یہ ’مُضاہاۃ‘ ہے

قرآن کی سورہ نمبر 9 میں اہلِ کتاب کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے: اور یہود نے کہا کہ عُزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ اُن کے اپنے منھ کی باتیں ہیں۔ وہ ان لوگوں کی بات کی نقل کررہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔ اللہ اُن کو ہلاک کرے، وہ کدھر جارہے ہیں (التوبہ: 30)

اس آیت میں مضاہاۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مضاہاۃ کے معنی مشابہت یا تقلید (imitation) کے ہیں۔ یہ پچھلی اُمتوں کا طریقہ رہا ہے کہ جب اُن کے اندر خدا کا عقیدہ طاقتور عقیدہ کی حیثیت سے باقی نہ رہا تو اُنھوں نے اپنے زمانے کے مروّجہ خیالات و نظریات پر اپنے دین کو ڈھالنا شروع کردیا۔ اُنھوں نے خدا کے دین کو وقت کے غالب افکار کے رنگ میں رنگ دیا۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی فرمائی کہ میری امت بعد کے زمانے میں وہی سب کرے گی جو یہود و نصاریٰ نے اس سے پہلے کیا۔ راقم الحروف کا احساس ہے کہ جس مضاہاۃ میں یہود و نصاریٰ مبتلا ہوئے تھے، مضاہاۃ کی اسی برائی میں موجودہ زمانے کے مسلمان بھی پوری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔

اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اپنے مسائل و مصائب کا ذمہ دار دوسری قوموں کو قرار دیتے ہیں۔ ہر مسلم قلم اور ہرمسلم زبان یہ بتانے میں مصروف ہے کہ غیر مسلم قومیں اُن کی دشمن ہوگئی ہیں اور موجودہ مسلمان ہر جگہ اُن کی سازش اور ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔

قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس میں برعکس طورپر یہ بات ملتی ہے کہ ہر قوم کا زوال اُس کی اپنی داخلی کمزوری کی بنا پر ہوتا ہے۔ مثلاً فرمایا: إن اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسہم (الرعد: 11)

موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ غیر مسلم قوموں نے اُن کی حکومت چھین لی۔ اُن کے غلبہ کو ختم کردیا۔ حالاں کہ قرآن واضح طورپر اس سوچ کی تردید کرتا ہے۔ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کو ماضی میں جو سیاسی غلبہ ملا ہوا تھا وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی ایک نعمت تھی۔ یہ نعمت خدائی قانون کے تحت اُس وقت اُن سے چھن گئی جب کہ وہ داخلی زوال کا شکار ہوگیے۔ یہ تاریخی قانون قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے:

یہ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ اس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتا ہے اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اس کو نہ بدل دیں جو ان کے نفسوں میں ہے۔ اور بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے‘‘ (الأنفال: 53)

فطرت کا یہ قانون قرآن میں ایک اور جگہ اس طرح بتایا گیا ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم (الشوریٰ: 30) یعنی جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے تو وہ تمھارے ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں کے سبب سے ہوتی ہے۔

مذکورہ قرآنی آیتوں کی روشنی میں اس معاملے میں جو اُصول بنتا ہے وہ یہ اُصول ہے کہ خود اپنے آپ کو الزام دو (blame thyself) مگر موجودہ مسلمانوں نے برعکس طورپر یہ اصول بنا لیا ہے کہ دوسروں کو الزام دو(blame others)۔

قرآن کا مذکورہ اُصول ظہور اسلام کے بعد ہزار سال تک جاری رہا۔ مسلم علماء ہمیشہ یہی کرتے رہے کہ مسلمانوں کے اوپر جب بھی کوئی قومی مصیبت پڑی تو اُس کا ذمہ دار اُنھوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی اپنی داخلی کمزوری کو قرار دیا۔ مثال کے طورپر تیرھویں صدی میں تاتاریوں نے عباسی سلطنت پر حملہ کرکے سمر قند سے لے کر حلب تک مسلم آبادیوں کو تباہ کردیا۔

