نان وائلنس (عدم تشدد)

Non-Violence— A Way of Life

نان وائلنس ایک وے آف لائف ہے۔ نان وائلنس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ نان وائلنس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ناموافق حالات کی اس دنیا میں موافق ذہن کے ساتھ زندگی گذار دی جائے۔ اجتماعی زندگی میں ٹکراؤ کے بجائے مصالحت کا انداز اختیار کیا جائے۔ اس روش کا تعلق انفرادی زندگی سے بھی ہے اور اجتماعی زندگی سے بھی۔

دنیا کی مثال گلاب کے پودے جیسی ہے۔ گلاب کے پودے میں پھول بھی ہوتا ہے اور کانٹا بھی۔ کانٹے گلاب کے پودے کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ نیچر کا قانون ہے۔ ہم اس قانون کو بدل نہیں سکتے۔ اس معاملے میں ہمارے لیے صرف ایک آپشن ہے اور وہ یہ کہ کانٹے کو نظر انداز کرکے پھول کو حاصل کریں۔ پھول کا خوبصورت رنگ اور اس کی خوشبو صرف اُس انسان کے لیے قابلِ حصول ہے، جو کانٹے کے باوجود اُس کو حاصل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اس حوصلے کے بغیر کوئی بھی اس دنیا میں گلاب کے پھول کا مالک نہیں بن سکتا۔

نیچر کا یہ ظاہرہ بتاتا ہے کہ انسان کے لیے دنیا میں زندگی گذارنے کا حقیقت پسندانہ طریقہ کیا ہے۔ وہ ہے ناخوشگوار باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خوش گوارباتوں کو لے لینا۔ دُنیا ہر انسان کے لیے خوش گوار اور ناخوش گوار دونوں قسم کی چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ صورت حال کسی انسان کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ یہ خود خالق کی بنائی ہوئی ہے۔ اُن کا وجود اُسی طرح حتمی ہے، جس طرح آگ اور پانی کا وجود۔ کوئی بھی شخص اتنا طاقت ور نہیں جو ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے جُدا کرسکے۔

ایسی حالت میں ہمارے لیے حقیقی آپشن صرف ایک ہے اور وہ ہے جس کو نان وائلنس کہا جاتا ہے۔ نان وائلنس سادہ معنوں میں صرف عدم تشدد نہیں، نان وائلنس در اصل یہ ہے کہ آدمی وائلنس کے حالات میں پیس (peace) کے ساتھ رہ سکے۔ پیس فُل رویّے کا دوسرا نام نان وائلنس ہے۔

عام طور پر نان وائلنس کو جنگ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی متشددانہ لڑائی کے مقابلے میں پُر امن مقابلے کا طریقہ۔ مگر یہ نان وائلنس کا بہت محدود مفہوم ہے۔ نان وائلنس کا تعلق پوری زندگی سے ہے اور وہ ٹھیک اُسی وقت سے شروع ہوجاتا ہے جب کہ انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ نان وائلنس کا تعلق گھریلو زندگی سے لے کر انٹرنیشنل لائف تک ہے۔

میں پیدائشی طورپر نان وائلنٹ ہوں۔ اس لیے نان وائلنس میرے لیے صرف ایک نظریہ نہیں، بلکہ وہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ میں اپنی پوری زندگی شعوری یا غیر شعوری طورپر نان وائلنس کی زندگی گذارتا رہا ہوں۔مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کہ میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ میری عمر تقریباً ۱۰ سال تھی۔ میں اپنے گھر کے باہر کھڑا ہوا تھا۔ اتنے میں گاؤں کا ایک بچہ میرے سامنے سے گذرا۔ حسب عادت اس نے مجھے گالی دی۔ میں نے اسے سُنا تو مجھے غصہ نہیں آیا اور نہ میرے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوا۔ میں نے صرف یہ کہا کہ تم خود! یہ کہہ کر میں اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔ میرا یہی رویّہ بعد کو میری پوری زندگی میں قائم رہا۔

مثال کے طورپر ۱۹۴۷ ء کے بعد انڈیا میں کمیونل رائٹس کا سلسلہ شروع ہوا۔ اخبارات آگ اور خون کے واقعات سے بھرے رہنے لگے۔ تمام لوگ احتجاج اور انتقام کی بولی بول رہے تھے۔ مگر میں کسی منفی ایکشن میں مبتلا نہیں ہوا۔ میں نے اس مسئلے کا یہ سادہ حل پیش کیا کہ مسلمان اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اعراض (اَوائڈنس) کا طریقہ اختیار کریں اور پھر کمیونل رائٹس ختم ہوجائیں گے—یہ اجتماعی نزاع کے معاملے میں نان وائلنس کے طریقے کو اپنانا تھا۔

