ایک انتباہ
موجودہ زمانے میں مختلف مقامات کے مسلمان جہاد کے نام پر مسلح سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں اگر چہ عملاً ایک محدود طبقہ ہی شریک ہے مگر دنیا کے تقریباً تمام مسلمان بالواسطہ انداز میں اس کے ساتھ شریک ہیں۔ ان میں خود مسلم حکومتیں بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی اس خودساختہ جہاد کواخلاقی سپورٹ دے رہا ہے، کوئی مالی سپورٹ، کوئی قولی سپورٹ اور کوئی ڈپلومیٹک سپورٹ۔
کچھ لوگ وہ ہیں جو بظاہر اس قسم کی سپورٹ نہیں دیتے مگر وہ اس کے بارے میں خاموش رہ کر اس کی عملی تصدیق کررہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بلا مبالغہ درست ہے کہ اسلام کے نام پر اس غیر اسلامی جہاد میں تقریباً پوری ملت شریک ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ اس میں براہِ راست طورپر شریک ہیں اور کچھ لوگ بالواسطہ طور پر شریک۔ مگر شرعی اعتبار سے دونوں یکساں طورپر اس نا محمود فعل کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔
اب اس معاملے کی دو ممکن صورتیں ہیں۔ یا تو یہ جو کچھ آج کی دنیا میں ہورہا ہے وہ واقعۃً اسلامی جہاد ہے، یا یہ کہ وہ اسلامی جہاد نہیں ہے اور غلط طورپر اس کو اسلامی جہاد کا نام دیا جارہا ہے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں امت مسلمہ شدید طورپر گنہگار قرار پاتی ہے۔ وہ اس بات کی مجرم بن رہی ہے کہ از روئے شریعت جو کچھ اسے کرنا چاہیے تھا وہ اس نے نہیں کیا۔
اب اگر مسلمانوں کی یہ لڑائیاں واقعۃً جہاد کی حیثیت رکھتی ہوں تو مسئلہ یہ ہے کہ یہ جہاد عملاً شدید طورپر ناکام ہور ہا ہے۔ جہاد کا ہر محاذ مسلمانوں کی یک طرفہ ہلاکت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ایسی حالت میں بقیہ مسلمانوں پر فرض کے درجہ میں ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ جہاد کے ان میدانوں میں کود پڑیں۔ وہ تربص کا طریقہ چھوڑ کر عملی شرکت کا طریقہ اختیار کریں۔ موجودہ حالت میں اخلاقی یا مالی سپورٹ دینا ان کے لیے ہرگز کافی نہیں۔ جہاد میں عملی شرکت سے کم درجہ کی کوئی چیز ان سے قبول نہیں کی جائے گی۔
اور اگر یہ لڑائیاں اسلامی جہاد کی حیثیت نہ رکھتی ہوں تب بھی بقیہ مسلمانوں پر ایک اور فریضہ لازمی طورپر عائد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ صاف طورپر اس کی مذمت کریں۔ وہ کھلے طورپر یہ اعلان کریں کہ یہ اسلامی جہاد نہیں ہے اور یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے بری ہیں۔ بقیہ مسلمان اگر اس قسم کا اعلان برأت نہ کریں تو یہ دوسرا گروہ بھی شریعت کی نظر میں اُسی طرح مجرم ہے جس طرح پہلا گروہ۔
جیسا کہ معلوم ہے، جہاد حکماً ہر شخص پر فرض نہیں ہے بلکہ وہ فرض علی الکفایۃ ہے۔ یعنی جس مقصد کے لیے جہاد مطلوب ہے، اگر امت کے کچھ لوگ جہاد کرکے اس مقصد کو حاصل کرلیں تو بقیہ افرادجو اس میں شریک نہیں ہوسکے تھے وہ اللہ کے نزدیک بر ی الذمہ قرار پائیں گے۔ کیوں کہ فرض علی الکفایہ میں نشانہ کی تکمیل اصل مقصود ہوتا ہے نہ کہ ہر شخص کا فرداً فرداً اس میں شریک ہونا۔
اب اس شرعی اصول کو موجودہ صورت حال پر چسپاں کیجیے۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی طرف سے جاری کردہ جہاد کو جہاد کہنا کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک سنگین ذمہ داری کا معاملہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ تمام جہاد عملاً تباہی پر منتج ہورہے ہیں۔ ہر جگہ مسلم مجاہدین سخت قسم کی تباہی اور ناکامی سے دوچار ہورہے ہیں۔
ایسی حالت میں صرف یہ کافی نہیں کہ اُس کو جہاد بتا یا جائے اور کچھ مالی یا اخلاقی سپورٹ دے دی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ان مسلح سرگرمیوں کو جہاد بتاتے ہیں، موجودہ حالت میں اُن پر فرض کے درجہ میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے مال اور اولاد کے ساتھ اس جہادی عمل میں براہِ راست شریک ہوجائیں، خواہ اس کے نتیجہ میں وہ خود بھی ہلاک ہوں اور اُن کے مال اور اولاد بھی۔
حدیث میں آیا ہے کہ سات چیزیں موبقات (مہلکات) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان میں سے ایک ’الفرار من الزّحف یا التّولی من الزّحف‘ ہے (صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، النسائی، الترمذی، احمد) یعنی میدان ِ جنگ سے بھاگنا۔
واضح ہو کہ’ فرار من الزحف‘ صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی جنگ کے میدان میں موجود ہو اور پھر وہاں سے بھاگ کھڑا ہو۔ یہ حالت بھی فرار من الزحف کے حکم میں داخل ہے کہ معرکۂ جہاد ناکام ہورہا ہو اور دوسرے لوگ باہر رہ کر صرف اُس کے تماشائی بنے رہیں۔ ایسی حالت میں ان لوگوں کو عملاً جنگ میں شریک ہونا پڑے گا ورنہ وہ فرار من الزحف کا مصداق قرار پائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ اگر وہ ان معرکوں کو جہاد نہیں سمجھتے تو وہ کھلے طورپر اُس کی مذمت کریں۔ اور تباہی کے اس عمل کو بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس خونی کھیل میں اُن کے لیے نہ چُپ رہنا جائز ہے اور نہ غیر جانب دار بن جانا۔
دوسری صور ت یہ ہے کہ یہ بقیہ مسلمان اس خونی عمل کو اسلامی جہاد سمجھتے ہوں۔ ایسی حالت میں اُن کے عقیدہ کی بنا پر اُن کے اوپر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ان مجاہدین کے ساتھ عملاً شریک جنگ ہوجائیں۔ اس معاملے کو جہاد بتانا اور مجاہدین کی مسلسل تباہی کے باوجود اُس میں عملاً شریک نہ ہونا بلاشبہہ سخت گناہ ہے اور وہ حدیث کے الفاظ میں، ’موبقات‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ تیسری صورت جس کو مسلمانوں کے عوام اور خواص اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ سرے سے کوئی صورت ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی موجودہ روش کے بارے میں سخت اندیشہ ہے کہ وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق ٹھہریں: یحبّون أن یحمدوا بما لم یفعلوا، فلا تحسبنّہم بمفازۃ من العذاب(آل عمران: 188) یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جو کام اُنھوں نے نہیں کیا اُس پر اُن کی تعریف ہو۔ اُن کوعذاب سے بری نہ سمجھو۔