ایک انسانی کردار
ایک انسانی کردار کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ (3:188)۔ یعنی جو لوگ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بری نہ سمجھو۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔قرآن میں ایک اور جگہ ایسے لوگوں کے لیے یہ آیا ہے:یُخَادِعُونَ اللَّہَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (2:9)۔
کچھ لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے تو وہ بے مقصد انسان ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے ذاتی انٹرسٹ کے سوا کسی اور چیز سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن بڑے بڑے الفاظ بول کر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک بامقصد انسان ہیں۔ وہ ایک مقصد کے لیے جینے والے، اور ایک مقصد کے لیے مرنے والے ہیں۔ لیکن تجربے میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اپنے ذاتی انٹرسٹ کے سوا کسی اور چیز سے کوئی مطلب نہیں۔ وہ بامقصد انسان نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف مفاد پرست انسان (man of interest) ہیں۔ ان کا سول کنسرن عملاً صرف ذاتی انٹرسٹ ہے۔ لیکن الفاظ کی سطح پر وہ بے تکان یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بامقصد انسان ہیں، اور ان کا فیصلہ ہے کہ وہ مقصد کےلیے جئیں گے، اور مقصد کےلیے مریں گے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ا ن کو ایسے کام کاکریڈٹ دیا جائے، جس کو انھوں نے انجام ہی نہیں دیا ہے۔ ایسے لوگ انسان کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں، اور خدا کو بھی۔ لیکن ان کی یہ کوشش چلنے والی نہیں۔ قول کی سطح پر خواہ کچھ بھی وہ کہیں، لیکن عمل کی سطح پر وہ کہیں نہ کہیں ایکسپوز ہوجائیں گے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائےگا، جیسا کہ وہ حقیقۃً ہیں، نہ کہ جیسا کہ وہ اپنے آپ کو لفظوں کے ذریعہ ظاہر کررہے ہیں۔