یہ واقعہ مشہور مؤرخ ابن اثیر کے زمانے میں ہوا۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب ’الکامل فی التاریخ‘ کی آخری جلد میں لکھا ہے کہ تاتاریوں کے حملہ کا سبب یہ تھا کہ خوارزم شاہ نے تاتاریوں کے کچھ تاجروں کو قتل کردیا اور اُن کے اموال کو چھین لیا۔ اس کے نتیجے میں اُن کا سردار چنگیز خاں غضبناک ہوگیا اور اُس نے مسلم سلطنت پر حملہ کردیا۔(صفحہ 362)

اسی طرح اٹھارویں صدی کے وسط میں دہلی میں ایک قیامت خیز واقعہ پیش آیا۔ ایران کے حکمراں نادر شاہ نے 17 39 میں ہندستان پر حملہ کیا اور بڑھتا ہوا دہلی پہنچ گیا۔ یہاں اُس وقت مغلوں کی سلطنت قائم تھی۔ نادر شاہ کی فوج جب دہلی میں داخل ہوئی تو اُس کے ایک فوجی کو علیحدہ پاکر کچھ مسلمانوں نے اُس کو قتل کردیا۔

اس کے نتیجے میں نادر شاہ سخت غضبناک ہوگیا اور اُس نے دہلی میں قتل عام کا حکم دے دیا۔ اس واقعہ کے ایک معاصر صوفی شاعر نے اس پر اپنا تبصرہ ان الفاظ میں کیا تھا کہ یہ خود ہماری بد اعمالی تھی جس نے ظالم نادر کی صورت اختیار کرلی:

شامتِ اعمالِ ما صورتِ نادر گرفت

اسلام کے آغاز سے لے کر اٹھارویں صدی تک مسلمانوں میں یہی ذہن جاری رہا۔ اس کے بعد ساری دنیا میں ایک نیا فکری انقلاب آیا۔ اس فکری انقلاب سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے اہلِ قلم اور اہلِ زبان شعوری یا غیر شعوری طورپر بدل گیے۔ وہ احتساب خویش کے بجائے احتسابِ غیر کی بولی بولنے لگے۔

یہ دور نمایاں طورپر کارل مارکس سے شروع ہوا۔ کارل مارکس کے تجزیہ کے مطابق، ساری دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی تھی۔ تھوڑے سے لوگ استحصالی (exploiter) بن گیے اور زیادہ بڑی تعداد اُن کے استحصال کا شکار ہونے لگی۔ چنانچہ مارکس نے یہ نعرہ دیا کہ اے استحصال کا شکار ہونے والو، اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔

ماضی میں مذہب کے زیرِ اثر جوبھی تحریک اُ ٹھی وہ مبنی بر ذمہ داری (duty-based) تحریک ہوتی تھی۔ مگر اس کے بعد جو تحریکیں اٹھیں وہ سب کی سب مبنی بر حقوق (right-based) تحریکیں تھیں۔ اشتراکی تحریک، جمہوری تحریک، قومی آزادی کی تحریک، سیلف ڈٹرمنیشن کی تحریک، آزادیٔ نسواں کی تحریک، ہیومن رائٹس کی تحریک، ٹریڈ یونین کی تحریک، غرض مارکس کے بعد دنیا میں جتنی بھی تحریکیں اُٹھیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی اعتبار سے حقوق لینے کے نعرہ پر اُٹھیں، نہ کہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے عنوان پر۔

ان تحریکوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کا تقریباً ہر سماج حقوق شناس (right-conscious) سماج بن گیا۔ فرض شناس (duty conscious) سماج کا تصور عملاً تقریباً معدوم ہوگیا۔ اب اگر کسی سماج میں کچھ حقوق شناسی پائی جاتی ہے تو وہ فطرت کے زور پر ہے، نہ کہ فکری تحریکوں میں سے کسی تحریک کے اثر کے تحت۔

سوچنے کا یہ ڈھانچہ جو بنا وہ ساری دنیا میں اس طرح پھیل گیا کہ مسلم اذہان بھی اُسی انداز میں سوچنے لگے۔ مسلم اہلِ قلم اور اہلِ زبان بھی وہی بولی بولنے لگے جو ساری دنیا میں عملاً معیاری بولی بن چکی تھی۔ یعنی اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا۔ اپنے مسائل کے لیے دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان کھڑا کرنا۔ اسی مضاہاتی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ آج مسلمان ساری دنیا میں ایک قسم کے احتجاجی گروہ (protestant group) بن کر رہ گئے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom