۔ خدا کی شکر گزاری اور اس کی بڑائی کا اعتراف یہ ہے کہ آدمی قرآن کو اُس حیثیت سے پالے جس حیثیت سے خدا نے اس کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے۔ وہ اسی طرح آدمی کی ضرورت بن جائے جس طرح کھانا آدمی کی ضرورت ہے۔ وہ اس کو پاکر اسی طرح سیراب ہوجائے جس طرح ایک بھوکا آدمی کھانا کھاکر اور پانی پی کر آخری حد تک سیراب ہوجاتا ہے۔
ر وایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسول، ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا وہ ہم سے دور ہے کہ ہم اس کو پکاریں (یا رسول اللہ، أقریبٌ رَبُّنا فنناجیہ أم بعید فننادیہ، أخرجہ إبن أبی حاتم) اس کے جواب میں مذکورہ آیتیں اتریں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ، بلکہ تمام عبادتوں کا اصل مطلوب کیا ہے۔ اصل مطلوب اسی مقام ہدایت (رشد) تک پہنچانا ہے، جب کہ بندہ اپنے رب کے اتنا قریب ہوجائے کہ وہ خدا سے ہم کلام ہونے لگے، وہ اپنے رب سے سوال کرے اور اس سے اس کا جواب پائے۔ یہی قربتِ خداوندی تمام دینی اعمال کا اصل مقصود ہے۔ جس کا دین اس کو خدا سے اس معنی میں قریب کردے، وہی دین دار ہے۔ اور جس کا دین اس کو خدا سے اس طرح قریب نہ کرے، وہ بے دین ہے، خواہ ظاہری طور پروہ دین داری کا لباس اوڑھے ہوئے ہو۔
دن بھر کے روزے کے بعد شام کو افطار کا وقت آتا ہے۔ اسی طرح پورے مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر آتی ہے۔ یہ معاملہ دنیا اور آخرت کی تعبیر ہے۔ ’’روزہ‘‘ دنیا کی زندگی کی علامت ہے اور ’’اِفطار‘‘ آخرت کی زندگی کی علامت۔ بھوک پیاس اور تعب کی ایک مدت گزارنے کے بعد آدمی کو افطار کی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں جو عورت اور مرد احتیاط اور ذمے داری کی زندگی گزارے گا، وہ آخرت میں ابدی جنت کا آرام پائے گا۔ دنیا، روزے کی پابندی سہنے کی جگہ ہے اور آخرت عید ِافطار کی خوشی پانے کی جگہ۔
روزہ اور دعا کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔ دعا سب سے زیادہ جہاں سے ابلتی ہے، وہ ٹوٹا ہوا دل ہے۔ روزے میں آدمی کو بھوک اور پیاس ستاتی ہے، اس کے معمولات ٹوٹتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ آدمی کا جسم کمزوری اور بے بسی کا تجربہ کرتاہے۔ اس وقت آدمی کے اندر دل شکستگی پیدا ہوتی ہے۔ وہ خدا کی طرف رجوع ہو کر اس کو پکارنے لگتا ہے— خدایا، تو میری زندگی میں دو تعب کو جمع نہ کر۔ میں نے دنیا میں بہت تعب اٹھایا، اب تو آخرت کے تعب سے مجھ کو بچالے۔ یہی دعائے رمضان ہے اور یہی رمضان کا خلاصہ۔