یقین واعتماد
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام مکہ میں پیداہوئے۔ وہاں ان کی سخت مخالفت ہوئی۔ اس کے بعد وہ ۶۲۲ء میں مکہ سے مدینہ چلے گئے۔ یہ ایک بے حد خطرناک سفر تھا۔ دو ہفتہ کے اس سفر کے دوران ایک بار وہ ایک غار(ثور) میں چھپے ہوئے تھے۔ آپ کے مخالفین جو آپ کی تلاش میں نکلے تھے، وہ تلوار لیے ہوئے غار کے منھ تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ کے واحد ساتھی ابوبکر صدیق تھے۔انہوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ اے خدا کے رسول، وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے۔ اس کے بعد قرآن کا بیان یہ ہے۔ اذیقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا:
جب پیغمبر اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے(التوبہ:۴۰ )
موجودہ زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی ایسی صورت حال میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو بے یارومدد گار سمجھنے لگتا ہے۔ اس حالت میں اس کو ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جس پر وہ یقین کر سکے۔ جو اس کے عجز کی تلافی بن جائے۔
خدا کی ذات پر یقین آدمی کو یہی اتھا ہ سہارادیتا ہے۔ خدا تمام طاقتوں کامالک ہے۔ اس لیے خدا پر یقین آدمی کو ایک ایسی ہمت دیتا ہے جو کبھی نہ ٹوٹے۔ خدا کا عقیدہ کسی آدمی کے لیے حوصلہ کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ جس آدمی کو خدا کی ذات پر پورایقین ہوجائے وہ کسی بھی حال میں بے حوصلہ نہیں ہو گا۔ وہ کسی بھی حال میں اس احساس سے دو چارنہیں ہوگا کہ اس کا راستہ بند ہے۔ وہ ہر حال میں آگے بڑھتا چلاجائے گا۔ زندگی کی آخری منزل تک پہنچنے میں کوئی بھی چیز اس کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی۔
خدا کایہ عقیدہ انسان کی اپنی صلاحیتوں کو جگا دیتا ہے۔ وہ انسان کے اندر ایک نیا عزم پیدا کر دیتا ہے۔ وہ اس کی داخلی قوتوں کو متحرک کر کے ایک بے حوصلہ انسان کو باحوصلہ انسان بنا دیتا ہے۔