اسی طرح جب ۲۰۰۳ میں امریکی صدر جارج بش اور عراقی صدر صدام حسین کے درمیان نزاع پیدا ہوئی اور یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ امریکا بمباری کرکے عراق کو تباہ کردے گا تو میں نے اس مسئلے کا یہ حل پیش کیا کہ صدام حسین جنہوں نے فوجی انقلاب کے ذریعہ عراق پر سیاسی قبضہ کیا تھا، وہ صدر کا عہدہ چھوڑ دیں اور پھر امریکا کو عراق کے خلاف تشدد کا موقع نہیں ملے گا— یہ انٹر نیشنل معاملے میں نان وائلنس کے طریقے کو اپنانا تھا۔

اسی طرح جب پاکستان کے صدر ضیاء الحق کے زمانے میں کشمیر اور پنجاب میں آزادی کی تحریکیں زور وشور کے ساتھ اُٹھیں تو میں نے ۱۹۹۰ میں ہندستان ٹائمس میں ایک آرٹیکل شائع کیا جس کا عنوان تھاAcceptance of reality :

اس آرٹیکل میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب اور کشمیرکے لوگ پولیٹکل اسٹیٹس کو(status quo) کو مان لیں۔ اس مسئلے پر ٹکراؤ کرنے کے بجائے وہ یہ کریں کہ پولیٹکل اسٹیٹس کے باہر دوسرے میدانوں میں پُر امن تعمیر و ترقی کے جو مواقع ہیں اُن کو استعمال کریں جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے کیا—میری یہ تجویز گویا سیاسی نزاعات کے معاملے میں نان وائلنس کے طریقے کو اپنانا تھا۔

آپ کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ کے ا وپر برف پگھلنے سے چشمے جاری ہوتے ہیں وہ بہتے ہوئے میدان تک پہنچتے ہیں۔ آپ غور کریں تو درمیان میں بار بار چشمے کے بہاؤ کو ایک مسئلہ پیش آتا ہے وہ یہ کہ اس کے راستے میں بار بار پتھر کے تودے آتے ہیں یہ گویا چشمے کے بہاؤ کے راستے میں رکاوٹیں ہیں۔ چشمہ یہ نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو توڑنے کی کوشش کرے تاکہ وہ اپنے سفر کے لیے سیدھا راستہ پا سکے۔ اس کے برعکس چشمہ یہ کرتا ہے کہ وہ پتھر کو اپنی جگہ چھوڑ کر اس کے دائیں یا بائیں سے گذر کر آگے نکل جاتا ہے یہی نان وائلنس ہے۔

نان وائلنس کا مطلب دوسرے لفظوں میں نان کنفرنٹیشن ہے۔ اس دنیا میں نان کنفرنٹیشن اپروچ ہی واحد صحیح اپروچ ہے۔ نان کنفرنٹیشن کا مطلب پسپائی یا بزدلی نہیں ہے۔ یہ در اصل وہی تدبیر ہے جس کو buying time کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے وقت کو بے فائدہ مشغولیت سے بچا کر اس کو نتیجہ خیز کام میں لگانا۔ نان وائلنس یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت حال کے مقابلے میں منفی ردّ عمل میں نہ پڑے بلکہ وہ مثبت ردّعمل کا طریقہ اختیار کرے۔ نان وائلنس در اصل وائز پلاننگ ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں اسی وائز پلاننگ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ وائز پلاننگ نہیں تو کوئی کامیابی بھی نہیں۔

خلاصہ

نان وائلنس سادہ طور پر صرف یہ نہیں ہے کہ نزاعات کی صورت میں ہتھیار اٹھانے سے پرہیزکیا جائے۔ بلکہ نان وائلنس یا عدم تشدد ایک مکمل طرزِ حیات کا نام ہے۔ نان وائلنس کا تعلق انسان کی سوچ سے بھی ہے اور اس کے بول سے بھی اور اس کے عمل سے بھی۔ نان وائلنس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ہر موقع پر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچے، وہ معتدل انداز میں کلام کرے، وہ ٹکراؤ سے مکمل طورپر بچتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ نان وائلنس کو ایک لفظ میں پُر امن طرزِ حیات کہا جاسکتا ہے۔ اس دنیا کے لیے اس کے خالق کا قانون یہ ہے کہ پُر امن اصول پر زندگی گذارنے والا انسان ہمیشہ کامیاب ہو، اور پُر تشدد اصول پر زندگی گذارنے والا انسان صرف ناکام ہو کر رہ جائے، وہ تباہی کے سوا کوئی اور تاریخ اپنے پیچھے نہ چھوڑے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom