انجام کی تلاش
حقیقت کی تلاش کا تیسرا جزء اپنے انجام کی تلاش ہے ۔ آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا۔ وہ اپنے اندر بہت سے حوصلے اور تمنائیں پاتا ہے وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ان کی تسکین کس طرح ہوگی ۔ وہ موجودہ محدود زندگی کے مقابلہ میں ایک طویل تر زندگی چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ اس کو کہاں پائے گا ۔ اس کے اندر بہت سے اخلاقی اور انسانی احساسات ہیں جو دنیامیں بری طرح پامال کیے جا رہے ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ اپنی پسندیدہ دنیا کو حاصل نہ کر سکے گا ۔ یہ سوالات کس طرح انسان کے اندر سے ابلتے ہیں اور کائنات کا مطالعہ کس طرح اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے ، اس موقع پر اس کی تھوڑی سی تفصیل مناسب ہو گی ۔
ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ انسان اپنی موجودہ شکل میں تین لاکھ برس سے زمین پر موجود ہے ۔ اس کے مقابلہ میں کائنات کی عمر بہت زیادہ ہے یعنی دو لاکھ ارب سال (20 نیل سال )۔ اس سے پہلے کائنات برقی ذرات کے ایک غبار کی شکل میں تھی ، پھر اس میں حرکت ہوئی اور مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہو گیا۔ یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جس کو ہم ستارے ، سیارے یا سحابئے کہتے ہیں ۔ یہ مادی ٹکڑے گیس کے مہیب گولے کی شکل میں نا معلوم مدت تک فضا میں گردش کرتے رہے ۔ تقریباً دو ارب سال پہلے ایساہوا کہ کائنات کا کوئی بڑا ستارہ فضا میں سفر کرتا ہوا آفتاب کے قریب آنکلا جو اس وقت اب سے بہت بڑا تھا ۔ جس طرح چاند کی کشش سے سمندر میں اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں اسی طرح اس دوسرے ستارے کی کشش سے ہمارے آفتاب پر ایک عظیم طوفان برپا ہوا، زبردست لہریں پیدا ہوئیں جو رفتہ رفتہ نہایت بلند ہوئیں اور قبل اس کے کہ وہ ستارہ آفتاب سے دور ہٹنا شروع ہو، اس کی قوت کشش اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ آفتاب کی ان زبردست گیسی لہروں کے کچھ حصّے ٹوٹ کر ایک جھٹکے کے ساتھ دور فضا میں نکل گئے۔ یہی بعد کو ٹھنڈے ہو کر نظام شمسی کے توابع بنے ۔ اس وقت سے یہ سب ٹکڑے آفتاب کے گرد گھوم رہے ہیں اور ان ہی میں سے ایک ہماری زمین ہے ۔
زمین ابتداء ً ایک شعلہ کی حالت میں سورج کے گرد گھوم رہی تھی ، مگر پھر فضا میں مسلسل حرارت خارج کرنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی ، یہ عمل کروروں برس ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ بالکل سرد ہو گئی ۔ مگر سورج کی گرمی اب بھی اس پر پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے بخارات اٹھنا شروع ہوئے اور گھٹاؤں کی شکل میں اس کی فضا کے اوپر چھا گئے ۔ پھر یہ بادل برسنا شروع ہو ئے اور ساری زمین پانی سے بھر گئی ۔ زمین کا اوپری حصہ اگرچہ ٹھندا ہو گیا تھا مگر اس کا اندرونی حصہ اب بھی گرم تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین سکڑنے لگی ۔ اس کی وجہ سے زمین کے اندر کی گرم گیسوں پر دباؤ پڑا اور وہ باہر نکلنے کے لیے بے قرار ہو گئیں ، تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد زمین پھٹنے لگی ۔ جگہ جگہ بڑے بڑے شگاف پڑ گئے ، اس طرح بحری طوفانوں ، خوفناک زلزلوں اور آتش فشاں دھماکوں میںہزاروں سال گزر گئے ۔ ان ہی زلزلوں سے زمین کا کچھ حصہ اوپر ابھر آیا اور کچھ حصہ دب گیا۔ دبے ہوئے حصوں مین پانی بھر گیا اور وہ سمندر کہلائے اور ابھرے ہوئے حصوں نے براعظم کی صور ت اختیار کی بعض اوقات یہ ابھار اس طرح واقع ہوا کہ بڑی بڑی اونچیں باڑھیں سی بن گئیں ، یہ دنیا کے پہلے پہاڑ تھے ۔
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ ایک ارب 23کرور سال ہوئے ، جب پہلی بار زمین پر زندگی پیدا ہوئی ۔ یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے جو پانی کے کنارے وجود میں آئے ۔ اس کے بعد مختلف قسم کے جانور پیدا ہوتے اور مرتے رہے ۔ کئی ہزار سال تک زمین پر صرف جانور رہے ۔ اس کے بعد سمندری پودے نمودار ہوئے اور خشکی پر بھی گھاس اگنا شروع ہوئی۔ اس طرح لمبی مدت تک بے شمار واقعات ظہور میں آتے رہے ، یہاں تک کہ انسانی زندگی کے لیے حالات ساز گار ہوئے اور زمین پر انسان پیدا ہوا ۔
اس نظریہ کے مطابق انسان کی ابتداء پچھلے تین لاکھ سال سے ہوئی ہے ۔ یہ مدت بہت ہی کم ہے ۔ وقت کے جو فاصلے کائنات نے طے کیے ہیں ان کے مقابلہ میں انسانی تاریخ چشم زدن سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ پھر اگر انسانیت کی اکائی کو لیجئے تو معلوم ہو گا کہ ایک انسان کی عمر کا اوسط سو سال سے بھی کم ہے ۔ ایک طرف اس واقعہ کو سامنے رکھئے اور پھر اس حقیقت پر غور کیجئے کہ کائنات میں انسان سے بہتر کوئی وجود معلوم نہیں کیا جا سکا ہے۔ زمین وآسمان کی اربوں اور کھربوں سال کی گردش کے بعد جو بہترین مخلوق اس کائنات کے اندر وجود میں آئی ہے وہ انسان ہے ۔ مگر یہ حیرت انگیز انسان جو ساری دنیا پر فوقیت رکھتا ہے ، جو تمام موجودات میں سب سے افضل ہے اس کی زندگی چند سال سے زیادہ نہیں ۔ ہمارا وجود جن مادی اجزاء سے مرکب ہے ان کی عمر تو اربوں اور کھربوں سال ہو اور وہ ہمارے مرنے کے بعد بھی باقی رہ جائین مگر ان مادی اجزاء کی یکجائی سے جو اعلیٰ ترین وجود بنتا ہے وہ صر ف سو برس زندہ رہے ۔ جو کائنات کا حاصل ہے وہ کائنات سے بھی کم عمر رکھتا ہے تاریخ کے طویل ترین دور میں بے شمار واقعات کیا صرف اس لیے جمع ہوئے تھے کہ ایک انسان کو چند دنوں کے لیے پیدا کر کے ختم ہو جائیں ۔
زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا ، ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہو تو اس پوری آبادی کوبہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جا سکتا ہے جو طول وعرض اور بلندی میں ایک میل ہو ۔ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے ۔ پھر اگر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جا کر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں جا گرے گا ۔ صدیاں گزر جائیں گی ، نسل انسانی اپنے کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لیے پڑی رہے گی ، دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہو جائے گا کہ یہاں کبھی انسان کی قسم کی کوئی نسل آباد تھی ۔ سمندر کی سطح پر اسی طرح بد ستور طوفان آتے رہیں گے ، سورج اسی طرح چمکتا رہے گا، کرۂ ارض اپنے محور پر بد ستور چکر کرتا رہے گا ، کائنات کی لا محدود پہنائیوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑے حادثہ کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی ۔ کئی صدیوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندروق میں دفن کی گئی تھی۔
کیا انسان کی قیمت بس اسی قدر ہے ، مادہ کو کوٹیے، پیٹیے ، جلائیے ، کچھ بھی کیجیے، وہ ختم نہیں ہوتا، وہ ہر حال میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ مگر انسان جو مادہ سے برتر مخلوق ہے کیا اس کے لیے بقا نہیں ۔ یہ زندگی جو ساری کائنات کا خلاصہ ہے ، کیا وہ اتنی بے حقیقت ہے کہ اتنی آسانی سے اسے ختم کیا جا سکتا ہے ۔ کیا انسانی زندگی کا منتہا بس یہی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے ننھے سے وطن پر چند دنوں کے لیے پیدا ہو اور پھر فنا ہو کر رہ جائے تمام انسانی علم اور ہماری کا مرانیوں کے سارے واقعات ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں اور کائنات اس طرح باقی رہ جائے گویا نسل انسانی کی اس کے نزدیک کوئی حقیقت ہی نہیں تھی ۔
اس سلسلہ میں دوسری چیز جو صریح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے تو یہ ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہماری امنگوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔ ہر انسان لا محدود مدت تک زندہ رہنا چاہتا ہے ، کسی کو بھی موت پسند نہیں ، مگر اس دنیا میں ہر پیدا ہونے والا جانتا ہے کہ وہ ایسی زندگی سے محروم ہے ۔ آدمی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے ، ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ وہ دکھ درد اور ہر قسم کی تکلیفوں سے محفوظ رہ کر زندگی گزارے ، مگر حقیقی معنوں میں کیا کوئی شخص بھی ایسی زندگی حاصل کر سکتا ہے ۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنے حوصلوں کی تکمیل کا آخری حد تک موقع ملے ، وہ اپنی ساری تمناؤں کو عمل کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے مگر اس محدود دنیامیں وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں ، یہ کائنات اس کے لیے بالکل نا ساز گار معلوم ہوتی ہے وہ ہر چند قدم کے بعد ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے ، کائنات صرف ایک حد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے ، اس کے بعد ہم کو مایوس اور ناکام لوٹا دیتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی محض غلطی سے ایک ایسی کائنات میں بھٹک آئی ہے جو دراصل اس کے لیے نہیں بنائی گئی تھی اور جو بظاہر زندگی اور اس کے متعلقات سے بالکل بے پروا ہے ۔ کیا ہمارے تمام جذبات وخیالات اور ہماری تمام خواہشیں غیر حقیقی ہیں جن کا واقعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے تمام بہترین تخیلات کائنات کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بالکل الل ٹپ طریقے سے پیدا ہو گئے ہیں ۔ وہ تمام احساسات جن کو لے کر انسانی نسل پچھلے ہزاروں سال سے پیدا ہو رہی ہے اور جن کو اپنے سینہ میں لیے ہوئے وہ اس حال میں دفن ہو جاتی ہے کہ وہ انھیں حاصل نہ کر سکی ، کیا ان احساسات کی کوئی منزل نہیں ۔ کیا وہ انسانوں کے ذہن میں بس یونہی پیدا ہو رہے ہیں جن کے لیے نہ تو ماضی میں کوئی بنیاد موجود ہے اور نہ مستقبل میں ان کا کوئی مقام ہے ۔
ساری کائنات میں صرف انسان ایک ایسا وجود ہے جو کل (Tomorrow)کا تصور رکھتا ہے ۔ یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارےمیں سوچتا ہے اور اپنے آیندہ حالات کو بہتر بنانا چاہتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ بعض جانور مثلاًچیونٹیاں خوراک جمع کرتی ہیں یا بیا گھو نسلے بناتا ہے ۔ مگر ان کا یہ عمل غیر شعوری طور پر محض عادتاً ہوتا ہے ۔ ان کی عقل اس کا فیصلہ نہیں کرتی کہ انھیں خوراک جمع کر کے رکھنا چاہیے تاکہ کل ان کے کام آسکے یا ایسا گھر بنانا چاہیے جو موسموں کے ردو بدل میں تکلیف سے بچائے ۔ انسان اور دوسری مخلوقات کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ موقع ملنا چاہیے ، جانوروں کے لیے زندگی صرف آج کی زندگی ہے ، وہ زندگی کا کوئی کل نہیں رکھتے ، کیا اسی طرح انسانی زندگی کا بھی کوئی کل نہیں ہے ۔ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے، فردا (future) کا تصور جو انسان میں پایا جاتا ہے اس کا صریح تقاضا ہے کہ انسان کی زندگی اس سے کہیں زیادہ بڑی ہو جتنی آج اسے حاصل ہے انسان ’’کل ‘‘چاہتا ہے مگر اس کو صرف ’’ آج ‘‘ دیا گیا ہے ۔
اسی طرح جب ہم سماجی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو ایک خلا کا زبردست احساس ہوتا ہے ۔ ایک طرف مادی دنیا ہے جو اپنی جگہ پر بالکل مکمل نظر آتی ہے ۔ وہ ایک متعین قانون میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کی ہر چیز اپنے مقرر راستہ پر چلی جا رہی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں مادی دنیا ویسی ہی ہے جیسی کہ اسے ہونا چاہیے مگر انسانی دنیا کا حال اس سے مختلف ہے ۔ یہاں صورتِ حال اس کے بر عکس ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔
ہم صریح طور پر دیکھتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے اور دونوں اس حال میں مر جاتے ہیں کہ ایک ظالم ہوتا ہے اور دوسرا مظلوم ۔ کیا ظالم کو اس کے ظلم کی سزا اور مظلوم کو اس کی مظلومیت کا بدلہ دیے بغیر دونوں کی زندگی کو مکمل کہا جا سکتا ہے ۔ ایک شخص سچ بولتا ہے اور حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی مشکل کی زندگی بن جاتی ہے ، دوسرا شخص جھوٹ اور فریب سے کام لیتا ہے اور جس کی جو چیز پاتا ہے ہڑپ کر لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی نہایت عیش وعشرت کی زندگی بن جاتی ہے ۔ اگر یہ دنیا اسی حال میں ختم ہو جائے تو کیا دونوں انسانوں کے اس مختلف انجام کی کوئی توجیہ کی جا سکتی ہے ۔ ایک قوم دوسری قوم پر ڈاکہ ڈالتی ہے اور اس کے وسائل وذرائع پر قبضہ کر لیتی ہے مگر اس کے باوجود دنیا میں وہی نیک نام رہتی ہے کیونکہ اس کے پاس نشر واشاعت کے ذرائع ہیں اور دبی ہوئی قوم کی حالت سے دنیا ناواقف رہتی ہے کیونکہ اس کی آہ کے دنیا کے کانوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ، کیا ان دونوں کی صحیح حیثیت کبھی ظاہر نہیں ہو گی ۔ دو اشخاص یا دو قوموں میں ایک مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے اور زبردست کش مکش تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ دونوں اپنے آپ کو بر سر حق کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو انتہائی برا ثابت کرتے ہیں مگر دنیا میں ان کے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا، کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے جو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر سکے ۔
موجودہ دور کو ایٹمی دور کہا جاتا ہے لیکن اگر اس کو خود سری کا دور کہیں تو زیادہ صحیح ہو گا ۔ آج کا انسان صرف اپنی رائے اور خواہش پر چلنا چاہتا ہے خواہ اس کی رائے اور خواہش کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو ۔ ہر شخص غلط کار ہے مگر ہر شخص گلے کی پوری قوت کے ساتھ اپنے کو صحیح ثابت کر رہا ہے ۔ اخبارات میں لیڈروں اور حکمرانوں کے بیانات دیکھئیے ، ہر ایک انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے ظلم کو عین انصاف اور اپنی غلط کاریوں کوعین حق ثابت کرتا ہو ا نظر آئے گا۔ کیا اس فریب کا پردہ کبھی چاک ہونے والانہیں ۔
یہ صورت حال صریح طور پر ظاہر کر رہی ہے کہ یہ دنیا نامکمل ہے ۔ اس کی تکمیل کے لیے ایک ایسی دنیا چاہیے جہاں ہر ایک کو اس کا صحیح مقام مل سکے۔
مادی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کوئی خلا ہے اس کو پُر کرنے کے اسباب موجود ہیں۔ مادی دنیا میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی ۔ اس کے بر عکس انسانی دنیا میں ایک زبردست خلا ہے ۔ جس قدرت نے مادی دنیا کو مکمل حالات میں ترقی دی ہے کیا اس کے پاس انسانی دنیا کا خلا پر کرنے کا کوئی سامان نہیں ۔ ہمارا احساس بعض افعال کو اچھا اور بعض کو برا سمجھتا ہے۔ ہم کچھ باتوں کے متعلق چاہتے ہیں کہ وہ ہوں اور کچھ باتوں کو چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہوں ۔ مگر ہماری فطری خواہش کے علی الرّ غم وہ سب کچھ یہاں ہو رہا ہے جس کو انسانی فطرت برا سمجھتی ہے ، انسان کے اندر اس طرح کے احساس کی موجودگی یہ معنیٰ رکھتی ہے کہ کائنات کی تعمیر حق پر ہوئی ہے ۔ یہاں باطل کے بجائے حق کو غالب آنا چاہیے ۔ پھر کیا حق ظاہر نہیں ہو گا ۔ جو چیز مادی دنیا میں پوری ہو رہی ہے کیا وہ انسانی دنیا میں پوری نہیں ہو گی۔
یہی وہ سوالات ہیں جن کے مجموعہ کو میں نے اوپر ’’انسانیت کے انجام کی تلاش ‘‘کہا ہے ۔ ایک شخص جب ان حالات کو دیکھتا ہے تو وہ سخت بے چینی میںمبتلا ہو جاتا ہے ۔ اس کے اندر نہایت شد ت سے یہ احساس ابھر تا ہے کہ زندگی اگر یہی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے تو یہ کس قدر لغو زندگی ہے ۔ وہ ایک طرف دیکھتا ہے کہ انسانی زندگی کے لیے کائنات میں اس قدر اہتمام کیا گیا ہے گویا سب کچھ صرف اسی کے لیے ہے ، دوسری طرف انسان کی زندگی اس قدر مختصر اور اتنی ناکام ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے ۔
اس سوال کے سلسلہ میں آج لوگوں کا رجحان عام طور پر یہ ہے کہ اس قسم کے جھنجھٹ میں پڑنا فضول ہے ۔ یہ سب فلسفیانہ سوالات ہیں ، اور حقیقت پسندی یہ ہے کہ زندگی کا جو لمحہ تمہیں حاصل ہے اس کو پر مسرت بنانے کی کوشش کرو۔ آیندہ کیا ہو گا یا جو کچھ ہو رہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کی فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ۔
اس جواب کے بارے میں کم ازکم بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اس انداز میں سوچتے ہیں انھوں نے ابھی انسانیت کے مقام کو نہیں پہچانا ، وہ مجاز کو حقیقت سمجھ لینا چاہتے ہیں ۔ واقعات انھیں ابدی زندگی کا راز معلوم کرنے کی دعوت دے رہے ہیں مگر وہ چند روزہ زندگی پر قانع ہو گئے ہیں ۔ انسانی نفسیات کا تقاضا ہےکہ اپنی امنگوں اور حوصلوں کی تکمیل کے لیے ایک وسیع تر دنیا کی تلاش کرو مگر یہ نادان روشنی کے بجائے اس کے سایہ کو کافی سمجھ رہے ہیں ۔ کائنات پکار رہی ہے کہ یہ دنیا تمہارے لیے نا مکمل ہے ، دوسری مکمل دنیا کا کھوج لگاؤ ۔ مگر ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اسی نا مکمل دنیا میں اپنی زندگی کی عمارت تعمیر کر یں گے ، ہم کو مکمل دنیا کی ضرورت نہیں ۔ حالات کا صریح اشارہ ہے کہ زندگی کا ایک انجام آنا چاہیے ۔ مگر یہ لوگ صرف آغاز کو لے کر بیٹھ گئے ہیں اور انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں ۔ حالانکہ یہ اسی قسم کی ایک حماقت ہے جو شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے ۔ اگر فی الواقع زندگی کا کوئی انجام ہے تو وہ آکررہے گا اور کسی کا اس سے غافل ہونا اس کو روکنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ البتہ ایسے لوگوں کے حق میں وہ ناکامی کا فیصلہ ضرور کر سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زندگی کو کل زندگی سمجھنا اور صرف آج کو پر مسرت بنانے کی کوشش کو اپنا مقصد بنا لینا بڑی کم ہمتی اور بے عقلی کی بات ہے ۔ آدمی اگر اپنی زندگی اور کائنات پر تھوڑا سا بھی غور کرے تو اس نقطۂ نظر کی لغویت فوراً واضح ہو جاتی ہے ایسا فیصلہ وہی کر سکتا ہے جو حقیقتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لے اور بالکل بے سمجھی بوجھی زندگی گزارنا شروع کر دے ۔
یہ ہیں وہ چند سوالات جو کائنات کو دیکھتے ہی نہایت شدت کے ساتھ ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں ۔ اس کائنات کا ایک خالق ہو نا چاہیے ، مگر اس کے متعلق ہمیں کچھ نہیں معلوم ۔ اس کا ایک چلانے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہونا چاہیے، مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے۔ ہم کسی کے احسانات سے ڈھکے ہوئے ہیں اور مجسم شکرو سپاس بن کر اس ہستی کو ڈھونڈھنا چاہتے ہیں جس کے آگے اپنے عقیدہ کے جذبات کو نثار کر سکیں ، مگر ایسا کوئی وجود ہمیں نظر نہیں آتا ۔ ہم اس کائنات کے اندر انتہائی عجز اور بے بسی کے عالم میں ہیں ، ہم کو ایک ایسی پناہ کی تلاش ہے جہاں پہنچ کر ہم اپنے آپ کو محفوظ تصور کر سکیں ، مگر ایسی کوئی پناہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود نہیں ہے ۔ پھر جب ہم اپنی زندگی اور اپنی عمر کو دیکھتے ہیں تو کائنات کا یہ تضاد ہم کو ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر تو کھربوں سال ہو اور انسان جو کائنات کا خلاصہ ہے اس کی عمر چند سال ۔ فطرت ہم کو بے شمار امنگوں اور حوصلوں سے معمور کرے مگر دنیا کے اندر اس کی تسکین کا سامان فراہم نہ کرے ۔
پھر سب سے زیادہ سنگین تضاد وہ ہے جو مادی دنیا اور انسانی دنیا میں پایا جاتا ہے ۔ مادی دنیا انتہائی طور پر مکمل ہے ، اس میں کہیں خلا نظر نہیں آتا ، مگر انسانی زندگی میں زبردست خلا ہے ۔ اشرف المخلوقات کی حالت ساری مخلوق سے بد تر نظر آتی ہے ۔ ہماری بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ اگر پٹرول کا کوئی نیا چشمہ دریافت ہو یا بھیڑ بکریوں کی نسل بڑھے تو اس سے انسان خوش ہوتا ہے ، مگر انسانی نسل کا اضافہ ہمارے لیے گوارہ نہیں ۔ ہم اپنی مشکلوں سے اس قدر پریشان ہیں کہ انسان کی پیدائش کو روک دینا چاہتے ہیں ۔