سچائی کی طرف
خالد بن ولید مکّہ میں پیدا ہوئے۔ پہلے وہ پیغمبر اسلام کے مخالف تھے۔ وہ پیغمبر اسلام کے خلاف کئی لڑائیوں میں شریک رہے۔ فتحِ مکّہ (۸ہجری) سے کچھ پہلے انھوں نے مدینہ آکر اسلام قبول کرلیا۔ انھوں نے اپنے اسلام کا قصہ بتاتے ہوئے کہا کہ قبولِ اسلام سے پہلے میں اسلام کے خلاف سرگرمیوں میں مشغول تھا، مگر مجھے بار بار یہ احساس ہوتا تھا کہ میں اپنے آپ کو غلط جگہ پر رکھے ہوئے ہوں (أنّی موضع فی غیر شییٔ، البدایۃ والنہایۃ، جلد ۴، صفحہ ۲۳۸)
اِس واقعے میں ایک نفسیاتی حقیقت بتائی گئی ہے۔ خدا نے ہر انسان کو فطرت پر پیدا کیا ہے۔ یعنی اُس فطرت پر جو خالق کو مطلوب ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی جو خدا کے راستے پر نہ ہو، وہ کہیں نہ کہیں اِس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ میں جس راستے پر چل رہا ہوں وہ میرا راستہ نہیں۔ میں اِس کے سوا کسی اور چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔یہ احساس، فطرت کا انتباہ ہوتا ہے۔ یہ احساس آدمی کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی روش پر نظر ثانی کرے، اور صحیح راستے کو دریافت کرکے اُس پر چلنے لگے۔ مگر انسان اِس انتباہ پر چَوکنا نہیں ہوتا، وہ بدستور اپنے غلط راستے پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مَر جاتا ہے۔
مذکورہ احساس دراصل انسان کی زندگی میں ایک نقطۂ آغاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نقطۂ آغاز ہر آدمی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی سمتِ سفر کو درست کرکے اپنی حقیقی منزل کی طرف چل پڑے۔ مگر خواہشات کا غلبہ، مفادات کی فکر، سماجی تعصّبات، خاندانی دَباؤ وغیرہ رُکاوٹ بن جاتے ہیں۔ آدمی جاگنے کے باوجود دوبارہ سوجاتا ہے۔
ہر آدمی ایک ایسے کام میں مشغول ہے جس کے بارے میں اس کا دل مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ تم غلط جگہ پر ہو۔ کچھ لوگ اِسی حالت میں جیتے ہیں اور اسی حالت میں مرجاتے ہیں، اور کچھ لوگ اس فکر ی دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو اس راستے کا مسافر بنا لیتے ہیں جس کا تقاضا ان کی فطرت کررہی تھی۔