پیغمبر کی ضرورت
اس موقع پر ایک شخص ہمارے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ جس حقیقت کو تم معلوم کرنا چاہتے ہو، اس کا علم مجھے دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ:
’’اس کائنات کا ایک خدا ہے جس نے سارے عالم کو بنایا ہے ، اور اپنی غیر معمولی قوتوں کے ذریعہ اس کا انتظام کر رہا ہے ۔ جو چیزیں تمہیں حاصل ہیں وہ سب اسی نے تمہیں دی ہیں اور سارے معاملات کا اختیار اسی کو ہے ۔ یہ جو تم دیکھ رہے ہو کہ مادی دنیا کے اندر کوئی تضاد نہیں ، وہ ٹھیک ٹھیک اپنے فرائض انجام دے رہی ہے اور اس کے برعکس انسانی دنیا ادھوری نظر آتی ہے ، یہاں زبردست خلفشار برپا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو آزادی دے کر اسے آزمایا جا رہا ہے ۔ تمہارا مالک یہ چاہتا ہے کہ اس کا قانون جو مادی دنیا میں براہ راست نافذ ہو رہا ہے اس کو انسان اپنی زندگی میں خود سے اختیار کرے یہی وجود کائنات کا خالق ہے ، وہی اس کا مدبر اور منتظم ہے ، وہی تمہارے جذباتِ شکر کا مستحق ہے اور وہی ہے جو تم کو پناہ دے سکتا ہے ۔ اس نے تمہارے لیے ایک لا محدود زندگی کا انتظام کر رکھا ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے ، جہاں تمہاری امنگوں کی تسکین ہو سکے گی ، جہاں حق وباطل الگ الگ کر دیے جائیں گے اور نیکوں کو ان کی نیکی کا اور بروں کو ان کی برائی کا بدلہ دیا جائے گا ۔ اس نے میرے ذریعہ سے تمہارے پاس اپنی کتاب بھیجی ہے جس کا نام قرآن ہے ۔ جو اس کو مانے گا وہ کامیاب ہو گا اور جو اس کو نہ مانے گا ذلیل کر دیا جائے گا ‘‘ ۔
یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز ہے جو چودہ سو برس پہلے عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی تھی اور آج بھی ہم کو پکار رہی ہے ۔ اس کا پیغام ہے کہ اگر حقیقت کو معلوم کرنا چاہتے ہو تو میری آواز پر کان لگاؤ اور میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر غور کرو۔
کیا یہ آواز حقیقت کی واقعی تعبیر ہے ، کیا ہمیں اس پر ایمان لانا چاہیے ۔ وہ کون سی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حقیقت کو وہ اس وقت تسلیم کریں گے جب کہ وہ انھیں نظر آئے ۔ وہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص فلکیات کا مطالعہ ریاضی کے بغیر کرنے کی کوشش کرے اور کہے کہ وہ فلکیاتی سائنس کی صرف ان ہی دریافتوں کو تسلیم کرے گا جو کھلی آنکھوں سے اسے نظر آتی ہوں، ریاضیات کی دلیل اس کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے ، یہ مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ آدمی کو اپنی قوتوں کا صحیح علم نہیں ہے ۔
انسان کے پاس مشاہدہ کی جو قوتیں ہیں وہ نہایت محدود ہیں ، حقیقت ہمارے لیے ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے ۔ ہم اسے محسوس تو کر سکتے ہیں مگر اسے دیکھ نہیں سکتے ۔ ایک زمانہ میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا چار چیزوں سے مل کر بنی ہے ۔ ’’آتش و آب وخاک وباد ‘‘۔ دوسرے لفظوں میں قدیم انسان اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ حقیقت ایک ایسی چیز ہے جسے دیکھا جا سکتا ہے ، مگر جدید تحقیقات نے اس کی غلطی واضح کر دی ہے ۔ اب ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیہ میں ایٹم کے باریک ترین ذرات پر مشتمل ہیں ۔ ایٹم ایک اوسط درجہ کے سیب سے اتنا ہی چھوٹا ہوتا ہے جتنا کہ سیب ہماری زمین سے ۔ یہ ایٹم ایک طرح کا نظام شمسی ہے جس کا ایک مرکز ہے ، اس مرکز میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں اور اس کے چاروں طرف الکٹران (برقیے ) مختلف مداروں میں اسی طرح حرکت کرتے ہیں جیسے سورج کے گرد اس کے تابع سیارے حرکت کرتے ہیں ۔ ایک برقیہ جس کا قطر سینٹی میٹر کا پانچ ہزار کرورواں حصہ ہو اور جو اپنے مرکز کے چاروں طرف ایک سکنڈ میں کروروں مرتبہ چکر کاٹتا ہو اس کے تصور کی کوشش کرنا سعی لا حاصل ہے ۔ جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ اندرونی عالموں کی آخری حد ہے ۔ ممکن ہے ان عالموں کے اندر ان سے بھی چھوٹے عالم ہوں ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری مشاہدہ کی قوت کس قدر کمزور ہے ، پھر سوال یہ ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے وہ انتہائی چھوٹے ذرے جو باہم مل کر مر کز (nucleous)بناتے ہیں وہ کس طرح قائم ہیں ۔ آخر یہ پروٹان اور نیوٹران مرکز سے باہر کیوں نہیں نکل پڑتے ۔ وہ کیا چیز ہے جو انھیں ایک دوسرے سے باندھے ہوئے ہے ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان مادی ذرات کے درمیان ایک توانائی موجود ہے اور یہی توانائی مرکز کے برقی اور غیر برقی ذرات کو آپس میں جکڑے ہوئے ہے ۔ اس کو طاقت یکجائی (Binding Energy)کا نام دیا گیا ہے ۔ گویا مادہ اپنے آخری تجزیہ میں توانائی ہے ، میں پوچھتا ہوں ، کیا یہ توانائی قابل مشاہدہ چیز ہے ۔ کیا کسی بھی خورد بین کے ذریعہ اسے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جدید سائنس نے خود یہ تسلیم کر لیا ہے کہ حقیقت اپنی آخری صورت میں ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے اس کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ۔
اب اگر رسول کی بات کو ماننے کے لیے ہم یہ شرط لگائیں کہ وہ جن حقیقتوں کی خبر دے رہا ہے وہ ہمیں چھونے اور دیکھنے کو ملنی چاہئیں تب ہم اسے مانیں گے تو یہ ایک نہایت نامعقول بات ہو گی ۔ یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے تاریخ ہند کا کوئی طالب علم ایسٹ انڈیا کمپنی کے حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے استاد سے کہے کہ کمپنی کے تمام کردار کو میرے سامنے لا کر کھڑا کر دو اور وہ میرے سامنے تمام گزرے ہوئے واقعات کو دہرائیں ، تب میں تمہاری تاریخ کو تسلیم کروں گا۔
پھر وہ کون سی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کریں کہ یہ دعوت صحیح ہے یا غلط ، اور ہم کو اسے قبول کرنا چاہیے یا نہیں ۔ میرے نزدیک اس دعوت کو جانچنے کے تین خاص پہلو ہیں ۔ اول یہ کہ اس کی توجیہ حقیقت سے کتنی مطابقت رکھتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ زندگی کے انجام کے بارے میں اس کا دعویٰ محض دعویٰ ہے یا اس کی کوئی دلیل بھی اس کے یہاں ملتی ہے ۔ اور تیسرے یہ کہ اس کے پیش کیے ہوئے کلام میں کیا ایسی کوئی نمایاں خصوصیت پائی جا رہی ہے کہ اس کو خدا کا کلام کہا جا سکے ۔ ان تینوں پہلوؤں کے اعتبار سے جب ہم رسول کے کام کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک پروہ نہایت کامیابی کے ساتھ پورا اتر رہا ہے ۔
1۔ رسول نے کائنات کی جو توجیہ کی ہے اس میں ہماری تمام پیچیدگیوں کا حل موجود ہے۔ ہمارے اندر اور ہمارے باہر جتنے سوالات پیدا ہوتے ہیں ان سب کا وہ بہترین جواب ہے۔
2۔ زندگی کے انجام کے بارے میں اس کا جو دعویٰ ہے اس کے لیے وہ ایک قطعی دلیل بھی اپنے پاس رکھتا ہے ۔ وہ یہ کہ موجودہ زندگی میں وہ اس انجام کا ایک نمونہ ہمیں دکھا دیتا ہے جس کو بعد کی زندگی میں آنے کی وہ خبر دے رہا ہے ۔
3۔ وہ جس کلام کوخدا کا کلام کہتا ہے اس کے اندر اتنی غیر معمولی خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ ماننا پڑتا ہے کہ یقینا یہ ایک فوق الا نسانی طاقت کا کلام ہے ۔ کسی انسان کا کلام ایسا نہیں ہو سکتا۔
آئیے اب ان تینوں پہلوؤں سے رسول کی دعوت کا جائز ہ لیں ۔