دورِ جدید کا مذہب تعارف

جولین ہکسلے کے نزدیک مکمل تشکیک (complete scepticism) ناقابل عمل ہے اور انسان کے لیے کچھ نہ کچھ عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ وہ لکھتا ہے:

‘‘Religion of some sort is probably necessary.’’ (Hindustan Times, Oct. 1961)

یعنی کسی نہ کسی قسم کا مذہب انسان کے لیے ضروری ہے۔ مگر دور جدید کا مذہب، اس کے نزدیک یقینی طور پر ایک بے خدا مذہب (godless religion) اور مذہب بغیر الہام (religion without revelation) ہوگا۔ بظاہر یہ ایک لغو سی بات معلوم ہوتی ہے مگر درحقیقت اس کی پشت پر ایک مستقل فلسفہ ہے اور اس نے دور جدید کے اکثر ذہنوں کو متاثر کیا ہے۔

اس طرز پر جو لوگ سوچتے ہیں، ان کے خیالات اگرچہ باہم یکساں نہیں ہیں۔ نیز ان میں مخالف مذہب اور بظاہر غیر مخالفین دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں مگر جو بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ یہ تمام لوگ رسالت کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ اس کو دوسرے علوم کی طرح محض انسانی دریافت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ لارڈ مارلے نے اسی معنی میں کہا تھا کہ سائنس کا دوسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ انسانیت کے لیے ایک مذہب کی تخلیق کرے:

‘‘The next great task of science is to create a religion for mankind.’’ (Science & Christian Belief, by C.A. Coulson, 1955, p. 8)

اس گروہ میں سے کوئی شخص اگر مذہب کا نام لیتا ہے تو وہ بھی عام مذہبی مفہوم میں نہیں بلکہ اپنے مخصوص مفہوم میں۔ اس کے نزدیک یہ ایک خاص طرح کا ذہنی آرٹ (intellectual art) ہے نہ کہ وحی و الہام کے ذریعہ معلوم شدہ کوئی واقعی حقیقت۔ اس مذہب کی اہم ترین خصوصیت، ایک مفکر کے الفاظ میں، خدا کی جگہ انسان کو بٹھانا (transfer of seat from god to man) ہے۔ اسی لیے اس جدید مذہب کو انسانیت (humanism) کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر الکسس کیرل کی کتاب جو پہلی بار 1935ء میں شائع ہوئی وہ اسی سلسلہ کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب کو اگرچہ اس طرز فکر کے مختلف لوگوں کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا، مگر غالباً اس موضوع پر یہ جامع ترین کتاب ہے جو ایک سائنس داں کے قلم سے خالص سائنسی انداز میں لکھی گئی ہے اور جس میں اس پہلو سے تاحال دریافت شدہ حقائق کا نہایت عمدہ جائزہ موجود ہے۔

’’سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی کے باوجود انسان مشکلوں میں گرفتار ہے۔‘‘ یہ ایک سوال ہے جو موجودہ دنیا کے سوچنے والے ذہنوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے انحطاط کی وجہ سے ایسا ہوا ہے مگر دوسرے لوگ جو مذہب میں یقین نہیں رکھتے، وہ دوسرے انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جامد مادے کے علوم میں جس طرح ترقی ہوئی ہے اسی طرح حیاتیاتی علوم میں ترقی نہیں ہو سکی اور اسی کا نتیجہ ہے، جو ہم اپنی زندگی میں بھگت رہے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ حیاتیاتی علوم میں اب اس سے زیادہ شدت کے ساتھ تحقیق و تفتیش کا کام جاری ہونا چاہیے جیسے جیسے اب تک ہوتا رہا ہے۔

نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الکسس کیرل (Alexis Carrel) کی کتاب انسان نامعلوم (Man the Unknown) اسی تاحال عدم دریافت انسان کو دریافت کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘ سائنس جس نے مادی دنیا کو بدل دیا ہے، انسان کو وہ طاقت دیتی ہے جس سے وہ اپنے آپ کو بھی بدل سکے۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ وہ اپنی کتاب کا باب انسانیت کی نئی تعمیر (The Remaking of Man) شروع کرتا ہے۔ ’’تاریخ میں پہلی بار سائنس کی مدد سے انسانیت اپنی قسمت کی آپ مالک بن گئی ہے۔ آج ہمیں یہ موقع حاصل ہے کہ ہم جس طرح مادہ پر عمل کرکے اس کو اپنی خدمت میں لا رہے ہیں، اسی طرح جسم اور روح پر عمل کرکے اس کو اپنی منشاء کے مطابق ڈھال سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کند ذہنی، بداخلاقی اور جرم کاری عموماً موروثی نہیں ہوتی۔ ہم ان برائیوں کی اسی طرح اصلاح کر سکتے ہیں جس طرح ہم بیماریوں کو اچھا کرتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر الکس کیرل اس مسئلہ پر مزید لکھتا ہے:

’’صنعت و حرفت نے سائنس کی اسپرٹ کے مطابق کام نہیں کیا، بلکہ مابعد الطبیعیات کے غلط تصورات کے مطابق انسان کی تعمیر کی ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ان حد بندیوں کو توڑ دیں جو حقیقی اشیاء کی خصوصیات اور ہماری ذات کے مختلف پہلوئوں کے درمیان قائم کر دی گئی ہیں۔ یہ غلطی جو ہماری تمام مصیبتوں کی ذمہ دار ہے۔گلیلیو کے تولیدی نظریے (genial idea) کی ایک غلط تعبیر کا نتیجہ ہے۔ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جا سکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کر دیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔ کمیت کو کیفیت سے جدا کر دیا گیا ہے۔ اس غلطی سے غیر معمولی نتائج پیدا ہوئے۔ انسان کے اندر وہ چیزیں، جن کی پیمائش نہیں کی جا سکتی، ان چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جن کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ مثلاً خیال اور فکر کا وجود اتنا ہی اہم ہے جتنا خوں ناب (blood serum) کے طبعی کیمیاوی توازنوں کا وجود اہم ہے۔ کمی اور کیفی اشیاء کے درمیان تفرقہ اور وسیع ہو گیا جب کہ ڈیکارٹ نے جسم اور روح کے درمیان فرق کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد سے دماغ کے مظاہر ناقابل تشریح بن گئے۔ مادی اشیاء کو روحانی اشیاء سے بالکل الگ کر دیا گیا۔ جسمانی ساخت اور فعلیاتی طریقے (physiological mechanism) خیال، لذت، حزن اور حسن سے بھی زیادہ بڑی حقیقت قرار پائے۔ اس غلطی کی وجہ سے تمدن ایک ایسی راہ پر پڑ گیا جہاں سائنس کو کامیابی حاصل ہوئی مگر انسان تنزل کے گڑھے میں گرتا چلا گیا۔

اب ٹھیک رخ پر پہنچنے کے لیے ہم کو چاہیے کہ نشاۃ ثانیہ کے دور کے خیالات کی طرف رجوع کریں۔ ہمیں ڈیکارٹ کی ثنویت (dualism) کو ترک کر دینا چاہیے۔ دماغ کو پھر مادہ کے اندر جگہ دینی چاہیے۔ روح کو آئندہ جسم سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ جذبات کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے جتنی کہ حرکیات حرارت کے قانون کو دی جاتی ہے۔

ایک ایسا نظریہ جو تین سو سال سے زیادہ عرصہ تک متمدن لوگوں کے ذہنوں پر چھایا رہا، پورے طور پر اس سے آزاد ہونا بہت مشکل ہے لیکن اگر ایسا ہو جائے تو فوراً حیرت انگیز واقعات رونما ہوں گے۔ مادہ کی فوقیت ختم ہو جائے گی۔ ریاضیات، طبیعیات اور کیمیا کی طرح اخلاقی، جمالیاتی اور مذہبی افعال کا مطالعہ بھی بالکل ضروری معلوم ہوگا، حفظان صحت کے ماہرین سے یہ سوال ہوگا کہ وہ کیوں صرف جسمانی بیماریوں کو روکنے کی طرف توجہ کرتے ہیں اور دماغی اور اعصابی امراض کا علاج کیوں تلاش نہیں کرتے۔ ماہرین امراض کو اعضا کے صدمات کے ساتھ اخلاط (humours) کے صدمات کا بھی مطالعہ کرنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ دماغ کا نسیجوں پر نسیجوں کا دماغ پر کیا اثر پڑتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

Man, the Unknown, 1961 (pp. 257-6)

اس طرح ڈاکٹر کیرل کی تشخیص کے مطابق انسانی مشکلات کا سبب یہ ہے کہ مادی علوم کی تو وسیع پیمانے پر ترقی ہوئی، مگر جس انسان نے یہ سب کیا خود اس کا علم، جاندار ہستیوں کا علم، بالکل ابتدائی حالت میں رہ گیا ہے، ورنہ جس طرح سیاہ اور بدبودار تارکول بہترین خوشنما رنگوں کی صورت میں نظر آتا ہے، اور لوہے کے بدوضع ڈلے خوبصورت مشینوں کی شکل میں متحرک ہیں، اسی طرح انسان اور انسانی سماج بھی سائنس کی مدد سے باغ و بہار بن گیا ہوتا۔ اس کے اپنے الفاظ میں:

‘‘We are the victims of the backwardness of the science of life over those of matter.’’ (p. 39)

یعنی ہم دراصل زندگی کے علوم کی اس پس افتادگی کا شکار ہیں جو مادی علوم کے مقابلے میں اسے حاصل ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’اس مصیبت کا ایک ہی ممکن علاج اپنی ذات کے بارے میں زیادہ گہرا علم ہے۔ اس قسم کا علم ہمیں یہ سمجھنے کے قابل بنائے گا کہ کن طریقوں سے جدید زندگی ہمارے شعور اور ہمارے جسم کو متاثر کر رہی ہے۔ اس سے ہم سیکھیں گے کہ کس طرح ہم اپنے آپ کو اپنے گرد و پیش کے مطابق ڈھالیں اور اگر ماحول کو بدلنا ضروری ہو تو کس طرح ہم اسے بدلیں۔ ہماری واقعی فطرت ہماری استعداد اور اس کے اظہار کے طریقوں کے روشنی میں آنے کے بعد یہ علم ہماری فعلیاتی کمزوری اور اخلاقی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بتا سکے گا۔ ہم اپنی جسمانی اور روحانی سرگرمیوں کے اٹل قوانین کو جاننے، ناجائز (prohibited) اور جائز (lawful) کے درمیان تمیز کرنے اور یہ محسوس کرنے کے لیے کہ ہم اپنے خیال کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بنانے میں آزاد نہیں ہیں، ہم کوئی دوسرا ذریعہ نہیں رکھتے۔ جب کہ جدید تمدن نے زندگی کے فطری حالات کو برباد کر دیا ہے، دوسرے تمام علوم کے مقابلے میں انسانی علم (science of man) کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔‘‘

Man, the Unknown, p. 39

اس علم کو حاصل کرنے کی کیا صورت ہو۔

’’ہر سال ہم سنتے رہتے ہیں کہ نسلیات، توالد و تناسل اور اعداد و شمار، اخلاق و عادات، فعلیات، تشریح حیاتیاتی کیمیا، طبعی کیمیا، نفسیات، طب، حفظان صحت، تعلیم، سماجیات، عمرانیات، اقتصادیات وغیرہ کے ماہرین نے اپنے اپنے فن میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ لیکن عملاً ان کے نتائج حیرت انگیز طور پر بہت ہی غیر اہم ہوتے ہیں۔

اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ معلومات کا یہ وسیع ذخیرہ مختلف دماغوں اور مختلف کتابوں میں بکھرا ہوا ہے، کسی ایک شخص کو بھی ان پر عبور حاصل نہیں۔ ضرورت ہے کہ ان تمام علوم کو چند افراد کے دماغوں میں لے آیا جائے، اسی وقت ان منتشر علوم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘

مگر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک شخص ان تمام علوم کو حاصل کر لے۔ کیا کوئی فرد تشریح، فعلیات، حیاتیاتی، کیمیا، نفسیات، مابعد الطبیعیات، علم الامراض اور طب پر عبور حاصل کر سکتا ہے اور اسی کے ساتھ دوسرے علوم سے گہرے طور پر واقف ہو سکتا ہے۔ ’’اس قسم کا کمال حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے۔‘‘ مصنف لکھتا ہے۔ ایک شخص تقریباً پچیس سال کے مسلسل مطالعہ کے بعد ان تمام علوم میں دستگاہ پیدا کر سکتا ہے۔ اس طرح کے ایک سو افراد پچاس سال کی عمر میں پہنچ کر انسان کی فطرت کے مطابق انسانی زندگی اور تمدن کی موثر رہنمائی کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد انسان کی تعمیر کرنے کے لیے ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں فطری قوانین کے مطابق جسم اور دماغ کی تربیت دی جاتی ہو، ان اداروں میں انسان کے مختلف پہلوئوں کے علوم کو ملا کر ایک کلی علم کی شکل دینی ہوگی اور محققوں اور سائنٹفک کام کرنے والوں کی ایک متحدہ جماعت بنانی پڑے گی۔ ان اداروں کو ماہرین خصوصی کے سپرد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی رہنمائی ایسے افراد کے ذمہ ہونی چاہیے جو تمام علوم پر عبور رکھتے ہوں۔ خصوصی ماہرین کو صرف ایک عمومی ماہر کا مددگار ہونا چاہیے۔ ایک ماہر اقتصادیات، ایک ماہر نفسیات، ایک کیمیا داں اور ایک سماجی عالم الگ الگ یکساں طور پر انسان کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اپنے دائرہ عمل سے آگے ان کی بصیرت پر کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

اس وقت درجنوں بہترین ادارے قائم ہیں اور مختلف علوم پر قابل قدر کام کر رہے ہیں مگر پیش نظر مقصد کے لیے ان کی تحقیقات کافی نہیں ہیں۔ ریاضیات، طبیعیات اور کیمیا کے علاوہ ضروری تو ہیں مگر ان کو زندہ نظام جسمانی کی تحقیقات کے لیے بنیادی علوم کی حیثیت سے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ایسے تصورات کی تخلیق نہیں ہو سکتی جو انسانوں کے ساتھ خاص ہیں۔ آئندہ کے حیاتیاتی کارکنوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا نصب العین محض مصنوعی اور تنہا نظاموں کا مطالعہ نہیں بلکہ ایک زندہ نظام جسمانی کا مطالعہ ہے اور یہ کہ فعلیات (physiology) کا وہ علم جس کو بیلس (Bayliss) نے دریافت کیا ہے، اصل علم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

ان مسائل کے مطالعہ کے لیے سائنس دانوں کو کئی نسلوں تک اپنی زندگی بھر کام کرتے رہنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جہاں کم از کم ایک سو سال تک کسی رکاوٹ کے بغیر علم انسانی کا مطالعہ جاری رہے۔ موجودہ سوسائٹی میں تمام دماغی کام کرنے والوں کو ایک مرکز پر جمع ہو کر کام کرنا چاہیے تاکہ سب مل کر ایسا غیر فانی دماغ پیدا کریں جس کے اندر اپنے مستقبل کو سوچنے اور اس کو بنانے کی پوری طاقت موجود ہو۔ اس کے بعد ہی انسانی ترقی کے دائمی نظریات حاصل ہو سکتے ہیں۔ (صفحات264-76)

اوپر جو کچھ لکھا گیا یہ ڈاکٹر کیرل کے الفاظ میں ان لوگوں کے خیالات کا خلاصہ ہے جو خدائی مذہب کو چھوڑ کر اس کی جگہ ایک انسانی مذہب بنانا چاہتے ہیں۔ کیرل نے خود بھی اپنی اس ضخیم کتاب میں انسانی علم کا جائزہ لیا ہے اور اس کے معلوم اور نامعلوم گوشوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی تین سو صفحے کی کتاب کو ان الفاظ پر ختم کرتا ہے:

’’انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار ایک بوسیدہ تمدن اپنے انحطاط کے اسباب معلوم کرنے کے قابل ہوا ہے۔ سائنس کی عظیم طاقت پہلی بار اس کے قبضہ میں آئی ہے۔ کیا ہم اس علم اور اس طاقت کو استعمال کریں گے۔ ماضی کے عظیم تمدنوں کے لیے جو انجام مقدر رہا ہے، اس سے ہمارے بچنے کی واحد امید یہی ہے۔ ہماری بدقسمتی، ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، اب ہم کو نئی شاہراہ پر آگے بڑھنا ہے۔‘‘ (صفحہ 298)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom