گیارہ ستمبر کے بعد
11ستمبر 2001ء کو امریکا میں غیر متوقع نوعیت کا ایک بھیانک واقعہ ہوا۔ ایک خود کُش ٹیم نے امریکا کے چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرلیا۔ اور اُن کو اُڑاتے ہوئے لے جاکر نیو یارک اور واشنگٹن کے اسکائی اسکریپرس (بلند بالا عمارتوں ) سے ٹکرا دیا۔ اس کے نتیجہ میں ہولناک تباہی برپا ہوئی۔ تقریباً سات ہزار آدمی اچانک ہلاک ہوگیے، وغیرہ۔
یہ گویا امریکا پر ایک فضائی حملہ تھا۔ اس کے بعد امریکا نے انتقامی کارروائی کے طورپر 8؍ اکتوبر 2001 کو افغانستان کے اوپر بم باری شروع کردی۔ کیوں کہ امریکا کے نزدیک 11 ستمبر کے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ اُسامہ بن لادن ہے جس کو افغانی طالبان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ اور جو افغانستان میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنا کر امریکا کے خلاف پُر تشدد کارروائیاں چلا رہا ہے۔
8 اکتوبر 2001 کو امریکا نے افغانستان کے خلاف جو کارروائی کی وہ انٹرنیشنل نارم کے مطابق درست تھی۔ کیوں کہ وہ ڈیفنس کے طورپر کی گئی۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں امریکا کو برا کہا جانے لگا۔ امریکا کے خلاف لوگوں کی نفرت بہت زیادہ بڑھ گئی۔
اب ایک اور متوازی واقعہ لیجیے۔ منگول سردار چنگیز خاں (وفات: 1227ء) نے اسی افغانستان پر 1218ء میں اپنی فوجیں داخل کردیں اور بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی طرح چنگیز خاں کے سفیر کو خوارزم شاہ نے قتل کردیا تھا۔ اس کا انتقام لینے کے لیے اُس نے سمرقند سے لے کر حلب تک ایک بہت بڑے علاقے کو تباہ کرڈالا۔
مگر عجیب بات ہے کہ مذکورہ واقعہ پر ساری دنیا میں امریکا کے خلاف نفرت پھیل گئی، جب کہ اسی قسم کا واقعہ تقریباً 800 سال پہلے منگول حکمراں نے کیا تھا۔ مگر اُس کے خلاف عالمی نفرت نہ پہلے تھی اور نہ آج پائی جاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ 800 سال پہلے کی دنیا میں جدید میڈیا کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس لیے وہ واقعہ صرف مقامی لوگوں کے علم میں آسکا۔ وسیع تر دنیا کو اُس کی کوئی خبر ہی نہ ہوسکی۔ اور جس واقعہ کی لوگوں کو خبر ہی نہ ہو اُس سے وہ نفرت کیوں کر کریں گے۔
منگول حکمراں کا واحد ایڈوانٹیج یہ تھا کہ اُس کو میڈیا سے پہلے کا دور ملا۔ اس کے مقابلہ میں امریکی حکمرانوں کا ڈس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے دور میں ہیں۔ اس بنا پر اُن کی ہر متشددانہ کارروائی فی الفور تمام دنیا کے علم میں آجاتی ہے۔ اس فرق کے پیچھے صرف زمانی عامل (age factor) ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
مزید یہ کہ ماڈرن میڈیا کا ایک خاص ذوق ہے اور اس ذوق کی بھاری قیمت امریکا کو ادا کرنی پڑی ہے۔ وہ یہ کہ یہ میڈیا سلیکٹیورپورٹنگ کی ایک ایسی انڈسٹری ہے جس کو گڈ نیوز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ہمیشہ بیڈ نیوز کو نمایاں کرتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں ہزاروں قسم کی گڈ نیوزہیں۔ امریکا نے مسلمانوں سمیت ساری دنیا کو بہت سی مفید چیزیں دی ہیں۔ مثلاً موجودہ زمانے میں سائنٹفک ریسرچ کا کام سب سے زیادہ امریکا میں ہوا ہے جس کا فائدہ مختلف شکلوں میں ساری دنیا کو پہنچا ہے۔ امریکا میں اس قسم کے بہت پلس پائنٹ ہیں مگر ان چیزوں کو زیادہ تر صرف اسکالر قسم کے لوگ جانتے ہیں۔ عام انسان کے علم میں امریکا کی وہی چیزیں آتی ہیں جو ٹی وی کے ذریعہ نمایاں کی جاتی ہیں اور یہ زیادہ تر وہی ہے جس کو ہم نے بیڈ نیوز کا نام دیا ہے۔
11 ستمبر 2001 کو امریکا کو جو سخت تجربہ ہوا اس کے نتیجہ میں امریکا کی اکثریت غصہ اور انتقام سے بھر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 8 اکتوبر 2001 سے افغانستان کے اوپر بم باری شروع کردی گئی جہاں اسامہ بن لادن چھپا ہوا تھا جس نے امریکا کی انٹیلی جنس کے مطابق، 11 ستمبر کے واقعہ کا ماسٹرمائنڈتھا۔
مگر میں نے 8 اکتوبر کے فوراً بعد یہ کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ بم باری اس مسئلے کا جواب نہیں۔امریکی مدبرین اس مسئلہ کو سادہ طورپر صرف ٹررزم کا ایک مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر ان کا خیال ہے کہ وہ بمبارڈمنٹ کے ذریعہ اس کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ مگر یہ اصل معاملے کا صرف ایک کم تراندازہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ ’’اسلامک ٹررزم‘‘ ایک ایسے ٹررزم کا نام ہے جس کو ایک مقدس آئڈیالوجی کے ذریعہ درست ثابت کیا گیا ہو۔ جو مسلمان سوسائیڈل بم دھماکہ کرکے امریکا کو چیلنج کررہے ہیں وہ دیوانے لوگ نہیں ہیں۔ ان کے اس غیر معمولی اقدام کا سبب یہ ہے کہ ان کے عقیدہ نے انھیں یہ بتایا ہے کہ جہاد کرکے مرجاؤ تو تم سیدھے جنت میں جاؤگے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس نے ان کو اتنا زیادہ جری بنا دیا ہے کہ وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ تم کو زندگی سے جتنا پیار ہے اُس سے زیادہ ہم کو موت سے پیار ہے۔
یہ آئڈیالوجی بلا شبہہ صد فیصد غلط ہے۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مگر اس کے پیچھے سوسال سے زیادہ مدت کی لمبی تاریخ ہے۔ سید جمال الدین افغانی، حسن البنا، سید قطب، محمد اقبال، آیۃ اللہ خمینی، سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے بہت سے لوگوں نے اسلام کا پولیٹکل انٹرپریٹیشن کرکے انھیں باور کرایا ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا عمل جہاد ہے، جہاد کرو اور سیدھے جنت میں پہنچ جاؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام کی غلط تعبیر پر قائم شدہ اس پولیٹکل آئڈیالوجی کو ڈسٹرائے کیا جائے۔ یہ گن ورسز گن کا معاملہ نہیں بلکہ گن ورسز آئڈیالوجی کا معاملہ ہے اور اس بے بنیاد آئڈیالوجی کو ڈسٹرائے کرکے ہی ہم اسلام کے نام پر کیے جانے والے ٹررزم کو ختم کرسکتے ہیں۔
کوئی انسان پیدائشی طورپر ٹررسٹ نہیں ہوتا۔ ہر انسان پیدائشی طورپر امن پسند ہی ہوتا ہے۔ کوئی آدمی ٹررسٹ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کے مائنڈ میں کسی غلط نظریہ کے ذریعہ یہ بٹھا دیا جائے کہ ٹررزم میں اس کے لیے نجات ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب دلائل کے زور سے اس سوچ کو غلط ثابت کردیا جائے تو آدمی اپنی فطرت پر آجاتا ہے۔ اور فطرت کی سطح پر ہر آدمی امن پسند ہی ہے۔ میں نے ذاتی طورپر ہزاروں لوگوں پر اس کا تجربہ کیا ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ذاتی طورپر ہزاروں لوگوں کو مسٹر ٹررسٹ کے بجائے مسٹر نیچر بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
اسلام کے نام پر موجودہ زمانے میں جو ملیٹنسی چلائی جارہی ہے، اُس کا تعلق حقیقی اسلام سے نہیں۔ یہ تمام تر اُس جدید لٹریچر کا نتیجہ ہے جس میں اسلام کا پولیٹسائزڈ ورژن (politisized version) پیش کیا گیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس کو دوبارہ ڈی پولیٹسائزڈ (de-politisize) کیا جائے۔ اسلام کو اُس کی اوریجنل صورت میں پیش کرنا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