فطرت کا نظام
فطرت کا ایک قانون قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (2:155-57)۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔
ان آیات پر غور کرنے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خدا انسان کو پیدا کرکے اس سے غیر متعلق نہیں ہوگیا۔ چوں کہ یہ صرف خالق ہے، جس کو تمام حقیقتوں کا علم ہے، اس لیے یہ ضروری تھا کہ خالق اپنے علم کے مطابق، انسان کی رہنمائی بھی کرتا رہے۔ لیکن چوں کہ انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے، اس لیے یہ رہنمائی جزئی طور پر کتاب اللہ کی صورت میں دی گئی ہے، لیکن زیادہ وسیع پہلوؤں کے اعتبار سے وہ حالات کی زبان میں انسان کو فراہم کی جاتی ہے۔
اسی فطری رہنمائی کو یہاں مصیبت کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں جن حالات میں زندگی گزارنا ہے، اس میں بار بار اس کو وہ چیز پیش آتی ہے، جس کو یہاں مصیبت (suffering) کہا گیا ہے۔ یہ مصیبت انسان کے لیےکوئی برائی (evil) نہیں ہوتی۔ نفسیات کی زبان میں وہ حالات کا دباؤ (compulsion) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ دباؤ کے یہ حالات انسان کوعمل کا رخ (direction)دیتے ہیں۔ وہ انسان کو اپنے عمل کی ری پلاننگ (replanning) کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ انسان کی سوچ کو نیا زاویہ عطا کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے عمل کا منصوبہ فطرت کے مطابق کرے۔ وہ فطرت کے نظام کو اختیار کرکے اپنے آپ کو کامیاب بنائے۔
حالات کے تحت جو دباؤ (pressure) پیش آتا ہے،وہ ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ البتہ دباؤ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، کچل دینے والا دباؤ (crippling pressure)۔ یعنی وہ دباؤ جس کے بعد آدمی کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ دوسرا دباؤ وہ ہے، جو اس سے کم ہو۔ یعنی نان کریپلینگ پریشر (non-crippling pressure)۔ ایسا دباؤ آدمی کی زندگی میں کچھ مسئلہ تو پیدا کرتا ہے، لیکن اس سے ایسا نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد آدمی کام کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہ دوسری قسم کا دباؤ ہمیشہ ایک مثبت دباؤ ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مثبت دباؤ کو پہچانے، اور اس سے پیدا ہونے والے مواقع کو استعمال کرے۔ اس طرح وہ زیادہ کام کرنے کے قابل بن جائے گا۔
مذکورہ آیت میں حالات کو اللہ کی طرف منسوب کرنا، محض عقیدہ کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ خالق کے تخلیقی منصوبہ کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس سے بے تعلق نہیں ہوگیا ہے، بلکہ وہ حالات پیداکرکے انسان کو برابر رہنمائی دیتا رہتا ہے۔ یہ انسان کا کام ہے کہ وہ حالات کو پڑھے، اور خالق کی خاموش زبان کو سن کر تخلیق کے منصوبہ کو سمجھے۔
اس سیاق (context) میں صبر کا مطلب ہے، خالق کے مقرر کردہ نقشے کو پوری رضامندی کے ساتھ قبول کرنا، اور صلوات اور رحمت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خالق کے اس منصوبہ پر راضی ہوں، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں، وہی وہ لوگ ہیں، جو اس دنیا میں کامیابی حاصل کریں گے۔
اس معاملے کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ قدیم مدینہ (یثرب) میں دو بڑے قبیلے تھے، اوس اور خزرج۔ یہ دونوں قبیلے، قبائلی کلچر کی بنا پر بار بار آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ اس باہمی لڑائی کے نتیجہ میں ان کی ترقی رکی ہوئی تھی۔ رسول اللہ کی ہجرت سے کچھ پہلے دونوں قبیلوں کے درمیان باہمی لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی کو تاریخ میں یوم بعاث کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں: کان یوم بعاث، یوما قدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقدم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وقد افترق ملؤہم، وقتلت سرواتہم وجرحوا، فقدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم فی دخولہم فی الإسلا م (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3777)۔ یعنی بعاث کے واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے پیدا کیا تھا،چنانچہ جب آپ مدینہ میں آئے تو یہ قبائل آپسی اختلاف کا شکار تھے، اور ان کے سردار کچھ قتل کئے جا چکے تھے، اورکچھ زخمی ہوگئےتھے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ سے پہلے وقوع پذیر کیا تاکہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔
اس روایت پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ جو صورت قدیم مدینہ (یثرب) میں پیش آئی، وہ کیا تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ہجرت رسول سے پانچ سال پہلے مدینہ کے دو قبائل، اوس اور خزرج میں باہمی جنگ ہوئی، اس میں ان کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ اس حادثہ کے بعد اہل یثرب کے درمیان یہ ذہن پیدا ہوا کہ ہمارا موجودہ قبائلی کلچر ہمارے لیے مصیبت بن گیا ہے۔اس وقت ان کو نظر آیا کہ اسلام ان کے لیے بہتر انتخاب (better option) ہے۔ واضح ہو کہ ہجرت سے پہلے اسلام یثرب میں پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ جب رسول اللہ مدینہ میں داخل ہوئے تو بہت جلد آپ مدینہ والوں کے لیے قابل قبول (acceptable) بن گئے — یہ ایک مثال ہے کہ تاریخ میں کس طرح حالات کا دباؤ لوگوں کے لیے اس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں، اور جنگ کے بجائے امن کا طریقہ اختیار کریں۔
“مصیبت‘‘ کا یہ فطری فارمولا افراد کے لیے بھی ہے، اور گروہوں کے لیے بھی۔ تاریخ میں بڑی تعداد میں ایسے افراد بھی ملیں گے، اور ایسے گروہ بھی جن پر مصیبت یا دباؤ کے یہ حالات پیش آئے۔ اس کے نتیجہ میں انھوں نے مسئلے پر دوبارہ غور کیا، اور نئے بہتر فیصلے تک پہنچے۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دباؤ (pressure) کی صورت پیش نہ آتی تو افراد اور گروہ دونوں کے لیے کوئی نیا فیصلہ لینا ممکن نہیں ہوتا۔