قرآن میں تدبر

قرآن کا طریق مطالعہ کیا ہو، اس کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔

قرآن انسانی زبان میں ہے۔ انسانی زبان کی صفت یہ ہے کہ اس میں کہی ہوئی کوئی بات اپنے آپ میں مکمل نہیں ہوتی۔ وہ پوری طرح اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ انسانی ذہن (reason) کو استعمال کرتے ہوئے اس پر غور کیا جائے۔ اسی لیے مذکورہ آیت میں آیات قرآنی سے نصیحت لینے کے لیے یہ شرط لگائی گئی کہ انسان، آیات کے ساتھ اپنی لُبّ (reason) کو استعمال کرتے ہوئے اس پر غور و فکر کرے۔ گویا کہ لُبّ کو استعمال کیے بغیر آیات سے تذکیر کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:1)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ایک شخص قرآن کو پڑھے تو اس کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ زندگی تو خود قرآن کے بیان کے مطابق، کبد (hardship) سے بھری ہوئی ہے۔ ہرانسان روزانہ کسی نہ کسی کبد کا تجربہ کر رہا ہوگا۔ ایسی حالت میں کوئی شخص دل کے سچے احساس کے ساتھ کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے۔ گویا کہ انسان کو یہ کرنا پڑتا ہےکہ مشقتوں میں زندگی گزارتے ہوئے اللہ کو سچے دل سے قابل تعریف مانے۔ یعنی انسان کو خود اللہ کی تخلیق کے مطابق، مسلسل طور پر ایک تضاد کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں گہرے معنوں میں حمد کی اسپرٹ انسان کے اندر کیسے پیدا ہو۔

اس سوال کا جواب خود آیت میں موجود نہیں ہے۔ آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ اللہ اعلیٰ ترین معنوں میں ایک قابل تعریف ہستی ہے۔ لیکن اس آیت میں جو سوال چھپا ہوا ہے، اس کا جواب خود آیت میں موجود نہیں۔ اسی پوشیدہ سوال کا جواب معلوم کرنے کا نام تدبر ہے، اور تدبر کا یہ عمل لُبّ کے استعمال سے کیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے تدبر کے ساتھ جب آدمی قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے نتیجہ کے طور پر آدمی کو وہ چیز حاصل ہوتی ہے جس کو قرآن میں تذکیر یا نصیحت کہا گیا ہے۔

انسان جب اپنی لُبّ (reason) کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کی اس آیت پر غور کرتا ہے تو اس پر یہ بات کھلتی ہے کہ انسان کی زندگی میں کبد (hardship) خود انسان کے خیر کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ خالق نے انسان کو احسن تقویم (التین 4:) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مگر یہ احسن تقویم بالقوۃ (potential) کے طور پر ہے، نہ کہ بالفعل (actual) کے طو رپر۔ انسان جب مسائل سے دوچار ہوتا ہے، تو اس کا ذہن ٹرگر(trigger)ہوتا ہے۔ اس کے ذہن کے بند دروازے کھلتے ہیں۔ اس کےاندر چھپی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی زندگی میں کبد (trouble) کا ہونا خود بھی حمد کا ایک پہلو ہے۔ وہ اللہ کی صفت رحمت کی تشریح ہے۔

کلام کے تقاضے کے تحت ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر کلام میں کچھ باتیں مذکور ہوتی ہیں، اور کچھ غیر مذکور۔ ایسا ہمیشہ ہوتاہے، اس میں کوئی استثنا نہیں۔ قرآن میں تدبر یہ ہے کہ قرآن کی آیت میں جس بات کا ذکر ہوا ہے، اس پر غور کرکے غیر مذکور بات کو دریافت کرنا، اور مذکور و غیرمذکور دونوں کو ملا کر آیت کے گہرے معنی تک پہنچنا۔ اسی کا نام تدبر ہے۔ یہ تدبر کوئی پر اسرار چیز نہیں۔ ایسا کلام کی عام صفت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس تدبر کی ضرورت انسانی کلام میں بھی ہوتی ہے، اور خدائی کلام میں بھی۔ ا سی لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی کتاب کو اسی زبان میں بھیجا جاتا ہے، جو مخاطب کے لیے قابل فہم (understandable) ہو۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (14:4)۔ اسی طرح ایک آیت یہ ہے: قُرْآنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِی عِوَجٍ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ (39:28)۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom