مذہب کی ملحدانہ تشریح

دور جدید کے مفکرین کسی ایسے ذریعہ علم کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو مخصوص شخص کو وہبی طور پر حاصل ہو اور عام تجربہ میں اس کا آنا ممکن نہ ہو سکے۔ ان کے نزدیک جو بات عام لوگوں کے ادراک سے باہر ہو اس کا عام لوگوں سے مطالبہ کرنا نہ صرف غیر منطقی بات ہے بلکہ یہی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ وہ غیر حقیقی ہے۔ کیونکہ اگر وہ حقیقی ہوتی تو دوسرے انسانوں کے لئے بھی اس کا حصول ممکن ہوتا۔ اب چونکہ مذہب اور مذہبی معتقدین ساری تاریخ میں بطور واقعہ موجود رہے ہیں اور آگسٹ کامٹے (1857ء-1798ء) کی پیشین گوئی کے علی الرغم اب تک موجود ہیں، اس لیے مذہب کی صداقت تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی وہ اس کی تشریح کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی تشریح کے لیے قدرتی طور پر ان کا ذہن ایسے مماثل واقعات کی طرف جاتا ہے جو عام انسانوں کے لیے قابل فہم ہوں اور ’شاعری‘ کی شکل میں بہت جلد انہیں اس کا جواب مل جاتا ہے۔ وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ دوسرے ذہنی اعمال کی طرف مذہب بھی محض ایک ذہنی عمل (mental activity) ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

ٹائن بی کے الفاظ میں حقیقت کے ادراک کے دو طریقے ہیں۔ ایک سائنسی طریقہ جس کا انحصار مشاہدہ اور تجربہ پر ہے۔ اور دوسرا شاعرانہ طریقہ جو اندر سے ابلتا ہے۔ پہلے طریقہ سے جو چیز دریافت ہو، وہ سائنسی حقیقت (scientific truth) ہے۔ اور دوسرے طریقہ سے جو چیز ملے وہ شاعرانہ حقیقت (poetic truth) ہے۔ وہ لکھتا ہےکہ لاشعور کی شاعرانہ سطح پر قابل فہم مشاہدہ کا نام پیغمبری ہے:

‘‘On the poetic level of the subconscious psyche, the comprehensive vision is prophecy.’’ (An Historian's Approach to Religion, p. 123)

علوم اجتماعی کی انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار کے الفاظ میں مذہب (religion) کی مثال آرٹ سے دی جا سکتی ہے، جس طرح بعض لوگ دوسروں کے مقابلہ میں آرٹ کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں۔ اور اس میدان میں غیر معمولی مظاہرے کرتے ہیں، اسی طرح بعض لوگوں میں اندرونی بصارت و سماعت (inner eyes and ears) سے دیکھنے اور سننے کی منفرد خصوصیات ہوتی ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے مذہب کے تجربات سے انسان کو آشنا کیا ہے۔

Encyclopaedia of the Social Sciences, 1957 (vol. 13, p. 230)

ٹی آر مائلز (T. R. Miles)لکھتا ہے:

’’مذہب کی مابعد الطبیعی حقیقتیں اگر مذہب کے اپنے لفظی معنی میں لی جائیں تو وہ بے معنی ہیں۔ البتہ مجازی زبان (language of parable)کی حیثیت دی جائے تو وہ بامعنی ہو سکتی ہیں۔ جیسے کوئی شخص ایک نئی دریافت کرتا ہے تو ہم کہہ اٹھتے ہیں:

‘‘It was an absolut revelation.’’

یہ تو بالکل الہام تھا۔ اس طرح شاعر پر الہام ہوتا ہے۔ اور اسی طرح پیغمبر پر الہام ہوتا ہے۔

‘‘Religion & The Scientific Outlook’’ (p. 195-6)

مائلز کے نزدیک وحی کو اگر اس معنی میں لیا جائے کہ وہ خدا کے اپنے الفاظ ہیں، جو فرشتے کے ذریعہ کسی خاص انسان پر اترتے ہیں تو یہ ایک بے معنی بات ہوگی۔ البتہ اگر اس کو بصیرت کی روشنی (flash of insight) کہیں تو وہ سمجھ میں آتا ہے۔ کیونکہ اس طرح ایک فنکار یا ایک مفکر کے اندر یکایک کسی خیال کا آ جانا ایک معلوم بات ہے (صفحہ 196)۔اسی طرح مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پانا بالکل لفظی معنوں میں سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ تمثیلی زبان تسلیم کر لی جائے تو ہم اسے سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ جسم کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد منتشر ہو جاتا ہے۔ اور روح بھی اسی کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے دوبارہ زندگی کا تصور لفظی معنوں میں ناقابل فہم ہے۔ (صفحہ 204)

الکسس کیرل الہام کو صوفیانہ معرفت (mysticism)قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک خدا کی تلاش مکمل طور پر ایک ذاتی مہم (personal undertaking)ہے۔ جس طرح ایک شخص جسمانی ورزش کرکے پہلوان بنتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص ترک دنیا اور تپسیا کے ذریعہ روحانیت کے سایہ میں پہنچنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’اپنے شعور کی مشق کرکے آدمی ایک ایسی ناقابل مشاہدہ حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک خلقی (immanent) حقیقت بھی ہے اور مادی دنیا سے بالاتر بھی۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو ایسے بڑے جوکھم میں ڈالتا ہے جس کی کوئی شخص جرأت کر سکتا ہے۔ وہ کسی کو ہیرو نظر آ سکتا ہے اور کسی کو دیوانہ، مگر کوئی شخص یہ سوال نہیں کر سکتا کہ عارفانہ تجربہ صحیح ہے یا غلط۔ یہ کوئی خود ساختہ چیز ہے یا وہم ہے یا روح کا ہماری دنیا کے ابعاد (dimension) سے پرے کوئی سفر ہے جہاں وہ اعلیٰ حقیقت سے جا کر مل جاتی ہے۔ معرفتآدمی کی اعلیٰ ترین آرزوئوں کو تسکین دیتی ہے، اندرونی قوت، روحانی روشنی، خدائی محبت، بے حد سکون، مذہبی وجدان اتنا ہی حقیقی ہے جتنا جمالیاتی احساس:

‘‘Religious intuition is as real as aesthetic inspiration.’’

مافوق البشری حسن کے تصور کے ذریعہ عارف اور شاعر آخری صداقت (ultimate truth) تک پہنچتے ہیں۔‘‘

‘‘Through the contemplation of superhuman beauty mystics and poets may reach the ultimate truth.’’ (Man, the Unknown, p. 132)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom